ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق13%

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 299

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 299 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 84751 / ڈاؤنلوڈ: 5192
سائز سائز سائز
ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

مرض كى بھينٹ چڑ ھ جائيں _ ان كى پمردہ صورت اور حسرت بھرى نگاہوں پر نظر ڈالئے اور بددلى چھوڑديجئے كہيں ايسا نہ ہو كو بيجا شك و شبہ ميں مبتلا ہوكر آپ خودكشى كا ارتكاب كرڈاليں يا اپنى بے گناہ بيوى كوقتل كرڈاليں _ ايك طرف قتل جيسے عظيم گناہ كے مرتكب ہوں كہ جس كى سزا خدانے دوزخ ركھى ہے اور دوسرى طرف اپنى نزدگى تباہ كرڈاليں يہ بات ذہن نشين رہے كہ خون زيادہ دن چھپا نہيں رہتا ايك نہ ايك دن جرم ظاہر ہوجاتا ہے اور مجرم كيفر كردار كو پہونچتا ہے پھانسى كے تختہ پر لٹكايا جاتا ہے ، يا سارى عمر قيد ميں بسر كرنى پڑتى ہے _

مجرمين كے اعداد و شمار پر نظر ڈالئے جن ميں كچھ كى خبريں تو اخبار ورسائل ميں بھى شائع ہوتى رہتى ہيں تا كہ اس قسم كے جرم كے نتائج آپ پرروشن ہوں _

اس قسم كے شكى مردوں كى بيويوں پر بھى بہت بھارى ذمہ دارى عائد ہوتى ہے ان كو چاہئے كہ خود اپنى اور اپنے شوہر اور بچوں كى بھلائي كى خاطر ايثار و قربانى سے كام ليں اور اچھى طرح سے شوہر دارى كر يں _ ايسے ہى دشوار اور مشكل موقعوں پر خواتين كى لياقت ، سمجھداري، دانشمندى اور تدبر كا امتحان ہوتا ہے _

خواہر عزيز سب سے پہلے تو اس بات كو سمجھ ليجئے كہ آپ كا شوہر ايك خطرناك نفسياتى بيمارى ميں مبتلا ہے _ بلا سبب تو اپنى آپ كى زندگى تلخ نہيں كرے گا اور اصل وہ بيمار ہے _ جى ہاں شك كا مرض بھى خطرناك بيماريوں ميں شمار كيا جاتا ہے _ لہذا بيمار كا علاج ہونا چاہئے تا كہ اس كا مرض دور ہوجائے _ حتى الامكان اس سے والہا نہ نحبت كا اظہار كيجئے _ اس قدر اپنى محبت و لگاؤ كا اظہار كيجئے كہ اس كو يقين جائے كہ آپ كے دل ميں اس كے علاوہ اور كسى كى جگہ نہيں ہوسكتى _ اگر اعتراضات كرے بہانہ بازياں كرے تو صبر كيجئے _ اس كے غصہ اور بدمزاجى كے مقابلے ميں بردبارى سے كام ليجئے _ اس كى سختياں كو برداشت كرليجئے _ آہ و فرياد نہ كيجئے _ لڑائي جھگڑانہ كيجئے _ اس كى باتوں كے مقابلے ميں ہٹ دھرى محسوس كرتى ہيں كہ آپ كے خطوں اورآپ كى حركات و سكنات پر كنٹرول

۲۲۱

تو ابرو پربل نہ آنے ديجئے _ روزمرہ كے تمام واقعات اور سارى باتيں اس سے باتيں اس سے بيان كرديا كيجئے _

كوئي بات اس سے پوشيدہ نہ ركھئے _ جس بات كى توضيح طلب كرے بے كم و كاست حقيقت اسے بتاديا كيجئے _ جھوٹ بولنے اور كوئي بات چھپانے سے پورى طرح اجتناب كيجئے _ كيونكہ اگر ايك مرتبہ آپ كاجھوٹ اس پر كھل گيا تو وہ آپ كے جرم كى سند اور قطعى ثبوت مان ليا جائے گا _ او رپھر اس كے شك كو دورنا بيحد مشكل ہوجائے گا _

اگر كہے كہ فلاں شخص سے نہ ملو _ فلاں كام انجام نہ دو تو بغير چون و چرا مان ليجئے اور ضد يا بحث نہ كيجئے ورنہ اس كى بدگمانى بڑھ جائے گى _

اگر كہے كہ فلاں شخص سے نہ ملو _ فلاں كام انجام نہ دو تو بغير چون و چرامان ليجئے اور ضد يا بحث نہ كيجئے ورنہ اس كى بدگمانى بڑھ جائے گى _

غرضكہ ان تمام كاموں سے پرہيز كيجئے جن سے شك و بدگمانى پيدا ہونے كا امكن ہو _

حضرت على (ع) فرماتے ہيں: اگر كوئي شخص اپنے آپ كو مشكوك حالت سے دوچار كرلے تو اس پر شك و شبہ كرنے والوں كو ملامت نہين كرنا چاہئے _(۲۲۸)

اگركسى خاص شخص كى جانب سے مشكوك ہے يا اسے ناپسند كرتا ہے تو آپ اس سے مكمل طور پر قطع تعلق كرليں _

كچھ خاص افراد سے دوستى قائم ركھنے كے مقابلہ ميں كيا يہ بہتر نہيں ہے كہ ان سے كنارہ كشى اختيار كركے اپنى اور اپنے شوہر كى زندگى تلخ ہونے سے بچاليں _ اپنے دل ميں يہ نہ سوچئے كہ كيا ميں اپنے شوہر كى زر خريد لونڈى ہوں يا نوكر ہوں كہ اس قدر سختياں اور پابندياں برداشت كروں جى نہيں آپ غلام نہيں ہيں البتہ ايك بيمار مرد كى شريك حيات ہيں _

جس وقت آپ شادى كے مقدس رشتے سے منسلك ہوئي تھى تو گويا آپ نے عہد كيا تھا كہ مشكلات اور پريشانيوں ميں ايك دوسرے كے شريك و غمخوار رہيں گے _ كيا رسم و فادارى يہى ہے كہ آپ اپنے بيمار شوہر سے كشمكش جارى ركھيں اور ہٹ دھرمى اور ضد سے كام ليتى رہيں بيكار افكار سے دامن چھڑايئےور عقلمند اور عاقبت انديش نبئے _ يقين مانئے اپنے شوہر اور

۲۲۲

خاندان كى خاطر آپ كا ضبط و تحمل اور اثار و فداكار بيحد اور لائق ستائشے ہے _ عورت كا ہنر تو اسى ميں ہے كہ وہ ايسے دشوار گزار اور نازك حالات ميں ايسے مردوں كا ساتھ نبھائے _ امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں :عورت كا جہاد يہى ہے كہ اپنے شوہر كى اذيتوں كے مقابلے ميں بردبارى سے كام لے _(۲۲۹)

ايسا كوئي نہ كيجئے كہ جس سے آپ كے شوہر كو شك پيدا ہوجائے يا اس كے شك ميں مزيد اضافہ ہوجائے _ غيرمردوں خصوصاً ان لوگوں كى جن كى طرف سے آپ كا شوہر بد ظن ہے ، تعريف نہ كيجئے _ نامحرم مردوں پر نگاہ ڈالئے _ پيغمبر اسلام (ص) فرماتے ہيں : جو شادى شدہ عورت نامحرم مردوں پر شوقيہ نگاہ ڈالے گى خداوند عالم اس پر شديد عذاب نازل كرے گا _(۲۳۰)

غيرمردوں سے ربط ضبط نہ ركھئے اور ان سے بات چيت نہ كيجئے _ اپنے شوہر كى اجازت كے بغير ان كے گھر نہ جايئے كسى غير مرد كى كارميں لفٹ نہ ليجئے آپ كا باعصمت اور پاكدامن ہونا ہى كافى نہيں ہے بلكہ ان تمام امور سے مكمل طور پر دوررہنا بھى ضرورى ہے جن سے شك و شبہ پيدا ہونے كا امكان ہو _ ممكن ہے غفلت يا سادگى ميں آپ سے كوئي ايسا معمولى سا فعل سرزد ہوجائے جو آپ كے شوہر كو بدگمان كردے _ ذيل كے واقعہ پر توجہ فرمايئے_

ايك ۲۷ سالہ لڑكى نے عدالت ميں بتايا : آٹھ سال قبل ۱۹۶۳سنہ ء كے موسم سرما كا ايك برفيلا دن ميرى مصيت و پريشانى كا باعث بن گيا جب ميں اپنى دوست كے اصرار پر ، اپنے گھر واپس آنے كے لئے اس كے ماموں كى كارميں بيٹھ گئي اس واقعہ سے دوماہ قبل جبكہ ميں اسكول ميں زير تعليم تھى ميرا عقد ہواتھا ہواتھا ، واقعہ يوں ہے، كہ ايك دن اپنے نوٹس تيار كرنے كے لئے اپنى ايك ہم جماعت كے گھر گئي تھي_ واپسى كے وقت برف بارى شروع ہوگئي ميرى دوست نے مجھ سے كہا كہ ميرا ماموں تمہيں اپنى كارسے گھر پہونچادے گا _ اتفاق سے جب ميں گھر كے نزديك پہونچى توگلى سرے پرميرا شوہر كھڑا ہواتھا _ اسے ديكھ كر مجھ خوف محسوس ہوا او رميں نے اپنى دوست كے ماموں سے كہا كہ مجھے يہيں اتاركر جلدى سے واپس چلا جائے _ وہ بھى ايك مجرم كى مانند فوراً فرارہوگيا _ اور يہى امر ميرے شوہر كى بدگمانى ميں اضافے

۲۲۳

كا سبب بنا _ بعد ميں جب اس نے اعتراض كيا تو ميں نے ڈركرسرے سے انكار ہى كرديا اور اس بات نے ميرے شوہر كو اس حد تك ميرى طرف سے بدگمان كرديا كہ بعد ميں ميرى دوست اور اس كے گھر والوں كى گواہى بھى اس كو مطمئن اور آسودہ خاطر نہ كرسكى اوراس كا شك دور نہ ہوا _

اس كے بعد سے ميرا شوہر نہ تو مجھے ساتھ ركھنے پر راضى ہوتا ہے اور نہ ہى طلاق ديتا ہے اس واقعہ كو آٹھ سال ہورہے ہيں اور ميں اسى طرح زندگى گزاررہى ہوں _(۲۳۱)

قارئين كرام كى نظر ميں اس داستان ميں اصل قصور وار كون ہے ؟

ميرى نظر ميں اصل قصور توبيوى كا ہے جس نے اپنى ناسمجھى اورنادانى كے سبب خوداپنے اور اپنے شوہر كے لئے مصيبت كھڑى كردي_

۱_ پہلا غلط كام تو يہ كيا كہ ايك غير مرد كى كارميں سوار ہوگئي _ فرض كيجئے شوہر نے نہ بھى ديكھا ہوتا تب بھى اصولى طور پر ايك غير مرد كى كارميں عورت كا بيٹھنا ہى ايك بہت غلط اور خطرناك كام ہے _

۲_ چلئے مان ليجئے ناسمجھى كے سبب غير مرد كى كارميں بيٹھ گئي تھى _ ليكن جب شوہر كو گلى كے سرے پر كھڑے ديكھا تھا تو چاہئے تھا اسى وقت اس شخص سے كارروكنے كو كہتى اوركارسے اتركر شوہر كے ساتھ گھر جاتى اورسارى بات اسے بتاديتى _

۳_ بہت برى غلطى يہ كى كہ اس شخص كو بھاگ جانے كو كہا _

۴_ چوتھى غلطى يہ كى بعد ميں تمام واقعہ سے سرے سے انكار ہى كرديا _ حالانكہ ان سب باتوں كے بعد بھى موقعہ تھا كہ جب شوہر نے پوچھا تھا تو بے كم و كاست سارى بات بيان كرديتى اور اپنى غلطى كا اعتراف كرتى كہ نا سمجھى يا مروت كے سبب يہ نامناسب كام انجام ديا _

البتہ اس سلسلے ميں مرد بھى بے قصور نہيں ہے _ محض اس واقعہ كو خيانت كى قطعى دليل نہيں سمجھ لينا چاہئے تھا _ اس كو اس امكانى صورت حال پر توجہ دينى چاہئے تھى كہ اس كى بيوى غفلت ناتجربہ كارى يا ناسمجھى كے سبب اس غلطى كى مرتكب ہوئي ہے اور بعد ميں الزام كے ڈرسے اس نے اس شخص كو بھا گ جانے كى ہدايت كى اور اسى سبب سے اصل واقعہ سے انكار كررہى ہے _ دانشمندى كا تقاضہ تويہ تھا كہ نہايت انصاف اور غير جانبدارى كے ساتھ اس واقعہ كى پورى طرح تحقيق اور چھان بين كرتا اور ہر طرف سے اطمينان حاصل كرنے كے بعد اس كى غلطى كو معاف كردتيا اور اس پر زيادہ سختى نہ كرتا _

۲۲۴

بدكردار عورت

اگر شواہد و دلائل ذريعہ قطعى طور پر ثابت خو جائے بيوى كا چال چلنى اچھا نہيں ہے اور اس كے غير مردوں سے نا جائز تعلقات ہيں تو مرد بيحد مشكل ميں پڑ جاتا ہے ايك طرف اس كى عزت و آبر و خطرہ ميں پڑ جاتى ہے دوسرى طرق ايسى باعث ننگ بات برداشت كرنا دشوار ہوتا ہے _

ايسى حالت ميں كرد كے لئے اس صورت حال سے بخات حاصل كرنا بيحد دشوار اور خطر ناك ہو جاتا ہے _

ايسے موقعہ پر مرد كے سامنے چند راستے ہوتے ہيں : _

۱_ اپنے خاندان كى عزت و آبرو قائم ركھنے كے لئے دل پر پتھر ركھ كر بيوى كى خيانت كاريوں كو نظر انداز كرد ے اور راسى طرح آخر عمر تك نبھا تارہے _ البتہ يہ راستہ صحيح نہيں ہے كيونكہ كوئي غيرت مند مرد اس بات كا متحمل نہيں ہو سكتا كہ بيوى كى بد كردار يوں اور نا جائز بچوں كے وجود كو برداشت كرتار ہے _ غيرت ، مرد كے لئے ايك پسند يدہ صفت ہے اور بے غيرت مرد خدا و رسول نظر ميں ذليل و خوار ہوتا ہے _

واقعا ايسے نامرد لوگوں كى زندگى باعث ننگ و عار ہوتى ہے جو ايسى بے عزتى كو برداشت كرتے رہتے ہيں _ نہ صرف يہ كہ وہ مرد ، نہيں بلكہ جالوروں سے بھى بدتر ہيں _

پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم فرماتے ہيں : پانچ سو سال ميں طے ہونے والے راستے سے بہشت كى خوشبو آتى ہے ليكن دوقسم كے لوگ بہشت كى خوشبو محروم ہيں ۰ والدين كے عاق كئے ہوئے اور بے غيرت مرد _ كسى نہے آپ سے پوچھا _ يارسول اللہ بے غير ت مرد

۲۲۵

كون ہيں ؟ فرمايا وہ مرد جو جانتا ہے كہ اس كى بيوى زناكار ہے ( اور اس كى بدكردارى پر خاموش رہے)

۲_ اپنى بيوى يا كے عاش كو قتل كردے _ اس طريقے سے انتقام لے كر وقتى طور پر اپنے دل كو تسلى دے سكتا ہے ليكن يہ كام بہت خطرناك ہے اور اس كاانجام اچھا نہيں ہوتا كيونكہ ايسا بہت كم ہوتا ہے كہ قتل كا جرم ہميشہ چھپارہے ايك نہ ايك دن قاتل پكڑاجاتاہے اورسزاپاتاہے _ عدالت ميں بھى بيوى كى بدكردارى اتنى آسانى سے ثابت نہيں ہوسكتى لہذا برى ہونے كے امكانات بہت كم ہوتے ہيں يا تو سزائے موت كاحكم سنايا جاتا ہے يا كم سے كم طويل المدت قيد كى سزا بھگتنى پڑتى ہے _ زندگى تباہ ہوجاتى ہے _ بچے بيچارے الگ تباہ و برباد اور بے آسرا ہوجاتے ہيں لہذا يہ دانشمندى نہيں كہ انسان جذبات ميں آكر اپنے نفس كى تسلى اور كينہ كى آگ كو ٹھنڈا كرنے كے لئے ايسے خطرناك كام كا اقدام كرے اور اپنے جان خطرہ ميں ڈال لے _

مرد كو چاہئے عاقل ، بردبار اور عاقبت انديشى ہو _ اسے اپنے نفس پر اتنا كنٹرول ہونا چاہئے كہ ايسے جنون آميز كام سے پرہيز كرے _ اور اس كا صحيح حل تلاش كرے _

۳_ خودكشى كرلے تا كہ بيوى كى بدكردار يوں كو اپنى آنكھوں سے نہ ديكھے اورايسى ننگين زندگى سے نجات حاصل كرلے البتہ يہ راستہ بھى دانشمندوں كانہيں ہے _ اول تو اپنى زندگى كو ختم كرلينا شرعى لحاظ سے ايك عظيم گناہ ہے اور اس كى سزا خداوند عالم نے دوزخ مقرر كى ہے _دوسرے يہ كہ اپنے آپ كو نابود كردينا كسى طرح درست نہيں _ يہ كون سى دانشمندى ہے كہ انسان دوسروں سے انتقام لينے كى خاطر اپنى دنيا و آخرت خراب كرلے اوربيوى كو اپنى بد چلنى جارى ركھنے كى پورى آزادى مل جائے _ شايد يہ سب سے بدترين راہ ہے _

۴_ جب بيوى كى بد چلنى بطور كامل ثابت ہوجائے اور ديكھے كہ وہ كسى طرح ناجائز كاموں سے دستبردار ہونے كو تيارنہيں ہے تو بہترين طريقہ يہ ہے كہ اس كو طلاق دے كر اس كے شر سے نجات حاصل كرلے _ يہ نہايت دانشمندانہ اقدام ہے اور اس ميں كوئي خطرہ بھى نہيں ہے _

۲۲۶

يہ صحيح ہے كہ طلاق كے سبب زندگى تباہ ہوجاتى ہے اور بہت نقصانات اٹھانے پڑتے ہيں جن كا برداشت كرنا دشوار ہوتا ہے خصوصاً ايسى حالت ميں كہ اگر بچے بھى ہوگئے ہوں _ ليكن بہر حال ايسى صورت ميں اس كے علاوہ اور كوئي چارہ بھى نہيں ہے _ بہترين طريقہ يہى ہے كہ بيوى كو طلاق دے كر بچوں كو اپنے پاس ركھے كيونكہ معصوم بچوں كو ايك فاسد اور بدكردار عورت كے سپردكرنا نامناسب نہيں _ اگر چہ بچوں كو پالنا دشوار كام ہے ليكن مرد كو اطمينان ركھنا چاہئے كہ اس نے خدا كى خوشنودى كے لئے يہ راستہ منتخب كيا ہے لہذا خدا بھى اس كى مدد كريگا اور جلد ہى ايك پاكدامن اور باعصمت شريك حيات اس كو مل جائے گى اور اپنى بقيہ زندگى آبرومندانہ طريقے سے گزار سكے گا _

غيرعورتوں پر نظر ڈالنے سے اجتناب كيجئے

مرد شادى كرتے وقت نہايت تلاش و جستجو سے كام ليتے ہيں تا كہ بيوى نيك اور ان كے پسند كے مطابق ہو _ اس موقعہ پر جس قدر احتياط اور عاقبت انديشى سے كام ليں اچھى بات ہے _ كيونكہ شادى سے انسان كى زندگى كا آغاز ہوتا ہے اور اس كے مستقبل كى سرنوشت يعنى خوش نصيبى يا بدبختى يہيں سے شروع ہوتى ہے _ البتہ جب كسى لڑكى كو اپنا شريك زندگى منتخب كركے اس سے رشتہ ازدواج قائم كرليں اس كے بعد بيوى كے علاوہ كسى عورت پر نظر ڈالنى چاہئے اور دوسرى تمام عورتوں كو ، جو بھى ہوں اور جيسى بھى ہوں ہر حال ميں نظر انداز كرنا چاہئے _ اور سوائے اپنى بيوى كے كسى دوسرى عورت ميں دلچسپى نہيں لينى چاہئے اس كے علاوہ اور كسى كا خيال بھى دل ميں نہيں لانا چاہئے ايك معصوم لڑكى اپنى شوہر كى خاطر اپنے ماں باپ اور خاندان كو چھوڑكر سينكڑوں اميدوں اور آرزوؤں كے ساتھ اس كى پناہ ميں آتى ہے كہ اپنى تمام ترہستى كو اپنے شوہر كے سپرد كردے اور دونوں ايك دوسرے كے شريك زندگى ، اور يادوغمخوار بن كر زندگى كى راہوں كو طے

۲۲۷

كريں ، عاقل اور سنجيدہ مرد بچگانہ حركتوں اور ہوس بازى سے دستبردار ہوجاتے ہيں اور اپنى تمام تر توجہ اپنى نئي زندگى اور خاندان كى جانب مركوز كرديتے ہيں _ كسب معاش ميں تن دہى سے مشغول رہتے ہيں تا كہ عزت و آبرو كے ساتھ اپنى بيوى بچوں كے ہمراہ خوشى و اطمينان كے ساتھ زندگى گزاريں اور روحانى سكون اور مہرو محبت كى نعمت سے ، جو كہ سب سے بڑى نعمت ہے ، بہرہ مند ہوں ف جولوگ خوش و خرم اور صلح و سلامتى كے ساتھ زندگى گزارنا چاہتے ہيں ان كو چاہئے شادى كے بعد اپنى سابق بچگانہ حركتوں اور ادھر ادھروں لگانے اور نظريں سينكنے جيسى خانماں سوز حركتوں كو چھوڑديں اور اپنى زندگى كى روش بدل ليں _

ايك شادى شدہ مرد كے لئے يہ بات نہايت باعث ننگ ہے كہ وہ كسى غير عورت يا عورتوں سے گرمجوشى سے طے _ ان سے ہنسى مذاق كرے يا ان ميں دلچسپى لے اگر مرد اپنى بيوى كو كسى غيرمرد سے ہنسى مذاق كرتے ديكھتا ہے تو اسے بہت برا لگتا ہے اور اس كى غيرت جوش ميں آجاتى ہے ليكن اس بات سے كيوں غافل رہتا ہے كہ اس كى بيوى بھى اس كى طرح احساسات و جذبات ركھتى ہے اور اسے بھى اپنے شوہر كا غير عورتوں سے ہنسى مذاق كرنا بيحد برا لگتا ہے اور يہ عمل ايك طرح كى خيانت اور بے وفائي شمار كيا جاتا ہے _ بيوى جب ديكھتى ہے كہ اس كا شوہر دوسرى عورتوں ميں دلچسپى ليتا ہے ان سے ہنسى مذاق اور چھيڑچھاڑكرتا ہے تو اس كى غيرت اور حسد كے جذبے ميں تحرك پيدا ہوتا ہے اور وہ انتقام لينے كے درپے ہوجاتى ہے _ شوہر كى نسبت اس كى عزت و محبت ميں كم آجاتى ہے _ گھر اور زندگى سے اس كى دلچسپى ختم ہوجاتى ہے گھر كے كاموں سے اس كا دل اچاٹ ہوجاتا ہے _ حتى كہ اس بات كا بھى امكان ہے كہ انتقام كى خاطر بيوى بھى غير مردوں ميں دلچسپى لينا شروع كردے يا اپنے ہوس پرست شوہر سے عليحدہ ہوجانا ناپسند كرے _ ايك عورت نے تہران ميں خاندانوں كى حمايت كرنے والى عدالت كے شعبہ ۴۵ ميں شكايت كى كہ وہ اپنے شوہر سے عليحدہ ہونا چاہتى ہے _ ان مياں بيوي

۲۲۸

كى ۳۳ سال قبل شادى ہوئي تھي_ اس عورت نے بتايا كہ ميرے شوہر كى عادت ہے كہ سے جو عورت ملتى ہے اس سے مذاق كرتا ہے _(۲۳۳)

ايك عورت نے عدالت ميں كشايت كى كہ : ميرا شوہر ميرى دوستوں سے اپنى دلچسپى كا اظہار كرتا ہے _ اس كى اس برى عادت كے سبب ميں اپنى دوستوں كو اپنے گھر نہيں بلا سكتى _ چونكہ وہ سب كہتى ہيں كہ تمہارا شوہر ہم ميں دلچسپى ليتا ہے اور يہ بات ميرى خفت و شرمسارى كا باعث بنتى ہے _(۲۳۴)

ايك شادى شدہ مرد كے لئے نہايت شرمناك بات ہے كہ وہ دوسرى عورتوں كو گھورے يا ان پر نظريں ڈالے _ ان نظر بازيوں كا سوائے دلى اضطراب و بے چينى ، اعصابى كمزورى اور گھر اور خاندان كى طرف سے بے توجہى كے اور كوئي نتيجہ بر آمد نہيں ہوتا _ خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے :

نامحرم عورتوں كى طرف ديكھنے سے اپنى نظريں بچاؤ_(۲۳۵)

امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں : نگاہ شيطان كى جانب سے پھينكتے ہوئے زہر آلود تير كى مانند ہوتى ہے اور ايك نگاہ ممكن ہے حسرت و رنج كا باعث بن جائے _(۲۳۶)

ماہر نفسيات نے نظربازى كو ايك قسم كى نفسياتى بيمارى بتايا ہے _جو آنكھيں ، اس ذليل حركت كى عادى ہوجاتى ہيں وہ كبھى سير نہيں ہوتين _ ان ہى بدنگاہيوں كا نتيجہ ہوتا كہ بہت سے پاك سيرت جوان ، اپنى عفت و ناموس گنوا كرفتنہ و فساد اورگمراہى كى وادى ميں گر پڑتے ہيں كيونكہ جب ہوسناك نگاہيں محو تماشہ ہوتى ہيں تو دل بدى كى طرف مائل ہوجاتا ہے _ ايك مرتبہ دو مرتبہ زيادہ سے زيادہ دس مرتبہ انسان اپنے آپ پرقابو پا سكتا ہے ليكن آخر كار عنان نفس ہاتھ چھوٹ جاتى ہے اور نفسانى خواہشات كا مطيع بن جاتا ہے _

امام صادق (ع) فرماتے ہيں : پے درپے نگاہيں ، قلب ميں شہوت پيدا كرتى ہيں اور يہى چيز ، بد نظر افراد كى گمراہى كے لئے كافى ہوتى ہے _(۲۳۷)

۲۲۹

اسلام چونكہ نظر بازى كے خراب نتائج سے واقف ہے اس لئے اس فعل كى سختى سے ممانعت كرتاہے _

كوچہ و بازار ميں اگر مرد كى نگاہ بے اختيار كسى نامحرم عورت پڑپڑجائے تو يہ نہيں كہ باربار اسے ديكھت ہے بلكہ چاہئے كہ فوراً نظريں سچى كرلے يا دوسرى طرف متوجہ ہوجائے ، نامحرموں كى جانب سے چشم پوشى شايد پہلے مرحلے ميں كسى حد تك دشوار ہوليكن اگر ذرا صبر كے ساتھ اس كى عادت ڈال لى جائے تو يہ امر آسان ہوجائے گا _

عقلمند لوگ جانتے ہيں كہ اس نازيبا حركت كے نتيجہ ميں قتل و غارت گرى ، خودكشى ، طلاق ، اعصاب كى كمزورى ، نفسياتى امراض، دل كى بيمارى ، ذہنى پريشانياں، دائمى رنج و غم اور خاندانى اختلافات و غيرہ جيسے خطرات ظہور ميں آتے ہيں لہذا ان خطرات سے بچنے كى خاطر اس مفسدانہ حركت سے دامن بچانا اور استقامت سے كام لينا ، خود انسان كے اپنے مفاد ميں ہے _

ہم جانتے ہيں كہ جوانى كے ہيجان انگيز دور ہيں ، ايسى حالت ميں كہ بعض عورتيں آزادانہ طور پر نيم عرياں حالت ميں سج دھج كرباہر گھومتى ہيں ،نظريں بچانا ذرا مشكل كام ہے ليكن بہر صورت ضرورى ہے _

اگر مرد صبرو استقامت سے كام لے اور اس علم كى عادت ڈال لے تو بہت سے مفاسد كا خود بخود علاج ہوجاتا ہے اور ان جھوٹى اوروقتى لذتوں كے عوض ، ذہنى سكون و آسائشے اور خاندان كى مہرومحبت كى لذت سے پورى طرح لطف اندوز ہوسكتا ہے_

برادر عزيز اگر زندگى ميں سكون و چين اور حقيقى خوشى ومسرت كى نعمتوں كا لطف اٹھانا چاہتے ہيں تو شادى كے بعد ، اپنى بيوى كے علاوہ دوسرى تمام عورتوں كى جانب سے چشم پوشى اختيار كيجئے _ اپنى بيوى كے سامنے كبھى غير عورتوں كى تعريف نہ كيجئے _ كبھى نہ كہئے كہ كاش ميري

۲۳۰

فلاں لڑكى سے شادى ہوئي ہوتى _ يا فلاں لڑكى مجھ سے شادى كى خواہشمند تھى _ فلاں لڑكى مجھكو چاھتى _ سينكڑوں لوگ مجھ سے اپنى لركيوں كى شادى كرنے كے آرزومند تھے _ يا فلاں لڑكى تم سے بہتر تھى و غيرہ جيسى باتيں ہرگز بيوى سے نہ كہئے كيونكہ اس قسم كى باتيں بيوى كو شك ميں مبتلا كرديتى ہيں اور شوہر سے اس كى محبت دلچسپى ميں كمى آجاتى ہے _ زندگى كى لطافتوں سے بيزار ہوجاتى ہے ممكن ہے وہ بھى مقابلہ بہ مثل كرے اور دوسرے مردوں كى آپ كے سامنے تعريف كرے يا اپنے سابق خواستگاروں كا دلچسپى كے ساتھ ذكركرے _ اور اس كا انجام سوائے باہمى كدورت اور دائمى جھگڑے كے اور كچھ نہ ہوگا _ ايك شادى شدہ مرد كے لئے يہ بات نہيں قابل شرم ہے كہ وہ دوسرى عورتوں پر نظر ركھے اور ان ميں دلچسپى لے _

كس قدر بدبخت اور نادان ہيں وہ لوگ جو اپنى پاكدامن اور باعصمت اور محبت كرنے والى معصوم بيويوں كو چھوڑكر، چند لمحوں كى عيش كوشى كى خاطر، آوارہ وہر جائي عورتوں كے پيچھے پھرتے ہيں _ اس قسم كے مرد در اصل انس و محبت اور خاندان كى صميميت و صفائي سے بالكل نابلد ہوتے ہيں وہ جانوروں كى مانند سوائے كھانے پينے ، سونے اور شہوت كے كے اور كچھ نہيں جانتے _ انسانيت اورجذبات و احساسات سے يكسر عارى ہوتے ہيں _

سپاس گزار بنيئے

ممكن ہے بعض مردوں كو گھر كے كام ذرا بھى اہم معلوم نہ ہوتے ہوں ليكن اگر ذرا بھى انصاف سے كام ليں تو اعتراف كرنا پڑے گا كہ گھر كے كام دشوار اور بہت تھكادينے والے ہوتے ہيں ايك گھريلو خاتون اگر شب و روز گھر كے كام كرے تب بھى بعض كام كسى حد تك پڑے رہ جاتے ہيں _ كھانا پكانا ، گھر كى صفائي ، كپڑے دھونا ، استہرى كرنا، برتن دھونا ، گھر كا سامان ٹھيك ٹھاك كرنا، اور سب سے بڑھ كر بچوں كى پرورش اور نگہداشت آسان كام نہيں ہيں _ وہ بھى ايك ، ايك خاتون خانہ حقيقتاً گھر ميں شديد زحمت برداشت كرتى ہے _

۲۳۱

مرد سمجھتا ہے وہ غذا جو دن ميں تين با رپكى پكائي اس ك سامنے آجاتى ہے يوں ہى بڑى آسانى سے تيار ہوجاتيہے يا گھر كے مختلف چھوٹے بڑے كام خودبخود انجام پاجاتے ہيں _ بچوں كى پرورش اور ديكھ بھال كو تو كچھ شماررہى نہيں كيا جاتا_

اگر مرد گھر ميں ايك مہينہ رہ كر گھر كے تمام امور اور بچوں كى نگہداشت و پرورش كى ذمہ دارى لے اس وقت اس كو ان كاموں كى اہميت معلوم ہوگى اور بيوى كى طاقت فرسا زحمات كا اندازہ ہوسكے گا _ بيوى ان تمام زحمتوں كو برداشت كرتى ہے اور كوئي شكايت بھى نہيں كرتى ليكن شوہر سے اس بات كى توقع ضروركرتى ہے كہ اس كى زحمتوں كى قدر كرے اور اس كا ممنو ن ہو _ وہ چاہتى ہے كہ شوہر ہميشہ اس پر توجہ كرے اور اس كے ذوق و سليقہ كو قدر كى نگاہ سے ديكھے _

برادرعزيز جس وقت آپ قرينے سے سجے سجائے ، صرف ستھرے گھر ميں داخل ہوتے ہيں اگر اس وقت اپنى بيوى كے ذوق و سليقہ اور زحمات كى تعريف كرديں تو كيا ہرج ہوجائے گا ؟ اگر كبھى كبھى اس كے تيار كئے ہوئے لذيذ كھانوں كى تعريف كرديں تو آپ كا كيا چلا جائے گا _ كيا ہرج ہے اگر بچوں كى پرورش اور نگہداشت كے موضوع كو ، جو كہ حقيقتاً بہت سخت ، ليكن بہت اہم كام ہے ،اہميت ديں اور كبھى كبھى اس كے اس صبر آزما اوركٹھن كام كا شكريہ ادا كرديا كريں؟ آپ اس نكتہ سے غافل ہيں كہ آپ كا اظہار تشكر اس ميں كتنى ہمت اور حوصلہ پيداكردے گا _ اور اس كو مزيد كام ، كوشش اور فداكارى كے لئے آمادہ كردے گا _ اگر آپ اپنى بيوى كے كاموں پر ذرا بھى توجہ نہ كريں اور ان كو معمولى ظاہركريں تو رفتہ رفتہ گھر كے كاموں سے اس دلچسپى كم ہوجائے گى _ اپنے دل ميں سوچے گى كہ جس گھر ميں اس كے كسى كام كى قدر نہ ہو وہاں زحمتيں اٹھانے سے كيا فائدہ _ ايك وقت آئے گا جب كسى كام ميں اس كا دل نہيں لگے گا _ اس وقت آپ داد و فرياد كريں گے كہ ميرى بيوى كسى كام ميں دلچسپى نہيں ليتى _ يہ نہيں كرتى وہ نہيں كرتى _ يہ كام پڑارہ گيا وغيرہ

۲۳۲

اگر يہ نوبت آگئي تو سمجھ ليجئے خود اپنے كئے كا كوئي علاج نہيں _ قصور خود آپ كا ہے كہ آپ زن دارى ، كے طور طريقوں سے ناواقف ہيں _ اگر ايك غيرآدمى آپ كامعمولى سا كا م كرديت ہے تو آپ باربار اس كا شكريہ ادا كرتے ہيں ليكن اپنى بيوى كى رات دن كى زحمتوں كى طرف سے غافل ہيں اور اس بات كے لئے تيار نہيں كہ مفت ہيں ، شكريہ كا ايك لفظ بول كر اس كا دل شاد كركے اس كى سارى تھكن دوركرديں _

ذيل كے واقعہ پر توجہ فرمايئے

ايك ۲۹ سالہ گھريلو خاتون تہران سے لكھتى ہے : ميرا شوہر بڑا حق ناشناس ہے صبح سے شام تك زحمتيں اٹھاتى ہوں _ برتن اور كپڑے دھونے اور كھانا پكانے سے لے كر گھر كى صفائي و سجاوٹ ، اس كے اور بچوں كے كپڑوں كى سلائي و غيرہ تك سب كام ميں تنہا انجام ديتى ہوں ،جب گھر آتا ہے تو كسى چيز پر توجہ ہى نہيں ديتا اور اپنے رويے سے ايسا اظہار كرتا ہے گويا ميں نے اب تك كوئي كام ہى نہيں كيا ہے _ استرى كئے ہوئے كپڑے، صاف ستھرى ٹائي ، پالش كئے چمچماتے جوتے اس كے لئے تيار ركھتى ہوں _ ليكن كبھى شكريہ كا ايك لفظ اس كے منھ سے نہيں نكلتا _ اگر ميں خود كچھ بيان كروں تو سختى سے ميرى بات منقطع كركے جھڑك ديتا ہے اور كہتا ہے اچھا اپنے كاموں كو اتنا بڑھا چڑھا كے بيان نہ كرو _ آخر كون سا ايسا بڑا كام انجام ديا ہے ؟ آسمان سے تارے توڑلائي ہو يا كوہ دماوند كى چوٹى فتح كرلى ہے ؟ حالانكہ ميرى محنت و مشقت اور سليقے كى وجہ سے ہى گھر كى ساكھ بنى ہوئي ہے _(۲۳۸)

بعض مرد ، بيوى اور اس كے كاموں كى طرف سے بے اعتنائي برتنا، مرد انگى سمجھتے ہيں اور كہتے ہيں كہ اگر بيويوں كى تعريف كى تو سرپر چڑھ جائيں گى _ بعض مردوں كا خيال ہے كہ غيروں كا شكريہ ادا كيا جاتا ہے _ مياں بيوى كے درميان ان چونچلوں كى كيا ضرورت ہے ، حالانكہ يہ خيال بالكل غلط ہے _ كيونكہ ہر احسان كرنے والا ، نفسياتى طور سے قدرداني

۲۳۳

كا خواہشمند ہوتاہے _ قدردانى تشويق كاباعث بنتى ہے خصوصاً گھريلو خواتين كو گھر كے ہرروز وہى تھكادينے والے كام انجام دينے كے سلسلے ميں سب سے زيادہ قدردانى كى ضرورت ہوتى ہے _ يہى وجہ ہے كہ دين مبين اسلام ميں تشويق اور سپاس گزارى كو اچھے اخلاق ميں شمار كيا جاتا ہے _

امام صادق (ع) فرماتے ہيں :جو شخص كسى مسلمان كى ستائشے كرتا ہے خداوند عالم قيامت تك اس كى ستائشے لكھتا ہے _(۲۳۹)

پيغمبر اسلام (ص) فرماتے ہيں : جو شخص كسى مسلمان كا احترام كرتا ہے اور خوش خلقى كے ساتھ اسكى دلجوئي كرتا ہے اور اس كے رنج و غم كو برطرف كرتا ہے ، وہ ہميشہ خدا كى رحمت كے سائے ميں رہے گا _(۲۴۰)

گھر ميں بھى صاف ستھرے رہئے

صفائي كا خيال ركھنا ، ہر ايك كے لئے اور ہر جگہ ضرورى ہے _ انسان كو چاہئے اپنا بدن اور لباس صاف ستھراركھے _ برابر نہائے _ ہر روز صابن سے منھ ہاتھ دھوئے _دانتوں ميں برش كرے _ بالوں ميں كنگھى كرے _ سراورداڑھى كے بال نبائے _ ہر روز اپنے پير دھوئے تا كہ بدبونہ آئے _ صاف موزے پہنے _ صاف ستھرے كپڑے پہنے ، اپنى مالى استطاعت كے مطابق اچھا لبا س پہنے _

اسلام ميں اچھے اور صاف ستھرے لباس پہننے كى بہت تاكيد كى گئي ہے _ حضرت رسول خدا (ص) كا ارشاد گرامى ہے _ صفائي ، ايمان كا جزو ہے _(۲۴۱)

پيغمبر اسلام (ص) نے ايك شخص كو الجھے بالوں ، برى وضع اور كثيف حالت ميں ديكھا تو فرمايا: خدا كى نعمتوں سے استفاد ہ كرنا ، دين كا جزوہے _(۲۴۲)

پيغمبر گرامي(ص) فرماتے ہيں :گندہ آدمى ، برابندہ ہوتا ہے _(۲۴۳)

پيغمبر گرامى (ص) كا يہ بھى ارشاد ہے كہ : جبرئيل (ع) نے مسواك كے بارے ميں مجھ سے اس قدر سفارش كى ہے كہ ميں اپنے دانتوں كى طرف سے بہت متفكر رہتا ہوں _(۲۴۴)

۲۳۴

حضرت على (ع) فرماتے ہيں : خدا خود زيبا ہے اور زيبائي كو پسند كرتا ہے اور اپنى نعمتوں كے آثار اپنے بندوں ميں ديكھنا پسند كرتا ہے _(۲۴۵)

پاكيزگى اورخوبصورتى صرف عورتوں سے مخصوص نہيں ہے بلكہ مرد كو بھى اپنى وضع قطع ٹھيك ركھنى چاہئے _ صاف ستھر اور سليقے سے رہنا چاہئے _ بہت سے مرد اپنے لباس اور صفائي كى طرف بالكل توجہ نہيں ديتے _ ديردير ميں نہاتے ہيں _ سر اور داڑھى كے بال برھ گئے تو كوئي فكر نہيں _ گندے لباس اور الجھے بالوں كے ساتھ گھر اور باہر گھومتے رہتے ہيں ان كے پسينے اورپاؤں كى بدبو دوسرے لوگوں كے لئے پريشانى كا باعث بنتى ہے _البتہ بہت سے لوگ صاف ستھرا اور عمدہ لباس پہننے اور بننے نور نے كے توشوقين ہوتے ہيں مگر صرف گھر كے باہر، دوسرے لوگوں كے سامنے _ ليكن گھر ميں اس چيز كا ذرا بھى لحاظ نہيں ركھتے _ جب باہر ، آفس ، بازار يا كسى محفل ميں جانا ہوتا ہے تو خوب بنتے سنورتے ہيں اور بہترين لباس پہن كر گھرسے باہر نلكتے ہيں ليكن گھر واپس آتے ہى استرى كئے قيمتى لباس كو فوراً اتاركر ميلے كچيلے كپڑے پہن ليتے ہيں _ ايسا كم ہى اتفاق ہوتا ہے كہ گھر ميں بھى آرائشے و زيبائشے كا خيال ركھيں _ صبح سوكر اٹھے تو يونہى الجھے بالوں اور چيپڑلگى آنكھوں كے ساتھ ناشتہ كرنے بيٹھ گئے _ اگر اتفاق سے دو ايك روز گھر سے باہر جانانہ ہو ا تو اسى طرح عجيب و غريب حليہ بنائے رہيں گے اور گھر ميں اس طرح رہيں گے گويا كسى كى ان پر نظر ہى نہيں پڑے گى _ صفائي اور آرائشے و زيبائشے تو فقط گھر سے باہر دوسرے لوگوں كے لئے كى جاتى ہے _ اپنے گھر والوں سے كوئي مطلب نہيں

برادر عزيز جس طرح گندى ، ميلے كچيلے كپڑے پہنے بيوى آپ كو اچھى نہيں لگتى اور آپ چاہتے ہيں كہ آپ كى بيوى گھر ميں صاف ستھرى اچھى حالت سے رہے تويقين مانئے وہ بھى آپ سے يہى توقع ركھتے ہے _ اسى بھى بد وضع شوہر اچھا نہيں لگتا _ وہ چاہتى ہے كہ اس كا شوہر ہميشہ صاف ستھرا اسمارٹ نظر آئے _

۲۳۵

اگر آپ گھر ميں خراب حليہ بنائے رہيں گے اور آپ كى بيوى باہر اسمارٹ ، صاف ستھرے مردوں كو ديكھے گى تو سوچے گى كہ يہ مرد كسى دوسرى دنيا سے آئے ہيں _ جب آپ كا ان سے مقابلہ كرے گى تو رنجيدہ ہوگى _ آپ گھر ميں صاف ستھرے عمدہ لباس پہن كررہئے تا كہ آپ كى بيوى سمجھے كہ آپ بھى دوسروں كم نہيں ہيں اور اس كى محبت ميں اضافہ ہو اور اس كا دل خوش رہے اور گھر سے اس كى دلچسپى قائم رہے _ اورگمراہ ہونے سے محفوظ رہے _ اصولى طور پر غير مردوں اور گلى كو چوں كى عورتوں كے لئے زينت كرنے سے آپ كو كيا فائدہ ہوگا ؟ ان سے آپ كو كيا مطلب _ البتہ بيوى كے سامنے ، جو كہ آپ كى شريك زندگى ہے ، اور آپ كو اس كى محبت كى ضرورت ہے _ اچھى وضع قطع سے رہنا ، خود آپ كے مفاد ميں بھى ہے _ در اصل مياں بيوى دونوں كے دلى سكون و چين سے ہى گھر ميں خوشگوار فضا قائم رہ سكتى ہے _

يہى وجہ ہے كہ دين مبين اسلام ميں مردوں كو تاكيد كى گئي ہے كہ اپنى بيويوں كے لئے آرائشے و زينت كريں _

پيغمبر اسلام(ص) فرماتے ہيں : كہ مرد پر واجب ہے كہ اپنى بيوى كى غذا اور لباس كا انتظام كرے اور برى وضع قطع سے اس كے سامنے نہ آئے _ اگر اس نے ايسا كيا تو گويا اس كا حق ادا كيا ہے _(۲۴۶)

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم فرماتے ہيں :مردوں كو چاہئے اپنى بيوى كے سامنے قاعدے سے اور اچھے وضع قطع سے رہيں _ جس طرح سے كہ وہ پسند كرتے ہيں كہ ان كى بيوياں ان كے لئے بنيں سنوريں _(۲۴۷)

حسن بہ جہم كہتے ہيں : حضرت ابوالحسن (ع) كوميں نے ديكھا كہ خضاب لگائے ہوئے ، ميں نے عرض كيا آپ نے خضاب لگايا ہے ؟ فرمايا : ہاں ،قاعدے سے اچھى طرح رہنا ، عورتوں كى عفت كا باعث ہوتا ہے _ اور مردوں كا برے حلئے سے ، بدوضع طريقے سے رہنا ، سبب بنتا ہے كہ عورتيں اپنى عفت كو بيٹھيں _ پھر فرمايا : كيا تم كو اپنى بيوى كو برى وضع قطع ميں ديكھنا اچھا لگے گا؟ ميں نے كہا نہيں _ فرمايا وہ بھى بالكل تمہارى جيسى ہوتى ہيں _(۲۴۸)

امام رضا (ع) فرماتے ہيں : بنى اسرائل كى عورتيں اسى وجہ سے اپنى عفت و عصمت گنوابيٹھى تھيں كيونكہ ان كے مرد اچھى طرح قاعدے سے رہنے اورخوبصورتى كا لحاظ نہيں ركھتے تھے _

پھر فرمايا : جس بات كى توقع تم اپنى بيوى سے كرتے ہو ، ويسى ہى توقع وہ تم سے كرتى ہيں _(۲۴۹)

۲۳۶

اپنى بيوى كى تيماردارى كيجئے

مياں بيوى كو ہميشہ ايك دوسرے كے تعاون اوراظہار محبت كى ضرورت ہوتى ہے ليكن يہ ضرورت بعض موقعوں پر شديد تر ہوجاتى ہے _ انسان كو بيمارى اور پريشانى كے موقع پرہميشہ سے زيادہ توجہ اور دلجوئي كى ضرورت ہوتى ہے _ بيمار كے لئے جس قدر ڈاكٹر اور دوا ضرورى ہے اسى قدر بلكہ اس زياد توجہ اور تيمار دارى كى ضرورت ہوتى ہے _ تسلى و تشفى اور نوازش سے بيمار كے اعصاب كو سكون ملتا ہے _ اور يہ چيز اسے جينے كا حوصلہ عطا كرتى ہے _ بيوى بيمارى كے موقع پر اپنے شوہر سے متمنى ہوتى ہے كہ وہ اس كا علاج كرائے اور ماں باپ سے بڑھ كر اس كى تيماردارى كرے _ اس كى نوازشيں اور ہمدردياں ،محبت و خلوص كى علامتيں سمجھى جاتى ہيں _ ايك بيوى جو رات دن ايك خادمہ كى مانند گھر كے تمام كام انجام ديتى ہے اور زحمتيں اٹھاتى ہے ، بيمارى كے موقع پر اپنے شوہر سے اس بات كى توقع كرنے ميں حق بجانب ہے كہ وہ اس كے علاج معالجہ كے لئے تگ ودو كرے اس كى تيماردارى كرے _

ڈاكٹر اور دوا كا خرچہ ، زندگى كى ان ضروريات او رنفقہ ميں شامل ہے جس كا انتظام كرنا شوہر پرواجب ہے _

وہ عورت جو شب و روز بغير كسى اجرت كے گھر ميں زحمت اٹھاتى ہے كيا اس بات كى حقدار نہ ہوگى كہ بيمارى كے موقعہ پر شوہر اس كے دوا علاج پر روپيہ پيسہ خرچ كرے؟

۲۳۷

بعض مرد اس سلسلے ميں ذرا بھى انصاف سے كام نہيںليتے ايسے مرد جذبات سے عارى ہوتے ہيں _

جس وقت ان كى بيوى صحيح و سالم ہوتى ہے زيادہ سے زيادہ اس كے وجود سے استفادہ كرتے ہيں ليكن جب بيمار ہوجاتى ہے تو اس كى صحت يابى كے لئے دواعلاج پر روپيہ خرچ كرنے ميںان كى جان پر بنتى ہے اور اگر بيمارى طول پكڑگئي يا زيادہ خرچ كرنا پڑے تو اس كو يوں ہى بغير دواج علاج كے چھوڑ ديتے ہيں _

كيا رسم وفا ہى ہے ؟ كيا مردانگى كا تقاضا يہى ہے ؟

ذيل كے واقعہ پر توجہ فرمايئے

ايك عورت نے اپنے شوہر كے خلاف شكايت درج كراتے ہوئے بتايا كہ ميں نے مدتوں اچھے برے ہر حال ميں اپنے شوہر كا ساتھ نبھايا اور نہايت توجہ كے ساتھ اس كى خدمت كى _ اب جبكہ ميں بيمارہوگئي ہوں مجھكو گھر سے باہر نكال ديا اور كہتا ہے كہ مجھے بيمار بيوى نہيں چاہئے _(۲۵۰)

برادرعزيز اگر آپ كو اپنے خاندان سے تعلق خاطر ہے تو جب آپ كى بيوى بيمار ہوجائے تو اسے فوراً ڈاكٹر كے پاس لے جايئے ضرورى دوائيں فراہم كيجئے _ ڈاكٹر اور دوائيں ہى كافى نہيں ہيں بلكہ ايسے موقعہ پر مہربان والدين كى مانند اس كى تيمار دارى كيجئے _ وہ اپنے ماں باپ كو چھوڑ كر آپ كے پاس آئي ہے اس اميد كے ساتھ اس نے اپنے آپ كو آپ كے سپرد كرديا ہے كہ آ پ اس ماں باپ سے زيادہ اس كے لئے مہربان ثابت ہوں گے _ وہ آپ كى شريك زندگى ، آپ كے بچوں كى ماں ، اور آپ كى يارومددگار ہے ، بيمارى كے وقت پہلے سے زيادہ اس سے اظہار محبت و ہمدردى كيجئے _ تكليف كى شدت سے كراہتى ہے يا چيختى چلّاتى ہے تو غصہ نہ كيجئے بلكہ افسوس ظاہر كيجئے _ اس كى تسلى و تشفى كى باتيں كيجئے _ اس كو اميد دلايئے ڈاكٹر نے اس كے لئے جو غذائيں تجويز كى ہوں ان كو فراہم كيجئے _ اگر

۲۳۸

كسى خاص غذا يا پھل سے رغبت ركھتى ہو اور ڈاكٹر نے منع نہ كيا ہو تو جس طرح سے بھى ممكن ہو سكے اس كے لئے مہيا كيجئے _ اپنے ہاتھ سے دوا اور كھانا كھلايئےيونكہ آپ كا يہ فعل اسكى خوشى اور اس كے اعصاب كو تقويت پہونچانے كا باعث بنے گا _ بچوں كى نگرانى كيجئے وہ شور نہ مچائيں _ اپنا بستر اس كے بستر كے قريب بچھايئےور رات كو پورى طرح اس كى ديكھ بھال كيجئے _ رات ميں اٹھ كر اس كى خبر گيرى كيجئے اگر بيدا رہو تو اس كى احوال پرسى كيجئے _ اگر شدت تكليف سے اسے نيند نہ آرہى ہو تو آپ بھى حتى المقدور جاگتے رہنے كى كوشش كيجئے _ اگر آپ سوئيں تو ايك بچے يا نرس كى ڈيوٹى لگا ديجئے تا كہ ہميشہ اس كے پاس ايك آدمى جاگتا رہے اور اس كى ديكھ بھال كرتا رہے _ ايسا نہ ہو كہ آپ تو پورى رات چين سے سوتے رہيں اور آپ كى بيوى شدت تكليف سے كراہتى رہے _

اگر آپ نے ايسے نازك موقعہ پر اپنى بيوى كى پورى طرح ديكھ بھال كى اور ايك محبت كرنے والے شوہر كا فرض ادا كيا تو چيز اس كو حوصلہ علا كرے گى آپ كى محبت و وفادارى پر اسے يقين كامل ہوجائے گا اور آپ سے اس كى محبت ميں مزيد اضافہ ہوجائيگا صحت ياب ہونے كے بعد پہلے سے زيادہ و دلبستگى كے ساتھ گھر كے فرائض انجام دے گى آپ كى محبت و نوازش كو ہرگز فراموش نہيں كرے گى _

پيغمبر اسلام(ص) فرماتے ہيں : تم بہترين شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں كے لئے اچھا ہو _ ميں اپنے اہل خاندان كى نسبت سب سے بہتر ہوں _(۲۵۱)

رسول خدا (ص) فرماتے ہيں : جو شخص كسى بيمار كى صحت يابى كے لئے كوشش كرے خواہ وہ اپنى كوشش ميں كامياب ہويا نہ ہو ، اپنے گناہوں سے اس طرح پاك ہوجائے مثل اس روز كے جب ماں كے پيٹ سے پيدا ہواتھا _ ايك انصارى نے پوچھا ، يا رسول اللہ ميرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اگر مريض خود اس كے گھر والوں

۲۳۹

ميں سے ہوتو كيا ، زيادہ ثواب نہ ہوگا ؟ فرمايا: كيوں نہيں(۲۵۲)

خاندان كے اخراجات

بيوى كا نان و نفقہ شوہر پرواجب ہے يعنى قانونى اور شرعى طور سے مرد اس بات كا ذمہ دار ہے كہ خاندان كے تما م اخراجات ، يعنى پوشاك ، خوراك ، مكان حتى ڈاكٹر كى فيس اور دوا كا انتظام كرے اور اگر اس نے اس ذمہ دارى كو پورا نہ كيا يا كوتاہى كى توشرعى اور قانونى لحاظ سے وہ اس امر كا جواب وہ ہوگا _ بيوى بچوں كو ہميشہ يہ كہہ كرٹالا نہيں جا سكتا كہ ''ميرے پاس نہيں ہے '' انھيں ہر حال ميں چاہئے انكى خواہشوں اور مطالبات كى حد و انتہا نہيں ہوتى _ رقابت كى حس ، ان ميں بہت قوى ہوتى ہے _ اسى لئے مرد بے چون و چرا ان كے تمام مطالبات پورے نہيں كرسكتا اور نہ ہى ايسا كرنا مناسب ہے _

عقلمند مرد گھر كے تمام اخراجات كاحساب لگاتا ہے _ لوازم زندگى كى ضرورت كے مطابق درجہ بندى كرتا ہے _ زندگى كى اولين ضروريات مثلاً خوراك و پوشاك كو سب چيزوں پر فوقيت ديتا ہے _ اپنى آمدنى كا كچھ حصہ آڑے وقت كے لئے بچاكرركھتا ہے _ آمدنى كا كچھ حصہ مكان كے كرايہ كے لئے يا مكان خريدنے كے لئے جمع كرتا ہے كچھ حصہ بجلى ، پانى ٹيليفوں، ٹيكس اور بچوں كى اسكول فيس و غيرہ كے لئے ركھتا ہے _ گھر كے ضرورى سازوسامان كو بھى مد نظر ركھتا ہے اور سارى ضرورى چيزوں كيلئے اپنى آمدنى كے مطابق بجٹ بناتا ہے _ اسراف و فضول خرچى سے گريز كرتا ہے _

ايك مدبر انسان اپنى چادر كے مطابق پير پھيلانے كى كوشش كرتا ہے ہر وہ خاندان جو اپنى آمدنى اوراخراجات كا بجٹ بناليتے ہيں اور عقل و تدبر كے ساتھ اپنى آمدنى كا لحاظ كركے خرچ كرتے ہيں وہ نہ صرف يہ كہ قرض لينے يا ديواليہ ہوجانے كى مصيبت سے محفوظ رہتے ہيں بلكہ جلدى ہى اپنى خوشحالى اور بہتر زندگى كے اسباب فراہم كرليتے ہيں _

خداوند كريم نے اقتصاديات اور ميانہ روى كو ايمان كى علامت قرارديا ہے _ قرآن مجيد ميں فرماتاہے : جو لوگ اس طرح خرچ كريں كہ نہ اسراف كريں اور نہ بخل سے كام ليں وہ لوگ

۲۴۰

اعتدال پسند ہوتے ہيں _(۲۵۳) امام صادق (ع) فرماتے ہيں : جو شخص اپنى آمدنى كا لحاظ ركھئے ميں ضمانت ليتا ہوں كہ وہ كبھى فقير نہيں ہوگا _

امام جعفر صادق (ع) ايك اور موقع پر فرماتے ہيں : چار قسم كے لوگوں كى دعا قبول نہيں ہوتى ان ميں سے ايك وہ ہيں جو اپنا مال بيكار تلف كرتے ہيں اور پھر كہتے ہيں كہ اے خدا مجھ كو روزى عطا كر ،پس خدا فرماتا ہے كيا ميںنے تم كو حكم نہيں ديا تھا كہ اخراجات پر كنٹرول كرو _(۲۵۵)

عبداللہ بن ابان كہتے ہيں : ميں نے امام موسى كاظم (ع) سے خاندان پر بخشش كے متعلق سوال كيا _ فرمايا : اسراف اور كم خرچ كرنا دونوں مكروہ ہيں _ ميانہ روى سے كام لينا چاہئے _(۲۵۶)

عقلمند اور عاقبت انديش انسان ، حتى الامكان قرض لينے اور قرض پر سامان خريد نے سے پرہيز كرتے ہيں _ اور غير ضرورى مصارف كے لئے اپنے آپ كو قرض كے بوجھ تلے نہيں دبا تے _ وہ پيسہ جو بينكوں يا دوسرے اداروں سے سود كى شرح پر قرض لے كر فراہم كيا جائے شرعى اور عقلى اعتبار سے پسنديدہ نہيں ہے _

قسطوں پر چيزيں خريدنا ، اگر چہ ممكن ہے زندگى كو بظاہر پر كشش بنادے ليكن در حقيقت خاندان كى خوشى اور سكون كو سلب كرنے كا باعث بنتاہے _ قسطوں پر مكان ، قسطوں پر فريج ، قسطوں پرٹى وى ، قسطوں پر كار، قسطوں پر ٹيليفون ، قسطوں پر قالين و غيرہ و غيرہ _ يہ كوئي زندگى ہوئي ؟ آخر ايسا كيا ضرورى ہے كہ انسان غير ضرورى اشياء كو زيادہ قيمتوں پر خريد ے اور قسطيں ادا كرنے كے لئے اپنى آمدنى كا ايك حصہ بينكوں اور دوسرے اداروں كے فنڈميں بھرے _ كيا يہ بہتراور زيادہ مفيد نہ ہوگا كہ ذرا صبر سے كام لے كہ مالى حالت كچھ بہتر ہوجائے اس كے بعد وہى چيزيں كم قيمت پر نقد ادا كركے خريد لے ؟

يہ درست ہے كہ روپيہ پيدا كرنا مشكل كام ہے اور انسان كى زندگى پر اس كا بہت اثر پڑتا ہے ليكن اس سے اہم بات روپيہ كو صحيح طريقے سے خرچ كرنا ہے _ بہت سے ايسے خاندان ہوتے ہيں جو اپنے اچھى آمدنى كے باوجود ہميشہ پريشان اور مقروض رہتے ہيں _

۲۴۱

اس كے برعكس بہت سے ايسے لوگ بھى ہوتے ہيں جو اپنى معمولى آمدنى كے باوجود نہايت سكون و اطمينان كے ساتھ آبرومندانہ طريقے سے زندگى گزارتے ہيں ان كى حالت ہر لحاظ سے اچھى اور اطمينان بخش ہوتى ہے _

ان دونوں قسم كے گروہوں ميں فرق يہى ہے كہ اپنى آمدنى كو كس طرح سے خرچ كرتے ہيں _ لہذا خاندان كى فلاح و بہبودى اسى نكتہ ميں مضمر ہے كہ مرد نہايت احتياط اور عقلمندى كے ساتھ يا تو ذاتى طور پر گھر كے اخراجات چلانے كى ذمہ دارى لے اوراگر خريد و فروخت كا كام كسى دوسرے كے سپردے تو اس كى نگرانى كرے _

آخر ميں ايك نكتے كا ذكر كرنا ضرورى معلوم ہوتا ہے كہ اگر چہ احتياط سے خرچ كرنا اچھى بات ہے اور خاندان كے مفاد ميں ہے ليكن سخت گيرى بھى اچھى چيز نہيں ہے _ اگر مرد كى مالى حالت اچھى ہے تو اسے چاہئے كہ اپنے بيوى بچوں پر اچھى طرح خرچ كرے _ اپنى آمدنى كے مطابق ان كے عمدہ لباس خوراك اور آرام وہ رہائشے كا بند و بست كرے _

مال و دولت خرچ كرنے اور زندگى كى ضروريات مہيا كرنے كے لئے ہوتى ہے نہ كہ محض جمع كرنے اور اپنے پيچھے باقى چھوڑ دينے كے لئے _ انسان كى زندگى سے اور اس كى بيوى بچوں كے رہن بہن اور غذا و لباس سے اس كى دولت و ثروت كا اظہار ہونا چاہئے _

آخر اس سے كيا فائدہ كہ مرد دن رات محنت كرے اور خوداپنے آپ كو اور اپنے خاندان كو سختى ميں ڈالے ركھے اور مال وپونچى جمع كركے اس دنيا سے رخصت ہوجائے جب تك زندہ رہے بيوى بچے عمدہ غذا اور اچھے لباس كے لئے ترستے رہيں اور غذائي كمى كے سبب ہميشہ بيمار يا كمزور رہيں اور اس كے مرنے كے بعد دولت كى تقسيم ميں آپس ميں لڑيں جھگڑيں _

اگر خدا نے انسان كودولت كى نعمت عطا كى ہے تو اسے چاہئے كہ اپنى آمدنى كے مطابق اپنے خاندان كا معيار زندگى بہتر بنائے_ ان كے لئے قيمتى لباس اور غذا كا انتظام كرے اپني

۲۴۲

آمدنى كے مطابق ہر فصل كے پھل ان كے لئے فراہم كرے _

پيغمبر اسلام (ص) فرماتے ہيں: وہ شخص ہم سے نہيں ہے جو مال و دولت كے اعتبار سے خوشحال ہو ليكن اپنے بيوى بچوں پر سخت گيرى كرے _(۲۵۷)

حضرت موسى بن جعفر (ع) فرماتے ہيں : مرد كے اہل و عيال اس كے پاس اسير كى مانند ہوتے ہيں پس خدا نے اس كو جو كچھ نعمت عطا كى ہے اسے چاہئے كہ اپنے اسيروں پر فراخدلى سے خرچ كرے _ ورنہ ممكن ہے خدا اس سے نعمتيں چھيں لے _(۲۵۸)

امام رضا (ع) فرماتے ہيں: مناسب يہ ہے كہ مرد اپنے اہل و عيال پر اچھى طرح خرچ كرے تا كہ وہ اس كى موت كا انتظار نہ كريں _(۲۵۹)

امير المومنين حضرت على (ع) فرماتے ہيں : ہر جمعہ كو اپنے اہل و عيال كے لئے پھل مہيا كرو تا كہ وہ لوگ جمعہ كے آنے سے خوش ہوں _(۲۶۰)

گھر كے كاموں ميں اپنى بيوى كى مدد كيجئے

يہ صحيح ہے كہ گھر كے كاموں كى ذمہ دارى عورتوں پر ہوتى ہے اور انھيں اس سے انكار بھى نہيں ہے _ ليكن اس بات كو مد نظر ركھنا چاہئے كہ امور خانہ دارى آسانى كام نہيں ہے _

گھر كے كام اتنا زيادہ ہوتے ہيں كہ ايك گھريلو خاتون شب و روز گھر كے كام انجام ديتى ہے اس كے بعد بھى بہت سے كام باقى رہ جاتے ہيں خصوصاً بعض خلاف معمول موقعوں پر مثلاً مہمانوں كى آمد سے كام بڑھ جاتے ہيں اور خاتون خانہ كو بيحد تھكاديتے ہيں _

گھر كے كام انجام دينے سے بيوى كوانكار نہيں مگر وہ اپنے شوہر سے اس بات كى ضرور متمنى رہتى ہے كہ كبھى كبھى وہ اس كى مدد كرديا كرلے _

جس وقت مرد گھر ميں داخل ہو اور ديكھے كہ اس كى بيوى ہر طرف سے كاموں ميں گھرى ہوئي ہے تو يہ مناسب نہيں كہ خود جاكر ايك گوشے ميں آرام كرے اور اس بات كا انتظاركرے

۲۴۳

اس كى بيوى فوراً چائے ناشتہ لے كر حاضر ہوگى _ بلكہ محبت ، انسانيت اور خاندانى صلح وصفائي كا تقاضہ يہ ہے كہ ايسے موقع پر اپنى بيوى كى مدد كو بڑھے اور جو كام انجام دے سكتا ہو اسے كرے _

يہ كوئي مردانگى كى بات نہيں ہے كہ گھر ميں كسى كام ميں ہاتھ نہيں لگائيں بلكہ بيٹھے بيٹھے حكم چلاتے رہيں اور اعتراضات اور روك ٹوك كرتے رہيں _

گھر كوئي كمانڈہيڈكوارٹر نہيں ہے بلكہ محبت و خلوص كا مركز ، باہمى تعاون اور ہم آہنگى كى جگہ ہے _ يہ نہ سوچئے كہ اگر ميں گھر ميں كام كروں گا تو ميرى عظمت و بزرگى ميں كمى آجائے گى اور ميرا رعب و دبدبہ كم ہوجائے گا _ جى نہيں يہ خيال بالكل غلط ہے بلكہ آپ كا يہ طرز عمل آپ كى بيوى كى نظروں ميں آپ كى قد رو منزلت بڑھادے گا اور دوسرے بھى آپ كو مہربان اورہمدرد انسان تصور كريں گے _ پيغمبر اسلام (ص) اپنى اتنى عظمت و بزرگى اور اعلى مقام كے باوجود گھر ميں كام كرتے تھے _(۲۶۱)

سروركائنات(ص) كى زوجہ حضرت عائشےہ كہتى ہيں : جب رسول خدا (ص) كو فرصت ہوتى تو اپنا لباس خود سيتے تھے اپنے جوتوں كى مرمت كرتے تھے اوردوسرے عام مردوں كى طرح گھر ميں كام كرتے تھے _(۲۶۲)

اسى طرح حضرت على بن ابى طالب (ع) اور دوسرے ائمہ معصومين (ع) ، امور خانہ دارى ميں اپنى بيويوں كى مدد كرتے تھے _

گھر جلدى آيا كيجئے

مرد جب تك شادى نہيں كرتا آزاد ہے _ چاہے گھر ديرسے آئے يا جلدى _ ليكن جب شادى كرلے تو اس كو اپنا پروگرام ضرورتبديل كرنا چاہئے اور جلدى گھر آنا چاہئے _

شوہر كو يہ بات مد نظر ركھنا چاہئے كہ اس كى بيوى صبح و شام تك گھر ميں زحمت اٹھاتى رہتى ہے _ گھر كے كام انجام دے كر ، كھانا پكاكر، كپڑے دھوكر، اور گھر كو صاف ستھرا كركے اب اپنے شوہر كى منتظر ہے كہ اس كا شوہر آئے تو دونوں ساتھ بيٹھ كرباتيں كريں _ او رانس و محبت كى لذت سے محفوظ ہوں _ بچے بھى باپ كے منتظر رہتے ہيں _ يہ چيز انسانيت اورانصاف سے

۲۴۴

بعيد ہے كہ مرد رات كو سيرو تفريح كے لئے يا كسى دوست كے يہاں وقت گزارنے يا گپ لڑانے كے لئے چلا جائے اور بيچارى بيوى اور بچے اس كے انتظار ميں بيٹھے رہيں ؟

كيا شوہر كا فرض بس اتنا ہى ہے كہ بيوى كو غذا اور لباس فراہم كردے ؟ بيوى شريك زندگى ہوتى ہے نہ كہ بغير تنخواہ واجرت كے خادمہ _ وہ شوہر كے گھر اس لئے نہيں آتى ہے كہ شب و روز محنت مشقت كرے اور بدلے ميں ايك ٹكڑا روئي كھالے _ بلكہ يہ اميد لے كر آئي ہے كہ دونوں دائمى طور پر ايك دوسرے كے مونس و غمگسار اور ساتھى و ہمدرد بن كر زندگى گزار يں گے بعض مرد انسانيت اور جذبات و احساسات سے بالكل عارى ہوتے ہيں اور بالكل انصاف سے كام نہيں ليتے اپنى پاكدامن اور باعصمت بيوى اورمعصوم بچوں كو گھر ميں چھوڑديتے ہيں اور خود آدھى آدھى رات تك گھر سے باہر عياشى اورسير و تفريح ميں گزارديتے ہيں _

وہ روپيہ پيسہ جيے گھر ميں خرچ ہونا چاہئے _ گھر سے باہر تلف كرديتے ہيں _ در اصل ان پيچاروں نے ابھى تك حقيقى محبت و انس كى لذت كو درك نہيں كيا ہے كہ فضول اور بيہودہ عيش و عشرت كو تفريح سمجھتے ہيں _ انھيں ذرا بھى خيال نہيں آتا كہ اس طرز عمل سے وہ اپنى حيثيت و آبرو كو خاك ميں ملائے دے رہے ہيں اور لوگوں كے درميان ايك ہوس باز و آوارہ مشہور ہوجاتے ہيں اپنى بھى مٹى پليد كرتے ہيں اور بيچارے بيوى بچوں كى بھى _ آخر كار تنگ آكر ان كى بيوياں عليحدگى اور طلاق كا مطالبہ كرديتى ہيں اور شادى شدہ زندگى كے تانے بانے بكھر جاتے ہيں _ عبرت كے لئے ذيل كے واقعات پر توجہ فرمايئے

ايك شخص جس نے اپنى كو طلاق دے دى تھى عدالت ميں كہا: شادى كے ابتدائي ايام ميں جوانى كے نشے ميں ہر شب اپنى بيوى كو گھر ميں تنہا چھوڑكر اپنے خراب دوستوں كے ساتھ سيروتفريح اور عيش و عشرت كى خاطر گھر سے باہر چلا جاتا اور صبح كے قريب واپس آتا _ ميرى جوان بيوى نے ميرى ان حركتوں سے عاجز آكر مجھ سے طلاق لے لى _ ہمارے دس بچے تھے _ يہ طے ہو اكہ

۲۴۵

مہينے ميں دو مرتبيہ ان كو ديكھوں گا _ كافى دن تك يہ سلسلہ چلتا رہا _ ليكن اب ايك مدت سے وہ مجھ سے مخفى ہوگئے ہيں اور ميں اپنے بچوں كو ديكھنے كے لئے بہت بے چين ہوں _(۲۶۳)

ايك عورت كہتى ہے _ تنہائي سے ميں بے حد عاجز آچكى ہوں _ ميرے شوہر كو ميرى اورميرى جان ليوا تنہائي كا ذرا بھى احساس نہيں ہوتا _ ہر روز آدھى رات تك گھر سے باہر سير وتفريح ميں وقت گزارتا ہے _(۲۶۴)

جناب محترم آپ بيوى بچوں والے ہيں اب آپ كو ہرگز يہ حق نہيں ہے كہ پہلے كى طرح آزادنہ گھومتے پھريں _ اپنے مستقبل اور اپنے خاندان كى فكر كيجئے _ اب آوراہ گردى اورعياشى سے دستبردار ہوجايئے اپنے نامناسب دوستوں سے دامن چھڑا ليجئے _ كام سے فارغ ہوكر سيدھے گھر آيا كيجئے اور اپنے بيوى بچوں كے ساتھ بيٹھٹے _ اور زندگى كا حقيقى لطف اٹھايئے فرض كيجئے آپ اچھے دوستوں كے درميان اٹھتے بيٹھے ہوں اور ان كى محفل ميں وقت گزارتے ہوں ليكن نصف شب تك گھر سے باہر رہنا كسى طرح مناسب نہيں _ آپ كے لئے يہ چيز ہرگز فائدہ بخش نہيں ہوگى بلكہ آپ كى زندگى كو متلاطم كردے گى _

وفادار بنيئے

جب مرد اور عورت رشتہ ازدواج ميں منسلك ہوجاتے ہيں تو ان كى انفرادى زندگى ايك مشترك اجتماعى زندگى ميں تبديل ہوجاتى ہے اس مقدس بندھں كے معنى يہ ہيں كہ مياں بيوى اس بات كا عہد كرتے ہيں كہ آخر عمر تك دونوں ساتھ زندگى گزاريں گے اور دونوں مل كر باہمى طور پر زندگى كا نظم و نسق چلائيں گے اور ايك دوسرے كى مدد كريں گے _ ايك دوسرے كے آرام و آسائس كے لئے كوشش كريں گے ايك دوسے كے مونس و غمخوار اور ساتھى ہوں گے _ جوانى اوربڑھاپے توانائي اور ناتوانى صحت و سلامتى اور دكھ بيمارى ميں ، سختيوں اورخوشحالى ف غرضكہ اچھے برے ہر حال ميں ايك دوسرے كا ساتھ نبھائيں گے _

۲۴۶

انسانيت اورشرافت كا تقاضہ ہے كہ مياں بيوى آخر عمر تك اس مقدس پيمان كو نبھاتے ہيں اور زندگى كى مشكلات اور پريشانيوں ميں اپنے عہد كو فراموش نہ كريں _ ايك لڑكى جو عين جوانى اور شباب كے دور ميں ، جبكہ اس كے بہت سے خواستگار ہوتے ہيں ، سب سے دامن جھٹك كر اپنى ہستى كو صرف اپنے شوہر كے لئے مخصوص كردتى ہے اور يہ اميد كرتى ہے كہ سارى زندگى اپنے شوہر كى پناہ ميں بسر كرے گي_ يہ چيز مردانگى كے خلاف ہے كہ عمر ڈھل جانے اور خوبصورتى و شادابى ميں كمى آجانے كے بعد وہ اپنى بيوى كو چھوڑدے اوردوسرى بساط بچھانے يا عيّاشى كرنے كى فكر كرے _

نادارى اور تنگدستى كے وقت بيوى ساتھ نبھاتى رہى اور اس كے گھر ميں زحمتيں اٹھاتى رہى ، كبھى آدھا پيٹ كھيا ، اس اميد ميں كہ ان كى زندگى ميں بھى كبھى اچھے دن آئيں گے اور آخر عمر اطمينان و فارغ البالى سے گزرے گى _ يہ رسم وفا نہيں ہے كہ جب مرد كى مالى حالت بہتر ہوجائے اور كچھ مال ودولت جمع كرلے تو دوسرى بيوى لانے كا سودا سماجائے _ يا بيوى كو گھر ميں چھوڑ كر خود عيش و عشرت اور موج اڑانے لگے _

يہ كون سى انسانيت ہے كہ سلامتى اور توانائي كى حالت ميں بغير كسى تنخواہ و اجرت كے ، بيوى كئي كئي خدمت كاروں كے برابر شوہر كے گھر ميں تنہا زحمت اٹھاتى رہى _ ليكن جب بيماراوركمزور ہوجائے تو اس كو چھوڑكر خود مستى مارنے كى فكر ميں لگ جائے _ حالانكہ ايسے وقت ميں شوہر كا فرض ہے كہ ناتوانى اور كمزورى كى حالت ميں اس كى مدد كرے اور اس سے ہمدردى كرے اسے تسلى دلائي _واقعاً بعض مرد مردانگى اوراحساسات و جذبات سے يكسر مبرا ہوتے ہيں جب ان كى بيوى جوان ، صحيح و سالم اور خوبصورت و شاداب رہتى ہے اس سے پھر پورا استفادہ كرتے ہيں ليكن بعد ميں جب اس كى جوانى اور شادابى ميں كمى آجاتى ہے تو اس كو چھوڑ كر عياشى ميں پڑجاتے ہيں يا نہايت فضول بہانے كركے اس كو

۲۴۷

طلاق دے ديتے ہيں

ذيل كے سچے واقعات پر توجہ فرمايئے_

ايك مرد اپنى بيوى كو منحوس كہہ كر طلاق دے ديتا ہے كيونكہ شادى كے بعد اس كے باپ كا انتقال ہوگيا اور ماموں كا ديوانيہ نكل گيا تھا _(۲۶۵)

ايك شخص اپنى بيوى كو طلاق دينے كى وجہ بيان كرتے ہوئے كہتا ہے : اس سے بہتر وجہ كيا ہوسكتے ہے كہ مجھے تم سے محبت نہيں ہے _ حالانكہ اس نے محبت كركے شادى كى تھى _(۲۶۶)

ايك عورت نے اپنے شوہر كے خلاف شكايت كى كہ مدتوں ميں نے اچھے برے ہر حال ميں اپنے شوہر كا ساتھ ديا _ اور نہايت خلوص و محبت كے ساتھ اس كى خدمت كى _ اب جبكہ ميں بيمار ہوگئي ہوں مجھ كو گھر سے نكال ديا اور كہتا ہے كہ مجھے بيمار بيوى نہيں چاہئے _(۲۶۷)

عاليجناب آپ حيوان نہيں ہيں كہ آپ كے سر ميں سوائے خود غرضى ، پيٹ بھرنے اور شہوت رانى كے اور كچھ نہيں سماتا _ آپ انسان ہيں ، انسان كو رحم ، شفقت و مہربانى اور ايثار و قربانى جيسى صفات كاحال ہونا چاہئے _ ايك معصوم لڑكى نے آپ كى خاطر ، اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں كو چھوڑكر اپنى جوانى و شادابى او رعفت و عصمت كو آپ كے سپرد كرديا _ ايك خدمت گارسے بڑھ كر آپ كے گھر ميں زحمتيں اور تكليفيں برداشت كيں ، ہر حال ميں آپ كا ساتھ ديا _ ہر طرح كارنج و محرومى برداشت كى _ كيا يہ سزاوار ہے كہ آپ اس كو چھوڑ كر عياشى كى فكر ميں پڑجائيں؟ اپنے اس طرز عمل سے آپ اس پر ظلم و ستم ڈھارہے ہيں اور ستم گار كو اسى دنيا ميں اس كے اعمال كى سزا مل جاتى ہے _ اگر آپ كسى اور عورت كے ساتھ عياشى كرتے ہيں تو چند لمحوں كى لذت كى خاطر، سينكڑوں ذہنى پريشانيوں اور الجھنوں ميں گرفتار ہوجائيں گے _ آپ كى عزت و آبرو خاك ميں مل جائے گى اور لوگوں ميں آپ خود غرض اور بے رحم مشہور ہوجائيں گے _ آپ كے بچے آپ كى اس حركت سے رنجيدہ خاطر ہوجائيں گے اور ہرروز آپ كى پريشانى اور الجھن ميں اضافہ ہوتا رہے گا _ اگر آپ كى بيوى بيمارہے تو اس كا

۲۴۸

علاج كرايئےا كہ صحت ياب اور صحيح و سالم ہوجائے _ اگر اس كا مرض لا علاج ہے تو اپنى مردانگى اورايثار و فداكارى كا ثبوت ديجئے اور جب تك زندہ رہے دوسرى شادى نہ كيجئے _

كيا آپ كا ضمير كو اس بات كى اجازت ديتا ہے كہ ايك مريض جو اپنى بيمارى كے سبب خود ہى دكھى اور پريشان ہے اسے آپ مزيد رنج پہونچائيں؟ اگر آپ اس كى جگہ ہوتے اور بيمارى اورسختى ميں مبتلا ہوتے تو اس كيا توقع ركھتے؟ وہى توقع وہ آپ سے ركھتى ہے

ايسى حالت ميں كہ آپ بيمارہوں اور آپ كى بيوى آپ سے عليحدگى كا مطالبہ كرے توكيا اس كا يہ فعل درست ہوگا؟ آپ اور دوسروں كى نظر ميںايك خود غرض اور بے وفا عورت شمار ہوگى _ اگر وفادارى اور ايثار كى آپ كى نظر ميں كچھ قدر ومنزلت ہے تو آپ بھى وفادارى سے كام ليجئے _

۲۴۹

تعليم و تربيت

ايك لڑكى جب شوہر كے گھر بياہ كرآتى ہے تو اس پر اس گھر چلانے كى ذمہ دارى آپڑتى ہے _ ايك گھر كا نظم و نسق چلانے كے لئے مختلف باتوں كا جاننا ضرورى ہوتا ہے _ مثلا كھانا پكانا كپڑے دھونا ، صفائي كرنا، استرى كرنا، سلائي كرنا، گھر كے سازوسامان كو قرينے سے ركھنا، مہمان نوازى كے آداب ، ملنے جلنے كے آداب شوہر كى ديكھ بھال اور بچہ كى نگہداشت اور اس قسم كے دوسرے كاموں سے واقف ہونا چاہئے _ شوہر اپنى نئي تويلى دلھن سے توقع ركھتا ہے كہ وہ يہ سارے كام جانتى ہوگى اور ايك مكمل تربيت يافتہ عورت ہوگى _ ليكن افسوس يہ سارى توقعات خاك ميں مل جاتى ہيں اورنئي دلہن يا تو آداب زندگى ہے بالكل ہى نابلد ہوتى ہے يا اس كى معلومات محدود ہوتى ہيں_

اب كيا كريں؟ ہمارے سماج كى يہ بھى ايك بڑى خامى ہے _ نہ ماں باپ اپنى لڑكى كو آداب و زندگى سكھاتے ہيں اور نہ ہى اسكول و كالج كے نصاب ميں اس قسم كى تعليم وتربيت دينا شامل ہوتا ہے _

حالانكہ بجائے بے فائدہ چيزيں سكھانے كے ، لڑكيوں كو آداب زندگى كى تعليم دى جائے تو ان كے كام

۲۵۰

بھى آئے گى _ بہر حال كوئي چارہ ہى نہيں لہذا اس كے علاج كى فكر كرنى چاہئے _ مرد چونكہ چاہتا ہے كہ اپنى بيوى كے ساتھ زندگى بسر كرے اس لئے ناچار ہے كہ اس كى تعليم و تربيت كرے _ تا كہ اس كى خامياں دور ہوجائيں _ عموماً شوہر عمر ميں اپنى بيوى سے بڑا ہوتا ہے اس لئے اس كے تجربات اور اطلاعات بھى زيادہ ہوتى ہيں _

اگر ذرا صبر و حوصلے سے كام لے تو بيوى كى خاميوں كو دور كركے اپنى مرضى كے مطابق اس كى تربيت كرسكتا ہے _ جن كاموں سے وہ واقف ہے انھيں نہايت نرمى اور شيريں بيانى كے ساتھ اسے سكھادے اس سلسلے ميں گھر كى تجربہ كارخواتين مثلاً ماں، بہن ، خالہ ، پھوپھى و غيرہ كى مدد لى جا سكتى ہے ،كھانا پكانے، خانہ داري، مہمان داري، شوہر داري، طرز معاشرت ، اور ملنے جلنے كے آداب و غيرہ سے متعلق كتابيں اسے پڑھنے كے لئے دينى چاہئيں_ اخلاقى كتابيں پڑھنے كى اسے ترغيب دلانى چاہئے _ اگر ديكھے كہ بيوى بداخلاق اور غير مہذب ہے تو ہمدردى اور نرمى كے ساتھ اسے سمجھانا چاہئے ليكن مہربانى اور ہمدردى كے انداز ميں خلوص ونرمى كے ساتھ ، نہ كہ اعتراض ، لعن طعن كے ساتھ كے ساتھ ، كيونكہ اسى صورت ميں نتيجہ برعكس برآمد ہوسكتا ہے _

مرد اگر شادى كے شروع كے ايك دو سال ذرا صبر وحوصلہ سے كام لے اور عقل و تدبر كے ساتھ اپنى بيوى كى تعليم و تربيت پر كمر ہمت باندھ لے تو اپنى مرضى كے مطابق اس كى تربيت كرسكتا ہے _ خواہ سوفيصد ى كاميابى نہ ہو ليكن بلا شك كسى حد تك اس كى خاميوں كو دور كر سكتا ہے _

يہ درست ہے كہ اس كام كے لئے وقت اور صبر و حوصلہ در كار ہے ليكن اس سلسلے ميں جس قدر محنت كرے گا خود اس كے مفاد ميں ہوگا _ كيونكہ اپنى شريك زندگى اور اپنے بچوں كى سرپرست كى تكميل كركے آخر عمر تك اس عمل كے ثمرات سے بہرہ مند ہوگا _

ايك اہم امر جس پر مرد كو توجہ دينى چاہئے وہ يہ ہے كہ اس كى نئي نويلى دلہن ايك مسلمان لڑكى ہے اور قاعدے سے اس كو دين اسلام كے احكام اور قوانين سے واقف ہونا چاہئے _ ليكن

۲۵۱

اكثر لوگ اسلام كے شرعى مسائل سے ناواقف ہوتے ہيں حتى كہ اسلام كى ابتدائي تعليمات مثلاً نماز ، وضو ، غصل اور تيمم و غيرہ جيسے بنيادى احكامات سے بھى بعض لڑكياں ناواقف ہوتى ہيں _ البتہ يہ ماں باپ كا فرض ہے كہ اپنى لڑكيوں كو اسلام كے احكام و قوانين سے روشناس كرائيں اور واجب احكام ياد كرائيں ليكن اب جبكہ انہوں نے اس سلسلے ميں كوتاہى كى ہے اور سادہ لوح بے گناہ لڑكى كوتعليم ديئےغير شادى كے بندھن ميں باندھ ديا ہے تو يہ اہم اور سنگين فريضہ شوہر پر عائد ہوتا ہے كہ اس دينى مسائل سے روشناس كرائے اور اسلام كے واجبات اور محرمات يعنى واجب اور حرام چيزوں كے بارے ميں بتائے _ اس كى عقل و فہم كے مطابق اس كو اسلامى اخلاق و عقائد كى تعليم دے _ اگر آپ خود اس كام كو انجام دے سكيں تو كيا كہنے _ اس كے علاوہ اہل علم سے مشورہ كركے سودمند اور علمى و اخلاقى و دينى كتابيں اور رسالے مہيا كركے اسے پڑھنے كى ترغيب دلايئے اسلامى دينى مسائل كى كتاب اس كو پڑھنے كو ديجئے _ ضرورت ہو تو ايك قابل اعتماد اور عالم و ديندار استاد كو اس كى تعليم و تربيت كے لئے مقرر كيجئے _

بہر حال بيوى كو اچھى باتوں كى طرف راغب كرنا اور منكرات سے روكنا ، اور اس كى رہنمائي كرنا شوہر كافرض ہے اگر اس نے اپنے اس فريضہ كو ادا كيا تو ايك ديندار، نيك و مہربان، خوش اخلاق اور دانا بيوى كى ہمراہى ميں زندگى بسر كرے گا اور اخروى ثواب كے علاوہ اس دنيا ميں ہى كاميابى سے ہمكنار ہوگا اور ار اپنے اس فريضہ كى انجام دہى ميں كوتاہى كى تو اس دنيا ميں ايك ضعيف الايمان اور لا علم بيوى كا ساتھ رہے گا جو دينى و اخلاقى اصولوں سے بے بہرہ ہوگى اور قيامت ميں بھى خداوند قہار اس سلسلے ميں بازپرس كرے گا ، خداوند بزرگ و برتر قرآن مجيد ميں فرماتا ہے :

اے ايماندارو خود اپنے آپ كو اور اپنے خاندان والوں كو جہنم كى اس آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن آدمى اور پتھرہوں گے _(۲۶۸)

امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں كہ جس وقت مذكورہ آيت نازل ہوئي اس كو سن كر ايك مسلمان

۲۵۲

رونے لگا اور بولاميں خود اپنے نفس كو آگ سے محفوفاركھنے سے عاجز ہوں چہ جائيكہ اس پرمجھے يہ ذمہ دارى سونپى گئي ہے كہ اپنے خاندان والوں كو بھى دوزخ كى آگ سے بچاؤ_ پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا: اسى قدر كافى ہے كہ جن كاموں كو تم انجام ديتے ہو اسى كو كرنے كو ان سے كہواور خودجن كاموں كوتمہيں چاہئے ترك كرو ان سے انھيں روكتے رہو_(۲۶۹)

پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا: مرد كو خاندان كا سرپرست مانا گيا ہے _ ہر سرپرست كے ذمہ اپنے ماتحتوں كى نسبت ذمہ دارى ہوتى ہے _(۲۷۰)

رسول خدا صلى اللہ عليہ و الہ و سلم نے عورتوں كو ياددہانى كرائي ہے كہ قبل اس كے كہ وہ (شوہر) تمہيں برے كام كرنے پر مجبور كريں تم انھيں نيك كام كرنے كى ترغيب دلاؤ_(۲۷۱)

بچوں كى پيدائش

ايك چيز جو كبھى كبھى مياں بيوى كے درميان اختلاف پيدا كرنے كا سبب بنتى ہے وہ ہے بچہ كى پيدائشے يہ اختلاف كبھى اس موضوع پر ہوتا ہے كہ بيوى بچہ چاہتى ہے اور شوہر بطور كلى اس كا مخالف ہوتا ہے يا كبھى اس كے برعكس ہوتا ہے _ يہ اختلاف كبھى اس قدر شدت اختيار گرجاتا ہے كہ ضداوركشمكش كا سلسلہ جارى رہتا ہے اور اس كا خاتمہ ہوتا ہے طلاق پر_

... نام كى ايك خاتون نے خاندان كى حميات كرنے والى عدالت ميں كہا كہ : ميں نے ۲۷ سال كى عمر ميں اپنى پسند سے يونيورسٹى كے تعليم يافتہ ايك مرد سے جو كہ ايران كى ايك يونيورسٹى ميں استاد ہے شادى كى _ اور ميں بہت خوش و خرم تھى _ ليكن ميرا شوہر بچہ پيدا كرنے كا سخت مخالف ہے _ اس كى اس بات نے مجھے سخت مضطرب اور پريشان كرديا ہے _ اصولى طور پر جبكہ ہم دونوں صحيح و سالم ہيں اوربچہ پيدا كرسكتے ہيں _ روپيہ پيسہ كى بھى ہمارے پاس كمى نہيں ہے غرضكہ ہر لحاظ سے ہم اس قابل ہيں كہ كم سے كم دو بچوں كى پرورش آسانى سے كرسكتے ہيں _ ميرى سمجھ ميں نہيں آتا كہ ميرا شوہر بچے كى پيدائشے كى اس قدر شدت سے مخالفت كيوں كرتا ہے _ حالانكہ اسے بچے

۲۵۳

برى نہيں لگتے اپنى بہن اور دوستوں كے بچوں كو اس قدر والہا نہ طريقے سے پيار كرتا ہے كہ جو اسے ديكھے سمجھے گا بيچارہ بچوں كا بھوكا ہے _ اب ميرى عمر ۲۰ سال ہوگئي ہے اور دنيا كى ہر عورت ماں بننے كى آرزومند ہوتى ہے _ ميرا شوہر ميرى آرزو سے واقف ہے مگر اس كے باوجود كہتا ہے بچہ ہمارے درميان مزاحم ہوگا اور ہمارى پريشانى كا باعث بنے گا _ مختصر يہ كہ اس قسم كے غير منطقى دلائل پيش كرتا ہے '' _

اس خاتون نے اتنا كہہ كر بڑى مشكل سے اپنے آنسوؤں پر قابو پايا مگر ظاہر ہوتا تھا كہ اس كواس بات كا بے حد شديد صدمہ ہے اور يہ بات ان كے درميان اس حد تك اختلاف كا سبب بن گئي ہے كہ دونوں عليحدہ ہونے پر راضى ہوگئے ہيں تا كہ وہ خاتون دوسرى شادى كركے اپنى ماں بننے كى آرزو كى تكميل كرسكے اورڈاكٹر صاحب اپنى علمى تحقيقات انجام ديتے رہيں _(۲۷۲)

بچے كى خواہش ہر انسان بلكہ ہر حيوان كى ايك فطرى آرزو ہے _ بچے كا وجود ، انسان كى شادى شدہ زندگى كا بہترين ثمرہ اور بہترين يادگار شماركيا جاتا ہے _ اگر انسان صاحب اولاد ہو تو اسكى موت سے اس كى زندگى كى ياديں ختم نہيں ہوجاتيں بلكہ گويا اس كى عمر بہت طويل ہوجاتى ہے _

لا ولد انسان اپنے آپ كو بے وارث اورتنہا محسوس كرتا ہے اوريہ احساس بڑھاپے ميں شديدتر جاتا ہے _ بچے كا وجود خاندانى زندگى كو گرم اور پر لطف بناتا ہے جس گھر ميں بچہ نہ ہو اس گھر ميں ويرانى برستى ہے _ جوش وولولہ كا نام ونشان تك نہيں ہوتا _ بے اولاد جوڑوں كو ہميشہ رشتہ ازدواج منقطع ہوجانے كاخطرہ لاحق رہتا ہے _

امام صادق (ع) فرماتے ہيں : شائستہ اولاد، انسان كى سعادت كا باعث بنتى ہے _(۲۷۳)

پيغمبر اسلام (ص) فرماتے ہيں : زيادہ اولاد پيدا كرو تا كہ قيامت كے روز، تمہارے وسيلے سے تمام امتوں فخر كروں _(۲۷۴)

۲۵۴

جى ہاں اولاد سے محبت ايك فطرى امر ہے ليكن بعض انسان آئين فطرت سے منحرف ہو كر ايك قسم كى بيمارى ميں مبتلا ہوجاتے ہيں _ كبھى فقر و تنگدستى كا بہانہ كرتے ہيں _ حالانكہ روزى كى ضمانت خدانے لى ہے اور كسى نہ كسى ذريعہ سے روزى پہونچاتا ہے _ بكربن صالح كہتے ہيں: حضرت ابوالحسن (ع) كو ميں نے لكھا كہ پانچ سال سے بچہ پيدا كرنے سے گريز كررہاہوں كيونكہ ميرى بيوى راضى نہيں كہتى ہے چونكہ ہم تہى دست ہيں اس لئے بچہ كى پرورش كرنا مشكل ہے _ اس سلسلے ميں آپ كى كيا رائے ہے ؟

حضرت نہ مجھ كو لكھا كہ بچے كى پيدايش سے مانع نہ ہو كيونكہ خدا روزى پہونچانے والا سے _(۲۷۵)

حتى كہ كبھى خدا بچہ كے وجود كى بركت سے ماں باپ كى روزى ميں اضافہ كرتا ہے _ بہت سے لوگ ہيں جو بچوں كى پيدائشے سے قبل پريشانى اور تنگدستى ميں مبتلا تھے مگر بعد ميں خوشحال ہوگئے _ بعض لوگ بچے كے وجود كو آزادى ميں ركاوٹ اور مزاحمت سمجھتے ہيںحالانكہ بچہ نہ صرف يہ كہ مزاحم نہيں ہوتا بلكہ ماں باپ كے لئے تفريح اور دل بہلانے كا بہترين وسيلہ ہوتا ہے _

يہ صحيح ہے كہ بچے كى پرورش اور تعليم و تربيت ميں بہت زحمتيں اٹھاتى پڑتى ہيں ليكن چونكہ يہ ايك فطرى عمل ہے اس لئے اس كو برداشت كرنا مشكل نہيں ہے بلكہ منفعت بخش ہوتا ہے _ حقيقتاً وہ جوڑے كس قدر خود غرض ، ضدى اور كوتاہ فكرہوتے ہيں جن كے درميان بچہ پيدا كرنے كا مسئلہ باہمى نزاع كا سبب بن جاتا ہے اور اس كى خاطر ازدواجى زندگى كے مقدس بندھن كو توڑ ڈالتے ہيں _

كيا ايك مرد ہ وہ بھى ايك دانشور كو يہ بات زيب ديتى ہے كہ وہ بچہ پيدا كرنے كى ، جوكہ ہر ماں باپ كى ايك فطرى آرزو ہوتى ہے ، مخالفت كرے اور اس بات پر اسے اس قدر شديد اصرار ہوكہ شادى شدہ زندگى كى بنيادوں كو درہم برہم كرنے پر تيار ہوجائے _ كچھ لوگوں كے يہاں بچہ كى پيدائشے كے مسئلہ پر اختلاف نہيں ہوتا ليكن دير يا جلدى كے مسئلہ پر اختلاف ہوتا ہے _

۲۵۵

بيوى يا مياں كوئي ايك كہتا ہے كہ جوانى كے دور كو خوشى اور آزادى و بے فكرى كے ساتھ گزارنا چاہئے _ بچے كا وجود آزادى ميں مانع ہوتا ہے _ جوانى كے ايام ميں بچے كى پيدائشے سے گريز كرنا چاہئے البتہ آخر عمر ميں ايك دوبچے ہوجائيں تو كوئي بات نہيں _ ليكن ان ميں سے دوسرے كو اس بات سے اختلاف ہوتا ہے اوريہى اختلاف لڑائي جھگڑے اور كشمكش كا باعث اور كبھى كبھى عليحدگى و طلاق كا سبب بن جاتا ہے _ ايك بات كى يادآورى ضرورى معلوم ہوتى ہے كہ اگر انسان اولاد چاہتا ہے تو بچے جتے جلدى ہوجائيں اتنا ہى بہتر ہے كيونكہ جوانى كے دور كى اولاد ، بڑھاپے كے دور كے اولاد س كئي لحاظ سے بہتر ہوتى ہے _ اول تو يہ كہ ايسے بچے عموماً زيادہ تندرست و توانا ہوتے ہيں دوسرے چونكہ زيادہ مدت تك ماں باپ كے ساتھ رہنے كا موقع ملتا ہے اس لئے ان كى تعليم و تربيت زيادہ بہتر طريقے سے ہوسكتى ہے _ اس كے برخلاف بڑھا پے كى اولاد عموماً تعليم و تربيت سے بالكل محروم ہوجاتى ہے اور ماں باپ كى موت يا ان كے معذور ہوجانے كے باعث اكثر بدبخت اور دوسروں كے دست نگر ہوجاتے ہيں _

تيسرے يہ كہ جوانى ميں پيدا ہونے والے بچے، جب تك ان كے ماں باپ بوڑھے اورريٹائر ہوں ، ايك مقام و منصب حاصل كرليتے ہيں _ اس طرح بڑھاپے اور ناتوانى كے زمانے ميں ماں باپ اپنى اولاد كى مدد سے بہرہ مند ہوسكتے ہيں بہرحال اس بات ميں كوئي شك نہيں كہ جوانى ميں اولاد كى پيدائشے ، بڑھاپے كے دورسے بہتر ہے _ ليكن يہ بات اس قدر بھى اہم نہيں ہے كہ اس كے باعث باہمى لڑائي جھگڑے اور طلاق كى نوبت آجائے _ بہتر ہے كہ كوئي ايك جھك جائے اور جھگڑے كو رفع كرے _ كبھى بچوں كى تعداد كے مسئلہ پر اختلاف ہوتا ہے مثلا ً مرد زيادہ بچے چاہتا ہے ليكن بيوى اس كى مخالفت كرتى ہے يا اس كے برعكس _

ايك عورت ايسى حالت ميں كو دو بچوں كو گود ميں لئے ہوئے تھى كہتى ہے:

شادى كے بعد چار سال كے اندر دو لڑكياں ہوئيں ليكن چونكہ ميرے شوہر كوبيٹے

۲۵۶

كى خواہش تھى اس لئے پھر حاملہ ہوگئي _ ليكن اس بار بھى ميرے شوہر كى خواہش كے برخلاف لڑكى پيدا ہوگئي اور اب ميرى تين بيٹياں ہوگئي ہيں _ ميرا شوہر ايك بينك ميں كام كرتا ہے اس كى آمدنى بس ہم دو مياں بيوى اور تين بچوں كے گزارے بھر كے لئے ہے _ ايك مدت سے اس بات پر مصر ہے كہ بچوں كى پيدائشے كا سلسلہ جارى رہے تا كہ شايد كبھى ايك بيٹا پيدا ہوجائے _ ميں اس كى محتمل نہيں ہوسكتى كيونكہ ايك تيسرے درجے كے طبقے سے تعلق ركھنے والے خاندان كے لئے كہ جس كى آمدنى نہايت معمولى ہے زيادہ اولاد ماں باپ كے لئے پريشانى كا باعث بن جاتى ہے _ بارہا ميں نے اس سےكہا كہ لڑكى لڑكے ميں كوئي فرق نہيں مگر وہ سنتا ہى نہيں مجھے خطرہ ہے كہ كہيں پھرلڑكى نہ ہوجائے تو اس وقت ميرا شوہر لڑكے كا بہانہ كركے پانچويں بچے كى فكر كرے گا اس بات سے مجھ اختلاف ہے اور يہى مسئلہ ہميں عدالت ميں لانے كابا عث بناہے _(۲۷۶)

يہاں اس بات كى ياددہانى ضرورى معلوم ہوتى ہے كہ زيادہ بچوں كے اخراجات پورے كرنا اور ان كى تعليم و تربيت بہت دشوار كام ہے _ اور وہ بھى اس زمانے ميں كم آمدنى والے افراد كيلئے بہترہے كہ مياں بيوى ہٹ دھرمى چھوڑكر اپنے مالى امكانات اوراپنے حالات كو مد نظر ركھ كر اولاد كى تعداد كے بارے ميں اتفاق رائے كريں _ ضد اورہٹ دھرمى كوئي اچھى بات نہيں ہے _ مياں بيوى كو عقل و تدبر سے كام لينا چاہئے اور اپنى مشكلات كو آپس ميں مل كر طے كرلينا چاہئے اگر ان ميں سے كوئي ايك ضدپر اڑاہوا ہے اور دوسرا مفاہمت كرے تو لڑائي جھگڑے اور عليحدگى كى نوبت نہيں آئے گى _

در اصل يہ موضوع اتنا اہم نہيں ہے _ كثير الاولاد اوركم بچے والے خاندان بہت سے ہوتے ہيں _ لہذا صرف اس بات كى خاطر مياں بيوى آپس ميں لڑيں جھگڑيں اور شادى كے مقدس بندھن كو توڑڈاليں يہ كسى طرح بھى مناسب نہيں اور نہ ہى كسى كے مفاد ميں ہے _

كبھى لڑكے اور لڑكے كے موضوع پر اختلاف ہوتا ہے _ مياں بيوى دونوں ہى زيادہ تر

۲۵۷

لڑكے كو لڑكى پرترجيح ديتے ہيں اورلڑكى كى پيدائشے سے انھيں خوشى نہيں ہوتى _ اگر لڑكى ہوجاتى ہے تو چونكہ كوئي چارہ نہيں بيوى تو خاموشى رہتى ہے ليكن اكثر مرد ناراضگى كا اظہار كرتے ہيں _

البتہ مختلف قسم كے مرد ہوتے ہيں بعض مرد دل ميں رنجيدہ ہوتے ہيں ليكن خوددارى سے كام ليتے ہيں اور اپنے شديد رد عمل كا اظہار نہيں كرتے فقط ملال ظاہر كرتے ہيں اور ان كامنہ لٹك جاتا ہے وضع حمل كے زمانے نے ميں اپنى بيوى پر پورى توجہ نہيں ديتے _ كچھ دنوں تك رنجيدہ رہتے ہيں _ بعض لوگ اپنے شديد رد عمل كا اظہار كرتے ہيں _ اپنى بے گناہ بيوى سے لڑتے ہيں مختلف بہانے كركے غصہ كرتے ہيں _ بعض توحد سے تجاوز كرجاتے ہيں _ بيوى كو مارتے پيٹتے ہيں اور طلاق دينے پر بھى آمادہ ہوجاتے ہيں _

ايك عورت نے عدالت ميں بتايا : سواسال قبل ميرى شادى ہوئي تھى چھ ماہ بعد ميں حاملہ ہوگئي _ ميرا شوہر كہا كرتا تھا كہ مجھے بيٹا چاہئے _ مجھے محسوس ہوتا تھا كہ ميرے پيٹ ميں ايك كے بجائے دو يا تين بچے ہيں _

چند روز قبل اسپتال ميں ميرى دو جڑوال لڑكياں پيد اہوئيں _ جب نرس نے مجھے دو جڑوال لڑكيوں كى خبر سنائي تو ميں خوشى سے پھولى نہيں سمار ہى تھى _ جب ميرا شوہر مجھے ديكھنے آيا اور اسے دو لڑكيوں كى خبر سنائي تو وہ ناراض ہوگيا اور كچھ دير بعد كوئي بہانہ كركے كمرے سے باہر چلا گيا اور پھر واپس نہيں آيا _ رات كو جب ميرا شوہر مجھے لينے آيا تو ميں نے اس سے كہا كہ بچيوں كولے آؤ_ وہ پچھلے دروازے سے باہر نكل گيا اورشور مچانے اور غصہ كرنے لگا بولا '' دو جڑوال لڑكياں نہيں ہونى چاہئے تھيں_ ان بچيوں كو يہيں چھوڑ دو '' ميں بھى اپنے باپ كے گھر چلى آئي اور اب طلاق كى درخواست كرتى ہوں _(۲۷۷)

ايك خاتون نے عدالت ميں اخبار اطلاعات كے رپورٹر كوبتايا: اپنى ۲۱ سالہ شادى شدہ زندگى ميں نے خون كے گھونٹ پى پى كر گزارى ہے _ پانچ بچوں كى پيدائشے كے بعد مجھے عليحدہ

۲۵۸

ہونے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے _كيونكہ ميرا شوہر ايك ايسى عورت سے شادى كرنا چاہتا ہے جس ميں صرف ايك خوبى ہو كہ وہ لڑكا پيدا كرسكے _ اس خاتون نے بڑے دكھ سے كہا ميرا قصور صرف يہ ہے كہ ميں نے لڑكيوں كو جنم ديا ہے _ ميرى پانچ لڑكياں ہيں سب كى سب خوبصورت ، ذہن و عقلمند اور پڑھنے ميں تيز ہيں _ اور كبھى اپنے باپ كے لئے پريشانى كا باعث نہيں بنيں _ جب خدا كى مرضى نہيں كہ مجھے ايك بيٹادے تو اس كے لئے ميں كيا كروں؟ آج تك ميرا شوہر مجھے سے يہ اصرار كرتا رہا ہے كہ ميں اس ايك اور شادى كرنے كى اجازت دے دوں _(۲۷۸)

افسوس كہ يہ برى عادت جو بعض مردوں ميں پائي جاتى ہے در اصل دور جاہليت كى يادگار كے طور پر ہمارے درميان آج بھى باقى ہے _ وہ دور جس ميں مردوں كو عورت كے انسان ہونے ميں شبہ تھا لڑكى كا باپ بن جانے سے حقارت و شرمندگى محسوس كرتے تھے بے گناہ لڑكيوں كو زندہ دفن كرديتے تھے _ قرآن مجيد ان لوگوں كے بارے ميں فرماتا ہے :_

جس وقت ان ميں سے كسى كو لڑكى پيداہونے كى خبر ملتى تو شرم كے مارے اس كا چہرہ سياہ پڑجاتا اور خشم ناك ہوجاتا _ اور اس كى خبر كو سن كر اپنى قوم كے لوگوں كى نظروں سے چھپا چھپا پھر تا اور سوچتا كہ آيا خفت وخوارى كے ساتھ اس كى حفاظت كرے يا اسے (زندہ ہي) زمين ميں چھپادے _ديكھو يہ لوگ كس قدر بے انصافى سے كام ليتے ہيں _(۲۷۹)

ليكن اسلام ان غلط افكار كا مقابلہ كرتا ہے عورت و مرد كو يكساں اور برابر قرار ديتاہے _ پيغمبر اسلام ''رحمة للعالمين'' (ص) فرماتے ہيں : تمہارى بہترين اولاد لڑكياں ہيں _(۲۸۰)

حضرت پيغمبر اكرم (ص) فرماتے ہيں : عورت كى خوش قدمى كى علامت ہے كہ اس كى پہلى اولاد لڑكى ہو _(۲۸۱)

حضرت رسول خدا (ص) ، يہ بھى فرماتے ہيں _ جو شخص تين بيٹيوں يا تين بہنوں كى پرورش كرے اس پر بہشت واجب ہوگئي _(۲۸۲)

۲۵۹

اگر لڑكى خراب چيز ہوتى تو خداوند عالم اپنے پيغمبر (ص) كى نسل كو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كے ذريعہ قائم نہ كرتا _

جناب محترم آپ روشن خيال اور تہذيب يافتہ ہونے كا دعوى كرتے ہيں _ ان غلط افكار كو دور پھينكئے _ بيٹے اوربيٹى ميں كيا فرق؟ دونوں ہى آپ كى اولاد اور اپنے ماں باپ كى يادگار ہوتے ہيں _ دونوں ہى انسان ہيں اور ترقى وتكامل كے قابل ہيں _ اگر لڑكى كى صحيح طريقے سے تعليم و تربيت كى جائے تو وہ سماج كى ايك برجستہ فرد ہوسكتى ہے _ اور معاشرے ميں قابل قدر خدمات انجام دے سكتى ہے اور اپنے والدين كى سربلندى و افتخار كا باعث بن سكتى ہے _ بلكہ بيٹى كئي لحاظ سے بيٹے سے برتر ہوتى ہے _ مثلاً

بيٹياں ، اپنے والدين كا زيادہ خيال كرتى ہيں _ بعض لڑكے جب بڑے ہوجاتے ہيں اور آزاد ہوجاتے ہيں تو اپنے والدين پر زيادہ توجہ نہيں ديتے _ اگر ان كو آزار نہيں پہونچاتے تو اپنے وجود سے كوئي خاص فائدہ بھى نہيں پہونچاتے _ ليكن لڑكى ہر حال ميں اپنے والدين كى نسبت ہمدرد اور مہربان ہوتى ہے خصوصاً اگر والدين بيٹے بيٹى ميں فرق نہ كريں اور بيٹيوں كے حقوق پائمال نہ كريں تو ہميشہ اپنى بيٹيوں كى نظروں ميں محترم و محبوب رہتے ہيں _

اقتصادى لحاظ سے بھى بيٹى ، بيٹے كے مقابلے ميں كم خرچ ہوتى ہے _ ماں باپ كے پاس رہنے كا وقفہ كا نسبتاً كم ہوتا ہے _ بڑے ہوتے ہى ايك مختصر جہيز لے كر شوہر كے گھر چلى جاتى ہے _ اس كے بعدماں باپ اس كے فرض سے سبكدوش ہوجاتے ہيں ليكن بيٹا زيادہ مدت تك بلكہ آخر عمر تك ماں باپ كے سرپربار ہوتا ہے _ اس كى تعليم كا خرچ اٹھانا ، پھر اس كے لئے مناسب كام تلاش كرنا _ اس كى شادى كرنا، شادى كے اخراجات اٹھانا ، اس كے بعد جب ضرورت ہوئي والدين كے سرپر آپڑا _

اگر والدين بيٹے بيٹى ميں فرق نہ كريں اوراپنے داماد كے ساتھ اچھا سلوك كريں اور اپنے بيٹے جيسى محبت كريں اور اس كى مشكلات اور پريشانيوں ميں اس كى مدد كريں تو اكثر داماد بيٹے سے

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299