ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق0%

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 299

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

مؤلف: ‏آیة الله ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 299
مشاہدے: 69817
ڈاؤنلوڈ: 3038

تبصرے:

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 299 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 69817 / ڈاؤنلوڈ: 3038
سائز سائز سائز
ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

مؤلف:
اردو

اعتدال پسند ہوتے ہيں _(۲۵۳) امام صادق (ع) فرماتے ہيں : جو شخص اپنى آمدنى كا لحاظ ركھئے ميں ضمانت ليتا ہوں كہ وہ كبھى فقير نہيں ہوگا _

امام جعفر صادق (ع) ايك اور موقع پر فرماتے ہيں : چار قسم كے لوگوں كى دعا قبول نہيں ہوتى ان ميں سے ايك وہ ہيں جو اپنا مال بيكار تلف كرتے ہيں اور پھر كہتے ہيں كہ اے خدا مجھ كو روزى عطا كر ،پس خدا فرماتا ہے كيا ميںنے تم كو حكم نہيں ديا تھا كہ اخراجات پر كنٹرول كرو _(۲۵۵)

عبداللہ بن ابان كہتے ہيں : ميں نے امام موسى كاظم (ع) سے خاندان پر بخشش كے متعلق سوال كيا _ فرمايا : اسراف اور كم خرچ كرنا دونوں مكروہ ہيں _ ميانہ روى سے كام لينا چاہئے _(۲۵۶)

عقلمند اور عاقبت انديش انسان ، حتى الامكان قرض لينے اور قرض پر سامان خريد نے سے پرہيز كرتے ہيں _ اور غير ضرورى مصارف كے لئے اپنے آپ كو قرض كے بوجھ تلے نہيں دبا تے _ وہ پيسہ جو بينكوں يا دوسرے اداروں سے سود كى شرح پر قرض لے كر فراہم كيا جائے شرعى اور عقلى اعتبار سے پسنديدہ نہيں ہے _

قسطوں پر چيزيں خريدنا ، اگر چہ ممكن ہے زندگى كو بظاہر پر كشش بنادے ليكن در حقيقت خاندان كى خوشى اور سكون كو سلب كرنے كا باعث بنتاہے _ قسطوں پر مكان ، قسطوں پر فريج ، قسطوں پرٹى وى ، قسطوں پر كار، قسطوں پر ٹيليفون ، قسطوں پر قالين و غيرہ و غيرہ _ يہ كوئي زندگى ہوئي ؟ آخر ايسا كيا ضرورى ہے كہ انسان غير ضرورى اشياء كو زيادہ قيمتوں پر خريد ے اور قسطيں ادا كرنے كے لئے اپنى آمدنى كا ايك حصہ بينكوں اور دوسرے اداروں كے فنڈميں بھرے _ كيا يہ بہتراور زيادہ مفيد نہ ہوگا كہ ذرا صبر سے كام لے كہ مالى حالت كچھ بہتر ہوجائے اس كے بعد وہى چيزيں كم قيمت پر نقد ادا كركے خريد لے ؟

يہ درست ہے كہ روپيہ پيدا كرنا مشكل كام ہے اور انسان كى زندگى پر اس كا بہت اثر پڑتا ہے ليكن اس سے اہم بات روپيہ كو صحيح طريقے سے خرچ كرنا ہے _ بہت سے ايسے خاندان ہوتے ہيں جو اپنے اچھى آمدنى كے باوجود ہميشہ پريشان اور مقروض رہتے ہيں _

۲۴۱

اس كے برعكس بہت سے ايسے لوگ بھى ہوتے ہيں جو اپنى معمولى آمدنى كے باوجود نہايت سكون و اطمينان كے ساتھ آبرومندانہ طريقے سے زندگى گزارتے ہيں ان كى حالت ہر لحاظ سے اچھى اور اطمينان بخش ہوتى ہے _

ان دونوں قسم كے گروہوں ميں فرق يہى ہے كہ اپنى آمدنى كو كس طرح سے خرچ كرتے ہيں _ لہذا خاندان كى فلاح و بہبودى اسى نكتہ ميں مضمر ہے كہ مرد نہايت احتياط اور عقلمندى كے ساتھ يا تو ذاتى طور پر گھر كے اخراجات چلانے كى ذمہ دارى لے اوراگر خريد و فروخت كا كام كسى دوسرے كے سپردے تو اس كى نگرانى كرے _

آخر ميں ايك نكتے كا ذكر كرنا ضرورى معلوم ہوتا ہے كہ اگر چہ احتياط سے خرچ كرنا اچھى بات ہے اور خاندان كے مفاد ميں ہے ليكن سخت گيرى بھى اچھى چيز نہيں ہے _ اگر مرد كى مالى حالت اچھى ہے تو اسے چاہئے كہ اپنے بيوى بچوں پر اچھى طرح خرچ كرے _ اپنى آمدنى كے مطابق ان كے عمدہ لباس خوراك اور آرام وہ رہائشے كا بند و بست كرے _

مال و دولت خرچ كرنے اور زندگى كى ضروريات مہيا كرنے كے لئے ہوتى ہے نہ كہ محض جمع كرنے اور اپنے پيچھے باقى چھوڑ دينے كے لئے _ انسان كى زندگى سے اور اس كى بيوى بچوں كے رہن بہن اور غذا و لباس سے اس كى دولت و ثروت كا اظہار ہونا چاہئے _

آخر اس سے كيا فائدہ كہ مرد دن رات محنت كرے اور خوداپنے آپ كو اور اپنے خاندان كو سختى ميں ڈالے ركھے اور مال وپونچى جمع كركے اس دنيا سے رخصت ہوجائے جب تك زندہ رہے بيوى بچے عمدہ غذا اور اچھے لباس كے لئے ترستے رہيں اور غذائي كمى كے سبب ہميشہ بيمار يا كمزور رہيں اور اس كے مرنے كے بعد دولت كى تقسيم ميں آپس ميں لڑيں جھگڑيں _

اگر خدا نے انسان كودولت كى نعمت عطا كى ہے تو اسے چاہئے كہ اپنى آمدنى كے مطابق اپنے خاندان كا معيار زندگى بہتر بنائے_ ان كے لئے قيمتى لباس اور غذا كا انتظام كرے اپني

۲۴۲

آمدنى كے مطابق ہر فصل كے پھل ان كے لئے فراہم كرے _

پيغمبر اسلام (ص) فرماتے ہيں: وہ شخص ہم سے نہيں ہے جو مال و دولت كے اعتبار سے خوشحال ہو ليكن اپنے بيوى بچوں پر سخت گيرى كرے _(۲۵۷)

حضرت موسى بن جعفر (ع) فرماتے ہيں : مرد كے اہل و عيال اس كے پاس اسير كى مانند ہوتے ہيں پس خدا نے اس كو جو كچھ نعمت عطا كى ہے اسے چاہئے كہ اپنے اسيروں پر فراخدلى سے خرچ كرے _ ورنہ ممكن ہے خدا اس سے نعمتيں چھيں لے _(۲۵۸)

امام رضا (ع) فرماتے ہيں: مناسب يہ ہے كہ مرد اپنے اہل و عيال پر اچھى طرح خرچ كرے تا كہ وہ اس كى موت كا انتظار نہ كريں _(۲۵۹)

امير المومنين حضرت على (ع) فرماتے ہيں : ہر جمعہ كو اپنے اہل و عيال كے لئے پھل مہيا كرو تا كہ وہ لوگ جمعہ كے آنے سے خوش ہوں _(۲۶۰)

گھر كے كاموں ميں اپنى بيوى كى مدد كيجئے

يہ صحيح ہے كہ گھر كے كاموں كى ذمہ دارى عورتوں پر ہوتى ہے اور انھيں اس سے انكار بھى نہيں ہے _ ليكن اس بات كو مد نظر ركھنا چاہئے كہ امور خانہ دارى آسانى كام نہيں ہے _

گھر كے كام اتنا زيادہ ہوتے ہيں كہ ايك گھريلو خاتون شب و روز گھر كے كام انجام ديتى ہے اس كے بعد بھى بہت سے كام باقى رہ جاتے ہيں خصوصاً بعض خلاف معمول موقعوں پر مثلاً مہمانوں كى آمد سے كام بڑھ جاتے ہيں اور خاتون خانہ كو بيحد تھكاديتے ہيں _

گھر كے كام انجام دينے سے بيوى كوانكار نہيں مگر وہ اپنے شوہر سے اس بات كى ضرور متمنى رہتى ہے كہ كبھى كبھى وہ اس كى مدد كرديا كرلے _

جس وقت مرد گھر ميں داخل ہو اور ديكھے كہ اس كى بيوى ہر طرف سے كاموں ميں گھرى ہوئي ہے تو يہ مناسب نہيں كہ خود جاكر ايك گوشے ميں آرام كرے اور اس بات كا انتظاركرے

۲۴۳

اس كى بيوى فوراً چائے ناشتہ لے كر حاضر ہوگى _ بلكہ محبت ، انسانيت اور خاندانى صلح وصفائي كا تقاضہ يہ ہے كہ ايسے موقع پر اپنى بيوى كى مدد كو بڑھے اور جو كام انجام دے سكتا ہو اسے كرے _

يہ كوئي مردانگى كى بات نہيں ہے كہ گھر ميں كسى كام ميں ہاتھ نہيں لگائيں بلكہ بيٹھے بيٹھے حكم چلاتے رہيں اور اعتراضات اور روك ٹوك كرتے رہيں _

گھر كوئي كمانڈہيڈكوارٹر نہيں ہے بلكہ محبت و خلوص كا مركز ، باہمى تعاون اور ہم آہنگى كى جگہ ہے _ يہ نہ سوچئے كہ اگر ميں گھر ميں كام كروں گا تو ميرى عظمت و بزرگى ميں كمى آجائے گى اور ميرا رعب و دبدبہ كم ہوجائے گا _ جى نہيں يہ خيال بالكل غلط ہے بلكہ آپ كا يہ طرز عمل آپ كى بيوى كى نظروں ميں آپ كى قد رو منزلت بڑھادے گا اور دوسرے بھى آپ كو مہربان اورہمدرد انسان تصور كريں گے _ پيغمبر اسلام (ص) اپنى اتنى عظمت و بزرگى اور اعلى مقام كے باوجود گھر ميں كام كرتے تھے _(۲۶۱)

سروركائنات(ص) كى زوجہ حضرت عائشےہ كہتى ہيں : جب رسول خدا (ص) كو فرصت ہوتى تو اپنا لباس خود سيتے تھے اپنے جوتوں كى مرمت كرتے تھے اوردوسرے عام مردوں كى طرح گھر ميں كام كرتے تھے _(۲۶۲)

اسى طرح حضرت على بن ابى طالب (ع) اور دوسرے ائمہ معصومين (ع) ، امور خانہ دارى ميں اپنى بيويوں كى مدد كرتے تھے _

گھر جلدى آيا كيجئے

مرد جب تك شادى نہيں كرتا آزاد ہے _ چاہے گھر ديرسے آئے يا جلدى _ ليكن جب شادى كرلے تو اس كو اپنا پروگرام ضرورتبديل كرنا چاہئے اور جلدى گھر آنا چاہئے _

شوہر كو يہ بات مد نظر ركھنا چاہئے كہ اس كى بيوى صبح و شام تك گھر ميں زحمت اٹھاتى رہتى ہے _ گھر كے كام انجام دے كر ، كھانا پكاكر، كپڑے دھوكر، اور گھر كو صاف ستھرا كركے اب اپنے شوہر كى منتظر ہے كہ اس كا شوہر آئے تو دونوں ساتھ بيٹھ كرباتيں كريں _ او رانس و محبت كى لذت سے محفوظ ہوں _ بچے بھى باپ كے منتظر رہتے ہيں _ يہ چيز انسانيت اورانصاف سے

۲۴۴

بعيد ہے كہ مرد رات كو سيرو تفريح كے لئے يا كسى دوست كے يہاں وقت گزارنے يا گپ لڑانے كے لئے چلا جائے اور بيچارى بيوى اور بچے اس كے انتظار ميں بيٹھے رہيں ؟

كيا شوہر كا فرض بس اتنا ہى ہے كہ بيوى كو غذا اور لباس فراہم كردے ؟ بيوى شريك زندگى ہوتى ہے نہ كہ بغير تنخواہ واجرت كے خادمہ _ وہ شوہر كے گھر اس لئے نہيں آتى ہے كہ شب و روز محنت مشقت كرے اور بدلے ميں ايك ٹكڑا روئي كھالے _ بلكہ يہ اميد لے كر آئي ہے كہ دونوں دائمى طور پر ايك دوسرے كے مونس و غمگسار اور ساتھى و ہمدرد بن كر زندگى گزار يں گے بعض مرد انسانيت اور جذبات و احساسات سے بالكل عارى ہوتے ہيں اور بالكل انصاف سے كام نہيں ليتے اپنى پاكدامن اور باعصمت بيوى اورمعصوم بچوں كو گھر ميں چھوڑديتے ہيں اور خود آدھى آدھى رات تك گھر سے باہر عياشى اورسير و تفريح ميں گزارديتے ہيں _

وہ روپيہ پيسہ جيے گھر ميں خرچ ہونا چاہئے _ گھر سے باہر تلف كرديتے ہيں _ در اصل ان پيچاروں نے ابھى تك حقيقى محبت و انس كى لذت كو درك نہيں كيا ہے كہ فضول اور بيہودہ عيش و عشرت كو تفريح سمجھتے ہيں _ انھيں ذرا بھى خيال نہيں آتا كہ اس طرز عمل سے وہ اپنى حيثيت و آبرو كو خاك ميں ملائے دے رہے ہيں اور لوگوں كے درميان ايك ہوس باز و آوارہ مشہور ہوجاتے ہيں اپنى بھى مٹى پليد كرتے ہيں اور بيچارے بيوى بچوں كى بھى _ آخر كار تنگ آكر ان كى بيوياں عليحدگى اور طلاق كا مطالبہ كرديتى ہيں اور شادى شدہ زندگى كے تانے بانے بكھر جاتے ہيں _ عبرت كے لئے ذيل كے واقعات پر توجہ فرمايئے

ايك شخص جس نے اپنى كو طلاق دے دى تھى عدالت ميں كہا: شادى كے ابتدائي ايام ميں جوانى كے نشے ميں ہر شب اپنى بيوى كو گھر ميں تنہا چھوڑكر اپنے خراب دوستوں كے ساتھ سيروتفريح اور عيش و عشرت كى خاطر گھر سے باہر چلا جاتا اور صبح كے قريب واپس آتا _ ميرى جوان بيوى نے ميرى ان حركتوں سے عاجز آكر مجھ سے طلاق لے لى _ ہمارے دس بچے تھے _ يہ طے ہو اكہ

۲۴۵

مہينے ميں دو مرتبيہ ان كو ديكھوں گا _ كافى دن تك يہ سلسلہ چلتا رہا _ ليكن اب ايك مدت سے وہ مجھ سے مخفى ہوگئے ہيں اور ميں اپنے بچوں كو ديكھنے كے لئے بہت بے چين ہوں _(۲۶۳)

ايك عورت كہتى ہے _ تنہائي سے ميں بے حد عاجز آچكى ہوں _ ميرے شوہر كو ميرى اورميرى جان ليوا تنہائي كا ذرا بھى احساس نہيں ہوتا _ ہر روز آدھى رات تك گھر سے باہر سير وتفريح ميں وقت گزارتا ہے _(۲۶۴)

جناب محترم آپ بيوى بچوں والے ہيں اب آپ كو ہرگز يہ حق نہيں ہے كہ پہلے كى طرح آزادنہ گھومتے پھريں _ اپنے مستقبل اور اپنے خاندان كى فكر كيجئے _ اب آوراہ گردى اورعياشى سے دستبردار ہوجايئے اپنے نامناسب دوستوں سے دامن چھڑا ليجئے _ كام سے فارغ ہوكر سيدھے گھر آيا كيجئے اور اپنے بيوى بچوں كے ساتھ بيٹھٹے _ اور زندگى كا حقيقى لطف اٹھايئے فرض كيجئے آپ اچھے دوستوں كے درميان اٹھتے بيٹھے ہوں اور ان كى محفل ميں وقت گزارتے ہوں ليكن نصف شب تك گھر سے باہر رہنا كسى طرح مناسب نہيں _ آپ كے لئے يہ چيز ہرگز فائدہ بخش نہيں ہوگى بلكہ آپ كى زندگى كو متلاطم كردے گى _

وفادار بنيئے

جب مرد اور عورت رشتہ ازدواج ميں منسلك ہوجاتے ہيں تو ان كى انفرادى زندگى ايك مشترك اجتماعى زندگى ميں تبديل ہوجاتى ہے اس مقدس بندھں كے معنى يہ ہيں كہ مياں بيوى اس بات كا عہد كرتے ہيں كہ آخر عمر تك دونوں ساتھ زندگى گزاريں گے اور دونوں مل كر باہمى طور پر زندگى كا نظم و نسق چلائيں گے اور ايك دوسرے كى مدد كريں گے _ ايك دوسرے كے آرام و آسائس كے لئے كوشش كريں گے ايك دوسے كے مونس و غمخوار اور ساتھى ہوں گے _ جوانى اوربڑھاپے توانائي اور ناتوانى صحت و سلامتى اور دكھ بيمارى ميں ، سختيوں اورخوشحالى ف غرضكہ اچھے برے ہر حال ميں ايك دوسرے كا ساتھ نبھائيں گے _

۲۴۶

انسانيت اورشرافت كا تقاضہ ہے كہ مياں بيوى آخر عمر تك اس مقدس پيمان كو نبھاتے ہيں اور زندگى كى مشكلات اور پريشانيوں ميں اپنے عہد كو فراموش نہ كريں _ ايك لڑكى جو عين جوانى اور شباب كے دور ميں ، جبكہ اس كے بہت سے خواستگار ہوتے ہيں ، سب سے دامن جھٹك كر اپنى ہستى كو صرف اپنے شوہر كے لئے مخصوص كردتى ہے اور يہ اميد كرتى ہے كہ سارى زندگى اپنے شوہر كى پناہ ميں بسر كرے گي_ يہ چيز مردانگى كے خلاف ہے كہ عمر ڈھل جانے اور خوبصورتى و شادابى ميں كمى آجانے كے بعد وہ اپنى بيوى كو چھوڑدے اوردوسرى بساط بچھانے يا عيّاشى كرنے كى فكر كرے _

نادارى اور تنگدستى كے وقت بيوى ساتھ نبھاتى رہى اور اس كے گھر ميں زحمتيں اٹھاتى رہى ، كبھى آدھا پيٹ كھيا ، اس اميد ميں كہ ان كى زندگى ميں بھى كبھى اچھے دن آئيں گے اور آخر عمر اطمينان و فارغ البالى سے گزرے گى _ يہ رسم وفا نہيں ہے كہ جب مرد كى مالى حالت بہتر ہوجائے اور كچھ مال ودولت جمع كرلے تو دوسرى بيوى لانے كا سودا سماجائے _ يا بيوى كو گھر ميں چھوڑ كر خود عيش و عشرت اور موج اڑانے لگے _

يہ كون سى انسانيت ہے كہ سلامتى اور توانائي كى حالت ميں بغير كسى تنخواہ و اجرت كے ، بيوى كئي كئي خدمت كاروں كے برابر شوہر كے گھر ميں تنہا زحمت اٹھاتى رہى _ ليكن جب بيماراوركمزور ہوجائے تو اس كو چھوڑكر خود مستى مارنے كى فكر ميں لگ جائے _ حالانكہ ايسے وقت ميں شوہر كا فرض ہے كہ ناتوانى اور كمزورى كى حالت ميں اس كى مدد كرے اور اس سے ہمدردى كرے اسے تسلى دلائي _واقعاً بعض مرد مردانگى اوراحساسات و جذبات سے يكسر مبرا ہوتے ہيں جب ان كى بيوى جوان ، صحيح و سالم اور خوبصورت و شاداب رہتى ہے اس سے پھر پورا استفادہ كرتے ہيں ليكن بعد ميں جب اس كى جوانى اور شادابى ميں كمى آجاتى ہے تو اس كو چھوڑ كر عياشى ميں پڑجاتے ہيں يا نہايت فضول بہانے كركے اس كو

۲۴۷

طلاق دے ديتے ہيں

ذيل كے سچے واقعات پر توجہ فرمايئے_

ايك مرد اپنى بيوى كو منحوس كہہ كر طلاق دے ديتا ہے كيونكہ شادى كے بعد اس كے باپ كا انتقال ہوگيا اور ماموں كا ديوانيہ نكل گيا تھا _(۲۶۵)

ايك شخص اپنى بيوى كو طلاق دينے كى وجہ بيان كرتے ہوئے كہتا ہے : اس سے بہتر وجہ كيا ہوسكتے ہے كہ مجھے تم سے محبت نہيں ہے _ حالانكہ اس نے محبت كركے شادى كى تھى _(۲۶۶)

ايك عورت نے اپنے شوہر كے خلاف شكايت كى كہ مدتوں ميں نے اچھے برے ہر حال ميں اپنے شوہر كا ساتھ ديا _ اور نہايت خلوص و محبت كے ساتھ اس كى خدمت كى _ اب جبكہ ميں بيمار ہوگئي ہوں مجھ كو گھر سے نكال ديا اور كہتا ہے كہ مجھے بيمار بيوى نہيں چاہئے _(۲۶۷)

عاليجناب آپ حيوان نہيں ہيں كہ آپ كے سر ميں سوائے خود غرضى ، پيٹ بھرنے اور شہوت رانى كے اور كچھ نہيں سماتا _ آپ انسان ہيں ، انسان كو رحم ، شفقت و مہربانى اور ايثار و قربانى جيسى صفات كاحال ہونا چاہئے _ ايك معصوم لڑكى نے آپ كى خاطر ، اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں كو چھوڑكر اپنى جوانى و شادابى او رعفت و عصمت كو آپ كے سپرد كرديا _ ايك خدمت گارسے بڑھ كر آپ كے گھر ميں زحمتيں اور تكليفيں برداشت كيں ، ہر حال ميں آپ كا ساتھ ديا _ ہر طرح كارنج و محرومى برداشت كى _ كيا يہ سزاوار ہے كہ آپ اس كو چھوڑ كر عياشى كى فكر ميں پڑجائيں؟ اپنے اس طرز عمل سے آپ اس پر ظلم و ستم ڈھارہے ہيں اور ستم گار كو اسى دنيا ميں اس كے اعمال كى سزا مل جاتى ہے _ اگر آپ كسى اور عورت كے ساتھ عياشى كرتے ہيں تو چند لمحوں كى لذت كى خاطر، سينكڑوں ذہنى پريشانيوں اور الجھنوں ميں گرفتار ہوجائيں گے _ آپ كى عزت و آبرو خاك ميں مل جائے گى اور لوگوں ميں آپ خود غرض اور بے رحم مشہور ہوجائيں گے _ آپ كے بچے آپ كى اس حركت سے رنجيدہ خاطر ہوجائيں گے اور ہرروز آپ كى پريشانى اور الجھن ميں اضافہ ہوتا رہے گا _ اگر آپ كى بيوى بيمارہے تو اس كا

۲۴۸

علاج كرايئےا كہ صحت ياب اور صحيح و سالم ہوجائے _ اگر اس كا مرض لا علاج ہے تو اپنى مردانگى اورايثار و فداكارى كا ثبوت ديجئے اور جب تك زندہ رہے دوسرى شادى نہ كيجئے _

كيا آپ كا ضمير كو اس بات كى اجازت ديتا ہے كہ ايك مريض جو اپنى بيمارى كے سبب خود ہى دكھى اور پريشان ہے اسے آپ مزيد رنج پہونچائيں؟ اگر آپ اس كى جگہ ہوتے اور بيمارى اورسختى ميں مبتلا ہوتے تو اس كيا توقع ركھتے؟ وہى توقع وہ آپ سے ركھتى ہے

ايسى حالت ميں كہ آپ بيمارہوں اور آپ كى بيوى آپ سے عليحدگى كا مطالبہ كرے توكيا اس كا يہ فعل درست ہوگا؟ آپ اور دوسروں كى نظر ميںايك خود غرض اور بے وفا عورت شمار ہوگى _ اگر وفادارى اور ايثار كى آپ كى نظر ميں كچھ قدر ومنزلت ہے تو آپ بھى وفادارى سے كام ليجئے _

۲۴۹

تعليم و تربيت

ايك لڑكى جب شوہر كے گھر بياہ كرآتى ہے تو اس پر اس گھر چلانے كى ذمہ دارى آپڑتى ہے _ ايك گھر كا نظم و نسق چلانے كے لئے مختلف باتوں كا جاننا ضرورى ہوتا ہے _ مثلا كھانا پكانا كپڑے دھونا ، صفائي كرنا، استرى كرنا، سلائي كرنا، گھر كے سازوسامان كو قرينے سے ركھنا، مہمان نوازى كے آداب ، ملنے جلنے كے آداب شوہر كى ديكھ بھال اور بچہ كى نگہداشت اور اس قسم كے دوسرے كاموں سے واقف ہونا چاہئے _ شوہر اپنى نئي تويلى دلھن سے توقع ركھتا ہے كہ وہ يہ سارے كام جانتى ہوگى اور ايك مكمل تربيت يافتہ عورت ہوگى _ ليكن افسوس يہ سارى توقعات خاك ميں مل جاتى ہيں اورنئي دلہن يا تو آداب زندگى ہے بالكل ہى نابلد ہوتى ہے يا اس كى معلومات محدود ہوتى ہيں_

اب كيا كريں؟ ہمارے سماج كى يہ بھى ايك بڑى خامى ہے _ نہ ماں باپ اپنى لڑكى كو آداب و زندگى سكھاتے ہيں اور نہ ہى اسكول و كالج كے نصاب ميں اس قسم كى تعليم وتربيت دينا شامل ہوتا ہے _

حالانكہ بجائے بے فائدہ چيزيں سكھانے كے ، لڑكيوں كو آداب زندگى كى تعليم دى جائے تو ان كے كام

۲۵۰

بھى آئے گى _ بہر حال كوئي چارہ ہى نہيں لہذا اس كے علاج كى فكر كرنى چاہئے _ مرد چونكہ چاہتا ہے كہ اپنى بيوى كے ساتھ زندگى بسر كرے اس لئے ناچار ہے كہ اس كى تعليم و تربيت كرے _ تا كہ اس كى خامياں دور ہوجائيں _ عموماً شوہر عمر ميں اپنى بيوى سے بڑا ہوتا ہے اس لئے اس كے تجربات اور اطلاعات بھى زيادہ ہوتى ہيں _

اگر ذرا صبر و حوصلے سے كام لے تو بيوى كى خاميوں كو دور كركے اپنى مرضى كے مطابق اس كى تربيت كرسكتا ہے _ جن كاموں سے وہ واقف ہے انھيں نہايت نرمى اور شيريں بيانى كے ساتھ اسے سكھادے اس سلسلے ميں گھر كى تجربہ كارخواتين مثلاً ماں، بہن ، خالہ ، پھوپھى و غيرہ كى مدد لى جا سكتى ہے ،كھانا پكانے، خانہ داري، مہمان داري، شوہر داري، طرز معاشرت ، اور ملنے جلنے كے آداب و غيرہ سے متعلق كتابيں اسے پڑھنے كے لئے دينى چاہئيں_ اخلاقى كتابيں پڑھنے كى اسے ترغيب دلانى چاہئے _ اگر ديكھے كہ بيوى بداخلاق اور غير مہذب ہے تو ہمدردى اور نرمى كے ساتھ اسے سمجھانا چاہئے ليكن مہربانى اور ہمدردى كے انداز ميں خلوص ونرمى كے ساتھ ، نہ كہ اعتراض ، لعن طعن كے ساتھ كے ساتھ ، كيونكہ اسى صورت ميں نتيجہ برعكس برآمد ہوسكتا ہے _

مرد اگر شادى كے شروع كے ايك دو سال ذرا صبر وحوصلہ سے كام لے اور عقل و تدبر كے ساتھ اپنى بيوى كى تعليم و تربيت پر كمر ہمت باندھ لے تو اپنى مرضى كے مطابق اس كى تربيت كرسكتا ہے _ خواہ سوفيصد ى كاميابى نہ ہو ليكن بلا شك كسى حد تك اس كى خاميوں كو دور كر سكتا ہے _

يہ درست ہے كہ اس كام كے لئے وقت اور صبر و حوصلہ در كار ہے ليكن اس سلسلے ميں جس قدر محنت كرے گا خود اس كے مفاد ميں ہوگا _ كيونكہ اپنى شريك زندگى اور اپنے بچوں كى سرپرست كى تكميل كركے آخر عمر تك اس عمل كے ثمرات سے بہرہ مند ہوگا _

ايك اہم امر جس پر مرد كو توجہ دينى چاہئے وہ يہ ہے كہ اس كى نئي نويلى دلہن ايك مسلمان لڑكى ہے اور قاعدے سے اس كو دين اسلام كے احكام اور قوانين سے واقف ہونا چاہئے _ ليكن

۲۵۱

اكثر لوگ اسلام كے شرعى مسائل سے ناواقف ہوتے ہيں حتى كہ اسلام كى ابتدائي تعليمات مثلاً نماز ، وضو ، غصل اور تيمم و غيرہ جيسے بنيادى احكامات سے بھى بعض لڑكياں ناواقف ہوتى ہيں _ البتہ يہ ماں باپ كا فرض ہے كہ اپنى لڑكيوں كو اسلام كے احكام و قوانين سے روشناس كرائيں اور واجب احكام ياد كرائيں ليكن اب جبكہ انہوں نے اس سلسلے ميں كوتاہى كى ہے اور سادہ لوح بے گناہ لڑكى كوتعليم ديئےغير شادى كے بندھن ميں باندھ ديا ہے تو يہ اہم اور سنگين فريضہ شوہر پر عائد ہوتا ہے كہ اس دينى مسائل سے روشناس كرائے اور اسلام كے واجبات اور محرمات يعنى واجب اور حرام چيزوں كے بارے ميں بتائے _ اس كى عقل و فہم كے مطابق اس كو اسلامى اخلاق و عقائد كى تعليم دے _ اگر آپ خود اس كام كو انجام دے سكيں تو كيا كہنے _ اس كے علاوہ اہل علم سے مشورہ كركے سودمند اور علمى و اخلاقى و دينى كتابيں اور رسالے مہيا كركے اسے پڑھنے كى ترغيب دلايئے اسلامى دينى مسائل كى كتاب اس كو پڑھنے كو ديجئے _ ضرورت ہو تو ايك قابل اعتماد اور عالم و ديندار استاد كو اس كى تعليم و تربيت كے لئے مقرر كيجئے _

بہر حال بيوى كو اچھى باتوں كى طرف راغب كرنا اور منكرات سے روكنا ، اور اس كى رہنمائي كرنا شوہر كافرض ہے اگر اس نے اپنے اس فريضہ كو ادا كيا تو ايك ديندار، نيك و مہربان، خوش اخلاق اور دانا بيوى كى ہمراہى ميں زندگى بسر كرے گا اور اخروى ثواب كے علاوہ اس دنيا ميں ہى كاميابى سے ہمكنار ہوگا اور ار اپنے اس فريضہ كى انجام دہى ميں كوتاہى كى تو اس دنيا ميں ايك ضعيف الايمان اور لا علم بيوى كا ساتھ رہے گا جو دينى و اخلاقى اصولوں سے بے بہرہ ہوگى اور قيامت ميں بھى خداوند قہار اس سلسلے ميں بازپرس كرے گا ، خداوند بزرگ و برتر قرآن مجيد ميں فرماتا ہے :

اے ايماندارو خود اپنے آپ كو اور اپنے خاندان والوں كو جہنم كى اس آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن آدمى اور پتھرہوں گے _(۲۶۸)

امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں كہ جس وقت مذكورہ آيت نازل ہوئي اس كو سن كر ايك مسلمان

۲۵۲

رونے لگا اور بولاميں خود اپنے نفس كو آگ سے محفوفاركھنے سے عاجز ہوں چہ جائيكہ اس پرمجھے يہ ذمہ دارى سونپى گئي ہے كہ اپنے خاندان والوں كو بھى دوزخ كى آگ سے بچاؤ_ پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا: اسى قدر كافى ہے كہ جن كاموں كو تم انجام ديتے ہو اسى كو كرنے كو ان سے كہواور خودجن كاموں كوتمہيں چاہئے ترك كرو ان سے انھيں روكتے رہو_(۲۶۹)

پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا: مرد كو خاندان كا سرپرست مانا گيا ہے _ ہر سرپرست كے ذمہ اپنے ماتحتوں كى نسبت ذمہ دارى ہوتى ہے _(۲۷۰)

رسول خدا صلى اللہ عليہ و الہ و سلم نے عورتوں كو ياددہانى كرائي ہے كہ قبل اس كے كہ وہ (شوہر) تمہيں برے كام كرنے پر مجبور كريں تم انھيں نيك كام كرنے كى ترغيب دلاؤ_(۲۷۱)

بچوں كى پيدائش

ايك چيز جو كبھى كبھى مياں بيوى كے درميان اختلاف پيدا كرنے كا سبب بنتى ہے وہ ہے بچہ كى پيدائشے يہ اختلاف كبھى اس موضوع پر ہوتا ہے كہ بيوى بچہ چاہتى ہے اور شوہر بطور كلى اس كا مخالف ہوتا ہے يا كبھى اس كے برعكس ہوتا ہے _ يہ اختلاف كبھى اس قدر شدت اختيار گرجاتا ہے كہ ضداوركشمكش كا سلسلہ جارى رہتا ہے اور اس كا خاتمہ ہوتا ہے طلاق پر_

... نام كى ايك خاتون نے خاندان كى حميات كرنے والى عدالت ميں كہا كہ : ميں نے ۲۷ سال كى عمر ميں اپنى پسند سے يونيورسٹى كے تعليم يافتہ ايك مرد سے جو كہ ايران كى ايك يونيورسٹى ميں استاد ہے شادى كى _ اور ميں بہت خوش و خرم تھى _ ليكن ميرا شوہر بچہ پيدا كرنے كا سخت مخالف ہے _ اس كى اس بات نے مجھے سخت مضطرب اور پريشان كرديا ہے _ اصولى طور پر جبكہ ہم دونوں صحيح و سالم ہيں اوربچہ پيدا كرسكتے ہيں _ روپيہ پيسہ كى بھى ہمارے پاس كمى نہيں ہے غرضكہ ہر لحاظ سے ہم اس قابل ہيں كہ كم سے كم دو بچوں كى پرورش آسانى سے كرسكتے ہيں _ ميرى سمجھ ميں نہيں آتا كہ ميرا شوہر بچے كى پيدائشے كى اس قدر شدت سے مخالفت كيوں كرتا ہے _ حالانكہ اسے بچے

۲۵۳

برى نہيں لگتے اپنى بہن اور دوستوں كے بچوں كو اس قدر والہا نہ طريقے سے پيار كرتا ہے كہ جو اسے ديكھے سمجھے گا بيچارہ بچوں كا بھوكا ہے _ اب ميرى عمر ۲۰ سال ہوگئي ہے اور دنيا كى ہر عورت ماں بننے كى آرزومند ہوتى ہے _ ميرا شوہر ميرى آرزو سے واقف ہے مگر اس كے باوجود كہتا ہے بچہ ہمارے درميان مزاحم ہوگا اور ہمارى پريشانى كا باعث بنے گا _ مختصر يہ كہ اس قسم كے غير منطقى دلائل پيش كرتا ہے '' _

اس خاتون نے اتنا كہہ كر بڑى مشكل سے اپنے آنسوؤں پر قابو پايا مگر ظاہر ہوتا تھا كہ اس كواس بات كا بے حد شديد صدمہ ہے اور يہ بات ان كے درميان اس حد تك اختلاف كا سبب بن گئي ہے كہ دونوں عليحدہ ہونے پر راضى ہوگئے ہيں تا كہ وہ خاتون دوسرى شادى كركے اپنى ماں بننے كى آرزو كى تكميل كرسكے اورڈاكٹر صاحب اپنى علمى تحقيقات انجام ديتے رہيں _(۲۷۲)

بچے كى خواہش ہر انسان بلكہ ہر حيوان كى ايك فطرى آرزو ہے _ بچے كا وجود ، انسان كى شادى شدہ زندگى كا بہترين ثمرہ اور بہترين يادگار شماركيا جاتا ہے _ اگر انسان صاحب اولاد ہو تو اسكى موت سے اس كى زندگى كى ياديں ختم نہيں ہوجاتيں بلكہ گويا اس كى عمر بہت طويل ہوجاتى ہے _

لا ولد انسان اپنے آپ كو بے وارث اورتنہا محسوس كرتا ہے اوريہ احساس بڑھاپے ميں شديدتر جاتا ہے _ بچے كا وجود خاندانى زندگى كو گرم اور پر لطف بناتا ہے جس گھر ميں بچہ نہ ہو اس گھر ميں ويرانى برستى ہے _ جوش وولولہ كا نام ونشان تك نہيں ہوتا _ بے اولاد جوڑوں كو ہميشہ رشتہ ازدواج منقطع ہوجانے كاخطرہ لاحق رہتا ہے _

امام صادق (ع) فرماتے ہيں : شائستہ اولاد، انسان كى سعادت كا باعث بنتى ہے _(۲۷۳)

پيغمبر اسلام (ص) فرماتے ہيں : زيادہ اولاد پيدا كرو تا كہ قيامت كے روز، تمہارے وسيلے سے تمام امتوں فخر كروں _(۲۷۴)

۲۵۴

جى ہاں اولاد سے محبت ايك فطرى امر ہے ليكن بعض انسان آئين فطرت سے منحرف ہو كر ايك قسم كى بيمارى ميں مبتلا ہوجاتے ہيں _ كبھى فقر و تنگدستى كا بہانہ كرتے ہيں _ حالانكہ روزى كى ضمانت خدانے لى ہے اور كسى نہ كسى ذريعہ سے روزى پہونچاتا ہے _ بكربن صالح كہتے ہيں: حضرت ابوالحسن (ع) كو ميں نے لكھا كہ پانچ سال سے بچہ پيدا كرنے سے گريز كررہاہوں كيونكہ ميرى بيوى راضى نہيں كہتى ہے چونكہ ہم تہى دست ہيں اس لئے بچہ كى پرورش كرنا مشكل ہے _ اس سلسلے ميں آپ كى كيا رائے ہے ؟

حضرت نہ مجھ كو لكھا كہ بچے كى پيدايش سے مانع نہ ہو كيونكہ خدا روزى پہونچانے والا سے _(۲۷۵)

حتى كہ كبھى خدا بچہ كے وجود كى بركت سے ماں باپ كى روزى ميں اضافہ كرتا ہے _ بہت سے لوگ ہيں جو بچوں كى پيدائشے سے قبل پريشانى اور تنگدستى ميں مبتلا تھے مگر بعد ميں خوشحال ہوگئے _ بعض لوگ بچے كے وجود كو آزادى ميں ركاوٹ اور مزاحمت سمجھتے ہيںحالانكہ بچہ نہ صرف يہ كہ مزاحم نہيں ہوتا بلكہ ماں باپ كے لئے تفريح اور دل بہلانے كا بہترين وسيلہ ہوتا ہے _

يہ صحيح ہے كہ بچے كى پرورش اور تعليم و تربيت ميں بہت زحمتيں اٹھاتى پڑتى ہيں ليكن چونكہ يہ ايك فطرى عمل ہے اس لئے اس كو برداشت كرنا مشكل نہيں ہے بلكہ منفعت بخش ہوتا ہے _ حقيقتاً وہ جوڑے كس قدر خود غرض ، ضدى اور كوتاہ فكرہوتے ہيں جن كے درميان بچہ پيدا كرنے كا مسئلہ باہمى نزاع كا سبب بن جاتا ہے اور اس كى خاطر ازدواجى زندگى كے مقدس بندھن كو توڑ ڈالتے ہيں _

كيا ايك مرد ہ وہ بھى ايك دانشور كو يہ بات زيب ديتى ہے كہ وہ بچہ پيدا كرنے كى ، جوكہ ہر ماں باپ كى ايك فطرى آرزو ہوتى ہے ، مخالفت كرے اور اس بات پر اسے اس قدر شديد اصرار ہوكہ شادى شدہ زندگى كى بنيادوں كو درہم برہم كرنے پر تيار ہوجائے _ كچھ لوگوں كے يہاں بچہ كى پيدائشے كے مسئلہ پر اختلاف نہيں ہوتا ليكن دير يا جلدى كے مسئلہ پر اختلاف ہوتا ہے _

۲۵۵

بيوى يا مياں كوئي ايك كہتا ہے كہ جوانى كے دور كو خوشى اور آزادى و بے فكرى كے ساتھ گزارنا چاہئے _ بچے كا وجود آزادى ميں مانع ہوتا ہے _ جوانى كے ايام ميں بچے كى پيدائشے سے گريز كرنا چاہئے البتہ آخر عمر ميں ايك دوبچے ہوجائيں تو كوئي بات نہيں _ ليكن ان ميں سے دوسرے كو اس بات سے اختلاف ہوتا ہے اوريہى اختلاف لڑائي جھگڑے اور كشمكش كا باعث اور كبھى كبھى عليحدگى و طلاق كا سبب بن جاتا ہے _ ايك بات كى يادآورى ضرورى معلوم ہوتى ہے كہ اگر انسان اولاد چاہتا ہے تو بچے جتے جلدى ہوجائيں اتنا ہى بہتر ہے كيونكہ جوانى كے دور كى اولاد ، بڑھاپے كے دور كے اولاد س كئي لحاظ سے بہتر ہوتى ہے _ اول تو يہ كہ ايسے بچے عموماً زيادہ تندرست و توانا ہوتے ہيں دوسرے چونكہ زيادہ مدت تك ماں باپ كے ساتھ رہنے كا موقع ملتا ہے اس لئے ان كى تعليم و تربيت زيادہ بہتر طريقے سے ہوسكتى ہے _ اس كے برخلاف بڑھا پے كى اولاد عموماً تعليم و تربيت سے بالكل محروم ہوجاتى ہے اور ماں باپ كى موت يا ان كے معذور ہوجانے كے باعث اكثر بدبخت اور دوسروں كے دست نگر ہوجاتے ہيں _

تيسرے يہ كہ جوانى ميں پيدا ہونے والے بچے، جب تك ان كے ماں باپ بوڑھے اورريٹائر ہوں ، ايك مقام و منصب حاصل كرليتے ہيں _ اس طرح بڑھاپے اور ناتوانى كے زمانے ميں ماں باپ اپنى اولاد كى مدد سے بہرہ مند ہوسكتے ہيں بہرحال اس بات ميں كوئي شك نہيں كہ جوانى ميں اولاد كى پيدائشے ، بڑھاپے كے دورسے بہتر ہے _ ليكن يہ بات اس قدر بھى اہم نہيں ہے كہ اس كے باعث باہمى لڑائي جھگڑے اور طلاق كى نوبت آجائے _ بہتر ہے كہ كوئي ايك جھك جائے اور جھگڑے كو رفع كرے _ كبھى بچوں كى تعداد كے مسئلہ پر اختلاف ہوتا ہے مثلا ً مرد زيادہ بچے چاہتا ہے ليكن بيوى اس كى مخالفت كرتى ہے يا اس كے برعكس _

ايك عورت ايسى حالت ميں كو دو بچوں كو گود ميں لئے ہوئے تھى كہتى ہے:

شادى كے بعد چار سال كے اندر دو لڑكياں ہوئيں ليكن چونكہ ميرے شوہر كوبيٹے

۲۵۶

كى خواہش تھى اس لئے پھر حاملہ ہوگئي _ ليكن اس بار بھى ميرے شوہر كى خواہش كے برخلاف لڑكى پيدا ہوگئي اور اب ميرى تين بيٹياں ہوگئي ہيں _ ميرا شوہر ايك بينك ميں كام كرتا ہے اس كى آمدنى بس ہم دو مياں بيوى اور تين بچوں كے گزارے بھر كے لئے ہے _ ايك مدت سے اس بات پر مصر ہے كہ بچوں كى پيدائشے كا سلسلہ جارى رہے تا كہ شايد كبھى ايك بيٹا پيدا ہوجائے _ ميں اس كى محتمل نہيں ہوسكتى كيونكہ ايك تيسرے درجے كے طبقے سے تعلق ركھنے والے خاندان كے لئے كہ جس كى آمدنى نہايت معمولى ہے زيادہ اولاد ماں باپ كے لئے پريشانى كا باعث بن جاتى ہے _ بارہا ميں نے اس سےكہا كہ لڑكى لڑكے ميں كوئي فرق نہيں مگر وہ سنتا ہى نہيں مجھے خطرہ ہے كہ كہيں پھرلڑكى نہ ہوجائے تو اس وقت ميرا شوہر لڑكے كا بہانہ كركے پانچويں بچے كى فكر كرے گا اس بات سے مجھ اختلاف ہے اور يہى مسئلہ ہميں عدالت ميں لانے كابا عث بناہے _(۲۷۶)

يہاں اس بات كى ياددہانى ضرورى معلوم ہوتى ہے كہ زيادہ بچوں كے اخراجات پورے كرنا اور ان كى تعليم و تربيت بہت دشوار كام ہے _ اور وہ بھى اس زمانے ميں كم آمدنى والے افراد كيلئے بہترہے كہ مياں بيوى ہٹ دھرمى چھوڑكر اپنے مالى امكانات اوراپنے حالات كو مد نظر ركھ كر اولاد كى تعداد كے بارے ميں اتفاق رائے كريں _ ضد اورہٹ دھرمى كوئي اچھى بات نہيں ہے _ مياں بيوى كو عقل و تدبر سے كام لينا چاہئے اور اپنى مشكلات كو آپس ميں مل كر طے كرلينا چاہئے اگر ان ميں سے كوئي ايك ضدپر اڑاہوا ہے اور دوسرا مفاہمت كرے تو لڑائي جھگڑے اور عليحدگى كى نوبت نہيں آئے گى _

در اصل يہ موضوع اتنا اہم نہيں ہے _ كثير الاولاد اوركم بچے والے خاندان بہت سے ہوتے ہيں _ لہذا صرف اس بات كى خاطر مياں بيوى آپس ميں لڑيں جھگڑيں اور شادى كے مقدس بندھن كو توڑڈاليں يہ كسى طرح بھى مناسب نہيں اور نہ ہى كسى كے مفاد ميں ہے _

كبھى لڑكے اور لڑكے كے موضوع پر اختلاف ہوتا ہے _ مياں بيوى دونوں ہى زيادہ تر

۲۵۷

لڑكے كو لڑكى پرترجيح ديتے ہيں اورلڑكى كى پيدائشے سے انھيں خوشى نہيں ہوتى _ اگر لڑكى ہوجاتى ہے تو چونكہ كوئي چارہ نہيں بيوى تو خاموشى رہتى ہے ليكن اكثر مرد ناراضگى كا اظہار كرتے ہيں _

البتہ مختلف قسم كے مرد ہوتے ہيں بعض مرد دل ميں رنجيدہ ہوتے ہيں ليكن خوددارى سے كام ليتے ہيں اور اپنے شديد رد عمل كا اظہار نہيں كرتے فقط ملال ظاہر كرتے ہيں اور ان كامنہ لٹك جاتا ہے وضع حمل كے زمانے نے ميں اپنى بيوى پر پورى توجہ نہيں ديتے _ كچھ دنوں تك رنجيدہ رہتے ہيں _ بعض لوگ اپنے شديد رد عمل كا اظہار كرتے ہيں _ اپنى بے گناہ بيوى سے لڑتے ہيں مختلف بہانے كركے غصہ كرتے ہيں _ بعض توحد سے تجاوز كرجاتے ہيں _ بيوى كو مارتے پيٹتے ہيں اور طلاق دينے پر بھى آمادہ ہوجاتے ہيں _

ايك عورت نے عدالت ميں بتايا : سواسال قبل ميرى شادى ہوئي تھى چھ ماہ بعد ميں حاملہ ہوگئي _ ميرا شوہر كہا كرتا تھا كہ مجھے بيٹا چاہئے _ مجھے محسوس ہوتا تھا كہ ميرے پيٹ ميں ايك كے بجائے دو يا تين بچے ہيں _

چند روز قبل اسپتال ميں ميرى دو جڑوال لڑكياں پيد اہوئيں _ جب نرس نے مجھے دو جڑوال لڑكيوں كى خبر سنائي تو ميں خوشى سے پھولى نہيں سمار ہى تھى _ جب ميرا شوہر مجھے ديكھنے آيا اور اسے دو لڑكيوں كى خبر سنائي تو وہ ناراض ہوگيا اور كچھ دير بعد كوئي بہانہ كركے كمرے سے باہر چلا گيا اور پھر واپس نہيں آيا _ رات كو جب ميرا شوہر مجھے لينے آيا تو ميں نے اس سے كہا كہ بچيوں كولے آؤ_ وہ پچھلے دروازے سے باہر نكل گيا اورشور مچانے اور غصہ كرنے لگا بولا '' دو جڑوال لڑكياں نہيں ہونى چاہئے تھيں_ ان بچيوں كو يہيں چھوڑ دو '' ميں بھى اپنے باپ كے گھر چلى آئي اور اب طلاق كى درخواست كرتى ہوں _(۲۷۷)

ايك خاتون نے عدالت ميں اخبار اطلاعات كے رپورٹر كوبتايا: اپنى ۲۱ سالہ شادى شدہ زندگى ميں نے خون كے گھونٹ پى پى كر گزارى ہے _ پانچ بچوں كى پيدائشے كے بعد مجھے عليحدہ

۲۵۸

ہونے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے _كيونكہ ميرا شوہر ايك ايسى عورت سے شادى كرنا چاہتا ہے جس ميں صرف ايك خوبى ہو كہ وہ لڑكا پيدا كرسكے _ اس خاتون نے بڑے دكھ سے كہا ميرا قصور صرف يہ ہے كہ ميں نے لڑكيوں كو جنم ديا ہے _ ميرى پانچ لڑكياں ہيں سب كى سب خوبصورت ، ذہن و عقلمند اور پڑھنے ميں تيز ہيں _ اور كبھى اپنے باپ كے لئے پريشانى كا باعث نہيں بنيں _ جب خدا كى مرضى نہيں كہ مجھے ايك بيٹادے تو اس كے لئے ميں كيا كروں؟ آج تك ميرا شوہر مجھے سے يہ اصرار كرتا رہا ہے كہ ميں اس ايك اور شادى كرنے كى اجازت دے دوں _(۲۷۸)

افسوس كہ يہ برى عادت جو بعض مردوں ميں پائي جاتى ہے در اصل دور جاہليت كى يادگار كے طور پر ہمارے درميان آج بھى باقى ہے _ وہ دور جس ميں مردوں كو عورت كے انسان ہونے ميں شبہ تھا لڑكى كا باپ بن جانے سے حقارت و شرمندگى محسوس كرتے تھے بے گناہ لڑكيوں كو زندہ دفن كرديتے تھے _ قرآن مجيد ان لوگوں كے بارے ميں فرماتا ہے :_

جس وقت ان ميں سے كسى كو لڑكى پيداہونے كى خبر ملتى تو شرم كے مارے اس كا چہرہ سياہ پڑجاتا اور خشم ناك ہوجاتا _ اور اس كى خبر كو سن كر اپنى قوم كے لوگوں كى نظروں سے چھپا چھپا پھر تا اور سوچتا كہ آيا خفت وخوارى كے ساتھ اس كى حفاظت كرے يا اسے (زندہ ہي) زمين ميں چھپادے _ديكھو يہ لوگ كس قدر بے انصافى سے كام ليتے ہيں _(۲۷۹)

ليكن اسلام ان غلط افكار كا مقابلہ كرتا ہے عورت و مرد كو يكساں اور برابر قرار ديتاہے _ پيغمبر اسلام ''رحمة للعالمين'' (ص) فرماتے ہيں : تمہارى بہترين اولاد لڑكياں ہيں _(۲۸۰)

حضرت پيغمبر اكرم (ص) فرماتے ہيں : عورت كى خوش قدمى كى علامت ہے كہ اس كى پہلى اولاد لڑكى ہو _(۲۸۱)

حضرت رسول خدا (ص) ، يہ بھى فرماتے ہيں _ جو شخص تين بيٹيوں يا تين بہنوں كى پرورش كرے اس پر بہشت واجب ہوگئي _(۲۸۲)

۲۵۹

اگر لڑكى خراب چيز ہوتى تو خداوند عالم اپنے پيغمبر (ص) كى نسل كو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كے ذريعہ قائم نہ كرتا _

جناب محترم آپ روشن خيال اور تہذيب يافتہ ہونے كا دعوى كرتے ہيں _ ان غلط افكار كو دور پھينكئے _ بيٹے اوربيٹى ميں كيا فرق؟ دونوں ہى آپ كى اولاد اور اپنے ماں باپ كى يادگار ہوتے ہيں _ دونوں ہى انسان ہيں اور ترقى وتكامل كے قابل ہيں _ اگر لڑكى كى صحيح طريقے سے تعليم و تربيت كى جائے تو وہ سماج كى ايك برجستہ فرد ہوسكتى ہے _ اور معاشرے ميں قابل قدر خدمات انجام دے سكتى ہے اور اپنے والدين كى سربلندى و افتخار كا باعث بن سكتى ہے _ بلكہ بيٹى كئي لحاظ سے بيٹے سے برتر ہوتى ہے _ مثلاً

بيٹياں ، اپنے والدين كا زيادہ خيال كرتى ہيں _ بعض لڑكے جب بڑے ہوجاتے ہيں اور آزاد ہوجاتے ہيں تو اپنے والدين پر زيادہ توجہ نہيں ديتے _ اگر ان كو آزار نہيں پہونچاتے تو اپنے وجود سے كوئي خاص فائدہ بھى نہيں پہونچاتے _ ليكن لڑكى ہر حال ميں اپنے والدين كى نسبت ہمدرد اور مہربان ہوتى ہے خصوصاً اگر والدين بيٹے بيٹى ميں فرق نہ كريں اور بيٹيوں كے حقوق پائمال نہ كريں تو ہميشہ اپنى بيٹيوں كى نظروں ميں محترم و محبوب رہتے ہيں _

اقتصادى لحاظ سے بھى بيٹى ، بيٹے كے مقابلے ميں كم خرچ ہوتى ہے _ ماں باپ كے پاس رہنے كا وقفہ كا نسبتاً كم ہوتا ہے _ بڑے ہوتے ہى ايك مختصر جہيز لے كر شوہر كے گھر چلى جاتى ہے _ اس كے بعدماں باپ اس كے فرض سے سبكدوش ہوجاتے ہيں ليكن بيٹا زيادہ مدت تك بلكہ آخر عمر تك ماں باپ كے سرپربار ہوتا ہے _ اس كى تعليم كا خرچ اٹھانا ، پھر اس كے لئے مناسب كام تلاش كرنا _ اس كى شادى كرنا، شادى كے اخراجات اٹھانا ، اس كے بعد جب ضرورت ہوئي والدين كے سرپر آپڑا _

اگر والدين بيٹے بيٹى ميں فرق نہ كريں اوراپنے داماد كے ساتھ اچھا سلوك كريں اور اپنے بيٹے جيسى محبت كريں اور اس كى مشكلات اور پريشانيوں ميں اس كى مدد كريں تو اكثر داماد بيٹے سے

۲۶۰