ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق20%

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 299

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 299 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 84765 / ڈاؤنلوڈ: 5197
سائز سائز سائز
ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

ازدواجى زندگى كے اصول يا خاندان كا اخلاق

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں:'' ہر حال ميں عورتوں كے ساتة نبھايئےن سے اچھى طرح پيش آيئےا كہ ان كے افعال اچھے ہوں _(۶۷)

حضرت امام سجاد عليہ السلام فرماتے ہيں:'' بيوى كے حقوق ميں سے ايك حق شوہر پر يہ ہے كہ اس كى جہالت او رنادانيوں كو معاف كردے _(۶۸)

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں:جو مرد اپنى بداخلاق بيوى كا ساتھ نبھاتا ہے خداوند عالم اس كے ہر صبر كے عوض، حضرت ايوب عليہ السلام كے صبر كے ثواب كے برابر كا ثواب علا كرتاہے _(۶۹)

اب چند باتيں خواتين كى خدمت ميں عرض ہيں :

خاتون محترم آپ كے شوہر كى خيانت كا مسئلہ دوسرے تمام موضوعات كى مانند ثبوت و دلائل كا محتاج ہے اس كى خيانت جب تك قطعى طور پرثابت نہ ہوجائے شرعى اور اصولى طور پر آپ كو اسے مورد الزام ٹھرانے كا حق نہيں ہے _ كيا يہ مناسب ہوگا كہ صرف ايك شبہ ميں كسى بے گناہ انسان پر تہمت لگادى جائے _ اگر دليل و ثبوت كے بغير كوئي آپ پر الزام لگائے تو كيا آپ ناراض نہ ہوں گى ؟ كيا ايك يا چند كم عقل اور بدطينت لوگ خيانت جيسے اہم موضوع كو ثابت كرسكتے ہيں؟

خداوند بزرك و برتر قرآن مجيد ميں فرماتا ہے :'' اے ايماندارو بہت سى بدگمانيوں سے پرہيز كرو كيونكہ بعض بدگمانياں گناہ ہوتى ہيں'' _(۷۰) امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں : بے گناہ انسان پر بہتان باندھنا بڑے بڑے پہاڑوں سے زيادہ بھارى ہوتا ہے _(۷۱) حضرت رسول خدا (ص) كا ارشاد گرامى ہے كہ جو شخص كسى مومن مرد يا مومن عورت پر تہمت لگائے گا خداوند عالم قيامت كے دن اس كو آگ ميں ڈال دے گا تا كہ اپنے اعمال كى سزا پائے

خاتون گرامى نادانى ، جلد بازى اور فضول خيالات سے اپنا دامن بچايئے متين اور عاقل بنئے جس وقت آپ رنجيدہ اور غصہ ميں نہ ہوں تنہائي ميں ٹھنڈے دل سے اپنے شوہر كى خيانت كے قرائن و شواہد پرغور كيجئے _ بلكہ ايك كاغذ پر نوٹ كرليجئے _ اس كے بعد اس جھگڑے كے اسباب

۸۱

اور احتمالات كو اس كے برابر ميں لكھ ليجئے پھر ايك انصاف پرور اور عادل قاضى كى مانند غور كيجئے كہ يہ دلائل كس حد تك صحيح ہيں _ اگر قابل يقين نہيں ہيں تو بھى كوئي بات نہيں _ تحقيق كيجئے ليكن اس بات كو مسلّم اور قطعى نہ سمجھ ليجئے اور بے دليل بدگمانيوں كے سبب خود اپنى اور اپنے شوہر كى زندگى تلخ بناديجئے مثلا ً كارميں سركے ايك كلپ ياپن كے پائے جانے كى مختلف وجوہات ہوسكتى ہيں:_

۱_ آپ كے شوہر كے رشتہ داروں مثلاً بہن، بھانجى ، بھتيجى ، پھوپھى ، خالہ و غيرہ ميں سے ممكن ہے كوئي كارميں بيٹھا ہو اور يہ كلپ اس كا ہو _

۲_ شايد آپ كا ہى ہو اور پہلے جب آپ كارميں بيٹھى ہوں اس وقت آپ كے سرسے گرگيا ہو _

۳_ اپنے كسى دوست يا ملنے والے كو جو اپنى بيوى كے ساتھ ہو كارميں بيٹھايا ہو اور يہ كلپ اس كے دوست كى بيوى كا ہوسكتا ہے _

۴_ كسى مصيبت زدہ عورت كو اس كے گھر پہونچا ديا ہو _

۵_ شايد كسى دشمن نے عمداً كلپ كوكارميں ڈال ديا ہوتا كہ آپ كو شك ميں مبتلا كركے آپ كى بدبختى كے اسباب فراہم كرے _

۶_ شايد اپنى سيكريٹرى يا پانے ساتھ كام كرنے والى كسى خاتون كو ہٹھايا ہواور يہ كلپ اس كا ہو _

۷_ اور يہ احتمال بھى ہے كہ اپنى محبوبہ كا كارميں بٹھاكر عياشى كرنے گيا ہو _ ليكن يہ احتمال دوسرے احتمالات كے مقابلہ ميں بعيد ہوتا ہے بہرحال اس بات كے متعلق صرف قياس آرائي كى جا سكتى ہے ليكن اور تمام امكانات كو نظر انداز كركے اس چيز كو مسلّمہ حقيقت نہيں سمجھ لينا چاہئے اور ہنگامہ بر پا نہيں كردينا چاہئے _ اگر آپ كا شوہر ديرے سے گھر آتا ہے تو يہ اس كى خيانت كى دليل نہيں ہوسكتى شايد اوورٹائم كرتا ہو _ كوئي ضرورى كام آگيا ہو يا اپنے كسى دوست رشتہ داريا دفتر كے ساتھى كے گھر چلا گيا ہو _ علمى يا مذہبى جلسے ميں شركت كرنے گيا ہويا يوں ہى گھومنے گيا ہو جس كے سبب ديرسے گھر آيا ہو _

۸۲

اگر كوئي عورت آپ كے شوہر كى تعريف كرتى ہے اور اس كو خوبرو و جوان كہتى ہے تو اس ميں اس كا كيا قصور ہے _ خوش اخلاقى كو خيانت كى دليل نہيں كہا جا سكتا _ اگر وہ بداخلاق ہوتا تو كوئي اس كے پاس نہ آتا _ كيا آپ اس سے يہ توقع ركھتى ہيں كہ بداخلاقى كا مظاہرہ كرے اور سب اس كو بدمزاج سمجھيں اور اس سے كوسوں دوربھاگيں؟ اگر كسى بيوہ اور اس كے يتيم بچوں كے ساتھ رحم دلى كا برتاؤ گرتاہے تو اس كو اس كى خيانت كى دليل نہيں كہا جا سكتا _ شايد از راہ ہمددرى اور خدا كى خوشنودى كى خاطر غريبوں اور مسكينوں كى مدد كرتا ہو _

اگر آپ كے شوہر كى كوئي مخصوص المارى يا دراز ہو يا اپنے خطوط پڑھنے كى اجازت نہ ديتا ہو تو اسے بھى اس كى خيانت سے تعبير نہيں كيا جا سكتا _ بہت سے مرد اپنے رازوں كو ذاتى طور پوشيدہ ركھنا چاہتے ہيں اور پسند نہيں كرتے كہ ان كے امور سے كوئي باخبر ہو _ ممكن ہے ان كے كام كى نوعيت اس قسم كى ہو جس ميں كچھ چيزوں كو نہايت خفيہ طريقہ سے ركھنا ضرورى ہو يا وہ سمجھتا ہو كہ آپ رازوں كو مخفى نہ ركھ سكيں گى _

بہر حال كوئي بھى سبب ہوسكتا ہے اور يوں ہى اس پرشك و شبہ كى بنياد قائم نہيں كى جا سكتى _ دوسرى بات يہ ہے كہ جہاں بھى آپ كو كسى قسم كا شك و شبہ ہو بہتر ہے كہ فوراً اس كے متعلق اپنے شوہر سے بات كريں _ ليكن اعتراض كے طور پر نہيں بلكہ حقيقت جاننے كے خيال سے ، اس سے يونہى پوچھئے كہ فلاں امور كے متعلق مجھے بدگمانى ہوگئي ہے ، براہ مہربانى حقيقت حال سے مجھے مطلع كيجئے تا كہ مجھے اطمينان ہوجائے _ ا س وقت اس كى بات خوب غور سے سنئے _ اور اگر آپ كا شك دور ہوگيا ہے تو بہت اچھا ہے ليكن اگر آپ اس كے جواب سے مطمئن نہيں ہوئي ہيں تو بعد ميں اس كے متعلق تحقيق و چھان بين كيجئے تا كہ حقيقت آپ پر روشن ہوجائے _ اگر تحقيق كے ضمن ميں كسى بات كے متعلق آپ كو علم ہوجائے كہ آپ كے شوہر نے جھوٹ كہا تھا اور حقيقت كے خلاف بات بيان كى تھى تو صرف اس جھوٹ كو اس خيانت كى دليل نہ مان لين كيونكہ ممكن ہے وہ بے گناہ ہو ليكن اسے آپكى بد گمانى كا علم ہو اس لئے جان بوجھ كر حقيقت كے برخلاف بات بيان كى ہو كہ كہيں آپ كے شك و شبہ ميں

۸۳

اضافہ ہوجائے _ بہتر ہے كہ اس سلسلے ميں پھر اس سے پوچھئے اور اس كى غلط بيانى كى وجہ دريافت كيجئے _ البتہ اس نے يہ اچھا كام نہيں كيا كہ جھوٹ كا مرتكب ہوا _ بہتر ہوتا كہ صحيح بات بيان كردى ہوتى كيونكہ صداقت سے بڑھ كر كوئي چيز نہيں ليكن اگر اس نے غلطى كى ہے تو آپ اپنى نادانى اور جہالت كا ثبوت نہ ديں بلكہ اسى سے صراحت سے كہہديجئے كہ آئندہ جھوٹ نہ بولے _ اگر آپ وضاحت چاہيں اور آپ كا شوہر اطمينان بخش طريقے سے توضيح نہ كرسكے تو اس بات كو اس كى خيانت كى مستحكم اور قطعى دليل نہ سمجھ ليجئے _ كيونكہ اس بات كا امكان موجود ہے كہ شايد اصل بات بھول گيا ہو _ يا آپ كى بدگمانى كے سبب سراسيمہ ہوگيا ہو اور اطمينان بخش جواب نہ دے سكا ہو ايسے موقع پر بات كو ختم كرديجئے اور كسى مناسب موقع پر اس موضوع كے متعلق بات كيجئے اور اس قضيہ كا سبب دريافت كيجئے _ اگر كہے كہ ميں بھول گيا ہوں تو اس كى بات كو مان ليجئے اس كے بعد بھى اگر آپ كا شك باقى ہے تو دوسرے طريقے اس اس كى تحقيق كيجئے تيسرى بات يہ كہ اپنے شك و شبہ كا اظہار ہر كسى كے سامنے نہ كيجئے كيونكہ ان ميں آپ كے دشمن يا ايسے لوگ ہوسكتے ہيں جو آپ سے حسد كرتے ہوں لہذا وہ آپ كى بات كى تائيد كركے اس ميں كچھ اور حاشيہ آرائي كرديں گے تا كہ آپ كى زندگى ميں تلاطم پيدا ہوجائے يا ہوسكتا ہے كہ جس كے سامنے آپ بيان كريں وہ آپ كا دمشن نہ ہو ليكن نادان ، ناتجربہ كار اور ہربات پر فوراً يقين كرلينے والا ہو اور ہمدردى كے خيال سے آپ كى ہاں ميں ہاں ملائے بلكہ اور كچے فضول باتوں كا اضافہ كركے آپ كے ذہن كو پريشان كردے _ لہذا مناسب نہيں ہے كہ آپ نادان اور ناتجربہ كارلوگوں سے مشورہ ليں حتى كہ اپنى ماں، بہنوں اور عزيزوں سے بھى نہ كہيں _ البتہ اگر آپ ضرورى سمجھتى ہيں تو اس كام كے لئے اپنے كسى عقلمند ، تجربہ كار، ہوشيار اور خيرخواہ دوست كا انتخاب كريں اور اسے سارى بات بتا كر اس سے مشورہ ليں _

چوتھى بات يہ ہے كہ اگر شواہد و دلائل كے ذريعہ آپ كے شوہر كى خيانت ثابت نہ ہوسكے اور آپ كے عزيز و اقارب اوردوستوں نے بھى تصدبق كردى ہو كہ ان دلائل كے ذريعہ آپ كے شوہر كي

۸۴

خيانت ثابت نہيں ہوتى او روہ بے گناہ ہے نيز آپ كے شوہر بھى ثبوت و دلائل كے ذريعہ اور قسميں كھاكر اپنى بے گناہى كا يقين دلائيں ، ليكن اس كے باوجود آپ كى بدگمانى اور شك و شبہ دور نہيں ہوتا تو يقين كيجئے كہ آپ بيمار ہيں اور آپ كا يہ وہم ، نفسياتى اور اعصابى مرض كا نتيجہ ہے _ لہذا ضرورى ہے كہ كسى اچھے اور تجربہ كارنفسياتى ڈاكٹر (سائيكوجسٹ)كے پاس جاكر اپنا علاج كرايئےور اس كے كہنے پر عمل كيجئے _

پانچويں بات يہ ہے كہ آپ كى مشكل كا حل وہى ہے جس كا ذكراوپر كيا گيا ہے _ لڑائي جھگڑے چيخ پكار، اور ہنگاموں كے ذريعہ نہ صرف يہ كہ آپ كى مشكل حل نہيں ہوسكتى بلكہ اور دوسرى بہت سى مشكلات لاحق ہونے كا امكان ہے _ خاندانوں كى حمايت كرنے والى عدالت سے بھى رجوع نہ كريں _ عليحدگى اور طلاق كا مطالبہ نہ كريں _ اپنے شوہر كو بدنام نہ كرتى پھريں _ كيونكہ اس طرح كى باتوں سے كوئي اچھا نتيجہ بر آمد نہيں ہوگا بلكہ ايسى صورت ميں ممكن ہے دشمنى اور ضد پيدا ہوجائے اور مجبور ہوكر آپ كا شوہر طلاق ديدے اور آپ كى زندگى كا شيرازہ بكھر جائے _ يہ صورت حال آپ كے لئے ذرا بھى نفع بخش نہ ہوگى اور سارى عمر آپ پچھتاتى رہيں گى _

ايسے وقت ميں صبر و ضبط اور دانشمندى سے كام لينا چاہئے _ گھبراكے كوئي خطرناك فيصلہ نہ كيجئے _ خودكشى كا اقدام نہ كيجئے _ كيونكہ اس قبيح عمل كا ارتكاب كركے اپنى دينا بھى كھوئيں گى اور آخرت ميں بھى ہميشہ كے لئے دوزخ كے عذاب ميں مبتلا رہيں گى _ كيا يہ نہايت افسوس ناك بات نہيں كہ انسان ايك فضول سے خيال كے پيچھے اتنا جذباتى ہوجائے كہ اپنى قيت زندگى كا خاتمہ كرلے _ كيا يہ بہتر نہيں كہ عقلمندى اور بردبارى سے كام لے كر اپنے مسائل كو سلجھانے كى كوشش كى جائے ؟

اور چھٹى بات يہ ہے كہ اگر آپ كى بدگمانى دور نہيں ہوئي ہے اور آپ كو شك يا يقين ہے كہ آپ كے شوہر كى دوسرى عورتوں پر بھى نظر ہے تو ايسى صورت ميں بھى قصور خود آپ كا اپنا ہے اس بات سے ظاہر ہوتا ہے كہ آپ ميں اتنى صلاحيت و لياقت اور فہم وتدبر نہيں ہے كہ اپنےشوہر كے دل كو اس طرح مسخر كرليں كہ اس ميں دوسرى عورتوں كے سمانے كى جگہ ہى باقى نہ رہے _ ليكن اب بھى دير نہيں ہوئي ہے _ ہٹ دھرمى اور نادانى چھوڑيئے خوش اخلاقى ، اچھے رويہ اور محبت كا مظاہرہ كركے اپنے شوہر كے دل ميں اس طرح اپنى جگہ بناليجئے كہ اس كو صرف آپ ہى آپ نظر آئيں اور آپ كے علاوہ كوئي دوسرى عورت اس ميں جگہ نہ پا سكے _

۸۵

دوسروں كى برائي كرنے والوں كى باتوں پر توجہ نہ ديجئے :

عام طور پر لوگوں ميں ايك بہت برى عادت ، دوسروں كى برائي اور عيب جوئي كرنے كى ہوتى ہے _ يہ گندى عادت بذات خود بہت برى چيز ہونے كے علاوہ بيشمار خراب نتائج كى حامل ہوتى ہے _ اس كے سبب بدگمانياں اور غلط فہمياں پيدا ہوجاتى ہيں _ نفاق و دشمنى پيدا ہوجاتى ہے _ اس كے سبب آپ ميں انس و محبت كے رشتے منقطع ہوجاتے ہيں _ دوستى و صميمت كا خاتمہ ہوجاتاہے _ خاندانوں كے آپس كے تعلقات ميں سر مہرى آجاتى _ مياں بيوى ميں ترفہ اندازى اور عليحدگى كا سبب بنتى ہے قتل و غارت گرى كا باعث بنتى ہے _

افسوس ناك بات تو يہ ہے كہ يہ عظيم عيب كچھ اس طرح ہمارے معاشرہ ميں سرايت كرگيا ہے كہ لوگ اس كو عيب اور برائي ہى نہيں سمجھتى ہر مجلس ميں اس كے ذريعہ منہ كا مزہ بدلا جاتا ہے اور ہر محفل كے لئے يہ عادت زينت بخش اور مشغلہ شمار كى جاتى ہے _ كم ہى ايسى محفليں ہوں گے جہاں كسى كى بدگوئي نہ كى جائے_ خاص طور پر اگر زنانہ محفل ہو اور دو عورتيں آپس ميں مل بيٹھيں تو ايك دوسرے كى غيبت اوربے پر كى باتيں شروع ہوجاتى ہيں _ يہ اس كى برائي كرتى ہے وہ اس كى مذمّت كرتى ہے ، غيبت كا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے _ گويا عيب جوئي كرنے كا مقابلہ ركھا گيا ہے _ اور سب سے بدتر تو يہ كہ جب دوسروں كو چھوڑ كرايك دوسرے كے شوہر پر تنقيد كرنے پر اتر آتى ہيں _ ايك دوسرى كے شوہر ميں كيٹرے نكالنا شروع كرتى ہے _ ايك دوسرى كے شوہر كى شكل و صورت كى برائي كرتى ہے يا اس كى تعليمى سطح پر اعتراض كرتى ہے يا اس كے اخلاق و كردار كو اپنى تنقيد كا نشانہ بناتى ہے يا اس كى مالى حالت پر اظہار افسوس كرتى ہے _اگر تيل فروش ہے تو كہتى ہے تمہارے شوہر كے پاس سے تيل كو بواتى ہے ،

۸۶

كس طرح اس كے ساتھ نباہ كرتى ہو _ اگر موچى ہے تو كہے گى بھلا موچى سے كيوں شادى كى ؟ اگر ڈرائيور ہے تو كان بھرے گى كہ تمہارا شوہر ہميشنہ سفر ميں رہتا ہے يہ تمہارے لئے اچھا نہيں ہے _ اگر قصاب ہے تو كہتى ہے اس كے پاس سے گوشت كى بو آتى ہے اگر دفتر ميں كام كرتاہے تو كہتى ہے ايسے آدمى كو زندگى اور دفتر ميں ذرا بھى آزادى حاصل نہيں ہوتى _ اگر غريب اور كم آمدنى والا ہے تو كہتى ہے ايسے غريب كے ساتھ كيسے گذار كرتى ہو_ اے ہئے تم ايسى خوبصورت اور مياں ايسا بدصورت اور بے ہنگنم كيسا چھوٹے سے قد كا ، كالا او ردبلا پتلا لاغر ہے _ بھلا ايسے مرد سے كيوں شادى كى تھي؟ كيا ماں باپ كوبھارى تھيں كہ ايسے آدمى سے تمہيں بياہ ديا ؟ _ ارے تمہارے تو سينكڑوں رشتے آئے ہوں گے _ افسوس تمہيں ايسے جاہل كے پلے باندھ كرسارى خوشيوں سے محروم كرديا نہ سينما، نہ تھيڑ نہ تفريح ، يہ بھى كوئي زندگى ہے ؟ اے ہئے تمہارا مياں كيسا بدمزاج ہے جب بھى اسے ديكھتى ہوں تيورياں چڑھى ہوئي ايسے نك چڑھے كے ساتھ كيسے گزاراكرتى ہو؟ اتنا پڑ ھ لكھ كر بھلا ايك ديہاتى سے كيوں شادى كرلي؟ يہ اور اس قسم كى دوسرى سينكڑوں باتوں كا عورت كے درميان تبادلہ ہوتا رہتا ہے در اصل اس قسم كى بے لگا م باتوں كى عادت كچھ اس طرح پڑجاتى ہے كہ ذرا بھى نہيں سوچتيں كہ ان باتوں كے كيا نتائج ہوسكتے ہيں _ انھيں ذرا بھى فكر نہيں كہ ممكن ہے ان كا ايك جملہ كسى عورت كو اپنے شوہر سے بد ظن كردے اور انجام كا ر اس كا نتيجہ طلاق و عليحدگى بلكہ قتل و غارت گرى ہو اور بسا بسا يا گھر تباہ و برباد ہوجائے _ اسى قسم كى عورتيں درحقيقت انسان كى صورت ميں شيطان ہوتى ہيں خاندانوں كى خوشحالى اور سكون و اطمينان كى دشمن ہوتى ہيں جس طرح شيطان كا كام دشمنى ، اختلاف اور نفاق پيدا كرنا ہے اسى طرح يہ عورتيں بھى خوش و خرم گھرانوں كو دردناك اور تاريك قيد خانوں ميں تبديل كرديتى ہيں_ اب يہ غور كرنا كہ ہميں كيا كرنا چاہئے ؟ ہمارے معاشرے كى جملہ خرابيوں ميں سے ايك يہ ايك انتہائي برى اور تباہ كن خرابى ہے _ حالانكہ اسلام نے اس چيز كى سختى سے ممانعت كى ہے ليكن ہم اس ذليل عادت سے دستبردار ہونے پر تيار نہيں _

۸۷

حضرت رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں ، اے وہ لوگو جو زبانى طور پر تواسلام كا دم بھرتے ہو ليكن تمہارے دلوں ميں ايمان نے راہ پيدا نہيں كى ہے ، مسلمانوں كى برائي نہ كيا كرو اور دوسروں كى عيب جوى كى فكر ميں نہ رہو كيونكہ جو شخص دوسروں كے عيبوں كو ظاہر كرے گا خدا بھى اس كے عيوب برملاكرے گا اور اس صورت ميں وہ رسوا ہوگا خواہ اپنے گھر ہى ميں كيوں نہ ہو_(۷۳)

كٹنى قسم كى يہ عورتيں ، اس قسم كى باتيں كركے اپنے چند مقاصد پورے كر سكتى ہيں _ يا تو دشمنى اور كينہ كے سبب اس قسم كى باتيں كرتى ہيں تا كہ كسى خاندان كو تباہ كرديں يا جذبہ رشك و حسد ان كو عيب جوئي پر مجبور كرتا ہے ، يا اس قسم كى باتوں سے ان كا مقصد فخر اور خود ستائي ہوتا ہے اور دوسروں كى برائي كركے چاہتى ہيں كہ اپنى خوبياں دوسروں كے سامنے بيان كريں _ يا يہ وجہ بھى ہوسكتى ہے كہ انھيں خود اپنے عيب او رنقص كا علم ہو اور ان كا احساس كمترى انھيں دوسروں پر تنقيد كرنے پر ابھارتا ہے _ يا سادہ لوح عورتوں كو فريب اور دھوكہ دينا ان كامقصد ہوسكتا ہے يا اس طريقے سے اپنى ہمدردى اور خيرخواہيہ جتانا چاہتى ہوں _ بعض عورتيں بلا مقصد صرف تفريح اور مشغلہ كے طور پر اپنى گندى عادت سے مجبور ہوكر ايسا كرتى ہيں _ بہر حال يہ بات تو مسلّم ہے كہ ان كا مقصد خيرخواہى يا ہمدردى نہيں _ يہ برى عادت جو ہمارے سماج ميں مردوں اور عورتوں دونوں ميں پائي جاتى ہے _ اس كے نتائج بے حد خطرناك ہوتے ہيں _ يہ خراب عادت دوستوں كے درميان رخنہ ڈال ديتى ہے ، جنگ و جدال كا سبب بنتى ہے _ خوش و خرم زندگيوں كا شيرازہ بكھيرديتى ہے _ اس كے باعث كس قدر قتل و خون ہوجاتے ہيں _

قارئين محترم يقينا اس قسم كے بہت سے حادثات وواقعات آپ كى نظر سے بھى گزرے ہوں گے _ ليجئے ايك داستان پر توجہ فرمايئے_

ايك عورت نے عدالت ميں شكايت كى كہ فلاں شخص ، ميرے اور ميرے شوہر كے درميان ناچاقى پيدا كرنے كى غرض سے اس كى بے حد برائياں كيا كرتا تھا _ كہتا تھا يہ

۸۸

شخص ہرگز تمہارے قابل نہيں ہے _ تمہارے حال پر افسوس ہوتاہے كہ ايسے شخص كے ساتھ زندگى گزاررہى ہو _ وہ تم سے بالكل محبت نہيں كرنا_ اس سے طلاق لے لوتا كہ ميں تم سے شادى كرلوں _ اس كے بہكانے ميں آكر ميں گمراہ ہوگئي اور اس كى مدد سے ميں نے اپنے شوہر كو قتل كرڈالا _(۷۴)

خاتون محترم

اب جبكہ آپ اس قسم كے افراد كے ناپاك مقاصد سے واقف ہوگئيں تو اس كا علاج اور حل بھى آپ كے پاس موجود ہے _ اگر اپنى اور اپنے شوہر و بچوں كى بھلائي چاہتى ہيں تو ايسے لوگوں سے ہوشيار رہئے اور اس قسم كى شيطان صفت انسانوں كے بہكانے ميں نہ آجايئے ان كى ظاہرى ہمدردى سے دھوكہ نہ كھاجايئےقين كيجئے يہ آپ كے دوست نہيں بلكہ آپ كى خوشبختى اور پر مسرت زندگى كے دشمن ہيں ان كا مقصد ، آپ كو تباہى و بردبارى كے دہانے پر پہونچا دينا ہے _ سادہ لوحى اور ہر بات پر جلدى يقين كرلينے كى عادت سے پرہيز كيجئے _ اپنى ہوشيارى كے ذريعہ ان كے فاسد مقاصد كو بھانب ليجئے اور اگر يہ آپ كے شوہر كى برائي كرنا چاہيں تو ان كو فوراً ٹوك ديجئے اور بغير كسى تكلف صاف صاف كہديجئے كہ ہمارے اور آپ كے درميان دوستى اور آمد و رفت كا سلسلہ اسى صورت ميں برقرار رہ سكتا ہے كہ آئندہ ميرے شوہر كے خلاف آپ ايك كلمہ بھى نہ كہيں _ ميں اپنے شوہر كو پسند كرتى اس ميں كوئي عيب نہيں ہے _ آپ كو ميرى اور ميرے شوہر اور بچوں كى نجى زندگى سے كوئي سروكار نہيں ركھنا چاہئے _

آپ كے ا س دوٹوك لب ولہجہ سے وہ لوگ اندازہ لگاليں كہ آپ كو اپنے شوہر اور بچوں سے شديد لگاؤ ہے لہذا آپ كو گمراہ كرنے سے مايوس ہوجائيں گے اور اس طريقے سے آپ ہميشہ كے لئے ان كے شروفساد سے محفوظ ہوجائيں گى _ اس بات كى فكر نہ كيجئے كہ يہ بات ان كى رنجيدگى كا باعث ہوگى اور آپ كى دوستى ميں فرق آجائے گا _ كيونكہ اگر وہ لوگ واقعى آپ كے دوست ہيں

۸۹

تو نہ صرف يہ كہ ناراض نہيں ہوں گے بلكہ آپ كى اس عاقلانہ يادآورى سے متنبہ ہوجائيں گے اور آپ كا شكريہ اداكريں گے _ اور اگر دوست كى صورت ميں آپ كے دشمن ہوں گے تو يہى بہتر ہے كہ ميل جول ترك كرديں اور اگر آپ ديكھيں كہ وہ اس گندى عادت سے دستبردار ہونے كو تيار نہيں تو بہترى اسى ميں ہے كہ ان سے مكمل طور پر تعلقات منقطع كرليں كيونكہ ايسے لوگوں سے دوستى اور ميل جول ممكن ہے آپ كے لئے بدبختى كے اسباب فراہم كردے _

شوہر كى رضامندى ضرورى ہے ، ماں كى نہيں

لڑكى جب تك ماں باپ كے گھر ميں رہتى ہے اسے ان كى مرضى كے مطابق كام كرنا ہوتا ہے ليكن جب اس كى شادى ہوجاتى ہے اور وہ شوہر كے گھر چلى جاتى ہے تو اس كے فرائض بھى بدل جاتے ہيں _

شادى كے بعد اسے چاہئے كہ شوہر كى ديكھ بھال كرے اور اس كى رضامندى اور خوشنودى كو ہر چيز پر مقدم سمجھے _ حتى كہ جہاں پر ماں باپ اورشوہر كى خواہش ميں تصادم ہورہا ہو وہاں صلاح اسى ميں ہے ، كہ شوہر كى اطاعت كرے اور اس كى مرضى كے مطابق عمل كرے _ خواہ اس كے ماں باپ كى رنجيدگى اور ناراضگى كا سبب ہى كيوں نہ بنے _ كيونكہ شوہر كى خوشنودى حاصل كرنے سے ، انس و محبت كا رشتہ جو كہ شادى شدہ زندگى كى بقا كا ضامن ہوتا ہے ، مستحكم تر ہوجائے گا _ ليكن اگر ماں كى خواہش و مرضى كو اوليت دى تو ممكن ہے اس مقدس عہد و پيمان ميں تزلزل پيدا ہوجائے يا ٹوٹ جائے _ كيونكہ بہت سى مائيں صحيح تربيت اور اعلى فكر كى حامل نہيں ہوتيں _ انھوں نے اب تك اس بات كو نہيں سمجھاہے كہ لڑكى اور داماد كوان كے حال پر آزاد چھوڑدينے ہى ميں ان كى بہترى ہے تاكہ آپس ميں ايك دوسرے سے مانوس ہوں اور مفاہمت پيدا كريں _اپنے حالات كے مطابق اپنى زندگى كے پروگرام كو تياركركے اس پر عمل كريں اور اگر كوئي مشكل پيش آجائے تو مشورہ اور مفاہمت سے اسے حل كريں _

صحيح تعليم و تربيت سے عارى خواتين ، چونكہ اس حقيقت كو جو عين مصلحت كے مطابق ہے سمجھ نہيں باتيں اس لئے اس فكر ميں رہتى ہيں كہ داماند كو اپنى مرضى كے مطابق چلائيں _ اسى لئے براہ راست

۹۰

اور بالواسطہ طور پر ان كے امور ميں مداخلت كرتى ہيں اور اس مقصد كے تخت اپنى بيٹى سے ، جو كہ ابھى جوان اور ناتجربہ كارہے اور اپنى بھلائي برائي سے پورى طرح آگاہ نہيں ہے ، استفادہ كرتى ہيں اس كو داماد پر اثر انداز ہونے كے لئے آلہ كار كے طور پر استعمال كرتى ہيں _ برابر حكم ديتى رہتى ہيں كہ اپنے شوہر سے كس طرح برتاؤ كرو ، كيا كہو ، كيا نہ كہو _ سادہ لوح لڑكى چونكہ اپنى ماں كو اپنا خيرخواہ اور مصلحت انديش ، سمجھتى ہے اس لئے اس كى اطاعت كرتى ہے اور اس كے كہنے پر عمل كرتى ہے _ اگر داماد ان كى مرضى كے مطابق چلتا رہا تو كيا كہنے _ ليكن اگر اس نے سرتابى كو تو لڑائي جھگڑا ، رسہ كشى اور ضد كا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے _ يہ نادان عورتيں ممكن ہے اس سلسلے ميں اس قدر سختى اور ہٹ دھرمى سے كام ليں كہ اپنے بيٹى داماد كو اپنى ضد اور خود سرى پر قربان كركے ان كى زندگياں تباہ كرديں _ بجائے اس كے كہ لڑكى كو نصيحت كريں ، ساتھ نبھانے گى ترغيب دلائيں ، تسلى ديں ، برابر اس كے شوہر كى برائياں كرتى رہتى ہيں _ مثلاً ہائے ميرى بچى كى قسمت پھوٹ گئي _ كيسا خراب شوہر اس كے پلے پڑاہے كيسے اچھے اچھے رشتے آئے تھے _ فلان كى زندى كيسى اچھى گزرہى ہے _ ميرى بھانجى كو ديكھو اس كے كيا ٹھاٹ باٹ ہيں _ فلاں اپنى بيوى كے لئے كيسے اچھے اچھے لباس لاتا ہے _ميرى لڑكى بھلا كسى سے كم ہے جو ايسى زندگى گزارہے ؟ ہائے ميرى بيٹى كے كيسے نصيب ہيں _ اس قسم كى باتيں جو ہمدردى اور خيرخواہى كے طور پرادا كى جاتى ہيں سادہ لوح لڑكى كو شوہر اور زندگى كى جانب سے بدظن اور سرومہر بناديتى ہيں اور بہانہ بازيوں اور باہمى رنجش كے اسباب فراہم كرديتى ہيں _ لڑكى كے دل ميں زہر آگين خيالات سرايت كرجاتے ہيں اور وہ بہانے تلاش كركے اپنے شوہر سے لڑتے جھگڑتى اور اسے اذيت ميں مبتلا كرتى ہے _ خود بھى اس كى حمايت ميں كھڑى ہوجاتى ہيں اور زبانى و عملى طور پر اس كى تائيد كرتى ہيں اور كاميابى حاصل كرنے كے لئے كسى بھى چيز حتى كہ طلاق دلانے اور اپنى بيٹى كا گھر اجاڑنے سے بھى دريغ نہيں كرتيں _ ذيل كى داستانوں پر توجہ فرمايئے_

۹۱

ايك تيس سالہ عورت نے اپنى پچاس سالہ ماں كو ، جو كہ اس كو اپنے شوہر سے جدا كردينے كا

باعث بنى تھى ، تھپڑمارديا _ عورت نے كہا كہ ميرى ماں مجھ سے ميرے شوہر كى بے حد برائي كيا كرتى تھى اور اسے گھر اور خاندان سے بے تعلق رہنے كا الزام ديا كرتى تھى _ آخر كار مجھے اپنے شوہر سے اختلاف پيدا ہوگيا اور ميں اس سے طلاق لينے پر تيار ہوگئي ليكن فوراً ہى مجھے اپنے فعل پر پشيمانى كا احساس ہو ا ليكن اس پشيمانى كا كوئي فائدہ نہ ہوا كيونكہ ميرے شوہر نے عليحدہ ہونے كے چھ گھنٹے بعد ہى اپنى خالہ كى لڑكى سے منگنى كرلى اور ميں نے فرط غم سے اپنى ماں كو مارديا_(۷۵)

اى ۳۹ سالہ مرد اپنى بيوى اور ساس كے ہاتھوں اتنا پريشان ہوا كہ اس نے خودكشى كرلى _ اس نے جو خط چھوڑ اس ميں لكھا تھا چونكہ ميرى بيوى ، جس شہر ميں ، ميں كام كرتا ہوں ، آنے پر راضى نہيں ہوتى اور اپنے ناروا سلوك سے مجھے اس قدر اذيت پہونچاتى ہے كہ ميں اس سے نجات حاصل كرنے كى غرض سے اپنى زندگى كا خاتمہ كررہا ہوں ميرى موت كى ذمہ دار ميرى بيوى اور اس كى ماں ہے _(۷۶)

ايك مرد نے اپنى ساس كى دخل اندازيوں سے پريشان ہوكر خودكشى كرلى _(۷۷)

ايك مرد نے جو اپنى سا س كى بيجا مداخلتوں كے سبب بے حد تنگ آگيا تھا ، اس كو ٹيكسى سے باہر پھينك ديا _(۷۸)

ظاہر ہے اگر لڑكياں اس قسم كى نادان اور خود غرض ماؤوں كى اطاعت و فرمانبردارى كريں گى اور ان كے غلط خيالات كا اثر قبول كريں گى تو يقينا اپنے بسے بسائے گھر كو خود اپنے ہاتھوں تباہ كرديں گى _

لہذا جو عورت خوش و خرم زندگى گزارنے اور اپنى شادہ شدہ زندگى كو برقرار ركھنے كى خواہشمند ہے اسے چاہئے كے بغير سوچے سمجھے اپنى ماں كے افكار و خيالات كو قبول نہ كرے اور اسے سو فيصدى درست اور مصلحت كے مطابق تصور نہ كرلے _ ايك عقلمند اور ہوشيار عوت ہميشہ احتياط اور عاقبت انديشى سے كا ليتى ہے اپنے ماں باپ كى گفتار اور تجاويز پر خوب غور كرتى ہے

۹۲

اور اس كے انجام و نتائج كے بارے ميں سوچتى ہے اور اس كے وسيلے سے اپنى ماں كو پركھتى ہے _ اگر ديكھتى ہے كہ اس كى ماں تعاون كرنے اور ايك عاقلانہ روش اپنانے كى ترغيب دلاتى ہے تو جان ليتى ہے كہ وہ خيرخواہ ، عقلمند اور مدبر خاتون ہے _ اس صورت ميں اس كے كہنے پر عمل كرنا چاہئے اور اس كى عاقلانہ ہدايوں كو قبول كرنا چاہئے ليكن اگر ديكھے كہ اپنى جاہلانہ باتوں اور غير عاقلانہ تجاويز كے ذريعہ اس كو اپنے شوہر سے بد ظن كرديتى ہے اور اس كى بدبختى كے اسباب فراہم كرتى ہے تو يقين كرلينا چاہئے كہ وہ نادان ، بد سليقہ اور بداخلاق ہے _ ايسے موقع پر دور استوں ميں سے ايك كا انتخاب كيا جا سكتا ہے يا تو اپنى ماں كى رہنمائيوں اور احكام كے مطابق شوہر سے عدم تعاون كرے _ بہانہ بازياں كرے شوہر كے خلاف اعلان جنگ كردے _ يا ماں كا باتوں پردھياں نہ دے اور اپنے شوہر كى رضامندى اور خوشى كا خيال ركھے _ ايك سمجھدار عورت پہلى راہ كا انتخاب ہرگز نہيں كرے گى كيونكہ وہ سوچتى ہے ہ ميں نے اگر ماں باپ كى باتوں پر عمل كيا تو اس كا ياك نتيجہ يہ ہوگا كہ ميں راہ راست سے منحرف ہوجاؤں گى يا رسارى زندگى شوہر كے ساتھ لڑائي جھگڑے اور كشمكش ميں گزرنے گى اور ميري، شوہر اور بچوں كى زندگى اجيرن ہوجائے گى _ يا طلاق لے لوں اور ماں باپ كے گھر لوٹ آوں _ ايسى صورت ميں مجبور ہوجاؤںگى كہ سارى زندگى ماں باپ كے سرپڑى رہوں _ حالانكہ ميں جانتى ہوں كہ وہ مجھ كو خاندان كے ايك اصلى ممبر كى حيثيت سے قبول كرنے كو تيار نہيں ہوں گے اور مجھ كو ايك بوجھ سمجھيں گے _اور مجھ سے جان چھڑانے كى كوشش كريں گے _ پس اس كے سوا كوئي چارہ نہيں كہ ذلت و خوارى كے ساتھ زندگى گزاروں _ بھائي بہنوں كے لعن طعن سنوں اور اگر ماں باپ سے عليحدہ زندگى گزارنا چاہوں تو كہاں جاؤں _ تنہا كس طرح زندگى گزاروں _ اگر دوسرى شادى كرلوں تو معلم نہيں پہلے شوہر سے بہتر ہوگا يا نہيں كيونكہ ميرى جيسى عورتوں كے لئے جن مردوں كے رشتہ آتے ہيں وہ عموماً طلاق يافتہ ہوتے ہيں يا ان كى بيوياں فوت ہوگئي ہوتى اورزيادہ تر بچوں والے ہوتے ہيں ايسى صورت ميں ان كے بچوں كى ديكھ بھال كرنے پر بھى مجبور ہوجاؤں گى _

۹۳

اس كے علاوہ اور دوسرى سينكڑوں مشكلات اور درد سر كاسامنا ہوگا اور معلوم نہيں كہ دوسرا شوہر كيسا ہوگا _ شايد اس ميں اس سے بھى زيادہ اور بدتر عيوب ہوں _ ليكن اس كے ساتھ زندگى گزارنے پر مجبور ہوجاؤگى _ ممكن ہے ميرے عدم تعاون كے سبب ميرا شوہر پريشان ہوكر كوئي خطرناك فيصلہ كرلے _ فرار ہوجائے يا خودكشى كرلے _ ممكن ہے اس كشمكش اور ہٹ دھرمى كى نتيجہ ميں خود ميرى جان پر بن آئے اور سوائے خودكشى كے اور كوئي چارہ نظر نہ آئے اور اس ناجائز اقدام كے ذريعہ اپنى دنيا و آخرت دونوں تباہ كرلوں _

ايسے حالات ميں قضيہ كے ہر پہلو پرخوب غورو فكر كرنى چاہئے اور اس كے نتائج كا تجزيہ كرنا چاہئے اور اس كے انجام كو ذہن ميں ركھ كر ايك تھوس فيصلہ كرنا چاہئے كہ ماں يا دوسرے رشتہ داروں كى غير منطقى تجاويز اور فضول باتوں سے قطع نظر كركے اپنے شوہر كى ديكھ بھال ميں لگ جائے _ اور اپنى ماں سے مناسب لہجہ ميں كہدے كہ ميرے مقدر ميں اسى مرد سے شادى ہونا لكھا تھا _ لہذا اب ميرى بہترى اسى ميں ہے كہ پورى تندہى اور سنجيدگى كے ساتھ اس مشتركہ زندگى كو خوشحال اور پرمسرت بنانے كى كوشش كروں اور اپنے اچھے اخلاق و كردار كے ذريعہ اپنے شوہر كو راضى و خوش ركھوں _

وہى مجھكو خوش نصيب بنا سكتاہے _ وہى ميرا شريك زندگى اور مونس و غمخوار ہے _ ميرى نظر ميں اس سے بہتر كوئي دوسرا نہيں _ ہم لوگ مسائل كو خود حل كرليں گے اور اگر كوئي مشكل آپڑى تو وہ حل ہوجائے گى _ آپ كى مداخلتوں كے سبب ممكن ہے ہمارى ازدواجى زندگى تباہ و برباد ہوجائے _ اگر آپ چاہتى ہيں كہ ہمارى آمدو رفت اور تعلقات قائم رہيں تو ہمارى نجى زندگى ميں بالكل دخل اندازى نہ كيجئے اور ميرے شوہر كى برائي نہ كيجئے _ ورنہ ميں آپ سے قطع تعلق كرنے پر مجبور ہوجاؤں گى اگر آپ كى ان باتوں اور نصيحتوں كا ان پر اثر ہوتا ہے اور وہ اپنے رويہ ميں تبديلى پيدا كرليتى ہيں تو آپ ان سے تعلقات قائم ركھيں ليكن اگراپنى اصلاح كرنے پر تيار نہيں تو آپ كى بہترى اسى ميں ہے كہ ماں كے يہاں آنا جانا بہت كم كرديں _ اور اس طرح ايك بہت بڑے خطرے يعنى خاندان كا

۹۴

شيرازہ درہم برہم ہونے كے خطرے سے نجات حاصل كرليں اور اطمينان كے ساتھ زندگى گزاريں _ اسى صورت ميں ممكن ہے رشتہ داروں كى نظر ميں آپ كى عزت ووقار كم ہوجائے ليكن اس كے بدلے ميں آپ كے شوہر كى محبت و خوشنودى ميں كئي گنا اضافہ ہوجائے گا اور اس كى نظروں ميں آپ كى عزت ووقار بڑھ جائے گا _

حضرت رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم كا ارشاد گرامى ہے كہ تم ميں سے بہترين عورت وہ ہے جس كا زيادہ بچے ہوں _ شوہر سے محبت كرنے والى ، پاك دامن اور باحياہو اپنے ، رشتہ داروں كے مقابلے ميں تسليم نہ ہو ليكن اپنے شوہر كى مطيع و فرمانبردار ہو _ اپنے شوہر كے لئے آرائشے كرے _ خود كو غيروں سے محفوظ ركھے _ اپنے شوہر كى بات سنے اور اس كى اطاعت كرے _ جب دونوں تنہا ہوں تو اس كے ارادے پر عمل كرے ليكن ہر حال ميں شرم و حيا كا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے''_

پھر فرمايا: تم ميں سے بدترين عورت وہ ہے جو اپنے رشتہ داروں كى اطاعت كرے ليكن اپنے شوہر كى بات پر توجہ نہ دے _ كينہ ور اور بانجھ ہو _ برے كاموں سے پرہيز نہ كرے _ شوہر كى غير موجودگى ميں زينت و آرائشے كرے اور خلوت ميں شوہر كى خواہشات كو رد كرے _ اس كے عذر كو قبول نہ كرے اور اس كے گناہوں كو معاف نہ كرے _(۷۹)

گھر ميں بھى صاف ستھرى اور سجى بنى رہئے :

اكثر خواتين كى عادت ہوتى ہے كہ جب باہر جاتى ہيں يا كسى جشن ميں شركت كرتى ہيں يا كہيں دعوت ميں جاتى ہيں تو آرائشے كرتى ہيں بہترين لباس پہنتى ہيں اور حتى المقدور بہترين شكل ميں گھر سے باہر جاتى ہى ليكن جب گھرواپس آتى ہيں گھر ميں صاف ستھرى نہيں رہتيں ، بنا ؤ سنگھا رنہيں كرتيں الجھے بالوں اور گھر دارى كے لباس مسں گھومتى رہتى ہيَ داغ لگے ميلے كچيلے كيٹر ے پہنے رہتى ہيں _ حالا نكہ چا ہئے اس كے بر عكس عورت كو چا ئہے گھر ميں اپنے شوہر كے لئے آرائشے

۹۵

كرے _ اپنے شوہر كے لئے جو كہ اس كا دائمى شريك زندگى ، دوست ، مونس و غمخوار اور اس كے بچوں كا باپ ہے ،سجے بنے ،نازوانداز دكھائے اور اس كے دل كو اپنے بس ميں كرلے تا كہ گلى كوچے كے دلبر اس كے دل ميں جگہ نہ پا سكيں _ دوسروں كى كيا اہميت ہے ان كے لئے زيب و زينت كى جائے _ كيا يہ بات قابل تاسف نہيں كہ عورت غيروں كى توجہ كا مركز بننے كے لئے آرائشے و زيبائشے كرے اور جوانوں اور دوسرى عورتوں كے لئے مشكلات پيدا كردے _

پيغمبر اسلام (ص) فرماتے ہيں : جو عورت خوشبولگا كرباہر جائے جب تگ گھر واپس نہ آجائے خدا كى رحمت سے دور رہتى ہے _(۸۰)

آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا يہ بھى ارشاد گرامى ہے كہ تم ميں سے بہترين عورت وہ ہے جو اپنے شوہر كى اطاعت گزار ہو اس كے لئے آرائشے كرے ليكن اپنا بناؤ سنگھار غيروں پر ظاہر نہ كرے اور تم ميں سے بدترين عورت وہ ہے جو اپنے شوہر كى غير موجودگى ميں زينت كرے _(۸۱)

خاتون عزيز ايك مرد كے دل كو قابوميں كرنا ، وہ بھى ہميشہ كے لئے، كوئي آسان كام نہيں ہے _ يہ نہ كہئے كہ وہ مجھے چاہتا ہے لہذا كيا ضرورت ہے كہ اس كے سامنے يجوں بنوں اور ناز و غمزے دكھاؤں جى نہيں اس كے عشق كى ہميشہ حفاظت كيجئے _

يقين جانئے آپ كا شوہر چاہتا ہے كہ آپ اس كے سامنے ہميشہ بنى سنورى اور صاف ستھرى رہيں _ خواہ زبان سے نہ كہتا ہو _ اگر آپ اس كى دلى خواہش كو پورا نہ كريں تو ممكن ہے گھر سے باہر صاف ستھرى اور سجى بنى عورتوں پر نظريں ڈالے اور آپ سے اس كا دل بھر جائے اور وہ گمراہ ہوجائے _ جب دوسرى صاف ستھرى سليقہ مند عورتوں كو ديكھتا ہے تو ان كا مقابلہ آپ كى برى وضع قطع سے كرتا ہے اور سوچتا ہے كہ يہ فرشتے ہيں جو آسمان سے نازل ہوئے ہيں آپ بھى گھر ميں اس كے لئے صاف ستھرى رہئے _ بناؤ سنگھاركيجئے _ اچھے اچھے لباس پہنئے نازو انداز دكھايئےا كہ وہ سمجھے كہ آپ بھى كم نہيں بلكہ ان عورتوں نے زيادہ اچھى اور خوبصورت ہيں _ ايسي

۹۶

صورت ميں آپ اس كے پائيدار عشق كى اميد كرسكتى ہيں اور ہميشہ كے لئے اس كے دل پرحكومت كرسكتى ہيں ايك شوہر كے خط پر توجہ فرمايئے لكھتا ہے _

''گھر ميں ميرى بيوى كى حالت ميں اور خدمت گارميں كوئي فرق نہيں _ خدا كى قسم بعض وقت سوچتا ہوں ان خوبصورت اور نفيس لباسوں ميں سے كوئي لباس گھر ميں پہن لے جو اس نے دعوتوں اور اپنے كام پر جانے كے لئے تيار كيئے ہيں اور ان پرانے اور ڈھيلے ڈھالے بد وضع كپڑوں سے دستبردار ہوجائے _ كئي بارميں نے اس سے كہا ، ڈيركم از كم چھٹى كى دنوں ميں توان نفيس لباسوں كو استعمال كرليا كرو_ ترش روئي سے كہتى ہے: ميں تمہارے اور بچوں كے سامنے پابند نہيں ہوں _ ليكن اگر ايك دن بھى اپنے ساتھ كام كرنے والوں كے سامنے ٹھيك سے تيار ہوكر نہ جاؤں تو شرمندگى اٹھانى پڑتى ہے ''(۸۲)

شايد آپ كہيں كہ گھر اور باورچى خانہ كے كاموں كے ساتھ بن سنور كررہنا ممكن نہيں ہے ليكن اگر آپ اس عمل كى قدر و قيمت سے واقف ہوجائيں تو يقينا آپ اس مشكل كو حل كرسكتى ہيں _ گھر كے كاموں كو انجام دينے كے لئے ايك لباس مخصوص كر ليجئے اور كام كے وقت اسے استعمال كيجئے جب كام سے فارغ ہوجائيں اور آپ كے شوہر كے آنے كا وقت ہو اس وقت صاف ستھرى ہوكر عمدہ لباس پہنئے بالوں كو سنواريئےور آراستہ ہوكر اپنے شوہر كى آمد كا انتظار كيجئے _

حضرت امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ہيں: عورت پر لازم ہے كہ اپنے جسم ميں خوشبو لگائے اپنا بہترين لباس پہنے _ بہترين طريقے سے زيب و زينت كرے _ اور ايسى حالت ميں صبح اور رات كو اپنے شوہر سے ملے _(۸۳)

امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں : عورت كو آرائشے و زيبائشے ترك نہيں كرنا چاہئے خواہ ايك گلوبندى كيوں نہ ہوں ہاتھوں كو بھى سادہ نہيں ركھنا چاہئے چاہے تھوڑى سى مہندى ہى لگالے _ حتى كہ بوڑھى عورتوں كو بھى زينت و آرائشے ترك نہيں كرنا چاہئے _(۸۴)

۹۷

اس پر اپنى مامتا نچھاور كيجئے

مصيبت اور بيمارى كے وقت انسان كو تيمار داراور غمخوار كى ضرورت ہوتى ہے اس كا دل چاہتا ہے كہ كوئي اس سے ہمدردى كرے نوازش و دلجوئي كركے اس كو تسكين دے _ تسلى و تشفى كے ذريعہ كے اعصاب كو سكون پہونچائے _ در اصل مرد وہى سابق بچہ ہوتا ہے جو بڑا ہوگيا ہے اور اب بھى ماں كى نوازش و محبت كا بھوكا ہوتا ہے _ مرد جب كسى عورت سے رشتہ ازدواج ميں منسلك ہوتا ہے تو اس توقع ركھتا ہے كہ پريشانى اور بيمارى كے موقعوں پر ٹھيك ايك مہربان ماں كى طرح كى تيمار دارى اور دلجوئي كرے _

خواہر عزيز اگر آپ كے شوہر بيمار پڑگئے ہيں تو ان كے ساتھ پہلے سے زيادہ مہربانى كا برتاؤ كيجئے _ ان سے اظہار ہمدردى كيجئے اور افسوس كا اظہار كيجئے _ ان كى علالت پر اپنے شديد رنج و غم كو ظاہر كيجئے _ان كو تسلى ديجئے _ ان كے آرام كا خيال ركھئے _ اگر ڈاكٹر يا دوا كى ضرورت ہو تو مہيا كيجئے _ جس غذا سے انھيں رغبت ہو اور ان كے لئے مناسب ہو فوراً تيار كيجئے _ باربار ان كى احوال پرسى كيجئے اور تسلى ديجئے _ ان كے پاس زيادہ سے زيادہ وقت گزارنے كى كوشش كيجئے _ اگر دردوتكليف كى شدت سے انھيں نيند نہ آرہى ہو تو آپ بھى كوشش كريں كہ ان كے ساتھ جاگتى رہيں _ اگر آپ كو نيند آگئي تو جب آنكھ كھلے تو ہلكے سے ان كا سر سہلا كے ديكھئے اگر بيدار ہيں تو ان كا حال پوچھئے اگر رات جاگ كر گزرى ہے تو صبح كو ناراضگى كا اظہار نہ كيجئے _ دن ميں ان كے كمرے ميں تنہائي اور خاموشى كا اہتمام ركھئے شايد كو نيند آجائے _ آپ كى ہمدردياں اور نوازشيں ان كى تكليف ميں تسكين كا سبب بنيں گى اور ان كے صحت ياب ہونے ميں معاون ثابت ہوں گى _ اس كے علاوہ اس قسم كے كام وفادارى ، صميميت اور سچى محبت كى نشانياں سمجھى جاتى ہيں اور اس كے نتيجہ ميں زندگى ميں لگن وحوصلہ پيدا ہوتاہے آپس ميں محبت ميں اضافہ ہوتا ہے _ اگر آپ بيمار ہوں گى تو يہى سلوك وہ آپ كے ساتھ كريں گے _

۹۸

جى ہاں آپ كا يہ عمل ايك قسم كى شوہردارى ہے _ حضرت رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں : عورت كا جہاد يہ ہے كہ شوہر كى نگہداشت اچھى طرح كرے _(۸۵)

راز كى حفاظت كيجئے _ عام طور پر خواتين كى خواہش ہوتى ہے كہ اپنے شوہر كے اسرار و رموز سے باخبر رہيں وہ چاہتى ہيں كہ كسب معاش كى كيفيت ، تنخواہ ، بينك ، بيلنس ، دفتر رموز اور اس كے مستقبل كے فيصلوں اور ارادوں سے مطلع رہيں مختصر كہ اپنے شوہر سے توقع ركھتى ہيں كہ اپنے تمام رازوں كو ان پر برملا كردے اور ان سے كچھ پوشيدہ نہ ركھے اس كے برعكس بہت سے مرد اس بات پر تيار نہيں كہ اپنے تمام رازوں كو اپنى بيويوں پر ظاہر كرديں _ اور كبھى كبھى يہى موضوع گرما گرمى اور بدگمانى كا سبب بن جاتا ہے بيوى شكاليت كرتى ہے كہ ميرے شوہر كو مجھ پر اعتبار نہيں اپنے رازوں كو مجھ سے مخفى ركھتا ہے اپنے خطوط مجھے پڑھنے نہيں ديتا _ اپنى آمدنى اور پس انداز كے بارے ميں نہيں بتاتا _ مجھ سے اپنے دل كا حال نہيں كہتا _ ميرے سوالوں كے جواب دينے ميں تامل كرتا ہے بلكہ كبھى كبھى جھوٹ بولتا ہے _ اتفاق سے بعض مرد بھى اپنى زندگى كے اسرار و رموز بيوى سے پوشيدہ ركھنا پسند نہيں كرتے ليكن ان كا عذر يہ ہوتا ہے كہ عورتوں كے پيٹ ميں كوئي بات نہيں سكتى _ وہ كسى بات كو پورى طرح پوشيدہ نہيں ركھ پاتيں _ ادھر كچھ سنا اور فوراً دوسروں سے كہديا _ كوئي بھى بہانے بہانے سے اسرار ورموز كو ان كے منھ سے اگلواسكتا ہے _ اور اس طرح خواہ مخواہ ان كے لئے مصيبت كھڑى ہوسكتى ہے _

اگر كوئي انسان كسى كے رازوں كو جاننا چاہے تو آسانى كے ساتھ اس كى بيوى كو فراب دے كر اس كے ذريعہ سے اپنا مقصد پورا كرسكتا ہے يہ بھى ممكن ہے بعض عورتيں رازوں سے واقف ہونے كے سبب اس سے سوء استفادہ كريں _ حتى كہ اس كو شوہر پر غلبہ حاصلہ كرنے كا وسيلہ قرار ديں اور تسكين نہ ہونے كى صورت ميں اس كى پريشانى كے اسباب فراہم كرديں _

البتہ مردوں كا يہ عذر كسى حد تك مدلل ہے _ عورتيں جلدى جذبات اور احساسات سے مغلوب ہوجاتى ہيں اور عام طور پر ان كے احساسات و جذبات ان كى عقل پر غالب آجاتے ہيں _ جب غصہ ميں ہوتى ہيں تو مروت برتنا ان كے لئے دشوار ہوجاتا ہے _ ايسے وقت ميں ممكن ہے رازوں كو جاننے كے سبب اس سے ناجائز فائدہ اٹھائيں اور مرد كے لئے مصيبت كھڑى كرديں _

۹۹

قارئين گرامي اس قسم كے واقعات سے آپ خود بھى واقف ہوں گے _ لہذا عورت اگر چاہتى ہے كہ اس كا شوہر اس سے كوئي چيز پوشيدہ نہ ركھے تو اسے اس بات كا خيال ركھنا چاہئے كہ رازوں كى اس طرح حفاظت كريں اور محتاط رہيں كہ اپنے شوہر كى اجازت كے بغير كسى سے بھى اور كسى صورت ميں بھى كوئي بات نہ كريں _ حتى اپنے قريبى عزيزوں اور گہرے دوستوں سے بھى اپنے شوہر كے رازوں كو نہ كہيں _ راز كى حفاظت كے لئے يہ كافى نہيں كہ خود تو دوسروں يہ كہہ ديں اور اس سے كہيں كہ كسى سے نہ كہنا _ يقينا جس كو راز دار بنايا گيا ہے اس كے بھى كچھ دوست ہوں گے اور ممكن ہے وہ آپ كے راز اپنے دوستوں سے كہہ دے اور كہے كہ كسى اور سے نہ كہنا _ ايك وقت انسان متوجہ ہوتا ہے كہ اس كا راز فاش ہوگئے ہيں لہذا عقلمن انسان اپنے رازوں ميں كسى كو شريك كرنا ناپسند نہيں كرتا حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں : عاقل انسان كا سينہ اس كے رازوں كا صندوق ہوتا ہے _(۸۶)

حضرت على عليہ السلام كا يہ ارشاد ہے كہ دنيا و آخرت كى خوبياں دوچيزوں ميں مضمر ہيں رازكى حفاظت كرنے اور اچھے لوگوں سے دوستى كرنے ميں _ اور تمام برائياں دو چيزوں ميں جمع ہوتى ہيں رازوں كو فاش كرنے اور بدكار لوگوں سے دوستى كرنے ميں _(۸۷)

شوہر كوخاندان كا سرپرست مانئے

ہر ادارے ، تنظيم ، كارخانے ، دفتر ، بلكہ ہر سماجى تنظيم كو ايك ذمہ دار سرپرست كى ضرورت ہوتى ہے _ خواہ اس ادارے كے افراد كے درميان تعاون اور ہم آہنگى پائي بھى جاتى ہوليكن سرپرست كے بغير ادارے كا انتظام بخوبى انجام نہيں پاسكتا _ ايك گھر كے نظام كو چلانا يقينا كسى بھى ادارے سے زيادہ دشوار اور قابل قدر ہے _ اور اس كے لئے ايك سرپرست كى زيادہ ضرورت ہے _

اس ميں كوئي شك نہيں كہ ايك خاندان كے افراد كے درميان آپس ميں مكمل مفاہمت ، تعاون اور ہم آہنگى پائي جانے چاہئے _ ليكن ايك مدبر اور عاقل سرپرست كا وجود بھى اس كے لئے ضرورى ہے جس گھر ميں ايك مدبر اور بااثر سرپرست نہيں ہوتا يقينى طور پر اس گھر ميں

۱۰۰

اولین انسان کی خلقت

ان آیات کی تحلیل جو انسان کی خلقت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ان نتائج کو ہمارے اختیار میں قرار دیتی ہیں کہ موجودہ انسانوں کی نسل، حضرت آدم نامی ذات سے شروع ہوئی ہے ۔ حضرت آدم کی خلقت خصوصاً خاک سے ہوئی ہے۔ اور روئے زمین پر انسانوں کی خلقت کو بیان کرنے والی آیات کے درمیان مندرجہ ذیل آیات بہت ہی واضح اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ موجودہ نسل حضرت آدم اور ان کی زوجہ سے شروع ہوئی ہے ۔

( یَا أیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِن نَفسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَ بَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً کَثِیراً وَ نِسَائً ) (۱)

اے لوگو! اپنے پالنے والے سے ڈرو (وہ پروردگار)جس نے تم سب کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کی ہمسر (بیوی) کو پیدا کیا اور انھیں دو سے بہت سے مرد و عورت (زمین میں )پھیل گئے۔

اس آیت میں ایک ہی انسان سے سبھی لوگوں کی خلقت کو بہت ہی صراحت سے بیان کیاگیا ہے ۔(۲)

( وَ بَدَأَ خَلقَ الِنسَانِ مِن طِینٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلالَةٍ مِن مَّائٍ مَهِینٍ ) اور انسان کی ابتدائی خلقت مٹی سے کی پھر اس کی نسل گندے پانی سے بنائی۔(۳)

اس آیت میں بھی انسان کا نکتہ آغاز مٹی ہے اور اس کی نسل کو مٹی سے خلق ہوئے انسان کے نجس قطرہ سے بتایا ہے یہ آیت ان آیات کے ہمراہ جو حضرت آدم کی خلقت کو (سب سے پہلے انسان کے عنوان سے) خاک و مٹی سے بیان کرتی ہے موجودہ نسل کے ایک فرد ( حضرت آدم ) تک منتہی ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔

( یَا بَنِی آدَمَ لا یَفتِنَنَّکُمُ الشَّیطَانُ کَمَا أَخرَجَ أَبوَیکُم مِنَ الجَنَّةِ ) (۴)

اے اولاد آدم! کہیں تمہیں شیطان بہکا نہ دے جس طرح اس نے تمہارے ماں،

____________________

(۱)سورۂ نساء ۱ (۲)یہی مفاد آیت دوسری آیات میں بھی مذکور ہے جیسے اعراف ۱۸۹۔ انعام ، ۹۸۔زمر،۶

(۳)سورۂ سجدہ ۷ و ۸۔ (۴)سورۂ اعراف ۲۷

۱۰۱

باپ کو بہشت سے نکلوا دیا۔(۱)

یہ آیت بھی صراحت کے ساتھ حضرت آدم و حوا علیھما السلام کو نسل انسانی کا ماں ، باپ بتاتی ہے ۔خاک سے حضرت آدم کی استثنائی خلقت بھی قرآن کی بعض آیات میں ذکر ہے جن میں سے تین موارد کی طرف نمونہ کے طور پر اشارہ کیا جارہاہے ۔

ا۔( إنَّ مَثَلَ عِیسَیٰ عِندَ اللّٰهِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ کُن فَیَکُونُ )

خدا کے نزدیک جیسے حضرت عیسی کاواقعہ ہے(حیرت انگیز خلقت) ویسے ہی آدم کاواقعہ بھی ہے ان کو مٹی سے پیدا کیا پھر کہا ہوجا پس وہ ہوگئے ۔(۲)

حدیث ، تفسیر اور تاریخی منابع میں آیا ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں نصاری نجران نے اپنے نمائندوں کو مدینہ بھیجا تاکہ پیغمبر اسلام سے گفتگو اور مناظرہ کریں ،وہ لوگ مدینہ کی مسجد میں آئے پہلے تو اپنی عبادت بجا لائے اور اس کے بعد پیغمبر سے بحث کرنے لگے :

۔جناب موسی کے والد کون تھے ؟

۔ عمران

آپ کے والد کون ہیں ؟

۔ عبد اللہ

۔ جناب یوسف کے والد کون تھے ؟

۔ یعقوب

۔ جناب عیسی کے والد کون تھے ؟

____________________

(۱)بعض لوگوںنے آیت''ذر''نیز ان تمام آیات سے جس میں انسانوں کو ''یابنی آدم ''کی عبارت سے خطاب کیا گیا ہے اس سے انسانی نسل کا نکتہ آغاز حضرت آدم کا ہونا استفادہ کیا ہے۔

(۲)سورۂ آل عمران ۵۹۔

۱۰۲

پیغمبر تھوڑا ٹھہرے ، اس وقت یہ آیت( إنَّ عِیسَیٰ عِندَ اللّٰهِ کَمَثَلِ آدَمَ ) نازل ہوئی۔(۱)

مسیحی کہتے تھے چونکہ عیسی کا کوئی انسانی باپ نہیں ہے لہٰذا ان کا باپ خدا ہے ،آیت اس شبہ کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ کیا تم معتقد نہیں ہو کہ آدم بغیر باپ کے تھے ؟ عیسی بھی انہیں کی طرح ہیں ،جس طرح آدم کا کوئی باپ نہیں تھا اور تم قبول بھی کرتے ہو کہ وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں اسی طرح عیسی بھی بغیر باپ کے ہیں اور حکم خدا سے پیدا ہوئے ہیں ۔

مذکورہ نکات پر توجہ کرتے ہوئے اگر ہم فرض کریں کہ حضرت آدم ، انسان و خاک کے ما بین ایک درمیانی نسل سے وجود میں آئے مثال کے طور پر ایسے انسانوں سے جو بے عقل تھے تو یہ استدلال تام نہیں ہوسکتا ہے اس لئے کہ نصاری نجران کہہ سکتے تھے کہ حضرت آدم ایک اعتبار سے نطفہ سے وجود میں آئے جب کہ عیسی اس طرح وجود میں نہیں آئے ،اگر اس استدلال کو تام سمجھیں جیسا کہ ہے، تب ہم یہ قبول کرنے کے لئے مجبور ہیں کہ حضرت آدم کسی دوسرے موجود کی نسل سے وجود میں نہیں آئے ہیں ۔

۲۔( وَ بَدَأَ خَلقَ النسَانِ مِن طِینٍ ٭ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلالَةٍ مِن مَائٍ مَهِینٍ )

ان دو آیتوں میں سے پہلی آیت حضرت آدم کی خاک سے خلقت کو بیان کرتی ہے اور دوسری آیت ان کی نسل کی خلقت کو نجس پانی کے ذریعہ بیان کرتی ہے ،حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی نسل کی خلقت کا جدا ہونا اور ان کی نسل کا آب نجس کے ذریعہ خلق ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جناب آدم کی خلقت استثنائی تھی ورنہ تفکیک و جدائی بے فائدہ ہوگی ۔(۲)

____________________

(۱)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ، ج۲۱ص ۳۴۴۔ (۲) منطق کی کتابوں میں کہا گیا ہے کہ تقسیم میں ہمیشہ فائدہ کا ہونا ضروری ہے یعنی اقسام کاخصوصیات اور احکام میں ایک دوسرے سے متفاوت ہونا چاہیئے ورنہ تقسیم بے فائدہ ہوگی ، آیہ شریفہ میں بھی تمام انسانوں کوسب سے پہلے انسان اور اس کی نسل میں تقسیم کیا ہے ، لہٰذا اگر ان دو قسموں کا حکم خلقت کے اعتبار سے ایک ہی ہے تو تقسیم بے فائدہ اور غلط ہوگی ۔

۱۰۳

۳۔بہت سی آیات جو خاک سے حضرت آدم کی خلقت کا واقعہ اور ان پر گذشتہ مراحل؛یعنی روح پھونکنا ، خدا کے حکم سے فرشتوں کا سجدہ کرنا اور شیطان کا سجدہ سے انکار کو بیان کرتی ہیں جیسے :

( وَإذ قَالَ رَبُّکَ لِلمَلائِكَةِ إنِّی خَالِق بَشَراً مِن صَلصَالٍ مِن حَمَأٍ مَّسنُونٍ ٭ فَإِذَا سَوَّیتُهُ وَ نَفَختُ فِیهِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ )

اور (یاد کروکہ )جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک آدمی کوخمیر دی ہوئی مٹی سے جو سوکھ کر کھن کھن بولنے لگے پیدا کرنے والا ہوں تو جس وقت میں اس کو ہر طرح سے درست کرچلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گرپڑنا۔(۱)

یہ بات واضح ہے کہ تمام انسان ان مراحل کو طے کرتے ہوئے جو آیات میں مذکور ہیں (خاک ، بدبودار مٹی ، چپکنے والی مٹی ، ٹھکرے کی طرح خشک مٹی ) صرف خشک مٹی سیخلق نہیں ہوئے ہیں اور فرشتوں نے ان پر سجدہ نہیں کیا ہے بلکہ مذکورہ امور فقط پہلے انسان سے مخصوص ہے یعنی حضرت آدم جو استثنائی طور پر خاک ( مذکورہ مراحل ) سے خلق ہوئے ہیں ۔(۲)

قرآن کے بیانات اور ڈارون کا نظریہ

نظریہ تکامل اور اس کے ترکیبی عناصر کے ضمن میں بہت پہلے یہ نظریہ بعض دوسرے متفکرین کی طرف سے بیان ہوچکا تھا لیکن ۱۸۵۹ میں ڈاروین نے ایک عام نظریہ کے عنوان سے اسے پیش کیا

____________________

(۱)سورۂ حجر، ۲۸و ۲۹ ۔

(۲)اس نکتہ کا ذکر کرنا ضروری ہے اس لئے کہ حضرت آدم کی خلقت کو بیان کرنے والی آیات بہت زیادہ ہیں اور چونکہ ان کی خلقت کے بہت سے مراحل تھے ، لہٰذا بعض آیات میں جیسے آل عمران کی ۵۹ویں آیت اس کی خلقت کے ابتدائی مرحلہ کو خاک ،اور دوسری آیات جیسے سورۂ انعام کی دوسری آیت ؛ ۱۱صافات؛ ۲۶حجراور ۱۴الرحمن کی آیتوں میں ایک ایک یا چند مرحلوں کے نام بتائے گئے ہیں ، جیسے کہ سورۂ سجدہ کی ۷و ۸ ویں آیت کی طرح آیات میں خاک سے حضرت آدم کی خلقت بیان کرتے ہوئے آدم کی نسل اور ذریت کی خلقت کو بھی بیان کیا گیاہے ۔

۱۰۴

چارلزڈارون(۱) نے انسان کی خلقت کے سلسلہ میں اپنے نظریہ کویوں پیش کیاہے کہ انسان اپنے سے پست حیوانوں سے ترقی کرکے موجودہ صورت میں خلق ہوا ہے اور انسان کی خلقت کے سلسلہ میں اس کے نظریہ نے مسیحیت اور جدید علم کے نظریات کے درمیان بہت ہی پیچیدہ مباحث کو جنم دیا اور بعض نے اس غلط نظریہ کی بناپر علم اور دین کے درمیان اختلاف سمجھا ہے۔(۲) ڈارون کا دعویٰ تھا کہ مختلف نباتات و حیوانات کے اقسام اتفاقی اور دھیرے دھیرے تبدیلی کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں جو کہ ایک نوع کے بعض افراد میں فطری عوامل کی بنیاد پرپایاجاتا ہے، جو تبدیلیاں ان افراد میں پیدا ہوئی ہیں وہ وراثت کے ذریعہ بعد والی نسل میں منتقل ہوگئی ہیں اور بہتر وجود ، فطری انتخاب اور بقا کے تنازع میں محیط کے مطابق حالات ایک جدید نوعیت کی خلقت کے اسباب مہیا کرتے ہیں ۔ وہ اسی نظریہ کی بنیاد پر معتقد تھا کہ انسان کی خلقت بھی تمام ا قسام کے حیوانات کی طرح سب سے پست حیوان سے وجود میں آئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسان گذشتہ حیوانوں کے اقسام میں سب سے بہتر ہے ۔

ڈارون کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی یہ نظریہ سخت متنازع اور تنقید کا شکار رہا اور ''اڈوار مک کریڈی ''(۳) اور'' ریون ''(۴) جیسے افراد نے اس نظریہ کو بالکل غلط مانا ہے ۔(۵) اور ''الفریڈ رسل ویلیس ''(۶) جیسے بعض افراد نے اس نظریہ کو خصوصاً انسان کی خلقت میں نا درست سمجھا

____________________

(۱) Charles Robert Darwin

(۳) E.Mc Crady

(۴) Raven

(۶) Alfred Russel Wallace

(۲)ڈارون نے خود صراحتاً اعلان کیاہے کہ ''میں اپنے فکری تحولات میں وجود خدا کاانکار نہ کرسکا''،زندگی و نامہ ای چارلزڈارون؛ ج۱ ص ۳۵۴( پیرس ، ۱۸۸۸) بدوی عبد الرحمن سے نقل کرتے ہوئے ؛ موسوعة الفلسفة. ڈارون نے فطری قوانین کو ایسے اسباب و علل اور ثانوی ضرورت کے عنوان سے گفتگو کی ہے کہ جس کے ذریعہ خداوند عالم تخلیق کرتا ہے ۔گرچہ انسان کے ذہن نے اس باعظمت استنباط کو مشکو ک کردیا ہے ۔( ایان باربور ، علم و دین ؛ ص ۱۱۲)۔

(۵) ایان باربور ، علم و دین ؛ ص۴۱۸ و ۴۲۲۔

۱۰۵

ہے(۱) یہ نظریہ ایک خاص جرح و تعدیل کے باوجود بھی علمی اعتبار سے نیز صفات شناسی اور ژنٹیک کے لحاظ سے ایک ایسے نظریہ میں تبدیل نہیں ہوسکا کہ جس کی بے چوں چرا تثبیت ہو جائے اور متفکرین نے تصریح کی ہے کہ آثار اورموجودات شناسی کے ذریعہ انسان کے حسب و نسب کی دریافت کسی بھی طریقہ سے صحیح وواضح نہیں ہے اور انسانوں جیسے ڈھانچوں کے نمونے اور ایک دوسرے سے ان کی وابستگی، نظریہ تکامل کے طرفداروں کے مورد استناد ہونے کے با وجود ان کے نظریات میں قابل توجہ اختلاف ہے ۔

''ایان باربور'' کی تعبیر یہ ہے کہ ایک نسل پہلے یہ رسم تھی کہ وہ تنہا نکتہ جو جدید انسانوں کے نسب کو گذشتہ بندروں سے ملاتا تھا ،احتمال قوی یہ ہے کہ انسان اور بندر کی شباہت ایک دوسرے سے ان کے اشتقاق پر دلالت کرتی ہو اور ہو سکتا ہے کہ نئا ندرتال انسان سے ایسی نسل کی حکایت ہو جو اپنے ابتدائی دور میں بغیر نسل کے رہ گئی ہونیزمنقطع ہو گئی ہو ۔(۲) اوصاف شناسی کے اعتبا رسے معمولی تبدیلیوں میں بھی اختلاف نظر موجود ہے بعض دانشمندوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اگرچہ معمولی تحرک قابل تکرارہے لیکن وہ وسیع پیمانہ پر تحرک و فعالیت جو نظریہ تکامل کے لئے ضروری

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ: ص ۱۱۱۔۱۱۴،اگرچہ نظریہ ڈارویس پر وارد تنقیدوں کے مقابلہ میں اس کے مدافعین کی طرف سے متعدد جوابات دیئے گئے ہیں لیکن آج بھی بعض تنقیدیں قانع جوابات کی محتاج ہیں مثال کے طور پر'' والٹر'' جو ''ڈارون'' سے بالکل جدا، فطری طور پر سب سے پہلے انتخاب کو نظام سمجھتا ہے اس کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اور بندر کی عقل کے درمیان موجودہ فاصلہ کو جیسا کہ ڈارون نے اس سے پہلے ادعا کیا تھا ، بدوی قبائل پر حمل نہیں کرسکتے ہیں اس لئے کہ ان کی دماغی قوت ترقی یافتہ متمدن قوموں کی دماغی قوت کے مطابق تھی لہٰذا فطری انتخاب انسان کی بہترین دماغی توانائی کی توجیہ نہیں کر سکتا ہے ۔ اس کا عقیدہ ہے کہ بدوی قوموں کی عقلی توانائیاں ان کی سادہ زندگی کی ضرورتوں سے زیادہ تھی ، لہٰذا ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اس سے چھوٹا مغز بھی کافی تھا ۔ فطری انتخاب کے اعتبار سے بندر وں سے زیادہ انسان کو دماغ دینا چاہیئے جب کہ ایسے انسانوں کا دماغ ایک فلسفی کے دماغ سے چھوٹا ہے ۔ ( ایان باربور ؛ علم و دین ؛ ص ۱۴۴و ۱۱۵)

(۲)ایان باربور؛ گذشتہ حوالہ : ص ۴۰۲و ۴۰۳۔

۱۰۶

ہیں بہت کم ہے۔ اور مردم شماری کے قوانین کے اعتبار سے قابل پیش بینی نہیں ہے، اس کے علاوہ ہو سکتا ہے کہتجربہ گاہوں کے مطالعات ایک طرح کی اندرونی تبدیلیوں کی تائید کریں، لیکن تدریجی تبدیلیوں کے زیر اثر جدید اقسام کے وسیع حلقوںکی تشکیل کے اثبات سے ناتواں ہیں،اور ایک متحرک فرد کا کسی اجتماعی حلقہ اور بڑے گروہ میں تبدیل ہو جانا، ایک سوالیہ نشان ہے اور اس وسیع افعال پر کسی بھی جہت سے واضح دلائل موجود نہیں ہیں ۔(۱) دوسری مشکل صفات کا میراثی ہونا ہے جب کہ ان کا اثبات معلومات و اطلاعات کے فراہم ہونے سے وابستہ ہے جس کو آئندہ محققین بھی حاصل نہیں کرسکیں گے یا موجودہ معلومات واطلاعات کی وضاحتوں اور تفاسیر سے مربوط ہے جس کو اکثر ماہرین موجودات شناسی نے قبول نہیں کیا ہے ۔(۲) بہر حال ان نظریات کی تفصیلی تحقیق و تنقید اہم نہ ہو نے کی وجہ سے ہم متعرض نہیں ہوںگے، مختصر یہ کہ انسان کے بارے میں ڈارون کا نظریہ تنقیدوں ، مناقشوں اور اس میں تناقض کے علاوہ صرف ایک ظنی اور تھیوری سے زیادہ ،کچھ نہیں ہے(۳) مزید یہ کہ اگر اس نظریہ کو قبول بھی کرلیا جائے تو کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس میں خدا کے ارادہ کے باوجود کسی ایک شی ٔمیں بھی فطری حرکت غیر عادی طریقہ سے نقض نہ ہوئی ہو، اور حضرت آدم فقط خاک سے خلق نہ ہوئے ہوں ،اس کے باوجود یہ نظریہ ڈاروین کی تھیوری کے مطابق فقط انسانوں کی خلقت کے امکان کو ثابت کرتا ہے، اس راہ سے موجودہ نسل کی خلقت کی ضرورت و التزام کو ثابت نہیں کرتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ دوسرے انسان اس راہ سے وجود میں آئے ہوں اور نسل منقطع ہوگئی ہو ، لیکن موجودہ نسل جس طرح قرآن بیان کرتا ہے اسی طرح روئے زمین پر خلق ہوئی ہے ،قابل ذکر ہے کہ قرآن

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ : ص ۴۰۳۔

(۲)گذشتہ حوالہ : ص ۴۰۴۔

(۳)کارل پاپر( Karl Raimond Popper ) '' جستجوی ناتمام '' کتاب میں لکھتا ہے : نئے نظریہ تکامل کے ماننے والوں نے زندگی کے دوام کو انطباق یا ماحول کی سازش کا نتیجہ بتایا ہے ، ایسے ضعیف نظریہ کے تجربہ کا امکان تقریباً صفر ہے ( ص ۲۱۱)

۱۰۷

ایسے انسانوں کے خلق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں جن کی موجودہ نسل ان تک نہیں پہونچتی ہے نیز ان کی خلقت کی کیفیت کے بارے میں ،خاموش ہے ۔

جو کچھ بیان ہوچکا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اگرچہ سب سے پہلے انسان کی خلقت سے مربوط آیات کے مفاہیم، انسان کے سلسلہ میں ڈاروین کی تھیوری کے مطابق نہیں ہے لہٰذا جن افراد نے قرآن کریم کے بیانات سے دفاع کے لئے مذکورہ آیات کی توجیہ کی ہے انہیں توجہ رکھنا چاہیئے کہ ایسی توجیہیں صحیح نہیں ہیں بلکہ'' تفسیر بالرای''ہے، اس لئے کہ ایسے نظریات جو ضروری اور صحیح دلیلوں نیزتائیدوں سے خالی ہوں وہ مذکورہ آیات کی توجیہ پر دلیل نہیں بن سکتے ہیں ،چہ جائے کہ توجیہ اور ظاہر آیات کے مفہوم سے استفادہ نہ کرنا فقط ایک قطعی اور مذکورہ آیات کے مخالف فلسفی یا غیر قابل تردید علمی نظریہ کی صورت میں ممکن ہے جب کہ ڈاروین کا نظریہ ان امتیازات سے خالی ہے ۔

تمام انسانوں کی تخلیق

نسل انسان کی آفرینش زاد و ولد کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔ اس سلسلہ میں گذشتہ ادوار سے آج تک پانچ نظریات بیان ہوئے ہیں ۔

ارسطونے بچہ کی خلقت کو خون حیض کے ذریعہ تسلیم کیا ہے اور اس سے ماسبق فلاسفہ نے مرد کی منی سے متولد جنین کی رشد کے لئے شکم مادر کوفقط مزرعہ سمجھا ہے ۔

تیسرا نظریہ جو ۱۸ویں صدی عیسوی کے نصف تک رائج تھا ،خود بخود خلقت کا نظریہ تھا(۱) جس کے ویلیم حاروے جیسے ماہرینِ وظائف اعضائ، مدافع تھے ۔(۲) چوتھا نظریہ جو ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی میں بیان ہوا وہ نظریہ تکامل تھا(۳) جس کے لائب نیٹز ، ہالر اور بونہ جیسے افراد سر سخت طرفدار تھے ،یہ لوگ معتقد تھے کہ انسان کی اولاد بہت ہی چھوٹی موجود کی صورت میں انڈے یا

____________________

(۱) Spontaneous Generation. (۲)William Harvey. (۳)Evolution

۱۰۸

نطفہ میں موجود رہتی ہے، ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ان چھوٹے اور متداخل موجودات کی کروروں تعداد اولین مرد یا عورت کے تناسلی اعضاء میں موجود تھی اور جب ان میں سے سب سے باریک اور آخری حصہ خارج ہو جائے گا تب نسل بشر ختم ہوجائے گی، اس نظریہ کے مطابق تناسل و تولد میں نئے اور جدید موجود کی خلقت و پیدائش بیان نہیں ہوئی ہے بلکہ ایسے موجود کے لئے رشد و نمو،آغاز وجود ہی سے موجود ہے ۔

پانچواں نظریہ ۱۷ویں صدی میں ذرہ بین کے اختراع اور انسانی حیات شناسی کی آزمائشوں اور تحقیقوں کے انجام کے بعد خصوصاً ۱۸ ویں صدی میں نطفہ شناسی کے عنوان سے بیان ہوا جس کی وجہ سے مفکرین اس نکتہ پہ پہونچے ہیں کہ نطفہ کی خلقت میں مرد و عورت دونوں کا کردار ہے اور نطفہ کامل طور پر مرد کی منی اور عورت کے مادہ میں نہیں ہوتا ہے، مرد و عورت کے نطفہ کے ملنے کی کیفیت ۱۸۷۵صدی میں مشاہدہ سے واضح ہو چکی ہے کہ بچہ کے ابتدائی نطفہ کی تخلیق میں مرد و عورت دونوں موثرہیں۔ اور ۱۸۸۳ صدی میں نطفہ کی تخلیق میں دونوں کا مساوی کردار ثابت ہوچکا ہے ،مختلف تبدیلیوں کے مراحل سے مرتبط اور مختلف شکلوںمیں رحم کی دیواروں سے نطفہ کا معلق ہونااور اس کا رشد نیز نطفہ کا مخلوط ہونااور دوسری مختلف شکلیںجو نطفہ اختیار کرتاہے یہ وہ چیزیں ہیں جس کی تحقیق ہوچکی ہے ۔(۱)

قرآن مجید نے بہت سی آیات میں تمام انسانوں ( نسل آدم ) کے بارے میں گفتگو کی ہے اور ان کی خلقت کے مختلف مراحل بیان کئے ہیں اس حصہ میں ہم ان مراحل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے ابتدائی دو مراحل کی تحقیق کریں گے ۔

بعض آیات میں خدا فرماتا ہے کہ : خدا وند عالم نے انسان کو خلق کیا جب کہ اس سے پہلے وہ

____________________

(۱)ملاحظہ ہو: شاکرین ، حمید رضا ، قرآن و روان شناسی ؛ ص ۲۲۔ ۲۵۔ طبارہ ، عبد الفتاح ، خلق الانسان دراسة علمیة قرآنیة ؛ ج۲ ، ص ۶۶۔ ۷۴۔

۱۰۹

کچھ نہ تھا( أَوَ لا یَذکُرُ الإنسَانُ أَنَّا خَلَقنَاهُ مِن قَبلُ وَ لَم یَکُ شَیئاً ) (۱) کیا انسان بھولگیا کہ ہم نے اس وقت اسے خلق کیا جب وہ کچھ نہ تھا۔

یہ بات واضح ہے کہ آیت میں قبل سے مراد ابتدائی ( فلسفی اصطلاح میں خلقت جدید) مادہ کے بغیر انسان کی خلقت نہیں ہے اس لئے کہ بہت سی آیات میں ابتدائی مادہ کی بنا پر انسان کی خلقت کی تاکید ہوئی ہے ،اس آیت میں یہ نکتہ مورد توجہ ہے کہ انسان کا مادہ و خاکہ، انسانی وجود میں تبدیل ہونے کے لئے ایک دوسرے ( روح یا انسانی نفس و جان ) کے اضافہ کا محتاج ہے ،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ابتدائی مادہ انسان کے مقابلہ میں روح کے بغیر قابل ذکر و قابل اہمیت نہیں ہے، اسی بنا پر ہم سورہ'' انسان'' کی پہلی آیت میں پڑھتے ہیں کہ (( هَل أَتَیٰ عَلیٰ النسَانِ حِین مِّنَ الدَّهرِ لَم یَکُن شَیئاً مَذکُوراً ) کیا انسان پر وہ زمانہ نہیں گذرا جس میں وہ قابل ذکر شی بھی نہ تھا ۔ دوسرے گروہ کی آیات میں انسان کی خلقت کے ابتدائی مادہ کو زمین(۲) خاک(۳) مٹی(۴) چپکنے والی مٹی(۵) بدبو دار مٹی ( کیچڑ )خمیر(۶) اور ٹھکرے کی طرح خشک مٹی بتایا گیا ہے ۔(۷)

وہ آیات جو انسان کے جسمانی خلقت کے مختلف مراحل کی طرف اشارہ کرتی ہیں اگرچہ اکثر مقامات پر انسان کو عام ذکر کیا ہے لیکن ان آیتوں کی روشنی میں جو اس کی ابتدائی خلقت میں گذر چکی ہیں اور موجودہ انسانوں کی خلقت کے عینی واقعات جو ان آیات میں بیان کئے گئے مذکورہ مراحل طے نہیں کرتے ہیں، خلاصہ یہ کہ ابتدائی انسان کی جسمانی خلقت کے یہی مراحل اس کی خلقت کے اختتام میں بھیپائے جاتے ہیں ۔

____________________

(۱)سورۂ مریم ۶۷

(۲)(هُو أنشَأَکُم مِنَ الأَرضِ )(ہود ۶۱)

(۳)(فنَّا خَلَقنَاکُم مِّن تُرَابٍ )(حج۵)

(۴)(وَ بَدَأَ خَلقَ النسَانِ مِن طِینٍ )( سجدہ ۷)

(۵)(نَّا خَلَقنَاهُم مِن طِینٍ لازِبٍ )(صافات۱۱)

(۶)(وَ لَقَد خَلَقنَا النسَانَ مِن حَمَأٍ مَسنُونٍ )( حجر ۲۶)

(۷)(خَلَقَ الِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِ )( الرحمن ۱۴)

۱۱۰

آیات کا تیسرا گروہ ؛ انسان کے تخلیقی مادہ کو پانی بتاتاہے جیسے( وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ المَائِ بَشَراً فَجَعَلهُ نَسَباً وَ صِهراً ) (۱) وہی تو وہ (خدا)ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا پھر اس کو خاندان اور سسرال والا بنایا۔

گرچہ ہوسکتا ہے کہ یہ آیت مصداق اور ان آیات کے موارد کو بیان کرنے والی ہو جو ہر متحرک یا ذی حیات کی خلقت کو پانی سے تسلیم کرتی ہیں(۲) اور پانی سے مراد وہی پانی ہے جو عرف عام کی اصطلاح میں ہے لیکن ان آیات کو مد نظر رکھتے ہوئے جو انسان یا نسل آدم کی خلقت کونجس(۳) یاآب جہندہ(۴) سے بیان کرتی ہیں ان سے اس احتمال کو قوت ملتی ہے کہ اس آیت میں پانی سے مراد انسانی نطفہ ہے، اور آیت شریفہ نسل آدم کی ابتدائی خلقت کے نطفہ کو بیان کر رہی ہے ۔ لیکن ہر مقام پر اس کی خصوصیات میں سے ایک ہی خصوصیت کی طرف اشارہ کیاہے منجملہ خصوصیات میں سے جو قرآن میں اس نطفہ کو انسانی نسل کی خلقت کے نقطہ ٔ آغاز کے عنوان سے ذکر کیاہے وہ مخلوط ہونا ہے جسے علم بشر کم از کم ۱۸ ویں صدی سے پہلے نہیں جانتا تھا ۔

سورۂ دہر کی دوسری آیت میں خدا فرماتا ہے :

( إنَّا خَلَقنَاالنسَانَ مِن نُطفَةٍ أَمشَاجٍ نَبتَلِیهِ فَجَعَلنَاهُ سَمِیعاً بَصِیراً )

ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا کہ اسے آزمائیں (اسی لئے )تو ہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والابنایا۔

اس آیت میں کلمہ ''امشاج ''کے ذریعہ بچہ آمادہ کرنے والے مخلوط نطفہ سے گفتگو ہوئی ہے یا اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امشاج ، مشیج کی جمع ہے جو مخلوط کے معنی میں ہے آیت اس بات

____________________

(۱)سورۂ فرقان ۵۴.

(۲) سورۂ نور ۴۵۔ سورۂ انبیاء ۳۰۔

(۳)(أ لَم نَخلُقکُم مِن مَائٍ مَّهِینٍ )(مرسلات ۲۰)(ثُمَّ جَعَلَ نَسلَهُ مِن سُلالَةٍ مِن مَّائٍ مَّهِینٍ )( سجدہ ۸)

(۴)(خُلِقَ مِن مَّائٍ دَافِقٍ )( طارق ۶)

۱۱۱

پردلالت کرتی ہے کہ بچہ کو تشکیل دینے والا نطفہ مخلوط ہونے کے اعتبار سے مختلف اقسام کا حامل ہے، اور یہ مفہوم، موجودہ رشد شناسی میں ثابت ہوچکے مطالب سے مطابقت رکھتا ہے اور یہ قرآن مجید کے غیبی خبروں میں سے شمار ہوتا ہے ۔(۱) اور انجام پاچکی تحقیقوں کے مطابق انسانی نطفہ ایک طرف تو مرد و عورت کے نطفہ سے مخلوط ہوتا ہے اور دوسری طرف خود نطفہ مختلف غدود کے ترشحات سے مخلوط و مرکب ہوتا ہے ۔

علقہ ہونا بچہ کی خلقت کا دوسرا مرحلہ ہے جو قرآن کی آیتوں میں مذکور ہے ،سورۂ حج ۵ ؛ مومنون ۶۷؛ غافر ۳۸ کی آیات میں کلمہ ''علقہ ''اور سورۂ علق کی دوسری آیت میں کلمہ ''علق''بچہ کے رشد و نمو کے مراحل میں استعمال ہوا ہے، علق؛ علقہ کی جمع ہے اور علقہ ، علق سے لیا گیا ہے جس کا معنی چپکنااور پیوستہ ہوناہے چاہے وہ پیوستگی مادی ہو یا معنوی یا کسی اورچیز سے پیوستگی ہومثلا خون جامد (جاری خون کے مد مقابل ) کے اجزاء میں بھی چپکنے کی صلاحیت ہوتی ہے خلاصہ یہ کہ ہر وہ چیزجواس سے ملحق ہو اور چپک جائے اسے علقہ کہتے ہیں ۔(۲) جونک چونکہ خون یاخونی اجزاء کو چوسنے کے لئے بدن یا کسی دوسری چیز سے چپکتا ہے اس لئے اس کو بھی علقہ کہتے ہیں ،بہر حال یہ دیوار رحم سے نطفہ کی چسپیدگی کے مراحل اور مخلوط نطفہ کے مختلف اجزاء کے ایک دوسرے سے چسپیدگی کی حکایت

____________________

(۱)موریس بوکا لکھتا ہے : مادہ ٔ منویہ مندرجہ ذیل غدود کے ترشحات سے وجود میں آتا ہے :

۱۔ مرد کے تناسلی غدود کی ترشحات اسپرموٹزوید کے حامل ہوتے ہیں ۔ ۲۔انڈوں کی تھیلیوں کی ترشحات، حاملہ کرنے کے عناصر سے خالی ہیں ۔

۳۔پروسٹٹ ترشحات ، ظاہراً خمیر کی طرح ہوتے ہیں اور اس میں منی کی مخصوص بو ہوتی ہے ۔

۴۔ دوسرے غدود کی مخلوط و سیال ترشحات ،پیشاب کی رگوں میں موجود ہوتا ہے ۔( بوکائی ، موریس ؛ انجیل ، قرآن و علم ؛ ص ۲۷۱ و ۲۷۲)

(۲)طبرسی ؛ مجمع البیان ؛ ( سورہ علق کی دوسری آیت کے ذیل میں ) لغت کی کتابیں ۔

۱۱۲

کرتی ہے، اور یہ حقیقت بھی قرآن کے غیبی اخبار اور نئی چیزوں میں سے ہے جسے آخری صدیوں تک علم بشر نے حل نہیں کیا تھا ۔(۱) مضغہ(۲) ہڈیوں کی خلقت(۳) ہڈیوں پر گوشت کا آنا(۴) اور دوسری چیزوں کی خلقت(۵) (روح پھونکنا )(۶) یہ وہ مراحل ہیں جو قرآن کی آیتوں میں نطفہ کے رشد کے لئے بیان ہوئے ہیں.

روح کا وجود اوراستقلال

جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کی روح کے سلسلہ میں متعدد و متفاوت نظریات بیان ہوچکے تھے بعض لوگ ایک سرے سے روح کے منکر تھے اور انسان کو مادی جسم میں منحصر سمجھتے تھے ۔بعض دوسرے لوگوں نے روح کو ایک مادی اور جسم سے وابستہ شئی اور انسان کے جسمانی خصوصیات اور آثار والی ذات شمار کیا ہے اور بعض لوگ روح کو غیر مادی لیکن جسم سے غیر مستقل وجود سمجھتے ہیں(۷) ان نظریات کو بیان کرنے اور ان کی دلیلوں پر تنقید و تحقیق کے لئے مزید فرصت درکار ہے

____________________

(۱)دوسرے اور تیسرے ہفتوں میں جنین کے پیوند ، ملاپ اور چپکنے کے مراحل کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: البار ؛ محمد علی ، خلق الانسان بین الطب و القرآن ؛ ص ۳۶۸و ۳۶۹۔ سلطانی ، رضا ؛ و فرہاد گرمی ، جنین شناسی انسان ، فصل ہفتم ۔ (۲)(فَخَلَقنَا العَلَقَةَ مُضغَةً )مومنون۱۴ (۳)(فَخَلَقنَا المُضغَةَ عِظَاماً )مومنون۱۴

(۴)(فَکَسَونَا العِظَامَ لَحماً )مومنون۱۴ (۵)(ثُمَّ أَنشَأنَاهُ خَلقاً آخَرَ )مومنون ۱۴۔

(۶)رحم میں نطفہ کے استقرار کی خصوصیت اور اس کے شرائط نیز تولد کے بعد رشد انسان کے مراحل کو بعض آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔ جیسے سورہ حج ۵۔ نوح ۱۴ ۔زمر ۶۔ مومن ۶۷ کی آیتیں ۔ (۷)روح کے بارے میں بیان کئے گئے نظریات کو چار عمومی دستوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :الف) وہ نظریات جو جسم کے مقابلہ میں ایک عنصر کے اعتبار سے روح اور روحانی حوادث کے بالکل منکر ہیں اور تمام روحانی حوادث میں مادی توجیہ پیش کرتے ہیں ،اس نظریہ کو '' ڈمکراٹیس ، رنو ، تھامس ہابز ، علاف ، اشعری ، باقلانی ، ابوبکر اصم اور عقیدہ رفتار و کردار رکھنے والوں کی طرف نسبت دیا گیا ہے ۔ ب)وہ نظریات ہیں جس میں روحی حوادث کو قبول کیا گیاہے ، لیکن روح مجرد کا انکار کیا گیاہے ۔ عقیدہ تجلیات ( Epiphenomenalism )روحی حوادث کو مادی حوادث سے بالکل جدا سمجھنے کے باوجود مادی اور جسمانی اعضاء کا نتیجہ سمجھتے ہیں نیز نظریہ فردی ( Parson Theory )روح کو ایسا حوادث روحی سمجھتا ہے جو ہمیشہ انسان کی راہ میں ایجاد اور ختم ہوتا رہتاہے ۔( T.H.Huxly )پی.اف.سراسن نے ( P.F.Srawson )مذکورہ بالادونوں نظریات کو ترتیب سے بیان کیا ہے ۔ج) وہ نظریات جو روح و جسم کو دو مستقل اور جدا عنصر بتانے کے باوجود ان دونوںکو ایک جنسی اور مادی خمیر سے تعبیر کیا ہے ۔ اس نظریہ کو ولیم جیمز اور راسل کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔ د)بعض نظریات روح و جسم کے تاثرات کو قبول کرتے ہیں لیکن جسم کے علاوہ ایک دوسری شی بنام روح یعنی مجرد شی کا اعتقاد رکھتے ہیں جس سے تمام روحی حودث مربوط ہیں اور اسی سے حادث ہوتے ہیں ،مفکرین و فلاسفہ کی قریب بہ اتفاق تعداد اس نظریہ کی طرفدار ہے ۔رجوع کریں: ابوزید منی احمد ؛ الانسان فی الفلسفة الاسلامیة ؛ موسسہ الجامعیة للدراسات، ، بیروت ، ۱۴۱۴، ص ۸۸۔۱۰۰

۱۱۳

لہٰذا ہم اس سلسلہ میں فقط قرآن کے نظریہ کو ذکر کریں گے نیز بعض عقلی اور تجربی دلیلوں اور قرآن کے نظریہ سے ان کی ہماہنگی کو بیان کریں گے ۔

وہ آیات جو قرآن مجیدمیں روح مجرد کے استقلال اوروجود کے بارے میں آئی ہیں دو گروہ میں تقسیم ہوتی ہیں: پہلے گروہ میں وہ آیات ہیں جو روح کی حقیقت کو بیان کرتی ہیں اور دوسرے گروہ میں وہ آیات ہیں جو حقیقت روح کے علاوہ استقلال اور موت کے بعد روح کی بقا کو بیان کرتی ہیں۔

من جملہ آیات میں سے جو روح کے وجود پر دلالت کرتی ہیں وہ سورہ مومنون کی بارہویں تا چودہویں آیت ہے جو انسان کی جسمانی خلقت کے مراحل کو ذکر کرنے کے بعد بیان کرتی ہیں کہ( ثُمَّ أنشَأنَاهُ خَلقاً آخَرَ ) یہ واضح رہے کہ انسان کے جسمانی تکامل کے بعد دوسری خلقت سے مراد کوئی جسمانی مرحلہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ انسانی روح پھونکے جانے کے مرحلہ کی طرف اشارہ ہے اسی بنا پراس جگہ آ یت کی عبارت ان عبارتوں سے جدا ہے جو جسمانی مراحل کو ذکر کرتی ہیں۔(۲)

____________________

(۱)مجرد و مادی شی کی خصوصیات اور تعریف کے بارے میں مزید اطلاعات کے لئے ۔ملاحظہ ہو: عبودیت ، عبد الرسول ؛ ہستی شناسی ؛ ج۱ ص ۲۵۶ تا ۲۸۷۔ (۲)ملاحظہ ہو: محمد حسین طباطبائی ؛ المیزان فی تفسیر القرآن ج۱۵، ص ۱۹. روایات میں بھی آیہ کریمہ کی اسی طرح تفسیر ہوئی ہے ۔ملاحظہ ہو: الحر العاملی محمد بن الحسن ؛ وسائل الشیعہ ج۱۹ ص ۳۲۴۔

۱۱۴

سورہ سجدہ کی نویں آیت میں بھی انسان کے اندر روح کے حقیقی وجود کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور خاک سے حضرت آدم اور پانی سے ان کی نسل کی خلقت کے مسئلہ کوبیان کیا ہے کہ :

( ثُمَّ سَوَّاهُ وَ نَفَخَ فِیهِ مِن رُّوحِهِ ) (۱) پھر خدا نے اس کو آمادہ کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی ۔

اس آیہ شریفہ کاظاہری مفہوم یہ ہے کہ جسمانی تکامل کے مراحل سے آمادگی و تسویہ کے مرحلہ کو طے کرنے کے بعد خدا کی طرف سے روح پھونکی جائے گی ۔(۲)

____________________

(۱)سورۂ سجدہ ؛ ۹، یہ بات قابل توجہ ہے کہ آیات و روایات سے روح انسان کے استقلال اور وجود کا استفادہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن نے کلمہ روح کو استعمال کرکے روح انسان کے استقلال و وجودکے مسئلہ کو بیان کیا ہے، قرآن کریم میں تقریباً ۲۰ مقامات میں کلمہ روح استعمال ہوا ہے ،اور اس کے معنی و مراد کے اعتبار سے بعض آیات میں اختلاف پایا جاتا ہے جیسے آیہ شریفہ (قُلِّ الرُّوحُ مِن أَمرِ رَبِّی ) لیکن کلمہ روح کے دو قطعی اور مورد اتفاق استعمالات ہیں :

پہلا یہ کہ خدا کے ایک برگزیدہ فرشتہ کے سلسلہ میں ''روح ، روح القدس ، روح الامین''کی تعبیریں مذکور ہیں جیسے (تَنَزَّلُ المَلائِکةُوَالرُّوحُ فِیهَابِأذنِ رَبِّهِم مِن کُلّ أَمرٍ )قدر۴۔

دوسرا مقام یہ ہے کہ اس انسانی روح کے بارے میں استعمال ہوا ہے جو اس کے جسم میں پھونکی جاتی ہے ؛ جیسے وہ موارد جس میں حضرت آدم اور عیسی کی خلقت کے سلسلہ میں روح پھونکے جانے کی گفتگو ہوئی ہے،مثال کے طورپر(فَذَا سَوَّیتُهُ وَنَفَختُ فِیهِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ ) (حجر۲۹)حضرت آدم کی خلقت کو بیان کیا ہے اور جیسے (وَ مَریَمَ ابنَتَ عِمرَانَ الَّتِی أحصَنَت فَرجَهَا فَنَفَخنَا فِیهِ مِن رُّوحِنَا ) (تحریم۱۲)

(۲)بعض مفسرین نے مذکورہ آیت میں روح پھونکے کے عمل کو حضرت آدم کی خلقت بیان کیا ہے، لیکن جو چیزیں متن کتاب میں مذکور ہے وہ ظاہر آیت سے سازگار نہیں ہے ۔

۱۱۵

وہ آیات جو وجود روح کے علاوہ موت کے بعد اس کی بقا کوثابت کرتی ہیں بہت زیادہ ہیں۔(۱) اور ان آیات کو تین گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

۱۔ وہ آیات جو موت کو ''توفّی '' کے عنوان سے یاد کرتی ہیں خصوصاً سورہ سجدہ کی دسویں اور گیارہویں آیتں:

(( وَ قَالُوا أَئِ ذَا ضَلَلنَا فِی الأرضِ أَئِ نَّا لَفِی خَلقٍ جَدِیدٍ بَل هُم بِلِقَائِ رَبِّهِم کَافِِرُونَ قُل یَتَوَفَّاکُم مَّلَکُ المَوتِ الَّذِی وُکِّلَ بِکُم ثُمَّ ِلَیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ )

اور ان لوگوں(کافرین)نے کہا کہ جب ہم (مرگئے بوسیدہ اورجسم کے ذرات) زمین میں ناپید ہوگئے تو کیا ہم پھر نیا جنم لیں گے بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے حضور ہی سے انکار رکھتے ہیں ، تم کہدو کہ ملک الموت جو تمہارے اوپر تعینات ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤگے ۔

کلمہ ''توفی'' پر توجہ کرتے ہوئے کہ جس کا معنی کسی شی کو پوری طرح اور کامل طریقہ سے دریافت کرنا ہے، مذکورہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ موت کے وقت وہ چیزجو مشاہدہ ہوتی ہے اس کے علاوہ ( بے حرکت اور احساس و فہم سے عاری جسم )وہ چیز جو انسان کی اصل اور حقیقت ہے اور پوری طرح فرشتوں کے ذریعہ دریافت ہوتی ہے وہی روح ہے اس لئے کہ مرنے کے بعد اور

____________________

(۱)بدن سے روح کے استقلال کے مختلف تاثرات کی نفی اور بالکل بے نیازی کے معنی میں سمجھنا چاہیئے ،بلکہ روح اپنی تمام فعالیت میں تقریبا جسم کی محتاج ہے اور ان افعال کو جسم کی مدد سے انجام دیتی ہے ،مثال کے طور پر مادی دنیا کے حوادث کی معرفت بھی روح کی فعالیت میں سے ہے جو حسی اعضا سے انجام پاتے ہیں ، اسی طرح انسان کی روح اور اس کا جسم ایک دوسرے میں اثر انداز ہوتے ہیں ، مثال کے طور پرروح کی شدید تاثرات آنکھ کے غدود سے اشک جاری ہونے کے ہمراہ ہے اور معدہ کا خالی ہونا بھوک کے احساس کو انسان کے اندر ایجاد کرتا ہے ۔

۱۱۶

مرنے سے پہلے جسم ہمارے درمیان اور اختیار میں ہے جسے فرشتہ وحی دریافت نہیں کرتا ہے اس آیت میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ منکرین معاد جو یہ گمان کرتے ہیں کہ انسان در حقیقت وہی جسم ہے جو موت کی وجہ سے منتشرہوجاتا ہے اور اس کے ذرات زمین میں نابود ہو جاتے ہیں ، خداوند قدوس اس فکر کو نادرست مانتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہاری حقیقی اور واقعی حقیقت ایک دوسری شیٔ ہے جو کامل طور پر ملک الموت کے ذریعہ دریافت ہوتی ہے موت اور جسم کے پراکندہ ہو جانے سے نابود ہونے والی نہیں ہے بلکہ وہ جسم سے الگ اپنی حیات کو جاری رکھتی ہے ۔

۲.آیہ کریمہ :

( وَ لَو تَرَیٰ ِذِ الظَّالِمُونَ فِی غَمَرَاتِ المَوتِ وَ المَلائِکَةُ بَاسِطُوا أَیدِیهِم أَخرِجُوا أَنفُسَکُمُ الیَومَ تُجزَونَ عَذَابَ الهُونِ بِمَا کُنتُم تَقُولُونَ عَلَیٰ اللّٰهِ غَیرَ الحَقِّ وَ کُنتُم عَن آیَاتِهِ تَستَکبِرُونَ ) (۱)

اور کاش تم دیکھتے کہ یہ ظالم موت کی سختیوں میں پڑے ہیں اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ لپکا رہے ہیں(اور ان کے سروں کے اوپر کھڑے ہوئے ان سے کہیں گے ) خوداپنی جانیں نکالو آج ہی تو تم کو رسوائی کے عذاب کی سزا دی جائے گی کیونکہ تم خدا پر ناحق جھوٹ جوڑا کرتے تھے اور اس کی آیتوں سے اکڑا کرتے تھے ۔

''اپنے آپ کو خارج کریں''کی تعبیر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان جسم کے علاوہ ایک عنصر اور رکھتا ہے جو انسان کی حقیقت کو تشکیل دیتا ہے اور موت کے وقت جسم سے خارج ہوجاتا ہے اوریہ ملک الموت کے ذریعہ روح انسان کے قبض ہونے کی دوسری تعبیر ہے ۔(۲)

____________________

(۱)سورۂ انعام ۹۳۔

(۲)یہ مسئلہ اپنی جگہ ثابت ہوچکا ہے کہ جس طرح روح کا بدن کے ساتھ اتحاد، مادی نہیں ہے اسی طرح بدن سے روح کا خارج ہونابھی مادی خروج نہیں ہے ،وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو: علامہ طباطبائی کی المیزان ج۷، ص ۲۸۵۔

۱۱۷

۳. عالم برزخ کی حیات کو بیان کرنے والی آیت :

( حَتَّیٰ إِذَا جَائَ أَحَدَهُمُ المَوتُ قَالَ رَبِّ ارجِعُونَ٭ لَعَلِّی أَعمَلُ صَالِحاً فِیمَا تَرَکتُ کَلاّ ِنَّهَا کَلِمَة هوَ قَائِلُهَا وَ مِن وَرَائِهِم بَرزَخ إِلَیٰ یَومِ یُبعَثُونَ ) (۱)

یہاں تک کہ جب ان( کافروں )میں سے کسی کی موت آئی تو کہنے لگے پروردگارا! تو مجھے (دنیامیں ) پھر واپس کردے تاکہ میں اچھے اچھے کام کروں ہرگزنہیں(وہ اسی خواہش میں رہے ہیں ) یہ ایک لغو بات ہے جسے وہ بک رہا اور ان کے بعد (حیات) برزخ ہے دوبارہ قبروں سے اٹھائے جائیں گے ۔

عالم برزح پر روشنی ڈالنے والی بہت سی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مرنے کے بعد اور قیامت برپا ہونے سے پہلے روح ایک دنیا میں باحیات ہوتی ہے اور پروردگار کی نعمت و عذاب میں مبتلا رہتی ہے ، اس کی آرزو و خواہش ہوتی ہے ، سرزنش ، عذاب ، نیکی اور بشارت سے مرنے والا دوچار ہوتاہے اورمرتے ہی وہ ان خصوصیات کے ساتھ اس عالم میں وارد ہوتا ہے یہ تمام چیزیں اس جسم کے علاوہ ہیں جسے ہم نے مشاہدہ کیا ہے یا نابودجاتاہے، اسی بنا پر موت کے بعد روح کا وجودا ور اس کی بقا واضح و روشن ہے ۔(۲)

____________________

(۱)مومنون ۹۹،۱۰۰۔

(۲)استقلال روح اور وجود کو بیان کرنے والی تمام آیات کی معلومات کے لئے .ملاحظہ ہو: محمد تقی مصباح ، معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) ص ۴۵۰۔ ۴۵۶۔

۱۱۸

روح کے اثبات میں بشری معرفت اور دینی نظریہ کی ہماہنگی

گذشتہ بحث میں قرآن مجید کی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے جسم اور جسمانی حوادث کے علاوہ انسان کے لئے روح نام کی ایک دوسرے مستقل پہلو کے وجود کو ثابت کیا گیا ہے ، اب ہم

روح کی خصوصیات اور روحی حوادث سے مختصر آشنائی اور عقلی مباحث اور تجربی شواہد کے تقاضوں سے دینی نظریہ کی ہماہنگی کی مقدار معلوم کرنے کے لئے انسان کی مجرد روح کے وجود پر مبنی بعض تجربی شواہد اور عقلی دلیلوں کی طرف اشارہ کریں گے ۔

الف) عقلی دلائل

شخصیت کی حقیقت

ہم میں سے کوئی بھی کسی چیز میں مشکوک ہوسکتا ہے لیکن اپنے وجود میں کوئی شک نہیںکرتا ہے ۔ ہر انسان اپنے وجود کو محسوس کرتا ہے اور اس پر یقین رکھتا ہے یہ اپنے وجود کا علم اس کی واضح ترین معلومات ہے جس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔ دوسری طرف اس مطلب کو بھی جانتے ہیں کہ جس چیز کو ''خود ''یا ''میں '' سے تعبیر کرتے ہیں وہ آغاز خلقت سے عمر کے اواخر تک ایک چیز تھی اور ہے ، جب کہ آپ اپنی پوری زندگی میں بعض خصوصیات اور صفات کے مالک رہتے ہیںیا اسے کھو بیٹھتے ہیں لیکن وہ چیز جس کو ''خود ''یا ''میں '' کہتے ہیں اسی طرح ثابت و پایدار ہے، ہم مذکورہ امور کو علم حضوری سے حاصل کرتے ہیں ۔

اب ہم دیکھیں گے کہ وہ تنہا ثابت و پایدار شی ٔکیا ہے ؟ وہ تنہا ،بغیر کسی شک کے ، اعضاء یا اجرام یا بدن کا دوسرا مادی جزء یارابطوں کے تاثرات اور ان کے مادی آثار نہیں ہوسکتے اس لئے کہ ان کو ہم علم حضوری کے ذریعہ حاصل نہیں کرتے ہیں ؛ بلکہ ظاہری حواس سے درک کرتے ہیں ، اس کے علاوہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ہمیشہ متحول و متغیر ہوتے رہتے ہیں ، لہٰذا ''میں ''یا ''خود''ہمارے جسم اور اس کے آثار و عوارض کے علاوہ ایک دوسری حقیقت ہے اور اس کی پایداری و استحکام، مجرد اور غیر مادی ہونے پر دلالت کرتی ہے ،یہ بات قابل توجہ ہے کہ طریقۂ معرفت اور فلسفہ علم سے بعض ناآشنا حضرات کہتے ہیں کہ علم ؛روح مجرد کے وجود سے انکار کرتا ہے اور اس پر اعتقاد کو غلط تسلیم کرتا ہے۔(۱)

____________________

(۱)مارکس کے ماننے والے اپنے فلسفہ کو فلسفہ علمی کہتے ہیں اور روح کے منکرو معتقد بھی ہیں ۔ملاحظہ ہو: مجموعہ آثار ج۶ص۱۱۵

۱۱۹

جب کہ علم کا کوئی ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ علم اس سے کہیں زیادہ متواضع ہے کہ اپنے دائرۂ اختیار سے باہر مجرد امور میں قضاوت کرے ،یہ بات گذر چکی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کسی شعبہ میں علم کا دعویٰ، انکاراور نہ ہونا نہیں ہے بلکہ عدم حصول ہے ۔

روح کا ناقابل تقسیم ہونا اور اس کے حوادث

مادی و جسمانی موجودات ، کمیت و مقدار سے سروکار رکھنے کی وجہ سے قابل تجزیہ وتقسیم ہیں مثال کے طور پر ۲۰ سینٹی میٹر پتھرکا ایک ٹکڑا یا ایک میڑ لکڑی چونکہ کمیت و مقدار رکھتے ہیں لہٰذا قابل تقسیم ہیں اسی طرح ۱۰ سینٹی میڑ پتھر کے دو ٹکڑے یا آدھے میڑ لکڑی کے دو ٹکڑے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، اسی طرح ایک ورق کاغذ کی سفیدی جو کہ جو ہر کاغذ کی وجہ سے باقی اور اس میں داخل ہے ،کاغذ کو دوحصہ میں کر کے اس کی سفیدی کو بھی ( کاغذ کے دو ٹکڑے میں تقسیم ہونے کے ساتھ ساتھ ) تقسیم کیا جاسکتا ہے لیکن ہم سے ہر ایک جس وقت اپنے بارے میں غور و فکر کرتا ہے تو اس حقیقت کو پاتا ہے کہ نفس، مادی حقیقتوں میں سے نہیں ہے اور وہ چیز جس کو ''میں ''کہتا ہے وہ ایک بسیط اور ناقابل تقسیم شی ٔہے یہ تقسیم نہ ہونااس بات کی علامت ہے کہ ''میں ''کی حقیقت مادہ اور جسم نہیں ہے، مزید یہ کہ ہم سمجھ لیتے ہیں کہ نفس ،مادی چیزوں میں سے نہیں ہے ''میں ''اور روحی حوادث ، ہمارے جسم کے ہمراہ ، تقسیم پذیر نہیں ہیں یعنی اس طرح نہیں ہے کہ اگر ہمارے جسم کو دو نیم کریں تو ''میں ''یاہماری فکر یا وہ مطالب جن کو محفوظ کیا ہے دو نیم ہو جائیگی، اس حقیقت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ'' میں '' اور'' روحی حوادث'' مادہ پر حمل ہونے والی اشیاء و آثارمیں سے نہیں ہیں۔

مکان سے بے نیاز ہونا

مادی چیزیں بے واسطہ یا باواسطہ طور پر مختلف جہت رکھنے کے باوجود مکان کی محتاج ہیں اور فضا کو پُر کئے ہوئے ہیں لیکن روح اور روحی حوادث جس میں بالکل جہت ہی نہیں ہے لہٰذااس کے لئے کوئی مکان بھی نہیں ہے مثال کے طور پر ہم اپنی روح کے لئے جس کو لفظ ''میں '' کے ذریعہ یادکرتے ہیں اس کے لئے اپنے جسم یا جسم کے علاوہ کسی چیزمیں کوئی مکان معین نہیں کرسکتے ہیں، اس لئے کہ وہ نہ تو جسم کا حصہ ہے کہ جہت رکھتا ہو اور نہ ہی جسم میں حلول کرتا ہے اور نہ جسم کی خصوصیات کا مالک ہے جس کی وجہ سے جہت ہو اور نتیجتاً مکان رکھتا ہو ،روحی حوادث مثلاً غم ، خوشی ، فکر و نتیجہ گیری ، ارادہ اور تصمیم گیری بھی اسی طرح ہیں ۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299