طُلوعِ عشق

طُلوعِ عشق22%

طُلوعِ عشق مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

طُلوعِ عشق
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 52 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13272 / ڈاؤنلوڈ: 4567
سائز سائز سائز
طُلوعِ عشق

طُلوعِ عشق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

طلوع عشق

ازدواجي سفر شروع کرنے والے نوجوانوں کو

حضرت آيۃ اللہ العظميٰ خامنہ اي

کي نصيحتيں

جمع آوری :

حجتہ الاسلام جواد علي اکبري

ناشر :

نشر ولايت پاکستان

جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہيں

بسم الله الرحمن الرحيم

آپ کي ازدواجي زندگي کے آغاز پر، جو آپ کے جسم و جان اور قسمت و سر نوشت کا ملاپ ہے، صدقِ دل سے آپ تمام بيٹے اور بيٹيوں کو ہديہ تبريک پيش کرتا ہوں۔

ميں آپ کو يہي سفارش کروں گاکہ ايک دوسرے سے ’’محبت‘‘ کيجئے، اُن سے وفادار رہيے اور خود کو ايک دوسرے کي سرنوشت ميں شريک جانيں۔

مشترکہ زندگي ميں ايک دوسرے سے الجھنے سے پرہيز کريں اور چھوٹي اور بے اہميت غلطيوں کو نظر انداز کرديں۔

خدا وند عالم آپ کو خوش بختي، شيريں زندگي اور روحاني ارتقائ عطا فرمائے اور محبت سے لبريز آپ کے گھر کو تندرست اور صالح اولاد کے وجود سے گرمي اور وشني بخشے، اِنْ شَائَ اللّٰہ

سيد علي خامنہ اي

انتساب

کائنات کے سب سے بہترين اور کامل ترين نوجوانوں،

علي علیہ السلام اور فاطمہ سلام اللہ علیھا

کے نام!

کہ جن کي نو سالہ ازدواجي زندگي ہم سب کے ليے تاقيامت مشعلِ راہ ہے۔

سخن ناشر

ٍ ’’طلوعِ عشق‘‘ ،دراصل عشق و محبت اور عہد و پيمان کے راستے پر قدم اٹھانے والے اور اپني ازدواجي زندگي کا آغاز کرنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکي کے نئے سفر کي شروعات ہے۔

’’طلوعِ عشق‘‘،درحقيقت رہبرِ عالي قدر کي خطباتِ نکاح کے موقع پر ہونے والي مشفقانہ نصيحتيں ہيں کہ جو انہوں نے مختلف سالوں ميں ارشاد فرمائيں۔ يہ کتاب ’’دفتر نشرِ فرہنگِ اسلامي‘‘تہران سے ٢٠٠٤ئ ميں طباعت ہونے والي ’’مطلع عشق‘‘ کي پانچويں اشاعت کا اردو ترجمہ ہے۔

’’طلوعِ عشق‘‘ ،سماجي اور گھريلو مسائل کو اپنے اچھوتے اور نئے انداز سے بيان کرکے اُن کا صحيح اور عقلي و منطقي راہِ حل پيش کرتي ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پُرنشيب و فراز والے اس ازدواجي راستے کي باريکيوں، نزاکتوں، حساسيت اور مشترکہ زندگي کے شريکوں کي ذمے داريوں کو بھي بيان کرتي ہے۔ اُميد ہے کہ کتاب کا مطالعہ آپ کي ازدواجي زندگي کو خوشحال اور معاشرتي فضا کو شيريں زندگي کے ليے ساز گار بنانے ميں آپ کي بھرپور مدد کرے گا۔

نشرولايت پاکستان کا قيام ٢٠٠٢ ئ ميں عمل ميں لايا گيا۔ اس ادارے کا مقصد رہبرِ معظّم ولي امر مسلمين جہان حضرت آيت اللہ العظميٰ امام خامنہ اي حفظہ اللہ کے تمام مطبوع اور غير مطبوع آثار کي حفاظت اور اُنہيں اُردو زبان ميں منتقل کرنا ہے۔

نشر ولايت پاکستان، دشمن کي ثقافتي يلغار کو روکنے کے ليے کوشاں ہے۔ اور يہ کتاب بھي اسي سلسلے کي ايک کڑي ہے۔ اُميد ہے کہ طلوعِ عشق آپ کے علمي ذوق ميں اضافے کا سبب بنے گي۔

نشرولايت پاکستان(مرکز حفظ و نشر آثار ولایت)

مقدمہ

انتظار کا سخت آزما سفر اپنے اختتام کو ہے، دو خوشحال اور چمکتے دمکتے چہروں کے آمنے سامنے ہونے اور رُخ زيبا سے نقاب الٹے جانے کے ساتھ يہ ’’شيريں انتظار‘‘ اپنے ’’وصل‘‘ ميں تبديل ہو جائے گا اور يوں دو دھڑکتے ہوئے دلوں کو اپني اپني حقيقي زندگي کے خوابوں کي تعبير نصيب ہو گي۔

مومن اور نوراني نوجوان لڑکے اور لڑکياں اس خدائي اور آسماني ’’رشتہ ازدواج‘‘ کي دہليز پر کھڑے ہيں۔ يہ ايک ايسا رشتہ ہے کہ جس میں منسلک ہو کر وہ ’’ايک جان دو قالب‘‘ ہو جائيں گے اور يہ ايک ايسي مضبوط گرہ ہے جو دو تقديروں کو ايک ساتھ زندگي کے سفر پر لا کھڑا کرے گي۔

ملن اور بندھن کي اس محفل ميں ايک طرف اپنے احساسات و نشاط سے بھرپور، عفت و حيا کي چادر ميں لپٹي ہوئي ناز و سرور اور محبت سے سرشار اور اپني آرزوں کے ساتھ زندگي کے نئے سفر اور نئے راستے پر نظريں جمائے دُلہنيں موجود ہيں تو دوسري جانب اميد و شوق اور مصمم ارادوں کے مالک، عشق سے لبريز اور زندگي کے نشيب و فراز والي اس نئي اور طويل راہ پر اپني منزل کي جانب خوف و اضطراب کے ساتھ نظريں جمائے ہوئے دولہا کھڑے ہيں تو تيسري جانب خوشي و مسرت ميں ڈوبے ہوئے والدين کہ جن کي آنکھوں ميں خوشي کے آنسو ان کي محبت و شفقت کے بھرپور احساسات کي عکاسي کر رہے ہيں، جو اپنے بوستان حيات کے گُلوں کے ملاپ کے منتظر ہيں۔

سب کي نظريں ’’اُس آنے والے‘‘ کے راستے کي جانب لگي ہوئي ہيں جو اپنے ’’آسماني کلام‘‘ کے ذريعے عشق و محبت ميں فريفتہ و مجذوب، دولہا اور دلہنوں کے دلوں کو ہميشہ کے لئے آپس ميں ملا دے گا۔

يہ کتنا روشن اور نوراني معاہدہ زندگي ہے کہ جہاں فرمانِ الٰہي(۱) کا اجرائ ہو گا اور زيبائي اور خوبصورتي کے خالق کي سب سے زيادہ خوبصورت نشاني سب کے سامنے ظہور کرے گي(۲) اور يہ سب سنت نبوي ۰ اور سيرہ علوي کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔(۳)

خاندان نبوت ۰ کي مودّت سے لبريز ’’دل‘‘، ولادت و خوشيوں کے ان ايام ميں اپني فلاح و سعادت کے لئے ايک دوسرے کے ساتھ عہد و پيمان کے رشتے ميں منسلک ہوتے ہيں اور يوں يہ دو عاشق کبوتر پَر سے پَر ملائے بہشت بريں اور قداست و پاکيزگي کے بلند آشيانے کيلئے اپني پرواز کا آغاز کرتے ہيں۔

شريعت محمدي ۰ ميں ’’ازدواج‘‘ يا ’’شادي‘‘ کو بہت سہل و آسان بنايا گيا ہے جب کہ ’’عقد‘‘ يا ’’نکاح‘‘ ميں بھي کسي قسم کي سختي نہيں رکھي گئي ہے۔ دولہا اور دلہن، شرائط کا خيال رکھتے ہوئے خود بھي اپنا نکاح پڑھ سکتے ہيں۔ ليکن سب کي خواہش يہي ہوتي ہے کہ ان دو دلوں اور دو خاندانوں کے ملاپ، زندگي ميں برکت کے نزول اور اچھے شگون کے لئے کتنا ہي اچھا ہو کہ اس مرحلے کو کسي ايسے شخص کے ہاتھوں ميں سونپيں کہ جو آدابِ شريعت سے بھي آگاہ ہو اور پاک و پاکيزہ روح اور نيک صفات کا مالک بھي، تا کہ اس کے پاکيزہ وجود کي برکت، رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے والوں کے چراغ عشق کو پہلے سے زيادہ روشن کر دے، ان کي محبت و دلگرمي کو پہلے کي نسبت اور زيادہ گرما دے اور ’’اس‘‘ کے وجود کي مٹھاس ان کي نئي زندگي ميں مزيد شيريني گھول دے۔

اور اس سے بڑھ کر کيا سعادت ہو گي کہ زندگي کي اس مشترکہ جدوجہد کي بنياد رکھنے والا زمانے کا ولي فقيہ، اہل ايمان کے دلوں کا محبوب اور نائب امام زمانہ عجل اللہ تعاليٰ فرجہ الشريف ہو !

ايک محترم شخصيت دولہا اور دلہنوں کي کثير تعداد کے سامنے کھڑي ہوتي ہے، تمام نکاح نامے

اس کے ساتھ ہيں اور وہ ايک ايک کر کے تمام دولہا اور دلہنوں کا نام پکارتا اور انہيں لازمي ہدايات ديتا ہے۔

____________________

١ ’’وانکحوا الا يامٰي منکم والصالحين من عبادکم وامائکم ۔‘‘ (سورہ نور ٣٢)

٢ ’’ومن آياته ان خلق لکم من انفسکم ازوا لتسکنوا اليها وجعل منکم مودَّةً ورحمةً ‘‘۔ (سورہ مريم ٢١)

٣النکاح سنّتي فمن رغب عن سنتي فليس منّي ۔ (بحار الانوار، جلد ١٠٠، صفحہ ٢٢٠)

تمام نکاح ناموں ميں مشترک چيز ’’مہر‘‘ کا ايک ہونا ہے يعني صرف ’’١٤ سکے(۱) ۔ ‘‘ البتہ بہت سے دُولہاوں نے اس کے ساتھ ساتھ حج، مکہ مدينہ کي زيارتوں اور عتبات عاليات کے سفر يا اپنے اپنے شوق و ذوق کے مطابق بہت سے دوسرے معنوي اور روحاني تحفوں کا بھي انتظام کيا ہے۔ يہ ہے اس محفل ميں آنے کي شرط۔ وہ اپني ہدايات کو جاري رکھتا ہے: ’’آغا‘‘ دلہنوں کي جانب سے وکيل ہيں جب کہ جناب محمدي گلپايگاني دولہاوں کي طرف سے اپني وکالت کے فرائض انجام ديں گے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں دلہنيں خدا کي عطا کردہ نعمت کيلئے کرامت و بزرگي اور سرفرازي کا احساس کرتي ہيں اور دل ہي دل ميں دولہاوں پر اپني برتري جتاتي ہيں۔ دولہا حضرات تھوڑي سے دير کے لئے افسردہ تو ہوتے ہيں ليکن فوراً ہي اپنے دل کو اس خيال سے تسلي ديتے ہيں کہ اصل قصہ تو ’’اَنکَحتُ (ميں نے تمہارا نکاح کيا)‘‘ کا ہے کہ جسے ’’آغا‘‘ اپني زبان مبارک سے ادا کريں گے۔ بس يہيں سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس شريکہ حيات کا کتنا خيال رکھنا چاہيے کہ جس کا ’’وکيل‘‘ نائب امام جيسي شخصيت ہو !

’’تمام چيزيں تيار ہيں‘‘ ! ايک بلند آواز محفل پر طاري سکوت کو توڑتي ہے تو دوسري جانب ’’شوقِ وصل‘‘ اور عشق ميں دھڑکنے والے دلوں کي دھڑکنوں کو اور تيز کر ديتي ہے، وصال کا وقت آ گيااور منزل قريب آتي نظر آ رہي ہے۔

اور تھوڑي دير بعد امام بارگاہ کے وسيع و عريض ہال کے کونے ميں بنے ہوئے دروازے سے پردے کو ہٹايا جاتا ہے اور امام زمانہ عجل اللہ تعالي فرجہ الشريف کے نائب کا چہرہ پر نور اپني تمام نورانيت، خوبصورتي، جذابيت اور مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ خورشيد ولايت کے ظہور پر حاضرين کے لبوں پر صلوات کے نغمہ جاويد کي گونج اور آنکھوں سے اشک شوق کا جاري ہونا دراصل سينوں ميںدھڑکنے والے ان مجذوب و فريفتہ دلوں کا پتہ دے رہا ہے جو شکر گزاري اور سپاس کے جذبات کے ساتھ اپنے زندگي کے شيريں لمحات کا جشن منا رہے ہيں۔ ’’آغا‘‘ اپني مہربان آنکھوں سے حاضرين کو سيراب کرتے ہيں اور سب کو ’’خوش آمديد‘‘ کہتے ہيں۔

____________________

١ ايران ميں آج کل رسم ہے کہ مہر کو سونے کے سکوں کي شکل ميں رکھا جاتا ہے۔ ہر سونے کا سکہ (سکہ بہار آزادي) آج کل تقريباً پاکستاني ۷۵۰۰/= روپے کا ہے۔ (مترجم)

اِن محافل کي رسم کے مطابق ابتدا ميں رہبر عالي قدر اپنے پدرانہ اور مشفقانہ انداز ميں چند مختصر مگر پُر معنيٰ جملے، حکمتوں سے لبريز قيمتي گوہروں اور درس زندگي کے قيمتي نکات کو خوش بختي کے راستے پر قدم اٹھانے والوں کي نظر کرتے ہيں۔ اے کاش سر زمين ايمان کے تمام دولہا اور دلہن کہ جو اس مہربان اور شفيق پدر کے روحاني بيٹے اور بيٹياں ہيں، اپني اپني زندگي کے آغاز پر اِن حکمت ہائے گوہر بار سے بہرہ مند ہوتے اور اپنے طولاني اور يادگار سفر کے لئے اس دسترخوانِ کرم سے توشہ راہ مہيا کرتے!

نکات کے بيان کے بعد دلوں کا يہ محبوب ايک ايک کر کے تمام دلہنوں سے وکيل بننے کي اجازت ليتا ہے۔

يہ وہ مقام ہے کہ جہاں کوئي بھي دلہن ’’جي‘‘ کہنے ميں نخرے يا شرم اور پس و پيش سے کام نہيں ليتي کيونکہ يہ لمحات لوٹ کر آنے والے نہيں۔ ’’آغا‘‘ چند دلہنوں سے اجازت لينے کے بعد باري آنے والي دلہن کا نام ليتے ہيں اور مہر کي رقم اور نکاح نامے ميں موجود ديگر شرائط کے بيان کے ساتھ اُس سے وکالت کي اجازت طلب کرتے ہيں دوسري دلہنوں کي طرح جلدي جلدي ’’جي‘‘ کہنے کے بجائے يہ دلہن چپ رہتي ہے۔ حاضرين حيرت ميں ڈوب جاتے ہيں۔ ’’آغا‘‘تھوڑي دير صبر کرتے ہيں، ’’اگر آپ نے مجھے اپنا وکيل نہيں بنايا تو ميں آگے بڑھ جاوں گا ‘‘۔ دلہن فرطِ جذبات سے گلے ميں لگے پھندے کو دور کرتے ہوئے لب کھولتي ہے: ’’آغا ايک شرط ہے !‘‘ حاضرين اور تعجب کرتے ہيں۔ ’’ميري بيٹي کيا شرط ہے ؟‘‘۔دلہن نے پہلے سے زيادہ پُر اعتمادلہجے ميں کہا: ’’اس شرط پر آپ کو اپنا وکيل بناتي ہوں کہ آپ روزِ قيامت ميري اور ميرے والد کي شفاعت کريں گے‘‘۔ حاضرين ميں سے کوئي با آواز بلند کہتا ہے : ’’آغا يہ سپاہ اسلام کے عظيم جنرل شہيد کي دختر ہيں‘‘۔ حاضرين منقلب ہو جاتے ہيں۔ آغا متواضع لہجے ميں فرماتے ہيں کہ ’’ميري بيٹي ! يہ تمہارے شہيد والد ہيں کہ جو ہم سب کي شفاعت کريں گے! ‘‘ اسلام اور حضرت زہرا سلام اللہ عليہا کے ان انصاروں کے ذکر سے محفل ميں دوسرے معنوي رنگ پھيل جاتے ہيں۔ ’’آغا‘‘ کے بعد محمدي صاحب نے بھي دولہاوں سے وکالت لي اور اب صيغہ عقد يا نکاح پڑھانے کے لئے تمام چيزيں تيار ہيں۔

پہلي بات

ازدواج يا شادي: ناموسِ فطرت اور قانونِ شريعت

دريچہ

اب آسماني ملاپ کا وہ پُر شکوہ لمحہ نزديک آ پہنچا ہے۔

دو ہمسفر نوجوان، خداوند عالم کي مرضي اور رضا کے مطابق چاہتے ہيں کہ ايک دوسرے کے ہاتھ ميں ہاتھ دے کر زندگي کے راستے پر قدم اٹھائيں اور اپنے بلند و بالا اہداف کي طرف حرکت کريں۔

يہ کيسا مضبوط اور اہم عہد و پيمان ہے !

انسان کي طبع اور جبلّت اپنے ’’جوڑے‘‘ کي متلاشي ہے جب کہ جان و دل ميں موجزن يہ دريائے پُر تلاطم صرف ’’ہمسر‘‘ اور ’’ہم رتبہ اور ہم پلہ‘‘ ہي سے ساکن ہو سکتا ہے، بے قرار روح ’’اُس‘‘ کے بغير پھيکے پن اور خلا کا احساس کرتي ہے۔

خدا بھي ان ميں سے ہر ايک کو دوسرے کے بغير پسنديدہ نگاہوں سے نہيں ديکھتا ہے جب کہ پيغمبر اکرم ۰ نے ’’شادي‘‘ کو اپني سنت، رضائے الٰہي تک پہنچنے کي راہ اور نصف دين کو محفوظ کرنے کا وسيلہ قرار ديا ہے۔ رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے والے

يہ دونوں نوجوان، زندگي کے اس ’’معاہدے‘‘ کے متعلق زيادہ جاننا چاہتے ہيں کہ تا کہ وہ علم اور آگاہي کے ساتھ ’’قبول ہے‘‘ کہہ سکيں۔ لہٰذا اس ’’سيد‘‘ کي باتوں کو سننا کس قدر شيريں ہے !

زندگي کا ہدف

زندگي ايک طولاني سفر ہے کہ جس ميں مختلف منزليں ہيں ليکن اس کا ايک بلند بالا ہدف بھي ہے۔ زندگي ميں انسان کا ہدف يہ ہونا چاہيے کہ وہ اپنے اور ديگر موجوداتِ عالم کے وجود کو اپنے معنوي کمال کے لئے استعمال کرے۔

حقيقت تو يہ ہے کہ ہم اس دنيا کے لئے خلق نہيں ہوئے ہيں۔ ہم نے دنيا ميں اس حالت ميں قدم رکھا ہے کہ ہميں اس ميں آنے کا کوئي اختيار نہيں تھا۔ ہم اس دنيا ميں ايک ايسے بچے کي مانند ہيں جو دوسروں سے اثر ليتا ہے، زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ ہماري عقل رُشد پيدا کرتي ہے اور ہم اختيار اور انتخاب کي قدرت کے مالک بن جاتے ہيں۔ يہ وہ جگہ ہے کہ جہاں لازمي ہے کہ انسان صحيح انداز سے سوچے، صحيح چيز کا انتخاب کرے اور اپنے اُس انتخاب کے مطابق قدم اٹھائے اور آگے بڑھے!

اگر انسان اس فرصت کو غنيمت جانے اور اس دنيا کے چند دنوں سے کہ جب تک وہ يہاں ہے، بہترين استفادہ کرے تو وہ اپنے آپ کو کمال تک پہنچا سکتا ہے اور جس دن اِس دنيا سے رخصت ہو گا تو وہ اُس شخص کي مانند ہو گا کہ جو زندان سے رہائي پاتا ہے اور يہيں سے حقيقي زندگي کا آغاز ہوتا ہے۔

شادي، اسلامي اقدار کا جلوہ

سب سے پہلي اور بنيادي بات يہ ہے کہ يہ شادي کہ جسے خداوند عالم نے (انساني رشد و کمال کے لئے بہترين) روش و طريقہ قرار ديا ہے اور انساني خلقت بھي اسي کا تقاضا کرتي ہے، خداوند عالم کے اسرار ميں سے ايک سِرّ، اس کي نعمتوں ميں سے ايک نعمت اور حيات بشري کے مظاہر ميں سے ايک ناقابلِ اجتناب مظہر ہے۔ ايسا ہو سکتا تھا کہ خداوند عالم آسماني قوانين ميں شادي کو لازم اور واجب يا جائز قرار ديتا اور لوگوں کو چھوڑ ديتا کہ وہ (ازروئے ناچاري يا ازروئے اختيار) شادي کريں۔ ليکن اس نے يہ کام نہيں کيا بلکہ ’’ازدواج‘‘ کو ايک ’’قدر‘‘ ( VALUE ) قرار ديا ہے يعني جو بھي رشتہ ازدواج ميں منسلک نہيں ہو گا وہ خود کو اس فضيلت سے محروم کر دے گا۔

خداوند عالم کا اصرار

اسلام کي رُو سے گھر بسانا ايک فريضہ ہے اور يہ ايسا عملي فريضہ ہے کہ مرد و عورت مل کر اس کام کو ايک ’’خدائي امر‘‘ اور ايک ’’وظيفے‘‘ کے تحت انجام ديں۔ اگرچہ کہ ’’شادي‘‘ کو شرعاً زمرہ واجبات ميں (براہ راست) ذکر نہيں کيا گيا ہے ليکن اسلامي تعليمات ميں اس امر کے لئے اتني توجہ اور ترغيب دلائي گئي ہے کہ انسان سمجھ جاتا ہے کہ خداوند عالم اس امر کے لئے کتنا اصرار کرتا ہے۔ يہ اصرار صرف ايک کام کو معمولي طور سے انجام دينے کے لئے نہيں ہے بلکہ ايک يادگار واقعے اور انساني زندگي اور معاشرے پر تاثير گزار امر کي حيثيت سے اس پر توجہ دي گئي ہے، لہٰذا اسي لئے نوجوان لڑکے اور لڑکي کے بندھن پر اتني زيادہ ترغيب دلائي گئي ہے اور ’’جدائي‘‘ اور ’’دوري‘‘ کو مذمت کي نگاہ سے ديکھا گيا ہے۔

خداوند عالم مرد اور عورت کي تنہائي کو پسند نہيں کرتا !

خداوند عالم مرد اور عورت کي تنہا زندگي کو پسنديدہ نگاہ سے نہيں ديکھتا ہے۔ خاص طور پر وہ جو نوجوان ہوں اور شادي اور گھر بسانے کي دہليز پر کھڑے ہو کر بھي تنہائي کو ترجيح ديں۔ ليکن يہ صرف نوجوان لڑکے لڑکيوں سے مخصوص نہيں ہے۔ خداوند عالم مشترک ازدواجي زندگي سے خوش ہوتا ہے۔ ايک مرد اور عورت کا تمام زندگي اکيلے زندگي گذارنا، اسلام کي نگاہ ميں کوئي مطلوب چيز نہيں ہے۔ ايسا انسان، معاشرے ميں ايک بيگانے موجود کي مانند ہے۔ اسلام کي خواہش يہ ہے کہ ايک گھرانہ، انساني معاشرے کي ايک حقيقي اکائي ہو نہ کہ ايک اکيلا انسان۔

وقت پر شادي = سنّت نبوي ۰

ايک مشہور و معروف روايت ميں رسول اکرم ۰ نے ارشاد فرمايا کہ ’’نکاح ميري سنت ہے‘‘۔ البتہ، تخليق انساني کي ايک خاص روش ہے اور تمام انسانوں اور تمام اقوام و اديان ميں يہ روش رہي ہے۔ پس حضرت ۰ نے کيوں فرمايا کہ يہ ميري سنت ہے؟ آخر اس کو اپني سنت قرار دينے اور اپنے رفتار و عمل سے مخصوص کرنے کے کيا اسباب ہيں؟ شايد يہ سب اس جہت سے ہو کہ اسلام نے گھر بسانے کے لئے بہت زيادہ تاکيد کي ہے جب کہ دوسري شريعتوں اور اديان ميں شادي پر کم تاکيد کي گئي ہے۔ آپ ملاحظہ کيجئے کہ اسلام نے ’’شادي‘‘اور ’’گھر بسانے‘‘ پر جو تاکيد کي ہے کہ وہ دنيا کے کسي بھي مکتبِ فکر اور دنيا ميں رائج کسي بھي فلسفے اور سياست ميں موجود نہيں ہے۔ اسلام اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ لڑکے اور لڑکياں اس سن و سال ميں شادي کريں کہ جس ميں وہ (جسماني و عقلي طورپر) شادي کے قابل ہوجائيں۔

نکاح، فطري تقاضے کو پورا کرنے کے علاوہ ايک ديني اور اسلامي سنت بھي ہے۔ اس بنا پر يہ بہت آسان ہے کہ جو بھي اس عمل کے لئے کہ فطرت و ضرورت جس کا تقاضا کرتي ہے اقدامات کرے گا وہ ثواب بھي حاصل کرے گا۔ لہٰذا وہ سنت نبوي ۰ کي ادائيگي اور رسول اکرم ۰ کے حکم کي اطاعت کي غرض سے شادي کے لئے اقدامات کرے گا۔ شادي ايک فطري آئين اور خداوند عالم کي طرف سے دکھائي گئي ايک راہ ہے جب کہ رسول اکرم ۰ نے اسے اپني سنت قرار ديا ہے۔ اس کا سبب يہ ہے کہ اسلام نے اس مسئلے پر بہت زيادہ اور خاص تاکيد کي ہے، کيوں ؟ کيونکہ يہ مسئلہ بہت اہميت کا حامل ہے اور انساني تربيت ميں خاندان کي تشکيل کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہيں۔ اسي طرح فضائل و کمالات کے ارتقا اور تربيتي، روحي، عملي اور ہمدردي و محبت کے لحاظ سے ايک صحيح و سالم انسان کي (مکمل) ظاہري و باطني تعمير ميں يہ عنصر بنيادي کردار کا حامل ہے۔

جواني کے عشق و شوق ميں شادي

حضرت ختمي مرتبت ۰ اس بات پر بہت زيادہ تاکيد فرماتے تھے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکياں جلدي شادي کريں۔ البتہ اپنے ميل و رغبت اور اختيار سے، نہ يہ کہ دوسرے ان کي جگہ فيصلہ کريں۔ ہميں چاہيے کہ اپنے معاشرے ميں اس بات کو رواج ديں۔ نوجوانوں کو مناسب سن و سال ميں کہ جب ان کي نوجواني کي بہار اپنے عروج پر ہو، عشق و شوق کي اس جوش و گرمي کے ساتھ شادي کرني چاہيے۔ يہ بات بہت سے افراد کے نظريات اور خيالات کے بر خلاف ہے کہ جو يہ خيال کرتے ہيں کہ جواني کے زمانے کي شادي دراصل ’’وقت سے پہلے کِھلنے والا پھول‘‘ ہے کہ جو جلد ہي مرجھا جاتا ہے ليکن حقيقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر شادي اور اس کے فلسفے کو صحيح طور پر درک کيا جائے اور يہ صحيح طور پر انجام پائے تو جو اني کي شادياں اچھي اور بہت پائيدار ثابت ہوں گي اور ايسے خاندان ميں مياں بيوي مکمل طور پر ايک دوسرے کے سچے دوست اور اچھے جيون ساتھي ثابت ہوں گے۔

وقت ِ ضرورت، رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونا

اسلام کي يہي خواہش ہے کہ يہ مقدس امر اپنے صحيح وقت پر کہ جب اِس کي ضرورت محسوس کي جائے جتنا جلدي ممکن ہو، انجام پائے۔ يہ وہ امور ہيں جو صرف اسلام ہي سے مخصوص ہيں۔ يعني جتني جلدي ہو بہتر ہے۔ جلدي اس لئے کہ وہ وقت کہ جب لڑکا و لڑکي اپنے جيون ساتھي کي ضرورت محسوس کريں تو يہ کام جتنا جلدي ممکن ہو انجام پائے، بہتر ہے۔ اس کا سبب يہ ہے کہ اوّلاً، رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے کے دامن ميں چھپي ہوئي خير و برکات اپنے صحيح وقت پر انسان کو حاصل ہوں گي قبل اس کے کہ زمانہ گزرے يا اس کي زندگي کا بہترين حصہ گزرجائے۔ دوسري بات يہ کہ وقت پر شادي جنسي انحرافات اور بے راہ روي کا راستہ روکتي ہے۔ لہٰذا حديث ميں ارشاد ہوا ہے کہ ’’مَنْ تَزَوَّجَ اَحرَزَ نَصْفَ دِيْنِهِ ‘‘(۱) (جس نے وقت پر شادي کي اس نے اپنا نصف دين محفوظ کر ليا)۔ اس روايت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے دين و ايمان کو متزلزل کرنے والے آدھے حملے اور ان کو لاحق خطرات صرف جنسي انحرافات اور بے راہ روي کي وجہ سے ہيں۔

شادي کي برکتيں اور فوائد

رشتہ ازدواج ميں منسلک ہو کر ايک دوسرے کا شريک حيات اور جيون ساتھي بننا اور ’’خوشحال گھرانے‘‘ کي ٹھنڈي فضا ميں سانس لينا دراصل زندگي کے اہم ترين امور سے تعلق رکھتا ہے۔ شادي، مرد اور عورت دونوں کے روحاني آرام و سکون اور مل جل کر زندگي کي گاڑي کو دلگرمي کے ساتھ چلانے کا ايک وسيلہ ہے۔ يعني ايک دوسرے کي ڈھارس باندھنے، اطمينان قلب اور ايک ’’غمخوار‘‘ و ’’مونس‘‘ کي تلاش کا وسيلہ ہے کہ جس کا وجود مياں بيوي کي مشترکہ زندگي کا جزوِلا ينفک ہے۔

شادي، انسان کي جنسي، شہوتي اور جبلّتي جيسي فطري ضرورتوں کا مثبت جواب دينے کے علاوہ توليد نسل اور صاحب اولاد ہونے جيسي زندگي کي بڑي خوشيوں کو بھي اپنے ہمراہ لاتي ہے۔

____________________

١ بحار الانوار، جلد، ١٠٠ صفحہ ٢١٩

پس آپ شادي کے مادّي اور معنوي پہلووں پر توجہ کيجئے کہ جب ايک انسان شادي کو اس نظر سے ديکھتا ہے تو وہ شادي کو مبارک و مسعود امر اور مفيد حکم پاتاہے۔ البتہ شادي کا سب سے اہم فائدہ ’’گھر بسانا‘‘ ہے جب کہ ديگر مسائل دوسرے درجے کے ہيں يا اس ’’گھر بسانے‘‘ والے امر کي مدد کرنے والے ہيں مثلاً توليد نسل يا بشري غرائز اور جبلّتوں کي سيرابي کا انتظام کرنا۔ نسلِ بشر کي ابتدا و بنياد، شادي ہے، عَالَم کي بقا شادي سے وابستہ ہے، تہذيب و تمدّن اور ثقافتيں شادي ہي کے ذريعے آنے والي نسلوں تک منتقل ہوتي ہيں اور سياسي اور ديگر جہات سے معاشروں کا استقلال و آزادي، شادي سے ہي منسلک ہے۔ غرضيکہ شادي اپنے دامن ميں بے شمار فوائد رکھتي ہے۔

شادي کي شرائط کمال

شريعت ميں حکم ديا گيا ہے کہ رشتہ ازدواج کو مضبوطي سے قائم رکھا جائے ليکن اس کے ساتھ ساتھ مياں بيوي کي مشترکہ زندگي سے متعلق بہت سي شرائط کو بھي بيان کيا گيا ہے۔ مثلاً ازدواجي زندگي کے اخلاق و عمل کے بارے ميں کہ جب آپ رشتہ ازدواج ميں منسلک ہو جائيں تو اپني بيوي يا شوہر کے لئے اپنے اخلاق کو اچھا بنائيے، مشترکہ زندگي ميں اس کي مدد کيجئے، عفو و درگذر سے کام ليں، ايک دوسرے سے محبت کريں، اس کے سچے اور مخلص دوست بنيں اور اس سے وفا داري کريں۔ يہ سب شريعت کے احکام اور دستور ہيں۔

البتہ شادي ميں ’’مادّي شرائط‘‘ کو بہت آسان رکھا گيا ہے۔ جو چيز شادي ميں اہم ہے وہ اپنے شريک حيات کے بشري پہلو اور اس کے انساني احساسات کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہے۔ رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے والے لڑکے لڑکيوں کو چاہيے کہ اپني زندگي کي آخري سانسوں تک ايک دوسرے کے ساتھ اچھے اخلاق سے پيش آئيں کيونکہ يہ سب امور اس بندھن اور اس رشتے کي حفاظت کرتے ہيں۔

شريعتِ مقدسہ نے انسان کے اجتماعي روابط اور تعلقات ميں ’’شادي‘‘ جيسے اس انساني امر پر دستخط تو کئے ہيں ليکن ساتھ ہي بہت سي شرائط بھي رکھي ہيں۔ ان جملہ شرائط ميں سے ايک شرط يہ ہے کہ يہ انساني امر ايک انسان کے دوسرے انسان سے رابطے کے دائرے سے خارج ہو کر ايک تجارتي لين دين کے معاملے ميں تبديل نہ ہو جائے۔ اس چيز کو شريعت ہرگز پسند نہيں کرتي ہے۔ البتہ يہ شرائط، شادي کي شرائط کمال ميں شمار کي جاتي ہيں نہ کہ اس کے صحيح ہونے کي(۱) ، ليکن بہر حال يہ شرائط ہيں۔

اسلام کي نظر ميں کفو اور ہم پلّہ ہونے کا تصور

شريعت ِ مقدسہ ميں شادي کے لئے جس چيز کو متعين کيا گيا ہے وہ لڑکے اور لڑکي کا ايک دوسرے کا کفو اور ہم پلہ ہونا ہے۔ کفو اور ہم پلہ ہونے کے سلسلے ميں جو چيز قابل اہميت ہے وہ ايمان ہے يعني دونوں کو مومن، متقي اور پرہيزگار ہونا چاہيے اور يہ کہ دونوں اسلامي تعليمات پر اعتقاد رکھنے والے اور ان پر عمل کرنے والے ہوں۔ جب يہ چيز حاصل ہو جائے تو بقيہ دوسري (مادّي) چيزوں کي کوئي اہميت نہيں رہتي۔ جب شادي کرنے والے لڑکے لڑکي کي پاکدامني، تقويٰ اور طہارت و پاکيزگي معلوم ہو اور دونوں ايک دوسرے کے کفو اور ہم پلہ ہوں تو بقيہ دوسري چيزيں خدا خود فراہم کر دے گا۔

اسلام ميں اس مشترکہ جدوجہد اور زندگي کا معيار کہ جس کا نام ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننا ہے، دين و تقويٰ سے عبارت ہے۔المومن کفو المومنة والمسلمُ کفو المسلمة (۲) يعني مومن مرد، مومن عورت کا کفو ہے جب کہ مسلمان مرد مسلمان عورت کا ہم پلہ ہے۔ يہ ہے دين کا بتايا ہوا معيار۔

البتہ جو بھي راہِ خدا ميں آگے آگے، پيشقدم، دوسروں سے زيادہ فدا کاري کرنے والا، دوسروں کي نسبت زيادہ آگاہ اور بندگانِ خدا کے لئے زيادہ ہمدرد اور انہيں نفع پہنچانے والا ہو گا وہ سب سے بہتر اور بلند مقام کا حامل ہے۔ ممکن ہے کہ عورت اس مقام کي مالک نہ ہو تو اس ميں کوئي قباحت نہيں، ليکن عورت کو چاہيے کہ خود کو اس بلند مقام کي طرف حرکت دے يا ممکن ہے کہ عورت کا مقام مردسے زيادہ بلند ہو اور مرد اس رتبے کا حامل نہ ہو۔ پس مرد کو چاہيے کہ اس بلند مقام و منزل کي جانب قدم اُٹھائے۔

____________________

١ ہرچيز کي کچھ شرائط ہوتي ہيں ۔ کچھ شرائط اس عمل کے صحيح ہونے اور کچھ اس کے کمال سے متعلق ہوتي ہيں۔ مثلاً نمازکي شرائط صحت يا صحيح ہونے کي جملہ شرائط ميں سے چند شرط يہ ہيں کہ نمازي کا بدن ،لباس اور نماز کي جگہ پاک ہو اور غصبي نہ ہو کہ اگر ان کا خيال نہ رکھا جائے تو نماز باطل ہے۔ ليکن کچھ شرائط نماز کے کمال سے متعلق ہيں مثلاً حضور قلب اور توجہ سے نماز کي ادائيگي ہو، خوف ِ خدا سے گريہ کرنا اور اپني ہر نماز کو آخري نماز ِ سمجھ کر ادا کرنا وغيرہ۔يعني اگر ان شرائط نماز کا خيال نہ رکھا جائے تو بھي يہ نماز فقہي طور پر صحيح ہے۔ ليکن دين مقدس اسلام نے شرائط کمال پر بہت زور ديا ہے کہ جو نمازکو کمال کي طرف لے جاتي ہيں ۔ اسي طرح شادي کي شرط کمال يہ ہے کہ شادي ايک تجاري معاملے ميں تبديل نہ ہونے پائے ليکن اگر کہيںايسا ہو کہ مہر اور جہيز زيادہ رکھا جائے تو ان کي وجہ سے خود شادي کے فقہي طور پر صحيح ہونے پر کوئي اثر نہيں پڑے گا اور شادي اپني جگہ مکمل صحيح ہوگي ليکن اسلام کو يہ بات ہرگز پسند نہيں۔ (مترجم)

٢ وسائل الشيعہ، جلد٠ ٢، صفحہ ٦٧

عاقل اور غافل انسان کا فرق

ايک وقت انسان شادي کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’پروردگارا! ميں شادي کر رہا ہوں اور اپني ايک فطري ضرورت کو پورا کر رہا ہوں‘‘۔ ممکن ہے کہ اس کي طبيعت و مزاج ہي اسي طرح کا ہو کہ وہ خدا کا شکر کرے اگر چہ کہ وہ اپني زبان سے يہ جملے ادا نہ کرے يا ذہن ميں بھي نہ لے کر آئے۔ ليکن توجہ رہے کہ انسان کي فطري ضرورت صرف اُس کي جنسي خواہش کو ہي پورا نہيں کرتي بلکہ مرد و عورت دونوں رشتہ ازدواج ميں منسلک ہو کر اپني مشترک زندگي کا آغاز کرتے ہيں، اپنا گھر بساتے اور اپنے چھوٹے سے خاندان کو وجود ميں لے کر آتے ہيں۔ يہ بھي انسان کي ضرورتيں ہيں اور ديگر ضروريات کي مانند اس کا وجود انساني حيات کے لئے اشد ضروري ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے کہ ’’خداوندا ! ميں اپني اس فطري ضرورت کو پورا کر رہا ہوں، ميں تيرا شکر گزار ہوں کہ تو نے مجھے موقع فراہم کيا، مجھے اجازت دي، مجھے يہ وسيلہ عطا کيا اور مجھے اچھي شريکہ حيات نصيب ہوئي۔ ميں شادي کے بعد بھي اپني نئي زندگي ميں پوري کوشش کروں گا کہ تيري رضا اور خوشنودي کے مطابق عمل کروں‘‘۔ يہ ايک طرح سے شادي کرنا اور اپني نئي زندگي کا آغاز کرنا ہے۔ ايک اور انسان ہے جو شادي تو کرتا ہے ليکن نہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے، نہ اپني شريکہ حيات کي قدر و قيمت جانتا ہے اور نہ ہي اس فرصت کو غنيمت شمار کرتا ہے کہ جو اُسے حاصل ہوئي ہے۔ يہ آدمي مست اور غافل انسان کي مانند ہے۔ اگر ايسي زندگي کو دوام بھي حاصل ہوجائے تو بھي يہ کبھي شيريں نہيں ہو سکے گي اور نہ ہي اس ميں ايک دوسرے کي نسبت اپني ذمہ داريوں کا خيال رکھا جائے گا۔

شادي کي نعمت کا شکرانہ

آپ کو چاہيے کہ زندگي کے اس مرحلے کو کہ جب آپ اپني ازدواجي زندگي کا آغاز کرتے ہيں اور اپنے گھرانے کي بنياديں مضبوطي سے رکھتے ہيں، خداوند عالم کي عظيم نعمتوں ميں سے ايک نعمت تصور کريں اور اس کا شکرانہ بجا لائيں۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ خدا کا ديا ہوا ہے’’مابنامن نعمة فمن اللّٰه ‘‘(۱) ۔ ليکن اس نعمت کي طرف توجہ اورنعمت دينے والي ذات کي ياد آوري بہت اہميت کي حامل ہے۔ بہت سي ايسي نعمتيں ہيں کہ جن کي طرف انسان توجہ بھي نہيں کرتا۔ بہت سے لوگ ہيں کہ جو شادي کرتے ہيں اور بہت سي خوبيوں کے مالک بن جاتے ہيں، اچھي اور شيريں زندگي انہيں نصيب ہوتي ہے اور وہ بہترين زندگي گزارتے ہيں ليکن اس بات کي طرف بالکل متوجہ نہيں ہوتے کہ يہ کتني عظيم نعمت ہے کہ اُنہيں اپني قسمت اور مستقبل کو اچھا بنانے والا کتنا اہم موقع نصيب ہوا ہے۔ جب انسان يہ نہ سمجھ سکے تو وہ نعمت کا شکريہ بھي ادا نہيں کرسکتا اور نتيجے کے طور پر رحمت الٰہي سے محروم ہو جاتا ہے جو انسان کے شکر کي وجہ سے اس پر نازل ہوتي ہے۔

لہٰذا انسان کو چاہيے کہ اس بات کي طرف توجہ کرے کہ يہ کتني بڑي نعمت ہے اور اس نعمت کا شکرانہ کيسے ادا کيا جا سکتاہے؟ ايک وقت انسان شکريے کو فقط اپني زبان سے ادا کرتا ہے کہ ’’خدايا تيرا شکر ہے‘‘، ليکن يہ شکر اس کے دل کي گہرائيوں تک سرايت نہيں کرتا ہے ايسا شکر صرف لقلقہ زباني ہے اور اس کي کوئي قيمت نہيں۔ ليکن ايک وقت انسان اپنے دل کي گہرائيوں سے خدائے متعال کا شکر گزار ہوتا ہے اور ايسا شکر بہت اہميت کا حامل ہوتا ہے۔ ايسا انسان سمجھتا ہے کہ خداوند متعال نے اسے ايک نعمت دي ہے اور وہ حقيقت ميں اپنے شکر کا اظہار کرتا ہے۔ يہ شکر کا بہترين درجہ ہے۔ جب بھي ہم خداوند عالم کا شکريہ ادا کرتے ہيں تو اس شکرانے کي وجہ سے ہم پر ايک عمل کي انجام دہي لازم ہو جاتي ہے۔ بہت خوب، اب جب کہ خداوند کريم نے آپ کو يہ نعمت دي ہے تو اس کے بدلے ميں آپ کو کيا کام انجام دينا چاہيے؟ اس نعمت کے جواب ميں ہم سے ہماري قدرت سے زيادہ عمل کي توقع نہيں کي گئي ہے نعمت کے مقابلے ميں جو چيز ہم سے مطلوب ہے وہ يہ ہے کہ ہم اس نعمت سے اچھا برتاو کريں اور اس اچھے برتاو کو اسلام ميں معيّن کيا گيا ہے کہ جسے خانداني اخلاق و حکمت سے تعبير کيا جاتا ہے۔ يعني زندگي ميں ہميں کيا عمل اختيار کرنا چاہيے تا کہ ہماري زندگي ايک اچھي زندگي ہو۔

شادي کس لئے، مال و جمال کے لئے يا کمال کے لئے؟

اگر کوئي مال و جمال کے لئے شادي کرے تو روايت کے مطابق ممکن ہے کہ خداوند عالم اسے مال و دولت اور خوبصورتي دے اور يہ بھي ممکن ہے کہ اسے ان چيزوں سے محروم رکھے۔ ليکن اگر کوئي تقويٰ اور عفت و پاکيزگي کے حصول کے لئے شادي کرے تو خداوند عالم اسے مال و دولت بھي دے گا اور حسن و خوبصورتي بھي عطا کرے گا۔ ممکن ہے کہ کوئي يہ کہے کہ حسن و خوبصورتي تو عطا کرنے والي کوئي چيز نہيں ہے يعني کسي کے پاس خوبصورتي ہے يا نہيں ہے ! (دينے يا نہ دينے سے اس کا کيا تعلق؟) اس کے معني يہ ہيں کہ خوبصورتي آپ کے دل اور نگاہوں ميں ہے۔ اگر انسان کسي کو کہ جو بہت خوبصورت نہ ہو، پسند کرے تو وہ اسے اچھا لگے گا يا وہ کسي کو پسند نہيں کرتا ہرچند کہ وہ بہت خوبصورت ہي کيوں نہ ہو، تو وہ اسے اچھا نہيں لگے گا۔

____________________

١ بحار الانوار، جلد ٤٩، صفحہ ٢٦٩ (ہمارے پاس جو بھي نعمت ہے وہ خدا ہي کي عطا کردہ ہے)۔

اسلامي روش ہي بہتر ہے

عيسائيت اور يہوديت سميت ديگر اديان ميں يہ رشتہ (شاد ي) مختلف صورتوں ميں موجود ہے۔ اسلام نے اِن اديان کي شادي کے طريقے کو معتبر جانتے ہوئے مرد و عورت کو مياں بيوي قرار ديا ہے اور ان کي اولاد کو بھي حلال زادہ سمجھا ہے۔

اسلام ميں شادي کا تصور، طريقہ اور روش بقيہ تمام اديان اور اقوام کے طريقہ ازدواج سے زيادہ بہتر ہے۔ شادي کے مقدمات، اس کي اصل و بنياد نيز اس کا دوام و بقا انسان کي مصلحت کے عين مطابق رکھا گيا ہے۔ البتہ دوسرے اديان ميں ہونے والي شادياں بھي ہمارے نزديک معتبر اور قابل احترام ہيں يعني وہ نکاح جو ايک عيسائي کے لئے اُس کے گرجا گھر يا ايک يہودي کے لئے اُس کے مَعْبَد (کنيسہ) ميں يا ہر قوم کے اپنے اپنے خاص طريقے سے انجام ديا جاتا ہے وہ ہمارے نزديک صحيح ہے اور ہم اسے باطل نہيں کہتے ہيں۔ ليکن جو طريقہ اسلام نے معين کيا ہے وہ دوسروں سے بہتر ہے کہ جس ميں شوہر اور بيوي دونوں کے لئے الگ الگ حقوق، مشترکہ ازدواجي زندگي کے آداب اور ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننے کي روش بھي بيان کي گئي ہے۔ ’’اسلامي بنياد‘‘ يہي ہے کہ ايک گھرانہ تشکيل پائے اور وہ خوش بخت اور خوشحال بھي ہو۔

نکاح کے چند بول کے ذريعے ؟

يہ نکاح جو ہم پڑھتے ہيں، در حقيقت اس کے چند بول (صيغوں ) کے ذريعے ہم دو اجنبيوں اور مختلف ماحول و خاندان کے لڑکے لڑکي کو ايک دوسرے سے ملا ديتے ہيں۔ يوں يہ آپس ميں اس طرح شير و شکر ہو جاتے ہيں کہ يہ پوري دنيا سے زيادہ ايک دوسرے کے لئے محرم، ايک دوسرے کے سب سے نزديک اور مہربان و غمخوار بن جاتے ہيں۔ دوسري بات يہ کہ ہم اس نکاح کے ذريعے انساني معاشرے ميں ايک نئي اکائي ايجاد کرتے ہيں اور يوں معاشرے کا يہ انساني اجتماع ’’گھرانے‘‘ کي اکائي سے تشکيل پاتا ہے۔ تيسري بات يہ کہ آپ دونوں انسان ہيں، ايک بيوي ہے اور ايک شوہر کہ آپ ميں سے ہر ايک کو دوسرے کي ضرورت ہے اور ہم اس نکاح کے چند جملے پڑھ کر آپ کي ان ضرورتوں کے مثبت حل کا سامان کرتے ہيں۔

ہم يہ تين کام انجام ديتے ہيں۔ يہ آپ کي زندگي کي ابتدا بھي ہے اور بنياد بھي اب اس کے بعد آگے خود آپ کي ذمہ داري ہے۔

سب سے اہم ترين فائدہ

رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے اور اپنا گھر بسانے کو اسلام ميں بہت زيادہ اہميت دي گئي ہے اور اس کے بہت سے فوائد ہيں ليکن اس کا سب سے اہم ہدف اور فائدہ اپنا گھر بسانا ہے۔ مياں بيوي کے درميان محبت و خلوص اور ايثار و فدا کاري کا يہ رشتہ اور معاشرے ميں گھرانے کي ’’اکائي‘‘ کي تشکيل دراصل مرد و عورت دونوں کے روحاني آرام و سکون، کمال اور اُن کي شخصيت کے رشد اور پختگي ميں بہت موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ ان سب کے بغير مرد کا وجود بھي ناقص ہے اور عورت کا وجود بھي نا مکمل رہتا ہے۔ دوسرے تمام مسائل کا درجہ اس کے بعد آتا ہے۔ اگر يہ گھرانہ، صحيح و سالم اور محبت و خلوص کي فضا ميں تشکيل پائے تو يہ معاشرے کے موجودہ اور آئندہ حالات پر اثر انداز ہو گا۔

ازدواجي زندگي کا آغاز دراصل گھرانے کي تشکيل کے لئے اقدام کرنا ہے جب کہ گھر کو بسانا درحقيقت تمام اجتماعي روابط کي اصلاح اور انساني تربيت کي بنياد ہے۔

درحقيقت شادي عبارت ہے لڑکے اور لڑکي کي اپني مشترکہ ازدواجي زندگي شروع کرنے اور گھر بسانے سے۔ لڑکا اور لڑکي ايک دوسرے کو ديکھيں (اور پسند کريں)، شرعي عقد (نکاح) پڑھا جائے اور يہ ايک دوسرے کے مياں بيوي بن جائيں اور يوں محبت و خلوص کي فضا ميں ايک گھرانے کي بنياد رکھي جاتي ہے۔ خداوند عالم ہر لحاظ سے صحيح و سالم اور مسلمان گھرانے کو پسند کرتا ہے۔ جب ايک گھرانہ تشکيل پاتا ہے تو اس پر بہت سي برکتيں بھي نازل ہوتي ہيں، مياں بيوي کو اپني بہت سي ضرورتوں کا مثبت حل مل جاتا ہے اور انساني نسل اپنا سفر جاري رکھتي ہے۔ ان تمام مراحل ميں اصل چيز اولاد، خوبصورتي و زيبائي اور مال و دولت نہيں ہے بلکہ اصل جوہر يہ ہے کہ دو انسان مل کر اپني مشترکہ ازدواجي زندگي کا آغاز کرتے ہيں چنانچہ اس مشترکہ زندگي کي فضا اور ماحول کو صحيح و سالم ہونا چاہيے۔

اس گھرانے کي بنياد رکھنا بذات خود سب سے اہم عنصر ہے۔ خلقت بشر کي اساس اس پر رکھي گئي ہے کہ ايک مرد و عورت مل کر باہمي شراکت و رضا مندي سے اس اکائي کي بنياد رکھيں تا کہ زندگي آساني سے، بغير کسي مشکل و تشويش خاطر کے انساني حاجت و ضرورت کي جواب دہي کے لئے آگے بڑھے۔ اگر يہ سب چيزيں نہ ہوں تو جان ليں کہ زندگي اپني ايک ٹانگ کے سہارے چل رہي ہے۔

دوسري بات

محبت و خلوص ميں تشکيل پانے والا گھرانہ اور خانداني نظام زندگي

دريچہ

اب ہمارے بہترين اور عزيز ترين لڑکے اور لڑکياں جان گئے ہيں کہ ’’رشتہ ازدواج‘‘ ميں منسلک ہونے اور اس مقدس بندھن کا سب سے بہترين نتيجہ اور اصل ہدف ’’گھرانے‘‘ کي بنياد رکھنا ہے۔

آج کے زمانے ميں سب ہي ’’گھرانے‘‘ کے متعلق باتيں کرتے ہيں اور سب ہي کو اس بارے ميں تشويش لاحق ہے۔ معاشرتي اور تاريخي علوم کے ماہرين کسي بھي معاشرے کي سب سے پہلي اور بنيادي ترين شکل ’’گھرانے‘‘ کو قرار ديتے ہيں۔ اس طرح ماہرين نفسيات بھي انسانوں کے نفساني حالات کي جڑوں کو ’’گھرانے‘‘ ميں ہي تلاش کرتے ہيں۔ جب کہ تربيت کے شعبے سے منسلک مفکرين اور دانش مند حضرات ’’گھر‘‘ کو ہي تربيتي امور کا مرکز جانتے ہيں اور اجتماعي مصلح حضرات بھي ہر قسم کي اصلاح طلب تبديلي و انقلاب کو ’’گھرانے‘‘ سے ہي مربوط قرار ديتے ہيں اور

سچ مچ، گھرانے کي اہميت کتني زيادہ ہے؟

اسلام کي اس بارے ميں کيا نظر ہے؟

کس طرح ايک ’’گھرانے‘‘ کي بنيادوں کو مستحکم بنايا جا سکتا ہے؟

اور ، اور، اور

اسلام اور معاشرے ميں ’’گھرانے‘‘ کے مقام و منزلت اور اس کے مختلف اثرات کو اسلام کے مايہ ناز مفکر اور فلسفہ شناس دانشمند کي حيثيت سے اپنے ہر دلعزيز قائد و رہبر سے سننا اس عظيم بنياد کو رکھنے والے نوجوانوں کے لئے راہ گُشا ہے۔

کلمہ طيبہ يا پاک بنياد

گھرانہ ’’کلمہ طيبہ‘‘ ١ کي مانند ہے اور کلمہ طيبہ کي خاصيت يہ ہے کہ جب يہ وجود ميں آتا ہے تو مسلسل اس کے وجود سے خير و برکت اور نيکي ہي ملتي رہتي ہے اور وہ اپنے اطراف کي چيزوں ميں نفوذ کرتا رہتا ہے۔ کلمہ طيبہ وہي چيزيں ہيں کہ جنہيں خداوند متعال نے انسان کي فطري ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کي صحيح بنيادوں کے ساتھ اُسے تحفہ ديا ہے۔ يہ سب کلمہ طيبہ ہيں خواہ وہ معنويات ہوں يا ماديات۔

انساني معاشرے کي اکائي

جس طرح ايک انساني بدن ايک اکائي ’’سيل‘‘ يا ’’خليے‘‘ سے تشکيل پاتا ہے کہ ان خليوں کي نابودي،خرابي اور بيماري خود بخود اور فطري طور پر بدن کي بيماري پر اختتام پذير ہوتي ہے۔ اگر ان اکائيوں ’’خليوں‘‘ ميں پلنے والي بيماري بڑھ جائے تو خطرناک شکل ميں بڑھ کر پورے انساني بدن کے لئے خطرے کا باعث بن سکتي ہے۔ اسي طرح انساني معاشرہ بھي اکائيوں سے مل کر بنا ہے جنہيں ہم ’’گھرانہ‘‘ کہتے ہيں۔ ہر گھر اور گھرانہ انسان کے معاشرتي بدن کي اکائي ہے۔ جب يہ صحيح و سالم ہوں گے اور صحيح اور اچھا عمل انجام ديں گے تو معاشرے کا بدن بھي يقيناًصحيح و سالم ہو گا۔

اچھا گھرانہ اور اچھا معاشرہ

اگر کسي معاشرے ميں ايک گھرانے کي بنياديں مستحکم ہو جائيں، مياں بيوي ايک دوسرے کے حقوق کا خيال رکھيں، آپس ميں خوش رفتاري، اچھے اخلاق اور باہمي تعاون سے پيش آئيں، مل کر مشکلات کو حل کريں اور اپنے بچوں کي اچھي تربيت کريں تو وہ معاشرہ بہترصورتحال اور نجات سے ہمکنار ہوجائے گا اور اگر معاشرے ميں کوئي مصلح موجود ہو تو وہ ايسے معاشروں کي باآساني اصلاح کر سکتا ہے۔ ليکن اگر صحيح و سالم اور اچھے گھرانے ہي معاشرے ميں موجود نہ ہوں تو کتنے ہي بڑے مصلح کيوں نہ آ جائيں وہ بھي معاشرے کي اصلاح نہيں کر سکتے۔

١ سورہ ابراہيم کي آيت ٢٤ کي طرف اشارہ ہے کہ ارشاد رب العزت ہے : ’’اللہ تعاليٰ نے کلمہ طيبہ کي مثال پيش کي ہے جيسے ايک شجر طيبہ کہ جس کي جڑيں زمين ميں مستحکم ہوں اور شاخيں آسمان ميں پھيلي ہوئي ہوں اور اپنے رب کے حکم سے اپنا پھل بھي لے کر آتا ہے‘‘۔

ہر وہ ملک کہ جس ميں گھرانے کي بنياديں مضبوط ہوں تو اس ملک کي بہت سي مشکلات خصوصاً معنوي اور اخلاقي مشکلات اس مستحکم اور صحيح و سالم گھرانے کي برکت سے دور ہو جائيں گي يا سرے ہي سے وجود ميں نہيں آئيں گي۔ يہ بندھن اور ملاپ اور زندگي کا نيا روپ دراصل خداوند عالم کي بڑي نعمتوں ميں سے ايک نعمت اور اُس کے اسرارِ خلقت ميں سے يک سرّ ہے۔ اسي طرح معاشروں کي صحت و سلامتي اور اصلاح و بہتري نيز ان کے بقا اور دوام کا دارو مدار اسي ازدواجي زندگي پر ہے۔

اگر ايک گھرانہ صحيح صورت ميں تشکيل پائے اور منطقي، عقلي اور اخلاقي اصول دونوں مياں بيوي پر حاکم ہوں اور وہ گھر، خدا او ر شريعت مقدسہ کے معيّن شدہ اصولوں کے مطابق چلے تو يہ گھرانہ اصلاح معاشرہ کي بنياد قرار پائے گا نيز اس معاشرے کے تمام افراد کي سعادت کي بنياد بھي يہي گھر بنے گا۔

گھر کو بسانا دراصل انسان کي ايک اجتماعي ضرورت ہے۔ چنانچہ اگر کسي معاشرے ميں ’’گھرانے‘‘ صحيح و سالم اور مستحکم ہوں، حالاتِ زمانہ ان کے پائے ثبات ميں لغزش پيدا نہ کريں اور وہ مختلف قسم کي اجتماعي آفات سے محفوظ ہوں تو ايسا معاشرہ اچھي طرح اصلاح پا سکتا ہے، اس کے باشندے فکري رشد پا سکتے ہيں، وہ روحاني لحاظ سے مکمل طور پر صحيح و سالم ہوں گے اور ممکن ہے کہ وہ نفسياتي بيماريوں سے بھي دور ہوں۔

اچھے گھرانے سے محروم معاشرہ نفسياتي بيماريوں کا مرکز ہے

اچھے گھرانوں سے محروم معاشرہ ايک پريشان، غير مطمئن اور زبوں حالي کا شکار معاشرہ ہے اور ايک ايسا معاشرہ ہے کہ جس ميں ثقافتي، فکري اور عقائدي ورثہ آنے والي نسلوں تک با آساني منتقل نہيں ہوسکتا۔ ايسے معاشرے ميں انساني تربيت کے بلند مقاصد آساني سے حاصل نہيں ہو پاتے يا اس ميں صحيح و سالم گھرانوں کا فقدان ہوتا ہے يا ان کي بنياديں متزلزل ہوتي ہيں۔ ايسے معاشروں ميں انسان اچھے تربيتي مراکز اور پرورش گاہوں ميں بھي اچھي پرورش نہيں پا سکتے۔

صحيح و سالم گھرانے کا فقدان اس بات کا سبب بنتا ہے کہ نہ اس ميں بچے صحيح پرورش پاتے ہيں، نہ نوجوان اپني صحيح شخصيت تک پہنچ سکتے ہيں اور انسان بھي ايسے گھرانوں ميں کامل نہيں بنتے۔ جب کہ اس گھر سے تعلق رکھنے والے مياں بيوي بھي صالح اور نيک نہيں ہوں گے، اس گھر ميں اخلاقيات کا بھي فقدان ہو گا اور گذشتہ نسل کے اچھے اور قيمتي تجربات بھي اگلي نسلوں تک منتقل نہيں ہو سکتے ہيں۔ جب ايک معاشرے ميں اچھا گھرانہ موجود نہ ہو تو جان ليجئے کہ اس معاشرے ميں ايمان اور دينداري کو وجود ميں لانے والا کوئي مرکز موجود نہيں ہے۔

ايسے معاشرے کہ جن ميں گھرانوں کي بنياديں کمزور ہيں يا جن ميں اچھے گھرانے سرے ہي سے وجود نہيں رکھتے يا کم ہيں يا اگر ہيں تو ان کي بنياديں متزلزل ہيں تو وہ فنا اور نابودي کے دھانے پر کھڑے ہيں۔ ايسے معاشروں ميں نفسياتي الجھنوں اور بيماريوں کے اعداد و شمار ان معاشروں سے زيادہ ہيں کہ جن ميں اچھے اور مستحکم گھرانے موجود ہيںاور مرد و عورت گھرانے جيسے ايک مظبوط مرکز سے متصل ہيں۔

غير محفوظ نسليں

انساني معاشرے ميں گھرانہ بہت اہميت اور قدر و قيمت کا حامل ہے۔ آنے والي نسلوں کي تربيت اور معنوي، فکري اور نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم انسانوں کي پرورش کے لئے گھرانے کے فوائد تک نہ کوئي پہنچ سکتا ہے اور تعليم و تربيت کے ميدان ميں نہ ہي کوئي چيز بھي گھر و گھرانے کي جگہ لے سکتي ہے۔ جب خانداني نظامِ زندگي بہتر انداز ميں موجود ہو تو ان کروڑوں انسانوں ميں سے ہر ايک کے لئے ديکھ بھال کرنے والے (والدين جيسے دو شفيق وجود) ہميشہ ان کے ہمراہ ہوں گے کہ جن کا کوئي بھي نعم البدل نہيں ہوسکتا۔

’’گھرانہ‘‘ ايک امن و امان کي داوي محبت اور پُر فضا ماحول کا نام ہے کہ جس ميں بچے اور والدين اس پر امن ماحول اور قابل اعتماد فضا ميں اپني روحي، فکري اور ذہني صلاحيتوں کو بہتر انداز ميں محفوظ رکھتے ہوئے ان کي پرورش اور رُشد کا انتظام کر سکتے ہيں۔ ليکن جب خانداني نظام ہي کي بنياديں کمزورپڑ جائيں تو آنے والي نسليں غير محفوظ ہو جاتي ہيں۔

انسان، تربيت، ہدايت اور کمال و ترقي کے لئے خلق کيا گيا ہے اور يہ سب اہداف صرف ايک پر امن ماحول ميں ہي حاصل کئے جا سکتے ہيں۔ ايسا ماحول کہ جس کي فضا کو کوئي نفسياتي الجھن آلودہ نہ کرے اور ايسا ماحول کہ جس ميں انساني صلاحيتيں اپنے کمال تک پہنچيں۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے ايسے ماحول کا وجود لازمي ہے کہ جس ميں تعليمات ايک نسل کے بعد دوسري نسل ميں منعکس ہوں اور ايک انسان اپنے بچپنے سے ہي صحيح تعليم، مددگار نفسياتي ماحول اور دو فطري معلّموں يعني والدين کے زير سايہ تربيت پائے جو عالَمِ دنيا کے تمام انسانوں سے زيادہ اس پر مہربان ہيں۔

اگر معاشرے ميں صحيح خانداني نظام رائج نہ ہو تو انساني تربيت کے تمام اقدامات ناکام ہو جائيں گے اور اس کي تمام روحاني ضرورتوں کو مثبت جواب نہيں ملے گا۔ يہي وجہ ہے کہ انساني تخليق اور فطرت ايسي ہے کہ جو اچھے گھرانے، صحيح و کامل خانداني نظام کے پُر فضا اور محبت آميز ماحول اور والدين کي شفقت و محبت کے بغير صحيح و کامل تربيت، بے عيب پرورش اور نفسياتي الجھنوں سے دور اپني لازمي روحاني نشو و نما تک نہيں پہنچ سکتي ہے۔ انسان اپني باطني صلاحيتوں اور اپنے احساسات و جذبات کے لحاظ سے اسي وقت کامل ہو سکتا ہے کہ جب وہ ايک مکمل اور اچھے گھرانے ميں تربيت پائے۔ ايک مناسب اور اچھے نظام زندگي کے تحت چلنے والے گھر ميں پرورش پانے والے بچوں کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم اور ہمدردي اور مہرباني کے جذبات(۱) سے سرشار ہوں گے۔

ايک گھرانے ميں تين قسم کے انسانوں کي اصلاح ہوتي ہے۔ ايک مرد ہيں جو اس گھر کے سرپرست يا والدين ہيں، دوسرے درجے پر خواتين کہ جو ماوں کا کردار ادا کرتي ہيں اور تيسرے مرحلے پر اولاد کہ جو اس معاشرے کي آنے والي نسل ہے۔

اچھے گھرانے کي خوبياں

ايک اچھا گھرانہ يعني ايک دوسرے کي نسبت اچھے، مہربان، پُر خلوص جذبات و احساسات کے مالک اور ايک دوسرے سے عشق و محبت کرنے والے مياں بيوي جو کہ ايک دوسرے کي جسماني اور روحاني حالت کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے ضرورت کے مطابق ايک دوسرے کي مدد کريں، ايک دوسرے کي فعاليت، کام کاج اور ضرورتوں کو اہميت ديں اور ايک دوسرے کے آرام و سکون اور بہتري و بھلائي کو مدّنظر رکھيں۔ يہ سب پہلے درجے پر ہيں۔

____________________

١ ماہرين نفسيات اس بات کے قائل ہيں اور ہماري احاديث و روايات بھي اس مطلب پر تاکيد کرتي ہيں کہ گھر ميں والدين کا اپني اولاد سے ہمدردي، محبت، شفقت اور مہرباني و پيار سے پيش آنا بچوں کي تربيت اور ان کي نشو و نما ميں بہت زيادہ موثر ہے۔ والدين کا خشک رويہ بچوں سے مہرباني، ہمدردي، اور پيار و محبت کو سلب کر لے گا اور وہ بچے سخت مزاج، ناقص اور نا ہموار طبيعت کے مالک ہوں گے۔ (مترجم)

دوسرے درجے پر اس گھرانے ميں پرورش پانے والي اولاد ہے کہ جس کي تربيت کے لئے وہ احساس ذمّہ داري کريں اور مادي اور معنوي لحاظ سے انہيں صحيح و سالم پرورش کا ماحول فراہم کريں۔ ان کي خواہش يہ ہوني چاہيے کہ ان کے بچے مادي اور معنوي لحاظ سے سلامتي اور بہتري تک پہنچیں، انہيں بہترين تعليم و تربيت ديں، انہيں مودّب بنائيں، اچھے طريقوں سے اپني اولاد کو برے کاموں کي طرف قدم بڑھانے سے روکيں اور بہترين صفات سے ان کي روح کو مزيّن کريں۔ ايک ايسا گھر دراصل ايک ملک ميں ہونے والي تمام حقيقي اصلاحات کي بنياد فراہم کر سکتا ہے۔ چونکہ ايسے گھرانوں ميں اچھے انسان ہي اچھي تربيت پاتے ہيں اور بہترين صفات کے مالک ہوتے ہيں۔ جب کوئي معاشرہ شجاعت، عقلي استقلال، فکري آزادي، احساس ذمہ داري، پيار و محبت، جرآت و بہادري، وقت پر صحيح فيصلہ کرنے کي صلاحيت، دوسروں کي خير خواہي اور اپني خانداني پاکيزگي و نجابت کے ساتھ پرورش پانے والے لوگوں کا حامل ہو گا تو وہ کبھي بد بختي و روسياہي کے شکل نہيں ديکھے گا۔

اچھے خانداني نظام ميں ثقافت کي منتقلي کي آساني

ايک معاشرے ميں اس کي تہذيب و تمدّن اور ثقافت کے اصولوں کي حفاظت اور آئندہ آنے والي نسلوں تک ان کي منتقلي اچھے گھرانے يا بہترين خانداني نظام کي برکت ہي سے انجام پاتي ہے۔

رشتہ ازدواج ميں نوجوان لڑکے لڑکي کے منسلک ہونے کا سب سے بہترين فائدہ ’’گھر بسانا‘‘ ہے۔ اس کا سبب بھي يہي ہے کہ اگر ايک معاشرہ اچھے گھرانوں، خانداني افراد اور بہترين نظام تربيت پر مشتمل ہو تو وہ بہترين معاشرہ کہلائے جانے کا مستحق ہے اور وہ اپني تاريخي اور ثقافتي خزانوں اورورثہ کو بخوبي احسن اگلي نسلوںں تک منتقل کرے گا اور ايسے معاشرے ميں بچے بھي صحيح تربيت پائيں گے۔ چنانچہ وہ ممالک اور معاشرے کہ جن ميں خانداني نظام مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو وہاں ثقافتي اور اخلاقي مسائل پيش آتے ہيں۔

اگر موجودہ نسل اس بات کي خواہش مند ہے کہ وہ اپنے ذہني اور فکري ارتقائ، تجربات اور نتائج کو آنے والي نسلوں کو منتقل کرے اور ايک معاشرہ اپنے ماضي اور تاريخ سے صحيح معنيٰ ميں فائدہ حاصل کرے تو يہ صرف اچھے گھرانوں يا اچھے خانداني نظام زندگي کے ذريعے ہي ممکن ہے۔ گھر کي اچھي فضا ميں اس معاشرے کي ثقافتي اور تاريخي بنيادوں پر ايک انسان اپنے تشخص کو پاتا ہے اور اپني شخصيت کي تعمير کرتا ہے۔ يہ والدين ہي ہيں کہ جو غير مستقيم طور پر بغير کسي جبر اور تصنّع (بناوٹ) کے فطري اور طبيعي طور پر اپنے فکري مطالب، عمل، معلومات، عقائد اور تمام مقدس امور کو آنے والي نسلوں تک منتقل کرتے ہيں۔

خوشحال گھرانہ اور مطمئن افراد

اسلام ’’گھرانے‘‘ پر مکمل توجہ ديتاہے اور گھرانے پر اس کي نظر خاص الخاص اہتمام کے ساتھ جمي ہوئي ہيں کہ جس کي وجہ سے خانداني نظام يا گھرانے کو انساني حيات ميں مرکزيت حاصل ہے۔ اسي لئے اس کي بنيادوں کو کمزور يا کھوکھلا کرنے کو بدترين فعل قرار ديا گيا ہے۔

اسلام ميں گھرانے کا مفہوم يعني ايک چھت کے نيچے دو انسانوں کي سکونت، دو مختلف مزاجوں کا بہترين اور تصوراتي روحاني ماحول ميں ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننا، دو انسانوں کے انس و الفت کي قرار گاہ اور ايک انسان کے ذريعے دوسرے انسان کے کمال اور معنوي ترقي کا مرکز، يعني وہ جگہ کہ جہاں انسان پاکيزگي حاصل کرے اور اسے روحاني سکون نصيب ہو۔ يہ ہے اسلام کي نگاہ ميں خوشحال گھرانہ اور اسي ليے اسلام اس مرکز ’’گھرانے‘‘ کو اس قدر اہميت ديتا ہے۔

قرآن کے بيان کے مطابق اسلام نے مرد و عورت کي تخليق، ان کے ايک ساتھ زندگي گزارنے اور ايک دوسرے کا شريکِ حيات بننے کو مياں بيوي کے لئے ايک دوسرے کے آرام و سکون کا باعث قرار ديا ہے۔

قرآن ميں ارشاد ِ خداوندي ہے کہ ’’وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْکُنَ اِلَيْهَا ‘‘(۱)

____________________

١ سورہ اعراف ١٨٩

جہاں تک مجھے ياد ہے قرآن ميں دو مرتبہ ’’سکون‘‘ کي تعبير آئي ہے(۱)

خداوند عالم نے انساني جوڑے کو اس کي جنس (انسانيت) سے ہي قرار ديا ہے يعني عورت کا جوڑا مرد اور مرد کا جوڑا عورت کو قرار ديا ہے تا کہ ’’لِيَسْکُنَ اِلَيْھَا‘‘ يعني يہ انسان خواہ مرد ہو يا عورت، اپنے مياں يا بيوي سے آرام و سکون حاصل کرے۔

يہ آرام و سکون دراصل باطني اضطراب کي زندگي کے پُر تلاطم دريا سے نجات و سکون پانے سے عبارت ہے۔ زندگي ايک قسم کا ميدان جنگ ہے اور انسان اس ميں ہميشہ ايک قسم کے اضطراب و پريشاني ميں مبتلا رہتا ہے لہٰذا يہ سکون بہت اہميت کا حامل ہے۔ اگر يہ آرام و سکون انسان کو صحيح طور پر حاصل ہو تو اس کي زندگي سعادت و خوش بختي کو پا لے گي، مياں بيوي دونوں خوش بخت ہو جائيں گے، اور اس گھر ميں پيدا ہونے والے بچے بھي بغير کسي نفسياتي دباو اور الجھن کے پرورش پائيں گے اور خوش بختي ان کے قدم چومے گي ۔ صرف مياں بيوي کے باہمي تعاون، اچھے اخلاق و کردار اور پُرسکون ماحول سے اس گھرانے کے ہر فرد کے لئے سعادت و خوش بختي کي زمين ہموار ہو جائے گي۔

زندگي کي کڑي دھوپ ميں ايک ٹھنڈي چھاوں

جب مياں بيوي دن کے اختتام پر يا درميان ميں ايک دوسرے سے ملاقات کرتے ہيں تو دونوں ايک دوسرے سے يہي اميد رکھتے ہيں کہ انہوں نے گھر کے ماحول کو خوش رکھنے، اسے زندہ بنانے اور تھکاوٹ اور ذہني الجھنوں کو دور کر کے اسے زندگي گزارنے کے قابل بنانے ميں اپنا اپنا کردار موثر طريقے سے ادا کيا ہوگا۔ ان کي ايک دوسرے سے توقع بالکل بجا ہے۔ اگر آپ بھي يہ کام کر سکيں تو حتماً انجام ديں کيونکہ اس سے زندگي شيريں اور ميٹھي ہوتي ہے۔

انسان کي زندگي ميں مختلف ناگزير حالات و واقعات کي وجہ سے طوفان اٹھتے ہيں جس ميں وہ ايک مضبوط پناہ گاہ کا متلاشي ہوتا ہے۔ مياں بيوي کا جوڑا اس طوفان ميں ايک دوسرے کي پناہ ليتا ہے۔ عورت اپنے شوہر کے مضبوط بازوں کا سہارا لے کر اپنے محفوظ ہونے کا احساس کرتي ہے اور مرد اپني بيوي کي چاہت و فدا کاري کي ٹھنڈي چھاوں ميں سکھ کا سانس ليتا ہے۔ مرد اپني مردانہ کشمکش والي زندگي ميں ايک ٹھنڈي چھاوں کا ضرورت مند ہے تا کہ وہاں کي گھني چھاوں ميں تازہ دم ہو کر دوبارہ اپنا سفر شروع کرے۔ يہ ٹھنڈي چھاوں اسے کب اور کہاں نصيب ہو گي؟ اس وقت کہ جب وہ اپنے گھر کي عشق و الفت، مہرباني اور محبت سے سرشار فضا ميں قدم رکھے گا، جب وہ اپني شريکہ حيات کے تبسّم کو ديکھے گا کہ جو ہميشہ اس سے عشق و محبت کرتي ہے، زندگي کے ہر اچھے و بُرے وقت ميں اس کے ساتھ ساتھ ہے، زندگي کے ہر مشکل لمحے ميں اس کے حوصلوں ميں پختگي عطا کرتي ہے اور اسے ايک جان دو قالب ہونے کا احساس دلاتي ہے۔ يہ ہے زندگي کي ٹھنڈي چھاوں۔

____________________

١ومِن آياته آن خلق لکم من آنفسکم آزواجاً لتسکنوا اِليها (سورہ روم ٢١)


3

4

5

6

7

8

9