طُلوعِ عشق

طُلوعِ عشق0%

طُلوعِ عشق مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

طُلوعِ عشق

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 11774
ڈاؤنلوڈ: 2798

تبصرے:

طُلوعِ عشق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 52 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11774 / ڈاؤنلوڈ: 2798
سائز سائز سائز
طُلوعِ عشق

طُلوعِ عشق

مؤلف:
اردو

جو افراد بھي بين الاقوامي صورتحال اور افکارِ عالم سے واقف ہيں وہ جانتے ہيں کہ تمام ممالک خصوصاً امريکہ سے البتہ يورپي ممالک بھي اس ميں شامل ہيں، خير خواہ مصلح اور فہم و ادراک رکھنے والے افراد کي فرياد بلند ہو گئي ہے کہ آو مل کر کوئي چارہ جوئي کرتے ہيں۔ البتہ اتني آساني سے وہ کوئي فکر و تدبير اور چارہ جوئي نہيں کر سکتے اور اگر فکر کرنے ميں انہيں کاميابي حاصل ہو بھي جائے تو بھي وہ اتني آساني سے علاج ميں کامياب نہيں ہو سکتے ہيں۔

غلط اہداف اور شيطاني راہ

وہ لوگ جو کسي ملک يا معاشرے ميں نفوذ کرنا چاہتے ہيں تو وہ افراد اس معاشرے کي ثقافت اور تمدن کو اپنے قبضے ميں لے کر اپني تہذيب و تمدن اور ثقافت کو اس معاشرے پر تھونپ ديتے ہيں ۔ ان کے من جملہ کاموں ميں سے ايک کام گھرانے کي بنيادوں کو متزلزل کرنا ہے جيسا کہ بہت سے ممالک ميں انہوں نے يہ کام انجام ديا ہے۔ انہوں نے معاشرے ميں اس طرح نفوذ کيا ہے کہ مرد اپني ذمہ داريوں کي نسبت غير ذمہ دار اور خواتين بد اخلاق ہو گئي ہيں۔

کسي بھي معاشرے ميں تہذيب و تمدن کي اساس اور بنيادي عناصر کي حفاظت اور آنے والي نسلوں تک ان کي منتقلي بہترين اور اچھے گھرانوں يا خاندانوں کے وجود سے انجام پاتي ہيں۔ اگر ايسے گھر يا خاندان کا وجود نہ ہو تو تمام چيزيں تباہ ہو جائیں گي۔ يہ جو آپ مشاہدہ کر رہے ہيں کہ اہل مغرب کي پوري کوشش ہے کہ مشرق وسطيٰ اور ايشيائي اسلامي اور ديگر ممالک ميں شہوت پرستي اور برائيوں کو رواج ديں تو اس کي کيا وجہ ہے ؟ اس کے جملہ اسباب ميں سے ايک سبب يہ ہے کہ ان کي خواہش ہے کہ اپنے اس کام سے وہاں کے خانداني نظام زندگي کو تباہ و برباد کر ديں تا کہ ان معاشروں کي تہذيب و تمدن اور کلچر کي بنياديں کمزور ہو جائيں اور انہيں ان اقوام پر سوار ہونے کا پورا پورا موقع مل جائے۔ کيونکہ جب تک کسي قوم کي تہذيب و تمدن اور ثقافت کي بنياديں کمزور نہ ہوںتو کوئي بھي اس پر قبضہ نہيں کر سکتا اور نہ ہي اس کے منہ ميں لگام دے کر اسے اپني مرضي کے مطابق چلا سکتا ہے۔ وہ چيز جو اقوام ِ عالم کو لاحق خطرات کے مقابل ميں بے دفاع اور اغيار کے ہاتھوں ميں انہيں اسير بناتي ہے وہ اُن کا اپنے قومي تشخص، تاريخي اور ثقافتي ورثے سے بے خبر ہونا ہے۔ اس کام کے ذريعے سے کسي بھي معاشرے ميں خانداني نظام زندگي کي بنيادوں کو با آساني کمزرو بنايا جا سکتا ہے۔ اسلام، خاندان اور ان کي بنيادوں کي حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ اسي لئے اسلام ميں ان بلند ترين اہداف تک پہنچنے کے لئے اہم ترين کاموں ميں سے ايک کام خاندان و گھرانے کي تشکيل اور اس کي حفاظت کرنا ہے۔

خاندان کے بارے ميں صرف ايک جملہ !

ميں نے اقوام متحدہ کے (جنرل اسمبلي کے) اجلاس ميں تقريباً ايک گھنٹے سے زيادہ گفتگو کي اور ساتھ ہي خاندان اور خانداني نظام زندگي کے بارے ميں بھي روشني ڈالي۔ بعد ميں مجھے اطلاع دي گئي کہ امريکي ٹي وي چينلوں نے ہماري (يعني مسلمانوں خصوصاً ايرانيوں کي) گفتگو کو سنسر اور انہيں مسخ کرنے ميں اپني تمام تر سنجيدگي کے باوجود ميري گفتگو کو معتبر اور مستند قرار ديتے ہوئے کئي بار اسے نشر کيا اور ساتھ تجزيہ اور تحليل بھي پيش کيا اور وہ بھي خانداني نظام زندگي کے بارے ميں صرف ايک جملے کي وجہ سے۔ کيونکہ خانداني مسائل اور گھر و گھرانے سے متعلق گفتگو اہل مغرب کے لئے آج ايک پيغام ہے بالکل ايک ٹھنڈے اور گوارا پاني کي مانند کہ جس کي کمي کا وہ خود بھي احساس کر رہے ہيں۔

مغرب ميں کتني ہي ايسي خواتين ہيں کہ جو آخر عمر تک تنہا زندگي گزارتي ہيں اور کتنے ہي ايسے مرد ہيں کہ جو زندگي کي آخري سانسوں تک گھرانے کي چھاوں سے محروم رہتے ہيں اور اپني شريکہ حيات کے عدم وجود کي تاريکي ميں ہي زندگي کو خدا حافظ کہہ ديتے ہيں۔ ان کي زندگي غريب، اجنبي اور انس و الفت کي ٹھنڈي چھاوں سے محروم ہے۔ کتنے ہي ايسے نوجوان ہيں کہ جو ’’گھرانے‘‘ کي پُر محبت فضا سے محروم ہونے کي وجہ سے آوارہ ہيں يا ان کے معاشرے ميں خانداني نظام زندگي کا کوئي وجود نہيں ہے يا اگر ہے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

چوتھي بات

ايک دوسرے کي نسبت مياں بيوي کے حقوق

دريچہ

نکاح کے بول پڑھنے اور رشتہ ازدواج کے عہد و پيمان کو قبول کرنے سے کل کے لڑکے لڑکي آج کے مياں بيوي اور ايک دوسرے کے شريک حيات بن جاتے ہيں۔

يوں گھروں ميں ايک گھر اور معاشرے ميں ايک نئي ’’اکائي‘‘ کا اضافہ ہوتا ہے۔

اگرچہ کہ حکيم و دانا خالق کي نگاہ ميں مرد و عورت، دو انساني گوہر، دو ايک جيسي آسماني روح اور ايک دوسرے کے مثل و نظير ہيں۔

جب کہ انساني حقيقت کے لحاظ سے ايک دوسرے کي نسبت ہر ايک کي ذمے داري برابر ہے۔

ليکن حکمت ِ خدا نے ان آسماني گوہروں کو ايک دوسرے سے مختلف اور ممتاز پيکروں، البتہ ايک دوسرے کے ضرورت مند

ہونے کے احساس کے ساتھ دو زميني گوہروں ميں سمايا ہے۔

يہ ’’رشتہ ازدواج‘‘ وہي عظيم قانون، ہر لحاظ سے مکمل اور جامع سنت، بہترين رسم زندگي اور وہ خوبصورتي و زيبائي ہے کہ جو اس جہان پر حاکم ہے۔

اِسي طرح ’’زوجيت‘‘ کا يہ مقدس رشتہ اِس عالم ہستي کے معمار کے جمال کي پُر عظمت نشانيوں ميں سے ايک نشاني ہے۔

’’شادي‘‘ يعني ’’گھرانے يا خاندان‘‘ کي ذمہ داري لينے کے لئے زندگي کے دو ستونوں کا ملاپ اور زندگي کے ترازو کے توازن کے لئے زندگي کے ان دو پلڑوں کي نزديکي۔

اس نئي اکائي --گھرانے-- کي تشکيل کے لئے مياں بيوي ميں سے ہر ايک کے مکمل کردار کي شناخت ميں

ان کے جسم و جان اور روح کي صفات و تخليق، حکمت ِ الٰہي اور اس جہان مادّي کے طبيعي و فطري فرق بنيادي کردار ادا کرتے ہيں۔

سچ سچ بتائيے کہ گھر بسانے ميں مياں بيوي کا کيا کردار ہے ؟

کس کي ذمے داري دوسرے سے زيادہ اہم ہے؟ کيا ان دونوں ميں سے کسي ايک کي جگہ کو دوسرے سے تبديل کيا جا سکتا ہے؟

ايک دوسرے کي نسبت ان کے آپس ميں کيا حقوق ہيں ؟

زندگي کي نعمتوں اور اس کے مقابل ان کے حقوق ميں ہر ايک کا حصہ کس نسبت سے ہے؟ اور بالآخر گھر ميں بيوي کي حکومت يا جورو کے غلام کي فضا بہتر ہے يا گھر پر شوہر کے تسلط و برتري اور نوکر بيوي کا ماحول، يا دونوں ميں سے کوئي بھي نہيں ؟

يہ وہ سوالات ہيں کہ جن کے ماہرانہ اور استادانہ جواب کے علاوہ کوئي اور چيز نوجوان دولہا دو لہن کے پريشان ذہنوں کو مطمئن نہيں کر سکتي۔

زندگي کے اس نئے راستے پر قدم رکھنے پر ان دو ہمسفروں کي چشم اميد ’’استاد‘‘ کے راہ گُشا کلمات سے کھلنے والے نئے افق

اور دريچوں پر لگي ہوئي ہے کہ جو راستے سے بھي واقف و آگاہ اور محرمِ دل بھي !

ايک دوسرے کے مددگار اور دوستوں کي مانند

ہم نے مشاہدہ کيا ہے کہ کبھي کبھي مرد، بيوي کو دوسرے نمبر کا درجہ ديتا ہے! ليکن در حقيقت دوسرے درجے کے انسان کا کوئي تصور موجود نہيں ہے۔ دونوں ايک دوسرے کے مثل و نظير اور امور زندگي ميں برابر حقوق کے مالک ہيں۔ مگر وہ مقامات کہ جہاں خداوند متعال نے انساني مصلحت کي بنا پر مرد و عورت ميں فرق رکھا ہے اور يہ فرق مرد کا نفع يا عورت کا نقصان نہيں ہے۔ لہٰذا مياں بيوي کو چاہيے کہ گھر ميں دو شريک اور ايک دوسرے کے مدد گار اور دوستوں کي مانند زندگي گزاريں۔

مرد گھر کا نگران و کفيل ہے اور عورت پھول

اسلام نے مرد کو ’’قَوَّام‘‘(۱) (گھر کا نگران اور کفيل) اور عورت کو ’’ريحان‘‘(۲) (پھول) قرار ديا ہے۔ نہ يہ مرد کي شان ميں گستاخي ہے اور نہ عورت سے بے ادبي، نہ يہ مرد کے حقوق کو کم کرنا ہے اور نہ عورت کے حقوق کي پائمالي ہے بلکہ يہ ان کي فطرت و طبيعت کو صحيح زاويے سے ديکھنا ہے۔ امور زندگي کے ترازو ميں يہ دونوں پلڑے برابر ہيں۔ يعني جب ايک پلڑے ميں (عورت کي شکل ميں) صنف نازک، لطيف و زيبا احساس اور زندگي کے ماحول ميں آرام و سکون اور معنوي زينت و آرائش کے عامل کو رکھتے ہيں اور دوسرے پلڑے ميں گھر کے مدير، محنت و مشقت کرنے والے بازوں اور بيوي کي تکيہ گاہ اور قابل اعتماد ہستي کو (شوہر کي شکل ميں) رکھتے ہيں تو يہ دونوں پلڑے برابر ہو جاتے ہيں۔ نہ يہ اُس سے اونچا ہوتا ہے اور نہ وہ اس سے نيچے۔

مشترکہ زندگي ميں مرد و عورت کے کردار کي تبديلي خطرناک ہے !

بہت سے غلط طور طريقے اور رسوم و آداب کو جو خواتين سے مخصوص نہيں ہيں بلکہ مرد بھي کبھي کبھي انہي کو اپناتے ہيں، ہم سے يہ کہتے ہيں کہ جناب آئيے اور زندگي کے اس ترازو کي چيزوں (مياں اور بيوي کے کردار) کو ايک دوسرے سے تبديل کر ديتے ہيں۔ اگر ہم يہ کام انجام ديں تو کيا ہو گا؟ آپ کا يہ عمل خطائے محض اور گلستان حيات کي زيبائي اور خوبصورتي کو خراب کرنے کے علاوہ کچھ اور نہيں ہو گا۔ آپ، مياں بيوي کے اپنے اپنے مقام پر رہنے سے حاصل ہونے والے فوائد کا راستہ روک کر گھر کے تصوراتي ماحول سے بے اعتنائي برت رہے ہيں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ، مياں بيوي کو ايک دوسرے کي نسبت شک و ترديد اور دو دلي ميں مبتلا کر رہے ہيں اور يوں آپ اس محبت اور عشق کو جو اس مشترکہ زندگي کا اصل سرمايہ ہے، کھو بيٹھيں گے۔

____________________

١ سورہ نسا آيت ٣٤ ۔الرَّجَالُ قَوَّ امُوْنَ عَلَي النِّسَآئِ ۔ ’’مرد عورتوں کے حاکم و نگراں ہيں‘‘۔ ترجمہ : علامہ ذيشان حيدر جوادي۲

٢ امير المومنين کي مشہور حديث کي طرف اشارہ ہے۔اَلْمَرْآةُ رَيْحَانَة وَلَيْسَتْ بِقَهْرِ مَانَة ۔ ’’عورت پھول ہے نہ کہ کوئي پہلوان‘‘ ۔ (بحار الانوار، جلد ١٠٠، صفحہ ٢٥٣)

کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ مرد گھر ميں عورت کي مانند کام کرتا ہے۔ يہاں عورت حاکم ِمطلق ہوتي ہے اور مرد کو دستور ديتي ہے کہ فلا ں کام انجام دو اور فلاں کام کرو۔ مرد بھي دست بستہ جورو کا غلام بن جاتا ہے۔ لہٰذا ايسا مرد ہرگز اپني بيوي کي تکيہ گاہ نہيں بن سکتا درحالانکہ بيوي ايک مضبوط پناہ گاہ کو پسند کرتي ہے۔

کبھي يہ بھي ہوتا ہے کہ مرد کي طرف سے کچھ چيزيں عورت پر زبردستي تھونپي جاتي ہيں۔ فرض کريں کہ گھر کي تمام خريداري، کام کاج، ديگر تمام مسائل کو نمٹانا اور تمام تقاضہ مند افراد کو جواب دينا عورت کي ذمہ داري ہے، آخر کيوں؟ کيونکہ شوہر يہ کہتا ہے کہ ميں نوکري کرتا ہوں، تھک جاتا ہوں اور ميرے پاس وقت نہيں ہے۔ گويا وہ وقت نہ ہونے کے ڈنڈے سے گھر کو چلاتا ہے اور کہتا ہے کہ ميں باہر کام کے لئے جاوں گا اور گھر کے سارے کام بيوي انجام دے گي۔ يعني تمام خشک، غير دلچسپ اور بھاري بھرکم کام عورت کے لئے ! البتہ ممکن ہے کہ مرد اس طرح چند روز کے لئے عورت کو سر گرم رکھے ليکن حقيقت ميں يہ کام اس کي طبيعت و مزاج سے ميل نہيں کھاتے۔

بيوي پھول ہے نہ کہ آپ کي نوکراني اور ملازمہ

روايت ميں آيا ہے کہ ’’المرآة ريحانة ‘‘ (عورت پھول ہے)۔ اب آپ خود ملاحظہ کيجئے کہ اگر کوئي مرد کسي نرم و نا زک پھول سے غير انساني سلوک روا رکھے، اس سے بے اعتنائي برتے اور بيوي کے پھول ہونے کي قدر نہ کرے تو يہ مرد کتنا ظالم اور بُرا ہے؟ ! مردوں کي اپني بيويوں سے ان کي طاقت و توانائي سے زيادہ بڑھي ہوئي بے جا توقعات، اپني مرضي اور باتوں کو ان پر ٹھونسنا اور ان پر اپنا تسلط اور برتري جتانا يہ سب کتنا بُرا ہے؟ !

حديث ميں وارد ہوا ہے کہاَلْمَرْاةُرَيْحَانَة وَلَيْسَتْ بِقَهْرِ مَانَةٍ ۔(عورت پھول ہے، پہلوان نہیں ہے)۔ قہرمان يعني زندگي کے کام کاج کرنے والي لونڈي اور نوکراني۔ يہ عورت آپ کي ملازمہ نہيں ہے کہ (جسے آپ چند ہزار روپے کے مہر دے کر اپني ملازمہ بنا ليں ! اور) اپني زندگي کے کام اور ذمہ داريوں کو اس کے نرم و نازک دوش پر رکھ ديں اور بعد ميں اس سے باز پرس بھي کريں، نہيں ! عورت آپ کے ہاتھ ميں ايک پھول ہے حتيٰ اگر يہ کوئي مفکر اور سياستدان ہي کيوں نہ ہو ليکن خانداني زندگي ميں وہ ايک پھول ہي تصور کي جائے گي۔

مرد کو ملازمت کرني چاہيے

سورہ نسا کي آيت ٣٤ ميں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ ’’الرَّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَي النِّسَائِ ‘‘مرد ،خواتين کے نگراں اور گھر کے سرپرست ہيں اور تمام خانداني امور ان کے ہاتھ ميں ہيں۔ لہٰذا مرد کو چاہيے کہ وہ ملازمت کرے اور گھر کي معيشت اسي کے ذمے ہے۔ بيوي کتني ہي ثروت و دولت کي مالک کيوں نہ ہو ليکن گھر کي کفالت اس کي ذمے داري نہيں ہے۔

نہ مرد کي مطلق العنان حکومت، نہ جورو کي غلامي

يہ کہنا بھي درست نہيں ہے کہ بيوي ہر جگہ شوہر کي تابع ہو اور اس کے فرمان کي تعميل کرے، ہرگز نہيں! نہ اسلام ميں ايسي کوئي چيز ہے اور نہ ہي شريعت نے اسے بيان کيا ہے۔ ’’الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَي النِّسَائِ ‘‘کا معنيٰ يہ نہيں ہے کہ بيوي تمام امور ميں اپنے شوہر کي تابع ہو، نہيں ! يا بعض يورپ نہ ديکھنے والے افراد کي مانند کہ جو يورپ کي اندھي تقليد بھي کرتے ہيں اور خود ان سے بدتر بھي ہيں، ہم يہ کہيں کہ عورت کو ہي تمام کاموں کا حاکم اور مسؤل (جوابدہ) ہونا چاہيے اور مرد اس کا تابع اور خدمت گزار ہو، نہيں، يہ روش بھي غلط ہے، نہ مرد کي مطلق العنان حکومت نہ جورو کي غلامي ! آپ دو دوست اور زندگي کے کاموں ميں شريک اور ايک دوسرے کي مدد و اعانت کرنے والے ہيں۔ ايک جگہ مرد اپني انا کے پہاڑ کو توڑے تو ايک جگہ بيوي ہمہ تن گوش ہو۔ ايک جگہ مرد کي خواہش اور اس کے طريقے کے مطابق کام انجام ديا جائے تو دوسري جانب بيوي کے مشورے سے کسي مشکل کا حل ڈھونڈا جائے تا کہ آپ دونوں مل کر زندگي گزار سکيں۔

مرد و عورت کا فطري تفاوت

خداوند عالم نے عورت کو صنف نازک اور لطيف و ظريف خلق کيا ہے۔ بعض انگلياں دوسري انگليوں سے بڑي اور موٹي ہوتي ہيں اور زمين سے ايک پتھر کو نکالنے ميں بخوبي ان سے مدد لي جا سکتي ہے۔ ليکن اگر ان سے ہيرے کے ايک چھوٹے سے ذرّے کو اٹھايا جائے تو معلوم نہيں کہ وہ اُسے اٹھاپائيں گي يا نہيں؟ ليکن بعض انگلياں نازک اورظريف ہوتي ہيں وہ نسبتاً بڑے پتھر کو نہيں اٹھا سکتيں ليکن سونے يا جواہرات کے چھوٹے ذرّوں کو زمين سے اٹھا کر جمع کر سکتي ہيں۔ مرد اور عورت بھي بالکل ايسے ہي ہيں، ہر ايک کي اپني اپني ذمہ داري ہے۔ يہ نہيں کہا جا سکتا ہے کہ کسي ايک کي ذمہ داري دوسرے سے زيادہ سنگين ہے بلکہ دونوں کي ذمہ داري سنگين، ذي قيمت اور اپنے اپنے مقام پر لازمي ہے۔

عورت کي روح چونکہ لطيف اور نرم و نازک احساسات کي حامل ہے اس لئے اسے زيادہ آرام و سکون کي ضرورت ہوتي ہے۔ وہ راحت و آسائش اور ايک مطمئن تکيہ گاہ اور مضبوط جائے پناہ کي طالب ہے۔ يہ تکيہ گاہ کون ہے؟ وہ اس کا شوہر ہے۔ خداوند عالم نے ان لوگوں کو ايک دوسرے کے لئے خلق کيا ہے۔

دو مختلف نگاہيں مگر دونوں خوبصورت

فطري طور پر مرد کے بارے ميں عورت کي سوچ، مرد کي عورت کے بارے ميں فکر و خيال سے مختلف ہوتي ہے اور اسے ايک دوسرے سے مختلف بھي ہونا چاہيے اور اس ميں کوئي عيب و مضائقہ نہيں ہے۔ مرد، عورت کو ايک خوبصورت، ظريف و لطيف اور نازک و حساس وجود اور ايک آئيڈيل کي حيثيت سے ديکھتا ہے اور اسلام بھي اسي بات کي تائيد کرتا ہے : ’’الْمَرْآَۃُ رَيْحَانَۃ ‘‘۔ يعني عورت ايک نرم و نازک اور حسين پھول ہے، يہ ہے اسلام کي نظر۔ عورت ايک نرم و لطيف اور ملائم طبيعت کي مالک موجود کا نام ہے جو زيبائي اور لطافت کا مظہر ہے۔ مرد، عورت کو ايسي نگاہوں سے ديکھتا ہے اور اپني محبت کو اس قالب ميں مجسم کرتا ہے۔ اِسي طرح مرد بھي عورت کي نگاہوں ميں اس کے اعتماد اور بھروسے کا مظہر اور اس کي مضبوط تکيہ گاہ ہے اور وہ اپني محبت اور دلي جذبات و احساسات کو ايسے مردانہ قالب ميں سموتي اور ڈھالتي ہے۔

زندگي کي اس مشترکہ دوڑ دھوپ ميں مرد و عورت کے يہ ايک دوسرے سے مختلف دو کردار ہيں اور دونوں اپني اپني جگہ صحيح اور لازمي ہيں۔ عورت جب اپنے شوہر کو ديکھتي ہے تو اپني چشمِ محبت و عشق سے اس کے وجود کو ايک مستحکم تکيہ گاہ کي حيثيت سے ديکھتي ہے کہ جو اپني جسماني اور فکري صلاحيتوں اور قوت کو زندگي کي گاڑي کو آگے بڑھانے اور اس کي ترقي ميں استعمال کرتا ہے۔ مرد بھي اپني بيوي کو انس و الفت کے مظہر، ايثار و فدا کاري کي جيتي جاگتي اور زندہ مثال اور آرام و سکون کے مخزن کي حيثيت سے ديکھتا ہے کہ جو شوہر کو آرام و سکون دے سکتي ہے۔ اگر مرد زندگي کے ظاہري مسائل ميں عورت کي تکيہ گاہ اور اس کے اعتماد و بھروسے کا مرکز ہے تو بيوي بھي اپني جگہ روحاني سکون اور معنوي امور کي وادي کي وہ باد نسيم ہے کہ جس کا احساس انسان کي تمام تھکاوٹ و خستگي کو دور کر ديتا ہے۔ گويا وہ انس و محبت، چاہت و رغبت، پيار و الفت اور ايثار و فداکاري کا موجيں مارتا ہوا بحر بيکراں ہے۔ يقينا شوہر، محبت، سچے عشق اور پيار سے سرشار ايسي فضا ميں اپنے تمام غم و اندوہ، ذہني پريشانيوں اور نفسياتي الجھنوں کے بار سنگين کو اتار کر اپني روح کو لطيف و سُبک بنا سکتا ہے۔ يہ ہيں مياں بيوي کي روحي اور باطني قدرت و توانائي۔

حقيقي اور خيالي حق

کسي بھي قسم کے ’’حق‘‘ کا ايک فطري اور طبيعي منشا و سبب ہوتا ہے۔ حقيقي اور واقعي حق وہ ہے جو فطري سبب سے جنم لے۔ يہ حقوق جو بعض محفلوں(۱) ميں ذکر کئے جاتے ہيں، صرف توہمات اور خيالات کا پلندا ہيں۔

مرد و عورت کے لئے بيان کئے جانے والے حقوق کو ان کي فطري تخليق، طبيعت و مزاج اور ان کي طبيعي ساخت کے بالکل عين مطابق ہونا چاہيے۔

آج کي دنيا کے فيمنسٹ يا حقوق نسواں کے ادارے کہ جو ہر قسم کے اہلِ مغرب، حقوقِ نسواں کے نام پر کتنا شور و غوغا اور جنجال برپا کرتے ہيں اور ان کي پريشاني کا سبب بھي يہي چيز ہے۔ کہتے ہيں کہ صرف ہم ہيں جو مقام زن کا پاس رکھتے ہيں۔ بہت خوب جناب ! يہ لوگ مقامِ زن کا اپني رسمي محافل، ميٹنگوں، خريد و فروخت کے مراکز اور سڑکوں پر خيال رکھتے ہيں اور وہ بھي اس سے صرف لذّت حاصل کرنے کے لئے ! ليکن کيا گھر ميں شوہر اپني بيوي کے ساتھ ايسا ہي ہے کہ جيسا باہر ہے؟ وہاں خواتين کو دي جانے والي اذيت و آزار، مردوں کے ہاتھوں خواتين کي مار پيٹ، گھر کي چار ديواري ميں اُس کا بُرا حال اور زُور و زبردستي کي حکمراني وغيرہ کتني زيادہ ہے؟ !

____________________

١ اشارہ ہے حقوق نسواں، انساني حقوق کے کميشن اور ان کے ذيلي اداروں کے بے بنياد فرضيوں اور ايجنڈوں کي جانب جو از خود مرد و عورت کے حقوق اختراع کرتے پھرتے ہيں۔ (مترجم)

شوہر، بيوي کي ضرورتوں کو درک کرے

شوہر کي ذمے داري يہ ہے کہ وہ بيوي کي ضرورتوں اور حاجتوں کو درک کرے، اس کے احساسات اور جذبات کو سمجھے، اس کے حال سے ايک لمحے کے لئے بھي غافل نہ ہو اور گھر ميں خود کو تمام اختيارات کا مالک اور مطلق العنان حاکم تصور نہ کرے۔ مياں بيوي زندگي کي گاڑي کے دو پہيے،ايک دوسرے کے معاون و مدد گار اور دو دوست ہيں اور (زندگي کے ميدان ميں اپنا کردار بھرپور انداز سے ادا کرنے کے لئے) ان ميں سے ہر ايک کي اپني خاص فکري اور باطني وسعت اور دائرہ کار ہے۔

شوہر کي ذمے داري ہے کہ وہ اپني بيوي کي زندگي کے تمام امور ميں اس کي مدد کرے تا کہ وہ اپنے متعلق معاشرے ميں موجود تمام پسماندگي، دقيانوسي خيالات اور خاص طرز فکر کا ازالہ کر سکے۔ البتہ اس پسماندگي سے مراد وہ چيزيں نہيں ہيں کہ جو آج مغرب اور بيگانوں کي تقليد کي وجہ سے ہمارے معاشرے ميں آ دھري ہيں۔ بلکہ ان دقيانوسي خيالات سے مراد خواتين کے مفيد وجود کے فوائد کي معرفت، ان کے تعليم حاصل کرنے جيسے اہم امر اور خواتين ميں نئے افکار، ترقي اور غور و فکر جيسي صفات کي پرورش سے متعلق معاشرے کي چھوٹي ذہنيت اور کم ظرفي ہے۔ لہٰذا مرد ان تمام شعبوں ميں اپني شريک حيات کي جتني بھي مدد کرے کم ہے۔ اگر عورت چاہتي ہے کہ کوئي کام انجام دے اور وہ اپني خانداني زندگي کے دائرہ کار اور اس کي حالت کو پيش نظر رکھتے ہوئے اجتماعي کاموں ميں حصہ لینے کي خواہشمند ہے تو مرد کو چاہيے کہ اس کي راہ ميں مانع نہ ہو۔

مرد کي خام خيالي اور غلط رويّہ

مرد ہر گز يہ خيال نہ کرے کہ چونکہ وہ صبح سے شام تک نوکري کے لئے باہر رہتاہے، اپنا مغز کھپاتا اور تھوڑي بہت جو رقم گھر لاتا ہے تو وہ بيوي سميت اس کي تمام چيزوں حتيٰ اس کے جذبات، احساسات اور خيالات کا بھي مالک بن گيا ہے، نہيں ! وہ جو کچھ گھر لے کر آتا ہے وہ گھر کے اجتماعي حصے اور ذمے داريوں کي نسبت آدھا ہوتا ہے۔ جب کہ دوسرا آدھا حصہ اور ذمہ داري بيوي سے متعلق ہے۔ بيوي کے اختيارات، اس کي سليقہ شعاري اور گھريلو انتظام سنبھالنا، اس کي رائے، نظر، مشورہ اور اس کي باطني ضرورتوں کا خيال رکھنا شوہر ہي کے ذمے ہے۔ ايسا نہ ہو کہ مرد چونکہ اپني غير ازدواجي زندگي ميں رات کو دير سے گھر آتا تھا لہٰذا اب شادي کرنے کے بعد بھي ايسا ہي کرے، نہيں ! اسے چاہيے کہ وہ اپني زوجہ کے روحي، جسمي اور نفسياتي پہلووں کا خيال رکھے۔

قديم زمانے ميں بہت سے مرد خود کو اپني بيويوں کا مالک سمجھتے تھے، نہيں جناب يہ بات ہرگز درست نہيں ہے ! گھر ميں جس طرح آپ صاحبِ حق و اختيار ہيں اسي طرح آپ کي شريکہ حيات بھي اپنے حق اور اختيار کو لينے اور اسے اپني مرضي کے مطابق استعمال کرنے کي مجاز ہے۔ ايسا نہ ہو کہ آپ اپني زوجہ پر اپني بات ٹھونسيں اور زور زبردستي اس سے اپني بات منوا ليں۔ چونکہ عورت، مرد کي بہ نسبت جسماني لحاظ سے کمزور ہے لہٰذا کچھ لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ عورت کو دبانا چاہيے، اُس سے چيخ کر اور بھاري بھرکم لہجے ميں بات کريں، ان سے لڑيں اور ان کي مرضي اور اختيار کا گلا گھونٹتے ہوئے اپني بات کو ان پر مسلط کر ديں۔

عقلمند بيوي اپنے شوہر کي معاون و مدد گار ہے

بيوي کو بھي چاہيے کہ وہ اپنے شوہر کي ضرورتوں، اندرون اور بيرون خانہ اس کي فعاليت اور اس کي جسماني اور فکري حالت کو درک کرے۔ ايسا نہ ہو کہ بيوي کے کسي فعل سے مرد اپنے اوپر روحي اور اخلاقي دباو محسوس کرے۔ شريکہ حيات کو چاہيے کہ وہ کوئي ايسا کام انجام نہ دے کہ جس سے اس کا شوہر امور زندگي سے مکمل طور پر نا اميد اور مايوس ہو جائے اور خدا نخواستہ غلط راستوں اور ناموس کو زک پہنچانے والي راہوں پر قدم اٹھا لے۔ زندگي کے ہر کام اور ہر موڑ پر ساتھ دينے والي شريکہ حيات کو چاہيے کہ وہ اپنے شوہر کو زندگي کے مختلف شعبوں ميں استقامت اور ثابت قدمي کے لئے شوق و رغبت دلائے اور اگر اس کي نوکري اس طرح کي ہے کہ وہ اپنے گھر کو چلانے ميں اپنا صحيح اور مناسب کردار ادا نہيں کر پا رہا ہے تو اس پر احسان نہ جتائے اور اسے طعنے نہ دے۔ گھر کا مرد اگر علمي، جہادي (سيکورٹي اور حفاظت وغيرہ) اور معاشرے کے تعميري کاموں ميں مصروف ہے خواہ وہ نوکري کے لئے ہو يا عمومي کام کے لئے، تو بيوي کو چاہيے کہ وہ گھر کے ماحول کو اس کے لئے مساعد اور ہموار بنائے تا کہ وہ شوق و رغبت سے کام پر جائے اور خوش خوش گھر لوٹے۔ تمام مرد حضرات اس بات کو پسند کرتے ہيں کہ جب وہ گھر ميں قدم رکھيں تو گھر کا آرام دہ، پر سکون اور پر امن ماحول انہيں خوش آمديد کہے اور وہ اپنے گھر ميں اطمينان اور سکھ کا سانس ليں۔ يہ ہيں زوجہ کے فرائض۔

بيوي کے فرائض

بيوي کي خاص يہ ذمہ دارياں ہيں کہ اسے چاہيے کہ وہ اپنے وظائف اور ذمہ داريوں کي تشخيص کے لئے عقلمندي سے کام لے۔ عورتيں يہ بات اچھي طرح سے ذہن نشين کر ليں کہ اگر ايک عورت عقل اور ہوش سے کام لے تو گھر کو چلانے ميں وہ مرد کي بھي بہترين مدد گار ثابت ہو گي اور مرد کي بہتر طور پر راہنمائي بھي کر سکے گي۔ صحيح ہے کہ مرد، عورت کي بہ نسبت بڑي جسامت اور قوي ہيکل کا مالک ہوتا ہے ليکن خداوند عالم نے عورت کے مزاج اور طبيعت کو اس طرح خلق کيا ہے کہ اگر مرد و عورت فطري طور پر صحيح و سالم ہوں اور بيوي عاقل ہو تو يہ بيوي ہي ہے کہ جو شوہر کے دل ميں گھر کر لے گي۔ ليکن يہ بات بھي قابلِ توجہ ہے کہ چالاکي، شاطرانہ چالوں، اپنا حکم چلانے اور زبردستي اپني بات منوانے سے يہ مقام حاصل نہيں کيا جا سکتا ہے! بيوي اپنے نرم و ملائم لہجے اور خندہ پيشاني سے شوہر کا استقبال کرنے، مسکراتے ہونٹوں، خوشحال چہرے اور شوہر کے مزاج کو تھوڑا بہت تحمل و برداشت کرنے سے اپنے شوہر کا دل جيت لے گي۔ البتہ لازمي نہيں کہ وہ اپنے شوہر کو بہت زيادہ تحمل کرے (کيونکہ مرد کو بھي يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ ہر بات ميں زور و زبردستي کرے) کيونکہ خداوند عالم نے يہ تھوڑا بہت تحمل و برداشت اور لچک عورت کي طبيعت ميں رکھي ہے۔ بيوي کو چاہيے کہ وہ اپنے شوہر سے اس طرح کا سلوک رکھے۔

بعض خواتين اپنے شوہروں سے سخت لہجے اور گرم مزاجي سے پيش آتي ہيں۔ مثلاً، ’’آپ کو يہ چيز ميرے لئے ہر صورت ميں خريدني ہے!‘‘، ’’ميرے لئے سونے کي اتني چوڑياں بنوائيں کيونکہ ميري دوست کے شوہر نے اسے اتنے ہزار کي چوڑياں بنوا کر دي ہيں‘‘، ’’اگر آپ مجھے سونے کي چوڑياں نہيں بنوائيں گے تو ميرا سر اُس کے سامنے نيچے ہو جائے گا‘‘۔ بعض خواتين اس قسم کي باتوں سے اپنے شوہروں کو ذہني اذيت ديتي اور اُنہيں پريشاني ميں مبتلا کرتي ہيں۔ يہ سب طور طريقے صحيح نہيں ہيں۔

کامياب ازدواجي زندگي کے سنہرے اصول

پہلا مرحلہ

بہشت بريں تک ہمسفر

دريچہ

عليو فاطمہکي مشترکہ ازدواجي زندگي کے ابھي چند ہي روز گزرے تھے۔

پيغمبر اکرم ۰ نے حضرت عليسے ان کي ہمسفر و زوجہ کے بارے ميں ان کي نظر معلوم کي :اے عليتم نے فاطمہکو کيسا شريکہ حيات پايا ؟حضرت علينے ايک جملے سےجو اپني شريکہ حيات کي بھرپور قدر داني اور شکريے کي عکاسي کر رہا تھا، اپني زوجہ کے عشقِ جاويد کے بارے ميں اپني نظر کا اظہار فرمايا :

’’نِعْمَ الْعَوْنُ علي طَاعَةِ اللّٰهِ ‘‘(۱)

’’يا رسول اللہ ۰ وہ اطاعتِ خدا کي انجام دہي ميں بہترين مدد گار اور معاون ہيں‘‘۔

اس طرح عالم ہستي کا بہترين داماد اپنے عشق خدا کے اسرار سے يوں پردہ ہٹاتا ہے اور اپني مشترکہ ازدواجي زندگي کي راہ ِسعادت کو تمام دولہا دلہنوں کو دکھاتا ہے۔

يعني اے علوي دولہا اور فاطمي دلہنوں !صرف خدا اور اس کي اطاعت کي انجام دہي کے لئے ايک دوسرے کے ہاتھوں کو تھام لو اور خدائے مہربان کي بہشت بريں تک ايک دوسرے کے ہمسفر بنو۔

وقت کي گھڑي کي سوئياں بہت تيزي سے گزر رہي ہيں اور دنيا سب کے لئے يکساں طور پر سرعت سے اپنے انجام کي جانب قدم بڑھا رہي ہے۔

شادي کي اس تقريب کو غور سے ديکھيں۔ آپ کے والدين گزشتہ کل کے دولہا دلہن ہيں

____________________

١ بحار الانوار، جلد ٤٣، صفحہ ١١٧