طُلوعِ عشق

طُلوعِ عشق0%

طُلوعِ عشق مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

طُلوعِ عشق

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 11914
ڈاؤنلوڈ: 2907

تبصرے:

طُلوعِ عشق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 52 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11914 / ڈاؤنلوڈ: 2907
سائز سائز سائز
طُلوعِ عشق

طُلوعِ عشق

مؤلف:
اردو

کامياب ازدواجي زندگي کے سنہرے اصول

تيسرا مرحلہ

کاموں کي تقسيم کا فن

دريچہ

دو نو جوان لڑکے اور لڑکي اپني مادي اور معنوي زندگي کے کمال کے مشترک ہدف اور خدا کے عطا کردہ سرمايہ عشق کے ساتھ

اپني نئي زندگي کے آغاز کے لئے تيار ہوتے ہيں۔

خدا وند حکيم نے مياں بيوي کو ايک دوسرے کے وجود کي تکميل کا ذريعہ قرار ديا ہے اور انہيں زندگي کے ميدانِ نبرد کي مختلف

اور گوں نا گوں ضرورتوں کے تناسب کے ساتھ ايک دوسرے سے متفاوت تخليق کيا ہے۔

ايک خوشحال و آباد اور کامياب گھرانے کي تشکيل اور ايک ميٹھي زندگي ميں کاموں کي تقسيم کا فن بہت زيادہ اہميت کا حامل ہے ۔

ان دونوں ميں ہر ايک کو چاہیے کہ اپني طاقت و قدرت کے مطابق ايک ’’بارِ حيات ‘‘کو اُٹھالےاور ساتھ ہي وہ زندگي ميں اپنے شريک حيات کے اہم اور حساس نوعيت کے کردار کي مدد کے لیے اپنے کردار کي اہميت پر بھي ايمان رکھتا ہو۔

وہ جو بھي کام اپنے ذمے لے اُسے اپني پوري سنجيدگي اور سليقہ مندي سے انجام دے۔

اِس کے ساتھ ساتھ اپنے ’’ہمراہ و ہمسفر‘‘ کے کردار کو حقيقي رنگ دينے کے لئے اس کي مدد کرے۔

کاموں کي تقسيم ،گھر ميں خاتون کے خاص کردار ،گھريلو امور کو چلانے ، ان کي اہميت اور گھر سے باہر ان کي فعاليت اور کام سے متعلق مختلف نظريات اور بے شمار سوالات ذہن ميں ابھرتے ہيں۔

اس نئي راہ فعاليت کے ابہامات کو دور کرنے کے لیے اِس ’’مرشد ‘‘ کي پرمغز باتيں اور نکات بہت موثر ہيں۔

کاموں کي تقسيم

جب دو انسان کسي ايک کام ميں شريک ہوتے ہيں اور رشتہ ازدواج ميں منسلک ہوکراپني مشترکہ زندگي کا آغاز کرتے ہيں تو بہت سي ايسي ذمے دارياں ہيں جو ان کے درميان مشترک ہوتي ہيں جو گھر کي گاڑي چلانے اور مختلف قسم کي مدد و اعانت سے عبارت ہيں اور جو گھر کو خوشحال آباد بنانے ميں بہت موثر کردار ادا کرتي ہيں لہٰذا دونوں کو چاہیے کہ اِس سلسلے ميں ايک دوسرے کي مدد کريں۔

يہ کام دونوں کے درميان مشترک ہيں ليکن ان کاموں کوتقسيم ہونا چاہیے۔ کبھي کبھي يہ ديکھنے ميں آتا ہے کہ مياں بيوي اپنے کاموں کو تقسيم نہيں کرتے ہيں ليکن بہتر يہ ہے کہ کاموں کو اس طرح تقسيم کيا جائے کہ بعض کاموں کو مرد اور بعض کاموں کو بيوي انجام دے بالکل دوسرے کاموں ميں مدد و تعاون کي طرح۔

ايک اچھا گھر وہي ہے جہاں مياں بيوي ايک دوسرے کي مدد کريں اور ايک دوسرے کا ہاتھ بٹائيں ۔اگر شوہر کسي مشکل يابُرے حالات کا شکار ہو تو بيوي کو چاہیے کہ وہ اس کي پريشاني کا بوجھ ہلکا کرے ۔يا اگر گھر کے کاموں ميں يا اپنے ديگر امور ميں بيوي کو دشواري کا سامنا ہو تو شوہر کو اس کي دشواري کو دور کرنے ميں پوري کوشش کرني چاہیے۔ دونوں کو چاہیے کہ ايک دوسرے کے مستقبل کي مثبت تعمير کے لئے خود کو شريک قرار ديں اور ان تمام کاموں کو خدا کے لئے انجام ديں۔

ايک دوسرے کو روحي طور پر مضبوط بنايئے

ايک دوسرے کي مدد کے معني يہ نہيںہيں کہ مياں بيوي ايک دوسرے کے کام انجام دينے لگيں، نہيں! بلکہ انہيں چاہیے کہ ايک دوسرے کي ہمت بندھائيں اور روحي و باطني طور پر ايک دوسرے کو مضبوط کريں۔ چونکہ مرد حضرات معاشرے ميں معمولاً مشکل اور سخت کاموں کو انجام ديتے ہيں لہٰذا خواتين کو چاہیے کہ وہ ان کے حوصلوں کو بلند کريں ،ان کے جسم و جان سے خستگي اور تھکاوٹ کو دور کريں، تبسم سے ان کا استقبال کريں اور مسکراتے لبوں کے ساتھ ان کي خوشي کا انتظام کريں ۔اگر خواتين گھر سے باہر کسي کام کو انجام ديتي ہيں تو مردوں کو چاہیے کہ ان کي مدد کريں اور ان کي مضبوط پناہ گاہ بنيں ۔

مدد اور تعاون سے مراد روحي مدد اور ايک دوسرے کے حوصلوں اور ہمتوں کو بلند کرنا ہے ۔بيوي کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کي ضرورتوں، اندرون اور بيرونِ خانہ اس کي فعاليت اور اس کي جسماني اور فکري حالت کو درک کرے ۔ ايسا نہ ہو کہ بيوي کے کسي فعل سے مرد اپنے اوپر نفسياتي دباو اور شرما شرمي محسوس کرے ۔شريکہ حيات کو چاہیے کہ وہ کوئي ايسا کام انجام نہ دے کہ جس سے اس کا شوہر زندگي سے مکمل طور پر نااميد اور مايوس ہو جائے اور خدا نخواستہ غلط راستوں اور عزت و ناموس کو زک پہنچانے والي راہوں پر قدم اُٹھالے۔

زندگي کے ہر گام اور ہر موڑ پر ساتھ دينے والي شريکہ حيات کا فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کو زندگي کے مختلف شعبوں ميں استقامت اور ثابت قدمي کے لئے شو ق و رغبت دلائے۔ اگر اس کي نوکري اس طرح کي ہے کہ وہ اپنے گھر کو چلانے ميں اپنا مناسب و صحيح کردار ادا نہيں کر پا رہا ہے تو اس پر احسان نہ جتائے اور اسے طعنے نہ دے۔ يہ بہت اہم باتيں ہيں۔ يہ ہيں خواتين کے وظائف۔ اسي طرح شوہر کي بھي ذمے دارياں ہيں کہ وہ بيوي کي ضرورتوں کا خيال رکھے، اس کے احساسات کو سمجھے اور کسي بھي حال ميںاس کے حال سے غافل نہ ہو۔

کاميابي کے لئے راہ ہموار کريں

اگر شوہر يہ ديکھے کہ اس کي بيوي اپنے اسلامي فرائض کي انجام دہي کے لئے ايک نيک قدم اٹھانا چاہتي ہے تو اسے چاہیے کہ اس کام کے وسائل اسے فراہم کرے اور اس کي راہ ميں مانع نہ بنے۔ بعض لڑکياں ہيں کہ جو شادي کے بعد بھي تحصيلِ علم اور درسِ دين کو حاصل کرنا چاہتي ہيں۔ ان کي خواہش ہوتي ہے کہ قرآني تعليمات سے آشنا ہوں، کارِ خير انجام ديں اور بعض خير و بھلائي کے کاموں ميں شرکت کريں ليکن ان کے شوہر کبھي کبھي ان کي خواہشات کے جواب ميں بد اخلاقي کا مظاہرہ کرتے ہيں کہ ’’ہم ميں ان کاموں کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہيں ہے !‘‘ ، ’’ہم نے شادي اس لئے کي ہے کہ زندگي گزاريں نہ کہ يہ جھميلے پاليں‘‘ اور يوں اپني بيويوں کو کار ہائے خير انجام دينے سے روکتے ہيں۔ اس طرح بہت سے مرد ہيں کہ جو صدقات و خيرات دينا چاتے ہيں تاکہ مختلف اجتماعي کاموں ميں شريک ہوں ليکن ان کي بيوياں ان کي راہ ميں رکاوٹ بن جاتي ہيں۔

خواتين کي اجتماعي فعاليت اور نوکري کے لئے اہم ترين شرط

بہت سے افراد ہم سے سوال کرتے ہيں کہ کيا آپ اس بات کے موافق ہيں کہ خواتين گھر سے باہر کام يا نوکري کريں ؟ہم يہي کہتے ہيںکہ يقينا ہم خواتين کے بيکار بيٹھے رہنے کے مخالف ہيں ۔عورت کو ہر حال ميں کام کرنا چاہیے، البتہ کام دو قسم کے ہيں ايک گھر کے اندر کا کام اور دوسرا گھر کے باہر کا ليکن دونوں کام ہيں ۔اگر کسي ميں اس چيز کي صلاحيت ہے کہ وہ گھر سے باہر کے کاموں کو انجام دے تو اسے يہ قدم ضرور اٹھانا چاہیے اور يہ بہت اچھا ہے ۔ليکن اس کي شرط ہے کہ جو بھي ملازمت اور کام اختيار کيا جائے وہ خواہ گھر کے اندر ہي کيوں نہ ہو مياں بيوي کے آپس کے تعلقات اور رشتے کو کوئي نقصان نہيں پہنچائے۔

بہت سي خواتين ہيں کہ جو صبح سے شام تک کاموں ميں جُتي رہتي ہيں اور جب شام کو تھکا ہارا اور شريکہ حيات کي محبت کا پياسہ شوہر گھر لوٹتا ہے تو ان خواتين ميں ايک مسکراہٹ سے بھي اپنے شوہروں کے استقبال کرنے کا حوصلہ نہيں رہتا ۔يہ بہت بري بات ہے ۔گھر کے کام کاج کو انجام ديناچاہیے مگر اتنا نہيں کہ يہ کام گھر کي بنياد ہي کو خراب کر دے اور ايسا نہ ہو کہ بقول معروف ’’گھر کو آگ لگ گئي گھر کے چراغ سے ۔‘‘

بيوي اگر چاہتي ہے کہ وہ باہر جا کر کام اور ملازمت کرے تو اس ميں کوئي عيب نہيں ہے اور اسلام بھي اس کي راہ ميںرُکاوٹ نہيں بنتاليکن يہ نہ اس کي ذمہ داري ہے اور نہ اس کا وظيفہ ! جو چيز اس پر واجب ہے وہ گھر کے تمام افراد کے لئے اس کي حيات بخش فضا کي حفاظت کرنا ہے۔

کارہائے خير کي انجام دہي کے لئے ايک دوسرے کو ترغيب دلانا

يہ آپ مياں بيوي کي ذمہ داري ہے کہ ايک دوسرے کے تمام جزوي اور کلي حالات اور اوضاع کا خيال رکھيں ،ايک دوسرے کي مدد کريں اور ايک دوسرے کے يارو مددگار بنيں خصوصاً راہِ خدا اور فرائض و واجبات کي انجام دہي ميں ۔

اگر شوہر راہِ خدا ميں قدم اٹھانا چاہتا ہے تو بيوي مدد کرے اور اگر بيوي کسي وظيفے اور واجب کام کو انجام دينا چاہتي ہے تو شوہر اس کا مددگار بنے ۔يہ دونوں کي ذمہ داري ہے کہ راہِ خدا ميں جدوجہد کريں اور ايک دوسرے سے مکمل تعاون کريں ۔

اگر گھر کا مرد علمي ميدان يا قومي مسائل اور ملي و اجتماعي تنظيموںميںسرگرم عمل ہے تو بيوي کو چاہیے کہ اس کي مدد کرے تاکہ وہ اپنے کاموں کو با آساني انجام دے سکے ۔اسطرح مرد حضرات کي بھي يہ ذمے داري ہے کہ وہ گھر کي خواتين کو يہ موقع ديں کہ وہ بھي روحانيت و معنويت کي راہ ميں قدم اٹھائيں۔ اگر وہ تحصيل علم کي خواہش مند ہيں تو اپني اس خواہش کو بآساني عملي جامہ پہنا سکيں اور اگر وہ اجتماعي کاموں ميں حصہ لينا چاہتي ہيں تو وہ بغير کسي مشکل کے اس ميدان ميں وارد ہو سکيں۔

زندگي کے ان ہمراہيوں کي کوشش ہوني چاہيے کہ وہ ايک دوسرے کي راہ خدا کي طرف راہنمائي وہدايت کريں ،صراط مستقيم پر قدم اٹھانے اور اس پر ثابت قدم رہنے کي تاکيد اور کوشش کريں۔ تَوَاصَوْابِالحَقِّ َوَ تَوَاصَوْابِالصَّبْرِ(حق بات کي نصيحت اور صبر کي تلقين) کو ہميشہ مد نظر رکھيں کہ جو مسلمان ہونے کا خاصہ اور ايمان کي علامت ہے۔

اپنے خدائي ہدف کے حصول کي خواہشمند مياں بيوي کو چاہيے کہ ايک دوسرے کے ديندار ہونے اور تقويٰ کا خيال رکھنے کيلئے ايک دوسرے کے ہاتھوں کو تھاميں۔ شوہر کي کوشش يہ ہو کہ اس کي بيوي ديندار ہو اور زندگي کے ہر لمحے ميں تقويٰ کا خيال رکھے۔ اسي طرح عورت بھي اپنے شوہر کي مدد گار بنے تاکہ وہ اپنے دين کي بنيادوں کو مستحکم بنائے، پاکدامن رہے اور تقويٰ کے سائے ميں اپني زندگي گزارے۔

يہاں بيوي کي مدد سے مراد صرف گھر کے کاموں ميں ہاتھ بٹانا، برتن دھونا اور گھر کي صفائي وغيرہ ميں اس کي مدد کرنا نہيں ہے۔ صحيح ہے کہ يہ بھي بيوي کي مدد ہے ليکن بيوي کي مدد سے مرادزيادہ تر روحي طور پر اسے مضبوط بنانا اور اُس کي اِس طرح فکري اور معنوي مدد کرنا ہے کہ دونوں راہِ اسلام پر کار بند اور ثابت قدم رہيں۔ايک دوسرے کو تقويٰ، صبر، دينداري، حيا، عفت، قناعت اور سادي زندگي جيسے ديگر اہم امورِ زندگي کي تلقين ونصيحت کريں اور اس راہ ميں ايک دوسرے کي دستگيري کريں تاکہ زندگي کو بہترين طريقے سے گزارسکيں، انشائ اللہ۔

غمخواري ہي حقيقي مدد ہے!

دوسرے کي واقعي مدد يہ ہے کہ دوانسان ايک دوسرے کے دل سے غموں کے بوجھ کو ہلکا کريں ۔اگر دونوں ميں سے کوئي بھي زندگي ميں کسي مشکل ميں گرفتار ہو اور مصيبتيں اس کے دل پر حملہ آور ہوں يا وہ کسي مسلئے ميں ابہام و ترديد کا شکارہوں ہو تو يہاں مياں بيوي ميں سے دونوں کو چاہيے کہ اس حساس موقع پر اپني شريکہ حيات يا شوہر کي مدد کيلئے جلدي کرے ، اس کے دل سے غم کا بوجھ ہٹادے اور اس کي غلطي اور ا شتباہ کو دور کرکے اس کي رہنمائي کرے۔ اگر وہ اس بات کا مشاہدہ کرے کہ اس کا ساتھي کسي خطا کا مرتکب ہورہا ہے تو اسے متنبہ کرے اور اسے روکے۔

سليقہ مند بيوي کي مديريت کي اہميت

خواتين کي گھريلوذمہ داريوں کي اہميت، بيروني وظائف اور ذمے داريوں سے نہ تو کسي بھي صورت ميں کم ہيں اور نہ ہي ان کي زحمت و سختي کا موازنہ کيا جا سکتا ہے۔ شايد ان کي گھريلو ذمے داريوں کي زحمت و سختي زيادہ ہي ہو اور وہ بھي اس ليے کہ وہ ايک گھريلو ماحول کي نگہبان ہيں جس کيلئے بہت محنت اور جدوجہد کي ضرورت ہوتي ہے چونکہ خواتين گھر کے اندروني معاملات کي مدير (منيجر) اور وزير داخلہ کا درجہ رکھتي ہیں۔ سليقہ مند خاتون ہي ہے جو گھر کے ايک اہم اور حساس نوعيت کے ادارے کوچلاسکتي ہے۔ يعني وہ جو خاندان اور گھر کے ماحول پر کڑي نگاہ رکھتي ہو اور گھر کا نظم و نسق دراصل اس کي نظارت، تدبير اور مديريت و مينجمنٹ سے وابستہ ہو اور يہ بہت دِقّت طلب، سخت اور زحمت والاکام ہے کہ جو بہت ظرافت کا محتاج ہوتا ہے۔ يہ کام صرف اورصرف خواتين کے نرم و نازک احساسات، لطيف مزاج اور ان کي محبت سے لبريز نسواني صفات ہي کے ذريعے سے انجام پاسکتا ہے۔ کسي مرد کيلئے اس بات کا کوئي امکان نہيں ہے کہ نرم و نازک اور ظريف احساسات کا خيال رکھتے ہوئے گھر کو چلائے۔

کچھ لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ بيوي تو گھر ميں بيکار بيٹھي رہتي ہے، ہر گز نہيں !ايک خاتون گھر کي چارديواري ميں بہت زيادہ، سخت ترين اور ظريف ترين کاموں کو انجام ديتي ہے۔ کچھ لوگ اس طرح سوچتے ہيں کہ اگر ايک خاتون کا کام صرف انہي گھريلو کاموں کو انجام دينا ہے تو يہ ايک عورت کي اہانت ہے ،نہيں !اس ميں خاتون کي ہر گز کوئي تحقير نہيں ہے۔ ايک خاتون کا سب سے اہم کام يہ ہے وہ ايک زندگي کو ہنستا مسکرا تا، شاد آباد اور خوش وخرم رکھے۔

بچوں کي پرورش، بہت بڑا ہنر ہے

بہت سے گھريلو کام بہت سخت ہوتے ہيں کہ جن ميں سے ايک بچوں کي پرورش اور تربيت ہے۔ آپ جس کام کو بھي مدِّنظر رکھيں کہ جو بہت دشوار ہو ليکن وہ بچوں کي پرورش کے مقابلے ميں آسان ہوگا۔ بچوں کي پرورش دراصل ايک بہت بڑا ہنر ہے۔ مرد حضرات ايک دن بھي يہ کام انجام نہيں دے سکتے ليکن خواتين بہت توجہ، سنجيدگي، ہمت و حوصلے اور ظرافت سے يہ بڑا کام انجام ديتي ہيں اور خدا وند عالم نے اُن کي طبيعت و مزاج ميں اس بات کي صلاحيت رکھي ہے۔ ليکن حقيقت تو يہ ہے کہ بچوں کي پرورش وہ سخت کام ہے جو انسان کو تھکا ديتا اور اسے خستہ حال کرديتاہے۔

نوکري اور گھريلو زندگي کو خوشحال بنانا

وہ نوجوان جو راہِ خدا ميں کاموں ميں مشغول ہيں وہ رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے کي وجہ سے اپنے کاموں اور فعاليت کو متوقف نہ کريں۔ ہم مرد حضرات کو ہميشہ اس بات کي تاکيد کرتے ہيں کہ وہ اپنے کام کاج، تجارت (بزنس)اور نوکري ميں وقت دينے اور سر کھپانے کي وجہ سے اپني گھريلو زندگي اور خانداني نظام کوخراب نہ کريں۔ کيونکہ بعض مرد ايسے ہيں جو علي الصبح گھر سے نکلتے ہيں اور رات گئے گھر لوٹتے ہيں، يہ روش درست نہيں ہے۔ جن لوگوں کے ليے اس بات کا امکان ہے ہم انہيں تاکيد کرتے ہيں کہ وہ دوپہر کے وقت گھر جائيں اور اپنے بيوي بچوں کے درميان رہ کر اپني کھوئي ہوئي توانائي بحال کريں، گھر کي گرم اور پُر محبت فضا ميں اُن کے ساتھ کھانا کھائيں، کم و بيش ايک گھنٹہ اُن کے ساتھ رہيں اور اُس کے بعد اپنے کام کي طرف لوٹ آئيں۔ اس کے بعد ايک مناسب وقت يعني اوّل شب ميں گھر جائيں اور بچوں کے سونے سے قبل اُن سے ملاقات کريں اور گھر کے تمام افراد مل کر ايک اجتماعي ملاقات تشکيل ديں۔

عورت، مرد سے زيادہ مضبوط اور قوي ہے!

وہ مرد حضرات جو تنومند، صحت مند جسم، کندھوں اور بازوؤں کے اُبھرے ہوئے عضلات کے مالک ہيں وہ جسم کي اِس ظاہري خوبصورتي کے مالک ہيں اور اُن کا جسم مضبوط بھي ہے۔ ليکن گھريلو زندگي کي پيچيدگيوں ميں ذہني کاکردگي، احساسات، ہمدردي اور مہرباني کے لحاظ سے عورت، مرد سے زيادہ قوي اور مضبوط ہے۔ اُس کي قوت برداشت اور تحمل کي قدرت بھي زيادہ ہوتي ہے اور وہ زندگي کے راستوں سے بھي اچھي طرح واقف ہے۔ عورت کا مزاج اسي طرح کا ہے اور خواتين کي اکثريت بھي اسي طرح کي ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ بعض خواتين ايسي نہ ہوں۔ غرضيکہ خواتين اُس ميدان ميں کامياب ہوسکتي ہيں کہ جہاں بڑے بڑے سورما اور دلير مرد ہار جاتے ہيں۔ صرف تھوڑے سے تحمل و برداشت، تھوڑي سي خوش اخلاقي اور مختلف طريقہ کار کے ذريعے وہ مرد حضرات کو اس جگہ لاسکتي ہيں کہ جو مقام اُن کے لائق و شائستہ ہے تاکہ اُن کي زندگي پہلے سے زيادہ ميٹھي اور شيريں ہوجائے۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا کي پيروي کيجئے

آپ حضرت فاطمہکي شادي کے مراسم اور اُس کے بعد کي اُن کي ازدواجي زندگي اور اُن کي سادہ، فقيرانہ اور زاہدانہ زندگي کے لحاظ سے حضرت فاطمہ کو ديکھئے۔ آپ کا وہ سادہ سا کمرہ اور اس کي وہ سادہ سي چٹائي کہ جسے آپ سب نے بارہا سنا ہے۔ گھر کے اندر آپ کي محنت و مشقت، حضرت اميرالمومنين جيسے عظيم، فعّال محنت طلب اور مجاہد شوہر کي زندگي اور اُن کے چھوٹے سے گھر ميں تمام سختيوں پر آپ کا صبر و شکر اور محنت واقعاً قابلِ ديد ہے۔ حضرت زہرا سلام اللہ عليہا تمام زندگي کام اور فعاليت ميں مشغول رہيں۔ يعني جہاں بھي جنگ ہوتي علي ابن ابي طالب سب سے آگے آگے ہوتے اور جہاں بھي کوئي اہم کام ہوتا سب سے پہلے علي ابن ابي طالب ہي قدم اٹھاتے۔ (يہ ہے اميرالمومنين کي مصروف زندگي)۔ تقريباً نو دس سال حضرت زہرا نے اميرالمومنين کے ساتھ باہم زندگي گزاري ہے۔ آپ توجہ فرمائیے کہ ان نو دس سالوں ميں يہ نوجوان شوہر اپنے بيوي بچوں کي ايک عام انسان کي مانند کتني خدمت کرسکا ہے؟ ايک ايسي مصروف زندگي ميں تمام مشکلات، سختيوں اور فقرو فاقے پر صبر کرنا، بڑے جہاد کو انجام دينا، بچوں کي بہترين تربيت اور وہ تمام ايثار و فداکاري جو حضرت زہرا نے انجام ديں اور جن ميں سے آپ نے کچھ واقعات کو سُنا ہے، يہ سب ہمارے ليے مشعلِ راہ ہيں۔ ہماري دُلہنوں کو چاہیے کہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ عليہا کو اپنے ليے مثالي نمونہ اور زندگي کا اُسوہ قرار ديں۔ اسي طرح دولہا حضرات کو بھي چاہیے کہ وہ حضرت فاطمہ اور اميرالمومنينکي سيرت کو اپنے ليے مشعلِ راہ بنائيں۔

کامياب ازدواجي زندگي کے سنہرے اصول

چوتھا مرحلہ

اتفاق، ہمراہي اور موافقت

دريچہ

ابتدائے عشق ميں جب دل، عشق ميں مجذوب اور فريفۃ ہوتے ہيں تو ايک دوسرے کي خامياں اور غلطياں اچھي نظر آتي ہيں اور سوچ اور فکر کا فرق نظر نہيں آتا۔

اپنا ازدواجي سفر شروع کرنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکي ايک دوسرے ميں مجذوب، ايک دوسرے کے عاشق و دوست اور خوبصورت سپنوں کے دريا ميں غرق ہوتے ہيں۔

اِس طرح کہ ان ميں سے ہر ايک اپنے شريکِ حيات کے آئينہ وجود ميں اپني ديرينہ اُميدوں اور آرزوؤں کو مجسم پاتا ہے اور اپنے محبوب کے چہرے ميں گويا اپنا ہي عکس ديکھتا ہے۔

مگر کچھ ديرنہيں گزرتي کہ يہ سہانے سپنے اور عاشقانہ ہم نفسي، ہم چشمي،زندگي کي حقيقت اور اپنے شريکِ حيات کي متفادت شخصيت سے مڈبھيڑ کي وجہ سے اپنا رنگ کھوبيٹھتي ہے۔

زندگي کے مسائل ميں سوچ کا فرق، اندازِ بياں اور روش و طريقہ کار مختلف ہونا ہر دن پہلے سے زيادہ نظر آنے لگتا ہے۔

اِ س مشترکہ زندگي کي ابتدا ميں زندگي کي حقيقت و واقعيت سے صحيح طور پر نمٹنے اور درست راہ حل سےاِن نا تجربہ کار اور راستے کے نشيب و فراز سے غافل نوجوان جوڑے کي بے توجہي اور لاعلمي انہيں بہت سي مشکلات سے دوچار کرسکتي ہے۔

کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ لمحوں کي ناراضگي اور رنجش کے اثرات سالہا سال زندگي کو تلخ بناديتے ہيں۔

يہ بہترين نوجوان شادي شدہ جوڑے تھوڑے سے تحمل و برداشت، اپني خيالي سوچ اور آئيڈيل زندگي سے دستبردار ہونے،

اپنے شريکِ حيات کي حقيقي شخصيت کو من و عن قبول کرنے،اُس کي برائيوں اور خاميوں کو اس کي اچھائيوں کے ساتھ قبول کرنے،اپنے تمام وجودي اختلاف کے باوجود ايک دوسرے کو درک کرنے اور خدا کے دست غيبي کے مدد سے

اپني مشترکہ زندگي کي بنياد کو پہلے سے زيادہ مضبوط مستحکم بناسکتے ہيں۔

تجربات کي دھوپ ميں اِس کُہن سال سالک کي رہنما باتيں، زندگي کے نشيب و فراز والے سفر پر جانے والوں کے ليے تو شہ راہ ہيں۔

جائیے مل کر زندگي کي تعمير کيجئے!

امام خميني نے کہا : ’’جاؤ مل کے زندگي کو تعمير کرو ‘‘

ميں ايک دفعہ حضرت امام خميني ۲ کي خدمت ميں شرفياب ہوا تو وہ گھر پر ايک نکاح پڑھانے کا قصد رکھتے تھے۔ انہوں نے جيسے ہي مجھے ديکھا تو کہا کہ آپ آئیے دوسري طرف سے ’’نکاح‘‘ پڑھائیے۔ وہ ہماري عادت کے برخلاف کہ ہم اپني باتوں کو کافي طول ديتے ہيں ليکن وہ پہلے نکاح پڑھاتے تھے اس کے بعد دو تين نصيحت آموز جملے ارشاد فرماتے تھے۔ ميں نے ديکھا کہ نکاح پڑھانے کے بعد انہوں نے دولہا دلہن کي طرف اپنا رخ کيا اور فرمايا:

’’جاؤ اور مل کر زندگي کي تعمير کرو‘‘۔

ميں نے سوچا کہ ہم اتني تقريريں کرتے ہيں ليکن امام خميني کا کلام ايک جملے ميں خلاصہ ہوتا ہے!۔

موافقت کيا ہے؟

آپ کي کوشش يہ ہوني چاہیے کہ اپني پوري زندگي اور ازدواجي زندگي خصوصاً شادي کے ابتدائي چار پانچ سال آپس ميں کامل موافقت رکھتے ہوں۔ ايسا نہ ہو کہ کوئي ايک تھوڑي سے غير موافق اور مزاج کے خلاف بات کرے يا غير ذمے داري کا ثبوت دے تو دوسرا بھي اس کے جواب ميں غير ذمے داري کا مظاہرہ کرے اور غير معقول بات کرے۔ ہر گز نہيں! دونوں کو چاہیے کہ صحيح معنوں ميں ايک دوسرے کے موافق اور ہمراہ بنيں۔ اگر آپ نے ديکھا کہ آپ کي زوجہ آپ سے تعاون نہيں کررہي ہے تو آپ کو اپنا دست تعاون بڑھانا اور اس سے سازگار حالات پيدا کرنے چاہييں يہ وہ جگہ ہے کہ جہاں مل جل کر کام کرنا، دوسرے سے موافقت کرنا اور سامنے والے کي کمي و کوتاہي کو تحمل کرنا اچھي بات ہے۔

سازگاري اور موافقت کا کيا مطلب ہے؟ کيا اس سے مراد يہ ہے کہ بيوي يہ ديکھے کہ اس کا شوہر اس کا پسنديدہ اور آئيڈيل ہے لہٰذا اس کي طرف اپنا دستِ تعاون بڑھائے؟ يا شوہر يہ ديکھے کہ اس کي بيوي کامل طور پر ايک مطلوب اور آئيڈيل بيوي ہے تو اُس سے بنائے رکھے اور ہر حال ميں اس کا موافق و ہمراہ ہو؟! اگر اس کي ذرّہ برابر کوئي ايک عادت بري ہو يا وہ کوئي ايک غلط حرکت انجام دے تو وہ اُس کو ہر گز قبول نہ کرے۔ کيا يہي ہے موافقت و سازگار حالت پيدا کرنے اور تعاون کا معنيٰ؟ ہر گز نہيں! اگر اسے موافقت کہا جائے تو يہ کام تو خود بخود انجام پاتا ہے اور اس ميں آپ کے ارادے کي کوئي ضرورت نہيں ہے ۔يہ جو کہا جاتا ہے کہ آپ کو موافق و ہمراہ اور سازگار حالات پيدا کرنے والا ہونا چاہیے تو اس کا مطلب يہ ہے کہ حالات جيسے بھي ہوں آپ زندگي کو بنائيں اور اس کي تعميرکريں۔ يہ ہے موافقت کا مطلب۔ يعني زندگي ميں پيش آنے والے ہر مسئلے ميں زندگي کو بگڑنے سے بچا ئيں۔

جب ايسے دو انسان باہم زندگي گزاریں کہ جو ايک دوسرے سے آشنائي نہيں رکھتے ہوں اور نہ ہي انہوں نے کبھي مل کر زندگي گزاري ہو، اور تو اور اُن کي صفات و عادات، ثقافت اور آداب و رسوم بھي ايک دوسرے سے مختلف ہوں تو ممکن ہے کہ پہلے ہي قدم پر اُن کے درميان بہت سي جگہ نا اتفاقي پيش آئے۔

جب ايسے دو انسان ہميشہ کيلئے ايک دوسرے کے ہونے کا عہد کرکے اپني مشترکہ زندگي شروع کريں توايسي صورتحال ميں پہلے پہل آدمي کو کچھ سجھائي نہيں ديتا۔ تھوڑي مدّت کے بعد ممکن ہے وہ زندگي ميں نا اتفاقي اور اختلافِ نظر کو محسوس کريں تو آيا ان دونوں کو ايک دوسرے سے دل کھٹے کر کے منہ موڑ لينا چاہیے اور وہ يہ کہيں کہ’’يہ مرد يا عورت ميرے کسي کام کي نہيں ہے اور ميري اس سے نہيں بن سکتي؟!‘‘، نہيں! آپ کو چاہیے کہ خود کو اِس مسئلے سے مطابقت ديں اور اگر يہ قابلِ اصلاح ہے تو اُس کي اصلاح کريں اور اگر يہ ديکھيں کہ يہ قابلِ اصلاح نہيں ہے اور اس کے ليے کوئي کام نہيں کيا جاسکتا تو اسي کے ساتھ جس طرح بھي بن سکے، زندگي گزاريئے۔(۱)

گھر کے ماحول ميں اتفاق، تعاون اور موافقت، واجبات سے تعلق رکھتا ہے۔ مياں بيوي ہر گز يہ ارادہ نہ کريں کہ انہوں نے ’’الف سے ليکر ے تک‘‘ جو کچھ کہا کہ اُسي پر عمل کيا جائے ۔ جو چيز بھي اپنے ليے پسند کرتے ہيں اور جو چيز بھي اُن کے سکون و آرام کا باعث بنتي ہے، بعينہ وہي ہو، نہيں! ايسا ہر گز نہيں ہونا چاہیے۔ آپ زندگي کي بنياد آپس ميں اتفاق، موافقت اور ہمراہي پر رکھيں اور يہ چيز بہت ضروري ہے۔ جب بھي آپ يہ ديکھيں کہ آپ کو آپ کا مقصد حاصل نہيں ہورہا ہے سوائے اس کے کہ آپ صورتحال کو برداشت کريں۔ تو آپ کو صبر و تحمل سے کام لينا چاہیے۔

____________________

١ انسان کي دسيوں اچھي صفات و عادات کے مقابلے ميں اس کي ايک بري عادت کي وجہ سے اسے چھوڑا نہيں جاسکتا۔ لہٰذا کوشش يہ ہوني چاہیے کہ اُس کي اُ س ايک بري عادت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے زندگي کي مثبت تعمير کريں۔ کيونکہ ايک بري عادت کي وجہ سے اسے چھوڑدينا اور طلاق دے دينا کہيں کي عقلمندي نہيں ہے۔ (مترجم)

زندگي ميں موافقت اور اتفاق و ہمراہي دراصل بقائے زندگي کي اساس ہے۔ يہي چيز ہے جو محبت کي پيدائش کا سبب، برکاتِ الٰہي کے نزول کا باعث بنتي ہے اور دلوں کو نزديک اور رشتوں کو مستحکم بناتي ہے۔

يورپ کي ايک خوبصورت تعبير

شادي عبارت ہے دو زندہ اور دھڑکتے دل کے مالک انسانوں کاباہمي تفاہم، اُنس اور اتحاد سے زندگي بسر کرنا۔ البتہ يہ ايک فطري اور طبيعي امر ہے ليکن اسلام نے شادي کے ليے قوانين، زينت اور عظمت و شوکت رکھ کر ہميشہ کيلئے اُسے برکت عطا کي ہے۔

’’مياں بيوي کو چاہیے کہ ايک دوسرے کو سمجھيں اور درک کريں‘‘، يہ ايک يورپي تعبير ہے ليکن بہت خوبصورت ہے۔ يعني جو بھي سامنے والے کے درد و غم، خواہش اور ضرورت کو درک کرے اور اُس سے بنا کر رکھے تو اسے کہتے ہيں درک کرنا۔ يعني بقولِ معروف، زندگي ميں ايک دوسرے کي ضرورت و خواہش کو سمجھنا اور درک کرنا چاہیے اور يہي وہ چيز ہے کہ جو محبت کو زيادہ کرتي ہے۔

کوئي انسان بھي بے عيب نہيں ہے!

اگر آپ نے ديکھا کہ آپ کي شريکہ حيات ميں ذرّہ برابر عيب موجود ہے تو سب سے پہلے تو يہ جان ليئے کہ دنياميں کوئي بھي انسان بے عيب نہيں ہے۔ لہٰذا اگر آپ کے (زندگي کے ساتھي کا وہ عيب اپنے معالجے کي مدّت گزاررہا ہے تو اُس مدّت ميں اور اگر وہ ناقابلِ اصلاح ہے تو آپ کو چاہیے کہ ہميشہ کيلئے) اُسے تحمل کريں۔ کيونکہ اُسي وقت آپ کي بيوي بھي آپ کے وجود کو آپ کے عيب کے ساتھ برداشت کررہي ہے۔ انسان کو اپنا عيب نظر نہيں آتا (خواہ کتنا ہي بڑا کيوں نہ ہو) ليکن اُسے دوسرے کا (چھوٹا سا)عيب بھي نظر آجاتا ہے۔ بس آپ کو چاہیے کہ اُسے برداشت کريں۔ اگر آپ نے ديکھا کہ وہ قابل اصلاح ہے تو اُسکي اصلاح کيجئے اور اگر وہ قابلِ علاج و اصلاح نہيں تو اُسي کے ساتھ اپني زندگي کي تعمير کيجئے۔

خاندان کي نابودي کا سبب

اسلام نے گھر کے اندروني ماحول کيلئے ايک اصلاحي اور تربيتي نظام مقرر کيا ہے تاکہ گھر کا اندروني اختلاف خود بخود حل ہوجائے۔ مردکو حکم ديا گيا ہے کہ وہ تھوڑے تحمل، رعايت اور توجہ سے کام لے جبکہ بيوي کے ليے حکم يہ ہے کہ وہ بھي تھوڑي برداشت، تآمُّل اور غور و فکر کو اپني زندگي ميں جگہ

دے۔ اگر يہ تمام چيزيں عملي صورت اختيار کرليں تو علي القاعدہ کوئي ايک گھر بھي برباد نہيں ہوگا۔

اکثرخاندانوں اور گھرانوں کي بربادي کي وجہ ان تمام دستوار و احکام کو بے اہميت شمار کرنا اوراُن پر عمل نہ کرنا ہے۔ مرد ہے کہ تحمل اور رعايت کرنے کو اپني ناک کا مسئلہ بناتا ہے اور بيوي ہے کہ عقل و ہوش سے کام لينے کے بجائے ميري بات، ميرا کام، ميري مرضي کي رٹ لگائے رہتي ہے۔ گھر کا مرد بے انتہاغصے اور گرماگرمي سے گھر کے گلستان کو آگ لگاتا ہے تو خاتونِ خانہ بے صبري سے گھر کي بساط الٹتي ہے۔

يہ تمام کام غلط ہيں۔ مرد کا غصہ بھي غلط ہے اور عورت کي سرکشي بھي بے بنياد اور غير منطقي۔ اگر مرد غصہ نہ کرے يا اس سے کوئي غلطي اور اشتباہ سر زد نہ ہوتو بيوي بھي سرکشي اور بے صبري نہيں کرے گي۔ انہيں چاہیے کہ ٹھنڈے دماغ، باہمي رضامندي اور تعاون سے زندگي کي تعمير کريں۔ اگر ايسا ہو تو کوئي بھي خاندان يا گھرانہ نابود ہونے کے بجائے باقي رہے گا۔

دو طرفہ موافقت و ہمراہي

قديم زمانے ميں ہمارے بزرگ بيٹي کي رخصتي کے وقت يہي کہتے تھے کہ ’’بيٹي تم جس گھر ميں جارہي ہو اب وہاں سے تمہارا جنازہ ہي نکلے‘‘۔ يعني وہ ہر حالت ميں شوہر کي موافق و ہمراہ ہو (خواہ حالات اُس کے موافق ہوں يا مخالف )۔ گويا وہ مرد حضرات کيلئے اِس موافقت، ہمراہي اور اتفاق کے قائل نہيں تھے، جناب يہ درست بات نہيں ہے! اسلام اس کي تائيد نہيں کرتا (کہ ساري قيد و شروط بيوي کيلئے ہوں اور شوہر اُن سب سے آزاد ہو!) بلکہ وہ يہ دستور ديتا ہے کہ رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے والے لڑکے اور لڑکي دونوں مل کر باہمي رضامندي، اتفاق اور تعاون و ہمراہي سے کام کريں اورمل کر زندگي کي تعمير کريں۔ اُن کي مشترکہ زندگي کي بنياد ايسي بات پر قائم ہوني چاہیے کہ وہ اپني گھريلو زندگي اور خانداني نظام کو سالم، کامل، آرام اور ايک دوسرے کے عشق و محبت کو درک کرنے کے ساتھ چلائيں، اس راہ پر قدم اٹھائيں اور اس کي حفاظت کريں۔ اگر وہ يہ کرنے ميں کامياب ہوگئے تو چونکہ اسلام کے بتائے ہوئے تربيتي نظام کے مطابق اس کام کو انجام دينا کوئي مشکل کام نہيں ہے تو اس صورت ميں يہ صحيح و سالم گھرانہ ہوگا کہ جسے اسلام پسند کرتا ہے۔