کامياب ازدواجي زندگي کے سنہرے اصول
پانچواں مرحلہ
ہنستي مسکراتي اور خوشحال زندگي
دريچہ
زندگي کي مٹھاس اور شيريني دراصل مياں بيوي کي عقلمندي مہارت اور ايک دوسرے کے حقوق و آداب کي رعايت کرنے سے حاصل ہوتي ہے۔
ہمارے پيارے نوجوان لڑکے لڑکيوں کو اپنے نئے سفر کے آغاز ميں اپني مشترکہ زندگي کي لازمي ضروريات اور ذہني اور فکري توانائي کے حصول کے ليے خود کو بہت زيادہ مشقت کا محتاج سمجھنا چاہیے۔
اس طرح اُن کي زندگي روز بروز شيريں اور جاذب ہوتي جائے گي۔
کامياب ازدواجي زندگي کے اس مرحلے پر ہمارا مہربان رہبر اپني قوم کے نوجوانوں کو ايک خوشحال اور ہنستي مسکراتي زندگي تک جانے والي راہوں کي نشاندہي کررہا ہے۔
عملي شکر سب سے زيادہ اہم ہے
شکر کا مقصد صرف زبان سے’’خدايا تيرا شکر‘‘ کہنا اور سجدہ شکر بجا لانانہيں ہے۔ نعمت کا شکرانہ ہے کہ انسان نعمت کو پہچانے۔ اُسے چاہیے کہ وہ يہ جانے کہ يہ نعمت خداوندِ عالم نے اسے عطا کي ہے، لہٰذا اس نعمت سے ايسا استفادہ اور سلوک اختيار کرے جو خدا کي مرضي و پسند کے عين مطابق ہو۔ يہ ہے نعمت کے شکرانے کا مفہوم۔
اگر زبان سے تو ’’شُکْراً لِلّٰہ‘‘ کہيں ليکن آپ کا دل ميرے ان بيان کردہ مفاہيم سے نا آشنا ہو تو يہ شکر نہيں ہے۔ شادي بھي خداوند عالم کي نعمتوں ميں سے ايک نعمت اور ہديہ ہے۔ خداوند متعال نے بہترين شريکِ حيات يا شريکہ حيات آپ کو دي ہے۔ پس آپ کو چاہیے کہ اس نعمت کا کماحقہ شکر بجالائيں۔
زندگي کے رازوں کي حفاظت کيجئے
شوہر اور بيوي دونوں کو چاہیے کہ اپني زندگي کے اسرار کي حفاظت کريں۔ نہ بيوي اپنے شوہر کے رازوں کو کسي کے سامنے اِفشا کرے، اسي طرح مرد بھي مثلاً اپنے دوستوں ميں، کسي کلب يا دعوت ميں اپني بيوي سے متعلق باتوں کو بيان نہ کرے۔ آپ ان باتوں کا مکمل خيال رکھيے اور راز اور ذاتي باتوں کي حفاظت کيجئے تاکہ ان شائ اللہ آپ کي زندگي مستحکم اور شيريں ہوسکے۔
ايک دوسرے کے غمخوار بنیے
ايک دوسرے کي حقيقي مدد يہ ہے کہ دو انسان ايک دوسرے کے دلوں سے غموں کے بھاري بوجھ کو دور کريں۔ ہر ايک اپني زندگي ميں ايک خاص قسم کے مسائل ميں گرفتار اور مشکل ميں پھنسا رہتا ہے اور ممکن ہے کہ کسي قسم کے شک و ترديد کا شکار ہوجائے۔ يہ اُس کے جيون ساتھي کا فرض ہے کہ ايسے نازک موقع پر اپنے ساتھي کي مدد کے ليے جلدي کرے اور اُس کا ہاتھ تھامے، غم و اندوہ کو اس کے دل سے دور کرکے اس کي راہنمائي کرے اور اس کے شک و شبہہ کو دور اور غلطي کي اصلاح کرے۔
سادہ زندگي اور ميانہ روي
آپ سادہ زندگي گزاریے۔ البتہ يہ بات ضروري ہے کہ ہم بہت زيادہ زہد و تقويٰ کے مالک نہيں ہيں لہٰذا اُس ميں آخري درجے کے زہد و تقويٰ کا تصور نہ کيجئے۔ وہ سادہ زندگي جس کي ہم بات کررہے ہيں وہ زاہد و عابد افراد کے زہد و تقويٰ کے تصور سے بہت مختلف ہے۔ يہ سادگي، لوگوں کي عام روز مرّہ زندگي کے امور سے متعلق ہے۔ وہ سادگي جو ہم نے اختيارکي ہے اگر خدا کے مقرب بندے اسے ديکھيں تو شايد ہماري سادگي کے مفہوم پر ہزاروں اعتراضات کريں۔
کوشش کیجئے کہ آپ کي زندگي اسراف و فضول خرچي کي بنيادوں پر قائم نہ ہو اور آپ اپني زندگي کو سادہ بنائيں۔ اپني زندگي کو خداوند متعال کي پسند کے مطابق گزاریے اور طيّباتِ الٰہي (خدا کي پسنديدہ اور پاک و پاکيزہ چيزوں) سے بہرہ مند ہوں ليکن اعتدال اور ميانہ روي کے ساتھ۔ اعتدال بھي ضروري ہے، ميانہ روي بھي اور عدالت بھي۔ اپني زندگي ميں انصاف کو حاکم بنائیے اور ديکھئے کہ دوسرے کيسي زندگي گزاررہے ہيں۔ اپنے اور دوسروں کے درميان زيادہ فاصلہ ايجاد نہ کيجئے۔
مختلف افراد اور خاندانوں کي سعادت کے اسباب ميں سے ايک سبب يہ ہے کہ بے جا اور فضول قسم کے قوانين، خيالي شان و شوکت اور اسٹيٹس والي زندگي سے دوري اختيار کي جائے اور مادي امور کو حدّ لازم سے زيادہ اہميت نہ دي جائے اور نہ ہي انہيں اپنے سر پر سوار کيا جائے۔ يا کم سے کم يہ کوشش ہوني چاہیے کہ يہ اوپر کے خرچے اور غير اضافي خريداري اور غير ضروري لوازمِ زندگي آپ کي اصلي (اور روز مرّہ) زندگي کا حصّہ شمار نہ ہوں بلکہ وہ ايک ’’طرف‘‘ (جانبي) اور سائيڈ کي چيز ہوں۔ زندگي کي بنياد کو ابتداہي سے سادگي کے ساتھ اٹھانا چاہیے اور زندگي کي فضا ايسي فضا ہو جو (افرادِ خانہ کے لئے) قابلِ تحمل ہو۔ سادہ زندگي گزارنا رفاہ اور آسائش سے منافات نہيں رکھتا ہے۔ آسائش بھي درحقيقت سادہ زندگي گزارنے کے سائے ميں ہي حاصل ہوتي ہے۔
ہار جيت کے بغير مقابلہ
خود کو ہوس و رقيب بازي، فضول خرچي اور مادي زرق و برق کا اسير نہيں بنائیے اور کوشش کيجئے کہ زندگي ميں مادّيت کي دوڑ ميں شريک نہ ہوں۔ کوئي بھي اِس دوڑ ميں خوش بخت اور کامياب نہيں ہوسکتا۔ زندگي کي يہ ظاہري زرق و برق اور چمک دمک کسي بھي انسان کو نہ تو خوش بخت کرتي ہے اور نہ ہي اُسے خوشحال اور مطمئن بناتي ہے۔ حقيقت تو يہ ہے کہ انسان کے ہاتھ جو کچھ آتا ہے اُس کے نتيجے ميں اُس کي ہوس کم ہونے کے بجائے بڑھتي ہي رہتي ہے اور يوں وہ ايک بہتر سے بہتر چيز کي تلاش اور خوب سے خوب تر کي جستجو ميں ہي زندگي گزارديتا ہے۔ شريعت نے ہميں زندگي گزارنے کا ايک اصول ديا ہے کہ ’’اَلْعِفَافُ وَاَلْکِفَافُ‘‘يعني وہ زندگي جو آساني سے گزاري جا سکے کہ جس ميں تنگي نہ ہو اور انسان کسي کا محتاج نہ ہو۔ آپ بھي اس طرح آگے قدم بڑھائیے۔
کفايت والي زندگي!
عيش و آرام، ٹھاٹھ باٹھ، پيسے کي ريل پيل، زبردستي کے خرچے پاني، اضافي خريداري اور فضول خرچي والي زندگي انسانوں کو بد بخت بناديتي ہے۔ يہ اچھي بات نہيں ہے۔ زندگي آرام اور کفايت کے ساتھ گزارني چاہیے يعني اعتدال اور ميانہ روي کے ساتھ نہ کہ پُر خرچي اور اسراف کے ساتھ۔ ان چند چيزوں کو بعض افراد باہم ملا کر کيوں غلطي کرتے ہيں۔
کفايت والي زندگي اور کافي زندگي کا مقصد روپے پيسے، غذا اور وسائلِ زندگي کي بہتات اور فراواني نہيں ہے بلکہ مراد يہ ہے کہ انسان کسي کا محتاج نہ ہو اور وہ کسي کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے تاکہ وہ ضرورياتِ زندگي کے ليے اپنے پاس موجود کافي مقدار ميں وسائل زندگي سے اپني زندگي چلا سکے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہنسي خوشي اور قناعت کا مالک .بھي ہو و اِلَّا زيادہ درآمد و تنخواہ، اوپر کے اخراجات اور ٹھاٹھ باٹھ سے زندگي اچھي اور خوشحال نہيں ہوسکتي۔ يہ چيزيں کسي بھي صورت ميں انسان کو حقيقي آرام اور خوشحالي نہيں دے سکتيں ہيں۔
زندگي کو سادہ انداز سے گزارئیے اور جتني بھي اس راہ ميں کوشش کرسکتے ہيں، کيجئے۔ البتہ ہماري مراد ہر گزيہ نہيں ہے کہ گھر کے مرد حضرات اور سر پرست خشک اور زور زبردستي کے زہد و تقويٰ کے ذريعے اپنے اہل و عيال اور نزديکي افراد پر سخت گيري کريں اور وہ تنگي ميں زندگي گزاريں۔ ہماري ہر گز يہ مراد نہيں ہے بلکہ ہماري خواہش يہ ہے کہ معاشرے کے تمام افراد اپنے عقيدے، ايمان و عشق اور دل کي رضايت و خوشي سے ايک حدپر قانع رہيں۔
کتنا ہي بہتر ہو کہ آپ کي زندگي سادہ ہو اور آپ خود کو اسٹيٹس (نام نہاد حيثيت و آبرو )اور زندگي کي زرق و برق کا اسير نہ بنائيں۔ اگر آپ اس اسٹيٹس کي دوڑ ميں شريک ہوگئے تو اسے چھوڑنا سخت ہوگا۔ اگر کوئي يہ چاہتا ہے کہ اس زمانے ميں سادہ زندگي گزارے تو وہ يہ کام کرسکتا ہے۔ ايک زمانہ تھا کہ يہ کام سخت اور مشکل تھا۔ اگر چہ کہ بعض افراد اپنے ہي ہاتھوں اس کام کو مشکل بناتے ہيں۔ اپنے لباس، خوراک، مسکن، اسٹيٹس اور دنياوي زرق و برق کواپنے اوپر اس حد تک سوار کرليتے ہيں کہ اُسے آسان بنانا دشوار ہوجاتا ہے۔
قناعت سب کے ليے مفيدہے
ميں آپ کي خدمت ميں عرض کرتا ہوں کہ ہم، آپ کو حضرت سلمان فارسي ۲ اور حضرت ابوذر ۲ کے زہد کي طرف دعوت نہيں دے رہے ہيں۔ ہم، آپ اور سلمان ۲ و ابوذر ۲ ميں بہت زيادہ فاصلہ ہے۔ ہم ميں ہر گز اس بات کي طاقت نہيں ہے کہ ان درجات، بلنديوں اور اعليٰ مقامات تک پہنچيں يا فرض کريں اور آساني سے دل ميں ان مقامات کي آرزو کريں۔ ليکن آپ کي خدمت ميں يہ عرض کروں کہ اگر ہمارے اور اُن کي زندگي کے درميان ہزار درجات کا فاصلہ ہے تو اُس فاصلے کو ١٠ درجات، ٢٠درجات اور ١٠٠ درجات سے کم کيا جاسکتا ہے اور اس طرح ہم خود کو اُن کي زندگي کے نزديک کرسکتے ہيں۔ آپ کو چاہیے کہ قناعت کريں اور قناعت کرنے سے ہر گز شرم محسوس نہ کريں۔
بعض لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ قناعت کرنا صرف فقير، خالي ہاتھ اور بے چا رے افراد کا کام ہے اور اگر آدمي کے پاس مال و دولت ہے تو وہ دل کھول کر خرچ کرے اور اُسے قناعت کي کيا ضرورت ہے؟ يہ غلط خيال ہے! آپ کو زندگي اور اُس کے وسائل کي جتني ضرورت ہے فقط اُسے ہي استعمال ميں لائیے، صرف لازمي حدتک ، نہ فضول خرچي کي حد تک۔ کفايت کي حد تک وسائل زندگي استعمال کريں کہ جو انسان کي ضروريات اور اُس کي حاجات کا جواب دينے کے ليے کافي ہو، يعني انسان کسي کا محتاج نہ ہو۔ يہ وہ مقام ہے جہاں انسان کو توقف کرنا چاہیے۔
زندگي سے بے جا اُميديں، غير ضروري اور زيادہ توقعات وابستہ کرنا در حقيقت انسان کي معاشي تنگي اور خود انسان کي اپني پريشاني کا سبب بنتا ہے۔ اگر انسان اپني زندگي سے توقع اور اميديں کم رکھے تو يہ اس کي سعادت کا باعث ہوگي۔ يہ صرف انسان کي آخرت کيلئے ہي اچھي اور سود مند نہيں بلکہ اُس کي دنيا کے ليے بھي فائدہ مند ہے۔
آپ کي پوري کوشش اس بات پر ہوني چاہیے کہ شان و شوکت ميں آگے بڑھنے اور اسٹيٹس کي دوڑ سے دور رہ کر سادہ زندگي گزاريں۔ اور وہ ايسي زندگي ہو کہ جو معاشرے کے متوسط طبقے کے ساتھ مطابقت رکھتي ہو۔ ميں يہ نہيں کہتا کہ اس بارے ميں معاشرے کا نچلا طبقہ آپ کے مدِّنظر ہو، نہيں! بلکہ آپ متوسط طبقے کو ديکھئے ليکن آپ ماديت کي دوڑ کو اہميت و توجہ نہ ديں۔ ٹھيک ہے کہ ہر جگہ ايک مقابلہ اور دوڑ لگي ہوئي ہے۔ جس طرح خدا کي جنّت کي راہ ميں دوڑ لگي ہوئي ہے اسي طرح دنيا کي خيالي جنت کيلئے بھي مقابلہ جاري ہے، اس کي زرق و برق اور شان و شوکت، مقام و قدرت اور شہرت طلبي کيلئے بھي دوڑ لگي ہوئي ہے۔ سب اس مقابلے ميں شريک ہيں ليکن يہ مقابلہ صحيح نہيں ہے۔ آپ ميں سے جو بھي مادہ پرستي اور ماديّت کي دوڑ ميں شريک ہو تو اس کا جيون ساتھي اسے (پيار ومحبت سے)منع کرے اور ايک ناصح کي طرح اس سے برتاؤ کرے۔ بہرحال انسان کو چاہیے کہ زندگي کے تمام مراحل ميں ميانہ روي، قناعت متواضعانہ اور سادہ طريقہ زندگي کو فراموش نہ کرے اور يہي اسلام کي نظر ہے۔
شادي کي تقريب سے آغاز کريں
آپ کو چاہیے کہ زندگي کے تمام امور ميں سادگي کو اپنائيں اور اس کي ابتدا شادي کي تقريبات سے ہوني چاہیے کيونکہ ساري چيزيں يہيں سے شروع ہوتي ہيں۔ اگر شادي کي تقريبات، سادہ منعقد ہوں تو آنے والے دوسرے اقدامات بھي سادہ ہي ہوں گے۔ اگر ايسا نہ ہوا اور آپ نے عياش، فضول خرچ اور اسراف پسند متمول افراد کي طرح شادي کي تقريبات منعقد کيں تو آپ بعد ميں ايک چھوٹے سے گھر جاکر مختصر سے وسائلِ زندگي کے ساتھ زندگي گزارنے پر قادر نہيں ہوں گے۔ بعد ميں ايسا نہيں ہوسکے گا کيونکہ ازدواجي زندگي کي ابتدا اور بنياد ہي خراب ہوچکي ہے اور وہ وقت ہاتھ سے نکل گيا ہے۔
آپ کو چاہیے کہ زندگي کو سادہ زيستي اور سادگي پر کھڑا کريں تاکہ يہ زندگي خود آپ پر، آپ کے اہل و عيال، عزيز واقارب اور معاشرے کے افراد کے ليے آسان ہو، ان شائ اللہ۔
اپنے والدين کا بھي خيال رکھيے
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ معاشرے ميں اسٹيٹس (نام نہاد حيثيت و عزت) کي اِ س دوڑ نے شادي کي پُرخرچ محفلوں(مہندي، مايوں اور چوتھي کي اسراف سے ) پُر اور غير ضروري تقريبات
، آسمان سے باتيں کرتي ہوئيں مہر کي رقموں، جہيز کي لمبي لمبي لسٹوں اور بڑے بڑے شاندار ہوٹلوں اور شادي ہالوں ميں شاديوں نے معاشرے کے اخلاق کو بہت بگاڑ ديا ہے!
آپ بيٹے اور بيٹياں جو داماد اور بہو بن رہے ہيں آپ کو چاہیے کہ اس بُت کو گرانے کيلئے پہلا قدم آپ اٹھائيں۔ آپ کہیے کہ ہميں ايسي شادي اور ايسي تقريبات نہيں چاہیے اور ہميں اس جہيز کي بہتات، اسراف والي تقريبات اور بڑے بڑے اور شاندار ہوٹلوں ميں شاديوں اور فنکشنوں کي کوئي ضرورت نہيں ہے۔ جب معاشرہ مشکل اور سختي ميں ہوا اور جب اُس پر فقر کي بدحالي سايہ فگن ہو تو انسان کودوسروںکي صورتحال پر توجہ کرني چاہیے۔
ہم شادي کرنے والے لڑکے اور لڑکيوںکو اس بات کي تاکيد کرتے ہيں کہ والدين سے اصرار اور ضد و بحث نہ کريں، اُن سے زيادہ نہ چاہيں اور ايسا نہ ہو کہ وہ آپ کي خواہشات کے دباؤ ميں آکر شرما حضوري سے کام ليں اور قرضوں تلے دب جائيں۔
ميں اور آپ، سب کو چاہئے ان چيز کو دور پھينکيں۔ شادي درحقيقت صرف ايک مقدس ترين انساني رشتے کا ملاپ ہے۔ يہ ملاپ کيوں اور کس ليے ہے؟ دونوجوانوں کا مل کر گھر بسانا اور نئي زندگي بسر کرنا۔ يہ دنياکا سب سے زيادہ انسانيت والا کام ہے لہٰذا اسے مادي اور پيسے والا نہ بنائیے۔ يہ آپ کي ذمہ داري ہے کہ اُسے ان خواہشات، رسومات اور روايات سے آلودہ نہ ہونے ديں۔ اگر شادي کرنے والے لڑکے اور لڑکياں اہلِ قناعت اور سادہ زندگي کے حامي ہوں تو گھر و خاندان کے بڑے بھي ان کي پيروي کرنے ميں مجبور ہوجاتے ہيں۔
____________________