طُلوعِ عشق

طُلوعِ عشق0%

طُلوعِ عشق مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال

طُلوعِ عشق

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 12254
ڈاؤنلوڈ: 3197

تبصرے:

طُلوعِ عشق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 52 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12254 / ڈاؤنلوڈ: 3197
سائز سائز سائز
طُلوعِ عشق

طُلوعِ عشق

مؤلف:
اردو

الف :شادي بياہ کي تقريبات ميں شاہانہ تجمل اور اسراف

اسلامي شادي کي سادہ مگر پر رونق محفل

اگر آپ مختلف اقوام عالم ميں شادي کي تقريبات کو ملاحظہ کريں تو آپ اسلام ميں شادي کي تقريب کو سادہ پائيں گے ۔البتہ جشن و سرو ر اورخوشي منانے اور اس کے اظہار کرنے ميں کوئي عيب نہيں ہے۔ ہر کوئي اپنے ذاتي ميل اور شوق کي بنا پر جتنا چاہے خوشي و مسرت کا اظہار کرے ليکن يہ سب شادي کي ديني تقريبات اور دين کا حصہ نہيں ہے۔جو بھي چاہے وہ يہ کام انجام دے سکتا ہے اور جو نہ چاہے وہ انجام نہ دے مثلاًو ہ حتماً ايک معبد و عبادت خانے (گرجا گھر)ميں جاکر کسي کے سامنے دو زانوہوکر فلاں فلاں کام انجام ديں۔وہ تمام مراسم اور رسومات جو دوسري قوموں ميں موجود ہيں اسلام ميں نہيں ہيں۔

اسلام ميں صرف ايک شرعي صيغہ (نکاح)ہے کہ جسے پڑھنا چاہيے۔ البتہ اسلام ميں مختلف معاملات اور لين دين کہ جن کي اہميت شادي سے کم ہے، ميں ہم گواہ بناتے ہيں۔ اب تو باقاعدہ نکاح رجسٹر ار نکاح نامے کو رجسٹر ڈ کرتا ہے، رجسٹرڈ کرانے کے اپنے دفاتر ہيں اور اس کام ميں کسي قسم کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، دکھاوے اور فضو ل خرچي کي ضرورت نہيں ہے۔ لوگ بہت آساني اور بغير اسراف و فضول خرچي کے شادي کا يہ مقدس کام انجام دے سکتے ہيں۔

اسلامي نکاح يا جاہلي نکاح

شريعت نے شادي سے زمانہ جاہليت کي قيدوشرط کو ہٹاکر اسے ايک نئي فکر، شرائط اور خاص طريقہ کار عطا کيا ہے۔ اگر ہم کوئي ايسا کام کريں کہ ہماري شادي کي تقريبات اسلام کي دور کردہ چيزوں سے پاک اور اسلام کے بتائے ہوئے طريقہ کار سے آراستہ ہوں تو ہماري يہ شادياں اسلامي کہلائيں گي اور نکاح بھي پيغمبر اسلام ۰ کي خوشنودي کے مطابق انجام پائے گا۔ليکن خدانخواستہ اگر ہم نے اسلام کي طرف سے ممنوع شدہ اور زمانہ جاہليت کي رسومات کو اپني شادي ميں جگہ دي تو اس وقت ہمارا نکاح اور تقريبات جاہلانہ کہلائيں گي۔

ہم مسلمان ہيں اور ہمارا نام بھي مسلمان ہے ليکن ہمارا کام غير اسلامي اور جاہلانہ ہوگا۔ يا اگر وہ چيزيں کہ اسلام نے شادي ميں جن کا خيال رکھنے کا حکم ديا ہے، خيال نہ رکھيں تو اس وقت بھي ہماري شادي کامل طور پر اسلامي نہيں ہوگي۔ اگر شادي اسلامي طريقے سے انجام پائے يعني قرآن اور اسلام کي بيان کردہ روش کے مطابق تو زندگي بھي شيريں ہوگي اور مياں بيوي اچھي زندگي گزاريں گے۔

شادي کو آسان بنائيں، خدا آپ کي مدد کرے گا

جب بھي شادي کي بات ہوتي ہے تو نوجوان يہ کہتے ہيں کہ اگر ہم ابھي شادي کريں تو گھر اور کام کيلئے کيا کريں گے؟ يہ وہي شرائط اور پابندياں ہيں کہ جو ہميشہ اصلي اور بنيادي کاموں کا راستہ روکتي ہيں۔ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اِنْ يَّکُوْنُوْا فُقَرَائَ يُغْنِيْهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهِ ‘‘(اگر وہ فقير و ضرور ت مندہوں گے تو خدا نہيں اپنے فضل سے غني کردے گا) يعني خداوندعالم ان کي مدد کرے گا۔آپ شادي کريں۔

جو لوگ (فقر کے خوف کو شادي کي راہ ميں رکاوٹ بننے سے روکتے ہوئے) شادي کرتے ہيں تو يہ شادي ان کي معيشت ميں کسي خاص مشکل کا سبب نہيں بنتي ہے بلکہ اس کے برعکس خدا انہيں اپنے فضل و کرم سے غني بھي کرتا ہے۔ جي ہاں يہ خدا وند عالم کا قول ہے! ليکن ہم اپنے ليے ايک کي جگہ دس غير ضروري خرچ کرتے ہيں ،زندگي کے غير ضروري اور اضافي خرچوں کو بڑھاتے ہيں اور جھوٹي ضرورتوں کو وجود ميں لاتے ہيں۔

جي ہاں جب يہ ہوگا تو مشکل تو پيش آئے گي۔ غلطي کس کي ہے؟ پہلے درجے پر غلطي اہل ثروت اور متمول افراد کي ہے، وہ افراد جو زندگي کي آسائشوں سے بہرہ مند ہوں، جو سطح زندگي کو اوپر لے جاتے ہيں ،خواہشات،توقع،اميدوں،جھوٹي آرزوؤں اور غير ضروري حاجتوں کي سطح کو بلند کرتے ہيں۔ اس کے بعد بعض اعليٰ حکام کي غلطي ہے کہ جن کو آکر عوام کے سامنے ان چيزوں کيلئے بولنا اور آسان شادي کے وسائل فراہم کرنا چاہيے ليکن وہ يہ کام انجام نہيں ديتے ہيں۔ ہم يہ نہيں کہنا چاہتے ہيں کہ نوجوانوں اور ان کي شادي کي نسبت حکومتوں کي کوئي ذمے داري نہيں ہے۔ ليکن ايک اسلامي معاشرے ميں اس چيز کو رواج پانا چاہيے کہ شادي ايک ضرورت ہے اور اسے صحيح وقت پر اپني سادگي کے ساتھ انجام پانا چاہيے۔

يہ جو لڑکياں کہتي ہيں کہ ہم ابھي شادي کيلئے تيار نہيں ہوئے ہيں يا لڑکے جو يہ کہتے ہوئے نظر آتے ہيں کہ شادي ابھي ہمارے بس کي بات نہيں، ان کي يہ باتيں کوئي معقول اور منطقي نہيں ہيں۔ زندگي کے بہت سے مسائل ميں ہم ديکھتے ہيں نوجوان آمادہ ہيں، ان کي وضع زندگي بھي اچھي ہے۔ وہ خود بھي اچھے ہيں اور مسائل کو اچھي طرح سمجھتے اور درک کرتے ہيں۔ ليکن سمجھنا چاہیے کہ رشتہ ازواج ميں منسلک ہونا دراصل ايک قسم کا عہد وپيمان اور ذمے داري ہے ١ ۔ انسان کي ذمے داري کو قبول نہ کرنے کي يہ عادت اس کام کي انجام دہي ميں تھوڑي بہت رکاوٹ بن جاتي ہے۔

اظہارِ خوشي اور مہمانوں کي دعوت، درست مگر اسراف نہ ہو!

عياشي ،شاہانہ خرچ، فضول خرچي اور اسراف ايک معاشرے کيلئے مضر اور نقصاندہ ہيں۔ وہ لوگ جوشاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور فضول خرچي کي مخالفت کرتے ہيں تو اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ وہ زندگي کي لذتوں اور خوشيوں سے بے خبر ہيں۔ نہيں! بلکہ وہ ان کاموں کو معاشرے کيلئے نقصاندہ جانتے ہيں بالکل ايک مضر دوا يا فاسد خوراک کي مانند۔ بيش از حد خرچے اور تصنع و تجملات معاشرے کو نقصان پہنچاتے ہيں ليکن اگر يہ معقول و مناسب حد پر رہيں تو اس ميں کوئي عيب نہيں ہے۔ ليکن اگر انہي چيزوں ميں دوڑ شروع ہوجائے اور ايک دوسرے پر سبقت لينے کا خيال ذہن ميں آئے تو يہ اپني حد سے تجاوز کرکے آگے بڑھ جائے گا۔

١ جب آپ کہيں نوکري کرتے ہيں خواہ وہ حکومتي محکمہ ہو يا پرائيوٹ ادارہ تو آپ کے اس ادارے ميں ايک مقام و پوسٹ کي مناسبت سے آپ کي تنخواہ مقرر کي جاتي ہے ليکن جب آپ کو اعليٰ درجے کيلئے ترقي دي جاتي ہے تو آپ کي تنخواہ بھي بڑھتي ہے، الاؤنس ميں بھي اضافہ ہوتا ہے، گاڑي بھي ملتي ہے اور پي آر بھي بڑھتي ہے ليکن ان سب کے ساتھ ساتھ آپ کي ذمے داري بھي بڑھتي ہے اور آپ کے ماتحت افراد ميں بھي اضافہ ہوتا ہے۔ ہر آدمي اپني ترقي سے خوش ہوتا ہے۔ ليکن کيا آپ اس ذمے داري سے پہلو تہي کرنے کي وجہ سے تنخواہ، تمام الاؤنس اور ديگر مراعات سے صرف نظر کریں گے؟ ہر گز نہيں آپ عہدے کي ترقي کے ساتھ ساتھ ذمے داري کو بھي قبول کرتے ہيں ۔اسي طرح شادي ميں بھي انسان کو بہت سي سہوليات ملتي ہيں ليکن ساتھ ہي ذمے داري بھي بڑھتي ہے۔ اب آپ کے ساتھ آپ کي بيوي اور آپ کا چھوٹا سا خاندان بھي ہوتا ہے۔ (مترجم)

کچھ لوگ ہيں کہ جو (غذا ميں) اسراف کرتے ہيں، اسے پھينکتے اور گراتے ہيں۔ آج کے موجودہ زمانے ميں جبکہ بہت سے فقير ہمارے معاشرے ميں ہيں اور بہت سے ايسے افراد بھي ہيں کہ جو زندگي کي بنياد ي سہوليات سے بھي محروم ہيں، يہ کام سراسر اسراف و فضول خرچي ہے، اپني حد سے بہت زيادہ ہے اور بے بنياد بھي۔ جو بھي يہ کام کرے گا برا کرے گا۔

کچھ لوگ ہيں کہ جو انہي کاموں سے ثواب حاصل کرنے کے بجائے گناہ و عذاب حاصل کرتے ہيں۔ حرام کا مطلب صرف يہ نہيں ہے کہ محرم و نا محرم اور ديگر مسائل کا خيال نہ رکھا جائے، صحيح ہے کہ يہ بھي حرام کام ہيں ليکن بيش از حد خرچ کرنا اور فضول خرچي کرنا بھي حرام ہے،زندگي کي سہوليات سے محروم اور تہي دست افراد کي دل آزاري بھي بہت سے موارد ميں حرام ہے۔ اسي طرح بيٹي کے جہيز کو بنانے ميں حلال و حرام کي پرواہ نہ کرنا اور ان وسائل ميں افراط سے کام لينا بھي حرام ہے۔

ميں ان لوگوں سے ہر گز راضي نہيں ہوں کہ جو شادي کي تقريبات اور اس سے مربوط مسائل ميں اسراف و فضول خرچي سے دوسروں کے ليے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کرتے ہيں۔ ہم خوشي کے اظہار، جشن منانے اور مہمانوں کي دعوت کرنے کي حمايت کرتے ہيں ليکن ان سب ميں اسراف و فضول خرچي کے مخالف ہيں۔

بہت سے ايسے لڑکے لڑکياں ہيں جو اہلِ ثروت کي عياشيوں اور فضول خرچيوں کي وجہ سے اپنے پاس زندگي کے وسائل ميں کمي، حزن و غم اور ايک قسم کي ملامت کا احساس کرتے ہيں اور اُن ميں احساسِ کمتري پيدا ہوتا ہے۔

يہ بڑے بڑے ہوٹل اور شادي ہال شادي کو شيريں نہيں بناتے

اِن بڑے بڑے اور پُر خرچ ہوٹلوں، شادي ہالوں اور فضول خرچي والي تقريبات کو چھوڑ ديجئے۔ ممکن ہے کہ کوئي کسي شادي ہال ميں سادہ سي شادي کي تقريب منعقد کرے تو اس ميں کوئي عيب نہيں ہے۔ ميں يہ نہيں کہتا کہ شادي ہال ميں کسي بھي صورت ميں شادي نہ کي جائے۔ چونکہ بعض گھروں ميں اتني گنجائش نہيں ہوتي اور وہاں امکانات اور سہوليات بھي نہيں ہوتي ہيں (تو اس صورت ميں شادي ہال کو استعمال کرنے ميں کوئي مضائقہ نہيں ہے) ليکن اسراف نہ کريں۔ شادي ميں خوشي کا اظہار کرنا، مہمانوں کو دعوت دينا، رشتہ داروں، نزديکي افراد اور دوستوں کو مدعو کرنا اچھي بات ہے ليکن اسراف کرنا برا ہے اور نہ ہي مسلمان قوم کے شان کے مطابق ہے۔

شادي، نکاح اور وليمے کي تقريبا ت اور جشن و مسرّت اچھي چيز ہے۔ حتيٰ کہ رسول ختمي مرتبت ۰ نے بھي اپني صاحبزادي کي شادي کے موقع پر ايک محفل منعقد کي، خوشي و مسرّت کا اظہار کيا، لوگوں نے اشعار پڑھے، خواتين نے تالياں بجا کر خوشي کا اظہار کيا۔ لہٰذا آپ کي کوشش يہ ہوني چاہیے کہ شادي کي تقريبات اور اس سے مربوط مسائل ميں اسراف نہ ہو۔

ہمارے يہاں کي شادي، وليمہ، مہندي اور چوتھي وغيرہ کي پُر خرچ محافل، اسراف و فضول خرچ کا منہ بولتا ثبوت ہيں۔ مہنگے ہوٹلوں اور گراں قيمت شادي ہالوں ميں تقريبات منعقد کي جاتي ہيں، انواع و اقسام کے کھانوں، پھلوں اور ميٹھے پر بہت زيادہ رقم صرف کي جاتي ہے، کھانے زمين پر گرتے ہيں، کوڑے ميں پھينکا جاتا ہے اور يوں غذا ضائع ہوتي ہے۔ کس ليے؟ صرف حيثيت ، آبرو اور اسٹيٹس دکھانے کے ليے؟ !صرف اس ليے کہ اسراف کي دوڑ ميں پيچھے نہ رہ جائيں؟!

فضول خرچي نہ کريں۔ اگر آپ نے فضول خرچي کي تو نہ صرف يہ کہ آپ نے خود کو نقصان پہنچايا بلکہ لوگوں کو بھي نقصان سے دوچار کيا۔ آپ نے اپنے نوجوانوں لڑکے لڑکيوں کي اُميدوں اور آرزوؤں کا بھي گلا گھونٹا اور رسولِ اکرم ۰ کي نگاہوں ميں خود کو بے آبرو کيا اور آپ نے اپنے اس کام سے خود کو امامِ زمانہ کي نظروں سے بھي گراديا ۔ آپ کي فضول خرچي اور اِسراف، خلافِ شريعت کام حساب کيا جائے گا۔

ايک اچھي شادي وہ نہيں ہے کہ جس ميں روپيہ پاني کي طرح بہايا جائے بلکہ ايک اچھي شادي وہ ہے جو بناوٹ، ريا اور تصنّع کے بغير انجام پائے۔ جب ايک شادي ميں ان تمام امور کا خيال رکھا جائے گا تو وہ شادي اچھي ہوگي خواہ وہ ايک مختصر سي محفل ہي کيوں نہ ہو۔ گھر کے ايک دو کمروں ميں عزيز واقارب، ملنے جلنے والے اور دوست جمع ہوں تو يہ شادي اچھي شادي ہے۔ مہنگے ہوٹلوں اور پُرخرچ شادي ہالوں ميں لمبي لمبي دعوتيں، لمبے لمبے دسترخوان پر چُنے ہوئے انواع واقسام کے کھانے، مہنگے ترين امکانات و وسائل اورلمبے خرچے پاني، ان ميں سے کوئي بھي چيز شادي سے مناسبت نہيں رکھتي ہے۔ ميں نہيں کہتا کہ يہ چيزيں شادي (نکاح)کو باطل کرديتي ہے۔ نہيں! شادي اپني جگہ صحيح کہلائے گي ليکن يہ تمام چيزيں زندگي اور معاشرے کے ماحول کو خراب اور کڑوا بناديتي ہيں۔

گزشتہ زمانے ميں يہ بڑے بڑے شادي ہال نہيں تھے اور نہ ہي ان چيزوں کا کوئي وجود تھا۔ ايک دو کمروں ميں محفل منعقد کرتے تھے، مہمان آتے تھے اور ان کي پذيرائي ہوتي تھي۔ کيا اس زمانے کي شادياں آج سے زيادہ بے برکت و بے رونق تھيں؟ کيا لڑکيوں کي عزّتيں آج کے زمانے سے کمتر تھيں کہ شاديوں کو رونق بخشنے اور لڑکيوں کي عزّت و آبرو بڑھانے کيلئے بڑے بڑے ہالوں ميں جائيں۔

ٹھيک ہے بذات خود بڑے شادي ہالوں ميں (مہمانوں کي تعداد کو مدِّنظر رکھتے ہوئے) شادي کرنے ميں کوئي عيب نہيں ہے، ميں ان شادي ہالوں کي مخالفت نہيں کرتا ہوں ليکن ان سب فضول خرچيوں، اسراف، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، تجمل اور ريا کا مخالف ہوں۔ ليکن اب کچھ لوگ ہوٹل ميں جا کر شادي کريں تو يہ کام غلط ہے اور شادي ہالوں کي موجودگي ميں اس کو اس کي کوئي ضرورت نہيں ہے۔

آپ شادي کي تقريبات کو جتنا مختصر او ر سادہ منعقد کريں گے اتنا ہي بہتر ہے۔ آپ اپنے اس فعل سے غريب، تہي دست اور نادار افراد کي ہمّت افزائي کيجئے اور اُن کيلئے راہ ہموار کريں تاکہ وہ مايوس نہ ہوں۔

بعض حکام کي غلطي

يہ تو معلوم ہوگيا کہ بڑے ہوٹلوں اور فضول خرچي والي تقاريب، دعوتيں اور شادياں نہ تو اہلِ علم کي شان کے مناسب ہيں اور نہ ہي پر ہيز گار اور مومن افراد کي شان و مقام کے ۔يہ سب طاغوتي اور شاہي دور کي چيزيں ہيں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض افراد آج بھي غلطي کررہے ہيں۔ چونکہ شاہ کے دور ميں اعليٰ حکام اور بڑے بڑے افراد ايسا کرتے تھے اور آج يہ بھي بڑے بن گئے ہيں لہٰذا سوچتے ہيں کہ ہميں بھي يہ کام کرنے چاہييں۔ نہيں جناب، وہ لوگ طاغوتي تھے اور اہلِ دنيا تھے اور ہمارا تعلق علما سے ہے اور جو لوگ عالمِ دين نہيں ہيں وہ ديندار ہيں۔ ہماري زندگي بھي دوسري طرح کي ہے اور عمل بھي، ہماري منش و طبيعت بھي دوسري طرح کي ہے اور اخلاق بھي۔ ہمارا ہدف بھي اُن سے بالکل مختلف ہے اور نہ ہي ہميں اُن کي تقليد کرني چاہیے۔ ہميں ايسا کام کرنا چاہیے کہ لوگ ہماري پيروي کريں۔

يہ عزت و آبرو نہيں ہے!

کچھ لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ بڑے بڑے ہوٹلوں اور پُر خرچ شادي ہالوں ميں شادي کي تقريبات منعقد کرنا، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اور اسراف دولہا دلہن کي سر بلندي اور عزت و شرف کا باعث بنتا ہے! دولہا دلہن کي عزت و سر بلند ي ان کي انسانيت، تقويٰ، پاکدامني، اور ان کي نظروںکي بلندي ہے ناکہ يہ چيزيں۔

جان ليں کہ شادي کو سادہ بنانا خواہ مہر کي رقم ہو، جہيز ہويا بارات و وليمے کي تقريب، باعثِ ننگ و شرم نہيں ہے جيسا کہ کچھ لوگ خيال کرتے ہيں کہ اگر ہم اپني بچي کي شادي سادہ کریں گے تو ہماري بيٹي کا سر شرم سے جھک جائے گا، نہيں! يہ آپ کي غلطي ہے۔

ہم تہي دست اور نادار افراد کو نصيحت کرتے ہيں کہ قرض لينے کے ليے اِدھر اُدھر ہاتھ پير نہ ماريں، صرف اس ليے کہ اپني عزت و آبرو کو محفوظ رکھيں! عزت و آبرو کيا ہے؟ کيا يہي ہے عزت و آبرو!؟ اگر ہم آنکھيں کھول کر حقيقت کو ديکھيں تو يہ عزت نہيں ہے۔ کچھ لوگ ہيں کہ جو قرضدار بنتے ہيں تاکہ معاشرے ميں آبرو مند رہيں! يہ کام سراسر غلط اور بے بنياد ہے۔

فضول خرچي کرنے والوں کا حساب کتاب بہت سخت ہے

ميں ملک کے تمام لوگوں کو اس بات کي تاکيد کرتا ہوں کہ شادي کو آسان بنائيں۔ بعض لوگ ہيں کہ جو شادي کو مشکل بناتے ہيں۔ مہر کي بڑي بڑي رقميں اور جہيز کي لمبي لمبي لسٹيں ہي شادي کو مشکل بناتي ہيں۔لڑکے کے گھر والے ايک زبردست قسم کے جہيزکي توقع کيوں رکھيں؟ لڑکي کے گھر والے، رسم و رواج اور فضول خرچي کي دوڑ ميں آگے نکلنے کے ليے زيادہ جہيز کيوں ديں؟ اور شادي کي تقريب کو رنگين بنانے کے ليے فضول خرچي کيوں کريں؟ آخر ان سب کا کيا نتيجہ نکلے گا؟ اس کا نتيجہ يہ ہوگا کہ لڑکے بغير شادي کے زندگي گزاريں اور لڑکيا ں گھروں ميں ہي بيٹھي رہيں اور کسي ميں اس بات کي جرآت نہيں ہوگي کہ وہ شادي کا خيال بھي کرے۔

وہ لوگ جو فضول خرچي اور اسراف کے ذريعے شادي کرتے ہيں کيا ان لوگوں سے زيادہ خوش قسمت ہيں کہ جو سادہ طريقے سے شادي کرتے ہيں؟ کون ہے کہ جو ايسا دعويٰ کرسکتا ہے؟ يہ کام صرف کچھ نوجوان لڑکے لڑکيوں کي آرزوؤں کا گلا گھونٹنے، ان کي زندگي کو تلخ بنانے کے علاوہ کچھ اور نہيں کرسکتا۔ يعني يہ لوگ اگر اس طرح شادي نہيں کرسکے تو يہ حسرت ان کے دل ميں ہميشہ کے ليے دفن ہوجائے گي يا وہ شادي ہي نہيں کرسکیں گے۔ چاہیں گے کہ ہم لڑکي کو دلہن بنا کر گھر لائيں ليکن جب اس کے خالي ہاتھوں کو ديکھيں گے تو يہ ان کي حسرت بن جائے گي اور لڑکي گھر ميں ہي بيٹھي رہ جائے گي اور يوں يونيورسٹي کے طالب علم، مزدور يا معمولي تجارت اور دکان والے يونہي غير شادي شدہ رہيں گے۔

ميں يہ خيال کرتا ہوں کہ جولوگ اسراف والي تقريبات، مہر کي بڑي بڑي رقموں اور جہيزکي لمبي لمبي لسٹوں سے اس امرِ مقدس کو دوسروں کے ليے مشکل بناتے ہيں تو خداوند عالم ان کا بہت سخت حساب لے گا۔ يہ نہيں ہوسکتاکہ وہ يہ کہيں کہ جنابِ عالي ہمارے پاس دولت ہے اور ہم جو چاہیں کريں گے۔ يہ سب غلط باتيں ہيں۔ مال و دولت ہونا تو اس بات کي دليل نہيں بنتا کہ دوسروں کي دل آزاري کريں اور ان کي خواہشات کا گلا گھونٹيں!

کيا يہ بات درست ہے کہ جب انسان کے پاس مال و دولت ہو تو وہ ايسا قدم اٹھائے کہ دوسرے وہ کام انجام نہ دے سکيں؟ نوجوانوں ميںا س بات کي جرآت نہ ہو کہ وہ شادي کے ليے اقدامات کريں؟ ايسا کوئي کام نہيں ہونا چاہیے کہ جس کي وجہ سے نادار اور تہي دست افراد، وہ لوگ جن کا ان تمام باتوں کيلئے دل راضي نہيں ہوتا، جن کي فکريں اس فضول خرچي کے خلاف ہيں اور وہ يہ قصد نہيں رکھتے يہ تمام لوگ شادي نہ کرسکيں۔

بيکار زحمت و مشقت

اسراف، فضول خرچي اور ديگر کاموں کو انجام نہ ديجئے، اس فضول خرچي ميں آپ کي بھلائي نہيں ہے اور خدا بھي اس کام سے راضي نہيں ہے۔ آپ خود کو ايک بيکار قسم کي زحمت و مشقت ميں ڈال رہے ہيں۔ اس تمام فضول خرچي کے عوض اس کا دسواں حصہ اگر ايک فقير اور مستحق فرد کو ديں تو گويا آپ نے تمام عالم کے برابر ثواب حاصل کيا۔ کيا يہ لوگ ديوانے ہيں کہ جو بغير اجر و ثواب اور رضائے الٰہي کے اتني فضول خرچي کرتے ہيں؟ حتيٰ کہ لوگ بھي ان سے خوش نہيں ہيں۔ ايسے فضول خرچ افراد سے لوگ بھي راضي نہيں ہيں۔ آپ صرف خدا کو راضي کيجئے۔

اسرافِ بالغرض اگر گناہ نہيں تو ثواب بھي نہيں

اگر آپ فلاں ہوٹل ميں دعوت کريں اسراف کريں اور نئے نئے قسم کے پھل لے کر آئيں تو کيا آپ کي محفل ميں کوئي رونق اور برکت آجائے گي؟ البتہ ايسي مہماني اوردعوت کا خدا کے يہاں کوئي اجر نہيں ہے۔ جان ليجئے کہ اس کا رتي برابر ثواب نہيں ہے۔ اسراف کرنا اگر گناہ نہ ہو کہ البتہ گناہ ہے بالفرض کسي ايک صورت ميں اگر گناہ نہ ہو تو بھي ثواب نہيں ہے۔ آپ اپنے اس فعل سے سينکڑوں نوجوان لڑکے لڑکيوں کو شادي کي دعوت دينے سے محروم کررہے ہيں۔ کيونکہ وہ آپ کے فعل کو ديکھتے ہيں اور چاہتے ہيں کہ آپ کا مقابلہ کريں ليکن وہ اس بات پر قدرت نہيں رکھتے اور يوں شادي کا مقدس امر تاخير کا شکار ہوجاتا ہے۔

آلِ رسول ۰ کي تقليد کريں

عالم ہستي کي سب سے بہترين دختر اور دلہن حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ عليہا تھيں۔ اس طرح اس عالم کي سب سے بہترين شخصيت اور داماد حضرت امير المومنين علي ابن ابي طالب عليہ السَّلام تھے۔ آپ يہ ديکھئے کہ انہوں نے کيسے شادي کي؟ہزاروں خوبصورت، اچھے حسب و نسب، صحت مند اور محبوب نوجوان اميرالمومنين حضرت علي ابن ابي طالب کے ايک بال کے برابر بھي نہيں ہیں۔ اسي طرح ہزاروں نوجوان خوبصورت و زيبا اور بہترين حسب و نسب والي لڑکياں بھي حضرت زہرا سلام اللہ عليہا کے ايک بال کي برابري بھي نہيں کرسکتيں۔ يہ افراد خدا وندِعالم کي بارگاہ ميں عرفان و قربِ الٰہي کے بلند و بالا مقامات کے حامل ہيں اور ان کا شمار اپنے زمانے کي بڑي عظيم شخصيات ميں ہوتا تھا۔

حضرت فاطمہ تو حضرت ختمي مرتبت ۰ کي صاحبزادي تھيں کہ جو پوري اسلامي دنيا کے سربراہ اور حاکم مطلق تھے جبکہ حضرت عليسپاہِ اسلام کے پہلے نمبر کے سردار تھے۔ آپ توجہ کيجئے کہ انہوں نے کيسے شادي کي؟ کتنا کم مہر اور کتنا کم جہيز اور خدا کے نام اور اس کي ياد و ذکر کے ساتھ ان کي زندگي کي ابتدا ہوئي۔ يہ ہمارے ليے بہترين مثال اور اسوہ ہيں۔ اسي زمانے ميں بہت سے ايسے جاہل افراد تھے کہ جن کي بيٹيوں کے مہر کي رقم بہت زيادہ تھي۔ مثلاً ايک ہزار اونٹ(۱) ۔کيا ان لڑکيوں کا مقام حضرت زہرا سلام اللہ عليہا سے زيادہ اونچا تھا؟ آپ ان کي تقليد کرنے کے بجائے دخترِپيغمبر ۰ کي تقليد و پيروي کريں اور اميرالمومنين کو اپنے ليے نمونہ عمل قرار ديں۔

دلہن کے ليے کرائے کا لباس!

بعض لوگ ہيں کہ جو دلہن کا بہت مہنگا لباس خريدتے ہيں آخر کيوں؟اس کي کيا ضرورت ہے؟ بہت سے لوگ جو دلہن کے ليے لباس بنوانا چاہتے ہیں وہ دلہن کے ليے کرائے پر لباس لے کر آتے ہيں۔ اس ميں کيا حرج ہے؟ کيا يہ شرم و عيب کي بات ہے؟ ہر گز نہيں! اس ميں ننگ و عيب کا سوال ہي پيدا نہيں ہوتا اور نہ ہي اس ميں کوئي چيز مانع ہے۔

بعض لوگ اس چيز کو اپنے ليے عيب تصور کرتے ہيں۔ انسان کے ليے ننگ و شرم تو يہ ہے کہ وہ ايک خطير رقم خرچ کرکے ايک چيز خريدے اور ايک بار استعمال کرنے کے بعد اِسے دور پھينک دے۔(۲) صرف ايک بار استعمال کرنے کيلئے اتني زيادہ رقم! اور وہ بھي اس معاشرے ميں جہاں بعض لوگوں کے پيٹ بھرے ہيں اور بعض حقيقتاً نياز مند اور مستحق بھي موجود ہيں۔

ب: مہر، خلوص و سچائي کي علامت ہے يا لڑکي کي قيمت؟

پيغمبر ۰ نے زمانہ جاہليت ميں مہر کي رسم کو توڑ ديا

وہ شخصيت جو خود مہر کو بتانے والي ہے، نبي اکرم ۰ کي شخصيت ہے کہ جو تمام کائنات ميں سب سے بلند مقام پر فائز ہيں اور اُن کي عزيز اور پاک و پاکيزہ بيٹي جو اولين و آخرين کي خواتين ميں سب سے زيادہ بلند مقام کي مالک ہے اور ان کے شوہر حضرت امير المومنين ہيں کہ حضرت ختمي مرتبت ۰ کے بعد از ازل تا ابد جميع خلائق سے بہتر و برتر ہيں۔ اِن دو نوجوانوں کيلئے جو خوبصورت و وجيہ بھي تھے، صاحب مقام، محترم اور شہرِ مدينہ کي سب سے بڑي اور عظيم شخصيت کے بھي مالک تھے، ديکھئے پيغمبر ۰ نے ان دونوں کے ليے کتنا مہر رکھا تھا؟

پيغمبرِ اسلام ۰ آئے اور اُنہوں نے ان تمام قيود و شرائط اور رسم و رواج کو پامال کرديا، اس ليے کہ يہ شادي کي راہ ميں مانع ہيں اور يہ چيزيں نوجوان لڑکے لڑکيوں کي شادي ميں رکاوٹ بنتي ہيں۔ آپ ۰ نے فرمايا کہ ان تمام چيزوں کو چھوڑ دو۔ شادي کي ابتدا آسان ہے اور شادي مادي لحاظ سے بہت سہل و آسان بنائي گئي ہے۔ جو چيز شادي ميں اہميت کے قابل ہے وہ بشري اور انساني احساسات اور پہلوؤں کا خيال رکھنا ہے۔

آپ يہ خيال نہ کريں کہ اُس زمانے ميں مہر کي بڑي بڑي رقموں يا بڑے جہيز کا کوئي تصور نہيں تھا، کيوں نہيں تھا؟ اُس زمانے ميں بھي بعض بے عقل افراد آج کے عقل سے پيدل افراد کي مانند تھے۔ مثلاً دس لاکھ مثقال سونے کو اپني بيٹيوں کا مہر قرار ديں بالکل آج کے بعض بے وقوف افراد کي مانند۔ يہ بڑے بڑے خرچے دراصل جاہلوں کے کام ہيں۔ اسلام نے آکر ان تمام چيزوں کو روند ڈالا۔ بيٹي کا مہر رکھنے کي وجہ يہ نہيں تھي کہ پيغمبر ۰ نہيں جانتے تھے کہ يہ کہيں کہ ميري بيٹي کا مہر سرخ رنگ کے بالوں والے ايک ہزار اونٹ اور وہ بھي فلاں شرائط کے ساتھ۔ وہ ايسا کرسکتے تھے ليکن انہوں نے ايسا نہيں کيا کيونکہ اسلام نے ان تمام جاہلانہ رسم و رواج پر خطِ باطل کھينچ ديا ہے۔

مَھْرُ السُّنَّۃ يا شرعي مہر

مہر کي بڑي بڑي رقموں کا تعلق زمانہ جاہليت سے ہے اور پيغمبر اسلام ۰ نے آکر اُن سب کو منسوخ کرديا۔ پيغمبرِ اکرم ۰ نے ايک متمول گھرانے ميں آنکھيں کھوليں اور ان کے خاندان کا شمار قريش کے تقريباً سب سے زيادہ اہلِ ثروت اور متمول خاندانوں ميں ہوتا ہے۔ وہ خود بھي اسلامي معاشرے کے رہبر اور حاکم تھے۔ تو اس بات ميں کيا مضائقہ تھا کہ اُن کي بہترين بيٹي اس عالم کي تمام خواتين سے زيادہ بہتر ہے اور خداوند عالم نے اُنہيںمِنَ الْاَوَّلِيْن وَالْآخِرِيْن ميں سےسَيِّدَةُالنِّسَائِ الْعَالِمِيْن بنايا ہے۔ اس عالم ہستي کے سب سے بہترين نوجوان سے جو مولائے متقيان ہیں، شادي کرے اور اُن کا مہر زيادہ ہو؟! رسولِ اکرم ۰ کيوں آگے بڑھے اور مہر کي رقم کو کم قرار ديا کہ جسے مَھْرُالسُّنَّۃ ١ يا شرعي مہر کہا جاتا ہے۔

ميري فکر کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا کے جہيز اور مہر ميں اس قدر سادگي کا خيال رکھا گيا تھا کہ تمام اہلِ بيت اس کم مہر يعني ’’ مَھْرُالسُّنَّۃ‘‘کے مقيد و پابند تھے۔ جبکہ وہ سب يہ بات اچھي طرح جانتے تھے کہ اس سنّتي مہر سے زيادہ مہر رکھنا جائز ہے ليکن انہوں نے اس مقدارکي پابندي کي۔ اس ميں علامتي پہلو تھا۔ اس ليے کہ لوگوں ميں ايک فکر رائج ہوسکے تا کہ اس پر عمل کرسکيں اور وہ مہر ميں اضافے سے جنم لينے والي مشکلات ميں گرفتار نہ ہوں۔

____________________

١ ايران ميں آجکل زيادہ تر مہر ميں سونے کا سکہ رکھا جاتا ہے۔ جسے سکہ بہار آزادي کہا جاتا ہے اور جس کي قيمت تقريباً ٧٣٠٠ روپے ہے۔ ايران کے ديندار گھرانے چہاردہ معصوم کے نام پر ١٤ سکے مہر رکھتے ہيں تاکہ ١٤ کا ہندسہ بابرکت ہو۔ رہبرِ عاليقدر نے يہ فرمايا تھا کہ جس کا مہر ١٤ سکوں سے زيادہ ہوگا اس کا نکاح نہيں پڑھائيں گے۔ دراصل يہ کم مہر کو رائج کرنے اور مہر کي بڑي بڑي رقموں کو توڑنے کا ايک نفسياتي حربہ ہے۔ ١٤چودہ سکوں کي رقم آجکل تقريباً ١٠٢٢٠٠ روپے بنتي ہے۔ جو ايراني معاشرے ميں مناسب رقم ہے۔ ہمارے معاشرے ميں چہاردہ معصوم کے نام پر چودہ ہزار روپے مہر کيلئے رکھے جاتے ہيں اور ہمارے يہاں اُسے چہاردہ معصوم کي برکت کي وجہ سے شرعي مہر کہا جاتا ہے جبکہ اس کا شريعت سے کوئي تعلق نہيں ہے۔ (مترجم)

١٤ کے ہندسے پر اصرار کيسا ؟

يہ جوآپ سنتے ہيں کہ ہم نے کہا ہے کہ ہم چودہ سکوں(۱) سے زيادہ مہر کا نکاح نہيں پڑھائيں گے۔ يہ اِس ليے نہيں ہے کہ چودہ سکوں سے زيادہ کے مہر سے شادي ميں کوئي عيب پيدا ہوجاتا ہے، نہيں۔ چودہ ہزار سکے بھي ہوں تب بھي شادي ميں کوئي عيب اور شرعي اشکال نہيں ہوگا۔ صرف اس ليے کہ ہماري شاديوں ميں مادي رنگ پر معنوي رنگ غلبہ حاصل کرے اور شادي ايک تجارت،

اقتصادي معاملے اور مادي اشيائ کي خريد و فروخت نہ بنے۔ اگر آپ نے شاديوں ميں سے يہ فضول خرچياں کم کرديں تو شادي کا معنوي پہلو خود بخود مضبوط ہوجائے گا۔

مہر کي رقم جتني کم ہو شادي اپني فطري صورت سے اتنا ہي نزديک ہوگي کيونکہ شادي تجارتي معاملہ نہيں ہے شادي کسي چيز کي خريد و فروخت اور کسي چيز کو کرائے پر دينے کا نام نہيں ہے بلکہ يہ دوا انسانوں کا باہم مل کر زندگي کي تعمير کرنا ہے اور اس کا مالي اور مادي مسائل سے بھي کوئي تعلق نہيں ہے۔ يہي وجہ ہے کہ حضرت ختمي مرتبت ۰ نے مہر کي ايک مقدار معين کردي ہے تاکہ سب کا مہر ايک جيسا ہو ليکن اُسے بہت زيادہ نہيں ہونا چاہیے مہر کي رقم ايسي ہو کہ معاشرے کے تمام طبقے اُسے اپنے ليے مقرر کرسکيں۔ شادي ميں جو چيز سب سے زيادہ قابلِ اہميت ہے وہ دو انسانوں اور دو روحوں کا ملاپ اور زندگي کا يادگار ترين واقعہ ہے نہ کہ ايک مالي اور اقتصادي معاملہ۔ اگرچہ کہ شادي ميں تھوڑي مقدار ميں مال ( يعني مہر، بيوي کے اخراجات وغيرہ کي صورت ميں) وجود رکھتا ہے اور شريعت ميں اُس مال کي اپني ايک جداگانہ حيثيت ہے۔ وہ انساني خلوص و صداقت کي علامت ہے کوئي خريد و فروخت کا سرمايہ اور لين دين نہيں ہے۔

زيادہ مہر لڑکي کي بے احترامي ہے

اگر کوئي اپني بيٹي کو اہميت ديتا ہے يا کوئي لڑکي خود کو صاحبِ حيثيت سمجھتي ہے تو اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ وہ يہ کہے کہ ميرے مہر کو بہت زيادہ ہونا چاہیے۔ مہر کي رقم جتني کم ہوگي اس مقدس رشتے ميں انساني پہلو کا احترام اتنا ہي زيادہ ہوگا۔

____________________

١ کافي جلد ٥، باب السُنۃ في المھور، صفحہ ٣٧٥، حديث ٧

کوئي بھي مال و دولت ايک انسان کے برابر نہيں ہوسکتا اور نہ ہي کوئي مہر ايک مسلمان عورت کے انگلي کے ايک پور کي قيمت بن سکتا ہے۔ اسي طرح کسي بھي قسم کي درآمد يا ثروت ايک مرد يا عورت کي شخصيت کي برابري کي صلاحيت نہيں رکھتي ہے۔

وہ لوگ جو اپني بيٹيوں کے مہر کي رقم کو اُن کي عزت و آبرو اور شان و شوکت ميں اضافے کي غرض سے زيادہ کرتے ہيں وہ احمقوں کي جنت ميں رہتے ہيں۔ يہ احترام نہيں بلکہ انکي بے احترامي ہے۔ اِس ليے کہ آپ مہر کي رقم کو زيادہ کرنے سے اس انساني ملاپ و انساني رشتے کے دونوں طرف کو کہ جس کے ايک طرف مرد اور دوسري طرف عورت ہے، ايک جنس اور قيمت کے مادي معاملے کي سطح پر تنزل دے دیتے ہيں اور يہ کہتے ہيں کہ ميري بيٹي تو اس قابل ہے کہ اس کا مہر اتنا زيادہ ہونا چاہیے۔ نہيں جناب! آپ کي بيٹي (اور اس کے احساسات، جذبات، خيالات، اُميدوں، آرزوؤں اوراس کي زندگي کي شيريني اور مٹھاس) کا مال و دولت سے ہر گز موازنہ نہيں کيا جاسکتا ہے۔

مہر در حقيقت ايک خدائي امر اور سنّتِ نبوي ۰ ہے۔ اِس ليے نہيں ہے کہ اس محترم اور شريف و عزيز موجود انسان عورت کے مقابلے ميں شوہر کوئي مادي چيز يا مال و دولت دے (اوريوں لڑکي کے جذبات و احساسات کو خريد لے!)۔

مہر بخشتي ہوں تم ميري جان چھوڑو!

بعض اوقات يہ ديکھنے ميں آتا ہے کہ شوہر برا ہے اور بيوي خواہ کتنے ہي زيادہ مہر کي مالک کيوں نہ ہو، اس سے کہتي ہے کہ ’’ميں اپنا مہر تم کو بخشتي ہوں تم ميري جان چھوڑدو‘‘ ۔ مہر تو کسي کو خوشبخت نہيں کرسکتا۔ جو چيز انسان کو سعادت اورخوش بختي سے ہمکنار کرسکتي ہے وہ شرعي اور ديني روش کو اپنانا ہے۔ محبت کا بھي مال و دولت سے کوئي تعلق نہيں ہے۔ ايسے انساني رشتوں ميں دولت و ثروت کي آميزش اور مادي عُنصر کي ملاوٹ جتني کم ہو اُن کا انساني پہلو اتنا ہي زيادہ مستحکم ہوتا ہے اور محبت ميں اتنا ہي اضافہ ہوتا ہے۔

بعض لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ مہر کي بڑي رقم مياں بيوي کے بندھن کو قائم رکھنے ميں مدد کرتي ہے۔ يہ بہت بڑي غلطي اور خطا ہے اگر خدانخواستہ مياں بيوي ايک دوسرے کے ليے نا اہل ہوں تو مہر کي بڑي سے بڑي رقم بھي کوئي معجزہ نہيں کرسکتي۔

کچھ گھرانے ايسے ہيں جو يہ کہتے ہيں کہ ہم اپني لڑکي کا مہر بہت زيادہ نہيں کہيں گے ليکن لڑکے کے گھروالے اتراتے ہوئے نخرے کريں گے اور کہيں گے کہ ايسا تو نہيں ہوسکتا ہے! آپ کي لڑکي کا مہر چند لاکھ روپے يا فلاں مقدار تک تو ہونا چاہیے۔ يہ تمام باتيں اسلام سے دوري کا نتيجہ ہیں۔ کوئي بھي زيادہ مہر سے خوش بخت نہيں ہوسکتا۔

يہ لوگ جو يہ خيال کرتے ہيں کہ اگر لڑکي کا مہر نہ ہو (يا کم ہو) تو ان کي لڑکي کي شادي خطرے ميںپڑجائے گي، يہ لوگ غلطي کررہے ہيں۔ اگر شادي کي بنياد محبت پر قائم ہو اورزندگي بھي اچھي ہو تو زندگي بغير مہر کے بھي قائم رہے گي۔ ليکن اگر شادي اور زندگي پر خباثت، چالاکي، دھوکہ اور فريب وغيرہ حاکم ہوں اور مہر کي رقم خواہ کتني ہي زيادہ کيوں نہ ہو تب بھي اپني بات کو تھوپنے اور مسلط کرنے والا مرد ايسا کام کرے گا کہ اتنا بڑا مہر بھي اس کے فرار کا راستہ نہيں روک سکے گا۔

بعض لوگ ہيں جو يہ کہتے ہيں کہ ہم مہر کو اس ليے بڑھاتے ہيں تاکہ شوہر، بيوي کو طلاق نہ دے سکے۔ يہ تو بہت بڑي خطا ہے۔ بڑے سے بڑا مہر بھي طلاق کا راستہ نہيں روک سکتا اور نہ ہي روک سکا ہے۔ جو چيز طلاق کا راستہ روک سکتي ہے وہ انسان کا اچھا اخلاق، عملِ صالح اور اسلامي اقدار و احکام کي رعايت کرنا ہے۔

بڑے بڑے مہر، نوجوانوں کي شادي کي راہ ميں رکاوٹ

جو لوگ اپني خواتين کيلئے بڑے بڑے مہر رکھتے ہيں وہ اپنے معاشرے کو نقصان پہنچاتے ہيں۔ بہت سي لڑکياں گھر بيٹھي رہ جاتي ہيں اور بہت سے لڑکے رشتہ ازدواج ميں منسلک ہوئے بغير تنہا زندگي گزارتے ہيں۔ صرف اس ليے کہ جب معاشرے ميں بڑے بڑے مہر رکھنے کي عادت پختہ ہوکر رواج پاجائے اور ’’مَھْرُالسُنَّۃ‘‘(شرعي مہر) کے بجائے جاہلانہ رسم و رواج اور مہر معاشرے کو اپنے پنجوں ميں دبوچ ليں تو پورا معاشرہ ہي خراب ہوجائے گا۔

اگر شادي اور اس سے متعلق مسائل ميں ماديات کو مرکزي حيثيت حاصل ہو تو دو روحوں کا يہ ملاپ اور دو انسانوں کے دھڑکتے دلوں کے احساسات و جذبات کا يہ رشتہ مادي معاملے ميں تبديل ہوجائے گا۔ يہ بڑے بڑے جہيز، مادي رقابت و سبقت اور اپني دولت و ثروت کا فضول خرچي کے ذريعے اظہار کرنا کہ جس ميں بعض لوگ غير دانستہ اور غافلانہ طور پرگرفتار ہيں، دراصل شادي کے آسان و مقدس امر کو خراب کرتے ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ شريعت ميں ہميں يہ حکم ديا گيا ہے کہ مہر کو کم رکھا جائے کہ اس سے مراد ’’مَھْرُالسُّنَّۃ‘‘(شرعي مہر) ہے۔ اگر مہر زيادہ رکھا جائے تو شادياں بھي مشکل ہوں گي اور لڑکے لڑکياں اپني ازدواجي زندگي سے محروم ہوجائيں گے۔

ميں ملک کے تمام باشندوں سے اپيل کرتا ہوں کہ مہر کو اتنا زيادہ نہ کريں، يہ جاہلانہ روش ہے۔ يہ وہ کام ہے کہ جس سے خدا اور اس کا رسول ۰ خاص طور پر اس زمانے ميں راضي نہيں ہيں۔ ميں يہ نہيں کہتا کہ يہ کام حرام ہے اور شادي اس سے باطل ہوجاتي ہے۔ ليکن يہ کام سنّتِ نبوي ۰ ، اہلِ بيت کي سيرت اور علمائے اسلام کي روش کے سراسر خلاف ہے۔ خاص طور پر اس زمانے ميں کہ جب ہمارے ملک کو اس بات کي ضرورت ہے کہ تمام صحيح کام آسان طريقے سے انجام پائيں۔ اس ميں کوئي بھلائي يا بہتري نہيں ہے کہ بعض لوگ شادي کو اس طرح مشکل بنائيں۔