عورت ،گوہر ہستی

عورت ،گوہر ہستی0%

عورت ،گوہر ہستی مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خواتین

عورت ،گوہر ہستی

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 14883
ڈاؤنلوڈ: 2238

تبصرے:

عورت ،گوہر ہستی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 41 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14883 / ڈاؤنلوڈ: 2238
سائز سائز سائز
عورت ،گوہر ہستی

عورت ،گوہر ہستی

مؤلف:
اردو

دوسري فصل

جاہلانہ تمدن و ثقافت کے خطرات و نتائج

حقو ق نسواں، موجودہ دنيا کا ايک گھمبير اور حل نشدہ مسئلہ

حقوق نسواں کے بارے ميں جو دنيا کا ابھي تک ايک حل نشدہ مسئلہ ہے، بہت زيادہ گفتگو کي گئي ہے اور کي جاري ہے۔ جب ہم اس دنيا کے انساني نقشے اور مختلف انساني معاشروں پر نظر ڈالتے ہيں ، خواہ وہ ہمارے اپنے ملک کا اسلامي معاشرہ ہو يا ديگر اسلامي ممالک کا يا حتي غير اسلامي معاشرے بھي کہ جن ميں پيشرفتہ اور متمدن معاشرے بھي شامل ہيں، تو ہم ديکھتے ہيں کہ ان تمام معاشروں ميں بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حقوق نسواں کا مسئلہ ابھي تک حل نہيں ہوا ہے۔ يہ سب انساني مسائل کے بارے ميں ہماري کج فکري اور غلط سوچ کي نشاني ہے اور اس با ت کي عکاسي کرتے ہيں کہ ہم ان تمام مسائل ميں تنگ نظري کا شکار ہيں۔ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے تمام بلندو بانگ دعووں،مخلص اور ہمدرد افراد کي تمام تر جدوجہد اور حقوق نسواں اور خواتين کے مسائل کے بارے ميں وسيع پيمانے پر ہونے والي ثقافتي سرگرميوں اور فعاليت کے باوجود اِن دو جنس (مرد و عورت) اور مسئلہ خواتين کہ اِسي کے ذيل ميں مردوں کے مسائل کو ايک اور طرح سے بيان کيا جاتا ہے، کے بارے ميں ايک سيدھے راستے اور صحيح روش کو ابھي تک ڈھونڈھنے سے قاصر ہے۔

شايد آپ خواتين کے درميان بہت سے ايسي خواتين ہوں کہ جنہوں نے دنيا کي ہنرمند خواتين کے ہنري اور ادبي آثار کو ديکھا يا پڑھا ہو کہ اُن ميں بعض آثار فارسي زبان ميں ترجمہ ہوچکے ہيں اور بعض اپني اصلي زبان ميں موجود ہيں۔ يہ سب اِسي مذکورہ بالا مسئلے کي عکاسي کرتے ہيں کہ خواتين کے مسائل اور اِسي کے ذيل ميں ان دوجنس ، مرد وعورت کے مسئلے اور بالخصوص انسانيت سے متعلق مسائل کو حل کرنے ميں بشر ابھي تک عاجز و ناتوان ہے۔ بہ عبارت ديگر؛ زيادتي ، کج فکري اور فکري بدہضمي اور اِن کے نتيجے ميں ظلم و تعدّي، تجاوز، روحي ناپختگي، خاندان اور گھرانوں سے متعلق مشکلات ؛ ان دو جنس۔ مردو زن۔ کے باہمي تعلقات ميں اختلاط و زيادتي سے مربوط مسائل ابھي تک عالم بشريت کے حل نشدہ مسائل کا حصہ ہيں۔ يعني مادي ميدانوں ميں ترقي، آسماني واديوں اور کہکشاوں ميں پيشقدمي اور سمندروں کي گہرائيوں ميں اتني کشفيات کرنے، نفسياتي پيچيدگيوں اور الجھنوں کي گھتيّوں کو سُلجھانے اور اجتماعي و اقتصادي مسائل ميں اپني تمام تر حيران کن پيشرفت کے باوجود يہ انسان ابھي تک اس ايک مسئلے ميں زمين گير و ناتواں ہے۔ اگر ميں ان تمام ناکاميوں اور انجام نشدہ امور کو فہرست وار بيان کروں تو اِس کيلئے ايک بڑا وقت درکار ہے کہ جس سے آپ بخوبي واقف ہيں۔

دنيا ميں ’’خانداني‘‘ بحران کي اصل وجہ!

خانداني مسائل کہ جو آج دنيا کے بنيادي ترين مسائل ميں شمار کيے جاتے ہيں ، کہاں سے جنم ليتے ہيں ؟ کيا يہ خواتين کے مسائل کا نتيجہ ہيں يا پھر مردو عورت کے باہمي رابطے کے نتيجے ميں پيدا ہوتے ہيں؟ ايک خاندان اور گھرانہ جو دنيا ئے بشريت کا اساسي ترين رکن ہے، آج دنيا ميں اتنے بحران کا شکار کيوں ہے؟ يعني اگر کوئي بقول معروف آج کي متمدّن مغربي دنيا ميں خاندان کي بنيادوں کو مستحکم بنانے کا خواہ ايک مختصر سا ہي منصوبہ کيوں نہ پيش کرے تو اُس کا شاندار استقبال کيا جائے گا، مرد ، خواتين اور بچے سب ہي اُس کا پُرتپاک استقبال کريں گے۔

اگر آپ دنيا ميں ’’خاندان‘‘ کے مسئلے پر تحقيق کريں اور خاندان کے بارے ميں موجود اس بحران کو اپني توجہ اور کاوش کا مرکز قرار ديں تو آپ ملاحظہ کريں گے کہ ِاس بُحران نے اِن دو جنس يعني مرد وعورت کے درميان باہمي رابطے، تعلّقات اور معاشرے سے مربوط حل نشدہ مسائل سے جنم ليا ہے يا بہ تعبير ديگر يہ نگاہ و زاويہ، غلط ہے۔ اب ہم لوگ ہيں اور مقابل ميں مرد حضرات کے خود ساختہ افکار و نظريات ہيں، تو جواب ميں ہم يہي کہيں گے کہ خواتين کے مسئلے کو جس نگاہ و زاويے سے ديکھا جارہا ہے وہ صحيح نہيں ہے اور يہ بھي کہا جاسکتا ہے کہ مردوں کے مسئلے کو اس زاويے سے ديکھنا بھي غير معقول ہے يا مجموعاً ان دونوں کي کيفيت و حالت کا اِس نگاہ سے جائزہ لينا سراسر غلطي ہے۔

مرد و عورت کي کثير المقدار مشکلات کا علاج

اس مسئلے کي مشکلات ، زيادہ اور مسائل فراوان ہيں ليکن سوال يہ ہے کہ ان سب کا علاج کيسے ممکن ہے؟ اِن سب کا راہ حل يہ ہے کہ ہم خداوند عالم کے بنائے ہوئے راستے پر چليں۔ دراصل مرد وعوت کے مسائل کے حل کيلئے پيغام الٰہي ميں بہت ہي اہم مطالب بيان کئے گئے ہيں لہٰذا ہميں ديکھنا چاہيے کہ پيغام الٰہي اِس بارے ميں کيا کہتا ہے۔ خداوند عالم کے ’’پيغام وحي‘‘ نے اِس مسئلے ميں صرف وعظ و نصيحت کرنے پر ہي اکتفا نہيں کيا ہے بلکہ اس نے راہ حل کيلئے زندہ مثاليں اور عملي نمونے بھي پيش کيے ہيں۔

آپ ملاحظہ کيجئے کہ خداوند عالم جب تاريخ نبوّت سے مومن انسانوں کيلئے مثال بيان کرنا چاہتا ہے تو قرآن ميں يہ مثال بيان کرتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ’’وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً لِلَّذِيْنَ آمَنُوْا امرَآَتَ فِرعَونَ ‘‘(۱) ۔ (اللہ نے اہل ايمان کيلئے زن فرعون کي مثال بيان فرمائي ہے)۔ حضرت موسي کے زمانے ميں اہل ِ ايمان کي کثير تعداد موجود تھي کہ جنہوں نے ايمان کے حصول کيلئے بہت جدوجہد اور فداکاري کي ليکن خداوند عالم نے ان سب کے بجائے زن فرعون کي مثال پيش کي ہے۔ آخر اِس کي کيا وجہ ہے؟ کيا خداوند عالم خواتين کي طرفداري کرنا چاہتا ہے يا در پردہ حقيقت کچھ اور ہے؟ حقيقتاً مسئلہ يہ ہے کہ يہ عورت (زن فرعون) خدا کے پسنديدہ اعمال کي بجا آوري کے ذريعے ايسے مقام تک جاپہنچي تھي کہ فقط اُسي کي مثال ہي پيش کي جاسکتي تھي۔ يہ حضرت فاطمہ زہر علیھا السلام اور حضرت مريم علیھا السلام سے قبل کي بات ہے۔ فرعون کي بيوي ، نہ پيغمبر ہے اور نہ پيغمبر کي اولاد ، نہ کسي نبي کي بيوي ہے اور نا ہي کسي رسول کے خاندان سے اُس کا تعلق ہے۔ ايک عورت کي روحاني و معنوي تربيت اور رُشد اُسے اس مقام تک پہنچاتي ہے !

البتہ اس کے مقابلے ميں يعني برائي ميں بھي اتفاقاً يہي چيز ہے۔ يعني خداوند متعال جب بُرے انسانوں کيلئے مثال بيان کرتاہے تو فرماتا ہے۔ ’’ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ کَفَرُوا امرَآَتَ نُوحٍ وَّ امرَآَتَ لُوطٍ ‘‘(۲) (اللہ نے اہل کفر کيلئے نوح اور لوط کي بيويوں کي مثال پيش کي ہے)۔ يہاں بھي خدا نے دو عورتوں کي مثال پيش کي ہے کہ جو برے انسانوں سے تعلق رکھتي تھيں۔ حضرت نوح اور حضرت لوط کے زمانے ميں کافروں کي ايک بہت بڑي تعداد موجود تھي اور ان کا معاشرہ برے افراد سے پُر تھا ليکن قرآن اُن لوگوں کو بطور ِ مثال پيش کرنے کے بجائے حضرت نوح و حضرت لوط کي زوجات کي مثال بيان کرتا ہے۔

اہل ايمان کيلئے زن فرعون کي مثال کے پيش کيے جانے کے ذريعے صِنفِ نازک پر يہ خاص عنايت اورايک عورت کے مختلف عظيم پہلووں اور اُس کے مختلف ابعاد پر توجہ کي اصل وجہ کيا ہے؟ شايد يہ سب اِس جہت سے ہو کہ قرآن يہ چاہتا ہے کہ اُس زمانے کے لوگوں کے باطل اور غلط افکار و نظريات کي جانب اشارہ کرے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُس زمانہ جاہليت کے باطل افکار و عقائد آج بھي ہنوز باقي ہيں ، خواہ وہ جزيرۃ العرب کے لوگ ہوں جو اپني بيٹيوں کو زندہ درگور کرديتے تھے يا دنيا کي بڑي شہنشاہت کے زمانے کے لوگ ہوں مثل روم و ايران۔

يورپ کي موجودہ تمدن کي بنياد

يورپ کے موجودہ تمدن کي بنياد، روم کي قديمي تہذيب و ثقافت پر قائم ہے۔ يعني يورپ و مغرب اور اُس کے ذيل ميں امريکي تہذيب و ثقافت پر سرسے پير تک جو چيز مسلط و حاکم ہے،وہ وہي اصول و نکات ہيں کہ جو رومي شہنشاہيت کے زمانے ميں موجود تھے اور وہي اصول و قوانين آج ان ممالک کي ثقافت اور تہذيب و تمدن کا معيار بنے ہوئے ہيں۔ اُس زمانے ميں بھي خواتين کا بہت زيادہ احترام کيا جاتا تھا ، انہيں بہت بلند مقام و مرتبہ دياجاتا تھا اور مختلف قسم کے زيوراور آرائش وزينت سے انہيں مزين کيا جاتا تھا مگر کس ليے؟ صرف اس ليے کہ مرد کي ايک خاکي و پست اور سب سے زيادہ مادي (اور حيواني وشہوتي) خصلت کي سيرابي کا وسيلہ بن سکے! يہ ايک انسان اور صنف نازک کي کتني بڑي تحقير اور توہين ہے !

ايراني شہنشاہيت کے زمانے ميں ايران بھي بالکل ايسا ہي تھا۔ ساساني سلسلہ بادشاہت کے حرم سراوں کے قصے تو آپ نے سنے ہوں گے۔ حرم سرا کا مطلب آپ کو پتہ ہے؟! حرم سرا يعني عورت کي اہانت وتذليل کي جگہ۔ايک مرد چونکہ قدرت کا حامل ہے لہٰذا وہ خود کو يہ حق ديتا ہے کہ وہ ايک ہزار عورتوں کو اپنے حرم سرا ميں رکھے۔ اُس زمانے کے بادشاہ کي رعايا کا ہر فرد بھي اگر قدرت و توانائي رکھتا تو وہ بھي اپني حيثيت و طاقت کے مطابق ايک ہزار، پانچ سو، چارسو يا دو سو عورتوں کو اپنے پاس رکھتا۔ يہ واقعات و حقائق عورت سے متعلق کون سے افکار و نظريات کي عکاسي کرتے ہيں؟!

مغربي عورت کي حالت زار

ہميں مغرب سے ابھي بہت کچھ طلب کرنا ہے کہ جس نے تاريخ کے مختلف ادوار سے ليکر آج تک اِس صنفِ نازک کي اتني تحقير و تذليل کي ہے۔ آپ توجہ کيجئے کہ ابھي ماضي قريب تک يورپ اور مغربي ممالک ميں خواتين کو اپنے مستقل اور جداگانہ مالي حقوق حاصل نہيں تھے۔ ميں نے ايک دفعہ کافي تحقيق کے بعد اس بارے ميں اعداد و شمار آج سے تقريباً چار ، پانچ سال(۳) قبل نماز جمعہ کے کسي خطبے ميں ذکر کيے تھے۔ مثلاً بيسويں صدي کے اوائل تک اُن تمام بلند و بانگ دعووں ، مغرب ميں روز بروز پھيلنے والي بے حيائي اور حد سے گزر جانے والے اور بے مہار جنسي اختلاط و بے راہ روي کے بعد بھي کہ جس کے بعد يہ لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ عورت کو اس طرح زيادہ احترام و بلند مقام ديا جاتا ہے، مغربي عورت کو يہ حق حاصل نہيں تھا کہ وہ اپنے ذاتي مال و ثروت سے آزادانہ استفادہ کرے! وہ شوہر کے مقابلے ميں اپنے ذاتي مال و دولت کي بھي مالک نہيں تھي! يعني جو عورت بھي شادي کرتي تھي اُس کي تمام جمع پونجي اور مال ودولت سب اُس کے شوہر کي ملکيت ميں چلا جاتا تھا اور عورت کو اپنا ہي مال خرچ کرنے کا کوئي اختيار حاصل نہيں تھا، يہاں تک کہ بيسويں صدي کے اوائل ميں خواتين کو نوکري و ملازمت اور ملکيت کا حق ديا گيا۔ اہل مغرب نے اس مسئلے کو بھي جو انساني حقوق کے بنيادي اور ابتدائي ترين مسائل سے تعلق رکھتا ہے ، عورت کي پہنچ سے دور رکھا۔ جبکہ اپني تمام تر توجہ اُن مسائل کي جانب رکھي کہ جو خواتين کے اُن قيمتي اور حقيقتاً قابل قدر مسائل کے مد مقابل ہيں کہ جن کي اسلام ميں بہت تاکيد کي گئي ہے۔ يہ جو حجاب اور پردے کے بارے ميں ہمارے يہاں اتني تاکيد کي گئي ہے، اس کي وجہ بھي يہي ہے(۴) ۔

حقوق نسواں کے بارے ميں استکبار کي غلطي

جاہليت سے مالا مال عالمي استکبار بہت بڑي غلطي ميں ہے کہ جو يہ خيال کرتا ہے کہ ايک عورت کي قدرو قيمت اور بلند مقام اِس ميں ہے کہ وہ خود کو مردوں کيلئے زينت و آرائش کرے تاکہ آوارہ لوگ اسے ديکھيں، اُس سے ہر قسم کي لذت حاصل کريں اور اُس کي تعريف کريں۔ مغرب کي انحطاط شدہ اورمنحرف ثقافت کي جانب سے ’’آزادي نِسواں‘‘ کے عنوان سے جو چيز سامنے آئي ہے اُس کي بنياد اِس چيز پر قائم ہے کہ عورت کو مردوں کي (حيواني اور شہوتي) نگاہوں کا مرکز بنائيں تاکہ وہ اُس سے جنسي لذت حاصل کرسکيں اور عورت ، مردوں کي جنسي خواہشات کي تکميل کيلئے ايک آلہ و و سيلہ بن جائے، کيا اِسي کو ’’آزادي نسواں‘‘ کہا جاتاہے؟

جو لوگ حقيقت سے جاہل اورغافل مغربي معاشرے اور گمراہ تہذيب و تمدن ميں اِ س بات کا دعويٰ کرتے ہيں کہ وہ انساني حقوق کے طرفدار ہيں تو درحقيقت يہ لوگ عورت پر ظلم کرنے والوں کے زمرے ميں شمار ہوتے ہيں ۔ آپ عورت کو ايک بلند مرتبہ و مقام کے حامل انسان کي حيثيت سے ديکھئے تاکہ معلوم ہو کہ اُس کا کمال ، حق اور اس کي آزادي کيا ہے؟آپ عورت کوعظيم انسانوں کے سائے ميں پرورش پانے والے اور اصلاح معاشرہ کيلئے ايک مفيد عنصر کي حيثيت سے ديکھے تاکہ يہ معلوم ہو کہ اُس کا حق کيا ہے اور وہ کس قسم کي آزادي کي خواہاں ہے ( اور کون سي آزادي اُس کے انساني مقام ومنصب سے ميل کھاتي ہے)۔ آپ عورت کو ايک گھرانے اور خاندان کي تشکيل دينے والے بنيادي عنصر کي حيثيت سے اپني توجہ کا مرکز قرار ديں۔درست ہے کہ ايک مکمل گھرانہ مرد اور عورت دونوں سے تشکيل پاتا ہے اور يہ دونوں موجود خاندان کي بنياديں رکھنے اور اُ س کي بقا ميں موثر ہيں، ليکن ايک گھرانے کي آسائش اور آرام و سکون عورت کي برکت اور صنفِ نازک کے نرم و لطيف مزاج کي وجہ ہي سے قائم رہتا ہے۔اس زاويے سے عورت کو ديکھئے تاکہ يہ مشخص ہو کہ وہ کس طرح کمال حاصل کرسکتي ہے اور اُس کے حقوق کن امور سے وابستہ ہيں۔

جس دن سے اہل يورپ نے جديد ٹيکنالوجي کو حاصل کرنا شروع کيا اور انيسويں صدي کے اوائل ميں مغربي سرمايہ داروں نے جب بڑے بڑے کارخانے لگائے اور جب اُنہيں کم تنخواہ والے سستے مزدوروں کي ضرورت ہوئي تو انہوں نے ’’آزادي نسواں‘‘ کا راگ الاپنا شروع کرديا تاکہ اِس طرح خواتين کو گھروں سے نکال کر کارخانوں کي طرف کھينچ کر لے جائيں، ايک سستے مزدور کي حيثيت سے اُس کي طاقت سے فائدہ اٹھائيں، اپني جيبوں کو پُرکريں اور عورت کو اُس کے بلند مقام و مرتبے سے تنزُّل ديں۔ مغرب ميں آج جو کچھ ’’آزادي نسواں‘‘ کے نام پر بيان کيا جارہا ہے ، اُس کے پيچھے يہي داستان کار فرماہے ،يہي وجہ ہے کہ مغربي ثقافت ميں عورت پر جو ظلم و ستم ہوا ہے اور مغربي تمدن و ادب ميں عورت کے متعلق جو غلط افکار و نظريات رائج ہيں اُن کي تاريخ ميں مثال نہيں ملتي۔

مغربي عورت، مرد کي نفساني خواہشات کي تسکين کا وسيلہ

تاريخ ميں سب جگہ عورت پر ظلم ہوا ہے ليکن بڑے پيمانے پر ہونے والا يہ ظلم مثلاً ماضي قريب ميں ہونے والا ظلم دراصل مغربي تمدن کا نتيجہ ہے۔ اُنہوں نے عورت کو مرد کي شہوت کي تکميل کے ليے ايک وسيلے کي حيثيت سے متعارف کرايا ہے اور اسے آزادي نسواں کا نام ديا ہے! حالانکہ يہ عورت سے جنسي لذت حاصل کرنے والے آوارہ اور ہر قيد و شرط سے آزاد مردوں کي آزادي ہے نہ کہ عورتوں کي۔

مغرب نے نہ صرف اقتصادو صنعت اور اس جيسے ديگر شعبوں ميں بلکہ ہنر وادب ميں بھي عورت کو اپني ہوس اور ظلم وستم کا نشانہ بنايا ہے۔ آپ آج مغرب کي کہانيوں ، ناولوں ، مصوّري و نقاشي اور مختلف قسم کے ہنري کاموںکو ملاحظہ کيجيے تو آپ مشاہدہ کريں کہ يہ لوگ عورت ذات کو کس نگاہ و زاويے سے ديکھتے ہيں؟ کيا اِس نظر و زاويے ميں عورت ميں موجود قيمتي اقدار و صفات (اور استعداد ولياقت) پر توجہ دي جاتي ہے؟ کيا عورت سے متعلق يورپي و مغربي طرز فکر ميں عورت ميں خداوند عالم کي طرف سے وديعت کيے گئے نرم و لطيف جذبات، احساسات اور مہرباني و محبت پر کہ جس ميں ماں کي ممتا و پيار اور بچوں کي حفاظت و تربيت شامل ہے، توجہ دي جاتي ہے يا اُس کے شہوتي اور جنسي پہلو اور خود اُن کي تعبير اور اصطلاح کے مطابق عورت کے عشقي پہلو پر ؟ (اُن کي يہ تعبير سراسر غلط ہے اس ليے کہ يہ شہوت پرستي ہے نہ کہ عشق )۔ انہوں نے عورت کي اس طرح پرورش کي، يعني جب بھي اورکوئي بھي چاہے اُسے استعمال کرے اور اسے ايک ايسا مزدور بنادے جو کم طلب اور ارزاں قيمت ہو۔

اسلام ميں خواتين کي فعاليت و ملازمت

اسلام ان تمام چيزوں کو اہميت نہيں ديتا ہے۔ اسلام خواتين کے کام اور ملازمت کرنے کا موافق ہے بلکہ اُن کي فعاليت و ملازمت کو اُن حد تک کہ اُن کي بنيادي اور سب سے اہم ترين ذمے داري يعني تربيت اولاد اور خاندان کي حفاظت سے متصادم نہ ہو شايد لازم و ضروري بھي جانتا ہے۔ ايک ملک اپني تعمير و ترقي کيلئے مختلف شعبہ ہائے زندگي ميں خواتين کي قدرت و توانائي سے بے نياز نہيں ہوسکتا! ليکن شرط يہ ہے کہ يہ کام اور فعاليت ، عورت کي معنوي اورانساني کرامت و بزرگي اور قدر و قيمت سے منافات نہيں رکھتے ہوں، مرد اُس کي تذليل و تحقير نہ کرے اور اُسے اپنے سامنے تواضع اور جھکنے پر مجبور نہ کرے۔ تکبر تمام انسانوں کيلئے مذموم اور بدترين صفت ہے سوائے خواتين کے اور وہ بھي نامحرم مردوں کے مقابل ! عورت کو نامحرم مرد کے سامنے متکبر ہونا چاہيے۔ ’’فلا يَخضَعنَ فِي القَولِ ‘‘(۵) ، عورت کو نامحرم مرد کے سامنے نرم و ملائم لہجے ميں بات نہيں کرني چاہيے،اس ليے کہ يہ عورت کي کرامت وبزرگي کي حفاظت کيلئے لازمي ہے۔ اسلام نے عورت کيلئے اِسي کو پسند کيا ہے اور يہ ايک مسلمان عورت کيلئے مثالي نمونہ ہے۔

خواتين کو ہماري دعوت!

يہي وہ جگہ ہے کہ جہاں ہم بالکل درست دنيائے استکبار کے مد مقابل مدّعي ہيں۔ ميں نے مختلف مبلغين اور مقررين کے سامنے بارہا مسئلہ خواتين کو ذکر کيا ہے کہ يہ ہم نہيں ہيں کہ جو (خواتين اور ديگر مسائل کے بارے ميں ) اپنے موقف کا دفاع کريں بلکہ يہ مغرب کي منحرف ثقافت ہے کہ جو اپنا دفاع کرے۔ہم خواتين کے بارے ميں جو کچھ بھي بيان کرتے ہيں در حقيقت وہ چيز ہے کہ جس کا کوئي بھي با انصاف اور عقل مند انسان منکر نہيں ہوسکتا ہے کہ ’’يہ عورت کيلئے بہترين ہے‘‘۔ ہم خواتين کو عفت ، عصمت ، حجاب ، مرد و عورت کے درميان ہر قسم کي قيد و شرط سے آزاد باہمي اختلاط و روابط سے دوري، اپني انساني کرامت و بزرگي کي حفاظت اور نامحرم مرد کے سامنے زينت و آرائش نہ کرنے کي تاکہ وہ عورت سے لذت حاصل نہ کرے، دعوت ديتے ہيں ۔ کيا يہ باتيں بري ہيں؟! يہ ايک مسلمان عورت سميت تمام عورتوں کيلئے کرامت وبزرگي ہے۔

وہ افراد جو خواتين کو اس بات کي ترغيب ديتے اور اُن کي ہمتيں بندھاتے ہيں کہ وہ اپني اِس طرح زينت و آرائش کريں کہ کوچہ و بازار کے مرد اُن پر نگاہ ڈاليں اور اپني جنسي خواہشات کي سيرابي کيلئے (حرام راستے سے) اقدامات کريں ،تو ہم يہ کہتے ہيں کہ ان خواتين کو چاہيے کہ اپنا دفاع کريں کہ مرد، عورت کو اس حد تک پست کيوں کرے اور اُس کي اتني تحقير وتذليل کرے؟ ايسے لوگوں کو جواب دينا چاہيے۔ ہماري اسلامي ثقافت ، ايسي ثقافت ہے کہ جسے مغرب کے عقل مند افراد اور مفکرين پسند کرتے ہيں اور اُن کا کردار ايسا ہي ہے۔ اُس مغربي ثقافت ميں صاحب عفت، متين اور سنجيدہ خواتين بھي ہيں کہ جو اپنے ليے قدر وقيمت کي قائل ہيں اور اِس بات کيلئے قطعاً حاضر نہيں ہيں کہ خود کو اجنبي، آوارہ اور ہر قيد و شرط سے آزاد مردوں کي جنسي خواہشات کي تسکين کا وسيلہ قرار ديں۔ مغرب کي منحرف شدہ ثقافت ميں اس جيسي مثاليں فراوان ہيں۔(۶)

____________________

١ سورئہ تحريم / ١١

٢سورئہ تحريم / ١٠

۳اگست ، اکتوبر اور نومبر ١٩٨٦ئ ميں نماز جمعہ کے خطبات

۴ خواتين کي ثقافتي کميٹي کے اراکين، مختلف ليڈي ڈاکٹروں اور پہلي اسلامي حجاب کانفرنس کے عہديداروں سے ١٩٩١ئ ميں خطاب

۵ سورئہ احزاب / ٣٣

۶ ١٩٩٢ئ ميں خواتين کے ايک گروہ سے ملاقات

دوسرا باب:

خواتين کے مسائل اور حقوق کے بارے ميں اسلام کي عادلانہ نظر

دريچہ

اسلام،خواتين کيلئے ايک عظيم و بلند مقام و مرتبے کا قائل ہے اور انہيں مشخص شدہ حقوق اور عملي زندگي خصوصاً خاندان کے قيام ودوام ميں بنيادي کردار عطا کرتا ہے اور اِسي طرح اُن کے اور مردوں کے درميان فطري اورمنطقي حدود کو معين کرتاہے۔

خواتين کيلئے اسلام کي سب سے بڑي خدمت، معاشرے کے اِس اہم طبقے اور اُن کے حقوق کي نسبت عمومي نظر وزاويے کي اصلاح اور خواتين کو ايک جامع خانداني نظام اورمعاشرتي زندگي ميں ايک اہم کردار دلانا ہے۔ اس سلسلے ميں خانداني نظام زندگي ميں اُن کے حقوق اور مقام و مرتبے کو استحکام بخشنا،فضول خرچي، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، تجمّل پرستي، زينت و آرائش کو ظاہر نہ کرنا اور جنسي و مادي امور ميں سرگرمي کو ممنوع قرار دينا اور خواتين کے رُشد و معنوي ترقي اوربلند وبالا انساني مقامات تک رسائي کے امکانات فراہم کرنا، اسلام کي ہدايت اور منصوبہ بندي ميں شامل ہيں۔

پہلي فصل

عورت، عالم ہستي کا اہم ترين عنصر

عورت ، عالمِ خلقت کے اہم ترين امور کي ذمہ دار

ميري بہنو! خواتين کا موضوع اورمعاشرے کا اُس سے برتاو اور رويہ ايسا مسئلہ ہے جو ہميشہ سے مختلف معاشروں اورمختلف تہذيب وتمدن ميں زير گفتگو رہا ہے۔ اس دنيا کي نصف آبادي ہميشہ خواتين پر مشتمل رہي ہے۔ دنيا ميں زندگي کا قيام جس تناسب سے مردوں سے وابستہ ہے،اُسي طرح خواتين سے بھي مربوط ہے۔خواتين نے عالم خلقت کے بڑے بڑے کاموں کو فطري طور پر اپنے ذمے ليا ہوا ہے اور تخليق کے بنيادي کام مثلاًبچے کي پيدائش اورتربيت اولاد ، خواتين کے ہاتھوں ميں ہيں۔ پس خواتين کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے اور مختلف معاشروں ميں مختلف مفکرين اورمختلف اقوام وملل کے اخلاق وعادات ميں ہميشہ سے موضوع بحث رہا ہے۔ اسلام نے اِن اہم موضوعات ميں سے ايک اہم موضوع کو منتخب کرکے اُسے افراط و تفريط سے بچاتے ہوئے دنيا کے تمام لوگوں کو خبردارکيا ہے۔

خواتين مرد کے شانہ بشانہ بلکہ اُن سے بھي آگے?!

اسلام نے اُن مردوں کو جو اپنے قدرت مند جسم يا مالي توانائي کي وجہ سے مردوں اور خواتين کو اپنا نوکر بناتے ، اُن سے خدمت ليتے اور خواتين کو اذيت وآزار اور کبھي کبھي تحقير کا نشانہ بناتے تھے، مکمل طور پر خاموش کرديا ہے اور خواتين کو اُن کے حقيقي اور مناسب مقام تک پہنچايا ہے بلکہ خواتين کو بعض جہات سے مردوں کے شانہ بشانہ لاکھڑا کيا ہے۔ ’’اِنَّ المُومِنِينَ وَالمُومِنَاتِ وَالمُسلِمِينَ والمُسلِماتِ?‘‘ (قرآن بيان کررہا ہے کہ ) مسلمان مرد اورمسلمان عورت، عابد مرد اور عابدعورت اور نماز شب پڑنے والا مرد اور نماز شب ادا کرنے والي عورت ۔

پس اسلام نے انساني درجات اور روحاني مقامات کو مرد وعورت کے دميان برابر برابر تقسيم کيا ہے۔ (يعني ان مقامات تک رسائي ان دونوں ميں سے کسي ايک سے مخصوص نہيں ہے بلکہ دونوں ميں سے کوئي بھي يہ مقام حاصل کرسکتا ہے)۔ اس زاويے سے مرد وعورت ايک دوسرے کے مساوي اور برابر ہيں۔ جو بھي خدا کيلئے نيک عمل انجام دے گا ’’مِن ذَکَرٍ اَو اُنثيٰ‘‘، خواہ مرد ہو يا عورت، ’’فَلَنُحيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ‘‘(۱) ، ہم اُسے حيات طيبہ عطا کريں گے۔

اسلام نے کچھ مقامات پر عورت کو مرد پر ترجيح دي ہے۔ مثلاً جہاں مرد و عورت ،ماں وباپ کي صورت ميں صاحب اولاد ہيں۔ اُن کي يہ اولاد اگرچہ کہ دونوں کي مشترکہ اولاد ہے ليکن اولاد کي اپني ماں کيلئے خدمت و ذمے داري باپ کي بہ نسبت زيادہ اور لازمي ہے۔ اولاد پر ماں کا حق باپ کي بہ نسبت زيادہ ہے اورماں کي نسبت اولاد کا وظيفہ بھي سنگين ہے۔

خاندان ميں عورت کا حق!

اس سلسلے ميں بہت زيادہ روايات نقل کي گئي ہيں۔پيغمبر اکرم ۰ سے کسي نے سوال کيا: ’’من عبر؟‘‘ (ميں کس سے نيکي کروں)۔ آپ ۰ نے جواب ميں فرمايا ’’اُمَّکَ‘‘۔ يعني اپني ماں سے۔ آپ ۰ نے اس کے دوسرے سوال کے جواب ميں بھي يہ فرمايا اوراس کے تيسرے سوال کا يہي جواب ديا ليکن چوتھي مرتبہ جواب ميں فرمايا ’’اَبَاکَ‘‘ (اپنے باپ سے نيکي کرو)۔ پس خاندان کي چار ديواري ميں عورت کا اولاد پر حق بہت سنگين ہے۔ البتہ اِس وجہ سے نہيں ہے کہ خداوند عالم يہ چاہتا ہے کہ ايک طبقے کو اکثريت پر ترجيح دے بلکہ يہ اِس جہت سے ہے کہ خواتين زيادہ زحمتيں برداشت کرتي ہيں۔

يہ بھي عدل الٰہي ہے کہ خواتين کي زحمتيں زيادہ ہيں تو اُن کا حق بھي زيادہ ہے اور خواتين زيادہ مشکلات کا سامنا کرتي ہيں لہٰذا اُن کي قدر و قيمت بھي زيادہ ہے۔ يہ سب عدالتِ الٰہي کي وجہ سے ہے۔ مالي مسائل ميں مثلاً خاندان اور اُس کي سرپرستي کا حق اوراُس کے مقابل خاندان کو چلانے کي ذمہ داري ميں اسلامي روش ايک متوازن متعادل روش ہے۔ اسلامي قانون نے اِس بارے ميں اتني سي بھي اجازت نہيں دي ہے کہ مرد يا عورت پر ذرہ برابر ظلم ہو۔ اسلام نے مرد وعورت دونوں کا حق الگ الگ بيان کياہے اور اُس نے مرد کے پلڑے ميں ايک وزن اور عورت کے پلڑے ميں دوسرا وزن رکھا ہے۔ اگر اِن موارد ميں اہل فکر توجہ کريں تو وہ ان چيزوں کو ملاحظہ کريں گے۔ يہ وہ چيزيں ہيں کہ جنہيں کتابوں ميں بھي لکھا گيا ہے۔ آج ہماري فاضل اور مفکر خواتين الحمدللہ ان تمام مسائل کو دوسروں اور مردوں سے بہتر طور پر جانتي ہيں اوران کي تبليغ بھي کرتي ہيں۔يہ تھا مرد و عورت کے حقوق کا بيان۔

____________________

١ سورئہ نحل / ٩٧