عورت ،گوہر ہستی

عورت ،گوہر ہستی27%

عورت ،گوہر ہستی مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خواتین

عورت ،گوہر ہستی
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 41 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16477 / ڈاؤنلوڈ: 3821
سائز سائز سائز
عورت ،گوہر ہستی

عورت ،گوہر ہستی

مؤلف:
اردو

دوسري فصل

اسلام اورحجاب

مرد اور عورت کي درمياني ’’حد‘‘ پر اسلام کي تاکيد

يہاں ايک بنيادي نکتہ ہے کہ جس پر اسلام نے بہت زيادہ تاکيد کي ہے اور وہ يہ ہے کہ تاريخ ميں مردوں کے مزاج ،عورتوں کي بہ نسبت سخت اور اِن کے ارادے مشکلات کا مقابلہ کرنے کي وجہ سے قوي اور جسم مضبوط رہے ہيں۔ اِسي وجہ سے انہوں نے اہم ترين کاموں اور مختلف قسم کي ذمہ داريوں کو اپنے عہدے ليے ہوا تھا اور يہي وہ چيز ہے کہ جس نے مردوں کيلئے اپني جنس مخالف سے اپنے فائدے کيلئے سوئ استفادہ کرنے کے امکانات فراہم کيے ہيں۔ آپ ديکھئے کہ بادشاہوں، ثروت مند، صاحب مقام و صاحب قدرت افراد ميں سے کون نہيں ہے کہ جس نے اپنے اپنے درباروں اور اپنے اپنے دارئرہ کار ميں اپنے مال و دولت اور مقام قدرت وغيرہ کے بل بوتے صنف نازک سے سوئ استفادہ ،دست درازي اور بے آبروئي کيلئے اقدامات نہ کيے ہوں؟!

يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام اپني پوري قوت و قدرت کے ساتھ احکامات جاري کرتا ہے اور معاشرے ميں مرد وعورت کے درميان حد اور فاصلے کو قرار ديتا ہے اور ان کے درميان تعلقات ميں سختي و پابندي کرتا ہے۔ اسلام کي رو سے کسي کو بھي يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ اِس حد کو پائمال کرے اور اس قانون کي بے احترامي کر ے ، کيونکہ اسلام نے خاندان اور گھرانے کو بہت زيادہ اہميت دي ہے۔ گھر کے گلشن ميں مرد و عورت کا باہمي رابطہ کسي اور قسم کا ہے اور معاشرے ميں کسي اور قانون کے تابع۔ اگر معاشرے ميں مردو عورت کے درميان حائل فاصلوں کے قانون کا خيال نہ رکھا جائے تو نتيجے ميں خاندان اور گھرانہ خراب ہوجائے گا۔ گھرانے ميں عورت پر اکثر اوقات اورمرد پر کبھي کبھار ممکن ہے ظلم ہو۔ اسلامي ثقافت ، مرد وعورت کے درميان عدم اختلاط کي ثقافت ہے۔ ايسي زندگي، خوشبختي سے آگے بڑھ سکتي ہے اورعقلي معيار وميزان کي رعايت کرتے ہوئے صحيح طريقے سے حرکت کرسکتي ہے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام نے سختي کي ہے۔

اسلام کي رو سے اگر معاشرے ميں (نامحرم) مرد اور عورت کے درميان فاصلے اور حد کو عبور کيا جائے،خواہ يہ خلاف ورزي مرد کي طرف سے ہو يا عورت کي طرف سے تو اسلام نے اِس معاملے ميں سخت گيري سے کام ليا ہے۔ اسي نکتے کے بالکل مقابل وہ چيز ہے کہ جسے ہميشہ دنيا کے شہوت پرستوں نے چاہا اور اس پر عمل کرتے رہے ہيں۔ صاحبان زر وزمين اور قدرت وطاقت رکھنے والے مرد،خواتين ، اُن کے ماتحت افراد اور اُن افراد نے کہ جنہوں نے اِن افراد کے ساتھ اور اِن کيلئے زندگي بسر کي، يہي چاہا ہے کہ مردو عورت کادرمياني فاصلہ اور حجاب ختم ہوجائے۔ البتہ خود يہ امر معاشرتي زندگي اورمعاشرتي اخلاق کيلئے بہت برا اور مُضّر ہے۔ يہ فکر و خيال اورعمل معاشرتي حيا و عفت کيلئے باعث زياں اور گھر و گھرانے کيلئے بہت نقصان دہ اور برا ہے اور يہ وہ چيز ہے کہ جو خاندان اورگھرانے کي بنيادوں کو متزلزل کرتي ہے۔

حجاب و پردے ميں اسلام کي سنجيدگي

اسلام، خاندان اورگھرانے کيلئے بہت زيادہ اہميت کا قائل ہے۔ مسلمانوں سے مغرب کي تمام پروپيگنڈا مشينريوں کا اختلاف اورجرح و بحث اِسي مسئلے پر ہے۔ آپ ديکھئے کہ اہل مغرب حجاب و پردے کے مسئلے پرکتني حسّاسيت ظاہر کرتے ہيں! اگر يہ حجاب ، اسلامي جمہوريہ ميں ہو اُسے برا شمار کرتے ہيں، اگرعرب ممالک کي يونيورسٹيز و جامعات ميں ہو کہ جہاں جوان لڑکياں اپني معرفت، آگاہي اور اپنے تمام ميل و اختيار سے حجاب کا انتخاب کرتي ہيں ،تو اپني حساسيت ظاہر کرتے ہيں اور اگر سياسي پارٹيوں اور جماعتوں ميں حجاب ہو تو بھي ان کي بھنويں چڑھ جاتي ہيں۔حتي اگرخود اُن کے اسکولوں ميں لڑکياں باحجاب ہوں تو باوجود يہ کہ يہ لڑکياں اُن کے ملک کي باشندہ ہيں ليکن پھر بھي يہ لوگ حجاب کي نسبت حسا س ہوجاتے ہيں۔ پس اختلاف کي جڑ يہيں ہے۔ البتہ خود يہ لوگ اپني پروپيگنڈا مشينري کے ذريعے ہر وقت فرياد بلند کرتے رہتے ہيں کہ اسلام ميں يا اسلامي جمہوريہ ميں خواتين کے حقوق کو پائمال کيا جارہا ہے ۔ حقيقت تو يہ ہے کہ خود اُن کو اس مسئلے کا يقين نہيں ہے اور وہ جانتے ہيں کہ اسلامي جمہوريہ ايران ميں خواتين کے حقوق کمزور اور پائمال ہونے کے بجائے اُن کا بہت زيادہ خيال رکھا جاتا ہے۔

اسلامي انقلاب اورحقوق نسواں!

آپ توجہ کيجئے کہ آج ايران کے اعليٰ تعليمي اداروں اور جامعات ميں خواتين طالب علموں اور تحصيل علم ميں مصروف لڑکيوں کي تعداد زيادہ ہے يا زمانہ طاغوت ميں ؟ توآپ ديکھيں گے کہ تعداد آج زيادہ ہے ۔ حصول تعليم کے ميدان ميں اچھي پوزيشن اور اچھے نمبر (درجات) لانے والي لڑکيوں کي تعداد آج زيادہ ہے يا شاہي حکومت کے زمانے ميں تھي۔ وہ خواتين جو ہسپتالوں ، صحت کے مراکز اورمختلف علمي اداروں ميں کام اور تحقيق ميں مصروف عمل ہيں آج اُن کي تعداد زيادہ ہے يا گزشتہ زمانے ميں زيادہ تھي؟ وہ خواتين جو ملکي سياست اور بين الاقوامي اداروں ميں اپني شجاعت و دليري کے ذريعے اپنے ملک و قوم کے حقوق اور موقف کا دفاع کرتي ہيں، اُن کي تعداد آج زيادہ ہے يا انقلاب سے قبل اُن کي تعداد زيادہ تھي؟ آپ ديکھيں گے کہ ان کي تعداد آج پہلے کي نسبت زيادہ ہے۔شاہي حکومت کے زمانے ميں خواتين مختلف گروپوں کي شکل ميں سياحت اور سفر کيلئے جاتي تھيں اور يہ سفر بہت اعليٰ پيمانے پر ہوتے تھے ليکن ہوس راني، شہوت پرستي اور اپني وضع قطع اورزينت و آرائش کو دوسروں کو دکھانے کيلئے۔ ليکن آج کي مسلمان عورت بين الاقوامي اداروں ، بين الاقوامي کانفرنسوں، علمي مراکز اور جامعات ميں علمي ،سياسي اور ديگر قسم کي فعاليت انجام دے رہي ہے اور انہي چيزوں کي قدرو قيمت ہے۔

مغربي اور مغرب زدہ معاشرے ميں خواتين کي صورتحال

طاغوتي ايام ميں ہماري لڑکيوں کو ’’آئيڈيل لڑکي‘‘اور ’’بہترين مثال‘‘ کے نام سے خاندان اور گھرانوں کے پاکيزہ اور پيار ومحبت سے لبريز ماحول سے باہر کھينچ کر برائيوں کي کيچڑ ميں ڈال ديتے تھے ليکن آج ايسي کوئي بات نہيں۔ حقوق نسواں کہاں ضايع ہوتے ہيں؟ جہاں خواتين سے تحصيل علم، مناسب ملازمت ، اُن کي فعاليت اور خواتين کي خدمت کرنے جيسے اہم امور کے دروازے خواتين پر بند کرديے جاتے ہيں اور جہاں اُنہيں تحقير و تذليل کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔ جائيے اور امريکي معاشرے کو ديکھئے! آپ مشاہدہ کريں گے کہ اُس معاشرے ميں عورت کي کتني تحقير کي جاتي ہے! گھر کي عورت ، شوہر کي طرف سے اہانت کا نشانہ بنتي ہے اورماں اپنے بچوں کي طرف سے تحقير کا۔ ماں کے حقوق کہ جس طرح اسلامي مراکز اور معاشروں ميں موجود ہيں، اُس معاشرے ميں اُن کا تصور بھي ممکن نہيں۔

خواتين، معاشرہ اور حجاب!

ميں نے ايک بين الاقوامي فورم ميں بہت ہي اہم اور معروف تقرير ميں خاندان اور گھرانے سے متعلق گفتگوکي۔ بعد ميں جو رپورٹ ہميں ملي وہ اِس بات کي عکاسي کررہي تھي کہ اُس ملک کے باشندوں نے ميري تقرير کے اُسي حصے کو بہت توجہ سے سنا اور بہت زيادہ پسنديدگي کا اظہار کيا ۔ وجہ يہ ہے کہ اُن ممالک ميں خاندان اور گھرانوں کي صورتحال بہت خراب ہوچکي ہے اور وہاں کے معاشرتي نظام ميں خواتين مختلف قسم کي ظلم کي چکي ميں پِس رہي ہے ۔ ليکن ہمارے يہاں مرد و عورت کے درميان ايک حد اورفاصلہ موجود ہے۔ اِس حد اورفاصلے کا مطلب يہ نہيں ہے کہ مرد وعورت ايک جگہ علم حاصل نہيں کريں،ايک جگہ عبادت انجام نہ ديں اور ايک جگہ کاروبار اورتجارت نہ کريں، اس کي مثاليں ہمارے يہاں زيادہ موجود ہيں ، بلکہ اس کا معني يہ ہے کہ وہ اپني معاشرتي زندگي ميں اپنے اخلاق و کردار کيلئے اپنے درميان حد اور فاصلے کو قرار ديں اوريہ بہت اچھي چيز ہے۔ ہمارے معاشرے ميں خواتين (مردوں کے ساتھ معاشرتي تعلقات کے باوجود) اپنے حجاب کي حفاظت کرتي ہيں۔ ہماري عوام نے حجاب کيلئے چادر کو منتخب کيا ہے۔ البتہ ہم نے کبھي يہ نہيں کہا کہ ’’حجاب و پردے کيلئے صرف چادرکو ہي ہونا چاہيے اورچادر کے علاوہ کوئي اور چيز قابل قبول نہيں ہے‘‘، ہاں ہم نے يہ کہا ہے کہ ’’چادر دوسري چيزوں سے زيادہ حجاب کيلئے موزوں اور بہترين ہے‘‘۔ ہماري خواتين اِس بات کي خواہاں ہيں کہ وہ اپنے پردے کي حفاظت کريں لہٰذا وہ چادر کو پسند کرتي ہيں۔ چادر ہماري خواتين کا قومي لبا س ہے۔ چادر قبل اس کے کہ اسلامي حجاب ہو، ايک ايراني حجاب ہے۔ چادر ہماري عوام کا منتخب کيا ہوا حجاب اور خواتين کا قومي لباس ہے۔

اسلامي جمہوريہ ايران ميں خواتين کي ترقي

ہمارے معاشرے ميں تعليم يافتہ،مسلمان اورباايمان خواتين کي تعدادبہت زيادہ ہے جو يا تحصيل علم ميں مصروف ہيں يا ملکي جامعات ميں اعليٰ درجے کے علوم و فنون کو بڑے پيمانے پر تدريس کررہي ہيں اوريہ بات ہمارے اسلامي نظام کيلئے باعث افتخار ہے ۔الحمد للہ ہمارے يہاں ايسي خواتين کي تعدادبہت زيادہ ہے کہ جو طب اور ديگر علوم ميں ماہرانہ اورپيشہ وارانہ صلاحيتوں کي مالک ہيں بلکہ ايسي بھي خواتين ہيں کہ جنہوں نے ديني علوم ميں بہت ترقي کي ہے اور بہت بلند مراتب ودرجات عاليہ تک پہنچي ہيں۔ اصفہان ميں ايک بہت ہي عظيم القدرخاتون گزري ہيں ’’اصفہاني بانو‘‘ کے نام کي کہ جو مجتہدہ ، عارف و فقيہ تھيں۔ اُس زمانے ميں صرف وہ تنِ تنہا تھيں ليکن آج بہت سي ايسي جوان لڑکياں ہيں جو مستقبل قريب ميں علمي، فلسفي اور فقہي اعليٰ مقامات تک رسائي حاصل کرنے والي ہيں اور ايسي خواتين کي تعداد بہت زيادہ ہے۔ يہ خواتين ہمارے اسلامي نظام کيلئے باعث افتخار ہيں۔ اِسے کہتے ہيں پيشرفت زن اور خواتين کي ترقي۔(۱)

____________________

١ اکتوبر ١٩٩٤ ميں نرسوں کے ايک وفد سے خطاب

تيسري فصل

خواتين کے بارے ميں اسلام کي نظر

خواتين کے بارے ميں تين قسم کي گفتگو اوراُن کے اثرات

الف: خواتين کي تعريف و ستائش کي گفتگو

پہلي قسم کي گفتگو انقلاب ميں خواتين کے فعال کردار کي تمجيد و ستائش کے بارے ميں ہے۔ اسي طرح انقلاب کے بعد اور اسلامي تحريک کوپروان چڑھانے ميں خواتين کے موثر کردار کے بارے ميں بھي ہے کہ اگر انقلاب سے قبل اور انقلاب کے زمانے ميں خواتين اِس مبارزے اور تحريک ميں شرکت نہيں کرتيں تو يہ تحريک کبھي کامياب نہيں ہوتي۔ يا موجودہ زمانے ميں خواتين کے کردار کو بيان کرنا ہو تو ہم ديکھتے ہيں جيسا کہ ذمے دار افراد ہميں رپورٹ ديتے ہيںکہ جامعات ميں خواتين کي تعداد زيادہ ہوگئي ہے ،خواتين بڑي بڑي ذمے داريوں کوقبول کررہي ہيں يا وہ عوامي ااجتماعات ميں اس طرح شرکت کرتي ہيں۔ يہ گفتگو کا ايک ايسا سلسلہ ہے کہ جس پر بحث ہوني چاہيے اورہو بھي رہي ہے اور يہ بہتر بھي ہے ۔ يہ بحث و گفتگو نہ صرف يہ کہ ترغيب دينے والي بھي ہے بلکہ حقائق کو روشن بھي کرتي ہے۔اس کے ساتھ ساتھ يہ گفتگو اِس ميدان ميں اسلامي جمہوريہ کے موقف کو سامنے لاتي ہے ليکن خواتين کے مسائل کے مستقبل کيلئے بہت سودمند اور تاثير گزار نہيں ہے۔

ب: خواتين کے بارے ميں اسلام کي نظر کي وضاحت دوسري قسم کي بحث و گفتگو ، خواتين کے بارے ميں اسلام کي نظر کو بيان کرنے کے بارے ميں ہے۔ ايک جگہ ميں نے خواتين سے متعلق گفتگو کي، ميري بحث کا خلاصہ يہ تھا کہ اسلام بنيادي طور پر خواتين کوکس نگاہ و زاويے سے ديکھتا ہے۔ ميں نے کہا تھا کہ عورت تين مقامات پراپنے وجود کو ثابت کرسکتي ہے ۔ اُن ميں سے ايک انساني کمال کا ميدان ہے۔ اس بارے ميں اسلام کي نظر يہ ہے کہ ’’اِنّ المُسلمِينَ والمُسلماتِ والمومِنينَ و المُومنِاتِ والقَانِتِينَ وَالقاَنِتاتِ والصَّادِقِينَ والصَّادِقاتِ وَ الصَّابِرينَ والصَّابِراتِ والخَاشِعِينَ والخَاشَعَاتِ وَالمتَصَدِّقِينَ و المُتصَدِّقاتِ والصَّآئِمِينَ والصَّآئِمَاتِ وَالحَافِظِينَ فُرُوجَهُم وَالحَافِظَاتِ وَالذَّاکرِينَ اللّٰهَ کَثِيراً والذَّاکِراتِ ‘‘ (مسلمان، مومن، صادق ، صابر ، خاشع، صدقہ دينے والے ، روزہ دار، شرمگاہوں کي حفاظت کرنے والے اور خدا کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اورعورتيں)۔يہاں خداوند عالم نے مرد اورعورت کي دس بنيادي صفات کو کسي فرق و تميز کے بغير دونوں کيلئے بيان کيا ہے۔ اس کے بعد خداوند عالم ارشادفرماتا ہے کہ ’’اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُم مَغفِرَةً وَّ اَجراً عَظِيماً ‘‘(۱) (اللہ نے ايسے مردوں اورخواتين کيلئے مغفرت اور اجر عظيم مہيا کيا ہے)۔ لہٰذا اِس ميدان ميں اسلام کينظر کو معلوم کرنا اور اُسے بيان کرنا چاہيے۔

دوسرا ميدان کہ جس ميں عورت اپنے وجود کو ثابت کرسکتي ہے، وہ اجتماعي فعاليت کا ميدان ہے، خواہ وہ سياسي فعاليت ہو، اقتصادي ہو يا اجتماعي يا کوئي اور غرضيکہ عورت، معاشرے ميں وجود رکھتي ہو۔ لہٰذا اِس ميدان ميں بھي اسلام کي نظر کي وضاحت کرني چاہيے۔ خواتين کي فعاليت کاتيسرا ميدان؛ عائلي اور خانداني نظام زندگي ميں عورت کے ميدان سے عبارت ہے لہٰذا اس ميں بھي اسلام کي نظر کو واضح کرنے ضرورت ہے۔

ہمارے محققين و مقريرين ان تمام جہات ميں اسلام کي نظر بيان کررہے ہيں۔ ہم نے بھي کچھ مطالب کو ذکر کيا ہے اور دوسرے افراد بھي گفتگو کررہے ہيں اور يہ بہت اچھي بات ہے۔ ہماري نظرميں يہ بحث وگفتگو ، بہت مفيد اور اچھي ہے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلامي نظريات اورمغربي دعووں کے درميان موازنہ ہونا چاہيے کہ يہ ديکھيں کہ اسلام اِن تين ميدانوں ميں خواتين کے کردار وفعاليت کو کس طرح بيان کرتا ہے اور اہل مغرب اِس بارے ميں کيا کہتے ہيں؟اور حق بھي يہي ہے اور عدل و انصاف بھي اِسي بات کي تائيد کرتا ہے کہ ان تينوں ميدانوں ميں عورت اورمعاشرے کيلئے اسلام کي نظر، دنيا ميں رائج تمام نظريات وگفتگو سے کئي مراتب بہتر، مفيد اور مضبوط ومستحکم ہے۔

پس آپ توجہ کيجئے کہ دوسري قسم کي گفتگو اُن مطالب سے عبارت ہے کہ جہاں مختلف شعبوں ميں اسلام کي نظر بيان کي جاتي ہے اور يہ اچھي بات ہے۔ اِن تمام کاموں کو بھي انجام پانا چاہيے اور يہ بالکل بجا ہيں۔ ممکن ہے اس جگہ مختلف ابہامات اورغير واضح امور موجودہوں۔چنانچہ ضروري ہے کہ افراد بيٹھيں، بحث کريں اور اپنے نظريے کو بيان کريں تو اُس وقت اُس گفتگو کو باآساني اور بہترين طريقے سے زير بحث لايا جاسکتا ہے جو گزشتہ کچھ عرصے سے فقہي حوالے سے ہمارے کانوں ميں پہنچ رہي ہے اور وہ يہ ہے کہ کيا خواتين قاضي بن سکتي ہيں اور کيا خواتين اجتماعي ، معاشرتي اور سياسي منصب کي حامل ہوسکتي ہيں؟

ج: معاشرتي اورگھريلو زندگي ميں خواتين کي مشکلات

تيسري قسم کي بحث وگفتگو ’’خواتين کي مشکلات‘‘ کے بارے ميں ہے کہ اِس بندئہ حقير کي نظر ميں اس مسئلے پر ہميں اپني فکر کو متمرکز کرنا چاہيے۔ چنانچہ اگر ہم نے اس مسئلے کا صحيح حل نہيں نکالا توگزشتہ دوونوں قسم کي گفتگو اوربحث ، خواتين کے مسائل کے حل کے سلسلے ميں کسي کام نہيں آسکيں گي۔ ديکھنا چاہيے کہ عورت کو معاشرے ميں کن مشکلات کا سامنا ہے؟اور اس سے بھي اہم بات يہ کہ عورت اپني عائلي اورگھريلو زندگي ميں کن مشکلوں سے دوچار ہے؟

کون سي گفتگو اہم ہے؟

آپ خواتين کو جو ’’حقوق نسواں اور اُن کے مسائل‘‘ کے ميدان ميں سرگرم عمل ہيں، اِس بات پر ہرگز قانع نہيں ہونا چاہيے کہ کوئي اِس سلسلے ميں يا ايک عورت کے فلاں عہدے کو لینے يا نہ لينے يا ديگر مسائل ميں اسلام کي نظر کو بيان کرنے کيلئے کتاب لکھے۔ لہٰذا اِن چيزوں پر قانع ہوکر اپني فعاليت کو متوقف نہيں کرنا چاہيے بلکہ براہ راست خواتين کي مشکلات کے حل کيلئے اقدامات کرنے چاہئيں۔

____________________

١ سورئہ احزاب / ٣٥

چوتھي فصل

خواتين سے متعلق صحيح اورغلط نظريات

جہالت ، خواتين پر ظلم کا اصل سبب

اس بندئہ حقير کا بيان ہے کہ پوري تاريخ ميں اور مختلف معاشروں ميں عورت ظلم وستم کانشانہ بني ہے۔ ايک جگہ ميں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اِس ظلم و ستم کي وجہ کيا ہے۔يہ تمام ظلم و ستم ، انسان کي جہالت کي وجہ سے سامنے آتے ہیں۔ اِس جاہل انسان کي طبيعت و مزاج يہ ہے کہ جہاں بھي اُس کے سر پرکوئي زورزبردستي کرنے والا نہ ہو، يا خود اُس کے اندر سے يعني واضح اور مضبوط ايمان (کہ اِس کي مثال بہت کم ہے) يا اُس کے باہر سے کسي قانون کا دباو نہ ہو يا اس کے سر پر کوئي تلوار يا قانون کا ڈنڈا نہ ہو تو معمولاً ايسا ہوتا ہے کہ طاقت ور موجود، کمزور پر ظلم کرتا ہے۔

گھر کي حقيقي سربراہ، عورت ہے اور مرد ظاہري حاکم

البتہ عورت عقلي اعتبار سے مرد سے ضعيف وکمزور نہيں ہے بلکہ بعض اوقات اُس سے زيادہ قوي ہے۔ اگرچہ کہ عورت کا انداز فکر، مرد کے اندازفکر سے مختلف ہے اور دونوں کے احساسات وجذبات ميں فرق ہے کيونکہ دونوں کے احساسات وجذبات ايک خاص کام کيلئے خلق کيے گئے ہيں اور انساني وجود ميں اُنہيں وديعت کيا گيا ہے۔ بعض مقامات پر مثلاً ايک علمي مسئلے کے بارے ميں زنانہ اور مردانہ انداز فکر ميں کسي قسم کا فرق نہيں ہوتاہے ليکن زندگي کو چلانے ميں دونوں کے انداز فکر مختلف ہوتے ہيں۔ عاقل اورپختہ عمر کي خواتين ميں يہ بات رائج ہے ، ميں نے بارہا اپني بزرگ اور بڑي خواتين سے سنا ہے اور صحيح سنا ہے کہ وہ کہتي ہے کہ ’’مرد ايک بچے کي مانند ہے‘‘ ، اور بالکل ٹھيک کہتي ہيں اورحقيقت بھي يہي ہے۔ ايک عالم ،فاضل اور باشعور مرد بغير کسي ذہني بيماري و خلل کے اپنے گھر ميں اپني بيوي کے مد مقابل اور اُس کے ساتھ زندگي گزارنے ميں ايک بچے کي مانند ہے اور بيوي اُس بچے کي ماں کي طرح! جس طرح اگر ايک بچے کي غذا ميں تھوڑي تاخير ہوجائے تو وہ رونے چلانے لگتا ہے ۔ لہٰذا اُسے کسي بھي صورت ميں قانع کرنا اور چپ کرانا چاہيے ورنہ وہ ضد کرنے لگتا ہے۔چنانچہ اگرايک عورت اپني مہارت سے ان کاموں کو انجام دے سکے تو ايک مرد اُس کے ہاتھوں رام ہوجاتا ہے۔

آپ توجہ فرمائيے کہ ميں ان باتوں کو کيوں نقل کررہا ہوں ؟ميں نہيں چاہتا کہ مرد کے ايک بچہ ہونے پر دستخط کروں، البتہ يہ اور بات ہے کہ يہ ايک حقيقت ہے، ليکن اس بات کو بيان کرنے ميں ميري مراد يہ نہيں ہے بلکہ ميرے پيش نظر يہ نکتہ ہے کہ مرد اور عورت کي ذہنيت ايک دوسرے سے مختلف ہے۔ عورت کي پختگي و مہارت اُس کے اپنے دائرہ فعاليت ميں اُس کے کام آتي ہے۔ يعني ايک عورت گھر کي چار ديواري ميں يہ سمجھتي ہے کہ مرد ايک بچے کي مانند ہے، لہٰذا اُس کا کھانا وقت پر تيار کرنا چاہيے تاکہ وہ بھوکا نہ رہے ورنہ وہ بداخلاق ہوجائے گا۔ لہٰذا بہانے کا کوئي بھي موقع ہاتھ سے دنيا نہيں چاہيے۔ يافرض کيجئے کہ مرد اعتراض کرتا ہے تو اُسے کسي بھي طريقے سے قانع کرنا چاہيے۔اِس نکتے کي طرف بھرپور توجہ کيجئے! عاقل اور پختہ خواتين پوري مہارت سے يہ کام انجام ديتي ہيں اور مرد کي حرکات وسکنات ،رفتار وعمل اور ذہنيت کو پوري طرح کنٹرول ميں رکھتي ہيں۔ بنابرايں، گھر ميں حقيقي سربراہ عورت ہے جبکہ علي الظاہر ،مرد ظاہري سربراہ ہے، اس ليے کہ وہ بھاري آواز ، مضبوط جسامت اور لمبے قد کاٹھ کا مالک ہوتاہے۔

پس مطلب کو اس طرح بيان کرتے ہيں کہ بعض خواتين کي ذہنيت و عقل مردوں سے زيادہ مستحکم ہے يا وہ تفکر، علم اور احساسات وغيرہ ميں مرد جيسي ہيں ليکن عورت کاجسم بطور متوسط مرد سے کمزور ہوتا ہے ۔ توجہ کيجئے! بنيادي نکتہ يہي ہے۔ ايک مثال فرض کيجئے کہ جہاں ايک عقل مند انسان ايک جاہل اور بدمعاش انسان کے ساتھ ہو اور ان ميں سے کسي ايک کو پاني پينا ہو (اور پاني کا ايک ہي گلاس موجود ہو)۔ قاعدۃً جس کي طاقت زيادہ ہوگي وہ پاني پي جائے گا مگر يہ کہ کسي طرح اُسے دھوکہ ديا جائے اورپاني کا گلاس اُس سے چھين ليا جائے۔ تاريخ ميں ہميشہ سے يہي ہوتا رہا ہے۔ مرد حضرات اپنے لمبي قدوقامت ،بھاري آواز اورمضبوط جسامت اور پٹھووں کي وجہ سے خواتين پر ان کے نازک اندام ہونے، نرم لب ولہجے، نسبتاً چھوٹے قد اور کمزور جسموں کي بنائ پر اُن پر ظلم کرتے رہے ہيں! يہ ايک حقيقت ہے، ميري اپني نظر ميں اگر آپ اِس ماجرا کي تہہ تک پہنچيں اور تحقيق کريں تو آپ اِس مقام پر پہنچيں گي کہ تمام ظلم و ستم کي وجہ يہي ہے۔

خواتين سے متعلق روايات ميں ظالمانہ فکرو عمل سے مقابلہ

ہاں البتہ اگر کوئي قانون يا بہت شديد قسم کي محبت يا مستحکم ايمان جيسا معنوي عامل موجود ہو تو وہ ان تمام ظلم و ستم کا سدّباب کرسکتا ہے۔البتہ ايمان کو مضبوط و مستحکم ہونا چاہيے ورنہ بہت سے علمائ ہيں کہ جن کا ايمان تو بہت اچھاہے ليکن اُسي کے ساتھ ساتھ اُن کا اپني زوجات سے برتاو اور سلوک اچھا نہيں ہے لہٰذا ايسے لوگ ہماري مجموعي بحث کے زمرے ميں آتے ہيں۔ ہميں صرف اِس بات کي وجہ معلوم کرني چاہيے کہ تاريخ ميں خواتين ہميشہ ظلم و ستم کا نشانہ کيوں بني ہيں؟ پيغمبر اکرم ۰ کے زمانے ميں بھي يہ ظلم وستم ہوا ہے اور آنحضرت ۰ نے اِس ظلم سے مقابلہ کيا ہے۔ يہ جو پيغمبر اکرم ۰ نے خواتين کے بارے ميں اتني باتيں ارشاد فرمائي ہيں، صرف اِسي ظلم وستم سے مقابلے کيلئے ہيں۔ اگر وہ صرف مقامِ زن کو بيان کرنا چاہتے تو اِس قسم کے پُرجوش و پُراحساس بيانات کي ضرورت نہيں تھي۔ خواتين کے بارے ميں حضرت ختمي مرتبت ۰ کے احساسات واظہارات اِس چيز کي عکاسي کرتے ہيں کہ آپ ايک چيز سے مقابلہ کرنا چاہتے ہيں اور وہ خواتين پر ہونے والا ظلم ہے اورپيغمبر اکرم ۰ اِس ظلم کے مقابل کھڑے ہيں۔

معاشرتي اورگھريلو زندگي ميں خواتين کے ساتھ زندگي گزارنے کے بارے ميں حضرت ختمي مرتبت ۰ اور آئمہ اہل بيت عليہم السلام سے جو روايات(۱) نقل کي گئي ہيں وہ اِسي ظالمانہ فکر اورستمگرانہ رويے اور عمل سے مقابلے کي خاطرہے۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ يہ ظلم و ستم ہمارے زمانے ميں بھي جاري ہے البتہ صرف ہمارے معاشرے سے مخصوص نہيں ہے۔ليکن اس بات کي طرف ہم سب کي توجہ ہوني چاہيے کہ پوري دنيا ميں يہ ظلم موجود ہے اور مغرب ميں بہت ہي بدترين شکل ميں موجود ہے۔

اہل مغرب کي ايک ظاہري خوبصورتي مگر درحقيقت?؟!

اہل مغرب صرف ايک خصوصيت کے حامل ہيں کہ اگر خود اُس کے مقام پر اُس کے بارے ميں قدرے تآمل اورغوروفکر کيا جائے تومعلوم ہوگا کہ اُن کي يہ خصوصيت مثبت نہيں ہے ۔ ليکن مغربي معاشرے ميں کئي مقامات پر اس خصوصيت وعادت کو بہت زوروشور سے بيان کيا جاتا ہے کہ گويا وہاں ظلم کا سرے سے وجود ہي نہيں ہے۔ وہ عادت و خصوصيت يہ ہے کہ اہل مغرب مرد و عورت کے آپس ميں رويے ، سلوک اوربرتاو کو عورت سے عورت يا مرد سے مرد کے برتاو کے مثل قرار ديتے ہيں يعني وہ ان دو جنس (مرد وعورت) ميں کسي بھي فرق کے قائل نہيں ہيں۔ کوچہ و بازار ہو يا گھر کي چار ديواري ،وہ دوستي ورفاقت اور معاشرت ميں اسي رفتار کے حامل ہيں۔ ظاہر ميں يہ عادت وسلوک بہت دلچسپ اورجالب نظرآتا ہے ليکن جب آپ اس کي حقيقت تک پہنچتے ہيں تو معلوم ہوتا ہے کہ يہ امر غلط اور منفي ہے اوراسلام اس کي ہرگز تاکيد نہيں کرتا ہے۔ اسلام نے مرد وعورت کے درميان ايک حجاب اور فاصلہ رکھا ہے کہ يہ دونوں اپني معاشرتي زندگي ميں اس حجاب اور حدود کي رعايت کريں۔

بنابرايں ہم جس ظلم وستم کي بات کررہے ہيں وہ صرف ايراني معاشرے يا گزشتہ دور سے ہي مخصوص نہيں ہے بلکہ تاريخ کے مختلف زمانوں سے ليکر آج تک ايران سميت دنيا کے مختلف ممالک ميں اس کا وجود رہا ہے ۔ آج بھي يہ ظلم پوري دنيا ميں موجود ہے، اسي طرح مغربي ممالک خصوصاً امريکہ اور بعض يورپي ممالک ميں خواتين کو اذيت و آزارپہنچانے کے واقعات، اُن سے ظالمانہ سلوک و طرز عمل ، شکنجے اورمصيبتيں دوسري ممالک کي نسبت بہت زيادہ ہيں۔ اس کے اعداد وشمار بہت زيادہ ہيں، البتہ ميں نے خود ان اعداد وشمار کو مغربي اور امريکي مطبوعات ميں ديکھا ہے نہ يہ کہ ہم اِس کو کسي کي زباني نقل کررہے ہيں۔ يہ تو وہ چيز ہے کہ جسے انہوں نے خوداپني زبان سے بيان کيا ہے۔ لہٰذا اس ظلم و ظالمانہ رويے اور عمل سے مقابلے کي ضرورت ہے۔(۲)

____________________

١ وسائل الشيعہ، جلد ٢٠، صفحہ ٣٢٤۔ ٣٥٤

۲نومبر ١٩٩٦ئ ميں ثقافتي کميٹي کے اراکين سے خطاب

تيسرا باب

خواتين کےمعنوي کمال، اجتماعي فعاليت اورگھريلو زندگي سے متعلق اسلام کي نظر

دريچہ

اسلام نے تين مختلف ميدانوں ميں حقوقِ نسواں کو مشخص کرکے انہيں جاري کيا ہے۔ انفرادي دائرہ زندگي (معنوي کمال) ،اجتماعي زندگي (اجتماعي فعاليت) اور گھريلو زندگي، زندگي کے وہ ميدان ہيں کہ جہاں خواتين اپني طاقت کالوہا منواسکتي ہيں اور اس کيلئے لازمي ہے کہ ان تينوں ميدانوں ميں حدود اورحقوق کو کامل طور پر بيان کيا جائے ۔ اسلام نے خواتين کيلئے اس ذو اہميت امر کو خداوند عالم کي نگاہ سے بيان کيا ہے جو ہر قسم کي خطا و لغزش سے دور ہے۔

پہلي فصل

خواتين کے بارے ميں اسلام کي واضح ، جامع اور کامل نظر

اسلام کي نظر کي کامل شناخت اور مکمل وضاحت کي ضرورت

اگر معاشرے ميں عورت کے بارے ميں غلط فکر و نظر موجود ہو تو صحيح معني ميں اوروسيع پيمانے پر اُسے ازسر نو صحيح کرنا مشکل ہوگا۔ خود خواتين کو بھي چاہيے کہ اسلام ميں خواتين کے موضوع پر کافي مقدار ميں لازمي حد تک اطلاعات رکھتي ہوں تاکہ دين مبين اسلام کے کامل نظريے کي روشني ميں اپنا حقوق کا بھرپور دفاع کر سکيں۔ اسي طرح اسلامي ملک ميں معاشرے کے تمام افراد کو يہ جاننا چاہيے کہ خواتين، مختلف شعبہ ہائے زندگي ميں اُن کي موجودگي، فعاليت،تحصيل علم،اجتماعي ،سياسي ، اقتصادي اورعلمي ميدانوں ميں اُن کي شرکت اورگھر اور گھر سے باہر اُن کے کردار کے بارے ميں اسلام کيا بيان کرتا ہے۔

اِن سب موضوعات کے بارے ميں اسلام کي ايک بہت واضح اورروشن نظر ہے ۔ اگرہم اسلام کي نظر کادنيا کي مختلف ثقافتوں خصوصاً مغربي ثقافت سے موازنہ کريں تو ہم ديکھيں گے کہ اسلام کي نظر بہت ترقي يافتہ ہے ۔ اسي طرح آج کے مرد کے ذہن پر چھائے ہوئے افکار و نظريات کے مقابلے ميں اسلامي فکر و نظر بے مثل ونظير ہے اور يہ اسلام ہي کي واضح اور روشن نظر ہے جو ملکي بہبود و ترقي اور ملک ميں خواتين کي زيادہ سے زيادہ ترقي اور اُن کے مقام و منصب ميں اضافے کا باعث ہے۔

ميري بہنو! توجہ فرمايئے،ميں خاص طور پر اِس امر کيلئے تاکيد کررہا ہوں کہ نوجوان خواتين، بلند آرزووں اورآ ہني حوصلوں اورقلبي شوق و تڑپ کي مالک ہيں، وہ بھرپور توجہ ديں تاکہ اِس جلسے کي مناسبت سے مختصر مطالب آپ کي خدمت ميں عرض کروں۔

انساني زندگي اور خواتين کي شان ومنزلت اور اُن کي معاشرتي حيثيت کے بارے ميں اسلام کي نظر تين حصوں ميں قابل تقسيم ہے۔ ميں نے بارہا ان مطالب کو بيان کيا ہے ليکن ميرا اصرار ہے کہ ان مطالب کو معاشرے کي خواتين کے ليے جتنا زيادہ ہوسکے بيان کيا جائے۔ جن افراد کو اِس سلسلے ميں سب سے زيادہ فعال ہونا چاہيے وہ خود ہمارے معاشرے کي خواتين ہيں۔

ظالم اور مقصّر کون، مرد يا عورت يا دونوں؟

ميري بہنو اور بيٹيو! ميرا يقين ہے اور يہ ميري نظر ہے کہ اسلامي معاشرے کے کسي حصے ميں بھي خواہ خود ايران کے اندر ہو يا مختلف ممالک ميں ، اگر مسلمان خواتين کے بارے ميں کوتاہي نظر آتي ہے تو اس ميں تھوڑے مقصّر خود مرد بھي ہيں اور تھوڑي مقدار ميں خود خواتين بھي اِس تقصير ميں شامل ہيں۔ کيونکہ جس کسي کو سب سے پہلے خواتين کي اسلامي حيثيت اور مقام و منزلت کو پہنچانا اور اُس کا دفاع کرنا چاہيے، وہ خواتين ہيں۔ اُنہيں جاننا چاہيے کہ خدا، قرآن اور اسلام نے اُن کيلئے کيا احکامات صادر کيے ہيں، اِن کے ذريعے خواتين سے کيسا امر مطلوب ہے اور اُن کي ذمہ داريوں اور فرائض کو کون معين کرے گا؟ ضروري ہے کہ خواتين اپنے بارے ميں اسلامي احکامات اور اسلام کي اُن سے توقع کو جانيں ، اُن کا دفاع کريں اور اُن کے حصول کي کريں۔ اگر وہ يہ سب امور انجام نہ ديں تو وہ افراد جو کسي بھي ’’قدر‘‘ کے شناسا اور پابند نہيں ہيں وہ خواتين پر ظلم و ستم کريں گے۔جيسا کہ آج مغربي دنيا اور اُس ديار غربت(۱) ميں رائج مادي نظاموں (سوشلزم، کميونزم، کيپٹلزم، فمينزم?) کے زير سايہ ، خواتين کيلئے لگائے جانے والے ظاہري خوبصورت نعروں کے باوجود ، سب سے زيادہ ظلم مغربي مرد اپني عورتوں پر کررہے ہيں۔ باپ اپني بيٹي پر ،بھائي اپني بہن پر اور شوہر اپني بيوي پر۔ دنيا ميں ديے گئے اعداد و شمار کے مطابق، خواتين، بيويوں، بہنوں يا حتي بيٹيوں پر سب سے زيادہ ظلم و ستم و آبرو ريزي اور اُن کے حقوق کي پائمالي اُن افراد کي طرف سے ہوتي ہے جو مغربي نظاموں ميں زندگي بسر کررہے ہيں۔ يعني اگر کسي معاشرتي نظام ميں معنوي اقدار حاکم نہ ہوں اور خدا کا وجود دلوں ميں نہ ہو تومرد اپني جسماني طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے خواتين پر ظلم وستم کي راہ کو اپنے ليے کھلا پائے گا۔

خواتين پر ظلم کي راہ ميں مانع دو چيزيں

دو چيزيں خواتين پر ظلم و ستم کي راہ ميں مانع بن سکتي ہيں۔ايک خدا، قانون اور ايمان وغيرہ کا خيال رکھنا اوردوسري خود خواتين ہيں جو اپنے انساني اور خدائي حقوق کو اچھي طرح پہچانيں اور اُن کا دفاع کريں اورحقيقي طور پر اُنہيں چاہيں اورحاصل کريں۔ اِس سلسلے ميں اسلام افراط وتفريط سے دورايک درمياني راستے کو متعارف کراتاہے۔ نہ خود عورت کوظلم کرنے اجازت ديتا ہے اور نہ ہي مرد وعورت کي طبيعت ومزاج کو نظر انداز کرتا ہے۔صحيح اور سيدھا راستہ وہي اسلام کا متعارف کردہ راستہ ہے کہ جس کي مختصر طور پر وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔

____________________

١ جو معاشرہ اپني خواتين کي حيثيت و آبرو کو پائمال کرے اور جہاں عورت جيسي عظيم ہستي ايک کھلونے سے زيادہ کي حيثيت نہ رکھتي ہو تو وہ معاشرا حقيقت ميں غريب ہے اور اُسے ديار غربت کہنا شائستہ ہے۔ (مترجم)

چوتھی فصل

پیغمبر امامت کو الٰہی منصب سمجھتے ہیں

اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ امت کی رہبری کا مسئلہ مسلمان معاشرہ کے لئے اساسی اور حیاتی حیثیت رکھتا ہے۔چنانچہ اسی مسئلہ پر اختلاف پیدا ہوا اور اس نے امت کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ان کے درمیان گھرا اختلاف پیدا کردیا ۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے تمام چیزوں کے بارے میں واجب، مستحب ،حرام و مکروہ سے متعلق تو ساری باتیں بیان فرمائیں لیکن امت کی قیادت و رہبری اور حاکم کے خصوصیات سے متعلق کوئی بات کیوں بیان نہیں کی؟ کیا انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اتنے اہم موضوع پر کوئی توجہ نہ دی ہوگی بلکہ خاموشی اختیار کی ہوگی اور امت کو بیدار نہ کیا ہوگا؟!

علمائے اہل سنت فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے قیادت وامامت کے طریقہ کے سلسلہ میں نفیاًو اثباتاً کوئی بات نہیں بیان کی اور یہ واضح نہیں کیا کہ قیادت و رہبری کا مسئلہ انتخابی ہے یا تعیینی ہے۔

سچ مچ کیا عقل باور کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اس انتھائی اہم اور حیاتی مسئلہ پر خاموشی اختیار کی ہوگی اور قضیہ کے ان دونوں پہلوں سے متعلق کوئی اشارہ نہ کیا ہوگا؟

عقل کے فیصلہ سے آگے بڑہ کر تاریخ اسلام کا جائزہ بھی اس نظریہ کے خلاف گواہی دیتا ہے ۔اور یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مختلف موقعوں پر یہ یاد دھانی کی ہے کہ میرے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ خدا سے مربوط ہے اور وہ اس سلسلہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتے ۔یہاں ہم تاریخ اسلام سے چند نمونے پیش کرتے ہیں :

جب مشرکوں کے ایک قبیلہ کے سردار ”اخنس“ نے اس شرط پر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حمایت کا اظھارکیا کہ اپنے کے بعد امت کی قیادت و سرپرستی آپ ہمارے حوالے کر جائیں گے تو پیغمبر اسلام نے اسے جواب دیا کھ” الا مر الیٰ اللہ یضعہ حیث یشاء “یعنی امت کی قیادت کا مسئلہ خدا سے مربوط ہے وہ جسے بہتر سمجھے اس امر کے لئے منتخب کرے گا ۔قبیلہ کا سردار یہ بات سن کر مایوس ہو گیا اور اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جواب میں کھلایا کہ یہ بات بالکل درست نہیں ہے کہ رنج و زحمت میں اٹھاؤں اور قیادت و رہبری کسی اور کو ملے!(۱۱)

تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بھی ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ”یمامھ“ کے حاکم کو خط لکہ کر اسے اسلام کی دعوت دی اس نے بھی ”اخنس “ کے مانند آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے آپ کی جانشینی کا تقاضا کیا تو آنحضرت نے اسے انکار میں جواب دیتے ہوئے فرمایا:”لا ولاکرامة “ یعنی یہ کام عزت نفس اور روح کی بلندی سے بعید ہے۔(۱۲)

امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اس کی اہمیت کو صرف ہم ہی نے محسوس نہیں کیا ہے بلکہ صدر اسلام میں بھی یہ مسئلہ بہت سے لوگوں کی نظر میں بڑی اہمیت رکھتا تھا ۔ مثلا جس وقت خلیفہ دوم ،ابو لو لو کی ضرب سے زخمی ہوئے اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر نے اپنے باپ کو مرتے ہوئے دیکھا تو اپنے باپ سے کھا جتنی جلدی ہو سکے اپنا ایک جانشین معین کیجئے اور امت محمدی کو بے حاکم وبے سر پرست نہ چھوڑئے ۔

بالکل یہی پیغام ام المومنین عائشہ نے بھی خلیفہ دوم کو کھلایا اور ان سے درخواست کی کہ امت محمدی کے لئے ایک محافظ و نگھبان معین کر جائیں۔اب کیا یہ کھنا صحیح ہوگا کہ ان دو شخصیتوں نے امت کی قیادت و رہبری کے مسئلہ کی اہمیت کو تو اچھی طرح محسوس کر لیا تھا لیکن رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ان دو افراد کے بقدر بھی اس مسئلہ کی اہمیت کو سمجہ نہیں پائے تھے ؟!

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مدینہ کی دس سالہ زندگی کا ایک ھلکا سا جائزہ لینے کے ساتھ ہی یہ بات پوری طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ آنحضرت جب بھی کہیں جانے کے لئے مدینہ سے نکلتے تھے کسی نہ کسی کو مدینہ میں اپنا جانشین معین کر جاتے تھے ،تاکہ اس مختصر سی مدت میں بھی جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مدینہ میں تشریف نہیں رکھتے لوگ بے سر پرست اور بے پناہ نہ رہیں ۔ کیا یہ بہتر ہے کہ جو جانشین معین کرنے کی اہمیت سے آگاہ ہو اور یہ جانتا ہو کہ حتّٰی مختصر مدت کے لئے بھی جانشین معین کئے بغیر مدینہ کو ترک نہیں کرنا چاہئے ۔وہ دنیا کو ترک کرے اور اپنا کوئی جانشین معین نہ کرے یا کم از کم قیادت و رہبری کی شکل ونوعیت اور حاکمیت کے طریقہ کار کے بارے میںکچہ نہ کھے ؟!

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب کسی علاقہ کو فتح بھی کرتے تھے تو اسے ترک کرنے سے پہلے وہاں ایک حاکم معین فرماتے تھے پھر ان حالات میں یہ کیسے کھا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنا جانشین معین کرنے میں غفلت سے کام لیا ہوگا اور اس کے لئے میں کوئی فکر نہ کی ہوگی ،جو ان کے بعد امت کی قیادت و رہبری اپنے ہاتھ میں لے سکے اور اسلام کے نو پا درخت کی نگھبانی و سرپرستی کر سکے؟!

نبوت و امامت باہم ہیں

متواتراحادیث اور اسلام کی قطعی تاریخ صاف گواہی دیتی ہیں کہ نبوت اور امامت دونوں کا اعلان ایک ہی دن ہوا اور جس روز پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)خدا کی طرف سے اپنے خاندان والوں کے درمیان اپنی رسالت کا اعلان کرنے پر مامور ہوئے تھے اسی روز آپ نے اپنا خلیفہ و جانشین بھی معین فرمادیاتھا۔

اسلام کے گرانقدر مفسرین و محدثین لکھتے ہیں کہ جب آیت( و انذر عشیرتک الاقربین ) (شعراء /۲۱۴) نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو خاندان والوں کے لئے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا جنھیں آنحضرت نے مہمان بلایا تھا۔حضرت علی علیہ السلام نے بھی پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حکم سے کھانا تیار کیا اور بنی ہاشم کی پینتالیس شخصیتیں اس مجلس میں اکٹھا ہوئیں۔پھلے روز ابو لھب کی بیھودہ باتوں کی وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی رسالت کا پیغام سنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔دوسرے روز پھر یہ دعوت کی گئی اور مہمانوں کے کھانا کھالینے کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی جگہ کھڑے ہوئے اور خداوند عالم کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا:

میں تم لوگوں اور دنیا کے تمام انسانوں کے لئے خدا کا پیغامبر ہوں اور تم لوگوں کے لئے دنیا وآخرت کی بھلائی لایا ہوں۔خدانے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اس دین کی طرف دعوت دوں تم میں سے جو شخص اس کام میں میری ا مدد کرے گا وہ میرا وصی اور جانشین ہوگا۔

اس وقت حضرت علی بن ابیطالب ںکے علاوہ کسی نے بھی اٹہ کر پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی نصرت و مدد کا اعلان نہیں کیا۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو بیٹہ جانے کا حکم دیا اور دوبارہ اور تیسری بار بھی اپنا جملہ دھرایا اور ہر بار حضرت علی ںکے علاوہ کسی نے آپ کی حمایت اور اس راہ میں آپ کی نصرت و فدا کاری کا اظھار نہیں کیا۔اس وقت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنے خاندان والوں کی طرف رخ کرکے فرمایا: ”ان هذااخی و وصی و خلیفتی فیکم فاسمعوا و اطیعوا “ یعنی علی(ۡع)میرا بھائی اور تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ہے،پس تم پر لازم ہے کہ اس کا فرمان سنو اور اس کی اطاعت کرو۔(۱۳)

تاریخ کا یہ واقعہ اس قدر مسلّم ہے کہ ابن تیمیہ جس کا خاندان اہل بیت(ۡع)سے عناد سب پر ظاہر ہے ،کے علاوہ کسی نے بھی اس کی صحت سے انکار نہیں کیا ہے۔یہ حدیث حضرت علی ںکی امامت کی دلیل ہونے کے علاوہ اس بات کی سب سے اہم گواہ ہے کہ امامت کا مسئلہ امت کے اختیار میں نہیں ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جانشین کا اعلان اس قدر اہم تھا کہ نبوت و امامت دونوں منصبوں کے مالک افراد کا اعلان ایک ہی دن پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے خاندان والوں کے سامنے کیا گیا ۔ یہ واقعہ تین بعثت کو پیش آیا اور اس وقت تک پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی دعوت مخصوص افراد کے ذریعہ لوگوں تک پہنچائی جاتی تھی اور تقریباً ۵۰پچاس افراد اس وقت تک مسلمان ہوئے تھے۔

____________________

(۱۱)۔تاریخ طبری ،ج/۲، ص/۱۷۲

(۱۲)تاریخ کامل، ج/۲،ص/۶۳

(۱۳)۔تاریخ طبری ج/۲،ص/۶۲۔۶۳ تاریخ کامل ج/۲،ص/۴۰۔۴۱ مسند احمد ،ج/۱،ص/۱۱۱ ۔اور دیگرمآخذ

پانچویں فصل

اسلامی قوانین اور کتاب خدامعصوم کی تفسیر سے بے نیاز نھیں

اسلامی قوانین چاہے جتنے بھی روشن و واضح ہوں پھر بھی ان کی توضیح و تفسیر ضروری ہے بالکل یوں ہی جیسے آج ملکوں کے قوانین چاہے جس قدر روز مرہ کی زبان میں تنظیم کئے جائیں پھر بھی ان کی وضاحت کے لئے زبر دست قسم کے ماہروں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے اہم پہلوؤں کو واضح کر سکیں ۔ اور اسلامی قوانین بھی حتیٰ وہ بھی جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی زبان سے نقل ہوئے ہیں توضیح و تفسیر سے مستثنٰی اور بے نیاز نہیں ہیں ۔اس کے گواہ مسلمانوں کے درمیان وہ سیکڑوں اختلافات ہیں جو قرآنی آیات اور اسلامی احادیث کے سلسلہ میں نظر آتے ہیں۔

کیا اسلام کے ابدی و جاودانی قوانین کو ایسے کسی پیشوا کی ضرورت نہیں ہے جوپیغمبر اکرم کے علوم کا وارث ہو اور اختلاف کے موارد میں سب کے لئے حجت ہو ؟اور کیا اختلافات دور کرنے فاصلوں کو کم کرنے اور اسلامی اتحاد بر قرار کرنے کے لئے ایسے جانشین کا تعین لازم و ضروری نہیں تھا؟

حضرت عمر کی خلافت کے دوران ایک شخص نے اسلامی عدالت میں شکایت کی کہ میری بیوی کے یہاں چہ ہی مھینہ میں بچہ پیدا ہو گیا ہے ۔ قاضی نے حکم دے دیا کہ لے جاؤ اس عورت کو سنگسار کر دو ۔راستہ میں اس عورت کی نگاہ حضرت علی علیہ السلام پر پڑی اس نے چیخ کر کھا :اے ابو الحسن میری فریاد کو پھنچئے ۔ میں ایک پاک دامن عورت ہوں اور میں نے اپنے شوہر کے علاوہ کسی سے قربت نہیں کی ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام جب واقعہ سے آگاہ ہوئے تو انھیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ قاضی نے فیصلہ کرنے میں غلطی کی ہے ۔ آپ(ۡع) نے ماموروں سے مسجد واپس چلنے کو کھا اور مسجد میں جا کر خلیفہ سے پوچھا کہ تم نے یہ کیسا فیصلہ کیا ہے ؟خلیفہ نے کھا کہ شوہر سے اس عورت کی قربت کو صرف چہ ماہ گزرے ہیں ۔ کیا کہیں چہ مھینے میں بچہ پیدا ہوتا ہے ؟ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا جس میں آیا ہے( وحمله و فصاله ثلاثون شهرا ) (۱۴) یعنی اس کا حمل اور دودہ پلانے کا زمانہ تیس ماہ ہے۔خلیفہ نے جواب دیا درست ہے ۔ پھر حضرت علی ںنے فرمایا: کیا قرآن نے دودہ پلانے کا زمانہ دو سال نہیں معین کیا ہے کہ ارشاد ہوتا ہے:( والولدات یرضعن اولادهن حولین کاملین ) (۱۵) یعنی مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودہ پلائیں ۔خلیفہ نے جواب دیا :سچ فرمایا: اس پر حضرت علی ںنے فرمایا : کہ اگر دودہ پلانے کے چوبیس مھینوں کو تیس مھینوں سے کم کرو توچہ ہی ماہ باقی رہتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حاملگی کی کم سے کم مدت چہ ماہ ہے اور عورت اس مدت میں سالم بچہ پیدا کر سکتی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ںنے دو آیتوں کو باہم ضمیمہ کرکے ایسا قرآنی حکم استنباط کیا جس سے اصحاب واقف نہیں تھے اب کیا یہ کھا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس الٰہی کتاب قرآن مجید کی وضاحت کے لئے جو ایک جاوید رہنما اور ابدی قانون کی حیثیت رکھتی ہے اپنے بعد کوئی اقدام نہیں فرمایا ہے؟

ممکن ہے یہ کھا جائے کہ ایسے نادر مسئلہ میں اختلاف سے جو انسانی زندگی میں بہت کم پیش آتا ہے پورے اسلامی معاشرہ کے اتحاد کو خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا ،تو اس کے جواب میں یہ کھا جائے گا کہ اختلاف اس طرح کے نادر مسائل سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف مسلمانوں کے روز مرہ اور بنیادی فرائض و وظائف سے بھی تعلق رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر روز کے مسائل میں مسلمانوں کے اختلاف و تفرقہ سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں اور یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اتنے سارے مسائل میں اختلافات سے مسلمانوں کے اتحاد و یکجھتی پر کوئی ضرب نہیں پڑتی ہے۔

قرآن مجید نے اپنے سورہ مائدہ آیت /۶ میں وضو کرنے کی کیفیت مسلمانوں سے بیان کی ہے اور صدر اسلام میں مسلمان ہر روز اپنی آنکھوں سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو وضو کرتے ہوئے دیکھتے تھے ، لیکن پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد قرآن مجید دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلا اور علماء کے اوپر قرآنی آیات میں اجتھاد و تفکر کا دروازہ کھلا اور فقھی احکام سے متعلق آیات پر رفتھ رفتھ بحث و تحقیق ہوئی لیکن سر انجام کیفیت وضو سے متعلق آیت کو سمجھنے میں اختلاف پیدا ہوگیا اور آج یہ اختلاف باقی اور رائج ہے کیوں کہ شیعہ علماء اپنے ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ہیں اور پیروں کا مسح کرتے ہیں لیکن علمائے اہل سنت ان کے بالکل بر خلاف عمل کرتے ہیں۔

اگر امت کے درمیان ایک ایسا معصوم اور تمام اصول و فروع سے آگاہ رہبر موجود ہو کہ سب کے سب اس کی بات تسلیم اور اس کی پیروی کرتے ہوں تو ہر گز ایسا اختلاف جو مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دے پیش نہیں آئے گا اور پورا اسلامی معاشرہ اپنے روز مرہ کے فرائض کی انجام دھی میں یک رنگ و یک شکل ہوگا۔

قرآن کی تفسیر میں اختلاف

اسلام کے جزا و سزا کے قوانین میں ایک چور کے ہاتھ کاٹنے کا قانون ہے جو اپنے شرائط و خصوصیات کے ساتھ فقھی کتابوں میں درج ہے ابھی ابھی دو تین صدی پہلے تک جبکہ اسلام ایک طاقت کی شکل میں حاکم تھا اسلامی حکومتیں اپنے قوانین قرآن سے حاصل کرتی تھیں اور جبکہ مغربی قوانین ابھی اسلامی سرزمینوں تک نہیں پھنچے تھے چور کی تنھا سزا اس کاہاتھ کاٹنا تھی ۔لیکن افسوس کہ یہ ایک چھوٹا سا اور تقریبا روز مرہ کا مورد بھی ان موارد میں سے ہے کہ اسلام کی چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی حد معین کرنے کے سلسلہ میں ایک نقطہ پر متحد نہیں ہو سکے

معتصم عباسی کے زمانہ میں جبکہ ھجرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دو سو سال سے زیادہ گزر چکے تھے ،علماء نے اسلام کے درمیان ہاتھ کاٹنے سے متعلق آیت کی تفسیرمیں اختلاف پیدا ہوگیا ۔وہ لوگ یہ طے نہیں کر پارہے تھے کہ چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹنا چاہئے ۔ایک کھتا تھا :ھاتھ کلائی سے کاٹا جائے گا۔ دوسرا کھتا تھا : ہاتھ کھنی سے کاٹا جائے گا ۔تیسرا کھتا تھا : ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ آخر کار خلیفہ وقت نے شیعوں کے نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے بھی دریافت کیا۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: چور کے ہاتھ کی صرف چار انگلیاں کاٹی جائیں گی ۔ جب آپ(ع) سے پوچھا گیا کہ اس کی دلیل کیا ہے تو آپ(ۡع)نے فرمایاکہ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرمایا ہے:” و ان المساجد اللہ “ سجدہ کی جگھیں خدا کے لئے ہیں اور اس سے متعلق ہیں ۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: ان میں سے ایک ہتھیلی بھی ہے جسے سجدہ کے وقت زمین پر ٹکانا ضروری ہے اور جو چیز خدا سے متعلق ہو اسے کاٹا نہیں جا سکتا ۔

اگر امت کے درمیان ایک ایسا قرآن شناس موجود ہو جو قرآن کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہی رکھتا ہو اور فکری اعتبار سے مسلمانوں کا ملجاو مرکز قرار پائے اور تمام مسلمان اس کی طرف رجوع کریں تو ظاہر ہے کہ بہت سے اختلافات آسانی سے دور ہو جائیں گے اور امت ایک ہی سمت میں ایک ہی مقصد کے ساتھ قدم بڑھائے گی۔نہ مسلمانوں کاقیمتی وقت ضائع ہوگا اور نہ ان میں خطرناک اور خونریزاختلاف ٹکراؤ پایاجائے گا۔

قرآن مجید ہر طرح کے استنباط اور صحیح اسلام کو سمجھنے کے لئے اساسی و بنیادی ماخذ ہے اور کوئی چیز اس عظیم کتاب کی برابری نہیں کر سکتی ۔اگر دوسرے ماخذ میں باہم اختلاف نظر آئے مثلا اگر پیغمبر اکرم کی دو حدیثیں باہم ٹکراو رکھتی ہوں تو ہم اس حدیث کو اپنائیں گے جو قرآن کے مطابق ہوگی۔

لیکن کیا دلالت اور بیان کے اعتبار سے قرآن کی تمام آئتیں ایک جیسی ہیں اور کیا قرآن میں سرے سے کوئی ایسی آیت ہے ہی نہیں جس کے لئے کسی معصوم مفسر کی ضرورت ہو ؟ یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو قرآن سے زیادہ لگاؤ نہیں رکھتا اور اس کی روح و فکر قرآن سے ہم آھنگ نہیں ہے ۔صحیح ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں دلالت کے اعتبار سے روشن و واضح ہیں اور اس کی محکم آیات میں شمار ہوتی ہیںاور وہ قرآنی آیات بھی جومبھم ہیں دوسری آیتوں کے ذریعہ روشن و واضح ہو جاتی ہیں ۔(۱۶) اس کے باوجود قرآن میں ایسی آیتیں موجود ہیں جو یا نزول کے وقت سے ہی مبھم ہیں یا زمانہ وحی سے دوری کی وجہ سے مبھم ہوگئی ہیں۔ اس قسم کی آیات چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو کیسے حل کی جا سکتی ہیں؟

کیا امت کے درمیان کوئی ایسی مرکز ی شخصیت موجود نہیں ہونی چاہئے جو اس قسم کی آیات کا ابھام دور کرکے ان کی صحیح تفسیر کر سکے جن میں سے بعض کے نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں؟

حضرت علی علیہ السلام نے جب ابن عباس کو خوارج سے مناظرہ کے لئے روانہ کیا تو انھیں یہ حکم دیا تھا کہ :”لاتخا صمھم بالقرآن فان القرآن حمال ذو وجوہ تقول و یقولون“ یعنی ان سے ہرگز قرآن سے بحث و مباحثہ نہ کرنا ،کیوں کہ قرآن کی آیاتیں کئی احتمالات اور کئی معانی رکھتی ہیں ۔تم ان سے بعض آیات سے استدلال کروگے اور وہ تمھیں بعض دوسری آیات سے جواب دیں گے۔

یہ مسلم ہے کہ امام کی یہ گفتگو قرآن کی تمام آیات سے متعلق نہیں تھی بلکہ آپ کی گفتگو ان آیات سے متعلق تھی جو دو پہلووالی ہیں ،بظاہرروشن و واضح نہیں ہیں اور ان کا مفھوم و مفاد قطعی نہیں ہے۔

اس اعتبار سے امت کے درمیان ایک امام معصوم کا وجود جو اسلام کے اصول و فروع سے پوری طرح آگاہ ہو ،قرآن کریم کے علوم پر کامل تسلط رکھتا ہو اور امت کے درمیان ایک علمی و فکری پناہگاہ ہو۔ اختلافات دور کرے اور اس کی بات فیصلہ کن ہو، لازم و ضروری ہے ورنہ دوسری صورت میں اختلافات بڑھتے جائیں گے بلکہ بعض احکام اور قرآنی آیات کی تفسیرغلط کی جائے گی جو مسلمانوں کے قرآنی حقائق سے دور ہو جانے کا باعث ہوگی۔

ہشام ابن حکم

ہشام ،امام جعفر صادق کے زبردست شاگرد اور دوسری صدی ہجری میں علم مناظرہ اور علم کلام کے استاد تھے انھوں نے امت کے درمیان اختلاف دور کرنے اور صحیح فیصلہ کے لئے امام کے وجود کی ضرورت پر روشنی ڈالی ہے کہ آپ نے ایک روز فرقہ معتزلہ کے سردار اور بصرہ کے پیشوا عمر وبن عبید سے امت کے درمیان امام معصوم کے وجود کی ضرورت پر بحث کی شروع اور اس سے درخواست کی کہ میرے سوالوں کے جواب دو ۔ عمر و بن عبید نے بھی قبول کیا۔ ہشام نے پوچھا:

تمھارے آنکھ ہے ؟

ہاں

اس سے کیا کام لیتے ہو ؟

اس سے لوگوں اور چیزوں کو دیکھتاہوں اور رنگوں کی تشخیص دیتا ہوں۔

تمھارے کان ہے؟

ہاں؟

اس سے کیا کام لیتے ہو؟

اس سے آواز سنتا ہوں ۔

تمھارے ناک ہے ؟

ہاں۔

اس سے کیا کام لیتے ہو؟

اس سے بو سونگھتا ہوں۔

اس کے بعد ہشام نے دوسرے حواس یعنی قوت ذائقہ و لامسہ اور بدن کے دوسرے اعضاء مثلا انسان کے جسم میں ہاتھ اور پاؤں وغیرہ کے بارے میں سوال کیا اور عمر وبن عبید نے ان سب کا صحیح جواب دیا۔ پھر ہشام نے پوچھا : تمھارے دل ہے ؟ ہاں ۔انسان کے بدن میں اس کا کیا کام ہے ؟ عمرو نے جواب دیا کہ جو کچہ بدن کے تمام اعضاء و جوارح انجام دیتے ہیں قلب کے ذریعہ انھیں تشخیص دیتا ہوں ۔ اور جب بھی انسانی حواس میں سے کوئی خطا کرتا ہے یا بدن کا کوئی حصہ شک میں مبتلا ہوتا ہے تو قلب و دل کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنے شک کو دور کردیتا ہے۔

اس وقت ہشام نے اس بحث سے نتیجہ حاصل کرتے ہوئے کھا کہ جس خدا نے جسم کے حواس اور اعضا ء کی شک و تردید دور کرنے کے لئے بدن میں ایک ایسی پناہگاہ اور مرکزی چیز پیدا کی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ انسانی معاشرہ کو یوں ہی اس کے حال پر جھوڑ دے اور اس کے لئے کوئی پیشوا و رہبر معین نہ کرے کہ انسانی معاشرہ اپنے شک ،حیرانی اور خطا کو اس کے ذریعہ دور کرے اور صحیح راہ اختیار کر سکے !(۱۷)

امام جعفر صادق(ع)،جانشین پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مرتبہ اور اس کی حیثیت کو یوں بیان فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ایسے امام کا وجود لازم و ضروری ہے جو الٰہی احکام کو ہر طرح کی گزند اور کمی و زیادتی سے محفوظ رکھے اور ان کی حفاظت کرے ۔ (۱ ۸) ہشام ابن حکم نے ایک روز حضرت امام جعفر صادق ںکی موجودگی میں شام کے ایک عالم سے مناظرہ کیا اور اس تفصیلی مناظرہ کے دوران اس سے پوچھا کہ کیا خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان ہر طرح کے اختلافات دور کرنے کے لئے کوئی دلیل و حجت ان کے حوالے کی ہے ؟ اس نے کھا: ہاں اور وہ دلیل و حجت قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سنت یعنی ان کی احادیث ہیں ۔ ہشام نے پوچھا : کیا قرآن و احادیث اختلافات دور کرنے کے لئے کافی ہیں ۔اس نے جواب دیا ہاں ۔تو ہشام نے کھا اگر کافی ہیں تو پھر ہم دونوں جو ایک مذہب رکھتے ہیں اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں آپس میں اختلاف کیوں رکھتے ہیں؟ اور ہم میں سے ہر ایک نے ایسی راہ کیوں اختیار کر رکھی ہے جو دوسرے کے خلاف ہے ؟! اس پر اس شامی عالم کو خاموشی اختیار کرنے اور حقانیت کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔(۱۹)

____________________

(۱۴) سورہ احقاف/۱۵

(۱۵) سورہ بقرہ /۲۳۲

(۱۶)۔ حضرت امیر المومنین علی اس قسم کی آیات کے بارے میں فرماتے ہیں :”کتاب الله تبصرون به ،وتسمعون به و ینطق بعضه ببعض و یشهد بعضه علی بعض

(۱۷) اصول کافی ،ج/۱ص/۱۷۰

(۱۸) اصول کافی ،ج/۱ص/۱۷۲

(۱۹) اصول کافی ،ج/۱ص/۱۷۸

چھٹی فصل

خطرناک مثلث

اسلام کے تین دشمن

جس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے دنیا سے رحلت فرمائی تو اسلام کے اس نوجوان وجود کو باہر اور اندر سے تین طرح کے دشمن گھیر ے ہوئے تھے اور ہر لمحہ اس کو خطرہ تھا کہ یہ تینوں طاقتیں باہم ایک ہو کرایک مثلث بنائیں اور اسلام پر حملہ آور ہوں ۔

پھلا دشمن :

داخلی دشمن یعنی مدینہ اور اس کے آس پاس کے منافقین تھے جنھوں نے کئی بار پیغمبر اکرم کی جان لینے کی کوشش کی تھیں اور جنگ تبوک سے واپسی کے وقت ایک خاص منصوبہ کے تحت جو پورے طورسے تاریخ میںذکرہوہے،پیغمبرکرم کے اونٹ کو بھڑکاکر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان لینا چاہتے تھے۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان لوگوں کی سازش سے آگاہ ہو کر وہ تدبیر اپنائی کہ ان کا منصوبہ نا کام ہو گیا ۔ ساتھ ہی اسلام کی عمومی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آنحضرت نے اپنی زندگی میں ہی ان کے نام بعض خاص افراد مثلا ”حذیفہ یمانی“ کو بتا دیئے تھے۔

اسلام کے یہ دشمن جو بظاہر مسلمانوں کے لباس میں چھپے ہوئے تھے،آنحضرت کی موت کا انتظار کر رہے تھے اور در حقیقت اس آیت کو اپنے دل میں دھرا رہے تھے جسے قرآن پیغمبرکی حیات میں کافروں کی زبانی نقل کرتاہے:”انما نتربص بہ ریب المنون“(۲۰) یعنی ہم اس کی موت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ فوت ہوجائے اور اس کی شھرت ختم ہوجائے۔

یہ لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے ساتھ ہی اسلام کی رونق ختم ہوجائے گی،اس کا پھیلاو رک جائے گا۔ کچہ لوگ یہ بھی سوچتے تھے کہ اسلام آنحضرت کے بعد کمزور پڑجائے گا اور وہ دوبارہ زمانہ جاہلیت کے عقائد کی طرف پلٹ جائےں گے۔

آنحضرت کی رحلت کے بعد ”ابوسفیان “ نے چاہا کہ قریش اور بنی ہاشم کے درمیان اختلاف پیدا کردے اور جنگ بھڑکاکر اسلامی اتحاد کے اوپر کاری ضرب لگائے اس مقصد کے پیش نظر وہ بڑے ہمدردانہ انداز میں حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوا اور ان سے بولا :اپنا ہاتھ بڑھایئے کہ میں آپ کی بیعت کروں تاکہ تمیم اور عدی قبیلوںکے لوگ آپ کی مخالفت کی جرات نہ کریں امام نے پوری ہوشیاری کے ساتھ صف اسلام میںاختلاف پیدا کرنے اور مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے کی اس کی شازش کو سمجہ لیا لھٰذا فورا ًٹکا سا جواب دیا اور خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تجھیز و تکفین میں مشغول ہو گئے۔(۲۱)

مسجد ضرار جو نویں ہجری میں بنائی گئی تھی اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حکم سے عمار یاسر کے ہاتھوں منھدم کی گئی تھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حیات کے آخر ی دنوں میں منافقوں کی خفیہ سازشوں کا ایک نمونہ تھی اور دشمن خدا (ابن عامر) سے ان کے تعلقات کو ظاہر کرتی تھی ابن عامر وہ شخص ہے جو فتح مکہ کے بعد روم بھاگ گیا اور وہاں سے اپنے گروہ کی ہدایت و رہنمائی کیا کرتا تھا۔ ھجرت کے نویں سال جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جنگ تبوک پر جانے کے لئے مدینہ سے نکلے تو داخلی سطح پر منافقوں کے ممکنہ فساد و سازش کے خطرہ سے بہت زیادہ پریشان تھے ۔اسی لئے آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور آپ کے لئے وہ تاریخی جملہ فرمایا تھا ”انت منی بمنزلة هارون من موسیٰ(۲۲) یعنی اے علی(ۡع)تم کو مجہ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ(ۡع)سے تھی۔اس کے بعد آپ نے ان سے تاکید کی کہ داخلی سطح پر مدینہ میں سکون و آرام برقرار رکھنے اور فتنہ و فسد کی روک تھام کے لئے مدینہ میں ہی رہو ۔

منافقوں اور ان کی خطرناک سازشوں سے متعلق بہت سی آیتیں قرآن کریم کے مختلف سوروں میں موجود ہیں اور سب کی سب اسلام سے ان کی دیرینہ عداوت کو بیان کرتی ہیں ۔ اور ابھی یہ فسادی مدینہ میں موجود ہی تھے کہ آنحضرت نے دنیا سے رحلت فرمائی۔

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد قبائل عرب میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو آپ کے بعد کفر و شرک کی طرف پلٹ گئے اور ماموران زکوٰة کو باہر نکال کر انھوں نے اسلام کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا ۔یہ لوگ اگرچہ منافق نہیں تھے ،لیکن ایمان کے اعتبار سے اتنے کمزور تھے جو پت جھڑ کے پتوں کی طرح ہر رخ کی ہوا پر ادھرادھر ہی اڑنے لگتے تھے ۔اگر انھیں کفر و شرک کا ماحول مناسب لگتا تو اسلام کو چھوڑ کر کفر کی راہ اختیار کر لیتے تھے۔

ایسے خونخوار دشمنوں کے ہوتے ہوئے جو اسلام کی کمین میں بیٹھے تھے اور اسلام کے خلاف سازش و شورش میں مشغول تھے کیا یہ ممکن تھا کہ ایسے عاقل ،سمجھدار اور دور اندیش پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان ناگوار حوادث کی روک تھام کے لئے اپنا کوئی جانشین مقرر نہ کریں اور امت واسلام کو دشمنوں کے درمیان اس طرح حیران و سر گردان چھوڑ جائیں کہ ہر گروہ یہ کھتا نظر آئے کہ ”منا امیر منا امیر“ یعنی یہ کھے کہ امیر ہم میں سے ہونا چاہئے اور وہ کھے کہ امیر ہم میں سے ہونا چاہئے ؟!

باقی دو دشمن

اس مثلث کے بقیہ دو دشمن اس وقت کی ایران و روم کی دو بڑی طاقتیں تھیں ۔ روم کی فوج سے اسلام کی پہلی جنگ ھجرت کے آٹھویں سال فلسطین میں ہوئی جو لشکر اسلام کے بڑے بڑے سردار وں ”جعفر طیار“ ، ”زید بن حارث“اور ”عبداللہ بن رواحہ “ کے قتل اور لشکر اسلام کی انتھائی سخت شکست پر تمام ہوئی اور لشکر اسلام خالد بن ولید کی سرداری میں مدینہ واپس آیا ۔کفر کی فوج سے لشکر اسلام کی اتنی سخت شکست سے قیصر روم کے حوصلے بلند تھے اور ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ کہیں وہ لوگ مرکز اسلام پر حملہ نہ کریںاسی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ھجرت کے نویں سال ایک بڑا لشکر جس کی تعداد تیس ھزار تھی لیکر شام کی طرف روانہ ہوئے تاکہ فوجی مشق کے علاوہ دشمن کے ممکنہ حملہ کو روک سکیں اور راہ کے بعض قبائل سے تعاون یا غیر جانبداری کا عھد و پیمان لے سکیں ۔ اس سفر میں جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو مسلسل رنج و زحمت اٹھانا پڑی آپ رومیوں سے لڑے بغیر مدینہ واپس آگئے۔

اس کامیابی نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو مطمئن نہیں کیا آپ لشکر اسلام کی شکست کے جبران کی کوشش میں لگے رہے ۔اس کے لئے آپ نے اپنی بیماری سے چند روز پہلے ”اسامہ بن زید “ کو لشکر اسلام کا علم دے کر اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اسامہ کی سرداری میں شام کی طرف روانہ ہوں اور اس سے پہلے کہ دشمن ان پر حملہ کرے وہ جنگ کے لئے تیار رہیں۔

یہ تمام واقعات اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)شمال یعنی روم کی طرف سے بہت نگراں تھے اور کھا کرتے تھے کہ ممکن ہے قیصر روم کی طرف سے اسلام کو سخت حملہ کا سامنا کرنا پڑے ۔

تیسرا دشمن ایران کی ساسانی شھنشاہی تھی ۔یہاں تک کہ خسرو پرویز نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا خط پھاڑ ڈالا تھا ،سفیر کو قتل کر دیا تھا اور یمن کے گونر کو لکھا تھا کہ (معاذ اللہ ) پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو قتل کرکے ان کا سر میرے پاس مدائن روانہ کرے ۔

حجازاور یمن عرصہ سے حکومت ایران کا حصہ شمار ہوتے تھے لیکن اسلام کے آنے کے بعد حجاج نہ صرف آزاد ہو گیا تھا بلکہ خود مختار ہو گیا تھا اور یہ امکانات بھی پیدا ہو گئے تھے کہ یہ محروم اور کچلی ہوئی قوم اسلام کے سایہ میں پورے ایران پر مسلط ہو جائے۔

اگر چہ خسرو پرویز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حیات میں گزر گیا تھا لیکن ساسانیوں کی حکومت سے یمن اور حجازکا جدا ہو جانا ان لوگوں کے لئے اتنا بڑا دھکا تھا جو خسرو کے جانشینوں کے ذہن سے دور نہیں ہو ا تھا ۔ساتھ ہی یہ بڑھتی ہوئی نئی طاقت جو ایمان و اخلاص اور فداکاری سے آراستہ تھی ان کے لئے ناقابل برداشت تھی۔

ایسے طاقتور دشمنوں کے ہوتے ہوئے کیا یہ درست تھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس دنیا سے چلے جائیں اور امت اسلام کے لئے اپنا کوئی فکری و سیاسی جانشین معین نہ کریں؟ ظاہر ہے کہ عقل ، ضمیر اور سماجی محاسبات ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اس طرح کی بھول ہوئی ہوگی ۔ اور انھوں نے ان تمام حادثات و مسائل کو نادیدہ قرار دیتے ہوئے اسلام کے گرد کوئی دفاعی حصار نہ بنایا ہوگا اور اپنے بعد کے لئے ایک آگاہ ،مدیر و مدبر اور جھاندیدہ رہبر معین نہ کیا ہوگا۔

____________________

(۲۰)۔سورہ طور/۳۰

(۲۱) الدرجات الرفیعہ ص/۷۷ حضرت علی ںنے اس موقع پر ابو سفیان سے اپنا وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ”ما زلت علی و الاسلام و اهله “ تو ہمیشہ اسلام اور اہل اسلام کا دشمن رہا ہے ۔ الاستیعاب ،ج/۲ص/۶۹۰

چوتھی فصل

پیغمبر امامت کو الٰہی منصب سمجھتے ہیں

اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ امت کی رہبری کا مسئلہ مسلمان معاشرہ کے لئے اساسی اور حیاتی حیثیت رکھتا ہے۔چنانچہ اسی مسئلہ پر اختلاف پیدا ہوا اور اس نے امت کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ان کے درمیان گھرا اختلاف پیدا کردیا ۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے تمام چیزوں کے بارے میں واجب، مستحب ،حرام و مکروہ سے متعلق تو ساری باتیں بیان فرمائیں لیکن امت کی قیادت و رہبری اور حاکم کے خصوصیات سے متعلق کوئی بات کیوں بیان نہیں کی؟ کیا انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اتنے اہم موضوع پر کوئی توجہ نہ دی ہوگی بلکہ خاموشی اختیار کی ہوگی اور امت کو بیدار نہ کیا ہوگا؟!

علمائے اہل سنت فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے قیادت وامامت کے طریقہ کے سلسلہ میں نفیاًو اثباتاً کوئی بات نہیں بیان کی اور یہ واضح نہیں کیا کہ قیادت و رہبری کا مسئلہ انتخابی ہے یا تعیینی ہے۔

سچ مچ کیا عقل باور کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اس انتھائی اہم اور حیاتی مسئلہ پر خاموشی اختیار کی ہوگی اور قضیہ کے ان دونوں پہلوں سے متعلق کوئی اشارہ نہ کیا ہوگا؟

عقل کے فیصلہ سے آگے بڑہ کر تاریخ اسلام کا جائزہ بھی اس نظریہ کے خلاف گواہی دیتا ہے ۔اور یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مختلف موقعوں پر یہ یاد دھانی کی ہے کہ میرے بعد امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ خدا سے مربوط ہے اور وہ اس سلسلہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتے ۔یہاں ہم تاریخ اسلام سے چند نمونے پیش کرتے ہیں :

جب مشرکوں کے ایک قبیلہ کے سردار ”اخنس“ نے اس شرط پر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حمایت کا اظھارکیا کہ اپنے کے بعد امت کی قیادت و سرپرستی آپ ہمارے حوالے کر جائیں گے تو پیغمبر اسلام نے اسے جواب دیا کھ” الا مر الیٰ اللہ یضعہ حیث یشاء “یعنی امت کی قیادت کا مسئلہ خدا سے مربوط ہے وہ جسے بہتر سمجھے اس امر کے لئے منتخب کرے گا ۔قبیلہ کا سردار یہ بات سن کر مایوس ہو گیا اور اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جواب میں کھلایا کہ یہ بات بالکل درست نہیں ہے کہ رنج و زحمت میں اٹھاؤں اور قیادت و رہبری کسی اور کو ملے!(۱۱)

تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بھی ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ”یمامھ“ کے حاکم کو خط لکہ کر اسے اسلام کی دعوت دی اس نے بھی ”اخنس “ کے مانند آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے آپ کی جانشینی کا تقاضا کیا تو آنحضرت نے اسے انکار میں جواب دیتے ہوئے فرمایا:”لا ولاکرامة “ یعنی یہ کام عزت نفس اور روح کی بلندی سے بعید ہے۔(۱۲)

امت کی قیادت و رہبری کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اس کی اہمیت کو صرف ہم ہی نے محسوس نہیں کیا ہے بلکہ صدر اسلام میں بھی یہ مسئلہ بہت سے لوگوں کی نظر میں بڑی اہمیت رکھتا تھا ۔ مثلا جس وقت خلیفہ دوم ،ابو لو لو کی ضرب سے زخمی ہوئے اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر نے اپنے باپ کو مرتے ہوئے دیکھا تو اپنے باپ سے کھا جتنی جلدی ہو سکے اپنا ایک جانشین معین کیجئے اور امت محمدی کو بے حاکم وبے سر پرست نہ چھوڑئے ۔

بالکل یہی پیغام ام المومنین عائشہ نے بھی خلیفہ دوم کو کھلایا اور ان سے درخواست کی کہ امت محمدی کے لئے ایک محافظ و نگھبان معین کر جائیں۔اب کیا یہ کھنا صحیح ہوگا کہ ان دو شخصیتوں نے امت کی قیادت و رہبری کے مسئلہ کی اہمیت کو تو اچھی طرح محسوس کر لیا تھا لیکن رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ان دو افراد کے بقدر بھی اس مسئلہ کی اہمیت کو سمجہ نہیں پائے تھے ؟!

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مدینہ کی دس سالہ زندگی کا ایک ھلکا سا جائزہ لینے کے ساتھ ہی یہ بات پوری طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ آنحضرت جب بھی کہیں جانے کے لئے مدینہ سے نکلتے تھے کسی نہ کسی کو مدینہ میں اپنا جانشین معین کر جاتے تھے ،تاکہ اس مختصر سی مدت میں بھی جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مدینہ میں تشریف نہیں رکھتے لوگ بے سر پرست اور بے پناہ نہ رہیں ۔ کیا یہ بہتر ہے کہ جو جانشین معین کرنے کی اہمیت سے آگاہ ہو اور یہ جانتا ہو کہ حتّٰی مختصر مدت کے لئے بھی جانشین معین کئے بغیر مدینہ کو ترک نہیں کرنا چاہئے ۔وہ دنیا کو ترک کرے اور اپنا کوئی جانشین معین نہ کرے یا کم از کم قیادت و رہبری کی شکل ونوعیت اور حاکمیت کے طریقہ کار کے بارے میںکچہ نہ کھے ؟!

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جب کسی علاقہ کو فتح بھی کرتے تھے تو اسے ترک کرنے سے پہلے وہاں ایک حاکم معین فرماتے تھے پھر ان حالات میں یہ کیسے کھا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنا جانشین معین کرنے میں غفلت سے کام لیا ہوگا اور اس کے لئے میں کوئی فکر نہ کی ہوگی ،جو ان کے بعد امت کی قیادت و رہبری اپنے ہاتھ میں لے سکے اور اسلام کے نو پا درخت کی نگھبانی و سرپرستی کر سکے؟!

نبوت و امامت باہم ہیں

متواتراحادیث اور اسلام کی قطعی تاریخ صاف گواہی دیتی ہیں کہ نبوت اور امامت دونوں کا اعلان ایک ہی دن ہوا اور جس روز پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)خدا کی طرف سے اپنے خاندان والوں کے درمیان اپنی رسالت کا اعلان کرنے پر مامور ہوئے تھے اسی روز آپ نے اپنا خلیفہ و جانشین بھی معین فرمادیاتھا۔

اسلام کے گرانقدر مفسرین و محدثین لکھتے ہیں کہ جب آیت( و انذر عشیرتک الاقربین ) (شعراء /۲۱۴) نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو خاندان والوں کے لئے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا جنھیں آنحضرت نے مہمان بلایا تھا۔حضرت علی علیہ السلام نے بھی پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حکم سے کھانا تیار کیا اور بنی ہاشم کی پینتالیس شخصیتیں اس مجلس میں اکٹھا ہوئیں۔پھلے روز ابو لھب کی بیھودہ باتوں کی وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی رسالت کا پیغام سنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔دوسرے روز پھر یہ دعوت کی گئی اور مہمانوں کے کھانا کھالینے کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی جگہ کھڑے ہوئے اور خداوند عالم کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا:

میں تم لوگوں اور دنیا کے تمام انسانوں کے لئے خدا کا پیغامبر ہوں اور تم لوگوں کے لئے دنیا وآخرت کی بھلائی لایا ہوں۔خدانے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اس دین کی طرف دعوت دوں تم میں سے جو شخص اس کام میں میری ا مدد کرے گا وہ میرا وصی اور جانشین ہوگا۔

اس وقت حضرت علی بن ابیطالب ںکے علاوہ کسی نے بھی اٹہ کر پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی نصرت و مدد کا اعلان نہیں کیا۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو بیٹہ جانے کا حکم دیا اور دوبارہ اور تیسری بار بھی اپنا جملہ دھرایا اور ہر بار حضرت علی ںکے علاوہ کسی نے آپ کی حمایت اور اس راہ میں آپ کی نصرت و فدا کاری کا اظھار نہیں کیا۔اس وقت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنے خاندان والوں کی طرف رخ کرکے فرمایا: ”ان هذااخی و وصی و خلیفتی فیکم فاسمعوا و اطیعوا “ یعنی علی(ۡع)میرا بھائی اور تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ہے،پس تم پر لازم ہے کہ اس کا فرمان سنو اور اس کی اطاعت کرو۔(۱۳)

تاریخ کا یہ واقعہ اس قدر مسلّم ہے کہ ابن تیمیہ جس کا خاندان اہل بیت(ۡع)سے عناد سب پر ظاہر ہے ،کے علاوہ کسی نے بھی اس کی صحت سے انکار نہیں کیا ہے۔یہ حدیث حضرت علی ںکی امامت کی دلیل ہونے کے علاوہ اس بات کی سب سے اہم گواہ ہے کہ امامت کا مسئلہ امت کے اختیار میں نہیں ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جانشین کا اعلان اس قدر اہم تھا کہ نبوت و امامت دونوں منصبوں کے مالک افراد کا اعلان ایک ہی دن پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے خاندان والوں کے سامنے کیا گیا ۔ یہ واقعہ تین بعثت کو پیش آیا اور اس وقت تک پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی دعوت مخصوص افراد کے ذریعہ لوگوں تک پہنچائی جاتی تھی اور تقریباً ۵۰پچاس افراد اس وقت تک مسلمان ہوئے تھے۔

____________________

(۱۱)۔تاریخ طبری ،ج/۲، ص/۱۷۲

(۱۲)تاریخ کامل، ج/۲،ص/۶۳

(۱۳)۔تاریخ طبری ج/۲،ص/۶۲۔۶۳ تاریخ کامل ج/۲،ص/۴۰۔۴۱ مسند احمد ،ج/۱،ص/۱۱۱ ۔اور دیگرمآخذ

پانچویں فصل

اسلامی قوانین اور کتاب خدامعصوم کی تفسیر سے بے نیاز نھیں

اسلامی قوانین چاہے جتنے بھی روشن و واضح ہوں پھر بھی ان کی توضیح و تفسیر ضروری ہے بالکل یوں ہی جیسے آج ملکوں کے قوانین چاہے جس قدر روز مرہ کی زبان میں تنظیم کئے جائیں پھر بھی ان کی وضاحت کے لئے زبر دست قسم کے ماہروں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے اہم پہلوؤں کو واضح کر سکیں ۔ اور اسلامی قوانین بھی حتیٰ وہ بھی جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی زبان سے نقل ہوئے ہیں توضیح و تفسیر سے مستثنٰی اور بے نیاز نہیں ہیں ۔اس کے گواہ مسلمانوں کے درمیان وہ سیکڑوں اختلافات ہیں جو قرآنی آیات اور اسلامی احادیث کے سلسلہ میں نظر آتے ہیں۔

کیا اسلام کے ابدی و جاودانی قوانین کو ایسے کسی پیشوا کی ضرورت نہیں ہے جوپیغمبر اکرم کے علوم کا وارث ہو اور اختلاف کے موارد میں سب کے لئے حجت ہو ؟اور کیا اختلافات دور کرنے فاصلوں کو کم کرنے اور اسلامی اتحاد بر قرار کرنے کے لئے ایسے جانشین کا تعین لازم و ضروری نہیں تھا؟

حضرت عمر کی خلافت کے دوران ایک شخص نے اسلامی عدالت میں شکایت کی کہ میری بیوی کے یہاں چہ ہی مھینہ میں بچہ پیدا ہو گیا ہے ۔ قاضی نے حکم دے دیا کہ لے جاؤ اس عورت کو سنگسار کر دو ۔راستہ میں اس عورت کی نگاہ حضرت علی علیہ السلام پر پڑی اس نے چیخ کر کھا :اے ابو الحسن میری فریاد کو پھنچئے ۔ میں ایک پاک دامن عورت ہوں اور میں نے اپنے شوہر کے علاوہ کسی سے قربت نہیں کی ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام جب واقعہ سے آگاہ ہوئے تو انھیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ قاضی نے فیصلہ کرنے میں غلطی کی ہے ۔ آپ(ۡع) نے ماموروں سے مسجد واپس چلنے کو کھا اور مسجد میں جا کر خلیفہ سے پوچھا کہ تم نے یہ کیسا فیصلہ کیا ہے ؟خلیفہ نے کھا کہ شوہر سے اس عورت کی قربت کو صرف چہ ماہ گزرے ہیں ۔ کیا کہیں چہ مھینے میں بچہ پیدا ہوتا ہے ؟ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا جس میں آیا ہے( وحمله و فصاله ثلاثون شهرا ) (۱۴) یعنی اس کا حمل اور دودہ پلانے کا زمانہ تیس ماہ ہے۔خلیفہ نے جواب دیا درست ہے ۔ پھر حضرت علی ںنے فرمایا: کیا قرآن نے دودہ پلانے کا زمانہ دو سال نہیں معین کیا ہے کہ ارشاد ہوتا ہے:( والولدات یرضعن اولادهن حولین کاملین ) (۱۵) یعنی مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودہ پلائیں ۔خلیفہ نے جواب دیا :سچ فرمایا: اس پر حضرت علی ںنے فرمایا : کہ اگر دودہ پلانے کے چوبیس مھینوں کو تیس مھینوں سے کم کرو توچہ ہی ماہ باقی رہتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حاملگی کی کم سے کم مدت چہ ماہ ہے اور عورت اس مدت میں سالم بچہ پیدا کر سکتی ہے۔

حضرت امیر المومنین علی ںنے دو آیتوں کو باہم ضمیمہ کرکے ایسا قرآنی حکم استنباط کیا جس سے اصحاب واقف نہیں تھے اب کیا یہ کھا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس الٰہی کتاب قرآن مجید کی وضاحت کے لئے جو ایک جاوید رہنما اور ابدی قانون کی حیثیت رکھتی ہے اپنے بعد کوئی اقدام نہیں فرمایا ہے؟

ممکن ہے یہ کھا جائے کہ ایسے نادر مسئلہ میں اختلاف سے جو انسانی زندگی میں بہت کم پیش آتا ہے پورے اسلامی معاشرہ کے اتحاد کو خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا ،تو اس کے جواب میں یہ کھا جائے گا کہ اختلاف اس طرح کے نادر مسائل سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف مسلمانوں کے روز مرہ اور بنیادی فرائض و وظائف سے بھی تعلق رکھتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر روز کے مسائل میں مسلمانوں کے اختلاف و تفرقہ سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں اور یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اتنے سارے مسائل میں اختلافات سے مسلمانوں کے اتحاد و یکجھتی پر کوئی ضرب نہیں پڑتی ہے۔

قرآن مجید نے اپنے سورہ مائدہ آیت /۶ میں وضو کرنے کی کیفیت مسلمانوں سے بیان کی ہے اور صدر اسلام میں مسلمان ہر روز اپنی آنکھوں سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو وضو کرتے ہوئے دیکھتے تھے ، لیکن پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد قرآن مجید دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلا اور علماء کے اوپر قرآنی آیات میں اجتھاد و تفکر کا دروازہ کھلا اور فقھی احکام سے متعلق آیات پر رفتھ رفتھ بحث و تحقیق ہوئی لیکن سر انجام کیفیت وضو سے متعلق آیت کو سمجھنے میں اختلاف پیدا ہوگیا اور آج یہ اختلاف باقی اور رائج ہے کیوں کہ شیعہ علماء اپنے ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ہیں اور پیروں کا مسح کرتے ہیں لیکن علمائے اہل سنت ان کے بالکل بر خلاف عمل کرتے ہیں۔

اگر امت کے درمیان ایک ایسا معصوم اور تمام اصول و فروع سے آگاہ رہبر موجود ہو کہ سب کے سب اس کی بات تسلیم اور اس کی پیروی کرتے ہوں تو ہر گز ایسا اختلاف جو مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دے پیش نہیں آئے گا اور پورا اسلامی معاشرہ اپنے روز مرہ کے فرائض کی انجام دھی میں یک رنگ و یک شکل ہوگا۔

قرآن کی تفسیر میں اختلاف

اسلام کے جزا و سزا کے قوانین میں ایک چور کے ہاتھ کاٹنے کا قانون ہے جو اپنے شرائط و خصوصیات کے ساتھ فقھی کتابوں میں درج ہے ابھی ابھی دو تین صدی پہلے تک جبکہ اسلام ایک طاقت کی شکل میں حاکم تھا اسلامی حکومتیں اپنے قوانین قرآن سے حاصل کرتی تھیں اور جبکہ مغربی قوانین ابھی اسلامی سرزمینوں تک نہیں پھنچے تھے چور کی تنھا سزا اس کاہاتھ کاٹنا تھی ۔لیکن افسوس کہ یہ ایک چھوٹا سا اور تقریبا روز مرہ کا مورد بھی ان موارد میں سے ہے کہ اسلام کی چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی حد معین کرنے کے سلسلہ میں ایک نقطہ پر متحد نہیں ہو سکے

معتصم عباسی کے زمانہ میں جبکہ ھجرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دو سو سال سے زیادہ گزر چکے تھے ،علماء نے اسلام کے درمیان ہاتھ کاٹنے سے متعلق آیت کی تفسیرمیں اختلاف پیدا ہوگیا ۔وہ لوگ یہ طے نہیں کر پارہے تھے کہ چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹنا چاہئے ۔ایک کھتا تھا :ھاتھ کلائی سے کاٹا جائے گا۔ دوسرا کھتا تھا : ہاتھ کھنی سے کاٹا جائے گا ۔تیسرا کھتا تھا : ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ آخر کار خلیفہ وقت نے شیعوں کے نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے بھی دریافت کیا۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: چور کے ہاتھ کی صرف چار انگلیاں کاٹی جائیں گی ۔ جب آپ(ع) سے پوچھا گیا کہ اس کی دلیل کیا ہے تو آپ(ۡع)نے فرمایاکہ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرمایا ہے:” و ان المساجد اللہ “ سجدہ کی جگھیں خدا کے لئے ہیں اور اس سے متعلق ہیں ۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: ان میں سے ایک ہتھیلی بھی ہے جسے سجدہ کے وقت زمین پر ٹکانا ضروری ہے اور جو چیز خدا سے متعلق ہو اسے کاٹا نہیں جا سکتا ۔

اگر امت کے درمیان ایک ایسا قرآن شناس موجود ہو جو قرآن کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہی رکھتا ہو اور فکری اعتبار سے مسلمانوں کا ملجاو مرکز قرار پائے اور تمام مسلمان اس کی طرف رجوع کریں تو ظاہر ہے کہ بہت سے اختلافات آسانی سے دور ہو جائیں گے اور امت ایک ہی سمت میں ایک ہی مقصد کے ساتھ قدم بڑھائے گی۔نہ مسلمانوں کاقیمتی وقت ضائع ہوگا اور نہ ان میں خطرناک اور خونریزاختلاف ٹکراؤ پایاجائے گا۔

قرآن مجید ہر طرح کے استنباط اور صحیح اسلام کو سمجھنے کے لئے اساسی و بنیادی ماخذ ہے اور کوئی چیز اس عظیم کتاب کی برابری نہیں کر سکتی ۔اگر دوسرے ماخذ میں باہم اختلاف نظر آئے مثلا اگر پیغمبر اکرم کی دو حدیثیں باہم ٹکراو رکھتی ہوں تو ہم اس حدیث کو اپنائیں گے جو قرآن کے مطابق ہوگی۔

لیکن کیا دلالت اور بیان کے اعتبار سے قرآن کی تمام آئتیں ایک جیسی ہیں اور کیا قرآن میں سرے سے کوئی ایسی آیت ہے ہی نہیں جس کے لئے کسی معصوم مفسر کی ضرورت ہو ؟ یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو قرآن سے زیادہ لگاؤ نہیں رکھتا اور اس کی روح و فکر قرآن سے ہم آھنگ نہیں ہے ۔صحیح ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں دلالت کے اعتبار سے روشن و واضح ہیں اور اس کی محکم آیات میں شمار ہوتی ہیںاور وہ قرآنی آیات بھی جومبھم ہیں دوسری آیتوں کے ذریعہ روشن و واضح ہو جاتی ہیں ۔(۱۶) اس کے باوجود قرآن میں ایسی آیتیں موجود ہیں جو یا نزول کے وقت سے ہی مبھم ہیں یا زمانہ وحی سے دوری کی وجہ سے مبھم ہوگئی ہیں۔ اس قسم کی آیات چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو کیسے حل کی جا سکتی ہیں؟

کیا امت کے درمیان کوئی ایسی مرکز ی شخصیت موجود نہیں ہونی چاہئے جو اس قسم کی آیات کا ابھام دور کرکے ان کی صحیح تفسیر کر سکے جن میں سے بعض کے نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں؟

حضرت علی علیہ السلام نے جب ابن عباس کو خوارج سے مناظرہ کے لئے روانہ کیا تو انھیں یہ حکم دیا تھا کہ :”لاتخا صمھم بالقرآن فان القرآن حمال ذو وجوہ تقول و یقولون“ یعنی ان سے ہرگز قرآن سے بحث و مباحثہ نہ کرنا ،کیوں کہ قرآن کی آیاتیں کئی احتمالات اور کئی معانی رکھتی ہیں ۔تم ان سے بعض آیات سے استدلال کروگے اور وہ تمھیں بعض دوسری آیات سے جواب دیں گے۔

یہ مسلم ہے کہ امام کی یہ گفتگو قرآن کی تمام آیات سے متعلق نہیں تھی بلکہ آپ کی گفتگو ان آیات سے متعلق تھی جو دو پہلووالی ہیں ،بظاہرروشن و واضح نہیں ہیں اور ان کا مفھوم و مفاد قطعی نہیں ہے۔

اس اعتبار سے امت کے درمیان ایک امام معصوم کا وجود جو اسلام کے اصول و فروع سے پوری طرح آگاہ ہو ،قرآن کریم کے علوم پر کامل تسلط رکھتا ہو اور امت کے درمیان ایک علمی و فکری پناہگاہ ہو۔ اختلافات دور کرے اور اس کی بات فیصلہ کن ہو، لازم و ضروری ہے ورنہ دوسری صورت میں اختلافات بڑھتے جائیں گے بلکہ بعض احکام اور قرآنی آیات کی تفسیرغلط کی جائے گی جو مسلمانوں کے قرآنی حقائق سے دور ہو جانے کا باعث ہوگی۔

ہشام ابن حکم

ہشام ،امام جعفر صادق کے زبردست شاگرد اور دوسری صدی ہجری میں علم مناظرہ اور علم کلام کے استاد تھے انھوں نے امت کے درمیان اختلاف دور کرنے اور صحیح فیصلہ کے لئے امام کے وجود کی ضرورت پر روشنی ڈالی ہے کہ آپ نے ایک روز فرقہ معتزلہ کے سردار اور بصرہ کے پیشوا عمر وبن عبید سے امت کے درمیان امام معصوم کے وجود کی ضرورت پر بحث کی شروع اور اس سے درخواست کی کہ میرے سوالوں کے جواب دو ۔ عمر و بن عبید نے بھی قبول کیا۔ ہشام نے پوچھا:

تمھارے آنکھ ہے ؟

ہاں

اس سے کیا کام لیتے ہو ؟

اس سے لوگوں اور چیزوں کو دیکھتاہوں اور رنگوں کی تشخیص دیتا ہوں۔

تمھارے کان ہے؟

ہاں؟

اس سے کیا کام لیتے ہو؟

اس سے آواز سنتا ہوں ۔

تمھارے ناک ہے ؟

ہاں۔

اس سے کیا کام لیتے ہو؟

اس سے بو سونگھتا ہوں۔

اس کے بعد ہشام نے دوسرے حواس یعنی قوت ذائقہ و لامسہ اور بدن کے دوسرے اعضاء مثلا انسان کے جسم میں ہاتھ اور پاؤں وغیرہ کے بارے میں سوال کیا اور عمر وبن عبید نے ان سب کا صحیح جواب دیا۔ پھر ہشام نے پوچھا : تمھارے دل ہے ؟ ہاں ۔انسان کے بدن میں اس کا کیا کام ہے ؟ عمرو نے جواب دیا کہ جو کچہ بدن کے تمام اعضاء و جوارح انجام دیتے ہیں قلب کے ذریعہ انھیں تشخیص دیتا ہوں ۔ اور جب بھی انسانی حواس میں سے کوئی خطا کرتا ہے یا بدن کا کوئی حصہ شک میں مبتلا ہوتا ہے تو قلب و دل کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنے شک کو دور کردیتا ہے۔

اس وقت ہشام نے اس بحث سے نتیجہ حاصل کرتے ہوئے کھا کہ جس خدا نے جسم کے حواس اور اعضا ء کی شک و تردید دور کرنے کے لئے بدن میں ایک ایسی پناہگاہ اور مرکزی چیز پیدا کی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ انسانی معاشرہ کو یوں ہی اس کے حال پر جھوڑ دے اور اس کے لئے کوئی پیشوا و رہبر معین نہ کرے کہ انسانی معاشرہ اپنے شک ،حیرانی اور خطا کو اس کے ذریعہ دور کرے اور صحیح راہ اختیار کر سکے !(۱۷)

امام جعفر صادق(ع)،جانشین پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مرتبہ اور اس کی حیثیت کو یوں بیان فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ایسے امام کا وجود لازم و ضروری ہے جو الٰہی احکام کو ہر طرح کی گزند اور کمی و زیادتی سے محفوظ رکھے اور ان کی حفاظت کرے ۔ (۱ ۸) ہشام ابن حکم نے ایک روز حضرت امام جعفر صادق ںکی موجودگی میں شام کے ایک عالم سے مناظرہ کیا اور اس تفصیلی مناظرہ کے دوران اس سے پوچھا کہ کیا خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان ہر طرح کے اختلافات دور کرنے کے لئے کوئی دلیل و حجت ان کے حوالے کی ہے ؟ اس نے کھا: ہاں اور وہ دلیل و حجت قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سنت یعنی ان کی احادیث ہیں ۔ ہشام نے پوچھا : کیا قرآن و احادیث اختلافات دور کرنے کے لئے کافی ہیں ۔اس نے جواب دیا ہاں ۔تو ہشام نے کھا اگر کافی ہیں تو پھر ہم دونوں جو ایک مذہب رکھتے ہیں اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں آپس میں اختلاف کیوں رکھتے ہیں؟ اور ہم میں سے ہر ایک نے ایسی راہ کیوں اختیار کر رکھی ہے جو دوسرے کے خلاف ہے ؟! اس پر اس شامی عالم کو خاموشی اختیار کرنے اور حقانیت کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔(۱۹)

____________________

(۱۴) سورہ احقاف/۱۵

(۱۵) سورہ بقرہ /۲۳۲

(۱۶)۔ حضرت امیر المومنین علی اس قسم کی آیات کے بارے میں فرماتے ہیں :”کتاب الله تبصرون به ،وتسمعون به و ینطق بعضه ببعض و یشهد بعضه علی بعض

(۱۷) اصول کافی ،ج/۱ص/۱۷۰

(۱۸) اصول کافی ،ج/۱ص/۱۷۲

(۱۹) اصول کافی ،ج/۱ص/۱۷۸

چھٹی فصل

خطرناک مثلث

اسلام کے تین دشمن

جس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے دنیا سے رحلت فرمائی تو اسلام کے اس نوجوان وجود کو باہر اور اندر سے تین طرح کے دشمن گھیر ے ہوئے تھے اور ہر لمحہ اس کو خطرہ تھا کہ یہ تینوں طاقتیں باہم ایک ہو کرایک مثلث بنائیں اور اسلام پر حملہ آور ہوں ۔

پھلا دشمن :

داخلی دشمن یعنی مدینہ اور اس کے آس پاس کے منافقین تھے جنھوں نے کئی بار پیغمبر اکرم کی جان لینے کی کوشش کی تھیں اور جنگ تبوک سے واپسی کے وقت ایک خاص منصوبہ کے تحت جو پورے طورسے تاریخ میںذکرہوہے،پیغمبرکرم کے اونٹ کو بھڑکاکر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان لینا چاہتے تھے۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان لوگوں کی سازش سے آگاہ ہو کر وہ تدبیر اپنائی کہ ان کا منصوبہ نا کام ہو گیا ۔ ساتھ ہی اسلام کی عمومی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آنحضرت نے اپنی زندگی میں ہی ان کے نام بعض خاص افراد مثلا ”حذیفہ یمانی“ کو بتا دیئے تھے۔

اسلام کے یہ دشمن جو بظاہر مسلمانوں کے لباس میں چھپے ہوئے تھے،آنحضرت کی موت کا انتظار کر رہے تھے اور در حقیقت اس آیت کو اپنے دل میں دھرا رہے تھے جسے قرآن پیغمبرکی حیات میں کافروں کی زبانی نقل کرتاہے:”انما نتربص بہ ریب المنون“(۲۰) یعنی ہم اس کی موت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ فوت ہوجائے اور اس کی شھرت ختم ہوجائے۔

یہ لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے ساتھ ہی اسلام کی رونق ختم ہوجائے گی،اس کا پھیلاو رک جائے گا۔ کچہ لوگ یہ بھی سوچتے تھے کہ اسلام آنحضرت کے بعد کمزور پڑجائے گا اور وہ دوبارہ زمانہ جاہلیت کے عقائد کی طرف پلٹ جائےں گے۔

آنحضرت کی رحلت کے بعد ”ابوسفیان “ نے چاہا کہ قریش اور بنی ہاشم کے درمیان اختلاف پیدا کردے اور جنگ بھڑکاکر اسلامی اتحاد کے اوپر کاری ضرب لگائے اس مقصد کے پیش نظر وہ بڑے ہمدردانہ انداز میں حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوا اور ان سے بولا :اپنا ہاتھ بڑھایئے کہ میں آپ کی بیعت کروں تاکہ تمیم اور عدی قبیلوںکے لوگ آپ کی مخالفت کی جرات نہ کریں امام نے پوری ہوشیاری کے ساتھ صف اسلام میںاختلاف پیدا کرنے اور مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے کی اس کی شازش کو سمجہ لیا لھٰذا فورا ًٹکا سا جواب دیا اور خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تجھیز و تکفین میں مشغول ہو گئے۔(۲۱)

مسجد ضرار جو نویں ہجری میں بنائی گئی تھی اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے حکم سے عمار یاسر کے ہاتھوں منھدم کی گئی تھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حیات کے آخر ی دنوں میں منافقوں کی خفیہ سازشوں کا ایک نمونہ تھی اور دشمن خدا (ابن عامر) سے ان کے تعلقات کو ظاہر کرتی تھی ابن عامر وہ شخص ہے جو فتح مکہ کے بعد روم بھاگ گیا اور وہاں سے اپنے گروہ کی ہدایت و رہنمائی کیا کرتا تھا۔ ھجرت کے نویں سال جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جنگ تبوک پر جانے کے لئے مدینہ سے نکلے تو داخلی سطح پر منافقوں کے ممکنہ فساد و سازش کے خطرہ سے بہت زیادہ پریشان تھے ۔اسی لئے آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور آپ کے لئے وہ تاریخی جملہ فرمایا تھا ”انت منی بمنزلة هارون من موسیٰ(۲۲) یعنی اے علی(ۡع)تم کو مجہ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ(ۡع)سے تھی۔اس کے بعد آپ نے ان سے تاکید کی کہ داخلی سطح پر مدینہ میں سکون و آرام برقرار رکھنے اور فتنہ و فسد کی روک تھام کے لئے مدینہ میں ہی رہو ۔

منافقوں اور ان کی خطرناک سازشوں سے متعلق بہت سی آیتیں قرآن کریم کے مختلف سوروں میں موجود ہیں اور سب کی سب اسلام سے ان کی دیرینہ عداوت کو بیان کرتی ہیں ۔ اور ابھی یہ فسادی مدینہ میں موجود ہی تھے کہ آنحضرت نے دنیا سے رحلت فرمائی۔

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد قبائل عرب میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو آپ کے بعد کفر و شرک کی طرف پلٹ گئے اور ماموران زکوٰة کو باہر نکال کر انھوں نے اسلام کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا ۔یہ لوگ اگرچہ منافق نہیں تھے ،لیکن ایمان کے اعتبار سے اتنے کمزور تھے جو پت جھڑ کے پتوں کی طرح ہر رخ کی ہوا پر ادھرادھر ہی اڑنے لگتے تھے ۔اگر انھیں کفر و شرک کا ماحول مناسب لگتا تو اسلام کو چھوڑ کر کفر کی راہ اختیار کر لیتے تھے۔

ایسے خونخوار دشمنوں کے ہوتے ہوئے جو اسلام کی کمین میں بیٹھے تھے اور اسلام کے خلاف سازش و شورش میں مشغول تھے کیا یہ ممکن تھا کہ ایسے عاقل ،سمجھدار اور دور اندیش پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان ناگوار حوادث کی روک تھام کے لئے اپنا کوئی جانشین مقرر نہ کریں اور امت واسلام کو دشمنوں کے درمیان اس طرح حیران و سر گردان چھوڑ جائیں کہ ہر گروہ یہ کھتا نظر آئے کہ ”منا امیر منا امیر“ یعنی یہ کھے کہ امیر ہم میں سے ہونا چاہئے اور وہ کھے کہ امیر ہم میں سے ہونا چاہئے ؟!

باقی دو دشمن

اس مثلث کے بقیہ دو دشمن اس وقت کی ایران و روم کی دو بڑی طاقتیں تھیں ۔ روم کی فوج سے اسلام کی پہلی جنگ ھجرت کے آٹھویں سال فلسطین میں ہوئی جو لشکر اسلام کے بڑے بڑے سردار وں ”جعفر طیار“ ، ”زید بن حارث“اور ”عبداللہ بن رواحہ “ کے قتل اور لشکر اسلام کی انتھائی سخت شکست پر تمام ہوئی اور لشکر اسلام خالد بن ولید کی سرداری میں مدینہ واپس آیا ۔کفر کی فوج سے لشکر اسلام کی اتنی سخت شکست سے قیصر روم کے حوصلے بلند تھے اور ہر لمحہ یہ خطرہ تھا کہ کہیں وہ لوگ مرکز اسلام پر حملہ نہ کریںاسی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ھجرت کے نویں سال ایک بڑا لشکر جس کی تعداد تیس ھزار تھی لیکر شام کی طرف روانہ ہوئے تاکہ فوجی مشق کے علاوہ دشمن کے ممکنہ حملہ کو روک سکیں اور راہ کے بعض قبائل سے تعاون یا غیر جانبداری کا عھد و پیمان لے سکیں ۔ اس سفر میں جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو مسلسل رنج و زحمت اٹھانا پڑی آپ رومیوں سے لڑے بغیر مدینہ واپس آگئے۔

اس کامیابی نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو مطمئن نہیں کیا آپ لشکر اسلام کی شکست کے جبران کی کوشش میں لگے رہے ۔اس کے لئے آپ نے اپنی بیماری سے چند روز پہلے ”اسامہ بن زید “ کو لشکر اسلام کا علم دے کر اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اسامہ کی سرداری میں شام کی طرف روانہ ہوں اور اس سے پہلے کہ دشمن ان پر حملہ کرے وہ جنگ کے لئے تیار رہیں۔

یہ تمام واقعات اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)شمال یعنی روم کی طرف سے بہت نگراں تھے اور کھا کرتے تھے کہ ممکن ہے قیصر روم کی طرف سے اسلام کو سخت حملہ کا سامنا کرنا پڑے ۔

تیسرا دشمن ایران کی ساسانی شھنشاہی تھی ۔یہاں تک کہ خسرو پرویز نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا خط پھاڑ ڈالا تھا ،سفیر کو قتل کر دیا تھا اور یمن کے گونر کو لکھا تھا کہ (معاذ اللہ ) پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو قتل کرکے ان کا سر میرے پاس مدائن روانہ کرے ۔

حجازاور یمن عرصہ سے حکومت ایران کا حصہ شمار ہوتے تھے لیکن اسلام کے آنے کے بعد حجاج نہ صرف آزاد ہو گیا تھا بلکہ خود مختار ہو گیا تھا اور یہ امکانات بھی پیدا ہو گئے تھے کہ یہ محروم اور کچلی ہوئی قوم اسلام کے سایہ میں پورے ایران پر مسلط ہو جائے۔

اگر چہ خسرو پرویز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حیات میں گزر گیا تھا لیکن ساسانیوں کی حکومت سے یمن اور حجازکا جدا ہو جانا ان لوگوں کے لئے اتنا بڑا دھکا تھا جو خسرو کے جانشینوں کے ذہن سے دور نہیں ہو ا تھا ۔ساتھ ہی یہ بڑھتی ہوئی نئی طاقت جو ایمان و اخلاص اور فداکاری سے آراستہ تھی ان کے لئے ناقابل برداشت تھی۔

ایسے طاقتور دشمنوں کے ہوتے ہوئے کیا یہ درست تھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس دنیا سے چلے جائیں اور امت اسلام کے لئے اپنا کوئی فکری و سیاسی جانشین معین نہ کریں؟ ظاہر ہے کہ عقل ، ضمیر اور سماجی محاسبات ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اس طرح کی بھول ہوئی ہوگی ۔ اور انھوں نے ان تمام حادثات و مسائل کو نادیدہ قرار دیتے ہوئے اسلام کے گرد کوئی دفاعی حصار نہ بنایا ہوگا اور اپنے بعد کے لئے ایک آگاہ ،مدیر و مدبر اور جھاندیدہ رہبر معین نہ کیا ہوگا۔

____________________

(۲۰)۔سورہ طور/۳۰

(۲۱) الدرجات الرفیعہ ص/۷۷ حضرت علی ںنے اس موقع پر ابو سفیان سے اپنا وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ”ما زلت علی و الاسلام و اهله “ تو ہمیشہ اسلام اور اہل اسلام کا دشمن رہا ہے ۔ الاستیعاب ،ج/۲ص/۶۹۰


4

5

6

7

8

9

10

11