عورت ،گوہر ہستی

عورت ،گوہر ہستی0%

عورت ،گوہر ہستی مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خواتین

عورت ،گوہر ہستی

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 14698
ڈاؤنلوڈ: 2155

تبصرے:

عورت ،گوہر ہستی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 41 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14698 / ڈاؤنلوڈ: 2155
سائز سائز سائز
عورت ،گوہر ہستی

عورت ،گوہر ہستی

مؤلف:
اردو

دوسري فصل

اسلام اورحجاب

مرد اور عورت کي درمياني ’’حد‘‘ پر اسلام کي تاکيد

يہاں ايک بنيادي نکتہ ہے کہ جس پر اسلام نے بہت زيادہ تاکيد کي ہے اور وہ يہ ہے کہ تاريخ ميں مردوں کے مزاج ،عورتوں کي بہ نسبت سخت اور اِن کے ارادے مشکلات کا مقابلہ کرنے کي وجہ سے قوي اور جسم مضبوط رہے ہيں۔ اِسي وجہ سے انہوں نے اہم ترين کاموں اور مختلف قسم کي ذمہ داريوں کو اپنے عہدے ليے ہوا تھا اور يہي وہ چيز ہے کہ جس نے مردوں کيلئے اپني جنس مخالف سے اپنے فائدے کيلئے سوئ استفادہ کرنے کے امکانات فراہم کيے ہيں۔ آپ ديکھئے کہ بادشاہوں، ثروت مند، صاحب مقام و صاحب قدرت افراد ميں سے کون نہيں ہے کہ جس نے اپنے اپنے درباروں اور اپنے اپنے دارئرہ کار ميں اپنے مال و دولت اور مقام قدرت وغيرہ کے بل بوتے صنف نازک سے سوئ استفادہ ،دست درازي اور بے آبروئي کيلئے اقدامات نہ کيے ہوں؟!

يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام اپني پوري قوت و قدرت کے ساتھ احکامات جاري کرتا ہے اور معاشرے ميں مرد وعورت کے درميان حد اور فاصلے کو قرار ديتا ہے اور ان کے درميان تعلقات ميں سختي و پابندي کرتا ہے۔ اسلام کي رو سے کسي کو بھي يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ اِس حد کو پائمال کرے اور اس قانون کي بے احترامي کر ے ، کيونکہ اسلام نے خاندان اور گھرانے کو بہت زيادہ اہميت دي ہے۔ گھر کے گلشن ميں مرد و عورت کا باہمي رابطہ کسي اور قسم کا ہے اور معاشرے ميں کسي اور قانون کے تابع۔ اگر معاشرے ميں مردو عورت کے درميان حائل فاصلوں کے قانون کا خيال نہ رکھا جائے تو نتيجے ميں خاندان اور گھرانہ خراب ہوجائے گا۔ گھرانے ميں عورت پر اکثر اوقات اورمرد پر کبھي کبھار ممکن ہے ظلم ہو۔ اسلامي ثقافت ، مرد وعورت کے درميان عدم اختلاط کي ثقافت ہے۔ ايسي زندگي، خوشبختي سے آگے بڑھ سکتي ہے اورعقلي معيار وميزان کي رعايت کرتے ہوئے صحيح طريقے سے حرکت کرسکتي ہے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام نے سختي کي ہے۔

اسلام کي رو سے اگر معاشرے ميں (نامحرم) مرد اور عورت کے درميان فاصلے اور حد کو عبور کيا جائے،خواہ يہ خلاف ورزي مرد کي طرف سے ہو يا عورت کي طرف سے تو اسلام نے اِس معاملے ميں سخت گيري سے کام ليا ہے۔ اسي نکتے کے بالکل مقابل وہ چيز ہے کہ جسے ہميشہ دنيا کے شہوت پرستوں نے چاہا اور اس پر عمل کرتے رہے ہيں۔ صاحبان زر وزمين اور قدرت وطاقت رکھنے والے مرد،خواتين ، اُن کے ماتحت افراد اور اُن افراد نے کہ جنہوں نے اِن افراد کے ساتھ اور اِن کيلئے زندگي بسر کي، يہي چاہا ہے کہ مردو عورت کادرمياني فاصلہ اور حجاب ختم ہوجائے۔ البتہ خود يہ امر معاشرتي زندگي اورمعاشرتي اخلاق کيلئے بہت برا اور مُضّر ہے۔ يہ فکر و خيال اورعمل معاشرتي حيا و عفت کيلئے باعث زياں اور گھر و گھرانے کيلئے بہت نقصان دہ اور برا ہے اور يہ وہ چيز ہے کہ جو خاندان اورگھرانے کي بنيادوں کو متزلزل کرتي ہے۔

حجاب و پردے ميں اسلام کي سنجيدگي

اسلام، خاندان اورگھرانے کيلئے بہت زيادہ اہميت کا قائل ہے۔ مسلمانوں سے مغرب کي تمام پروپيگنڈا مشينريوں کا اختلاف اورجرح و بحث اِسي مسئلے پر ہے۔ آپ ديکھئے کہ اہل مغرب حجاب و پردے کے مسئلے پرکتني حسّاسيت ظاہر کرتے ہيں! اگر يہ حجاب ، اسلامي جمہوريہ ميں ہو اُسے برا شمار کرتے ہيں، اگرعرب ممالک کي يونيورسٹيز و جامعات ميں ہو کہ جہاں جوان لڑکياں اپني معرفت، آگاہي اور اپنے تمام ميل و اختيار سے حجاب کا انتخاب کرتي ہيں ،تو اپني حساسيت ظاہر کرتے ہيں اور اگر سياسي پارٹيوں اور جماعتوں ميں حجاب ہو تو بھي ان کي بھنويں چڑھ جاتي ہيں۔حتي اگرخود اُن کے اسکولوں ميں لڑکياں باحجاب ہوں تو باوجود يہ کہ يہ لڑکياں اُن کے ملک کي باشندہ ہيں ليکن پھر بھي يہ لوگ حجاب کي نسبت حسا س ہوجاتے ہيں۔ پس اختلاف کي جڑ يہيں ہے۔ البتہ خود يہ لوگ اپني پروپيگنڈا مشينري کے ذريعے ہر وقت فرياد بلند کرتے رہتے ہيں کہ اسلام ميں يا اسلامي جمہوريہ ميں خواتين کے حقوق کو پائمال کيا جارہا ہے ۔ حقيقت تو يہ ہے کہ خود اُن کو اس مسئلے کا يقين نہيں ہے اور وہ جانتے ہيں کہ اسلامي جمہوريہ ايران ميں خواتين کے حقوق کمزور اور پائمال ہونے کے بجائے اُن کا بہت زيادہ خيال رکھا جاتا ہے۔

اسلامي انقلاب اورحقوق نسواں!

آپ توجہ کيجئے کہ آج ايران کے اعليٰ تعليمي اداروں اور جامعات ميں خواتين طالب علموں اور تحصيل علم ميں مصروف لڑکيوں کي تعداد زيادہ ہے يا زمانہ طاغوت ميں ؟ توآپ ديکھيں گے کہ تعداد آج زيادہ ہے ۔ حصول تعليم کے ميدان ميں اچھي پوزيشن اور اچھے نمبر (درجات) لانے والي لڑکيوں کي تعداد آج زيادہ ہے يا شاہي حکومت کے زمانے ميں تھي۔ وہ خواتين جو ہسپتالوں ، صحت کے مراکز اورمختلف علمي اداروں ميں کام اور تحقيق ميں مصروف عمل ہيں آج اُن کي تعداد زيادہ ہے يا گزشتہ زمانے ميں زيادہ تھي؟ وہ خواتين جو ملکي سياست اور بين الاقوامي اداروں ميں اپني شجاعت و دليري کے ذريعے اپنے ملک و قوم کے حقوق اور موقف کا دفاع کرتي ہيں، اُن کي تعداد آج زيادہ ہے يا انقلاب سے قبل اُن کي تعداد زيادہ تھي؟ آپ ديکھيں گے کہ ان کي تعداد آج پہلے کي نسبت زيادہ ہے۔شاہي حکومت کے زمانے ميں خواتين مختلف گروپوں کي شکل ميں سياحت اور سفر کيلئے جاتي تھيں اور يہ سفر بہت اعليٰ پيمانے پر ہوتے تھے ليکن ہوس راني، شہوت پرستي اور اپني وضع قطع اورزينت و آرائش کو دوسروں کو دکھانے کيلئے۔ ليکن آج کي مسلمان عورت بين الاقوامي اداروں ، بين الاقوامي کانفرنسوں، علمي مراکز اور جامعات ميں علمي ،سياسي اور ديگر قسم کي فعاليت انجام دے رہي ہے اور انہي چيزوں کي قدرو قيمت ہے۔

مغربي اور مغرب زدہ معاشرے ميں خواتين کي صورتحال

طاغوتي ايام ميں ہماري لڑکيوں کو ’’آئيڈيل لڑکي‘‘اور ’’بہترين مثال‘‘ کے نام سے خاندان اور گھرانوں کے پاکيزہ اور پيار ومحبت سے لبريز ماحول سے باہر کھينچ کر برائيوں کي کيچڑ ميں ڈال ديتے تھے ليکن آج ايسي کوئي بات نہيں۔ حقوق نسواں کہاں ضايع ہوتے ہيں؟ جہاں خواتين سے تحصيل علم، مناسب ملازمت ، اُن کي فعاليت اور خواتين کي خدمت کرنے جيسے اہم امور کے دروازے خواتين پر بند کرديے جاتے ہيں اور جہاں اُنہيں تحقير و تذليل کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔ جائيے اور امريکي معاشرے کو ديکھئے! آپ مشاہدہ کريں گے کہ اُس معاشرے ميں عورت کي کتني تحقير کي جاتي ہے! گھر کي عورت ، شوہر کي طرف سے اہانت کا نشانہ بنتي ہے اورماں اپنے بچوں کي طرف سے تحقير کا۔ ماں کے حقوق کہ جس طرح اسلامي مراکز اور معاشروں ميں موجود ہيں، اُس معاشرے ميں اُن کا تصور بھي ممکن نہيں۔

خواتين، معاشرہ اور حجاب!

ميں نے ايک بين الاقوامي فورم ميں بہت ہي اہم اور معروف تقرير ميں خاندان اور گھرانے سے متعلق گفتگوکي۔ بعد ميں جو رپورٹ ہميں ملي وہ اِس بات کي عکاسي کررہي تھي کہ اُس ملک کے باشندوں نے ميري تقرير کے اُسي حصے کو بہت توجہ سے سنا اور بہت زيادہ پسنديدگي کا اظہار کيا ۔ وجہ يہ ہے کہ اُن ممالک ميں خاندان اور گھرانوں کي صورتحال بہت خراب ہوچکي ہے اور وہاں کے معاشرتي نظام ميں خواتين مختلف قسم کي ظلم کي چکي ميں پِس رہي ہے ۔ ليکن ہمارے يہاں مرد و عورت کے درميان ايک حد اورفاصلہ موجود ہے۔ اِس حد اورفاصلے کا مطلب يہ نہيں ہے کہ مرد وعورت ايک جگہ علم حاصل نہيں کريں،ايک جگہ عبادت انجام نہ ديں اور ايک جگہ کاروبار اورتجارت نہ کريں، اس کي مثاليں ہمارے يہاں زيادہ موجود ہيں ، بلکہ اس کا معني يہ ہے کہ وہ اپني معاشرتي زندگي ميں اپنے اخلاق و کردار کيلئے اپنے درميان حد اور فاصلے کو قرار ديں اوريہ بہت اچھي چيز ہے۔ ہمارے معاشرے ميں خواتين (مردوں کے ساتھ معاشرتي تعلقات کے باوجود) اپنے حجاب کي حفاظت کرتي ہيں۔ ہماري عوام نے حجاب کيلئے چادر کو منتخب کيا ہے۔ البتہ ہم نے کبھي يہ نہيں کہا کہ ’’حجاب و پردے کيلئے صرف چادرکو ہي ہونا چاہيے اورچادر کے علاوہ کوئي اور چيز قابل قبول نہيں ہے‘‘، ہاں ہم نے يہ کہا ہے کہ ’’چادر دوسري چيزوں سے زيادہ حجاب کيلئے موزوں اور بہترين ہے‘‘۔ ہماري خواتين اِس بات کي خواہاں ہيں کہ وہ اپنے پردے کي حفاظت کريں لہٰذا وہ چادر کو پسند کرتي ہيں۔ چادر ہماري خواتين کا قومي لبا س ہے۔ چادر قبل اس کے کہ اسلامي حجاب ہو، ايک ايراني حجاب ہے۔ چادر ہماري عوام کا منتخب کيا ہوا حجاب اور خواتين کا قومي لباس ہے۔

اسلامي جمہوريہ ايران ميں خواتين کي ترقي

ہمارے معاشرے ميں تعليم يافتہ،مسلمان اورباايمان خواتين کي تعدادبہت زيادہ ہے جو يا تحصيل علم ميں مصروف ہيں يا ملکي جامعات ميں اعليٰ درجے کے علوم و فنون کو بڑے پيمانے پر تدريس کررہي ہيں اوريہ بات ہمارے اسلامي نظام کيلئے باعث افتخار ہے ۔الحمد للہ ہمارے يہاں ايسي خواتين کي تعدادبہت زيادہ ہے کہ جو طب اور ديگر علوم ميں ماہرانہ اورپيشہ وارانہ صلاحيتوں کي مالک ہيں بلکہ ايسي بھي خواتين ہيں کہ جنہوں نے ديني علوم ميں بہت ترقي کي ہے اور بہت بلند مراتب ودرجات عاليہ تک پہنچي ہيں۔ اصفہان ميں ايک بہت ہي عظيم القدرخاتون گزري ہيں ’’اصفہاني بانو‘‘ کے نام کي کہ جو مجتہدہ ، عارف و فقيہ تھيں۔ اُس زمانے ميں صرف وہ تنِ تنہا تھيں ليکن آج بہت سي ايسي جوان لڑکياں ہيں جو مستقبل قريب ميں علمي، فلسفي اور فقہي اعليٰ مقامات تک رسائي حاصل کرنے والي ہيں اور ايسي خواتين کي تعداد بہت زيادہ ہے۔ يہ خواتين ہمارے اسلامي نظام کيلئے باعث افتخار ہيں۔ اِسے کہتے ہيں پيشرفت زن اور خواتين کي ترقي۔(۱)

____________________

١ اکتوبر ١٩٩٤ ميں نرسوں کے ايک وفد سے خطاب

تيسري فصل

خواتين کے بارے ميں اسلام کي نظر

خواتين کے بارے ميں تين قسم کي گفتگو اوراُن کے اثرات

الف: خواتين کي تعريف و ستائش کي گفتگو

پہلي قسم کي گفتگو انقلاب ميں خواتين کے فعال کردار کي تمجيد و ستائش کے بارے ميں ہے۔ اسي طرح انقلاب کے بعد اور اسلامي تحريک کوپروان چڑھانے ميں خواتين کے موثر کردار کے بارے ميں بھي ہے کہ اگر انقلاب سے قبل اور انقلاب کے زمانے ميں خواتين اِس مبارزے اور تحريک ميں شرکت نہيں کرتيں تو يہ تحريک کبھي کامياب نہيں ہوتي۔ يا موجودہ زمانے ميں خواتين کے کردار کو بيان کرنا ہو تو ہم ديکھتے ہيں جيسا کہ ذمے دار افراد ہميں رپورٹ ديتے ہيںکہ جامعات ميں خواتين کي تعداد زيادہ ہوگئي ہے ،خواتين بڑي بڑي ذمے داريوں کوقبول کررہي ہيں يا وہ عوامي ااجتماعات ميں اس طرح شرکت کرتي ہيں۔ يہ گفتگو کا ايک ايسا سلسلہ ہے کہ جس پر بحث ہوني چاہيے اورہو بھي رہي ہے اور يہ بہتر بھي ہے ۔ يہ بحث و گفتگو نہ صرف يہ کہ ترغيب دينے والي بھي ہے بلکہ حقائق کو روشن بھي کرتي ہے۔اس کے ساتھ ساتھ يہ گفتگو اِس ميدان ميں اسلامي جمہوريہ کے موقف کو سامنے لاتي ہے ليکن خواتين کے مسائل کے مستقبل کيلئے بہت سودمند اور تاثير گزار نہيں ہے۔

ب: خواتين کے بارے ميں اسلام کي نظر کي وضاحت دوسري قسم کي بحث و گفتگو ، خواتين کے بارے ميں اسلام کي نظر کو بيان کرنے کے بارے ميں ہے۔ ايک جگہ ميں نے خواتين سے متعلق گفتگو کي، ميري بحث کا خلاصہ يہ تھا کہ اسلام بنيادي طور پر خواتين کوکس نگاہ و زاويے سے ديکھتا ہے۔ ميں نے کہا تھا کہ عورت تين مقامات پراپنے وجود کو ثابت کرسکتي ہے ۔ اُن ميں سے ايک انساني کمال کا ميدان ہے۔ اس بارے ميں اسلام کي نظر يہ ہے کہ ’’اِنّ المُسلمِينَ والمُسلماتِ والمومِنينَ و المُومنِاتِ والقَانِتِينَ وَالقاَنِتاتِ والصَّادِقِينَ والصَّادِقاتِ وَ الصَّابِرينَ والصَّابِراتِ والخَاشِعِينَ والخَاشَعَاتِ وَالمتَصَدِّقِينَ و المُتصَدِّقاتِ والصَّآئِمِينَ والصَّآئِمَاتِ وَالحَافِظِينَ فُرُوجَهُم وَالحَافِظَاتِ وَالذَّاکرِينَ اللّٰهَ کَثِيراً والذَّاکِراتِ ‘‘ (مسلمان، مومن، صادق ، صابر ، خاشع، صدقہ دينے والے ، روزہ دار، شرمگاہوں کي حفاظت کرنے والے اور خدا کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اورعورتيں)۔يہاں خداوند عالم نے مرد اورعورت کي دس بنيادي صفات کو کسي فرق و تميز کے بغير دونوں کيلئے بيان کيا ہے۔ اس کے بعد خداوند عالم ارشادفرماتا ہے کہ ’’اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُم مَغفِرَةً وَّ اَجراً عَظِيماً ‘‘(۱) (اللہ نے ايسے مردوں اورخواتين کيلئے مغفرت اور اجر عظيم مہيا کيا ہے)۔ لہٰذا اِس ميدان ميں اسلام کينظر کو معلوم کرنا اور اُسے بيان کرنا چاہيے۔

دوسرا ميدان کہ جس ميں عورت اپنے وجود کو ثابت کرسکتي ہے، وہ اجتماعي فعاليت کا ميدان ہے، خواہ وہ سياسي فعاليت ہو، اقتصادي ہو يا اجتماعي يا کوئي اور غرضيکہ عورت، معاشرے ميں وجود رکھتي ہو۔ لہٰذا اِس ميدان ميں بھي اسلام کي نظر کي وضاحت کرني چاہيے۔ خواتين کي فعاليت کاتيسرا ميدان؛ عائلي اور خانداني نظام زندگي ميں عورت کے ميدان سے عبارت ہے لہٰذا اس ميں بھي اسلام کي نظر کو واضح کرنے ضرورت ہے۔

ہمارے محققين و مقريرين ان تمام جہات ميں اسلام کي نظر بيان کررہے ہيں۔ ہم نے بھي کچھ مطالب کو ذکر کيا ہے اور دوسرے افراد بھي گفتگو کررہے ہيں اور يہ بہت اچھي بات ہے۔ ہماري نظرميں يہ بحث وگفتگو ، بہت مفيد اور اچھي ہے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلامي نظريات اورمغربي دعووں کے درميان موازنہ ہونا چاہيے کہ يہ ديکھيں کہ اسلام اِن تين ميدانوں ميں خواتين کے کردار وفعاليت کو کس طرح بيان کرتا ہے اور اہل مغرب اِس بارے ميں کيا کہتے ہيں؟اور حق بھي يہي ہے اور عدل و انصاف بھي اِسي بات کي تائيد کرتا ہے کہ ان تينوں ميدانوں ميں عورت اورمعاشرے کيلئے اسلام کي نظر، دنيا ميں رائج تمام نظريات وگفتگو سے کئي مراتب بہتر، مفيد اور مضبوط ومستحکم ہے۔

پس آپ توجہ کيجئے کہ دوسري قسم کي گفتگو اُن مطالب سے عبارت ہے کہ جہاں مختلف شعبوں ميں اسلام کي نظر بيان کي جاتي ہے اور يہ اچھي بات ہے۔ اِن تمام کاموں کو بھي انجام پانا چاہيے اور يہ بالکل بجا ہيں۔ ممکن ہے اس جگہ مختلف ابہامات اورغير واضح امور موجودہوں۔چنانچہ ضروري ہے کہ افراد بيٹھيں، بحث کريں اور اپنے نظريے کو بيان کريں تو اُس وقت اُس گفتگو کو باآساني اور بہترين طريقے سے زير بحث لايا جاسکتا ہے جو گزشتہ کچھ عرصے سے فقہي حوالے سے ہمارے کانوں ميں پہنچ رہي ہے اور وہ يہ ہے کہ کيا خواتين قاضي بن سکتي ہيں اور کيا خواتين اجتماعي ، معاشرتي اور سياسي منصب کي حامل ہوسکتي ہيں؟

ج: معاشرتي اورگھريلو زندگي ميں خواتين کي مشکلات

تيسري قسم کي بحث وگفتگو ’’خواتين کي مشکلات‘‘ کے بارے ميں ہے کہ اِس بندئہ حقير کي نظر ميں اس مسئلے پر ہميں اپني فکر کو متمرکز کرنا چاہيے۔ چنانچہ اگر ہم نے اس مسئلے کا صحيح حل نہيں نکالا توگزشتہ دوونوں قسم کي گفتگو اوربحث ، خواتين کے مسائل کے حل کے سلسلے ميں کسي کام نہيں آسکيں گي۔ ديکھنا چاہيے کہ عورت کو معاشرے ميں کن مشکلات کا سامنا ہے؟اور اس سے بھي اہم بات يہ کہ عورت اپني عائلي اورگھريلو زندگي ميں کن مشکلوں سے دوچار ہے؟

کون سي گفتگو اہم ہے؟

آپ خواتين کو جو ’’حقوق نسواں اور اُن کے مسائل‘‘ کے ميدان ميں سرگرم عمل ہيں، اِس بات پر ہرگز قانع نہيں ہونا چاہيے کہ کوئي اِس سلسلے ميں يا ايک عورت کے فلاں عہدے کو لینے يا نہ لينے يا ديگر مسائل ميں اسلام کي نظر کو بيان کرنے کيلئے کتاب لکھے۔ لہٰذا اِن چيزوں پر قانع ہوکر اپني فعاليت کو متوقف نہيں کرنا چاہيے بلکہ براہ راست خواتين کي مشکلات کے حل کيلئے اقدامات کرنے چاہئيں۔

____________________

١ سورئہ احزاب / ٣٥

چوتھي فصل

خواتين سے متعلق صحيح اورغلط نظريات

جہالت ، خواتين پر ظلم کا اصل سبب

اس بندئہ حقير کا بيان ہے کہ پوري تاريخ ميں اور مختلف معاشروں ميں عورت ظلم وستم کانشانہ بني ہے۔ ايک جگہ ميں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اِس ظلم و ستم کي وجہ کيا ہے۔يہ تمام ظلم و ستم ، انسان کي جہالت کي وجہ سے سامنے آتے ہیں۔ اِس جاہل انسان کي طبيعت و مزاج يہ ہے کہ جہاں بھي اُس کے سر پرکوئي زورزبردستي کرنے والا نہ ہو، يا خود اُس کے اندر سے يعني واضح اور مضبوط ايمان (کہ اِس کي مثال بہت کم ہے) يا اُس کے باہر سے کسي قانون کا دباو نہ ہو يا اس کے سر پر کوئي تلوار يا قانون کا ڈنڈا نہ ہو تو معمولاً ايسا ہوتا ہے کہ طاقت ور موجود، کمزور پر ظلم کرتا ہے۔

گھر کي حقيقي سربراہ، عورت ہے اور مرد ظاہري حاکم

البتہ عورت عقلي اعتبار سے مرد سے ضعيف وکمزور نہيں ہے بلکہ بعض اوقات اُس سے زيادہ قوي ہے۔ اگرچہ کہ عورت کا انداز فکر، مرد کے اندازفکر سے مختلف ہے اور دونوں کے احساسات وجذبات ميں فرق ہے کيونکہ دونوں کے احساسات وجذبات ايک خاص کام کيلئے خلق کيے گئے ہيں اور انساني وجود ميں اُنہيں وديعت کيا گيا ہے۔ بعض مقامات پر مثلاً ايک علمي مسئلے کے بارے ميں زنانہ اور مردانہ انداز فکر ميں کسي قسم کا فرق نہيں ہوتاہے ليکن زندگي کو چلانے ميں دونوں کے انداز فکر مختلف ہوتے ہيں۔ عاقل اورپختہ عمر کي خواتين ميں يہ بات رائج ہے ، ميں نے بارہا اپني بزرگ اور بڑي خواتين سے سنا ہے اور صحيح سنا ہے کہ وہ کہتي ہے کہ ’’مرد ايک بچے کي مانند ہے‘‘ ، اور بالکل ٹھيک کہتي ہيں اورحقيقت بھي يہي ہے۔ ايک عالم ،فاضل اور باشعور مرد بغير کسي ذہني بيماري و خلل کے اپنے گھر ميں اپني بيوي کے مد مقابل اور اُس کے ساتھ زندگي گزارنے ميں ايک بچے کي مانند ہے اور بيوي اُس بچے کي ماں کي طرح! جس طرح اگر ايک بچے کي غذا ميں تھوڑي تاخير ہوجائے تو وہ رونے چلانے لگتا ہے ۔ لہٰذا اُسے کسي بھي صورت ميں قانع کرنا اور چپ کرانا چاہيے ورنہ وہ ضد کرنے لگتا ہے۔چنانچہ اگرايک عورت اپني مہارت سے ان کاموں کو انجام دے سکے تو ايک مرد اُس کے ہاتھوں رام ہوجاتا ہے۔

آپ توجہ فرمائيے کہ ميں ان باتوں کو کيوں نقل کررہا ہوں ؟ميں نہيں چاہتا کہ مرد کے ايک بچہ ہونے پر دستخط کروں، البتہ يہ اور بات ہے کہ يہ ايک حقيقت ہے، ليکن اس بات کو بيان کرنے ميں ميري مراد يہ نہيں ہے بلکہ ميرے پيش نظر يہ نکتہ ہے کہ مرد اور عورت کي ذہنيت ايک دوسرے سے مختلف ہے۔ عورت کي پختگي و مہارت اُس کے اپنے دائرہ فعاليت ميں اُس کے کام آتي ہے۔ يعني ايک عورت گھر کي چار ديواري ميں يہ سمجھتي ہے کہ مرد ايک بچے کي مانند ہے، لہٰذا اُس کا کھانا وقت پر تيار کرنا چاہيے تاکہ وہ بھوکا نہ رہے ورنہ وہ بداخلاق ہوجائے گا۔ لہٰذا بہانے کا کوئي بھي موقع ہاتھ سے دنيا نہيں چاہيے۔ يافرض کيجئے کہ مرد اعتراض کرتا ہے تو اُسے کسي بھي طريقے سے قانع کرنا چاہيے۔اِس نکتے کي طرف بھرپور توجہ کيجئے! عاقل اور پختہ خواتين پوري مہارت سے يہ کام انجام ديتي ہيں اور مرد کي حرکات وسکنات ،رفتار وعمل اور ذہنيت کو پوري طرح کنٹرول ميں رکھتي ہيں۔ بنابرايں، گھر ميں حقيقي سربراہ عورت ہے جبکہ علي الظاہر ،مرد ظاہري سربراہ ہے، اس ليے کہ وہ بھاري آواز ، مضبوط جسامت اور لمبے قد کاٹھ کا مالک ہوتاہے۔

پس مطلب کو اس طرح بيان کرتے ہيں کہ بعض خواتين کي ذہنيت و عقل مردوں سے زيادہ مستحکم ہے يا وہ تفکر، علم اور احساسات وغيرہ ميں مرد جيسي ہيں ليکن عورت کاجسم بطور متوسط مرد سے کمزور ہوتا ہے ۔ توجہ کيجئے! بنيادي نکتہ يہي ہے۔ ايک مثال فرض کيجئے کہ جہاں ايک عقل مند انسان ايک جاہل اور بدمعاش انسان کے ساتھ ہو اور ان ميں سے کسي ايک کو پاني پينا ہو (اور پاني کا ايک ہي گلاس موجود ہو)۔ قاعدۃً جس کي طاقت زيادہ ہوگي وہ پاني پي جائے گا مگر يہ کہ کسي طرح اُسے دھوکہ ديا جائے اورپاني کا گلاس اُس سے چھين ليا جائے۔ تاريخ ميں ہميشہ سے يہي ہوتا رہا ہے۔ مرد حضرات اپنے لمبي قدوقامت ،بھاري آواز اورمضبوط جسامت اور پٹھووں کي وجہ سے خواتين پر ان کے نازک اندام ہونے، نرم لب ولہجے، نسبتاً چھوٹے قد اور کمزور جسموں کي بنائ پر اُن پر ظلم کرتے رہے ہيں! يہ ايک حقيقت ہے، ميري اپني نظر ميں اگر آپ اِس ماجرا کي تہہ تک پہنچيں اور تحقيق کريں تو آپ اِس مقام پر پہنچيں گي کہ تمام ظلم و ستم کي وجہ يہي ہے۔

خواتين سے متعلق روايات ميں ظالمانہ فکرو عمل سے مقابلہ

ہاں البتہ اگر کوئي قانون يا بہت شديد قسم کي محبت يا مستحکم ايمان جيسا معنوي عامل موجود ہو تو وہ ان تمام ظلم و ستم کا سدّباب کرسکتا ہے۔البتہ ايمان کو مضبوط و مستحکم ہونا چاہيے ورنہ بہت سے علمائ ہيں کہ جن کا ايمان تو بہت اچھاہے ليکن اُسي کے ساتھ ساتھ اُن کا اپني زوجات سے برتاو اور سلوک اچھا نہيں ہے لہٰذا ايسے لوگ ہماري مجموعي بحث کے زمرے ميں آتے ہيں۔ ہميں صرف اِس بات کي وجہ معلوم کرني چاہيے کہ تاريخ ميں خواتين ہميشہ ظلم و ستم کا نشانہ کيوں بني ہيں؟ پيغمبر اکرم ۰ کے زمانے ميں بھي يہ ظلم وستم ہوا ہے اور آنحضرت ۰ نے اِس ظلم سے مقابلہ کيا ہے۔ يہ جو پيغمبر اکرم ۰ نے خواتين کے بارے ميں اتني باتيں ارشاد فرمائي ہيں، صرف اِسي ظلم وستم سے مقابلے کيلئے ہيں۔ اگر وہ صرف مقامِ زن کو بيان کرنا چاہتے تو اِس قسم کے پُرجوش و پُراحساس بيانات کي ضرورت نہيں تھي۔ خواتين کے بارے ميں حضرت ختمي مرتبت ۰ کے احساسات واظہارات اِس چيز کي عکاسي کرتے ہيں کہ آپ ايک چيز سے مقابلہ کرنا چاہتے ہيں اور وہ خواتين پر ہونے والا ظلم ہے اورپيغمبر اکرم ۰ اِس ظلم کے مقابل کھڑے ہيں۔

معاشرتي اورگھريلو زندگي ميں خواتين کے ساتھ زندگي گزارنے کے بارے ميں حضرت ختمي مرتبت ۰ اور آئمہ اہل بيت عليہم السلام سے جو روايات(۱) نقل کي گئي ہيں وہ اِسي ظالمانہ فکر اورستمگرانہ رويے اور عمل سے مقابلے کي خاطرہے۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ يہ ظلم و ستم ہمارے زمانے ميں بھي جاري ہے البتہ صرف ہمارے معاشرے سے مخصوص نہيں ہے۔ليکن اس بات کي طرف ہم سب کي توجہ ہوني چاہيے کہ پوري دنيا ميں يہ ظلم موجود ہے اور مغرب ميں بہت ہي بدترين شکل ميں موجود ہے۔

اہل مغرب کي ايک ظاہري خوبصورتي مگر درحقيقت?؟!

اہل مغرب صرف ايک خصوصيت کے حامل ہيں کہ اگر خود اُس کے مقام پر اُس کے بارے ميں قدرے تآمل اورغوروفکر کيا جائے تومعلوم ہوگا کہ اُن کي يہ خصوصيت مثبت نہيں ہے ۔ ليکن مغربي معاشرے ميں کئي مقامات پر اس خصوصيت وعادت کو بہت زوروشور سے بيان کيا جاتا ہے کہ گويا وہاں ظلم کا سرے سے وجود ہي نہيں ہے۔ وہ عادت و خصوصيت يہ ہے کہ اہل مغرب مرد و عورت کے آپس ميں رويے ، سلوک اوربرتاو کو عورت سے عورت يا مرد سے مرد کے برتاو کے مثل قرار ديتے ہيں يعني وہ ان دو جنس (مرد وعورت) ميں کسي بھي فرق کے قائل نہيں ہيں۔ کوچہ و بازار ہو يا گھر کي چار ديواري ،وہ دوستي ورفاقت اور معاشرت ميں اسي رفتار کے حامل ہيں۔ ظاہر ميں يہ عادت وسلوک بہت دلچسپ اورجالب نظرآتا ہے ليکن جب آپ اس کي حقيقت تک پہنچتے ہيں تو معلوم ہوتا ہے کہ يہ امر غلط اور منفي ہے اوراسلام اس کي ہرگز تاکيد نہيں کرتا ہے۔ اسلام نے مرد وعورت کے درميان ايک حجاب اور فاصلہ رکھا ہے کہ يہ دونوں اپني معاشرتي زندگي ميں اس حجاب اور حدود کي رعايت کريں۔

بنابرايں ہم جس ظلم وستم کي بات کررہے ہيں وہ صرف ايراني معاشرے يا گزشتہ دور سے ہي مخصوص نہيں ہے بلکہ تاريخ کے مختلف زمانوں سے ليکر آج تک ايران سميت دنيا کے مختلف ممالک ميں اس کا وجود رہا ہے ۔ آج بھي يہ ظلم پوري دنيا ميں موجود ہے، اسي طرح مغربي ممالک خصوصاً امريکہ اور بعض يورپي ممالک ميں خواتين کو اذيت و آزارپہنچانے کے واقعات، اُن سے ظالمانہ سلوک و طرز عمل ، شکنجے اورمصيبتيں دوسري ممالک کي نسبت بہت زيادہ ہيں۔ اس کے اعداد وشمار بہت زيادہ ہيں، البتہ ميں نے خود ان اعداد وشمار کو مغربي اور امريکي مطبوعات ميں ديکھا ہے نہ يہ کہ ہم اِس کو کسي کي زباني نقل کررہے ہيں۔ يہ تو وہ چيز ہے کہ جسے انہوں نے خوداپني زبان سے بيان کيا ہے۔ لہٰذا اس ظلم و ظالمانہ رويے اور عمل سے مقابلے کي ضرورت ہے۔(۲)

____________________

١ وسائل الشيعہ، جلد ٢٠، صفحہ ٣٢٤۔ ٣٥٤

۲نومبر ١٩٩٦ئ ميں ثقافتي کميٹي کے اراکين سے خطاب

تيسرا باب

خواتين کےمعنوي کمال، اجتماعي فعاليت اورگھريلو زندگي سے متعلق اسلام کي نظر

دريچہ

اسلام نے تين مختلف ميدانوں ميں حقوقِ نسواں کو مشخص کرکے انہيں جاري کيا ہے۔ انفرادي دائرہ زندگي (معنوي کمال) ،اجتماعي زندگي (اجتماعي فعاليت) اور گھريلو زندگي، زندگي کے وہ ميدان ہيں کہ جہاں خواتين اپني طاقت کالوہا منواسکتي ہيں اور اس کيلئے لازمي ہے کہ ان تينوں ميدانوں ميں حدود اورحقوق کو کامل طور پر بيان کيا جائے ۔ اسلام نے خواتين کيلئے اس ذو اہميت امر کو خداوند عالم کي نگاہ سے بيان کيا ہے جو ہر قسم کي خطا و لغزش سے دور ہے۔

پہلي فصل

خواتين کے بارے ميں اسلام کي واضح ، جامع اور کامل نظر

اسلام کي نظر کي کامل شناخت اور مکمل وضاحت کي ضرورت

اگر معاشرے ميں عورت کے بارے ميں غلط فکر و نظر موجود ہو تو صحيح معني ميں اوروسيع پيمانے پر اُسے ازسر نو صحيح کرنا مشکل ہوگا۔ خود خواتين کو بھي چاہيے کہ اسلام ميں خواتين کے موضوع پر کافي مقدار ميں لازمي حد تک اطلاعات رکھتي ہوں تاکہ دين مبين اسلام کے کامل نظريے کي روشني ميں اپنا حقوق کا بھرپور دفاع کر سکيں۔ اسي طرح اسلامي ملک ميں معاشرے کے تمام افراد کو يہ جاننا چاہيے کہ خواتين، مختلف شعبہ ہائے زندگي ميں اُن کي موجودگي، فعاليت،تحصيل علم،اجتماعي ،سياسي ، اقتصادي اورعلمي ميدانوں ميں اُن کي شرکت اورگھر اور گھر سے باہر اُن کے کردار کے بارے ميں اسلام کيا بيان کرتا ہے۔

اِن سب موضوعات کے بارے ميں اسلام کي ايک بہت واضح اورروشن نظر ہے ۔ اگرہم اسلام کي نظر کادنيا کي مختلف ثقافتوں خصوصاً مغربي ثقافت سے موازنہ کريں تو ہم ديکھيں گے کہ اسلام کي نظر بہت ترقي يافتہ ہے ۔ اسي طرح آج کے مرد کے ذہن پر چھائے ہوئے افکار و نظريات کے مقابلے ميں اسلامي فکر و نظر بے مثل ونظير ہے اور يہ اسلام ہي کي واضح اور روشن نظر ہے جو ملکي بہبود و ترقي اور ملک ميں خواتين کي زيادہ سے زيادہ ترقي اور اُن کے مقام و منصب ميں اضافے کا باعث ہے۔

ميري بہنو! توجہ فرمايئے،ميں خاص طور پر اِس امر کيلئے تاکيد کررہا ہوں کہ نوجوان خواتين، بلند آرزووں اورآ ہني حوصلوں اورقلبي شوق و تڑپ کي مالک ہيں، وہ بھرپور توجہ ديں تاکہ اِس جلسے کي مناسبت سے مختصر مطالب آپ کي خدمت ميں عرض کروں۔

انساني زندگي اور خواتين کي شان ومنزلت اور اُن کي معاشرتي حيثيت کے بارے ميں اسلام کي نظر تين حصوں ميں قابل تقسيم ہے۔ ميں نے بارہا ان مطالب کو بيان کيا ہے ليکن ميرا اصرار ہے کہ ان مطالب کو معاشرے کي خواتين کے ليے جتنا زيادہ ہوسکے بيان کيا جائے۔ جن افراد کو اِس سلسلے ميں سب سے زيادہ فعال ہونا چاہيے وہ خود ہمارے معاشرے کي خواتين ہيں۔

ظالم اور مقصّر کون، مرد يا عورت يا دونوں؟

ميري بہنو اور بيٹيو! ميرا يقين ہے اور يہ ميري نظر ہے کہ اسلامي معاشرے کے کسي حصے ميں بھي خواہ خود ايران کے اندر ہو يا مختلف ممالک ميں ، اگر مسلمان خواتين کے بارے ميں کوتاہي نظر آتي ہے تو اس ميں تھوڑے مقصّر خود مرد بھي ہيں اور تھوڑي مقدار ميں خود خواتين بھي اِس تقصير ميں شامل ہيں۔ کيونکہ جس کسي کو سب سے پہلے خواتين کي اسلامي حيثيت اور مقام و منزلت کو پہنچانا اور اُس کا دفاع کرنا چاہيے، وہ خواتين ہيں۔ اُنہيں جاننا چاہيے کہ خدا، قرآن اور اسلام نے اُن کيلئے کيا احکامات صادر کيے ہيں، اِن کے ذريعے خواتين سے کيسا امر مطلوب ہے اور اُن کي ذمہ داريوں اور فرائض کو کون معين کرے گا؟ ضروري ہے کہ خواتين اپنے بارے ميں اسلامي احکامات اور اسلام کي اُن سے توقع کو جانيں ، اُن کا دفاع کريں اور اُن کے حصول کي کريں۔ اگر وہ يہ سب امور انجام نہ ديں تو وہ افراد جو کسي بھي ’’قدر‘‘ کے شناسا اور پابند نہيں ہيں وہ خواتين پر ظلم و ستم کريں گے۔جيسا کہ آج مغربي دنيا اور اُس ديار غربت(۱) ميں رائج مادي نظاموں (سوشلزم، کميونزم، کيپٹلزم، فمينزم?) کے زير سايہ ، خواتين کيلئے لگائے جانے والے ظاہري خوبصورت نعروں کے باوجود ، سب سے زيادہ ظلم مغربي مرد اپني عورتوں پر کررہے ہيں۔ باپ اپني بيٹي پر ،بھائي اپني بہن پر اور شوہر اپني بيوي پر۔ دنيا ميں ديے گئے اعداد و شمار کے مطابق، خواتين، بيويوں، بہنوں يا حتي بيٹيوں پر سب سے زيادہ ظلم و ستم و آبرو ريزي اور اُن کے حقوق کي پائمالي اُن افراد کي طرف سے ہوتي ہے جو مغربي نظاموں ميں زندگي بسر کررہے ہيں۔ يعني اگر کسي معاشرتي نظام ميں معنوي اقدار حاکم نہ ہوں اور خدا کا وجود دلوں ميں نہ ہو تومرد اپني جسماني طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے خواتين پر ظلم وستم کي راہ کو اپنے ليے کھلا پائے گا۔

خواتين پر ظلم کي راہ ميں مانع دو چيزيں

دو چيزيں خواتين پر ظلم و ستم کي راہ ميں مانع بن سکتي ہيں۔ايک خدا، قانون اور ايمان وغيرہ کا خيال رکھنا اوردوسري خود خواتين ہيں جو اپنے انساني اور خدائي حقوق کو اچھي طرح پہچانيں اور اُن کا دفاع کريں اورحقيقي طور پر اُنہيں چاہيں اورحاصل کريں۔ اِس سلسلے ميں اسلام افراط وتفريط سے دورايک درمياني راستے کو متعارف کراتاہے۔ نہ خود عورت کوظلم کرنے اجازت ديتا ہے اور نہ ہي مرد وعورت کي طبيعت ومزاج کو نظر انداز کرتا ہے۔صحيح اور سيدھا راستہ وہي اسلام کا متعارف کردہ راستہ ہے کہ جس کي مختصر طور پر وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔

____________________

١ جو معاشرہ اپني خواتين کي حيثيت و آبرو کو پائمال کرے اور جہاں عورت جيسي عظيم ہستي ايک کھلونے سے زيادہ کي حيثيت نہ رکھتي ہو تو وہ معاشرا حقيقت ميں غريب ہے اور اُسے ديار غربت کہنا شائستہ ہے۔ (مترجم)