عورت ،گوہر ہستی

عورت ،گوہر ہستی0%

عورت ،گوہر ہستی مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خواتین

عورت ،گوہر ہستی

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 14839
ڈاؤنلوڈ: 2218

تبصرے:

عورت ،گوہر ہستی
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 41 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 14839 / ڈاؤنلوڈ: 2218
سائز سائز سائز
عورت ،گوہر ہستی

عورت ،گوہر ہستی

مؤلف:
اردو

تيسري فصل

خواتين پرمغرب کا ظلم و ستم اور اسلام کي خدمات

الف: پہلي خدمت،انساني اقدار کے سودا گروں کا ظلم اور اسلام کي پہلي خدمت

حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کي ولادت باسعادت اور اُن کا تذکرہ مسلمان خواتين کيلئے بہترين فرصت ہے تاکہ اسلامي افکار وتعليمات کي روشني ميں ايک مسلمان عورت اورخواتين کي قدر وقيمت اور اہميت پر بھرپور توجہ دي جاسکے۔ ديگر امور کي طرح ،خواتين بھي انساني اقدار کے سوداگروں کے ہاتھوں ايک جنس بے متاع بن گئي ہے۔

وہ افراد جو صنفِ نازک، خود انسان ، انساني اقدار اورکرامت و بزرگي کيلئے مال و دولت کے علاوہ کسي اور چيز کے قائل نہيں ہيںکہ افسوس ناک بات يہي ہے کہ يہ افراد مغرب کے موجودہ تمدن ميں بہت اہم کليدي کردار ادا کررہے ہيں، انہوں نے خواتين کے مسئلے کو زندگي کے مختلف شعبوں ميں اپنے ليے ايک سرمائے اور تجارت وسوداگري کے وسيلے ميں تبديل کرديا ہے۔ يہ افراد آئے دن اس پر بحث کرتے ہيں ، اپني رائج ثقافت اورتہذيب و تمدن ميں اسے ايک جائز مقام دينے کي کوششوں ميں مصروف ہيں ، اس کے لئے پروپيگنڈا کرتے ہيں اور يوں دنيا کے تمام مردوں اور عورتوں کے اذہان کو ايک بڑي گمراہي اوروسوسے سے دوچار کررہے ہيں۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں ايک مسلمان عورت کو چاہيے کہ اسلامي تعليمات اور عورت سے متعلق اسلامي اقدار و احکامات ميں غور و فکر اورمردو خواتين کي پيشرفت کيلئے اسلامي نظام ميں وضع کيے گئے قوانين اور راہنما اصولوں ميں سنجيدگي سے تآمل کے ذريعے اپنے تشخص کا ازسر نو جائزہ ليتے ہوئے اپنے وجود کو دوبارہ حاصل کرے۔اُسے چاہيے کہ بے بنياد مفروضوں و سفسطوں اورصيہونزم، سرمايہ داروں اورثروت اندوز افراد کے وسوسوں ميں دبے ہوئے اپنے حقيقي اور اصلي وجود کو نکالے۔

ب: دوسري خدمت،عورت کے معنوي کمال، اجتماعي فعاليت اور خانداني کردار پر بھرپور توجہ

اسلام نے زمانہ جاہليت ميں خواتين پر ہونے والے ظلم و ستم کا ڈٹ کر مقابلہ کيا ہے، خواہ يہ ظلم عورت کي روحانيت ومعنويت ، فکر اور اسلامي اقدار پر ہو يا سياسي ميدان ميں اُس کي فعاليت پر يا اُس سے بھي بڑھ کر گھر اور خانداني نظام زندگي ميں اُس کے موثر ترين کردار پر ۔ مرد و عورت دونوں مل کر معاشرے ميں ايک چھوٹے سے اجتماع کو تشکيل ديتے ہيں جسے ’’خاندان‘‘ يا ’’گھرانہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اگر اس مختصر سے اجتماع کيلئے معاشرے ميں اقدار ، احکام اور راہنما اصولوں کو صحيح انداز سے بيان نہ کيا جائے تو عورت پر سب سے پہلا ظلم خود اُس کے اپنے گھر ميں ہوگا۔ يہي وجہ ہے کہ اسلام نے عورت کے معنوي کمال، اجتماعي فعاليت اور گھرانے ميں اُس کے بنيادي کردار پر بہت زيادہ توجہ دي ہے۔

معنوي مسائل ميں بھي خواتين ،انسان کي معنوي حرکت ميں وہ دستہ ہيں جو پيشرفت اور ترقي کے لحاظ سے آگے آگے ہے۔ قرآن جب مومن انسانوں کيلئے مثال بيان کرنا چاہتا ہے تو کہتا ہے کہ ’’وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً لِّلَّذِينَ آمَنُوا امرَآَتَ فِرعَونَ ‘‘(۱) اورجہاں اسلام، ايمان، صبر صداقت، اور اسلامي ، معنوي اور انساني اقدار کے حصول کيلئے جدوجہد کي بات کرتا ہے تو فرماتا ہے ’’اِنَّ المُسلِمِينَ وَالمُسلِمَاتِ وَالمُومِنِينَ وَ المُومِنِاتِ وَالقَانِتِينَ وَالقاَنِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَ الصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ ‘‘(۲) ۔ اس آيت اسلام، ايمان، اطاعت سچائي ، صبر ،فروتني ، صدقہ دينا ، روزہ گزاري ، عزت وناموس کي حفاظت اورذکر الٰہي جيسي دس معنوي اقدار کو بيان کيا گيا ہے۔ مرد وعورت دونوں ان معنوي اقدار کے حصول کيلئے شانہ بشانہ حرکت کررہے ہيں اور يہي وجہ ہے کہ خداوند متعال دونوں کو ساتھ ذکر کرتا ہے۔ زمانہ جاہليت ميں مردوں حتي عورتوں کے ذريعے بھي مرد کے ليے جس بت کي ہميشہ پرستش کي جاتي رہي ہے اسلام نے اِن آيات ميں اُسے پاش پاش کرديا ہے اور وہ سياسي اوراجتماعي ميدان ميں عورت کے بيعت کرنے کي اہميت اوراُس پر توجہ دينے کو لازمي امر اورايک زندہ اورحقيقي مسئلے کي حيثيت سے متعارف کراتا ہے۔

ج:تيسري خدمت،اسلامي نظام ميں خواتين کي جداگانہ بيعت کي اہميت

آپ ملاحظہ کيجئے کہ مغربي دنيا اوريورپي ممالک ميں حقوق نسواں کے دفاغ ميں ان بلند و بانگ نعروں اور اتنے مدعيوں کے باوجود جو تقريباًسب کے سب ہي جھوٹے ہيں، گزشتہ صدي کي ابتدائي دہائيوں تک خواتين کوووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہيں تھا ، و ہ نہ صرف يہ کہ اپني بات آزادانہ طورپر کہنے اورانتخاب کے حق سے محروم تھيں بلکہ انہيں مالکيت کے بھي حق سے محروم رکھا گيا تھا۔ يعني عورت اپني ميراث ميں ملنے والے مال و ثروت کي بھي مالک نہيں تھي، اُس کا تمام مال و دولت اُس کے شوہر کے اختيار ميں ہوتا تھا۔جبکہ اسلام ميں خواتين کے بيعت کرنے ، اُس کے حق مالکيت اورسياسي اوراجتماعي ميدانوں ميں اُس کے فعال اورموثر ترين کردار کو ثابت کيا گيا ہے۔ ’’اِذَا جَائَکَ المُوْمِنَاتُ يُبَايِعنَکَ عَليٰ اَن لَا يُشرِکنَ بِاللّٰهِ ‘‘(۳) ۔خواتين پيغمبر اکرم ۰ کي خدمت ميں آتي تھيں اوربيعت کرتي تھيں۔ پيغمبر اکرم ۰ نے يہ نہيں فرمايا تھا کہ صرف مرد آکر بيعت کريں اور اِس بيعت کے نتيجے ميں وہ جس چيز کے بارے ميں اپنا حق رائے دہي استعمال کريں ، اظہار نظر کريں اورجس چيز کو بھي قبول کريں تو خواتين بھي مجبورہيں کہ اُن کي بات کومن وعن قبول کريں، نہيں ! انہوں نے کہا کہ خواتين بھي آکر بيعت کريں اور اس حکومت اور اِس اجتماعي اورسياسي نظام کوقبول کرنے ميں شرکت کريں۔ اہل مغرب اس معاملے ميں اسلام سے تيرہ صدياں پيچھے ہيں اورآج بڑھ چڑھ کر يہ دعوے کررہے ہيں (کہ گويا يہ سب انہي کا ديا ہوا نظام ہے)۔ مالکيت کے مسئلے ميں بھي ايسا ہي ہے اور سياسي اوراجتماعي مسائل سے مربوط ديگر شعبوں ميں بھي يہي صورتحال ہے۔

د: چوتھي خدمت،حضرت زہرا کي سيرت، اسلام ميں خواتين کي سياسي اوراجتماعي کردار پر واضح ثبوت

حضرت زہرا علیھا السلام کي سيرت اورآپ کا اسوہ ہونا خواہ آپ کے بچپنے کا زمانہ ہو يا ہجرت پيغمبر ۰ کے بعد مدينے ميں آپ کي اجتماعي مصروفيات کا زمانہ ہو،آپ اُن تمام حالات و واقعات ميں کہ جب آپ کے والد گرامي تمام سياسي اوراجتماعي واقعات و حوادث کا مرکز تھے،بہ نفس نفيس موجود تھيں۔ يہ سب اسلامي نظام ميں ايک عورت کے فعال اورموثر اجتماعي کردار کي عکاسي کرتے ہيں۔ البتہ حضرت زہرا علیھا السلام ان سب فضائل ميں سب سے بلند ترين مرتبے پر فائز ہيں۔ صدراسلام ميں اور بھي بہت سي نامور خواتين تھيں جو اپني معرفت اور عقل وعلم کے لحاظ سے ايک خاص مقام کي حامل تھيں اور زندگي کے مختلف شعبوں سميت حتيٰ ميدان جنگ ميں شرکت کرتي تھيں۔ کچھ خواتين تو اپني شجاعت وشہامت کے ساتھ ميدان جنگ ميں جاکر تلوار بھي چلاتي تھيں۔ البتہ اسلام نے خواتين پر ان سب امور کوواجب نہيں کيا ہے اوراُن کے دوش سے يہ بار اٹھاليا ہے چونکہ يہ سب امور خواتين کي طبعيت ومزاج، جسماني ترکيب و ساخت اوراُن کے احساسات سے ميل نہيں کھاتے۔

ھ: پانچويں خدمت،عورت، گھر ميں ايک پھول ہے!

اسلامي تعليمات کي روشني ميں مرد اِس بات کا پابند ہے کہ وہ عورت سے ايک پھول کي مانند سلوک کرے۔ حديث بنوي ۰ ميں ہے کہ ’’اَلمَرآَۃُ رَيحَانَۃ?‘‘ عو رت ايک پھول ہے، يہ حقيقت سياسي ،اجتماعي اورتحصيل علم کے شعبے سے مربوط نہيں ہے بلکہ يہ گھر ميں ايک عورت کے حقيقي کردار کي عکاسي کرتي ہے۔ ’’اَلمَرآَة ُ رَ يحَا نَة? وَ لَيسَت بِقَهرِمَانَة ‘ ‘(۴) (عورت ايک پھول ہے کوئي طاقتور انسان يا پہلوان نہيں ہے)۔يہ خطا بين نگاہيں جو يہ گمان کرتي ہيں کہ عورت،گھريلو کام کاج کرنے کي پابند ہے، پيغمبر اکرم ۰ نے اپنے اس بيان کے ذريعے ان تمام غلط اور باطل فکر و خيال کو يکسر نظرانداز کرديا ہے۔

عورت ،ايک پھول کي مانند ہے کہ جس کي ہر طرح سے حفاظت کرني چاہيے۔ اس جسمي و روحي لطافت و نرمي والے موجود کو اِن نگاہوں سے ديکھنا چاہيے ، يہ ہے اسلام کي نظر ۔ بالخصوص اِس حديث اور بالعموم تمام اسلامي تعليمات کي روشني ميں خواتين کي تمام زنانہ صفات و خصوصيات ،احساسات اوراميد و آرزووں کي حفاظت کي گئي ہے۔ اس پر کوئي ايسي چيز تھونپي نہيں گئي ہے جو اُس کي زنانہ فطرت، نسوانہ عادات وصفات اورايک پھول کي مانند اُس کے نرم و لطيف احساسات اور مزاج سے ميل نہيں رکھتي ہو اور اُس کے ساتھ ساتھ اُس کے ايک عورت اورانسان ہونے کے باوجود اُس سے يہ مطلوب نہيں ہے کہ وہ مرد کي طرح سوچے،اس کي طرح کام اورجدوجہد کرے۔ ليکن اِس کے ساتھ ساتھ علم، معرفت ، تقويٰ اور سياست کے ميدان کي راہ اس پر کھلي ہے، کسب ِعلم سميت سياسي اوراجتماعي ميدانوں ميں ترقي کرنے کيلئے اُسے شوق بھي دلايا گيا ہے۔ اب مرد سے يہ کہا گيا ہے کہ اُسے عورت سے گھر ميں زبردستي کام کاج کرانے، اپني بات تھونپنے، زيادہ روي کرنے،جاہلانہ عادات واطوار کے ذريعے اپنے مرد (اور گھر کے سرپرست) ہونے کا لوہا منوانے اورغير قانوني (غير اسلامي) ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کا کوئي حق نہيں ہے۔ يہ ہے اسلام کي نگاہ۔

اسلامي انقلاب ميں خواتين کا صبر واستقامت اورمعرفت

يہي وجہ ہے کہ جب ايران کي اسلامي تحريک، اسلامي انقلاب کي دہليز تک پہنچي تو ہماري خواتين نے اسلام کي خواتين کے بارے ميں اِسي نظريے اور تعليمات کي روشني ميں قدم اٹھائے اور سامنے آئيں۔ اسي وجہ سے امام خميني ۲ نے فرمايا تھا اور صحيح فرمايا تھا کہ ’’اگر خواتين اس تحريک ميں مدد نہ کرتيں تو انقلاب کبھي کامياب نہيں ہوتا‘‘۔ يقينا اگر خواتين انقلاب کے زمانے ميں ہونے والے بڑے بڑے عظيم الشان مظاہروںميں شرکت نہيں کرتيں تو انقلاب کاميابي سے ہمکنار نہيں ہوتا۔ آٹھ سالہ تھونپي گئي جنگ کي تمام مدت ميں بھي انہي خواتين کي مانند تين تين شہيدوں اور ديگر شہدا کي مائيں اور بيوياں کہ مجھے ان جيسے ہزاروں افراد سے گفتگو کرنے اور نزديک سے اُن کے احساسات کا مشاہدہ کرنے کا فخر حاصل ہے، اگر اپنے جوان بيٹوں اورمردوں کي فداکاري کے نتيجے ميں اُن کے زخمي جسموں اورکٹے ہوئے اعضائ و جوارح اور تمام مشکلات کا اپنے ايمان ، صبر ، استقامت ، معرفت اورشعور اور آگاہي سے جواب نہيں ديتيں تو جنگ کبھي کامياب نہ ہوتي۔ اگر ان شہدا کي مائيں اور بيوياں بے صبري کا مظاہرہ کرتيں تو مردوں کے دلوں ميں جہاد في سبيل اللہ اورشوق شہادت کے جذبات ٹھنڈے پڑجاتے،يہ جو ش وخروش سامنے نہيں آتا اورہمارے معاشرے کو اِس طرح جوش و ولولہ اور حوصلہ نہيں ملتا ۔ميدان جنگ ميں بھي خواتين نے بہت کليدي کردار ادا کيا ہے۔ اگرانقلاب کے مختلف مراحل ، مظاہروں اور انتخابات سميت ديگر ميدانوں ميں خواتين اگر ايثار و فداکاري سے کام نہيں ليتيں اوراپنے فعال کردار کو ادا نہيں کرتيں تو يہ عظيم عوامي تحريک يقينا آج اس صورت ميں موجود نہيں ہوتي۔ يہ ہے اسلام کي نظر اوراسلامي نظام ميں خواتين کا کردار۔

خواتين پر مغرب کا ظلم اور خيانت

اہل مغرب کو خواتين کے بارے ميں اپني خيانت کا ہر صورت ميں جوابدہ ہونا چاہيے کيونکہ مغربي تہذيب و تمدن نے عورت کو کچھ نہيں ديا ہے۔جہاں کہيں بھي علمي ، سياسي اورفکري پيشرفت اورترقي کا مشاہدہ کيا جارہا ہے يہ خواتين کي اپني کوششوں کا نتيجہ ہے۔ دنيا ميں جہاں بھي يہ صورتحال سامنے آئے ہے،ايران ہوياديگر ممالک، سب جگہ خود خواتين نے جدوجہد کي ہے۔

وہ چيز جس کو مغرب نے خود پروان چڑھايا اورمغربي تمدن نے جس عمارت کي ٹيڑھي بنياد رکھي وہ ہر قسم کي قيد و شرط سے آزاد ، مرد و عورت کے آزادانہ تعلقات اور عرياني و فحاشي ہے۔انہوں نے عورت کي نہ صرف يہ کہ گھر ميں اصلاح نہيں کي بلکہ عورت کو (گھر سے باہر نکال کر )بے حيائي اور عرياني و فحاشي کي طرف کھينچ کر لے گئے ۔ امريکي اوريورپي اخبارات ومطبوعات ميں بارہا خواتين کو دي جانے والي اذيت و آزار، مشکلات، بے توجہي اورسنگ دلي کے واقعات اورخبريں چھپتي رہتي ہيں۔ خواتين کو بے بند وباري، آزادانہ (جنسي و غير جنسي) تعلقات اورعرياني وفحاشي کي طرف کھينچنے کے نتيجے ميں مغرب کے خانداني اور عائلي نظام کي بنياديں کمزور ہوگئي ہيں،وہاں گھرانے اور خاندان کا شيرازہ روز بروز بکھرتا جارہا ہے اور اس بات کا سبب بنا ہے کہ وہ اورگھرانے اور خاندان ميں مرد وعورت کي ايک دوسرے سے خيانت کو سہل انگاري سے ديکھيں، کيا يہ گناہ نہيں ہے؟ کيا يہ صنفِ نازک سے خيانت نہيں ہے؟ اس کثيف ترين ثقافت اور تمدن کے باوجود بھي يہ لوگ دنيا پر اپني برتري کے خواہاں ہيں جبکہ انہيں جوابدہ ہونا چاہيے!

مغربي ثقافت کو خواتين کے بارے ميں اپنے ظلم و خيانت کي وجہ سے دفاعي حالت ميں ہونا چاہيے کہ وہ اپنے امور اور اقدامات کا دفاع کريں اور ان کي وضاحت کريں۔ليکن سرمايہ دارانہ نظام اور مستکبرانہ ذرائع ابلاغ کا مغربي معاشرے پر تسلط اورغلبہ اِس حقيقت کو الٹا ہي پيش کررہا ہے۔ جس کے نتيجے ميں وہ حقوق نسواں کے چيمپئن بنے بيٹھے ہيں اور خود اُن کي اپني اصلاح کے مطابق حقوق نسواں کے علمبردار وطرفدار ہيں! حالانکہ ايسي کوئي چيز وجود نہيں رکھتي۔ البتہ مغرب ميں کچھ مفکرين ،فلسفي حضرات اور سچے اور نيک انسانوں کا جود بھي ہے جو پاک نيتوں کے حامل ہيں اور(حق کي) بات کرتے ہيں۔ جو کچھ ميں بيان کررہا ہوں وہ خواتين پر مغربي ثقافت اور تمدن کے ظلم و خيانت کي عمومي شکل ہے۔

خواتين کا اسلامي تشخص اور اُس کے تقاضے

ايران (سميت ديگر اسلامي ممالک) کي خواتين کي کوشش يہ ہوني چاہيے کہ وہ ايک مسلمان عورت کي حقيقي تشخص کو اس طرح زندہ کريں کہ وہ پوري دنيا کو اپني طرف متوجہ کراسکے۔ يہ ہے آج کي مسلمان عورت کا وظيفہ خصوصاً جوان خواتين اور اسکول ، کالج اور يونيورسٹي کي طالبات کا۔

اسلامي تشخص يہ ہے کہ عورت جب اپني خاص زنانہ خصوصيات اور نسوانہ مزاج و تشخص کي حفاظت کرے کہ جو اس کي طبيعت و فطرت سے عبارت ہے اور ہر جنس (موجود) کي خصوصيات ہي اُس کي قدر و قيمت و اہميت کا باعث ہوتي ہيں، يعني جب ايک عورت اپنے نرم و نازک اور لطيف احساسات، پيار ومحبت ،عشق و چاہت اور خاص نسوانہ صفات کي حفاظت کرے تو اُسي کے ساتھ ساتھ معنوي اقدار کے ميدان ميں علم ، تقويٰ، تقرب خدا، معرفت الٰہي اور وادي عرفان ميں پيشرفت کرے اور ساتھ ہي سياسي اور اجتماعي مسائل، صبر،استقامت، سياسي فعاليت، سياسي شعور، اپنے مستقبل، اپنے ملک سميت ديگر اسلامي ممالک اور مسلمان اقوام کے بڑے اہداف، دشمن اور اس کي سازشوں اور چالوں کي شناخت ميں روزبروز ترقي کرے اور اپني اطلاعات اور آگہي کو زيادہ کرے۔ اسي طرح ايک عورت پر ضروري ہے کہ اپنے گھرانے اورخاندان ميں عدل و انصاف اور پرسکون ماحول کے ايجاد اور اُن کي بقائ کيلئے بھي سرگرم رہے۔ ان تمام مسائل سے مربوط قوانين کا وجود اور اُن کي تصحيح اگر لازمي وضروري ہے تو خواتين کو تعليم ، آگاہي ،شعور اور معرفت کے ساتھ ان تمام ميدانوں ميں حرکت کرني چاہيے اور وہ ايک مثالي عورت کا نمونہ پيش کريں۔ انہيں چاہيے کہ وہ يہ کہيں کہ مسلمان عورت ايسي عورت ہے جو اپنے دين، حجاب ،نسوانيت اور اپنے مزاج کي نرمي و لطافت کي حفاظت کرتي ہے، اپنے حق کا نہ صرف يہ کہ دفاع بھي کرتي ہے بلکہ معنويت ،علم و تحقيق اور تقرب الٰہي کے ميدان ميں پيش رفت کرتے ہوئے مثالي خواتين کا نمونہ بھي پيش کرتي ہے اور ساتھ ہي وہ سياسي ميدان ميں بھي اپنا فعال کردار ادا کرتي ہے۔ ايسي عورت، مسلمان خواتين کيلئے اسوہ اور آئيڈيل بن سکتي ہے۔(۵)

____________________

١ ’’اللہ نے اہل ايمان کيلئے زن فرعون کي مثال پيش کي ہے‘‘۔سورئہ تحريم / ١١

۲مسلمان مرد ومسلمان عورتيں ، مومن مرد ، مومنہ عورتيں ، اطاعت گزارمرد اور اطاعت گزار عورتيں، سچے مرد اور سچي عورتيں ، صابر مرد اور صابر عورتيں۔‘‘ سورئہ احزاب / ٣٥

۳ سورئہ ممتحنہ / ١٢۔ ’’اسے رسول ۰ جب آپ کے پاس مومنات بيعت کيلئے آئيں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسي کواُس کاشريک قرار نہيں ديں گي‘‘۔

۴ بحار الانوار، جلد ١٠٠، صفہ٢٥٣

۵ ٢١ ستمبر ٢٠٠٠ ميں خواتين کے ايک بڑے جلسے سے خطاب

چوتھا باب

حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول

دريچہ

ايران سميت ديگر اسلامي ممالک ميں اسلام کي طرف سے خواتين کيلئے تعين شدہ حقوق ،حدود اور تعليمات و احکام کي رعايت نہيں کي جاتي ہے۔ خواتين کے حقوق کے اثبات و نفاذ کيلئے جو کوشش کي جائيں اُنہيں مغرب سميت تمام ممالک ميں خواتين کي فعاليت پر توجہ ديتے ہوئے اُن کے پروپيگنڈے سے متاثر نہيں ہونا چاہيے۔

مغرب ہميشہ اِس بات کي کوشش کرتا رہتا ہے کہ کسي بھي طرح خواتين کي تحريکوں اورفعاليت کے پرچم کو اپنے ہاتھ ميں لے تاکہ اس طرح خواتين کے بارے ميں ہونے والي واقعي اور فطري اصلاحات کا راستہ روک سکے۔

اسلامي نظام ميں حقوق نسواں پر تحقيق کرنے والے افراد کو جن اصولوں کو ہر صورت ميں مدنظر رکھنا چاہيے اُن ميں اسلامي احکام کي پابندي ، اسلامي آئيڈيل کي طرف توجہ،دوسروں کي تقليد اور ان کے عمل کو ديکھ کر حواس باختہ ہونے سے پرہيز کرنا، اخلاقي اور معنوي رشد کي طرف توجہ ، عفت و حيا کے تقاضوں کو پورا کرنا،گھرانے اورخاندان کي بنيادوں کو مستحکم بنانا،خواتين کي خاص زنانہ فطرت اور طبيعت و مزاج پر بھرپور توجہ دينا اور خواتين پر ہونے والے ظلم و ستم کو بالخصوص گھر ميں روکنا شامل ہيں۔

اِن اصولوں کي رعايت اورپابندي ، خواتين کے دفاع کي تمام تحريکوں کو کامياب اورنتيجہ مطلوب تک پہنچائے گي۔ اس ليے کہ اسلام ، بشري زندگي کے مختلف ميدانوں ميں مردو عورت کي حقيقي اور فطري ضرورتوں کا جواب دينے کي پوري پوري صلاحيت رکھتا ہے۔