اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143980 / ڈاؤنلوڈ: 3622
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

بلكہ يہ امر اجتہاد امت كے سپرد كيا گيا ہے _ سياست ، معاشرہ كے انتظامى امور ، حاكم اور خليفہ كے انتخاب كا طريقہ اور اس كے اختيارات كے متعلق آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعدجو كچھ بھى ہوا ہے وہى حجت ہے كيونكہ يہ سب كچھ رسولخد ا (ص) كے صحابہ كے اجتہاد اور راے كى بناپر ہوا ہے اور ان كا ا جتہاد حجت اور معتبر ہے _

اہلسنت كے سياسى نظام كے دينى نصوص كى بجائے رحلت رسول (ص) كے بعد پيش آنے والے واقعات سے وابستہ ہونے كى وجہ سے سياسى تفكر كے سلسلہ ميں علماء اہلسنت مشكل ميں پڑگئے ہيں كيونكہ يہ سياسى واقعات ايك طرح كے نہيں تھے لہذا ان كے مختلف ہونے كى وجہ سے انكى آراء بھى مختلف ہيں_ بطور مثال خليفہ كے انتخاب كى كيفيت اوراس كى سياسى ولايت كى مشروعيت كے سرچشمے كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_

خليفہ اول كا انتخاب سقيفہ ميں موجود بعض مہاجرين و انصار كى بيعت سے عمل ميں آيا _ جبكہ امير المومنين حضرت على ، حضرت ابوذر ،حضرت سلمان، حضرت مقداد اور حضرت زبير جيسے جليل القدر صحابہ اس بيعت كے مخالفت تھے_ خليفہ دوم حضرت ابوبكركى تعيين كے ذريعے منتخب ہوئے خليفہ سوم كا انتخاب اس چھ ركنى شورى كى اكثريت رائے سے عمل ميں آيا جسے حضرت عمر نے بنايا تھا _ جبكہ حضرت على كا انتخاب مہاجرين و انصار كے اتفاق رائے اور عامة الناس كى بيعت سے ہوا _ جيسا كہ آپ نے ملاحظہ فرمايا: خلفاء كے بر سر اقتدار آنے كا طريقہ ايك نہيں تھا _ ان چار خلفاء كے بعد سياسى ولايت كاسرچشمہ مزيد مشكلات اور ابہامات كا شكار ہوگيا كيونكہ معاويہ سميت بہت سے اموى اور عباسى خلفاء نے طاقت اور غلبہ كے زور پر حكومت حاصل كى _ ان كا انتخاب مسلمانوں كى رائے ، بيعت يا اہل حل و عقد كے ذريعہ عمل ميں نہيں آيا_

خلافت اور اس كے انتخاب كے متعلق اہلسنت كے صاحبان نظر كا نظريہ كلى طور پر آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد پيش آنے والے واقعات سے متاثر ہے _ ان كى ہميشہ يہ كوشش رہى ہے كہ اپنے سياسى نظام كو

۱۰۱

اس طرح پيش كيا جائے كہ وہ ان تمام واقعات كے ساتھ ہم آہنگ ہوسكے_ مثلاً آپ خليفہ كے انتخاب كى كيفيت اور مشروعيت كے متعلق ''ماوردي'' كے كلام كو ديكھيں كہ وہ كس طرح انتخاب خليفہ كے ان مختلف طريقوں كو جمع كرتے ہيںوہ كہتے ہيں :امامت كا اثبات دو طريقوں سے ممكن ہے _ ايك اہل حل و عقد كے اختيار اورانتخاب سے اور دوسرا سابق امام كى وصيت و تعيين سے _ اس دوسرے طريقہ ميں يہ اختلاف پايا جاتا ہے كہ كيا اہل حل و عقد كے اجماع كے بغير خلافت ثابت ہوسكتى ہے؟

حق يہ ہے كہ كسى امام كى امامت و خلافت سابقہ امام كى تعيين سے ثابت ہوجاتى ہے اور اس كيلئے اہل حل و عقد كى رضايت ضرورى نہيں ہے كيونكہ حضرت عمر كى امامت صحابہ كى رضايت پر موقوف نہيں تھى _ دوسرا يہ كہ سابقہ خليفہ بعد والے خليفہ كے تعيّن كا دوسروں كى نسبت زيادہ حق ركھتا ہے_ اور وہ دوسروں يعنى اہل حل و عقد سے زيادہ با اختيار ہے_(۱)

اہل سنت كے نظريہ خلافت كے متعلق دوسرا اہم نكتہ يہ ہے كہ كيا خليفة المسلمين ہونا ،صاحب خلافت كيلئے كسى خاص اخلاقى اور معنوى مقام و منزلت پر دلالت نہيں كرتا؟

صدر اسلام ميں لفظ ''خليفہ ''كو اس كے لغوى معنى ميں استعمال كيا جاتا تھا اور اس پر كوئي خاص معنوى شان و منزلت مترتب نہيں كرتے تھے_ ''خلافت ''لغوى لحاظ سے مصدر ہے_ جس كے معني'' غير كى جانشينى '' اور ''نيابت'' كے ہيں _ خليفہ وہ ہے جو كسى دوسرے كى جگہ پر آئے _بنابريں خليفہ رسول وہ شخص ہے جو آنحضرت(ص) كے بعد مسلمانوں كى قيادت اپنے ہاتھ ميں لے_ خليفہ اول كے بعد خليفہ وہ ہے جو رسولخدا (ص) كے جانشين كے بعد مسلمانوں كا قائد بنے_ يعنى وہ رسولخدا (ص) كے خليفہ كا خليفہ ہے_ خود خلفاء كے كلام

____________________

۱) الاحكام السلطانيہ، ابوالحسن ماوردى ص ،۶و ۱۰ _

۱۰۲

سے بھى ظاہر ہوتا ہے كہ ابتدائے استعمال ميں عنوان ''خليفہ ''كسى خاص معنوى معانى كا حامل نہيں تھا اور آنحضرت (ص) كى ذاتى صفات و كمالات كا حامل ہونے سے حكايت نہيں كرتا تھا_ ليكن امتداد زمانہ كے ساتھ ساتھ حكومتوں كے استحكام كيلئے اس منصب كو معنوى تقدس اور احترام كا لبادہ پہنايا جانے لگا اور خليفہ رسول كو آنحضرت (ص) كے معنوى كمالات كا حامل بھى سمجھا جانے لگا_

آخرى نكتہ جس كى طرف اشارہ ضرورى ہے يہ ہے كہ خلافت اسلاميہ كى تاريخ گواہ ہے ، كہ ايسے افراد بھى بر سر اقتدار آئے جو اگر چہ خليفہ رسول كے نام پر حكومت كر رہے تھے_ ليكن سيرت و كردار ، اور اخلاقى صفات و كمالات كے لحاظ سے نہ صرف رسولخدا (ص) بلكہ ايك عام مسلمان سے بھى كو سوں دور تھے_ يہ مسئلہ خود اس سوال كيلئے كافى ہے كہ اہلسنت جس نظام خلافت پر بہت زور ديتے ہيں اس نظام اور نظام سلطنت و ملوكيت ميں كيا فرق ہے؟ اس ابہام ميں مزيد اضافہ اس بات سے ہوتا ہے كہ نظام خلافت كے حاميوں ميں سے بعض نے تو امام يا خليفہ كى مخصوص شرائط بھى بيان نہيں كيں_ بلكہ بعض كے كلام سے تو يہ ظاہر ہوتا ہے كہ مسلمانوں كے حكمران كى اطاعت كے واجب ہونے ميں اس كا متقى اور عادل ہونا سرے سے شرط ہى نہيں ہے_ ابوبكر باقلانى (م۴۰۳ھ ) جمہور اہل حديث سے نقل كرتے ہيں : ''حاكم يا امام كے فسق و فجور كا ظاہر ہونا، اس كے ہاتھوں نفوس محترمہ كى ہتك حرمت ، حدود الہى كى پائمالى اور لوگوں كے مال كا غصب ہونا اس كى قدرت كے فقدان اور اطاعت سے خارج ہونے كا باعث نہيں بنتا'' _ اس نظريہ كى تائيد كيلئے اہل حديث آنحضرت (ص) اور صحابہ سے منقول روايات كا سہارا ليتے ہيں _ مثلا:

''اسمعوا وأطيعوا و لو لعبد اجدع و لو لعبد حبَشى و صَلُّوا وَرائَ كلّ برّ و فاجر''

۱۰۳

'' حاكم كى اطاعت كرو اگر چہ وہ ناك كٹا غلام ہى كيوں نہ ہو اور اگر چہ وہ حبشى غلام ہى كيوں نہ ہو اور ہر نيك يا بد كے پيچھے نماز پڑھو''_

يا يہ روايت كہ:

''أطعهم و ان أكَلُوا مالَك و ضَرَبُوا ظهرَك'' (۱)

'' حكمرانوں كى اطاعت كرو چاہے انہوں نے تمہارے اموال غصب كئے ہوں اور تمھيں مارا پيٹا ہو''_

مخفى نہ رہےكہ احمد بن حنبل جيسے بعض گذشتہ علماء اہلسنت معتقد ہيں كہ حسن ابن على كے بعد والے حكمرانوں پر خليفہ كا اطلاق مكروہ ہے_ يہ علماء خلافت اور ملوكيت و سلطنت ميں فرق كے قائل ہيں_ ان كى دليل وہ روايت ہے جسے ابوداود اور ترمذى نے آنحضرت (ص) سے نقل كيا ہے :

''الخلافةُ فى أُمتى ثلاثونَ سنة ثمّ ملك بعد ذلك'' (۲)

ميرى امت ميں تيس (۳۰) سال تك خلافت ہے اس كے بعد ملوكيت ہے_

اس كے باوجود اكثر علماء اہلسنت كى عملى سيرت يہ رہى ہے كہ انہوں نے اپنے حكمرانوں اور خلفاء كى اطاعت كى ہے اور ان كى مخالفت كرنے سے پرہيز كيا ہے_ اگر چہ ان ميں سے بہت سے خلفا ء فاسق و فاجر تھے_

____________________

۱) التمہيد فى الردّ على الملحدة، ابوبكر باقلانى ،ص ۲۳۸_

۲) مأثر الانافة فى معالم الخلافہ ، احمد ابن عبداللہ قلقشندى ،ص ۹_

۱۰۴

خلاصہ :

۱) اسلامى علم كلام ميں مسئلہ امامت اس سوال كا جواب ہے كہ كيا اسلامى تعليمات نے رحلت رسو ل (ص) كے بعد سياسى ولايت كے متعلق سكوت اختيار كيا ہے يا نہيں؟

۲) اہلسنت معتقد ہيں كہ سياسى قيادت كا تقرر خود ا مت كے سپرد كيا گيا ہے اور صدر اسلام كے مسلمانوں نے اپنے اجتہاد اور رائے سے ''نظام خلافت ''كا انتخاب كيا_

۳) شيعہ ''نظام امامت ''كے معتقد ہيں اور يہ عقيدہ ركھتے ہيں كہ دينى نصوص نے رحلت رسولخدا (ص) كے بعد مسئلہ امامت كو واضح كرديا ہے_

۴)''امامت ''اہلسنت كے نزديك ايك فرعى مسئلہ ہے جبكہ شيعہ اسے ايك اعتقادى مسئلہ اور اصول دين ميں سے قرار ديتے ہيں_

۵) اہلسنت كے سياسى تفكر اور نظريہ خلافت كى بنياد صحابہ كے عمل پر ہے_

۶) صدر اسلام كے خلفاء كے تعيّن اور طرز انتخاب كے مختلف ہونے كى وجہ سے اہلسنت كا سياسى تفكر ايك جيسا نہيں رہا اور اتفاق نظر سے عارى ہے_

۷) ابتداء ميں لفظ ''خليفہ ''معنوى خصوصيات كا حامل نہيں تھا ليكن مرور زمان كے ساتھ ساتھ خليفہ كو رسولخدا (ص) كے دينى اور معنوى جانشين كے طور پر متعارف كرايا گيا_

۸) بہت سے موارد ميں اہلسنت كے مورد نظر ''نظام خلافت '' اور ''نظام سلطنت'' كے درميان فرق كرنا مشكل ہے_

۱۰۵

سوالات :

۱) مسئلہ امامت ميں اصلى نزاع كيا ہے؟

۲)'' نظام خلافت'' سے كيا مراد ہے؟

۳) اہل تشيع اور اہل تسنن كے نزديكمسئلہ امامت كا كيا مقام ہے؟

۴) سياسى تفكر اور نظريہ خلافت كو بيان كرنے كيلئے اہلسنت نے كس چيز پر اعتماد كيا ہے؟

۵) نظريہ خلافت سے متعلق سياسى ولايت كى مشروعيت كو بيان كرنے ميں اہلسنت كيوں مشكل سے دوچار ہوئے؟

۶) اہلسنت كے در ميان لفظ ''خلافت اور خليفہ'' كے استعمال نے كن راہوں كو طے كيا ہے؟

۷) نظام خلافت كو نظام سلطنت و ملوكيت سے تميز دينے ميں كونسى شئے ابہام كا باعث بنى ہے؟

۱۰۶

بارہواں سبق :

شيعوں كا سياسى تفكر

سياسى ولايت كے سلسلہ ميں آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد شيعہ ''نظريہ امامت ''كے معتقد ہيں _ شيعہ معتقد ہيں كہ ائمہ معصومين صرف سياسى ولايت اور شان و منزلت كے حامل نہيں تھے بلكہ ان كا ايمان ہے كہ ائمہ معصو مين وحى الہى كے علاوہ آنحضرت (ص) كى تمام صفات و كمالات ميں آپ (ص) كے جانشين ہيں _ بنابريں ائمہ معصومين سياسى ولايت سميت ولايت معنوي، معاشرہ كى دينى راہنمائي اور لوگوں كو دينى حقائق كى تعليم دينے جيسى خصوصيات كے بھى حامل ہيں _ وہ رسولخد ا (ص) كے حقيقى خلفاء ، وارث اور جانشين ہيں اور اس وراثت كا لازمہ يہ ہے كہ معنوى ، علمى اور سياسى اوصاف ميں رسولخدا (ص) كے بعد ائمہ معصومين تمام لوگوں سے افضل ہوں اور امامت اور خلافت نبوى كے منصب كيلئے اپنے دور كے تمام افراد سے زيادہ شائستہ ہوں _ اسى وجہ سے اہلسنت كے بعض علماء نے شيعہ كى تعريف ميں اسى نكتہ كى طرف اشارہ كيا ہے _

ابن حزم '' اہل تشيع'' كى تعريف كرتے ہوئے كہتے ہيں :

۱۰۷

''و مَن وافق الشيعة فى أنّ عليّاً أفضل الناس بعد رسول الله (ص) و أحقّهم بالامامة و وُلده من بعده، فهو شيعى و إن خالفهُم فيما عدا ذلك مما اختلف فيه المسلمون، فإن خالَفَهُم فيما ذكرنا فليس شيعيّاً'' (۱)

جو شخص شيعوں كى اس بات سے اتفاق كرتا ہے كہ رسولخدا (ص) كے بعد على سب سے افضل ہيں_ اور آپ(ع) اور آپ (ع) كى اولاد دوسروں سے زيادہ حقدار امامت ہے وہ شيعہ ہے اگر چہ مسلمانوں كے نزديك مورد اختلاف ديگر چيزوں ميں شيعوں سے اختلاف رائے ركھتا ہو اور اگر وہ اس چيز ميں شيعوں سے اتفاق نہيں كرتا جسے ہم نے ذكر كيا ہے تو وہ شيعہ نہيں ہے_

شيعوں كا سياسى نظريہ اہلسنت كے نظريہ خلافت سے دو بنيادى نكات ميں مختلف ہے پہلانكتہ يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد امر حكومت اور سياسى ولايت كے متعلق شيعہ دينى نصوص كو ساكت نہيں سمجھتے بلكہ معتقد ہيں كہ آنحضرت (ص) كے بعد خليفہ كے تقرر كے سلسلہ ميں بہت سى معتبر نصوص موجودہيں _ اسى وجہ سے وہ ائمہ معصومين كى ولايت كے جواز كا مبداء و سرچشمہ ،ارادہ الہى اور خدا كى طرف سے تعيين كو سمجھتے ہيں_ اہلبيت كى ولايت اور امامت ايك الہى منصب ہے جيسا كہ امت پر رسولخد ا (ص) كى ولايت كا سرچشمہ الہى تھا اور اس كا جواز لوگوں كى بيعت اور رائے كا مرہون منت نہيں تھا_

دوسرا نكتہ اختلاف يہ ہے كہ شيعوں كى نظر ميں لفظ ''امام'' خليفہ رسول كے حقيقى معنى ميں ہے يعنى معنوي، علمى اور سياسى تمام جہات ميں رسولخدا (ص) كا جانشين _ جبكہ اہلسنت خلفاء كى جانشينى كو اس كے لغوى معنى ميں ليتے ہيں _ يعنى بعد ميں آنے والا _ البتہ ائمہ معصومين كے متعلق شيعوں كے اعتقاد سے متاثر ہوكر

____________________

۱) الفصَل فى الملل و الاہواء و النحل ج ۲، ص ۱۱۳_

۱۰۸

اہلسنت كے بعض علماء نے يہ نظريہ قائم كرليا ہے كہ آنحضرت (ص) كے بعد پہلے چار خُلفاء بالترتيب تمام لوگوں سے افضل ہيں _ حالانكہ اس عقيدہ كا صدر اسلام حتى كہ خليفہ اول اور دوم كے دور ميںبھى كوئي وجود نہيں تھا_ اہلسنت ميں يہ عقيدہ اموى اور عباسى خلفاء كے ذريعہ آيا جس كى تقويت انہوںنے اپنے سياسى اغراض اور شيعوں كى ضد ميں آكر كى انہوں نے اس عقيدہ كى ترويج كى بہت زيادہ كوششيں كيں كہ وہ بھى رسولخدا (ص) كى بعض خصوصيات كے حامل ہيں (۱) _

بہت سى معتبر روايات دلالت كرتى ہيں كہ امامت كا ايك خاص اجتماعى اور ايمانى مقام و منزلت ہے امامت اسلام كے دوسرے فروع اور اجزا كى طرح نہيں ہے _ بلكہ بہت سے احكام اور فروع كا قوام اور اسلام و مسلمين كى اساس ''امامت'' پر ہے _ ہم بطور نمونہ بعض روايات كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

مرحوم شيخ كليني جناب زرارہ كے واسطہ سے امام باقر سے نقل كرتے ہيں :

بُنى الاسلام على خمسة أشيائ: على الصلاة و الزكاة و الحجّ والصوم و الولاية قال زرارة: فقلت و أيّ شيء من ذلك أفضل؟ فقال: الولاية أفضل; لانّها مفتاحهنّ والوالى هو الدليل عليهنّ ثمّ قال: ذروة الامر و سنامه و مفتاحه و باب الا شياء و رضا الرحمان الطاعة للامام بعد معرفته ان الله (عزوجل) يقول:( ( مَن يُطع الرَّسولَ فَقَد أطاعَ الله َ و مَن تَولّى فَما أرسلناك عَليهم حَفيظاً ) )(۲)

____________________

۱) الاسلام السياسي، محمد سعيد العشماوى ص ۹۳و ۹۴_

۲) الكافى جلد ۲ صفحہ ۱۸_۱۹، باب دعائم الاسلام حديث ۵ جبكہ حديث ميں مذكور آيت سورہ نساء كى ۸۰ نمبر آيت ہے_

۱۰۹

اسلام كى بنياد اور اساس پانچ چيزوں پر ہے : نماز ، زكوة ، حج، روزہ اور ولايت _

جناب زرارہ كہتے ہيں : ميں نے پوچھا كہ ان ميں سے افضل كونسى چيز ہے ؟ امام نے فرمايا :ولايت سب سے افضل ہے كيونكہ يہ ان تمام كى كنجى ہے اور ولى ان پرراہنمائي كرنے والا ہے پھر فرمايا: امر دين كا بلندترين مرتبہ اور اس كى كنجى ، تمام اشياء كا دروازہ اور خدا كى رضا، امام كى معرفت كے بعد اس كى اطاعت ميں پنہاں ہے _ الله تعالى فرماتا ہے: جس نے رسول كى اطاعت كى اس نے خدا كى اطاعت كى اور جس نے روگردانى كى تو ہم نے تمھيں ان پر نگران بنا كر نہيں بھيجا_

امام رضا ايك حديث ميں امامت كو زمام دين ، مسلمانوں كا نظام حيات ، اسلام كى اساس اور بہت سے احكام كى تكميل كى بنياد قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''انّ الامامة زمام الدين و نظام المسلمين و صلاح الدنيا و عزّ المؤمنين انّ الامامة أسّ الاسلام النامى و فرعه السامي_ بالامام تمام الصلاة و الزكاة والصيام والحجّ والجهاد و توفير الفيء و الصدقات وامضاء الحدود والأحكام و منع الثغوروالاطراف الامام يحلّ حلال الله و يحرم حرام الله و يقيم حدود الله و يذبّ عن دين الله ''(۱)

يقيناً امامت زمام دين ، مسلمانوں كا نظام حيات ، صلاح دنيا اور صاحبان ايمان كى عزت ہے_ امامت اسلام كى نشو و نما كرنے والى جڑ اور اس كى بلندترين شاخ ہے _ نماز، روزہ، حج،زكوة اور جہاد كى تكميل امام كے ذريعہ سے ہوتى ہے _ غنيمت اور صدقات كيشرعى قانون

____________________

۱) الكافى جلد ۱، صفحہ ۲۰۰ ، باب نادرجامع فى فضل الامام وصفاتہ حديث۱ _

۱۱۰

كے مطابق تقسيم ، حدود و احكام كا اجر اء اور اسلامى سرزمين اور اس كى سرحدوں كى حفاظت امام كے وسيلہ سے ممكن ہے _ امام ہى حلال خدا كو حلال اور حرام خدا كو حرام كرتا ہے حدود الہى كو قائم كرتا ہے اور دين كا دفاع كرتاہے_

حضرت على بھى امامت كو امت كا نظام حيات اور اسكى اطاعت كو اسكى تعظيم قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''فَرَضَ الله الإيمان تَطهيراً من الشرك والإمامة نظاماً للأُمة والطاعة تعظيماً للإمامة'' (۱)

الله تعالى نے ايمان كو شرك سے بچنے كيلئے ، امامت كو نظام امت اور اطاعت كو امامت كى تعظيم كيلئے واجب قرار دياہے _

قابل ذكر ہے كہ شيعوں كا سياسى تفكر دو مرحلوں ميں قابل تحقيق ہے _

الف: امام معصوم كے حضور كے زمانہ ميں

ب : امام زمانہ( عجل اللہ فرجہ الشريف ) كى غيبت كے زمانہ ميں

امام كے حضور كے زمانہ ميں سياسى ولايت كے متعلق شيعہ علماء كا نظريہ مكمل طور پر متفقہ اور واضح ہے_ شيعہ نظريہ امامت كے معتقد ہيں اور امت كى ولايت كو امام معصوم كى امامت كا ايك حصہ اور جز سمجھتے ہيں _ تمام وہ حكومتيں جو اس حق خدا كو پامال كر كے تشكيل پائي ہوں انہيں غاصب اور ظالم قرار ديتے ہيں اور اس نظريہ ميں كسى شيعہ عالم كو اختلاف نہيں ہے ، كيونكہ شيعوں كى شناخت اور قوام اسى اعتقاد كى بناپر ہے _وہ شئے جو قابل بحث و تحقيق ہے وہ غيبت كے زمانہ ميں شيعوں كا سياسى تفكر ہے _

____________________

۱ ) نہج البلاغہ حكمت ۲۵۲_

۱۱۱

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر :

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر اس طرح واضح ، روشن اور متفق عليہ نہيں ہے جس طرح زمانہ حضور ميں ہے _ شيعوں كا كوئي عالم دين ائمہ معصومين كى سياسى ولايت اور امامت ميں شك و ترديد كا شكار نہيں ہے كيونكہ امامت ميں شك تشيّع سے خارج ہونے كے مترادف ہے _ائمہ معصومين كى امامت پر نہ صرف سب كا اتفاق ہے بلكہ تشيّع كى بنياد ہى امامت كے نظريہ پر ہے _ ليكن سوال يہ ہے كہ امام معصوم كى غيبت كے زمانہ ميں بھى ان كى سياسى ولايت كے متعلق يہى اتفاق نظر ہے ؟

حقيقت يہ ہے كہ تمام جہات سے ايسا اتفاق نظر موجود نہيں ہے _ يعنى ايك واضح و ثابت قول كى تمام علماء شيعہ كى طرف نسبت نہيں دى جاسكتى _ كيونكہ اس بحث كے بعض پہلوؤں ميں ان كے در ميان اختلاف پايا جاتا ہے _ آئندہ كى بحثوں ميں آئے گا كہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے دوران علماء شيعہ ''فقيہ عادل'' كى ولايت كے قائل ہيں _ اور فقيہ عادل كو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كا نائب عام سمجھتے ہيں _ ليكن اس فقيہ عادل كى ولايت كى حدود اور اختيارات ميں اتفاق نہيں ہے _ ولايت فقيہ كى حدود كے سلسلہ ميں ايك واضح اور مشخص نظريہ كى تمام علماء كى طرف نسبت نہيں دى جاسكتى _

ولايت فقيہ كى تاريخ پر بحث كے دوران تفصيل سے آئے گا كہ علماء شيعہ ''اصل ولايت فقيہ'' اور فقيہ عادل كى بعض امور ميں امام معصوم كى جانشينى پر اتفاق نظر ركھتے ہيں _اختلاف اس ميں ہے كہ اس ولايت كا دائرہ اختيار كس حد تك ہے _

بعض بڑے شيعہ فقہاء اس ولايت اور جانشينى كو عام اور ان تمام امور ميں سمجھتے ہيں كہ جن ميں امام كى جانشينى ممكن ہے اور اس طرح فقيہ كى ''ولايت عامہ'' كے قائل ہيں _ جبكہ بعض دوسرے فقہا اس جانشينى كو محدود اور خاص موارد ميں قرار ديتے ہيں _

۱۱۲

مسلمان معاشرے كے اجتماعى اور سياسى امور ميں فقيہ كى سياسى ولايت اس كى ولايت عامہ كے اثبات پر موقوف ہے _ كيونكہ امام معصوم كى خصوصيات ميں سے ايك آپ كى سياسى ولايت بھى ہے اور يہ خصوصيت قابل نيابت ہے _ جبكہ ائمہ معصومين كا مقام عصمت، علم الہى اور معنوى كمالات قابل نيابت نہيں ہيں _ تيسرے باب ميں ہم ولايت فقيہ اور اس كى ادلّہ پر تفصيلى بحث كريں گے _ اسى طرح'' فقيہ عادل'' كا منصب ولايت پر فائز ہونا اور اس كے دائرہ اختيار پر بھى گفتگو كريں گے _

البتہ اس بات كا اعتراف كرنا پڑے گا كہ شيعہفقہا نے ''فقہ سياسي'' يعنى ''فقہ حكومت'' كى مباحث كو اس قدرا ہميت نہيں دى جس طرح دوسرى عبادى اوربعض معاملاتى مباحث كو دى ہے _ بہت سے فقہا نے تو اس قسم كى فقہى فروعات كو بيان ہى نہيں كيا اور انہيں مورد بحث ہى قرار نہيں ديا _ اور اگر بيان بھى كياہے تو بہت مختصر اور اس كے مختلف پہلوؤں اور مسائل كا اس طرح دقيق تجزيہ و تحليل نہيں كيا جس طرح عبادى اور معاملاتى مسائل كا كيا ہے _ يہ بات دوسرے فقہى ابواب كى نسبت ''فقہ سياسي'' كے باب كے ضعف كا باعث بنى ہے _ يقينا اگر شيعوں كے جليل القدر فقہاء دوسرے عبادى ابواب كى طرح '' فقہ الحكومة '' كے باب ميں بھى دقيق بحث كرتے تو آج شيعوں كے سياسى تفكر ميں مزيد ارتكاء ديكھنے كو ملتا _

امويوں اور عباسيوں كے زمانہ ميں حكمرانوں كى طرف سے شيعوں پر اس قدر دباؤ تھا اور ان كے حالات اسقدر ناسازگار تھے كہ اولاً ائمہ معصومين تك دسترسى كے امكان كى صورت ميں بھى تقيہ كى وجہ سے اس قسم كے حساس سياسى مسائل پر گفتگو كرنے سے اجتناب كرتے تھے _ كيونكہ اس سے موجودہ حكومتوں كى واضح نفى ہوتى تھى لہذا اس قسم كے مسائل پر بحث كرنے كيلئے حالات سازگار نہيں تھے _ ثانياً يہ اقليت اس قدر دباؤ اور محروميت كا شكار تھى كہ خود كو بر سر اقتدار لانے اور ايك صحيح دينى حكومت كى تشكيل كو انتہائي مشكل سمجھتى

۱۱۳

تھى لہذا اس نے اپنى تمام تر ہمت اپنى بقا اور غاصب حكومتوں سے نفرت ميں صرف كردى اور حكومتى روابط ، مسائل اور سياسى نظام كے متعلق سوالات كے بارے ميں بہت كم فكر كى _بنابريں عبادى احكام كى نسبت'' فقہ سياسي'' كے متعلق روايات كا ذخيرہ بہت كم ہے _

اسى طرح امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے بعد بھى شيعوں كيلئے اجتماعى اور سياسى حالات سازگار نہيں تھے_ لہذا علماء شيعہ نے سياسى مباحث كے پھيلاؤ اور اس كى تحقيقات ميں كوئي خاص اہتمام نہيں كيا _

۱۱۴

خلاصہ :

۱) شيعہ ائمہ معصومين كيلئے سياسى ولايت سے وسيع تر مقام و منزلت كے قائل ہيں _

۲) يہ مخصوص شان و منزلت جو ان كى افضليت كے اعتقاد كا باعث ہے _ شيعہ كى پہچان ہے اور امامت كے متعلق شيعہ اور سنى كے درميان وجہ افتراق يہى ہے _

۳) مكتب اہلبيت اور معصومين كى روايات كى روشنى ميں امامت ايك عظيم اجتماعى اور دينى شان ومنزلت كى حامل ہے اور سياسى ولايت ميں محدود نہيں ہے _

۴) شيعوں كا سياسى تفكر دو مرحلوں ميں قابل تحقيق ہے _

الف : امام معصوم كے زمانہ ظہور ميں

ب : زمانہ غيبت ميں

۵) زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر زمانہ حضور ميں سياسى تفكر كى طرح واضح اور روشن نہيں ہے _

۶) زمانہ غيبت ميں تمام شيعہ علمائ'' اصل ولايت فقيہ ''كے قائل ہيں ليكن اس ولايت كے دائرہ اختيار ميں اختلاف نظر ركھتے ہيں _

۷) شيعہ علماء كے درميان ''سياسى فقہ'' كے متعلق مباحث كى كمى كى وجہ ظالم اور فاسق حكومتوں كا دباؤ ہے _

۱۱۵

سوالات :

۱) اہل تشيع كے نظريہ'' امامت ''اور اہلسنت كے نظريہ ''خلافت ''كے در ميان دو بنيادى فرق بيان كيجيئے _

۲) روايات اہلبيت نے امامت كيلئے كونسى اجتماعى اور ايمانى شان و منزلت كو بيان كيا ہے ؟

۳) شيعوں كے زمانہ حضور اور زمانہ غيبت كے سياسى تفكر ميں كيا فرق ہے ؟

۴) زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ كے متعلق علماء شيعہ كے درميان وجہ اشتراك اور وجہ اختلاف كيا ہے ؟

۵) شيعہ علماء كے درميان عبادى مباحث كى نسبت ''سياسى فقہ'' كى مباحث كے كم ہونے كى وجہ كيا ہے ؟

۱۱۶

تيرہواں سبق:

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۱-

اہلسنت كے سياسى نظريہ كى وضاحت كے دوران ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ ہو چكا ہے كہ وہ آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت كے سلسلہ ميں دينى متون كو ساكت سمجھتے ہيں اور معتقد ہيں كہ سياسى ولايت كا كام خود امت كے سپرد كيا گيا ہے _ شورى يعنى ''اہل حل و عقد'' كى رائے اور'' بيعت مسلمين ''اسلامى حاكم كى تعيين كرتے ہيں _ واضح ہے كہ ايسا دعوى شيعہ عقائد كے ساتھ سازگار نہيں ہے _ علم كلام كى كتابوں ميں امامت كے متعلق جو معتبر اور متعدد ادلّہ قائم كى گئي ہيں وہ اس دعوى كو بے معنى قرار ديتى ہيں _ ائمہ معصومين كى امامت ''انتصابى ''يعنى خدا كى طرف سے مقرركردہ ہے_ لوگوں كى بيعت صرف امام كے اختيارات كو عملى جامعہ پہنانے ميں مددگار ثابت ہوتى ہے اوراس كا امامت كى حقيقت ميں كوئي كردار نہيں ہوتا_ ليكن سوال يہ ہے كہ كيا امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے دوران بھى اس دعوے كو تسليم كيا جاسكتا ہے ؟ اور كيازمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كا اختيار خود شيعوں كو حاصل ہے اور بيعت اور شورى سياسى رہبر كا انتخاب كرے گي؟ يہ بحث اس مفروضہ كى بناپر ہے كہ ائمہ معصومين كى نيابت عامہ موجود نہيں ہے اور روايات كى روسے فقيہ

۱۱۷

عادل كو ولايت تفويض نہيں كى گئي _

اس سبق اور اگلے سبق ميں ہم ان دونكتوں كى تحقيق كريں گے _ پہلا يہ كہ كيا روايات ميں اس دعوى كے تسليم كرنے پر كوئي دليل موجود ہے ؟ اور كيا زمانہ غيبت ميں بيعت اور شورى ''سياسى زندگي'' كا تعيّن كرسكتے ہيں ؟ دوسرا يہ كہ اصولى طور پر اسلام كے سياسى تفكر ميں بيعت اور شورى كا كيا كردار ہے ؟

حضرت اميرالمومنين سے بعض ايسى روايات منقول ہوئي ہيں جو صريحاً كہتى ہيں كہ سياسى ولايت كا حق خود امت كو حاصل ہے _ لہذا اگر مسلمانوں كى شورى كسى كو مقرر كردے اور لوگ اس كى بيعت كرليں تو وہى مسلمانوں كا حاكم اور ولى ہے _ اس قسم كى روايات كى تحقيق سے پہلے ضرورى ہے كہ بيعت اور اس كى اقسام كے متعلق مختصر سى وضاحت كردى جائے _

بيعت كا مفہوم اور اس كى اقسام :

بيعت ايك قسم كا عہد و پيمان اور عقد ہے جو ظہور اسلام سے پہلے عرب قبائل ميں رائج اور مرسوم تھا لہذا يہ ايسا مفہوم نہيں ہے جسے اسلام نے متعارف كروايا ہو _ البتہ متعدد مواقع پر سيرت نبوى (ص) نے بيعت مسلمين كو شرعى جواز بخشا ہے _

بيعت اور بيع لفظ ''باع'' كے دو مصدر ہيں اسى وجہ سے بيعت كا مفہوم بڑى حد تك بيع كے مفہوم سے مطابقت ركھتا ہے جو كہ خريد و فروخت كے معنى ميں ہے _ بيع وہ عقد اور معاملہ ہے جس ميں فروخت كرنے والے اور خريدار كے در ميان مال كا تبادلہ ہوتا ہے _ اسى طرح بيعت وہ معاملہ ہے جو ايك قوم كے رہبر اور اس كے افراد كے درميان قرار پاتا ہے اس بنياد پر كہ بيعت كرنے والے اپنى اطاعت ، اپنے وسائل و امكانات اور اموال كو اس كے زير فرمان قرار دے ديتے ہيں_

۱۱۸

جس طرح بيع (خريد و فروخت)ميں معاملہ كرنے والوں كے درميان ابتدا ميں قيمت اور دوسرى شرائط طے پاتى ہيں پھر معاملہ انجام پاتا ہے _ '' غالباًيہ معاملہ گفتگو كے ذريعہ انجام ديا جاتا ہے ليكن كبھى كبھى فعل يعنى صرف عملى طور پر بھى انجام پاتا ہے كہ جسے بيع معاطات كہتے ہيں ''_ بيعت ميں بھى اسى طرح پہلے گفتگو ہوتى ہے اور تمام شرائط پر رضايت حاصل كى جاتى ہے پھر دوسرے كے ہاتھ ميں ہاتھ دے كر اپنى رضايت كا اقرار كيا جاتا ہے _ اس طرح بيعت ہوجاتى ہے يہ معاہدہ بيعت مختلف طرح كا ہوسكتا ہے اسى لئے ہميں بيعت كى مختلف قسميں ديكھنے كو ملتى ہيں _بيعت كى جو قسم غالب اور رائج ہے وہ مقابل كى سياسى ولايت كو قبو ل كرنے سے متعلق ہے_ عربوں كے در ميان ايك شخص بيعت كے ذريعہ دوسرے شخص كى سياسى ولايت كو قبول كرليتا تھا _ سقيفہ ميں حضرت ابوبكر كى بيعت ، قتل عثمان كے بعد امير المومنين حضرت على كى بيعت اور خليفہ كے تعيّن كے لئے حضرت عمر نے جو شورى تشكيل دى تھى اس ميں عبدالرحمن ابن عوف كا حضرت عثمان كى بيعت كرنا يہ سب خلافت اور سياسى ولايت پر بيعت كرنے كے موارد ہيں_ ليكن بيعت صرف اسى قسم ميں منحصر نہيں ہے كيونكہ كبھى بيعت اس لئے كى جاتى تھى تا كہ دشمن كے مقابلہ ميں جہاد اور ثابت قدمى كا عہد ليا جائے _ جس طرح بيعت رضوان كا واقعہ ہے جو كہ حديبيہ كے مقام پر ۶ ہجرى ميں لى گئي_ سورہ فتح كى اٹھارہويں آيت ميں اس كى طرح اشارہ ہے _

( ''لَقَد رَضيَ الله ُ عَن المؤمنينَ اذيُبا يعُونَك تَحْتَ الشَّجرة فَعَلمَ ما فى قلُوبهم فا نْزَلَ السَّكينَةَ عَلَيْهم'' )

خدا صاحبان ايمان سے راضى ہوگيا جب وہ درخت كے نيچے تيرى بيعت كر رہے تھے جو كچھ ان كے دلوں ميں تھاوہ اسے جانتا تھا پس اس نے ان پر سكون نازل كيا _

۱۱۹

۶ ہجرى تك مسلمانوں پر رسولخدا (ص) كى سياسى اور دينى قيادت اور ولايت كو كئي سال گذر چكے تھے _ لہذا يہ بيعت آنحضرت (ص) كو سياسى قيادت سونپے كيلئے نہيں ہوسكتى _ جناب جابر جو كہ اس بيعت ميںموجود تھے كہتے ہيں : ہم نے يہ بيعت اس بناپر كى تھى كہ دشمن كے مقابلہ ميں فرار نہيں كريںگے_ ''بايَعنا رسول الله (يَومَ الحُدَيبية) على ا ن لانَفرّ'' (۱) _

بعض اوقات بيعت كا مقصد ايك شخص كى اس كے دشمنوں كے مقابلہ ميں حمايت اور دفاع كا اعلان كرنا ہوتاتھا _ جس طرح بعثت كے تيرہويں سال مقام عقبہ ميں اہل يثرب كے نمائندوں نے آنحضرت (ص) كى بيعت كى تھى _(۲)

بيعت كى ان تمام اقسام ميں يہ بات مشترك ہے كہ ''بيعت كرنے والا ''بيعت كى تمام طے شدہ شرائط كا پابند ہوتا ہے _ بيعت ايك ايسا عہد و پيمان ہے جس كا پورا كرنا بيعت كرنے والے كيلئے ضرورى ہوتا ہے _

بيعت كے مفہوم كى وضاحت كے بعد ان بعض روايات كو ذكر كرتے ہيں جن سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ اسى شخص كى ولايت قابل اعتبار ہے جس كى لوگ بيعت كر ليں _ ظاہرى طور پر يہ روايات ''نظريہ انتخاب'' كى تائيد كرتى ہيںيعنى سياسى ولايت كے تعيّن كا حق خود مسلمانوں كو دياگيا ہے _

نظريہ انتخاب كى مؤيد روايات

امير المومنين حضرت على فرماتے ہيں :

''إنّه بايعنى القوم الذين بايعوا أبابكر و عمر و عثمان على ما

____________________

۱) جامع البيان ابن جرير طبري، جلد ۲۶، صفحہ ۱۱۰، ۱۱۳ مذكورہ آيت كے ذيل ميں_

۲) السيرة النبويہ، جلد۲، صفحہ ۸۴،۸۵_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ان کی ماں ( مریم ) بہت سچی اور نیک کردار خاتون تھیں، دونوں غذا کھاتے تھے؛ غور کرو کہ کس طرح ہم ان کیلئے صراحت کے ساتھ نشانیوں کو بیان کرتے ہیں، پھر غور کرو کہ کس طرح وہ حق سے منحرف ہو رہے ہیں۔( ۱ )

نیز سورۂ نساء میں فرماتا ہے :

( یا اهل الکتاب لا تغلوا فی دینکم و لا تقولوا علیٰ الله الا الحق انما المسیح عیسیٰ بن مریم رسول الله و کلمته القاٰها الیٰ مریم و روح منه فآمنوا بالله و رسوله و لا تقولوا ثلاثة انتهوا خیراً لکم انما الله الٰهواحد سبحانه ان یکون له ولد له ما فی السمٰوات وما فی الارض و کفیٰ بالله وکیلا ً )

اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں غلو اور افراط سے کام نہ لو اور خدا کے بارے میں جو حق ہے وہی کہو! مسیح عیسیٰ بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں کہ اسے مریم کو القاء کیا؛ نیز اس کی طرف سے روح بھی ہیں لہٰذا خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائو اور یہ نہ کہو: خدا وندسہ گانہ ہے اس بات سے باز آ جائو اسی میں تمہاری بھلائی ہے اللہ فقط خدائے واحد ہے ؛وہ صاحب فرزند ہونے سے منزہ اور پاک ہے، زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ سب اسی کا ہے یہی کافی ہے کہ خدا مدبر ہے ۔( ۲ )

سچ ہے کہ خدا وند سبحان نے صحیح فرمایا ہے اور تحریف کرنے والوں نے جھوٹ کہا ہے ، اللہ کی پاک و پاکیزہ ذات ستمگروں کے قول سے بلند و بالاہے۔

اب اگر مسئلہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ہم نے بیان کیا (اور واقع میں بھی ایسا ہی ہے) اور خدا کا مطلوب اور پسندیدہ دین صرف اور صرف اسلام ہے اور دین کی اسلام کے علاوہ نام گز اری تحریف ہے اور یہودیت و نصرانیت دونوں ہی اسم و صفت کے اعتبار سے تحریف ہو چکے ہیں، لہٰذا صحیح اسلام کیا ہے ؟ اور اسلامی شریعت کون ہے ؟

____________________

(۱)مائدہ۷۲،۷۳،۷۵(۲)نسائ۱۷۱

۱۸۱

و۔ اسلام انسانی فطرت سے سازگار ہے

خدا وندسبحان سورۂ روم میں فرماتا ہے :

( فاقم وجهک للدین حنیفا فطرة الله التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق الله ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون )

پھر اپنے چہرہ کو پروردگار کے خالص آئین کی جانب موڑلو یہ وہ فطرت ہے جس پر خدا وند عالم نے انسانوں کو خلق کیا ، تخلیق پروردگار میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ، یہ ہے ثابت اور پائدار دین ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔حنیفاً: حنف کجروی سے راہ راست پر آنا اور حنف درستگی اور راستی سے کجی کی طرف جانا ہے،حنیف: مخلص، وہ شخص جو خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہواور کبھی دین خدا وندی سے منحرف نہ ہوا ہو۔

۲۔ فطر: اختراع و ایجاد کیا، فطر اللہ العالم ، یعنی خدا نے دنیا کی ایجاد کی ،(پیدا کیا)۔

خدا وند عالم نے گز شتہ آیات میں راہ اسلام سے گمراہ ہونے والوں کے انحراف کے چند نمونے بیان کرنے اور نیک اعمال کی طرف اشارہ کرنے کے بعد:اس موضوع کو اس پر فروعی عنوان سے اضافہ کرتے ہوئے فرمایا:

پھر اپنے چہرے کو دین کی جانب موڑ لو۔( ایسے دین کی طرف جو خدا کے نزدیک اسلام ہے) اور بے راہ روی سے راستی اور درستگی و اعتدال یعنی حق کی طرفرخ کرلو کہ دین اسلام کی طر ف رخ کرنا انسانی فطرت کا اقتضا ہے ایسی فطرت جس کے مطابق خدا وند عالم نے اسے خلق کیاہے اور فطرت خدا وندی میں کسی قسم کی تبدیلی اور دگرگونی کی گنجائش نہیں ہے ، اس لئے، اس کے دین میں جو کہ آدمی کی فطرت کے موافق اور سازگار ہے ، تبدیلی نہیں ہوگی اور اس کا فطرت سے ہم آہنگ اور موافق ہونا اس دین کے محکم اور استوار

____________________

(۱)روم۳۰.

۱۸۲

ہونے کی روشن اور واضح دلیل ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔

اس سلسلہ میں تمام جاندار انسان کی طرح ہیں اور اپنی فطرت کے مطابق ہدایت پاتے ہیں، مثال کے طور پر شہد کی مکھی اس غریزی فطرت اور ہدایت کے مطابق جو خدا نے اس کی ذات میں ودیعت کی ہے ، پھولوں کے شگوفوں سے وہی حصے کو جو عسل بننے کے کام آتے ہیں، چوستی ہے اور کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اپنی فطرت اور غریزی ہدایت کے بر خلاف نامناسب اور نقصان دہ چیزیںکھالیتی ہے جو شہد بننے کے کام نہیں آتیں تو داخل ہوتے وقت دربان جو محافظت کے لئے ہوتا ہے اسے ر وک دیتا ہے اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتا ہے ۔

مرغ بھی خد اداد فطرت اور غریزی ہدایت کے مطابق پاک و پاکیزہ دانوں اور سبزیوں کو چنتا ہے اور جب بھی خدا داد صلاحیت اور غریزی ہدایت کے بر خلاف عمل کرتے ہوئے غلاظت کھا لیتا ہے تو شریعت اسلامیہ میں اسے ''جلاَّلہ'' (نجاست خور )کہا جاتا ہے اور اس کا گوشت کھانا ممنوع ہو جاتا ہے جب تک کہ تین دن پاکیزہ دانے کھا کر پاک نہ ہو جائے۔

ہاں، خدا وند عالم کا حکم تمام مخلوقات کے لئے یکساں ہے انہیں ہدایت کرتا ہے تاکہ اپنے لئے کارآمد اور مفید کاموں کا انتخاب کریں اور ان نقصان دہ امور سے پرہیز کریں جو ان کے وجود کے لئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ انسان کی بہ نسبت خدا وند عالم نے سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا ہے:

( یسئلونک ما ذا احل لهم قل احل لکم الطیبات... ) ( ۱ )

تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کون سی چیز حلال ہے ؟ تو ان سے کہو: ہر پاکیزہ چیز تمہارے لئے حلا ل ہے ۔

سورۂ اعراف میں ارشاد فرمایا:

( الذین یتبعون الرسول النبی الاُمی الذی یجدونه مکتوباًً عندهم فی التوراة و الأِنجیل یأمرهم بالمعروف و ینهاهم عن المنکر و یحل لهم الطیبات و یحرم علیهم الخبائث... )

جو لوگ خدا کے رسول پیغمبر امی کا اتباع کرتے ہیں؛ ایساپیغمبر جس کے صفات اپنے پاس موجود توریت اور انجیل میں لکھے ہوئے دیکھتے ہیں کہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور منکر و برائی سے روکتا ہے ، پاکیزہ چیزوںکو ان کے لئے حلال کرتا ہے اور نجاسات اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے ۔( ۱ )

____________________

(۱)اعراف۱۵۷۔

۱۸۳

لہٰذا اسلامی احکام میں معیار؛ انسان کے لئے نفع و نقصان ہے ، خدا وند عالم نے نجاستوں کو حرام کیا ہے ، چونکہ انسان کے لئے نقصان دہ ہیں اور پاکیزہ چیزوںکو حلال کیا ہے کیونکہ اس کے لئے مفید و کارآمد ہیں۔ اس بات کی تائید سورۂ رعد میں خدا وند عالم کے قول سے ہوتی ہے کہ فرماتا ہے :

( فاما الزبد فیذهب جفاء واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض.. )

لیکن جھاگ، کنارے جاکر نابود ہو جاتا ہے ، لیکن جو چیزیں انسان کے لئے مفید اور سود مند ہے زمین میں رہ جاتی ہیں۔( ۱ )

سورۂ حج میں فرمایا:

( وأذّن فی الناس بالحج یأتوک رجالاً و علیٰ کل ضامر یأتین من کل فجٍ عمیق لیشهدوا منافع لهم )

لوگوں کو حج کی دعوت دو، تاکہ پیادہ اور کمزور و لاغر سواری پر سوار ہو کر دور و دراز مقامات سے تمہاری طرف آئیں اور اپنے منافع کا مشاہدہ کریں۔( ۲ )

نیز اسی سورہ کی گز شتہ آیات میں فرمایا:

( یدعوا من دون الله ما لا یضره ولا ینفعه ذلک هو الضلال البعید یدعوا لمن ضره اقرب من نفعه ) ...)

بعض لوگ خدا کے علاوہ کسی اور کو پکارتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی فائدہ پہونچاسکتے ہیں یہ وہی زبردست گمراہی ہے وہ ایسے کو پکارتے ہیں جس کا نقصان نفع سے زیادہ نزدیک ہے۔( ۳ )

پروردگار عالم نے جو چیزیں نفع و نقصان دونوں رکھتی ہیں لیکن ان کا نقصان زیادہ ہوان کو بھی حرام قرار دیاہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

( یسئلونک عن الخمر و المیسر قل فیما اثم کبیر و منافع للناس واثمهما اکبر من نفعهما )

یہتم سے شراب اور جو ئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو ان سے کہو: اس میں گناہ عظیم اور زبردست نقصان ہے اور لوگوں کے لئے منفعت بھی ہے لیکن اس کا گناہ نفع سے کہیں زیادہ سنگین و عظیم ہے ۔

____________________

(۱)رعد۱۷

(۲)حج۲۷۔۲۸

(۱)حج۱۲۔۱۳

۱۸۴

جتنا نفع و نقصان کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اس کے ضمن میں حلال و حرام کا دائرہ بھی ، مخلوقات کے لئے ہر ایک اس کے ابعاد وجودی( وجودی پہلوؤں)کے اعتبار سے بڑھتا جائے گا؛ لیکن انسان کے ابعاد وجود وسیع ترین ہیں لہٰذا نفع و نقصان کی رعایت بھی حکمت کے تقاضے کے مطابق اس کے وجودی ابعاد کے مناسب ہونی چاہئے، مثال کے طور پر چونکہ انسان جسم مادی رکھتا ہے تو طبعی طور پر کچھ چیزیں اس کے لئے نقصان دہ ہیں اور کچھ چیزیں مفید اور سود مند ہیں؛ خدا وند عالم نے اسی لئے جوچیزیں اس کے جسم کے لئے مفید ہیں جیسے پاکیزہ خوراکیں انسان کے لئے حلال کیں اور جو چیزیں اس کے جسم کے لئے نقصان دہ تھیں جیسے نجاستوں کا کھاناانہیں حرام کر دیا۔

اس طرح کے احکام انسان کے لئے انفرادی ہوں گے چاہے جہاںبھی ہوغارمیں ہویاپہاڑیوں پر، جنگلوںمیں ہو یا کچھار میں ،انسانی سماج میں ہو، یا ستاروںپر یا کسی دوسرے کرۂ وجودمیں ہو۔

لیکن چونکہ خدا وند عالم نے انسانی زندگی کا کمال اور اس کا ارتقاء اجتماعی زندگی میں رکھا ہے لہٰذا دوسری چیزیں جیسے بہت سے معاملات جیسے لین دین اور، تجارت کوجو کہ اجتماعی فائدہ رکھتی ہے انسان کے لئے حلال کیا ہے اور جو امور سماج کے لئے نقصان دہ ہوتے ہیں جیسے: سود ، جوااسے حرام کیا ہے ۔

اور چونکہ انسان ''نفس انسانی'' کا مالک ہے اور تہذیب نفس ضروریات زندگی میں ہے لہٰذا حج کہ اسمیں تہذیب نفس کے ساتھ ساتھ دیگر منافع کا بھی وجودہے اس پر واجب کیا ہے اور جو چیز سماج اور اجتماع کو نقصان پہنچاتی ہے اسے حرام فرمایااور انسان کے سماج کے لٔے جن چیزوںمیں منفعت ہے ان کی طرف راہنمائی کی ہے اور سورۂ حجرات میں ارشاد فرمایاہے:

( انما المؤمنون اخوةفصلحوا بین اخویکم...، یا ایها الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیرًا منهم ولا نساء من نسائً عسیٰ ان یکن خیراً منهن ولا تلمزوا انفسکم ولا تنابزوا بالألقا ب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان و من لم یتب فأولٰئک هم الظالمون٭ یا ایها الذین آمنوا اجتنبوا کثیرًا من الظن ان بعض الظن اثم و لا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بعضأایحب احدکم ان یاکل لحم اخیه میتاً فکرهتموه و اتقواا لله ان الله تواب رحیم )

مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو...اے صاحبان ایمان! ایسا نہ ہو کہ تمہارا ایک گروہ دوسرے گروہ کا مذاق اڑائے اور اس کاتمسخرکرے شاید وہ لوگ ان سے بہتر ہوں ؛ اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں؛ شاید وہ ان سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے کی مذمت اور عیب جویٔ نہ کرو اور ایک دوسرے کو ناپسند اور برے القاب سے یاد نہ کرو؛ ایمان کے بعد یہ بہت بری بات ہے کہ کسی کو برے القاب سے یاد کرو اور کفر آمیز باتیں کرواور جو لوگ توبہ نہیں کرتے وہ ظالم اور ستمگرہیں۔

۱۸۵

اے مومنو! بہت سارے گمان سے پرہیز کرو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں اور کبھی ٹوہ اور تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟! یقینا ناپسند کروگے؛ خدا کا خوف کرو خدا توبہ قبول کرنے اور بخشنے والا ہے۔( ۱ )

یہ اسلامی شریعت کی شان ہے کہ ہر زمانے اورہر جگہ انسان کی فطرت کے مطابق ہے اسی لئے قرآن کریم میں ذکرہوا ہے کہ جس طرح خدا وند متعال نے نماز ،روزہ اور زکوةکو ہم پر واجب کیا اسی طرح گزشتہ امتوں پر بھی واجب کیا تھا، جیسا کہ یہ بات ابرہیم، لوط، اسحاق اور یعقوب کے بارے میں سورۂ انبیاء میں بیان فرماتا ہے :

( وجعلنا هم ائمة یهدون بأمرنا و اَوحینا الیهم فعل الخیرات واِقام الصلوة و اِیتاء الزکوة... ) ( ۲ )

انہیں ہم نے ایسا پیشوا بنایا جو ہمارے فرمان کی ہدایت کرتے ہیں نیز انہیں نیک اعمال کی بجاآوری، اقامۂ نماز اور زکواة دینے کی وحی کی۔

سورۂ مریم میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( واوصانی بالصلٰوة والزکوٰة ما دمت حیا )

جب تک کہ میں زندہ ہوں خدا وند عالم نے مجھے نماز اور زکوة کی وصیت کی ہے ۔( ۳ )

اسی طرح وعدے کے پکے حضرت اسماعیل کے حال کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وکان یأمر اهله بالصلوة و الزکوٰة و کان عند ربه مرضیاً )

وہ مسلسل اپنے اہل و عیال کو نماز پڑھنے اور زکوة دینے کا حکم دیتے تھے اور ہمیشہ اپنے رب کے نزدیک موردرضایت اور پسندیدہ تھے۔( ۴ )

خدا وند عالم نے ہمیں روزہ کی تاکید کرتے ہوئے سورۂ بقرہ میں فرمایا:

( یا ایها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون )

____________________

(۱)حجرات۱۰۔۱۲(۲) انبیاء ۷۳(۳)مریم ۳۱(۴) مریم ۵۵.

۱۸۶

اے صاحبان ایمان! روزہ تم پر اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھا شاید کہ تم لوگ اہل تقوی بن جائو۔( ۱ )

نیز ہمیں ربا( سودخوری) سے منع کیا جس طرح گز شتہ امتوں کو منع کیا تھا اور بنی اسرائیل کے بارے میں سورۂ نساء میں فرماتا ہے :(واخذھم الربا و قد نھوا عنہ...) اور ربا (سود) لینے کی وجہ سے جبکہ اس سے ممانعت کی گئی تھی( ۲ )

نیز ہم پر قصاص واجب کیا ہے ، جس طرح ہم سے پہلے والوں پر واجب کیا تھا، جیسا کہ سورۂ مائدہ میں توریت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( انا انزلنا التوراة فیها هدی و نور یحکم بها النبیون الذین اسلموا للذین هادوا...، و کتبنا علیهم فیها ان النفس بالنفس و العین با لعین و الانف بالانف و الاذن بالاذن و السن بالسن و الجروح قصاص... )

ہم نے توریت نازل کی اس میں ہدایت اور نور تھا نیز خدا کے حکم کے سامنے سراپا تسلیم انبیاء اس کے ذریعہ یہود کو حکم دیتے تھے... اور ان پر توریت میں مقررکیا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت نیز ہر زخم قصاص رکھتا ہے( ۳ )

جب خدا وند عالم نے سورۂ بقرہ میں فرمایا:( والو الدات یرضعن اولادهن حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعة... ) مائیں اپنی اولاد کو پورے دوسال تک دودھ پلائیں ۔یہ اس کے لئے ہے جو ایام رضاعت کی تکمیل کرنا چاہتاہے... اس نظام کو انسان کے بچپن کے لئے ایک نظام قرار دیا ہے ۔ حضرت آدم و حوا کے پہلے بچے سے آخری بچے تک کے لئے یہی نظام ہے خواہ کسی جگہ پیدا ہوں، کسی مخصوص شریعت سے اختصاص بھی نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ یہ نظام آدمی کی فطرت سے جس پر اسکو پیدا کیاگیاہے مناسبت رکھتا ہے اور سازگار ہے اور خدا کی تخلیق میں کوئی تغیر اورتبدل نہیں ہے ، اسی لئے دین الٰہی میں بھی کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، یہ محکم اور استوار، ثابت و پائددار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں انسان احکام الٰہی کے فطرت کے مطابق ہونے کے باوجود اس کی مخالفت کرتا ہے ؟ اس کو خدا وند عالم کی تائید و توفیق سے انشا ء اللہ آئندہ بحث میں ذکر کریں گے ۔

____________________

(۱) بقرہ۱۸۳(۲)نسائ۱۶۱(۳)مائدہ۴۴۔۴۵

۱۸۷

ز۔ انسان اور نفس امارہ بالسوئ( برائی پر ابھارنے والا نفس)

گز شتہ مطالب سے یہ معلوم ہوا کہ وہ موجودات جو ہدایت تسخری کی مالک ہیں ان کے علاوہ، جاندار موجودات، کبھی کبھی اپنے پروردگار کی ہدایت غریزی کی مخالفت کرتے ہیں جیسے مرغ سبزہ اور دانہ چننے کے بجائے غلاظت کھاتا ہے اور اس کی وجہ سے اسے تین روز تک پاک غذا کھاناپڑتا ہے تاکہ استبرا ہو سکے۔

شہد کی مکھی بھی جو کہ پھولوںکا رس چوستی ہے، کبھی کبھی ایسی چیزوں کا استعمال کرتی ہے جو اس کے چھتہ میں شہد کے لئے ضرر رساںہوتاہے، اس لئے اس چھتہ کا نگہبان اس کے داخل ہوتے ہی اسے پکڑ کر نسل کی حفاظت اور بقاء کے لئے اور سب کی زندگی کے استمرار و دوام کی خاطر اسے نابود کر دیتا ہے۔

انسان بھی ، اسی طرح ہے ، کیونکہ انسانوں کے درمیان بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو انسانی فطرت اور خدائی ہدایت کے موافق اور مطابق نظام کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی نفسانی خواہشات کا اتباع کرتے ہیں۔

اس کی توضیح یہ ہے کہ خدا وند متعال نے انسان کو تمام جانداروں پر فوقیت اور برتری عطا کی ہے ۔ اور اسے انسانی نفس عطا فرمایا ہے: ایسا نفس جس کے ابعاد وجود ی کو اس کے خالق کے علاوہ کوئی نہیںجانتا، اور اسی نفس انسانی کی خصوصیتوں میں ایک عقل بھی ہے کہ انسان اس کے ذریعہ تمام چیزوں کو استعمال کرتا اور اپنے کام میں لاتا ہے ،ایٹم سے لیکر ان تمام دیگر اشیا ء تک جو ابھی کشف نہیں ہوئی ہیں۔ خداوند سبحان اس نفس کی توصیف میں سورۂ شمس میں ارشاد فرماتا ہے:(و نفس وما سواھا٭ فأَلھمھا فجورھا و تقواٰھا)قسم ہے نفس انسان کی اور قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے اسے منظم کیا ہے اور پھرفسق وفجور اور تقویٰ کو اس کی طرف الہام کیا۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

۱۔نفس ، نفس عربی زبان میں متعدد معنی میں استعمال ہوا ہے انہیں میں سے چند یہ ہیں:

____________________

(۱) شمس۷۔۸

۱۸۸

الف۔ ایسی روح جو زندگی کا سرچشمہ ہے اور اگر جسم سے وہ مفارقت کر جائے تو موت آجائے گی،کہتے ہیں محتضر یعنی وہ شخص جو حالت احتضار میں ہے اس کا نفس خارج ہو گیا۔

ب۔ کسی شۓ کی حقیقت اور ذات کو کہتے ہیں، اگر نفس انسان اورنفس جن کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان کی حقیقت اور جن کی حقیقت ۔

ج۔ عین ہر چیز، جیسا کہ تاکید کے وقت استعمال ہوتا ہے جاء نی محمد نفسہ، محمد بنفس نفیس میرے پاس آیا ....۔

د۔جو چیز قلب کی جگہ استعمال ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ سے ادراک کیا جاتا ہے اور تمیز دی جاتی ہے۔ نیز انسان اسی کے ذریعہ اپنے گرد و پیش کی اشیاء کا احساس کرتا ہے ، اور نیند اور بیہوشی کے وقت اس سے جدا ہوجاتا ہے نیز وہی شعور جو اسے خیر و شر کی جانب متوجہ کرتا ہے ، جیسا کہ کہا جاتا ہے : میرے نفس نے مجھے حکم دیا ہے ، میرے نفس نے مجھے اس برے کام پر آمادہ کیا، آیت کریمہ میں نفس سے مراد یہی معنی ہے ۔

۲۔ سواھا: اس کی آفرینش کی تکمیل کی یہاں تک کہ کمال کی حد تک پہنچ جائے اور ہدایت پذیری کے لئے آمادہ ہو جائے۔

۳۔ فالھمھا فجورھا و تقواھا:یعنی اس کے نفس میں ایسا احساس پیدا کیا ،جس کے ذریعہ ہدایت و گمراہی کے درمیان فرق پیدا کرتا ہے ۔ ہمارے دور میں ایسے شعور کو ضمیر اور وجدان سے تعبیر کرتے ہیں۔

خیر و شر کے درمیان فرق کرنے والی، نیز خبیث اور طیب کے درمیان امتیاز پیدا کرنے والی عقل کے علاوہ نفس کے کچھ خصوصیات اور بھی ہیں جن میں انسان اور حیوان دونوں شریک ہیں، جیسے محبت و رضا،رغبت و کراہت، دشمنی ونفرت۔

اگر انسان عقل کی راہنمائی کے مطابق رفتار رکھے اور برائیوں اور گندگیوں سے کنارہ کشی اختیار کرے تو جزا پائے گا۔ اور جب حکم عقلی کی مخالفت کرے اور نفسانی خواہشات کا اتباع کرے گا تو سزا اور عذاب پائے گا ۔ جیسا کہ خدا وند عالم سورۂ نازعات میں ارشادفرماتا ہے :

( وأَما من خاف مقام ربه و نهی النفس عن الهوی٭ فاِنَّ الجنة هی الماویٰ )

۱۸۹

جو مقام خدا سے خوف کھائے اور نفس کو نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس سے باز رکھے تو یقینا اس کی منزل اور ٹھکانہ بہشت ہے ۔( ۱ )

( فأَما من طغی، و آثر الدنیا٭ فاِنِّ الجحیم هی الماویٰ )

لیکن جو سرکشی اور طغیانی کرے اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دے تو یقینا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔( ۲ ) خداوندعالم نے سورۂ مریم میں ایک قوم کی اس طرح توصیف فرمائی ہے:

( اضاعوا الصلوة واتبعوا الشهوات )

انہوںنے نماز کو ضائع کیا اور نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔( ۳ )

جس طرح نفس انسانی کے اندر متفاوت دو قوتیںہیں: خیر خواہی اور شر پسندی، یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے سے کشمکش اور ٹکرائو رکھتی ہیں، خدا وند عالم نے انسان کے لئے اس کے نفس کے باہر بھی اس طرح کی دو طاقتوںکو ایجاد کیا ہے ،ایک گروہ اسے ہوای نفس کی مخالفت کی دعوت دیتا ہے ، یہ لوگ انبیاء اور ان کے ماننے والے ہیں۔ اور ایک گروہ اسے گمراہی و ضلالت نیز اتباع نفس کی دعوت دیتا ہے وہ لوگ شیاطین جن و انس ہیں، یہ دونوں گروہ انسان پر کسی طرح کا تسلط نہیں رکھتے ، بلکہ ان میں سے ہر ایک صرف اپنی دعوت یعنی ہدایت و گمراہی کی باتوں کو زینت بخشتا اور اس کی تشریح کرتا ہے ، جیسا کہ خدا وند متعال سورۂ حجر میں شیطان کے راندۂ درگاہ ہونے کے بعد اس کی گفتار کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( رب بما اغویتی لازیّنن لهم فی الارض ) ( ۴ )

خداوندا! جبکہ تونے مجھے گمراہ کر دیا ہے تو میں زمین کی چیزوں کو ان کی نگاہوں میں زینت بخشوںگا۔ خدا وند عالم قرآن میں قیامت کے دن شیطان کے اپنے ماننے والوں سے خطاب کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وقال الشیطان لما قضی الأمر ان الله وعدکم وعد الحق ووعد تکم فأخلفتکم وما کان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتکم فاستجبتم لی فلا تلومونی ولوموا انفسکم... ) جب شیطان کا کام تمام ہو جاتا ہے تو کہتا ہے : خدا وند متعال نے تم سے وعدۂ بر حق کیااور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا اور مخالفت کی! میں تم پر مسلط نہیں تھا، سوائے اس کے کہ تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہی: لہٰذا مجھے ملامت اور سرزنش نہ کرو اور اگر کرنا ہی چاہتے ہو تو اپنے آپ کوملامت کرو!( ۵ ) لوگوں کے ساتھ پیغمبروں کا حال بھی اسی طرح ہے ، جیسا کہ خدا وند عالم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو

____________________

(۱)نازعات۴۰۔۴۱(۲)نازعات۳۷،۲۹(۳)مریم۵۹(۴) حجر ۲۹.(۵)ابراہیم۲۲۔

۱۹۰

خطاب کرتے ہوئے سورۂ غاشیہ میں فرماتا ہے :

( فذکر انما انت مذکر٭ لست علیهم بمصیطر ) ( ۱ )

بس تم انہیں یاد دلائو کیونکہ تم یاد دلانے والے ہو! تم انہیں مجبور کرنے والے اور ان کے حاکم نہیں ہو اور سورۂ بلد میں ارشاد فرمایا:( وهدیناه النجدین ) ( ۲ ) یعنی خیر و شر کے راستوں کو اسے (انسان کو) دکھادیا اور سورۂ انسان میں ارشاد ہوا:

( اِنَّا هدیناه السبیل اِمَّا شاکرا ًو اِمَّاکفورا )

ہم نے اسے راہِ راست دکھائی خواہ شکر گز ار رہے یا نا شکرا۔( ۳ )

سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا:

( لا اِکراه فی الدین قد تبیَّن الرشد من الغی فمن یکفر بالطاغوت و یؤمن بالله فقد استمسک بالعروة الوثقیٰ لاانفصام لها و الله سمیع علیم٭ الله ولی الذین آمنوا یخرجهم من الظلمات الیٰ النور و الذین کفروا اولیائهم الطاغوت یخرجونهم من النور الیٰ الظلمات اولئک اصحاب النار هم فیها خالدون )

دین قبول کرنے میں کوئی جبر و اکراہ نہیں ہے ، راہ راست گمراہی سے جدا ہو چکی ہے، لہٰذا جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے خدا پر ایمان لائے،اس نے اٹوٹ مضبوط رسی کو پکڑ لیا ہے جس میں جدائی نہیں ہے خداوند سمیع و علیم ہے ۔

خدا وند عالم ان لوگوں کا ولی اور سر پرست ہے جو ایمان لائے ہیں، انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کافروں کے سرپرست طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ظلمت کی طرف لے جاتے ہیں،وہ لوگ اہل جہنم ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔( ۴ )

اس لئے انسان اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے ۔ جیسا کہ سورۂ زلزال میں ارشاد ہوتا ہے :

( فمن یعمل مثقال ذرة خیراً یره٭ و من یعمل مثقال ذرة شرا ًیره )

لہٰذا جو ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا اسے دیکھے گا اور جو ذرہ برابر بھی برائی کرے گا اسے بھی دیکھے گا( ۵ )

یہ سب کچھ ایسے امور ہیں جن کے بارے میں خدا وند متعال نے انسان کو آگاہ کیا ہے اور جنات بھی اس میں اس کے شریک ہیں ، جیسا کہ اصناف خلق کی بحث میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے اور تفصیل انشاء اللہ آئندہ بحث میں آئے گی۔

____________________

(۱)غاشیہ ۲۱۔۲۲(۲)بلد۱۰(۳)انسان۳(۴)بقرہ۲۵۶۔۲۵۷(۵)زلزال۷۔۸

۱۹۱

ح۔شریعت اسلام میں جن و انس کی مشارکت

خدا وند عالم سورۂ احقاف میں فرماتا ہے :

( و اذصرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن فلما حضروه قالوا انصتوا فلما قضی ولّوا الیٰ قومهم منذرین٭قالوا یا قومنا انا سمعنا کتاباً انزل من بعد موسیٰ مصدقاًلما بین یدیه یهدی الیٰ الحق و الیٰ طریق مستقیم٭ یا قومنا اجیبوا داعی الله و آمنوا به... )

جب ہم نے جن کے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن سنیںپس جب حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگے خاموشی سے سنو! اور جب ( تلاوت) تمام ہوگئی تو اپنی قوم کی طرف لوٹے اور انہیں ڈرایا اور کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اس سے پہلے جو کتابیں آئیں ان سے ہم آہنگ ہے حق اور راہ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے ، اے ہماری قوم! اللہ کے داعی کی بات سنو اور لبیک کہہ کر اس پر ایمان لائو۔( ۱ )

اور سورۂ جن میں ارشاد ہوتا ہے :

( قل اوحی اِلَیَّ انه استمع نفر من الجن فقالوا اِنّا سمعنا قرآنا عجباً٭ یهدی الیٰ الرشد فآمنا به ولن نشرک بربنا احدا٭و انه تعالیٰ جد ربنا ما اتخذ صاحبة و لا ولدا، و انه کان یقول سفیهنا علی الله شططا٭ و اناظننا ان لن تقول الأِنس و الجن علٰی الله کذبا٭ و انه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقا٭ و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احدا٭ و انا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهبا٭و انا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الآن یجد له شهاباً رصدا٭ و انا لا ندری اشر اُرید بمن فی الارض ام اراد بهم ربهم

____________________

(۱)احقاف۲۹،۳۱

۱۹۲

رشدا٭ و انا منا الصالحون ومنا دون ذلک کنا طرائق قددا٭ و انا ظننا ان لن نعجز الله فی الارض و لن نعجزه هربا٭و انا لما سمعنا الهدی آمنا به فمن یؤمن بربه فلا یخاف بخساً ولا رهقا٭ و انا منا المسلمون و منا القاسطون فمن اسلم فأُولٰئک تحروا رشدا٭و اما القاسطون فکانوا لجهنم حطبا٭و ان واستقاموا علیٰ الطریقة لاسقیناهم مائً غدقا )

کہو: مجھے وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوں نے میری باتوںکو سنا ، پھر انہوں نے کہا:ہم نے ایک ایسا عجیب قرآن سنا جو راہ راست کی ہدایت کرتا ہے ، پھر اس پر ہم ایمان لائے اور کبھی کسی کو اپنے رب کا شریک قرار نہیں دیں گے اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بلند و بالا ہے ، اس نے کبھی اپنے لئے بیوی اور فرزند کا انتخاب نہیں کیا۔ لیکن ہمارے سفیہ (ابلیس) نے اس کے بارے میں نازیبا اور ناروا کلمات استعمال کئے اور ہمارا خیال تھا کہ جن و انس کبھی خدا کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دیں گے ۔

اور یہ بھی ہے کہ کچھ انسانوں نے کچھ جنوں کی پناہ مانگی ، تو وہ لوگ ان کی گمراہی اور طغیانی میں اضافہ کا باعث بن گئے اور ان لوگوں نے اسی طرح گمان کیا جیسا کہ تم گمان رکھتے ہو کہ خدا وند عالم کسی کو مبعوث نہیں کرے گا اور بیشک ہم نے آسمان کیجستجو کی تو سب کو قوی محافظوں اور شہاب کے تیروں سے پُر پایا اور اس سے قبل ہم بات چرانے کے لئے آسمان پر گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے؛ لیکن اس وقت کوئی بات سننا چاہے تو ایک شہاب کو اپنے کمین میں پائے گا ۔

اور یقینا ہم نہیں جانتے کہ آیا اہل زمین کے بارے میں کسی برائی کا ارادہ ہے یا ان کے رب نے انہیں ہدایت کرنے کی ٹھانی ہے ؟! بیشک ہمارے درمیان صالح اور غیر صالح افراد پائے جاتے ہیں؛ اور ہم مختلف گروہ ہیں! بیشک ہمیں یقین ہے کہ ہم کبھی ارادۂ الٰہی پر غالب نہیں آ سکتے اور اس کے قبضۂ قدرت سے فرار نہیں کر سکتے! اور جب ہم نے ہدایت قرآن سنی تو اس پر ایمان لائے؛ اور جو بھی اپنے پروردگار پر ایمان لائے وہ نہ تو نقصان سے خوف کھاتا ہے اور نہ ہی ظلم سے ڈرتا ہے ،یقینا ہم میں سے بعض گروہ مسلمان ہیں تو بعض ظالم ہیں جو اسلام لایا گویا اس نے راہ راست اختیار کی ہے ، لیکن ظالمین جہنم کا ایندھن ہیں۔

اگر وہ لوگ ( جن و انس) راہ راست میں ثابت قدم رہے ، تو انہیں ہم بے حساب پانی سے سیراب کریں گے۔( ۱ )

____________________

(۱)سورۂ جن۱تا ۱۶

۱۹۳

سورۂ انعام میں ارشاد ہوتا ہے :

( و یوم یحشرهم جمیعاً یا معشر الجن قد استکثرتم من الانس و قال اولیاؤهم من الانس ربنا استمتع بعضنا ببعض و بلغنا اجلنا الذی اجلت لنا قال النار مثواکم خالدین فیها الا ما شاء الله ان ربک حکیم علیمیا معشر الجن و الانس الم یأتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی و ینذرونکم لقاء یومکم هذا قالوا شهدنا علیٰ انفسنا و غرتهم الحیاة الدنیا و شهدوا علیٰ انفسهم انهم کانوا کافرین )

جس دن سب کومحشورکرے گا، تو کہے گا: اے گروہ جن! تم نے بہت سارے انسانوں کو گمراہ کیا ہے : تو انسانوں میں سے ان کے ساتھی کہیں گے : خدا وندا! ہم میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا ہے اور ہم اس مدت کوپہنچے جو تونے ہمارے لئے معین کی تھی ، خد اوند فرمائے گا: جہنم تمہارا ٹھکانہ ہے ، ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہو گے ، مگر یہ کہ خدا کی جو مرضی ہو تمہارا رب حکیم اور دانا ہے... ۔

اے گروہ انس و جن ! کیا تمہاری طرف ہمارے رسول نہیں آئے ہیں جو ہماری آیتوں کو تمہارے لئے بیان کرتے تھے اور تمہیں ایسے (ہولناک) دن(قیامت) سے ڈراتے تھے ؟!

کہیں گے : ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیںاور دنیاوی زندگی نے انہیں فریب دیا وہ اور اپنے خلاف خودگواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔( ۱ )

____________________

(۱)انعام۱۲۸۔۱۳۰

۱۹۴

کلمات کی تشریح

۱۔جدّ: جد ّیہاں پر عظمت و جلال کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

۲۔غدقاً: زیادتی اور کثرت کے معنی میں ہے :(و ھم فی غدق من العیش) یعنی وہ لوگ نعمت کی فراوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

آیات کی تفسیر

خد ا وند عالم نے حضرت خاتم الانبیاء کی بعثت کے بعد جنوں کے کچھ گروہ کو ایک ایسی راہ میں قرار دیا کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے قرآن کی تلاوت سنیں، وہ لوگ سنتے وقت ایک دوسرے سے بولے: خاموش رہو! جب رسول اللہ کی تلاوت تمام ہوئی ، اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انہیں انذار کرتے ہوئے بولے: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب (قرآن) سنی ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرتی اور راہ راست کی ہدایت کرتی ہے، اے قوم! اللہ کے داعی کی آوازپر ہم لبیک کہیں اور اس پر ایمان لائیں اور کسی کو اپنے پروردگار کا شریک قرار نہ دیں، یقینا ہمارا رب اس سے بلند اور برتر ہے کہ کسی کوبیوی یا فرزند بنائے۔ بعض انسان بھی تمہارے ہی جیسا خیال رکھتے ہیں کہ خدا کسی کو رسالت کے لئے مبعوث نہیں کرے گا، ہم جناتوں کے درمیان صالح اور غیر صالح دونوںہی طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں اور ہماری روش اور رفتار مختلف ہے، ہم میں سے بعض مسلمان ہیں تو بعض ظالم وستمگر اور حق سے روگرداں، یقینا اپنے پروردگار پر ایمان رکھنے والے مومنین اپنے حق میں کمی اور نقصان،نیز اپنے اوپر ظلم و ستم کی پرواہ نہیں کرتے اور خائف نہیں ہوتے۔

لیکن ستمگر حق سے فرار کرتے ہیں، یقینا وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے اور عذاب میں گرفتار ہوں گے، یہ دن وہی دن ہے کہ اس دن خدا وند عالم سب کو جمع کرے گا اور گنہگاروں کے اپنے گناہ کا اعتراف کرنے کے بعد ان سے کہے گا: یہ آگ تمہاری منزل ہے ، اس میں ہمیشہ رہو ، سوائے اس کے کہ خدا کی مرضی ہو اور اس کی مشیت بدل جائے اور اپنی رحمت ان کے شامل حال کر دے۔

خدا وند عالم اس دن فرمائے گا: اے گروہ جن! کیا تم میں سے کوئی رسول تمہارے درمیان مبعوث نہیں ہوئے جو تم پر میری آیتوں کی تلاوت کرتے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے؟ تو وہ لوگ اپنے خلاف اپنے کفر کی گواہی دیں گے۔

۱۹۵

جنات کی گفتگو کہ انہوں نے کہا: حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہونے والی کتاب سنی ہے ...اور اے ہماری قوم! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہیں، ان باتوں سے استنباط ہوتا ہے اور نتیجہ نکلتا ہے کہ جنات صاحب شریعت پیغمبروں کی کتابوں کے ذریعہ ہدایت یافتہ ہونے میں انسانوںکے شریک ہیں اور شاید جویہ خد انے فرمایا:

( الم یأتکم رسل منکم یقصون٭علیکم آیاتی و ینذرونکم لقا یومکم هٰذا )

اس سے مراد وہی اولو العزم پیغمبر ہیں۔

روایات میں آیات کی تفسیر

صحیح مسلم وغیرہ میں ابن عباس سے منقول ہے ۔ اور ہم مسلم کی عبارت ذکر کرہے ہیں کہ انہوں نے کہا: پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے ہمراہ عکاظ نامی بازار کی طرف روانہ ہوئے اور یہ اس وقت ہوا جب شیاطین اور آسمانی خبروں کے درمیان فاصلہ ایجاد ہو چکا تھا اور انہیں تیر شہاب کے ذریعہ مارا جاتاتھا، شیاطین اپنی قوم کے درمیان واپس گئے تو قوم نے ان سے کہا:تمہیں کیا ہوگیاہے ؟انہوں نے جواب دیا : ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان فاصلہ ہو گیا ہے اور شہابی تیر ہماری طرف روانہ کئے جاتے ہیں ،ان لوگوں نے ان سے کہا: یقینا کوئی اہم حادثہ رونما ہوا ہے کہ تمہیں آسمانی اخبار سے روک دیا گیا ہے، شرق و غرب عالم کا چکر لگائو اور اس کی تحقیق کرو کہ کونسی چیز تمہارے اور آسمانی اخبار کے درمیان حائل ہو گئی ہے ، ان میں سے ایک گروہ جو تہامہ کی طرف روانہ ہوا تھا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف متوجہ ہوا آنحضرت نخلہ کے علاقہ میں بازار عکاظ کے راستے میں اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز صبح ادا کر رہے تھے اور جب قرآن سنا تو توجہ سے سننے لگے اور بولے: خد اکی قسم یہی بات ہے جو تمہارے اور آسمانی اخبار کے درمیان حائل ہے ، پھر اپنی قوم کے درمیان آئے اور بولے: اے ہماری قوم! ہم نے عجیب قرآن سنا جو راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،

۱۹۶

ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور کسی کو رب کا شریک نہیں قرار دیتے ہیں اس کے بعد خدا نے اس آیت کو اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیا :( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن ) کہو: مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنات کے ایک گروہ نے توجہ سے سنا اور جو کچھ حضرت پر وحی ہوئی وہی جنوں کی باتیں تھیں۔( ۱ )

بحار الانوار میں علی بن ابراہیم قمی کی تفسیر سے سورہ ٔ احقاف کی آیۂ کریمہ:(یا قومنا انا سمعنا)کے ذیل میں ذکر ہوا ہے وہ کہتے ہیں : اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہوا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے ہمراہ مکہ سے بازار عکاظ کی طرف روانہ ہوئے زید بن حارثہ بھی ان کے ساتھ تھے لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے اور جب کسی نے ان کی دعوت پر لبیک نہیں کہی اور کسی نے ان کی دعوت قبول نہیں کی، تو مکہ واپس آ گئے اور جب ''وادی مجنة''نامی مقام پر پہنچے،تو آدھی رات کو تہجدکے لئے اٹھے اور قرآن کی تلاوت کرنے لگے اس اثنا میں جنات کے ایک گروہ کا گز ر ہوا وہ ٹھہرکر اسے سننے لگے اور ایک دوسرے کو خاموش رہنے کی تاکید کی اور جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تلاوت تمام کی تو اپنی قوم کے پاس آئے انہیں ڈرایا اور کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور حق و راہِ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے، اے ہماری قوم!اللہ کی طر ف دعوت دینے والے کی بات سنو اور اس پر ایمان لائو...، خدا کے اس قول : ''یہ گروہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے''تک اس کے بعد اسلام کے احکام اور اصول سے آشنا ہونے کے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے اور اسلام کا اظہار کیا اور ایمان لائے، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی انہیں اسلامی احکام کی تعلیم دی ۔

اس کے بعد خدا وند عالم نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ سورہ نازل کیا کہ کہو: مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے میری بات سنی..سورہ کے آخرتک خدا وند عالم نے ان کی باتوں کو بیان کیا ہے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں میں سے ایک کو ان کاسر پرست بنا یا و...( ۲ )

____________________

(۱) مسلم ، کتاب صلاة باب الجہر بالقرائة حدیث، ۱۴۹و بخاری کتاب التفسیر، سورۂ جن، ج۳ ص ۱۳۹۔

(۲)بحار الانوار ج۶۳،ص۸۱ ماخوذ از تفسیر قمی ۶۲۴۔ ۶۲۳

۱۹۷

بحث کا نتیجہ

جنات بھی الٰہی کتابوںجیسے توریت اور قرآن دریافت کرنے کے اعتبار سے انسان کی طرح ہیں، نیز جنات میں بھی ایسے لوگ پائے گئے ہیں جو اپنی قوم کے درمیان ڈرانے والوں کی منزل پر فائز تھے اور ایسے تھے جنہوں نے اپنی قوم کو قرآن کے وجود اور اس بات سے کہ قرآن گز شتہ کتابوںکی تصدیق کرنے والی

کتاب ہے (وہ بھی کلمۂ مصدِّق کے پورے معنی کے ساتھ جو قرآن کی صحت کی دلیل ہے) باخبر کیا دوسرے یہ کہ جنات بھی انسانوں کی طرح مشرکین موجود ہیں، نیز سیاق عبارت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنات معتقد ہیں کہ خدا وند صاحب فرزند ہے جیسا کہ بعض انسان ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح خدا کے فرزند ہیں۔ اور جنات کے کچھ لوگ انسان کے بعض افراد کی طرح گمان کرتے ہیں کہ خدا وند عالم نے کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کیا ہے اور دنیاوی حیات کے تمام ہونے کے بعد حشر و نشر نہیں ہے ۔

خلاصہ یہ کہ: جنات انسان کے مانند ہیں ان کے درمیان خدا پر ایمان رکھنے والے مسلمان اور ظالم و نابکار کافر دونوں ہی پائے جاتے ہیں لیکن اپنے معبود پر ایمان رکھنے والے نیز جو ہم نے بیان کیا ہے اس پر اعتقاد رکھنے والے قیامت کے دن کامیاب ہیں، لیکن کفار عنقریب آتش دوزخ کا عذاب دیکھیں گے اور جہنم کا ایندھن ہوںگے۔

نیز جن و انس کو عقائد میں ہم مشترک دیکھتے ہیں کہ بعض مشرک ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ خدا صاحب فرزند ہے اور بعض ان میں سے انبیاء کے دشمن ہیں اور بعض دوسروں کوورغلانے او ربہکانے والے ہیں۔اور کچھ مسلمان ،خدا ،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس کی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں یہ دونوں ہی گروہ قیامت کے دن محشور ہوں گے اور محاسبہ کئے جائیں گے یا انہیں عذاب ہوگا یا ثواب اور جزا ملے گی ،یہ دونوں صنف تمام موارد میں مشترک ہے لیکن صنف جن کے اسلامی احکام پر عمل کی کیفیت لا محالہ کچھ ایسی ہونی چاہئے جو ان کی خدا داد فطرت سے تناسب رکھتی ہو اور ان کے وجودی قالب سے میل کھاتی ہو اور سازگار ہو،اس لحاظ سے ، اسلام وہی خدا کا دین اور اس کی شریعت ہے جوجن و انس دونوںکے لئے ہے جو پیغمبروں کے ذریعہ اور ان کے بعد ان کے جانشینوں کے ذریعہ جن و انس تک پہونچی ہے، خدا وند عالم کی توفیق و تائید سے انشاء اللہ اس کی کیفیت آئندہ بحث میں بیان کریں گے ۔

۱۹۸

۶

اللہ کے مبلغ اور لوگوں کے معلم

۱۔ نبی،رسول اور وصی کے معنی

۲۔ آسمانی کتابوں ، سیرت اور تاریخ میں پیغمبروںاور اوصیاء کی خبریں

۳۔ آیت ، معجزہ کی تعریف اور ا س کی کیفیت

۱۔نبی ،رسول اور وصی

الف:۔ نبی و نبوت

نبوت لغت میں مرتبہ کی بلندی اور رفعت کو کہتے ہیں، خدا وندعالم سورۂ آل عمران میں فرماتا ہے:

( ماکان لبشر ان یؤتیه الله الکتاب والحکم و النبوة ثم یقول للناس کونوا عباداً لی من دون الله... ) ( ۱ )

کسی انسان کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ خدا وند عالم اسے کتاب ، حکم اور نبوت دے پھر وہ لوگوں سے کہے : خد اکے علاوہ میری عبادت کرو...لہٰذا نبوت ایک مخصوص مرتبہہے اور نبی خدا داد علم اور مقام قرب کے ذریعہ دیگر افراد پر فوقیت اور برتری رکھتا ہے ۔ اس لحاظ سے ، نبی وہ ہے جو ایسیمنزلت و مرتبہ کا مالک ہو ، یہی معنی خد اوند عالم کے کلام میں ہیں جب کہ وہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہوکر سورۂ احزاب میں فرماتا ہے :

( یا ایها النبی انا ارسلناک شاهداً و مبشراً و نذیراً٭ و داعیاً الیٰ الله بأِذنه و سراجاً منیرا )

اے نبی ! ہم نے تم کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اورڈرانے والا بنا کر بھیجا ، خدا کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والااور روشن چراغ بنا کر بھیجا۔

لہٰذا ''یا ایہا النبی'' کے معنی ہیں اے بلند مرتبہ عالی مقام میں نے تمہیں بھیجا...۔( ۲ )

اسی طرح سورۂ احزاب کی دیگر آیت میں ارشاد فرماتا ہے :

( النبی اولی ٰ بالمومنیمن انفسهم )

بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بہ نسبت زیادہ اولی ٰ ہیں۔( ۳ )

____________________

(۱)آل عمران۷۹(۲)احزاب۴۵۔۴۶( ۳) سورہ ٔ احزاب

۱۹۹

نبی وہ ہے جس پر وحی ہوتی ہے ، جیسا کہ خدائے سبحان نے سورہ ٔ نساء میں فرمایا ہے :

( انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوح و النبیین من بعده )

ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جس طرح نوح اور ان کے بعد دیگر انبیا کی طرف بھیجی تھی۔( ۱ )

اس اعتبار سے نبی ایک اسلامی اصطلاح ہے اس معنی میں کہ نبی: خد اکے نزدیک بلند مرتبہ اور عالی رتبہ ہوتا ہے اور اس کی طرف وحی کی جاتی ہے ، پروردگار خالق عالی مقام انبیاء کو مبعوث کرتا ہے تاکہ وہ بشارت دینے والے ، ڈرانے والے رسول بنیں اور لوگوں کی ہدایت کریں ، جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( کان الناس امة واحدة فبعث الله النبیین مبشرین و منذرین و انزل معهم الکتاب ) ...)

سارے لوگ ایک امت تھے، خدا وند عالم نے انبیاء کو مبعوث کیا تاکہ بشارت دینے والے اورڈرانے والے ہوں اور ان کے ساتھ کتاب بھیجی...۔( ۲ )

( و انزل معهم الکتاب ) یعنی پروردگارخالق نے مبعوث ہونے والے بعض انبیاء کے ساتھ کتاب بھیجی نہ یہ کہ خدا وند عالم نے ہر ایک نبی کو کتاب دی ہے ، دوسرے یہ کہ خدا وند عالم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت و برتری دی ہے ۔

جیسا کہ سورۂ اسراء میں ارشاد فرماتا ہے :( ولقد فضلنا بعضهم علیٰ بعض )

ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت و برتری عطا کی ہے۔( ۳ )

اسی طرح خدا وند عالم نے انبیاء کے درمیان اپنے رسولوں کو منتخب کیا اور لوگوں کی طرف بھیجا، جیسا کہ بیان کیا جا رہا ہے ۔

ب۔ رسول

رسالت کا حامل، وہ لوگوں کی ہدایت کا خدا وند عالم کی طرف سے ذریعہ ہے۔ اور وہ خالق و مخلوق کے درمیا ن نوع بشر میں وساطت کا و شرف اسکی خاص صفت ہے اور مخصوص رسالت کے ہمراہ ان کے درمیان مبعوث ہوتا ہے ، خدا وندعالم اسے انہیں میں سے کہ جن کی طرف بھیجا گیا ہے یا جن کی زبان میں گفتگو کرتا ہے منتخب کرتا ہے جیسا کہ سورۂ ابراہیم میں ارشاد ہوتا ہے :

____________________

(۱)نسائ۱۶۳(۲)بقرہ۲۱۳(۳)اسرائ۵۵

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367