اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت10%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143935 / ڈاؤنلوڈ: 3621
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

بلكہ يہ امر اجتہاد امت كے سپرد كيا گيا ہے _ سياست ، معاشرہ كے انتظامى امور ، حاكم اور خليفہ كے انتخاب كا طريقہ اور اس كے اختيارات كے متعلق آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعدجو كچھ بھى ہوا ہے وہى حجت ہے كيونكہ يہ سب كچھ رسولخد ا (ص) كے صحابہ كے اجتہاد اور راے كى بناپر ہوا ہے اور ان كا ا جتہاد حجت اور معتبر ہے _

اہلسنت كے سياسى نظام كے دينى نصوص كى بجائے رحلت رسول (ص) كے بعد پيش آنے والے واقعات سے وابستہ ہونے كى وجہ سے سياسى تفكر كے سلسلہ ميں علماء اہلسنت مشكل ميں پڑگئے ہيں كيونكہ يہ سياسى واقعات ايك طرح كے نہيں تھے لہذا ان كے مختلف ہونے كى وجہ سے انكى آراء بھى مختلف ہيں_ بطور مثال خليفہ كے انتخاب كى كيفيت اوراس كى سياسى ولايت كى مشروعيت كے سرچشمے كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_

خليفہ اول كا انتخاب سقيفہ ميں موجود بعض مہاجرين و انصار كى بيعت سے عمل ميں آيا _ جبكہ امير المومنين حضرت على ، حضرت ابوذر ،حضرت سلمان، حضرت مقداد اور حضرت زبير جيسے جليل القدر صحابہ اس بيعت كے مخالفت تھے_ خليفہ دوم حضرت ابوبكركى تعيين كے ذريعے منتخب ہوئے خليفہ سوم كا انتخاب اس چھ ركنى شورى كى اكثريت رائے سے عمل ميں آيا جسے حضرت عمر نے بنايا تھا _ جبكہ حضرت على كا انتخاب مہاجرين و انصار كے اتفاق رائے اور عامة الناس كى بيعت سے ہوا _ جيسا كہ آپ نے ملاحظہ فرمايا: خلفاء كے بر سر اقتدار آنے كا طريقہ ايك نہيں تھا _ ان چار خلفاء كے بعد سياسى ولايت كاسرچشمہ مزيد مشكلات اور ابہامات كا شكار ہوگيا كيونكہ معاويہ سميت بہت سے اموى اور عباسى خلفاء نے طاقت اور غلبہ كے زور پر حكومت حاصل كى _ ان كا انتخاب مسلمانوں كى رائے ، بيعت يا اہل حل و عقد كے ذريعہ عمل ميں نہيں آيا_

خلافت اور اس كے انتخاب كے متعلق اہلسنت كے صاحبان نظر كا نظريہ كلى طور پر آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد پيش آنے والے واقعات سے متاثر ہے _ ان كى ہميشہ يہ كوشش رہى ہے كہ اپنے سياسى نظام كو

۱۰۱

اس طرح پيش كيا جائے كہ وہ ان تمام واقعات كے ساتھ ہم آہنگ ہوسكے_ مثلاً آپ خليفہ كے انتخاب كى كيفيت اور مشروعيت كے متعلق ''ماوردي'' كے كلام كو ديكھيں كہ وہ كس طرح انتخاب خليفہ كے ان مختلف طريقوں كو جمع كرتے ہيںوہ كہتے ہيں :امامت كا اثبات دو طريقوں سے ممكن ہے _ ايك اہل حل و عقد كے اختيار اورانتخاب سے اور دوسرا سابق امام كى وصيت و تعيين سے _ اس دوسرے طريقہ ميں يہ اختلاف پايا جاتا ہے كہ كيا اہل حل و عقد كے اجماع كے بغير خلافت ثابت ہوسكتى ہے؟

حق يہ ہے كہ كسى امام كى امامت و خلافت سابقہ امام كى تعيين سے ثابت ہوجاتى ہے اور اس كيلئے اہل حل و عقد كى رضايت ضرورى نہيں ہے كيونكہ حضرت عمر كى امامت صحابہ كى رضايت پر موقوف نہيں تھى _ دوسرا يہ كہ سابقہ خليفہ بعد والے خليفہ كے تعيّن كا دوسروں كى نسبت زيادہ حق ركھتا ہے_ اور وہ دوسروں يعنى اہل حل و عقد سے زيادہ با اختيار ہے_(۱)

اہل سنت كے نظريہ خلافت كے متعلق دوسرا اہم نكتہ يہ ہے كہ كيا خليفة المسلمين ہونا ،صاحب خلافت كيلئے كسى خاص اخلاقى اور معنوى مقام و منزلت پر دلالت نہيں كرتا؟

صدر اسلام ميں لفظ ''خليفہ ''كو اس كے لغوى معنى ميں استعمال كيا جاتا تھا اور اس پر كوئي خاص معنوى شان و منزلت مترتب نہيں كرتے تھے_ ''خلافت ''لغوى لحاظ سے مصدر ہے_ جس كے معني'' غير كى جانشينى '' اور ''نيابت'' كے ہيں _ خليفہ وہ ہے جو كسى دوسرے كى جگہ پر آئے _بنابريں خليفہ رسول وہ شخص ہے جو آنحضرت(ص) كے بعد مسلمانوں كى قيادت اپنے ہاتھ ميں لے_ خليفہ اول كے بعد خليفہ وہ ہے جو رسولخدا (ص) كے جانشين كے بعد مسلمانوں كا قائد بنے_ يعنى وہ رسولخدا (ص) كے خليفہ كا خليفہ ہے_ خود خلفاء كے كلام

____________________

۱) الاحكام السلطانيہ، ابوالحسن ماوردى ص ،۶و ۱۰ _

۱۰۲

سے بھى ظاہر ہوتا ہے كہ ابتدائے استعمال ميں عنوان ''خليفہ ''كسى خاص معنوى معانى كا حامل نہيں تھا اور آنحضرت (ص) كى ذاتى صفات و كمالات كا حامل ہونے سے حكايت نہيں كرتا تھا_ ليكن امتداد زمانہ كے ساتھ ساتھ حكومتوں كے استحكام كيلئے اس منصب كو معنوى تقدس اور احترام كا لبادہ پہنايا جانے لگا اور خليفہ رسول كو آنحضرت (ص) كے معنوى كمالات كا حامل بھى سمجھا جانے لگا_

آخرى نكتہ جس كى طرف اشارہ ضرورى ہے يہ ہے كہ خلافت اسلاميہ كى تاريخ گواہ ہے ، كہ ايسے افراد بھى بر سر اقتدار آئے جو اگر چہ خليفہ رسول كے نام پر حكومت كر رہے تھے_ ليكن سيرت و كردار ، اور اخلاقى صفات و كمالات كے لحاظ سے نہ صرف رسولخدا (ص) بلكہ ايك عام مسلمان سے بھى كو سوں دور تھے_ يہ مسئلہ خود اس سوال كيلئے كافى ہے كہ اہلسنت جس نظام خلافت پر بہت زور ديتے ہيں اس نظام اور نظام سلطنت و ملوكيت ميں كيا فرق ہے؟ اس ابہام ميں مزيد اضافہ اس بات سے ہوتا ہے كہ نظام خلافت كے حاميوں ميں سے بعض نے تو امام يا خليفہ كى مخصوص شرائط بھى بيان نہيں كيں_ بلكہ بعض كے كلام سے تو يہ ظاہر ہوتا ہے كہ مسلمانوں كے حكمران كى اطاعت كے واجب ہونے ميں اس كا متقى اور عادل ہونا سرے سے شرط ہى نہيں ہے_ ابوبكر باقلانى (م۴۰۳ھ ) جمہور اہل حديث سے نقل كرتے ہيں : ''حاكم يا امام كے فسق و فجور كا ظاہر ہونا، اس كے ہاتھوں نفوس محترمہ كى ہتك حرمت ، حدود الہى كى پائمالى اور لوگوں كے مال كا غصب ہونا اس كى قدرت كے فقدان اور اطاعت سے خارج ہونے كا باعث نہيں بنتا'' _ اس نظريہ كى تائيد كيلئے اہل حديث آنحضرت (ص) اور صحابہ سے منقول روايات كا سہارا ليتے ہيں _ مثلا:

''اسمعوا وأطيعوا و لو لعبد اجدع و لو لعبد حبَشى و صَلُّوا وَرائَ كلّ برّ و فاجر''

۱۰۳

'' حاكم كى اطاعت كرو اگر چہ وہ ناك كٹا غلام ہى كيوں نہ ہو اور اگر چہ وہ حبشى غلام ہى كيوں نہ ہو اور ہر نيك يا بد كے پيچھے نماز پڑھو''_

يا يہ روايت كہ:

''أطعهم و ان أكَلُوا مالَك و ضَرَبُوا ظهرَك'' (۱)

'' حكمرانوں كى اطاعت كرو چاہے انہوں نے تمہارے اموال غصب كئے ہوں اور تمھيں مارا پيٹا ہو''_

مخفى نہ رہےكہ احمد بن حنبل جيسے بعض گذشتہ علماء اہلسنت معتقد ہيں كہ حسن ابن على كے بعد والے حكمرانوں پر خليفہ كا اطلاق مكروہ ہے_ يہ علماء خلافت اور ملوكيت و سلطنت ميں فرق كے قائل ہيں_ ان كى دليل وہ روايت ہے جسے ابوداود اور ترمذى نے آنحضرت (ص) سے نقل كيا ہے :

''الخلافةُ فى أُمتى ثلاثونَ سنة ثمّ ملك بعد ذلك'' (۲)

ميرى امت ميں تيس (۳۰) سال تك خلافت ہے اس كے بعد ملوكيت ہے_

اس كے باوجود اكثر علماء اہلسنت كى عملى سيرت يہ رہى ہے كہ انہوں نے اپنے حكمرانوں اور خلفاء كى اطاعت كى ہے اور ان كى مخالفت كرنے سے پرہيز كيا ہے_ اگر چہ ان ميں سے بہت سے خلفا ء فاسق و فاجر تھے_

____________________

۱) التمہيد فى الردّ على الملحدة، ابوبكر باقلانى ،ص ۲۳۸_

۲) مأثر الانافة فى معالم الخلافہ ، احمد ابن عبداللہ قلقشندى ،ص ۹_

۱۰۴

خلاصہ :

۱) اسلامى علم كلام ميں مسئلہ امامت اس سوال كا جواب ہے كہ كيا اسلامى تعليمات نے رحلت رسو ل (ص) كے بعد سياسى ولايت كے متعلق سكوت اختيار كيا ہے يا نہيں؟

۲) اہلسنت معتقد ہيں كہ سياسى قيادت كا تقرر خود ا مت كے سپرد كيا گيا ہے اور صدر اسلام كے مسلمانوں نے اپنے اجتہاد اور رائے سے ''نظام خلافت ''كا انتخاب كيا_

۳) شيعہ ''نظام امامت ''كے معتقد ہيں اور يہ عقيدہ ركھتے ہيں كہ دينى نصوص نے رحلت رسولخدا (ص) كے بعد مسئلہ امامت كو واضح كرديا ہے_

۴)''امامت ''اہلسنت كے نزديك ايك فرعى مسئلہ ہے جبكہ شيعہ اسے ايك اعتقادى مسئلہ اور اصول دين ميں سے قرار ديتے ہيں_

۵) اہلسنت كے سياسى تفكر اور نظريہ خلافت كى بنياد صحابہ كے عمل پر ہے_

۶) صدر اسلام كے خلفاء كے تعيّن اور طرز انتخاب كے مختلف ہونے كى وجہ سے اہلسنت كا سياسى تفكر ايك جيسا نہيں رہا اور اتفاق نظر سے عارى ہے_

۷) ابتداء ميں لفظ ''خليفہ ''معنوى خصوصيات كا حامل نہيں تھا ليكن مرور زمان كے ساتھ ساتھ خليفہ كو رسولخدا (ص) كے دينى اور معنوى جانشين كے طور پر متعارف كرايا گيا_

۸) بہت سے موارد ميں اہلسنت كے مورد نظر ''نظام خلافت '' اور ''نظام سلطنت'' كے درميان فرق كرنا مشكل ہے_

۱۰۵

سوالات :

۱) مسئلہ امامت ميں اصلى نزاع كيا ہے؟

۲)'' نظام خلافت'' سے كيا مراد ہے؟

۳) اہل تشيع اور اہل تسنن كے نزديكمسئلہ امامت كا كيا مقام ہے؟

۴) سياسى تفكر اور نظريہ خلافت كو بيان كرنے كيلئے اہلسنت نے كس چيز پر اعتماد كيا ہے؟

۵) نظريہ خلافت سے متعلق سياسى ولايت كى مشروعيت كو بيان كرنے ميں اہلسنت كيوں مشكل سے دوچار ہوئے؟

۶) اہلسنت كے در ميان لفظ ''خلافت اور خليفہ'' كے استعمال نے كن راہوں كو طے كيا ہے؟

۷) نظام خلافت كو نظام سلطنت و ملوكيت سے تميز دينے ميں كونسى شئے ابہام كا باعث بنى ہے؟

۱۰۶

بارہواں سبق :

شيعوں كا سياسى تفكر

سياسى ولايت كے سلسلہ ميں آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد شيعہ ''نظريہ امامت ''كے معتقد ہيں _ شيعہ معتقد ہيں كہ ائمہ معصومين صرف سياسى ولايت اور شان و منزلت كے حامل نہيں تھے بلكہ ان كا ايمان ہے كہ ائمہ معصو مين وحى الہى كے علاوہ آنحضرت (ص) كى تمام صفات و كمالات ميں آپ (ص) كے جانشين ہيں _ بنابريں ائمہ معصومين سياسى ولايت سميت ولايت معنوي، معاشرہ كى دينى راہنمائي اور لوگوں كو دينى حقائق كى تعليم دينے جيسى خصوصيات كے بھى حامل ہيں _ وہ رسولخد ا (ص) كے حقيقى خلفاء ، وارث اور جانشين ہيں اور اس وراثت كا لازمہ يہ ہے كہ معنوى ، علمى اور سياسى اوصاف ميں رسولخدا (ص) كے بعد ائمہ معصومين تمام لوگوں سے افضل ہوں اور امامت اور خلافت نبوى كے منصب كيلئے اپنے دور كے تمام افراد سے زيادہ شائستہ ہوں _ اسى وجہ سے اہلسنت كے بعض علماء نے شيعہ كى تعريف ميں اسى نكتہ كى طرف اشارہ كيا ہے _

ابن حزم '' اہل تشيع'' كى تعريف كرتے ہوئے كہتے ہيں :

۱۰۷

''و مَن وافق الشيعة فى أنّ عليّاً أفضل الناس بعد رسول الله (ص) و أحقّهم بالامامة و وُلده من بعده، فهو شيعى و إن خالفهُم فيما عدا ذلك مما اختلف فيه المسلمون، فإن خالَفَهُم فيما ذكرنا فليس شيعيّاً'' (۱)

جو شخص شيعوں كى اس بات سے اتفاق كرتا ہے كہ رسولخدا (ص) كے بعد على سب سے افضل ہيں_ اور آپ(ع) اور آپ (ع) كى اولاد دوسروں سے زيادہ حقدار امامت ہے وہ شيعہ ہے اگر چہ مسلمانوں كے نزديك مورد اختلاف ديگر چيزوں ميں شيعوں سے اختلاف رائے ركھتا ہو اور اگر وہ اس چيز ميں شيعوں سے اتفاق نہيں كرتا جسے ہم نے ذكر كيا ہے تو وہ شيعہ نہيں ہے_

شيعوں كا سياسى نظريہ اہلسنت كے نظريہ خلافت سے دو بنيادى نكات ميں مختلف ہے پہلانكتہ يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد امر حكومت اور سياسى ولايت كے متعلق شيعہ دينى نصوص كو ساكت نہيں سمجھتے بلكہ معتقد ہيں كہ آنحضرت (ص) كے بعد خليفہ كے تقرر كے سلسلہ ميں بہت سى معتبر نصوص موجودہيں _ اسى وجہ سے وہ ائمہ معصومين كى ولايت كے جواز كا مبداء و سرچشمہ ،ارادہ الہى اور خدا كى طرف سے تعيين كو سمجھتے ہيں_ اہلبيت كى ولايت اور امامت ايك الہى منصب ہے جيسا كہ امت پر رسولخد ا (ص) كى ولايت كا سرچشمہ الہى تھا اور اس كا جواز لوگوں كى بيعت اور رائے كا مرہون منت نہيں تھا_

دوسرا نكتہ اختلاف يہ ہے كہ شيعوں كى نظر ميں لفظ ''امام'' خليفہ رسول كے حقيقى معنى ميں ہے يعنى معنوي، علمى اور سياسى تمام جہات ميں رسولخدا (ص) كا جانشين _ جبكہ اہلسنت خلفاء كى جانشينى كو اس كے لغوى معنى ميں ليتے ہيں _ يعنى بعد ميں آنے والا _ البتہ ائمہ معصومين كے متعلق شيعوں كے اعتقاد سے متاثر ہوكر

____________________

۱) الفصَل فى الملل و الاہواء و النحل ج ۲، ص ۱۱۳_

۱۰۸

اہلسنت كے بعض علماء نے يہ نظريہ قائم كرليا ہے كہ آنحضرت (ص) كے بعد پہلے چار خُلفاء بالترتيب تمام لوگوں سے افضل ہيں _ حالانكہ اس عقيدہ كا صدر اسلام حتى كہ خليفہ اول اور دوم كے دور ميںبھى كوئي وجود نہيں تھا_ اہلسنت ميں يہ عقيدہ اموى اور عباسى خلفاء كے ذريعہ آيا جس كى تقويت انہوںنے اپنے سياسى اغراض اور شيعوں كى ضد ميں آكر كى انہوں نے اس عقيدہ كى ترويج كى بہت زيادہ كوششيں كيں كہ وہ بھى رسولخدا (ص) كى بعض خصوصيات كے حامل ہيں (۱) _

بہت سى معتبر روايات دلالت كرتى ہيں كہ امامت كا ايك خاص اجتماعى اور ايمانى مقام و منزلت ہے امامت اسلام كے دوسرے فروع اور اجزا كى طرح نہيں ہے _ بلكہ بہت سے احكام اور فروع كا قوام اور اسلام و مسلمين كى اساس ''امامت'' پر ہے _ ہم بطور نمونہ بعض روايات كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

مرحوم شيخ كليني جناب زرارہ كے واسطہ سے امام باقر سے نقل كرتے ہيں :

بُنى الاسلام على خمسة أشيائ: على الصلاة و الزكاة و الحجّ والصوم و الولاية قال زرارة: فقلت و أيّ شيء من ذلك أفضل؟ فقال: الولاية أفضل; لانّها مفتاحهنّ والوالى هو الدليل عليهنّ ثمّ قال: ذروة الامر و سنامه و مفتاحه و باب الا شياء و رضا الرحمان الطاعة للامام بعد معرفته ان الله (عزوجل) يقول:( ( مَن يُطع الرَّسولَ فَقَد أطاعَ الله َ و مَن تَولّى فَما أرسلناك عَليهم حَفيظاً ) )(۲)

____________________

۱) الاسلام السياسي، محمد سعيد العشماوى ص ۹۳و ۹۴_

۲) الكافى جلد ۲ صفحہ ۱۸_۱۹، باب دعائم الاسلام حديث ۵ جبكہ حديث ميں مذكور آيت سورہ نساء كى ۸۰ نمبر آيت ہے_

۱۰۹

اسلام كى بنياد اور اساس پانچ چيزوں پر ہے : نماز ، زكوة ، حج، روزہ اور ولايت _

جناب زرارہ كہتے ہيں : ميں نے پوچھا كہ ان ميں سے افضل كونسى چيز ہے ؟ امام نے فرمايا :ولايت سب سے افضل ہے كيونكہ يہ ان تمام كى كنجى ہے اور ولى ان پرراہنمائي كرنے والا ہے پھر فرمايا: امر دين كا بلندترين مرتبہ اور اس كى كنجى ، تمام اشياء كا دروازہ اور خدا كى رضا، امام كى معرفت كے بعد اس كى اطاعت ميں پنہاں ہے _ الله تعالى فرماتا ہے: جس نے رسول كى اطاعت كى اس نے خدا كى اطاعت كى اور جس نے روگردانى كى تو ہم نے تمھيں ان پر نگران بنا كر نہيں بھيجا_

امام رضا ايك حديث ميں امامت كو زمام دين ، مسلمانوں كا نظام حيات ، اسلام كى اساس اور بہت سے احكام كى تكميل كى بنياد قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''انّ الامامة زمام الدين و نظام المسلمين و صلاح الدنيا و عزّ المؤمنين انّ الامامة أسّ الاسلام النامى و فرعه السامي_ بالامام تمام الصلاة و الزكاة والصيام والحجّ والجهاد و توفير الفيء و الصدقات وامضاء الحدود والأحكام و منع الثغوروالاطراف الامام يحلّ حلال الله و يحرم حرام الله و يقيم حدود الله و يذبّ عن دين الله ''(۱)

يقيناً امامت زمام دين ، مسلمانوں كا نظام حيات ، صلاح دنيا اور صاحبان ايمان كى عزت ہے_ امامت اسلام كى نشو و نما كرنے والى جڑ اور اس كى بلندترين شاخ ہے _ نماز، روزہ، حج،زكوة اور جہاد كى تكميل امام كے ذريعہ سے ہوتى ہے _ غنيمت اور صدقات كيشرعى قانون

____________________

۱) الكافى جلد ۱، صفحہ ۲۰۰ ، باب نادرجامع فى فضل الامام وصفاتہ حديث۱ _

۱۱۰

كے مطابق تقسيم ، حدود و احكام كا اجر اء اور اسلامى سرزمين اور اس كى سرحدوں كى حفاظت امام كے وسيلہ سے ممكن ہے _ امام ہى حلال خدا كو حلال اور حرام خدا كو حرام كرتا ہے حدود الہى كو قائم كرتا ہے اور دين كا دفاع كرتاہے_

حضرت على بھى امامت كو امت كا نظام حيات اور اسكى اطاعت كو اسكى تعظيم قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''فَرَضَ الله الإيمان تَطهيراً من الشرك والإمامة نظاماً للأُمة والطاعة تعظيماً للإمامة'' (۱)

الله تعالى نے ايمان كو شرك سے بچنے كيلئے ، امامت كو نظام امت اور اطاعت كو امامت كى تعظيم كيلئے واجب قرار دياہے _

قابل ذكر ہے كہ شيعوں كا سياسى تفكر دو مرحلوں ميں قابل تحقيق ہے _

الف: امام معصوم كے حضور كے زمانہ ميں

ب : امام زمانہ( عجل اللہ فرجہ الشريف ) كى غيبت كے زمانہ ميں

امام كے حضور كے زمانہ ميں سياسى ولايت كے متعلق شيعہ علماء كا نظريہ مكمل طور پر متفقہ اور واضح ہے_ شيعہ نظريہ امامت كے معتقد ہيں اور امت كى ولايت كو امام معصوم كى امامت كا ايك حصہ اور جز سمجھتے ہيں _ تمام وہ حكومتيں جو اس حق خدا كو پامال كر كے تشكيل پائي ہوں انہيں غاصب اور ظالم قرار ديتے ہيں اور اس نظريہ ميں كسى شيعہ عالم كو اختلاف نہيں ہے ، كيونكہ شيعوں كى شناخت اور قوام اسى اعتقاد كى بناپر ہے _وہ شئے جو قابل بحث و تحقيق ہے وہ غيبت كے زمانہ ميں شيعوں كا سياسى تفكر ہے _

____________________

۱ ) نہج البلاغہ حكمت ۲۵۲_

۱۱۱

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر :

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر اس طرح واضح ، روشن اور متفق عليہ نہيں ہے جس طرح زمانہ حضور ميں ہے _ شيعوں كا كوئي عالم دين ائمہ معصومين كى سياسى ولايت اور امامت ميں شك و ترديد كا شكار نہيں ہے كيونكہ امامت ميں شك تشيّع سے خارج ہونے كے مترادف ہے _ائمہ معصومين كى امامت پر نہ صرف سب كا اتفاق ہے بلكہ تشيّع كى بنياد ہى امامت كے نظريہ پر ہے _ ليكن سوال يہ ہے كہ امام معصوم كى غيبت كے زمانہ ميں بھى ان كى سياسى ولايت كے متعلق يہى اتفاق نظر ہے ؟

حقيقت يہ ہے كہ تمام جہات سے ايسا اتفاق نظر موجود نہيں ہے _ يعنى ايك واضح و ثابت قول كى تمام علماء شيعہ كى طرف نسبت نہيں دى جاسكتى _ كيونكہ اس بحث كے بعض پہلوؤں ميں ان كے در ميان اختلاف پايا جاتا ہے _ آئندہ كى بحثوں ميں آئے گا كہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے دوران علماء شيعہ ''فقيہ عادل'' كى ولايت كے قائل ہيں _ اور فقيہ عادل كو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كا نائب عام سمجھتے ہيں _ ليكن اس فقيہ عادل كى ولايت كى حدود اور اختيارات ميں اتفاق نہيں ہے _ ولايت فقيہ كى حدود كے سلسلہ ميں ايك واضح اور مشخص نظريہ كى تمام علماء كى طرف نسبت نہيں دى جاسكتى _

ولايت فقيہ كى تاريخ پر بحث كے دوران تفصيل سے آئے گا كہ علماء شيعہ ''اصل ولايت فقيہ'' اور فقيہ عادل كى بعض امور ميں امام معصوم كى جانشينى پر اتفاق نظر ركھتے ہيں _اختلاف اس ميں ہے كہ اس ولايت كا دائرہ اختيار كس حد تك ہے _

بعض بڑے شيعہ فقہاء اس ولايت اور جانشينى كو عام اور ان تمام امور ميں سمجھتے ہيں كہ جن ميں امام كى جانشينى ممكن ہے اور اس طرح فقيہ كى ''ولايت عامہ'' كے قائل ہيں _ جبكہ بعض دوسرے فقہا اس جانشينى كو محدود اور خاص موارد ميں قرار ديتے ہيں _

۱۱۲

مسلمان معاشرے كے اجتماعى اور سياسى امور ميں فقيہ كى سياسى ولايت اس كى ولايت عامہ كے اثبات پر موقوف ہے _ كيونكہ امام معصوم كى خصوصيات ميں سے ايك آپ كى سياسى ولايت بھى ہے اور يہ خصوصيت قابل نيابت ہے _ جبكہ ائمہ معصومين كا مقام عصمت، علم الہى اور معنوى كمالات قابل نيابت نہيں ہيں _ تيسرے باب ميں ہم ولايت فقيہ اور اس كى ادلّہ پر تفصيلى بحث كريں گے _ اسى طرح'' فقيہ عادل'' كا منصب ولايت پر فائز ہونا اور اس كے دائرہ اختيار پر بھى گفتگو كريں گے _

البتہ اس بات كا اعتراف كرنا پڑے گا كہ شيعہفقہا نے ''فقہ سياسي'' يعنى ''فقہ حكومت'' كى مباحث كو اس قدرا ہميت نہيں دى جس طرح دوسرى عبادى اوربعض معاملاتى مباحث كو دى ہے _ بہت سے فقہا نے تو اس قسم كى فقہى فروعات كو بيان ہى نہيں كيا اور انہيں مورد بحث ہى قرار نہيں ديا _ اور اگر بيان بھى كياہے تو بہت مختصر اور اس كے مختلف پہلوؤں اور مسائل كا اس طرح دقيق تجزيہ و تحليل نہيں كيا جس طرح عبادى اور معاملاتى مسائل كا كيا ہے _ يہ بات دوسرے فقہى ابواب كى نسبت ''فقہ سياسي'' كے باب كے ضعف كا باعث بنى ہے _ يقينا اگر شيعوں كے جليل القدر فقہاء دوسرے عبادى ابواب كى طرح '' فقہ الحكومة '' كے باب ميں بھى دقيق بحث كرتے تو آج شيعوں كے سياسى تفكر ميں مزيد ارتكاء ديكھنے كو ملتا _

امويوں اور عباسيوں كے زمانہ ميں حكمرانوں كى طرف سے شيعوں پر اس قدر دباؤ تھا اور ان كے حالات اسقدر ناسازگار تھے كہ اولاً ائمہ معصومين تك دسترسى كے امكان كى صورت ميں بھى تقيہ كى وجہ سے اس قسم كے حساس سياسى مسائل پر گفتگو كرنے سے اجتناب كرتے تھے _ كيونكہ اس سے موجودہ حكومتوں كى واضح نفى ہوتى تھى لہذا اس قسم كے مسائل پر بحث كرنے كيلئے حالات سازگار نہيں تھے _ ثانياً يہ اقليت اس قدر دباؤ اور محروميت كا شكار تھى كہ خود كو بر سر اقتدار لانے اور ايك صحيح دينى حكومت كى تشكيل كو انتہائي مشكل سمجھتى

۱۱۳

تھى لہذا اس نے اپنى تمام تر ہمت اپنى بقا اور غاصب حكومتوں سے نفرت ميں صرف كردى اور حكومتى روابط ، مسائل اور سياسى نظام كے متعلق سوالات كے بارے ميں بہت كم فكر كى _بنابريں عبادى احكام كى نسبت'' فقہ سياسي'' كے متعلق روايات كا ذخيرہ بہت كم ہے _

اسى طرح امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے بعد بھى شيعوں كيلئے اجتماعى اور سياسى حالات سازگار نہيں تھے_ لہذا علماء شيعہ نے سياسى مباحث كے پھيلاؤ اور اس كى تحقيقات ميں كوئي خاص اہتمام نہيں كيا _

۱۱۴

خلاصہ :

۱) شيعہ ائمہ معصومين كيلئے سياسى ولايت سے وسيع تر مقام و منزلت كے قائل ہيں _

۲) يہ مخصوص شان و منزلت جو ان كى افضليت كے اعتقاد كا باعث ہے _ شيعہ كى پہچان ہے اور امامت كے متعلق شيعہ اور سنى كے درميان وجہ افتراق يہى ہے _

۳) مكتب اہلبيت اور معصومين كى روايات كى روشنى ميں امامت ايك عظيم اجتماعى اور دينى شان ومنزلت كى حامل ہے اور سياسى ولايت ميں محدود نہيں ہے _

۴) شيعوں كا سياسى تفكر دو مرحلوں ميں قابل تحقيق ہے _

الف : امام معصوم كے زمانہ ظہور ميں

ب : زمانہ غيبت ميں

۵) زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر زمانہ حضور ميں سياسى تفكر كى طرح واضح اور روشن نہيں ہے _

۶) زمانہ غيبت ميں تمام شيعہ علمائ'' اصل ولايت فقيہ ''كے قائل ہيں ليكن اس ولايت كے دائرہ اختيار ميں اختلاف نظر ركھتے ہيں _

۷) شيعہ علماء كے درميان ''سياسى فقہ'' كے متعلق مباحث كى كمى كى وجہ ظالم اور فاسق حكومتوں كا دباؤ ہے _

۱۱۵

سوالات :

۱) اہل تشيع كے نظريہ'' امامت ''اور اہلسنت كے نظريہ ''خلافت ''كے در ميان دو بنيادى فرق بيان كيجيئے _

۲) روايات اہلبيت نے امامت كيلئے كونسى اجتماعى اور ايمانى شان و منزلت كو بيان كيا ہے ؟

۳) شيعوں كے زمانہ حضور اور زمانہ غيبت كے سياسى تفكر ميں كيا فرق ہے ؟

۴) زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ كے متعلق علماء شيعہ كے درميان وجہ اشتراك اور وجہ اختلاف كيا ہے ؟

۵) شيعہ علماء كے درميان عبادى مباحث كى نسبت ''سياسى فقہ'' كى مباحث كے كم ہونے كى وجہ كيا ہے ؟

۱۱۶

تيرہواں سبق:

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۱-

اہلسنت كے سياسى نظريہ كى وضاحت كے دوران ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ ہو چكا ہے كہ وہ آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت كے سلسلہ ميں دينى متون كو ساكت سمجھتے ہيں اور معتقد ہيں كہ سياسى ولايت كا كام خود امت كے سپرد كيا گيا ہے _ شورى يعنى ''اہل حل و عقد'' كى رائے اور'' بيعت مسلمين ''اسلامى حاكم كى تعيين كرتے ہيں _ واضح ہے كہ ايسا دعوى شيعہ عقائد كے ساتھ سازگار نہيں ہے _ علم كلام كى كتابوں ميں امامت كے متعلق جو معتبر اور متعدد ادلّہ قائم كى گئي ہيں وہ اس دعوى كو بے معنى قرار ديتى ہيں _ ائمہ معصومين كى امامت ''انتصابى ''يعنى خدا كى طرف سے مقرركردہ ہے_ لوگوں كى بيعت صرف امام كے اختيارات كو عملى جامعہ پہنانے ميں مددگار ثابت ہوتى ہے اوراس كا امامت كى حقيقت ميں كوئي كردار نہيں ہوتا_ ليكن سوال يہ ہے كہ كيا امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف كى غيبت كے دوران بھى اس دعوے كو تسليم كيا جاسكتا ہے ؟ اور كيازمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كا اختيار خود شيعوں كو حاصل ہے اور بيعت اور شورى سياسى رہبر كا انتخاب كرے گي؟ يہ بحث اس مفروضہ كى بناپر ہے كہ ائمہ معصومين كى نيابت عامہ موجود نہيں ہے اور روايات كى روسے فقيہ

۱۱۷

عادل كو ولايت تفويض نہيں كى گئي _

اس سبق اور اگلے سبق ميں ہم ان دونكتوں كى تحقيق كريں گے _ پہلا يہ كہ كيا روايات ميں اس دعوى كے تسليم كرنے پر كوئي دليل موجود ہے ؟ اور كيا زمانہ غيبت ميں بيعت اور شورى ''سياسى زندگي'' كا تعيّن كرسكتے ہيں ؟ دوسرا يہ كہ اصولى طور پر اسلام كے سياسى تفكر ميں بيعت اور شورى كا كيا كردار ہے ؟

حضرت اميرالمومنين سے بعض ايسى روايات منقول ہوئي ہيں جو صريحاً كہتى ہيں كہ سياسى ولايت كا حق خود امت كو حاصل ہے _ لہذا اگر مسلمانوں كى شورى كسى كو مقرر كردے اور لوگ اس كى بيعت كرليں تو وہى مسلمانوں كا حاكم اور ولى ہے _ اس قسم كى روايات كى تحقيق سے پہلے ضرورى ہے كہ بيعت اور اس كى اقسام كے متعلق مختصر سى وضاحت كردى جائے _

بيعت كا مفہوم اور اس كى اقسام :

بيعت ايك قسم كا عہد و پيمان اور عقد ہے جو ظہور اسلام سے پہلے عرب قبائل ميں رائج اور مرسوم تھا لہذا يہ ايسا مفہوم نہيں ہے جسے اسلام نے متعارف كروايا ہو _ البتہ متعدد مواقع پر سيرت نبوى (ص) نے بيعت مسلمين كو شرعى جواز بخشا ہے _

بيعت اور بيع لفظ ''باع'' كے دو مصدر ہيں اسى وجہ سے بيعت كا مفہوم بڑى حد تك بيع كے مفہوم سے مطابقت ركھتا ہے جو كہ خريد و فروخت كے معنى ميں ہے _ بيع وہ عقد اور معاملہ ہے جس ميں فروخت كرنے والے اور خريدار كے در ميان مال كا تبادلہ ہوتا ہے _ اسى طرح بيعت وہ معاملہ ہے جو ايك قوم كے رہبر اور اس كے افراد كے درميان قرار پاتا ہے اس بنياد پر كہ بيعت كرنے والے اپنى اطاعت ، اپنے وسائل و امكانات اور اموال كو اس كے زير فرمان قرار دے ديتے ہيں_

۱۱۸

جس طرح بيع (خريد و فروخت)ميں معاملہ كرنے والوں كے درميان ابتدا ميں قيمت اور دوسرى شرائط طے پاتى ہيں پھر معاملہ انجام پاتا ہے _ '' غالباًيہ معاملہ گفتگو كے ذريعہ انجام ديا جاتا ہے ليكن كبھى كبھى فعل يعنى صرف عملى طور پر بھى انجام پاتا ہے كہ جسے بيع معاطات كہتے ہيں ''_ بيعت ميں بھى اسى طرح پہلے گفتگو ہوتى ہے اور تمام شرائط پر رضايت حاصل كى جاتى ہے پھر دوسرے كے ہاتھ ميں ہاتھ دے كر اپنى رضايت كا اقرار كيا جاتا ہے _ اس طرح بيعت ہوجاتى ہے يہ معاہدہ بيعت مختلف طرح كا ہوسكتا ہے اسى لئے ہميں بيعت كى مختلف قسميں ديكھنے كو ملتى ہيں _بيعت كى جو قسم غالب اور رائج ہے وہ مقابل كى سياسى ولايت كو قبو ل كرنے سے متعلق ہے_ عربوں كے در ميان ايك شخص بيعت كے ذريعہ دوسرے شخص كى سياسى ولايت كو قبول كرليتا تھا _ سقيفہ ميں حضرت ابوبكر كى بيعت ، قتل عثمان كے بعد امير المومنين حضرت على كى بيعت اور خليفہ كے تعيّن كے لئے حضرت عمر نے جو شورى تشكيل دى تھى اس ميں عبدالرحمن ابن عوف كا حضرت عثمان كى بيعت كرنا يہ سب خلافت اور سياسى ولايت پر بيعت كرنے كے موارد ہيں_ ليكن بيعت صرف اسى قسم ميں منحصر نہيں ہے كيونكہ كبھى بيعت اس لئے كى جاتى تھى تا كہ دشمن كے مقابلہ ميں جہاد اور ثابت قدمى كا عہد ليا جائے _ جس طرح بيعت رضوان كا واقعہ ہے جو كہ حديبيہ كے مقام پر ۶ ہجرى ميں لى گئي_ سورہ فتح كى اٹھارہويں آيت ميں اس كى طرح اشارہ ہے _

( ''لَقَد رَضيَ الله ُ عَن المؤمنينَ اذيُبا يعُونَك تَحْتَ الشَّجرة فَعَلمَ ما فى قلُوبهم فا نْزَلَ السَّكينَةَ عَلَيْهم'' )

خدا صاحبان ايمان سے راضى ہوگيا جب وہ درخت كے نيچے تيرى بيعت كر رہے تھے جو كچھ ان كے دلوں ميں تھاوہ اسے جانتا تھا پس اس نے ان پر سكون نازل كيا _

۱۱۹

۶ ہجرى تك مسلمانوں پر رسولخدا (ص) كى سياسى اور دينى قيادت اور ولايت كو كئي سال گذر چكے تھے _ لہذا يہ بيعت آنحضرت (ص) كو سياسى قيادت سونپے كيلئے نہيں ہوسكتى _ جناب جابر جو كہ اس بيعت ميںموجود تھے كہتے ہيں : ہم نے يہ بيعت اس بناپر كى تھى كہ دشمن كے مقابلہ ميں فرار نہيں كريںگے_ ''بايَعنا رسول الله (يَومَ الحُدَيبية) على ا ن لانَفرّ'' (۱) _

بعض اوقات بيعت كا مقصد ايك شخص كى اس كے دشمنوں كے مقابلہ ميں حمايت اور دفاع كا اعلان كرنا ہوتاتھا _ جس طرح بعثت كے تيرہويں سال مقام عقبہ ميں اہل يثرب كے نمائندوں نے آنحضرت (ص) كى بيعت كى تھى _(۲)

بيعت كى ان تمام اقسام ميں يہ بات مشترك ہے كہ ''بيعت كرنے والا ''بيعت كى تمام طے شدہ شرائط كا پابند ہوتا ہے _ بيعت ايك ايسا عہد و پيمان ہے جس كا پورا كرنا بيعت كرنے والے كيلئے ضرورى ہوتا ہے _

بيعت كے مفہوم كى وضاحت كے بعد ان بعض روايات كو ذكر كرتے ہيں جن سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ اسى شخص كى ولايت قابل اعتبار ہے جس كى لوگ بيعت كر ليں _ ظاہرى طور پر يہ روايات ''نظريہ انتخاب'' كى تائيد كرتى ہيںيعنى سياسى ولايت كے تعيّن كا حق خود مسلمانوں كو دياگيا ہے _

نظريہ انتخاب كى مؤيد روايات

امير المومنين حضرت على فرماتے ہيں :

''إنّه بايعنى القوم الذين بايعوا أبابكر و عمر و عثمان على ما

____________________

۱) جامع البيان ابن جرير طبري، جلد ۲۶، صفحہ ۱۱۰، ۱۱۳ مذكورہ آيت كے ذيل ميں_

۲) السيرة النبويہ، جلد۲، صفحہ ۸۴،۸۵_

۱۲۰

بايعوهم عليه ، فلم يكن للشّاهد أن يختار و لا للغائب أن يردّ ، و إنّما الشورى للمهاجرين والانصار، فإن اجتمعوا على رجل سمّوه إماماً كان ذلك لله رضي'' (۱)

جن لوگوں نے ابوبكر ، عمر اور عثمان كى بيعت كى تھى انہى لوگوں نے انہى شرائط پر ميرى بھى بيعت كى ہے لہذا جو بيعت كے وقت حاضرتھا اسے نئے انتخاب كا اختيار نہيں اور جو غائب تھا اسے ردّ كرنے كا حق حاصل نہيں يقينا شورى مہاجرين اور انصار كيلئے ہے پس اگر وہ كسى شخص پر متفق ہو جائيں اور اسے امام منتخب كرليں تو خدا اس پر راضى ہے _

ايك اور مقام پر فرمايا :

''و لعمرى لئن كانت الإمامة لا تنعقد حتّى يحضرها عامّة الناس فما إلى ذلك سبيل، و لكن أهلها يحكمون على من غاب عنها ثمّ ليس للشّاهد أن يرجع و لا للغائب أن يختار'' (۲)

مجھے اپنى جان كى قسم اگر امامت كے انتخاب كيلئے تما م لوگوں كا حاضر ہونا شرط ہوتا تو امام كا انتخاب كبھى بھى نہ ہوتا ليكن اہل حل و عقد غائب افراد پر حجت ہوتے ہيں پھر حاضر كيلئے پلٹنے كا اختيار نہيں اور غائب كو نئے انتخاب كا حق حاصل نہيں _

____________________

۱) نہج البلاغہ ، مكتوب ۶ _

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۷۳_

۱۲۱

شيخ مفيد كہتے ہيں :جب عبدالله ابن عمر، سعد ابن ابى وقاص ، محمد بن مسلمہ ، حسان ابن ثابت اور اسامہ ابن زيد نے حضرت على كى بيعت سے انكار كيا ، تو آپ نے خطبہ ديتے ہوئے فرمايا :

''أيّها الناس، إنّكم بايعتمونى على ما بويع عليه من كان قبلي، و إنّما الخيار إلى الناس قبل أنْ يبايعوا ، فإذا بايَعوا فلا خيار لهم، وإنّ على الإمام الاستقامة، و على الرعية التسليم و هذه بيعة عامّة و من رغب عنها رغب عن دين الاسلام ، و اتّبع غير سبيل أهله ...''(۱)

اے لوگوں تم نے انہى شرائط پر ميرى بيعت كى ہے كہ جن شرائط پر مجھ سے پہلے والوں كى بيعت كى تھي_ لوگوں كو بيعت كرنے سے پہلے اختيار حاصل ہے ليكن جب وہ بيعت كرليں تو پھر اختيار نہيں ہے _ امام كيلئے استقامت و پائيدارى اور رعيت كيلئے اطاعت اور پيروى ہے _ يہ بيعت عامہ ہے جس نے اس سے روگردانى كى اس نے دين سے منہ پھيرا اور اہل دين كے راستہ سے ہٹ گيا

قتل عثمان كے بعد جب لوگوں نے بيعت كرنا چاہى اور خلافت كى درخواست كى توآپ (ع) نے فرمايا :

بيعت تمھارے ساتھ مربوط نہيں ہے بيعت كا تعلق اصحاب بدر سے ہے جسے وہ خليفہ منتخب كرليں وہى مسلمانوں كا خليفہ ہوگا _(۲)

____________________

۱) ارشاد جلد ۱، صفحہ ۲۴۳ _ نہج البلاغہ مكتوب ۶ _

۲) ا نساب الاشراف، بلاذرى جلد۴، صفحہ ۵۵۹_

۱۲۲

اس قسم كى روايات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ خليفة المسلمين كے انتخاب كا اختيار مسلمانوں كے ہاتھ ميں ہے وہ افراد جو انتخاب كى صلاحيت ركھتے ہيں اور'' اہل حل و عقد'' شمار ہوتے ہيں، اگر كسى كى بيعت كرليںتو وہى مسلمانوں كا امام اور خليفہ ہے اور اس كى اطاعت واجب ہے اور دوسروں كو اس كى مخالفت كا حق حاصل نہيں ہے _ آخرى روايت صريحاً جبكہ بعض ديگر روايات ظاہرى طور پر يہ كہہ رہى ہے كہ حاكم اور خليفة المسلمين كے تعيّن ميں تمام افراد كى رائے اور بيعت كى اہميت ايك جيسى نہيں ہے بلكہ ايمان، جہاد اور شہادت ميں سبقت حاصل كرنے والے اس انتخاب كى اہليت ركھتے ہيں _ بہر حال يہ روايات صراحتاً اس قول كے متضاد ہيں كہ امام '' منصوب من الله '' ہوتا ہے _ كيونكہ ان روايات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ امت كى سياسى ولايت انتخابى ہے اور اس كے انتخاب كا حق امت كے اہل حل و عقد كو حاصل ہے _ (۱)

صدور روايات كا زمانہ اور ماحول:

سوائے ان مختصر كلمات كے جو بيعت سقيفہ اور حضرت عمر كى مقرر كردہ چھ نفرى شورى كے متعلق ہيں _ بيعت اور شورى كے متعلق حضرت على سے جو اقوال منقول ہيں آپ كى خلافت كے مختصر عرصہ اور لوگوں كے بيعت كرنے كے بعد صادر ہوئے ہيں _

بيعت اور شورى كے متعلق اپنى خلافت كے دوران آپ نے جو بيانات ديئے ہيں انہيں تين حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _ ان ميں سے بعض اپنى بيعت كى توصيف اور وضاحت كے بارے ميں ہيں اور يہ كہ كونسى شرائط پر بيعت ہوئي اور پہلے تين خلفاء كى بيعت كى نسبت يہ بيعت كونسى خصوصيات كى حامل تھى _ نمونہ

____________________

۱) مذكورہ بحث ان روايات كى سند كى تحقيق سے صرف نظر كرتے ہوئے اور انہيں صحيح فرض كرتے ہوئے كى جارہى ہے_ وگرنہ اگر روايات كے مصادر پر غور كيا جائے تو اكثر روايات سند كے اعتبار سےضعيف ہيں_

۱۲۳

كے طور پرہم اس قسم كے بعض بيانات كى طرف اشارہ كرتے ہيں _ حضرت اميرالمؤمنين فرماتے ہيں:

''بايَعَنى الناس غَير مُستكرهين و لا مُجبرين ، بل طائعين مُخيَّرين'' (۱)

لوگوں نے ميرى بيعت اكراہ اور مجبورى كے عالم ميں نہيں كى بلكہ رضا و رغبت كے ساتھ كى ہے _

مزيد فرماتے ہيں:

''لم تكن بيعتكم ايّاى فَلتة ، و ليس أمرى و أمركم واحد، إنّى أريدكم لله و أنتم تريدوننى لانفسكم'' (۳)

تمھارا ميرى بيعت كرنا اچانك پيش آنے والا واقعہ نہيں تھا، اور ميرا اور تمھارا معاملہ بھى ايك جيسا نہيں ہے ، ميں تمھيں خدا كيلئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے لئے چاہتے ہو _

جب بعض افراد نے بيعت پر اصرار كيا تو آپ (ع) نے انہيں فرمايا: ميرى بيعت مخفى طور پر نہيں ہونى چاہيے_

''ففى المسجد، فإنّ بيعتى لا تكون خفيّاً و لا تكون إلاّ عن رضا المسلمين '' (۳)

ميرى بيعت مسجد ميں ہوگى مخفى نہيں ہوگى بلكہ تمام مسلمانوں كى رضا مندى سے ہوگى _

____________________

۱) نہج البلاغہ مكتوب ۱_

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۳۶_

۳) تاريخ طبرى ج ۴ ، ص۴۲۷_

۱۲۴

اس قسم كى روايات ہمارى بحث سے خارج ہيں جو حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كى كيفيت كو بيان كرتى ہيں _

دوسرى قسم كے بيانات وہ ہيں جو آپ نے بيعت نہ كرنے والے عبدالله ابن عمر ، اسامہ ابن زيد اور سعد ابن ابى وقاص اور بيعت توڑنے والے طلحہ و زبير جيسے افراد كو مخاطب كر كے فرمائے ہيں _

حضرت اميرالمؤمنين سے منقول اس قسم كى روايات دونكتوں پر اصرار كرتى ہيں پہلا نكتہ يہ ہے كہ جن افراد نے رضا و رغبت كے ساتھ بيعت كى ہے ان پراطاعت واجب ہے دوسرا يہ كہ لوگوں كا آپ كى بيعت كرنا بيعت عمومى اور اختيارى تھى لہذا بيعت توڑنے اور نہ كرنے والے پيمان شكن اور مسلمانوں كى مخالفت كرنے والے شمار ہوں گے _

تيسرى قسم كے كلمات جو كہ سب سے اہم ہيں، وہ ہيں جو معاويہ اور اہل شام كے دعووں كے مقابلے ميں بيان كئے گئے ہيں _ انہوں نے حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كے صحيح ہونے پر اعتراض كيا تھا اور ان كا كہنا تھا كہ معاويہ ، عمرو ابن عاص اور دوسرے قريش شام كا خليفہ كو منتخب كرنے والى شورى ميں شامل نہ ہونا آپ كى خلافت كو غير معتبر قرار ديتا ہيں _آپ (ع) سے صادر ہونے والے بہت سے كلمات كا تعلق اسى تيسرى قسم سے ہے _آنے والے سبق ميں ہم ان كلمات كا تجزيہ و تحليل اور يہ بحث كريں گے كہ كيا يہ كلمات سياسى ولايت كے انتخابى ہونے كى تائيد كرتے ہيں يا نہيں _

۱۲۵

خلاصہ:

۱) بعض لوگ اس نظريہ كے حامى ہيں كہ بعض روايات كى رو سے سياسى ولايت كے سلسلہ ميں بيعت اور شورى پر اعتبار كيا جاسكتاہے_بنابريں زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت خود لوگوں كے سپرد كى گئي ہے اور انتصابى نہيں ہے_

۲) بيعت ايك ايسا عہد و پيمان ہے جو ظہور اسلام سے پہلے موجود تھا اور رسول خدا (ص) نے اس كى تائيد فرمائي ہے_

۳)بيعت كى مختلف قسميں ہيںلہذا يہ صرف ''سياسى ولايت'' كے انتخاب ميں منحصر نہيں ہے_

۴) اسلامى معاشرہ كے حاكم كى تعيين كيلئے بيعت اور شورى كے معتبر ہونے كے سلسلہ ميں حضرت اميرالمؤمنين سے روايات نقل ہوئي ہيں_

۵) يہ روايات كچھ خاص سياسى حالات كے پيش نظر صادر ہوئي ہيں _ اور يہ روايات ان لوگوں كے مقابلہ ميں بيعت اور شورى كى تائيد كرتى ہيں جنہوں نے حضرت امير المؤمنين كى بيعت پر اعتراض كيا تھا يابيعت سے انكار كيا تھا يا طلحہ و زبير كى طرح بيعت شكنى كى تھي_

۱۲۶

سوالات

۱) وہ افراد جو زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كو انتخابى سمجھتے ہيں ان كى دليل كيا ہے ؟

۲) بيعت كيا ہے اور اس كى كتنى قسميں ہيں ؟

۳) كيا ''بيعت رضوان'' رسول خدا (ص) كو سياسى ولايت سونپنے كيلئے تھي؟

۴) حضرت امير المؤمنين سے منقول بعض روايات سے بيعت اور شورى كے متعلق كس نكتہ كى طرف اشارہ ملتاہے؟

۵) اس قسم كى روايات كے صادر ہونے ميں كونسے حالات كار فرما تھے؟

۱۲۷

چودہواں سبق:

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۲-

پہلے گذر چكا ہے كہ سياسى ولايت كے انتخابى ہونے كے قائلين نے اپنے اس نظريہ كے اثبات كيلئے حضرت امير المؤمنين سے منسوب بعض كلمات و روايات كو بطور دليل پيش كيا ہے _ وہ يہ سمجھتے ہيں كہ ان كلمات سے يہى ظاہر ہوتاہے كہ اسلامى معاشرہ كے حاكم اور خليفہ كے انتخاب كا حق خود امت كو ديا گيا ہے _ بنابريں كم از كم زمانہ غيبت ميں اسلامى معاشرہ كى سياسى ولايت انتخابى امر ہے نہ كہ انتصابى اور يہ اعتقاد صحيح نہيں ہے كہ امت كيلئے فقيہ عادل نصب كوكيا گيا ہے بلكہ يہ امر'' شورى مسلمين'' اور ''بيعت امت'' كے سپرد كيا گيا ہے _

ہمارى نظر ميں ان روايات سے مذكورہ بالا مطلب اخذ كرنا صحيح نہيں ہے _ كيونكہ يہ تمام روايات '' جدال احسن''(۱)

____________________

۱) سورہ نحل كى آيت ۱۲۵ ميں ارشاد ہوتاہے: ''ادع الى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة و جادلهم بالتى هى احسن '' اللہ تعالى نے رسول خدا (ص) سے فرمايا ہے كہ وہ حق اور سعادت كى طرف دعوت دينے كيلئے برہان، خطابہ اور جدل تينوں كو بروئے كار لائيں _ تفسير الميزان ج ۱۲ ص ۳۷۱ ، ۳۷۲ _

جدل استدلال كى وہ قسم ہے جس ميں استدلال كرنے والا اپنے مدعا كے اثبات كيلئے مخاطب كے نزديك مقبول اور مسلمہ قضايا سے كام ليتاہے _ اسے اس دعوى كے قبول كرنے پر مجبور كرتاہے _ ہميشہ يہ ہوتاہے كہ استدلال كرنے والے كے نزديك ان مقدمات كى صحت مشكوك ہوتى ہے يا بالكل ناقابل قبول ہوتى ہے اور اپنے مدعا كے اثبات كيلئے اس كے پاس اور ادلّہ ہوتى ہيں _ ليكن طرف مقابل كو منوانے اور اپنے مقصد تك پہنچنے كيلئے ان صحيح اور يقينى مقدمات كى بجائے ان مقدمات سے استفادہ كرتاہے جو طرف مقابل كيلئے قابل قبول ہوں دوسرے لفظوں ميں برہان كى بجائے جدل سے استفادہ كرتاہے كيونكہ طرف مقابل برہانى مقدمات كو تسليم نہيں كرتا جبكہ جدلى مقدمات كو مانتاہے_

۱۲۸

كے زمرے ميں آتى ہيں _ لہذا ان روايات كو جدل سے ہٹ كر كسى اور مورد ميں استدلال كے طور پر پيش نہيں كيا جاسكتا_

وہ مقدمات جنہيں استدلال جدلى ميں بروئے كار لايا جاتاہے انہيں استدلال برہانى كے مقذمات كى طرح صحيح اور حق قرار نہيں ديا جاسكتا_كيونكہ جدلى استدلال كے مقدمات سے صرف اس ليئے استفادہ كيا جاتاہے چونكہ وہ مخاطب كے نزديك مسلّم اور قابل قبول ہوتے ہيں _ ليكن اس كا معنى يہ نہيں ہے كہ وہ مقدمات بذات خود بھى قابل قبول اور مسلم ہوں _ ہمارا مدعا يہ ہے كہ حضرت امير المؤمنين نے يہ استدلال ان لوگوں كے سامنے كيا ہے جو آپ (ع) كى خلافت و امامت كو تسليم كرنے سے انكار كررہے تھے_ يعنى بجائے ان اموركے جو آپ (ع) كى امامت اور ولايت كى حقيقى ادلہ ہيں كہ آپ ''منصوب من اللہ'' ہيں ان امور سے استدلال كيا ہے جو مخالفين كے نزديك قابل قبول ہيں اور جن كى بناپر پہلے تين خلفاء كى خلافت قائم ہوئي ہے_ آپ كے استدلال كا بنيادى نكتہ يہ تھا كہ جس دليل كى بناپر تم لوگوں نے پہلے تين خلفاء كى خلافت قبول كى ہے اسى دليل كى بناپر ميرى خلافت تسليم كرو كيونكہ ميرى امامت '' بيعت امت ''اور ''شورى كے اتفاق و اجماع ''سے بالاتر درجات كى حامل ہے _

ان روايات كے جدلى ہونے كى دليليں

حضرت امير المؤمنين نے اپنى خلافت كے ابتدائي ايام ميں معاويہ كو خط لكھا جس ميں اسے قتل عثمان اوراپنے ساتھ لوگوں كى بيعت كى اطلاع دى اور اسے كہا كہ وہ بھى شام كے سركردہ افراد كو لے آئے اور بيعت كرے آپ (ع) نے فرمايا:

۱۲۹

''أمّا بعد ، فإنّ الناس قَتَلوا عثمان من غَير مشورة منّي، و بايَعونى عن مشورة منهم و اجتماع، فإذا أتاك كتابى فبايع لى و أوفد إليّ أشراف أهل الشام قبلك'' (۱)

اما بعد، لوگوں نے ميرے مشورے كے بغير عثمان كو قتل كرديا ہے اور اپنى رائے اور اجماع سے ميرى بيعت كرلى ہے _ جب ميرا خط تجھ تك پہنچے تو تم بھى ميرى بيعت كرلينا اور شام كے سركردہ افراد كو ميرى طرف بھيجنا _

معاويہ نے امام كے خط كا مثبت جواب نہيں ديا اور بيعت كى بجائے آپ (ع) كے خلاف جنگ كى تيارى كرنے لگا _ جنگ كيلئے اسے ايك بہانے كى ضرورت تھى لہذا امام كے مضبوط استدلال كے سامنے يہ بہانہ پيش كيا اولاً: حضرت على اور سابقہ خلفاء كے درميان فرق ہے _ اس طرح آپ كى امامت اور خلافت كى مخالفت كي_

ثانياً: يہ بہانہ كيا كہ حضرت عثمان كے قاتل حضرت على كے زير حمايت ہيں لہذا امام سے يہ كہا كہ قاتلين كو شام روانہ كريںتا كہ انہيں سزا دى جاسكے اور ان سے قصاص لينے كے بعد خليفہ كے انتخاب كيلئے مسلمانوں كى شورى تشكيل دى جائے گى _ در حقيقت معاويہ يہ كہنا چاہتا تھا كہ بيعت اور شورى حضرت على كى خلافت كو اہل شام كيلئے لازم قرار نہيں ديتى كيونكہ مدينہ اور بصرہ كے اشراف كے برعكس شام كے سركردہ افراد شورى ميں شامل نہيں تھے_ معاويہ كے گستاخانہ جواب كو مبرد نے يوں نقل كيا ہے _

''أما بعد، فَلَعَمرى لو بايعك القوم الَّذين بايعوك و أنت بري من دَم عثمان ، كنتَ كأبى بكر و عمر و عثمان، و لكنّك

____________________

۱) شرح نہج البلاغہ، ابن ابى الحديد جلد ۱ ص ۲۳۰_

۱۳۰

أغريت بعثمان المهاجرين و خذّلت عنه الأنصار ، فأطاعك الجاهل و قوى بك الضعيف، و قد أبى أهل الشام إلا قتالك حتّى تدفع اليهم قتلة عثمان، فإن فعلت كانت شورى بين المسلمين ''(۱)

اما بعد: مجھے اپنى جان كى قسم اگر لوگوں نے تيرى بيعت اس حالت ميں كى ہوتى كہ تو خون عثمان سے برى ہوتا تو پھر تو تم ابوبكر، عمر اور عثمان كى طرح ہوتے_ ليكن تم نے مہاجرين كو قتل عثمان اور انصار كو ان كى مدد نہ كرنے پراكسايا ہے _ پس جاہل نے تيرى اطاعت كى ہے اوركمزور تيرى وجہ سے مضبوط ہوگيا اوراہل شام كو تو تيرے ساتھ صرف جنگ كرنا ہے مگر يہ كہ تو عثمان كے قاتلوں كو ان كى طرف بھيج دے _ اگر تو نے ايسا كيا تو پھر خليفہ كے انتخاب كيلئے مسلمانوں كى شورى قائم ہوگي_

جنگ صفين كے دوران معاويہ نے ايك اور خط لكھا جس ميں اس نے شورى اور حضرت امير المؤمنين كى بيعت كو غير معتبر قرار ديا _ اس دليل كى بناپر كہ اہل شام نہ اس ميں حاضر تھے اور نہ اس پر راضى تھے

''فَلَعَمرى لو صحَّت خلافتك لكنت قريباً من أن تعذر فى حرب المسلمين ، و لكنّها ما صحت لك، أنّى بصحّتها و أهل الشام لن يدخلوا فيها و لم يرتضوا بها'' (۲)

مجھے اپنى جان كى قسم اگر تيرى خلافت صحيح ہوتى تو تيرا مسلمانوں كى جنگ ميں صاحب عذر ہونا قريب تھا ليكن وہ صحيح نہيں ہے كيونكہ اہل شام اس ميں داخل نہيںتھے اور اس پر راضى نہيں ہيں_

____________________

۱) الكامل، مبرد جلد۱ صفحہ ۴۲۳ _ شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ ۸۸_

۲) بحارالانوار جلد۳۳ صفحہ ۸۰ ، شرح نہج البلاغہ جلد۱۴ صفحہ ۴۲_

۱۳۱

معاويہ اہل شام كو يہ تأثر دينے ميں كامياب ہوگيا كہ خون عثمان كے قصاص سے بڑھ كر كوئي شئے اہم نہيں ہے اور خلافت على كيلئے جو بيعت اور شورى منعقدہوئي ہے وہ قابل اعتبار نہيں ہے لہذا ضرورى ہے كہ قاتلوں كو سزا دينے كے بعد شورى تشكيل پائے_ جنگ صفين ميں معاويہ كى طرف سے بھيجے گئے نمائندہ گروہ ميں سے ايك حبيب ابن مسلمہ نے حضرت على سے مخاطب ہوكر كہا _

''فَادفع إلينا قَتَلة عثمان إن زعمتَ أنّك لم تقتله_ نقتلهم به ، ثمّ اعتزل أمر الناس، فيكون أمرهم شورى بينهم ، يولّى الناس أمرهم من أجمع عليه رَأيهم'' (۱)

اگر تم سمجھتے ہو كہ تم نے عثمان كو قتل نہيں كيا تو پھر ان كے قاتل ہمارے حوالے كردو تا كہ ہم انہيں قتل كرديں_ پھر امر خلافت لوگوں كے سپرد كردو_ ايك شورى تشكيل پائے گى اور لوگ اپنے لئے جسے چاہيں گے اسے اتفاق را ے سے خليفہ منتخب كرليں گے _

اس قسم كى سركشى ، مخالفت اور ادلّہ كے سامنے حضرت امير المؤمنين نے ان امور سے استدلال كيا جو اُن كيلئے قابل قبول تھے حتى كہ دشمن بھى ان سے انكار نہيں كرسكتا تھا_ تمام مسلمان ، اہل شام اور حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كى مخالفت كرنے والے ، حتى كہ معاويہ بھى پہلے تين خلفاء كے طريقہ انتخاب كو مانتے تھے_ لہذا حضرت امير المؤمنين نے استدلال كے مقام پر ان افراد كے سامنے مہاجرين اور انصار كى بيعت اور شورى كے صحيح اور قابل اعتبار ہونے كو پيش كيا اور اپنى امامت كيلئے انہى مطالب سے استدلال كيا جو مخالفين كے نزديك مسلم اور قابل قبول تھے_

امام نے بيعت سے روگردانى كرنے والوں كو مخاطب كركے فرمايا:

____________________

۱) تاريخ طبرى جلد۵ صفحہ ۷ ، البدايہ والنہايہ جلد۷ صفحہ ۲۵۹_

۱۳۲

''أيّها الناس، إنّكم بايعتمونى على ما بويعَ عليه مَن كان قبلي، و انّما الخيارُ إلى الناس قبل أن يُبايعوا'' (۱)

اے لوگو تم نے ميرى بيعت انہى شرائط پر كى ہے جن پر تم نے مجھ سے پہلے والوں كى بيعت كى تھى اور لوگوں كو بيعت كرنے سے پہلے اختيار ہوتاہے _

معاويہ اور اہل شام كے مقابلہ ميں بھى اسى طرح استدلال كرتے ہوئے فرمايا:

كہ جن لوگوں نے مجھ سے پہلے والے خلفاء كو منتخب كيا تھا انہى لوگوں نے اصرار اور اپنى رضا و رغبت كے ساتھ ميرى بيعت كى ہے _ پس تم پر ميرى اطاعت اسى طرح واجب ہے جس طرح مجھ سے پہلے والے خلفاء كى اطاعت كرتے تھے _(۲)

حضرت امير المؤمنين ، معاويہ كو تنبيہ كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ اطاعت كيلئے تيرا بيعت كے وقت موجود ہونا ضرورى نہيں ہے كيونكہ پہلے تمام خلفا كى بيعت اور شورى ميں بھى تو موجود نہيں تھا_ فرمايا:

''لأنّ بيعتى فى المدينة لزمتك و أنت بالشام كما لزمتك بيعة عثمان بالمدينة و أنت أمير لعمر على الشام، و كما لزمت يزيد أخاك بيعة عمر و هو أمير لابى بكر على الشام'' (۳)

مدينہ ميں ميرى بيعت كا ہونا تجھ پر اطاعت كو واجب قرار ديتاہے چاہے تو شام ميں ہو جس طرح عثمان كى مدينہ ميں بيعت تيرے لئے لازم ہوگئي تھى جب كہ تو عمر كى طرف سے شام پر

____________________

۱) ارشاد شيخ مفيد جلد۱ صفحہ ۲۴۳_

۲) شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ۷۵_

۳) شرح نہج البلاغہ جلد۱۴ صفحہ ۴۴_

۱۳۳

حاكم تھا_ اور جس طرح تيرے بھائي يزيد كيلئے عمر كى بيعت لازم ہوگئي تھى جبكہ وہ ابوبكر كى طرف سے شام كا والى تھا_

مزيد فرمايا كہ معاويہ اور قريش طلقا ( آزاد كردہ ) ميں سے ہيں اور خليفہ كو مقرر كرنے والى شورى ميں شموليت كى اہليت نہيں ركھتے فرمايا :

( ''وَ اعلَم أنّك من الطُلَقاء الَّذين لا تَحلُّ لَهُم الخلافة و لا تعرض فيهم الشوري'' ) (۱)

اور جان لوكہ تم طلقا ميں سے ہو ، جو كہ خلافت كے حقدار نہيں ہيں اور شورى ميں بھى شموليت كى اہليت نہيں ركھتے_

''أما قولك إنّ أهل الشام هم الحُكّام على أهل الحجاز فهات رجلاً من قريش الشام يقبل فى الشورى أو تحلّ له الخلافة، فإن زعمتَ ذلك كذبك المهاجرون والانصار'' (۲)

اور تيرا يہ كہنا كہ اہل شام اہل حجاز پر حاكم ہيں تو يہ كيسے ممكن ہے كہ شام كے قريش كا ايك فرد شورى ميں قابل قبول ہو يا اس كيلئے خلافت جائز ہو _ اگر تو ايسا سمجھتاہے تو مہاجرين اور انصار تجھے جھٹلا ديںگے _

اسكے پيش نظر اور ان ادلّہ كو ديكھتے ہوئے جو امام كى امامت كے'' منصوب من اللہ ''ہونے پر دلالت كرتى ہيں كوئي شك و شبہہ باقى نہيں رہتا كہ امام كا تعيين خليفہ ميں بيعت اور شورى كے معتبر ہونے پر

____________________

۱) وقعة صفين صفحہ ۲۹_

۲) بحارالانوار جلد۳۲ ، صفحہ ۳۷۹ ، شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ ۸۹_

۱۳۴

تاكيد كرنا، اور يہ كہنا كہ خليفہ كا تقرر مہاجرين اور انصار كے ہاتھ ميں ہے از ''باب جدل'' تھا_ جس طرح آپ(ع) نے اسى ''جدال احسن'' كے ذريعہ اس وقت استدلال كيا تھا جب سقيفہ ميں حضرت ابوبكر كى بيعت ہوئي تھي_ انصار كے مقابلہ ميں قريش نے ابوبكر اور عمر كى رہبرى ميں آنحضرت (ص) - سے اپنى قرابت كو دليل قرار ديا تھا اور انصار نے اسى دليل كى بناپر خلافت، مہاجرين قريش كے سپرد كردى تھي_

حضرت على نے بھى اسى استدلال سے استفادہ كرتے ہوئے فرمايا: اگر خلافت كا معيار قرابت رسول (ص) ہے تو ميں سب سے زيادہ آنحضرت (ص) كے قريب ہوں _ تعيين امامت كيلئے اس قسم كے تمام استدلال ''جدلي'' ہيں كيونكہ آپ (ع) كى امامت كى دليل خدا كا آپ كو امام مقرر كرنا ہے آنحضرت (ص) سے قرابت آپ كى امامت كى دليل نہيں ہے _ امام نے معاويہ كو جو خط لكھا اس ميں اسى استدلال ''جدلي'' كا سہارا ليا_

''قالَت قريش مّنّا أمير و قالت الأنصار منّا أمير; فقالت قريش: منّا محمّد رسول الله (ص) فنحن أحقّ بذلك الأمر ، فعرفت ذلك الأنصار فسلمت لهم الولاية و السلطان فاذا استحقوها بمحمد (ص) دون الانصار فإنّ أولَى الناس بمحمّد أحقّ بها منهم'' (۱)

قريش نے كہا كہ امير ہم ميں سے ہوگا اور انصار نے كہا ہم ميں سے_ پھر قريش نے كہا كہ رسول خد ا (ص) ہم ميں سے تھے لہذا خلافت ہمارا حق ہے _ انصار نے اسے تسليم كرليا اور خلافت و ولايت ان كے سپرد كردى _لہذا جب محمد (ص) سے قرابت كى وجہ سے وہ خلافت كے مستحق قرار پائے ہيںنہ كہ انصار تو جو قرابت كے لحاظ سے محمد (ص) كے زيادہ قريب ہے وہ خلافت كا ان سے زيادہ حق ركھتاہے_

____________________

۱) وقعة صفين صفحہ ۹۱_

۱۳۵

ممكن ہے كوئي يہ كہے كہ ہم اسے تسليم كرتے ہيں كہ ائمہ معصومين كى ولايت كے اثبات كيلئے بيعت اور شورى كو معتبر قرار دينا استدلال جدلى ہے ليكن زمانہ غيبت ميں اسلامى معاشرہ كے حاكم كے تعين كيلئے بيعت اور شورى كو معتبر قرار ديا جاسكتاہے _ پس بنيادى لحاظ سے بيعت اور شورى ناقابل اعتبار نہيں ہيں بلكہ امام معصوم كے زمانہ ميں ائمہ معصومين كى امامت كى ادلّہ كو ديكھتے ہوئے ناقابل اعتبار ہيں ليكن زمانہ غيبت ميں قابل اعتبار ہيں _ دوسرے لفظوں ميں امام كا ''استدلال جدلي'' غلط مقدمات پر مشتمل نہيں تھا بلكہ يہ مقدمہ (بيعت اور شورى كا معتبر ہونا) صرف امام معصوم كے حضور كے زمانہ ميں ناقابل اعتبارہے وگرنہ بذات خود يہ معتبر ہے _ جو لوگ اس نظريہ كے حامى ہيں وہ لوگ امامكے استدلال جدلى كو زمانہ غيبت ميں اسلامى معاشرہ كے حاكم كے تقرر كيلئے بيعت اور شورى سے تمسك كى راہ ميں مانع نہيں سمجھتے _ اگر فقيہ عادل كى ولايت عامہ كى ادلّہ صحيح اور كامل ہيں تو پھر اس بحث كى گنجائشے نہيں رہتى يعنى جس طرح امام معصوم كى امامت كى ادلّہ سياسى ولايت كے تقرر ميں بيعت اور شورى كے كردار كو كالعدم قرار ديتى ہيں اسى طرح ولايت فقيہ كى ادلّہ بھى بيعت اور شورى كو كالعدم قرار ديتى ہيں _

بحثكے آخر ميں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ ہمارى بحث اس ميں ہے كہ يہ تحقيق كى جائے كہ سياسى تسلط كے جواز ميں بيعت اور شورى كا كيا كردار ہے _وگرنہ اس سے كسى كو انكار نہيں ہے كہ سياسى ولايت كا عينى اور خارجى وجود لوگوں كى رائے اور بيعت كے تابع ہے _ اكثر ائمہ معصومين اسى وجہ سے اپنى شرعى اور الہى ولايت كو لوگوں ميں عملى نہيں كروا سكے ، چونكہ لوگوں نے آپ كى اعلانيہ بيعت نہيں كى تھي_

۱۳۶

خلاصہ :

۱) خليفہ كے تقرر كے سلسلہ ميں بيعت اور شورى كے معت۱بر ہونے كے متعلق حضرت على سے منقول روايات ''جدل'' كے باب سے ہيں _اور ولايت كو انتخابى قرار دينے ميں ان ادلہ سے استدلال نہيں كيا جاسكتا_

۲) حضرت على كى امامت كى مخالفت كيلئے معاويہ كا ہدف بيعت اور شورى كو غير معتبر قرار دينا تھا تا كہ اس طرح آپ (ع) كى خلافت پر سوا ليہ نشان لگايا جاسكے_

۳) معاويہ يہ چاہتا تھا كہ حضرت عثمان كے قاتلوں كو سزا دينے كے بعد حاكم اور امام كے انتخاب كيلئے شورى تشكيل دى جائے جس ميں خود اس جيسے افراد بھى موجود ہوں _

۴ )اپنى خلافت كيلئے ہونے والى بيعت كى حقانيت ثابت كرنے كيلئے، حضرت امير المؤمنين نے ان امور كا سہارا ليا جو مسلمانوں كے نزديك مسلم اور قابل قبول تھے اور جن كامعاويہ اور اہل شام بھى انكار نہيں كرسكتے تھے_ پس آپ كا استدلال ''جدال احسن ''كے زمرے ميں آتاہے _

۵) حضرت اميرالمومنين كى امامت پر ادلّہ كا موجود ہونا ، اورآپ (ع) كا ان نصوص سے تمسك نہ كرنا اس بات كى دليل ہے كہ آپ كے يہ كلمات جدل كے باب سے تھے_

۶) اگر ولايت فقيہ كى ادلّہ صحيح اور مكمل ہوں تو زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كے متعلق'' نظريہ انتخابي''كيلئے ان روايات سے تائيد لانے كى نوبت نہيں آتى _

۱۳۷

سوالات:

۱)بيعت اور شورى كے متعلق حضرت امير المؤمنين سے منقول روايات سے سياسى ولايت كے انتخابى ہونے پر كيوں استدلال نہيں كيا جاسكتا؟

۲)حضرت على كے ساتھ سياسى تنازعہ ميں معاويہ كا استدلال كيا تھا؟

۳) حضرت امير المومنين نے معاويہ اور اہل شام كے استدلال كا كيا جواب ديا؟

۴) حضرت اميرالمومنين كے استدلال كے جدلى ہونے كے شواہد بيان كيجئے ؟

۵) كيا زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كے انتخابى ہونے كيلئے اس قسم كى روايات سے تمسك كيا جاسكتاہے؟

۱۳۸

تيسرا باب:

ولايت فقيہ كا معنى ، مختصر تاريخ اور ادلّہ

سبق ۱۵ : ولايت فقيہ كا معني

سبق۱۶: وكالت و نظارت فقيہ كے مقابلہ ميں انتصابى ولايت

سبق ۱۷ _۱۸: ولايت فقيہ كى مختصر تاريخ

سبق ۱۹ : ولايت فقيہ ايك كلامى مسئلہ ہے يا فقہي؟

سبق ۲۰،۲۱،۲۲ : ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ

سبق ۲۳ : ولايت فقيہ پر عقلى دليل

۱۳۹

تمہيد :

پہلے گذرچكاہے كہ شيعوں كا سياسى تفكر'' نظريہ انتصاب ''پر استوار ہے اور شيعہ معتقدہيں كہ ائمہ معصومين كى امامت اور ولايت خدا كى طرف سے ہے اور اس كا اعلان خود رسول خدا (ص) نے فرمايا ہے _ اہم سوال جو زير بحث ہے وہ يہ ہے كہ كيا زمانہ غيبت ميں فقہاء عادل كو ولايت عامہ اور ائمہ معصومين كى نيابت حاصل ہے ؟ مذكورہ باب اسى اساسى سوال كى تحقيق كے متعلق ہے _

اس باب ميں ابتداً ولايت فقيہ كا معنى واضح كيا جائے گا اور محل نزاع پر عميق نظر ڈالى جائے گى _ تا كہ اس كے متعلق جو غلط فہمياں ہيں انہيں دور كيا جاسكے_

اس كے بعد علمائ شيعہ كے اقوال اور ولايت فقيہ كى تاريخ پر ايك نگاہ ڈاليں گے _ ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ كى تحقيق اس باب كى اہم ترين بحث ہے اور اس سے پہلے يہ واضح كريں گے كہ مسئلہ ولايت فقيہ ايك كلامى بحث ہے يا فقہي؟ اس مسئلہ كا جواب براہ راست ان ادلّہ پر اثر انداز ہوتاہے جو ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے قائم كى گئي ہيں _ مسئلہ ولايت فقيہ كو كلامى سمجھنا يا كم از كم يہ اعتقاد ركھنا كہ مسئلہ فقہى ہونے كے ساتھ ساتھ اس ميں كلامى پہلو بھى ہے اس سے ولايت فقيہ پر عقلى ادلہ پيش كرنے كى راہ ہموار ہوجائے گي_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367