اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت10%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143948 / ڈاؤنلوڈ: 3622
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

بايعوهم عليه ، فلم يكن للشّاهد أن يختار و لا للغائب أن يردّ ، و إنّما الشورى للمهاجرين والانصار، فإن اجتمعوا على رجل سمّوه إماماً كان ذلك لله رضي'' (۱)

جن لوگوں نے ابوبكر ، عمر اور عثمان كى بيعت كى تھى انہى لوگوں نے انہى شرائط پر ميرى بھى بيعت كى ہے لہذا جو بيعت كے وقت حاضرتھا اسے نئے انتخاب كا اختيار نہيں اور جو غائب تھا اسے ردّ كرنے كا حق حاصل نہيں يقينا شورى مہاجرين اور انصار كيلئے ہے پس اگر وہ كسى شخص پر متفق ہو جائيں اور اسے امام منتخب كرليں تو خدا اس پر راضى ہے _

ايك اور مقام پر فرمايا :

''و لعمرى لئن كانت الإمامة لا تنعقد حتّى يحضرها عامّة الناس فما إلى ذلك سبيل، و لكن أهلها يحكمون على من غاب عنها ثمّ ليس للشّاهد أن يرجع و لا للغائب أن يختار'' (۲)

مجھے اپنى جان كى قسم اگر امامت كے انتخاب كيلئے تما م لوگوں كا حاضر ہونا شرط ہوتا تو امام كا انتخاب كبھى بھى نہ ہوتا ليكن اہل حل و عقد غائب افراد پر حجت ہوتے ہيں پھر حاضر كيلئے پلٹنے كا اختيار نہيں اور غائب كو نئے انتخاب كا حق حاصل نہيں _

____________________

۱) نہج البلاغہ ، مكتوب ۶ _

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۷۳_

۱۲۱

شيخ مفيد كہتے ہيں :جب عبدالله ابن عمر، سعد ابن ابى وقاص ، محمد بن مسلمہ ، حسان ابن ثابت اور اسامہ ابن زيد نے حضرت على كى بيعت سے انكار كيا ، تو آپ نے خطبہ ديتے ہوئے فرمايا :

''أيّها الناس، إنّكم بايعتمونى على ما بويع عليه من كان قبلي، و إنّما الخيار إلى الناس قبل أنْ يبايعوا ، فإذا بايَعوا فلا خيار لهم، وإنّ على الإمام الاستقامة، و على الرعية التسليم و هذه بيعة عامّة و من رغب عنها رغب عن دين الاسلام ، و اتّبع غير سبيل أهله ...''(۱)

اے لوگوں تم نے انہى شرائط پر ميرى بيعت كى ہے كہ جن شرائط پر مجھ سے پہلے والوں كى بيعت كى تھي_ لوگوں كو بيعت كرنے سے پہلے اختيار حاصل ہے ليكن جب وہ بيعت كرليں تو پھر اختيار نہيں ہے _ امام كيلئے استقامت و پائيدارى اور رعيت كيلئے اطاعت اور پيروى ہے _ يہ بيعت عامہ ہے جس نے اس سے روگردانى كى اس نے دين سے منہ پھيرا اور اہل دين كے راستہ سے ہٹ گيا

قتل عثمان كے بعد جب لوگوں نے بيعت كرنا چاہى اور خلافت كى درخواست كى توآپ (ع) نے فرمايا :

بيعت تمھارے ساتھ مربوط نہيں ہے بيعت كا تعلق اصحاب بدر سے ہے جسے وہ خليفہ منتخب كرليں وہى مسلمانوں كا خليفہ ہوگا _(۲)

____________________

۱) ارشاد جلد ۱، صفحہ ۲۴۳ _ نہج البلاغہ مكتوب ۶ _

۲) ا نساب الاشراف، بلاذرى جلد۴، صفحہ ۵۵۹_

۱۲۲

اس قسم كى روايات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ خليفة المسلمين كے انتخاب كا اختيار مسلمانوں كے ہاتھ ميں ہے وہ افراد جو انتخاب كى صلاحيت ركھتے ہيں اور'' اہل حل و عقد'' شمار ہوتے ہيں، اگر كسى كى بيعت كرليںتو وہى مسلمانوں كا امام اور خليفہ ہے اور اس كى اطاعت واجب ہے اور دوسروں كو اس كى مخالفت كا حق حاصل نہيں ہے _ آخرى روايت صريحاً جبكہ بعض ديگر روايات ظاہرى طور پر يہ كہہ رہى ہے كہ حاكم اور خليفة المسلمين كے تعيّن ميں تمام افراد كى رائے اور بيعت كى اہميت ايك جيسى نہيں ہے بلكہ ايمان، جہاد اور شہادت ميں سبقت حاصل كرنے والے اس انتخاب كى اہليت ركھتے ہيں _ بہر حال يہ روايات صراحتاً اس قول كے متضاد ہيں كہ امام '' منصوب من الله '' ہوتا ہے _ كيونكہ ان روايات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ امت كى سياسى ولايت انتخابى ہے اور اس كے انتخاب كا حق امت كے اہل حل و عقد كو حاصل ہے _ (۱)

صدور روايات كا زمانہ اور ماحول:

سوائے ان مختصر كلمات كے جو بيعت سقيفہ اور حضرت عمر كى مقرر كردہ چھ نفرى شورى كے متعلق ہيں _ بيعت اور شورى كے متعلق حضرت على سے جو اقوال منقول ہيں آپ كى خلافت كے مختصر عرصہ اور لوگوں كے بيعت كرنے كے بعد صادر ہوئے ہيں _

بيعت اور شورى كے متعلق اپنى خلافت كے دوران آپ نے جو بيانات ديئے ہيں انہيں تين حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _ ان ميں سے بعض اپنى بيعت كى توصيف اور وضاحت كے بارے ميں ہيں اور يہ كہ كونسى شرائط پر بيعت ہوئي اور پہلے تين خلفاء كى بيعت كى نسبت يہ بيعت كونسى خصوصيات كى حامل تھى _ نمونہ

____________________

۱) مذكورہ بحث ان روايات كى سند كى تحقيق سے صرف نظر كرتے ہوئے اور انہيں صحيح فرض كرتے ہوئے كى جارہى ہے_ وگرنہ اگر روايات كے مصادر پر غور كيا جائے تو اكثر روايات سند كے اعتبار سےضعيف ہيں_

۱۲۳

كے طور پرہم اس قسم كے بعض بيانات كى طرف اشارہ كرتے ہيں _ حضرت اميرالمؤمنين فرماتے ہيں:

''بايَعَنى الناس غَير مُستكرهين و لا مُجبرين ، بل طائعين مُخيَّرين'' (۱)

لوگوں نے ميرى بيعت اكراہ اور مجبورى كے عالم ميں نہيں كى بلكہ رضا و رغبت كے ساتھ كى ہے _

مزيد فرماتے ہيں:

''لم تكن بيعتكم ايّاى فَلتة ، و ليس أمرى و أمركم واحد، إنّى أريدكم لله و أنتم تريدوننى لانفسكم'' (۳)

تمھارا ميرى بيعت كرنا اچانك پيش آنے والا واقعہ نہيں تھا، اور ميرا اور تمھارا معاملہ بھى ايك جيسا نہيں ہے ، ميں تمھيں خدا كيلئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے لئے چاہتے ہو _

جب بعض افراد نے بيعت پر اصرار كيا تو آپ (ع) نے انہيں فرمايا: ميرى بيعت مخفى طور پر نہيں ہونى چاہيے_

''ففى المسجد، فإنّ بيعتى لا تكون خفيّاً و لا تكون إلاّ عن رضا المسلمين '' (۳)

ميرى بيعت مسجد ميں ہوگى مخفى نہيں ہوگى بلكہ تمام مسلمانوں كى رضا مندى سے ہوگى _

____________________

۱) نہج البلاغہ مكتوب ۱_

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۳۶_

۳) تاريخ طبرى ج ۴ ، ص۴۲۷_

۱۲۴

اس قسم كى روايات ہمارى بحث سے خارج ہيں جو حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كى كيفيت كو بيان كرتى ہيں _

دوسرى قسم كے بيانات وہ ہيں جو آپ نے بيعت نہ كرنے والے عبدالله ابن عمر ، اسامہ ابن زيد اور سعد ابن ابى وقاص اور بيعت توڑنے والے طلحہ و زبير جيسے افراد كو مخاطب كر كے فرمائے ہيں _

حضرت اميرالمؤمنين سے منقول اس قسم كى روايات دونكتوں پر اصرار كرتى ہيں پہلا نكتہ يہ ہے كہ جن افراد نے رضا و رغبت كے ساتھ بيعت كى ہے ان پراطاعت واجب ہے دوسرا يہ كہ لوگوں كا آپ كى بيعت كرنا بيعت عمومى اور اختيارى تھى لہذا بيعت توڑنے اور نہ كرنے والے پيمان شكن اور مسلمانوں كى مخالفت كرنے والے شمار ہوں گے _

تيسرى قسم كے كلمات جو كہ سب سے اہم ہيں، وہ ہيں جو معاويہ اور اہل شام كے دعووں كے مقابلے ميں بيان كئے گئے ہيں _ انہوں نے حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كے صحيح ہونے پر اعتراض كيا تھا اور ان كا كہنا تھا كہ معاويہ ، عمرو ابن عاص اور دوسرے قريش شام كا خليفہ كو منتخب كرنے والى شورى ميں شامل نہ ہونا آپ كى خلافت كو غير معتبر قرار ديتا ہيں _آپ (ع) سے صادر ہونے والے بہت سے كلمات كا تعلق اسى تيسرى قسم سے ہے _آنے والے سبق ميں ہم ان كلمات كا تجزيہ و تحليل اور يہ بحث كريں گے كہ كيا يہ كلمات سياسى ولايت كے انتخابى ہونے كى تائيد كرتے ہيں يا نہيں _

۱۲۵

خلاصہ:

۱) بعض لوگ اس نظريہ كے حامى ہيں كہ بعض روايات كى رو سے سياسى ولايت كے سلسلہ ميں بيعت اور شورى پر اعتبار كيا جاسكتاہے_بنابريں زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت خود لوگوں كے سپرد كى گئي ہے اور انتصابى نہيں ہے_

۲) بيعت ايك ايسا عہد و پيمان ہے جو ظہور اسلام سے پہلے موجود تھا اور رسول خدا (ص) نے اس كى تائيد فرمائي ہے_

۳)بيعت كى مختلف قسميں ہيںلہذا يہ صرف ''سياسى ولايت'' كے انتخاب ميں منحصر نہيں ہے_

۴) اسلامى معاشرہ كے حاكم كى تعيين كيلئے بيعت اور شورى كے معتبر ہونے كے سلسلہ ميں حضرت اميرالمؤمنين سے روايات نقل ہوئي ہيں_

۵) يہ روايات كچھ خاص سياسى حالات كے پيش نظر صادر ہوئي ہيں _ اور يہ روايات ان لوگوں كے مقابلہ ميں بيعت اور شورى كى تائيد كرتى ہيں جنہوں نے حضرت امير المؤمنين كى بيعت پر اعتراض كيا تھا يابيعت سے انكار كيا تھا يا طلحہ و زبير كى طرح بيعت شكنى كى تھي_

۱۲۶

سوالات

۱) وہ افراد جو زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كو انتخابى سمجھتے ہيں ان كى دليل كيا ہے ؟

۲) بيعت كيا ہے اور اس كى كتنى قسميں ہيں ؟

۳) كيا ''بيعت رضوان'' رسول خدا (ص) كو سياسى ولايت سونپنے كيلئے تھي؟

۴) حضرت امير المؤمنين سے منقول بعض روايات سے بيعت اور شورى كے متعلق كس نكتہ كى طرف اشارہ ملتاہے؟

۵) اس قسم كى روايات كے صادر ہونے ميں كونسے حالات كار فرما تھے؟

۱۲۷

چودہواں سبق:

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۲-

پہلے گذر چكا ہے كہ سياسى ولايت كے انتخابى ہونے كے قائلين نے اپنے اس نظريہ كے اثبات كيلئے حضرت امير المؤمنين سے منسوب بعض كلمات و روايات كو بطور دليل پيش كيا ہے _ وہ يہ سمجھتے ہيں كہ ان كلمات سے يہى ظاہر ہوتاہے كہ اسلامى معاشرہ كے حاكم اور خليفہ كے انتخاب كا حق خود امت كو ديا گيا ہے _ بنابريں كم از كم زمانہ غيبت ميں اسلامى معاشرہ كى سياسى ولايت انتخابى امر ہے نہ كہ انتصابى اور يہ اعتقاد صحيح نہيں ہے كہ امت كيلئے فقيہ عادل نصب كوكيا گيا ہے بلكہ يہ امر'' شورى مسلمين'' اور ''بيعت امت'' كے سپرد كيا گيا ہے _

ہمارى نظر ميں ان روايات سے مذكورہ بالا مطلب اخذ كرنا صحيح نہيں ہے _ كيونكہ يہ تمام روايات '' جدال احسن''(۱)

____________________

۱) سورہ نحل كى آيت ۱۲۵ ميں ارشاد ہوتاہے: ''ادع الى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة و جادلهم بالتى هى احسن '' اللہ تعالى نے رسول خدا (ص) سے فرمايا ہے كہ وہ حق اور سعادت كى طرف دعوت دينے كيلئے برہان، خطابہ اور جدل تينوں كو بروئے كار لائيں _ تفسير الميزان ج ۱۲ ص ۳۷۱ ، ۳۷۲ _

جدل استدلال كى وہ قسم ہے جس ميں استدلال كرنے والا اپنے مدعا كے اثبات كيلئے مخاطب كے نزديك مقبول اور مسلمہ قضايا سے كام ليتاہے _ اسے اس دعوى كے قبول كرنے پر مجبور كرتاہے _ ہميشہ يہ ہوتاہے كہ استدلال كرنے والے كے نزديك ان مقدمات كى صحت مشكوك ہوتى ہے يا بالكل ناقابل قبول ہوتى ہے اور اپنے مدعا كے اثبات كيلئے اس كے پاس اور ادلّہ ہوتى ہيں _ ليكن طرف مقابل كو منوانے اور اپنے مقصد تك پہنچنے كيلئے ان صحيح اور يقينى مقدمات كى بجائے ان مقدمات سے استفادہ كرتاہے جو طرف مقابل كيلئے قابل قبول ہوں دوسرے لفظوں ميں برہان كى بجائے جدل سے استفادہ كرتاہے كيونكہ طرف مقابل برہانى مقدمات كو تسليم نہيں كرتا جبكہ جدلى مقدمات كو مانتاہے_

۱۲۸

كے زمرے ميں آتى ہيں _ لہذا ان روايات كو جدل سے ہٹ كر كسى اور مورد ميں استدلال كے طور پر پيش نہيں كيا جاسكتا_

وہ مقدمات جنہيں استدلال جدلى ميں بروئے كار لايا جاتاہے انہيں استدلال برہانى كے مقذمات كى طرح صحيح اور حق قرار نہيں ديا جاسكتا_كيونكہ جدلى استدلال كے مقدمات سے صرف اس ليئے استفادہ كيا جاتاہے چونكہ وہ مخاطب كے نزديك مسلّم اور قابل قبول ہوتے ہيں _ ليكن اس كا معنى يہ نہيں ہے كہ وہ مقدمات بذات خود بھى قابل قبول اور مسلم ہوں _ ہمارا مدعا يہ ہے كہ حضرت امير المؤمنين نے يہ استدلال ان لوگوں كے سامنے كيا ہے جو آپ (ع) كى خلافت و امامت كو تسليم كرنے سے انكار كررہے تھے_ يعنى بجائے ان اموركے جو آپ (ع) كى امامت اور ولايت كى حقيقى ادلہ ہيں كہ آپ ''منصوب من اللہ'' ہيں ان امور سے استدلال كيا ہے جو مخالفين كے نزديك قابل قبول ہيں اور جن كى بناپر پہلے تين خلفاء كى خلافت قائم ہوئي ہے_ آپ كے استدلال كا بنيادى نكتہ يہ تھا كہ جس دليل كى بناپر تم لوگوں نے پہلے تين خلفاء كى خلافت قبول كى ہے اسى دليل كى بناپر ميرى خلافت تسليم كرو كيونكہ ميرى امامت '' بيعت امت ''اور ''شورى كے اتفاق و اجماع ''سے بالاتر درجات كى حامل ہے _

ان روايات كے جدلى ہونے كى دليليں

حضرت امير المؤمنين نے اپنى خلافت كے ابتدائي ايام ميں معاويہ كو خط لكھا جس ميں اسے قتل عثمان اوراپنے ساتھ لوگوں كى بيعت كى اطلاع دى اور اسے كہا كہ وہ بھى شام كے سركردہ افراد كو لے آئے اور بيعت كرے آپ (ع) نے فرمايا:

۱۲۹

''أمّا بعد ، فإنّ الناس قَتَلوا عثمان من غَير مشورة منّي، و بايَعونى عن مشورة منهم و اجتماع، فإذا أتاك كتابى فبايع لى و أوفد إليّ أشراف أهل الشام قبلك'' (۱)

اما بعد، لوگوں نے ميرے مشورے كے بغير عثمان كو قتل كرديا ہے اور اپنى رائے اور اجماع سے ميرى بيعت كرلى ہے _ جب ميرا خط تجھ تك پہنچے تو تم بھى ميرى بيعت كرلينا اور شام كے سركردہ افراد كو ميرى طرف بھيجنا _

معاويہ نے امام كے خط كا مثبت جواب نہيں ديا اور بيعت كى بجائے آپ (ع) كے خلاف جنگ كى تيارى كرنے لگا _ جنگ كيلئے اسے ايك بہانے كى ضرورت تھى لہذا امام كے مضبوط استدلال كے سامنے يہ بہانہ پيش كيا اولاً: حضرت على اور سابقہ خلفاء كے درميان فرق ہے _ اس طرح آپ كى امامت اور خلافت كى مخالفت كي_

ثانياً: يہ بہانہ كيا كہ حضرت عثمان كے قاتل حضرت على كے زير حمايت ہيں لہذا امام سے يہ كہا كہ قاتلين كو شام روانہ كريںتا كہ انہيں سزا دى جاسكے اور ان سے قصاص لينے كے بعد خليفہ كے انتخاب كيلئے مسلمانوں كى شورى تشكيل دى جائے گى _ در حقيقت معاويہ يہ كہنا چاہتا تھا كہ بيعت اور شورى حضرت على كى خلافت كو اہل شام كيلئے لازم قرار نہيں ديتى كيونكہ مدينہ اور بصرہ كے اشراف كے برعكس شام كے سركردہ افراد شورى ميں شامل نہيں تھے_ معاويہ كے گستاخانہ جواب كو مبرد نے يوں نقل كيا ہے _

''أما بعد، فَلَعَمرى لو بايعك القوم الَّذين بايعوك و أنت بري من دَم عثمان ، كنتَ كأبى بكر و عمر و عثمان، و لكنّك

____________________

۱) شرح نہج البلاغہ، ابن ابى الحديد جلد ۱ ص ۲۳۰_

۱۳۰

أغريت بعثمان المهاجرين و خذّلت عنه الأنصار ، فأطاعك الجاهل و قوى بك الضعيف، و قد أبى أهل الشام إلا قتالك حتّى تدفع اليهم قتلة عثمان، فإن فعلت كانت شورى بين المسلمين ''(۱)

اما بعد: مجھے اپنى جان كى قسم اگر لوگوں نے تيرى بيعت اس حالت ميں كى ہوتى كہ تو خون عثمان سے برى ہوتا تو پھر تو تم ابوبكر، عمر اور عثمان كى طرح ہوتے_ ليكن تم نے مہاجرين كو قتل عثمان اور انصار كو ان كى مدد نہ كرنے پراكسايا ہے _ پس جاہل نے تيرى اطاعت كى ہے اوركمزور تيرى وجہ سے مضبوط ہوگيا اوراہل شام كو تو تيرے ساتھ صرف جنگ كرنا ہے مگر يہ كہ تو عثمان كے قاتلوں كو ان كى طرف بھيج دے _ اگر تو نے ايسا كيا تو پھر خليفہ كے انتخاب كيلئے مسلمانوں كى شورى قائم ہوگي_

جنگ صفين كے دوران معاويہ نے ايك اور خط لكھا جس ميں اس نے شورى اور حضرت امير المؤمنين كى بيعت كو غير معتبر قرار ديا _ اس دليل كى بناپر كہ اہل شام نہ اس ميں حاضر تھے اور نہ اس پر راضى تھے

''فَلَعَمرى لو صحَّت خلافتك لكنت قريباً من أن تعذر فى حرب المسلمين ، و لكنّها ما صحت لك، أنّى بصحّتها و أهل الشام لن يدخلوا فيها و لم يرتضوا بها'' (۲)

مجھے اپنى جان كى قسم اگر تيرى خلافت صحيح ہوتى تو تيرا مسلمانوں كى جنگ ميں صاحب عذر ہونا قريب تھا ليكن وہ صحيح نہيں ہے كيونكہ اہل شام اس ميں داخل نہيںتھے اور اس پر راضى نہيں ہيں_

____________________

۱) الكامل، مبرد جلد۱ صفحہ ۴۲۳ _ شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ ۸۸_

۲) بحارالانوار جلد۳۳ صفحہ ۸۰ ، شرح نہج البلاغہ جلد۱۴ صفحہ ۴۲_

۱۳۱

معاويہ اہل شام كو يہ تأثر دينے ميں كامياب ہوگيا كہ خون عثمان كے قصاص سے بڑھ كر كوئي شئے اہم نہيں ہے اور خلافت على كيلئے جو بيعت اور شورى منعقدہوئي ہے وہ قابل اعتبار نہيں ہے لہذا ضرورى ہے كہ قاتلوں كو سزا دينے كے بعد شورى تشكيل پائے_ جنگ صفين ميں معاويہ كى طرف سے بھيجے گئے نمائندہ گروہ ميں سے ايك حبيب ابن مسلمہ نے حضرت على سے مخاطب ہوكر كہا _

''فَادفع إلينا قَتَلة عثمان إن زعمتَ أنّك لم تقتله_ نقتلهم به ، ثمّ اعتزل أمر الناس، فيكون أمرهم شورى بينهم ، يولّى الناس أمرهم من أجمع عليه رَأيهم'' (۱)

اگر تم سمجھتے ہو كہ تم نے عثمان كو قتل نہيں كيا تو پھر ان كے قاتل ہمارے حوالے كردو تا كہ ہم انہيں قتل كرديں_ پھر امر خلافت لوگوں كے سپرد كردو_ ايك شورى تشكيل پائے گى اور لوگ اپنے لئے جسے چاہيں گے اسے اتفاق را ے سے خليفہ منتخب كرليں گے _

اس قسم كى سركشى ، مخالفت اور ادلّہ كے سامنے حضرت امير المؤمنين نے ان امور سے استدلال كيا جو اُن كيلئے قابل قبول تھے حتى كہ دشمن بھى ان سے انكار نہيں كرسكتا تھا_ تمام مسلمان ، اہل شام اور حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كى مخالفت كرنے والے ، حتى كہ معاويہ بھى پہلے تين خلفاء كے طريقہ انتخاب كو مانتے تھے_ لہذا حضرت امير المؤمنين نے استدلال كے مقام پر ان افراد كے سامنے مہاجرين اور انصار كى بيعت اور شورى كے صحيح اور قابل اعتبار ہونے كو پيش كيا اور اپنى امامت كيلئے انہى مطالب سے استدلال كيا جو مخالفين كے نزديك مسلم اور قابل قبول تھے_

امام نے بيعت سے روگردانى كرنے والوں كو مخاطب كركے فرمايا:

____________________

۱) تاريخ طبرى جلد۵ صفحہ ۷ ، البدايہ والنہايہ جلد۷ صفحہ ۲۵۹_

۱۳۲

''أيّها الناس، إنّكم بايعتمونى على ما بويعَ عليه مَن كان قبلي، و انّما الخيارُ إلى الناس قبل أن يُبايعوا'' (۱)

اے لوگو تم نے ميرى بيعت انہى شرائط پر كى ہے جن پر تم نے مجھ سے پہلے والوں كى بيعت كى تھى اور لوگوں كو بيعت كرنے سے پہلے اختيار ہوتاہے _

معاويہ اور اہل شام كے مقابلہ ميں بھى اسى طرح استدلال كرتے ہوئے فرمايا:

كہ جن لوگوں نے مجھ سے پہلے والے خلفاء كو منتخب كيا تھا انہى لوگوں نے اصرار اور اپنى رضا و رغبت كے ساتھ ميرى بيعت كى ہے _ پس تم پر ميرى اطاعت اسى طرح واجب ہے جس طرح مجھ سے پہلے والے خلفاء كى اطاعت كرتے تھے _(۲)

حضرت امير المؤمنين ، معاويہ كو تنبيہ كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ اطاعت كيلئے تيرا بيعت كے وقت موجود ہونا ضرورى نہيں ہے كيونكہ پہلے تمام خلفا كى بيعت اور شورى ميں بھى تو موجود نہيں تھا_ فرمايا:

''لأنّ بيعتى فى المدينة لزمتك و أنت بالشام كما لزمتك بيعة عثمان بالمدينة و أنت أمير لعمر على الشام، و كما لزمت يزيد أخاك بيعة عمر و هو أمير لابى بكر على الشام'' (۳)

مدينہ ميں ميرى بيعت كا ہونا تجھ پر اطاعت كو واجب قرار ديتاہے چاہے تو شام ميں ہو جس طرح عثمان كى مدينہ ميں بيعت تيرے لئے لازم ہوگئي تھى جب كہ تو عمر كى طرف سے شام پر

____________________

۱) ارشاد شيخ مفيد جلد۱ صفحہ ۲۴۳_

۲) شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ۷۵_

۳) شرح نہج البلاغہ جلد۱۴ صفحہ ۴۴_

۱۳۳

حاكم تھا_ اور جس طرح تيرے بھائي يزيد كيلئے عمر كى بيعت لازم ہوگئي تھى جبكہ وہ ابوبكر كى طرف سے شام كا والى تھا_

مزيد فرمايا كہ معاويہ اور قريش طلقا ( آزاد كردہ ) ميں سے ہيں اور خليفہ كو مقرر كرنے والى شورى ميں شموليت كى اہليت نہيں ركھتے فرمايا :

( ''وَ اعلَم أنّك من الطُلَقاء الَّذين لا تَحلُّ لَهُم الخلافة و لا تعرض فيهم الشوري'' ) (۱)

اور جان لوكہ تم طلقا ميں سے ہو ، جو كہ خلافت كے حقدار نہيں ہيں اور شورى ميں بھى شموليت كى اہليت نہيں ركھتے_

''أما قولك إنّ أهل الشام هم الحُكّام على أهل الحجاز فهات رجلاً من قريش الشام يقبل فى الشورى أو تحلّ له الخلافة، فإن زعمتَ ذلك كذبك المهاجرون والانصار'' (۲)

اور تيرا يہ كہنا كہ اہل شام اہل حجاز پر حاكم ہيں تو يہ كيسے ممكن ہے كہ شام كے قريش كا ايك فرد شورى ميں قابل قبول ہو يا اس كيلئے خلافت جائز ہو _ اگر تو ايسا سمجھتاہے تو مہاجرين اور انصار تجھے جھٹلا ديںگے _

اسكے پيش نظر اور ان ادلّہ كو ديكھتے ہوئے جو امام كى امامت كے'' منصوب من اللہ ''ہونے پر دلالت كرتى ہيں كوئي شك و شبہہ باقى نہيں رہتا كہ امام كا تعيين خليفہ ميں بيعت اور شورى كے معتبر ہونے پر

____________________

۱) وقعة صفين صفحہ ۲۹_

۲) بحارالانوار جلد۳۲ ، صفحہ ۳۷۹ ، شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ ۸۹_

۱۳۴

تاكيد كرنا، اور يہ كہنا كہ خليفہ كا تقرر مہاجرين اور انصار كے ہاتھ ميں ہے از ''باب جدل'' تھا_ جس طرح آپ(ع) نے اسى ''جدال احسن'' كے ذريعہ اس وقت استدلال كيا تھا جب سقيفہ ميں حضرت ابوبكر كى بيعت ہوئي تھي_ انصار كے مقابلہ ميں قريش نے ابوبكر اور عمر كى رہبرى ميں آنحضرت (ص) - سے اپنى قرابت كو دليل قرار ديا تھا اور انصار نے اسى دليل كى بناپر خلافت، مہاجرين قريش كے سپرد كردى تھي_

حضرت على نے بھى اسى استدلال سے استفادہ كرتے ہوئے فرمايا: اگر خلافت كا معيار قرابت رسول (ص) ہے تو ميں سب سے زيادہ آنحضرت (ص) كے قريب ہوں _ تعيين امامت كيلئے اس قسم كے تمام استدلال ''جدلي'' ہيں كيونكہ آپ (ع) كى امامت كى دليل خدا كا آپ كو امام مقرر كرنا ہے آنحضرت (ص) سے قرابت آپ كى امامت كى دليل نہيں ہے _ امام نے معاويہ كو جو خط لكھا اس ميں اسى استدلال ''جدلي'' كا سہارا ليا_

''قالَت قريش مّنّا أمير و قالت الأنصار منّا أمير; فقالت قريش: منّا محمّد رسول الله (ص) فنحن أحقّ بذلك الأمر ، فعرفت ذلك الأنصار فسلمت لهم الولاية و السلطان فاذا استحقوها بمحمد (ص) دون الانصار فإنّ أولَى الناس بمحمّد أحقّ بها منهم'' (۱)

قريش نے كہا كہ امير ہم ميں سے ہوگا اور انصار نے كہا ہم ميں سے_ پھر قريش نے كہا كہ رسول خد ا (ص) ہم ميں سے تھے لہذا خلافت ہمارا حق ہے _ انصار نے اسے تسليم كرليا اور خلافت و ولايت ان كے سپرد كردى _لہذا جب محمد (ص) سے قرابت كى وجہ سے وہ خلافت كے مستحق قرار پائے ہيںنہ كہ انصار تو جو قرابت كے لحاظ سے محمد (ص) كے زيادہ قريب ہے وہ خلافت كا ان سے زيادہ حق ركھتاہے_

____________________

۱) وقعة صفين صفحہ ۹۱_

۱۳۵

ممكن ہے كوئي يہ كہے كہ ہم اسے تسليم كرتے ہيں كہ ائمہ معصومين كى ولايت كے اثبات كيلئے بيعت اور شورى كو معتبر قرار دينا استدلال جدلى ہے ليكن زمانہ غيبت ميں اسلامى معاشرہ كے حاكم كے تعين كيلئے بيعت اور شورى كو معتبر قرار ديا جاسكتاہے _ پس بنيادى لحاظ سے بيعت اور شورى ناقابل اعتبار نہيں ہيں بلكہ امام معصوم كے زمانہ ميں ائمہ معصومين كى امامت كى ادلّہ كو ديكھتے ہوئے ناقابل اعتبار ہيں ليكن زمانہ غيبت ميں قابل اعتبار ہيں _ دوسرے لفظوں ميں امام كا ''استدلال جدلي'' غلط مقدمات پر مشتمل نہيں تھا بلكہ يہ مقدمہ (بيعت اور شورى كا معتبر ہونا) صرف امام معصوم كے حضور كے زمانہ ميں ناقابل اعتبارہے وگرنہ بذات خود يہ معتبر ہے _ جو لوگ اس نظريہ كے حامى ہيں وہ لوگ امامكے استدلال جدلى كو زمانہ غيبت ميں اسلامى معاشرہ كے حاكم كے تقرر كيلئے بيعت اور شورى سے تمسك كى راہ ميں مانع نہيں سمجھتے _ اگر فقيہ عادل كى ولايت عامہ كى ادلّہ صحيح اور كامل ہيں تو پھر اس بحث كى گنجائشے نہيں رہتى يعنى جس طرح امام معصوم كى امامت كى ادلّہ سياسى ولايت كے تقرر ميں بيعت اور شورى كے كردار كو كالعدم قرار ديتى ہيں اسى طرح ولايت فقيہ كى ادلّہ بھى بيعت اور شورى كو كالعدم قرار ديتى ہيں _

بحثكے آخر ميں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ ہمارى بحث اس ميں ہے كہ يہ تحقيق كى جائے كہ سياسى تسلط كے جواز ميں بيعت اور شورى كا كيا كردار ہے _وگرنہ اس سے كسى كو انكار نہيں ہے كہ سياسى ولايت كا عينى اور خارجى وجود لوگوں كى رائے اور بيعت كے تابع ہے _ اكثر ائمہ معصومين اسى وجہ سے اپنى شرعى اور الہى ولايت كو لوگوں ميں عملى نہيں كروا سكے ، چونكہ لوگوں نے آپ كى اعلانيہ بيعت نہيں كى تھي_

۱۳۶

خلاصہ :

۱) خليفہ كے تقرر كے سلسلہ ميں بيعت اور شورى كے معت۱بر ہونے كے متعلق حضرت على سے منقول روايات ''جدل'' كے باب سے ہيں _اور ولايت كو انتخابى قرار دينے ميں ان ادلہ سے استدلال نہيں كيا جاسكتا_

۲) حضرت على كى امامت كى مخالفت كيلئے معاويہ كا ہدف بيعت اور شورى كو غير معتبر قرار دينا تھا تا كہ اس طرح آپ (ع) كى خلافت پر سوا ليہ نشان لگايا جاسكے_

۳) معاويہ يہ چاہتا تھا كہ حضرت عثمان كے قاتلوں كو سزا دينے كے بعد حاكم اور امام كے انتخاب كيلئے شورى تشكيل دى جائے جس ميں خود اس جيسے افراد بھى موجود ہوں _

۴ )اپنى خلافت كيلئے ہونے والى بيعت كى حقانيت ثابت كرنے كيلئے، حضرت امير المؤمنين نے ان امور كا سہارا ليا جو مسلمانوں كے نزديك مسلم اور قابل قبول تھے اور جن كامعاويہ اور اہل شام بھى انكار نہيں كرسكتے تھے_ پس آپ كا استدلال ''جدال احسن ''كے زمرے ميں آتاہے _

۵) حضرت اميرالمومنين كى امامت پر ادلّہ كا موجود ہونا ، اورآپ (ع) كا ان نصوص سے تمسك نہ كرنا اس بات كى دليل ہے كہ آپ كے يہ كلمات جدل كے باب سے تھے_

۶) اگر ولايت فقيہ كى ادلّہ صحيح اور مكمل ہوں تو زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كے متعلق'' نظريہ انتخابي''كيلئے ان روايات سے تائيد لانے كى نوبت نہيں آتى _

۱۳۷

سوالات:

۱)بيعت اور شورى كے متعلق حضرت امير المؤمنين سے منقول روايات سے سياسى ولايت كے انتخابى ہونے پر كيوں استدلال نہيں كيا جاسكتا؟

۲)حضرت على كے ساتھ سياسى تنازعہ ميں معاويہ كا استدلال كيا تھا؟

۳) حضرت امير المومنين نے معاويہ اور اہل شام كے استدلال كا كيا جواب ديا؟

۴) حضرت اميرالمومنين كے استدلال كے جدلى ہونے كے شواہد بيان كيجئے ؟

۵) كيا زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كے انتخابى ہونے كيلئے اس قسم كى روايات سے تمسك كيا جاسكتاہے؟

۱۳۸

تيسرا باب:

ولايت فقيہ كا معنى ، مختصر تاريخ اور ادلّہ

سبق ۱۵ : ولايت فقيہ كا معني

سبق۱۶: وكالت و نظارت فقيہ كے مقابلہ ميں انتصابى ولايت

سبق ۱۷ _۱۸: ولايت فقيہ كى مختصر تاريخ

سبق ۱۹ : ولايت فقيہ ايك كلامى مسئلہ ہے يا فقہي؟

سبق ۲۰،۲۱،۲۲ : ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ

سبق ۲۳ : ولايت فقيہ پر عقلى دليل

۱۳۹

تمہيد :

پہلے گذرچكاہے كہ شيعوں كا سياسى تفكر'' نظريہ انتصاب ''پر استوار ہے اور شيعہ معتقدہيں كہ ائمہ معصومين كى امامت اور ولايت خدا كى طرف سے ہے اور اس كا اعلان خود رسول خدا (ص) نے فرمايا ہے _ اہم سوال جو زير بحث ہے وہ يہ ہے كہ كيا زمانہ غيبت ميں فقہاء عادل كو ولايت عامہ اور ائمہ معصومين كى نيابت حاصل ہے ؟ مذكورہ باب اسى اساسى سوال كى تحقيق كے متعلق ہے _

اس باب ميں ابتداً ولايت فقيہ كا معنى واضح كيا جائے گا اور محل نزاع پر عميق نظر ڈالى جائے گى _ تا كہ اس كے متعلق جو غلط فہمياں ہيں انہيں دور كيا جاسكے_

اس كے بعد علمائ شيعہ كے اقوال اور ولايت فقيہ كى تاريخ پر ايك نگاہ ڈاليں گے _ ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ كى تحقيق اس باب كى اہم ترين بحث ہے اور اس سے پہلے يہ واضح كريں گے كہ مسئلہ ولايت فقيہ ايك كلامى بحث ہے يا فقہي؟ اس مسئلہ كا جواب براہ راست ان ادلّہ پر اثر انداز ہوتاہے جو ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے قائم كى گئي ہيں _ مسئلہ ولايت فقيہ كو كلامى سمجھنا يا كم از كم يہ اعتقاد ركھنا كہ مسئلہ فقہى ہونے كے ساتھ ساتھ اس ميں كلامى پہلو بھى ہے اس سے ولايت فقيہ پر عقلى ادلہ پيش كرنے كى راہ ہموار ہوجائے گي_

۱۴۰

پندرہواں سبق:

ولايت فقيہ كا معني

لغوى لحاظ سے ولايت '' و _ ل _ ي'' سے ماخوذ ہے _ واو پر زبر اور زير دونوں پڑھے جاتے ہيں _ اس كے ہم مادہ ديگر كلمات يہ ہيں _ توليت ، موالات ، تولّى ، وليّ، متولّي، استيلائ، ولائ، مولا، والى _

لغوى لحاظ سے ولايت كے متعدد معانى ہيں مثلاً نصرت ، مدد، امور غيركا متصدى ہونا اور سرپرستى وغيرہ_البتہ ان معانى ميں سے سرپرستى او رغير كے امور ميں تصرف ولايت فقيہ سے زيادہ مناسبت ركھتے ہيں_جو شخص كسى منصب يا امر كا حامل ہو اسے اس امر كا سرپرست، مولى اورولى كہا جاتاہے، بنابريں لفظ ولايت اور اس كے ہم مادہ الفاظ يعنى ولي، توليت ، متولى اور والى سرپرستى اور تصرف كے معنى پر دلالت كرتے ہيں اس قسم كے كلمات كسى دوسرے كى سرپرستى اور اس كے امور كى ديكھ بھال كيلئے استعمال ہوتے ہيں اور بتلاتے ہيں كہ ولى اور مولا دوسروں كى نسبت اس تصرف اور سرپرستى كے زيادہ سزاوار ہيںاور ولى و مولا كى ولايت كے ہوتے ہوئے دوسرے افراد اس شخص كى سرپرستى اور اس كے امور ميں تصرف كا حق نہيں ركھتے(۱)

____________________

۱) مولى اور ولى كے معانى كى مزيد تفصيل كيلئے كتاب الغدير ، جلد۱، صفحہ ۶۰۹ ، ۶۴۹ اور فيض القدير ،صفحہ ۳۷۵_ ۴۴۸ كى طرف رجوع كيجئے _

۱۴۱

قرآن كريم ميں جو الفاظ ان معانى ميں استعمال ہوئے ہيں _ وہ اللہ تعالى ، رسول -(ص) اور امام كيلئے استعمال ہوئے ہيں _

( '' إنَّمَا وَليُّكُمُ الله ُ وَرَسُولُهُ وَالَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم رَاكعُونَ'' ) (۱)

سواے اس كے نہيں كہ تمہارا ولى خدا ، اس كا رسول اور وہ مومن ہيں جو نماز قائم كرتے ہيں اور حالت ركوع ميں زكوة ديتے ہيں _

و ، ل ، ى كے مشتقات كے معانى اور قرآن و روايات ميں ان كے استعمال كى تفصيلى بحث ہميں ہمارى اصلى بحث سے دور كردے گى ، كيونكہ ولايت اور اس سے ملتے جلتے الفاظ يعنى والى اور ولى و غيرہ كا اصطلاحى معنى واضح اور روشن ہے_

جب ہم كہتے ہيں : كيا رسول خدا (ص) نے كسى كو مسلمانوں كى ولايت كيلئے منصوب كيا ہے ؟ يا پوچھتے ہيں : كيا زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل و لايت ركھتا ہے ؟ واضح ہے كہ اس سے ہمارى مراد دوستي، محبت اور نصرت وغيرہ نہيں ہوتي_ بلكہ اس سے مراد اسلامى معاشرہ كے امور كى سرپرستى ہوتى ہے _ ولايت فقيہ كا معنى يہ ہے كہ فقيہ عادل اسلامى معاشرہ كى سرپرستى اور حاكميت كا حقدار ہے اور اس شرعى اور اجتماعى منصب كيلئے منتخبكيا گيا ہے _

ولايت كى حقيقت اور ماہيت

ولايت فقيہ كى ادلہ كے ذريعہ فقيہ عادل كيلئے جو ولايت ثابت كى جاتى ہے وہ شرعى اعتبارات اور مجعولات ميں سے ہے _ فقاہت ، عدالت اور شجاعت جيسى صفات تكوينى ہيں جبكہ رياست اور ملكيت جيسے امور اعتباري

____________________

۱) سورہ مائدہ آيت ۵۵_

۱۴۲

اور وضعى ہيں _ اعتبارى اور وضعى امور ان امور كو كہتے ہيں جو جعل اور قرار دينے سے وجود ميں آتے ہيں يعنى بذات خود خارج ميں ان كااپنا وجود نہيں ہوتا_ بلكہ بنانے والے كے بنانے اور قرار دينے والے كے قرار دينے سے وجود ميں آتے ہيں _ لہذا اگر قرار دينے والا شارع مقدس ہو تو انہيں ''اعتبارات شرعي''كہتے ہيں اورا گر عقلاء اور عرف عام ہوں تو پھر انہيں ''اعتبارات عقلائي ''كہا جاتاہے_ (۱)

جو شخص فقيہ بنتاہے يا وہ شخص جو ملكہ عدالت اور تقوى كو حاصل كرليتاہے وہ ايك حقيقت اور ''تكوينى صفت'' كا حامل ہوجاتاہے _ليكن اگر كسى شخص كو كسى منصب پر فائز كيا گيا ہے اوراس كے لئے ايك حاكميت قرار دى گئي ہے تو يہ ايك حقيقى اور تكوينى صفت نہيں ہے بلكہ ايك قرار داد اور ''عقلائي اعتبار'' ہے ''امر اعتبارى ''اور'' امر تكوينى ''ميں يہ فرق ہے كہ '' امر اعتبارى '' كا وجود واضع اور قرار دادكرنے والوں كے ہاتھ ميں ہوتاہے_ ليكن ''تكوينى حقائق '' كسى بنانے والے يا قرار دينے والے كے ہاتھ ميں نہيں ہوتے كہ قرار كے بدلنے سے ان كا وجود ختم ہوجائے_

ولايت دو طرح كى ہوتى ہے _ تكوينى اور اعتبارى _ وہ ولايت جو فقيہ كو حاصل ہے اور ولايت فقيہ كى ادلہ سے جس كا اثبات ہوتاہے _'' ولايت اعتبارى ''ہے _ولايت تكوينى ايك فضيلت اور معنوى و روحانى كمال ہے _رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين كو دونوں قسم كى ولايت حاصل ہے آپ عصمت، عبوديت اور علم الہى كے اعلى مراتب پر فائز ہونے اور خليفہ خدا ہونے كى وجہ سے ولايت تكوينيہ اور الہيہ كے حامل محسوب ہوتے ہيں جبكہ مسلمانوں كى رہبرى اور قيادت كى وجہ سے سياسى ولايت ركھتے ہيں جو كہ ''ولايت اعتباري''ہے _ امام خمينى اس بارے ميں فرماتے ہيں :

____________________

۱) وہ حاكميت جس كا ايك قوم وقبيلہ اپنے سردار كيلئے اور ايك معاشرہ اپنے حاكم كيلئے قائل ہوتاہے ''اعتبارات عقلائي'' كے نمونے ہيں _ اسى طرح ٹريفك كے قوانين كہ سرخ لائٹ پر ركنا ہے يا يہ سڑك يك طرفہ ہے يہ تمام اعتبارات و مجعولات عقلائي كى مثاليں ہيں_

۱۴۳

جب ہم يہ كہتے ہيں كہ وہ ولايت جس كے رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين حامل تھے وہى ولايت زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل كو حاصل ہے تو كوئي ہرگز يہ نہ سمجھے كہ فقہاء كو وہى مقام حاصل ہے جو رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كو حاصل تھا، كيونكہ يہاں بات مقام كى نہيں ہے بلكہ فريضے اور ذمہ دارى كى ہے_ ولايت يعنى ''حكومت اورملك ميں شرعى قوانين كا اجرا'' ايك سنگين اور اہم ذمہ دارى ہے _ نہ يہ كہ كسى شخص كو ايك عام انسان سے ہٹ كر كوئي اعلى و ارفع مقام ديا جارہا ہے_ دوسرے لفظوں ميں مورد بحث ولايت يعنى حكومت اور اس كا انتظام بہت سے افراد كے تصور كے برعكس كوئي مقام نہيں ہے بلكہ ايك بھارى اور عظيم ذمہ دارى ہے ''ولايت فقيہ '' ايك ''امر اعتبارى عقلائي'' ہے _ لہذا جعل كے سوا كچھ بھى نہيں ہے (۱) _

ياد رہے كہ اس اعتبار سے كہ ولايت فقيہہ ، منصب حكومت اور معاشرتى نظام كے چلانے كو فقيہ كى طرف منسوب كرتى ہے_ ولايت فقيہ ايك'' اعتبار عقلائي ''ہے كيونكہ تمام معاشروں ميں ايسى قرارداد ہوتى ہے اور كچھ افراد كيلئے يہ منصب وضع كيا جاتاہے_ دوسرى طرف چونكہ يہ منصب اور اعتبار روايات معصومين اور شرعى ادلّہ سے فقيہ كو حاصل ہے اس لئے يہ ايك شرعى اعتبار اور منصب بھى ہے _ پس اصل ولايت ايك ''اعتبار عقلائي''ہے اور فقيہ كيلئے شارع مقدس كى طرف اس كى تائيد ايك ''اعتبار شرعى ''ہے _

اسلامى فقہ ميں دوطرح كى ولايت

ولايت كے متعلق آيات اور روايات كو كلى طور پر دو قسموں ميں تقسيم كيا جاسكتاہے يا دقيق تعبير كے مطابق فقہ ميں دو قسم كى ولايت پائي جاتى ہے_ ايك ولايت كا تعلق مومنين كے امور كى سرپرستى سے ہے يہ وہى ولايت ہے جو رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومينكى طرف سے ''زمانہ غيبت'' ميں'' فقيہ عادل '' كو حاصل

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۴۰ ، ۴۱_

۱۴۴

ہے _ اس سبق كى ابتدا ء ميں جو آيت ذكر كى گئي ہے _ وہ اسى ولايت كى طرف اشارہ كرتى ہے _ دوسرى ولايت وہ ہے جس ميں ان افراد كى سرپرستى كى جاتى ہے جو فہم و شعور نہيں ركھتے يا اپنے امور انجام دينے سے قاصر ہيں يا موجود نہ ہونے كى وجہ سے اپنے حق سے فائدہ نہيں اٹھاسكتے _ لہذا ضرورى ہے كہ ان كى طرف سے ايك ولى اپنى صواب ديد كے تحت انمحجور، غائب اور بے بس افراد كے امور كى سرپرستى كرے _

باپ اور دادا كى اپنے كم سن، كم عقل اور ديوانے بچوں پر ولايت، مقتول كے اولياء كى ولايت اورميت كے ورثا كى ولايت تمام ا سى ولايت كى قسميں ہيں _ درج ذيل آيات اسى ولايت كى اقسام كى طرف اشارہ كررہى ہيں_

( ''و من قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليّه سلطانا فلا يُسرف فى القتل'' ) (سورہ اسراء آيت۳۳)

جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس كے وارث كو ( قصاص كا) حق ديا ہے پس اسے چاہيے كہ قتل ميں زيادتى نہ كرے_

( ''فان كان الذى عليه الحق سفيهاً او ضعيفا او لا يستطيع ان يملّ هو فليملل وليه بالعدل'' ) (سورہ بقرہ آيت ۲۸۲)

اور اگر قرض لينے والا كم عقل يا معذور يا خود لكھوا نہ سكتا ہو تو اس كا سرپرست انصاف سے لكھوادے_

ان دو قسم كى ولايت كے درميان بنيادى فرق سے غفلت اور ان دونوں كو ايك ہى سمجھنے كى وجہ سے ولايت فقيہ كے بعض مخالفين ايك بڑى اور واضح غلطى كے مرتكب ہوئے ہيں _ وہ يہ سمجھنے لگے ہيں كہ ولايت فقيہ وہى محجور و قاصر افراد پر ولايت ہے اور ولايت فقيہ كا معنى يہ ہے كہ لوگ مجنون، بچے ، كم عقل اور محجور افراد كى طرح ايك سرپرست كے محتاج ہيں اور ان كيلئے ايك سرپرست كى ضرورت ہے_ لہذا ولايت فقيہ كا لازمہ لوگوں اور ان كے رشد و ارتكاء كى اہانت ہے _ آنے والے سبق ميں ہم اس غلط فہمى كا جواب ديں گے_

۱۴۵

خلاصہ

۱)ولايت كے متعدد معانى ہيں _ ولايت فقيہ سے جو معنى مراد ليا جاتاہے وہ ايك لغوى معنى يعنى سرپرستى اور تصرف كے ساتھ مطابقت ركھتاہے _

۲)ولايت فقيہ ''اعتبارات شرعى ''ميں سے ہے _

۳) معصومين '' ولايت اعتبارى ''كے علاوہ '' ولايت تكوينى ''كے بھى حامل ہيں جو كہ ايك كمال اور معنوى فضيلت ہے _

۴) فقہ ميں دو قسم كى ولايت پائي جاتى ہے_

الف:محجور و عاجز افراد پر ولايتب : مومنين كے اجتماعى امور كى سرپرستي

۵) وہ ولايت جو قرآن كريم ميں رسول خدا (ص) اور اولى الامر كيلئے ثابت ہے اور ان كى پيروى ميں فقيہ عادل كيلئے بھى ثابت ہے ولايت كى يہى دوسرى قسم ہے_

۶) ان دو قسم كى ولايت كے درميان اشتباہ اور دوسرى قسم كى ولايت كے وجود سے غفلت سبب بنى ہے كہ بعض افراد نے ولايت فقيہ كو اس ولايت كى قسم سمجھا ہے جو محجور اوربے بس افراد پر ہوتى ہے_

۱۴۶

سوالات:

۱) ولايت فقيہ كا اصطلاحى معنى ولايت كے كونسے لغوى معنى كے ساتھ مناسبت ركھتاہے ؟

۲)اس سے كيا مراد ہے كہ فقيہ عادل كى ولايت ايك'' امر اعتبارى ''ہے ؟

۳) ولايت تكوينى سے كيا مراد ہے ؟

۴) ولايت فقيہ اور ائمہ معصومين كى ولايت ميں كيا فرق ہے ؟

۵) محجور افراد پر ولايت سے كيا مراد ہے؟

۱۴۷

سولہواں سبق :

فقيہ كى وكالت اور نظارت كے مقابلہ ميں ولايت انتصابي

اس سبق كا مقصد اس امر كى مزيد وضاحت كرنا ہے كہ'' فقيہ كى ولايت انتصابى سے كيا مراد ہے''؟ اوران لوگوں كے اس نظريہ كے ساتھ اس كا كيا فرق ہے جو ''ولايت فقيہ'' كى بجائے ''وكالت فقيہ ''كے قا ئل ہيں يعنى فقيہ لوگوں كا وكيل ياوہ حكومتى امور پرنظارت كھنے والا ہے _ اس سے ولايت فقيہ كى بحث ميں محل نزاع كے واضح ہونے ميں مدد ملے گى ليكن اس بحث ميں داخل ہونے سے پہلےان غلط فہميوںكى طرف اشارہ كرديا جائے جو ولايت فقيہ كے معنى كے متعلق پائي جاتى ہيں _وہى غلط فہمى جس كى طرف گذشتہ سبق كے آخر ميں ہم اشارہ كرچكے ہيں _ فقيہ كى سياسى ولايت كے بعض مخالفين اس بات پر مصرہيں كہ ولايت فقيہ ميں ''ولايت'' كاوہ معنى كيا جائے جو دوسرے سياسى نظاموں ميں موجود سياسى اقتدار اور قانونى حاكميت سے بالكل مختلف ہے_ گويا اس نظام ميں سياسى اقتدار كى حقيقت مكمل طور پر دوسرے نظاموں كے سياسى اقتدار كى حقيقت سے مختلف ہے _اس فكر اور نظريہ كا منشاو سرچشمہ فقيہ كى ولايت سياسى اور اُس ولايت كو ايك ہى طرح كا قرار دينا ہے جو محجور اور بے بس افراد پرہوتى ہے _وہ يہ سمجھتے ہيں كہ مختلف فقہى ابواب ميں جس ولايت كا ذكر كيا جاتا

۱۴۸

ہے وہ ان موارد ميں ہوتى ہے جن ميں '' مولّى عليہ'' (جس پر ولايت ہو)محجور ،بے بس اور عاجز ہو پس ان لوگوں نے سياسى ولايت كو بھى اسى قسم كى ولايت خيال كيا ہے اور اس بات كے قائل ہوئے ہيں كہ فقيہ كى ولايت عامہ كا معنى يہ ہوا كہ معاشرہ كے افراد محجور وبے بس ہيں اور انھيں ايك ولى اور سرپرست كى ضرورت ہے_ لوگ رشد وتشخيص دينے سے قاصر ہيں اور اپنے امور ميں ايك سرپرست كے محتاج ہيں اس نظريہ كے حاميوں ميں سے ايك كہتے ہيں -:

ولايت بمعنى ''سرپرستي'' مفہوم اور ماہيت كے لحاظ سے حكومت اور سياسى حاكميت سے مختلف ہے كيونكہ ''ولايت'' وہ حق تصرف ہے جو ولى امر ''مولّى عليہ '' كے مخصوص مال اور حقوق ميں ركھتا ہے _وہ تصرفات جو ''مولّى عليہ '' عدم بلوغ و رشد اورشعور و عقل كى كمى يا ديوانگى كى وجہ سے اپنے حقوق اور اموال ميں نہيں كرسكتا _جبكہ حكومت يا سياسى حاكميت كا معنى ايك مملكت كوچلانا ہے _

اس قسم كے مطالب دوبنيادى نكات سے غفلت كى وجہ سے بيان كئے جاتے ہيں _

پہلا نكتہ يہ كہ فقہ ميں دو طرح كى ولايت پائي جاتى ہے _ايك وہ ولايت جو معاشرتى امور كى سرپرستى ہے كہ جس كا تعلق حكومت اور انتظامى امور سے ہے اور يہ ولايت اُس ولايت سے بالكل مختلف ہے جو محجور وقاصر افراد پر ہوتى ہے _ولايت كى يہ قسم قرآن كى رو سے رسولخدا (ص) اور اولى الامركيلئے ثابت ہے _كيا رسولخدا (ص) كا مسلمانوں كے ولى امر ہونے كا مطلب يہ ہے كہ صدر اسلام كے مسلمان محجوروعاجز تھے؟ اور اس دور كى ممتازاور سركردہ شخصيات ناقص تھيں ؟جيسا كہ كئي بار وضاحت كى گئي ہے كہ ولايت فقيہ وہى ائمہ معصومين كى ولايت كى ايك قسم ہے البتہ اس فرق كے ساتھ كہ ائمہ معصومين كى ولايت اس اعتبارى ولايت ميں منحصر نہيں ہے- بلكہ ائمہ معصومين مقامات معنوى اور تمام ترولايت و خلافت الہيہ كے بھى حامل

۱۴۹

ہيں _

دوسرانكتہ يہ كہ روايات كى روسے امام قيّم و سرپرست ہو تا ہے _ولايت اور امامت كے عظيم عہدہ كے فلسفہ كے متعلق فضل ابن شاذان امام رضا سے روايت نقل كرتے ہيں جس ميں امام كو دين خدا كے نگران اور قيّم،احكام الہى كے محافظ اور بدعتى و مفسد افراد كا مقابلہ كرنے والے كے طور پر متعارف كرواياگيا ہے _روايت كے الفاظ يہ ہيں :

''انه لولم يجعل لهم اماماً قيمّاً اميناً حافظاً مستودعاً ،لدرست الملّة وذهبت الدين وغيّرت السّنن ...فلولم يجعل لهم قيّماحافظاً لما جاء به الرسول (ص) لفسدوا'' (۱)

اگر خداوند متعال لوگوں كيلئے سرپرست، دين كا امين ، حفاظت كرنے والااور امانتوں كا نگران امام قرار نہ ديتا تو ملت كا نشان تك باقى نہ رہتا، دين ختم ہوجاتا اور سنتيں تبديل ہوجاتيں پس اگر خدا ،رسول اكرم (ص) كے لائے ہوئے دين كيلئے كسى كو سرپرست اور محافظ نہ بناتا تو لوگ اس دين كو تباہ كرديتے_

اس قسم كى روايات ميں موجود لفظ ''قيّم ''سے مراد وہ سرپرستى نہيں لى جا سكتى جو باپ اور ولى كو چھوٹے بچے يا كم شعور پر حاصل ہوتى ہے _كيونكہ قرآن اور روايات كى اصطلاح ميں'' قيّم ''اس چيز يا اس شخص كو كہتے ہيں جو خود بھى قائم ہو اور دوسروں كے قوام كا ذريعہ ہو_اسى لئے قرآن كريم ميں دين اور كتاب خدا كو اس صفت كے ساتھ متصف كيا گيا ہے _سورہ توبہ كى آيت ۳۶ ميں ارشاد ہو تاہے:

( ''ذلك الدين القيم '' ) يہى دين قيم ہے_

____________________

۱) بحارالانوار ج۶ ، صفحہ ۶۰ ، حديث ۱_

۱۵۰

سورہ روم كى آيت ۴۳ ميں ہے:

( ''فاقم وجهك للدّين القيّم ) ''

آپ اپنے رخ كو دين قيم كى طرف ركھيں_

سورہ بينہ كى آيت ۲ اور ۳ ميں ہے:

( ''رسولٌ من الله يتلوا صحفاً مطهّرة *فيها كتب قيّمة'' )

اللہ كى طرف سے رسول ہے جو پاكيزہ صحيفوں كى تلاوت كرتا ہے _ جن ميں كتب قيمة ہيں_

امام اور اسلامى معاشرہ كا سرپرست اس معنى ميں لوگوں كا قيّم ہے كہ وہ ان كيلئے مايہ انسجام اور زندگى كا سہارا ہو تا ہے _قرآن اور روايت ميں استعمال ہونے والے لفظ ''قيّم ''كو اس معنى ميں نہيں لياجاسكتا جو فقہى كتب ميں محجور وبے كس افراد كى سرپرستى كيلئے استعمال ہو تا ہے _بنابريں ولايت فقيہ كے منكرين كے اس گروہ كويہى غلط فہمى ہوئي ہے كہ انہوں نے فقيہ كى ولايت كو اسى قسم كى سرپرستى سمجھاہے جو محجور و قاصر افراد پرہو تى ہے(۱) _

ولايت انتصابى اور وكالت ونظارت ميں فرق

ولايت فقيہ كى بحث كا بنيادى اور اصلى محور يہ ہے كہ كيا ائمہ معصومين كى طرف سے فقيہہ عادل كو امت پر ولى نصب كيا گيا ہے ؟مسلم معاشرے كے سياسى اور اجتماعى امور كى ديكھ بھال، احكام كے اجرا اور امام معصوم كى نيابت كا اہم ترين فريضہ ادا كرنے كيلئے فقيہ كا امام كى طرف سے مقام ولايت پر منصوب ہونا درحقيقت ولايت فقيہ كى اصلى و بنيادى مباحث ميں سے ہے _''ولايت انتصابي'' كے معنى كى مزيد وضاحت كيلئے ضرورى ہے كہ ''ولايت انتخابي'' يا ''وكالت فقيہ'' سے اس كے فرق كى تحقيق كى جائے _جس طرح اس بات كى وضاحت بھى ضرورى ہے كہ'' ولايت فقيہ'' اور''نظارت فقيہ'' ميں كيا فرق ہے _

____________________

۱) مزيدتفصيل كيلئے كتاب'' حكومت ديني'' صفحہ۱۷۷تا۱۸۵كى طرف رجوع كيجئے_

۱۵۱

زمانہ غيبت ميں عادل اور جامع الشرائط فقيہ امام زمانہ(عجل اللہ فرجہ الشريف) كا نائب اور آپ كى طرف سے اسلامى معاشرہ كا منتظم و نگران ہو تا ہے _فقيہ عادل آپ كى طرف سے لوگوں پر ولايت ركھتا ہے يہ ''ولايت''،'' وكالت'' سے جدا ايك عہدہ ہے _فقيہ كى ''ولايت انتصابي'' اور ''ولايت انتخابى ''ميں بنيادى فرق اسى نكتہ ميں پوشيدہ ہے _''ولايت انتخابي'' كے نظريہ كى بنياد پر لوگ انتخاب اور بيعت كے ذريعہ فقيہ كو ''ولايت'' عطا كرتے ہيںگويا كہ لوگوں كا منتخب شدہ شخص ان كا وكيل اور مملكت كے انتظامى امور كا سرپرست ہو تا ہے_ ليكن فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''كے نظريہ كى بنياد پر فقيہ عادل لوگوں كا وكيل نہيں ہوتابلكہ اسے يہ منصب شرعى دليلوں اور امام كے منصوب كرنے سے حاصل ہو تا ہے _اور لوگوں كا اسے تسليم كرنا اور اسكى مدد كرنا،اسكے ''منصب اور ولايت'' ميں كوئي بنيادى كردار ادا نہيں كرتا_بلكہ ولايت كو بروئے كار لانے اور اس كے اختيارات كے عملى ہونے ميں مددگار ثابت ہو تا ہے دوسرے لفظوں ميں لوگوں كا فقيہ كى ولايت كو قبول كرلينا اسكى ولايت كے شرعى ہونے كا باعث نہيں بنتا_بلكہ لوگوں كى طرف سے حمايت اور ساتھ دينے سے اس كى مقبوليت اور خارجى وجود كا اظہار ہوتاہے _

''ولايت انتصابى ''كى حقيقت مكمل طورپر''حقيقت وكالت ''سے بھى مختلف ہے _وكالت ميں ايك مخصوص شخص يعنى وكيل ايك خاص مورد ميں ايك دوسرے شخص يعنى ''موكل'' كى جگہ پر قرار پاتا ہے اور اس كى طرف سے عمل انجام ديتا ہے _اصل اختيار موكل كے ہاتھ ميں ہوتا ہے وكيل انہى اختيارات كى بنياد پر كام كرتا ہے جو ايك يا چند موكل اسے ديتے ہيں _جبكہ ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا _حتى كہ اگر امام معصوم بھى ايك شخص كو وكيل اور دوسرے كو ولايت كے مقام پر منصوب فرمائيںتو ان دونوں كى حقيقت وحيثيت بھى ايك جيسى نہيں ہوتي_آيت الله جوادى آملى اس بار ے ميں كہتے ہيں :

۱۵۲

''ولايت'' اور'' وكالت'' ميں فرق ہے_ كيونكہ وكالت ''موكل'' كے مرنے سے ختم ہوجاتى ہے ليكن ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا يعنى اگر امام معصوم كسى كو كسى امر ميں اپنا وكيل قرار ديتے ہيں تو امام كى شہادت يا رحلت كے بعد اس شخص كى وكالت ختم ہوجاتى ہے_ مگر يہ كہ بعد والے امام اس كى وكالت كى تائيد كر ديں_ ليكن ولايت ميں ايسا نہيں ہوتا مثلا اگر امام كسى كو منصوب كرتے ہيں اور وہ آپ (ع) كى طرف سے كسى موقوفہ پر ولايت ركھتا ہو تو امام كى شہادت يا رحلت كے بعد اس شخص كى ولايت ختم نہيں ہوگى _ مگر يہ كہ بعد والے امام اس كو ولايت سے معزول كرديں_ (۱)

دوسرا نكتہ يہ ہے كہ'' ولايت فقيہ ''،''نظارت فقيہ ''سے مختلف ہے _ ولايت كا تعلق نظام كے چلانے اور اجراسے ہے_ ولايت اسلامى معاشرہ كے اہم ترين اور مختلف مسائل اور انتظامى امور كو اسلامى موازين اور قواعد كے مطابق حل كرنے كو كہتے ہيں_ جبكہ نظارت ايك قسم كى نگرانى ہے اور اجرائي عنصركى حامل نہيں ہوتى _ زمانہ غيبت ميں سياسى تفكر ميں محل نزاع ''فقيہ عادل كيلئے ولايت كا اثبات'' ہے جبكہ'' نظارت فقيہ'' موافقين اور مخالفين كے درميان محل نزاع و بحث نہيں ہے اصلى نزاع اور جھگڑا اس ميں ہے كہ كيا فقيہ عادل كو شريعت كى طرف سے ولايت پر منصوب كيا گيا ہے يا نہيں؟ لہذا اس باب ميں فقہى بحث كا محور ہميشہ ''ولايت فقيہ'' رہا ہے نہ كہ ''نظارت فقيہ''_

فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''كے نظريہ كى بنياد پر يہ سوال سامنے آتا ہے كہ جامع الشرائط فقيہ كيلئے يہ ولايت كس طرح محقق ہوتى ہے؟

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۳۹۵_

۱۵۳

كيا ہر عادل اور جامع الشرائط فقيہ ''شان ولايت'' ركھتا ہے يا ''بالفعل'' اس منصب پر فائزہے ؟

حق يہ ہے كہ اگر'' ولايت فقيہ ''پر روايات كى دلالت صحيح ہو تو پھر ہر ''جامع الشرائط فقيہ '' كيلئے منصب ''ولايت'' ثابت ہے_ اور يہ عہدہ '' اہل حل و عقد ''كے انتخاب يا رائے عامہ جيسے كسى اور امر پر موقوف نہيں ہے_ پس ولايت فقيہ كى ادلّہ كى روسے فقيہ عادل بالفعل ولايت كا حامل ہے _ جس طرح ہر فقيہ عادل بالفعل منصب قضا كا حامل ہوتا ہے اور جھگڑوں كا فيصلہ كر سكتا ہے_

ياد رہے كہ تمام ''و اجدالشرائط فقہاء ''جو كہ'' منصب ولايت ''كے حامل ہيں براہ راست معاشرے كے امور كى نگرانى كے عہدہ پر فائز نہيں ہوسكتے _ جس طرح ايك كيس كے سلسلہ ميں تمام قاضى فيصلہ نہيں دے سكتے _ واضح سى بات ہے كہ جب ايك ''جامع الشرائط فقيہ'' امور كى سرپرستى اپنے ذمہ لے ليتا ہے تو باقى فقہا سے يہ ذمہ دارى ساقط ہوجاتى ہے _ بنابريں ايك فقيہ عادل كو اہل حل و عقد كا منتخب كرنا يا عوام كا اسے تسليم كر لينا دوسرے فقہاء سے منصب ولايت كو سلب نہيں كرتا بلكہ جب تك ايك فقيہ عادل امور كى سرپرستى كر رہا ہے تو دوسروں سے يہ ذمہ دارى ساقط ہے_

۱۵۴

خلاصہ :

۱) جوافراد ولايت فقيہ كو اس ولايت كى قسم سمجھتے ہيں جو محجور و بے كس افراد پر ہوتى ہے وہ ولايت كى قانونى حقيقت و ماہيت كو دوسرے سياسى اقتدار كى قانونى حقيقت سے مختلف قرار ديتے ہيں_

۲) اس نظريہ كے قائلين ''فقيہ كى ولايت عامہ ''كو لوگوں كے كم شعور اور بے بس ہونے كا لازمہ سمجھتے ہيں_

۳) اس نظريہ كے قائلين اس سے غافل رہے ہيں كہ اسلامى معارف ميں لفظ ولايت كے مختلف استعمال ہيں_

۴) روايات ميں امام كومعاشرہ كا قيّم كہا گيا ہے_ اور ان روايات ميں ''قيم''،'' ذريعہ حيات و قوام '' كے معنى ميں استعمال ہوا ہے_ جس معنى ميں قرآن نے دين اور آسمانى صحيفوں كو'' قيّم ''كہا ہے_

۵) ''ولايت انتصابى ''مكمل طور پرلوگوں كى طرف سے ''ولايت انتخابي'' اور ''وكالت فقيہ '' كے نظريہ سے مختلف ہے_

۶) ولايت انتصابى ايك قانونى حقيقت ہونے كے لحاظ سے وكالت كى ماہيت سے مختلف ہے_

۷)'' ولايت فقيہ ''حاكميت اور امور كى سرپرستى كے معنى ميںہے لہذا'' نظارت فقيہ '' سے واضح فرق ركھتى ہے_

۸) ولايت فقيہ كى ادلّہ كى رو سے يہ ولايت بالفعل ہر جامع الشرائط فقيہ كو حاصل ہے _ يعنى ہر فقيہ عادل امام كى طرف سے منصوب ہوتا ہے اور اس كى ولايت شرعى ہوتى ہے_

۱۵۵

سوالات :

۱) كيا ولايت فقيہ كى قانونى حقيقت دوسرى حكومتوں كے سياسى اقتدار سے مختلف ہوتى ہے؟

۲) وہ افراد جو ولايت فقيہ كو وہ ولايت سمجھتے ہيں جو محجور افراد پر ہوتى ہيں_ انہوں نے كن نكات سے غفلت كى ہے؟

۳) فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''،''وكالت فقيہ ''سے كيا فرق ركھتى ہے؟

۴) كيا ولايت فقيہ اور نظارت فقيہ ايك ہى چيز ہے؟

۵) ولايت فقيہ كى ادلّہ كى روسے جامع الشرائط فقيہ كيلئے كس قسم كى ولايت ثابت كى جاسكتى ہے؟

۱۵۶

ستر ہواں سبق :

ولايت فقيہ كى مختصر تاريخ -۱-

ولايت فقيہ كى ابتداء آغاز فقہ سے ہى ہوتى ہے_ فقہ اور اجتہاد كى ابتدائ تاريخ سے ہى فقيہ كى بعض امور ميں ولايت كا اعتقاد پايا جاتا ہے _ اس وجہ سے اسے'' فقہ شيعہ'' كے مسلّمات ميں سے سمجھا جاسكتا ہے_ ولايت فقيہ كے متعلق جو شيعہ علماء ميں اختلاف پاياجاتا ہے_ وہ اس كى حدود وقيود اور اختيارات ميں ہے نہ كہ اصل ولايت فقيہ ميں_

قضاوت اور امور حسبيّہ(۱) جيسے امور ميں فقيہ عادل كى ولايت پر سب متفق ہيں_جبكہ اس سے وسيع تر امورميں اختلاف ہے_ يعنى معاشرہ كے سياسى اور انتظامى امور ميں فقيہ ولايت ركھتا ہے يا نہيں ؟ اسے

____________________

۱) امور حسبيّہ سے مراد وہ امور ہيں جن كے چھوڑ دينے پر شارع مقدس كسى صورت ميں بھى راضى نہيں ہے مثلاً بچوں ، ديوانوں اور بے شعور افراد كى سرپرستى _لفظ ''حسبہ' كے معنى اجر اور ثواب كے ہيں _ عام طور پر اس كا اطلاق ان امور پر ہوتا ہے جو اخروى اجر و ثواب كيلئے انجام ديئے جاتے ہيںاور كبھى قربت كے معنى ميں بھى استعمال ہوتا ہے _وہ كام امور حسبيّہ ميں شمار ہوتے ہيں جنہيں قربت خدا كيلئے انجام ديا جاتا ہے يا در ہے كہ امور حسبيّہ واجبات كفائي نہيں ہيں _ كيونكہ واجبات كفائي ان امور كو كہتے ہيں جنہيں ہر شخص انجام دے سكتا ہے اور بعض كے انجام دينے سے دوسروں سے ساقط ہوجاتے ہيں جبكہ امور حسبيّہ ميں تصرف كا حق يا تو صرف فقيہ عادل كے ساتھ مخصوص ہے يا پھر كم از كم فقيہ عادل كے ہوتے ہوئے دوسرے حق تصرف نہيں ركھتے _

۱۵۷

''ولايت عامہ فقيہ'' يا ''معصومين كى نيابت عامہ'' سے بھى تعبير كيا جاتا ہے_ فقيہ كى ولايت عامہ سے مراد يہ ہے كہ فقيہ عادل نہ صرف اجرائے احكام ، قضاوت اور امور حسبيّہ ميں امام معصوم كا نائب ہے بلكہ امام كى تمام قابل نيابت خصوصيات كا بھى حامل ہو تا ہے_

ولايت فقيہ كے بعض مخالفين يہ باور كرانا چاہتے ہيں كہ شيعہ فقہ كى تاريخ ميں ولايت عامہ فقيہ كى بحث ايك نئي بحث ہے جو آخرى دو صديوں ميں منظر عام پر آئي ہے جبكہ شيعہ فقہ كى طويل تاريخ ميں اس سے پہلے اس كا كوئي وجود نہيں ملتا حالانكہ فقاہت تشيع كے تمام ادوار ميں اس نظريہ كے قابل اعتبار قائلين موجود رہے ہيں بلكہ بعض بڑے بڑے شيعہ علماء و فقہاء نے اس كے متعلق فتوے بھى ديئے ہيں اور بعض علماء نے اس كے متعلق اجماع كادعوى بھى كيا ہے_ يہاں ہم صرف تين بزرگ فقہاء كے كلام كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

دسويں صدى كے عظيم شيعہ فقيہ جناب محقق كر كى جامع الشرائط فقيہ كيلئے امام كى نيابت عامہ كو اجماعى اور متفق عليہ سمجھتے ہيں اور كہتے ہيں : اس ولايت كا نہ ہونا شيعوں كے امور كے معطل ہونے كا باعث بنتا ہے_(۱)

عظيم كتاب ''جواہر الكلام'' كے مصنف اور نامور شيعہ فقيہ شيخ محمد حسن نجفى امر بالمعروف كى بحث كے دوران امام معصوم كے تمام مناصب ميں فقيہ عادل كى نيابت كو شيعہ علماء كے نزديك ايك مسلّم حقيقت سمجھتے ہيں _ ان كا كہنا ہے كہ فقيہ كى ولايت عامہ سے انكار شيعوں كے بہت سے امور كے معطل ہونے كا باعث بنتا ہے_ اور جنہوں نے فقيہ كى ولايت عامہ كا انكار يا اس ميں شك كيا ہے انہوں نے نہ تو فقہ كے مزہ كو چكھا ہے اور نہ ہى معصومين كے كلام كے رموز كو سمجھا ہے(۲) _آپ فرماتے ہيں:

____________________

۱) رسائل محقق كركى جلد ۱ ، صفحہ ۱۴۲، ۱۴۳_ رسالة فى صلاة الجمعة_

۲) آپ كى آنے والى عبارت كا ترجمہ بھى تقريبا يہى ہے ( مترجم)

۱۵۸

ثبوت النيابة لهم فى كثير من المواضع على وجه يظهر منه عدم الفرق بين مناصب الامام اجمع ، بل يمكن دعوى المفروغية منه بين الاصحاب، فانّ كتبهم مملوء ة بالرجوع الى الحاكم ، المراد منه نائب الغيبة فى سائر المواضع لو لا عموم الولاية لبقى كثير من الامور المتعلّقة بشيعتهم معطّلة _ فمن الغريب وسوسة بعض الناس فى ذلك بل كانّه ما ذاق من طعم الفقه شيئاً، و لا فهم من لَحن قولهم و رموزهم امراً (۱)

فقيہ متبحر آقا رضا ہمدانى فقيہ عادل كيلئے امام كى نيابت اور جانشينى كے مسلّمہ ہونے كے متعلق يوں فرماتے ہيں:

زمانہ غيبت ميں اس قسم كے امور (وہ امور عامہ جن ميں ہر قوم اپنے رئيس كى طرف رجوع كرتى ہے) ميں جامع الشرائط فقيہ كے امام كے جانشين ہونے ميں شك و ترديد معقول نہيں ہے جبكہ علماء كے اقوال بھى اس بات كى تائيد كرتے ہيں كيونكہ ان كے كلام سے ظاہر ہوتا ہے كہ يہ بات امور مسلّمہ ميں سے ہے اور يہ بات اس قدر واضح تھى كہ بعض علماء نے تو امام كى طرف سے فقيہ كى نيابت عامہ كى دليل ''اجماع'' كو قرار ديا ہے_(۲)

ہم اشارہ كر چكے ہيں كہ فقہ شيعہ كے طول تاريخ ميں زمانہ قدماء سے ليكر آج تك علمائ'' فقيہ كى ولايت

____________________

۱) جواہر الكلام فى شرح شرائع الاسلام جلد ۲۱، صفحہ ۳۹۶، ۳۹۷_

۲) مصباح الفقيہ جلد ۱۴، صفحہ ۲۹۱ كتاب الخمس _

۱۵۹

عامہ'' كے معتقد رہے ہيں اور عظيم فقہاء نے اسى كے مطابق فتوے ديئے ہيں_ بہتر ہے كہ ہم يہاں مختلف ادوار كے علماء كے اقوال ذكر كر ديں_

محمد ابن نعمان بغدادى متوفى ۴۱۳ھ جو كہ شيخ مفيدرحمة الله عليہ كے نام سے مشہور ہيں اور شيعوں كے بہت بڑے فقيہ شمار ہوتے ہيں_ مخالفين كے اس ادعا كو نقل كرنے كے بعد كہ اگر امام زمانہ عجل الله فرجہ الشريف كى غيبت اسى طرح جا رى رہى تو حدود الہى كا اجرا كسى پر واجب نہيں ہے_ كہتے ہيں:

فأما إقامة الحدود فهو إلى سلطان الاسلام المنصوب من قبَل الله تعالى و هم ائمة الهُدى من آل محمد(ص) و من نصبوه لذلك من الاُمراء والحكام ، و قد فَوَّضوا النظرَ فيه إلى فقهاء شيعتهم مع الامكان (۱)

حدود الہى كا اجرا حاكم شرعى كا كام ہے _ وہ حاكم شرعى جسے خدا كى طرف سے مقرر كيا گيا ہو اور وہ ائمہ اہلبيت ہيںيا وہ افراد جنہيں ائمہ معصومين حاكم مقرر كرديں اور ممكنہ صورت ميں انہوں نے يہ كام اپنے شيعہ فقہا كے سپرد كر ركھا ہے_

اس عبارت ميں شيخ مفيد حدود الہى كا اجرا اسلام كے حاكم كى ذمہ دارى قرار ديتے ہيں نہ كہ قاضى كى لہذا ان كا اس بات كى تاكيد كر نا كہ يہ كام جامع الشرائط فقيہ كى خصوصيات ميں سے ہے فقيہ كى ولايت عامہ كى دليل ہے _ كيونكہ صرف حاكم شرع ہى حدود الہى كو جارى كرسكتا ہے_ يہ بات درج ذيل دو روايات كے ساتھ مطابقت ركھتى ہے_

''عن حفص بن غياث قال : سألت اباعبدالله (عليه السلام)

____________________

۱) المقنعہ صفحہ ۸۱۰، كتاب الامر بالمعروف و النہى عن المنكر _

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367