اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت10%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143801 / ڈاؤنلوڈ: 3613
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

اسلامی نظریہ حکومت کے بارے میں بتیس سبق

مصنف : علی اصغر رضوانی

۳

پہلا باب :

دين اور سياست

سبق نمبر ۱: سياست اور اس كے بنيادى مسائل

سبق نمبر ۲: اسلام اور سياست

سبق نمبر ۳: دينى حكومت كى تعريف

سبق نمبر ۴ : سياست ميں حاكميت دين كى حدود

سبق نمبر ۵: دينى حكومت كے منكرين

سبق نمبر ۶: سيكولرازم اور دينى حكومت كا انكار

سبق نمبر ۷،۸: دينى حكومت كى مخالفت ميں كى ادلّہ

۴

تمہيد:

''دين اور سياست كا باہمى تعلق '' گذشتہ چند عشروں سے اسلامى معاشروں ميں ايك اہم ترين فكرى بحث كے طور پر سامنے آياہے _ ايران ميں ا سلامى انقلاب كى كاميابى اور اسلامى جمہورى نظام كى تشكيل نے اس بحث كو مزيد وسعت دى ہے _ اوراسلامى حكومت كو بہت سے لكھاريوں اور مفكرين كى توجہ كا مركز بنادياہے _

دينى حكومت كے مختلف پہلو قابل غور ہيں _ پہلے باب ميں ہمارى كوشش يہ ہے كہ ''دين اور سياست كے باہمى تعلق'' كے مختلف پہلوؤں كو اختصار كے ساتھ واضحكريں اور دينى حكومت كى ايك واضح تصوير آپ كے سامنے پيش كريں_ دينى حكومت كے تصور كوموجودہ دور كے بعض سياسى مفكرين كى شديد مخالفت كا سامنا ہے لہذا اس باب ميں ہم انكى مخالفت كى مختلف قسموں كاجائزہ ليتے ہوئے ان ميں سے بعض كى ادلة كے جواب ديں گے_

۵

پہلا سبق :

سياست اور اس كے بنيادى مسائل

انسان ايك اجتماعى موجودہے كيونكہ عاطفى ، اقتصادى اور ثقافتى ضروريات اسے ايك اجتماعى اور معاشرتى زندگى گزارنے پر مجبور كرتے ہيں _ گھرانہ ، خاندان ، قبيلہ، ديہات، شہر ، ملك اور قوم و ملت تمام اجتماعى زندگى كے مختلف جلوے ہيں اجتماعى زندگى ميں تمام افراد كے منافع اور ضروريات ايك دوسرے كے ساتھ مربوط ہوتے ہيں _ بنابريں ايسے موارد بھى آتے ہيں كہ جن كا تعلق پورے معاشرہ كے ساتھ ہوتاہے _ اور ہر فرد اپنے طور پر تنہا ان كے متعلق فيصلہ نہيں كرسكتا_

مثال كے طور پر اگر ہم ايك قبيلہ كو مدنظر ركھيں تو اگر چہ اس كا ہر فرد اپنے طور پر اپنے كچھ ذاتى مسائل كا فيصلہ كرسكتاہے اور اپنے ذاتى فيصلےكے مطابق عمل كر سكتاہے_ ليكن كسى دوسرے قبيلہ كے ساتھ جنگ يا صلح جيسے مسائل ميں اپنى انفرادى رائے كے مطابقفيصلہ نہيں كرسكتا_ كيونكہ جنگ يا صلح ايسے مسائل ہيں جوپورے معاشرے كے ساتھ مربوط ہيں نہ كہ انفرادى مسائل كہ معاشرے كا ہر فرد انفرادى طور پر ان كے متعلق فيصلہ كرے اور اپنى ذاتى تشخيص كے مطابق عمل كرے _

يہ حقيقت ہے كہ چھوٹے بڑے ہر معاشرے ميں كچھ اجتماعى مسائل اور مشكلات ہوتى ہيں كہ جن كے حل

۶

كرنے كيلئے اجتماعى فيصلوں كى ضرورت ہوتى ہے اور اسى حقيقت نے انسان كو'' رياست و حكومت ''كے قبول كرنے كى طرف راغب كيا ہے _ طول تاريخ ميں جہاں پر بھى انسانى معاشرہ رہاہے ''رياست اور حكومت'' كا وجود بھى اسكے ہمراہ رہاہے_ہر معاشرے نے چاہے وہ جس شكل ميں بھى ہو_ اپنے اجتماعى امور كى تدبير كيلئے ايك فرد يا چند افراد كو رئيس ، حاكم، امير، والى ، سلطان اور بادشاہ ايسے مختلف عناوين كے تحت قبول كيا ہے _

ہر انسانى معاشرے ميں ايك يا چند افراد ''سياسى اقتدار ''كے حامل ہوتے ہيں _ اور اس كے اجتماعى امور كى تدبير اور اجتماعى زندگى كے مختلف امور كو انجام دينا ان كى ذمہ دارى ہوتى ہے _ بنابريں ''سياست''(۱) كى يوں تعريف كى جاسكتى ہے :

'' سياست'' يعنى ايك معاشرے كے بڑے بڑے مسائل و مشكلات كے بارے ميں فيصلہ كرنا اور انكى تدبير كرنا_ يہ سرپرستى اس معاشرے كى مشكلات كو رفع كرنے ، مختلف امور كو منظم كرنے ، منصوبہ بندى اور اسكے اجراء كو شامل ہے _

____________________

۱)سياست لفظ '' سوس'' سے نكلاہے_ جس كے لغوى معنى رياست ، پرورش، سزا دينا اور رعايا كے امور كى ديكھ بھال كرنا ہے_

ابن منظور كہتے ہيں: السوس: الرياسة ،يقال: ساسوہم سوساً و ساس الا مرَ سياسة قام بہ (لسان العرب ج۶ ص ۱۰۸ ''سوس'')_

فيروز آبادى كہتے ہيں : سُستُ الرّعية سياسة : امرتہا و نہيتہا و سُوّسَ فلانٌ ا مرَ الناس صُيّر ملكاً (القاموس المحيط ص ۷۱۰ '' سوس'') سياسى لغت ناموں ميںسياست كى مختلف تعريفيں كى گئي ہيں ان ميں سے بعض كى طرف ہم اشارہ كرتے ہيں _

الف: انسانى معاشروں پر حكومت كرنے كے فن كو'' سياست'' كہتے ہيں _

ب:مختلف مسائل كے حل كے بارے ميں فيصلہ كرنا_

ج:ملكى امور كے انتظام كيلئے حكومت جن تدابير كو كام ميں لاتى ہے انہيں سياست كہتے ہيں _

د:اجتماعى امور كو منظم كرنے كيلئے حكومت جس طاقت كو بروئے كار لاتى ہے اس كے علم كو سياست كہتے ہيں _

۷

'' سياست'' كے بہت سے ديگر معانى بھى ہيں بطور مثال اگر ہم سياست كے عملى پہلو كو مدنظر ركھيں تو كہہ سكتے ہيں : سياسى قدرت كو حاصل كرنے كيلئے كوشش اور اسكى حفاظت اور تقويت كرناسياست كہلاتاہے_

اگر ہم سياست كے فكرى اور نظرياتى پہلو كو ديكھيں تو پھر يوں تعريف كرسكتے ہيں : سياسى طاقت حكومتى ڈھانچہ اور سياسى حكومت ميں مختلف گروہوں كے باھمى تعلقات كا مطالعاتى جائزہ، سياست كہلائے گا _

بہر حال سياست ، سياسى اقتدار سے متعلقہ ابحاث اور اجتماعى امور كى تدبير ہميشہ سے صاحبان فكر كى توجہ كا مركز رہى ہيں _ افلاطون كى كتاب '' جمہوريت ''، ارسطو كى كتاب'' سياست'' اور ابو نصر فارابى كى كتاب ''مدينہ فاضلہ'' اس بات كى شاہد ہيں كہ عظيم مفكرين كے نزديك سياست كے موضوع كو ہميشہ بڑى سنجيدگى سے ليا گيا ہے_ انسانى معاشروں كے دن بدن پيچيدہ ہونے اور ان كے ايك دوسرے كے ساتھ بڑھتے ہوئے سياسى ، اقتصادى اور ثقافتى تعلقات نے سياسى ابحاث كو مزيد اہميت كا،حامل بنادياہے اور انكى وسعت ميں مزيداضافہ كردياہے_

علم سياست اور سياسى فلسفہ(۱)

عنوان '' سياست'' كے تحت داخل مسائل بہت مختلف اور متنوع ہيں_'' علم سياست'' ، ''سياسى فلسفہ'' ، ''سياسى آئيڈيالوجي'' اور ''سياسى تجزيہ'' جيسے الفاظ ميں سے ہر ايك سياست كے ساتھ مرتبط مختلف امور كى تحقيقات اور مطالعات كے ايك گوشے كى طرف اشارہ ہے _ ان ميں سے بعض مطالعات عملى مباحث كے

___________________

۱) political philosophy

۸

ساتھ مختص ہيں جبكہ بعض كا تعلق نظرياتى پہلوسے ہے_ اس تنوع اور وسعت كا راز يہ ہے كہ سياسى سوالات اور سياسى افكار بہت ہى مختلف اقسام كے ہيں اور علم سياست كا ايك شعبہ ان تمام سوالات اور ضروريات كا جواب نہيں دے سكتا _ بعض سياسى سوالات اور احتياجات كا تعلق عمل سے ہے_ مثلا ايك ملك كے سياسى ماہرين اور سياستدان جاننا چاہتے ہيں كہ ہمسايہ اور دوسرے ممالك سے تعلقات قائم كرنے ميں انكا موقف كيا ہونا چاہيے اور عالمى سطح پر بين الاقوامى تعلقات كو كس طرح استوار كريں تو اس كيلئے ان كے پاس عالمى اور بين الاقوامى سطح پر قائم سياسى اقتدار اور طاقتوں كے متعلق اسى طرح جامع تجزيہ ہونا چاہيئےہ جس طرح قومى سطح پر ان كے لئے علاقہ كى سياست كے پيچ و خم سے آگاہ ہونا ضرورى ہے _ پس عالمى اور علاقائي حالات سے آگاہ ہونے كے بعد اپنے سياسى اہداف اور قومى منافع كو متعين كريں اور انتہائي دقت نظر سے طے كريں كہ ان كے دراز مدت اورمختصر مدت مفادات كونسے ہيں اس مرحلے كے بعد اگلے مرحلے ميں وہ اپنے سياسى اہداف كے حصول كيلئے ايك منظم لائحہ عمل تيار كريں اور وسيع پيمانے پر منصوبہ بندى كريں اور پھر بڑى باريك بينى سے انہيں عملى جامہ پہنائيں_

اس قسم كے سياسى مطالعات جو عملى پہلو كے حامل ہيں_'' علم سياست''، ''سياسى تجزيہ و تحليل'' اور'' لشكرى و فوجى مطالعات ''(۱) جيسے شعبوں كے ساتھ مماثلت ركھتے ہيں _ اور ان فنون اور شعبوں پر مسلط ہونا اس قسم كے سوالات اور مسائل كے جواب دينے كيلئے مفيد ثابت ہوسكتے ہيں_

دوسرى قسم كے سياسى سوالات اور مسائل كا تعلق علمى اور نظرياتيپہلو سے ہے_ عملى پہلوكى نسبت علمى پہلو عالَم سياست ميں بنيادى اور اساسى حيثيت ركھتا ہے_ يہاں پر ہم اس قسم كے چند سوالات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

____________________

۱) Strategie studies

۹

بنيادى طور پر ہميں حكومت كى احتياج كيوں ہے؟

حكومت كرنا كن افراد كا حق ہے؟

حكمرانوںاور سياسى اقتدار كے حاملين كى اطاعت كيوں ضرورى ہے؟

عوام كے مقابلے ميں حكمرانوں كے فرائض كياہيں؟

حكومت كے اہداف كيا ہونے چاہئيں؟

حكومت كس حد تك عوام كى آزادى كو محدود كرنے كا حق ركھتى ہے؟

كيا حكومت صرف مادى فلاح و بہبود اور امن و امان كى ذمہ دار ہے؟ يا معاشرے كى خوشحالى اوراسكي

روحانى ضروريات كو پورا كرنے كى بھى ذمہ دار ہے؟

معاشرہ كى خوشحالى اور خير و بركت سے كيا مراد ہے؟ اور اس كا معيار كيا ہے؟

معاشرتى امور كو چلانے اور انكى منصوبہ بندى كرنے ميں معاشرتى انصاف كا كيا كردار ہے؟

معاشرتى انصاف اور اقتصادى و انفرادى آزادى كے در ميان تضاد اور ٹكراو كى صورت ميں كسے ترجيح دى جائے گى ؟

اس قسم كے بنيادى سوالات كى تحقيق '' سياسى فلسفہ'' ميں كى جاتى ہے_

مختلف سياسى مكاتب كہ جنہيں ہم ''سياسى افكار و نظريات'' سے تعبير كرتے ہيں انہى سوالات كے جوابات كى بنياد پر تشكيل پاتے ہيں_ دوسرے لفظوں ميں ہر سياسى مكتب كى بنياد ايك مخصوص سياسى نظريہ ( سياسى فلسفہ) پر ہوتى ہے _ مثال كے طور پر'' لبرل ازم''(۱) ايك سياسى مكتب فكر ہے _ وہ ان سوالات كے

____________________

۱) Liberalism

۱۰

ايسے جواب ديتے ہيں جو بعض جہات سے دوسرے سياسى مكتب فكر مثلا اشتراكيت (۱) كى تعليمات سے بالكل مختلف ہوتے ہيں _ لبرل ازم فردي، اقتصادى اور ثقافتى آزادى كا حامى ہے_ اور اس نظريے كا قائل ہے كہ معاشرتى انصاف كے بہانے، ذاتى مالكيت اور اقتصادى آزادى پر قدغن نہيں لگايا جاسكتا_ لبرل ازم كى نظر ميں حكومت كے اختيارات محدود ہونے چاہيں_ حكومت كا كام صرف رفاہ عامہ ، امن و امان قائم كرنا اورانسانى حقوق كے بنيادى ڈھانچے كى حفاظت كرنا ہے _ سعادت ، خوشبختى ، معنويات اور اخلاقيات كا تعلق انسان كى انفرادى زندگى كے ساتھ ہے _ يہ حكومت كے فرائض ميں شامل نہيں ہيں _ اس كے مقابلہ ميں سوشلزم كہتاہے: معاشرتى انصاف كا قيام حكومت كى سب سے بڑى اور اہم ذمہ دارى ہے اسى لئے اقتصادى امور حكومت كے كنٹرول ميں ہونے چاہيں جبكہ ذاتى مالكيت يا تو بہت محدود ہونى چاہيے ياپھر اسكا سرے سے ہى خاتمہ كردينا چاہيے_يہاں پردو نكات كى وضاحت ضرورى ہے_

۱ : علم سياست اور سياسى تجزيہ و تحليل كے ساتھ مربوط بہت سے مسائل ہميشہ جديد اور تبديل ہوتے رہتے ہيں كيونكہ عالمى سطح پر حكومتيں اور سياسى تعلقات بدلتے رہتے ہيں_

اقتصادى ، ثقافتى اور سياسى تبديلياںعلاقائي اور عالمى سياست پر اثر انداز ہوتى ہيں جس كے نتيجہ ميں سياسى ماہرين كو ہميشہ نت نئے سوالات اور مسائل كا سامنا كرنا پڑتا ہے_ ليكن ''سياسى فلسفہ''كے متعلقہ مسائل

ميں كوئي تبديلى نہيں ہوتى يہ اساسى اور مخصوص مسائل ہوتے ہيں كہ جن سے سياسى ماہرين دوچار رہتے ہيں_

ہر سياسى ماہر جب اپنے مخصوص نظريات كے تحت ان سوالات كا جواب ديتا ہے تو اس سے ايك سياسى نظريہ يا مكتب تشكيل پاتا ہے_ لہذا ملكى يا بين الاقوامى سياست ميں تبديلى آنے سے يہ سياسى مكاتب تبديل نہيں ہوتے_

____________________

۱) socialism

۱۱

۲: ''سياسى فلسفہ'' كے دائرہ ميں بہت سے سوالات آتے ہيں_ جيسا كہ اوپر اشارہ ہوچكا ہے كہ ان سوالات كے جو جواب ديئے جاتے ہيں انہى كى بنياد پر سياسى مكاتب تشكيل پاتے ہيں اورا سى بنياد پر ان كى شناخت ہوتى ہے _ ليكن اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ ان مختلف سياسى مكاتب ميں كوئي وجہ اشتراك نہيں ہے اور سياسى فلسفہ كے تمام مسائل كے جوابات ايك دوسرے سے بنيادى فرق ركھتے ہيں_ ممكن ہے كہ ايك سياسى مكتب كى دوسرے سياسى مكاتب سے عليحد گى اورامتياز صرف ايسى ہى بعض مباحث ميں ہو_ اور بعض ديگر جہات سے وہ دوسرے سياسى مكاتب سے اتفاق نظر ركھتا ہو _ مثلا '' اشتراكى جمہوريت '' (۱) اور '' آزاد جمہوريت''(۲) جو كہ سياسى نظريات كے عنوان سے دو رقيب مكتب فكر ہيں ، اس نكتہ پر متفق ہيں كہ جمہوريت اور را ے عامہ سياسى حاكميت كے جواز كى بنياد ہے اور حكومت و حكمران كا انتخاب عوام كى را ے كى بنياد پر ہونا چاہيے اور ان دو مكاتب ميں اختلافى نكتہ يہ ہے كہ پہلا مكتب فكر معاشرتى عدل و انصاف پر زور ديتا ہے اور دوسرا شخصى آزادى و خصوصى مالكيت پر، ايك اشتراكيت كى بات كرتا ہے اور دوسرا انفراديت كى _

____________________

۱) Social Democracy

۲) Liberal Democracy

۱۲

خلاصہ

۱) ''رياست'' انسان كى اجتماعى زندگى كا جزء لاينفك ہے _ ہر معاشرہ اپنے اجتماعى امور كے نظم و تدبير كيلئے ايك يا چند افراد كے سياسى اقتدار كو تسليم كرتا ہے_

۲)'' سياست'' يعنى معاشرتى امور كى تدبير ، ہميشہ سے مفكرين كى توجہ كا مركز بنى ہوئي ہے_

۳) دنيائے سياست كے مختلف شعبے ہيں_ اسى لئے علم و تفكر كے متعدد گوشے اس كے مسائل كے ساتھ مربوط ہيں_

۴) علم سياست ، سياسى تجزيہ و تحليل اور سياسى نظريات كا عملى سياست كى مباحث كے ساتھ گہرا تعلق ہے_

۵)''سياسى فلسفہ ''سياست كى علمى اور بنيادى مباحث كو زير بحث لاتا ہے_

۶) ہر سياسى مكتب اور نظريہ كى بنياد ايك مخصوص سياسى فلسفہ پر ہوتى ہے_

۷) عملى سياست كو ہميشہ نت نئے مسائل اورموضوعات كا سامنا كرنا پڑتا ہے_ جبكہ سياسى فلسفہ كے متعلقہ مسائل ہميشہ ثابت اور استوار ہوتے ہيں_

۸) ممكن ہے مختلف سياسى مكاتب فكر سياسى فلسفہ كے بعض مسائل ميں ايك ہى را ے ركھتے ہوں_

۱۳

سوالات :

۱) كيا وجہ ہے كہ ہر انسانى معاشرہ ''حكومت اور سياسى اقتدار ''كا حامى اور خواہشمند ہوتا ہے؟

۲) سياست كى تعريف كيجئے؟

۳)علمى سياست كا كونسا شعبہ عملى سياست كے شعبوں كى تحقيق و بررسى كرتا ہے؟

۴) چند ايسے سوالات ذكر كيجئے جن كا جواب ''سياسى فلسفہ'' ديتا ہے؟

۵) لبرل ازم ايك سياسى مكتب فكر كے عنوان سے كن امور كا دفاع كرتا ہے؟

۶) روز مرہ كے سياسى اور اقتصادى تحولات سياسى مطالعات كے كس شعبہ پر اثر انداز ہوتے ہيں؟

۱۴

دوسرا سبق :

اسلام اور سياست

حكومت ايك اجتماعى ضرورت ہے_ چونكہ انسانى معاشرہ ايسے افراد سے تشكيل پاتاہے كہ جنكے مفادات ، تعلقات اور طرزتفكر متضاد اور متعارض ہيں لہذا اسے ايك حكومت كى ضرورت ہے_ انسانى اجتماع چاہے وہ ايك محدود اور مختصر شكل ميں ہى كيوں نہ ہو جس طرح ايك قبيلہ يا ديہات ، اُس ميں بھى رئيس و مرئوس (حاكم اور رعيت) كى ضرورت ہے _ مفادات كا ٹكراؤ ، باہمى تنازعات ، حق تلفى اور امن عامہ كو خراب كرنے والے عناصر ، ايسے عوامل ہيں جو ان امور كى ديكھ بھال كرنے والى اور نظم ونسق كو برقرار ركھنے والى مركزيت كا تقاضا كرتے ہيں _بنابريں اس مركزيت كے بغير كہ جسے ہم حكومت يا رياست كہتے ہيں معاشرہ نامكمل رہے گا اور اپنى بقا سے بھى ہاتھ دھو بيٹھے گا _ يہمركزيت سياسى اقتدار ،قوت فيصلہ اورقدرت امر و نہى كى حامل ہو گي_

جب خوارج نے اپنے فكرى انحطاط اور شورش طلب انداز ميں لا حكم الاللہ ( خدا كے سوا كسى كا حكم قابل قبول نہيں) كا نعرہ بلند كيا اور اسلامى معاشرے كيلئے حكومت و حكمرانى كى نفى اور اپنے اوپر صرف خدا كى حكومت كے خواہاں ہوئے تو اميرالمؤمنين نے فرمايا:

۱۵

انه لا بد للناس من امير برّ: اوفاجر ، يعمل فى امرته المؤمن ، و يَستمتعُ فيها الكافر، و يُبَلّغُ الله فيها الاجل، و يُجمع به الفيء ، و يقاتلُ به العَدو، و تأمن به السُبُل ، و يُؤخذ به الضعيف من القويّ، حتى يَستريحَ برّ ، و يستراح من فاجر (۱)

لوگوں كيلئے ايك حاكم كاہونا ضرورى ہے _ خواہ وہ اچھا ہو يا برا _ تا كہ مومن اس كے زير سايہ اپنے كام انجام دے سكے _ اور كافر اس كے عہد ميں لذائد سے بہرہ مند ہوگا _ اللہ تعالى اس نظام حكومت ميں ہر چيز كو اس كى آخرى حدوں تك پہنچا دے گا اسى حاكم كى وجہ سے مال غنيمت جمع ہوتا ہے، دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہيں،قوى سے كمزور كا حق دلايا جاتا ہے، يہاں تك كہ نيك لوگ خوشحال اور برے لوگوں سے امان پاتے ہيں _

امير المؤمنين كا يہ فرمان حكومت كے ضرورى ہونے كى نشان دہى كرتا ہے_ اور اس بات كا عند يہ ديتاہے كہ انسانى معاشرے كيلئے حكومت كى اتنى اہميت ہے كہ ايك غاصب اور فاجر و فاسق كى حكومت بھى معاشرہ كى بد امنى اور فقدان حكومت سے بہتر ہے كيونكہ حكومت اگر چہ فاسق و فاجر كى ہى كيوں نہ ہو بعض اجتماعى نقائص اور خاميوں كو چھپا ديتى ہے _ اور بعض اجتماعى ضروريات كو پورا كر تيہے _

قرآن و حديث كے مطالعہ سے واضح ہوجاتا ہے كہ اسلام نے ايك دينى فرمان يا حكم كے تحت مسلمانوں كو حكومت كى تشكيل كى دعوت نہيں دى كيونكہ لوگ خود بخود حكومت كى تشكيل كرتے ہيں اور اس كيلئے

____________________

۱) نہج البلاغہ خطبہ ۴۰_

۱۶

انہيں كسى دعوت ، ترغيب يا نصيحت كى ضرورت نہيں ہے اس نكتے كى طرف عظيم مفكر اور فيلسوف علامہ طباطبائي نے اپنى كتاب تفسير الميزان ميں اشارہ فرماياہے: قطعى طور پر لوگ اپنے معاشرے ميں حكومت اور رياست كے قائل ہيں _ اور اپنے انتظامى امور كيلئے ايك يا چند افراد كو سياسى اقتدار سونپ ديتے ہيں _ اسى لئے قرآن كريم نے لوگوں كو حكومت كى تشكيل كى دعوت نہيں دى بلكہ اسے ان ضرورى و بديہى امور ميں سے لياہے كہ جن ميں كسى دعوت يا تشويق كى ضرورت نہيں ہے _ وہ چيز جس كى طرف قرآن كريم لوگوں كو دعوت ديتاہے وہ محور دين پر اجتماع و اتفاق ہے_ (۱)

اس كے باوجود كيا حكومت اور سياست انسانى معاشرے كى ايك واقعى ضرورت كے عنوان سے دين اسلام كى مورد توجہ قرار نہيں پائي؟ يہ دين جس نے خود كو دين كامل اور خاتم الاديان كہا ہے، كيا يہ اس حقيقت سے آنكھيں بند كر كے گزرگيا اور اس كے متعلق كوئي ہدايت يا فرمان جارى نہيں كيا ؟ كيا اسلامى تعليمات صرف انسان كى انفرادى زندگى اور اس كے خدا كے ساتھ تعلق تك محدود ہيں؟ كيا اس دين مبين نے اجتماعى تعلقات ، معاشرتى امور كا نظم ونسق اور سياست و حكومت كوخود لوگوں كے حوالے كر دياہے؟ كيسے مان ليا جائے كہ وہ دين كامل جس نے پيدائشے سے ليكر وفات تك انسان كى زندگى كى بہت سى جزئيات ميں ہدايت و راہنمائي كى ہے، اس نے حكومت اور معاشرے كے نظم و نسق جيسے اہم امور جو كہ انسان كى شخصيت اور سعادت ميں اہم كردار ادا كرتے ہيں، كے متعلق كچھ نہيں كہا اور ان كے متعلق كسى قسم كا اظہار نظر نہيں كيا_

يہ تمام سوالات در حقيقت ايك سوال كو جنم ديتے ہيں كيا اسلام سياسى فكر كا حامل ہے ؟ اس سوال كے مثبت جواب كا مطلب يہ ہے كہ اگر چہ اصل حكومت كے بديہى ہونے كى وجہ سے اسلام نے اسے بيان

____________________

۱) تفسير الميزان ج ۳ ، ص ۱۴۴، ۱۴۹_ سورہ آل عمران آيت ۲۶ كے ذيل ميں_

۱۷

كرنے كى ضرورت محسوس نہيں كى ليكن اس كے متعلق اظہار نظر كيا ہے كہ حكومت كيسے كى جائے اور حكمرانى كا حق كسے حاصل ہے _ جس طرح اسلام نے گھريلو اور اجتماعى زندگى ميںلوگوں كے باہمى روابط كو بيان كيا ہے اسى طرح حكومت و سياست ميں حكمرانوں اور عوام كے باہمى تعلق اور ہر ايك كے حقوق اور ذمہ داريوں كو بھى بيان فرمايا ہے_

بنا بر يں معاشرتى اور سياسى ميدان سے اسلام كو حذف كرنا اوراسے ا نفرادى زندگى اور گوشہ نشينى كى طرف مائل كرنے والا دين قرار دينا اسے اپنى حقيقت سے جدا كرنے كے مترادف ہے _ اسلامى جمہوريہ ايران كے بانى امام خمينى (رح) ان بلند پايہ علماء اور فقہاء ميں سے تھے جنہوں نے اسلام كے اجتماعى اور معاشرتى پہلو پر خاص توجہ دى اور اس بات پر مصر تھے كہ اسلام كو راہبانہ دين قرار دينا در حقيقت اغيار اور استعمارى طاقتوں كى سازش ہے جن كى كوشش ہے كہ اس فكر كے ذريعہ اسلامى ممالك كى پسماندگى كے اسباب فراہم كئے جائيں_ امام خمينى فرماتے ہيں

اسلام ان مجاہدين كا دين ہے جو حق و عدالت كے خواہاں ہيں ان لوگو ں كا دين ہے جو آزادى اور استقلال كے چاہنے والے ہيں ، يہ استعمار كے خلاف جہد و جہد كرنے والوں كا مكتب ہے _ ليكن انہوںنے اسلام كوايك اور طرح سے پيش كيا ہے اورپيش كرتے ہيں _ لوگوں كے ذہنوں ميں اسلام كا غلط تصور ڈالا ہے علمى مدارس ميں اس كى شكل مسخ كركے پيش كى گئي ہے ، تا كہ اسلام كى جاودانى اور انقلابى خصوصيات كو اس سے چھين ليا جائے _ مثلا يہ تبليغ كر رہے ہيں كہ اسلام معاشرتى دين نہيں ہے ، دين حيات نہيں ہے، اس كے پاس معاشرتى نظام نہيں ہے ، كوئي قانون نہيں ہے ، كوئي حكومتى دستور نہيں ہے اور نہ ہى حكمرانى كا كوئي لائحہ عمل ہے(۱) _

____________________

۱) ولايت فقيہ ، ص ۴_

۱۸

سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے كى ادلّہ

اسلام ايك اجتماعى اور معاشرتى دين ہے ، اس كى حكومت و فرمانروائي انفرادى زندگى سے وسيع ترہے اوريہ مختلف اجتماعى اور سياسى روابط پر مشتمل ہے _ اس مدعا كو دو دليلوں سے ثابت كيا جا سكتا ہے _

الف _ استقرائي روش كے ساتھ ہم كتاب و سنت ميں غور كرتے ہيں اور مختلف فقہى ابواب ميں دينى تعليمات كا مطالعہ كرتے ہيں _ اس تدريجى اور ہمہ گير جستجو سے واضح ہو جائے گا كہ بعض صوفيانہ اور راہبانہ اديان جيسے بدھ مذہب او رعيسائيت كے بعض فرقوں كى طرح كيا اسلام بھى ايك انفرادى دين ہے كہ جس كا معاشرتى اور اجتماعى امور سے كوئي تعلق نہيں ہے ؟يا عبوديت ، خدا كے سامنے انسان كى بندگى كى كيفيت كے بيان ، لوگوں كے با ہمى تعلقات ، اخلاقيات او رمعنوى زندگى كے بيان كرنے كے ساتھ ساتھ اسلام نے انسان كى اجتماعى زندگى كے مختلف پہلوؤں كے بارے ميں بھى اظہار نظر كيا ہے اور انسان كى اجتماعى زندگى كے مختلف ابعاد ميں سے ايك ،مسئلہ حكومت و سياست بھى ہے _اس طرز جستجو كو ہم'' روش درون ديني'' كا نام ديتے ہيں كيونكہ اس ميں ہم اپنے سوال كا جواب براہ راست اندرون و باطن دين يعنى قرآن و سنت جو كہ اس كے اصلى منابع ہيں سے دريافت كريں گے _

ب_ سياست اور اجتماعى زندگى ميں اسلام كے دخيل ہونے كے اثبات كا دوسرا طريقہ اس دين مبين كے بعض اوصاف اور خصوصيات كے ساتھ تمسك ہے _ اسلام كابعض خصوصيات سے متصف ہونا ، مثلا يہ دين كامل ہے ، دين خاتَم ہے ، اس كى آسمانى كتاب يعنى قرآن كريم ہرشئے كى وضاحت كرنے والى ہے(۱) اور ان تمام امور پر مشتمل ہے جن پر انسان كى ہدايت اور سعادت موقوف ہے اس كا عقلى اور منطقى لازمہ يہ ہے

____________________

۱) سورہ نحل آيت ۸۹_

۱۹

كہ يہ دين اجتماعى امور ميں دخالت ركھتاہے _ اس استدلال سے معلوم ہوتاہے كہ كمال دين اوراس كے قلمرو ميں حكومت اور اجتماعى امور كا داخل ہونالازم و ملزوم ہيں _ اوراجتماعى امور اور سياست ميں دين كا راہنمائي نہ كرنا اس كے ناقص ہونے كى دليل ہے _اس دوسرے طرز استدلال كے بارے ميں ہم آئندہ مزيد گفتگو كريں گے _ يہاں صرف پہلے طرز استدلال يعنى روش جستجو (استقرائي روش) پرروشنى ڈالتے ہيں _

۱۳۴۸ ھ ش ميں نجف اشرف ميں جب امام خمينى نے دينى حكومت كے متعلق ابحاثكيں تو اسى پہلے طريقے سےسياست او راجتماعى امور ميں اسلام كى دخالت پر استدلال كيا_ انہوں نے اس نكتہ پر زور ديا كہ اسلامى قوانين اور شرعى احكام كى ماہيت اور كيفيت بتاتى ہے كہ يہ قوانين اسلامى معاشرہ كے سياسى ، اقتصادى اور ثقافتى امور كو منظم كرنے كيلئے بنائے گئے ہيں اور يہ احكام حكومت كى تشكيل كے بغيرقابل اجرا نہيں ہيں _ اس قسم كے احكام كے اجرا كيلئے مسلمانوں كى شرعى ذمہ دارى ہے كہ وہ ايك حكومت تشكيل ديں _ اس قسم كے احكام اسلامى فقہ كے تمام ابواب ميں بكھرے ہوئے ہيںبطور نمونہ ايسے بعض احكام كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

ان ميں سے ايك مورد ''اسلام كے مالى احكام'' ہيں _ اسلام ميں جو ماليات مقرر كئے گئے ہيں وہ صرف غرباء اور سادات كى ضروريات پورى كرنے كيلئے نہيں ہيںبلكہ ايك عظيم حكومت كى تشكيل او راس كے ضرورى اخراجات پورے كرنے كيلئے بھى ہيں كيونكہ وہ اموال جن كا تعلق مسلمانوں كے بيت المال سے ہے ان ميں سے ايك ''خمس '' ہے _ فقہ اہلبيت كے مطابق زرعى منافع ،كاروبار، زمين كے اوپر اور زمين كے نيچے موجود تمام ذرائع آمدنى ميں سے اور بطور كلى ہر قسم كے فائدے اور منفعت ميں سے عادلانہ طور پر خمس ليا جاتاہے _ واضح سى بات ہے كہ اس قدر كثير در آمد ايك اسلامى مملكت كو چلانے اور اس كے مالى اخراجات كو پورا كرنے كيلئے ہے وگرنہ اس قدر سرمايہ فقيرسادات كى ضروريات سے بہت زيادہ ہے _ اس قدر وسيع بجٹ

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

( وماأَرسلنا من رسول الابلسان قومه لیبیّن لهم ) ...)( ۱ )

ہم نے ہر پیغمبر کو اسی کی زبان میں مبعوث کیا تاکہ انہیں سمجھا سکے اور وضاحت کرسکے۔

نیز سورۂ اعراف اور ہود میں فرماتا ہے:( و الیٰ عاد اخاه هودا ) اور قوم عاد کی طرف '' نوح کے بھائی ہود'' کو بھیجا نیز سورۂ اعراف ، ہود اور نمل میں فرماتا ہے : و الیٰ ثمود اخاہ صالحاً میں نے قوم ہود کی طرف '' ان کے بھائی صالح'' کو بھیجا اور سورۂ اعراف، ہود اور عنکبوت میں فرماتا ہے :( والیٰ مدین اخاه شعیبا ) ؛ مدین کی طرف ''ان کے بھائی شعیب'' کو مبعوث کیا ۔

اس انتخاب کی حکمت بھی واضح ہے، کیونکہ خد اکا رسول اپنی قوم کے درمیان اپنے خاندان اور رشتہ داروں کی وجہ سے قوی اور مضبوط ہوتا ہے اور تبلیغی وظائف کی انجام دہی میں مدد ملتی ہے ، جیساکہ خد اوند عالم نے سورۂ ہود میں قوم شعیب کی داستان بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کی قوم نے ان سے کہا:( ولو لا رهطک لرجمناک ) اگر تمہارے عزیز و اقارب نہ ہوتے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیتے۔خد اپیغمبروں کو لوگوںکی ہدایت اور ان پر حجت تمام کرنے کے لئے بھیجتا ہے جیسا کہ سورۂ نساء میں فرمایا:

( ورسلاً مبشرین و منذرین لئلا یکون للناس علٰی الله حجة بعد الرسل )

ایسے رسول جو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تھے، تاکہ ان پیغمبروںکے بعد لوگوں کے لئے خدا پر کوئی حجت نہ رہ جائے اور سورۂ اسراء میں فرماتا ہے:( ۲ )

( وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولاً )

ہم اس وقت تک عذاب نہیںکرتے ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں۔( ۳ )

اورسورۂ یونس میں فرماتا ہے :

( ولکل امة رسول فاذا جاء رسولهم قضی بینهم بالقسط وهم لا یظلمون ) ( ۴ )

ہر امت کے لئے ایک پیغمبر ہوگا، جب ان کے درمیان پیغمبر آجائے گا تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہوگا اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔

جو امتیں پیغمبر کی نافرمانی کرتی ہیں وہ دنیاوی اور اخروی عذاب کی مستحق ہوجاتی ہیں جیسا کہ خداوند عالم فرعون اور اس سے پہلے والی امت کی خبر دیتے ہوئے سورۂ حاقہ میں فرماتا ہے :

____________________

(۱)ابراہیم۵(۲)نسائ۱۶۵(۳)اسرائ۱۵(۴)یونس۴۷

۲۰۱

( فعصوا رسول ربهم فأخذهم أخذةرابیة )

انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی تو خدا وند عالم نے انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کیا۔( ۱ )

پیغمبر کی نافرمانی بعینہ خدا کی نافرمانی ہے ، جیسا کہ سورۂ جن میں ارشاد فرماتا ہے:

( ومن یعص الله و رسوله فان له نار جهنم خالدین فیها ابداً )

جو بھی خد ااور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔( ۲ )

خدا وند عالم نے رسولوں کو انبیاء کے درمیان سے منتخب کیا اور ہمیشہ رسولوں کی تعداد انبیاء سے کم ہے جیسا کہ ابوذر کی روایت میں ہے کہ انہوںنے کہا:

و قلت یا رسول الله :''کم هو عدد الانبیائ، قال : ماة الف و اربعة و عشرون الفاً الرسل من ذلک ثلاثمأة و خمسة عشر جما غفیراً ۔''

ابوذر نے کہا: یا رسول اللہ: انبیائ(ع) کی تعداد کتنی ہے ؟ فرمایا: ایک لاکھ چوبیس ہزار ، اس میں سے تین سو پندرہ رسول ہیں ان کی مجموعی تعداد یہی ہے ۔( ۳ )

جو میں نے بیان کیا اس اعتبار سے ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے ، جیسا کہ ''یسع'' رسول نہیں تھے لیکن نبی اور موسیٰ کلیم اللہ کے وصی تھے۔

بعض پیغمبر جو شریعت لیکر آئے، انہوں نے بعض گز شتہ شریعت کے مناسک کو نسخ کر دیا جیساکہ حضرت موسیٰ کی شریعت اپنے ما قبل شریعتوں کے لئے ایسی ہی تھی، بعض پیغمبر کچھ ایسی شریعت لیکر آئے جو سابق شریعت کی تجدید کرنے اور کامل کرنے والی تھی، جس طرح حضرت خاتم الانبیاء کی شریعت ابراہیم خلیل کے آئین حنیف کی نسبت، خدا وند سورۂ نحل میں فرماتا ہے :

( ثم اوحینا الیک ان اتبع ملة ابراهیم حنیفاً )

پھر ہم نے تمہاری طرف وحی کی کہ حضرت ابراہیم کے خالص آئین کا اتباع کرو...( ۴ )

اور سورۂ مائدہ میں ارشاد ہوتا ہے :

____________________

(۱)حاقہ۱۰(۲)جن۲۳

(۳)مسند احمد، ج۵، ص ۲۶۵۔۲۶۶، معانی الاخبار، صدوق ص ۳۴۲، خصال، طبع مکتبہ صدوق، ج۲ ص ۵۳۳، بحار الانوار، ج۱۱، ص ۳۲، حدیث ۲۴، مذکورہ روایت کی عبارت مسند احمد سے اخذ کی گئی ہے ۔ (۴) نحل۱۲۳

۲۰۲

( الیوم اکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً ) ( ۱ )

آج تمہارے لئے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور اسلام کو تمہارے لئے آئین کے عنوان سے پسند کیا۔

آئندہ بحث میں انبیاء کے وصیوں کی خبروں کی تحقیق کریں گے۔

ج۔ وصی و وصیت

وصی کتاب اور سنت میں ، ایک ایسا انسان ہے جس سے دوسرے لوگ وصیت کرتے ہیں تاکہ اس کے مرنے کے بعد ان کی نظر میں قابل توجہ امور پر اقدام کرے خواہ، اس لفظ اور عبارت میں ہو کہ '' میں تمہیں وصیت کر رہا ہوں کہ میرے بعد تم ایسا کرو گے ، یاان الفاظ میں ہو: میں تم سے عہد لیتا ہوں اور تمہارے حوالے کرتا ہوں کہ میرے بعد ایسا ایسا کرو گے اس میں ، کوئی فرق نہیں ہے ، جس طرح سے وصیت کے بارے میں دوسروں کو خبر دینے میں بھی لفظ وصی اور وصیت وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے اور اگر یہ کہے : فلاں میرے بعد میر اوصی ہے ، یا کہے : فلاں میرے بعد ایسا ایسا کرے گا یا جو بھی عبارت وصیت کا مفہوم ادا کرے اور اس پر دلالت کرے کافی ہے۔

نبی کا وصی بھی ،وہ انسان ہے جس سے پیغمبر نے عہد و پیمان لیا ہو تاکہ اس کے مرنے کے بعد امور شریعت اور امت کی ذمہ داری اپنے ذمے لے اور اسے انجام دے۔( ۲ )

انبیاء کے وصیوں کے بارے میں جملہ اخبار میں سے ایک یہ ہے جسے طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہہے : جناب حوا نے حضرت آدم کی صلب سے ''ھبة اللہ'' کوجو کہ عبرانی زبان میں ''شیث'' ہے جنم دیا تو حضرت آدم نے انہیں اپنا وصی قرار دیا، حضرت شیث سے بھی ''انوش'' نامی فرزند پیدا ہوا اور انہوں نے اسے بیماری کے وقت اپنا وصی بنایا اور دنیا سے رحلت کر گئے ، پھر اس کے بعد'' انوش'' کی اولاد ''قینان'' اور دیگر افراد دنیا میں آئے کہ اپنے باپ کے وصی ' 'قینان'' بنے، قینان سے بھی ''مھلائیل الیرد'' اور دیگر گروہ وجود میں آئے کہ جس میں وصیت ''یرد'' کے ذمہ قرار پائی، یرد سے بھی ''خنوخ'' کہ جن کو ادریس کہا جاتا ہے، دیگر فرزندوں کے ساتھ پیدا ہوئے اور جناب ادریس اپنے باپ کے وصی بنے اور ادریس سے ''متوشلخ'' اور کچھ دیگر افراد پیدا ہوئے اور وصیت ان کے ذمہ قرار پائی۔

____________________

(۱) سورۂ مائدہ ۳(۲)مزید تفصیل کیلئے،''فرہنگ دو مکتب در اسلام''، ج۱ ص بحث وصی کی طرف رجوع کریں۔

۲۰۳

ابن سعد نے اپنی کتاب '' طبقات'' میں جناب ادریس کے بارے میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: سب سے پہلے پیغمبر جو آدم کے بعد مبعوث ہوئے ادریس تھے اور وہ ''خنوخ بن یرد'' ہیں۔

اور خنوخ سے بھی 'متوشلخ'' اور کچھ دیگر اولاد پیدا ہوئی اور وصیت ان کے ذمہ قرار پائی اور متوشلخ سے ''لمک'' اور کچھ دیگر اولاد پیدا ہوئی اور وہ اپنے باپ کے وصی ہو گئے اور لمک سے حضرت ''نوح'' پیداہوئے۔( ۱ )

مسعودی نے ''اخبار الزمان'' میں ایک روایت ذکر کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

خد اوند عالم نے جب حضرت آدم کی روح قبض کرنی چاہی ، تو انہیں حکم دیا کہ اپنے فرزند شیث کو اپنا ''وصی'' قرار دیں اور ان علوم کی انہیں تعلیم دیں جو اللہ نے انہیں دیا ہے تو انہوںنے ایسا ہی کیا اور نقل کیا ہے : شیث نے اپنے بیٹے قینان کو صحف کی تعلیم دی زمین کے محاسن اچھائیوں اور ذخائر کو بیان کیااس کے بعد انہیں اپنا وصی بنایا اور نماز قائم کرنے،زکوٰة دینے ، حج کرنے اور قابیل کی اولاد سے جہاد کرنے کا حکم دیا ۔ انہوںنے اپنے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور سات سو بیس سال کے سن میں دنیا سے رخصت ہوئے۔

قینان نے اپنے فرزند ''مہلائیل'' کو وصی بنایا اور انہیں جس کی خود انہیں وصیت کی گئی تھی وصیت کی مہلائیل کی عمر۸۷۵ سال تھی، انہوںنے بھی اپنے فرزند ''بوادر'' کو وصی بنایاانہیں صحف کی تعلیم دی اور زمین کے ذخیروں او رآئندہ رونما ہونے والے حوادث سے آگاہ کیا او ''سرِّ ملکوت'' نامی کتاب انہیں سپرد کی، یعنی وہ کتاب جسے مہلائیل فرشتے نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی اور اسے سربستہ اور دیکھے بغیر ،ایک دوسرے سے وراثت میں پاتے تھے، بوارد سے ''خنوخ'' نامی فرزند پیدا ہو ایہ وہی ادریس نبی ہیں کہ خد اوند عالم نے انہیں عالی مقام بنایا انہیں ادریس اس لئے کہتے ہیں کہ انہوںنے خدا وند عز و جل کی کتابوں اور دین کی سنتوں کو بہت پڑھا اور اس پر عمل کیا ہے ، خدا وند عالم نے ان پر تیس عدد صحیفے نازل کئے کہ ان کو ملاکر اس زمانے میں نازل ہونے والے صحیفے کامل ہوئے۔''یوارد'' نے اپنے فرزند ''خنوخ'' (ادریس) کو اپنا وصی بنایا اور اپنے باپ کی وصیت ان کے حوالے کی اور جو علوم ان کے پاس تھے ان کی تعلیم دی اور'' مصحف سر'' اُن کے حوالے کیا...۔

یعقوبی نے اخبار اوصیاء کو سلسلہ وار اور طبری و ابن اثیر سے زیادہ بسط و تفصیل سے نقل کیا ہے اس کے علاوہ دوسرے کی اخبار بھی وصیت کے سلسلہ میں ذکر کئے ہیں ، مثال کے طور پر کہتا ہے : حضرت آدم کی

____________________

(۱)تاریخ طبری، طبع یورپ، ج۱ ص ۱۵۳۔۱۶۵، ۱۶۶، تاریخ ابن اثیر، ج۱ ص ۱۹، ۲۰، شیث بن آدم کے بارے میں ، طبقات ابن سعد، ج۱ ص ۱۶، ابن کثیر نے بھی اپنی تاریخ میں حضرت آدم کی وصیت کا ،جو انہوں نے اپنے شیث کو کی تھی، ذکر کیا ہے ۔

۲۰۴

وفات کے وقت ان کے فرزند شیث اوردوسرے بیٹے،پوتے ان کے پاس آئے تو انہوںنے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خداسے برکت اور کثرت طلب کی اور اپنے بیٹے شیث کو اپنا وصی بنایا اور ذکر کیا ہے :

حضرت آدم کی موت کے بعد آپ کے فرزند شیث آ گے بڑھے اور اپنی قوم کو تقوای الٰہی اور عمل صالح کا حکم دیا...یہاں تک کہ شیث کی وفات کے وقت ان کے فرزند اور پوتے کہ اس دن انوش، قینان، مہلائیل یرد اور خنوخ تھے اور ان کے بچے اور بیویاں ان کے قریب آئیں اور شیث نے ان پر درود بھیجا اور خدا وند عالم سے ان کے لئے برکت ، ترقی اور زیادتی کی درخواست کی اور ان کی طرف مخاطب ہو کر انہیں قسم دی کہ.... قابیل ملعون کی اولاد سے معاشرت نہیں کریں گے اور فرزند انوش کو وصی بنایا۔

یعقوبی اس طرح سے سلسلہ وار اوصیاء کی خبروں کو ان کے زمانہ کے وقایع کے ذکر کے ساتھ حضرت نوح کی خبر وصیت تک پہنچ کر کہتاہے : حضرت نوح کی وفات کے وقت آپ کے تینوں بیٹے سام، حام اور یافث اور ان کی اولاد ان کے پاس جمع ہوگئی پھر حضرت نوح کی وصیت کی تشریح کرتا ہے اور اسی طرح انبیاء کے اوصیاء کے تسلسل کوبنی اسرائیل اور ان کے اوصیاء تک ذکر کیا ہے کہ ہم یہاں تک اسی خلاصہ پر اکتفا کرتے ہیں۔

حضرت نوح کے زمانے میں قابیل کے فرزندوں کے درمیان بتوں کی عبادت رائج تھی۔

ادریس نے اپنے فرزند متوشلخ کو اپنا وصی بنایا، کیونکہ خدا وند متعال نے انہیں وحی کی کہ وصیت کو اپنے فرزند متوشلخ میں قرار دو کیونکہ ہم عنقریب ان کی صلب سے پسندیدہ کردار نبی پید اکریں گے۔ خد اوند عالم نے حضرت ادریس کو اپنی طرف آسمان پر بلا لیا اور ان کے بعد وحی کا سلسلہ رک گیا اور شدید اختلاف اور زبردست تنازعہ کھڑا ہو گیا اور ابلیس نے مشہور کر دیا کہ وہ مر گئے ہیں، اس لئے کہ وہ کاہن تھے وہ چاہتے تھے کہ فلک کی بلندی تک جائیںکہ وہ آگ میں جل گئے ہیں حضرت آدم کی اولاد چونکہ اس دین کی پابند تھی لہٰذا سخت غمگین ہوئی، ابلیس نے کہا ان کے بڑے بُت نے انہیں ہلاک کر دیا ہے ، پھر تو بت پرستوں نے بتوںکی عبادت میں زیادتی کر دی اور ان پر زیورات نثار کرنا شروع کر دئیے اور قربانی کی اور ایسی عید کا جشن منایا کہ سب اس میں شریک تھے وہ لوگ اس زمانے میں یغوث، یعوق، نسر، ودّ اور سواع نامی بت رکھتے تھے۔

۲۰۵

جب متوشلخ کی موت کا وقت قریب آیا ، تو اپنے فرزند'' لمک'' کو وصی بنایا( لمک جامع کے معنی میں ہے) اور ان سے عہد و پیمان لیا اور جناب ادریس کے صحیفے اور ان کی مہر کردہ کتابیں ان کے حوالے کیں اس وقت متوشلخ کی عمر ۹۰۰ سال تھی، وصیت لمک تک منقل ہوئی ( وہ جناب نوح کے والد تھے) انہوں نے ایک بار اچانک دیکھا کہ ان کے دہن سے ایک آگ نکلی اور تمام عالم کو جلا گئی۔ اوردوبارہ دیکھا کہ گویا وہ دریا کے درمیان ایک درخت پر ہیں اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے ، حضرت نوح بڑے ہوئے خدا وند عالم نے انہیں ۵۰ سال کے سن میں بلند مقام اور نبوت بخشی اور انہیں ان کی قوم کی طرف کہ جوبت کی پوجا کرتی تھی بھیجا، وہ اولوالعزم رسولوں میں سے ایک تھے۔

بعض اخبار میں آپ کی عمر ۱۲۵۰ سال ذکر کی گئی ہے،وہ جیسا کہ خدا وند متعال نے فرمایا ہے: اپنی قوم کے درمیان ۹۵۰ سال رہے اور انہیں ایمان کی دعوت دی،ان کی شریعت: توحید ، نماز، روزہ، حج اور دشمنان خد اقابیل کے فرزندوں سے جہاد تھی، وہ حلال کے لئے مامور اور حرام سے ممنوع کئے گئے تھے اور ان کو حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں کو خدا وند متعال کی طرف دعوت دیں اور اس کے عذاب سے ڈرائیں اور خدا کی نعمتوں کو یاد دلائیں۔

مسعودی کا کہنا ہے: خدا وند عالم نے ریاست اور انبیاء کی کتابیں سام بن نوح کے لئے قرار دیں اور نوح کی وصیت بھی ان کے فرزندوں سے مخصوص ہوئی نہ کہ ان کے بھائیوں سے ۔( ۱ )

یہاں تک جو کچھ مسعودی کی کتاب اخبار الزمان سے ہمارے پاس تھا تمام ہوا، مسعودی نے اسی طرح کتاب ''اثبات الوصیة''( ۲ ) میں اوصیاء کے سلسلہ کو حضرت آدم سے حضرت خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک بیان کیا ہے ، یہ وہ چیز ہے جو اسلامی مدارک کی بحثوں میں رسولوں اور ان کے جانشینوں کے بارے میں بیان ہوا ہے، آئندہ بحث میں ، رسولوںاور ان کے اوصیاء کی خبروں کوکتاب عہدین (توریت اور انجیل) سے بیان کریں گے۔

____________________

(۱) اخبار الزمان ، مسعودی، طبع بیروت، ۱۳۸۶ ھ،ص ۷۵، ۱۰۲(۲)ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ،مسعودی کی طرف اثبات الوصیة کی نسبت کے متعلق فصل : عصر فترت ،باب : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آباء و اجداد میں وضاحت کر دی ہے۔

۲۰۶

۲۔ کتب عہدین میں ا وصیاء کی بعض خبریں

کتب عہدین سے اخبار اوصیاء کے نقل کے بارے میں ہم صرف تین وصیت پر اکتفا کریں گے:

الف۔ حضرت موسی کلیم کی خدا کے نبی یوشع کو وصیت

''قاموس کتاب مقدس '' نامی کتاب میں مادہ ''یوشع'' کے ذیل میں توریت کے حوالے سے ذکر ہوا ہے :

یوشع بن نون حضرت موسیٰ کے ساتھ کو ہ سینا پر تھے اور ہارون کے زمانے میں گوسالہ پرستی میں ملوث نہیں ہوئے۔( ۱ )

اورسفر اعداد کے ستائیسویں باب کے آخر میں خد اکی جانب سے موسیٰ کی تعیین وصیت کے بارے میں ذکر ہوا ہے:

موسیٰ نے خدا وند عالم کی بارگاہ میں عرض کی کہ یہوہ تمام ارواح بشر کا خدا کسی کو اس گروہ پرمقرر کرے جو کہ ان کے آگے نکلے اور ان کے آگے داخل ہو اور انہیںباہر لے جائے اور ان کو داخل کرے تاکہ خد اکی جماعت بے چرواہے کے گوسفندوں کی طرح نہ رہے، خداوند عالم نے موسیٰ سے کہا: یوشع بن نون کہ جو صاحب روح انسان ہیںان پر اپنا ہاتھ رکھو اور ''العازار کاہن''اور تمام لوگوں کے سامنے کھڑاکرکے وصیت کرو اور انہیں عزت اور احترام دو،تاکہ تمام بنی اسرائیل ان کی اطاعت کریں اوروہ ''العاذار کاہن'' کے سامنے کھڑے ہوں تاکہ ان کے لئے ''اوریم'' کے حکم کے مطابق خدا سے سوال کرے اور اس

کے حکم سے وہ اور تمام بنی اسرائیل ان کے اور پوری جماعت کے ساتھ باہر جائیں اور ان کے حکم سے داخل ہوں لہٰذا موسی ٰنے خد اکے حکم کے مطابق عمل کیا اور یوشع بن نون کو پکڑکر

____________________

(۱)''قاموس کتاب مقدس'' ترجمہ و تالیف مسٹر ھاکس امریکی، مطبع امریکی، بیروت، ۱۹۲۸ء ص ۹۷۰

۲۰۷

'' العازار کاہن ''اور تمام جماعت کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا اپنے ہاتھوں کو ان کے اوپر رکھا اور انہوں نے خدا کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق وصیت کی ۔( ۱ )

نیز اموربنی اسرائیل کو چلانے اور ان کی جنگوںکی داستان تیئیسویں باب سفر یوشع بن نون میں مذکورہے ۔( ۲ )

ب۔ حضرت داؤد نبی کی حضرت سلیمان کو وصیت

بادشاہوں کی کتاب اول کے باب دوم میں مذکور ہے ۔( ۳ )

اور جب حضرت داؤد کا یوم وفات قریب آیا اپنے بیٹے سلیمان کو وصیت کی اور کہا :میں تمام اہل زمین کے راستہ (موت ) کی طرف جا رہا ہوں لہٰذا تم دلیرانہ طور پراپنے خدا یہوہ کی وصیتوں کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کے طریقہ پر گامزن رہنا اور اس کے فرائض ، اوامر، احکام و شہادات جس طرح موسیٰ کی کتاب توریت میں مکتوب ہیں اسے محفوظ رکھنا تاکہ جو کام بھی کرو اور جہاں بھی رہو کامیاب رہو ۔( ۴ )

ج۔حضرت عیسی کی حواری شمعون بطرس کو وصیت

انجیل متی کے دسویں باب میں سمعون کے بارے میں کہ ان کانام توریت میں شمعون ہے، ذکر ہوا ہے :

انہوں نے پھر اپنے بارہ شاگردوں کو بلا کر خبیث ارواح پر تسلط عطا کیا کہ انہیں باہر کرا دیں

اورہر مرض اور رنج کا مداوا کریں بارہ رسولوں ( نمائندوں)کے یہ اسماء ہیں: اول شمعون جو پطرس کے نام سے مشہور ہیں تھے۔

انجیل یوحنا کے اکیسویں، باب ۱۸۔۱۵ شمارہ میں ذکر ہے :

عیسیٰ نے انہیں ( شمعون کو) اپنا وصی بنایا اور ان سے کہا: میری گوسفندوں کو چرائو ''یعنی مجھ

پر ایمان لانے والوں کی حفاظت کرو''۔

____________________

(۱) کتاب مقدس ، عہد عتیق ( توریت )ص ۲۵۴، کلدانی اور عبرانی یونانی زبان سے فارسی ترجمہ ، طبع ۳. دار السلطنت لندن ۱۹۳۲ ء

(۲)کتاب مقدس ، عہد عتیق ( توریت کلدانی اور عبرانی یونانی زبان سے فارسی ترجمہ ، طبع دار السلطنت لندن ۱۹۳۲ ء ص ۳۷۰، ۳۳۳.

(۳) وہی ماخذ.

(۴) وہی ماخذ.

۲۰۸

''قاموس کتاب مقدس'' میں بھی ذکر ہو اہے : مسیح نے انہیں (شمعون کو) کلیسا(عبادت خانہ) کی ہدایت کے لئے معین فرمایا۔( ۱ )

پہلی خبر میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ بنی خدا، موسیٰ بن عمران نے اپنے بعد خدا کے نبی یوشع(جوقرآن کریم میں الیسع کے نام سے مشہورہیں)کو وصی بنایا۔

اور دوسری خبر میں خدا کے نبی دائود نے حضرت سلیمان کو وصیت کی کہ وہ خدا کے نبی اور رسول موسیٰ بن عمران کی شریعت پر عمل کریں۔

تیسری خبر میں عیسی روح اللہ نے اپنے حواری کواس بات کی وصیت کی کہ لوگوں کی ہدایت کریں۔

قرآن کریم میں رسولوں اور اوصیاء کی خبریں

خدا وند سبحان نے قرآن کریم میں جن ۲۶ انبیاء کی ان کے اسماء کے ذکر کے ساتھ داستان بیان کی ہے وہ یہ ہیں:

آدم، نوح، ادریس، ہود، صالح، ابراہیم ، لوط، ایوب، الیسع، ذو الکفل، الیاس، یونس، اسمعیل، اسحق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ، ہارون، دائود، سلیمان، زکریا، یحییٰ، اسماعیل صادق الوعد، عیسیٰ اور محمد مصطفی ۔

ان میں سے بعض ایسے صاحب شریعت تھے کہ جو گز شتہ شریعت کے متمم اور مکمل تھے ، جیسے حضرت نوح کی شریعت جوکہ حضر ت آدم کی شریعت کو کامل کرنے والی تھی اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت کہ جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی شریعت کو کامل اور تمام کرنے والی تھی،ان میں سے بعض ایسی شریعتوں کے مالک تھے کہ جو گزشتہ شریعت کے لئے ناسخ تھے جیسے حضرت موسیٰ اورحضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۔

ان میں سے بعض بنی بھی تھے اور وصی بھی اور اپنے ما قبل رسول کی شریعت کے محافظ و نگہبان بھی جیسے یوشع بن نون کہ جو موسیٰ بن عمران کے وصی تھے۔

چونکہ جو شخص پروردگار عالم کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوتا ہے پیغمبر ہو یا اس کا وصی، اس کے لئے خداداد نشانی ضروری ہے تاکہ اس کے مدعا کی صداقت پر شاہد و گواہ رہے نیز اس کے خدا کی جانب سے بھیجے جانے پر دلیل ہو ، آئندہ بحث میں اس موضوع یعنی ''معجزہ'' کی تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)قاموس کتاب مقدس ، مادہ : پطرس حواری

۲۰۹

۳۔ آیت اور معجزہ

آیت، لغت میں اس نشانی کو کہتے ہیں جو کسی چیز پر دلالت کرتی ہے ، وہ بھی اس طرح سے کہ جب کبھی وہ نشانی ظاہر ہو تو اس چیز کا وجود نمایاں ہو جائے۔

لیکن ہم اسلامی اصطلاح میں دو طرح کی آیت اور نشانی رکھتے ہیں، ایک وہ جو خالق کے وجود پر دلالت کرتی ہے اور دوسری وہ جو اس کی کسی ایک صفت (یعنی اسما ئے حسنی الٰہی میں سے کسی ایک کی طرف) اشارہ کرتی ہے وہ دونوں نشانیاں درج ذیل ہیں:

الف۔ وہ نشانیاں جو اپنے متقن اور سنجیدہ وجود کے ساتھ اپنے خالق حکیم کے محکم اور استوارنظام پر دلالت کرتی ہیں اور اس طرح ظاہر کرتی ہیں کہ اس پوری کائنات کا کوئی پروردگار حکیم ہے کہ جو خلق کے امور کو ایک محکم اور استوار نظام کے ساتھ چلا رہا ہے اورہم اسے ''کائنات میں خد اکی سنتیں'' کہتے ہیں۔

پہلی مثال، جیسے خدا سورۂ غاشیہ میں فرماتا ہے :

( أفلا ینظرون الیٰ الأبل کیف خلقت٭و الیٰ السماء کیف رفعت٭ و الیٰ الجبال کیف نصبت )

کیا وہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کیسے خلق کیا گیا ہے اور آسمان کو کہ کس طرح رفعت دی گئی ہے اور پہاڑوں کو کہ کیسے نصب کیا گیاہے ؟!( ۱ )

اورسورۂ عنکبوت میں فرماتا ہے:

( خلق الله السمٰوات و الارض بالحق ان فی ذلک لآیة للمومنین )

خدا وند عالم نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ خلق کیا یقینا اس میں مومنین کے لئے نشانی ہے۔( ۲ )

خدا وند عالم نے اس طرح کی قرآنی آیات میں کچھ مخلوقات کا تذکرہ کیا ہے جو اپنے وجود سے اپنے خالق کے وجود کا پتہ دیتی ہیں، اسی لئے انہیں آیات اور نشانیاںکہا گیا ہے ۔

____________________

(۱) غاشیہ ۱۷۔۲۰

(۲)عنکبوت۴۴

۲۱۰

دوسری مثال: خدا وند عالم سورۂ نحل میں فرماتا ہے:

( هو الذی انزل من السماء ما ئً لکم منه شراب ومنه شجر فیه تسیمون٭ ینبت لکم به الزرع و الزیتون و النخیل و الاعناب ومن کل الثمرات ان فی ذلک لآیة لقوم یتفکرون٭ وسخر لکم اللیل و النهار و الشمس و القمر و النجوم مسخرات بأمره ان فی ذلک لآیات لقوم یعقلون٭وما ذرأ لکم فی الارض مختلفا الوانه ان فی ذلک لآیة لقوم یذکرون )

وہ خداجس نے تمہارے پینے کے لئے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے سر سبز درختوں کو پیدا کیا جس سے تم اپنے حیوانات کے چارہ کا انتظام کرتے ہوخدا وند عالم اس ''پانی'' سے تمہارے لئے کھیتی، زیتون کھجور، انگور اور تمام انواع و اقسام کے میوے اگاتا ہے یقینا اس میں دانشوروںکیلئے واضح نشانی ہے اس نے شب و روز ،ماہ و خورشید کو تمہار اتابع بنایا نیز ستارے بھی اس کے حکم سے تمہارے تابع ہیں، یقینا اس میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں اور گونا گوں اور رنگا رنگ مخلوقات کو تمہارا تابع بنا کر خلق کیا، بیشک اس میں واضح نشانی ہے ان کے لئے جو نصیحت حاصل کرتے ہیں۔( ۱ )

خدا وند عالم ان جیسی قرآنی آیات میں ان انواع نظام ہستی کو بیان کرتا ہے جو مدبر اور حکیم پروردگار کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اور کبھی کبھی ان آیات اور نشانیوں کو جو ''عزیز خالق'' اور'' حکیم، مدبراور رب'' کے وجودپر دلالت کرتی ہیں یکجا بیان کیا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :

( ان فی خلق السمٰوات و الارض و اختلاف اللیل و النهار و الفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل الله من السماء من مائٍ فأحیا به الارض بعد موتها و بث فیها من کل دابة و تصریف الریاح و السحاب المسخر بین السماء و الارض لآیات لقوم یعقلون)

یقینا زمین و آسمان کا تخلیق کرنا اور روز و شب کو گردش دینا اور لوگوں کے فائدہ کے لئے دریا میں کشتیوں کو رواں دواں کرنا اور خدا کا آسمان سے پانی برسانانیز زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرنا اور ہر قسم کے متحرک جانوروں کو اس میں پھیلانا نیز زمین و آسمان کے درمیان ہوائوں اور بادلوں کو مسخر کرنا اسلئے ہے کہ ان سب میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں۔( ۲ )

خدا نے اس آیت کی ابتدا میں آسمانوں اور زمین کی خلقت کو بیان کیا ہے اس کے بعد نظام کائنات کی

____________________

(۱)نحل۱۰۔۱۳

(۲)بقرہ۱۶۴

۲۱۱

نشانیوں کا ذکر کیاہے ، ایسا نظام جس کو پروردگار نے منظم کیا ہے اور ہم اسے '' کائنات کی سنتیں '' کہتے ہیں ۔

ب۔ وہ آیات جنہیں پروردگار عالم انبیاء کے حوالے کرتا ہے ، جیسے نظام ہستی پر ولایت وہ بھی اس طرح سے کہ جب مشیت الٰہی کا اقتضا ہو تو پیغمبر، خدا کی اجازت سے اس نظام کو جس کو خدا نے عالم ہستی پر حاکم بنایا ہے بدل سکتا ہے ،جیساکہ خد اوند متعال حضرت عیسیٰ کی توصیف میں فرماتا ہے۔

( ورسولاً الیٰ بنی اسرائیل انی قد جئتکم بآیة من ربکم انی اخلق لکم من الطین کهیئة الطیر فانفخ فیه فیکون طیراً بأِذن الله )

حضرت عیسیٰ کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا ( انہوں نے ان سے کہا:)میں تمہارے پروردگار کی ایک نشانی لیکر آیا ہوں، میں مٹی سے تمہارے لئے پرندے کے مانند ایک شیء بنائوں گا اور پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ خد اکے حکم سے پرندہ بن جائے گا۔( ۱ )

اس طرح کی آیات الٰہی کو اسلامی عرف میں ''معجزہ'' کہتے ہیں، اس لئے کہ دیگر افراد بشر اس طرح کی چیزوں کے پیش کرنے سے عاجز ہیں اور وہ خارق عادت ہے نیز تخلیقی نظام طبیعی کے برعکس ہے ، جیسے حضرت عیسیٰ کا معجزہ کہ مٹی سے خد اکے اذن سے ایک پرندہ خلق کر دیا تاکہ اس بات پر دلیل ہو :

۱۔ یہ دنیا کا پروردگار ہے کہ جس نے اشیاء کو خاصیت اور طبیعی نظام عطا کیاہے اور جب اس کی حکمت کا اقتضا ہو کہ کسی چیز کی خاصیت کو اس سے سلب کر لے ، تو ایسی قدرت کا مالک ہے جس طرح کہ آگ کی گرمی سلب کر کے حضرت ابراہیم کو جلنے سے بچا لیا اور جب اس کی حکمت تقاضاکرے کہ اس نظام طبیعی کو جو اپنی بعض مخلوقات کے لئے قرار دیا ہے بدل دے تو وہ اس پر قادر اور توانا ہے ، جیسے مٹی سے حضرت عیسیٰ کے ہاتھ پرندہ بن جانا بجائے اس کے کہ اپنے نر جنس کی آمیزش سے پرندہ کی ماں اسے جنے جو کہ طبیعی نظام خلقت کے مطابق ہے اور اسے جانداروں کی خلقت کے لئے معین کیاہے ۔

انبیاء کے معجزات جیسا کہ ہم نے بیان کیاہے خارق العادة اور طبیعی نظام کے برخلاف ہیںاور انتقال مادہ کے مراحل طے کرنے، یعنی ایک حال سے دوسرے حال اور ایک صورت سے دوسری صورت میں آخری شکل تک تبدیل ہونے کی پیروی نہیں کرتے اس لئے کہ پرندہ کا مٹی سے تخلیق کے مراحل کا طے کرنا( جیساکہ بعض فلاسفہ کے کلام سے سمجھ میں آتا ہے) نور کی سرعت رفتار کے مانندتھا کہ جن کو خدا وند عالم نے

____________________

(۱)آل عمران۴۹

۲۱۲

طبیعی مدت اور دورہ انتقال سے بہت تیزپیغمبر کے لئے طے کیا ہے۔

معجزہ سحر نہیں ہے ، اس لئے کہ سحر ایک قسم کی باطل اور غیر واقعی خیال آفرینی کے سوا کچھ نہیں ہے، مثال کے طور پر ایک ساحر و جادو گرایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرغ کونگل جاتا ہے ، یاا ونٹ کے منھ سے داخل ہو کر اس کے مخرج سے نکل آتا ہے یا شیشہ کے برتنوں کو چکنا چور کر کے دوبارہ اسے پہلی حالت میں پلٹادیتاہے در حقیقت اس نے ان امور میں سے کسی ایک کوبھی انجام نہیں دیا ہے بلکہ صرف اورصرف دیکھنے والوں اور تماشائیوں کی نگاہوں پر سحر کر دیا ہے (جسے نظر بندی کہتے ہیں) اور ان لوگوں نے مذکورہ امور کو اپنے خیال میں دیکھا ہے اسی لئے جب سحر کا کام تما م ہو جاتا ہے تو حاضرین تمام چیزوں کو اس کی اصلی حالت اور ہیئت میں بغیر کسی تبدیلی اور تغیر کے دیکھتے ہیں، لیکن معجزہ نظام طبیعت کو در حقیقت بدل دیتا ہے جیسے وہ کام جو حضرت موسیٰ کے عصا نے انجام دیا: ایک زبردست سانپ بن کر جو کچھ ساحروں نے اس عظیم میدان میں پیش کیا تھا سب کویکبار گی نگل گیا اور جب حضرت موسیٰ کے ہاتھ میں آکر دوبارہ عصا بنا، تو جوکچھ ساحروں نے اس میدان میں مہیا کیا تھا اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہا ،یہی وجہ تھی کہ جادوگر سجدہ میں گر پڑے اور بولے : ہم پروردگار عالم پر ایمان لائے ، جوموسیٰ اور ہارون کا پروردگار کیونکہ وہ لوگ جادو گری میں تبحر رکھتے تھے اور ایک عجیب مہارت کے مالک تھے۔ انہوں نے درک کیا کہ یہ سحر کا کام نہیں ہے بلکہ خدا وند متعال کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔

معجزہ کا محال امر سے تعلق نہیں ہوتا جس بات کو علم منطق میں اجتماع نقیضین سے تعبیر کرتے ہیں جیسے یہ کہ کوئی چیز ایک وقت میں ایک جگہ ہے اور نہیں بھی ہے یہ بھی اثر معجزہ کی شمولیت سے خارج ہے ۔

پیغمبروں کے معجزوں کی حقیقت ، وہ آیتیں ہیں جن کوپروردگاران کے ہاتھوں سے ظاہر کرتا ہے ، وہ نشانیاںکہ جن و انس جن کو پیش کرنے سے عاجز اور ناتواں ہیں خواہ بعض بعض کی مدد ہی کیوں نہ کریں جبکہ جنات میں بعنوان مثال ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو اس بات پر قادر ہیں کہ ملک یمن سے تخت بلقیس حضرت سلیمان کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی بیت المقدس حاضر کر دیں کیونکہ فضا میں جن کی سرعت رفتار نور سے ملتی جلتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جن کبھی دور دراز کی خبر بھی اپنے سے مربوط کاہن کو لا کر دے سکتا ہے ، لیکن یہی جن و انس مٹی سے پرندہ نہیں بنا سکتے کہ بغیر اللہ کی اجازت کے حقیقی پرندہ بن جائے۔

۲۱۳

ہندوستان میں ریاضت کرنے والے ''مرتاض''کبھی ٹرین کو حرکت کرنے سے روک سکتے ہیں، لیکن وہ اور ان کے علاوہ افراد کہ جن کو خدا نے اجازت نہیں دی ہے یہ نہیں کر سکتے کہ پتھر پر عصا ماریں تو بارہ چشمے پھوٹ پڑیں۔

کیونکہ پروردگارعالم آیات ومعجزات اس لئے ا پنے انبیاء و مرسلین کو عطا کرتا ہے تاکہ امتیں ان کے دعوے کی صداقت پر یقین کریں اور سمجھیں کہ یہ لوگ خدا کے فرستادہ ہیں، حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ یہ معجزات ایسے امور سے متعلق ہوں کہ جس امت کے لئے پیغمبر مبعوث ہوا ہے اسے پہچانیں ، جیساکہ حضر ت امام علی بن موسیٰ الرضانے ایک سائل کے جواب میں کہاجب اس نے سوال کیا: کیوں خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور عصا کے ساتھ مبعوث کیااور حضرت عیسیٰ کو طب اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کلام و سخن کے ساتھ؟

امام نے جواب دیا:

جس وقت خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کو مبعوث کیا تھا اس زمانے میں سحر و جادو نما یاں فن شمار ہوتا تھا لہٰذا وہ بھی خدا وند عز و جل کی طرف سے ایسی چیز کے ساتھ ان کے پاس گئے کہ اس کی مثال ان کے بس میں نہیں تھی، ایسی چیز کہ جس نے ان کے جادو کو باطل کر دیا اور اس طرح سے ان پر حجت تمام کی۔

خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ کوایسے زمانے میں مبعوث کیا جب مزمن اور دائمی بیماریوں کا دور دورہ تھااور لوگوں کوطب کی ضرورت تھی تو وہ خدا کی طرف سے ان کے لئے ایسی چیز لیکر آئے کہ اس جیسی چیز ان کے درمیان نا پید تھی، یعنی جو چیز ان کے لئے مردوں کو زندہ کر دیتی تھی، اندھے اور سفید داغ والے کو شفا دیتی تھی لہٰذا اس کے ذریعہ ان پر حجت تمام کی۔

خدا وند متعال نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اس وقت مبعوث کیا جب غالب فن خطابت اور سخنوری تھا، راوی کہتا ہے میرے خیال میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا: اور شعر تھا، آنحضرت نے خدا وند عز و جل کی کتاب اور اس کے موعظوں اور احکام سے ان کے لئے ایسی چیز پیش کی کہ ان کی تمام باتوں کو باطل کر دیا اور ان پر حجت تمام کر دی۔

سائل نے کہا: خدا کی قسم، آج جیسا دن کبھی میں نے نہیں دیکھا ہے : پھر بولا: ہمارے زمانے کے لوگوں پر حجت کیا ہے ؟ امام نے کہا: عقل ؛ اس کے ذریعہ خدا پر سچ بولنے والے کی صداقت پہچا نوگے اوراس کی تصدیق کروگے اور خدا کی طرف جھوٹی نسبت دینے والے کوتشخیص دوگے اور اسے جھٹلا ئو گے ۔

سائل نے کہا: خدا کی قسم، صحیح، جواب یہی ہے اور بس۔( ۱ )

____________________

(۱)بحار، ج۱۱ ، ص ۷۰۔۷۱ بحوالہ ٔ علل الشرائع ، ص ۵۲. اور عیون الاخبار، ص ۲۳۴

۲۱۴

پیغمبروں کے خارق العادة معجزے کہ جو اشیاء کے بعض طبیعی نظام کے مخالف ہیں ،وہ خود انسانی معاشرے میں پروردگار عالم کی تکوینی سنتوں میں سے ایک سنت ہیں ایسا سماج اور معاشرہ جس میں خدا وند عالم نے انبیاء بھیجے، اسی وجہ سے امتوں نے اپنے پیغمبروں سے معجزے طلب کئے تاکہ ان کے دعویٰ کی صحت پر دلیل ہو، جیساکہ خدا وند عالم نے سورۂ شعراء میں قوم ثمود کی گفتگو پیش کی کہ انہوں نے اپنے پیغمبر صالح سے کہا:

( ما أنت الا بشر مثلنا فات بآیة ان کنت من الصادقین٭ قال هذه ناقة لها شرب و لکم شرب یوم معلوم٭ولا تمسوها بسوء فیأخذ کم عذاب یوم عظیم )

تم صرف ہمارے جیسے ایک انسان ہو ، اگر سچ کہتے ہو تو کوئی آیت اور نشانی پیش کرو! کہا: یہ ناقہ ہے ( اللہ کی آیت )پانی کا ایک حصہ اس کااور ایک حصہ تمہاراہے معین دن میں ،ہر گز اسے کوئی گزندنہ پہنچانا کہ عظیم دن کے عذاب میں گرفتار ہو جائو۔( ۱ )

بہت سی امتوں کااپنے پیغمبر سے معجزہ دیکھنے کے بعدعناد شدید تر ہوجاتا تھااور ان سے دشمنی کرنے لگتے تھے ۔ اور ایمان لانے سے انکار کر دیتے ،جیسا کہ خدا وند عالم نے قوم ثمود کے بارے میں ناقہ دیکھنے کے بعد فرمایا :

( فعقروها فأصبحوا نادمین )

آخر کار اس ناقہ کو پے کر دیااس کے بعد اپنے کرتوت پر نادم ہوئے۔( ۲ )

خدا کی سنت یہ رہی ہے کہ اگر امتوں نے اپنے پیغمبر وںسے معجزہ کی درخواست کی اور معجزہ آیا لیکن وہ اس پر ایمان نہیں لائے تو وہ زجر و توبیخ اور عذاب کے مستحق بنے اور خدا وند عالم نے انہیں عذاب سے دوچار کیا۔

جیسا کہ اسی سورۂ میں قوم ثمود کے انجام کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( فأخذهم العذاب ان فی ذلک لآیة وما کان اکثرهم مؤمنین )

پس ان کو اللہ کے عذاب نے گھیر لیا یقینا اس میں آیت اور نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر مومن نہیں تھے۔( ۳ )

انبیاء کا معجزہ پیش کرنا حکمت کے مقتضیٰ کے مطابق ہے ، حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ معجزہ اس حد میں ہونا چاہئے کہ پیغمبر کے دعوے کی حقانیت کا، اس شخص کے لئے جو اس پر ایمان لانا چاہتا ہے اثبات کرسکے ، آیت

____________________

(۱) سورۂ شعرا ۱۵۶، ۱۵۴(۲) سورۂ شعرا ۱۵۷(۳) سورۂ شعرا ۱۵۸

۲۱۵

الٰہی ان سرکشوں کی مرضی اور مردم آزاروں کی طبیعت کے مطابق نہیں ہے جو خدا اور رسول پر ایمان لانے سے بہر صورت انکار کرتے ہیں کہ جو چاہیں ہو جائے، نیز جیسا کہ گز ر چکاہے کہ معجزہ امرمحال سے بھی تعلق نہیں رکھتاہے ، چنانچہ یہ دونوںباتیں ،رسول سے قریش کی خواہش میں موجود تھیں جبکہ خدا نے عرب کے مخصوص معجزے ''فصیح وبلیغ گفتگو'' کو انہیں عطا کیا خدا نے سورۂ بقرہ میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فأتو بسورة من مثله و ادعوا شهدائکم من دون الله ان کنتم صادقین٭فأِن لم تفعلوا و لن تفعلوا فاتقوا النار التی و قودها الناس و الحجارة اُعدت للکافرین )

ہم نے جو اپنے بندہ پر نازل کیا ہے اگر اس کے بارے میں شک و تردید میں مبتلا ہو تو اس کے مانند ایک ہی سورہ لے آئو اورخدا کے علاوہ اس کام کے لئے اپنے گواہ پیش کر و ،اگر سچے ہوپھر اگر ایسا نہیں کر سکتے اور ہر گز نہیں کر سکتے تو اس آگ سے ڈرو! جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جو کافروں کے لئے آمادہ کی گئی ہے۔( ۱ )

قریش کے سر برآوردہ افراد جو ایمان لانے کو کا قصد ہی نہیں رکھتے تھے اپنی شدت اور ایذا رسانی میں اضافہ کرتے گئے اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زحمت میں ڈالنے اور انہیں عاجز اور بے بس بنانے کے لئے گونا گوں درخواستیں کرتے حتی کہ امر محال کا بھیمطالبہ کرتے تھے ، خداوند عالم سورۂ اسراء میں ان کی ہر طرح کی سرکشی اورمزاحمت کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( قل لئن اِجتمعت الانس و الجن علیٰ ان یأتو بمثل هذا القرآن لا یأتون بمثله ولو کان بعضهم لبعض ظهیراً٭ ولقد صرفنا للناس فی هذا القرآن من کل مثل فأبیٰ اکثر الناس الاکفورا٭ و قالوا لن نؤمن لک حتیٰ تفجر من الارض ینبوعا٭ او تکون لک جنة من نخیل و عنب فتفجر الانهار خلالها تفجیرا٭ او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفاً او تأتی بالله و الملائکة قبیلا٭ او یکون لک بیت من زخرف او ترقیٰ فی السماء و لن نؤمن لرقیک حتی تنزل علینا کتاباً نقرؤه قل سبحان ربی هل کنت الا بشراً رسولا٭ و ما منع الناس ان یومنوا اذ جائهم الهدی الا ان قالوا ابعث الله بشراً رسولا، قل لو کان فی الارض ملائکة یمشون مطمئنین لنزلنا علیهم من السماء ملکاً رسولاً قل کفیٰ بالله شهیداً بینی و بینکم انه کان بعباده خبیراً بصیرا )

____________________

(۱)سورۂ بقرہ۲۳۔۲۴

۲۱۶

کہو: اگر تمام جن و انس یکجا ہو کر اس قرآن کے مانند لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے ہر چند ایک دوسرے کی اس امر میں مدد کریں، ہم نے اس قرآن میں ہر چیز کا نمونہ پیش کیا ہے لیکن اکثرلوگوں نے ناشکری کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا اور کہا: ہم اس وقت تک تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ اس سرزمین سے ہمارے لئے چشمہ جاری نہ کرو، یا کھجور اور انگور کا تمہارے لئے باغ ہو اور ان کے درمیان جا بجا نہریں جاری ہوں، یا آسمان کے ٹکڑوںکو جس طرح تم خیال کرتے ہو ہمارے سر پر گرا دو؛ یا خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کر دو؛یا کوئی زرین نقش و نگار کا تمہارے لئے گھر ہو، یا آسمان کی بلندی پر جائو اور اس وقت تک تمہارے اوپر جانے کی تصدیق نہیں کریں گے جب تک کہ وہاں سے کوئی نوشتہ ہمارے لئے نہ لائو جسے ہم پڑھیں!

کہو: میرا پروردگار منزہ اور پاک ہے ، کیا میں ایک فرستادہ ( رسول)انسان کے علاوہ بھی کچھ ہوں؟! صرف اور صرف جو چیز ہدایت آنے کے بعد بھی لوگوں کے ایمان لانے سے مانع ہوئی یہ تھی کہ وہ کہتے تھے: آیا خدا نے کسی انسان کو بعنوان رسول بھیجا ہے ؟!

ان سے کہو: اگر روئے زمین پر فرشتے آہستہ آہستہ قدم اٹھائے سکون و وقار سے راستہ طے کرتے، تو ہم بھی ایک فرشتہ کو بعنوان رسول ان کے درمیان بھیجتے ! کہو! اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان خدا گواہ ہے ؛ کیونکہ وہ بندوں کی بہ نسبت خبیرو بصیر ہے ۔( ۱ )

پروردگار خالق نے اہل قریش پر اپنی حجت تمام کر دی اور فرمایا: اگر جو کچھ میں نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے اس کے بارے میں شک و تردید رکھتے ہو، تو اس کے جیسا ایک سورہ ہی لے آئو اور خدا کے علاوہ کوئی گواہ پیش کرونیز خبر دی کہ اگر تمام جن و انس مل کر اس کے مانند لانا چاہیں تو قرآن کے مانند نہیں لا سکتے،خواہ ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کریں اور اس کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: کبھی اس کے جیسا نہیں لا سکتے اور آج تک اسلام دشمن عناصر اپنی کثرت، بے پناہ طاقت اور رنگا رنگ قدرت کے باوجود ایک سورہ بھی اس کے مانند پیش نہیں کر سکے قرآن کی اس اعلانیہ تحدی اور چیلنج کے بعد کہ یہ ایک ایسا معجزہ ہے کہ اس کے مقابل جن و انس عاجز اور ناتواںہیں، جب مشرکین قریش نے خود کوذلیل اور بے بس پایا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خواہش کی کہ مکہ کی طبیعت اور اس کی ہوا کو بدل دیں او رسونے کا ایک گھر ہو، یاخدا اور ملائکہ کو ایک صف میں ان کے سامنے حاضر کر دیں، یا آسمان کی بلندی پر جائیں اور ہم ان کے جانے کی اس وقت تصدیق کریں گے جب وہاں

____________________

(۱)اسرائ۹۶۔۸۸

۲۱۷

سے ہمارے لئے کوئی نوشتہ لائیں جسے ہم پڑھیں، جیسا کہ واضح ہے کہ ان کی در خواستیںامر محال سے بھی متعلق تھیں اور وہ خدا اور ملائکہ کو ان کے سامنے حاضر کرنا ہے ، یقینا خدا کا مقام اس سے کہیں بلند و بالا ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی بعض خواہشیں پیغمبرں کے بھیجنے کے بارے میں سنت الٰہی کے مخالف تھیں ، جیسے ان کے سامنے آسمان کی بلندی پر جانا اور کتاب لانا کہ یہ سب خدا وند عالم نے اپنے نمائندے فرشتوں سے مخصوص کیا ہے اوریہ انسان کا کام نہیں ہے ۔

وہ لوگ اس بات کے منکر تھے کہ خدا کسی انسان کو پیغمبری کے لئے مبعوث کرے گا جبکہ حکمت کا مقتضا یہ ہے کہ انسان کی طرف بھیجا ہواپیغمبر خود اسی کی جنس سے ہو، تاکہ رفتار و گفتار، سیرت وکردار میں ان کیلئے نمونہ ہو، ان کی بقیہ تمام خواہشیں بھی حکمت کے مطابق نہیں تھیں ، جیسے یہ کہ عذاب کی درخواست کی، اسی لئے خداوندنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا کہ ان کے جواب میں کہو: میرا خدا منزہ ہے آیا میں خدا کی طرف سے فرستادہ (رسول )انسان کے علاوہ بھی کچھ ہوں؟!

گزشتہ بیان کا خلاصہ: حکمت خدا وندی کا تقاضاہے کہ اس کا فرستادہ اپنے پروردگار کی طرف سے اپنے دعویٰ کی درستگی اور صداقت کیلئے معجزہ پیش کرے اور اس کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجت تمام کرے، ایسے حال میں جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے ،جیسا کہ حضرت موسیٰ اور ہارون کی قوم کا حال ایسا ہی تھا کہ معجزہ دیکھنے کے بعد جادو گروں نے ایمان قبول کیا اور فرعون اور اس کے درباریوں نے انکار کیا، تو خدا وند عالم نے انہیں غرق کر کے ذلیل و خوار کر دیا اور خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر جو بھی آیت پیش کریں اسے معجزہ کہتے ہیں۔

مذکورہ باتوں کے علاوہ جن لوگوں کو خدا نے زمین کا پیشوا اور لوگوں کا ہادی بنایا ہے وہ صاحب شریعت پیغمبر ہوںیا ان کے وصی، ان کے مخصوص صفات ہیںجو انھیں دوسروںسے ممتا ز کرتے ہیں اور ہم آئندہ بحث میں خدا کی توفیق اور تائید سے اس کا ذکر کریں گے ۔

۲۱۸

۷

الٰہی مبلغین کے صفات ،گناہوں سے عصمت

۱۔ ابلیس زمین پر خدا کے جانشینوںپر غالب نہیں آسکتا ۔

۲۔ عمل کا اثر اور اس کا دائمی ہونا اور برکت کا سرایت کرنا اور زمان اور مکان پر اعمال کی نحوست۔

۳۔ الٰہی جانشینوںکا گناہ سے محفوظ ہونا ( عصمت)اس کے مشاہد ہ کی وجہ سے ہے ۔

۴۔وہ جھوٹی روایتیں جو خدا کے نبی داؤد پر اور یا کی بیوہ سے ازدواج کے بارے میں گڑھی گئیں اور حضرت خاتم الانبیاء سے متعلق آنحضرت کے منھ بولے فرزند زید، کی مطلقہ بیوی زینب سے ازدواج کی نسبت دی اور ان دونوں ازدواج کی حکمت۔

۵۔ جن آیات کی تاویل میں لوگ غلط فہمی کا شکار ہوئے۔

۱۔ ابلیس روئے زمین پر خدا کے جانشینوں پر غالب نہیں آ سکتا

خدا وند سبحان نے سورۂ حجر میں اپنے اور ابلیس کے درمیان گفتگو کی خبر دی کہ ، ابلیس اس کے مخلص بندوں پر تسلط نہیں رکھتا ، وہ گفتگو اس طرح ہے :( قال رب بما اغویتنی لأزینّن لهم فی الارض ولأغوینهم اجمعین الا عبادک منهم المخلصین٭قال...ان عبادی لیس لک علیهم سلطان الا من اتبعک من الغاوین )

ابلیس نے کہا: خدایا ؛ جو تونے مجھے گمراہ کیا ہے اس کی وجہ سے زمین میں ان کے لئے زینت اور جلوے بخشوں گا اور سب کو گمراہ کر دوں گاسواتیرے مخلص بندوں کے ۔فرمایا: تو میرے بندوںپر قابو اور تسلط نہیں رکھتا، جز ان لوگوں کے جو تیرا اتباع کرتے ہیں۔( ۱ ) اور یوسف اور زلیخا کی داستان کے بیان میں ،مخلَصین کی خدا نے کس طرح شیطانی وسوسوں سے محافظت کی اس طرح بیان کرتا ہے :( ولقد همت به و هم بها لو لا أن رء أ برهان ربه کذلک لنصرف عنه السوء و الفحشاء أنّه من عبادنا المخلصین )

اس عورت نے ان کا قصدکیا اوروہ بھی اس کا قصد کر بیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل و برہان نہیں دیکھتے!ہم نے ایسا کیا تاکہ اس سے برائی اور فحشاء کو دور کریں ،کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے۔( ۲ ) ہم مذکورہ وصف یعنی: عصمت اور ابلیس کے غالب نہ ہونے کو ، سورۂ بقرہ میں خدا وند سبحان اور ابراہیم خلیل کے درمیان ہونے والی گفتگو میں ، امامت کے شرائط کے عنوان سے ملاحظہ کرتے ہیں، جیساکہ فرمایا:

____________________

(۱) سورۂ حجر ۴۲۔۳۹(۲)یوسف ۲۴

۲۱۹

( و اذابتلیٰ ابراهیم ربه بکلمات فأتمهن قال انی جاعلک للناس أِماما قال و من ذریتی قال لا ینال عهدی الظالمین )

جب خدا وند عالم نے ابراہیم کا گونا گوں طریقوں سے امتحان لے لیا اور وہ خیر و خوبی کے ساتھ کامیاب ہوگئے، تو خدا وند سبحان نے کہا: میں نے تمہیں لوگوں کا پیشوا اور امام بنایا، ابراہیم نے کہا:اور میری ذریت میں سے بھی ! فرمایا: میرا عہدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔( ۱ )

سورۂ انبیاء میں ذکر ہوا ہے : جن کو خدا نے لوگوں کا پیشوا بنایا وہ خدا کے حکم سے ہدایت کرتے ہیں:( وجعلنا هم أئمة یهدون بأمرنا ) اورہم نے ان لوگوں کو پیشوا بنایا جوہمارے فرمان سے ہدایت کرتے ہیں۔( ۲ )

اسی سورہ میں بعض کا نام کے ساتھ ذکر فرمایا ہے ، جیسے نوح، ابراہیم ، لوط، اسماعیل، ایوب، ذوالکفل، یونس، موسیٰ ، ہارون، دائود، سلیمان ، زکریا، یحیٰی اور عیسیٰ علیہم السلام۔

جن لوگوں کو خدا وند عالم نے اس سورہ میں منصب امامت کے ساتھ یاد کیا ہے ان کے درمیان بنی، رسول، وزیر اور وصی سبھی پائے جاتے ہیں، اس بنا پر ہم پر واضح ہوتا ہے کہ خدا وند عالم نے ایسی شرط ذکر کی ہے کہ جسے امام بنائے گا وہ ظالم نہ ہو.

خدا وند عالم نے امام کو روئے زمین پر اپنا خلیفہ شمار کیا ہے ، چنانچہ سورۂ ص میں داؤد سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے :( یا داود اَنَّا جعلناک خلیفة فی الارض )

اے دائود! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ بنایا۔( ۳ )

اور حضرت آدم ـکے متعلق فرشتوں سے سورہ ٔ بقرہ میں فرمایاہے :

( و أِذ قال ربک للملائکة أِنی جاعل فی الارض خلیفة )

اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا: میں روئے زمین پر خلیفہ بنائوں گا۔( ۴ )

کلمات کی تشریح

۱۔اغویتنی، ولأغوینهم، و الغاوین ۔

____________________

(۱)بقرہ ۱۲۴(۲)انبیائ ۷۳(۳) ص ۲۶(۴) بقرہ ۳۹۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367