اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت21%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143981 / ڈاؤنلوڈ: 3622
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

دوران آنحضرت (ص)انفسنا کی جگہ حضرت علی (ع)ابنائنا کی جگہ حسنین +اور نسائنا کی جگہ حضرت فاطمہ زہرا(س) کو لے کر میدان میں نکلے،اس وقت یہ آیت

شریفہ نازل ہوئی۔چنانچہ جابر سے یوں روایت کی گئی ہے:

فیهم نزلت، انفسنا و انفسکم رسول الله وعلی وابنائنا الحسن والحسین ونسائنا فاطمة ( ۱ ) آیت شریفہ اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے،انفسنا سے پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی (ع)،ابنائنا سے امام حسن و حسین (ع) جبکہ نسائنا سے حضرت فاطمہ زہرا (س)مراد ہے۔

نیز آیت کی شان نزول کے متعلق تفسیر بیضاوی اور شواہد التنزیل میں کئی روایات نقل ہوئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے :

آیت شریفہ اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے جس میں کسی قسم کی تردید اور شک کی گنجائش نہیں ہے۔لہٰذا اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف چند

ا یک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں،( ۲ )

نوٹ:آیت مباہلہ میں مذکورہ تفسیر کی بناء پر پنجتن پاک کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔پہلی آیت میں حضرت امیر(ع)کی فضیلت کو بیان کیا گیا

____________________

( ۱ ) ۔درمنثور ج ۲ ص۲۳۱،دار الفکربیروت

( ۲ ) مزید تفصیلات کےلئے تفسیر بیضاوی اور شواہد التنزیل ( مجلد ۱ص۱۲ ۰ ۔۱۲ ۹ ) کامطالعہ کریں

۲۱

ہے،دوسری آیت میں حضرت رسول (ص)کی فضیلت اور عظمت بیان ہوئی ہے لہٰذا مذکورہ آیات تما م اہل بیت کی عظمت اور فضیلت بیان کرنے کےلئے دلیل نہیں بن سکتیں۔لیکن انشاء اللہ وہ روایات بھی بیان کریں گے جن میں تمام اہل بیت کی عظمت بیان ہوئی ہے اور مذکورہ آیات سے بھی تمام اہل بیت کی فضیلت کو کچھ روایات اور تفاسیرکی بناء پر ثابت کیا جاسکتا ہے ۔لہٰذا تفاسیر کی کتابوں کی طرف مراجعہ کریں۔

۵)اہل بیت تمام عالم سے افضل ہیں

( ان الله اصطفیٰ آدم و نوحاً وآل ابراهیم و آل عمران علیٰ العٰلمین ) ( ۱ )

''بے شک خدا نے آد م (ع)ونوح (ع)اور خاندان ابراہیم (ع)و خاندان عمران (ع)کو سارے جہاں سے منتخب کیا ہے۔''

تفسیر آیہ:

ابن عباس سے جلال الدین سیوطی نے درمنثور میں روایت کی ہے:

فی قوله و آل ابراهیم.....قال هم المومنون من آل ابراهیم و آل عمران و آل یٰس و آل محمد ( ۲ )

____________________

( ۱ ) ۔آل عمران/۳۱

( ۲ ) ۔در منثور،ج۲،ص۱ ۸۰

۲۲

آیت سے ابراہیم(ع)، عمران ،یاسین اور حضرت محمد(ص) کے خاندان کے مومن مراد ہے۔

نیز روایت کی گئی ہے کہ مامون نے امام رضا (ع)سے پوچھا:

هل فضل الله العترة علیٰ سائر الناس فقال ابوالحسن انّ الله ابان فضل العترة علیٰ سائر الناس فی محکم کتابه فقال المأمون این ذالک فی کتاب الله؟فقال له الرضا علیه السلام :فی قوله ( انّ الله اصطفیٰ آدم و نوحاً و آل ابراهیم و آل عمران علیٰ العالمین ) ( ۱ )

کیاخدا نے تمام انسانوں پراہل بیت کو فضیلت دی ہے؟

امام (ع)نے فرمایا:ہاں خدا نے اپنی کتاب میں واضح طور پر اہل بیت کوتمام انسانوں سے افضل قرار دیا ہے۔

مامون نے عرض کیا:یا ابالحسن-!یہ بات خدا کی کتاب میں کہاں ہے؟

اس وقت امام علیہ السلام نے آیت انّ اللہ اصطفیٰ...کی تلاوت فرمائی۔

نوٹ:اگرچہ ہمارا مقصد اہل بیت کی فضیلت کو اہل سنت کی نظر میں بیان کرنا ہے لیکن مذکورہ روایت کو المیزان سے نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس

____________________

( ۱ ) ۔المیزان ج ۳ ص۱٦ ۸ ۔در منثور ج۲ص ۱ ۸ ۱۔

۲۳

حدیث کے مضمون کی مانند بہت ساری روایات ہمارے برادران اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں،( ۱ )

نیز امام محمد باقر (ع)سے روایت کی گئی ہے کہ:

انّه تلا هٰذه الآیة.......فقال نحن منهم و نحن بقیّة تلک العترة ( ۲ )

آپ- نے اس آیت کی تلاوت کے بعدفرمایا: ہم انہیں میں سے ہیں اور اہل بیت میں سے جو زندہ ہیں وہ ہم ہیں۔

تفسیر ثعالبی اور دیگر کتب تفاسیر میںاہل سنت کے بڑے مفسرین نے آل ابراہیم کی تفسیر کے بارے میں کئی روایات بیان کی ہیں جن سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ آل ابراہیم سے(جو تمام عالم سے افضل ہیں)اہل بیت رسول مراد ہیں۔لہٰذا مذکورہ تفسیر اور روایات کی رو سے کہہ سکتے ہیں کہ پورے عالم سے خدا نے اہل بیت رسول کو افضل قرار دیا ہے۔( ۳ )

٦)اہل بیت پریشانیوںسے نجات کا ذریعہ ہیں

____________________

( ۱ ) در منثور/ ج۲،شواہد التزیل ( ج ۱ص ۱۱ ۸) اور تفسیر ثعالبی وغیرہ کا مطالعہ فرمائیں۔

( ۲ ) ۔المیزان ج۳،ص۱٦ ۸ ۔در منثور ج۲ص۱ ۸ ۲۔

( ۳ ) در منثور اور شواہد التنزیل کا ضرور مطالعہ کریں

۲۴

( الا بذکر الله تطمئنّ القلوب ) ( ۱ )

آگاہ ہو! خدا ہی کی یاد سے دلوں کو تسلی ملتی ہے

تفسیر آیہ:

خدا نے انسان کے بدن میں تین سو ساٹھ اعضاء ایک نظام کے ساتھ ودیعت فرمایا ہے۔لیکن ان اعضاء میں سے دل کو مرکزیت حاصل ہے۔لہٰذا سارے اعضاء و جوارح دل کے تابع ہیں اور شیطان بھی جب کسی مومن پر مسلط ہونا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اس کے دل پر تسلط حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی طرف مولا امیر المومنین (ع)نے نہج البلاغہ کے کئی خطبوں میں اشارہ فرمایا ہے۔اور قرآن کریم میں خدا نے دل کو متعدد تعبیرات سے یاد فرمایا ہے کبھی صدر،کبھی قلب،کبھی قلوب.....جس سے اس کی اہمیت معلوم ہوجاتی ہے۔

ابن مردویہ نے حضرت علی (ع)سے روایت کی ہے:

انّ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لمّا نزلت هٰذه الآیة:الا بذکر الله.....قال ذالک من احبّ الله ورسوله واحب اهل بیتی صادقاً غیر کاذباً و احبّ المومنین شاهداً و غائباً الا بذکر الله یتحابون ( ۲ )

____________________

( ۱ ) سورئہ رعدآیہ ۲ ۸

( ۲ ) ۔،المیزان ج۱۱ ص۲٦ ۷ ۔در منثور ج۴،ص ۲۱۲۔

۲۵

جب یہ آیت شریفہ نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: اس سے مراد خدا اوراس کے رسول (ص)اور ان کے اہل بیت سے سچی دوستی رکھنے والے لوگ ہیں اور وہ لوگ، مومنین سے بھی ان کی موجودگی و عدم موجودگی میں محبت رکھتے ہیں،وہی لوگ ہیں جو خدا کی یاد میں ایک دوسرے سے دوستی کے خواہاں ہیں۔

تفسیر عیاشی میں ابن عباس (رض)سے روایت کی ہے:

انّه قال رسول الله الذین آمنوا و تطمئن قلوبهم یذکر الله الا بذکر الله تطمئن القلوب ثم قال اتدری یابن ام سلمة من هم؟قلت من هم یا رسول الله؟قال نحن اهل البیت و شیعتنا ( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے اس آیت کی تلاوت فرمائی پھر مجھ سے فرمایا :اے ام سلمہ کے فرزند کیا تم جانتے ہو کہ وہ کون ہیں،میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ(ص)!وہ کون لوگ ہیں؟فرمایا:ہم اہل بیت اور ہمارے چاہنے والے ہیں۔

اس روایت اور تفسیر سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ دلوں کے اضطراب اور پریشانی سے نجات ملنے کا ذریعہ اہل بیت ہیں،کیونکہ اہل بیت کی سیرت اور حقیقت کو صحیح معنوں میں درک کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ حضرات روحانی و نفسیاتی

____________________

( ۱ ) ۔المیزان ج۱۱ ص۳٦ ۷ کشاف ج۲ ص ۳۱۱۔

۲۶

امراض اور اضطراب و پریشانی کو ختم کرنے والے طبیب ہیں یعنی روحانی امراض کے طبیب اہل بیت ہیں۔

۷)اہل بیت دنیا و آخرت میں سعادت کا ذریعہ ہیں

( وقولوا حطّة نغفرلکم خطٰیاکم و سنزید المحسنین ) ( ۱ )

''اور زبان سے حطہ(بخشش) کہتے رہو ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور ہم نیکی کرنے والوں کی نیکیاں بڑھا دیںگے۔''

تفسیر آیہ:

ابن ابی شیبہ نے علی ابن ابی طالب (ع)سے روایت کی ہے:

قال انّما مثلنا فی هٰذه الامة کسفینة نوح وکباب حطة فی بنی اسرائیل ( ۲ )

حضرت علی (ع)نے فرمایا:اس امت میں ہماری مثال نوح (ع)کی کشتی اور بنی اسرائیل میں باب حطہ کی ہے۔

یعنی امت مسلمہ کےلئے نجات اور سعادت کا ذریعہ دنیا و آخرت میں اہل بیت ہیں اور ان سے تمسک رکھنے سے دنیا میںوقار اور آخرت میں سعادت حاصل ہوگی ،کیونکہ خدا نے ان کوبشر کی سعادت اور نجات کےلئے خلق فرمایا ہے،لہٰذا

____________________

( ۱ ) ۔بقرۃ۵ ۸

( ۲ ) ۔در منثور ج ۱ ص۱ ۷ ۴

۲۷

اگردنیا و آخرت میں سعادت ،اور ذلت و خواری سے نجات، نیکنام اور با بصیرت ہونے کے خواہاں ہیں تو ان کی سیرت پر چلنا چاہے۔

۸)اہل بیت سے رجوع کرنے کا حکم

( فاسئلوا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون ) ( ۱ )

''اگر تم خود نہیں جانتے ہو تو اہل الذکر (یعنی جاننے والوں)سے پوچھو۔''

تفسیر آیہ:

اخرج الثعلبی عن جابر بن عبدا لله قال:قال علی ابن ابی طالب علیه السلام: نحن اهل الذکر ( ۲ )

علامہ ثعالبی نے جابر بن عبد اللہ(ع)سے روایت کی ہے کہ جابر نے کہا :حضرت علی (ع)نے فرمایا :اہل الذکر سے ہم اہل بیت مراد ہیں۔

نیز جابر جعفی(ع)سے روایت کی ہے کہ آپ نے کہا:جب آیت ذکر نازل ہوئی تو حضرت علی (ع)نے فرمایا: اس سے ہم اہل بیت مراد ہیں۔( ۳ )

عن الحرث قال سألت علیاً عن هٰذه الآیة فاسئلوا اهل الذکر قال والله انا نحن اهل الذکر نحن اهل العلم و نحن معدن التاویل

____________________

( ۱ ) ۔نحل/۴۳

( ۲ ) ینابیع المودۃ،ج ۱ص۱۱ ۹ ط:الطبعۃٰ الثانیۃمکتبۃ العرفان بیروت صیدا

( ۳ ) ۔ینابیع المودۃص ۱۲ ۰

۲۸

والتنزیل و قد سمعت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یقول انا مدینة العلم و علی بابها فمن اراد العلم فلیاته من بابه ( ۱ )

حرث (ع)سے روایت کی ہے:اس نے کہا: میں نے حضرت علی (ع)سے آیت ذکر کے بارے میں پوچھا تو آپ- نے فرمایا:خدا کی قسم اہل الذکر اور اہل العلم سے ہم اہل بیت مراد ہیں ہم ہی تنزیل اور تاویل کا سر چشمہ ہیں اور بے شک میں نے پیغمبر اسلام (ص)سے سنا ہے کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا:میں علم کا شہر اور علی (ع)اس کا دروازہ ہے،پس جو علم کاخواہاں ہے اسے چاہے کہ وہ علم کے دروازے سے داخل ہو۔

اگر کوئی تعصب کی عینک اتار کر اس حدیث کے بارے میں غور کرے تو معلوم ہوگا کہ علم اور معرفت کی دو قسمیں ہیں:

(۱)حقیقی علم و معرفت،

(۲)اعتباری علم و معرفت۔

حقیقی علم و معرفت اس کو کہا جاتا ہے جو پیغمبر اسلام (ص)اور علی (ع)سے لیا گیاہو لہٰذا دنیا میں بہت سارے انسان اس طرح گذرے ہیں اور موجود ہیںجوکہ کسی موضوع سے متعلق برسوں تحقیق کرنے کے باوجودان کی عاقبت منفی

____________________

( ۱ ) ۔شواہد التنزیل ج۱ ص ۳۳۴حدیث۴۵ ۹

۲۹

نظر آتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے علم و تحقیق کا سر چشمہ پیغمبر اسلام (ص) اورحضرت علی (ع)کو قرار نہیں دیا ہے۔

نیز معاویہ بن عمار ذہبی نے امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا:اہل الذکر سے ہم اہل بیت مراد ہیں( ۱ )

عجیب بات یہ ہے کہ ہم مسلمان ہونے کا دعوےٰ تو کرتے ہیں لیکن ایسی انسان ساز روایات کا مطالعہ نہیں کرتے، اگر ہم روایات نبوی(ص) کا مطالعہ کرتے تو آج روز مرّہ زندگی کے مسائل اور دنیا و آخرت سے متعلق مسائل کےلئے جاہلوں کی طرف رجوع نہ کرتے،بلکہ خدا نے جن سے سوال کرنے کا حکم دیا ہے ان سے سوال کرتے اور ان سے راہ حل حاصل کرتے۔آیت ذکر سے اہل بیت کا کائنات کے ہر مسئلہ سے باخبر ہونا معلوم ہوجاتا ہے،اور ہر مسئلے کا حل ان سے لینا،ان کی طرف رجوع کرنا ہماری شرعی ذمہ داری ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

جن لوگوں نے ان سے رجوع کیا ہے اور ان سے ہر مشکل کا حل چاہا ہے آج فریقین کی کتابوں میںان کی تفصیل درج ہے اور اس کا نتیجہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

____________________

( ۱ ) ۔فصول المہمہ نقل از ترجمہ فرمان علی ص۳ ۷ ۴

۳۰

سعید بن جبیر نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)ؐنے فرمایا:

انّ الرجل یصلی ویصوم و یحج و یعتمر و انّه لمنافق قیل یا رسول الله ! لماذا دخل علیه النفاق؟قال:یطعن علیٰ امامه وامامة من قال الله فی کتابه فاسئلوا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون ( ۱ )

بے شک وہ شخص جو نماز پڑھتا ہے،روزہ رکھتاہے،حج و عمرہ بھی بجالاتا ہے لیکن وہ منافق ہے۔پوچھا گیا :یا رسول اللہ(ص)! ایسے شخص پر نفاق کیسے داخل ہوا؟ آپنے فرمایا:وہ اپنے امام کو طعنہ دیتا ہے اس وجہ سے اس میں نفاق داخل ہے جبکہ اس کا امام وہ ہستی ہے جس کا تذکرہ خدا نے اپنی کتاب میں( فاسئلوا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون ) سے کیا ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں اہل سنت کی کتابوں میں بہت ساری روایات نبوی(ص)شان نزول اور توضیح آیت کے حوالے سے نقل ہوئی ہیں جن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل الذکر سے مراد اہل بیت ہیں،اس کا مصداق امام وقت ہونے میں کسی قسم کی تردید اور شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔( ۲ )

____________________

( ۱ ) در منثور ج۵ ص۱۲۳

( ۲ ) در منثور ج۵،ص۱۲۴۔

۳۱

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہے کہ وہ اپنی آخرت سنوارنے کی کوشش کرے اور اہل بیت سے متمسک ہو کر دنیا و آخرت دونوں کی سعادتوں سے فیض حاصل کرے۔

۹)اہل بیت ، ہدایت کا چراغ

( وانّی لغفّار لمن تاب و آمن و عمل صالحاً ثمّ اهتدیٰ ) ( ۱ )

''اور میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کےلئے جو توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اور پھر راہ ہدایت پر ثابت قدم رہے۔''

تفسیر آیہ:

جمال الدین محمد بن یوسف الزرندی الحنفی نے آیت شریفہ کی تفسیر میں ایک روایت نقل کی ہے:

ثم اهتدیٰ ای ولایة اهل بیته ۔ یا دوسری روایت:ثم اہتدیٰ ولایتنا اہل البیتیا تیسری روایت:ثم اہتدیٰ حب آل محمدیعنی ثم اہتدیٰ سے ہم اہل بیت کی ولایت سے بہرہ مند ہونا مقصود ہے،یعنی ہدایت پانے والے وہی ہونگے جو ہماری ولایت اور سرپرستی کو مانے گا اور اہل سنت کے کئی مفسرین اور علماء نے ثم اہتدیٰ کی تفسیر میں بہت ساری روایات نقل کی ہیں۔( ۲ ) جن کا

____________________

( ۱ ) ۔طہ/ ۸ ۲

( ۲ ) المیزان ج ۱٦ص ۲۱۱ودرمنثور ج٦،ص ۳۲۱

۳۲

خلاصہ یہ ہے کہ ولایت اہل بیت اور ان کی سرپرستی کے بغیر ہدایت پانے کا دعویٰ سراسر غلط ہے،کیونکہ خدا کی جانب سے جوحضرات ہدایت ہی کےلئے منصوب ہوئے ہیں ان کی رہنمائی اور نمائندگی کے بغیر ہدایت پانے کا تصور ہی صحیح نہیں ہے،چاہے ہدایت تشریعی ہو یا ہدایت تکوینی۔اگرچہ ہدایت تکوینی کو ہر بشر کی فطرت میں خدا نے ودیعت فرمایا ہے لیکن صرف ہدایت تکوینی بشر کےلئے کافی نہیں ہے اور آیت کریمہ میں ہدایت سے مراد یقیناً ہدایت تشریعی ہے،کیونکہ خدا نے توبہ کرنے والے اور ایمان لے آنے والے اور عمل صالح بجا لانے والے لوگوں کا تذکرہ کرنے کے بعد''ثم اھتدی''فرمایاہے۔اس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ہدایت تشریعی کی آبیاری کےلئے ولایت اہل بیت ضروری ہے وہ اہل بیت جن کو خدا نے ہی ہر قسم کی ناپاکی اور برائی سے پاک وپاکیزہ کرکے خلق فرمایا ہے۔

لہٰذا ولایت اہل بیت کے بغیر نماز، منافق کی نماز کہلائے گی،روزہ منافق کا روزہ شمار ہوگا اور حج و عمرہ بھی منافق کا حج و عمرہ شمار ہوگا جس کا اثر وضعی شائد ہو لیکن اجر و ثواب یقیناً نہیں۔ مذکورہ آیت سے واضح ہوا کہ اعمال صالحہ کی قبولیت اور ثواب ملنے کی شرط ولایت اہل بیت ہے، اور ان کی سر پرستی کے بغیرروحانی تکامل و ترقی کا تصور کرناغلط ہے ،کیونکہ روحانی اور معنوی تکامل و ترقی اس وقت ہوسکتی ہے جب مسلمان خدا کی طرف سے منصوب شدہ ہستیوں کی سیرت پر چلے۔

۳۳

۱۰)اہل بیت ،پاکیزہ ترین ہستیاں ہیں

( انّما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهیراً ) ( ۱ )

''خدا یہ چاہتا ہے کہ اے اہل بیت رسول !تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔''

تفسیر آیہ:

ابن ابی شیبہ، احمد، ابن جریر، ابن المنذر ،ابن ابی حاتم طبرانی ،حاکم اور بیہقی وغیرہ نے اپنی کتابوں میں واثلہ ابن الاسقع سے روایت کی ہے،انہوں نے کہا:

جاء رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم الیٰ فاطمة (ع) ومعه حسن (ع)و حسین (ع) و علی (ع) حتیٰ دخل فادنیٰ علیاً و فاطمة فاجلسهما بین یدیه و اجلس حسناً وحسیناً کل واحد منهما علیٰ فخذه ثم لفّ علیهم ثوبه وانا مستندیرهم ثم تلا هٰذه الآیة : ( انما یرید الله..... ) ( ۲ )

پیغمبراسلام (ص) حسنین(ع)اور حضرت علی (ع)کے ہمراہ حضرت فاطمہ زہرا(س)

____________________

( ۱ ) ۔الاحزاب /۳۳

( ۲ ) ۔در منثورج٦،ص٦ ۰ ۵

۳۴

کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آنحضرت (ص)نے گھر میں داخل ہونے کے بعد حضرت زہرا (س)اور حضرت علی (ع)کو بلا کراپنے قریب بٹھایا اور حسن(ع)و حسین- میں سے ہر ایک کو اپنے زانوئے مبارک پر بٹھایا پھر سب پر ایک چادر اوڑھائی اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

دور حاضرعلم و معرفت کے حوالے سے ترقی و پیشرفت کا دور ہے،لہٰذا پڑھے لکھے لوگوں کو چاہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے مفسرین کی کتابوں کا بغور مطالعہ کریں ، کیونکہ اہل بیت کی معرفت،ان سے دوستی رکھنا ہر بشر کی ذمہ داری ہے۔لہٰذا اہل سنت کی تفسیروں میں اس آیت کریمہ کی شان نزول کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :

پیغمبر اسلام (ص) ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے کہ اتنے میں پیغمبر اکرم (ص) نے پنجتن پاک پر ایک بڑی چادر اوڑھا دی،پھر آ پ ؐنے اس آیت کی تلاوت فرمائی، ام سلمہ اؑم المومنین کی حیثیت سے ان کے ساتھ چادر میں جانے کی درخوا ست کرنے لگیں توپیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا تو نیکی پر ہو لیکن ان کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔

پھر آنحضرت (ص)نے فرمایا:اے خدا ! یہ میرے اہل بیت ہیں ۔

۳۵

آنحضرت (ص) اس آیت کے نازل ہونے کے بعد چالیس دن تک نماز کے اوقات میں اہل بیت سے سفارش کرتے رہے کہ اے اہل بیت نماز کا وقت ہے،نماز کی حفاظت کرو۔( ۱ )

نیز ابن جریر ،حاکم اور ابن مردویہ نے سعد (ع)سے روایت کی ہے:

قال نزل علیٰ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم الوحی فادخل علیاً و فاطمة و ابنیهما تحت ثوبه قال اللهم هٰؤلآء اهلی و اهل بیتی ( ۲ )

سعد (ع)نے کہا:جب حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر وحی(یعنی آیت کریمہ)نازل ہوئی تو آپنے حضرت علی (ع)، فاطمہ (س)اور ان کے بیٹوں (حسن- و حسین-) کو کسائ(چادر)کے اندر داخل کیا،پھر خدا سے دعا کی :پروردگارا!یہ میرے گھر والے ہیں،یہ میرے اہل بیت ہیں،ان کو ہر برائی سے دور رکھ۔اس حدیث کے آخر سے ایک جملے کو حذف کیا گیا ہے۔لہٰذا ہم نے ترجمہ کرکے اس حذف شدہ جملے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

نیز ابن جریر،ابن ابی حاتم اور طبرانی، ابوسعید الخدری (ع)سے روایت کرتے ہیں:

قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم:نزلت هٰذه الآیة فی خمسة فیّ،وفی علی و فی فاطمة و حسن وحسین انما

____________________

( ۱ ) شواہد التنزیل ج۲ص۲ ۰ حدیث٦۵۵

( ۲ ) ۔در منثور ج٦،ص٦ ۰ ۵

۳۶

یرید الله لیذهب .........( ۱ )

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا کہ یہ آیت شریفہ پانچ ہستیوں کی شان میں نازل ہوئی ہے،ان میں،میں علی (ع)،فاطمہ (س) ، حسن (ع)اور حسین(ع)شامل ہیں۔

اسی طرح ابن مردویہ اور قطبیب نے ابی سعید الخدری (ع)سے روایت کی ہے:

قال :کان یوم ام سلمة ام المومنین لقی الله علیها فنزل جبرئیل علیه السلام علیٰ رسول الله هٰذه الآیة:انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهیراً،قال فدعا رسول الله بحسن وحسین و فاطمة و علی فضّمهم الیه و نشر علیهم الثوب و الحجاب علیٰ ام سلمة مضروب ثم قال اللهم هٰؤلآء اهل بیتی اللهم اذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهیراً قالت ام سلمة فانا معهم یا نبی الله؟ قال: انت علیٰ مکانک و انک علیٰ خیرٍ ( ۲ )

ابی سعید الخدری (ع)نے کہا کہ ایک دن حضرت رسول اسلام (ص)

____________________

( ۱ ) ۔در منثور ج٦،ص٦ ۰ ۴۔

( ۲ ) ۔در منثور ج٦،ص٦ ۰ ۴۔

۳۷

حضرت ام ّالمومنین ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے اتنے میں( انما یرید الله ) کی آیت لے کر جبرئیل امین (ع)نازل ہوئے،پیغمبر اکرم (ص)نے حسن- وحسین(ع)اور فاطمہ (س)و علی (ع)کو اپنے پاس بلالیا اور ان کے اوپر ایک چادر اوڑھادی اور حضرت ام سلمہ اور ان کے درمیان ایک محکم پردہ نصب کیا پھر آنحضرت (ص)نے فرمایا:اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں،ان سے ہر برائی کو دور رکھ اور انہیں اس طرح پاک و پاکیزہ قرار دے جو پاک و پاکیزہ قرار دینے کا حق ہے۔یہ سن کر جناب ام سلمہ نے درخواست کی : اے خدا کے نبی! کیا میں ان کے ساتھ ہوجاؤں؟آنحضرت (ص)نے فرمایا :تم بہترین خاتون ہو لیکن ان کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔

۳۸

تحلیل

اگرچہ محققین و مفسرین نے آیت تطہیر کے بارے میں مفصل کتابیں لکھی ہیں جن میں آیت تطہیر سے متعلق مفصل گفتگو اور اس آیت پر ہونے والے اعتراضات کا جواب بھی بہتر طریقے سے دیا گیا ہے۔لیکن اہل سنت کے مفسرین نے آیت تطہیر کی شان نزول اور اس کے مصداق کو اہل بیت قرار دیا ہے۔اور اہل سنت کی کتابوں میں اس طرح کی روایات بہت زیادہ نظر آتی ہیں کہ زوجات پیغمبر (ص)میںسے ام سلمہ نے پیغمبر (ص)سے اہل بیت کے ساتھ ہونے کی کوشش کی لیکن پیغمبر (ص)نے اہل بیت کے مصداق معین کرتے ہوئے ان سے فرمایا کہ تم نیک خاتون ہو لیکن ان کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔جس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت اور اہل بیت رسول میں بڑا فرق ہے۔اہل بیت (ع)خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ہیں جبکہ اہل بیت رسول میں سے جو اہل بیت (ع)کے مصداق نہیں ہے وہ حجت خدا نہیں ہے۔لہٰذا امت مسلمہ کے درمیان یکجہتی، قرآن و سنت کی بالا دستی اور اسلام کی حفاظت کی خاطر فریقین کی کتابوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

نیز ترمذی نے اپنی گراں بہا کتاب اور ابن جریر،ابن المنذر اور حاکم ، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے اپنی کتابوں میں ام المومنین ام سلمہ سے روایت کی ہے:

قالت نزلت هٰذه الآیة :انما یرید الله...وفی البیت سبعة:جبرئیل و میکائیل علیهما السلام و علی (ع) و فاطمة (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) وانا علیٰ باب البیت قلت یا رسو ل الله الست من اهل البیت قال انک علیٰ خیر انک من ازواج النبی صلی الله علیه وآله وسلم ( ۱ )

ام سلمہ نے کہا کہ'' انمایرید اللہ'' کی آیت میرے گھر میں اس وقت نازل ہوئی جس وقت گھر میں سات افراد موجود تھے:جبرائیل (ع)،میکائیل(ع)

____________________

( ۱ ) ۔در منثور ج٦،ص ٦ ۰ ۴وسنن ترمذی،ج۲ص۱۱۳۔

۳۹

علی (ع)فاطمہ (س) ،حسین(ع)، حسین(ع)اوررسول گرامی اسلام (ص) تشریف فرما تھے۔جبکہ میں گھر کے دروازے پر تھی،میں نے پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا یا رسول اللہ(ص)! کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟ آپنے فرمایا : تم پیغمبر اکرم (ص)کی ازواج میں سے ایک بہترین خاتون ہو۔

اہم نکات:

آیت تطہیر سے اہل بیت کی عصمت کے ساتھ ہر قسم کی پلیدی اور ناپاکی سے دور ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

نیز اہل بیت کائنات میں خدا کی طرف سے امین ترین ہستیاں ہونے کا علم ہوتا ہے۔

اگر ہم اہل سنت کی قدیم ترین تفاسیر اورکتب احادیث کا مطالعہ کریں اور ان میں منقول روایات کے بارے میں غور کریں تو بہت سارے نکات اہل بیت کے بارے میں واضح ہوجاتے ہیں۔

اہل بیت کا معنی،ٰ لغت کے حوالے سے وسیع اور عام ہے،جس میں ہر وہ فرد داخل ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ان کے عیال کی حیثیت سے زندگی گذارتا تھا۔لیکن قرآن مجیدجو آیات اہل بیت کی فضیلت اور عظمت بیان کرتی ہیں ان میں یقیناً سارے

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

قلت: من يقيم الحدود؟ السلطان او القاضي؟ فقال:'' اقامة الحدود الى من اليه الحكم _''(۱)

حفص ابن غياث كہتے ہيں : ميں نے امام صادق سے پوچھا : حدود الہى كون جارى كرے گا؟ سلطان يا قاضي؟ فرمايا حدود كا اجرا حاكم كا كام ہے_

انّ عليّاً (ع) قال :'' لا يصلح الحكم و لا الحدود و لا الجمعة الا ّ بامام'' (۲)

اميرالمؤمنين نے فرمايا حكومت ، حدود اور جمعہ كى ادائيگى امام كے بغير صحيح نہيں ہيں_

حمزہ ابن عبدالعزير ديلمى (متوفى ۴۴۸_۴۶۳)جو كہ سلار كے لقب سے مشہور ہيں كہتے ہيں:

قد فوّضوا إلى الفقهاء إقامة الحدود والاحكام بين الناس بعد أن لا يتعدّوا واجباً و لا يتجاوزوا حداً و امروا عامة الشيعة بمعاونة الفقهاء على ذلك (۳)

يہ كام فقہاء كو سونپا گيا ہے كہ وہ حدود الہى كو قائم كريں اور لوگوں كے درميان فيصلہ كريں_ وہ نہ واجب سے آگے بڑھيں اور نہ حد سے تجاوز كريں اور عام شيعوں كو اس سلسلہ ميں فقہاء كى مدد كرنے كا حكم ديا گيا ہے_

اس فتوى كے مطابق حدود اور احكام الہى كا اجرا جو كہ'' سياسى ولايت'' كى خصوصيات ميں سے ہے اور ''ولايت قضائي'' سے وسيع تر ايك امر ہے_ شيعہ فقہا كے سپرد كيا گيا ہے اور ائمہ معصومين لوگوں سے يہ چاہتے ہيں كہ وہ اس سلسلہ ميں فقہاء كى مدد كريں_

____________________

۱) وسائل الشيعہ جلد ۱۸ص۲۲۰_

۲) المستدرك جلد ۳ صفحہ ۲۲۰_

۳) المراسم النبويةص ۲۶۱_

۱۶۱

عظيم فقيہ ابن ادريس حلّى (متوفى ۵۹۸ھ ق) معتقد ہيں كہ جامع الشرائط فقيہ كو احكام الہى اور شرعى حدود كے اجرا كى ذمہ دارى لينى چاہيے يہ ولايت ''امر بالمعروف اور نہى عن المنكر'' كى ايك قسم ہے اور يہ ہر ''جامع الشرائط'' كى ذمہ داريہے_ حتى كہ اگر اسے فاسق و فاجر حاكم كى طرف سے بھى مقرر كيا جائےتب بھى وہ در حقيقت'' امام معصوم اور ولى امر ''كى طرف سے مقرر كردہ ہے_ حدود الہى كا اجرا صرف امام معصوم كى ذمہ دارى نہيں ہے بلكہ ہر حاكم كا وظيفہ ہے _پس مختلف شہروں ميں امام كے نائبين بھى اس حكم ميں شامل ہيں (۱) _

ابن ادريس حلّي، سيد مرتضى ، شيخ طوسى اور دوسرے بہت سے علماء كو اپنا ہم خيال قرار ديتے ہيں_

''و عليه ( العالم الجامع للشرائط)متى عرض لذلك ا ن يتولّاه (الحدود)لكون هذه الولاية امراً بمعروف و نهياً عن منكر، تعيّن غرضهما بالتعريض للولاية عليه و هو ان كان فى الظاهر من قبل المتغلّب ،فهو فى الحقيقة نائب عن ولى الامر (عج) فى الحكم فلا يحلّ له القعود عنه و اخوانه فى الدين مامورون بالتحاكم و حمل حقوق الاموال اليه و التمكن من انفسهم لحدّ او تاديب تعيّن عليهم ...''

''و ما اخترناه اوّلا هو الذى تقتضيه الادلّة ،و هو اختيار السيد المرتضى فى انتصاره و اختيار شيخنا ابوجعفر فى مسائل خلافه

____________________

۱) آپكى آنے والى عبارت كا ترجمہ تقريبا يہى ہے ( مترجم)

۱۶۲

و غيرهما من الجلّة المشيخة الشائع المتواتر ان للحكام اقامة الحدود فى البلد الذى كل واحد منهم نائب فيه من غير توقف فى ذلك'' (۱)

دسويں صدى كے عظيم فقيہ محقق كركى (متوفى ۹۴۰ق )فقيہ عادل كے امام معصوم كے تمام قابل نيابت امور ميں امام كے نائب ہونے پر اصرار كرتے ہيں اور اسے تمام علماء كا متفق الرا ے حكم قرار ديتے ہوئے كہتے ہيں:

اتَّفَقَ أصحابنا (رضوان الله عليهم) على أنّ الفقيه العدل الإمامى الجامع لشرائط الفتوى المعبّر عنه بالمجتهد فى الأحكام الشرعية نائب من قبَل ائمة الهُدى (صلوات الله عليهم) فى حال الغَيْبة فى جميع ما للنّيابة فيه مدخل والمقصود من هذا الحديث هنا أنّ الفقيه الموصوف بالأوصاف المعيّنة منصوب من قبَل أئمّتنا نائب عنهم فى جميع ما للنّيابة فيه مدخل بمقتضى قوله (ع) : '' فإنّى قد جعلته عليكم حاكماً'' و هذه استنابة على وجه كلّي''

ہمارے تمام علماء اس بات پر متفق ہيں كہ وہ شيعہ عادل فقيہ جو فتوى دينے كى صلاحيت ركھتا ہو كہ جسے احكام شرعيہ ميں مجتہد سے تعبير كيا جاتا ہے، زمانہ غيبت ميں ان تمام امور ميں ائمہ ہدى كا نائب ہوتا ہے جو نيابت كے قابل ہيں

حديث معصوم (كہ ميں نے اسے تم پر حاكم قرار ديا ہے) سے مراد يہ ہے كہ وہ فقيہ جو

____________________

۱) السرائر، جلد ۳ ، صفحہ ۵۳۸، ۵۳۹و۵۴۶_

۱۶۳

مذكورہ صفات كا حامل ہو _ ائمہ كا مقرر كردہ نائب ہے ان تمام امور ميں جو قابل نيابت ہيں اور يہ نيابت كلى اور عام ہے_ (۱)

شيخ جعفر كاشف الغطاء كے فرزند شيخ حسن كاشف الغطا (متوفى ۱۲۶۲ھ ق)اپنى كتاب ''انوار الفقاہہ'' (جو كہ خطى نسخہ ہے )ميں فقيہ كى '' ولايت عامہ'' كو صراحتاً ذكر كرتے ہوئے كہتے ہيں : فقيہ كى ولايت صرف قضاوت تك محدود نہيں ہے اور اس بات كى نسبت فقہا كيطرف ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

''ولاية الحاكم عامّة لكلّ ما للإمام ولاية فيه لقوله (ع) : '' حجّتى عليكم'' و قوله (ع) : '' فاجعلوه حاكماً'' حيث فهم الفقهاء منه انّه بمعنى الوليّ المتصرّف لا مجرّد أنّه يحكم فى القضائ''

حاكم ( فقيہ جامع الشرائط) كو ان تمام امور ميں ولايت حاصل ہے جن ميں امام (ع) كو ولايت حاصل ہوتى ہے كيونكہ امام (ع) فرماتے ہيں: ''يہ تم پر ميرى طرف سے حجت ہيں''_ نيز فرمايا: ''اسے ( فقيہ كو )حاكم قرار دو'' _ اس سے فقہا نے يہى سمجھا ہے كہ يہاں مراد'' ولى متصرف ''ہے نہ كہ صرف قضاوت كرنے والا_

انوار الفقاہہ كے مصنف كى ولايت عامہ پر ايك دليل يہ ہے كہ ولايت كے سلسلہ ميں نائب خاص اور نائب عام ميں كوئي فرق نہيں ہے _ يعنى اگر امام معصوم كسى شہر ميں ايك نائب خاص مقرر كرتے ہيں مثلا مالك اشتر كو مصر كيلئے ،يا غيبت صغرى ميں نوّاب اربعہ كو، تو ان كى ولايت صرف قضاوت ميں منحصر نہيں ہوتى بلكہ حدود الہى كا اجراء ،شرعى ماليات كى وصولى ، جھگڑوں كا فيصلہ ، امورحسبيّہ كى سرپرستى ، اور مجرموں كو سزا دينا، سب اس ميں شامل ہيں_ پس غيبت كبرى كے زمانہ ميں بھى امام معصوم كى نيابت عمومى ہوگى اور ان تمام امور كى ذمہ دارى فقيہ عادل پر ہوگى _

____________________

۱) ر سائل محقق كركي، جلد ۱ ،ص ۱۴۲، ۱۴۳ (رسالة صلوة الجمعہ)_

۱۶۴

خلاصہ:

۱) اصل '' ولايت فقيہ'' شيعہ فقہ كے مسلّمات ميں سے ہے اگر چہ اس ولايت كے دائرہ اختيار ميں اختلاف ہے _

۲)بڑے بڑے شيعہ فقہا نے فقيہ كى ولايت عامہ پر اجماع كا دعوى كيا ہے_ جبكہ بعض مخالفين اسے ايك نيا اور جديد مطلب سمجھتے ہيں_

۳) بعض فقہا كا اس پر اصرار كہ حدود الہى كا اجرا فقيہ عادل كا كام ہے_ ''فقيہ كى ولايت عامہ ''كى دليل ہے_

۴)بعض روايات حدود الہى كے اجرا كو سلطان اور حاكم كى خصوصيات قرار ديتى ہيں نہ قاضى كى _

۵)بعض فقہا صريحاً كہتے ہيں : نائب عام ( زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل)اور نائب خاص (مثلا مالك اشتر اور محمد ابن ابى بكر) كى ولايت كے دائرہ اختيار ميں كوئي فرق نہيں ہے_

۱۶۵

سوالات :

۱)ولايت فقيہ ميں محور اختلاف كيا ہے؟

۲)ان تين فقہاء كے نام بتايئےنہوں نے فقيہ كى ولايت عامہ پر اجماع كا دعوى كيا ہے؟

۳)فقيہ كى ولايت عامہ پر محقق كركى نے كس طرح استدلال كيا ہے؟

۴)حدود الہى كا اجرا فقيہ عادل كے ہاتھ ميں ہے_ يہ نظريہ كس طرح ''فقيہ كى ولايت عامہ ''كى دليل ہے؟

۵)ولايت فقيہ كے متعلق ابن ادريس حلّى كى كيا را ے ہے؟

۶)انوار الفقاہہ كے مصنف ولايت فقيہ كے متعلق كيا نظريہ ركھتے ہيں؟

۱۶۶

اٹھارہواں سبق :

ولايت فقيہ كى مختصر تاريخ-۲-

ہمارے فقہا كے كلمات ميں حاكم كے جو فرائض اور مختلف اختيارات بيان كئے گئے ہيں وہ قضاوت سے وسيع تر ہيں _ پہلے ہم نمونہ كے طور پر وہ كلمات يہاں ذكر كرتے ہيں_ پھر اس كى وضاحت كريں گے كہ يہاں حاكم سے مراد كيا ہے_

جو شخص اپنے واجب نفقہ كو ادا نہيں كرتا اس كے متعلق محقق حلّى كہتے ہيں:

''إذا دافع بالنفقة الواجبة أجبره الحاكم، فإن امتنع حبسه ...''(۱)

جب كوئي شخص نفقہ واجبہ كو ادا نہ كرے تو حاكم اسے مجبور كرے_ اگر پھر بھى وہ انكار كرے تو اسے قيد كردے

محقق حلى ''خيانت كرنے والے وصى كو معزول كرنا''حاكم كى ذمہ دارى قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''و لو ظهر من الوصيّ عجز ضُمَّ اليه مساعد، وإن ظهر منه خيانة وجب على الحاكم عزله و يقيم مقامه أميناً'' (۲)

____________________

۱) شرائع الاسلام جلد ۲ ،ص ۲۹۷_ ۲۹۸،كتاب النكاح _

۲) شرائع الاسلام جلد ۲، صفحہ ۲۰۳، كتاب الوصية_

۱۶۷

اگر معلوم ہوجائے كہ وصى عاجز ہے تو اس كيلئے مددگار معين كيا جائيگا اور اگر معلوم ہوجائے كہ وصى نے خيانت كى ہے تو حاكم كيلئے ضرورى ہے كہ اسے معزول كركے اس كى جگہ كسى امانتدار آدمى كو وصى مقرر كرے_

شيخ مفيد ''ديوانوں اور كم عقل افراد كيلئے وكيل معيّن كرنا ''حاكم كى ذمہ دارى قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

لحاكم المسلمين ا ن يوكّل لسْفهائهم مَن يطالب بحقوقهم و يحتج عنهم و لهم (۱)

مسلمان حاكم كيلئے ضرورى ہے كہ وہ سفيہ افرادپر اس شخص كو وكيل مقرر كرے جو ان كے حقوق كا مطالبہ كرتا ہو اور ان كى طرف سے اور ان كے حق ميں استدلال كرے_

شيخ مفيد حاكم كو'' سلطان'' اور'' ناظر'' جيسے الفاظ سے بھى تعبير كرتے ہيں_ مثلا ًكتاب وصيت ميں فرماتے ہيں:

''فإن ظهر من الوصى خيانة كان للناظر فى أُمور المسلمين أن يعزله'' (۲)

پس اگر وصى خيانت كرے تو امور مسلمين كے ناظر كيلئے ضرورى ہے كہ اسے معزول كردے_

ذخيرہ اندوز كے متعلق حاكم كى ذمہ دارى كو بيان كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

''وللسلطان أن يكره المحتكر على إخراج غلّته و بيعها فى أسواق المسلمين'' (۳)

____________________

۱) المقنعہ، صفحہ ۸۱۶،كتاب الوكالة_

۲) المقنعہ، صفحہ ۶۶۹_

۳) المقنعہ ،صفحہ ۶۱۶_

۱۶۸

سلطان كيلئے ضرورى ہے كہ وہ ذخيرہ اندوز كو غلّہ باہر لانے اور اسے مسلمانوں كے بازار ميں فروخت كرنے پر مجبور كرے_

قطب الدين راوندى مرحوم متاجركى بحث ميں فرماتے ہيں كہ حاكم كو حق حاصل ہے كہ وہ ذخيرہ اندوز كو غلّہ جات فروخت كرنے پر مجبور كرے_

فإذا ضاق الطعام و لا يوجد إلّا عند مَن احتكره ، كان للسلطان أن يْجبره على بيعه (۱)

پس جب غلّہ كى كمى ہو جائے اور ذخيرہ اندوز كے سوا كہيں نہ پاياجاتا ہو تو سلطان كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اسے بيچنے پر مجبور كرے_

شيخ حسن كاشف الغطاء كتاب انوار الفقاہہ باب قضا ميں لكھتے ہيں : حاكم شرع امام زمانہ -عجل الله فرجہ الشريف كى طرف سے تمام انفال اور اموال ميں وكيل او ر نائب ہے _ اور اس فتوى پر اجماع كا دعوى كرتے ہيں_ ان كى عبارت يہ ہے_

''و كذا الحاكم الشرعى وكيل عن الصاحب عجل الله فرجه الشريف فيما يعود اليه من انفاله و امواله و قبضه قبضه لمكان الضرورة و الاجماع و ظواهر اخبار النيابة و الولاية''

يہ كلمات اگر چہ حاكم كے فرائض كے متعلق بعض فقہاء شيعہ كى آرا اور فتاوى ہيں_ ليكن اس بات كى بھى نشاندہى كرتے ہيں كہ سلطان اور حاكم كے اختيارات قاضى كى قضاوت سے وسيع تر ہيں_حاكم قيد كرسكتا ہے

____________________

۱ ) فقہ القرآن جلد ۲، صفحہ ۵۲_

۱۶۹

حدود الہى كو جارى كرتا ہے ، كم شعور اور عاجز افراد كے امور كى ذمہ دارى ليتا ہے، اور حاكم ہر اس شخص كا ولى ہوتا ہے جس كا كوئي ولى نہ ہو _ اسى لئے ان موقوفات عامہ پر بھى اسے ولايت حاصل ہوتى ہے جن كا كوئي ولّى نہ ہو _ اس كا مال قبض كرناگويا امام معصوم (ع) كا مال قبض كرنا ہے_اس لئے امام معصوم (ع) كے زمانہ ميں جن اموال ميں تصرف كرنا امامت كى خصوصيات ميں سے ہے وہ تصرف زمانہ غيبت ميں حاكم كے ہاتھ ميں ہوتا ہے_

اب ديكھنا يہ ہے كہ حاكم ، سلطان يا امور مسلمين كے ناظر سے كيا مراد ہے؟ ہمارا دعوى يہ ہے كہ ان اوصاف كے مالك پہلے مرحلہ ميں خلفاء الہى يعنى محمد وآل محمد ہيں _ ان كے بعد ان كے خاص نائبين اور ان كے بعد يعنى زمانہ غيبت ميں ان كے نائبين عام يعنى جامع الشرائط عادل فقہاء ان اوصاف كے مالك ہيںاور يہ بات بڑے بڑے علماء كے اقوال ميں وضاحت كے ساتھ بيان كى گئي ہے_

شيخ مفيد اسلام كے حاكم اور سلطان كى وضاحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

''فأمّا اقامة الحدود فهو إلى سلطان الإسلام المنصوب من قبَل الله تعالى و هُم ائمّة الهُدى من آل محمّد(ع) أو مَن نَصَبُوهُ لذلك من الأُمراء والحُكّام وقد فوّضوا النظر فيه إلى فقهاء شيعتهم مع الإمكان'' (۱)

حدود الہى كا اجرا اس اسلامى حاكم كا كام ہے جو خدا كى طرف سے مقرر كيا گيا ہو _ اور وہ ائمہ اہلبيتہيں_ يا وہ افراد جنہيں يہ حاكم اور والى مقرر كريں اور ممكنہ صورت ميں يہ كام انہوں نے اپنے شيعہ فقہاء كے سپرد كيا ہے_

فخر المحققين محمد بن حسن حلى بھى حاكم كى اسى طرح تعريف كرتے ہيں اور اس كى نسبت اپنے والد حسن بن

____________________

۱) المقنعہ، صفحہ ۸۱۰_

۱۷۰

يوسف المعروف علامہ حلّيَ اور ابن ادريس كى طرف ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

المراد بالحاكم هنا السلطان العادل الا صلى أو نائبه فإن تعذ ّر فالفقيه الجامع لشرائط الفتوي، فقوله:'' فإن لم يكن حاكم'' المراد به فقد هؤلاء الثلاثة، و هو اختيار والدى المصنّف و ابن ادريس (۱)

يہاں پر حاكم سے مراد ''خود سلطان عادل ''يا اس كا نائب ہے اور اگر يہ نہ ہوں تو پھر فتوى كى شرائط كا حامل فقيہ _ پس مصنف كا يہ قول كہ اگر حاكم نہ ہو اس سے مراد يہ ہے كہ يہ تينوں نہ ہوں اور اس قول كو ميرے والد ( يعنى مصنف )اور ابن ادريس نے اختيار كيا ہے_

محقق كركى بھى لفظ ''حاكم ''كى يہى تفسير كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

''والمراد به (الحاكم) الإمام المعصوم أو نائبه الخاصّ، و فى زمان الغيبة النائب العامّ_ و هو المستجمع لشرائط الفتوى و الحكم و لا يخفى أنّ الحاكم حيث أُطلق لا يراد به إلاّ الفقيه الجامع للشرائط'' (۲)

حاكم سے مراد امام معصوم يا ان كا'' نائب خاص ''ہے_ اور زمانہ غيبت ميں ''نائب عام''اورنائب عام سے مراد وہ شخص ہے جو فتوى اورفيصلہ كرنے كى تمام شرائط كا حامل ہو مخفى نہيں رہنا چاہيے كہ جب كسى قيد وشرط كے بغير ''حاكم'' كا لفظ بولا جائے تو اس سے مراد ''جامع الشرائط فقيہ'' ہى ہوتا ہے_

آخر بحث ميں ہم چند مفيد نكات كى طرف اشارہ كرتے ہيں:

____________________

۱) ايضاح الفوائد جلد ۲ ، صفحہ ۶۲۴ كتاب الوصايا_

۲) جا مع المقاصد جلد ۱۱، صفحہ ۲۶۶، ۲۶۷كتاب الوصايا_

۱۷۱

۱_ آخرى دو اسباق ميں ہمارى يہى كوشش رہى ہے كہ'' ولايت فقيہ'' كى تائيد كيلئے زيادہ تر فقہا ء كے اقوال پيش كئے جائيں _ كيونكہ اصلى ہدف اس نكتہ كى وضاحت كرنا ہے كہ'' ولايت فقيہ ''كا اعتقاد ايك قديمى بحث ہے نہ كہ ايك نيا مطلب _اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ بعد والے فقہاء كے اقوال ميں مسئلہ'' ولايت فقيہ'' كو بالكل شفاف اور واضح صورت ميں بيان كيا گيا ہے_ دور حاضر كے عظيم فقہاء جو ''فقيہ كى ولايت عامہ'' كے قائل ہيں ان ميں سے آيت اللہ بروجردى ، آيت اللہ گلپايگانى اور اسلامى جمہوريہ ايران كے بانى امام خمينى قابل ذكر ہيں_ (۱)

۲_اہلسنت نے ''الاحكام السلطانية ''كے عنوان سے فقہ سياسى كے متعلق مستقل بحث كى ہے_ اور فقہ الحكومت اور اس كى جزئيات پر تفصيلى نظر ڈالى ہے_ جبكہ شيعوں نے سياسى فقہ كے بارے ميں اس قدر تفصيلى بحث نہيں كى ہے _ اور اس كى وجہ شيعوں كے خاص سياسى اور اجتماعى حالات ہيں_فاسق و فاجر حكومتوں كى مخالفت كى وجہ سے شيعوں پر جو سياسى دباؤ تھا_ اس كى وجہ سے وہ سياسى فقہ كے متعلق مستقل اور تفصيلى بحث نہيں كر پائے اور نہ ہى گذشتہ فقہا حاكم ، والى امر كا دائرہ اختيارات اور سياسى فقہ سے مربوط اس قسم كى دوسرى مباحث مستقل اور براہ راست كرپائے_ جيسا كہ اس مختصر سى تاريخ ميں گذر چكا ہے كہ اس قسم كى مباحث پراگندہ طور پر حدود و ديات ، قضا ، امر بالمعروف و نہى عن المنكر ، نكاح ، وصيت اور مزارعہ كے ابواب ميں كى گئي ہيں _ حتى كہ محقق كركى اور صاحب الجواہر جيسے فقہاء جنہوں نے كھل كر فقيہ كى ولايت عامہ كى حمايت كى ہے_

____________________

۱) ان تين فقہاء كى آراء درج ذيل كتب ميں ملاحظہ كى جاسكتى ہيں _

الف: البدر الزاہر فى صلاة الجمعة و المسافر ، تقريرات دروس آيت الله حاج آقا حسين بروجردي

ب : الہداية الى من لہ الولاية ، تقريرات دروس آيت الله سيد محمد رضاگلپايگاني

ج : كتاب البيع جلد ۲ اور ولايت فقيہ ، امام خميني

۱۷۲

انہوں نے بھى اس ولايت عامہ اور اس كى جزئيات كے متعلق تفصيلى اور مستقل بحث نہيں كى ''ولايت فقيہ ''كے متعلق مستقل بحث آخرى دو صديوں ميں كى گئي ہے_پہلى دفعہ ملا احمد نراقى (متوفى ۱۲۴۵) نے اپنى كتاب ''عوائد الايام ''ميں ''ولايت فقيہ ''كے متعلق اچھے خاصے صفحات مختص كئے ہيں_

يہ نكتہ اس حقيقت كى نشاندہى كرتا ہے كہ فقيہ عادل كے محدود اختيارات كا ذكر اور حدود كا اجرا، امور حسبيّہ پر ولايت اور معصومين كے ساتھ مخصوص مالى امور مثلا انفال ، خمس اور سہم امام و غيرہ جيسے خاص مواردميں فقيہ كے نائب امام ہونے پر اصرار كا يہ معنى نہيں ہے كہ فقيہ كى ولايت عامہ پر اعتقاد نہيں ہے_ كيونكہ فقيہ كى ولايت عامہ كے سخت ترين حاميوں نے بھى چند مخصوص موارد كو اپنے مختلف فتاوى كے ذيل ميں حاكم كى ذمہ داريوں كے عنوان سے ذكر كيا ہے_پس محدود موارد كا ذكر كرنا فقيہ كى ولايت عامہ كى مخالفت يا عدم موافقت كى دليل نہيں ہے_ہاں اگر خود فقيہ نے مورد نظر بحث ميں ولايت فقيہ كى محدوديت يا عدم ولايت عامہ كى تصريح كى ہو تو پھر اس فقيہ كو اس نظريہ كا مخالف شمار كيا جاسكتا ہے _

۳_دوسرے علوم و معارف كى طرح فقہ نے بھى امتداد زمانہ كے ساتھ ساتھ ترقى كى ہے_ سياسى فقہ نے بھى دوسرے فقہى ابواب كى طرح ارتكائي مراحل طے كئے ہيں_

قديم علماء كى كتب ميں جو معاملات كى فقہى بحث ہے_ وہ بعد والے علماء كى تصانيف سے قابل موازنہ نہيں ہے_ مثلا دقت بحث كے لحاظ سے شيخ انصارى كى كتاب ''مكاسب'' سے علامہ ، محقق حلى اور شہيدين كى بحث تجارت قابل مقائيسہ نہيں ہيں-_ اسى طرح بعد والے علمائ اصول نے اصول عمليہ اور دليل عقلى كے متعلق جس طرح دقيق اور علمى بحثيں كى ہيںپہلے والے علماء نے نہيں كى _لہذا بالكل واضح سى بات ہے متاخرين علماء شيعہ كے دور ميں سياسى فقہ پر جو بحث كى گئي ہے وہ سابقہ علماء كى بحث كى نسبت تفصيلى اور زيادہ مفيد ہے_

۱۷۳

لہذا اس تفصيل كو اس بحث كے جديد ہونے كى دليل قرارنہيں ديا جاسكتا_

۴_فقيہ كي'' ولايت عامہ'' كا انكار اجتماعى امور ميں فقيہ كى سرپرستى كے انكار كے مترادف نہيں ہے_ اس مطلب كى وضاحت كيلئے درج ذيل نكات پر توجہ دينا ضرورى ہے_

الف _اصل ولايت فقيہ كا كوئي فقيہ بھى منكر نہيں ہے_ ولايت فقيہ شيعہ فقہ كے مسلّمات ميں سے ہے_ اختلاف ولايت كے قلمرو اور دائرہ اختيار ميں ہے_

ب _ بعض موارد ميں'' ولايت فقيہ ''سے انكار كا معنى يہ ہے كہ ان موارد ميں شرعى ادلّہ كى روسے ''فقيہ كى ولايت ''ثابت نہيں ہوئي _ مثلا فقيہ كى سياسى ولايت كے منكرين معتقد ہيں كہ ادلّہ روائي كے لحاظ سے امر بالمعروف ، نہى عن المنكر يا حكومت ميں فقيہ كى ولايت ثابت نہيں ہے_

ج_ ممكن ہے كسى كام پر از ''باب ولايت ''فقيہ كو منصوب نہ كيا گيا ہو ليكن اس كام كى سرپرستى فقيہ كى شان ہو نمونہ كے طور پر بعض شيعہ فقہاء كے فتاوى سے استناد كيا جاسكتا ہے كہ وہ امور جو محجور و بے بس افراد كے ساتھ مربوط ہيں_ ان ميں فقيہ عادل كى سرپرستى اور تصرف ''نصب ولايت'' كے باب سے نہيں ہے_ بلكہ'' قدرمتقين'' كے باب سے ہے_ يعنى دوسروں كى نسبت جواز تصرف كا ''فقيہ'' زيادہ حق ركھتا ہے_(۱)

فقيہ كى سياسى ولايت ( حكومت اور امر و نہى ميں ولايت)كے متعلق ممكن ہے كوئي فقيہ، فقيہ كى ''انتصابى ولايت'' كا معتقد نہ ہو ليكن امور حسبيّہ كے عنوان سے حكومت اور اسلامى معاشرہ كے انتظامى امور ميں فقيہ عادل كى سرپرستى كو جائز بلكہ واجب سمجھتا ہو_ آيت اللہ ميرزا جواد تبريزى دامت بركاتہ اس بارے ميں فرماتے ہيں:

____________________

۱) ان فقہا ميں سے ايك آيت اللہ خوئي بھى ہيں: التنقيح فى شرح العروة الوثقى ، تقريرات آيت الله خوئي ، بقلم مرزا على غروى تبريزى _ باب الاجتہاد و التقليد ص ۴۹ _ ۵۰

۱۷۴

ولايت فقيہ كے متعلق دو بنيادى نظريے ہيں_ ايك وہ جسے امام خمينى نے اختيا كيا ہے_كہ آپ قرآن و حديث كے ذريعہ ولايت امر و نہي_ كہ جس سے مراد وہى حكومت و مملكت قائم كرنا ہے_ كو فقيہ كيلئے ثابت كرتے ہيں_

دوسرانظر يہ حسبيّہ ہے جسے آيت اللہ خوئي تسليم كرتے ہيں_ اس كى بنا پر'' فقيہ كى ولايت عامہ'' پر ادلّہ عقلى و نقلى كامل نہيں ہيں ليكن معاشرہ ميں كچھ امور ايسے ہوتے ہيں_ جنہيں بے لگام و معطل چھوڑ دينے پر شارع مقدس راضى نہيں ہے_ اور اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ صرف فقيہ ہى ان امور كى سرپرستى كرسكتا ہے يتيموں كى سرپرستى ، بچوں كى سرپرستى و كفالت اور مسلم سرحدوں كى حفاظت امور حسبيّہ ميں سے ہيں_ يہ بھى كہا جاسكتا ہے كہ اسلامى نظام كى حفاظت ان سب ميں سے اہم ترين امر ہے_ اسى لئے مومنوں كى جان و مال كى حفاظت كيلئے فوج تيار كرنا اور ان كے امور كى انجام دہى كيلئے ادارے قائم كرنا بہت ضرورى ہے_(۱)

____________________

۱) انديشہ حكومت ، شمارہ ۲، مرداد ۱۳۷۸ ، صفحہ ۴_

۱۷۵

خلاصہ :

۱)شيعہ فقہا نے فقہى كتب ميں حاكم كے بہت سے فرائض گنوائے ہيں_ اور كبھى اسے ''ناظر'' اور ''سلطان'' كے عنوان سے بھى ياد كيا ہے_

۲)علماء كے كلمات ميں حاكم كے اختيارات قاضى كے اختيارات اور فرائض سے وسيع تر ہيں_

۳)شيخ مفيد پہلے مرحلہ ميں سلطان اور حاكم سے مراد امام معصوم ليتے ہيںاور زمانہ غيبت ميں فقيہ عادل_ فخر المحققين نے بھى يہى تعريف كى ہے اور اس تعريف كو علامہ حلّى اور ابن ادريس سے منسوب كيا ہے_

۴)ولايت فقيہ كى بحث ہمارى فقہ كى تاريخ كے ساتھ ہى شروع ہوتى ہے_ اگر چہ متاخرين كے ادوار ميں اس پر تفصيلى بحث ہوئي ہے_

۵)ولايت فقيہ كى مستقل اور جداگانہ بحث محقق نراقى كى كتاب عوائد الايام سے شروع ہوئي ہے اور اس سے پہلے حتى كہ ولايت فقيہ كے سخت حاميوں نے بھى مستقل بحث نہيں كى تھي_

۶)ولايت فقيہ كى بحث كا ارتكاء كوئي نئي بات نہيں ہے_ كيونكہ بہت سى اصولى اور فقہى ابحاث نے زمانہ كے ساتھ ساتھ ترقى كى ہے_

۷)فقيہ كى ''ولايت انتصابي'' كا انكار مسلمانوں كے اجتماعى امور ميںفقيہ كى سرپرستى كے انكار كے مترادف نہيں ہے_

۱۷۶

سوالات :

۱) علماء كے اقوال ميں حاكم اور قاضى كے در ميان كيا فرق ہے؟

۲) شيخ مفيد نے حاكم يا سلطان كى كيا تعريف كى ہے؟

۳) كس دور ميں فقہى كتب ميں ولايت فقيہ كى مستقل بحث شردع ہوئي ؟

۴) متقدمين علماء كے اقوال ميں ولايت فقيہ پر مستقل بحث كا نہ ہونا اور اس كى تمام جزئيات كى وضاحت نہ كرنا كيوں اسے غير معتبر قرار نہيں ديتا؟

۵) فقيہ كي'' ولايت انتصابى ''كا انكار، اجتماعى امور ميں فقيہ كى سرپرستى كے منافى نہيں ہے_ كيوں؟

۱۷۷

انيسواں سبق :

ولايت فقيہ، كلامى مسئلہ ہے يا فقہى ؟

دوسرے باب ميں گزر چكاہے كہ'' امامت ''اہلسنت كے نزديك ايك فقہى مسئلہ ہےجبكہ اہل تشيع كے نزديك كلامى مسئلہہے _ اگر اہلسنت كى كلامى كتب ميںيہ مسئلہ مورد بحث قرار پايا ہے تو اس كا سبب يہ ہے كہ شيعوں نے اس مسئلہ كو بہت زيادہ اہميت دى ہے اور اسے كلامى مباحث ميں ذكر كيا ہے_ اس سبق كا اصلى محور اس بات كى تحقيق كرنا ہے كہ كيا ائمہ معصومين كى ولايت اور امامت كى طرح ''ولايت فقيہ ''بھى ايك كلامى مسئلہ ہے يا فقہى بحث ہے اور اعتقادى و كلامى مباحث سے اس كا كوئي تعلق نہيں ہے؟

ہر قسم كا فيصلہ كرنے سے پہلے ضرورى ہے كہ كلامى مسئلہكى واضح تعريف اورفقہى مسئلہ سے اس كے فرق كى وضاحت كى جائے_ كلامى اور فقہى ہونے كا معيار كيا ہے؟ اسے پہچانا جائے تا كہ ولايت فقيہ كے كلامى يا فقہى مسئلہ ہونے كا نتيجہ اور ثمرہ ظاہر ہوسكے_

كسى مسئلہ كے كلامى يا فقہى ہونے كا معيار :

ابتدائے امر ميں ممكن ہے يہ بات ذہن ميں آئے كہ ايك مسئلہ كے كلامى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس كا

۱۷۸

اثبات عقلى دليل سے ہو_ اور مسئلہ فقہى وہ ہے جس كا اثبات شرعى اور نقلى ادلّہ سے ہو _ اس لئے علم كلام كو علوم عقليہ اور علم فقہ كو علوم نقليہ ميں سے شمار كيا جاتا ہے_

ليكن يہ معيار مكمل طور پر غلط ہے_ كيونكہ علم فقہ ميں بھى ادلّہ عقليہ كو بروئے كار لايا جاتا ہے جس طرح كہ بعض كلامى مباحث ادلّہ نقليہ كى مدد سے آشكار ہوتى ہيں_ دليل عقلي، علم فقہ ميں دو طرح سے فقہى استنباط ميں مدد ديتى ہے_

الف _ مستقلات عقليہ : مثلا اطاعت خدا كا وجوب ايك فقہى مسئلہ ہے_ اور اس كى دليل عقل كا حكم ہے_ اور عقل اس حكم ميں مستقل ہے _ اور كسى نقلى (شرعي)دليل كى دخالت كے بغير يہ حكم لگاتى ہے_

ب _ غير مستقلات عقليہ يا ملازمات عقليہ، غير مستقلات عقليہ سے مراد وہ قضايا عقليہ ہيں جو دو شرعى حكموں كے درميان ملازمہ كے ادراك كى بنياد پر صادر ہوتے ہيں_ عقل ايك شرعى حكم كے معلوم ہونے كے بعد اس حكم اور دوسرے حكم كے درميان ملازمہ كو ديكھتى ہے_ اس طرح ايك شرعى حكم سے دوسرے شرعى حكم كى طرف جاتى ہے_ اوريوں عقل اس شرعى حكمكے استنباط ميں فقيہ كى مدد كرتى ہے_

لہذا يہ دعوى نہيں كيا جاسكتا كہ علم فقہ ايسا علم ہے جس كے مسائل ادلّہ نقليہ سے حل ہوتے ہيں اور اس ميں دليل عقلى كى كوئي مدد شامل نہيں ہوتى _ اسى طرح يہ دعوى بھى نہيں كيا جاسكتا كہ علم كلام ادلّہ نقليہ سے مدد نہيں ليتااور اس كے تمام مسائل ادلّہ عقليہ كى بنياد پر حل ہوتے ہيںكيونكہ بعض كلامى مباحث جو كہ مبدا ومعاد سے مربوط ہيں ميں ادلّہ نقليہ يعنى قرآن اور روايات سے مدد لى جاتى ہے معاد (قيامت) ايك كلامى بحث ہے _ ليكن اس كى بعض تفصيلات صرف عقلى ادلّہ سے قابل شناخت نہيں ہيں بلكہ ان كيلئے ادلّہ نقليہ سے استفادہ كرنا بھى ناگزير ہوتا ہے_

۱۷۹

حقيقت يہ ہے كہ علم فقہ ،مكلفين كے افعال كے متعلق بحث كرتا ہے_ ان كے اعمال كے احكام كى تحقيق و بررسى كرتا ہے_ علم فقہ بحث كرتا ہے كہ كونسے افعال واجب ہيں اور كونسے حرام ،كونسے اعمال جائز ہيں اور كونسے ناجائز _ ليكن علم كلام، مبدا و معاد كے احوال كے متعلق بحث كرتا ہے_ علم كلام كا مكلفين كے افعال سے كوئي تعلق نہيں ہوتا_ جائز و ناجائز پر بحث نہيں كرتا_ علم كلام ميں افعال خدا كے متعلق بحث كى جاتى ہے مثلا علم كلام ميں يہ بحث كى جاتى ہے كہ كيا خدا پر رسولوں كا بھيجنا واجب ہے؟ كيا خدا سے قبيح افعال سرزد ہو سكتے ہيں؟ كيا نيكى كرنے والوں كو اجر دينا خدا پر واجب ہے؟ (۱)

بعثت انبياء اور ارسال رُسُل كا وجوب ايك كلامى بحث ہے_ كيونكہ يہ ايك اعتقادى بحث ہے جو خدا كے مبدا اور فعل كے ساتھ مربوط ہے _ ليكن انبياء كى اطاعت كا واجب ہونا اور ان كى دعوت پر لبيك كہنا ايك فقہى بحث ہے _كيونكہ اس حكم كا تعلق مكلف كے عمل سے ہے_ اس كا موضوع فعل انسان ہے _ اور كرنا يا نہ كرنا انسان كے ساتھ مربوط ہے_

اسى معيار كو ديكھتے ہوئے ولايت فقيہ كى بحث كو شروع كرتے ہيں_ بے شك يہ بحث فقہى پہلووں كى بھى حامل ہے_ مسئلہ ولايت فقيہ ميں كچھ ايسى جہات بھى ہيں جن كا تعلق مكلفين كے عمل سے ہے_ اور ان كا شرعى حكم فقہى تحقيق كے قابل ہے_ مثلا درج ذيل مسائل فقہى مسائل ہيں جو كہ ولايت فقيہ كے ساتھ مربوط ہيں_

مسلمانوں كے اجتماعى اور عمومى امور ميں فقيہ كى سرپرستى اور حاكميت جائز ہے يا نہيں؟ كيا اجتماعى اور سياسي

____________________

۱ ) ياد رہے كہ افعال خدا ميں جس'' وجوب'' كاذكر كيا جاتا ہے_ وہ وجوب تكليفى كى قسم سے نہيں ہے_ بلكہ اس كا معنى ''ضرورت ''كے ہيں_ يعنى خدا يہ كام ضرور انجام دے گا_ كوئي فعل اس پر واجب نہيں ہو تا _ وہ تمام ضرورتوں كا سرچشمہ ہے_ دوسرے لفظوں ميں جس وجوب كا ذكر علم كلام ميں ہوتا ہے وہ وجوب عن اللہ ہوتا ہے نہ كہ وجوب على اللہ _

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367