اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143941 / ڈاؤنلوڈ: 3621
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

کرتی ہیں۔ہم یہاں پر ان احادیث میں سے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

پہلی حدیث:

ابرھیم بن محمدبن مؤیدجومنی(۱) کتاب”فرائدالسبطین(۲) ‘ میں اپنے اسناد سے اورشیخ صدوق ابن بابویہ قمی کتاب”کمال الدین(۳) ‘ میں سلیم بن قیس سے روایت کرتے ہیں:

”میں نے خلافت عثمان کے زمانہ میں مسجد النبی (ص)میں دیکھا کہ حضرت علی(علیہ السلام)مسجد میں تشریف فر ماتھے اور کچھ لوگ آپس میں گفتگو کرنے میں مشغول تھے۔وہ قریش اوران کے فضائل نیز ان کے سوابق اور جوکچھ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے بارے میں فرمایا ہے، کے بارے میں گفتگو کرر ہے تھے اوراسی طرح انصار کی فضیلت اوران کے شاندار ماضی اورقرآن مجید میں ان کے بارے میں خدا وند متعال کی تعریف و تمجیدکا ذکر رہے تھے اورہر گروہ اپنی اپنی فضیلت گنوا رہا تھا۔

اس گفتگو میں دوسو سے زیادہ لوگ شریک تھے ان میں حضرت علی(علیہ السلام)سعد بن ابی وقاص،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیر،مقداد،ابوذر،حسن وحسین )علیہما السلام)اورابن عباس-بھی شامل تھے۔

____________________

۱۔ذہبی ،کتاب”المعجم المختص بالمحدثین“ص۶۵،طبع مکتبةالصدیق سعودی،طائفمیں لکھاہے:”ابراھیم بن محمد۔۔۔الامام الکبیر المحدث شیخ المشایخ“ یعنی:بہت بڑے امام محدث اور استادالاسا تذہ ۶۴۴ئ ہجری میں پیدا ہوئے اور۷۲۲ئ ہجری میں خراسان میں و فات پائی ۔ابن حجرکتاب”الدررالکامنہ“ج۱،ص۶۷ میں کہتے ہیں:“وسمع بالحلة وتبریز-----وله رحلة واسعة وعنی بهذاالشان وکتب وحصل وکان دینا وقوراً ملیح الشکل جید القرا ۔۔۔“یعنی: حلہ اور تبریزمیں )حدیث کے اساتذہ کے دوسرے شہروں کے بارے میں )سنا ہے۔۔۔ علم حدیث کے بارے میں ایک خاص مہارت رکھتے تھے۔۔۔اور متدین ،باوقار،خوبصورت اوراچھی قرائت کے مالک تھے۔

۲۔فرائدالبطین ،ج۱،ص۲۱۲،مؤسسہ المحمودی للطباعة والنشر،بیروت اسماعیل با شا کتاب ایضاح المکنون میں کشف الظنون،ج۴،ص۱۸۲،دارالفکر کے ذیل میں کہتا ہے:فرائد السبطین،فی فضائل المرتضیٰ والبتول والسبطین لابی عبداللّٰہ ابراھیم بن سعد الدین محمد بن ابی بکر بن محمدبن حمویہ الجوینی۔۔۔فرغ منہ سنة۷۱۶

۳۔کمال الدین،ص۲۷۴

۱۲۱

یہ جلسہ صبح سے ظہرتک جاری رہا اورعلی) علیہ السلام) بدستور خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے آپ(ع) کی طرف مخاطب ہوکر آپ سے کچھ فرمانے کی خواہش ظاہر کی۔

حضرت علی(علیہ السلام)نے فرمایا:تم دونوں گروہوں میں سے ہرایک نے اپنی فضیلت بیان کی اور اپنی گفتگو کا حق ادا کیا۔میں قریش وانصاردونوں سے یہ پوچھنا چاہتاہوں:خدا وند متعال نے یہ فضیلت تمھیں کس کے ذریعہ عطاکی ہے؟ کیا تم لوگ اپنی اوراپنے قبیلے کی خصوصیات کی وجہ سے ان فضیلتوں کے مالک بنے ہو؟ یاکسی دوسرے کی وجہ سے یہ فضیلتیں تمھیں عطا کی گئی ہیں؟

انہوں نے کہا:خدا وندمتعال نے محمد (ص)اورآپ کے اہل بیت)علیہم السلام)کے طفیل میں ہمیں یہ فضیلتیں عطا کی ہیں۔

حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا:صحیح کہاتم لوگوں نے اے گروہ انصار وقریش!کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جوکچھ تم کوخیر دینا وآخرت سے ملا ہے وہ صرف ہم اہل بیت(ع)کی وجہ سے تھا؟ اس کے بعدحضرت علی (علیہ السلام)نے اپنے اور اپنے اہل بیت )علیہم السلام)کے بعض فضائل گنوائے اوران سے تصدیق اور گواہی چاہی انہوں نے گواہی دی،آپ(ع)نے من جملہ فرمایا:

فانشدکم اللّٰہ،اتعلمون حیث نزلت( یااٴیّهاالذین آمنوا اٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرسّول واٴُولی الاٴمر منکم ) (۱) وحیث نزلت ا( ٕنّماولیّکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالذین یقیمون الصلوة ویؤ تون الزکوة وهمصراکعون ) (۲) وحیث نزلت( اٴم حسبتم اٴن تترکواولماّ یعلم اللّٰه الّذیم جاهدوامنکم ولم یتّخذ وا من دون اللّٰه ولا رسوله ولاالمؤمنین ولیجة ) (۳) قال الناس:یا رسول اللّٰه،خاصة فی بعض

____________________

۱۔نساء/۵۹ ۲۔مائدہ/۵۵

۳۔توبہ/۱۶

۱۲۲

المؤمنین اٴم عامة لجمیعهم؟فاٴمراللّٰه - عزّوجلّ - نبیّه( ص) اٴن یُعلّمهم ولاةاٴمرهم واٴن یفسّر لهم من الولایة مافسّرلهم من صلا تهم وزکاتهم وحجهم،فینصبنی للناس بغدیر خمثمّ خطب وقال:اٴیّهاالنّاس،إنّ اللّٰه اٴرسلنی برسالة ضاق بها صدری وظننت اٴن الناس مکذبیفاوعدنی لاُ بلّغها اٴولیعذّبنیثمّ اٴمرفنودی بالصلاة جامعةثمّ خطب فقال:اٴیّهاالناس،اٴتعلمون اٴنّاللّٰه - عزّوجل - مولای اٴنامولی المؤمنین،واٴنا اٴولی بهم من اٴنفسهم؟

قالوا:بلی یارسول اللّٰهقال:قُم یاعلیّفقمت فقال:”من کنت مولاه فهذاعلیّ مولاه،اللّهمّ وال من والاه،وعادمن عاداه“

فقام سلمان فقال:یارسول اللّٰه،ولاء کماذا؟فقال:ولاء کولایتی، منکنت اٴولی به من نفسه فاٴنزل اللّٰه تعالی ذکره:( الیوم اٴکملت لکم دینکم واٴتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دیناً ) (۱)

فکبّرالنبّی( ص) وقال:اللّٰه اٴکبر!تمام نبوّتی وتمام دین اللّٰه علیُّ بعدیفقام اٴبوبکر و عمر فقالا: یارسول اللّٰه،هؤلاء الآیات خاصّةفی علیّ؟قال:بلی،فیه وفی اٴوصیائی إلی یوم القیامةقالا:یارسول اللّٰه، بیّنهم لناقال:علیّ اٴخی ووزیری ووارثی ووصیّی وخلیفتی فی اُمّتی وولّی کل ّمؤمن بعدی ثمّ ابنی الحسن ثمّ الحسین ثمّ تسعة من ولدابنی الحسین واحد بعد واحد،القرآن معهم وهم مع القرآن لایفارقونه ولایفارقهم حتی

____________________

۱۔مائدہ/۳

۱۲۳

یردوا علیّ الحوض

فقالوا کلّهم:اللّهمّ نعم،قد سمعناذلک وشهدناکماقلت سواء وقال بعضهم:قدحفظناجلّ ماقلت ولم نحفظه کلّه،وهؤلاء الّذین حفظوااٴخیارناواٴفاضلنا

یعنی:میں تمھیں خدا کی قسم دلاتاہوں،کیا تم جانتے ہو کہ جبخداوندمتعال کا یہ فر مان:( یا اٴیّهاالذین آمنوااٴطیعواللّٰه واٴطیعوا الرّسول واولی الاٴمرمنکم ) نازل ہوا اورجب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:( إنّما ولیّکم اللّٰه ورسول ) ۔۔۔ )یعنی بس تمہاراولی اللہ ہے اوراس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نمازقائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں)اسی طرح جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:( اٴم حسبتم اٴن تترکوا ) ۔۔۔ )یعنی :کیاتمہارا خیال ہے کہ تم کواسی طرح چھوڑدیا جائے گا جب کہ ابھی ان لو گوں نے کہ جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور خدا و رسول نیز مومنین کے علا وہ کسی کو اپنا محرم راز نہیں بنا یا ہے مشخص نہیں ہو ئے ہیں؟ تو لوگوں نے کہا:یارسول اللہ!کیا یہ آیتیں بعض مؤمنین سے مخصوص ہیں یا عام ہیں اوران میں تمام مؤ منین شامل ہیں؟

خداوند متعال نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا:تاکہ ان)مو منین) کے امور کے سلسلہ میں ان کے سرپرست کا اعلان کردیں اورجس طرح نماز،زکوٰةاورحج کی ان کے لئے تفسیربیان کی ہے،مسئلہ ولایت وسر پرستی کو بھی ان کے لئے واضح کردیں۔)اورخدا نے حکم دیا)تاکہ غدیر خم میں مجھے اپنا جا نشین منصوب کریں۔

اس کے بعدپیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ پڑھااورفرمایا:

”اے لوگو!خدا وند متعال نے مجھے ایک ایسی رسالت سونپی ہے کہ جس کی وجہ سے میرا سینہ تنگی محسوس کر رہا ہے اورمیں نے گمان کیا کہ لوگ میری اس رسالت کو جھٹلادیں گے۔پھر مجھے خدا نے تہدید دی کہ یا میں اس)رسالت) کوپہنچاؤں یا اگر نہیں پہونچاتا تووہ مجھے عذاب کرے گا۔“

۱۲۴

اس کے بعد پیغمبراکرم (ص)نے حکم دیا اورلوگ جمع ہو گئے اورآپنے خطبہ پڑھا اور فرمایا: اے لوگو! کیاتم جانتے ہوکہ خداوند متعال میرامولا)میراصاحب اختیار)ہے اورمیں مؤمنین کامولاہوں اورمجھے ان کی جانوں پرتصرف کا زیادہ حق ہے ؟انہوں نے کہا:ہاں،یارسول اللہ۔فرمایا:اے علی(علیہ السلام)کھڑے ہوجاؤ!میں کھڑا ہوا۔فرمایا:جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع)بھی مولا ہیں۔خداوندا!اس کو دوست رکھ جو علی(ع)کودوست رکھے اوراس کو اپنا دشمن قرار دے جوعلی(ع)سے دشمنی کرے۔

سلمان اٹھے اورکہا:یارسول اللہ!یہ کونسی ولایت ہے؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:یہ ولایت وہی ہے جو میں رکھتاہوں ۔جس کی جان کے بارے میں ،میں اولیٰ ہوں علی(ع)بھی اسی طرح اس کی جان کے بارے میں اولیٰ ہے۔اس کے بعدخدا وند متعال نے یہ آیہء شریفہ نازل فرمائی:( الیوم اٴکملت لکم دینکم ) ۔۔۔ یعنی:”آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیااوراپنی نعمتوں کوتمام کردیاہے اورتمہارے لئے دین اسلام کو پسندکر لیا۔“

اس کے بعد ابوبکراورعمراٹھے اورکہا:یارسول اللہ ! کیا یہ آیتیں علی(ع)سے مخصوص ہیں؟فرمایا:جی ہاں،یہ علی(ع)اور میرے قیامت تک کے دوسرے اوصیاء سے مخصوص ہیں۔انہوں نے کہا:یارسول اللہ!ان کو ہمارے لئے بیان کر دیجئے آنحضرت نے فرمایا: میرابھائی علی،امت کے لئے میراوزیر،وارث،وصی اورجانشین ہے اورمیرے بعد ہرمؤمن کا سرپرست ہے۔اس کے بعد میرے فرزندحسن وحسین(ع)اس کے بعد یکے بعد دیگرے میرے حسین(ع)کے نوفرزند ہیں۔قرآن مجید ان کے ساتھ ہے اور وہ قرآن مجید کے ساتھ ہیں۔وہ قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اورقرآن مجیدان سے جدا نہیں ہوگا یہاں تک کہ حوض کوثرپرمجھ سے ملیں گے۔اس کے بعد علی علیہ السلام نے اس مجمع میں موجود ان لوگوں سے،کہ جومیدان غدیر میں موجوتھے اورپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان با توں کواپنے کا نوں سے سن چکے تھے،کہا کہ اٹھ کراس کی گواہی دیں۔

۱۲۵

زیدبن ارقم،براء بن عازب،سلمان،ابوذراورمقداداپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور کہا :ہم شہادت دیتے ہیں اورپیغمبر (ص)کے بیانات یاد ہیں کہ آنحضرت منبرپرکھڑے تھے اوران کے ساتھ آپ(ع)بھی ان کی بغل میں کھڑے تھے اورآنحضرتفرمارہے تھے:

”اے لوگو! خداوند متعال نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے لئے امام کہ جو میرے بعد تم لوگوں کی رہنمائی اور سر پرستی کرے اورمیراوصی اورجانشین ہو،کو نصب کروں،اس کونصب کروں جس کی اطاعت کوخداوند متعال نے اپنی کتاب میں واجب قراردیا ہے نیزاس کی اطاعت کواپنی اورمیری اطاعت کے برابرقراردیا ہے کہ جس سے)آیہ اولوالامرکی طرف اشارہ ہے) اے لوگو!خداوند متعال نے تمھیں نماز،زکوٰة،روزہ اورحج کا حکم دیا ۔میں نے تمہارے لئے اس کی تشریح ووضاحت کی ۔اوراس نے تمھیں ولایت)کا ایمان رکھنے) کابھی حکم دیااورمیں ، تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ یہ ولایت اس)شخص)سے مربوط ہے )یہ جملہ بیان فرماتے وقت آنحضرت اپنادست مبارک علی(ع)کے شانہ پر رکھے ہوئے تھے)اوران کے بعداس کے دونوں بیٹوں)حسن وحسین(ع))اوران کے بعد ان کے فرزندوں میں سے ان کے جانشیوں سے مربوط ہے--“

حدیث مفصل و طولانی ہے۔ہم نے اس میں سے فقط اتنے ہی حصہ پراکتفا کیا کہ جوآیہء شریفہ”اولوالامر“سے مربوط ہے ۔محققین مذکورہ منابع میں مفصل حدیث کا مطلعہ کرسکتے ہیں۔

دوسری حدیث

یہ وہ حدیث ہے جسے مرحوم شیخ صدوق نے ”کمال الدین(۱) ‘ میں جابر بن یزید جعفی سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے:

”میں نے سنا کہ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے تھے:جب خدا وند متعال نے اپنے پیغمبر (ص)پر یہ آیہء شریفہ:( یاایّهاالذین آمنوااٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرسول واولی الاٴمرمنکم ) نازل فرمائی،تو میں نے کہا:یارسول اللہ!ہم نے خدا اوراس کے رسولتو کو پہچان لیا۔اب وہ اولوالامرکہ جن کی اطاعت کو خداوندمتعال نے آپ کی اطاعت سے مربوط قراردیا ہے،وہ کون ہیں؟

آنحضرت (ص)نے فرمایا:”اے جابر!وہ میرے جانشین ہیں اورمیرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں۔ان میں سب سے پہلے علی بن ابیطالب، پھرحسن وحسین،پھر علی بن حسین،پھر محمد بن علی،جوتوریت میں باقر کے نام سے معروف

____________________

۱۔کمال الدین،ص۲۵۳

۱۲۶

ہیں اوراے جابر!تم جلدی ہی اس سے ملاقات کروگے لہذاجب انھیں دیکھنا توانھیں میرا سلام پہنچانا۔پھرصادق جعفر بن محمد،پھر موسیٰ بن جعفر،پھر علی بن موسیٰ،پھر محمدبن علی،پھر علی بن محمد،پھرحسن بن علی،پھر میراہم نام اورہم کنیت)جو)زمین پر خدا کی حجت اورخدا کی طرف سے اس کے بندوں کے در میان باقی رہنے والا حسن بن علی)عسکری)کا فر زندہے،جس کے ذریعہ خدا وند متعال مشرق ومغرب کی زمین کو فتح کرے گا۔وہ شیعوں او ر ان کے چاہنے والوں کی نظروں سے غائب ہوگا۔وہ ایسی غیبت ہوگی کہ ان کی امامت پر خدا کی طرف سے ایمان کے سلسلہ میں آزمائے گئے دلوں کے علاوہ کوئی ثابت قدم نہیں رہے گا“

تیسری حدیث:

یہ حدیث اصول کافی ۱ میں برید عجلی سے روایت کی گئی ہے وہ کہتے ہیں:

”امام باقر(علیہ السلام) نے فرمایا:خدا وند متعال نے)آیہء شریفہ)( یا اٴیّها الذین آمنوا اٴطیعو اللّٰه و اٴطیعوا الرسول و اولی الاٴمر منکم ) کے بارے میں صرف ہماراقصد کیاہے۔تمام مؤمنین کو قیامت تک ہماری)ائمہ معصومین) اطاعت کرنے کا کاحکم دیا ہے۔“

اس کے علاوہ شیعہ وسنی منابع میں اوربھی احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں ”اولوالامر“سے مراد ائمہء معصو مین کو لیا گیا ہے۔اہل تحقیق،”فرائد السمطین“اور”ینا بیع المودة“جیسی سنی کتابوں اور”اصول کافی“،”غا یةالمرام“اور”منتخب الاثر“ جیسی شیعوں کی کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱،ص۲۱۷

۱۲۷

چوتھا باب:

امامت آیہء ولایت کی روشنی میں

( ( إنّماولیکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالّذین یقیمون الصلوٰةویؤ تون الزکوٰة وهم راکعون ) ) ( مائدہ/۵۵)

”بس تمہاراولی اللہ ہے اوراس کا رسول اوروہ صاحبان ایمان ہیں،جونمازقائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میں زکوٰةدیتے ہیں“۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت اوربلافصل ولایت کے سلسلہ میں شیعہ امامیہ کی ایک اوردلیل آیہء شریفہ ولایت ہے۔آیہء شریفہ کے استدلال کی تکمیل کے سلسلہ میں پہلے چندمو ضوعات کا ثابت کرنا ضروری ہے:

۱ ۔آیہ شریفہ میں ”إنما“ حصر کے لئے ہے۔

۲ ۔آیہ ئ شریفہ میں لفظ ”ولی“ حص کے معنی اولی بالتصرف اورصاحب اختیار نیزسرپرست ہو نے کے ہے۔

۳ ۔آیت میں ”راکعون“سے مراد نماز میں رکوع ہے، نہ کہ خضوع وخشوع۔

۴ ۔اس آیہء شریفہ کے شان نزول میں ، کہ جوامیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہے، ذکر ہواہے کہ حضرت(ع)نے رکوع کی حالت میں زکوٰةدی ،)یعنی اپنے مال کوخداکی راہ میں انفاق کیاہو)ثابت ہو۔

اس باب میں ہم ان موضوعات کوثابت کرنے کی کوشش کریں گے اورآخر پر اس آیہء شریفہ سے مربوط چند سوالا ت کا جواب دیں گے۔

لفظ”إنما“کی حصر پر دلالت

علما ئے لغت اورادبیات نے اس بات کی تاکید کیہے کہ لفظ”إنما“حصرپر دلالت کرتا ہے۔یعنی عربی لغت میں یہ لفظ حصر کے لئے وضع کیا گیا ہے۔

۱۲۸

ابن منظورنے کہاہے:اگر ”إنّ“پر”ما“کا اضافہ ہو جائے تو تعیین وتشخیص پر دلالت کرتاہے۔جیسے خداوند متعال کا قول ہے:( إنّماالصدقات للفقراء والمساکین ) ۔۔۔(۱) چونکہ اس کی دلا لت اس پر ہے کہ حکم مذکور کو ثابت کرتا ہے اوراس کے غیر کی نفی کرتا ہے۔(۲)

جوہری نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے۔(۳)

فیروزآبادی نے کہاہے:”انّما“،”إنّما“کے مانند مفید حصرہے۔

اور یہ دونوں لفظ آیہء شریفہء:( قل إنّمایوحی إلیّ اٴنّماإلٰهکم إلٰه واحد ) (۴) میں جمع ہوئے ہیں۔(۵)

ابن ہشام نے بھی ایساہی کہا ہے۔(۶)

اس لئے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ لغت کے اعتبار سے لفظ”إنّما“کوحصرکے لئے وضع کیا گیاہے۔اگرکوئی قرینہ موجو ہوتواس قرینہ کی وجہ سے غیرحصرکے لئے استفادہ کیا

جاسکتا ہے،لیکن اس صورت میں ”إنّما“کااستعمال مجازی ہوگا۔

”ولیّ“کے معنی کے بارے میں تحقیق

”ولّی“ولایت سے مشتق ہے۔اگرچہ یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے لیکن اس کے موارد استعمال کی جستجو و تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اصلی معنی سر پرستی ،اولویت

____________________

۱۔توبہ/۶۰

۲۔لسان العرب،ج۱،ص۲۴۵

۳۔صحاح اللغة،ج۵،ص۲۰۷۳

۴۔انبیاء/۱۰۸ ۵۔القاموس المحیط،ج۴،ص۱۹۸،دارالمعرفة،بیروت۔

۶۔مغنی اللبیب ،ج۱،ص۸۸،دارالکتب العلمیة بیروت

۱۲۹

اورصاحب اختیار ہو نے کے ہے۔

ابن منظورکا”لسان العرب“میں کہنا ہے”الولیّ ولیّ الیتیم الّذی یلی اٴمره ویقوم بکفایته،وولیّ المرئةالّذی یلی عقدالنکاح علیهاوفی الحدیث:اٴیّماامرئة نکحت بغیرإذن مولیها فنکاحهاباطلوفی روایة:”ولیّها“اٴی متولّی اٴمرها(۱)

یتیم کا ولی وہ ہے جو یتیم کے امور اور اس کی کفالت کا ذمہ دار ہے اوراس کے امورکی نگران کرتا ہے۔عورت کا ولی وہ ہے کہ جس کے اوپر اس کے عقد ونکاح کی ذمہ داری ہو۔

حدیث میں آیا ہے:جوبھی عورت اپنے مولا)سرپرست)کی اجازت کے بغیرشادی کرے تواس کا نکاح باطل ہے۔ایک روایت میں لفظ”ولیھا‘ ‘کے بجائے لفظ”مولیھا“آیا ہے کہ جس کے معنی سرپرست اورصاحب اختیار کے ہیں۔

فیومی”المصباح المنیر“میں کہتا ہے:

الولیّ فعیل به معنی فاعل من ولیه إذقام بهومنه اللّٰه ولیّ الّذین آمنوا ،والجمع اٴولیاء،قال ابن فارس:وکلّ من ولی اٴمراٴحد فهوولیّهوقد یطلق الولیّ اٴیضاًعلی المعتق والعتیق،وابن العم والناصروالصدّیقویکون الولیّ بمعنی مفعول فی حق المطیع،فیقال:المؤمن ولیّ اللّٰه“ ۔(۲)

”فعیل)کے وزن پر(ولی فاعل کے معنی میں ہے ) ۔(۳) کہا جاتا ہے):ولیہ یہ اس

_____________________

۱۔لسان العرب ،ج۱۵،ص۱۰۴،دار احیاء التراث العربی ،بیروت

۲۔المصباح المنیر،ج۲،ص۳۵۰،طبع مصطفی البابی الحلبی واولادہ بمصر

۳۔”فعیل“صفت مشبہ ہے۔کبھی فاعل کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے، جیسے ”شریف“ اورکبھی مفعول کے معنی میں آتا ہے۔فیومی نے اپنے بیان میں اس کی طرف اشار ہ کیا ہے کہ آیہء شریفہ میں ”فعیل“فاعل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔چنانچہ مؤمن کو کہا جاتا ہے”ولی خدا“ یعنی جس کے امورکی تدبیر خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ ا سے اپنے الطاف سے نواز تا ہے۔

۱۳۰

صورت میں ہے جب کسی کے امو ر کے لئے عملاً قیام کرے اس کے کام کواپنے ذمہ لے لے۔ آیہء شریفہ:( اللّٰه ولیّ الذین آمنوا ) میں ولایت اسی کی ہے۔یعنی خداوند متعال مؤمنین کے امور کے حوالے سے صاحب اختیارا ور اولی بالتصرف ہے۔ابن فارس نے کہا ہے:جو بھی کسی کے امورکاذمہ دار ہوگا وہ اس کا ”ولی“ہوگا۔اور بعض اوقات”ولی“)دوسرے معانی میں جیسے) غلام کوآزاد کرنے والا،آزاد شدہ غلام ،چچازاد بھائی،یاوراوردوست کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔

ان بزرگ ماہرین لغت کے بیان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ یاور اوردوست جیسے مفاہیم ولی کے حقیقی معنی نہیں ہیں بلکہ کبھی کبھی ان معنوں میں استعمال ہو تا ہے اوراس قسم کا استعمال مجازی ہے۔

”ولی“کے معنی میں یہ جملہ معمولاًلغت ۱ کی کتابوں میں بہ کثرت نظر آتا ہے وہ ناقابل اعتناء ہے ”من ولی امر احدفہوولیہ“یعنی:”جو کسی کے کام کی سر پرستی اپنے ذمہ لے لے وہ اس کا ولی ہے“

ان معانی کے پیش نظر،ایسا لگتا ہے کہ لفظ”ولی“کا حقیقی اور معروف ومشہور معنی وہی صاحب اختیاروسر پرست ہو ناہے۔ قرآن مجید میں اس لفظ کے استعمال پر جستجو و تحقیق بھی اسی مطلب کی تائید کرتی ہے۔

ہم لفظ”ولی“کے قرآن مجید میں استعما ل ہونے کے بعض موارد کا ذکر کرکے بعض دوسرے موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:(۱)

____________________

۱۔لسان العرب،ج۱۵،ص۴۱۰،المصباح المنیر،ج۲،ص۳۵۰طبع مصطفٰی البابی الحلبی بمصر،النہا یةج۵،ص۲۲۸المکتبة العلمیة،بیروت،منتہی الارب ،ج۴،ص۱۳۳۹،انتشارات کتابخانہ سنائی،مجمع البحرین،ج۲ص۵۵۴،دفتر نشر فرھنگ اسلامی،الصحاح،ص۲۵۲۹،دارالعلم للملابین، المفردات، ص۵۳۵، دفتر نشر کتابمعجم مقا ییس اللغة،ج۶،ص۱۴۱۔

۱۳۱

چند بنیادی نکات کی یاد دہانی

یہاں پر چند نکات کی طرف اشارہ کرناضروری ہے:

پہلانکتہ:عام طور پر لغت کی کتابوں میں ایک لفظ کے لئے بہت سے موارداستعمال اور مختلف معانی ذکر کئے جاتے ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ لفظ ہر معانی کے لئے الگ الگ وضع کیا گیا ہے اوروہ لفظ مشترک ہے اوران معانی میں سے ہرایک،اس کا حقیقی معنی ہے لفظی اشتراک)یعنی ایک لفظ کے کئی معانی ہوں اور ہر معنی حقیقی ہو )اصول کے خلاف ہے۔اور علم لغت اورادبیات کے ماہرین نے جس کی وضاحت کی ہے وہ یہ ہے کہ اصل عدم اشتراک ہے۔

۱ ۔قرآن مجید میں لفظ”ولی“کے استعمال کے مواقع:

الف۔( اٴللّٰه ولی الذّین آمنوا یخرجهم من الظلمات إلی النور ) (بقرہ/ ۲۵۷)” اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے وہ انہیں تاریکوں سے نکال کرروشنی میں لے آ تاہے۔“

ب۔( انّ ولی اللّٰه الذّی نزل الکتاب و هو یتولّی الصالحین ) (اعراف/ ۱۹۶)” بیشک میرا مالک ومختار وہ خدا ہے جس نے کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک بندوں کاولی ووارث ہے۔“

ج۔( ام إتّخذ وا من دونه اٴولیائ فاللّٰه هوالولی وهو یحیی الموتی ) (شوریٰ/ ۹)” کیاان لوگو ں نے اس کے علاوہ کو اپنا سر پرست بنایا ہے جب کہ وہی سب کاسرپرست ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔“

د۔( قل اٴغیراللّٰه اٴتخذوا ولیاًفاطرالسموات والارض وهو یطعم ولا یطعم ) ۔۔۔ (انعام/ ۱۴)” آپ کہئے کہ کیا میں خد ا کے علاوہ کسی اورکواپنا ولی بنالوں جب کہ زمین وآسمان کاپیداکرنے والا وہی ہے، وہی سب کوکھلاتاہے اس کوکوئی نہیں کھلاتاہے۔“

۱۳۲

ہ ۔( و انت ولینا فاغفر لنا وارحمنا وانت خیرالغافرین ) )اعراف/ ۱۵۵)” توہمارا ولی ہے،ہمیں معاف کردے اورہم پررحم کر کہ توبڑابخشنے والاہے۔“

و۔( فإن کان الذی علیه الحق سفیهاًاو ضعیفاًاولا یستطیع ان یمل هو فلیملل ولیه بالعدل ) )بقرہ/ ۲۸۲)” اب اگر حق اس کے خلاف ہو اوروہ نادان یاکمزورہو اور اس کو لکھنے کی صلا حیت نہ ہو تو اس کے ولی کو چاہئیے کہ عدل و انصاف کے ساتھ اسے لکھے۔

ز۔( ومن قتل مظلوماً فقدجعلنا لولیه سلطاناً ) )اسراء/ ۳۳)” جومظلوم قتل ہوتاہے ہم اس کے ولی کوبدلہ کااختیاردیتے ہیں۔

دوسر ی آیات: یوسف/ ۱۰۱ ، ہود/ ۱۱۳ ، شوریٰ/ ۴۶ ،فصلت/ ۳۱ ، نحل/ ۶۳ ، بقرہ/ ۱۰۷ و ۱۲۰ توبہ/ ۷۴ و ۱۱۶ ، عنکبوت/ ۲۲ ،شوریٰ/ ۸ و ۳۱ ،نساء/ ۴۵ ،

۷۵،۸۹،۱۲۳ و ۱۷۳ ،احزاب/ ۱۷ و ۶۵ ،فتح/ ۲۲) مذکورہ ۱۵ آیات میں ولی اورنصیرایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں نساء/ ۱۱۹ ، مریم/ ۵ ،سباء/ ۴۱ ، نمل ۴۹ ،نساء/ ۱۳۹ ،یونس/ ۶۲ ، اسراء/ ۹۷ ،الزمر/ ۳ ، شوریٰ/ ۶ ، ممتحنہ/ ۱ ،آل عمران/ ۱۷۵ ،انفال/ ۴۰ ،محمد/ ۱۱ بقرہ/ ۲۸۶ ،توبہ/ ۵۱ ،حج/ ۷۸ ۔

کتاب”مغنی اللبیب“کے مصنف،جمال الدین ابن ہشام مصری،جواہل سنت میں علم نحو کے بڑے عالم مانے جاتے ہیں جب آیہء شریفہ( إنّ اللّه وملائکته یصلّون علی

۱۳۳

النّبی ) (۱) میں قرائت رفع(ملائکتُہ)کی بنیاد پر بعض علمائے نحو جو”إنّ“کی خبر)یصلّی ہے)کو محذوف اورمقدر جانتے ہیں،نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:

واماّقول الجماعةفبعیدمن جهات:إحداهااقتضاؤه للإشترا والاٴصل عدمه لما فیه من الإلباس حتیّ إنّ قوماًنفوهثمّ المثبتون له یقولون:متی عارضه غیره ممّایخالف الاٴصل کالمجاز قدّم علیه (۲)

”ان کی بات کئی جہتوں سے حقیقت سے بعید ہے۔اول اس لحاظ سے کہ ان کے بیان کا لازمہ یہ ہے کہ صلاة کو مشترک لفظی تسلیم کریں جبکہ اشتراک خلاف اصل ہے یہاں تک کہ بعض نے اسے بنیادی طو ر پر مسترد کیا ہے اور جنہوں نے اسے ثابت جا نا ہے انھوں نے اسے مجاز اور اشتراک کی صورت میں مجاز کو اشتراک پر مقدم جانا ہے۔“

فیروزآبادی،صاحب قاموس نے بھی صلوٰت کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے کہ جس میں آیہء شریفہ( إنّ اللّه وملا ئکته یصلّون علی النبیّ ) ۔۔۔ کے بارے میں تحقیق کی ہے اورمذکورہ بیان کو ابن ہشام سے نقل کیا ہے۔(۳)

اس بناء پر،ولایت کے مفہوم میں )جو کئی معانی ذکر ہوئے ہیں)سے جو معنی قدر متیقّن اوریقینی ہیں وہ سرپرستی اورصاحب اختیار ہو نے کے ہیں،اور دوسرے معانی جیسے،دوستی اوریاری اس کے حقیقی معنی کے حدود سے خارج ہیں اور ان کے بارے میں اشتراک لفظی کا سوال ہی پیدا

____________________

۱۔احزاب/۵۶

۲۔مغنی اللبیب،ج۲،باب پنجم،ص۳۶۵

۳۔الصلوةوالبشرفی الصلوة علی خیرالبشر،ص۳۳،دار الکتب العلمیة،بیروت

۱۳۴

نہیں ہوتا۔

لہذا اگر مادئہ ”ولی“قرینہ کے بغیر استعمال ہو تو وہ سرپرستی اورصاحب اختیار ہو نے کے معنی میں ہوگا۔

دوسر ا نکتہ بعض اہل لغت نے مادہ ”و لی“کو ایک اصل پر مبنی جانا ہے اورمفہوم کا اصلی ریشہ)جڑ) کو ”قرب“ قراردیا ہے۔اور بعض مفسرین نے کلمہ”ولی“کو اسی بنیاد پرذکر کیا ہے، اس سلسلہ میں چندمطالب کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے:

سب سے پہلے اس بات کو ملحوظ رکھناچاہئے کہ لغوی معنی کے اس طرح کی تحلیل اوراس کاتجزیہ ایک حدس وگمان اور خوامخواہ کے اجتہاد کے سواء کچھ نہیں ہے اوراس پرکوئی دلیل نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ وہ چیز جومعنی کے سمجھنے اوراس لفظ سے تبادر کے لئے معیار ہے وہ اس کے استعمال کازمانہ ہے۔بیشک بہت سے مواقع پر”ولی“کے معنی سے قرب کامفہوم ذہن میں پیدا نہیں ہوتاہے۔بعض مواقع پرکہ جہاں قرینہ موجودہوجیسے”المطرالولی“)وہ بارش جوپہلی بارش کے بعدیااس کے بہت قریب واقع ہو ئی ہو )میں اس قسم کے استعمال کوقبول کیا جاسکتا ہے۔

اس بناپراگرفرض بھی کر لیاجائے کہ”قرب“اس معنی کی اصلی بنیادتھی اورآغاز میں لفظ”ولی“کامفہوم”قرب“کے معنی میں استعمال ہوتا تھا،لیکن موجودہ استعمال میں وہ معنی متروک ہو چکاہے اوراب اس کااستعمال نہیں ہے۔

تیسرا بعض اہل لغت جیسے ابن اثیرنے”النہایة ۱“ میں اورابن منظورنے”لسان العرب ۲“ میں ”ولی“ کے معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ولی“ خداکے

____________________

۱۔النہا یة،ج۵،ص۲۲۸

۲۔لسان العرب ،ج۱۵،ص۱۰۶

۱۳۵

ناموں میں سے ایک نام ہے اوریہ ناصرکے معنی میں ہے اورکہاگیاہے کہ اس کے معنی امورجہان کے متولی و منتظم کے ہیں۔

اس بیان سے استفادہ ہوتاہے کہ”ولی“جوخداکے ناموں میں سے ایک نام ہے،ان کے نزدیک ناصرکے معنی میں ہے،جبکہ مطلب صحیح نہیں ہے کیو نکہ اگر ”ولی“کے معنی ناصر کے

ہوں گے)چونکہ”ولی“کاایک مادہ اورایک ہیئت ہے،اوراس کامادہ”ولی“”ول ی“وہیئت فعیل ہے)تواس کاتقاضایہ ہے کہ مادہ”ولی“نصرکے معنی میں اوراس کی ہیئت)ہیئت فعیل) فاعل کے معنی میں ہے۔

ایک بات یہ کہ یہ دونوں نظریہ، بغیردلیل کے ہیں اوردوسرے یہ کہ:فعیل صفت مشبہ ہے جس کی دلا لت ثبوت پرہے جبکہ فاعل حدوث پردلالت کرتاہے اوریہ دونوں مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسرے کے متغائیرہ ہیں۔

اس لئے”ولی“اسم الہی، اسی صاحب اختیاراورکائنات کے امورمیں متولی کے معنی میں ہے کہ جس کو دونوں اھل لغت نے اپنے مختارنظریہ کے بعد“قیل“کے عنوان سے بیان کیاہے۔

چوتھانکتہ:قرآن مجیدکی بہت سی آیتوں میں ”ولی“،”نصیر“ کے مقابلہ میں آیاہے، جیسے( ومالکم من دون اللّٰه من ولیّ ولانصیرا ً ) (۱) تمہارے لئے اس کے علاوہ نہ کوئی سرپرست ہے اورنہ مددگار“

اگر”نصیر“،”ولی“کے معنی میں ہوتاتواس کے مقابلہ میں قرارنہیں دیا جا تااوران دونوں لفظوں کاایک دوسرے سے مقابلہ میں واقع ہو نااس بات کی دلیل ہے کہ مفہوم کے لحاظ سے یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

_____________________

۱۔بقرہ/۱۰۷

۱۳۶

پانچواں نکتہ:بعض افرادنے قرآن مجید کی بہت سی آیات کے بارے میں یہ تصورکیا ہے کہ ولی اورولایت نصرت اورمددکے معنی میں استعما ل ہوا ہے،جیسے:( مالکم من ولایتهم من شیء ) (۱) جب کہ ولایت سے مراد”نصرت کی ولایت“ہوسکتاہے نہ یہ کہ ولایت”نصرت“کے معنی میں ہے،کیونکہ نصرت ومددولایت و سر پرستی کی علا متوں میں سے ایک

علا مت ہے اس لحاظ سے ولایت کامعنی سرپرستی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اوراس سے نصرت ویاری میں سرپرستی مرادہے۔

”ولی“کے معنی کے سلسلہ میں جوکچھ بیان کیاگیا،اس کے پیش نظر،آیہء کریمہ میں صرف سرپرست اورصاحب اختیارہی والا معنی مراد ہے۔

اس کے علاوہ آیہء شریفہ میں قطعی ایسے قرینہ موجودہیں کہ جس سے مراد ”دوست“اور”یاور“نہیں ہوسکتے ہیں۔اس کی مزیدوضاحت سوالات کے جواب میں ائے گی۔

رکوع کے معنی

لغت میں ”رکوع“کے معنی جھکنااورخم ہوناہے۔اسی لئے نمازمیں جھکنے کو”رکوع“کہتے ہیں۔(۲)

زبیدی”تاج العروس(۳) “ میں کہتاہے:

”اگررکوع کوتنگدستی اورمفلسی کے لئے استعمال کیاجائے اور ایسے شخص کوجوامیری کے بعدفقیری اورتنگدستی میں مبتلا ہو جا ئے اورزوال سے دوچارہو تواسے”رکع

____________________

۱۔انفال/۷۲

۲۔الصاح جوہری،ج۳،ص۱۲۲۲،دارالعلم للملابین،القاموس المحیط،فیروزآبادی،ج۳، ص۳۱، دارالمعرفہ، بیروت،المنیر،فیومی،ص۲۵۴،ط مصر،جمھرة اللغة،ابن درید،ج۲، ص۱۷۷۰کتاب العین، خلیل بن احمد فراہیدی،ج۱،ص۲۰۰

۳۔تاج العروس،ج۲۱،ص۱۲۲،دارالہدایة للطباعة والنشر والتوزیع۔

۱۳۷

الرجل“کہتے ہیں اوریہ استعمال مجازی ہے۔“

اس لئے رکوع کاحقیقی معنی وہی جھکنااورخم ہوناہے اوراگراسے دوسرے کسی معنی،جیسے زوال اورخضوع میں استعمال کیاجائے تویہ اس کے مجازی معنی ہیں اوراس کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے۔

آیہء ولایت کی شان نزول

شیعہ اوراہل سنّت تفسیروں کے منابع میں موجودبہت سی احادیث کے مطابق یہ آیہ شریفہ حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں ناز ل ہو ئی ہے اور الذین آمنوا۔۔۔ سے مرادوہی حضرت(ع)ہیں۔

ہم اس سلسلہ میں ایک حدیث کو درج کرتے ہیں،جس کوثعلبی ۱ نے اپنی تفسیر ۲ میں سنی محدثین اور مفسرین سے نقل کیا ہے اورشیعوں کے بڑے مفسرشیخ طبرسی نے بھی اس کو”مجمع البیان ۳“ میں درج کیاہے:

”عن عبایة بن الربعی قال:بیناعبداللّٰه بن عباس جالس علی شفیرزمزم إذااٴقبل رجل متعمّم بالعمامة؛فجعل ابن عباس لایقول:”قال رسول اللّٰه( ص) إلاّقال الرجل:قال رسول اللّٰه( ص) “!!فقال ابن عباس:ساٴلتک باللّٰه،من اٴنت؟قال:فکشف العمامةعن وجهه وقال:یا اٴیّهاالناس،من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فاٴنا “

جندب من جنادةالبدری،اٴبوذرالغفاری،سمعت رسول اللّٰه

___________________

۱ ۔ثعلبی کے بارے میں ذہبی کا قول دوسرے اعتراض کے جواب میں بیان کیاجائے گا۔

۲” الکشف والبیان“ج ۴ ،ص ۸۱ ۔ ۸۰ ،داراحیائ التراث العربی

۳ ۔مجمع البیان،ج ۳ ،ص ۳۲۴

۱۳۸

( ص) بها تین وإلاّصمّتا،وراٴیته بها تین وإلاّفعمیتا،یقول:علیّ قائد البررة،وقاتل الکفرة،منصورمن نصره،مخذول منخذ لهاٴماّ إنّی صلّیت مع رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یوماًمن الاٴیاّم صلاةالظّهر،فدخل سائل فی المسجدفلم یعطه اٴحد،فرفع السائل یده إلی السّماء وقال:اللّهمّ اٴشهد إنّی ساٴلت فی مسجدرسول اللّٰه فلم یعطنی احد شیئاً - وکان علیّ راکعاً - فاٴومی إلیه بخنصره الیمنی - وکان یتختّم فیها - فاٴقبل السائل حتیّاٴخذالخاتم من خنصره!وذلک بعین النبیّی

فلماّ فرغ النّبیّی( ص) من الصلاةرفع یده إلیالسّماء وقال:اللّهمّ إنّ اٴخی موسی ساٴلک فقال:( ربّ اشرح لی صدری ویسّرلی امری،واٴجعل لی وزیراً من اٴهلی هارون اٴخی اشدد به اٴزری ) فاٴنزلتَ علیه قرآناًناطقاً( سنشدّعضدک باٴخیک ونجعل لکما سلطا ناً )

اللّهمّ واٴنامحمّدنبیّک وصفیکاللّهمّ فاشرح لی صدری ویسّرلی اٴمری،واٴجعل لی وزیراًمن اٴهلی علیّاً اشددبه ظهری

قال اٴبوذر:فواللّٰه مااستتمّ رسول اللّٰه الکلمة حتّی اُنزل علیه جبرئیل من عنداللّٰه،فقال یامحمّد!إقراٴ،فقال:ومااٴقراٴ؟قال:إقراٴ:، ”إنّما ولیّکم اللّٰه ورسوله إلی راکعون“الآیة

”عبایہ بن ربیع سے روایت ہے کہ اس نے کہا:اس وقت جب عبداللہ بن عباس)مسجد الحرام میں )زمزم کے کنارے بیٹھے تھے ) اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حدیث روایت کررہے تھے)اچانک ایک عمامہ پوش شخص آپہونچا)اوررسول خدا (ص)سے اس طرح حدیثیں نقل کرنا شروع کیں)کہ جب عبداللہ ابن عباس کہتے تھے:”قال رسول اللہ، (ص)“وہ شخص بھی کہتاتھا:”قال رسول اللہ (ص)۔“ابن عباس نے کہ:تمھیں خدا کی قسم ہے یہ بتاؤکہ تم کون ہو؟اس شخص نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹائی اورکہا:اے لوگو!جومجھے پہچانتاہے،وہ پہچانتاہے،اورجومجھے نہیں پہچانتامیں اسے اپنے بارے میں بتادیناچاہتاہوں کہ میں جندب،جنادئہ بدری کابیٹا،ابوذرغفاری ہوں۔میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنے ان دونوں)کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)کا نوں سے سنا اگریہ با ت صحیح نہ ہو تو)میرے کان)بہرے ہو جائیں اوران دونوں انکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آنکھوں سے دیکھا اگر یہ با ت درست نہ ہو تو میری آنکھیں اندھی ہوجائیں)میں نے سنا اور دیکھا) فرما رہے تھے: علی (علیہ السلام) نیکوں کے پیشوااور کافروں کے قاتل ہیں۔جوان کی مددکرے گااس کی خدا نصرت کرے گا،اورجوانھیں چھوڑدے گاخدااسے بھی چھوڑدے گا۔

۱۳۹

ایک دن میں رسول خدا (ص)کے ساتھ ظہرکی نمازپڑھ رہاتھاکہ ایک سائل نے اہل مسجد سے سوال کیا،کسی نے اس کی حاجت پوری نہیں کی۔سائل نے اپنے ہاتھآسمان کی طرف بلند کئے اورکہا:

خداوندا! تو گواہ رہناکہ میں نے مسجدالنبی میں سوال کیااورکسی نے میری حاجت پوری نہیں کی۔علی(علیہ السلام)رکوع کی حالت میں تھے،اپنی چھوٹی)انگلی جس میں انگوٹھی تھی)سے اس کی طرف اشارہ کیا۔سائل نے سامنے سے آکرانگوٹھی آپ(ع)کے ہاتھ سے نکال لی۔رسول خدا (ص)اس واقع کے شاہد اور گواہ ہیں جب پیغمبراسلام (ص)نمازسے فارغ ہوئے آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کی:خداوندا!میرے بھائی موسیٰ(علیہ السلام) نے تجھ سے سوال کیا اور کہا”پروردگارا!میرے سینے کوکشادہ کردے،میرے کام کو آسان کر دے اور میری زبان کی گرہوں کوکھول دے،تا کہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل میں سے میرے بھائی ہارون کومیراوزیرقراردیدے،اس سے میری پشت کومضبوط کردے،اسے میرے کام میں شریک بنادے۔“)اس کی درخواست کو بر لا)اور تو نے اس داستان کے بارے میں قرآن مجیدمیں یوں فرمایا:”ہم تمھارے بازؤں کوتمھارے بھائی)ہارون)سے مضبوط کردیں گے اورتمھیں ان پرمسلط کردیں گے۔“

خداوندا!میں تیرا بر گزیدہ پیغمبرہوں،خداوندا!میرے سینے کوکشادہ کردے،میرے کام کوآسان کر،میرے اہل میں سے میرے بھائی علی(ع)کومیر اوزیرقراردے اوراس سے میری پشت کومضبوط کر۔)ابوذرکہتے ہیں:)خدا کی قسم رسول خدا (ص)نے ابھی اپنی بات تمام بھی نہیں کی تھی کہ جبرئیل امین خداکی طرف سے نازل ہوئے اورکہا:اے محمد!پڑھئے!) آنحضرت نے) کہا:کیا پڑھوں؟ )جبرئیل نے کہا)پڑھئیے: إ( نّماولیکم اللّٰه ورسوله ) ۔۔۔ “

شیخ طبرسی نے اس حدیث کے خاتمہ پرکہاہے:اس روایت کوابواسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں اسی سند سے)کہ جیسے میں نے ذکرکی ہے)نقل کیاہے۔اس شان نزول کو بیان کر نے والی بہت ساری حدیثیں ہیں ان میں سے بعض کوہم دوسری مناسبتوں کے سلسلہ میں بیان کریں گے اوران میں سے بعض دوسری احادیث کے حوالہ ابن تیمہ کے جواب کے ذیل میں عرض کریں گے۔ان احادیث کے پیش نظرواضح ہو گیا کہ یہ شان نزول قطعی ہے اوراس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

امور ميں فقيہ كے اوامر و نواہى كى اطاعت مسلمانوں پر واجب ہے يا نہيں؟ كيا مسلمانوں كے عمومى مسائل ميں ولايت كو عملى كرنے ميں فقيہ كى مدد كرنا واجب ہے يا نہيں؟ كيا مسلمانوں كيلئے جائز ہے كہ فقيہ عادل كے علاوہ كسى دوسرے شخص كو اپنے امور ميں حاكم بنا ليں؟ كيا ولى فقيہ كے احكام كى اطاعت دوسرے فقہا پر بھى واجب ہے؟

لہذا قطعى طور پر مسئلہ ولايت فقيہ فقہى پہلوؤں كا حامل ہے_ اسى لئے علم فقہ ميں اس كى تحقيق ضرورى ہے_ ليكن ديكھنا يہ ہے كہ كيا اس ميں كلامى پہلو بھى ہيں يا نہيں؟

ولايت فقيہ كا كلامى پہلو:

ولايت فقيہ كا كلامى پہلو مسئلہ امامت كے ساتھ منسلك ہے_ كيونكہ مسئلہ ولايت فقيہ كو اگر اسى نظر سے ديكھا جائے جس نظر سے مسئلہ امامت كو ديكھا جاتا ہے تو اس كا كلامى پہلو واضح ہوجائے گا اور مسئلہ امامت كى طرح يہ بھى ايك كلامى بحث شمار ہوگا_ شيعہ بحث امامت كو كيوں كلامى مسئلہ سمجھتے ہيں؟ اس كا جواب يہ ہے كہ شيعہ اس پر فقہى نظر نہيں ركھتے_ اور فعل مكلفين كے حكم كے پس منظر ميں اسے نہيں ديكھتے -_شيعہ امامت كے متعلق اس طرح سوال نہيں كرتے كہ '' كيا مسلمانوں پر امام اور حاكم كا مقرر كرنا واجب ہے؟ ''كيا امام كى اطاعت واجب ہے؟ كيا مسلمانوں پر حكومت تشكيل دينا واجب ہے اور يہ كہ رحلت رسول صلى الله عليہ و آلہ و سلم كے بعد كسى كو اپنے حاكم كے طور پر مقرر كريں_

امامت پر اس طرح كى نظر (اہلسنت كى نظر يہى ہے) اسے فقہى مسئلہ قرار ديتى ہے _ كيونكہ اس وقت بات مسلمانوں كے عمل اور ان كے حاكم مقرر كرنے پر ہوگى _ ليكن اگر اسے فعل خدا كے پس منظر ميں ديكھيں اور مسئلہ امامت كو مسئلہ نبوت اور ارسال رسل كى طرح خدا كا فعل قرار ديں _ اور يہ سوال كريں كہ كيا رحلت

۱۸۱

رسول (ص) كے بعد خدا نے كسى كو امت كى ہدايت كيلئے مقرر كيا ہے؟ كيا امام مقرر كرنا خدا پر واجب ہے؟ تو اس وقت كلامى مسئلہ شمار ہوگا_ كيونكہ گذشتہ معيار كے مطابق يہ سوال مبدا و معاد كى بحث كے زمرہ ميں آتا ہے_ اور اس لحاظ سے يہ افعال الہى كى بحث ہے_ جو كہ ايك كلامى بحث ہے_

اور اگر مسئلہ ولايت فقيہ كو ولايت معصومين كا استمرار سمجھتے ہوئے امام معصوم كى انتصابى ولايت و امامت كى طرح فقيہ عادل كي'' ولايت انتصابى ''پر فعل خدا كے زاويہ سے بحث كريں_تو يہ ايك كلامى بحث كہلائے گى _ آيت اللہ جوادى آملى اس مطلب كى وضاحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

ولايت فقيہ كے متعلق كلامى بحث يہ ہے كہ خداوند قدوس جو كہ تمام ذرات كائنات كا عالم ہے_ ''لا يعزب عنہ مثقال ذرة''(۱) وہ تو جانتا ہے كہ ائمہ معصومين ايك محدود زمانہ تك موجود رہيں گے_ اور آخرى امام عجل الله فرجہ الشريف ايك لمبى مدت تك پردہ غيب ميں رہيں گے_ تو كيا اس زمانہ غيبت كيلئے بھى كچھ دستور مقرر كئے ہيں؟ يا امت كو اس كے حال پر چھوڑ ديا ہے؟ اور اگر دستور بنايا ہے تو كيا وہ دستور جامع الشرائط فقيہ كو رہبرى كيلئے منصوب كرنا ہے_ اور لوگوں كيلئے اس مقرر كردہ رہبر كى طرف رجوع كرنا ضرورى ہے؟ ايسے مسئلہ كا موضوع ''فعل خدا ''ہے _ لہذا ولايت فقيہ كا اثبات اور اس پر جودليل قائم ہوگى اس كا تعلق علم كلام سے ہوگا_(۲)

امام خمينى بھى ان فقہاء ميں شامل ہيں جو مسئلہ ولايت فقيہ كو كلامى پس منظر ميں ديكھتے ہيں_ اور اس نكتہ پر مصرّ ہيں كہ جو ادلّہ امام معصوم كے تقرر كا تقاضا كرتى ہيں اور امامت كے سلسلہ ميں ان سے استدلال كيا جاتا ہے_ وہى ادلّہ زمانہ غيبت ميں حاكم كے تقرر اور حكومت كى تشكيل كا تقاضا كرتى ہيں_

____________________

۱) اس سے كوئي معمولى سا ذرہ پوشيدہ نہيں ہے _ سورہ سبأ آيت نمبر۳_

۲) ولايت فقيہ صفحہ ۱۴۳_

۱۸۲

'' حفظ النظام من الواجبات الا كيدة، و اختلال اُمور المسلمين من الا ُمور المبغوضة، و لا يقوم ذا و لا يسدّ عن هذا الاّ بوال: و حكومة مضافاً الى ا نّ حفظ ثغور المسلمين عن التّهاجم و بلادهم عن غلبة المعتدين واجب عقلاً و شرعاً; و لا يمكن دلك الاّ بتشكيل الحكومة و كلّ ذلك من ا وضح ما يحتاج اليه المسلمون، و لا يعقل ترك ذلك من الحكيم الصانع ، فما هو دليل الامامة بعينه دليل على لزوم الحكومة بعد غيبة ولى الا مر (عج) فهل يعقل من حكمة الباري الحكيم اهمال الملّة الاسلاميّة و عدم تعيين تكليف لهم؟ ا و رضى الحكيم بالهرج والمرج واختلال النظام'' ؟(۱)

نظام كى حفاظت واجبات مؤكدة ميں سے ہے اور مسلمانوں كے امور كا مختل ہونا ناپسنديدہ امور ميں سے ہے_ ان كى سرپرستى اور حفاظت سوائے حاكم اور حكومت كے كوئي نہيں كرسكتا_ علاوہ بريں مسلمانوں كى سرحدوں كى حفاظت اور دشمن سے ان كے شہروں كو محفوظ ركھنا عقلاً اور شرعاً واجب ہے اور يہ حكومت تشكيل ديئے بغير ممكن نہيں ہے_ ان تمام امور كى مسلمانوں كو احتياج ہے_ اور حكيم صانع (اللہ تعالى ) كا انہيں ايسے ہى چھوڑ دينا معقول نہيں ہے _ جو امامت كى دليل ہے بعينہ وہى دليل امام زمانہ عجل الله فرجہ الشريف كى غيبت كے زمانہ ميں لزوم حكومت كى دليل ہے_ كيا خداوند حكيم كى حكمت سے معقول ہے كہ وہ ملت اسلاميہ كو

____________________

۱) كتاب البيع ، امام خمينى ، جلد ۲ ، صفحہ ۴۶۱، ۶۲ ۴_

۱۸۳

بے مہار چھوڑ دے _ اور ان كيلئے كوئي شرعى فريضہ متعين نہ كرے _ يا حكيم مطلق اختلال نظام پر راضى ہوگا _

گذشتہ مطالب سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ زمانہ غيبت ميں حكومت اور ولايت فقيہ كى بحث فقہى بھى ہوسكتى ہے اور كلامى بھى _ اور اس مسئلہ كا كلامى ہونا اس كے فقہى ابعاد سے مانع نہيں ہے_ زمانہ غيبت ميں حكومت كے متعلق شرعى نقطہ نظر كے اظہار كے ضرورى ہونے كے لحاظ سے ايك كلامى مسئلہ ہے_ اور جب مسلمانوں كے حاكم كى شرائط اور فرائض اور دوسرى طرف اس سلسلہ ميں عوام كى ذمہ داريوں پر بحث كريں گے تو يہ ايك فقہى مسئلہ كہلائے گا_ جس طرح امامت كى عقلى ادلّہ سے نصب امام كا وجوب ثابت ہے_ اسى طرح نقلى ادلّہ مثلا واقعہ غدير خم سے اس كے مصاديق معين ہوتے ہيں_ ولايت فقيہ كى عقلى ادلّہ سے يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ شرعى اعتبار سے والى اور حاكم كا مقرر كرنا ضرورى ہے اور روائي ادلّہ سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ زمانہ غيبت ميں وہ حاكم ''فقيہ عادل'' ہے_

آخرى نكتہ يہ ہے كہ تمام كلامى بحثيں اہميت كے لحاظ سے برابر نہيں ہيں_ بعض كلامى بحثيں اصول دين كى ابحاث كا جز ہيںمثلا نبوت اور معاد كى بحث _ جبكہ امامت كى بحث اصول مذہب كى ابحاث كا حصہ ہے_

اصل معاد اصول دين ميں سے ہے ليكن اس كے مسائل كى تفصيلات اور جزئيات كلامى ہونے كے باوجود اہميت كے لحاظ سے اصل معاد كى طرح نہيں ہيں_ بنابريں زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ اور حكومت كا مسئلہ كلامى ہونے كے باوجود رتبہ كے لحاظ سے مسئلہ امامت سے كمتر ہے_ اسى لئے اصول مذہب ميں سے نہيں ہے_

۱۸۴

خلاصہ:

۱) يہ بات واضح ہونى چاہيے كہ كيا ولايت فقيہ ايك فقہى مسئلہ ہے يا كلامي؟

۲)بعض كو يہ غلط فہمى ہوئي ہے كہ كسى مسئلہ كے كلامى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس پر عقلى دليل كا قائم كرنا ممكن ہو_

۳) كسى مسئلہ كے فقہى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس كا تعلق مكلفين كے عمل سے ہو _

۴)مسئلہ كلامى مبدا و معاد كے احوال سے بحث كرتا ہے_ لہذا اگر فعل خدا كے بارئے ميں بحث ہو ، تو وہ مسئلہ كلامى ہوگا_ اور اگر فعل مكلف كے متعلق ہو تو فقہى مسئلہ كہلائے گا_

۵)مسئلہ ولايت فقيہ فقہى اور كلامى دنوں پہلوؤں كا حامل ہے_ اور دونوں جہات سے قابل بحث و تحقيق ہے_

۶) اگر كوئي ولايت فقيہ كو اس لحاظ سے ديكھے كہ كيا زمانہ غيبت ميں فقيہ كا مقرر كرنا اسى طرح خداوند عالم پر واجب ہے جس طرح رحلت رسول صلى الله عليہ و آلہ و سلم كے بعد امام معصوم كا مقرر كرنا واجب ہے_تو يہ ولايت فقيہ كا كلامى پہلو ہے_

۷) امام خمينى نے ولايت فقيہ كے كلامى پہلو سے بھى بحث كى ہے _ اور معتقد ہيں كہ وہ عقلى ادلّہ جو ائمہ كى امامت پر قائم كى گئي ہيں ، زمانہ غيبت ميں ولايت اور حكومت كے ضرورى ہونے پر دلالت كرتى ہيں_

۸) اہميت كے لحاظ سے تمام كلامى بحثيں مساوى نہيں ہيں _ لہذا ولايت فقيہ كى اہميت بحث امامت و نبوت كى اہميت سے كمتر ہے_

۱۸۵

سوالات:

۱) كسى بحث كے فقہى ہونے كا معيار كيا ہے؟

۲)كسى بحث كے كلامى ہونے كا معيار كيا ہے؟

۳) وہ افراد جو كسى مسئلہ كے كلامى ہونے كا معيار يہ قرار ديتے ہيں كہ اس پر عقلى دليل قائم كرنا ممكن ہو _ انہوں نے كہاں غلطى كى ہے؟

۴)مسئلہ ''ولايت فقيہ ''كلامى اور فقہى دونوں پہلوؤں كا حامل كيوں ہے؟

۵)مسئلہ ولايت فقيہ كے بارے ميں كلامى نظر سے كيا مراد ہے ؟

۶)ولايت فقيہ كے متعلق امام خمينى كا نظريہ كيا ہے؟

۱۸۶

بيسواں سبق :

ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ- ۱ -

پہلے گذر چكا ہے كہ ولايت فقيہ كى بحث ميں محل نزاع ''امور عامہ ميں فقيہ عادل كيلئے ولايت كا اثبات ہے''_ كيونكہ قضاوت اور محجور و بے بس افراد كے امور ميں فقيہ كى ولايت پر سب فقہاء متفق ہيںاور اس ميں كوئي نزاع اور اختلاف نہيں ہے_ لہذا وہ شئے جس كے اثبات يا انكار ميں اختلاف ہے وہ'' فقيہ كى ولايت عامہ ''ہے_

ولايت ايك منصب ہے_ اور بعض افراد كيلئے اس كا ہونا شرعى اثبات كا محتاج ہے_ كيونكہ اصل اوّلى كے تحت كوئي كسى پر ولايت نہيں ركھتا _ اور اسے ''اصل عدم ولايت'' سے تعبير كرتے ہيں_ اصل اوّلى يہ ہے كہ كوئي كسى پر ولايت نہيں ركھتا _ مگر يہ كہ كسى معتبر شرعى دليل سے اس كى ولايت ثابت ہو جائے_ معتبر شرعى دليل كى دو قسميں ہيں_ نقلى اورعقلى _ دليل نقلى قرآنى آيات اور معصومين سے صادرہ معتبر روايات پر مشتمل ہوتى ہے جبكہ دليل عقلى وہ ہوتى ہے جو معتبر اور صحيح مقدمات سے حاصل ہو _ اس طرح وہ شرعى حكم كو كشف كرسكتى ہے_ اسى وجہ سے عقلى دليل كو'' دليل معتبر شرعي'' بھى كہتے ہيں_ كيونكہ وہ نظر شرع سے كاشف ہوتى ہے_

۱۸۷

قضاوت اور محجور و بے بس افراد كى سرپرستى يعنى امور حسبيہ ميں فقيہ عادل كى ولايت ''دليل معتبر شرعي''سے ثابت ہے_ قابل بحث نكتہ يہ ہے كہ كيا فقيہ كى سياسى ولايت يعنى مسلمانوں كے اجتماعى امور اور امر و نہى ميں فقيہ عادل كى ولايت ثابت ہے يا نہيں؟

ايسى ولايت كے اثبات كيلئے ہمارے پاس تين راستے ہيں_ مشہور اور متداول راستہ معصومين كى روايات سے تمسك كرنا ہے_

دوسرا راستہ دليل عقلى ہے جيسا كہشيعہ علماء نے بحث امامت ميں دليل عقلى سے تمسك كيا ہے_

تيسرا راستہ امور حسبيہ كے ذريعہ سے ولايت كا ثابت كرنا ہے_ امور حسبيہ ميں فقيہ كى ولايت كو تمام فقہا قبول كرتے ہيں_ كيا امر و نہى اور حكومت ميں ولايت كو باب حسبہ كے ذريعہ فقيہ عادل كيلئے ثابت كيا جاسكتاہے_ ادلّہ روائي اور عقلى كو بيان كرنے سے پہلے اس تيسرى راہ كى تحقيق و بررسى كرتے ہيں_

فقيہ كى ولايت عامہ كا اثبات از باب حسبہ

پہلے اشارہ كر چكے ہيں كہ امور حسبيہ سے مراد وہ امور ہيں جن كے ترك كرنے پر شارع مقدس كسى صورت ميں راضى نہيں ہے_ وہ ہر صورت ميں ان كے وجود اور ادائيگى كا خواہاں ہے_ امور حسبيہ كى سرپرستى كس كے ذمہ ہے؟ اس ميں دو بنيادى نظريئے ہيں_ تمام شيعہ فقہاء قائل ہيں كہ جامع الشرائط فقيہ ان امور ميں ولايت ركھتا ہے اور قضاوت پر ولايت كى مثل امور حسبيہ كى سرپرستى بھى فقيہ عادل كے مناصب ميں سے ہے_ بہت كم شيعہ فقہاء ايسے ہيں جو فقيہ عادل كو اس منصب كيلئے منصوب قرارنہيںديتے اور امور حسبيہ ميں فقيہ كى ولايت شرعيہ كے منكر ہيں_ منصب ولايت كے انكار كا معنى يہ نہيں ہے كہ وہ ان امور ميں فقيہ كى سرپرستى اور تصرف كى اولويت كے بھى منكر ہيں _ كيونكہ ان كى نظر ميں ان امور ميں تصرف قدر متيقن كے

۱۸۸

باب سے فقيہ عادل كيلئے ثابت ہے_ فقيہ عادل كى موجودگى اور اس منصب كيلئے اس كى آمادگى كى صورت ميں دوسرے لوگ ان امور ميں حق تصرف نہيں ركھتے _ كيونكہ ''عادل مومنين'' كے جواز تصرف اور سرپرستى ميں شك ہے_ جبكہ فقيہ عادل كى سرپرستى قطعى طور پر بلا اشكال و شك ہے_ (۱) پس عادل مومنين اسى صورت ميں امور حسبيہ كى سرپرستى كرسكتے ہيں جب فقيہ عادل موجود نہ ہو يا اس پر قدرت نہ ركھتا ہو_

عام طور پر بچے، پاگل اور كم عقل قسم كے افراد كہ جن كے باپ دادا نہ ہوں كے امور كى سرپرستى امور حسبيہ كى مثاليں ہيں_ البتہ بعض فقہا امور حسبيہ كے دامن كو بہت وسيع سمجھتے ہيں_ ان كى نظر ميں اگر امور حسبيہ كى تعريف پر غور كريں تو مسلمانوں كے دفاع اور ان كے نظام اور سرحدوں كى حفاظت سے مربوط تمام امور اس ميں شامل ہيں لہذا اس صورت ميں مسلمانوں كے اجتماعى اور سياسى امور ميں فقيہ عادل كى سرپرستى اور حاكميت كو امور حسبيہ ميں سے قرار ديا جاسكتا ہے_ بنابريں مشہور فقہا كے نظريہ كے مطابق فقيہ عادل امور حسبيہ ميں منصب ولايت كا حامل ہے لہذا وہ مسلمانوں كے امور عامہ پر ولايت ركھتا ہے يا دوسرے نظريہ كى بنا پر ان امور ميں فقيہ كى ولايت'' قدر متقين ''كے باب سے ہے يعنى جن افراد كيلئے تصرف جائز ہے ان ميں سے فقيہ كے تصرف كا جواز يقينى ہے_حاكميت كى شرائط كے حامل فقيہ عادل كے ہوتے ہوئے دوسرے ان امور كى سرپرستى نہيں كرسكتے_

آيت اللہ سيد كاظم حائرى اس استدلال كو يوں بيان كرتے ہيں :

يقينى سى بات ہے كہ شارع مقدس ان مصالح اور احكام كے ضائع ہونے پر راضى نہيں ہے جو اسلامي

____________________

۱) موجودہ دور كے فقيہ آيت اللہ خوئي اسى نظريہ كى طرف مائل ہيں_ التنقيح فى شرح العروة الوثقى ، باب الاجتہاد و التقليد صفحہ ۴۹، ۵۰_

۱۸۹

حكومت كے نہ ہونے كى وجہ سے ضائع ہوجاتے ہيں_ دوسرے لفظوں ميں خدا راضى نہيں ہے كہ مسلمانوں كے انتظامى امور، فاسق ، كفار اور ظالموں كے ہاتھ ميں ہوں_ جبكہ يہ امكان بھى موجود ہو كہ وہ مومنين جو كلمة اللہ كى سربلندى اور حكم الہى كے مطابق حكومت كرنے كے متعلق سوچتے ہيں، مسلمانوں كے امور كو اپنے ہاتھ ميں لے ليں_ يہ ايك واضح سى بات ہے جس ميں فقہى لحاظ سے كوئي بھى ترديد نہيں كرسكتا_

دوسرى بات يہ ہے كہ فقيہ كے ہاتھوں ان امور كا انجام پانا متعين ہے_ ( دوسرا كوئي شخص مسلمانوں پر حكومت نہيں كرسكتا) اور اس كى دو دليليں ہيں:

ادلہ شرعيہ سے يہ بات ثابت كى جائے كہ امت مسلمہ كے رہبر ميں فقاہت كى شرط كا ہونا ضرورى ہے_

يا امور حسبيہ ميں يقينى امر يہى ہے كہ فقيہ ان كى سرپرستى كرسكتا ہے اور اصل عدم ولايت كى روسے غير فقيہ اس منصب كا حامل نہيں ہوسكتا _(۱)

جيسا كہ آپ نے ملاحظہ كيا يہ دليل اولويت ،اجتماعى امور ميں فقيہ عادل كى سرپرستى كا اثبات كرتى ہے_ اس سے مزيد يعنى ''ولايت انتصابي'' كے اثبات كيلئے ہم ولايت فقيہ كى دوسرى ادلّہ خصوصاً ادلّہ روائي كے محتاج ہيں_

ولايت فقيہ كى ادلّہ روائي:

روايات، فقيہ كى ولايت عامہ كى اہم ترين ادلّہ ميں سے شمار ہوتى ہيں_ جو ابتدا سے ليكر آج تك ولايت فقيہ كے معتقد فقہاء كے يہاں مورد تمسك قرار پائي ہيں_

يہاںہم ان ميں سے بعض اہم روايات كى تحقيق و بررسى كرتے ہيں_

____________________

۱) ولاية الامر فى عصر الغيبةصفحہ ۹۶_

۱۹۰

الف _ توقيع امام زمانہ (عجل الله تعالى فرجہ الشريف) (۱)

فقيہ كى ولايت عامہ كے اثبات كى معتبرترين دليل وہ روايت ہے جسے شيخ صدوق نے اپنى كتاب ''كمال الدين'' ميں نقل كيا ہے_ اس نقل كے مطابق اسحاق ابن يعقوب نے حضرت امام زمانہ (عجل الله فرجہ الشريف ) كى خدمت اقدس ميں ايك خط لكھاجس ميں چند مسائل پوچھے_ اس توقيع كے بعض حصوں سے بہت سے فقہاء نے فقيہ كى ولايت عامہ پر استدلال كيا ہے_

''عن محمدبن محمد بن عصام ، عن محمد بن يعقوب ، عن اسحاق بن يعقوب قال : سألت محمدبن عثمان العمرى ان يوصل لى كتابا قد سألت فيه عن مسائل اشكلت على ، فورد التوقيع بخط مولانا صاحب الزمان(عجل الله فرجه الشريف) ''امّا ما سألت عنه ارشدك الله و ثبتك امّا الحوادث الواقعة فارجعوا فيها الى رواة حديثنا _ فانهم حجتى عليكم و انا حجة الله عليهم'' (۲)

____________________

۱) ''توقيع ''لغت ميں خط پر نشان لگانے كو كہتے ہيں _ نيز خط پر بڑے لوگوں كے نشان و دستخط اور شاہى فرمان پر شاہى مہر كو بھى توقيع كہتے ہيں_ اسى طرح ائمہ معصومين (عليہم السلام)خصوصاً امام زمانہ (عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف) كے وہ خطوط جو آپ كے نواب اربعہ كے ذريعہ ابلاغ كئے گئے ہيں_ وہ تاريخ اور حديث كى كتب ميں'' توقيعات'' كے نام سے مشہور ہيں_ ولايت فقيہ، امام خمينى صفحہ ۶۷_

۲) كمال الدين ،جلد ۲ ،باب ۴۵، حديث ۴ صفحہ ۴۸۳_ الغيبة ،شيخ طوسي، صفحہ ۲۹۰، ۲۹۳ ديگر سب كتابوں ميں انہيں دو كتابوں سے نقل كى گئي ہے_ ۱۸۲

۱۹۱

محمد ابن محمد ابن عصام نے محمد ابن يعقوب سے اور وہ اسحاق ابن يعقوب سے نقل كرتے ہيں وہ كہتے ہيں : ميں نے محمد ابن عثمان عمرى سے كہا ميرا يہ خط امام زمانہ (عج) تك پہنچاديں اس ميں ميں نے اپنى مشكلات كے بارے ميں سوالات پوچھے ہيں تو امام (ع) كى طرف سے توقيع صادر ہوئي جس ميں آپ نے فرمايا :خدا آپ كا بھلا كر ے اور آپ كو ثابت قدم ركھے پيش آنے والے واقعات ميں ہمارى احاديث نقل كرنے والوں كى طرف رجوع كرو_ وہ ميرى طرف سے تم پر حجت ہيں اور ميں خدا كى طرف سے ان پر حجت ہوں _

ولايت عامہ كے اثبات كيلئے يہ واضح ترين روايت ہے اس روايت سے استدلال كرنے والوں نے عام طور پر اس كے دوسرے جملے '' فانہم حجتى عليكم و انا حجة اللہ عليہم '' سے تمسك كيا ہے_ اگر چہ بعض فقہاء مثلا امام خمينى نے پہلے جملہ '' اما الحوادث الواقعة فارجعوا فيہا الى رواة حديثنا'' سے بھى استدلال كيا ہے_ بنابريں روايت كے دونوں جملے فقيہ كى ولايت عامہ كى دليل ہيں_

پہلے جملہ سے استدلال اس طرح كيا گيا ہے كہ امام عليہ السلام نے پيش آنے والے مسائل و واقعات ميں اپنا فريضہ معلوم كرنے كيلئے احاديث نقل كرنے والوں كى طرف رجوع كرنے كو كہا ہے_ واضح ہے كہ بغير ''تفقہ'' كے حديث نقل كرنے والے مراد نہيں ہيں_ظاہر روايت يہ ہے كہ يہ رجوع كرنا نئے مسائل كے شرعى حكم كے پوچھنے كے باب سے نہيں ہے_ كيونكہ يہ تو سبھى جانتے ہيں كہ زمانہ غيبت ميں شرعى حكم پوچھنے كيلئے فقہا كے پاس جانا پڑتا ہے _ پس اس رجوع كرنے سے مراد ''پيش آنے والے واقعات ميں ايك شخص يا امت كے شرعى فريضہ كى تعيينہے''_ اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ شيعہ فقہا فتوى دينے كے ساتھ ساتھ اجتماعى مسائل ميں لوگوں كے شرعى فريضہ كى تعيين كرنے والے بھى ہيں_ امام خمينى اس بارے ميں فرماتے ہيں:

۱۹۲

''حوادث واقعہ'' سے مراد وہ اجتماعى مشكلات اور مسائل ہيں جو مسلمانوں كو پيش آتے تھے_ اور انہوں نے بطور كلى سوال كيا كہ اب ہمارا آپ سے رابطہ نہيں ہوسكتا لہذا ان اجتماعى مسائل كا كيا كريں؟ ہمارا فريضہ كيا ہے؟ يا چند مسائل كا ذكر كيا اور كہا : ان مسائل ميں ہم كس كى طرف رجوع كريں؟ ظاہرى طور پر يہ معلوم ہوتا ہے كہ انہوں نے بطور كلى سوال كيا ہے اور حضرت امام زمانہ (عجل اللہ فرجہ الشريف) نے اسى سوال كے مطابق جواب ديتے ہوئے فرمايا كہ حوادث و مشكلات كے وقت ہمارے رواة يعنى فقہاء كى طرف رجوع كرو_ (۱)

امام كا دوسرا جملہ ''فانهم حجتى عليكم وانا حجة الله عليهم '' بھى فقيہ كى ''ولايت عامہ ''پر دلالت كرتا ہے_ كيونكہ آپ نے خود كو فقہا پر خدا كى حجت اور فقہا كو لوگوں پر اپنى حجت قرار ديا ہے_ ائمہ معصومين كے حجت ہونے كا معنى يہ نہيں ہے كہ شرعى احكام كے سلسلہ ميں ان كى طرف رجوع كيا جائے بلكہ ان كے اقوال و اعمال اور سيرت و كردار تمام امور ميں نمونہ عمل ، اسوہ اور سرمايہ نجات ہيں_ ان كى اطاعت پسنديدہ اور نافرمانى گمراہى ہے _ ان كى پيروى كرنے والے بارگاہ الہى ميں حجت اور دليل ركھتے ہيں اور ان سے منہ پھيرنے والوں اور نافرمانى كرنے والوں كا كوئي عذر بارگاہ الہى ميں قابل قبول نہيں ہے_اس بنياد پر جس طرح ''معارف الہى اور احكام شرعى كے فہم سے ليكر امور مسلمين كى تدبير تك'' تمام لوگ اپنے امور ميں بعنوان حجت، ائمہ معصومين كى طرف رجوع كرنے كے پابند ہيں اسى طرح زمانہ غيبت ميں چونكہ وہ حجج الہيہ تك دسترسى نہيں ركھتے اور ائمہ معصومين كى طرف سے فقہاء بعنوان حجت لوگوں پر مقرر ہيں لہذا مومنين پابند ہيں كہ وہ اپنے تمام امور ميں ان كى طرف رجوع كريں_(۲)

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۶۹_

۲) كتاب البيع ،امام خمينى جلد ۲ صفحہ ۴۷۴، ۴۷۵_

۱۹۳

جيسا كہ گذرچكا ہے كہ فقيہ كى ولايت عامہ كے اثبات كيلئے يہ روايت بہت واضح ہے_اسى بنا پر بعض افراد نے فقيہ كے تقرر كى عمدہ اور قوى ترين دليل اسى روايت كو قرار ديا ہے_

'' و لكنّ الذى يظهر بالتدبّر فى التوقيع المروى عن امام العصر (عج) الذى هو عمدة دليل النصب انّما هو اقامة الفقيه المتمسك برواياتهم مقامه بارجاع عوام الشيعة اليه فى كل ما يكون الامام مرجعاً فيه كى لا تبقى شيعته متحيرين فى ا زمنة الغيبة'' (۱)

وہ توقيع جو امام عصر(عجل الله فرجہ الشريف) سے مروى ہے وہ فقيہ كے تقرركى عمدہ ترين دليل ہے _ جو چيز اس سے ظاہر ہوتى ہے وہ يہ ہے كہ ائمہ معصومين كى روايات سے متمسك ہونے والا فقيہ ہر اس شئے ميں شيعوں كيلئے مرجع ہے جس ميں امام مرجع ہوتے ہيں تا كہ زمانہ غيبت ميں شيعہ سرگردان نہ رہيں_(۱)

'' لعلّ ا قواها نصّاً فى الدلالة ، التوقيع الرفيع الدى ا خرجه شيخنا الصدوق فى كمال الدين'' (۲)

شايد دلالت كے لحاظ سے قوى ترين نص وہى توقيع ہے جسے ہمارے شيخ جناب صدوق نے كمال الدين ميں نقل كيا ہے_

سند كے لحاظ سے اس حديث ميں صرف ايك مشكل ہے اور وہ سلسلہ سند ميں ''اسحاق ابن يعقوب ''كا

____________________

۱) مصبا ح الفقيہ _ رضاہمدانى ، كتاب الخمس جلد ۱۴ صفحہ ۲۸۹_

۲) ولاية الفقہاء فى عصر الغيبة صفحہ ۱۰_

۱۹۴

ہونا ہے_ اس شخص كيلئے كتب رجالى ميں كوئي خاص توثيق موجود نہيں ہے_ ليكن درج ذيل شواہد كى بنا پر اس توثيق كا نہ ہونا حديث كے معتبر ہونے كيلئے ضرر رساں نہيں ہے_

۱_توقيع كے صدور كا ادعا اور امام معصوم سے ايك حديث كے سننے كے ادعا ميں واضح فرق ہے _امام كى طرف سے كسى شخص كے پاس توقيع كاآنا اس كے امام (ع) كے نزديك مقام و مرتبہ ، قرب اور قابل اعتبار ہونے كى دليل ہے_

شيخ طوسى ، شيخ صدوق اور شيخ كلينى جيسے ممتاز علماء نے تسليم كيا ہے كہ اسحاق ابن يعقوب صدور توقيع كے اپنے دعوى ميں سچے ہيں_ اگر ان علماء كو اسحاق ابن يعقوب كى وثاقت پر اعتراض ہوتا تو كبھى بھى اس كے دعوے كى تصديق نہ كرتے اور اسے نقل بھى نہ كرتے _

۲_كلينى مرحوم زمانہ غيبت ميں موجود اور اسحاق ابن يعقوب كے ہم عصر تھے_ اور ان كے نزديك اس توقيع كى صحت محرز تھى _ بنابريں كلينى مرحوم كا اسے نقل كرنا اس توقيع كے صدور كے سلسلہ ميں اسحاق ابن يعقوب كے دعوى كے صحيح ہونے كى دليل ہے_ لہذا سند كے لحاظ سے اس روايت ميں كوئي مشكل نہيں ہے_(۱)

____________________

۱) ولاية الامر فى عصر الغيبة، صفحہ ۱۲۳، ۱۲۴_

۱۹۵

خلاصہ :

۱)ولايت ايك منصب ہے_ اور افراد كيلئے اس كا اثبات ''شرعى دليل ''كا محتاج ہے _ كيونكہ اصل يہ ہے كہ كوئي كسى پر ولايت نہيں ركھتا_

۲)فقط شرعى دليل كى وجہ سے ''اصل عدم ولايت''سے صرف نظر كيا جاسكتا ہے _ اور شرعى دليل كى دوقسميں ہيں_ نقلى و عقلي_

۳) شرعى دليل كے ذريعہ قضاوت اور امور حسبيہ جيسے امور ميں فقيہ عادل كى ولايت كے اثبات پر تقريبا تمام فقہاء متفق ہيں _ ''ولايت تدبيري'' يا ''سياسى امور ميں ولايت'' كے متعلق علماء ميں اختلاف ہے_

۴) فقيہ كى ''ولايت عامہ'' كو ''امور حسبيہ كے باب ''سے بھى ثابت كيا جاسكتا ہے _

۵) دليل حسبہ مسلمانوں كے اجتماعى امور ميں فقيہ عادل كى حاكميت كى اولويت اور ضرورت كو ثابت كرتى ہے ليكن فقيہ عادل كي'' ولايت انتصابي'' پر دلالت نہيں كرتى _

۶) ولايت فقيہ كى اہم ترين دليل روائي ،''توقيع امام زمانہ''(عجل اللہ فرجہ الشريف) ہے _

۷) اس روايت كے دو جملوں سے ''ولايت فقيہ ''پر استدلال كيا جاسكتا ہے _

۸) اس روايت ميں كوئي سندى مشكل نہيں ہے اورجو اشكال كيا گيا ہے وہ قابل حل ہے _

۱۹۶

سوالات:

۱)'' اصل عدم ولايت ''سے كيا مراد ہے ؟

۲) كس ذريعہ سے اصل عدم ولايت سے قطع نظر كيا جاسكتا ہے ؟

۳) باب حسبہ سے فقيہ كى ولايت عامہ كو ثابت كيجيئے ؟

۴) كيا دليل حسبہ فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''كو ثابت كرتى ہے ؟

۵)جملہ '' اما الحوادث الواقعة'' سے ولايت فقيہ پر كس طرح استدلال كيا جاسكتا ہے ؟

۶) توقيع كى سندى مشكل كا جواب ديجيئے ؟

۱۹۷

اكيسواں سبق:

ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ -۲)

ب: مقبولہ عمر ابن حنظلہ(۱)

محقق كر كى نے كتاب ''صلوة الجمعة ''ميں اور محقق نراقى ، صاحب جواہر اور شيخ انصارى نے ''كتاب القضائ'' ميں اور دوسرے بہت سے فقہاء نے ''فقيہ كى ولايت عامہ'' پر عمر ابن حنظلہ كى اس روايت سے استدلال كيا ہے_

محمد بن يعقوب، عن محمّد بن يحيي، عن محمّد بن الحسين، عن محمّد بن عيسي، عن صفوان بن يحيي، عن داود بن الحصين، عن عمر بن حنظلة، قال: سألت أبا عبدالله (ع) عن رجلين من أصحابنا بينهما مُنازعة فى دين أو ميراث، فتحاكما الى السلطان والى القضاة، أيحلّ ذلك؟ قال(ع) : ''من تحاكم اليهم فى حق أو باطل فانّما تحاكم إلى الطاغوت،وما يحكم له فانّما يأخذ سحتاًوان كان حقّاً ثابتاً له ; لانه أخذه بحكم الطاغوت و ما أمر الله أن يكفر به ، قال الله تعالى : (يريدون أن يتَحاكَموا الى الطاغوت و قد أمروا أن يَكفروا به)

____________________

۱) شيخ طوسى اور برقى نے عمر ابن حنظلہ كو امام صادق اور امام باقر كے اصحاب ميں سے قرار ديا ہے عمر ابن حنظلہ ايك مشہور راوى ہيں _ زرارہ، ہشام ابن سالم ، عبدالله ابن بكير ، عبدالله ابن مسكان اور صفوان ابن يحيى جيسے ممتاز روايوں نے ان سے روايات نقل كى ہيں_

۱۹۸

قلت: فكيف يصنعان؟ قال: '' ينظران من كان منكم ممَّن قد رَوى حديثنا و نظر فى حلالنا و حرامنا و عرف أحكامنا فليَرضَوا به حَكَماً ; فانى قد جعلته عليكم حاكماً، فإذا حكم بحكمنا فلم يقبل منه فانّما استخفَّ بحكم الله و علينا ردّ والرادُّ علينا الرّادُّ على الله و هو على حدّ الشرك بالله ''

محمد ابن يعقوب، محمد ابن يحيى سے ،وہ محمد ابن الحسين سے ، وہ محمد ابن عيسى سے ، وہ صفوان ابن يحيى سے، وہ داود ابن الحسين سے اور وہ عمر ابن حنظلہ سے روايت كرتے ہيں وہ كہتے ہيں ميں نے امام صادق سے ان دو شيعہ افراد كے متعلق پوچھا جو قرض يا ميراث كے جھگڑے كا فيصلہ كرانے كيلئے سلطان يا قاضى كے پاس جاتے ہيں _ كيا ايسا كرناان كے لئے جائز ہے ؟ آپ نے فرمايا :جو ان كے پاس حق يا با طل فيصلہ كرانے جاتا ہے وہ گويا طاغوت كے پاس فيصلہ كروانے كيلئے جاتا ہے _ اور جو وہ اس كے حق ميں فيصلہ ديتا ہے اگر چہ صحيح ہى كيوں نہ ہو تب بھى اس نے حرام كھا يا ہے كيونكہ اس نے اسے طاغوت كے حكم سے ليا ہے _ جبكہ خدا نے طاغوت كے انكاركا حكم ديا ہے _ خدا فرماتا ہے : وہ چاہتے ہيں اپنے فيصلے طاغوت كے پاس لے جائيں حالانكہ انہيں اس كے انكار كا حكم ديا گيا ہے(۱) راوى كہتا ہے ميں نے پوچھا: پھر وہ كيا كريں؟ آپ نے فرمايا: اس كى طرف رجوع كريں جو تم ميں سے ہمارى احاديث كو نقل كرتا ہے ، ہمارے حلال و حرام ميں غور و فكر كرتا ہے اور ہمارے احكام كو پہچانتا ہے پس اسے حَكَم ( فيصلہ كرنے والا) بنائيں ميں نے اسے تم پر حاكم قرار ديا ہے _ پس جب وہ ہمارے حكم كے مطابق فيصلہ كرے_

____________________

۱) سورہ نساء آيت ۶۰_

۱۹۹

اور پھر اس فيصلے كو قبول نہ كيا جائے تو گويا قبول نہ كرنے والے نے خدا كے حكم كو خفيف شمار كيا ہے اور ہميں جھٹلايا ہے _ اور جو ہميں جھٹلائے اس نے خدا كو جھٹلاياہے اور خدا كو جھٹلانااس سے شرك كرنے كے مترادف ہے (۱) _

فقيہ كى ولايت عامہ پر اس روايت كى دلالت درج ذيل مقدمات پر توجہ كرنے سے واضح ہوجاتى ہے _

۱_ عمر ابن حنظلہ كا سوال فيصلہ كيلئے قضات كيطرف رجوع كرنے كے بارے ميں نہيں ہے بلكہ اپنے تنازعات ميں سلطان اور قاضى كے پاس جانے كے جواز كے متعلق ہے _ عام طور پر ايسے تنازعات ہوتے ہيں جن كے حل اور فيصلہ كيلئے والى اور سلطان كى دخالت ضرورى ہوتى ہے اور قاضى كے پاس رجوع كرنے كى قسم سے نہيں ہوتے مثلاً علاقائي اور قومى و قبائلى جھگڑے ايسے ہوتے ہيں كہ اگروالى اور سياسى اقتدار كے حامل افراد بر موقع ان ميں دخالت نہ كريں تو قتل و غارت اور سياسى و اجتماعى حالات كے خراب ہونے كا خطرہ پيدا ہوجاتا ہے _ البتہ چھوٹے موٹے انفرادى جھگڑوں كا فيصلہ كرنا قاضى كا كام ہے اور والى يا سلطان كے ساتھ ان كا كوئي تعلق نہيں ہوتا_

۲_ امام نے دونوں قسم كے فيصلوں كيلئے ،چاہے وہ والى كے ساتھ مربوط ہوں يا سلطان كے ساتھ، ان كى طرف رجوع كرنے كو طاغوت كى طرف رجوع كرنے كے مترادف قرار ديا ہے اور اسے ممنوع قرار ديتے ہوئے سورہ نساء كى آيت ۶۰ سے استدلال كيا ہے كہ جس ميں صاحبان ايمان كو طاغوت كے انكار كرنے كا حكم ديا گيا ہے اور فيصلوں كيلئے طاغوت كے پاس جانے سے منع كيا ہے _ اس آيت ميں طاغوت سے مراد خاص طور پر نامشروع سلطان نہ بھى ہو مگريقينى طور پر يہ والى اور سلطان اس ميں شامل ہے _

كيونكہ اولا قاضى كا صفت طاغوت كے ساتھ متصف ہونے كا سبب اس كا فاسق و فاجر حكومت كے

____________________

۱) وسائل الشيعہ، جلد ۲۷صفحہ ۱۳۶، ۱۳۷، باب ۱۱، از ابواب صفات قاضى ،حديث ۱_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367