اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت21%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143910 / ڈاؤنلوڈ: 3620
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

امور ميں فقيہ كے اوامر و نواہى كى اطاعت مسلمانوں پر واجب ہے يا نہيں؟ كيا مسلمانوں كے عمومى مسائل ميں ولايت كو عملى كرنے ميں فقيہ كى مدد كرنا واجب ہے يا نہيں؟ كيا مسلمانوں كيلئے جائز ہے كہ فقيہ عادل كے علاوہ كسى دوسرے شخص كو اپنے امور ميں حاكم بنا ليں؟ كيا ولى فقيہ كے احكام كى اطاعت دوسرے فقہا پر بھى واجب ہے؟

لہذا قطعى طور پر مسئلہ ولايت فقيہ فقہى پہلوؤں كا حامل ہے_ اسى لئے علم فقہ ميں اس كى تحقيق ضرورى ہے_ ليكن ديكھنا يہ ہے كہ كيا اس ميں كلامى پہلو بھى ہيں يا نہيں؟

ولايت فقيہ كا كلامى پہلو:

ولايت فقيہ كا كلامى پہلو مسئلہ امامت كے ساتھ منسلك ہے_ كيونكہ مسئلہ ولايت فقيہ كو اگر اسى نظر سے ديكھا جائے جس نظر سے مسئلہ امامت كو ديكھا جاتا ہے تو اس كا كلامى پہلو واضح ہوجائے گا اور مسئلہ امامت كى طرح يہ بھى ايك كلامى بحث شمار ہوگا_ شيعہ بحث امامت كو كيوں كلامى مسئلہ سمجھتے ہيں؟ اس كا جواب يہ ہے كہ شيعہ اس پر فقہى نظر نہيں ركھتے_ اور فعل مكلفين كے حكم كے پس منظر ميں اسے نہيں ديكھتے -_شيعہ امامت كے متعلق اس طرح سوال نہيں كرتے كہ '' كيا مسلمانوں پر امام اور حاكم كا مقرر كرنا واجب ہے؟ ''كيا امام كى اطاعت واجب ہے؟ كيا مسلمانوں پر حكومت تشكيل دينا واجب ہے اور يہ كہ رحلت رسول صلى الله عليہ و آلہ و سلم كے بعد كسى كو اپنے حاكم كے طور پر مقرر كريں_

امامت پر اس طرح كى نظر (اہلسنت كى نظر يہى ہے) اسے فقہى مسئلہ قرار ديتى ہے _ كيونكہ اس وقت بات مسلمانوں كے عمل اور ان كے حاكم مقرر كرنے پر ہوگى _ ليكن اگر اسے فعل خدا كے پس منظر ميں ديكھيں اور مسئلہ امامت كو مسئلہ نبوت اور ارسال رسل كى طرح خدا كا فعل قرار ديں _ اور يہ سوال كريں كہ كيا رحلت

۱۸۱

رسول (ص) كے بعد خدا نے كسى كو امت كى ہدايت كيلئے مقرر كيا ہے؟ كيا امام مقرر كرنا خدا پر واجب ہے؟ تو اس وقت كلامى مسئلہ شمار ہوگا_ كيونكہ گذشتہ معيار كے مطابق يہ سوال مبدا و معاد كى بحث كے زمرہ ميں آتا ہے_ اور اس لحاظ سے يہ افعال الہى كى بحث ہے_ جو كہ ايك كلامى بحث ہے_

اور اگر مسئلہ ولايت فقيہ كو ولايت معصومين كا استمرار سمجھتے ہوئے امام معصوم كى انتصابى ولايت و امامت كى طرح فقيہ عادل كي'' ولايت انتصابى ''پر فعل خدا كے زاويہ سے بحث كريں_تو يہ ايك كلامى بحث كہلائے گى _ آيت اللہ جوادى آملى اس مطلب كى وضاحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

ولايت فقيہ كے متعلق كلامى بحث يہ ہے كہ خداوند قدوس جو كہ تمام ذرات كائنات كا عالم ہے_ ''لا يعزب عنہ مثقال ذرة''(۱) وہ تو جانتا ہے كہ ائمہ معصومين ايك محدود زمانہ تك موجود رہيں گے_ اور آخرى امام عجل الله فرجہ الشريف ايك لمبى مدت تك پردہ غيب ميں رہيں گے_ تو كيا اس زمانہ غيبت كيلئے بھى كچھ دستور مقرر كئے ہيں؟ يا امت كو اس كے حال پر چھوڑ ديا ہے؟ اور اگر دستور بنايا ہے تو كيا وہ دستور جامع الشرائط فقيہ كو رہبرى كيلئے منصوب كرنا ہے_ اور لوگوں كيلئے اس مقرر كردہ رہبر كى طرف رجوع كرنا ضرورى ہے؟ ايسے مسئلہ كا موضوع ''فعل خدا ''ہے _ لہذا ولايت فقيہ كا اثبات اور اس پر جودليل قائم ہوگى اس كا تعلق علم كلام سے ہوگا_(۲)

امام خمينى بھى ان فقہاء ميں شامل ہيں جو مسئلہ ولايت فقيہ كو كلامى پس منظر ميں ديكھتے ہيں_ اور اس نكتہ پر مصرّ ہيں كہ جو ادلّہ امام معصوم كے تقرر كا تقاضا كرتى ہيں اور امامت كے سلسلہ ميں ان سے استدلال كيا جاتا ہے_ وہى ادلّہ زمانہ غيبت ميں حاكم كے تقرر اور حكومت كى تشكيل كا تقاضا كرتى ہيں_

____________________

۱) اس سے كوئي معمولى سا ذرہ پوشيدہ نہيں ہے _ سورہ سبأ آيت نمبر۳_

۲) ولايت فقيہ صفحہ ۱۴۳_

۱۸۲

'' حفظ النظام من الواجبات الا كيدة، و اختلال اُمور المسلمين من الا ُمور المبغوضة، و لا يقوم ذا و لا يسدّ عن هذا الاّ بوال: و حكومة مضافاً الى ا نّ حفظ ثغور المسلمين عن التّهاجم و بلادهم عن غلبة المعتدين واجب عقلاً و شرعاً; و لا يمكن دلك الاّ بتشكيل الحكومة و كلّ ذلك من ا وضح ما يحتاج اليه المسلمون، و لا يعقل ترك ذلك من الحكيم الصانع ، فما هو دليل الامامة بعينه دليل على لزوم الحكومة بعد غيبة ولى الا مر (عج) فهل يعقل من حكمة الباري الحكيم اهمال الملّة الاسلاميّة و عدم تعيين تكليف لهم؟ ا و رضى الحكيم بالهرج والمرج واختلال النظام'' ؟(۱)

نظام كى حفاظت واجبات مؤكدة ميں سے ہے اور مسلمانوں كے امور كا مختل ہونا ناپسنديدہ امور ميں سے ہے_ ان كى سرپرستى اور حفاظت سوائے حاكم اور حكومت كے كوئي نہيں كرسكتا_ علاوہ بريں مسلمانوں كى سرحدوں كى حفاظت اور دشمن سے ان كے شہروں كو محفوظ ركھنا عقلاً اور شرعاً واجب ہے اور يہ حكومت تشكيل ديئے بغير ممكن نہيں ہے_ ان تمام امور كى مسلمانوں كو احتياج ہے_ اور حكيم صانع (اللہ تعالى ) كا انہيں ايسے ہى چھوڑ دينا معقول نہيں ہے _ جو امامت كى دليل ہے بعينہ وہى دليل امام زمانہ عجل الله فرجہ الشريف كى غيبت كے زمانہ ميں لزوم حكومت كى دليل ہے_ كيا خداوند حكيم كى حكمت سے معقول ہے كہ وہ ملت اسلاميہ كو

____________________

۱) كتاب البيع ، امام خمينى ، جلد ۲ ، صفحہ ۴۶۱، ۶۲ ۴_

۱۸۳

بے مہار چھوڑ دے _ اور ان كيلئے كوئي شرعى فريضہ متعين نہ كرے _ يا حكيم مطلق اختلال نظام پر راضى ہوگا _

گذشتہ مطالب سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ زمانہ غيبت ميں حكومت اور ولايت فقيہ كى بحث فقہى بھى ہوسكتى ہے اور كلامى بھى _ اور اس مسئلہ كا كلامى ہونا اس كے فقہى ابعاد سے مانع نہيں ہے_ زمانہ غيبت ميں حكومت كے متعلق شرعى نقطہ نظر كے اظہار كے ضرورى ہونے كے لحاظ سے ايك كلامى مسئلہ ہے_ اور جب مسلمانوں كے حاكم كى شرائط اور فرائض اور دوسرى طرف اس سلسلہ ميں عوام كى ذمہ داريوں پر بحث كريں گے تو يہ ايك فقہى مسئلہ كہلائے گا_ جس طرح امامت كى عقلى ادلّہ سے نصب امام كا وجوب ثابت ہے_ اسى طرح نقلى ادلّہ مثلا واقعہ غدير خم سے اس كے مصاديق معين ہوتے ہيں_ ولايت فقيہ كى عقلى ادلّہ سے يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ شرعى اعتبار سے والى اور حاكم كا مقرر كرنا ضرورى ہے اور روائي ادلّہ سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ زمانہ غيبت ميں وہ حاكم ''فقيہ عادل'' ہے_

آخرى نكتہ يہ ہے كہ تمام كلامى بحثيں اہميت كے لحاظ سے برابر نہيں ہيں_ بعض كلامى بحثيں اصول دين كى ابحاث كا جز ہيںمثلا نبوت اور معاد كى بحث _ جبكہ امامت كى بحث اصول مذہب كى ابحاث كا حصہ ہے_

اصل معاد اصول دين ميں سے ہے ليكن اس كے مسائل كى تفصيلات اور جزئيات كلامى ہونے كے باوجود اہميت كے لحاظ سے اصل معاد كى طرح نہيں ہيں_ بنابريں زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ اور حكومت كا مسئلہ كلامى ہونے كے باوجود رتبہ كے لحاظ سے مسئلہ امامت سے كمتر ہے_ اسى لئے اصول مذہب ميں سے نہيں ہے_

۱۸۴

خلاصہ:

۱) يہ بات واضح ہونى چاہيے كہ كيا ولايت فقيہ ايك فقہى مسئلہ ہے يا كلامي؟

۲)بعض كو يہ غلط فہمى ہوئي ہے كہ كسى مسئلہ كے كلامى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس پر عقلى دليل كا قائم كرنا ممكن ہو_

۳) كسى مسئلہ كے فقہى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس كا تعلق مكلفين كے عمل سے ہو _

۴)مسئلہ كلامى مبدا و معاد كے احوال سے بحث كرتا ہے_ لہذا اگر فعل خدا كے بارئے ميں بحث ہو ، تو وہ مسئلہ كلامى ہوگا_ اور اگر فعل مكلف كے متعلق ہو تو فقہى مسئلہ كہلائے گا_

۵)مسئلہ ولايت فقيہ فقہى اور كلامى دنوں پہلوؤں كا حامل ہے_ اور دونوں جہات سے قابل بحث و تحقيق ہے_

۶) اگر كوئي ولايت فقيہ كو اس لحاظ سے ديكھے كہ كيا زمانہ غيبت ميں فقيہ كا مقرر كرنا اسى طرح خداوند عالم پر واجب ہے جس طرح رحلت رسول صلى الله عليہ و آلہ و سلم كے بعد امام معصوم كا مقرر كرنا واجب ہے_تو يہ ولايت فقيہ كا كلامى پہلو ہے_

۷) امام خمينى نے ولايت فقيہ كے كلامى پہلو سے بھى بحث كى ہے _ اور معتقد ہيں كہ وہ عقلى ادلّہ جو ائمہ كى امامت پر قائم كى گئي ہيں ، زمانہ غيبت ميں ولايت اور حكومت كے ضرورى ہونے پر دلالت كرتى ہيں_

۸) اہميت كے لحاظ سے تمام كلامى بحثيں مساوى نہيں ہيں _ لہذا ولايت فقيہ كى اہميت بحث امامت و نبوت كى اہميت سے كمتر ہے_

۱۸۵

سوالات:

۱) كسى بحث كے فقہى ہونے كا معيار كيا ہے؟

۲)كسى بحث كے كلامى ہونے كا معيار كيا ہے؟

۳) وہ افراد جو كسى مسئلہ كے كلامى ہونے كا معيار يہ قرار ديتے ہيں كہ اس پر عقلى دليل قائم كرنا ممكن ہو _ انہوں نے كہاں غلطى كى ہے؟

۴)مسئلہ ''ولايت فقيہ ''كلامى اور فقہى دونوں پہلوؤں كا حامل كيوں ہے؟

۵)مسئلہ ولايت فقيہ كے بارے ميں كلامى نظر سے كيا مراد ہے ؟

۶)ولايت فقيہ كے متعلق امام خمينى كا نظريہ كيا ہے؟

۱۸۶

بيسواں سبق :

ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ- ۱ -

پہلے گذر چكا ہے كہ ولايت فقيہ كى بحث ميں محل نزاع ''امور عامہ ميں فقيہ عادل كيلئے ولايت كا اثبات ہے''_ كيونكہ قضاوت اور محجور و بے بس افراد كے امور ميں فقيہ كى ولايت پر سب فقہاء متفق ہيںاور اس ميں كوئي نزاع اور اختلاف نہيں ہے_ لہذا وہ شئے جس كے اثبات يا انكار ميں اختلاف ہے وہ'' فقيہ كى ولايت عامہ ''ہے_

ولايت ايك منصب ہے_ اور بعض افراد كيلئے اس كا ہونا شرعى اثبات كا محتاج ہے_ كيونكہ اصل اوّلى كے تحت كوئي كسى پر ولايت نہيں ركھتا _ اور اسے ''اصل عدم ولايت'' سے تعبير كرتے ہيں_ اصل اوّلى يہ ہے كہ كوئي كسى پر ولايت نہيں ركھتا _ مگر يہ كہ كسى معتبر شرعى دليل سے اس كى ولايت ثابت ہو جائے_ معتبر شرعى دليل كى دو قسميں ہيں_ نقلى اورعقلى _ دليل نقلى قرآنى آيات اور معصومين سے صادرہ معتبر روايات پر مشتمل ہوتى ہے جبكہ دليل عقلى وہ ہوتى ہے جو معتبر اور صحيح مقدمات سے حاصل ہو _ اس طرح وہ شرعى حكم كو كشف كرسكتى ہے_ اسى وجہ سے عقلى دليل كو'' دليل معتبر شرعي'' بھى كہتے ہيں_ كيونكہ وہ نظر شرع سے كاشف ہوتى ہے_

۱۸۷

قضاوت اور محجور و بے بس افراد كى سرپرستى يعنى امور حسبيہ ميں فقيہ عادل كى ولايت ''دليل معتبر شرعي''سے ثابت ہے_ قابل بحث نكتہ يہ ہے كہ كيا فقيہ كى سياسى ولايت يعنى مسلمانوں كے اجتماعى امور اور امر و نہى ميں فقيہ عادل كى ولايت ثابت ہے يا نہيں؟

ايسى ولايت كے اثبات كيلئے ہمارے پاس تين راستے ہيں_ مشہور اور متداول راستہ معصومين كى روايات سے تمسك كرنا ہے_

دوسرا راستہ دليل عقلى ہے جيسا كہشيعہ علماء نے بحث امامت ميں دليل عقلى سے تمسك كيا ہے_

تيسرا راستہ امور حسبيہ كے ذريعہ سے ولايت كا ثابت كرنا ہے_ امور حسبيہ ميں فقيہ كى ولايت كو تمام فقہا قبول كرتے ہيں_ كيا امر و نہى اور حكومت ميں ولايت كو باب حسبہ كے ذريعہ فقيہ عادل كيلئے ثابت كيا جاسكتاہے_ ادلّہ روائي اور عقلى كو بيان كرنے سے پہلے اس تيسرى راہ كى تحقيق و بررسى كرتے ہيں_

فقيہ كى ولايت عامہ كا اثبات از باب حسبہ

پہلے اشارہ كر چكے ہيں كہ امور حسبيہ سے مراد وہ امور ہيں جن كے ترك كرنے پر شارع مقدس كسى صورت ميں راضى نہيں ہے_ وہ ہر صورت ميں ان كے وجود اور ادائيگى كا خواہاں ہے_ امور حسبيہ كى سرپرستى كس كے ذمہ ہے؟ اس ميں دو بنيادى نظريئے ہيں_ تمام شيعہ فقہاء قائل ہيں كہ جامع الشرائط فقيہ ان امور ميں ولايت ركھتا ہے اور قضاوت پر ولايت كى مثل امور حسبيہ كى سرپرستى بھى فقيہ عادل كے مناصب ميں سے ہے_ بہت كم شيعہ فقہاء ايسے ہيں جو فقيہ عادل كو اس منصب كيلئے منصوب قرارنہيںديتے اور امور حسبيہ ميں فقيہ كى ولايت شرعيہ كے منكر ہيں_ منصب ولايت كے انكار كا معنى يہ نہيں ہے كہ وہ ان امور ميں فقيہ كى سرپرستى اور تصرف كى اولويت كے بھى منكر ہيں _ كيونكہ ان كى نظر ميں ان امور ميں تصرف قدر متيقن كے

۱۸۸

باب سے فقيہ عادل كيلئے ثابت ہے_ فقيہ عادل كى موجودگى اور اس منصب كيلئے اس كى آمادگى كى صورت ميں دوسرے لوگ ان امور ميں حق تصرف نہيں ركھتے _ كيونكہ ''عادل مومنين'' كے جواز تصرف اور سرپرستى ميں شك ہے_ جبكہ فقيہ عادل كى سرپرستى قطعى طور پر بلا اشكال و شك ہے_ (۱) پس عادل مومنين اسى صورت ميں امور حسبيہ كى سرپرستى كرسكتے ہيں جب فقيہ عادل موجود نہ ہو يا اس پر قدرت نہ ركھتا ہو_

عام طور پر بچے، پاگل اور كم عقل قسم كے افراد كہ جن كے باپ دادا نہ ہوں كے امور كى سرپرستى امور حسبيہ كى مثاليں ہيں_ البتہ بعض فقہا امور حسبيہ كے دامن كو بہت وسيع سمجھتے ہيں_ ان كى نظر ميں اگر امور حسبيہ كى تعريف پر غور كريں تو مسلمانوں كے دفاع اور ان كے نظام اور سرحدوں كى حفاظت سے مربوط تمام امور اس ميں شامل ہيں لہذا اس صورت ميں مسلمانوں كے اجتماعى اور سياسى امور ميں فقيہ عادل كى سرپرستى اور حاكميت كو امور حسبيہ ميں سے قرار ديا جاسكتا ہے_ بنابريں مشہور فقہا كے نظريہ كے مطابق فقيہ عادل امور حسبيہ ميں منصب ولايت كا حامل ہے لہذا وہ مسلمانوں كے امور عامہ پر ولايت ركھتا ہے يا دوسرے نظريہ كى بنا پر ان امور ميں فقيہ كى ولايت'' قدر متقين ''كے باب سے ہے يعنى جن افراد كيلئے تصرف جائز ہے ان ميں سے فقيہ كے تصرف كا جواز يقينى ہے_حاكميت كى شرائط كے حامل فقيہ عادل كے ہوتے ہوئے دوسرے ان امور كى سرپرستى نہيں كرسكتے_

آيت اللہ سيد كاظم حائرى اس استدلال كو يوں بيان كرتے ہيں :

يقينى سى بات ہے كہ شارع مقدس ان مصالح اور احكام كے ضائع ہونے پر راضى نہيں ہے جو اسلامي

____________________

۱) موجودہ دور كے فقيہ آيت اللہ خوئي اسى نظريہ كى طرف مائل ہيں_ التنقيح فى شرح العروة الوثقى ، باب الاجتہاد و التقليد صفحہ ۴۹، ۵۰_

۱۸۹

حكومت كے نہ ہونے كى وجہ سے ضائع ہوجاتے ہيں_ دوسرے لفظوں ميں خدا راضى نہيں ہے كہ مسلمانوں كے انتظامى امور، فاسق ، كفار اور ظالموں كے ہاتھ ميں ہوں_ جبكہ يہ امكان بھى موجود ہو كہ وہ مومنين جو كلمة اللہ كى سربلندى اور حكم الہى كے مطابق حكومت كرنے كے متعلق سوچتے ہيں، مسلمانوں كے امور كو اپنے ہاتھ ميں لے ليں_ يہ ايك واضح سى بات ہے جس ميں فقہى لحاظ سے كوئي بھى ترديد نہيں كرسكتا_

دوسرى بات يہ ہے كہ فقيہ كے ہاتھوں ان امور كا انجام پانا متعين ہے_ ( دوسرا كوئي شخص مسلمانوں پر حكومت نہيں كرسكتا) اور اس كى دو دليليں ہيں:

ادلہ شرعيہ سے يہ بات ثابت كى جائے كہ امت مسلمہ كے رہبر ميں فقاہت كى شرط كا ہونا ضرورى ہے_

يا امور حسبيہ ميں يقينى امر يہى ہے كہ فقيہ ان كى سرپرستى كرسكتا ہے اور اصل عدم ولايت كى روسے غير فقيہ اس منصب كا حامل نہيں ہوسكتا _(۱)

جيسا كہ آپ نے ملاحظہ كيا يہ دليل اولويت ،اجتماعى امور ميں فقيہ عادل كى سرپرستى كا اثبات كرتى ہے_ اس سے مزيد يعنى ''ولايت انتصابي'' كے اثبات كيلئے ہم ولايت فقيہ كى دوسرى ادلّہ خصوصاً ادلّہ روائي كے محتاج ہيں_

ولايت فقيہ كى ادلّہ روائي:

روايات، فقيہ كى ولايت عامہ كى اہم ترين ادلّہ ميں سے شمار ہوتى ہيں_ جو ابتدا سے ليكر آج تك ولايت فقيہ كے معتقد فقہاء كے يہاں مورد تمسك قرار پائي ہيں_

يہاںہم ان ميں سے بعض اہم روايات كى تحقيق و بررسى كرتے ہيں_

____________________

۱) ولاية الامر فى عصر الغيبةصفحہ ۹۶_

۱۹۰

الف _ توقيع امام زمانہ (عجل الله تعالى فرجہ الشريف) (۱)

فقيہ كى ولايت عامہ كے اثبات كى معتبرترين دليل وہ روايت ہے جسے شيخ صدوق نے اپنى كتاب ''كمال الدين'' ميں نقل كيا ہے_ اس نقل كے مطابق اسحاق ابن يعقوب نے حضرت امام زمانہ (عجل الله فرجہ الشريف ) كى خدمت اقدس ميں ايك خط لكھاجس ميں چند مسائل پوچھے_ اس توقيع كے بعض حصوں سے بہت سے فقہاء نے فقيہ كى ولايت عامہ پر استدلال كيا ہے_

''عن محمدبن محمد بن عصام ، عن محمد بن يعقوب ، عن اسحاق بن يعقوب قال : سألت محمدبن عثمان العمرى ان يوصل لى كتابا قد سألت فيه عن مسائل اشكلت على ، فورد التوقيع بخط مولانا صاحب الزمان(عجل الله فرجه الشريف) ''امّا ما سألت عنه ارشدك الله و ثبتك امّا الحوادث الواقعة فارجعوا فيها الى رواة حديثنا _ فانهم حجتى عليكم و انا حجة الله عليهم'' (۲)

____________________

۱) ''توقيع ''لغت ميں خط پر نشان لگانے كو كہتے ہيں _ نيز خط پر بڑے لوگوں كے نشان و دستخط اور شاہى فرمان پر شاہى مہر كو بھى توقيع كہتے ہيں_ اسى طرح ائمہ معصومين (عليہم السلام)خصوصاً امام زمانہ (عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف) كے وہ خطوط جو آپ كے نواب اربعہ كے ذريعہ ابلاغ كئے گئے ہيں_ وہ تاريخ اور حديث كى كتب ميں'' توقيعات'' كے نام سے مشہور ہيں_ ولايت فقيہ، امام خمينى صفحہ ۶۷_

۲) كمال الدين ،جلد ۲ ،باب ۴۵، حديث ۴ صفحہ ۴۸۳_ الغيبة ،شيخ طوسي، صفحہ ۲۹۰، ۲۹۳ ديگر سب كتابوں ميں انہيں دو كتابوں سے نقل كى گئي ہے_ ۱۸۲

۱۹۱

محمد ابن محمد ابن عصام نے محمد ابن يعقوب سے اور وہ اسحاق ابن يعقوب سے نقل كرتے ہيں وہ كہتے ہيں : ميں نے محمد ابن عثمان عمرى سے كہا ميرا يہ خط امام زمانہ (عج) تك پہنچاديں اس ميں ميں نے اپنى مشكلات كے بارے ميں سوالات پوچھے ہيں تو امام (ع) كى طرف سے توقيع صادر ہوئي جس ميں آپ نے فرمايا :خدا آپ كا بھلا كر ے اور آپ كو ثابت قدم ركھے پيش آنے والے واقعات ميں ہمارى احاديث نقل كرنے والوں كى طرف رجوع كرو_ وہ ميرى طرف سے تم پر حجت ہيں اور ميں خدا كى طرف سے ان پر حجت ہوں _

ولايت عامہ كے اثبات كيلئے يہ واضح ترين روايت ہے اس روايت سے استدلال كرنے والوں نے عام طور پر اس كے دوسرے جملے '' فانہم حجتى عليكم و انا حجة اللہ عليہم '' سے تمسك كيا ہے_ اگر چہ بعض فقہاء مثلا امام خمينى نے پہلے جملہ '' اما الحوادث الواقعة فارجعوا فيہا الى رواة حديثنا'' سے بھى استدلال كيا ہے_ بنابريں روايت كے دونوں جملے فقيہ كى ولايت عامہ كى دليل ہيں_

پہلے جملہ سے استدلال اس طرح كيا گيا ہے كہ امام عليہ السلام نے پيش آنے والے مسائل و واقعات ميں اپنا فريضہ معلوم كرنے كيلئے احاديث نقل كرنے والوں كى طرف رجوع كرنے كو كہا ہے_ واضح ہے كہ بغير ''تفقہ'' كے حديث نقل كرنے والے مراد نہيں ہيں_ظاہر روايت يہ ہے كہ يہ رجوع كرنا نئے مسائل كے شرعى حكم كے پوچھنے كے باب سے نہيں ہے_ كيونكہ يہ تو سبھى جانتے ہيں كہ زمانہ غيبت ميں شرعى حكم پوچھنے كيلئے فقہا كے پاس جانا پڑتا ہے _ پس اس رجوع كرنے سے مراد ''پيش آنے والے واقعات ميں ايك شخص يا امت كے شرعى فريضہ كى تعيينہے''_ اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ شيعہ فقہا فتوى دينے كے ساتھ ساتھ اجتماعى مسائل ميں لوگوں كے شرعى فريضہ كى تعيين كرنے والے بھى ہيں_ امام خمينى اس بارے ميں فرماتے ہيں:

۱۹۲

''حوادث واقعہ'' سے مراد وہ اجتماعى مشكلات اور مسائل ہيں جو مسلمانوں كو پيش آتے تھے_ اور انہوں نے بطور كلى سوال كيا كہ اب ہمارا آپ سے رابطہ نہيں ہوسكتا لہذا ان اجتماعى مسائل كا كيا كريں؟ ہمارا فريضہ كيا ہے؟ يا چند مسائل كا ذكر كيا اور كہا : ان مسائل ميں ہم كس كى طرف رجوع كريں؟ ظاہرى طور پر يہ معلوم ہوتا ہے كہ انہوں نے بطور كلى سوال كيا ہے اور حضرت امام زمانہ (عجل اللہ فرجہ الشريف) نے اسى سوال كے مطابق جواب ديتے ہوئے فرمايا كہ حوادث و مشكلات كے وقت ہمارے رواة يعنى فقہاء كى طرف رجوع كرو_ (۱)

امام كا دوسرا جملہ ''فانهم حجتى عليكم وانا حجة الله عليهم '' بھى فقيہ كى ''ولايت عامہ ''پر دلالت كرتا ہے_ كيونكہ آپ نے خود كو فقہا پر خدا كى حجت اور فقہا كو لوگوں پر اپنى حجت قرار ديا ہے_ ائمہ معصومين كے حجت ہونے كا معنى يہ نہيں ہے كہ شرعى احكام كے سلسلہ ميں ان كى طرف رجوع كيا جائے بلكہ ان كے اقوال و اعمال اور سيرت و كردار تمام امور ميں نمونہ عمل ، اسوہ اور سرمايہ نجات ہيں_ ان كى اطاعت پسنديدہ اور نافرمانى گمراہى ہے _ ان كى پيروى كرنے والے بارگاہ الہى ميں حجت اور دليل ركھتے ہيں اور ان سے منہ پھيرنے والوں اور نافرمانى كرنے والوں كا كوئي عذر بارگاہ الہى ميں قابل قبول نہيں ہے_اس بنياد پر جس طرح ''معارف الہى اور احكام شرعى كے فہم سے ليكر امور مسلمين كى تدبير تك'' تمام لوگ اپنے امور ميں بعنوان حجت، ائمہ معصومين كى طرف رجوع كرنے كے پابند ہيں اسى طرح زمانہ غيبت ميں چونكہ وہ حجج الہيہ تك دسترسى نہيں ركھتے اور ائمہ معصومين كى طرف سے فقہاء بعنوان حجت لوگوں پر مقرر ہيں لہذا مومنين پابند ہيں كہ وہ اپنے تمام امور ميں ان كى طرف رجوع كريں_(۲)

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۶۹_

۲) كتاب البيع ،امام خمينى جلد ۲ صفحہ ۴۷۴، ۴۷۵_

۱۹۳

جيسا كہ گذرچكا ہے كہ فقيہ كى ولايت عامہ كے اثبات كيلئے يہ روايت بہت واضح ہے_اسى بنا پر بعض افراد نے فقيہ كے تقرر كى عمدہ اور قوى ترين دليل اسى روايت كو قرار ديا ہے_

'' و لكنّ الذى يظهر بالتدبّر فى التوقيع المروى عن امام العصر (عج) الذى هو عمدة دليل النصب انّما هو اقامة الفقيه المتمسك برواياتهم مقامه بارجاع عوام الشيعة اليه فى كل ما يكون الامام مرجعاً فيه كى لا تبقى شيعته متحيرين فى ا زمنة الغيبة'' (۱)

وہ توقيع جو امام عصر(عجل الله فرجہ الشريف) سے مروى ہے وہ فقيہ كے تقرركى عمدہ ترين دليل ہے _ جو چيز اس سے ظاہر ہوتى ہے وہ يہ ہے كہ ائمہ معصومين كى روايات سے متمسك ہونے والا فقيہ ہر اس شئے ميں شيعوں كيلئے مرجع ہے جس ميں امام مرجع ہوتے ہيں تا كہ زمانہ غيبت ميں شيعہ سرگردان نہ رہيں_(۱)

'' لعلّ ا قواها نصّاً فى الدلالة ، التوقيع الرفيع الدى ا خرجه شيخنا الصدوق فى كمال الدين'' (۲)

شايد دلالت كے لحاظ سے قوى ترين نص وہى توقيع ہے جسے ہمارے شيخ جناب صدوق نے كمال الدين ميں نقل كيا ہے_

سند كے لحاظ سے اس حديث ميں صرف ايك مشكل ہے اور وہ سلسلہ سند ميں ''اسحاق ابن يعقوب ''كا

____________________

۱) مصبا ح الفقيہ _ رضاہمدانى ، كتاب الخمس جلد ۱۴ صفحہ ۲۸۹_

۲) ولاية الفقہاء فى عصر الغيبة صفحہ ۱۰_

۱۹۴

ہونا ہے_ اس شخص كيلئے كتب رجالى ميں كوئي خاص توثيق موجود نہيں ہے_ ليكن درج ذيل شواہد كى بنا پر اس توثيق كا نہ ہونا حديث كے معتبر ہونے كيلئے ضرر رساں نہيں ہے_

۱_توقيع كے صدور كا ادعا اور امام معصوم سے ايك حديث كے سننے كے ادعا ميں واضح فرق ہے _امام كى طرف سے كسى شخص كے پاس توقيع كاآنا اس كے امام (ع) كے نزديك مقام و مرتبہ ، قرب اور قابل اعتبار ہونے كى دليل ہے_

شيخ طوسى ، شيخ صدوق اور شيخ كلينى جيسے ممتاز علماء نے تسليم كيا ہے كہ اسحاق ابن يعقوب صدور توقيع كے اپنے دعوى ميں سچے ہيں_ اگر ان علماء كو اسحاق ابن يعقوب كى وثاقت پر اعتراض ہوتا تو كبھى بھى اس كے دعوے كى تصديق نہ كرتے اور اسے نقل بھى نہ كرتے _

۲_كلينى مرحوم زمانہ غيبت ميں موجود اور اسحاق ابن يعقوب كے ہم عصر تھے_ اور ان كے نزديك اس توقيع كى صحت محرز تھى _ بنابريں كلينى مرحوم كا اسے نقل كرنا اس توقيع كے صدور كے سلسلہ ميں اسحاق ابن يعقوب كے دعوى كے صحيح ہونے كى دليل ہے_ لہذا سند كے لحاظ سے اس روايت ميں كوئي مشكل نہيں ہے_(۱)

____________________

۱) ولاية الامر فى عصر الغيبة، صفحہ ۱۲۳، ۱۲۴_

۱۹۵

خلاصہ :

۱)ولايت ايك منصب ہے_ اور افراد كيلئے اس كا اثبات ''شرعى دليل ''كا محتاج ہے _ كيونكہ اصل يہ ہے كہ كوئي كسى پر ولايت نہيں ركھتا_

۲)فقط شرعى دليل كى وجہ سے ''اصل عدم ولايت''سے صرف نظر كيا جاسكتا ہے _ اور شرعى دليل كى دوقسميں ہيں_ نقلى و عقلي_

۳) شرعى دليل كے ذريعہ قضاوت اور امور حسبيہ جيسے امور ميں فقيہ عادل كى ولايت كے اثبات پر تقريبا تمام فقہاء متفق ہيں _ ''ولايت تدبيري'' يا ''سياسى امور ميں ولايت'' كے متعلق علماء ميں اختلاف ہے_

۴) فقيہ كى ''ولايت عامہ'' كو ''امور حسبيہ كے باب ''سے بھى ثابت كيا جاسكتا ہے _

۵) دليل حسبہ مسلمانوں كے اجتماعى امور ميں فقيہ عادل كى حاكميت كى اولويت اور ضرورت كو ثابت كرتى ہے ليكن فقيہ عادل كي'' ولايت انتصابي'' پر دلالت نہيں كرتى _

۶) ولايت فقيہ كى اہم ترين دليل روائي ،''توقيع امام زمانہ''(عجل اللہ فرجہ الشريف) ہے _

۷) اس روايت كے دو جملوں سے ''ولايت فقيہ ''پر استدلال كيا جاسكتا ہے _

۸) اس روايت ميں كوئي سندى مشكل نہيں ہے اورجو اشكال كيا گيا ہے وہ قابل حل ہے _

۱۹۶

سوالات:

۱)'' اصل عدم ولايت ''سے كيا مراد ہے ؟

۲) كس ذريعہ سے اصل عدم ولايت سے قطع نظر كيا جاسكتا ہے ؟

۳) باب حسبہ سے فقيہ كى ولايت عامہ كو ثابت كيجيئے ؟

۴) كيا دليل حسبہ فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''كو ثابت كرتى ہے ؟

۵)جملہ '' اما الحوادث الواقعة'' سے ولايت فقيہ پر كس طرح استدلال كيا جاسكتا ہے ؟

۶) توقيع كى سندى مشكل كا جواب ديجيئے ؟

۱۹۷

اكيسواں سبق:

ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ -۲)

ب: مقبولہ عمر ابن حنظلہ(۱)

محقق كر كى نے كتاب ''صلوة الجمعة ''ميں اور محقق نراقى ، صاحب جواہر اور شيخ انصارى نے ''كتاب القضائ'' ميں اور دوسرے بہت سے فقہاء نے ''فقيہ كى ولايت عامہ'' پر عمر ابن حنظلہ كى اس روايت سے استدلال كيا ہے_

محمد بن يعقوب، عن محمّد بن يحيي، عن محمّد بن الحسين، عن محمّد بن عيسي، عن صفوان بن يحيي، عن داود بن الحصين، عن عمر بن حنظلة، قال: سألت أبا عبدالله (ع) عن رجلين من أصحابنا بينهما مُنازعة فى دين أو ميراث، فتحاكما الى السلطان والى القضاة، أيحلّ ذلك؟ قال(ع) : ''من تحاكم اليهم فى حق أو باطل فانّما تحاكم إلى الطاغوت،وما يحكم له فانّما يأخذ سحتاًوان كان حقّاً ثابتاً له ; لانه أخذه بحكم الطاغوت و ما أمر الله أن يكفر به ، قال الله تعالى : (يريدون أن يتَحاكَموا الى الطاغوت و قد أمروا أن يَكفروا به)

____________________

۱) شيخ طوسى اور برقى نے عمر ابن حنظلہ كو امام صادق اور امام باقر كے اصحاب ميں سے قرار ديا ہے عمر ابن حنظلہ ايك مشہور راوى ہيں _ زرارہ، ہشام ابن سالم ، عبدالله ابن بكير ، عبدالله ابن مسكان اور صفوان ابن يحيى جيسے ممتاز روايوں نے ان سے روايات نقل كى ہيں_

۱۹۸

قلت: فكيف يصنعان؟ قال: '' ينظران من كان منكم ممَّن قد رَوى حديثنا و نظر فى حلالنا و حرامنا و عرف أحكامنا فليَرضَوا به حَكَماً ; فانى قد جعلته عليكم حاكماً، فإذا حكم بحكمنا فلم يقبل منه فانّما استخفَّ بحكم الله و علينا ردّ والرادُّ علينا الرّادُّ على الله و هو على حدّ الشرك بالله ''

محمد ابن يعقوب، محمد ابن يحيى سے ،وہ محمد ابن الحسين سے ، وہ محمد ابن عيسى سے ، وہ صفوان ابن يحيى سے، وہ داود ابن الحسين سے اور وہ عمر ابن حنظلہ سے روايت كرتے ہيں وہ كہتے ہيں ميں نے امام صادق سے ان دو شيعہ افراد كے متعلق پوچھا جو قرض يا ميراث كے جھگڑے كا فيصلہ كرانے كيلئے سلطان يا قاضى كے پاس جاتے ہيں _ كيا ايسا كرناان كے لئے جائز ہے ؟ آپ نے فرمايا :جو ان كے پاس حق يا با طل فيصلہ كرانے جاتا ہے وہ گويا طاغوت كے پاس فيصلہ كروانے كيلئے جاتا ہے _ اور جو وہ اس كے حق ميں فيصلہ ديتا ہے اگر چہ صحيح ہى كيوں نہ ہو تب بھى اس نے حرام كھا يا ہے كيونكہ اس نے اسے طاغوت كے حكم سے ليا ہے _ جبكہ خدا نے طاغوت كے انكاركا حكم ديا ہے _ خدا فرماتا ہے : وہ چاہتے ہيں اپنے فيصلے طاغوت كے پاس لے جائيں حالانكہ انہيں اس كے انكار كا حكم ديا گيا ہے(۱) راوى كہتا ہے ميں نے پوچھا: پھر وہ كيا كريں؟ آپ نے فرمايا: اس كى طرف رجوع كريں جو تم ميں سے ہمارى احاديث كو نقل كرتا ہے ، ہمارے حلال و حرام ميں غور و فكر كرتا ہے اور ہمارے احكام كو پہچانتا ہے پس اسے حَكَم ( فيصلہ كرنے والا) بنائيں ميں نے اسے تم پر حاكم قرار ديا ہے _ پس جب وہ ہمارے حكم كے مطابق فيصلہ كرے_

____________________

۱) سورہ نساء آيت ۶۰_

۱۹۹

اور پھر اس فيصلے كو قبول نہ كيا جائے تو گويا قبول نہ كرنے والے نے خدا كے حكم كو خفيف شمار كيا ہے اور ہميں جھٹلايا ہے _ اور جو ہميں جھٹلائے اس نے خدا كو جھٹلاياہے اور خدا كو جھٹلانااس سے شرك كرنے كے مترادف ہے (۱) _

فقيہ كى ولايت عامہ پر اس روايت كى دلالت درج ذيل مقدمات پر توجہ كرنے سے واضح ہوجاتى ہے _

۱_ عمر ابن حنظلہ كا سوال فيصلہ كيلئے قضات كيطرف رجوع كرنے كے بارے ميں نہيں ہے بلكہ اپنے تنازعات ميں سلطان اور قاضى كے پاس جانے كے جواز كے متعلق ہے _ عام طور پر ايسے تنازعات ہوتے ہيں جن كے حل اور فيصلہ كيلئے والى اور سلطان كى دخالت ضرورى ہوتى ہے اور قاضى كے پاس رجوع كرنے كى قسم سے نہيں ہوتے مثلاً علاقائي اور قومى و قبائلى جھگڑے ايسے ہوتے ہيں كہ اگروالى اور سياسى اقتدار كے حامل افراد بر موقع ان ميں دخالت نہ كريں تو قتل و غارت اور سياسى و اجتماعى حالات كے خراب ہونے كا خطرہ پيدا ہوجاتا ہے _ البتہ چھوٹے موٹے انفرادى جھگڑوں كا فيصلہ كرنا قاضى كا كام ہے اور والى يا سلطان كے ساتھ ان كا كوئي تعلق نہيں ہوتا_

۲_ امام نے دونوں قسم كے فيصلوں كيلئے ،چاہے وہ والى كے ساتھ مربوط ہوں يا سلطان كے ساتھ، ان كى طرف رجوع كرنے كو طاغوت كى طرف رجوع كرنے كے مترادف قرار ديا ہے اور اسے ممنوع قرار ديتے ہوئے سورہ نساء كى آيت ۶۰ سے استدلال كيا ہے كہ جس ميں صاحبان ايمان كو طاغوت كے انكار كرنے كا حكم ديا گيا ہے اور فيصلوں كيلئے طاغوت كے پاس جانے سے منع كيا ہے _ اس آيت ميں طاغوت سے مراد خاص طور پر نامشروع سلطان نہ بھى ہو مگريقينى طور پر يہ والى اور سلطان اس ميں شامل ہے _

كيونكہ اولا قاضى كا صفت طاغوت كے ساتھ متصف ہونے كا سبب اس كا فاسق و فاجر حكومت كے

____________________

۱) وسائل الشيعہ، جلد ۲۷صفحہ ۱۳۶، ۱۳۷، باب ۱۱، از ابواب صفات قاضى ،حديث ۱_

۲۰۰

پانچواں حصہ خاندان تمیم سے

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جعلی کارندے و صحابی رسول خدا کے چھ کارندے :

* ١٣۔سعیر بن خفاف تمیمی

* ١٤۔عوف بن علاء جشمی تمیمی

* ١٥۔اوس بن جذیمہ تمیمی

* ١٦۔سہل بن منجاب تمیمی

* ٧١۔وکیع بن مالک تمیمی

* ١٨۔حصین بن نیار حنظلی تمیمی

مزید دو صحابی

* ١٩۔زرّ بن عبد اللہ فقیمی

* ٢٠۔اسود بن ربیعہ حنظلی

۲۰۱

رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا کے چھ جعلی کارندے

چار روایتیں

پہلی روایت

طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے اور اس نے صعب عطیہ سے اور اس نے اپنے باپ سے یوں روایت کی ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت تمیم کے مختلف قبائل میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے حسب ذیل تھے :

١۔ زبر قان بن بدر : قبائل رباب ، عوف اور ابناء کے لئے ۔

٢۔ قیس بن عاصم : قبائل مقاعس اور بطون کے لئے ۔

قبیلہ بنی عمرو تمیمی کے لئے حسب ذیل دو آدمی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے تھے :

٣۔ صفوان بن صفوان : قبیلہ بھدی کے لئے ۔

٤۔ سبرة بن عمرو : قبیلہ خضم کے لئے

قبیلہ حنظلہ کے لئے بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے درجہ ذیل دو آدی مامور تھے ۔

٥۔ وکیع بن مالک : قبیلہ بنی مالک کے لئے ۔

٦۔ مالک بن نویرہ : قبیلہ بنی یر بوع کے لئے ۔

اس کے بعد طبری اس حدیث کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے اس طرح اضافہ کرتا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر تمیم کے قبائل میں پہنچی تو صفوان بن صفوان اپنے اور سبرہ کے جمع کئے گئے صدقات کی رقومات کو ابوبکر کے پاس مدینہ لے گیا اور سبرہ وہیں پر رہا ۔

لیکن قیس نے جو کچھ جمع کیا تھا اسے قبائل مقاعس و بطون کے ادا کرنے والے اصلی افراد کو واپس کر دیا اور ابو بکر کو کچھ نہیں بھیجا ۔

۲۰۲

زبرقان نے قیس کے برعکس قبائل رباب ، عوف اور ابناء سے جمع کی گئی اپنی رقومات مدینہ میں ابو بکر کی خدمت میں پیش کیں ۔ چوں کہ اس کی پہلے ہی سے قیس کے ساتھ رقابت تھی اس لئے قیس کی رقومات ادا کرنے سے پہلو تہی کو بہانہ قرار دے کر ایک شعر کے ذریعہ اس کی ہجو گوئی کی اور اس ضمن میں کہا:

میں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امانت کو پہنچادیا لیکن بعض کا رندوں نے ایک اونٹ بھی نہیں دیا ! سیف کہتا ہے :

رسول خد کی وفات کے بعد قبائل تمیم کے مختلف خاندانوں میں اسلام پر باقی رہنے اور ارتداد کے مسئلہ پر اختلافات رو نما ہوئے ۔ ان میں سے بعض اسلام پر ثابت قدم رہے ۔لیکن بعض شک و شبہ سے دو چار ہو کر سر انجام دین اسلام اور اس کے قوانین سے نا فرمانی کرکے مرتد ہوئے اور اس کے نتیجہ میں مختلف گروہ ایک دوسرے سے متخاصم ہو کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے اس طرح :

قبائل عوف و ابناء نے خاندان بنی حشم کے ۔

٧۔ '' عوف بن بلاد'' کی قیادت میں قبائل بطون سے جنگ کی جن کی قیادت

٨۔ سعیر بن خفاف کر رہا تھا ۔

قبائل رباب قبیلہ مقاس سے ، خضم مالک سے اوربہدی ، یربوع سے لڑ رہے تھے قبائل

رباب اور بہدی میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نمائندہ

٩۔ حصین بن نیار حنظلی تھا کہ قبیلہ رباب کے افراد بھی اس کی حمایت کرتے تھے ۔حصین بن

نیاران افراد میں سے تھا جو اسلام پر ثابت قدم تھے قبیلہ ضبہ کا قائد

١٠۔ عبد اللہ بن صفوان تھا۔

اور قبیلہ عبد مناة کی قیادت

١١۔ عصمة بن عبیر کے ہاتھ میں تھی ۔

۲۰۳

سیف کہتا ہے :

اسی پکڑ دھکڑ کے دوران جب تمیم کے مختلف قبائل کے مسلمان و مرتد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے تھے تو ، پیغمبر ی کا دعوی کرنے والی خاتون ''سجاح'' تمیمی نے فرصت کو غنیمت سمجھ کر ان پر حملہ کیا ۔

تمیم کے مختلف قبائل کے درمیان لڑائی جھگڑے اور ان کی بیچارگی کو عفیف بن منذ رتمیمی اس طرح یاد کرتا ہے :

جب خبریں پھیلیں ، کیا تم نے یہ خبر نہیں سنی کہ تمیم کے مختلف قبیلوں پر

کیا مصیبت آن پڑی ؟!

طبری اسی روایت کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے یوں لکھتا ہے :

پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی خاتون '' سجاح '' جو ابوبکر سے جنگ کرنا چاہتی تھی نے مالک نویرہ کے نام ایک خط لکھا اور اسے اپنے جنگ سے منصرف ہونے کے ارادے سے آگاہ کا مالک نے ''سجاح '' کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے ابوبکر سے جنگ نہ کرنے کے اس فیصلے کے مقابلے میں اسے تمیم کے منتشر قبیلوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دی '' سجاح '' نے مالک کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے تمیم کے قبیلوں پر چڑھائی کی اور لڑائی جھگڑوں ، قتل و غارت اور اسارت کے بعد سر انجام ان کے درمیان صلح ہوئی ۔ جن معروف اشخصیتوں نے '' سجاح '' سے دوستی اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا ان میں وکیع بن مالک بھی تھا ۔

سیف داستان کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

قبائل تمیم سے عہد و پیمان طے پانے کے بعد '' سجاح '' نے مملکت نباج کی طرف رخ کیا ، لیکن اسی دوران بنی عمرو تمیم کے اوس بن خذیمہ نے اپنے ماتحت افراد کے ہمراہ ''سجاح '' اور اس کے پیرئوں پر حملہ کرکے ان میں سے بعض افراد کو اسیر بنا دیا ۔

'' سجاح '' نے مجبور ہو کر اوس سے صلح کی اور طے پایا کہ '' سجاح '' اپنے ساتھیوں کو اوس کی اسارت سے آزاد کرانے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ فورا ًاوس کی سرزمین سے نکل جائے ۔

۲۰۴

دوسری روایت

طبری نے دوسرے روایت میں اسی پہلی روایت کی سند سے بحرین کے باشندوں کے ارتداد کی داستان کو سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہے ۔ ٢

'' وکیع بن مالک '' اور '' عمر و عاص '' کی آپس میں رقابت تھی اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے تھے

تیسری روایت

طبری تیسری روایت میں داستان'' بطاح '' کو پہلی اور دوسری روایتوں کے اسناد سے سیف سے نقل کرکے اس طرح لکھتا ہے : ٣

'' سر انجام وکیع کو اپنی برائی کا احساس ہوا اوراچھی طرح دوبارہ اسلام کی طرف پلٹ آیا اور اپنے گزشتہ اعمال کی تلافی کے طور خاندان بنی حنظلہ اور یربوع سے جمع کی گئی صدقہ کی رقومات کو ابوبکر کے نمائندہ خالد بن ولید کی خدمت میں پیش کیا ، جو ان دنوں خلیفہ کی طرف سے قبیلہ تمیم کی بغاوتوں کو کچلنے کے لئے ماموریت پر تھا ۔

اس ملاقات کے دوران خالد نے اپنی گفتگو کے ضمن میں وکیع سے پوچھا:

تم نے کیوں مرتد وں کی دوستی اختیار کرکے ان کا ساتھ دیا ؟

وکیع نے جواب دیا :

'' بنی ضبہ '' کے چند افراد کی گردن پر ہمارا خون تھا ۔ میں بھی انتقام لینے کے لئے فرصت کی تلاش میں تھا ۔ جب میں نے دیکھا کہ بنی تمیم کے قبائل ایک دوسرے کے پیچھے پڑ ے ہیں تو انتقام لینے کے لئے اس فرصت کو غنیمت سمجھا۔

وکیع نے ایک شعر میں اپنے اس اقدام کی توجیہ یوں کی ہے :

تم یہ خیال نہ کرنا کہ میں دین سے خارج ہو کر صدقہ دینے میں رکاوٹ بنا ہوں ! بلکہ حقیقت میں وہی معروف شخص ہوں جس کی شہرت زبان زد خاص

۲۰۵

و عام تھی ۔

میں نے قبیلہ بنی مالک کی حمایت کی اور ایک مدت تک توقف کیا تاکہ میری آنکھیں کھل جائیں ۔

چوں کہ خالد بن ولید نے ہم پر حملہ کیا اورڈرایا ،اس لئے امانتیں اس کے پاس پہنچنے لگیں ۔

چوتھی روایت

طبری نے چوتھی روایت میں مالک بن نویرہ کے قتل کی داستان اپنی مذکورہ اسناد کے مطابق سیف بن عمر سے نقل کرکے اس طرح بیان کی ہے ۔ ٤

جب خالد بن ولید سر زمین بطاح میں داخل ہوا تو اس نے اپنے افراد کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا اور ہر گروہ کو ایک شخص کی قیادت میں مختلف ماموریتوں پر روانہ کیا تاکہ تمیم کے مختلف قبیلوں کے اندر داخل ہو کر گھوم پھر یں اور انھیں ہتھیار ڈالنے کی دعوت دیں ۔ اگر کسی نے نا فرمانی کرکے ان کا مثبت جواب نہ دیا تو اسے قیدی بنا کر خالد بن ولید کے پاس لے آئیں تاکہ وہ ان کے بارے میں خود فیصلہ کرے ۔

خالد کے گشتی سواروں نے اس ماموریت کو انجام دینے کے دوران مالک بن نویرہ ،اور اس کے خاندان کے چند افراد کو پکڑکر قیدی بنالیا ۔لیکن خالد کے ماموروں کے در میاں اس مسئلہ میں اختلاف ہوا کہ کیا مالک اور اس کے ساتھیوں نے اذان کے ساتھ نماز پڑھی یا اذان کے بغیر ۔اسی وجہ سے خالد بن ولید نے اسے جیل میں ڈالنے کا حکم دیا ۔

اتفاق سے اس رات کو کڑاکے کی سردی تھی اور تیز آندھی بھی چل رہی تھی ۔نا قابل برداشت ٹھنڈک تھی اور یہ سردی رات بھر لمحہ بہ لمحہ شدیدتر ہوتی جاتی تھی ۔

خالد بن ولید نے اسیروں کی بہبودی اور مشکلات کو دور کرنے کے لئے حکم دیا کہ اس کا منادی فوجیوں میں اعلان کرے :

''ادفئوااسراکم ''''اپنے اسیروں کو گرم حالت میں رکھو !''

۲۰۶

سیف کہتا ہے کہ کنانہ کے لوگوں کے ہاں یہ جملہ ''دثروا الرجل فادفئو ''یعنی مرد کو ڈھانپو اور اسے گرم گرم رکھو ''سر تن سے جدا کرنے کا معنی دیتا ہے!اس لئے خالد بن ولید کے جنگجو سپہ سالار کا حکم سننے کے بعد فوری طور پر اسے عملی جامہ پہنا نے کی فکر میں لگ گئے، کیونکہ وہ اس اعلان سے یہ تصور کر رہے تھے کہ خالد بن ولید نے اسیروں کو قتل کرنے کا حکم جاری کیاہے !لہٰذا ''ضرار بن ازور'' نے اٹھ کر مالک بن نویرہ کا سر تن سے جدا کردیااور دوسرے لوگوں نے بھی مالک کے دیگر ساتھوں کو قتل کرڈالا۔

خالد بن ولید نے جب اسیروں کی فریاد و زاری کی آوازیں سنیں ، اپنے خیمے سے نکل کر دوڑتے ہوئے وہاں پہنچا لیکن اس وقت دیر ہوچکی تھی اور مالک اور اس کے ساتھی خاک و خون میں تڑپ رہے تھے، یہ منظر دیکھ کر خالد بن ولید نے کہا:

جب خدائے تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ کوئی کام انجام پائے تو وہ کام انجام پاتا ہے۔

سیف روایت کے آخر میں کہتا ہے:

خالد کے سپاہیوں نے مقتولوں کے سروں کو منجملہ مالک نویرہ کے سر کو ایک دیگ میں ڈالکر اس کے نیچے آگ لگادی!!

لیکن، پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی ''سجاح'' کی باقی داستان تاریخ طبری میں سیف سے نقل کرکے اس طرح درج کی گئے ہے:

پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی ''سجاح'' اپنے مریدوں کے ہمراہ یمامہ کی طرف روانہ ہوئی اور اس کی خبر پورے علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ جب یہ خبر پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے دوسرے شخص ''مسیلمہ'' کو پہنچی تو وہ بہت ڈرگیا اور حفظ ماتقدم کے طور پر متوقع حوادث کے بارے میں تدبیر کی فکر میں لگ گیا۔ اس کے بعد اس نے ''سجاح'' کو کچھ تحفے بھیجے اور اس سے امان کی درخواست کی تا کہ اس کی ملاقات کے لئے آئے ۔''سجاح'' نے مسیلمہ کو امان دی اور ملاقات کی اجازت بھی ۔

مسیلمہ قبیلہ بنی حنیفہ کے اپنے چالیس مریدوں کے ہمراہ ''سجا ح'' کی خدمت میں حاضر ہوا۔

سیف کہتا ہے کہ ''سجاح'' عیسائی تھی۔پھر داستان کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:

پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی ان دو شخصیتوں نے آپس میں گفتگو کی اور گفتگو کے دوران مسیلمہ نے ''سجاح'' سے کہا:

دنیا کی نصف دولت ہماری ہے ، اگر قریش انصاف پسند ہوتے تو باقی نصف ان کی تھی۔ اب جب کہ قریش نے انصاف کی راہ اختیار نہیں کی ہے تو خدائے تعالیٰ نے وہ حصہ قریش سے چھین کر تمھیں عنایت کیاہے!!

۲۰۷

''سجاح'' کو مسیلمہ کی تقسیم پسند آئی اور اسے قبول کیا اور اس کے ساتھ اس شرط پر جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا کہ مسیلمہ ہر سال یمامہ کی پیدا وار کا نصف خراج کے طور پر ''سجاح'' کو دے ۔ اس کے علاوہ طے پایا کہ اگلے سال کے خراج کا نصف بھی پیشگی کے طور پر اسی سال ادا کیا جائے۔

اس قسم کے سخت اور مشکل شرط کو قبول کرنے پر مسیلمہ مجبور ہوا اور طے پایا کہ سجاح اگلے سال کا نصف خراج ساتھ لے کر لوٹے اور اپنی طرف سے ایک نمایندہ کو یمامہ میں رکھے تا کہ وہ اگلے سال خراج کا دوسرا حصہ وصول کرے ۔

''سجاح'' نے ایسا ہی کیا اور مسیلمہ سے خراج کا نصف حصہ وصول کرکے اپنی طرف سے وہاں پر ایک نمایندہ مقرر کرکے بین النہرین کی طرف روانہ ہوئی ۔

ابن اثیر نے بھی جہاں پر تمیم اور ''سجاح'' کی بات کرتا ہے یہی مطالب طبری سے نقل کئے ہیں ۔ اس موضوع پر ابن اثیر کی گفتگو کا آغاز یوں ہو تا ہے:(٥)

قبائل تمیم میں ، ان ہی قبائل میں سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے جن کا رندوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مأموریت دی گئی تھی وہ حسب ذیل تھے:

''زبر قان بن بدر، سہل بن منجاب، قیس بن عاصم، صفوان بن صفوان، سبرة بن عمرو، وکیع بن مالک اور مالک بن نویرہ''

جب پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر اس علاقے میں پہنچی تو ''صفوان بن صفوان'' نے قبیلہ بنی عمر سے وصول کئے گئے صدقات پر مشتمل رقومات....... (تا آخر روایت ِسیف)

۲۰۸

مالک بن نویرہ کی داستان کو ابن اثیر نے بھی سیف سے روایت کرکے طبری کی کتاب سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے۔

ابن کثیر نے بھی ''سجاح'' اور قبائل تمیم اور مالک نویرہ کی داستان کو سیف کی اسی روایت کے مطابق طبری سے نقل کرکے درج کیا ہے ۔(٦)

ابن خلدون بھی ''وکیع بن مالک ''کے بارے میں گفتگو کرتے وقت تاریخ طبری سے سیف کی اسی روایت کو نقل کرتا ہے۔

یاقوت حموی نے بھی لفظ ''بطاح'' کی تشریح میں بلاواسطہ سیف کی روایت ، خاص کر اس کی تیسری روایت سے استفادہ کیا ہے اور اس کے شاہد کے طور پر وکیع کا شعر بھی پیش کیا ہے۔

سیف کی ان ہی مذکورہ روایات سے استفادہ کر کے ابن اثیر ، ذہبی ،ابن فتحون اورابن حجر نے سیف کے چھ جعلی اصحاب جن کے نام اوپر بیان ہوئے کے حالات زندگی اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں ۔ ان جعلی صحابیوں میں سے ہر ایک کے بارے میں مذکورہ علماء کی باتوں کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :

۲۰۹

١٣۔ سعیر بن خفاف

ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں اسے ''سعیر بن خفاف تمیمی'' بتایا ہے ، جب کہ تاریخ میں طبری میں سیف کی تاکید کی بناء پر ''سعر بن خفاف تمیمی '' ذکر ہوا ہے ۔ ابن حجر نے سیف کے اس جعلی صحابی کے بارے میں اس طرح لکھا ہے:

سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھا ہے''سعیر بن خفاف'' ، قبائل تمیم کے ایک قبیلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ تھا ۔ ابوبکر نے بھی اسے اپنے عہدے پر برقرار رکھا ۔ (٧)(ز)

یہ امر پہلے ہی واضح ہو چکا ہے کہ ابن حجر کی تحریروں میں حرف ''ز'' اس بات کی علامت ہے کہ یہ مطلب اصحاب کی سوانح لکھنے والے دوسرے مؤلفین کے مطالب کے علاوہ اور اس کا اپنا اضافہ کیا ہوا مطلب ہے۔

١٤۔عوف بن علاء جشمی

ابن حجر نے اس کا نام ''عوف بن خالد جشمی''ذکر کیا ہے، لیکن تاریخ طبری میں سیف کی روایت کے مطابق اس کا نام''عوف بن علاء بن خالد جشمی'' لکھاہے۔

ابن حجر نے اپنی کتا ب ''الاصابہ'' میں اس کی سوانح اس طرح بیان کی ہے:

سیف نے اپنی کتاب ''فتوح'' مین لکھا ہے کہ عوف اُن کارندوں میں سے ہے، جنھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد اس عہدے پر فائز کیا گیا ہے اور وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا ۔ ابن فتحون نے بھی عوف کا نام ان صحابیوں کے عنوان میں ذکر کیا ہے جو صحابیوں کی سوانح لکھنے والوں کے درج کرنے سے رہ گئے ہیں ۔ (٨)

ہم نے عوف کے بارے میں سیف بن عمر اور دوسروں سے مذکورہ روایت کے علاوہ کوئی خبروایت اور نہ پائی اور نہ ہی اس جعلی صحابی کی جنگوں میں شرکت اور شجاعتوں کے بارے میں کوئی مطلب نہیں پایا، جب کہ سیف اپنے قبیلۂ مضر ، خاص کر تمیم کے افسانوی دلاوروں کے بارے میں اکثر و بیشتر شجاعتیں اور بہادریاں دکھلاتا ہے ۔

۲۱۰

١٥۔اوس بن جذیمہ

ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں اسے ''اوس بن جذیمہ'' ہجیمی کے نام سے یاد کیا ہے جب کہ تاریخ طبری میں سیف کی روایت کے مطابق ''اوس بن خزیمہ ہجیمی'' ذکر ہوا ہے اور ہجیمی بنی عمرو کا ایک قبیلہ ہے۔ اسی طرح یہ نام بصرہ میں موجود ہجیمیان کے ایک محلہ سے بھی مطابقت رکھتا ہے ۔ (٩)۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں اوس کی سوانح کے بارے میں یوں ذکر کیا ہے:

سیف اور طبری دونوں نے بیان کیا ہے کہ اوس نے رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دیدار کیا ہے اور قبیلہ بنی تمیم کے افراد کے مرتد ہوتے وقت بدستور اسلام پر ثابت قدم رہاہے ۔ ''سجاح'' پیغمبری کا دعویٰ کرنے کے وقت اوس نے اپنے خاندان کے ایک گروہ کے ساتھ ''سجاح'' کے سپاہیوں پر چڑھائی کی. اس طرح سیف کے اس خیالی سورما اور جعلی صحابی کے نام سے سیف کے خاندان، بنی عمرو تمیمی کے افتخارات میں اضافہ ہوتاہے۔

١٦۔سہل بن منجاب

ابن اثیر نے اپنی کتاب ''اسد الغابہ'' میں لکھا ہے:

جب تمیم کے مختلف قبائل نے اسلام قبول کیا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان قبیلوں میں ان کے ہی چند افراد کو اپنے کارندوں کی حیثیت سے ذمہ داری سونپی ۔ قبیلہ کے صدقات کو جمع کرنے کی مأموریت ''سہل بن منجاب'' کو دی ۔ جیسا کہ طبری نے ذکر کیا ہے کہ قیس بن عاصم، سہل بن منجاب ، مالک نویرہ ، زبرقان بدر اور صفوان و غیر ہ قبائل تمیم میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے تھے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں لکھا ہے:

طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ''سہل بن منجاب'' ان کارندوں میں سے تھا جنھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبائل بنی تمیم میں صدقات جمع کرنے پر مأمور فرمایا تھا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات تک سہل اس عہد ے پر باقی تھا۔

ذہبی نے اپنی کتاب ''تجرید'' میں لکھا ہے:

کہا جاتا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''سہل کو صدقات جمع کرنے کے لئے مأمور فرمایا تھا۔ (١٠)

۲۱۱

اس مطلب پر ایک تحقیقی نظر:

ہم ، ابن اثیر کی کتاب ''اسد الغابہ '' پر ایک بار پھر نظر ڈالتے ہیں ۔ وہ لکھتا ہے:

تمیم کے مختلف قبائل کے اسلام قبول کرنے کے بعد پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان ہی قبائل میں سے ان کے لئے چند کارندوں کو معین فرما کر مختلف قبائل میں ان کو مأموریت دی ۔ جیسے ''قیس بن عاصم'' ، ''سہل '' اور ''مالک''

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے تمیمیوں کو مأموریت دینے کی حدیث طبری کے متعدد نسخوں میں حسب ذیل صورت میں من و عن درج ہوئی ہے:

تمیمیوں کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی میں اپنے چند کارندوں کو معین فرمایا تھا، جن میں سے زبرقان بن بدر کو قبیلۂ رباب ، عوف اور بناء کے لئے مأمور فرمایا تھا۔ جیسا کہ ''سری '' نے ''شعیب ''سے اس نے ''سیف سے اس نے صعب بن عطیہ سے ، اس نے اپنے باپ اور سہم بن منجاب سے روایت کی ہے کہ ''قیس بن عاصم '' قبیلہ ٔمقاعس اور بطون پر مأمور تھا۔

طبری کے بیان سے یوں لگتا ہے کہ ''صعب بن عطیہ '' نے دو آدمیوں سے نقلِ قول کیا ہے کہ جن میں ایک اس کا باپ عطیہ اور دوسرا سہم بن منجاب ہے ۔ لہٰذا منجاب اس حدیث میں خود راوی ہے نہ صحابی!

گویا ان دو معروف دانشو روں ، ابن اثیر و ابن حجر نے طبری کی بات سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ صعب نے صرف اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ مقاعس اور بطون کے قبائل پر ''قیس بن عاصم '' اور سہم من منجاب '' نامی دو شخص تمیمیوں کے صدقات جمع کرنے پر مأمور کئے گئے تھے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ ان دو دانشوروں کو ہاتھوں میں طبری کے جو نسخے تھے ، ان میں ''سہم بن منجاب ''کا نام ''سہل بن منجاب '' لکھا گیا ہو. اس بناء پر ان دو دانشو روں نے اسی نام کو صحیح قرار دیکر ''سہل بن منجاب'' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر درج کر کے تشریح کی ہے۔

۲۱۲

١٧۔ وکیع بن مالک

سیف نے اسے ''وکیع بن مالک تمیمی '' خیا ل کیا ہے اور اس کے نسب کو ''حنظلہ بن مالک '' تک پہنچا یا ہے جو قبائل تمیم کا ایک قبیلہ ہے ۔ (١١)

ذہبی نے اپنی کتاب ''تجرید '' میں وکیع کا تعارف اس طرح کیا ہے:

سیف بن عمر تمیمی لکھتا ہے کہ وکیع بن مالک اور مالک نویرہ ایک ساتھ قبیلہ بنی حنظلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے تھے۔

ابن حجر بھی اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں لکھتا ہے:

سیف نے نقل کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''وکیع بن مالک '' کو ''مالک نویرہ'' کے ہمراہ بنی حنظلہ اور بنی یربوع کے صدقات جمع کرنے پر مأمور فرمایا ، اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات تک آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اس عہدے پر باقی تھے۔ تاریخ طبری میں ملتاہے کہ وکیع نے سجاح کے ساتھ معاہدہ کیا تھا ، لیکن جب سجاح اپنے خاندان سمیت نابود ہوئی تو وکیع اپنی مأموریت کے علاقے میں صدقات کے طور پر جمع کی گئی رقومات کو اپنے ساتھ لے کر خالد بن ولید کے پاس گیا اور عذر خواہی کے ساتھ اپنا قرض چکا دیا اور معافی مانگ کر احسن طریقے پر پھر سے اسلام کی طرف پلٹ آیا۔

سیف نے مزید کہا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''وکیع دارمی'' کو ''صلصل'' کے ہمراہ عمرو کی مدد کے لئے بھیجا تا کہ وہ مرتدوں پر حملہ کریں ۔

ابن حجر کی تحریر سے واضح ہو تا ہے کہ یہ دانشور ''وکیع دارمی'' کی خبر کو دومنابع ، یعنی سیف کی کتاب سے اور طبری کی تاریخ سے نقل کرتا ہے اور قبائل تمیم میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں کے موضوع ، تمیمیوں کے مرتد ہونے کی خبر اور عمر و عاص کی مدد کے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے صلصل کے ہمراہ وکیع کی مأموریت کا ذکر کر تا ہے۔

۲۱۳

انشاء اللہ اپنی جگہ پر اس کو تفصیل سے بیان کریں گے۔

اس طرح ابن حجر نے ، اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں ''وکیع '' کا کوئی شعر نقل نہیں کیاہے جب کہ طبری و حموی نے اپنی کتابوں میں وکیع کے اشعار کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

اسی طرح اس تمیمی دارمی یعنی ''وکیع بن مالک ''کا اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فہرست میں قرار پانا، اس کے اشعار اور رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے کارندہ کی حیثیت سے اس کی مخصوص مأموریت خاندان تمیم کے افتخارات میں درج ہوئے ہیں ۔

١٨۔ حصین بن نیار حنظلی

سیف نے ''حصین بن نیار حنظلی '' کو بنی حنظلہ سے تصور کیا ہے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ '' میں حصین کے بارے میں یوں لکھا ہے:

سیف بن عمر ، اور اسی طرح طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ حصین بن نیار رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں شمار ہوتا تھا۔ ابن فتحون ١ نے بھی حصین کے حالات کے بارے میں سوانح نویسوں سے یہی سمجھا ہے۔

ابن حجر کہتا ہے کہ : سیف اور طبری نے کہا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ اس دانشور نے حصین بن نیار کے بارے میں ان مطالب کو ان دو منابع سے نقل کیا ہے۔

ابن حجر نے حصین کی زندگی کے حالات لکھتے ہوئے صرف اسی پر اکتفاء کی ہے کہ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ تھا۔اس کے علاوہ جو دوسری داستانیں طبری نے سیف سے نقل کرکے اس کے بارے

____________________

١)۔ابوبکر، محمد بن خلف بن سلیمان بن فتحون اندلسی، ملقب بہ ''ابن فتحون'' پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کا ایک دانشور ہے۔ اس کی تألیفات میں سے دو بڑی جلدوں پر مشتمل کتاب ''التذییل ''ہے ۔ اس کتاب میں اس نے ''عبد البر'' کی کتاب ''استیعاب'' کی تشریح و تفسیر لکھی ہے۔ ابن فتحون نے ٥١٩ھ میں اندلس کے شہر مرسیہ میں وفات پائی ۔

۲۱۴

میں ١٤ ھ کے حوادث کے ضمن ذکر کی ہیں قادسیہ کی جنگ میں شرکت اور ہراول دستے کی کمانڈ و غیرہ کو بیان نہیں کیا ہے ۔

اس کے علاوہ ابن حجر نے حموی کی ''معجم البلدان '' میں لفظ ''دلوث '' کے سلسلے میں بیان کی گئی خبر کے بارے میں یوں لکھا ہے :

سیف بن عمر نے ''عبد القیس '' نامی ایک مرد ملقب بہ ''صحار '' سے نقل کر کے کہا ہے کہ میں نے شہر اہواز کے اطراف میں ''ہرمزان'' سے جنگ میں شرکت کرنے والے شخص ''ہرم بن حیاں '' سے ملاقات کی۔ جنگ کا علاقہ ''دلوث '' اور دجیل کے درمیان تھا۔۔۔(یہاں تک کہتا ہے:)

اس منطقہ کو دوسری جگہ پر ''دلث '' پڑھا جاتا تھا ۔ اور حصین بن نیار حنظلی نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

کیا اسے خبر ملی کہ ''مناذر'' کے باشندوں نے ہمارے دل میں لگی آگ کو بجھادیا؟

دلوث سے آگے ہماری فوج کے ایک گروہ کو دیکھ کر ان کی آنکھیں چکا چوند ھ ہوگئیں ۔

اس مطلب کو عبد المؤمن نے حموی سے نقل کر کے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع ''میں درج کیا ہے۔

ابن حجر نے بھی لفظ ''مناذر'' کے بارے میں حموی کی بات پر توجہ نہیں کی ہے جب کہ وہ اپنی معجم میں لکھتا ہے :

اہل علم کا عقیدہ ہے کہ ١٨ھ میں عتبہ نے اپنی سپاہ کے سلمی و حرملہ نام کے دو سرداروں کو مأموریت دی۔۔۔(یہاں تک لکھتا ہے:)

سر انجام مناذر و تیری کو فتح کیا گیا ۔ اس فتح کی داستان طولانی ہے۔

حصین بن نیار نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

کیا وہ آگاہ ہوا کہ مناذر کے باشندوں نے ہمارے دل میں لگی آگ کو بجھادیا ؟

۲۱۵

انھوں نے ''دلوث''کے مقام سے آگے ہماری دفوج کی ایک بٹیلین کو دیکھا اور ان کی آنکھیں چکا چوندھ رہ گئیں ۔

ہم نے ان کو نخلستانوں اور دریا ئے دجیل کے درمیان موت کے گھاٹ اتار دیااورانھیں نابود کرکے رکھ دیا ۔

جب تک ہمارے گھوڑوں کے سموں نے انھیں خاک میں ملا کر دفن نہیں کیا ، وہ وہیں پڑے رہے ۔

طبری نے یہ آخری داستان نقل کرکے اس کو مفصل طور پر تشریح وتفسیر کے ساتھ درج کیا ہے۔ لیکن اپنی عادت کے مطابق اس سے مربوط رجز خوانیوں اور اشعار کو حذف کیا ہے ۔(١٢)

اس طرح ان علماء نے سیف کی احادیث پر اعتماد کرکے اس کے خیالات کی مخلوق ، یعنی خاندان تمیم کے ان چھ افراد کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب اور کارندوں کی فہرست میں قرار دے کر رجال اور پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں سے مربوط اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

اب ہم سیف کی احادیث میں ان سے مربوط مطالب کو ذکر کرنے کے بعد سب سے پہلے سیف کی احادیث کے اسناد کی تحقیق کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کے افسانوں کا تاریخ کے مسلم حقائق کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں :

اسناد کی تحقیق

سیف کی پہلی حدیث میں خاندان تمیم میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں کے بارے میں بحث ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ مذکورہ قبائل میں افراد کے مرتد ہونے ، مالک نویرہ کی داستان اور پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی خاتون '' سجاح '' کی داستان پر بحث ہوئی ہے ۔

دوسری حدیث میں بحرین میں ارتداد اور سیف کے جعلی صحابی وکیع بن مالک کے بارے میں بحث ہوئی ہے

تیسری حدیث میں بطاح ، وکیع او ر مالک نویرہ کی داستان کے ایک حصہ کا موضوع زیر بحث قرار پایا ہے

سیف نے مذکورہ تین احادیث کو صعب بن عطیہ بن بلال اور اس کے باپ سے نقل کیا ہے اس میں باپ بیٹے ایک دوسرے کے راوی ہیں ہم نے گزشتہ مباحث میں بیان کیا ، چوں کہ ان کو سیف کے علاو ہ کہیں اور نہیں پایا جا سکتا ہے ، لہٰذا ان کو ہم نے سیف کی مخلوق کی حیثیت سے جعلی راوی کے طور پر پہچان لیا ہے ۔

۲۱۶

چوتھی حدیث ، جو مالک نویرہ کی بقیہ داستان پر مشتمل ہے ،کی سند کے طور پر سیف نے خزیمہ بن شجرہ عقفانی کا ذکر کیا ہے۔ علماے رجال اور نسب شناسوں نے اس کی سوانح کو سیف کی احادیث سے نقل کیا ہے !! دوسرا عثمان بن سوید ہے جس کے نام کو ہم نے سیف کے علاوہ کہیں اور نہ پایا۔

لیکن جہاں پر سیف حصین بن نیار کی بات کرتا ہے اس کی سند کے طور پر چند مجہول الھویہ افراد کا ذکر کرتا ہے !یہ ہے سیف کی احادیث کے اسناد کی حالت ہے !!

تاریخی حقائق

سیف کے افسانوں کا موازنہ کرنے کے لئے ہم ان منابع کی طرف رجوع کرتے ہیں جنھوں نے سیف کی روایت کو نقل نہیں کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ابن ہشام اور طبری نے ابن اسحاق سے نقل کر کے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں کے موضوع کے بارے میں اس طرح بیان کیا ہے: ۔ (١٣)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گورنر ون اور عاملوں کو اسلامی ممالک کے قلمرو میں حسب ذیل ترتیب سے معین فرمایا :

١۔مہاجربن ابی امیہ کو صنعاء ، بھیجااور وہ اسود کی طرف سے اس کے خلاف بغاوت تک وہاں پر اسی عہدے پر فائز تھا ۔

٢۔زیاد بن لبید جس نے بنی بیاضہ کے ساتھ برادری کا معاہدہ کیا تھا کو حضرموت بھیجا اور وہاں کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری بھی

اسے سونپی ۔

٣۔ عدی بن حاتم کو قبائل طے وبنی اسد کے لئے اپنا کا رندہ مقر فرمایا اور اس علاقے کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری بھی اسے سونپی ۔

۲۱۷

٤۔مالک بن نویرہ کو بنی حنظلہ کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری دی ۔

٥۔زبر قان بن بدر کو بنی اسد کے ایک علاقہ کی ذمہ داری دی ۔

٦۔قیس بن عاصم کو بنی اسد کے ایک دوسرے علاقہ کا کارندہ مقرر فرمایا اور اس علاقہ کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری بھی اسے سونپی ۔

٧۔علاء بن حضر ی کوبحرین کی حکومت سونپی ۔

٨۔حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو صدقات جمع کرنے کے علاوہ نجران کے عیسائیوں سے جزیہ وصول کر کے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچانے پر مأمور فرمایا ۔ چوں کہ اس سال ١٠ھ میں جب ذیقعدہ کا مہینہ آیا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فریضہ حج انجام دینے کے لئے عزیمت فرمائی....

اس کے بعد طبری اور ابن ہشام نے حضرت علی علیہ السلام کی نجران سے واپسی ، ان کا

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملحق ہو کر فریضہ حج کے لئے جانا ، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مکہ سے مدینہ کی طرف واپسی اور اواخر صفر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے واقعات کو سلسلہ وار لکھا ہے ۔

اس حدیث کے مطابق تمیم کے مختلف قبائل میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حسب ذیل تین گماشتے مقرر ہوئے تھے ۔

مالک نویرہ

قیس بن عاصم اور

زبرقان بن بدر

اور سیف نے ان میں اپنی طرف سے مزید آٹھ افراد کا اضافہ کرکے ان کی تعداد گیارہ افراد تک بڑھا دی ہے !

تمیم کے مختلف قبائل کے مرتد ہونے کے موضوع کو ہم نے کسی ایسے معتبر مورخ کے ہاں نہیں پایا جس نے سیف سے روایت نقل نہ کی ہو صرف مالک نویرہ کی داستان اور خالد بن ولید کے ہاتھوں اس کی دلخراش موت کے بارے میں پایا ، جسے طبری ،ابوا لفرج اصفہانی اور وثیمہ وغیرہ جیسے معروف دانشوروں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔ ہم نے اس داستان کو طبری کی تاریخ سے حاصل کیا ہے ۔

۲۱۸

مالک نویرہ کی داستان

طبری عبد الرحمن بن ابی بکر سے نقل کرکے مالک کی موت کے بارے میں یوں بیان کرتا ہے : (١٤)

جب خالد سر زمین بطاح میں پہنچا تو اس نے ضراربن ازور کو ایک گروہ کی قیادت سونپ کر جس میں ابو قتادہ اور حارث بن ربعی بھی موجود تھے اس علاقہ کے ایک حصے کے باغیوں اور مرتدوں کی شناسائی کے ئے مامور کیا ۔

ابو قتادہ خود اس ماموریت میں شریک تھا ۔ چوں کہ اس نے خالد کے پاس مالک کے مسلمان ہونے کی شہادت دی تھی ، اور خالد نے اس کی شہادت قبول نہیں کی تھی ، اس لئے اس نے قسم کھائی کہ زندگی بھر خالد کے پرچم تلے کسی بھی جنگ میں شرکت نہیں کرے گا ۔ ابو قتادہ نے مالک کی داستان کی یوں تعریف کی ہے :

ہم رات کے وقت قبیلہ ٔمالک کے پاس پہنچے اور انھیں زیر نظر قرار دیا ۔ لیکن جب انھوں نے ہمیں اس حالت میں اپنے نزدیک دیکھا تو ڈر گئے اور اسلحہ ہاتھ میں لے لیا ہم نے یہ دیکھ کر ان سے مخاطب ہوکر کہا:

ہم سب مسلمان ہیں !

انھوں نے کہا

ہم بھی مسلمان ہیں :

ہم نے کہا:

پس تم لوگوں نے کیوں اسلحہ ہاتھ میں لے لیا ہے ؟!

انھوں نے جواب دیا :

تم کیوں مسلح ہو؟

ہم نے کہا:

ہم اسلام کے سپاہی ہیں ۔اگرتم لوگ سچ کہتے ہو تو اپنا اسلحہ زمین پر رکھ دو !

انھوں نے ہماری تجویز قبول کرتے ہوئے اسلحہ کو زمین پر رکھ دیا اس کے بعد ہم نماز کے لئے اٹھے اور وہ بھی نماز کے لئے اٹھے اور

۲۱۹

گویا خالد اور مالک کے درمیاں ہوئی گفتگو خالد کے لئے مالک کو قتل کرنے کی سند بن گئی تھی،کیوں کہ جب مالک نویرہ کو پکڑ کے خالد کے سامنے حاضر کیا گیا تو اس نے اپنی گفتگو کے ضمن میں خالد سے کہا:

میں یہ گمان نہیں کرتا کہ تمھارے پیشوا پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسی ویسی کوئی بات کہی ہو !!

خالد نے جواب میں کہا:

کیا تم اسے اپنا پیشوا نہیں جانتا ؟ اس کے بعد حکم دیا کہ اس کا اور اس کے ساتھیوں کا سر تن جدا کردیں !! پھر حکم دیا کہ تن سے جد ا کئے گئے سروں کو دیگ میں ڈال کرجلتی آگ پر رکھ دیں ۔

خالد پر عمر کا غضب ناک ہونا

ٍٍ جب مالک نویرہ کے قتل کی خبر سے عمر ابن خطاب آگاہ ہوا تو اس نے اس موضوع پر ابو بکر سے بات کرتے ہوئے اس سے کہا:

اس دشمن خدا خالد ولید نے ایک بے گناہ مسلمان کا قتل کیا ہے اور ایک وحشی کی طرح اس کی بیوی کی عصمت دری کی ہے ۔

جب خالد مدینہ لوٹا ۔سیدھے مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں چلا گیا ۔ اس وقت اس کے تن پر ایک ایسی قبا تھی جس پر لوہے کے اسلحہ کی علامت کے طور پر زنگ کے دھبے لگے ہوئے تھے ، سر پر جنگجوئوں کی طرح ایسا عمامہ باندھا تھا جس کی تہوں میں چند تیر رکھے گئے تھے ۔ جوں ہی عمر نے خالد کو دیکھا ، غضبناک حالت میں اپنی جگہ سے اٹھ کر زور سے اس کے عمامہ سے تیروں کوکھینچے کر نکالا اور انھیں غصے میں توڑ ڈالا اور بلندآوازسے اس سے مخاطب ہو کر کہا:

مکاری اور ریا کاری سے ایک مسلمان کو قتل کر کے ایک حیوان کے مانند اس کی بیوی کی عصمت لوٹتے ہو ؟! خدا کی قسم اس جرم میں تجھے سنگار کروں گا !!...

ہم نے اس مطلب کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367