اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت0%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات:

صفحے: 367
مشاہدے: 111540
ڈاؤنلوڈ: 2418

تبصرے:

اسلامی نظریہ حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111540 / ڈاؤنلوڈ: 2418
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

امور ميں فقيہ كے اوامر و نواہى كى اطاعت مسلمانوں پر واجب ہے يا نہيں؟ كيا مسلمانوں كے عمومى مسائل ميں ولايت كو عملى كرنے ميں فقيہ كى مدد كرنا واجب ہے يا نہيں؟ كيا مسلمانوں كيلئے جائز ہے كہ فقيہ عادل كے علاوہ كسى دوسرے شخص كو اپنے امور ميں حاكم بنا ليں؟ كيا ولى فقيہ كے احكام كى اطاعت دوسرے فقہا پر بھى واجب ہے؟

لہذا قطعى طور پر مسئلہ ولايت فقيہ فقہى پہلوؤں كا حامل ہے_ اسى لئے علم فقہ ميں اس كى تحقيق ضرورى ہے_ ليكن ديكھنا يہ ہے كہ كيا اس ميں كلامى پہلو بھى ہيں يا نہيں؟

ولايت فقيہ كا كلامى پہلو:

ولايت فقيہ كا كلامى پہلو مسئلہ امامت كے ساتھ منسلك ہے_ كيونكہ مسئلہ ولايت فقيہ كو اگر اسى نظر سے ديكھا جائے جس نظر سے مسئلہ امامت كو ديكھا جاتا ہے تو اس كا كلامى پہلو واضح ہوجائے گا اور مسئلہ امامت كى طرح يہ بھى ايك كلامى بحث شمار ہوگا_ شيعہ بحث امامت كو كيوں كلامى مسئلہ سمجھتے ہيں؟ اس كا جواب يہ ہے كہ شيعہ اس پر فقہى نظر نہيں ركھتے_ اور فعل مكلفين كے حكم كے پس منظر ميں اسے نہيں ديكھتے -_شيعہ امامت كے متعلق اس طرح سوال نہيں كرتے كہ '' كيا مسلمانوں پر امام اور حاكم كا مقرر كرنا واجب ہے؟ ''كيا امام كى اطاعت واجب ہے؟ كيا مسلمانوں پر حكومت تشكيل دينا واجب ہے اور يہ كہ رحلت رسول صلى الله عليہ و آلہ و سلم كے بعد كسى كو اپنے حاكم كے طور پر مقرر كريں_

امامت پر اس طرح كى نظر (اہلسنت كى نظر يہى ہے) اسے فقہى مسئلہ قرار ديتى ہے _ كيونكہ اس وقت بات مسلمانوں كے عمل اور ان كے حاكم مقرر كرنے پر ہوگى _ ليكن اگر اسے فعل خدا كے پس منظر ميں ديكھيں اور مسئلہ امامت كو مسئلہ نبوت اور ارسال رسل كى طرح خدا كا فعل قرار ديں _ اور يہ سوال كريں كہ كيا رحلت

۱۸۱

رسول (ص) كے بعد خدا نے كسى كو امت كى ہدايت كيلئے مقرر كيا ہے؟ كيا امام مقرر كرنا خدا پر واجب ہے؟ تو اس وقت كلامى مسئلہ شمار ہوگا_ كيونكہ گذشتہ معيار كے مطابق يہ سوال مبدا و معاد كى بحث كے زمرہ ميں آتا ہے_ اور اس لحاظ سے يہ افعال الہى كى بحث ہے_ جو كہ ايك كلامى بحث ہے_

اور اگر مسئلہ ولايت فقيہ كو ولايت معصومين كا استمرار سمجھتے ہوئے امام معصوم كى انتصابى ولايت و امامت كى طرح فقيہ عادل كي'' ولايت انتصابى ''پر فعل خدا كے زاويہ سے بحث كريں_تو يہ ايك كلامى بحث كہلائے گى _ آيت اللہ جوادى آملى اس مطلب كى وضاحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

ولايت فقيہ كے متعلق كلامى بحث يہ ہے كہ خداوند قدوس جو كہ تمام ذرات كائنات كا عالم ہے_ ''لا يعزب عنہ مثقال ذرة''(۱) وہ تو جانتا ہے كہ ائمہ معصومين ايك محدود زمانہ تك موجود رہيں گے_ اور آخرى امام عجل الله فرجہ الشريف ايك لمبى مدت تك پردہ غيب ميں رہيں گے_ تو كيا اس زمانہ غيبت كيلئے بھى كچھ دستور مقرر كئے ہيں؟ يا امت كو اس كے حال پر چھوڑ ديا ہے؟ اور اگر دستور بنايا ہے تو كيا وہ دستور جامع الشرائط فقيہ كو رہبرى كيلئے منصوب كرنا ہے_ اور لوگوں كيلئے اس مقرر كردہ رہبر كى طرف رجوع كرنا ضرورى ہے؟ ايسے مسئلہ كا موضوع ''فعل خدا ''ہے _ لہذا ولايت فقيہ كا اثبات اور اس پر جودليل قائم ہوگى اس كا تعلق علم كلام سے ہوگا_(۲)

امام خمينى بھى ان فقہاء ميں شامل ہيں جو مسئلہ ولايت فقيہ كو كلامى پس منظر ميں ديكھتے ہيں_ اور اس نكتہ پر مصرّ ہيں كہ جو ادلّہ امام معصوم كے تقرر كا تقاضا كرتى ہيں اور امامت كے سلسلہ ميں ان سے استدلال كيا جاتا ہے_ وہى ادلّہ زمانہ غيبت ميں حاكم كے تقرر اور حكومت كى تشكيل كا تقاضا كرتى ہيں_

____________________

۱) اس سے كوئي معمولى سا ذرہ پوشيدہ نہيں ہے _ سورہ سبأ آيت نمبر۳_

۲) ولايت فقيہ صفحہ ۱۴۳_

۱۸۲

'' حفظ النظام من الواجبات الا كيدة، و اختلال اُمور المسلمين من الا ُمور المبغوضة، و لا يقوم ذا و لا يسدّ عن هذا الاّ بوال: و حكومة مضافاً الى ا نّ حفظ ثغور المسلمين عن التّهاجم و بلادهم عن غلبة المعتدين واجب عقلاً و شرعاً; و لا يمكن دلك الاّ بتشكيل الحكومة و كلّ ذلك من ا وضح ما يحتاج اليه المسلمون، و لا يعقل ترك ذلك من الحكيم الصانع ، فما هو دليل الامامة بعينه دليل على لزوم الحكومة بعد غيبة ولى الا مر (عج) فهل يعقل من حكمة الباري الحكيم اهمال الملّة الاسلاميّة و عدم تعيين تكليف لهم؟ ا و رضى الحكيم بالهرج والمرج واختلال النظام'' ؟(۱)

نظام كى حفاظت واجبات مؤكدة ميں سے ہے اور مسلمانوں كے امور كا مختل ہونا ناپسنديدہ امور ميں سے ہے_ ان كى سرپرستى اور حفاظت سوائے حاكم اور حكومت كے كوئي نہيں كرسكتا_ علاوہ بريں مسلمانوں كى سرحدوں كى حفاظت اور دشمن سے ان كے شہروں كو محفوظ ركھنا عقلاً اور شرعاً واجب ہے اور يہ حكومت تشكيل ديئے بغير ممكن نہيں ہے_ ان تمام امور كى مسلمانوں كو احتياج ہے_ اور حكيم صانع (اللہ تعالى ) كا انہيں ايسے ہى چھوڑ دينا معقول نہيں ہے _ جو امامت كى دليل ہے بعينہ وہى دليل امام زمانہ عجل الله فرجہ الشريف كى غيبت كے زمانہ ميں لزوم حكومت كى دليل ہے_ كيا خداوند حكيم كى حكمت سے معقول ہے كہ وہ ملت اسلاميہ كو

____________________

۱) كتاب البيع ، امام خمينى ، جلد ۲ ، صفحہ ۴۶۱، ۶۲ ۴_

۱۸۳

بے مہار چھوڑ دے _ اور ان كيلئے كوئي شرعى فريضہ متعين نہ كرے _ يا حكيم مطلق اختلال نظام پر راضى ہوگا _

گذشتہ مطالب سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ زمانہ غيبت ميں حكومت اور ولايت فقيہ كى بحث فقہى بھى ہوسكتى ہے اور كلامى بھى _ اور اس مسئلہ كا كلامى ہونا اس كے فقہى ابعاد سے مانع نہيں ہے_ زمانہ غيبت ميں حكومت كے متعلق شرعى نقطہ نظر كے اظہار كے ضرورى ہونے كے لحاظ سے ايك كلامى مسئلہ ہے_ اور جب مسلمانوں كے حاكم كى شرائط اور فرائض اور دوسرى طرف اس سلسلہ ميں عوام كى ذمہ داريوں پر بحث كريں گے تو يہ ايك فقہى مسئلہ كہلائے گا_ جس طرح امامت كى عقلى ادلّہ سے نصب امام كا وجوب ثابت ہے_ اسى طرح نقلى ادلّہ مثلا واقعہ غدير خم سے اس كے مصاديق معين ہوتے ہيں_ ولايت فقيہ كى عقلى ادلّہ سے يہ بات ثابت ہوتى ہے كہ شرعى اعتبار سے والى اور حاكم كا مقرر كرنا ضرورى ہے اور روائي ادلّہ سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ زمانہ غيبت ميں وہ حاكم ''فقيہ عادل'' ہے_

آخرى نكتہ يہ ہے كہ تمام كلامى بحثيں اہميت كے لحاظ سے برابر نہيں ہيں_ بعض كلامى بحثيں اصول دين كى ابحاث كا جز ہيںمثلا نبوت اور معاد كى بحث _ جبكہ امامت كى بحث اصول مذہب كى ابحاث كا حصہ ہے_

اصل معاد اصول دين ميں سے ہے ليكن اس كے مسائل كى تفصيلات اور جزئيات كلامى ہونے كے باوجود اہميت كے لحاظ سے اصل معاد كى طرح نہيں ہيں_ بنابريں زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ اور حكومت كا مسئلہ كلامى ہونے كے باوجود رتبہ كے لحاظ سے مسئلہ امامت سے كمتر ہے_ اسى لئے اصول مذہب ميں سے نہيں ہے_

۱۸۴

خلاصہ:

۱) يہ بات واضح ہونى چاہيے كہ كيا ولايت فقيہ ايك فقہى مسئلہ ہے يا كلامي؟

۲)بعض كو يہ غلط فہمى ہوئي ہے كہ كسى مسئلہ كے كلامى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس پر عقلى دليل كا قائم كرنا ممكن ہو_

۳) كسى مسئلہ كے فقہى ہونے كا معيار يہ ہے كہ اس كا تعلق مكلفين كے عمل سے ہو _

۴)مسئلہ كلامى مبدا و معاد كے احوال سے بحث كرتا ہے_ لہذا اگر فعل خدا كے بارئے ميں بحث ہو ، تو وہ مسئلہ كلامى ہوگا_ اور اگر فعل مكلف كے متعلق ہو تو فقہى مسئلہ كہلائے گا_

۵)مسئلہ ولايت فقيہ فقہى اور كلامى دنوں پہلوؤں كا حامل ہے_ اور دونوں جہات سے قابل بحث و تحقيق ہے_

۶) اگر كوئي ولايت فقيہ كو اس لحاظ سے ديكھے كہ كيا زمانہ غيبت ميں فقيہ كا مقرر كرنا اسى طرح خداوند عالم پر واجب ہے جس طرح رحلت رسول صلى الله عليہ و آلہ و سلم كے بعد امام معصوم كا مقرر كرنا واجب ہے_تو يہ ولايت فقيہ كا كلامى پہلو ہے_

۷) امام خمينى نے ولايت فقيہ كے كلامى پہلو سے بھى بحث كى ہے _ اور معتقد ہيں كہ وہ عقلى ادلّہ جو ائمہ كى امامت پر قائم كى گئي ہيں ، زمانہ غيبت ميں ولايت اور حكومت كے ضرورى ہونے پر دلالت كرتى ہيں_

۸) اہميت كے لحاظ سے تمام كلامى بحثيں مساوى نہيں ہيں _ لہذا ولايت فقيہ كى اہميت بحث امامت و نبوت كى اہميت سے كمتر ہے_

۱۸۵

سوالات:

۱) كسى بحث كے فقہى ہونے كا معيار كيا ہے؟

۲)كسى بحث كے كلامى ہونے كا معيار كيا ہے؟

۳) وہ افراد جو كسى مسئلہ كے كلامى ہونے كا معيار يہ قرار ديتے ہيں كہ اس پر عقلى دليل قائم كرنا ممكن ہو _ انہوں نے كہاں غلطى كى ہے؟

۴)مسئلہ ''ولايت فقيہ ''كلامى اور فقہى دونوں پہلوؤں كا حامل كيوں ہے؟

۵)مسئلہ ولايت فقيہ كے بارے ميں كلامى نظر سے كيا مراد ہے ؟

۶)ولايت فقيہ كے متعلق امام خمينى كا نظريہ كيا ہے؟

۱۸۶

بيسواں سبق :

ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ- ۱ -

پہلے گذر چكا ہے كہ ولايت فقيہ كى بحث ميں محل نزاع ''امور عامہ ميں فقيہ عادل كيلئے ولايت كا اثبات ہے''_ كيونكہ قضاوت اور محجور و بے بس افراد كے امور ميں فقيہ كى ولايت پر سب فقہاء متفق ہيںاور اس ميں كوئي نزاع اور اختلاف نہيں ہے_ لہذا وہ شئے جس كے اثبات يا انكار ميں اختلاف ہے وہ'' فقيہ كى ولايت عامہ ''ہے_

ولايت ايك منصب ہے_ اور بعض افراد كيلئے اس كا ہونا شرعى اثبات كا محتاج ہے_ كيونكہ اصل اوّلى كے تحت كوئي كسى پر ولايت نہيں ركھتا _ اور اسے ''اصل عدم ولايت'' سے تعبير كرتے ہيں_ اصل اوّلى يہ ہے كہ كوئي كسى پر ولايت نہيں ركھتا _ مگر يہ كہ كسى معتبر شرعى دليل سے اس كى ولايت ثابت ہو جائے_ معتبر شرعى دليل كى دو قسميں ہيں_ نقلى اورعقلى _ دليل نقلى قرآنى آيات اور معصومين سے صادرہ معتبر روايات پر مشتمل ہوتى ہے جبكہ دليل عقلى وہ ہوتى ہے جو معتبر اور صحيح مقدمات سے حاصل ہو _ اس طرح وہ شرعى حكم كو كشف كرسكتى ہے_ اسى وجہ سے عقلى دليل كو'' دليل معتبر شرعي'' بھى كہتے ہيں_ كيونكہ وہ نظر شرع سے كاشف ہوتى ہے_

۱۸۷

قضاوت اور محجور و بے بس افراد كى سرپرستى يعنى امور حسبيہ ميں فقيہ عادل كى ولايت ''دليل معتبر شرعي''سے ثابت ہے_ قابل بحث نكتہ يہ ہے كہ كيا فقيہ كى سياسى ولايت يعنى مسلمانوں كے اجتماعى امور اور امر و نہى ميں فقيہ عادل كى ولايت ثابت ہے يا نہيں؟

ايسى ولايت كے اثبات كيلئے ہمارے پاس تين راستے ہيں_ مشہور اور متداول راستہ معصومين كى روايات سے تمسك كرنا ہے_

دوسرا راستہ دليل عقلى ہے جيسا كہشيعہ علماء نے بحث امامت ميں دليل عقلى سے تمسك كيا ہے_

تيسرا راستہ امور حسبيہ كے ذريعہ سے ولايت كا ثابت كرنا ہے_ امور حسبيہ ميں فقيہ كى ولايت كو تمام فقہا قبول كرتے ہيں_ كيا امر و نہى اور حكومت ميں ولايت كو باب حسبہ كے ذريعہ فقيہ عادل كيلئے ثابت كيا جاسكتاہے_ ادلّہ روائي اور عقلى كو بيان كرنے سے پہلے اس تيسرى راہ كى تحقيق و بررسى كرتے ہيں_

فقيہ كى ولايت عامہ كا اثبات از باب حسبہ

پہلے اشارہ كر چكے ہيں كہ امور حسبيہ سے مراد وہ امور ہيں جن كے ترك كرنے پر شارع مقدس كسى صورت ميں راضى نہيں ہے_ وہ ہر صورت ميں ان كے وجود اور ادائيگى كا خواہاں ہے_ امور حسبيہ كى سرپرستى كس كے ذمہ ہے؟ اس ميں دو بنيادى نظريئے ہيں_ تمام شيعہ فقہاء قائل ہيں كہ جامع الشرائط فقيہ ان امور ميں ولايت ركھتا ہے اور قضاوت پر ولايت كى مثل امور حسبيہ كى سرپرستى بھى فقيہ عادل كے مناصب ميں سے ہے_ بہت كم شيعہ فقہاء ايسے ہيں جو فقيہ عادل كو اس منصب كيلئے منصوب قرارنہيںديتے اور امور حسبيہ ميں فقيہ كى ولايت شرعيہ كے منكر ہيں_ منصب ولايت كے انكار كا معنى يہ نہيں ہے كہ وہ ان امور ميں فقيہ كى سرپرستى اور تصرف كى اولويت كے بھى منكر ہيں _ كيونكہ ان كى نظر ميں ان امور ميں تصرف قدر متيقن كے

۱۸۸

باب سے فقيہ عادل كيلئے ثابت ہے_ فقيہ عادل كى موجودگى اور اس منصب كيلئے اس كى آمادگى كى صورت ميں دوسرے لوگ ان امور ميں حق تصرف نہيں ركھتے _ كيونكہ ''عادل مومنين'' كے جواز تصرف اور سرپرستى ميں شك ہے_ جبكہ فقيہ عادل كى سرپرستى قطعى طور پر بلا اشكال و شك ہے_ (۱) پس عادل مومنين اسى صورت ميں امور حسبيہ كى سرپرستى كرسكتے ہيں جب فقيہ عادل موجود نہ ہو يا اس پر قدرت نہ ركھتا ہو_

عام طور پر بچے، پاگل اور كم عقل قسم كے افراد كہ جن كے باپ دادا نہ ہوں كے امور كى سرپرستى امور حسبيہ كى مثاليں ہيں_ البتہ بعض فقہا امور حسبيہ كے دامن كو بہت وسيع سمجھتے ہيں_ ان كى نظر ميں اگر امور حسبيہ كى تعريف پر غور كريں تو مسلمانوں كے دفاع اور ان كے نظام اور سرحدوں كى حفاظت سے مربوط تمام امور اس ميں شامل ہيں لہذا اس صورت ميں مسلمانوں كے اجتماعى اور سياسى امور ميں فقيہ عادل كى سرپرستى اور حاكميت كو امور حسبيہ ميں سے قرار ديا جاسكتا ہے_ بنابريں مشہور فقہا كے نظريہ كے مطابق فقيہ عادل امور حسبيہ ميں منصب ولايت كا حامل ہے لہذا وہ مسلمانوں كے امور عامہ پر ولايت ركھتا ہے يا دوسرے نظريہ كى بنا پر ان امور ميں فقيہ كى ولايت'' قدر متقين ''كے باب سے ہے يعنى جن افراد كيلئے تصرف جائز ہے ان ميں سے فقيہ كے تصرف كا جواز يقينى ہے_حاكميت كى شرائط كے حامل فقيہ عادل كے ہوتے ہوئے دوسرے ان امور كى سرپرستى نہيں كرسكتے_

آيت اللہ سيد كاظم حائرى اس استدلال كو يوں بيان كرتے ہيں :

يقينى سى بات ہے كہ شارع مقدس ان مصالح اور احكام كے ضائع ہونے پر راضى نہيں ہے جو اسلامي

____________________

۱) موجودہ دور كے فقيہ آيت اللہ خوئي اسى نظريہ كى طرف مائل ہيں_ التنقيح فى شرح العروة الوثقى ، باب الاجتہاد و التقليد صفحہ ۴۹، ۵۰_

۱۸۹

حكومت كے نہ ہونے كى وجہ سے ضائع ہوجاتے ہيں_ دوسرے لفظوں ميں خدا راضى نہيں ہے كہ مسلمانوں كے انتظامى امور، فاسق ، كفار اور ظالموں كے ہاتھ ميں ہوں_ جبكہ يہ امكان بھى موجود ہو كہ وہ مومنين جو كلمة اللہ كى سربلندى اور حكم الہى كے مطابق حكومت كرنے كے متعلق سوچتے ہيں، مسلمانوں كے امور كو اپنے ہاتھ ميں لے ليں_ يہ ايك واضح سى بات ہے جس ميں فقہى لحاظ سے كوئي بھى ترديد نہيں كرسكتا_

دوسرى بات يہ ہے كہ فقيہ كے ہاتھوں ان امور كا انجام پانا متعين ہے_ ( دوسرا كوئي شخص مسلمانوں پر حكومت نہيں كرسكتا) اور اس كى دو دليليں ہيں:

ادلہ شرعيہ سے يہ بات ثابت كى جائے كہ امت مسلمہ كے رہبر ميں فقاہت كى شرط كا ہونا ضرورى ہے_

يا امور حسبيہ ميں يقينى امر يہى ہے كہ فقيہ ان كى سرپرستى كرسكتا ہے اور اصل عدم ولايت كى روسے غير فقيہ اس منصب كا حامل نہيں ہوسكتا _(۱)

جيسا كہ آپ نے ملاحظہ كيا يہ دليل اولويت ،اجتماعى امور ميں فقيہ عادل كى سرپرستى كا اثبات كرتى ہے_ اس سے مزيد يعنى ''ولايت انتصابي'' كے اثبات كيلئے ہم ولايت فقيہ كى دوسرى ادلّہ خصوصاً ادلّہ روائي كے محتاج ہيں_

ولايت فقيہ كى ادلّہ روائي:

روايات، فقيہ كى ولايت عامہ كى اہم ترين ادلّہ ميں سے شمار ہوتى ہيں_ جو ابتدا سے ليكر آج تك ولايت فقيہ كے معتقد فقہاء كے يہاں مورد تمسك قرار پائي ہيں_

يہاںہم ان ميں سے بعض اہم روايات كى تحقيق و بررسى كرتے ہيں_

____________________

۱) ولاية الامر فى عصر الغيبةصفحہ ۹۶_

۱۹۰

الف _ توقيع امام زمانہ (عجل الله تعالى فرجہ الشريف) (۱)

فقيہ كى ولايت عامہ كے اثبات كى معتبرترين دليل وہ روايت ہے جسے شيخ صدوق نے اپنى كتاب ''كمال الدين'' ميں نقل كيا ہے_ اس نقل كے مطابق اسحاق ابن يعقوب نے حضرت امام زمانہ (عجل الله فرجہ الشريف ) كى خدمت اقدس ميں ايك خط لكھاجس ميں چند مسائل پوچھے_ اس توقيع كے بعض حصوں سے بہت سے فقہاء نے فقيہ كى ولايت عامہ پر استدلال كيا ہے_

''عن محمدبن محمد بن عصام ، عن محمد بن يعقوب ، عن اسحاق بن يعقوب قال : سألت محمدبن عثمان العمرى ان يوصل لى كتابا قد سألت فيه عن مسائل اشكلت على ، فورد التوقيع بخط مولانا صاحب الزمان(عجل الله فرجه الشريف) ''امّا ما سألت عنه ارشدك الله و ثبتك امّا الحوادث الواقعة فارجعوا فيها الى رواة حديثنا _ فانهم حجتى عليكم و انا حجة الله عليهم'' (۲)

____________________

۱) ''توقيع ''لغت ميں خط پر نشان لگانے كو كہتے ہيں _ نيز خط پر بڑے لوگوں كے نشان و دستخط اور شاہى فرمان پر شاہى مہر كو بھى توقيع كہتے ہيں_ اسى طرح ائمہ معصومين (عليہم السلام)خصوصاً امام زمانہ (عجل اللہ تعالى فرجہ الشريف) كے وہ خطوط جو آپ كے نواب اربعہ كے ذريعہ ابلاغ كئے گئے ہيں_ وہ تاريخ اور حديث كى كتب ميں'' توقيعات'' كے نام سے مشہور ہيں_ ولايت فقيہ، امام خمينى صفحہ ۶۷_

۲) كمال الدين ،جلد ۲ ،باب ۴۵، حديث ۴ صفحہ ۴۸۳_ الغيبة ،شيخ طوسي، صفحہ ۲۹۰، ۲۹۳ ديگر سب كتابوں ميں انہيں دو كتابوں سے نقل كى گئي ہے_ ۱۸۲

۱۹۱

محمد ابن محمد ابن عصام نے محمد ابن يعقوب سے اور وہ اسحاق ابن يعقوب سے نقل كرتے ہيں وہ كہتے ہيں : ميں نے محمد ابن عثمان عمرى سے كہا ميرا يہ خط امام زمانہ (عج) تك پہنچاديں اس ميں ميں نے اپنى مشكلات كے بارے ميں سوالات پوچھے ہيں تو امام (ع) كى طرف سے توقيع صادر ہوئي جس ميں آپ نے فرمايا :خدا آپ كا بھلا كر ے اور آپ كو ثابت قدم ركھے پيش آنے والے واقعات ميں ہمارى احاديث نقل كرنے والوں كى طرف رجوع كرو_ وہ ميرى طرف سے تم پر حجت ہيں اور ميں خدا كى طرف سے ان پر حجت ہوں _

ولايت عامہ كے اثبات كيلئے يہ واضح ترين روايت ہے اس روايت سے استدلال كرنے والوں نے عام طور پر اس كے دوسرے جملے '' فانہم حجتى عليكم و انا حجة اللہ عليہم '' سے تمسك كيا ہے_ اگر چہ بعض فقہاء مثلا امام خمينى نے پہلے جملہ '' اما الحوادث الواقعة فارجعوا فيہا الى رواة حديثنا'' سے بھى استدلال كيا ہے_ بنابريں روايت كے دونوں جملے فقيہ كى ولايت عامہ كى دليل ہيں_

پہلے جملہ سے استدلال اس طرح كيا گيا ہے كہ امام عليہ السلام نے پيش آنے والے مسائل و واقعات ميں اپنا فريضہ معلوم كرنے كيلئے احاديث نقل كرنے والوں كى طرف رجوع كرنے كو كہا ہے_ واضح ہے كہ بغير ''تفقہ'' كے حديث نقل كرنے والے مراد نہيں ہيں_ظاہر روايت يہ ہے كہ يہ رجوع كرنا نئے مسائل كے شرعى حكم كے پوچھنے كے باب سے نہيں ہے_ كيونكہ يہ تو سبھى جانتے ہيں كہ زمانہ غيبت ميں شرعى حكم پوچھنے كيلئے فقہا كے پاس جانا پڑتا ہے _ پس اس رجوع كرنے سے مراد ''پيش آنے والے واقعات ميں ايك شخص يا امت كے شرعى فريضہ كى تعيينہے''_ اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ شيعہ فقہا فتوى دينے كے ساتھ ساتھ اجتماعى مسائل ميں لوگوں كے شرعى فريضہ كى تعيين كرنے والے بھى ہيں_ امام خمينى اس بارے ميں فرماتے ہيں:

۱۹۲

''حوادث واقعہ'' سے مراد وہ اجتماعى مشكلات اور مسائل ہيں جو مسلمانوں كو پيش آتے تھے_ اور انہوں نے بطور كلى سوال كيا كہ اب ہمارا آپ سے رابطہ نہيں ہوسكتا لہذا ان اجتماعى مسائل كا كيا كريں؟ ہمارا فريضہ كيا ہے؟ يا چند مسائل كا ذكر كيا اور كہا : ان مسائل ميں ہم كس كى طرف رجوع كريں؟ ظاہرى طور پر يہ معلوم ہوتا ہے كہ انہوں نے بطور كلى سوال كيا ہے اور حضرت امام زمانہ (عجل اللہ فرجہ الشريف) نے اسى سوال كے مطابق جواب ديتے ہوئے فرمايا كہ حوادث و مشكلات كے وقت ہمارے رواة يعنى فقہاء كى طرف رجوع كرو_ (۱)

امام كا دوسرا جملہ ''فانهم حجتى عليكم وانا حجة الله عليهم '' بھى فقيہ كى ''ولايت عامہ ''پر دلالت كرتا ہے_ كيونكہ آپ نے خود كو فقہا پر خدا كى حجت اور فقہا كو لوگوں پر اپنى حجت قرار ديا ہے_ ائمہ معصومين كے حجت ہونے كا معنى يہ نہيں ہے كہ شرعى احكام كے سلسلہ ميں ان كى طرف رجوع كيا جائے بلكہ ان كے اقوال و اعمال اور سيرت و كردار تمام امور ميں نمونہ عمل ، اسوہ اور سرمايہ نجات ہيں_ ان كى اطاعت پسنديدہ اور نافرمانى گمراہى ہے _ ان كى پيروى كرنے والے بارگاہ الہى ميں حجت اور دليل ركھتے ہيں اور ان سے منہ پھيرنے والوں اور نافرمانى كرنے والوں كا كوئي عذر بارگاہ الہى ميں قابل قبول نہيں ہے_اس بنياد پر جس طرح ''معارف الہى اور احكام شرعى كے فہم سے ليكر امور مسلمين كى تدبير تك'' تمام لوگ اپنے امور ميں بعنوان حجت، ائمہ معصومين كى طرف رجوع كرنے كے پابند ہيں اسى طرح زمانہ غيبت ميں چونكہ وہ حجج الہيہ تك دسترسى نہيں ركھتے اور ائمہ معصومين كى طرف سے فقہاء بعنوان حجت لوگوں پر مقرر ہيں لہذا مومنين پابند ہيں كہ وہ اپنے تمام امور ميں ان كى طرف رجوع كريں_(۲)

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۶۹_

۲) كتاب البيع ،امام خمينى جلد ۲ صفحہ ۴۷۴، ۴۷۵_

۱۹۳

جيسا كہ گذرچكا ہے كہ فقيہ كى ولايت عامہ كے اثبات كيلئے يہ روايت بہت واضح ہے_اسى بنا پر بعض افراد نے فقيہ كے تقرر كى عمدہ اور قوى ترين دليل اسى روايت كو قرار ديا ہے_

'' و لكنّ الذى يظهر بالتدبّر فى التوقيع المروى عن امام العصر (عج) الذى هو عمدة دليل النصب انّما هو اقامة الفقيه المتمسك برواياتهم مقامه بارجاع عوام الشيعة اليه فى كل ما يكون الامام مرجعاً فيه كى لا تبقى شيعته متحيرين فى ا زمنة الغيبة'' (۱)

وہ توقيع جو امام عصر(عجل الله فرجہ الشريف) سے مروى ہے وہ فقيہ كے تقرركى عمدہ ترين دليل ہے _ جو چيز اس سے ظاہر ہوتى ہے وہ يہ ہے كہ ائمہ معصومين كى روايات سے متمسك ہونے والا فقيہ ہر اس شئے ميں شيعوں كيلئے مرجع ہے جس ميں امام مرجع ہوتے ہيں تا كہ زمانہ غيبت ميں شيعہ سرگردان نہ رہيں_(۱)

'' لعلّ ا قواها نصّاً فى الدلالة ، التوقيع الرفيع الدى ا خرجه شيخنا الصدوق فى كمال الدين'' (۲)

شايد دلالت كے لحاظ سے قوى ترين نص وہى توقيع ہے جسے ہمارے شيخ جناب صدوق نے كمال الدين ميں نقل كيا ہے_

سند كے لحاظ سے اس حديث ميں صرف ايك مشكل ہے اور وہ سلسلہ سند ميں ''اسحاق ابن يعقوب ''كا

____________________

۱) مصبا ح الفقيہ _ رضاہمدانى ، كتاب الخمس جلد ۱۴ صفحہ ۲۸۹_

۲) ولاية الفقہاء فى عصر الغيبة صفحہ ۱۰_

۱۹۴

ہونا ہے_ اس شخص كيلئے كتب رجالى ميں كوئي خاص توثيق موجود نہيں ہے_ ليكن درج ذيل شواہد كى بنا پر اس توثيق كا نہ ہونا حديث كے معتبر ہونے كيلئے ضرر رساں نہيں ہے_

۱_توقيع كے صدور كا ادعا اور امام معصوم سے ايك حديث كے سننے كے ادعا ميں واضح فرق ہے _امام كى طرف سے كسى شخص كے پاس توقيع كاآنا اس كے امام (ع) كے نزديك مقام و مرتبہ ، قرب اور قابل اعتبار ہونے كى دليل ہے_

شيخ طوسى ، شيخ صدوق اور شيخ كلينى جيسے ممتاز علماء نے تسليم كيا ہے كہ اسحاق ابن يعقوب صدور توقيع كے اپنے دعوى ميں سچے ہيں_ اگر ان علماء كو اسحاق ابن يعقوب كى وثاقت پر اعتراض ہوتا تو كبھى بھى اس كے دعوے كى تصديق نہ كرتے اور اسے نقل بھى نہ كرتے _

۲_كلينى مرحوم زمانہ غيبت ميں موجود اور اسحاق ابن يعقوب كے ہم عصر تھے_ اور ان كے نزديك اس توقيع كى صحت محرز تھى _ بنابريں كلينى مرحوم كا اسے نقل كرنا اس توقيع كے صدور كے سلسلہ ميں اسحاق ابن يعقوب كے دعوى كے صحيح ہونے كى دليل ہے_ لہذا سند كے لحاظ سے اس روايت ميں كوئي مشكل نہيں ہے_(۱)

____________________

۱) ولاية الامر فى عصر الغيبة، صفحہ ۱۲۳، ۱۲۴_

۱۹۵

خلاصہ :

۱)ولايت ايك منصب ہے_ اور افراد كيلئے اس كا اثبات ''شرعى دليل ''كا محتاج ہے _ كيونكہ اصل يہ ہے كہ كوئي كسى پر ولايت نہيں ركھتا_

۲)فقط شرعى دليل كى وجہ سے ''اصل عدم ولايت''سے صرف نظر كيا جاسكتا ہے _ اور شرعى دليل كى دوقسميں ہيں_ نقلى و عقلي_

۳) شرعى دليل كے ذريعہ قضاوت اور امور حسبيہ جيسے امور ميں فقيہ عادل كى ولايت كے اثبات پر تقريبا تمام فقہاء متفق ہيں _ ''ولايت تدبيري'' يا ''سياسى امور ميں ولايت'' كے متعلق علماء ميں اختلاف ہے_

۴) فقيہ كى ''ولايت عامہ'' كو ''امور حسبيہ كے باب ''سے بھى ثابت كيا جاسكتا ہے _

۵) دليل حسبہ مسلمانوں كے اجتماعى امور ميں فقيہ عادل كى حاكميت كى اولويت اور ضرورت كو ثابت كرتى ہے ليكن فقيہ عادل كي'' ولايت انتصابي'' پر دلالت نہيں كرتى _

۶) ولايت فقيہ كى اہم ترين دليل روائي ،''توقيع امام زمانہ''(عجل اللہ فرجہ الشريف) ہے _

۷) اس روايت كے دو جملوں سے ''ولايت فقيہ ''پر استدلال كيا جاسكتا ہے _

۸) اس روايت ميں كوئي سندى مشكل نہيں ہے اورجو اشكال كيا گيا ہے وہ قابل حل ہے _

۱۹۶

سوالات:

۱)'' اصل عدم ولايت ''سے كيا مراد ہے ؟

۲) كس ذريعہ سے اصل عدم ولايت سے قطع نظر كيا جاسكتا ہے ؟

۳) باب حسبہ سے فقيہ كى ولايت عامہ كو ثابت كيجيئے ؟

۴) كيا دليل حسبہ فقيہ كى ''ولايت انتصابى ''كو ثابت كرتى ہے ؟

۵)جملہ '' اما الحوادث الواقعة'' سے ولايت فقيہ پر كس طرح استدلال كيا جاسكتا ہے ؟

۶) توقيع كى سندى مشكل كا جواب ديجيئے ؟

۱۹۷

اكيسواں سبق:

ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ -۲)

ب: مقبولہ عمر ابن حنظلہ(۱)

محقق كر كى نے كتاب ''صلوة الجمعة ''ميں اور محقق نراقى ، صاحب جواہر اور شيخ انصارى نے ''كتاب القضائ'' ميں اور دوسرے بہت سے فقہاء نے ''فقيہ كى ولايت عامہ'' پر عمر ابن حنظلہ كى اس روايت سے استدلال كيا ہے_

محمد بن يعقوب، عن محمّد بن يحيي، عن محمّد بن الحسين، عن محمّد بن عيسي، عن صفوان بن يحيي، عن داود بن الحصين، عن عمر بن حنظلة، قال: سألت أبا عبدالله (ع) عن رجلين من أصحابنا بينهما مُنازعة فى دين أو ميراث، فتحاكما الى السلطان والى القضاة، أيحلّ ذلك؟ قال(ع) : ''من تحاكم اليهم فى حق أو باطل فانّما تحاكم إلى الطاغوت،وما يحكم له فانّما يأخذ سحتاًوان كان حقّاً ثابتاً له ; لانه أخذه بحكم الطاغوت و ما أمر الله أن يكفر به ، قال الله تعالى : (يريدون أن يتَحاكَموا الى الطاغوت و قد أمروا أن يَكفروا به)

____________________

۱) شيخ طوسى اور برقى نے عمر ابن حنظلہ كو امام صادق اور امام باقر كے اصحاب ميں سے قرار ديا ہے عمر ابن حنظلہ ايك مشہور راوى ہيں _ زرارہ، ہشام ابن سالم ، عبدالله ابن بكير ، عبدالله ابن مسكان اور صفوان ابن يحيى جيسے ممتاز روايوں نے ان سے روايات نقل كى ہيں_

۱۹۸

قلت: فكيف يصنعان؟ قال: '' ينظران من كان منكم ممَّن قد رَوى حديثنا و نظر فى حلالنا و حرامنا و عرف أحكامنا فليَرضَوا به حَكَماً ; فانى قد جعلته عليكم حاكماً، فإذا حكم بحكمنا فلم يقبل منه فانّما استخفَّ بحكم الله و علينا ردّ والرادُّ علينا الرّادُّ على الله و هو على حدّ الشرك بالله ''

محمد ابن يعقوب، محمد ابن يحيى سے ،وہ محمد ابن الحسين سے ، وہ محمد ابن عيسى سے ، وہ صفوان ابن يحيى سے، وہ داود ابن الحسين سے اور وہ عمر ابن حنظلہ سے روايت كرتے ہيں وہ كہتے ہيں ميں نے امام صادق سے ان دو شيعہ افراد كے متعلق پوچھا جو قرض يا ميراث كے جھگڑے كا فيصلہ كرانے كيلئے سلطان يا قاضى كے پاس جاتے ہيں _ كيا ايسا كرناان كے لئے جائز ہے ؟ آپ نے فرمايا :جو ان كے پاس حق يا با طل فيصلہ كرانے جاتا ہے وہ گويا طاغوت كے پاس فيصلہ كروانے كيلئے جاتا ہے _ اور جو وہ اس كے حق ميں فيصلہ ديتا ہے اگر چہ صحيح ہى كيوں نہ ہو تب بھى اس نے حرام كھا يا ہے كيونكہ اس نے اسے طاغوت كے حكم سے ليا ہے _ جبكہ خدا نے طاغوت كے انكاركا حكم ديا ہے _ خدا فرماتا ہے : وہ چاہتے ہيں اپنے فيصلے طاغوت كے پاس لے جائيں حالانكہ انہيں اس كے انكار كا حكم ديا گيا ہے(۱) راوى كہتا ہے ميں نے پوچھا: پھر وہ كيا كريں؟ آپ نے فرمايا: اس كى طرف رجوع كريں جو تم ميں سے ہمارى احاديث كو نقل كرتا ہے ، ہمارے حلال و حرام ميں غور و فكر كرتا ہے اور ہمارے احكام كو پہچانتا ہے پس اسے حَكَم ( فيصلہ كرنے والا) بنائيں ميں نے اسے تم پر حاكم قرار ديا ہے _ پس جب وہ ہمارے حكم كے مطابق فيصلہ كرے_

____________________

۱) سورہ نساء آيت ۶۰_

۱۹۹

اور پھر اس فيصلے كو قبول نہ كيا جائے تو گويا قبول نہ كرنے والے نے خدا كے حكم كو خفيف شمار كيا ہے اور ہميں جھٹلايا ہے _ اور جو ہميں جھٹلائے اس نے خدا كو جھٹلاياہے اور خدا كو جھٹلانااس سے شرك كرنے كے مترادف ہے (۱) _

فقيہ كى ولايت عامہ پر اس روايت كى دلالت درج ذيل مقدمات پر توجہ كرنے سے واضح ہوجاتى ہے _

۱_ عمر ابن حنظلہ كا سوال فيصلہ كيلئے قضات كيطرف رجوع كرنے كے بارے ميں نہيں ہے بلكہ اپنے تنازعات ميں سلطان اور قاضى كے پاس جانے كے جواز كے متعلق ہے _ عام طور پر ايسے تنازعات ہوتے ہيں جن كے حل اور فيصلہ كيلئے والى اور سلطان كى دخالت ضرورى ہوتى ہے اور قاضى كے پاس رجوع كرنے كى قسم سے نہيں ہوتے مثلاً علاقائي اور قومى و قبائلى جھگڑے ايسے ہوتے ہيں كہ اگروالى اور سياسى اقتدار كے حامل افراد بر موقع ان ميں دخالت نہ كريں تو قتل و غارت اور سياسى و اجتماعى حالات كے خراب ہونے كا خطرہ پيدا ہوجاتا ہے _ البتہ چھوٹے موٹے انفرادى جھگڑوں كا فيصلہ كرنا قاضى كا كام ہے اور والى يا سلطان كے ساتھ ان كا كوئي تعلق نہيں ہوتا_

۲_ امام نے دونوں قسم كے فيصلوں كيلئے ،چاہے وہ والى كے ساتھ مربوط ہوں يا سلطان كے ساتھ، ان كى طرف رجوع كرنے كو طاغوت كى طرف رجوع كرنے كے مترادف قرار ديا ہے اور اسے ممنوع قرار ديتے ہوئے سورہ نساء كى آيت ۶۰ سے استدلال كيا ہے كہ جس ميں صاحبان ايمان كو طاغوت كے انكار كرنے كا حكم ديا گيا ہے اور فيصلوں كيلئے طاغوت كے پاس جانے سے منع كيا ہے _ اس آيت ميں طاغوت سے مراد خاص طور پر نامشروع سلطان نہ بھى ہو مگريقينى طور پر يہ والى اور سلطان اس ميں شامل ہے _

كيونكہ اولا قاضى كا صفت طاغوت كے ساتھ متصف ہونے كا سبب اس كا فاسق و فاجر حكومت كے

____________________

۱) وسائل الشيعہ، جلد ۲۷صفحہ ۱۳۶، ۱۳۷، باب ۱۱، از ابواب صفات قاضى ،حديث ۱_

۲۰۰