اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت10%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 147800 / ڈاؤنلوڈ: 3688
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

ساتھ منسلك ہونا ہے وہ قاضى جو نامشروع اور فاسق و فاجر حكومت سے منسلك ہو وہ طاغوت اور ناحق ہے_

ثانياً اس آيت سے پہلے والى دو آيات ميں صرف قاضى كى طرف رجوع كرنے كا ذكر نہيں ہے بلكہ ان ميں قاضى اور سلطان كے فيصلے اور قضائي و حكومتى امور دونوں كے متعلق تنازعات كا ذكر ہے _ الله تعالى سورہ نساء كى آيت ۵۸ميں فرماتا ہے :

( ''ان الله يأمركم ا ن تُؤدُّوا الا مانات الى ا هلها و اذا حكمتم بين النّاس ا ن تحكُمُوا بالعَدل'' )

بے شك خدا تمھيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچا دو اور جب لوگوں كے در ميان كوئي فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _

اس فيصلہ كرنے ميں سلطان ، والى اور قاضى كا فيصلہ بھى شامل ہے _ اور اس كے'' قاضى كے فيصلہ'' ميں منحصر ہونے كى كوئي دليل نہيں ہے _ اس آيت كى رو سے ہر حاكم انصاف كے ساتھ فيصلہ كرنے كا پابند ہے چاہے وہ قاضى ہو يا حاكم و والى _

اسى سورہ كى آيت ۵۹ ميں خدا فرماتا ہے :

( ''اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و ا ولى الا مر منكم فان تَنازَعتم فى شيئ: فردّوه الى الله والرسول'' )

الله كى اطاعت كرو اور رسول (ص) كى اطاعت كرو اور اپنے ميں سے صاحبان امر كى پھر اگر تمھارا آپس ميں كسى بات پر اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول (ص) كى طرف پلٹا دو _

رسول اور اولى الامر كى اطاعت صرف شرعى احكام اور قضاوت ميں منحصر نہيں ہے _بلكہ ان كے حكومتى اوامر و نواہى بھى اس ميں شامل ہيں يعنى وہ احكام اور اوامر جو ''والي'' حاكم ہونے كے عنوان سے صادر كرتا ہے

۲۰۱

_ بنابريں اس روايت ميں طاغوت كى طرف رجوع كرنے كى ممانعت ميں_ كہ جس پر اس روايت ميں سورہ نساء كى آيت(۶۰) سے استدلال كيا گيا ہے _ ان دو آيات كے قرينہ كى بناپر ''طاغوتى حاكم ''اور'' طاغوتى قاضي'' دونوں شامل ہيں نہ كہ صرف طاغوتى قاضى _

۳_ امام اس كے راہ حل كيلئے شيعہ فقيہ كو بعنوان حاكم مقرر فرما رہے ہيں _'' انّى قد جعلته عليكم حاكماً '' ( ميں نے اسے تم پر حاكم مقرر كيا ہے ) يہ تقرر، قضاوت اور ولايت و حكومت دونوں ميں ہے_ كيونكہ مذكورہ بالا دو مقدموںكى رو سے سلطان اور قاضى دونوں كى طرف رجوع كرنے كے متعلق پوچھا گيا ہے_(۱)

شيخ انصارى نے كتاب ''قضاء و شہادات'' ميں امام كے قول ''انى قد جعلتہ عليكم حاكما'' سے يہ استنباط كيا ہے كہ فقيہ كى ولايت قضاوت اور تنازعات ميں منحصر نہيں ہے بلكہ اس سے عام ہے _ بالخصوص اس چيز كے پيش نظر كہ سياق عبارت كا تقاضا يہ تھا كہ امام يہ فرماتے: ''انّى قد جعلته عليكم حَكَماً ''حضرت امام صادق نے ''حَكَما''(۲) كى بجائے ''حاكم'' كا لفظ استعمال كر كے اس نكتہ كى وضاحت كى ہے كہ فقيہ عادل كے احكام كا دائرہ نفوذ، قضاوت اور تنازعات تك محدود نہيں ہے بلكہ تمام امور ميں اس كے احكام نافذ ہيں _ يعنى ہر وہ كلى يا جزئي حكم جس ميں امام اور سلطان مداخلت كا حق ركھتے ہيں _ ان كى طرف سے مقرر كردہ حاكم بھى ان ميں ولايت اور تسلط ركھتا ہے شيخ انصارى فرماتے ہيں:_

''ثم ان الظاهر من الروايات المتقدمة ، نفوذ حكم الفقيه فى جميع خصوصيات الاحكام الشرعية و فى موضوعاتها الخاصة ، بالنسبة الى ترتب الاحكام عليها _

____________________

۱) ''كتاب البيع ''امام خمينى ،جلد ۲، صفحہ ۴۷۶، ۴۷۹_

۲) حَكَم يعنى فيصلہ كرنے والا _

۲۰۲

لان المتبادر عرفاً من لفظ ''الحاكم'' هو المتسلّط على الاطلاق، فهو نظير قول السلطان لاهل بلدة: ''جعلت فلاناً حاكماً عليكم'' حيث يفهم منه تسلّطه على الرعيّة فى جميع ما له دخل فى اوامر السلطان جزئياً او كلياً ''و يؤيده العدول عن لفظ ''الحكم'' الى ''الحاكم'' مع ان الانسب بالسياق حيث قال : ''فارضوا به حكما ''ان يقول:'' فانى قد جعلته عليكم حكما'' (۱)

سند كے حوالے سے اس روايت ميں كوئي خاص مشكل نہيں ہے كيونكہ عمر ابن حنظلہ كے علاوہ اس روايت كے تمام راوى توثيق شدہ ہيں _ مشكل صرف عمر ابن حنظلہ كے سلسلہ ميں ہے كہ علماء كى طرف سے اس كى توثيق نہيں ہوئي _ ليكن يہ مشكل بھى درج ذيل وجوہات كى بناپر باقى نہيں رہتى _

الف : عمر ابن حنظلہ بہت مشہور آدمى تھے _ اور انہوں نے كثرت سے روايات نقل كى ہيں اور زرارہ ، ہشام ابن سالم ، صفوان ، عبدالله ابن بكير اور عبدالله ابن مسكان جيسے امام كے جليل القدر صحابہ نے ان سے روايات نقل كى ہيں اور ان بزرگوں كانقل كرنا اور كثير الرواية ہونا ان كے قابل و ثوق ہونے كى دليل ہے _

ب: كافى ميں ايك روايت موجود ہے جس ميں امام صادق عليہ السلام نے عمر ابن حنظلہ كى تعريف كى ہے(۲)

____________________

۱) القضاء و الشہادات صفحہ ۴۸، ۴۹ _عبارت كا مفہوم پہلے بيان ہوچكاہے ( مترجم )_

۲) على ابن ابراہيم، محمد ابن عيسى سے ،وہ يونس سے، اور وہ يزيد ابن خليفہ سے نقل كرتے ہيں : وہ كہتے ہيں ،ميں نے امام صادق سے عرض كيا : عمر ابن حنظلہ نے'' وقت'' كے متعلق آپ سے روايت كى ہے امام صادق فرمايا: وہ ہم پر جھوٹ نہيں بولتا ...كافى جلد ۳ صفحہ ۲۷۵ باب وقت الظہر و العصر حديث ۱_

۲۰۳

سب سے اہم بات يہ ہے كہ اس روايت پر علماء نے عمل كيا ہے اور اسے قابل قبول سمجھا ہے اسى وجہ سے اس كا نام ''مقبولہ عمر ابن حنظلہ ''پڑ گيا ہے _ شہيد ثانى نے عمر ابن حنظلہ كى وثافت پر تاكيد كرتے ہوئے اس روايت كو علماء كيلئے قابل قبول قرار ديا ہے _فرماتے ہيں :

و عمر بن حنظلة لم ينصّ الأصحاب فيه بجرح و لا تعديل ، و لكن أمره عند سهل ; لأنّى حقّقت توثيقه من محلّ آخر و إن كانوا قد أهملوه ، و مع ما ترى ف هذا الإسناد قد قبل الأصحاب متنه و عملوا بمضمونه ، بل جعلوه عمدة التفقّه ، واستنبطوا منه شرائطه كلّها ، و سمّوه مقبولّا (۱)

علماء كى طرف سے عمر ابن حنظلہ كے بارے ميں كوئي واضح جرح و تعديل واقع نہيں ہوئي ليكن يہ امر ميرے لئے بہت سہل و آسان ہے _ چونكہ ميں نے ايك دوسرے ذريعہ سے ان كى توثيق ثابت كردى ہے _ اگرچہ علماء نے اس كے بارے كچھ نہيں كہا _ اور اس سند كے باوجود علماء نے اس روايت كے متن كو قبول كيا ہے، اس كے مضمون پر عمل كيا ہے بلكہ اسے تفقہ كا ايك اہم ذريعہ قرار ديا ہے اور اس كى تمام شرائط كا اس سے استنباط كيا ہے _ اور اس كا نام مقبولہ ركھا ہے _

____________________

۱) الرعاية لحال البداية فى علم الدراية صفحہ ۱۳۱، اس بارے ميں مزيد تحقيق كيلئے شہيد ثانى كے فرزند صاحب معالم كى كتاب منتقى الجمان'' جلد ۱، صفحہ۱۹ كى طرف رجوع كيجئے_ شہيد ثانى كے علاوہ سيد جعفر مرتضى عاملى بھى ابن حنظلہ كى روايت كو صحيح سمجھتے ہيں اور آيت الله سيد محمد على موحد ابطحى كہتے ہيں: ہم نے اپنى كتب رجاليہ ميں ابن حنظلہ كى وثاقت كى ادلّہ ذكر كى ہيں اور ہم نے ان ميں ذكر كيا ہے كہ امام باقر ، امام صادق اور امام كاظم عليہم السلام كے موثق اصحاب نے ان سے روايات نقل كى ہيں ان ميں سے ايسے اصحاب بھى ہيں جو قابل وثوق افراد كے سوا كسى سے روايت نقل نہيںكرتے _ مثلاً صفوان ابن يحيى اور يہى دليل يزيد ابن خليفہ كے متعلق بھى جارى كى جاسكتى ہے (رسالہ فى ثبوت الہلال صفحہ ۷۷)_

۲۰۴

ج: مشہورہ ابى خديجہ :

شيخ طوسى امام صادق كے ايك قابل اعتماد صحابى جناب ابى خديجہ سے درج ذيل روايت كو نقل كرتے ہيں اور اس روايت سے بھى امور عامہ ميں فقيہ كى ولايت كو ثابت كيا گيا ہے_

''محمد بن حسن إسناده عن محمّد بن على بن محبوب، عن أحمد بن محمّد، عن حسين بن سعيد، عن أبى الجَهْم، عن أبى خديجة، قال: بعثنى أبو عبد الله (ع) إلى أصحابنا فقال: ''قل لهم : إيّاكم إذا وقعتْ بينكم الخصومة أو تَدَارَى فى شى ء من الا خذ والعطاء أن تحاكموا إلى أحد من هولاء الفُسّاق_ اجعلوا بينكُم رجلاً قد عرف حلالنا و حرامَنا; فانّى قد جعلتُه عليكم قاضياً و ايّاكم أن يُخاصم بعضكم بعضاً إلى السّلطان الجائر'' (۱)

محمد ابن حسن اپنے اسناد كےساتھ محمد ابن على ابن محبوب سے ، وہ احمد ابن محمد سے ، وہ حسين ابن سعيد سے، وہ ابى جہم سے، اور وہ ابى خديجہ سے نقل كرتے ہيں :

وہ كہتے ہيں : مجھے امام صادق نے اپنے ماننے والوں كے پاس بھيجا اور فرمايا:

ان سے كہہ دو كہ جب تمھارے در ميان كوئي جھگڑا ہوجائے _ يالين دين كے معاملہ ميں كوئي تنازع ہوجائے تو اسے حل كرنے كيلئے خبردار كسى فاسق حاكم كے پاس مت جانا اپنے در ميان ايك ايسے شخص كو مقرر كرو جو ہمارے حلال اور حرام سے واقف ہو، ميں اسے تم پر قاضى مقرر كرتاہوں _ خبردار اپنے جھگڑے ليكر فاسق وفاجر حاكم كے پاس مت جانا _

اس روايت سے فقيہ كى ولايت عامہ پر استدلال بہت حد تك مقبولہ عمر ابن حنظلہ كے استدلال سے

____________________

۱) وسائل الشيعہ جلد ۲۷ ، صفحہ ۱۳۹، باب ۱۱ _ از ابواب صفات قاضى حديث ۶_

۲۰۵

قريب ہے _ كيونكہ اس روايت ميں بھى اپنے تنازعات كے سلسلہ ميں نہ صرف فاسق و فاجر قاضيوں كے پاس جانے سے منع كيا گيا ہے بلكہ حاكم اور سلطان كے پاس جانے سے بھى منع كيا گياہے _ اور اس كى بجائے فقيہ عادل كے پاس جانے كى تاكيد كى گئي ہے _

امام خمينى اس روايت سے استدلال كرتے ہوئے فرماتے ہيں :

روايت ميں مذكور جملہ '' تدارى فى شئي '' سے مراد ''معاملاتى اختلافات'' ہيں يعنى اپنے معاملاتى اختلافات اور ايك دوسرے كے خلاف دعاوى ميں فساق كى طرف رجوع نہ كرو اور بعد والے جملہ '' كہ ميں نے تمھارے لئے قاضى مقرر كيا ہے '' سے معلوم ہوتا ہے كہ فسّاق سے مراد وہ قاضى ہيں جو اس وقت كے ناجائز حكمرانوں كى طرف سے منصب قضاوت پر فائز تھے _ اور حديث كے ذيل ميں فرماتے ہيں: و اياكم ان يخاصم بعضكم بعضاً الى السلطان الجائر _ يعنى وہ امور جن كا تعلق ''اجرائي طاقت '' سے ہے ان ميں ان حكّام كى طرف رجوع نہ كرو ، اگر چہ فاسق سلطان كلى طور پر ايك ناجائز طاقت ہے اور تمام غير اسلامى حكمران ، اسى طرح قاضى ،قانون بنانے والے، اوراس قانون كا اجرا كرنے والے تينوں اس ميں شامل ہيں، ليكن يہ ديكھتے ہوئے كہ ابتدا ميں ہى فاسق قاضيوں كے پاس جانے سے منع كرديا گيا ہے لہذا يہ ممانعت دوسرے گروہ يعنى قانون كا اجرا كرنے والوں كے سلسلہ ميں ہے _ آخرى جملہ اسى پہلے جملہ كى تكرار '' يعنى فساق كى طرف رجوع كرنے كى ممانعت'' نہيں ہے _ كيونكہ ابتدا ميں ان امور ميں فاسق قاضى كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا گيا ہے جو اس كے ساتھ مربوط ہيں _ مثلاً بازپرسى اور گواہى و غيرہ پھر امام نے خود قاضى كو مقرر كيا ہے اور اپنے ماننے والوں كا فريضہ بيان كيا ہے اور آخر ميں امام نے سلاطين كى طرف رجوع كرنے سے روكا ہے_(۱)

____________________

۱) ولايت فقيہ ، صفحہ ۸۲_

۲۰۶

عظيم فقيہ شيخ مرتضى انصارى معتقد ہيں كہ قاضى كو منصب قضاوت پر قرار دينا قاضى كے دائرہ اختيارات كو صرف جھگڑوں كا فيصلہ كرنے تك محدود نہيں كرتااور ائمہ معصومين كے زمانہ ميں منصب قضاوت وسيع تر اختيارات كاحامل ہوتا تھا،يعنى قاضى بہت سے امور عامہ كے انتظام كا ذمہ دار ہوتا تھا لہذا يہ روايت امور عامہ ميں فقيہ كى ولايت كو ثابت كرتى ہے_ اور ہمارے زمانے كى اصطلاحى قضاوت تك محدود نہيں ہے_

''المتبادر من لفظ ''القاضي'' عرفاً: من يُرجَع اليه و ينفذ حكمه و الزامه فى جميع الحوادث الشرعيّة كما هو المعلوم من حال القضاة ، سيّما الموجودين فى ا عصار الا ئمّة عليهم السلام من قضاة الجور _ و منه يظهر كون الفقيه مرجعاً فى الامور العامّة ، مثل الموقوفات وا موال اليتامى والمجانين والغيّب ; لا نّ هذا كلّه من وظيفة القاضى عرفاً'' (۱)

لفظ قاضى سے عرفاً ذہن ميں اس شخص كا تصور آتا ہے جس كا حكم تمام شرعى مسائل ميں نافذ العمل ہے_ جيسا كہ قضاوت كے حالات سے معلوم ہے_ خصوصاً سلاطين ظلم وجور كے مقرر كردہ وہ قاضى جو ائمہ معصومين كے دور ميں موجود تھے_ اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ فقيہ امور عامہ كا بھى ذمہ دار ہے_ مثلا موقوفات ، يتيموں ، ديوانوں اور غائب افراد كے اموال وغيرہ_ كيونكہ عرفاً يہ تمام قاضى كے فرائض ميں شامل ہيں_

____________________

۱) القضاء و الشہادات صفحہ ۴۹_

۲۰۷

ياد رہے : امام عليہ السلام كے صرف اس جملہ ''انى قد جعلتہ عليكم قاضياً ''سے سياسى ولايت پر استدلال نہيں كيا جاسكتا _ اور وہ جو شيخ انصارى نے كہا ہے وہ قضاوت كے علاوہ امور حسبيہ ميں ولايت ہے_ اس بنا پر ولايت عامہ پر مقبولہ عمر ابن حنظلہ كى دلالت مشہورہ ابى خديجہ كى دلالت سے واضح اور روشن تر ہے_ كيونكہ اس ميں فقيہ كو '' منصب حكومت'' پر بھى مقرر كيا گيا ہے جبكہ مشہورہ ابى خديجہ ميں صرف منصب قضاوت پر مقرر كيا گيا ہے_ البتہ روايت ابى خديجہ ميں سلطان كى طرف رجوع كرنے كى ممانعت اس بات كى دليل ہے كہ شيعوں كو اس قسم كے امور ميں بھى سلطان كى بجائے فقيہ كى طرف رجوع كرنا چاہيے_ اگر چہ مقبولہ عمر ابن حنظلہ كى طرح اس كى دلالت اس قدر واضح نہيں ہے_

۲۰۸

خلاصہ :

۱) ولايت فقيہ پر دلالت كرنے والى روايات ميں سے اصلى روايت '' مقبولہ عمر ابن حنظلہ''ہے_

۲) اس حديث ميں شيعوں كو نہ صرف فاسق حكومت كے قاضيوں، بلكہ فاسق حكمرانوں كى طرف رجوع كرنے سے بھى منع كيا گيا ہے_

۳) اس حديث ميں امام نے شيعوں كو پابند قرار ديا ہے كہ وہ فاسق حكمران اور قاضى كى بجائے فقيہ كى طرف رجوع كريں اور اسى كو ''حاكم ''قرار ديا ہے_

۴)اس روايت ميں كوئي سندى مشكل نہيں ہے كيونكہ اس كے تمام راوى ثقہ ہيں اور عمر ابن حنظلہ كى اگر چہ براہ راست توثيق نہيں كى گئي ليكن ان كى روايت علماء كے نزديك قابل قبول ہے_

۵)ولايت فقيہ كى روائي ادلّہ ميں سے ايك روايت '' مشہورہ ابى خديجہ ''بھى ہے اور اس كا طرز استدلال مقبولہ عمر ابن حنظلہ كے طرز استدلال سے بڑى حدتك ملتا جلتا ہے_

۶) ولايت فقيہ پر '' مقبولہ عمر ابن حنظلہ '' كى دلالت '' مشہورہ ابى خديجہ ''كى دلالت سے واضح تر ہے_كيونكہ ''مقبولہ '' ميں فقيہ كو براہ راست ''حاكم '' قرار ديا گيا ہے _

۲۰۹

سوالات :

۱) شيعوں كے كس ممتاز فقيہ نے ''فقيہ كى ولايت عامہ'' پر'' مقبولہ عمر ابن حنظلہ'' سے استدلال كيا ہے؟

۲)ولايت فقيہ پر بطور مختصر'' مقبولہ عمر ابن حنظلہ'' سے استدلال كيجيئے؟

۳) عمر ابن حنظلہ كى براہ راست توثيق نہيں كى گئي _ اس سندى مشكل كو كس طرح حل كيا جائے گا؟

۴) مشہور ہ ابى خديجہ سے فقيہ كى ولايت عامہ پر استدلال كيجيئے؟

۵) منصب قضاوت پر فائز فقيہ كے دائرہ اختيارات كے متعلق شيخ انصارى كا كيا نظريہ ہے؟

۶)فقيہ كى ولايت عامہ پر'' مشہورہ ابى خديجہ'' كى دلالت ''مقبولہ عمر ابن حنظلہ'' كى دلالت كى نسبت وضاحت كے لحاظ سے كيوں كمتر ہے؟

۲۱۰

بائيسواں سبق:

ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ -۳-

عمر ابن حنظلہ اور ابى خديجہ كى روايات ميں امام نے فقيہ كيلئے ''منصب ''قرار ديا ہے اور جيسا كہ گذشتہ سبق كے آخر ميں اشارہ كرچكے ہيں : عمر ابن حنظلہ كى روايت ميں بيان كئے گئے منصب كا دائرہ اختيار بہت وسيع ہے كيونكہ اس ميں فقيہ كو منصب ''حاكميت ''پر مقرر كيا گيا ہے اورابى خديجہ كى روايت ميں منصب قضاوت پر_ اگر چہ مشہورہ ابى خديجہ ميں بھى قضائي اور حكومتى دونوں قسم كے امور ميں شيعوں كو فاسقوں كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا گيا ہے _ اس سے يہ اشارہ ملتا ہے كہ حكومتى امور ميں بھى شيعوں كو'' فقيہ عادل'' كى طرف رجوع كرنا چاہيے_ جيسا كہ پہلے گزر چكا ہے كہ'' منصوب كرنے'' اور ''وكالت ''ميں بنيادى فرق ہے لہذا فقيہ عادل كا ولايت كى مختلف اقسام پر فائز ہونا ، جن كا ان دو روايات سے استفادہ ہوتا ہے_ امام عليہ السلام كى زندگى كے ساتھ مشروط نہيں ہے_ جبكہ اس كے بر عكس وكالت موكل كى وفات كے ساتھ ختم ہوجاتى ہے_چونكہ بعد والے امام اور معصوم نے اس منصب كو ختم نہيں كيا ہے لہذا فقيہ عادل اس منصب ولايت پر باقى ہے_

۲۱۱

ولايت انتصابى كے متعلق كچھ ابہامات كا جواب :

ان دو روايات ميں موجود'' انتصاب'' كے متعلق كچھ ابہامات اور سوالات اٹھائے گئے ہيں_ يہاں ہم انہيں اختصار كے ساتھ بيان كرتے ہيں_

۱_ شيعہ معتقدہيں كہ امام صادق اور ان كے بعد ان كے معصوم فرزند، امت كے امام ہيں_ لہذا امام معصوم كے ہوتے ہوئے فقيہ عادل كو ولايت پر منصوب كرنے كا كيا مطلب ہے ؟كيا ايسا ممكن ہے كہ جس زمانہ ميں امام معصوم موجود ہيں_ اور ولايت عامہ كے حامل ہيں _ كوئي دوسرا شخص يا افرادان كى طرف سے ولايت عامہ كے حامل ہوں_

جواب : امام معصوم كى موجودگى ميں كسى كو ولايت پر منصوب كرنا اسى طرح ہے _ جس طرح كوئي صاحب اختيار حكمران دوسرے شہروں ميں اپنے نمايندے مقرركرتا ہے_ كيا مسلمانوں كے امور كے انتظام كيلئے رسولخد ا (ص) نے مدينہ سے دور دوسرے شہروں ميں اپنے نمائندے نہيں بھيجے تھے؟ جس طرح امير المؤمنين كو يمن بھيجا تھا_ يا خود امير المؤمنين نے مالك اشتر كو مصر اور چند دوسرے افراد كو مختلف علاقوں كا والى اور حاكم بنا كر بھيجا تھا_ بنابريں اس ميں كيا حرج ہے كہ امام صادق اپنے زمانہ ميں ان شيعوں كے امور كى سرپرستى كيلئے جو آپ (ع) سے دور رہتے ہيں اور تقيہّ يا طولانى سفر كى وجہ سے آپ كے پاس نہيں آسكتے_ ايك فقيہ عادل كو مقرر كريں _ اور اپنى طرف سے اسے امت پر ولايت عطا كريں؟

۲_ خود امام صادق بسط يد نہيں ركھتے تھے اور امت پر ولايت عامہ كا اجر انہيں كر سكے تو كيسے مان ليا جائے كہ ان كى طرف سے مقرر كردہ شخص يعنى فقيہ عادل ''ولايت عامہ'' كا حامل ہے؟

جواب :يہ ہے كہ ولايت دوسروں كے امور ميں جواز اور اولويت تصرف كے سوا كوئي چيز نہيں ہے_

۲۱۲

ولايت پر منصوب كرنے كا معنى اس تصرف كو قانونى اور شرعى جواز عطا كرنا ہے_ فقيہ عادل كو ولايت پر منصوب كرنے كا معنى يہ ہے كہ صاحب ولايت اور وہ ذات جس كے ہاتھ ميں امر ولايت اور اس كى مشروعيت كا اختيار ہے كى طرف سے فقيہ عادل ان تصرفات ميں زيادہ حق ركھتا ہے_ اور اس قسم كے تصرفات پر اس كى ولايت مشروع اور حق ہے_ چاہے يہ تصرفات قضاوت اور امور حسبيہ ميں ہوں يا امت كى سرپرستى اور تمام امور عامہ تك اس كا دائرہ اختيار وسيع ہو_

ولايت پر منصوب ہونا ،اور جسے منصوب كيا گيا ہے ولايت كے عملى كرنے ميں اس كے ہاتھوں كا كھلا ہونا، دو مختلف چيزيں ہيں_ عملى طور پر ولايت كو بروئے كار لانا اور اس سے متعلقہ امور كو انجام دينا وسائل اور امكانات كے تابع ہے_ كبھى ولايت كے اصلى حامل يعنى امام معصوم كيلئے ولايت كے اعمال اور ذمہ داريوں كو بروئے كار لانے كيلئے ماحول سازگار نہيں ہوتا _ اور اس كى شرائط و امكانات فراہم نہيں ہوتے_ ليكن اس كا معنى يہ نہيں ہے كہ امام كى ولايت ختم اور لغو ہوگئي ہے_ كيونكہ منصب ولايت پر فائز ہونا اور خارج ميں اس كا عملى وجود دو الگ الگ چيزيں ہيں_ علاوہ بريں امام كے زمانہ ميں ولايت كو بروئے كار لانے كى راہيں كلى طور پر مسدود نہيں تھيں_ يعنى محجور اور مبسوط اليد ہونا دو نسبى امر ہيں_ امام كى طرف سے مقرر كردہ شخص اگرچہ اس حالت ميں نہيں تھا كہ وہ شيعوں كے امور عامہ كى سرپرستى كرے ليكن ان كے امور قضائي اور امور حسبيہ كى سرپرستى كرنے كى قدرت ركھتا تھا _ ان دو روايات سے پتہ چلتاہے كہ امام فقيہ عادل كيلئے ولايت عامہ كو ثابت سمجھتے تھے، اور اسے اپنى طرف سے مقرر فرماتے تھے_ اب اس ولايت كو بروئے كار لانے ميں فقيہ كى بے بسى اور اختيار ايك دوسرا امر ہے جو حالات و شرائط كے تابع ہے_

۳_ امور مسلمين كى ولايت پر سب فقہاء كومنصوب كرنا ہرج و مرج اور اختلال نظام كا باعث بنتا ہے_

۲۱۳

چونكہ فرض يہ ہے كہ ان دو روايات كى بنا پر فقيہ عادل شيعوں كے امور كى سرپرستى كرتا ہے_ دوسرى طرف مقرر كردہ فقہاء كى تعداد معين نہيں ہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ ايك ہى وقت ميں سينكڑوں جامع الشرائط فقيہ عادل موجود ہوں _ كيا يہ معقول ہے كہ ايك ہى وقت ميں سب فقہاء منصب ولايت كے بالفعل حامل ہوں _ لہذا اس مشكل كو ديكھتے ہوئے اس انتصاب كے دائرہ اختيار كى محدوديت كے قائل ہونے كے سوا كوئي چارہ نہيں ہے اور ضرورى ہے كہ ان دو روايات ميں فقيہ كى ولايت كو ''قضاوت'' ميں منحصر قرار ديں_

جواب : يہ ہے كہ اس نكتہ كى ہم پہلے وضاحت كرچكے ہيں كہ ولايت پر منصوب ہونے اورعملى طور پر افعال و اعمال كو بجالانے ميں واضح فرق اور ہر ايك كى اپنى مخصوص شرائط اور خصوصيات ہيں_ فقيہ كى ولايت انتصابى كا معنى يہ ہے كہ ہر جامع الشرائط فقيہ منصب ولايت و نيابت كا حامل ہے اور اس كے متعلقہ امور ميں اس كے احكام اور تصرفات، شرعى لحاظ سے معتبر ہيں اس كا يہ معنى نہيں ہے كہ ہر وہ مورد جس ميں ''ولايت فقيہ '' كے حكم كى ضرورت ہو اس ميں تمام فقہاء اپنى نظرديں اور حكم صادر كرديں_ جس طرح ايك شہر ميں اگر پچاس قاضى موجود ہوں اور تحقيق كيلئے كيس كى فائل ايك كے پاس آئے تو دوسرے قاضى اس ميں مداخلت نہيں كرتے_ اور ايك قاضى كا اس كيس كو اپنے ہاتھ ميں لے لينا دوسروں كو فيصلہ صادر كرنے سے روك ديتا ہے_اسى طرح فقيہ عادل كا ولايت كا حامل ہوناذمہ دارى كو اس كى طرف متوجہ كرتا ہے اور لوگوں پر ايك فريضہ عائد ہو جاتا ہے _ لوگ پابند ہيں كہ اپنے معاملات ميں فقيہ عادل كى طرف رجوع كريں، طاغوت سے منہ پھير ليں ، اور اسلامى معاشرہ كے امور كى باگ ڈور كسى غير اسلام شناس كے ہاتھ ميں نہ ديں بلكہ فقيہ عادل اور امين كے ہاتھ ميں ديں_ فقيہ عادل كا بھى يہ فرض ہے كہ جب شرائط مكمل ہوں ، حالات سازگار ہوں اور لوگ اس كى طرف رجوع كريں تو وہ اس الہى فريضہ كو پورى طرح نبھائے _ اب اگر صاحب ولايت، فقيہ كى طرف لوگ

۲۱۴

رجوع كرتے ہيں ياا ہل حل و عقد كے انتخاب كے ذريعہ لوگوں كے امور كى سرپرستى اس كے ہاتھ ميں دے دى گئي ہے تو دوسرے فقہا ء كا فريضہ ساقط ہوجاتا ہے _ بنابريں تمام جامع الشرائط فقہاء منصب ولايت كے حامل ہيں اور ايك فقيہ عادل كے امور كى سرپرستى اپنے ذمہ لينے سے دوسرے فقہاء كى ذمہ دارى ختم ہوجاتى ہے _

دوسرے لفظوں ميں ہر فقيہ كے كسى امر ميں تصرف كا جواز اس بات كے ساتھ مشروط ہے كہ دوسراكوئي فقيہ اس كام ميں اپنى ولايت كو بروئے كار نہ لارہا ہو _ اس صورت ميں كسى قسم كا اختلال نظام لازم نہيں آتا _ اختلال نظام اس وقت لازم آتا ہے جب ولايت كے عہدہ پر فائز تمام فقہاء عملى اقدامات شروع كرديں_

ولايت فقيہ كى تائيد ميں مزيدروايات

ان تين روايات كے علاوہ جو اب تك ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے پيش كى گئي ہيں دوسرى روايات بھى ہيں جن سے استدلال كياگيا ہے البتہ دلالت اور سند كے لحاظ سے يہ اُن روايات كى مثل نہيں ہيں ليكن اس كے باوجود فقيہ كى ولايت عامہ كى تائيد كے عنوان سے ان سے تمسك كيا جاسكتا ہے _ ہم يہاں اختصار كے طور پر انہيں بيان كرتے ہيں _

۱_ صحيحہ قدّاح :

على ابن ابراهيم عن ابيه عن حماد بن عيسي، عن القدّاح (عبدالله بن ميمون)، عن أبى عبدالله (عليه السلام) قال: قال رسول الله (ص) : '' مَن سلك طريقاً يطلب فيه علماً، سلك الله به طريقاً الى الجنّه و انّ العلماء ورثة الانبيائ،إنّ الانبياء لم يُورثُوا ديناراً و لا درهماً

۲۱۵

و لكن ورّثوا العلم; فَمَن أخذ منه أخذ بحَظّ وافر'' (۱)

على ابن ابراہيم اپنے والد سے ، وہ حماد ابن عيسى سے اور وہ قداح ( عبدالله ابن ميمون) سے اور وہ امام صادق سے نقل كرتے ہيں كہ رسول خدا (ص) نے فرمايا: ''جو طلب علم كيلئے نكلتا ہے خدا اس كيلئے جنت كى راہ ہموار كرديتا ہے بے شك علماء انبياء كے وارث ہيں انبيائ كاورثہ درہم و دينار نہيں ہوتے بلكہ ان كا ورثہ '' علم'' ہے _ جس نے اس سے كچھ پاليا گويا اس نے بہت بڑا حصہ لے ليا ''_

اس روايت كى سند صحيح ہے _ اور اس كے تمام رواى ''ثقہ ''ہيں _بعض فقہا مثلاً '' عوائد الايام'' ميں ملا احمد نراقى اورولايت فقيہ ميں امام خمينى نے ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے اس روايت سے تمسك كيا ہے اس روايت سے استدلال كى كيفيت يہ ہے كہ اس كے جملہ''العلماء ورثة الانبيائ'' كے مطابق فقہا اور علمائے دين ،رسول خدا (ص) كى تمام قابل انتقال خصوصيات ميں آپ (ص) كے وارث ہيں اور ان خصوصيات اور ذمہ داريوں ميں سے ايك '' امت كى سرپرستى اورحاكميت '' بھى ہے _ علماء كيلئے انبياء كى وراثت صرف علم تك محدود نہيں ہے كيونكہ يہ وراثت مطلق ہے _ صرف وہ خصوصيات جو كسى خاص دليل كے ذريعہ مقام نبوت كے ساتھ مخصوص ہيں وراثت ميں نہيں آئيں گئيں_ البتہ اس روايت ميں ايك احتمال يہ ہے كہ پہلے اور بعد والے جملوں كو ديكھتے ہوئے اس روايت سے يہ اشارہ ملتا ہے كہ يہ وراثت علم ، احاديث اور معارف انبياء ميں منحصر ہے اور انكى ديگر ذمہ داريوں كو شامل نہيں ہے _ اگر يہ جملات اختصاص اور محدوديت كيلئے قرينہ بن سكتے ہوں تو پھر''العلماء ورثة الانبياء ''كے اطلاق سے تمسك نہيں كيا جاسكتا_(۲)

____________________

۱) كافى جلد ۱ ، صفحہ ۴۲ ، باب ثواب العالم و المتعلم حديث۱_

۲) ولايت فقيہ، امام خميني، صفحہ ۸۶، ۹۲_

۲۱۶

۲_ مرسلہ صدوق :

شيخ صدوق نے اپنى مختلف كتب ميں اس روايت كو نقل كيا ہے :

قال امير المؤمنين(ع) قال رسول الله (ص) : ''اللهمّ ارحم خلفائي'' _ ثلاث مرّات: _ قيل : يا رسول الله ، و مَن خلفاؤك؟ قال: '' الّذين يأتون من بعدى يروون عنّى حديثى و سُنّتي'' (۱)

اميرالمؤمنين فرماتے ہيں: رسولخدا (ص) نے تين مرتبہ فرمايا: اے پروردگار ميرے خلفاء پر رحم فرما _پوچھا گيا اے الله كے رسول (ص) آپ كے خلفا ء كون ہيں ؟ فرمايا :وہ افراد جو ميرے بعد آئيں گے اور ميرى حديث اور سنت كو نقل كريںگے_

شيخ صدوق نے اپنى متعدد كتب ميں اس روايت كو معصوم كى طرف نسبت دى ہے اور بطور مرسل نقل كيا ہے_ مراسيل صدوق بہت سے علماء كيلئے قابل اعتبار ہيں خصوصاً اگر انہيں بطور جزم معصوم كى طرف نسبت ديں_ بہت سے فقہاء مثلاً صاحب جواہر ، ملا احمد نراقى ، صاحب عناوين يعنى مير عبد الفتاح مراغى ، آيت الله گلپائيگانى اور امام خمينى نے ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے اس روايت سے استدلال كيا ہے _ كيفيت استدلال اس طرح ہے _

الف: رسول خدا (ص) وحى ، اس كے ابلاغ ، عصمت اور علم الہى جيسى خاص صفات سميت قضاوت ، تنازعات كے فيصلے اور اسلامى معاشرے كے امور كى سرپرستى ايسى خصوصيات كے بھى حامل تھے _ آنحضرت (ص) كى بعض خصوصيات دوسروں كى طرف منتقل ہونے كى صلاحيت ركھتى ہيں _ قضاوت اور اسلامى معاشرہ كى سرپرستى انہى خصوصيات ميں سے ہيں جو دوسروں كى طرف منتقل ہوسكتى ہيں _

____________________

۱) عيون اخبار رضا ،جلد ۲، صفحہ ۳۷، باب ۳۱،حديث ۹۴_ من لايحضرہ الفقيہ، جلد ۴، صفحہ ۴۲۰_ معانى الاخبار، صفحہ ۳۷۴_

۲۱۷

ب : اس روايت كى رو سے آنحضرت (ص) نے ايك گروہ كو اپنے خلفاء كے عنوان سے مورد لطف و دعا قرار ديا ہے اس گروہ كيلئے آنحضرت (ص) كى جانشينى ،قابل انتقال صفات ميں ہے اور ان صفات ميں امت كے امور كى سرپرستى يقينا شامل ہے _

ج: ''خلفائي'' كى تعبير مطلق ہے اور ائمہ معصومين ميں منحصر نہيں ہے بنابريں خلفاء بلاواسطہ ( ائمہ(ع) ) اور خلفاء بلواسطہ ( علمائ) دونوں اس ميں شامل ہيں _

د: جملہ ''الذين يأتون من بعدى يروون حديثى و سنّتى '' سے مراد عام راوى اور محدثين نہيں ہيں_ بلكہ وہ راوى مراد ہيں جو روايات ميں تفقہ اور سمجھ بوجھ بھى ركھتے ہوں _ پس يہ تعبير صرف امت كے فقہا اور علماء كى شان ميں ہے نہ كہ ہرر وايت كرنے والے كى شان ميں _(۱)

۳_ ''غرر الحكم و دررالكلم ''ميں امير المومنين حضرت على سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا:

''العلماء حُكّامٌ على الناس'' (۲)

علماء لوگوں پر حاكم ہيں _

اسى مضمون كى ايك روايت كراجكى مرحوم نے ''كنزالفوائد'' ميں امام صادق سے بھى نقل كى ہے آپ (ص) فرماتے ہيں :

''الملوك حُكّامٌ على النّاس وا لعلمائُ حُكّامٌ على الملوك'' (۳)

بادشاہ لوگوں پر حاكم ہوتے ہيں اور علماء بادشاہوں پر حاكم ہوتے ہيں _

____________________

۱) كتاب البيع، امام خمينى جلد ۲ ، صفحہ ۴۶۸_۴۷۰_

۲) غرر الحكم، آمدى جلد ۱ صفحہ ۱۳۷و ۵۰۶_

۳) كنزالفوائد جلد ۲ صفحہ ۳۳_

۲۱۸

ولايت فقيہ پر اس روايت كى دلالت واضح ہے ليكن سندى ضعف كى وجہ سے اسے ولايت فقيہ كے مؤيّدات ميں سے شمار كيا ہے _

۴_ ابن شعبہ حرانى نے '' تحف العقول'' ميں امر بالمعروف و نہى عن المنكر كے متعلق امام حسين كا ايك خطبہ نقل كيا ہے جس ميں آپ نے اپنے دور كے علماء كو متنبہ كرتے ہوئے فرمايا ہے كہ تمھارے مقام و منزلت كو غاصبوں نے غصب كرليا ہے _ مسلمانوں كے امور كى سرپرستى تم علماء امت كے ہاتھ ميں ہونى چاہيئے _ امام فرماتے ہيں :

''و أنتم أعظم النّاس مصيبة ً كما غلبتم عليه من منازل العلماء لو كنتم تشعرون; ذلك بأنّ مجارى الأمور والاحكام على أيدى العلماء بالله و الاُمناء على حلاله و حرامه فأنتم المسلوبون تلك المنزلة و ما سلبتم ذلك الا بتفرّقكُم عن الحقّ واختلافكم فى السنّة بعد البيّنة الواضحة_ و لو صبرتم على الاذى و تحمّلتم المؤونة فى ذات الله كانت أمور الله عليكم ترد، و عنكم تصدر، و اليكم ترجع و لكنّكُم مكّنتم الظلمة من منزلتكم'' (۱)

تم سب سے زيادہ مصيبت زدہ ہو اگر تمہيں كچھ شعور ہو تو جا ن لو كہ تمھارے مقام و مرتبہ پر تسلط قائم كر ليا گياہے_ امور كى تدبير اور احكام كا اجرا ان علماء ربانى كے ہاتھ ميں ہوتا ہے جو خدا كے حلال وحرام كے امين ہوتے ہيں پس تم سے يہ مقام و مرتبہ چھين ليا گيا _ اور اس كى وجہ يہ ہے كہ تم نے حق سے منہ پھيرليا ،واضح دليل آنے كے باوجود تم نے سنت ميں اختلاف

____________________

۱) تحف العقول عن آل الرسول (ص) جلد ۱، صفحہ ۲۳۸_

۲۱۹

كيا ،اگر تم تكليف پر تھوڑا ساصبر كرليتے اور خدا كى راہ ميں مصائب برداشت كرتے تو امور الہى تمہارى طرف پلٹاديئے جاتے، تم ان كے سرپرست ہوتے، اور تمھارى طرف رجوع كيا جاتا _ ليكن تم نے اپنا مقام و مرتبہ ظالموں كے حوالے كرديا _

اس روايت كى دلالت مكمل ہے ليكن گذشتہ روايت كى طرح سندى مشكل سے دوچار ہے اسى لئے ولايت فقيہ كے مؤيدات ميں شامل ہے _ ان كے علاوہ دوسرى روايات بھى ہيں جنہيں ہم طوالت سے بچنے كيلئے ذكر نہيں كررہے _

۲۲۰

خلاصہ :

۱) امام (ع) نے بعض روايات ميں فقيہ كو منصب عطا كيا ہے _ اور امام (ع) كے زمانہ حضور اور غيبت دونوں ميں يہ منصب ان كے پاس ہے_

۲) امام كا ولايت كليہ كا حامل ہونا ،بعض امور ميں شيعوں كو فقہاء كى طرف رجوع كرنے كا حكم دينے سے مانع نہيں ہے _

۳) امام صادق نے اس دور ميں فقہاء كو ولايت پر منصوب كيا جب آپ اپنے اختيارات استعمال كرنے ميں بے بس تھے _ اور اس سے كوئي مشكل پيدا نہيں ہوتى كيونكہ نصب ولايت اور ولايت كو بروئے كار لانا ،دو الگ الگ چيزيں ہيں _

۴)فقيہ كى ولايت انتصابى كى ادلّہ پر بعض افراد كا اعتراض يہ ہے كہ امام كى طرف سے فقہا كو ولايت كا حاصل ہونا معاشرتى نظام كے مختل ہونے اور خرابى كا باعث بنتا ہے _

۵) ايك ہى واقعہ ميں مختلف فقہا كا ولايت كو بروئے كار لانا اختلال نظام كا موجب بنتا ہے نہ ان كامنصب ولايت _

۶) بعض روايات ضعف سند يا عدم وضاحت كى وجہ سے ولايت فقيہ كے مؤيّدات كے زمرہ ميں آتى ہيں_

۷) وہ روايات جو علماء اور فقہاء كو انبياء (ع) كا وارث اور رسول خدا (ص) كا خليفہ قرار ديتى ہيں فقيہ كى ولايت كى دليل ہيں كيونكہ معاشرے كے امور كى تدبير اور ولايت بھى انبياء كى صفات ميں سے ہيں_

۲۲۱

سوالات :

۱) ''فقيہ كى ولايت انتصابى ''كا نظريہ كن اعتراضات اور ابہامات سے دوچار ہے ؟

۲) اگر ہر فقيہ عادل ''منصب ولايت'' كا حامل ہو تو كيا اختلال نظام كا باعث بنتا ہے ؟

۳) كيا وہ امام معصوم جو خود بے بس ہو وہ كسى اور كو ولايت عامہ پر منصوب كرسكتا ہے ؟

۴) روايت''اللهم ارحم خلفائي ''سے فقيہ كى ولايت پر استدلال كيجيئے _

۵) روايت ''العلماء ورثة الانبياء '' كس طرح فقيہ كى ولايت پر دلالت كرتى ہے ؟

۲۲۲

تيئيسواں سبق :

ولايت فقيہ پر عقلى دليل

ہم گذشتہ چند اسباق ميں ولايت فقيہ كى اصلى ترين ادلّہ روائي پر نظر ڈال چكے ہيں اب ولايت فقيہ پر قائم عقلى ادلّہ كى تحقيق و بررسى كرتے ہيں _

ہمارے علماء نے ہميشہ نبوت اور امامت كى بحث ميں عقلى ادلّہ سے استدلال كيا ہے '' برہان عقلى '' عقلى اور يقينى مقدمات سے تشكيل پاتا ہے _ يہ مقدمات چار خصوصيات يعنى كليت ، ذاتيت، دوام اور ضرورت كے حامل ہونے چاہي ں_

اسى وجہ سے ان سے جو نتيجہ حاصل ہوتا ہے وہ بھى كلى ، دائمى ، ضرورى اور ذاتى ہوتا ہے اور كبھى بھى جزئي يا افراد سے متعلق نہيں ہوتا_ اسى وجہ سے نبوت اور امامت كے متعلق جو برہان قائم كئے جاتے ہيں وہ كسى خاص شخص كى نبوت يا امامت كے متعلق نہيں ہوتے _ اور نہ ہى كسى خاص فرد كى نبوت يا امامت كو ثابت كرتے ہيں _ بنابريں ولايت فقيہ كے مسئلہ ميں بھى وہ عقلى دليل جو خالصةً عقلى مقدمات سے تشكيل پاتى ہے جامع الشرائط

۲۲۳

فقيہ كى اصل ولايت كو ثابت كرتى ہے _اور يہ كہ كونسا ''فقيہ جامع الشرائط ''اس ولايت كا حامل ہو ؟يہ ايك جزئي اور فردى امر ہے لہذا اس كا تعيّن عقلى دليل سے نہيں ہوگا _ (۱)

دليل عقلى كى دو قسميں ہيں _

الف: عقلى محض ب: عقلى ملفّق

دليل عقلى محض وہ دليل ہے جس كے تمام مقدمات خالصةً عقلى ہوں اور ان ميں كسى شرعى مقدمہ سے استفادہ نہ كيا گيا ہو _

دليل عقلى ملّفق يا مركب وہ دليل عقلى ہے جس كے بعض مقدمات شرعى ہوں مثلاً آيات يا روايات يا كسى شرعى حكم سے مدد لى گئي ہو اور اس برہان كے تمام مقدمات خالصةً عقلى نہ ہوں _ولايت فقيہ كے باب ميں ان دونوں قسم كى عقلى ادلّہ سے استدلال كيا گيا ہے _ ہم بھى اس سبق ميں بطور نمونہ دونوں قسموں سے ايك ايك نمونہ ذكر كريں گے _

ولايت فقيہ كى عقلى ادلّہ كے بيان كرنے سے پہلے دو نكات كا ذكر كرنا ضرورى ہے _

اس ميں كوئي مانع نہيں ہے كہ عقلى دليل كا نتيجہ ايك شرعى حكم ہو _كيونكہ عقل بھى شرعى احكام كے منابع ميں سے ہے اور شارع مقدس كى نظر كو كشف كرسكتى ہے _ علم اصول ميں مستقلات عقليہ اور غير مستقلات عقليہ پر تفصيلى بحث كى گئي ہے اور علماء علم اصول نے بتايا ہے كہ كن شرائط پر عقل شرعى حكم كو كشف كرسكتى ہے _ شرعى حكم كے استنباط ميں عقلى دليل كا بھى وہى كردار ہے جو دوسرى شرعى ادلّہ كا ہے شارع مقدس كى نظر كو كشف كرنے

____________________

۱) ولايت فقيہ، عبدالله جوادى آملى ،صفحہ ۱۵۱_

۲۲۴

ميں عقلى دليل كا قابل اعتبار ہونا اپنى جگہ پر ثابت ہوچكا ہے بنابريں ولايت فقيہ پر '' دليل عقلى محض'' مستقلات عقليہ كى قسم سے ہے اور مستقلات عقليہ ميںكسى نقلى دليل سے مدد نہيں لى جاتى _

دوسرا نكتہ: يہ ہے كہ امامت اور نبوت پر قائم عقليدليل كى تاريخ بہت پرانى ہے _ ليكن ولايت فقيہ پر عقلى دليلبعد والے ادوار ميں قائم كى گئي ہے _ محقق نراقى پہلے شخص ہيں جنہوں نے ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے عقلى دليل كا سہارا ليا ہے پھر ان كے بعد آنے والے فقہاء نے اسے آگے بڑھايا ہے _ مختلف طرز كى عقلى ادلّہ كى وجہ ان كے مقدمات كا مختلف ہونا ہے اور بہت سے موارد ميں ايك مشترك كبرى مثلاً ''قاعدہ لطف ''يا ''حكمت الہى ''سے مدد لى گئي ہے _

ولايت فقيہ پر دليل عقلى محض

نبوت عامہ كى ضرورت پرفلاسفہ كى مشہور برہان كو اس طرح بيان كيا جاسكتا ہے كہ جس كا نتيجہ نہ صرف ''ضرورت نبوت ''بلكہ ''ضرورت امامت'' نيز ''ضرورت نصب فقيہ عادل ''كى صورت ميں سامنے آئے _ يہ برہان جو كہ ''معاشرہ ميں ضرورت نظم ''كى بنياد پر قائم ہے قانون خدا اور اسكے مجرى كے ضرورى ہونے كو ثابت كرتى ہے _ قانون كو جارى كرنے والا پہلے مرحلہ ميں نبى ہوتا ہے اس كے بعد اسكا معصوم وصى اور جب نبى اور امام معصوم نہ ہوں تو پھر ''قانون شناس فقيہ عادل'' كى بار ى آتى ہے _ بوعلى سينا جيسے فلاسفر كہ جنہوں نے اس برہان سے تمسك كيا ہے نے اسے اس طرح بيان كيا ہے كہ وہ صرف ''اثبات نبوت'' اور ''بعثت انبياء كے ضرورى ہونے'' كيلئے كار آمد ہے _(۱)

____________________

۱) الالہيات من الشفاء ،صفحہ ۴۸۷، ۴۸۸_ المقالة العاشرہ، الفصل الثانى _

۲۲۵

ليكن ہمارا مدعا يہ ہے كہ اسے اس طرح بيان كيا جاسكتا ہے كہ امام معصوم كى امامت اور فقيہ عادل كى ولايت كے اثبات كيلئے بھى سودمند ثابت ہو _ اس برہان كے مقدمات درج ذيل ہيں :

۱_ انسان ايك اجتماعى موجود ہے اور طبيعى سى بات ہے كہ ہر اجتماع ميں تنازعات اور اختلافات رونما ہوتے ہيں _ اسى لئے انسانى معاشرہ نظم و ضبط كا محتاج ہے _

۲_ انسان كى اجتماعى زندگى كا نظم و ضبط اس طرح ہونا چاہيے كہ وہ انسانوں كى انفرادى اور اجتماعى سعادت اور كمال كا حامل ہو _

۳_ اجتماعى زندگى كا ايسا نظم و ضبط جو ناروا اختلافات اور تنازعات سے مبرّا اور انسان كى معنوى سعادت كا ضامن ہو وہ مناسب قوانين اور شايستہ مجرى قانون ( قانون جارى كرنے والا) كے بغير ناممكن ہے _

۴_ خدا تعالى كى مداخلت كے بغيرتنہا انسان اجتماعى زندگى كے مطلوبہ نظم و ضبط كے قائم كرنے كى قدرت نہيں ركھتا _

۵_ خدائي قوانين اور معارف الہى كے كسى نقص و تصرف كے بغير مكمل طور پر انسان تك پہنچنے كيلئے ضرورى ہے كہ اس كولانے اور حفاظت كرنے والا'' معصوم ''ہو _

۶_ دين كامل كى تبيين اور اس كے اجرا كيلئے وصى اور امام معصوم كى ضرورت ہے _

۷_ اور جب نبى اور امام معصوم نہ ہوں تو پھر مذكورہ ہدف( مطلوبہ اجتماعى زندگى اور قوانين الہى كا نفاذ ) وحى شناس اور اس پر عمل كرنے والے رہبر كے بغير حاصل كرنا ممكن نہيں ہے _

اس برہان كا چھٹا مقدمہ'' تقرر امام'' كى ضرورت كيلئے سود مند ہے جبكہ ساتواں مقدمہ زمانہ غيبت ميں رہبر كے تقرركى ضرورت كو ثابت كرتا ہے _

۲۲۶

اسى برہان كو آيت ا لله جوادى آملى نے يوں بيان كيا ہے :

انسان كى اجتماعى زندگى اور اس كا انفرادى اور معنوى كمال ايك طرف تو ايسے الہى قانون كا محتاج ہے جو انفرادى اور اجتماعى لحاظ سے ہر قسم كے ضعف و نقص اور خطا و نسيان سے محفوظ ہو اور دوسرى طرف اس قانون كامل كے نفاذ كيلئے ايك دينى حكومت اور عالم و عادل حكمران كى ضرورت ہے _ انسان كى انفرادى يا اجتماعى زندگى ان دو كے بغير يا ان ميں سے ايك كے ساتھ متحقق نہيں ہو سكتى _ اجتماعى زندگى ميں ان دو كا فقدان معاشرہ كى تباہى و بربادى اور فساد و خرابى كا باعث بنتا ہے جس پر كوئي بھى عقلمند انسان راضى نہيں ہوسكتا يہ عقلى برہان كسى خاص زمانہ يا مقام كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _ زمانہ انبيائ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ضرورت نبوت ہے اور آنحضرت (ص) كى نبوت كے بعد والا زمانہ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ضرورت امامت ہے اسى طرح امام معصوم كى غيبت كا زمانہ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ''ضرورت ولايت فقيہ ''ہے _(۱)

''دليل عقلى محض ''صرف مذكورہ دليل ميں محدود نہيں ہے بلكہ اس كے علاوہ بھى براہين موجود ہيں جو خالصةً عقلى مقدمات سے تشكيل پاتى ہيں اور زمانہ غيبت ميں نصب ولى كى ضرورت كو ثابت كرتى ہيں _

دليل عقلى ملفق

ولايت فقيہ كى عقلى دليل كو بعض شرعى دلائل اور مقدمات عقليہ كى مدد سے بھى قائم كيا جاسكتا ہے _ يہاں ہم اس طرح كے دو براہين كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

استاد الفقہاء آيت الله بروجردى درج ذيل عقلى اور نقلى مقدمات كى مدد سے فقيہ كى ولايت عامہ كو ثابت كرتے ہيں _

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۱۵۱، ۱۵۲_

۲۲۷

۱_ معاشرہ كا رہبر ايسى ضروريات كو پورا كرتا ہے جن پر اجتماعى نظام كى حفاظت موقوف ہوتى ہے _

۲_ اسلام نے ان عمومى ضروريات كے متعلق خاص احكام بيان كئے ہيں اور ان كے اجرا كى ذمہ دارى مسلمانوں كے حاكم اور والى پر عائد كى ہے_

۳_ صدر اسلام ميں مسلمانوں كے قائد اور راہنما رسول خدا (ص) تھے اور ان كے بعد ائمہ معصومين اور معاشرے كے امور كا انتظام ان كا فريضہ تھا _

۴_ سياسى مسائل اور معاشرتى امور كى تدبير و تنظيم اس زمانے كے ساتھ مخصوص نہيں تھى _ بلكہ ان مسائل كا تعلق ہر زمانہ اور ہر جگہ كے مسلمانوں سے ہے _ ائمہ معصومين كے دور ميں شيعوں كے پراگندہ ہونے كى وجہ سے آسانى كے ساتھ ا ئمہ تك ان كى دسترسى ممكن نہيں تھى _ اس كے باوجود ہميںيقين ہے كہ آپ نے ان كے امور كى تدبير و انتظام كيلئے كسى كو ضرور مقرر كيا ہوگا تا كہ شيعوں كے امور مختل نہ ہوں _ ہم يہ تصور بھى نہيں كرسكتے كہ ايك طرف زمانہ غيبت ميں ائمہ معصو مين نے لوگوں كو طاغوت كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا ہو اور دوسرى طرف سياسى مسائل ، تنازعات كے فيصلے اور دوسرى اجتماعى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے كسى كو مقرر بھى نہ كيا ہو _

۵_ ائمہ معصومين كى طرف سے والى اور حاكم كے تقرر كے ضرورى ہونے كو ديكھتے ہوئے فقيہ عادل اس منصب كيلئے متعين ہے _ كيونكہ اس منصب پر غير فقيہ كے تقرر كا كوئي بھى قائل نہيں ہے _ پس صرف دو احتمال ممكن ہيں _

الف : ائمہ معصومين نے اس سلسلہ ميں كسى كو مقرر نہيں كيا صرف انہيں طاغوت كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا ہے _

۲۲۸

ب: اس ذمہ دارى كيلئے فقيہ عادل كو مقرر كيا ہے _

مذكورہ بالا چار مقدمات كى رو سے پہلا احتمال يقينى طور پر باطل ہے _ پس قطعى طور پر فقيہ عادل كو ولايت پر منصوب كيا گيا ہے _(۱)

آيت الله جوادى آملى اس ''دليل عقلى مركب ''كو يوں بيان كرتے ہيں :

دين اسلام كا قيامت تك باقى رہنا ايك قطعى اور واضح سى بات ہے زمانہ غيبت ميں اسلام كا تعطل كا شكار ہوجانا، عقائد ، اخلاق اور اعمال ميں اسلام كى ابديت كے منافى ہے _ اسلامى نظام كى تأسيس ، اس كے احكام اور حدود كانفاذ اور دشمنوں سے اس دين مبين كى حفاظت ايسى چيز نہيں ہے كہ جس كى مطلوبيت اور ضرورى ہونے ميں كسى كو ترديد و شك ہو _ حدود الہى اور لوگوں كى ہتك حرمت ، لوگوں كى ضلالت و گمراہى اور اسلام كا تعطل كا شكار ہوجانا كبھى بھى الله تعالى كيلئے قابل قبول نہيں ہے_ اسلام كے سياسى اور اجتماعى احكام كى تحقيق و بررسى اور نفاذ جامع شرائط فقيہ كى حاكميت كے بغير ممكن نہيں ہے _ ان امور كو ديكھتے ہوئے عقل كہتى ہے : يقينا خداوند كريم نے عصر غيبت ميں اسلام اور مسلمانوں كو بغير سرپرست كے نہيں چھوڑا(۲)

اس دليل كے تمام مقدمات عقلى نہيں ہيں بلكہ اسلام كے اجتماعى اور اقتصادى احكام كے نفاذ ، مثلاًحدود و قصاص ، امر بالمعروف و نہى عن المنكر ، زكات اور خمس سے با صلاحيت حكومت كے وجود پر مدد لى گئي ہے_ لہذا يہ دليل عقلى محض نہيں ہے _

____________________

۱) البدر الزاہر فى صلاة الجمعة و المسافر ۷۳ _ ۷۸

۲) ولايت فقيہہ ص ۱۶۷_ ۱۶۸_

۲۲۹

خلاصہ :

۱) بعض فقہى مسائل ميںعقلى دليل كا سہارا ليا جاتا ہے _ اور دليل عقلى نظر شارع كو كشف كرتى ہے_

۲) دليل عقلى كى دوقسميں ہيں _ ''دليل عقلى محض ''اور'' دليل عقلى ملفق ''دليل عقلى محض مكمل طور پر عقلى اور يقينى مقدمات سے تشكيل پاتى ہے _ جبكہ دليل عقلى ملفق ميں عقلى مقدمات كے علاوہ شرعى مقدمات سے بھى استفادہ كيا جاتا ہے _

۳) بحث امامت اور نبوت ميں دليل عقلى سے استدلال كرنا ايك قديمى اور تاريخى امر ہے _ ليكن ولايت فقيہ كى بحث ميں اس سے استفادہ كرنا بعد كے ادوار ميں شروع ہوا ہے_

۴)وہ دليل جسے فلاسفہ نے نبوت عامہ اور بعثت انبياء كى ضرورت پر پيش كيا ہے اسے اس طرح بھى بيان كيا جاسكتا ہے كہ اس سے امام كى امامت اور فقيہ كى ولايت ثابت ہوجائے _

۵)ولايت فقيہ پر قائم دليل عقلى ملفق كى روح اور جان يہ ہے كہ اسلام ہر دور اور ہر جگہ پر انسان كى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے ہے _ اور جس طرح اسلام كے نفاذ كيلئے امام معصوم كى ضرورت ہے اسى طرح زمانہ غيبت ميں ايك اسلام شناس مجرى قانون كى بھى ضرورت ہے _

۶) دليل عقلى ،امام اور فقيہ كے تقرر كى ضرورت كو ثابت كرتى ہے ليكن كبھى بھى جزئي اور شخصى نتيجہ نہيں ديتى اور اس بات كو مشخص نہيں كرتى كہ امام كون ہوگا _

۲۳۰

سوالات :

۱)'' دليل عقلى محض'' كى تعريف كيجئے_

۲) ''دليل عقلى ملفق يا مركب'' كى تعريف كيجئے _

۳) فقہ ميں دليل عقلى كى كيا حيثيت ہے ؟

۴)ولايت فقيہ پر قائم ايك ''دليل عقلى محض ''كو مختصر طور پر بيان كيجئے_

۵) آيت الله بروجردى نے ولايت فقيہ پر جو دليل عقلى ملفق قائم كى ہے اسے اختصار كے ساتھ بيان كيجئے _

۲۳۱

چوتھا باب:

دينى حكومت كى خصوصيات اور بعض شبہات كا جواب

سبق ۲۴ : فلسفہ ولايت فقيہ

سبق ۲۵:رہبر كى خصوصيات اور شرائط

سبق ۲۶:رہبر كى اطاعت كا دائرہ اور حدود

سبق ۲۷:حكومتى حكم اور مصلحت

سبق ۲۸:حكومتى حكم اور فقيہ كى ولايت مطلق

سبق ۲۹ ، ۳۰ : دينى حكومت كے اہداف اور فرائض

سبق ۳۱، ۳۲ : دينى حكومت اور جمہوريت

۲۳۲

تمہيد:

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر نظريہ ولايت فقيہ كے ساتھ جڑا ہوا ہے _ اور ہمارے سياسى نظام كى بنياد ''ولايت'' پر استورا ہے_گذشتہ باب ميں ہم نے شيعہ فقہا كى كتب سے ولايت كے اثبات اور اس نظرئے كى تاريخى حيثيت پر تفصيلى بحث كى ہے_ اس باب ميں ہم ولائي حكومت كے مختلف پہلووں كى تحقيق، اور اس كى بعض خصوصيات اور اہداف پر روشنى ڈاليں گے حقيقت يہ ہے كہ آج كے دور ميں پورى دنيا ميں سيكولر، اور لبرل جمہورى حكومتيں مقبول عام ہيں جبكہ دينى حكومت اور ولايت فقيہ مختلف قسم كے حملوں كا شكار ہے جسكى وجہ سے ولايت فقيہ اور دينى حاكميت پر مبتنى سياسى نظريہ كے مقابلہ ميں لوگوں كے اذہان سيكولر اور غيردينى سياسى فلسفہ سے زيادہ آشنا اور مانوس ہيں لہذا دينى حكومت اور ولايت فقيہ كے نظريہ كو ثابت كرنے كيلئے ٹھوس اور منطقى ادلہ كى ضرورت ہے_

بعض شبہات اور اعتراضات كى بنيادى وجہ بغض اور كينہ و حسد ہے جبكہ بعض اعتراضات غلط فہمى كى وجہ سے پيدا ہوئے ہيں_ ان دوسرى قسم كے شبہات كے جواب كيلئے استدلالى اور منطقى گفتگو كے علاوہ كوئي چارہ نہيں ہے _ بنابريں اس باب ميں دو بنيادى اہداف ہيں_ ايك طرف ''حكومت ولائي'' كے متعلق پائے جانے والے بعض ابہامات اور شبہات كا جواب ديا جائے گا اور دوسرى طرف دينى حكومت كى بنيادى خصوصيات اور اس كے اہداف كى طرف اشارہ كيا جائے گا_

۲۳۳

چوبيسواں سبق:

فلسفہ ولايت فقيہ

دوسرے معاشروں كى طرف اسلامى معاشرہ بھى سياسى ولايت اور حاكميت كا محتاج ہے جيسا كہ پہلے باب ميں گذرچكاہے كہ انسانى معاشرہ اگرچہ كامل، شائستہ، منظم اور حق شناس افراد سے بھى تشكيل پايا ہو_ تب بھى اسے حكومت اور سياسى ولايت كى ضرورت ہوتى ہے _ كيونكہ اس اجتماع كے امور كى تنظيم و تدبير ايك حكومت كے بغير ناممكن ہے _ وہ شے جو سياسى اقتدار اور ولايت كے وجود كو ضرورى قرار ديتى ہے وہ معاشرے كا نقص اور احتياج ہے_ حكومت اور سياسى اقتدار كے بغير معاشرہ ناقص اور متعدد كمزوريوں كا شكار ہے _ حكومت اور سياسى ولايت كى طرف احتياج اس معاشرہ كے افراد كے ناقص ہونے كى وجہ سے نہيں ہوتي_ بنابريں اگر ہمارے دينى متون ميں فقيہ عادل كيلئے ولايت اور حاكميت قرار دى گئي ہے تو اس كا مقصد فقط اسلامى معاشرہ كے نواقص كا جبران اور تلافى كرنا ہے _ اسلامى معاشرے كى حاكميت، ولايت اور سرپرستى كيلئے فقيہ عادل كے تقرر كا معنى يہ نہيں ہے كہ مسلمان ناقص اوركم فہم ہيں اور انہيں ايك سرپرست كى ضرورت ہے _

۲۳۴

بلكہ يہ انسانى اجتماع اور معاشرے كا نقص ہے كہ جو سياسى اقتدار و ولايت كے تعين سے برطرف ہوجاتاہے_

جيسا كہ تيسرے باب ميں تفصيل سے گذرچكاہے بہت سے شيعہ فقہا زمانہ غيبت ميں اس سياسى ولايت كو جامع الشرائط فقيہ عادل كا حق سمجھتے ہيں، يا اس وجہ سے كہ ادلّہ روائي ميں اس منصب كيلئے فقيہ كا تقرر كيا گيا ہے يا امور حسبيہ كے باب سے كہ ان امور ميں '' فقيہ'' كا حق تصرف قطعى امر ہے اور فقيہ كے ہوتے ہوئے دوسرے افراد ان امور كى سرپرستى نہيں كرسكتے _ حتى كہ وہ افراد جو زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كا معيار امت كے انتخاب كو سمجھتے ہيں اور فقيہ كے تقرر كے منكر ہيں وہ بھى معتقد ہيں كہ امت '' فقيہ عادل'' كے علاوہ كسى اور شخص كو حاكميت كيلئے منتخب نہيں كرسكتى _ يعنى فقيہ كى ولايت انتخابى كے قائل ہيں_ پس يہ ادعا كيا جاسكتاہے كہ زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى نظريہ''' فقيہ عادل'' كى سياسى ولايت پر استوار ہے اور فرق نہيں ہے كہ اس زعامت اور حاكميت كا سرچشمہ ادلّہ روائي ہوں جو فقيہ كو منصوب كرتى ہيں يا اسے امور حسبيہ كے باب سے ثابت كريں يا لوگوں كے منتخب شخص كيلئے فقاہت كو شرط قرار ديں _حقيقت ميں اس نكتہ كا راز كيا ہے ؟ كيوں شيعہ علماء مصرّ ہيں كہ اسلامى معاشرہ كے سربراہ كيلئے فقاہت شرط ہے ؟

اس سوال كا جواب اس نكتہ ميں پنہا ن ہے كہ اسلامى معاشرہ ميں حكومت كى ذمہ دارى يہ ہے كہ مسلمانوں كے مختلف امور كو شرعى تعليمات كے مطابق بنائے_ سيكولر حكومتوں كے برعكس _كہ جو صرف امن و امان برقرار كرنے اور رفاہ عامہ جيسے امور كو لبرل يا دوسرے انسانى مكاتب كے اصولوں كے تحت انجام ديتى ہيں_ دينى حكومت كا ہدف ہر صورت ميں فقط ان امور كا انجام دينا نہيں ہے بلكہ اسلامى معاشرہ ميں اجتماعى تعلقات و روابط كو اسلامى موازين اور اصولوں كے مطابق بنانا اور مختلف اقتصادى و معاشى امور ،قانون ، باہمى تعلقات، اور ثقافتى روابط كودين كے ساتھ ہم آہنگ كرنا ہے_ لہذا اسلامى معاشرہ كے رہبر كيلئے اجتماعى امور كى تنظيم

۲۳۵

كى صلاحيت اور توانائي كے ساتھ ساتھ اسلام اور اس كے موازين و اصولوں سے كافى حد تك آشنا ہونا بھى ضرورى ہے_ پس چونكہ مسلمانوں كى سرپرستى اور سياسى ولايت كا بنيادى اور اصلى ركن اسلام شناسى ہے لہذا اسلامى معاشرے كا سرپرست و سربراہ فقيہ ہونا چاہيے_

يہ نكتہ اہلسنت كے بعض روشن فكر علماء كى نظر سے بھى پنہاں نہيں رہا _ اہلسنت اگرچہ ولايت انتصابى كے معتقد نہيں ہيں اور اكثريت اس كى قائل ہے كہ سياسى رہبر كے تقرر كى كيفيت اور طريقہ كار كے متعلق دينى متون خاموش ہيں _ اس كے باوجود بعض نئے مصنفين اس بات پر مصر ہيں كہ سياست اور اجتماع كى اخلاقى اقدار، اجتماعى تعليمات اور بعض اصولوں كا تعين اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ اسلامى معاشرے كے انتظام كى مطلوبہ شكل تقاضا كرتى ہے كہ اسلامى معاشرہ كے حكّام'' عالم دين'' ہونے چاہئيں_

قرآن اور احاديث ميں كچھ ايسے امور بھى موجود ہيں جنہيں كم از كم اسلام ميں حكومت كے اخلاقى اصول كہا جاسكتاہے _ مثلاً شورى كى مدح اور حكومت كے سلسلہ ميں مشورہ كرنے كى ترغيب دلانا، عدل و انصاف اور فقراء و مساكين كى رعايت كى دعوت دينا وغيرہ ، واضح ہے كہ حكومت ميں ان اخلاقى اصولوں كے اجرا كيلئے ضرورى ہے كہ حكمران'' عالم دين'' ہو ں_ اور ان اصولوں كو جارى كرنے ميں مخلص ہوں _(۱)

شرط فقاہت ميں تشكيك

اس اكثريتى اور مشہور نظريہ '' كہ امت مسلمہ كے سياسى حاكم ميں فقاہت اور دين شناسى شرط ہے اور فقيہ

____________________

۱) الدين والدولة و تطبيق الشريعة، محمد عابد جابرى صفحہ ۳۴_

۲۳۶

كيلئے ولايت انتصابى ثابت ہے يا كم از كم سياسى ولايت ميں فقاہت شرط ہے'' كے برعكس بعض افراد جو كہ فقيہ كى سرپرستى كے منكر ہيں ان كى نظر ميں اسلامى تعليمات كے نفاذ اور فقيہ كى سرپرستى كے درميان كوئي ملازمہ نہيںہے_ درست ہے كہ اسلام اجتماعى اور سياسى تعليمات ركھتا ہے اور مخصوص اصولوں اور اقدار پر تاكيد كرتاہے_ ليكن اس كا يہ مطلب نہيں ہے كہ معاشرہ كا سياسى اقتدار'' فقيہ'' كے ہاتھ ميں ہو كيونكہ فقيہ كا كام احكام بيان كرنا ہے _ ليكن معاشرہ كے امور كى تنظيم اورسرپرستى كيلئے ان احكام كا اجرا اور اس كيلئے عملى اقدام كرنا فقيہ كى ذمہ دارى نہيں ہے لہذا سياسى اقتدار كيلئے فقاہت كى شرط ضرورى نہيں ہے _اگر اجتماعى اور سياسى امور ميں فقيہ كى شركت كو ضرورى سمجھيں تواحكام الہى كے اجرا ميں اس كى نظارت كے قائل ہوں اور واضح سى بات ہے كہ نظارت فقيہ اور ولايت فقيہ دو مختلف چيزيں ہيں اور '' نظارت ''كسى بھى اجرائي ذمہ دارى كو'' فقيہ'' كا منصب قرار نہيں ديتي_

اسلامى معاشرہ كے نظام كے چلانے ميں ''فقاہت'' كى شرط كو قبول نہ كرنے والے بعض لوگ استدلال كرتے وقت سياستدان اور فقيہ كے درميان تفاوت كو مد نظر ركھتے ہيں_ ان كى نظر ميں سياست اور معاشرہ كے امور كا اجرا ايك ايسا فن ہے جس كا تعلق جزئيات سے ہے_ جبكہ فقاہت اور اس سے اعلى تر مناصب يعنى امامت اور نبوت اصول اور كليات سے سروكار ركھتے ہيں_ اصول اور كليات ميں ماہر ہونے كا لازمہ يہ نہيں ہے كہ فقيہ معاشرہ كے نظام كى جزئيات ميں بھى مہارت ركھتا ہو _اصول ، كليات اور احكام ثابت اور نا قابل تغير ہيں جبكہ سياست ہميشہ جزئي اور تبديل ہونے والے امور كے ساتھ سر و كار ركھتى ہے_

جس طرح كوئي فلسفى اپنے عقلى نظريات اورفقيہ اپنے اجتہاد اور دين ميں سمجھ بوجھ كے باوجود بغير كسى تربيت اور تجربہ كے كپڑا نہيں بنا سكتا اور ڈارئيونگ نہيں كرسكتا _ اسى طرح فلسفى اپنى

۲۳۷

عقل نظرى اور فقيہ احكام دين ميں مہارت ركھنے كے باوجو دسياست نہيں كرسكتا _ كيونكہ فلسفہ ايك تھيورى اور نظرى امر ہے _اسى طرح فقاہت يا اخلاقى تھيورى ايك ثابت اور غير متغيّرش ے ہے جبكہ سياست خالصةً ايك متغير شے ہے حكومت اور تدبيرامور مملكت جو كہ لوگوں كے روز مرہ امور كى ديكھ بھال ، امن عامہ كا نظام اور اقتصادى امور سے عبارت ہيں تمام كے تمام عقل عملى كى شاخيں اور جزئي اور قابل تغير چيزيں ہيں كہ جن كا تعلق حسى اور تجرباتى موضوعات سے ہے لہذا لازمى طور پر ان كى وضع و قطع ،الہى فرامين اور وحى سے مختلف ہے _ تجرباتى موضوعات كى صحيح تشخيص صرف لوگوں كى ذمہ دارى ہے اور جب تك وہ صحيح طور پر ان امور كو تشخيص نہ دے ليں شريعت كے كلى احكام عملى طور پر نافذ نہيں ہوسكتے_

اس نظريہ كے بعض دوسرے حامى فقيہ كے كردار كو اصول اور كليات ميں منحصر نہيں سمجھتے _ بلكہ اس كيلئے شان نظارت كے بھى قائل ہيں_ ان كى نظر ميں ايك دينى حكومت كے وجود و تحقق كيلئے ضرورى نہيں ہے كہ اس كى رہبرى فقيہ عادل كے ہاتھ ميں ہو بلكہ فقيہ اگر مشير اور ناظر كے عنوان سے ہو ، اور حكّام شريعت كے نفاذ ميں مخلص ہوں تو دينى حكومت قائم ہوسكتى ہے_

گذشتہ مطالب كى بنا پر سياسى حاكميت ميںفقاہت كى شرط قرار نہ دينے اور نتيجتاً فقيہ كى سياسى ولايت سے انكار كا نظريہ دو امور پر استوارہے_

ايك يہ كہ فقہ ميں مہارت كا حاصل ہونا معاشرہ كے سياسى اور انتظامى امور كى سرپرستى ميں فقيہ عادل كى اولويت پر دلالت نہيں كرتا_

دوسرا يہ كہ دينى حكومت كى تشكيل اور معاشرہ ميں دينى احكام اور اہداف كا حصول فقيہ كى سياسى حاكميت ميں منحصر نہيں ہے بلكہ ايسى دينى حكومتوں كا تصور كيا جاسكتا ہے جن ميں فقيہ كو ولايت حاصل نہ ہواور فقط احكام كى تبيين يا زيادہ سے زيادہ شرعى احكام پر نظارت كرنا اس كى ذمہ دارى ہو_

۲۳۸

فقيہ كى سياسى ولايت كا دفاع:

وہ نظريہ جو اسلامى معاشرہ كے اجتماعى اموركى تدبير كيلئے فقاہت كو شرط قرار نہيں ديتا اور فقيہ كى سياسى ولايت كو ضرورى نہيں سمجھتا درحقيقت بہت سے اہم نكات سے غفلت بر تنے كى وجہ سے وجود ميں آيا ہے_

اس نظريہ كى تحقيق اور تنقيد كيلئے درج ذيل نكات پر سنجيدگى سے غور و فكر كرنے كى ضرورت ہے_

۱_ كيا فقيہ كى سياسى ولايت كے قائلين كى نظرميں اس اجتماعى منصب كے حصول كى واحد علت اور تنہا شرط فقاہت ہے؟ يا اسلامى معاشرہ كى سياسى حاكميت كى ضرورى شروط ميں سے ايك شرط ''فقاہت'' ہے؟ جيسا كہ بعد والے سبق ميں آئے گا كہ دينى منابع ميں مسلمانوں كے امام كے جو اوصاف اور خصوصيات بيان كى گئي ہيں ، ان ميں سے اسلام شناسى اور دين ميں تفقہ و سمجھ بوجھ اہم ترين خصوصيات ميں سے ہے_ عدالت ، شجاعت ، حسن تدبير اور معاشرتى نظام كے چلانے كى صلاحيت اور قدرت بھى مسلمانوں كے امام اور والى كى معتبر شرائط ميں سے ہيں_ اس اجتماعى ذمہ دارى اور منصب ميں مختلف اوصاف كى دخالت سے واضح ہوجاتا ہے كہ اسلامى معاشرہ كے سرپرست كيلئے فقط فقاہت كا ہونا كافى نہيں ہے تا كہ كہا جائے كہ صرف دين ميں تفقہ، معاشرتى نظام كوچلانے كى ضرورى صلاحيت پيدا نہيں كرتااور سياست اورمعاشرتى نظام كو چلانے كيلئے جزئيات كے ادراك كى خاص توانائي كى ضرورت ہے ، جبكہ فقاہت فقط احكام كليہ اور اصول كو درك كرسكتى ہے_

۲_ اگر چہ موجودہ سيكولر حكومتوں ميں سياسى اقتدار كے حاملين اجتماعى امور كى تدبير ، امن عامہ اور رفاہ عامہ جيسے امور كولبرل اصولوں اور انسانى حقوق كى بنياد پر انجام ديتے ہيں ليكن دينى حكومت دين كى پابند ہوتى ہے_ اور مذكورہ بالا اہداف كو شرعى موازين اور اسلامى اصولوں كى بنياد پرتأمين كرتى ہے_ بنابريں سياست اور اسلامى معاشرہ كى تدبير كو كلى طور پر عملى سياست ،عقل عملى اور فن تدبير كے سپرد نہيں كيا جاسكتا كيونكہ ايسى

۲۳۹

حكومت كى تدبيراور سياست كو دينى موازين اور شرعى تعليمات كے مطابق ہونا چاہيے _ پس ايسے معاشرہ كے سرپرست كيلئے ضرورى ہے كہ سياسى صلاحيت اور فن تدبير كے علاوہ فقاہت سے بھى آشنا ہو اور اسلامى تعليمات كى بھى شناخت ركھتا ہو _ اس مدعا كى دليل يہ ہے كہ اسلامى معاشرہ ميں بعض مواردميں نظام اور مسلم معاشرہ كى مصلحت يہ تقاضا كرتى ہے كہ حاكم ايك حكومتى حكم صادر كرے جبكہ بعض موارد ميں يہ حكومتى حكم ،اسلام كے احكام اوّليہ كے منافى ہوتا ہے _ فقيہ عادل كى ولايت عامہ كى ادلّہ كى بنياد پر اس حكومتى حكم كا صادر كرنا'' فقيہ'' كا كام ہے اور اس كے ولائي احكام كى اطاعت كرنا شرعاً واجب ہے_ حالانكہ اگر اسلامى معاشرہ كا حاكم اور سياسى اقتدار كا مالك ''فقاہت'' كا حامل نہ ہو تو نہ ہى وہ ايسے احكام صادر كرنے كا حق ركھتا ہے اور نہ ہى اس كے ان احكام كى پيروى كے لزوم كى كوئي دليل ہے كہ جو ظاہرى طور پر شريعت كے منافى ہيں_

دوسرا شاہد يہ ہے كہ مختلف اجتماعى امور ميں اسلامى تعليمات كے اجرا سے طبيعى طور پر بعض موارد ايسے بھى پيش آجاتے ہيں كہ جن ميں بعض شرعى احكام دوسرے بعض شرعى احكام سے ٹكرا جاتے ہيں اور ان ميں سے ايك پر عمل كرنا دوسرے كے ترك كرنے كا باعث بنتا ہے _ ان موارد ميں حاكم كو تشخيص دينا ہوگى كہ كونسا حكم اہم اور كونسا غير اہم ہے_ اورحاكم اہم كو غير اہم پر ترجيح دے گا_ اہم موارد كو تشخيص دينے اور غير اہم كو چھوڑنے كا حكم دينے كيلئے ضرورى ہے كہ حاكم دينى تعليمات سے گہرى آگاہى ركھتا ہو_

يہ دو دليليں نشاندہى كرتى ہيں كہ اسلامى معاشرہ كى سرپرستى كيلئے دوسرى حكومتوں ميں رائج تدبيرى مہارت كے ساتھ ساتھ ''فقاہت'' كى صلاحيت بھى ضرورى ہے كسى حكومت كا دينى ہونا معاشرہ كى رہبرى كيلئے ايسى شرط كا تقاضا كرتى ہے_

۳_ وہ افراد جو ولايت فقيہ كى بجائے فقيہ كى مشاورت اور نظارت كى بات كرتے ہيں انہيں يہ ياد ركھنا چاہيے كہ فقہاء كو اقتدار سے دور ركھ كر اور فقط انہيں سياسى نظام پر نظارت دينے سے يہ ضمانت نہيں دى جاسكتى

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367