اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143952 / ڈاؤنلوڈ: 3622
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ہمت بلند دار کہ مردان روز گار         از ہمت بلند بہ جایی رسیدہ اند

یعنی بزرگ شخصیات بلند ہمت والے تہے اور وہ اپنی ہمت کے ذریعہ ایک مقام و منزلت تک پہنچ گئے ۔

حضرت امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' قدر الرجل علیٰ قدر همّته ''(1)

ہر شخص کی قدر وقیمت ، اس کی ہمت کے لحاظ سے ہے۔

کیو نکہ بلند ہمت و حو صلہ انسان کو بہت اہمیت  عطا کر تا ہے ہمارے بزرگ کہ جو صاحبان اسرار اہل بیت عصمت و طہارت تہے اور جنہوں نے ان کی رضا کی راہ میں جا نفشا نی سے کام لیا وہ کس طرح عالی مقامات پر فائز ہو ئے اور کس طرح اہل بیت علیہم السلام کے معنوی چشمہ سے سیراب ہوئے ؟

ان افراد کا ظرف ایسا تہا کہ اہل بیت  کے لطف نے جن میں کسی قسم کی خود پسندی اور تکبر ایجاد   نہ کیا ۔ وہ جس مقام کی جانب جائیں ، ان پر عنا یات بہی اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں ۔ لیکن جو ایک خواب دیکہنے یا کسی معنوی  سیر کے اتفاق یا امام سے کسی مادی حاجت کے پورا ہونے سے پہولے نہ سمائے ، کیا وہ بلند حوصلہ و ہمت رکہتا ہے ؟ یا جو کوئی خواب سننے یا معنوی سیر کے اتفاق یا مادی حاجت کے پورا ہونے پر تعجب کرے اور اس کا انکار کرے ، کیا یہ اعلیٰ و بلند ہمت سے بہرہ مند ہے ؟

حضرت امیرالمومنین (ع)  فر ماتے ہیں :

'' من صغرت همّته بطلت فضیلته ''(2)

جس کی ہمت کم ہو وہ اپنی فضیلت کہو دیتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ شرح غرر الحکم:ج 4ص  500 ، بحار الانوار:ج 78ص  14

[2] ۔ شرح غرر الحکم:ج 5 ص 210

۶۱

اپنے ارادہ پر عمل کریں

بہت سے موارد میں ممکن ہے کہ انسان کسی مناسب وقت و فرصت کو ضائع کر دے اور پہر اس پر افسوس کرے اور پشیمان ہو ، ایسی پشیمانیوں سے بچنے کے لئے تمام مناسب اور اچہے مکا نا ت و سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے ارادہ پر عمل کریں  ۔

امام صادق (ع)ایک روایت میں فر ما تے ہیں :

'' اذا همّ احدکم بخیرٍ فلا یؤخّره ''(1)

جب بہی تم میں سے کوئی کسی اچہے کام کو انجام دینے کا ارادہ کرے تو اس میں تاخیر نہ کرو۔

  اسی طرح امام صادق (ع) ایک دوسری روایت میں فرما تے ہیں :

'' اذا همّت بخیرٍ فبادر فانّک لا تدری ما یحدث ''(2)

جب بہی کسی اچہے کام کا ارادہ کرو تو اسے شروع کرو ، کیو نکہ تم نہیں جانتے کہ بعد میں کیا چیز در پیش آجا ئے ۔

مختلف حوادث کے پیش آنے سے انسان بہت سی سہولیات و امکا نا ت کو گنوا دیتا ہے جس کے نتیجہ میں ہم نے جس کام کو انجام دینے کا ارادہ کرتے ہیں اسے انجام دینے میں کامیاب نہیں ہو تے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحارالانوار:ج 71ص  17 2 ، مجالس شیخ مفید: 28 1

[2] ۔ بحا ر الا نوار:ج 71ص  2 2 2 ، اصول کا فی:ج 2ص  42 1

۶۲

قدرت در تصمیم گیری ، عامل پیروزی

وضعف در آن ، عامل شکست است

کامیابی کا عامل ارادہ کی قدرت ہے اور اس میں ضعف شکست کابا عث ہے ۔

جس طرح نیک کام کے لئے بلند حوصلہ و ہمت مقام انسان کی عظمت پر گوا ہ ہے ، اسی طرح   ارادہ  میں کمزور ی انسان کی ہار کی دلیل ہے ۔ پچیس ہزار افراد کے بارے میں تحقیق ومطالعہ سے یہ معلوم ہو اکہ ان کے ہدف تک نہ پہنچنے اور شکست کہانے کے اکتّیس اسباب میں سے اہم سبب عامل کمزورا رادہ تہا آج کے کام کو کل پر چہوڑ نا اور مسامحہ مضبوط ارادہ کے مخالف ہیں اس پر غلبہ پانا ضروری ہے ۔

اپنے ہدف تک پہنچنے والے ہزاروں افراد کے مطا لعہ سے یہ معلوم ہو گا کہ وہ پختہا رادہ  کے مالک تہے اور اپنے عزم و ارادہ پر ثابت قدم رہتے تہے  ۔

اپنے ہدف و مقصد تک نہ پہنچنے والے افراد ایسے ہو تے ہیں کہ جو ارادہ نہیں کر سکتے یا اپنے ارادہ کو بہت جلد بدل دیتے ہیں ۔

پس اپنی قدرت کے  مطابق قوت ارادہ کو مزید مضبوط کریں کیو نکہ ارادہ جس قدرپختہ ہوگا ، آپ کے لئے  بیشتر آثار فراہم کرے گا پہر آپ بلند حوصلہ و ہمت کے ساتہ منزل مقصود تک پہنچ سکیں گے ۔

حضرت امیر المومنین(ع)  فر ماتے ہیں :

'' من کبرت همّته عزّ مرامه ''(1)

جس کی ہمت بلند ہو وہ عزیز و محترم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ شر ح غرر الحکم:ج 5ص  88 2

۶۳

نہ ہر در خت تحمل کند  جفای خزاں            غلام ہمّت سروم کہ این قدم دار

ہردرخت میں خزاں کی سختی و جفا کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔  لیکن یہ میرا ہی سرو ہے جو خزاںکی سختیوں کو برداشت کررہا ہے۔

پس عالی ہمت و ایسے افراد احترام کے  لائق ہیں کہ جو اپنے مصمم ارادے کی بناء پر اپنے ہدف کو پانے میں کامیا ب ہوگئے ۔ لوگ ایسی شخصیات کو عزت کی نگاہ سے دیکہتے ہیں اور ان کی مدح و تعریف   کر تے ہیں لوگ ایسے افراد کی رفتار و روش کو احترام کی نگاہ سے دیکہتے ہیں اور دوسروں کی نظروں میں یہ شخصیات ممتاز و بے نظیر شمار ہوتی ہیں ۔

ایسے افراد اگر اپنی ہمت و ارادے کو معنوی  مسائل اور تقرب خدا کی راہ میں قرار دیں تو یہ خدا اور خاندان رسالت  کے نزدیک ارزش و تقرب حاصل کریں گے کہ جو دوسروں کے لئے مورد غبطہ ہو ۔

ہمت عالی ز فلک بگذرد        مرد بہ ہمت ز ملک بگذ رد

اگر عالی اور بلند ہمت آسمان سے بہی آگے بڑہ جائے تو مرد اپنی ہمت کے ذریعہ ملائکہ سے بہی آگے بڑہ سکتا ہے ۔

۶۴

قوت ارادہ کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آنا

انسان کی طبیعت ایسی ہے کہ وقت گزرنے کے سا تہ ساتہ اس کا کردار و رفتار اس کے خلق اور ذات کا حصہ بن جا تا ہے جب اس کی عادت ہو جائے تو پہر اس سے جدا ہو نا ممکن نہیں ہو تا ۔

امام صادق (ع) فر ماتے ہیں :

'' الخلق خلقان ، احدهما نیّة والآخرة سجیّة قیل فایّهما افضل ، قال : النیّة لانّ صاحب السجیّة مجبول علی امرٍ لا یستطیع غیره وصاحب النیّة یتصبّر علی الطاعة تَصَبّراً فهذا افضل ''

اخلاق  کی  دو قسمیں  ہیں :

۱۔نیت کے ذریعہ حاصل ہو نے والا اخلاق ۔

۲۔ انسان کا طبیعی و ذاتی اخلا ق ۔

امام صادق سے پو چہا گیا کہ ان میں سے کون سا اخلاق افضل ہے ؟ امام صادق نے فرما یا : نیت کے ذریعہ حاصل شدہ اخلاق افضل ہے کیو نکہ جس کا اخلاق اس کی طبیعت سے اخذ ہو ، تو اس کی خلقت ایسی ہے کہ جو اس کے علا وہ کسی اور کام کے انجام دینے پر قادر نہیں ہو تا لیکن جو اپنے  ارادہ  سے پسندیدہ

اخلاق کا مالک بنے وہ صابرانہ اپنے پرور دگار کی  اطاعت کر تا ہے پس یہ شخص افضل ہے ۔

۶۵

عظیم لوگ اپنے قوة  ارادہ  کے ذریعہ اخلاق حسنہ کو اپنی طبیعت کا  حصہ بنا لیتے  ہیں اور اپنی مضبوط نیت و پختہ ارادے کے ذریعہ اخلاق رذیلہ اور نا پسندید ہ عا دات کو اپنے سے دور کرتے ہیں ۔ ذو القر نین نے دنیا کے مشرق و مغرب کو طے کیا مختلف اقوام عالم کو نزدیک سے دیکہا اور ان کے رفتار و کردار کا مشا ہدہ کیا انہوںنے تمام لوگوں میں سے چند ایسے لوگوں کو بہی دیکہا کہ جن کی آسان زندگی ان کے لئے حیرت کا سبب تہی وہ اعلیٰ ترین اور خوبصور ت زندگی گزار رہے تہے ان میں قتل و خونریزی اور خیانت کے آثار دکہائی نہیں دیتے تہے صاحب ثروت ، نچلے طبقے کو کچہ نہیں دیتے تہے ۔

لہذا ذو القر نین بہت حیران ہوئے اور ان سے بہت سے سوالات پوچہے اور ان سے قانع کنندہ جوابات لیئے انہوں  نے ان سے پوچہا:'' فما لکم لا تسبّون ولا تقتلون ؟ قالو: من قبل انّا غلبنا طبائعنا با لعزم و سنّنا انفسنا بالحلم ''

ذو لقرنین نے ان سے پوچہا : تمہارے معاشرے میں فحش و دشنام اور قتل و غارت کیوں اور کس وجہ سے نہیں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : کیو نکہ ہم مصمم ارادے کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آچکے ہیں اور ہم نے قوی ارادہ سے بری عادات کو اپنے سے نکال دیا ہے اور بردبادی و حلم کو اپنی نفسانی روش قرار دیا ہے ۔

اس بناء پر اگر انسان طبیعتاً ظالم و جنایت کار ، جہوٹا یا ریا کار ، سست و کاہل ہو یا اس میں کوئی اور بری صفت ہو تو وہ مضبوط عزم  اور پختہ ارادہ سے انہیں بر طرف کر سکتا ہے اور اپنے کو صفات حسنہ سے مزین کرسکتا ہے ۔

کوہ نتوان شدن سدّ رہ مقصود مرد              ہمت مردان بر آرد از نہاد کوہ گرد

یعنی ایک بلند و با لا پہاڑ انسان کی منزل و مقصود میں رکاوٹ نہیں بن سکتا کیونکہ مردکی ہمت اس  پہاڑ کو بہی خاک کے ذرات میں تبدیل کر دیتی ہے ۔

پس اگر آپ خود  میں کسی پہاڑ کے  برابربری صفات و عا دات کو دیکہیں تو آپ قوت ارادہ اور مردا نہ ہمت کے ذریعہ انہیں نابود کر سکتے ہیں بلکہ آپ انہیں اچہی صفات میں تبدیل کر نے کی بہی قدرت رکہتے ہیں ۔

۶۶

ملّا صالح مازندرانی، ایک پختہ ارادہ کے مالک شخص

صالح مازندرانی ایسے صاحب تصمیم و پختہ ارادہ کے مالک تہے کہ جنہوں نے بہت کم وسائل کے باوجود اپنے مقصد کو پالیا وہ علا مہ مجلسی اول کے داماد اور نامور شیعہ علماء  میں سے تہے یہ ہر اس شخص کے لئے نمونہ ہیں کہ جو اعلیٰ مقاصد و اہداف رکہتے ہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ میں دینی علوم حاصل کرنے والوں کے لئے حجت ہوں کیو نکہ مجہ سے بڑہ کر    کوئی فقیر نہیں تہا اور میرا حا فظہ سب سے ضعیف و بد تر تہا کبہی میں اپنے گہر تو کبہی اپنے فرزند کا نام بہول جا تا میری عمر کے تیس سال گزر چکے تہے کہ میں نے ( الف ، با ) سیکہنی شروع کی اور اتنی سعی و کوشش کی کہ خدا نے فضل کیا ۔

وہ فقر ، کند ذہن اور ضعیف حافظہ کے با وجود پختہ ارادہ  رکہتے تہے جس کی بدولت انہوں نے باارزش کتب کی تالیف کا مصمم ارادہ کیا اور کامیاب ہوئے ، وہ کتب آج بہی شیعہ  علماء  کے لئے مورد استفادہ ہیں ۔

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اس قدر کم حافظہ رکہتے تہے کہ اپنے استاد کے گہر کو بہول جاتے اور اتنے فقیر و غریب تہے اور اتنا پرا نا لباس پہنتے کہ شرم کے مارے مجلس درس میں وارد نہ ہوتے وہ محل درس سے با ہر بیٹہتے اور ہڈیوں اور چنار کے درخت کے پتوں پر درس لکہتے ایک  بار کوئی مسئلہ مورد اشکال قرار پایا اور وہ چند روز تک جاری رہا  مرحوم مجلسی کے ایک شاگرد نے دیکہا کہ ملا صالح مازندرانی نے اس اشکال کا جواب چنار کے پتوں پر لکہا ہے ، اس نے درس میں علامہ  مجلسی کا جوا ب دیا ۔

۶۷

علامہ مجلسی  سمجہ گئے کہ یہ اس  کا جواب نہیں  ہے  لہذا انہوں نے اس سے پوچہا کہ یہ کس کا جواب ہے اور اس بارے میں اصرار کیا تو اس شاگرد نے بتا یا کہ یہ اس کا جواب ہے کہ جو مجلس درس کے باہر بیٹہا ہوا ہے ۔ علامہ مجلسی نے دیکہا تو ملا محمد صالح دروازے کے باہر بیٹہے ہوئے تہے ، علامہ نے ملا ّ  محمد صالح کو لباس دیا اور درس میں حاضر ہونے کو کہا وہ علامہ مجلسی کے اتنے مورد تو جہ قرار پائے کہ وہ انہیں اپنے گہر لے گئے اور ان سے اپنی بیٹی کی شادی کی ! اور انہیں کو گہر کا کتابخانہ دیا ۔

بہ ہر کاری کہ ہمت بستہ گردد            اگر کاری بود ، گل دستہ گردد

یعنی جو کام بہی ہمت سے وابستہ ہو اور آپ اسے ہمت سے انجام دیں تو اگر وہ کام کانٹوں کی صورت میں بہی ہو تو وہ گل دستے میں تبدیل ہو جائے گا ۔

۶۸

اپنے ارادہ اور نیت کو تقویت دینا

علامہ صالح مازندرا نی نے بہت سی مشکلات کے با وجود پختہ ارادہ  کے ذریعہ علمی مراحل طے کرکے بلند مقام حاصل کیا اگر آپ چاہیں تو خدا آپ کو ب ھ ی یہ مقام عنایت فرمائے گا لیکن اس کے لئے اپنی نیت وارا دے میں کو تاہی نہ برتیں حضرت امیر المو منین  اپنے ایک خط میں لک ھ تے ہیں : '' فانّ اللّٰه یعطی العبد بقدر نیّته ''(1)

بے شک خدا ہر بندے کو اس کی نیت کے برابر عطا فرما تا ہے  ۔جس قدر انسان کی نیت کی اہمیت ہو ، خدا بہی اسی لحاظ سے اسے عطا کر تا ہے آپ کی نیت جس قدر بہتر اور خالص  ہو گی ، اسی لحاظ سے اجر و ثواب بہی زیاد ہو گا اس بناء پر اپنی نیت کو خالص کریں نہ کہ صرف اپنے اعمال کو زینت دیں ۔

خدا کے بزرگ بندے اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے خدا کی توفیقات و عنایات کا دامن پکڑتے ہیں ایک روایت میں امام صادق اس راز سے پردہ اٹہا تے ہوئے فرما تے ہیں :

'' انّما قدّر اللّٰه عون العباد علیٰ قدر نیّاتهم ، فمن صحّت نیّته تمّ عون اللّٰه له  ومن قصرت نیّته ، قصرعنه العون بقدر الّذی قصر ''(2) خداوند تعالی لوگوں کی نیت کے مطابق ان کی مدد کو مقدر کر تا ہے جو صحیح و کامل نیت رک ھ تا ہو تو خداب ھ ی کامل طور پر اس کی مدد کر تا ہے اور جس کی نیت کم ہو اسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحا ر الانوار:ج 33ص  88 5

 [2] ۔ بحار الانوار:ج 0 7ص 11 2

۶۹

لحاظ سے اس کی مدد میں بہی کمی آتی ہے۔

امام صادق (ع) اپنے اس قول میں کامیاب لوگوں کی کامیابی اور نا کام لوگوں کی ناکامی کے راز کو بیان فرماتے ہیں : کیو نکہ لوگوں کو خدا کی مدد ان کی نیت کے لحاظ سے پہنچتی ہے ۔

نیت و ارادہ اس قدر کا رساز اور پر قدرت ہے کہ اگر اپنے ارادہ کو تقویت دیں تو آپ کے جسم کا ضعف دور ہو جائے گا اور آپ جسمانی  لحاظ سے بہی ہر مشکل کام ا  نجام دینے کو تیار ہوں گے کیو نکہ نیت میں پختگی آپ کے  بدنی ضعف کو دور کرتی ہے حضرت امام صادق(ع) فرماتے ہیں :

'' ما ضعف بدن عمّا قویت علیه النیّة ''(1)

 نیت کے ذریعہ سے قوی ہونے والے بدن کو کوئی ضعف لا حق نہیں ہو سکتا۔

بہت سے ورزش کار اور کہلاڑی جسمی تمرینات سے زیادہ روح کو تقویت دینے سے استفادہ کرتے ہیں کیو نکہ نیت سے  فکر اور ارادہ کو تقویت دینا، صرف بدن کو طاقت ور بنا نے سے بہتر ہے بہت سے افراد معتقد ہیں کہ جوا نی و بڑہا پا اور قوت و ضعف کا سر چشمہ ایک غیر جسمی منشاء ہے اگر چہ اس موضوع کو تمام قبول نہیں کرتے لیکن اس فرض کی بناء پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ فکر و اندیشہ انسان کی صحت و مرض ،اور بندی  قدرت و ضعف  حتی کہ حیات وموت میں بہی مؤثر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔   اما لی صدوق: 8 9 1 ، بحار الا نوار:ج 7 ص 5 0 2

۷۰

ارادہ کو تقویت دینے کے طریقے

1 ۔ ذوق و شوق آ پ کے ارادہ کو تقویت دیتا ہے

شیطان گناہ کار کو گمراہی کے راستے دکہا تا ہے اور گناہ اور وسوسہ کی طرف متحرک کر تا ہے تاکہ اس کے ذریعہ انسان کو راہ راست سے بہٹکا دے اور ابدی نقصان میں مبتلا کردے گمراہی کے راستوں میں سے ایک شہوت کا فراوان شوق ہے خدا وند متعال فرما تا ہے :

'' و یرید الّذین یتّبعون الشّهوات ان تمیلوا میلاً عظیماً ''(1)

شہوات کی پیرو ی کرنے والے چاہتے ہیں کہ تمہیں بالکل ہی راہ حق سے دور کردیں  ۔

ان میں شہوت کو پورا کرنے کا شوق اور نفس امارہ اور شیطان کی طرف تحرک کا اشتیاق ایجاد ہوجاتا ہے ۔ جنہیں انجام دینے سے وہ بدترین و زشت ترین گناہ میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔

جس طرح شہوت کو پورا کرنے کا اشتیاق انسان کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اسی طرح اپنے عالی اہداف تک پہنچنے کا ذوق و شوق انسان کوا علیٰ علمی و معنوی مراتب پر فائز کر تاہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ سورہ نساء آیت: 7 2

۷۱

پس اگر آپ اعلیٰ اہداف کے حصول کی طرف مائل ہیں اور آپ آ سانی سے انہیں حاصل کر نا چاہتے ہیں تو اپنے میں شدید ذوق و شوق ایجاد کریں پہر سختیاں آسانی ، دشواریاں سہل اور ہدف سے دوری نزدیکی میں تبدیل ہو جائے گی ذوق و شوق سے ہر قسم کے مانع و دشواری کو بر طرف کر سکتے ہیں پہر آپ کا ارادہ ہدف تک پہنچنے کے لئے قوی ہو جائے گا کسی موضوع کے بارے میں ذوق و شوق ، بہت سے دیگر مسائل کو بہی بر طرف کر دیتا ہے لہذا آ پ شوق کی بنیاد پر  مختلف و پرا کندہ مسائل سے نجات پا کر عظیم ہدف تک پہنچنے کے لئے فعالیت کریں بہترین ہدف کا انتخاب کریں اور اس کے حصول کے لئے اپنے میں ذوق و شوق ایجاد کریں ۔

امام صادق(ع) سے منسوب ایک روایت میں ذکر ہواہے :

'' مثل المشتاق مثل الغریق ، لیس له همّة الاَّ خلاصه وقد نسی کلّ شیئیٍ دونه ''(1)

مشتاق شخص کی مثال کسی ڈوبنے والے شخص کی مانند ہے کہ جو اپنی نجات کے علاوہ کچہ اور نہیں سوچتا اور اس کے علاوہ ہر چیز کو فراموش کر دیتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحا ر الا نوار:ج 70  ص4 2

۷۲

2 ۔ امید و آرزو سے ہمت میں اضافہ ہو تا ہے

انسان کی جتنی زیادہ امید ہو ، اتنی ہی ہمت بیشتر ہو جاتی ہے جس انسان میں امید ہو ، اس میں شوق بہی بڑہ جا تا ہے لہذا جو نو جوان اپنے روشن مستقبل کی امید رکہتے ہیں ، ان کی آرزو معنویت اور روحانیت سے سرشار ہے انہیں بہتر مستقبل و مقام کی آرزو ہو تی ہے لہذا وہ زیادہ محنت اور کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن جن لوگوں کو نہ کوئی شوق ہو اور نہ امید وہ اپنے مستقبل کے بارے میں مأیوس وناامید ہو تے ہیں اسی مایوسی کے عالم میں وہ اچہے مستقبل کی تلاش و کوشش کو چہوڑ دیتے ہیں حا لا نکہ ہرروشن فکر انسان کا اولین و ظیفہ جستجو اور کوشش کرنا ہے اور ہر شیعہ اس امر سے آگاہ ہے مایوس و ناامید غم واندوہ کے عالم میں صرف شب و روز گزار رہا ہو تا ہے ، اس کے غموں میں مزید اضافہ ہو تا چلا جا تا ہے ۔  لیکن وہ ان سے نجات کی نہ  تو کوشش کر تا ہے اور نہ ہی ما یوسی کے عالم میں اسے امید کی  کوئی  کرن دکہائی دیتی ہے وہ نہ تو اپنی مشکلات کی گرہوں کو کہول سکتے ہیں اور نہ دوسروں کی ۔

جی ہاں ، یہ ان افراد کی زندگی گا نتیجہ ہے کہ جو خدا کی رحمت سے نا امید اور اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی حیات بخش عنایات سے مایوس ہو جاتے ہیں ۔

۷۳

3 ۔ خدا سے پختہ ارادہ و بلند ہمت کی دعا کریں  :

خاندان وحی و رسالت علیہم السلام  سے منقول دعا ئیں اور مناجات و توسلات انسان کی تربیت کی بہترین روش اور زندگی کا بہترین شیوہ ہیں عظیم اہداف ، بلند حوصلہ و ہمت اور پختہ و راسخ ترین ارادہ اہل بیت علیہم السلام کے انسان ساز مکتب سے سیکہیں ۔

ان مقدس ہستیوں نے  ہمیں نہ صرف اپنے اقوا ل و فرامین بلکہ دعاؤں اور مناجات میں بہی زندگی کا بہترین درس سکہا یا ۔ امام سجاد(ع) اپنی مناجات میں خدا کی در گاہ میں عرض کرتے ہیں :

'' اسألک من الهمم اعلا ها ''(1)

پرور دگار میں تجہ سے عالی ترین ہمت کا طالب ہوں ۔

امام سجاد (ع) اپنی مناجات کے اس جملہ سے اپنے تمام پیرو کاروں کے دلوں میں امید کی شمع روشن فرماتے ہیں اور بے ہمت انسانوں کو دعا و درخواست کے ذریعہ بلند ہمت کی امید دلا تے ہیں ۔

یہ گفتار تمام لوگوں کو بیدار کرتی ہے سب یہ جان لیں کہ عالی ہمت افراد کے کسی خاص گروہ سے مختص نہیں ہے بلکہ مکتب تشیع کے تمام پیروکار خدا وند متعال سے بلند ہمت کی دعا کریں اور اس کے حصول کی کوشش کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحار الانوار:ج 94ص  55 1

۷۴

نتیجہ ٔبحث

پختہ ارادہ اور بلند ہمت خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ہے ان کے ذریعہ آپ معنویت کے آسمان کی اوج پر پرواز کر سکتے ہیں خود میں یہ قدرت ایجاد کرو اور ضعف ، کاہلی و سستی سے پر ہیز کرو تاکہ آپ کی شرافت و عظمت میں اضافہ ہو قوةارادہ کا کمزور ہونا آپ کے توقف و ٹہہراؤ کا باعث ہے ، قوہ ارادة کو تقویت دینے سے آپ کامیابی کے نزدیک ہو سکتے ہیں امام صادق کے فرمان کی رو سے آپ مصمم ارادہ کے ذریعہ اپنے اندر پائی جانے والی بری عادات اور نا پسند ید ہ اخلاق کو ختم کر کے اچہے اور پسند یدہ اخلاق و عادات کو حاصل کر سکتے ہیں ہدف تک نہ پہنچنے میں نا کامی سے آپ کا ارادہ کمزور نہیں ہونا چاہئے  بلکہ ناکامی سے عبرت کا درس لیں اور اپنی قوہ ارادہ کو مزید مضبوط بنائیں ۔

پختہ ارادے اور مردانہ ہمت سے آپ صرف اعلیٰ انسانی مقامات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ملائکہ کے در جات بہی حا صل کر سکتے ہیں بلکہ اس سے بڑہ کر وہ مقام و مرتبہ بہی حاصل کر سکتے ہیں کہ جب ملائکہ آپ کی خدمت کر کے فخر و مباہات محسو س کریں پس فرصت سے استفادہ کریں اور پختہ ارادے کے ذریعہ اپنی خلقت کے ہدف و مقصد کو حا صل کرنے کی کوشش کریں ۔

بہ زندگانی اگر عزم آہنین داری          بہ زیر  پا شودت کوہ چون زمین ہموار

اگر آپ زندگی میں پختہ عز م و ارادہ رکہتے ہوں توآپ کے پاؤں تلے پہاڑ بہی ہموار زمین کی مانند ہو جائے گا ۔

۷۵

پانچواں باب

نظم  و  ضبط

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' اوصیکما و جمیع ولدی و اهلی و من بلغه کتابی بتقوی اللّه ونظم امرکم ''

تمہیں وصیت کر تا ہوں کہ  تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اپنے امور میں نظم و ضبط کی رعایت کرو ۔

    نظم وضبط کی اہمیت

    نظم و ضبط آشفتگی کو ختم کر تا ہے

    نو جوانوں کی صحیح نظم و ضبط میں مدد کریں

    نظم و ضبط : وقت سے استفادہ کرنے کا بہترین طریقہ

    مرحوم شیخ انصاری کا منظم پروگرام

    نتیجۂ بحث

۷۶

نظم  وضبط  کی  اہمیت

نظم و ضبط اہداف تک پہنچنے کے لئے ایک بہترین وسیلہ ہے اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے آپ منظم پروگرام تشکیل دے کر اپنی زندگی کے لمحات کو خوشگوار اور پر ثمر بنا سکتے ہیں۔ کو شش اور مصمم ارادے سے ایک صحیح اور منظمپروگرام تشکیل دے کر اس پر عمل کریں ، صحیحمنشور پر عمل انسان کو منظم ، متعہد اور انجام دیئے جا نے والی چیز کا معتقد بنا تا ہے کو شش کریں کہ زندگی کا ہر کام آپ کے منظم پروگرام کے مطابق ہوتا کہ اپنی زندگی کے لمحات سے بہتر طور پر استفادہ کر سکیں اور زندگی میں سر خرو ہوں۔ یہ وہ راستہ ہے کہ تاریخ کے عظیم ترین افراد نے جس کی پیروری کی اور اس کے پابند رہے آپ بہی ان کے راستے کو منتخب کریں اور کسی بہی لمحے خدا پسند ، منظم اور صحیح آئین کی تشکیل اور اس پر عمل پیرا ہو نے میں غفلت نہ کریں جس حد تک ممکن ہو ، کوشش کریں کہ آ پ کا آئین و منشور اور پروگرام خاندان وحی و عصمت  علیہم السلام کے حیات بخش مکتب کی ترویج کا باعث ہو س صورت میں آپ اپنے سر پر ان ہستیوں کاکریمانہ شفیقانہ ہاتہ محسوس کریں گے ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  نے اپنے زندگی کے آخری لمحات میں اپنے تمام فرزندوں ، اہل خانہ اور ہر اس شخص کو یہ وصیت فرمائی ، کہ جو ان کی اس وصیت سے مطلع ہو جائے ، انہوں نے فرمایا کہ کاموں میں نظم و ضبط کی رعایت کریں اور منظم پروگرام بنا کر اپنی زندگی کو کامیاب بنائیں ۔ '' قال امیر المو منین : عند وفاته للحسن و الحسین علیهما السلام ، اوصیکما و جمیع ولدی و اهلی و من بلغه کتابی بتقوی اللّٰه ونظم امرکم ''(1)

حضرت امیر المومنین نے اپنی وفات کے وقت امام حسن اور حسین  سے فرمایا کہ : آپ ، میرے تمام فرزندوں اور اہل و عیال اور ہر اس شخص کو کہ جس تک میرا یہ فرمان پہنچے یہ وصیت کر تا ہوں کہ تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اپنے امور میں نظم و ضبط  رکہو    ۔یہ کا ئنات کے پہلے امام امیر المو منین علی  کا پیغام ہے کہ جس سے نظم و ضبط کی اہمیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ نہج البلاغہ ، مکتو ب  7: 4 ، بحا ر الا نوار:ج 75ص  4 2

۷۷

نظم و ضبط  آشفتگی کو ختم کر تا ہے

جب آپ اپنی زندگی کے امور اور کاموں میں نظم و ضبط رکہتے ہوں اور پختہ ارادے سے اس پر عمل کریں تو آپ بہت سے باطنی تضاد اور بے حاصلسو چ  و فکر سے نجات پاجائیں گے ۔

نظم و ضبط عدم تضاد اور افراد کی آراء و افکار میں اختلاف کی بہترین دلیل ہے ۔ حکومتوں یا اداروں کے منشور میں اختلاف حکومتی یا اداری نظام میں نظم و ضبط کے نہ ہونے کی واضح دلیل ہے جہاں بڑے یا چہوٹے اجتماع میں اختلاف ہو وہاں نظم وضبط نہیں ہو تا ہر جگہ نظم ہونا چاہئے کیو نکہ یہ اس جگہ پر قدرت تدبیر کے موجود ہونے کا پتہ دیتا ہے کائنات کے نظام میں موجود نظم ، اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا نظام ایک منظم تدبیر کے تحت چل رہا ہے ۔ اگر آپ نظام کائنات میں دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ جس طرح کائنات کے چہوٹے چہوٹے ذرات میں نظم ہے ۔اسی طرح کہکشانوں میں نظم ہے انیسو یں صدی کے وسط میں انسان کو ذرات کے بارے میں تحقیقات سے کچہ معلومات حاصل ہوئی کہ ذ رات کے اندر بہی ایک نظم و قا نون کا رفرما ہے کہ جس میں تعطل نہیں ہو تا ، ایٹم میں مو جود الیکٹرون ہر سکینڈ میں تین کاٹر یلیون مرتبہ ایٹم کے گرد گردش کر تا ہے کہ کوئی چیزبہی اس گردش کو نہیں روک سکتی ۔

لوہے کے ایک ذرّے میں موجود الیکٹرون بہی ہر سکینڈ میں تین کاٹریلیون مرتبہ اپنے مر کزکے گرد گردش کر تا ہے ۔

۷۸

جب لوہے کو اس قدر حرارت دیں کہ وہ گیس میں تبدیل ہو جائے تو پہر بہی الیکٹرون تین کاٹریلیون(۳۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰) مرتبہ ایٹم کے گرد گردش کرے گا ۔

فقط ایک صورت میں ممکن ہے کہ اس دائمی حرکت کو مختل کیا جا سکتا ہے کہ جب ایٹم کو توڑ دیا جائے اس صورت میں الیکٹرون اپنے مرکز سے دور ہو جائے گا ۔ لیکن یہ نہیں کہ وہ حرکت نہیں کر ے گا بلکہ اس صورت میں وہ ایک جدید مرکز و مدار کے گرد گردش شروع کرے گا ۔

جس قانون و نظام کے تحت الیکٹرون ، ایٹم کے گرد اتنی تیزی سے حرکت کر تاہے اسی طرح زمین ، سورج کے گرد اور سورج تمام ستاروں کے گرد اور یہ سب کہشاں اور کہشاں کسی دیگر چیز کے گرد گردش کر  تے ہیں کہ جس سے ہم آگاہ نہیں ہیں لیکن اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں کہ وہ بہی گردش کرتے ہیں ۔

کائنات کا یہ عجیب نظم اس بات کی دلیل ہے کہ امر خلقت میں کسی قسم کی آشفتگی نہیں ہے کیو نکہ اگر اس میں تضاد و آ شفتگی ہو تی تو کائنات کا نظم درہم برہم ہو جاتا ہے ۔

امام صادق (ع) مفضل سے فرماتے ہیں :

'' والتضاد لا یأتی بالنّظام '' (1)

تضاد سے نظم و جود میں نہیں آتا  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحا را لا نوار:ج 3 ص  3 6

۷۹

جس طرح خلقت کائنات میں نظم اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کی تدبیر میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اسی طرح چہوٹے ، بڑے اجتماعات میں نظم ، ان میں عدم اختلاف کی دلیل ہے پس نہ صرف خلقت کے مسئلہ میں بلکہ جس مورد میں  بہی نظم کی ضرورت ہو وہاں کسی صاحب تدبیر شخص کی بہی ضرورت ہو تی ہے ، پس تضاد و اختلاف اس امر کی دلیل ہے کہ وہاں کوئی تدبّر کے ذریعہ نظم قائم کرنے والا نہیں ہے ۔

اس بناء پر اختلاف و تضاد کو رفع کر نے کے لئے عملی پروگراموں  میں نظم بر قرار رکہیں اور فردی واجتماعی زندگی سے اختلافات کاقلع قمع کریں ۔

صرف اجتماعی و خانوادگی پروگراموں  میں ہی  نظم و ضبط افکار میں عدم تضاد کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ شخصی پروگراموں  میں بہی نظم وضبط کے وجود پر دلالت کر تا ہے کہ انسان کی زندگی میں تضاد و آشفتگی نہیں ہے اور یہ ایک منظم آئین کی پیرو ی کر رہا ہے ۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ انسان کی زندگی تضاد سیبہری پڑی ہے ۔ مختلف نفسانی افکار خواہشات اور عقلی  دستورات انسان میں تضاد ایجاد کر تے ہیں بہت سے موارد میں افکار میں آشفتگی اور مشوش ہونا انہی تضاد کی وجہ سے ہے ایسے تضاد کبہی باعث بنتے ہیں کہ انسان کام کو چہوڑ دے اور اپنی زندگی حوادث کے سپرد کر دے ۔

نظم و برنامہ ایسے تضاد و اضطرا بات کو ختم کر تا ہے اور افکار و تخیلات کی تشویش کو ایک صحیح منشور  کی راہ دکہاتا ہے وقت گزرنے کے ساتہ مضطرب فکر کو ایک صحیحآئین و منشور کا سایہ فراہم ہو جا تا ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

ساتھ منسلك ہونا ہے وہ قاضى جو نامشروع اور فاسق و فاجر حكومت سے منسلك ہو وہ طاغوت اور ناحق ہے_

ثانياً اس آيت سے پہلے والى دو آيات ميں صرف قاضى كى طرف رجوع كرنے كا ذكر نہيں ہے بلكہ ان ميں قاضى اور سلطان كے فيصلے اور قضائي و حكومتى امور دونوں كے متعلق تنازعات كا ذكر ہے _ الله تعالى سورہ نساء كى آيت ۵۸ميں فرماتا ہے :

( ''ان الله يأمركم ا ن تُؤدُّوا الا مانات الى ا هلها و اذا حكمتم بين النّاس ا ن تحكُمُوا بالعَدل'' )

بے شك خدا تمھيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچا دو اور جب لوگوں كے در ميان كوئي فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _

اس فيصلہ كرنے ميں سلطان ، والى اور قاضى كا فيصلہ بھى شامل ہے _ اور اس كے'' قاضى كے فيصلہ'' ميں منحصر ہونے كى كوئي دليل نہيں ہے _ اس آيت كى رو سے ہر حاكم انصاف كے ساتھ فيصلہ كرنے كا پابند ہے چاہے وہ قاضى ہو يا حاكم و والى _

اسى سورہ كى آيت ۵۹ ميں خدا فرماتا ہے :

( ''اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و ا ولى الا مر منكم فان تَنازَعتم فى شيئ: فردّوه الى الله والرسول'' )

الله كى اطاعت كرو اور رسول (ص) كى اطاعت كرو اور اپنے ميں سے صاحبان امر كى پھر اگر تمھارا آپس ميں كسى بات پر اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول (ص) كى طرف پلٹا دو _

رسول اور اولى الامر كى اطاعت صرف شرعى احكام اور قضاوت ميں منحصر نہيں ہے _بلكہ ان كے حكومتى اوامر و نواہى بھى اس ميں شامل ہيں يعنى وہ احكام اور اوامر جو ''والي'' حاكم ہونے كے عنوان سے صادر كرتا ہے

۲۰۱

_ بنابريں اس روايت ميں طاغوت كى طرف رجوع كرنے كى ممانعت ميں_ كہ جس پر اس روايت ميں سورہ نساء كى آيت(۶۰) سے استدلال كيا گيا ہے _ ان دو آيات كے قرينہ كى بناپر ''طاغوتى حاكم ''اور'' طاغوتى قاضي'' دونوں شامل ہيں نہ كہ صرف طاغوتى قاضى _

۳_ امام اس كے راہ حل كيلئے شيعہ فقيہ كو بعنوان حاكم مقرر فرما رہے ہيں _'' انّى قد جعلته عليكم حاكماً '' ( ميں نے اسے تم پر حاكم مقرر كيا ہے ) يہ تقرر، قضاوت اور ولايت و حكومت دونوں ميں ہے_ كيونكہ مذكورہ بالا دو مقدموںكى رو سے سلطان اور قاضى دونوں كى طرف رجوع كرنے كے متعلق پوچھا گيا ہے_(۱)

شيخ انصارى نے كتاب ''قضاء و شہادات'' ميں امام كے قول ''انى قد جعلتہ عليكم حاكما'' سے يہ استنباط كيا ہے كہ فقيہ كى ولايت قضاوت اور تنازعات ميں منحصر نہيں ہے بلكہ اس سے عام ہے _ بالخصوص اس چيز كے پيش نظر كہ سياق عبارت كا تقاضا يہ تھا كہ امام يہ فرماتے: ''انّى قد جعلته عليكم حَكَماً ''حضرت امام صادق نے ''حَكَما''(۲) كى بجائے ''حاكم'' كا لفظ استعمال كر كے اس نكتہ كى وضاحت كى ہے كہ فقيہ عادل كے احكام كا دائرہ نفوذ، قضاوت اور تنازعات تك محدود نہيں ہے بلكہ تمام امور ميں اس كے احكام نافذ ہيں _ يعنى ہر وہ كلى يا جزئي حكم جس ميں امام اور سلطان مداخلت كا حق ركھتے ہيں _ ان كى طرف سے مقرر كردہ حاكم بھى ان ميں ولايت اور تسلط ركھتا ہے شيخ انصارى فرماتے ہيں:_

''ثم ان الظاهر من الروايات المتقدمة ، نفوذ حكم الفقيه فى جميع خصوصيات الاحكام الشرعية و فى موضوعاتها الخاصة ، بالنسبة الى ترتب الاحكام عليها _

____________________

۱) ''كتاب البيع ''امام خمينى ،جلد ۲، صفحہ ۴۷۶، ۴۷۹_

۲) حَكَم يعنى فيصلہ كرنے والا _

۲۰۲

لان المتبادر عرفاً من لفظ ''الحاكم'' هو المتسلّط على الاطلاق، فهو نظير قول السلطان لاهل بلدة: ''جعلت فلاناً حاكماً عليكم'' حيث يفهم منه تسلّطه على الرعيّة فى جميع ما له دخل فى اوامر السلطان جزئياً او كلياً ''و يؤيده العدول عن لفظ ''الحكم'' الى ''الحاكم'' مع ان الانسب بالسياق حيث قال : ''فارضوا به حكما ''ان يقول:'' فانى قد جعلته عليكم حكما'' (۱)

سند كے حوالے سے اس روايت ميں كوئي خاص مشكل نہيں ہے كيونكہ عمر ابن حنظلہ كے علاوہ اس روايت كے تمام راوى توثيق شدہ ہيں _ مشكل صرف عمر ابن حنظلہ كے سلسلہ ميں ہے كہ علماء كى طرف سے اس كى توثيق نہيں ہوئي _ ليكن يہ مشكل بھى درج ذيل وجوہات كى بناپر باقى نہيں رہتى _

الف : عمر ابن حنظلہ بہت مشہور آدمى تھے _ اور انہوں نے كثرت سے روايات نقل كى ہيں اور زرارہ ، ہشام ابن سالم ، صفوان ، عبدالله ابن بكير اور عبدالله ابن مسكان جيسے امام كے جليل القدر صحابہ نے ان سے روايات نقل كى ہيں اور ان بزرگوں كانقل كرنا اور كثير الرواية ہونا ان كے قابل و ثوق ہونے كى دليل ہے _

ب: كافى ميں ايك روايت موجود ہے جس ميں امام صادق عليہ السلام نے عمر ابن حنظلہ كى تعريف كى ہے(۲)

____________________

۱) القضاء و الشہادات صفحہ ۴۸، ۴۹ _عبارت كا مفہوم پہلے بيان ہوچكاہے ( مترجم )_

۲) على ابن ابراہيم، محمد ابن عيسى سے ،وہ يونس سے، اور وہ يزيد ابن خليفہ سے نقل كرتے ہيں : وہ كہتے ہيں ،ميں نے امام صادق سے عرض كيا : عمر ابن حنظلہ نے'' وقت'' كے متعلق آپ سے روايت كى ہے امام صادق فرمايا: وہ ہم پر جھوٹ نہيں بولتا ...كافى جلد ۳ صفحہ ۲۷۵ باب وقت الظہر و العصر حديث ۱_

۲۰۳

سب سے اہم بات يہ ہے كہ اس روايت پر علماء نے عمل كيا ہے اور اسے قابل قبول سمجھا ہے اسى وجہ سے اس كا نام ''مقبولہ عمر ابن حنظلہ ''پڑ گيا ہے _ شہيد ثانى نے عمر ابن حنظلہ كى وثافت پر تاكيد كرتے ہوئے اس روايت كو علماء كيلئے قابل قبول قرار ديا ہے _فرماتے ہيں :

و عمر بن حنظلة لم ينصّ الأصحاب فيه بجرح و لا تعديل ، و لكن أمره عند سهل ; لأنّى حقّقت توثيقه من محلّ آخر و إن كانوا قد أهملوه ، و مع ما ترى ف هذا الإسناد قد قبل الأصحاب متنه و عملوا بمضمونه ، بل جعلوه عمدة التفقّه ، واستنبطوا منه شرائطه كلّها ، و سمّوه مقبولّا (۱)

علماء كى طرف سے عمر ابن حنظلہ كے بارے ميں كوئي واضح جرح و تعديل واقع نہيں ہوئي ليكن يہ امر ميرے لئے بہت سہل و آسان ہے _ چونكہ ميں نے ايك دوسرے ذريعہ سے ان كى توثيق ثابت كردى ہے _ اگرچہ علماء نے اس كے بارے كچھ نہيں كہا _ اور اس سند كے باوجود علماء نے اس روايت كے متن كو قبول كيا ہے، اس كے مضمون پر عمل كيا ہے بلكہ اسے تفقہ كا ايك اہم ذريعہ قرار ديا ہے اور اس كى تمام شرائط كا اس سے استنباط كيا ہے _ اور اس كا نام مقبولہ ركھا ہے _

____________________

۱) الرعاية لحال البداية فى علم الدراية صفحہ ۱۳۱، اس بارے ميں مزيد تحقيق كيلئے شہيد ثانى كے فرزند صاحب معالم كى كتاب منتقى الجمان'' جلد ۱، صفحہ۱۹ كى طرف رجوع كيجئے_ شہيد ثانى كے علاوہ سيد جعفر مرتضى عاملى بھى ابن حنظلہ كى روايت كو صحيح سمجھتے ہيں اور آيت الله سيد محمد على موحد ابطحى كہتے ہيں: ہم نے اپنى كتب رجاليہ ميں ابن حنظلہ كى وثاقت كى ادلّہ ذكر كى ہيں اور ہم نے ان ميں ذكر كيا ہے كہ امام باقر ، امام صادق اور امام كاظم عليہم السلام كے موثق اصحاب نے ان سے روايات نقل كى ہيں ان ميں سے ايسے اصحاب بھى ہيں جو قابل وثوق افراد كے سوا كسى سے روايت نقل نہيںكرتے _ مثلاً صفوان ابن يحيى اور يہى دليل يزيد ابن خليفہ كے متعلق بھى جارى كى جاسكتى ہے (رسالہ فى ثبوت الہلال صفحہ ۷۷)_

۲۰۴

ج: مشہورہ ابى خديجہ :

شيخ طوسى امام صادق كے ايك قابل اعتماد صحابى جناب ابى خديجہ سے درج ذيل روايت كو نقل كرتے ہيں اور اس روايت سے بھى امور عامہ ميں فقيہ كى ولايت كو ثابت كيا گيا ہے_

''محمد بن حسن إسناده عن محمّد بن على بن محبوب، عن أحمد بن محمّد، عن حسين بن سعيد، عن أبى الجَهْم، عن أبى خديجة، قال: بعثنى أبو عبد الله (ع) إلى أصحابنا فقال: ''قل لهم : إيّاكم إذا وقعتْ بينكم الخصومة أو تَدَارَى فى شى ء من الا خذ والعطاء أن تحاكموا إلى أحد من هولاء الفُسّاق_ اجعلوا بينكُم رجلاً قد عرف حلالنا و حرامَنا; فانّى قد جعلتُه عليكم قاضياً و ايّاكم أن يُخاصم بعضكم بعضاً إلى السّلطان الجائر'' (۱)

محمد ابن حسن اپنے اسناد كےساتھ محمد ابن على ابن محبوب سے ، وہ احمد ابن محمد سے ، وہ حسين ابن سعيد سے، وہ ابى جہم سے، اور وہ ابى خديجہ سے نقل كرتے ہيں :

وہ كہتے ہيں : مجھے امام صادق نے اپنے ماننے والوں كے پاس بھيجا اور فرمايا:

ان سے كہہ دو كہ جب تمھارے در ميان كوئي جھگڑا ہوجائے _ يالين دين كے معاملہ ميں كوئي تنازع ہوجائے تو اسے حل كرنے كيلئے خبردار كسى فاسق حاكم كے پاس مت جانا اپنے در ميان ايك ايسے شخص كو مقرر كرو جو ہمارے حلال اور حرام سے واقف ہو، ميں اسے تم پر قاضى مقرر كرتاہوں _ خبردار اپنے جھگڑے ليكر فاسق وفاجر حاكم كے پاس مت جانا _

اس روايت سے فقيہ كى ولايت عامہ پر استدلال بہت حد تك مقبولہ عمر ابن حنظلہ كے استدلال سے

____________________

۱) وسائل الشيعہ جلد ۲۷ ، صفحہ ۱۳۹، باب ۱۱ _ از ابواب صفات قاضى حديث ۶_

۲۰۵

قريب ہے _ كيونكہ اس روايت ميں بھى اپنے تنازعات كے سلسلہ ميں نہ صرف فاسق و فاجر قاضيوں كے پاس جانے سے منع كيا گيا ہے بلكہ حاكم اور سلطان كے پاس جانے سے بھى منع كيا گياہے _ اور اس كى بجائے فقيہ عادل كے پاس جانے كى تاكيد كى گئي ہے _

امام خمينى اس روايت سے استدلال كرتے ہوئے فرماتے ہيں :

روايت ميں مذكور جملہ '' تدارى فى شئي '' سے مراد ''معاملاتى اختلافات'' ہيں يعنى اپنے معاملاتى اختلافات اور ايك دوسرے كے خلاف دعاوى ميں فساق كى طرف رجوع نہ كرو اور بعد والے جملہ '' كہ ميں نے تمھارے لئے قاضى مقرر كيا ہے '' سے معلوم ہوتا ہے كہ فسّاق سے مراد وہ قاضى ہيں جو اس وقت كے ناجائز حكمرانوں كى طرف سے منصب قضاوت پر فائز تھے _ اور حديث كے ذيل ميں فرماتے ہيں: و اياكم ان يخاصم بعضكم بعضاً الى السلطان الجائر _ يعنى وہ امور جن كا تعلق ''اجرائي طاقت '' سے ہے ان ميں ان حكّام كى طرف رجوع نہ كرو ، اگر چہ فاسق سلطان كلى طور پر ايك ناجائز طاقت ہے اور تمام غير اسلامى حكمران ، اسى طرح قاضى ،قانون بنانے والے، اوراس قانون كا اجرا كرنے والے تينوں اس ميں شامل ہيں، ليكن يہ ديكھتے ہوئے كہ ابتدا ميں ہى فاسق قاضيوں كے پاس جانے سے منع كرديا گيا ہے لہذا يہ ممانعت دوسرے گروہ يعنى قانون كا اجرا كرنے والوں كے سلسلہ ميں ہے _ آخرى جملہ اسى پہلے جملہ كى تكرار '' يعنى فساق كى طرف رجوع كرنے كى ممانعت'' نہيں ہے _ كيونكہ ابتدا ميں ان امور ميں فاسق قاضى كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا گيا ہے جو اس كے ساتھ مربوط ہيں _ مثلاً بازپرسى اور گواہى و غيرہ پھر امام نے خود قاضى كو مقرر كيا ہے اور اپنے ماننے والوں كا فريضہ بيان كيا ہے اور آخر ميں امام نے سلاطين كى طرف رجوع كرنے سے روكا ہے_(۱)

____________________

۱) ولايت فقيہ ، صفحہ ۸۲_

۲۰۶

عظيم فقيہ شيخ مرتضى انصارى معتقد ہيں كہ قاضى كو منصب قضاوت پر قرار دينا قاضى كے دائرہ اختيارات كو صرف جھگڑوں كا فيصلہ كرنے تك محدود نہيں كرتااور ائمہ معصومين كے زمانہ ميں منصب قضاوت وسيع تر اختيارات كاحامل ہوتا تھا،يعنى قاضى بہت سے امور عامہ كے انتظام كا ذمہ دار ہوتا تھا لہذا يہ روايت امور عامہ ميں فقيہ كى ولايت كو ثابت كرتى ہے_ اور ہمارے زمانے كى اصطلاحى قضاوت تك محدود نہيں ہے_

''المتبادر من لفظ ''القاضي'' عرفاً: من يُرجَع اليه و ينفذ حكمه و الزامه فى جميع الحوادث الشرعيّة كما هو المعلوم من حال القضاة ، سيّما الموجودين فى ا عصار الا ئمّة عليهم السلام من قضاة الجور _ و منه يظهر كون الفقيه مرجعاً فى الامور العامّة ، مثل الموقوفات وا موال اليتامى والمجانين والغيّب ; لا نّ هذا كلّه من وظيفة القاضى عرفاً'' (۱)

لفظ قاضى سے عرفاً ذہن ميں اس شخص كا تصور آتا ہے جس كا حكم تمام شرعى مسائل ميں نافذ العمل ہے_ جيسا كہ قضاوت كے حالات سے معلوم ہے_ خصوصاً سلاطين ظلم وجور كے مقرر كردہ وہ قاضى جو ائمہ معصومين كے دور ميں موجود تھے_ اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ فقيہ امور عامہ كا بھى ذمہ دار ہے_ مثلا موقوفات ، يتيموں ، ديوانوں اور غائب افراد كے اموال وغيرہ_ كيونكہ عرفاً يہ تمام قاضى كے فرائض ميں شامل ہيں_

____________________

۱) القضاء و الشہادات صفحہ ۴۹_

۲۰۷

ياد رہے : امام عليہ السلام كے صرف اس جملہ ''انى قد جعلتہ عليكم قاضياً ''سے سياسى ولايت پر استدلال نہيں كيا جاسكتا _ اور وہ جو شيخ انصارى نے كہا ہے وہ قضاوت كے علاوہ امور حسبيہ ميں ولايت ہے_ اس بنا پر ولايت عامہ پر مقبولہ عمر ابن حنظلہ كى دلالت مشہورہ ابى خديجہ كى دلالت سے واضح اور روشن تر ہے_ كيونكہ اس ميں فقيہ كو '' منصب حكومت'' پر بھى مقرر كيا گيا ہے جبكہ مشہورہ ابى خديجہ ميں صرف منصب قضاوت پر مقرر كيا گيا ہے_ البتہ روايت ابى خديجہ ميں سلطان كى طرف رجوع كرنے كى ممانعت اس بات كى دليل ہے كہ شيعوں كو اس قسم كے امور ميں بھى سلطان كى بجائے فقيہ كى طرف رجوع كرنا چاہيے_ اگر چہ مقبولہ عمر ابن حنظلہ كى طرح اس كى دلالت اس قدر واضح نہيں ہے_

۲۰۸

خلاصہ :

۱) ولايت فقيہ پر دلالت كرنے والى روايات ميں سے اصلى روايت '' مقبولہ عمر ابن حنظلہ''ہے_

۲) اس حديث ميں شيعوں كو نہ صرف فاسق حكومت كے قاضيوں، بلكہ فاسق حكمرانوں كى طرف رجوع كرنے سے بھى منع كيا گيا ہے_

۳) اس حديث ميں امام نے شيعوں كو پابند قرار ديا ہے كہ وہ فاسق حكمران اور قاضى كى بجائے فقيہ كى طرف رجوع كريں اور اسى كو ''حاكم ''قرار ديا ہے_

۴)اس روايت ميں كوئي سندى مشكل نہيں ہے كيونكہ اس كے تمام راوى ثقہ ہيں اور عمر ابن حنظلہ كى اگر چہ براہ راست توثيق نہيں كى گئي ليكن ان كى روايت علماء كے نزديك قابل قبول ہے_

۵)ولايت فقيہ كى روائي ادلّہ ميں سے ايك روايت '' مشہورہ ابى خديجہ ''بھى ہے اور اس كا طرز استدلال مقبولہ عمر ابن حنظلہ كے طرز استدلال سے بڑى حدتك ملتا جلتا ہے_

۶) ولايت فقيہ پر '' مقبولہ عمر ابن حنظلہ '' كى دلالت '' مشہورہ ابى خديجہ ''كى دلالت سے واضح تر ہے_كيونكہ ''مقبولہ '' ميں فقيہ كو براہ راست ''حاكم '' قرار ديا گيا ہے _

۲۰۹

سوالات :

۱) شيعوں كے كس ممتاز فقيہ نے ''فقيہ كى ولايت عامہ'' پر'' مقبولہ عمر ابن حنظلہ'' سے استدلال كيا ہے؟

۲)ولايت فقيہ پر بطور مختصر'' مقبولہ عمر ابن حنظلہ'' سے استدلال كيجيئے؟

۳) عمر ابن حنظلہ كى براہ راست توثيق نہيں كى گئي _ اس سندى مشكل كو كس طرح حل كيا جائے گا؟

۴) مشہور ہ ابى خديجہ سے فقيہ كى ولايت عامہ پر استدلال كيجيئے؟

۵) منصب قضاوت پر فائز فقيہ كے دائرہ اختيارات كے متعلق شيخ انصارى كا كيا نظريہ ہے؟

۶)فقيہ كى ولايت عامہ پر'' مشہورہ ابى خديجہ'' كى دلالت ''مقبولہ عمر ابن حنظلہ'' كى دلالت كى نسبت وضاحت كے لحاظ سے كيوں كمتر ہے؟

۲۱۰

بائيسواں سبق:

ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ -۳-

عمر ابن حنظلہ اور ابى خديجہ كى روايات ميں امام نے فقيہ كيلئے ''منصب ''قرار ديا ہے اور جيسا كہ گذشتہ سبق كے آخر ميں اشارہ كرچكے ہيں : عمر ابن حنظلہ كى روايت ميں بيان كئے گئے منصب كا دائرہ اختيار بہت وسيع ہے كيونكہ اس ميں فقيہ كو منصب ''حاكميت ''پر مقرر كيا گيا ہے اورابى خديجہ كى روايت ميں منصب قضاوت پر_ اگر چہ مشہورہ ابى خديجہ ميں بھى قضائي اور حكومتى دونوں قسم كے امور ميں شيعوں كو فاسقوں كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا گيا ہے _ اس سے يہ اشارہ ملتا ہے كہ حكومتى امور ميں بھى شيعوں كو'' فقيہ عادل'' كى طرف رجوع كرنا چاہيے_ جيسا كہ پہلے گزر چكا ہے كہ'' منصوب كرنے'' اور ''وكالت ''ميں بنيادى فرق ہے لہذا فقيہ عادل كا ولايت كى مختلف اقسام پر فائز ہونا ، جن كا ان دو روايات سے استفادہ ہوتا ہے_ امام عليہ السلام كى زندگى كے ساتھ مشروط نہيں ہے_ جبكہ اس كے بر عكس وكالت موكل كى وفات كے ساتھ ختم ہوجاتى ہے_چونكہ بعد والے امام اور معصوم نے اس منصب كو ختم نہيں كيا ہے لہذا فقيہ عادل اس منصب ولايت پر باقى ہے_

۲۱۱

ولايت انتصابى كے متعلق كچھ ابہامات كا جواب :

ان دو روايات ميں موجود'' انتصاب'' كے متعلق كچھ ابہامات اور سوالات اٹھائے گئے ہيں_ يہاں ہم انہيں اختصار كے ساتھ بيان كرتے ہيں_

۱_ شيعہ معتقدہيں كہ امام صادق اور ان كے بعد ان كے معصوم فرزند، امت كے امام ہيں_ لہذا امام معصوم كے ہوتے ہوئے فقيہ عادل كو ولايت پر منصوب كرنے كا كيا مطلب ہے ؟كيا ايسا ممكن ہے كہ جس زمانہ ميں امام معصوم موجود ہيں_ اور ولايت عامہ كے حامل ہيں _ كوئي دوسرا شخص يا افرادان كى طرف سے ولايت عامہ كے حامل ہوں_

جواب : امام معصوم كى موجودگى ميں كسى كو ولايت پر منصوب كرنا اسى طرح ہے _ جس طرح كوئي صاحب اختيار حكمران دوسرے شہروں ميں اپنے نمايندے مقرركرتا ہے_ كيا مسلمانوں كے امور كے انتظام كيلئے رسولخد ا (ص) نے مدينہ سے دور دوسرے شہروں ميں اپنے نمائندے نہيں بھيجے تھے؟ جس طرح امير المؤمنين كو يمن بھيجا تھا_ يا خود امير المؤمنين نے مالك اشتر كو مصر اور چند دوسرے افراد كو مختلف علاقوں كا والى اور حاكم بنا كر بھيجا تھا_ بنابريں اس ميں كيا حرج ہے كہ امام صادق اپنے زمانہ ميں ان شيعوں كے امور كى سرپرستى كيلئے جو آپ (ع) سے دور رہتے ہيں اور تقيہّ يا طولانى سفر كى وجہ سے آپ كے پاس نہيں آسكتے_ ايك فقيہ عادل كو مقرر كريں _ اور اپنى طرف سے اسے امت پر ولايت عطا كريں؟

۲_ خود امام صادق بسط يد نہيں ركھتے تھے اور امت پر ولايت عامہ كا اجر انہيں كر سكے تو كيسے مان ليا جائے كہ ان كى طرف سے مقرر كردہ شخص يعنى فقيہ عادل ''ولايت عامہ'' كا حامل ہے؟

جواب :يہ ہے كہ ولايت دوسروں كے امور ميں جواز اور اولويت تصرف كے سوا كوئي چيز نہيں ہے_

۲۱۲

ولايت پر منصوب كرنے كا معنى اس تصرف كو قانونى اور شرعى جواز عطا كرنا ہے_ فقيہ عادل كو ولايت پر منصوب كرنے كا معنى يہ ہے كہ صاحب ولايت اور وہ ذات جس كے ہاتھ ميں امر ولايت اور اس كى مشروعيت كا اختيار ہے كى طرف سے فقيہ عادل ان تصرفات ميں زيادہ حق ركھتا ہے_ اور اس قسم كے تصرفات پر اس كى ولايت مشروع اور حق ہے_ چاہے يہ تصرفات قضاوت اور امور حسبيہ ميں ہوں يا امت كى سرپرستى اور تمام امور عامہ تك اس كا دائرہ اختيار وسيع ہو_

ولايت پر منصوب ہونا ،اور جسے منصوب كيا گيا ہے ولايت كے عملى كرنے ميں اس كے ہاتھوں كا كھلا ہونا، دو مختلف چيزيں ہيں_ عملى طور پر ولايت كو بروئے كار لانا اور اس سے متعلقہ امور كو انجام دينا وسائل اور امكانات كے تابع ہے_ كبھى ولايت كے اصلى حامل يعنى امام معصوم كيلئے ولايت كے اعمال اور ذمہ داريوں كو بروئے كار لانے كيلئے ماحول سازگار نہيں ہوتا _ اور اس كى شرائط و امكانات فراہم نہيں ہوتے_ ليكن اس كا معنى يہ نہيں ہے كہ امام كى ولايت ختم اور لغو ہوگئي ہے_ كيونكہ منصب ولايت پر فائز ہونا اور خارج ميں اس كا عملى وجود دو الگ الگ چيزيں ہيں_ علاوہ بريں امام كے زمانہ ميں ولايت كو بروئے كار لانے كى راہيں كلى طور پر مسدود نہيں تھيں_ يعنى محجور اور مبسوط اليد ہونا دو نسبى امر ہيں_ امام كى طرف سے مقرر كردہ شخص اگرچہ اس حالت ميں نہيں تھا كہ وہ شيعوں كے امور عامہ كى سرپرستى كرے ليكن ان كے امور قضائي اور امور حسبيہ كى سرپرستى كرنے كى قدرت ركھتا تھا _ ان دو روايات سے پتہ چلتاہے كہ امام فقيہ عادل كيلئے ولايت عامہ كو ثابت سمجھتے تھے، اور اسے اپنى طرف سے مقرر فرماتے تھے_ اب اس ولايت كو بروئے كار لانے ميں فقيہ كى بے بسى اور اختيار ايك دوسرا امر ہے جو حالات و شرائط كے تابع ہے_

۳_ امور مسلمين كى ولايت پر سب فقہاء كومنصوب كرنا ہرج و مرج اور اختلال نظام كا باعث بنتا ہے_

۲۱۳

چونكہ فرض يہ ہے كہ ان دو روايات كى بنا پر فقيہ عادل شيعوں كے امور كى سرپرستى كرتا ہے_ دوسرى طرف مقرر كردہ فقہاء كى تعداد معين نہيں ہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ ايك ہى وقت ميں سينكڑوں جامع الشرائط فقيہ عادل موجود ہوں _ كيا يہ معقول ہے كہ ايك ہى وقت ميں سب فقہاء منصب ولايت كے بالفعل حامل ہوں _ لہذا اس مشكل كو ديكھتے ہوئے اس انتصاب كے دائرہ اختيار كى محدوديت كے قائل ہونے كے سوا كوئي چارہ نہيں ہے اور ضرورى ہے كہ ان دو روايات ميں فقيہ كى ولايت كو ''قضاوت'' ميں منحصر قرار ديں_

جواب : يہ ہے كہ اس نكتہ كى ہم پہلے وضاحت كرچكے ہيں كہ ولايت پر منصوب ہونے اورعملى طور پر افعال و اعمال كو بجالانے ميں واضح فرق اور ہر ايك كى اپنى مخصوص شرائط اور خصوصيات ہيں_ فقيہ كى ولايت انتصابى كا معنى يہ ہے كہ ہر جامع الشرائط فقيہ منصب ولايت و نيابت كا حامل ہے اور اس كے متعلقہ امور ميں اس كے احكام اور تصرفات، شرعى لحاظ سے معتبر ہيں اس كا يہ معنى نہيں ہے كہ ہر وہ مورد جس ميں ''ولايت فقيہ '' كے حكم كى ضرورت ہو اس ميں تمام فقہاء اپنى نظرديں اور حكم صادر كرديں_ جس طرح ايك شہر ميں اگر پچاس قاضى موجود ہوں اور تحقيق كيلئے كيس كى فائل ايك كے پاس آئے تو دوسرے قاضى اس ميں مداخلت نہيں كرتے_ اور ايك قاضى كا اس كيس كو اپنے ہاتھ ميں لے لينا دوسروں كو فيصلہ صادر كرنے سے روك ديتا ہے_اسى طرح فقيہ عادل كا ولايت كا حامل ہوناذمہ دارى كو اس كى طرف متوجہ كرتا ہے اور لوگوں پر ايك فريضہ عائد ہو جاتا ہے _ لوگ پابند ہيں كہ اپنے معاملات ميں فقيہ عادل كى طرف رجوع كريں، طاغوت سے منہ پھير ليں ، اور اسلامى معاشرہ كے امور كى باگ ڈور كسى غير اسلام شناس كے ہاتھ ميں نہ ديں بلكہ فقيہ عادل اور امين كے ہاتھ ميں ديں_ فقيہ عادل كا بھى يہ فرض ہے كہ جب شرائط مكمل ہوں ، حالات سازگار ہوں اور لوگ اس كى طرف رجوع كريں تو وہ اس الہى فريضہ كو پورى طرح نبھائے _ اب اگر صاحب ولايت، فقيہ كى طرف لوگ

۲۱۴

رجوع كرتے ہيں ياا ہل حل و عقد كے انتخاب كے ذريعہ لوگوں كے امور كى سرپرستى اس كے ہاتھ ميں دے دى گئي ہے تو دوسرے فقہا ء كا فريضہ ساقط ہوجاتا ہے _ بنابريں تمام جامع الشرائط فقہاء منصب ولايت كے حامل ہيں اور ايك فقيہ عادل كے امور كى سرپرستى اپنے ذمہ لينے سے دوسرے فقہاء كى ذمہ دارى ختم ہوجاتى ہے _

دوسرے لفظوں ميں ہر فقيہ كے كسى امر ميں تصرف كا جواز اس بات كے ساتھ مشروط ہے كہ دوسراكوئي فقيہ اس كام ميں اپنى ولايت كو بروئے كار نہ لارہا ہو _ اس صورت ميں كسى قسم كا اختلال نظام لازم نہيں آتا _ اختلال نظام اس وقت لازم آتا ہے جب ولايت كے عہدہ پر فائز تمام فقہاء عملى اقدامات شروع كرديں_

ولايت فقيہ كى تائيد ميں مزيدروايات

ان تين روايات كے علاوہ جو اب تك ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے پيش كى گئي ہيں دوسرى روايات بھى ہيں جن سے استدلال كياگيا ہے البتہ دلالت اور سند كے لحاظ سے يہ اُن روايات كى مثل نہيں ہيں ليكن اس كے باوجود فقيہ كى ولايت عامہ كى تائيد كے عنوان سے ان سے تمسك كيا جاسكتا ہے _ ہم يہاں اختصار كے طور پر انہيں بيان كرتے ہيں _

۱_ صحيحہ قدّاح :

على ابن ابراهيم عن ابيه عن حماد بن عيسي، عن القدّاح (عبدالله بن ميمون)، عن أبى عبدالله (عليه السلام) قال: قال رسول الله (ص) : '' مَن سلك طريقاً يطلب فيه علماً، سلك الله به طريقاً الى الجنّه و انّ العلماء ورثة الانبيائ،إنّ الانبياء لم يُورثُوا ديناراً و لا درهماً

۲۱۵

و لكن ورّثوا العلم; فَمَن أخذ منه أخذ بحَظّ وافر'' (۱)

على ابن ابراہيم اپنے والد سے ، وہ حماد ابن عيسى سے اور وہ قداح ( عبدالله ابن ميمون) سے اور وہ امام صادق سے نقل كرتے ہيں كہ رسول خدا (ص) نے فرمايا: ''جو طلب علم كيلئے نكلتا ہے خدا اس كيلئے جنت كى راہ ہموار كرديتا ہے بے شك علماء انبياء كے وارث ہيں انبيائ كاورثہ درہم و دينار نہيں ہوتے بلكہ ان كا ورثہ '' علم'' ہے _ جس نے اس سے كچھ پاليا گويا اس نے بہت بڑا حصہ لے ليا ''_

اس روايت كى سند صحيح ہے _ اور اس كے تمام رواى ''ثقہ ''ہيں _بعض فقہا مثلاً '' عوائد الايام'' ميں ملا احمد نراقى اورولايت فقيہ ميں امام خمينى نے ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے اس روايت سے تمسك كيا ہے اس روايت سے استدلال كى كيفيت يہ ہے كہ اس كے جملہ''العلماء ورثة الانبيائ'' كے مطابق فقہا اور علمائے دين ،رسول خدا (ص) كى تمام قابل انتقال خصوصيات ميں آپ (ص) كے وارث ہيں اور ان خصوصيات اور ذمہ داريوں ميں سے ايك '' امت كى سرپرستى اورحاكميت '' بھى ہے _ علماء كيلئے انبياء كى وراثت صرف علم تك محدود نہيں ہے كيونكہ يہ وراثت مطلق ہے _ صرف وہ خصوصيات جو كسى خاص دليل كے ذريعہ مقام نبوت كے ساتھ مخصوص ہيں وراثت ميں نہيں آئيں گئيں_ البتہ اس روايت ميں ايك احتمال يہ ہے كہ پہلے اور بعد والے جملوں كو ديكھتے ہوئے اس روايت سے يہ اشارہ ملتا ہے كہ يہ وراثت علم ، احاديث اور معارف انبياء ميں منحصر ہے اور انكى ديگر ذمہ داريوں كو شامل نہيں ہے _ اگر يہ جملات اختصاص اور محدوديت كيلئے قرينہ بن سكتے ہوں تو پھر''العلماء ورثة الانبياء ''كے اطلاق سے تمسك نہيں كيا جاسكتا_(۲)

____________________

۱) كافى جلد ۱ ، صفحہ ۴۲ ، باب ثواب العالم و المتعلم حديث۱_

۲) ولايت فقيہ، امام خميني، صفحہ ۸۶، ۹۲_

۲۱۶

۲_ مرسلہ صدوق :

شيخ صدوق نے اپنى مختلف كتب ميں اس روايت كو نقل كيا ہے :

قال امير المؤمنين(ع) قال رسول الله (ص) : ''اللهمّ ارحم خلفائي'' _ ثلاث مرّات: _ قيل : يا رسول الله ، و مَن خلفاؤك؟ قال: '' الّذين يأتون من بعدى يروون عنّى حديثى و سُنّتي'' (۱)

اميرالمؤمنين فرماتے ہيں: رسولخدا (ص) نے تين مرتبہ فرمايا: اے پروردگار ميرے خلفاء پر رحم فرما _پوچھا گيا اے الله كے رسول (ص) آپ كے خلفا ء كون ہيں ؟ فرمايا :وہ افراد جو ميرے بعد آئيں گے اور ميرى حديث اور سنت كو نقل كريںگے_

شيخ صدوق نے اپنى متعدد كتب ميں اس روايت كو معصوم كى طرف نسبت دى ہے اور بطور مرسل نقل كيا ہے_ مراسيل صدوق بہت سے علماء كيلئے قابل اعتبار ہيں خصوصاً اگر انہيں بطور جزم معصوم كى طرف نسبت ديں_ بہت سے فقہاء مثلاً صاحب جواہر ، ملا احمد نراقى ، صاحب عناوين يعنى مير عبد الفتاح مراغى ، آيت الله گلپائيگانى اور امام خمينى نے ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے اس روايت سے استدلال كيا ہے _ كيفيت استدلال اس طرح ہے _

الف: رسول خدا (ص) وحى ، اس كے ابلاغ ، عصمت اور علم الہى جيسى خاص صفات سميت قضاوت ، تنازعات كے فيصلے اور اسلامى معاشرے كے امور كى سرپرستى ايسى خصوصيات كے بھى حامل تھے _ آنحضرت (ص) كى بعض خصوصيات دوسروں كى طرف منتقل ہونے كى صلاحيت ركھتى ہيں _ قضاوت اور اسلامى معاشرہ كى سرپرستى انہى خصوصيات ميں سے ہيں جو دوسروں كى طرف منتقل ہوسكتى ہيں _

____________________

۱) عيون اخبار رضا ،جلد ۲، صفحہ ۳۷، باب ۳۱،حديث ۹۴_ من لايحضرہ الفقيہ، جلد ۴، صفحہ ۴۲۰_ معانى الاخبار، صفحہ ۳۷۴_

۲۱۷

ب : اس روايت كى رو سے آنحضرت (ص) نے ايك گروہ كو اپنے خلفاء كے عنوان سے مورد لطف و دعا قرار ديا ہے اس گروہ كيلئے آنحضرت (ص) كى جانشينى ،قابل انتقال صفات ميں ہے اور ان صفات ميں امت كے امور كى سرپرستى يقينا شامل ہے _

ج: ''خلفائي'' كى تعبير مطلق ہے اور ائمہ معصومين ميں منحصر نہيں ہے بنابريں خلفاء بلاواسطہ ( ائمہ(ع) ) اور خلفاء بلواسطہ ( علمائ) دونوں اس ميں شامل ہيں _

د: جملہ ''الذين يأتون من بعدى يروون حديثى و سنّتى '' سے مراد عام راوى اور محدثين نہيں ہيں_ بلكہ وہ راوى مراد ہيں جو روايات ميں تفقہ اور سمجھ بوجھ بھى ركھتے ہوں _ پس يہ تعبير صرف امت كے فقہا اور علماء كى شان ميں ہے نہ كہ ہرر وايت كرنے والے كى شان ميں _(۱)

۳_ ''غرر الحكم و دررالكلم ''ميں امير المومنين حضرت على سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا:

''العلماء حُكّامٌ على الناس'' (۲)

علماء لوگوں پر حاكم ہيں _

اسى مضمون كى ايك روايت كراجكى مرحوم نے ''كنزالفوائد'' ميں امام صادق سے بھى نقل كى ہے آپ (ص) فرماتے ہيں :

''الملوك حُكّامٌ على النّاس وا لعلمائُ حُكّامٌ على الملوك'' (۳)

بادشاہ لوگوں پر حاكم ہوتے ہيں اور علماء بادشاہوں پر حاكم ہوتے ہيں _

____________________

۱) كتاب البيع، امام خمينى جلد ۲ ، صفحہ ۴۶۸_۴۷۰_

۲) غرر الحكم، آمدى جلد ۱ صفحہ ۱۳۷و ۵۰۶_

۳) كنزالفوائد جلد ۲ صفحہ ۳۳_

۲۱۸

ولايت فقيہ پر اس روايت كى دلالت واضح ہے ليكن سندى ضعف كى وجہ سے اسے ولايت فقيہ كے مؤيّدات ميں سے شمار كيا ہے _

۴_ ابن شعبہ حرانى نے '' تحف العقول'' ميں امر بالمعروف و نہى عن المنكر كے متعلق امام حسين كا ايك خطبہ نقل كيا ہے جس ميں آپ نے اپنے دور كے علماء كو متنبہ كرتے ہوئے فرمايا ہے كہ تمھارے مقام و منزلت كو غاصبوں نے غصب كرليا ہے _ مسلمانوں كے امور كى سرپرستى تم علماء امت كے ہاتھ ميں ہونى چاہيئے _ امام فرماتے ہيں :

''و أنتم أعظم النّاس مصيبة ً كما غلبتم عليه من منازل العلماء لو كنتم تشعرون; ذلك بأنّ مجارى الأمور والاحكام على أيدى العلماء بالله و الاُمناء على حلاله و حرامه فأنتم المسلوبون تلك المنزلة و ما سلبتم ذلك الا بتفرّقكُم عن الحقّ واختلافكم فى السنّة بعد البيّنة الواضحة_ و لو صبرتم على الاذى و تحمّلتم المؤونة فى ذات الله كانت أمور الله عليكم ترد، و عنكم تصدر، و اليكم ترجع و لكنّكُم مكّنتم الظلمة من منزلتكم'' (۱)

تم سب سے زيادہ مصيبت زدہ ہو اگر تمہيں كچھ شعور ہو تو جا ن لو كہ تمھارے مقام و مرتبہ پر تسلط قائم كر ليا گياہے_ امور كى تدبير اور احكام كا اجرا ان علماء ربانى كے ہاتھ ميں ہوتا ہے جو خدا كے حلال وحرام كے امين ہوتے ہيں پس تم سے يہ مقام و مرتبہ چھين ليا گيا _ اور اس كى وجہ يہ ہے كہ تم نے حق سے منہ پھيرليا ،واضح دليل آنے كے باوجود تم نے سنت ميں اختلاف

____________________

۱) تحف العقول عن آل الرسول (ص) جلد ۱، صفحہ ۲۳۸_

۲۱۹

كيا ،اگر تم تكليف پر تھوڑا ساصبر كرليتے اور خدا كى راہ ميں مصائب برداشت كرتے تو امور الہى تمہارى طرف پلٹاديئے جاتے، تم ان كے سرپرست ہوتے، اور تمھارى طرف رجوع كيا جاتا _ ليكن تم نے اپنا مقام و مرتبہ ظالموں كے حوالے كرديا _

اس روايت كى دلالت مكمل ہے ليكن گذشتہ روايت كى طرح سندى مشكل سے دوچار ہے اسى لئے ولايت فقيہ كے مؤيدات ميں شامل ہے _ ان كے علاوہ دوسرى روايات بھى ہيں جنہيں ہم طوالت سے بچنے كيلئے ذكر نہيں كررہے _

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367