اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143989 / ڈاؤنلوڈ: 3624
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

(7) نقطہ ضعف کامل

انَّ الْاِنْسٰانَ خُلِقَ هَلُوعًا o وَاِذَا مَسّه الشَّرُّ جُزُوعًا o وَاِذا مَسَّهُ الخَیْرُ مَنُوعًا o (سوره مبارکه معارج،١٩-٢١)

ترجمہ:

بے شک انسان بڑا لالچی ہے۔ جب تکلیف پہنچ جاتی ہے تو فریادی بن جاتا ہے۔ اور جب مال مل جاتا ہے تو بخیل ہوجاتا ہے علاوہ نمازیوں کے۔

پیغام:

اگر انسان اپنا تزکیہ نفس نہ کرے تو اس میں حیوانی صفات پیدا ہوجاتی ہیں مشکلات میں جلد رنجیدہ اور خوشحالی میں ناشکرا ہوجاتا ہے۔ صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ اور دوسروں کو آزار و اذیت پہنچانے سے رنجیدہ خاطر نہیں ہوتا۔ انسان کے نقاط ضعف کا حل خدا سے رابطہ ہے اور خدا سے رابطہ کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔

(8) امتحان

اِنَّا جَعَلْنٰا مٰا عَلٰٰی الأَرْضِ زِیْنَةً لَهٰا لَنَبْلُوَهُمْ أَیُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلا- (سوره مبارکه کهف،٧)

۱۲۱

ترجمہ:

بے شک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دے دیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں سے عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے۔

پیغام:

گھر، باغ وغیرہ زمین کی زینت ہیں لیکن ایک انسان کی زینت اس کا ایمان ہے دنیا کی ظاہری زینت کے حصول کی خاطر معنوی زینت کو قربان نہ کریں دنیا کی زندگی اس بات کا امتحان ہے کہ معلوم ہوجائے کہ کون ظاہری و عارضی زینت اور کون معنوی اور ابدی زینت کا انتخاب کرتا ہے۔

(9) مورد تنقید

و اِنّا اذَا أَذَقْنٰا الاِنْسٰانَ مِنَّارَحْمَةً فَرِحَ بِهٰا---(سوره مبارکه شوریٰ، ٤٨)

ترجمہ:

اور ہم جب کسی انسان کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اکڑ جاتا ہے۔

۱۲۲

پیغام:

ہماری بعض صفات خدا کے تنقید کا نشانہ بنتی ہیں اور اس تنقید کا مقصد ہماری اصلاح کرنا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس تنقید برای اصلاح سے بہرہ مند ہوں اور اپنے اندر موجود ضعیف نقات کی اصلاح کریں تو ہمیں چاہیئے کہ ہم خوشی اور غمی میں خدا کو یاد کریں۔ اور ایسے کاموں کی انجام دہی سے پرہیز کریں جو ہمارے لیے باعث پریشانی ہوں اس لیے کہ بعض برے کاموں کی سزا اسی دنیا میں مل جاتی ہے۔

(10) زندگی کے مراحل

مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَه' فَقَدَّرَ o ثُمَّ أَمَاتَهُ فاقبره- (سوره مبارکه عبس،١٩و ٢١)

ترجمہ:

اُسے نطفہ سے پیدا کیا ہے پھر اس کا اندازمقرر کیا ہے ۔ پھر اُسے موت دے کر دفنا دیا۔

پیغام:

انسان کی زندگی دو مرحلوں پر مشتمل ہے:

اس کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچپنے سے لے کر بڑھاپے اور بڑھاپے سے لے کر برزخی زندگی تک کے مراحل کو طے کرے۔

اور اس کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ آزادی اور مکمل آگاہی کے ساتھ صحیح یا غلط راہ کا انتخاب کرے۔

۱۲۳

(11) اختیار

اِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیْل اِمَّا شَاکِراً وَ اِمَّا کفوراً-(سوره مبارکه انسان ،٣)

ترجمہ:

یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دیدی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے۔

پیغام:

عقل و فطرت ہمیں راہ حق کی طرف ، خواہش نفس اور شیطان ہمیں راہ باطل کی طرف دعوت دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ عقل و خردمندی سے کام لیتے ہوئے صحیح اور درست راہ کاانتخاب کریں۔

(12) انسان کا سوال

وَیَقُولُ الاِنْسٰانُ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَیّاً---(سورئه مبارکه مریم ، ٦٦)

ترجمہ:

اور انسان یہ کہتا ہے کہ کیا جب ہم مرجائیں گے تو دوبارہ زندہ کرکے نکالے جائیں گے۔

۱۲۴

پیغام:

انسان کا یہ اعتراف کہ وہ پہلے نہ تھا اور اب ہے قیامت کے قبول کرنے کے لیے کافی ہے۔

(13) غلط سوچ

أَیَحْسَبُ الْاِنْسٰانُ أَنْ لَنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ---(سوره مبارکه قیامت،٣٨)

ترجمہ:

کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے۔

پیغام:

گرمیوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ درخت خشک ہوجاتے ہیں اور پھر موسم بہار میں یہی درخت سرسبر و شاداب دکھائی دیتے ہیں کیا یہ ہماری موت اور دوبارہ زندگی کے لیے بہترین نمونہ نہیں ہیں؟

(14) جانشین

اِنّی جٰاعِل فِی الْأَرضِ خَلِیْفَة --- وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْأسمٰاء کُلَّهٰا--- (سورهمبارکه بقره،٣٠-٣١)

۱۲۵

ترجمہ:

میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والے ہوں۔ اور خدا نے آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی۔

پیغام:

انسان اشرف المخلوقات بن کر خدا کا جانشین اور خلیفہ بن سکتا ہے۔ انسان کا معلم خود پروردگار ہے اور انسان کمالات الٰہی کی تجلی کا نام ہے۔

(15)شیطان انسان کا دشمن

اِنََّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوّ فَاتَّخِذوه عدوّا-(سوره مبارکه فاطر ، ٦)

ترجمہ:

بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو۔

پیغام:

عقل اور فطرت انسان کو نیکی کی طرف دعوت دیتی ہے جبکہ وسوسہ شیطان اُسے برائی کی ترغیب دیتا ہے اور وسوسہ شیطان یہ ہے کہ برای کو خوبصورت بنا کر انسان کے سامنے پیش کرتاہے لہٰذا انسانوں کو چاہیئے کہ ہوشیاری سے کام لیں تاکہ ظاہری دوست اور حقیقی دشمن کے فریب سے محفوظ رہیں۔

۱۲۶

(16) امانت دار

اِنَّا عَرَضْنٰا الأَمَانَهَ علی السَّماواتِ وَالأَرْضِ وَالْجِِبٰال---(سوره مبارکه احزاب ،٧٢)

ترجمہ:

بے شک ہم نے امانت کو آسمان ، زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا۔

پیغام:

کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کی تسبیح کرتا ہے لیکن انسان معرفت اور آگاہی کے ساتھ عقل و شعور سے استفادہ کرتے ہوئے خدا کی راہ کا انتخاب کرتا ہے اور یہی چیز اس کے کمال تک پہنچنے کا سبب ہے ایسے میں انسان اگر اپنے مقام کو نہ پہچان کر حیوانی زندگی کو ترجیح دے تو کیا وہ ظالم و جابر نہ ہوجائے گا؟

(17) انسان ہوشیار ہوجاؤ

یَا ایُّهَا الْاِنْسَانُ مٰا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ الَّذِیْ خَلَقَک فَسَوّیک فَعَدَلَکَ----(سوره مبارکه انفطار ،٦-٧)

۱۲۷

ترجمہ:

اے انسان تجھے رب کریم کے بارے میں کس شے نے دھوکہ میں رکھا ہے اس نے تجھے پیدا کیا ہے پھر برابر کرکے متوازن بنایا ہے۔

پیغام:

کیا یہ مناسب ہے کہ انسان خدا کی تمام نعمتوں کے سامنے جو اس نے بغیر کسی منت گزاری کے اس کے حوالے کی ہیں ناشکری کرے۔

(18) کائنات انسان کے لیے

وَسَخَّرَ لَکُمْ مٰا فِی السَّمَواتِ وَمٰا فِی الأَرْضِ جَمِیْعًا مِنْهُ---- (سورئه مبارکه جاثیه ،١٣)

ترجمہ:

اور اسی نے تمہارے لیے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے۔

پیغام:

حیوانات اپنی جبلت کے تحت زندگی گزارتے ہیں جبکہ انسان تمام کائنات میں تصرف کرکے اُسے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے انسان خدا کی قدرت کا جلوہ ہونے کے سبب طبیعت میں تصرف کرتا ہے جیسا کہ آج زمین کی گہرائی آسمان کی بلندی ، پہاڑوں کو چوٹی خشکی و تری سب ہی کے فائدؤں سے بہرہ مند ہے۔

۱۲۸

(19) تلاش و کوشش کا ہدف

یٰا ایُّهٰا الاِنْسٰانُ اِنّک کَادِح اِلی ربِّکَ کَدْحًا فَمُلاقِیه-(سورئه مبارکه انشقاق ، ٦)

ترجمہ:

اے انسان تو اپنے پروردگار کی طرف جانے کی کوشش کرر ہا ہے تو ایک دن اس کا سامنا کرے گا۔

پیغام:

خدا کی طرف حرکت کے کیا معنی ہیں؟

کیا ہم سب کا کمال اور سعادت کی طرف حرکت کرنا اُس کمال مطلق کی طرف حرکت کرنا نہیں ہے؟ زندگی میں ہماری تمام تر کوشش کمال تک پہنچنے کے لیے ہوتی ہے جب کہ بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ مال و دولت کا حصول ہی کمال تک پہنچنا ہے۔ ہم سب ایک دن خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے۔ مومنین اس کی رحمت کے سایے میں اور کفار اس کے غضب کا شکار ہوں گے۔

(20) خطرہ سے ہوشیار

کلّا اِنَّ الاِنْسٰانَ لَیَظْغٰی أَنْ رَأهُ استغنٰی-(سوره مبارکه علق،٦)

ترجمہ:

بے شک انسان سرکشی کرتاہے کہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے۔

۱۲۹

پیغام:

انسان کی بامقصد زندگی کا راز خدا سے رابطہ میں مضمر ہے اگر اس منبع فیض و کرم سے جدا ہوجائے تو پھر در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرگے گا جس کا نتیجہ مختلف جرائم اور فسادات کا مرتکب ہونا ہے۔

(21)نا شکری

وَاِذَا أَنْعَمْنٰا عَلٰی الْاِنْسٰانِ أَعْرَضَ وَنٰأبجانِبه وَ اِذَا مَسَّه الشَرُ فَذُودُعٰاء عَریض- (سوره مبارکه فصلت، ٥١)

ترجمہ:

اور جب ہم انسان کو نعمت دیتے ہیں تو ہم سے کنارہ کش ہوجاتا ہے اور پہلو بدل کر الگ ہوجاتا ہے اور جب برائی پہنچ جاتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔

پیام:

عارف انسان خوشحالی اور تنگ دستی میں بھی ہمیشہ خدا کی یاد میں رہتا ہے۔

۱۳۰

نویں فصل(عورت)

۱۳۱

(1) معنوی مساوات

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰاتِ وَ المْؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنٰات--- (سوره مبارکه احزاب، ٣٥)

ترجمہ:

بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورت اور مومن مرد اور مومن عورتیں۔۔۔

پیغام:

واضح رہے کہ جہاں بھی خدا نے نیک صفات اور فضیلت و برتری کی بات کی ہے وہاں مرد اور عورت کو ایک ہی انداز سے یاد کیا ہے اس لیے کہ نیکی کا تعلق روح انسان ہے اور اُس میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اس آیت میں ان دس صفات حمیدہ کا ذکر کیا ہے جو مرد اور عورت میں یکساں پائی جاتی ہیں۔

(2) خلقت میں مساوات

یٰا ایُّهَا النَّاسُ اِنّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ و أُنْثیٰ---(سوره مبارکه حجرات ، ١٣)

ترجمہ:

انسانو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔

۱۳۲

پیغام:

تمام انسان خلقت کے اعتبار سے مساوی ہیں اور ان میں رنگ و نسل ، قوم قبیلے اور مرد اور عورت کے اعتبار سے کوئی امتیازی فرق نہیں ہے۔

انسان کی فضیلت اس کے اُس روحانی کمال سے وابستہ ہے جسے وہ اپنے ارادہ و اختیار سے حاصل کرتا ہے اور اس میں مرد اور عورت یکساں ہیں۔

(3) دورِ جاہلیت میں۔

وَ اِذَا بَشر احدُهُم بِالأُنْثیٰ ظلَّ وَجْهُهُ-(سوره مبارکه نحل، ٥٨)

ترجمہ:

اور جب خود ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے۔

پیغام:

دور جاہلیت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اُن سے لڑکیوں کا وجود برداشت نہیں ہوتا تھا، قرآن کریم اس نادانی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی مذمت کرتا ہے۔

لڑکا یا لڑکی ہونا خدا کی حکمت سے وابستہ ہے اور اس سلسلے میں ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

۱۳۳

(4) معاشرتی مسائل میں

یٰا أَیُّهَا النَّبِی اِذَا جائُ کَ المُؤمِناتُ یُبَایُعَنکَ ---(سوره مبارکه ممتحنه، ١٢)

ترجمہ:

پیغمبر (ص) اگر ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لیے آئیں۔۔۔

پیغام:

عورتیں بھی مردوں کی طرح انبیاء کی دعوت کے انتخاب میں مکمل آزاد ہیں دور جاہلیت میں عورتوں کو حق انتخاب حاصل نہ تھا اور وہ آزادانہ تھیں۔ قرآن کریم نے اس عقیدہ جاہلیت کی مخالفت کرتے ہوئے پیغمبر اسلام (ص) کی بیعت کے دوران عورتوں کو بیعت کا مستقل حق دے کر انہیں اس بات کی اجازت دی کہ وہ اجتماعی اور معاشرتی مسائل میں حصہ لے سکتی ہیں۔

(5) حجاب میں

یٰا أَیُّهَا النَّبِیْ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَناتِکَ ونِسَائُ المُؤمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَا بیبِهِنَّ ---(سورئه مبارکه احزاب، ٥٩)

۱۳۴

ترجمہ:

اے پیغمبر آپ اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادر کو اپنے اوپر لٹکائے رہا کریں۔۔۔

پیغام:

حجاب پاکدامنی کی طرف ایک قدم ہے اللہ تعالیٰ نظام خانوادہ کو پسند کرتا ہے اور بے حجابی اور بے حیائی اس نظام کو تباہ و برباد کردیتی ہے اور مرد و عورت کو گناہ کی ترغیب دیتی ہے۔

اسلام مرد اور عورت کے روابط کے سلسلے میں نہ افراط اور نہ تفریط کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس سلسلے میں میانہ روی سے کام لینے کا حکم دیتا ہے۔

(6) مورد خطاب

فَقُلْنٰا یٰا اٰدَمُ اِنَّ هٰذا عَدُّو لَکَ وَلِزَوْجِکَ---فَبدَتْ لَهُمٰا سَؤاتْهُمٰا--- (سورئه مبارکه طه، ١٢٠)

ترجمہ:

تو ہم نے کہا کہ آدم یہ تمہارا اور تمہاری زوجہ کا دشمن ہے۔۔۔پس اُن کا آگا پیچھا ظاہر ہوگیا۔۔۔

۱۳۵

پیغام:

توریت اور انجیل نے حضرت حوا کو حضرت آدم کے فریب کھانے کا اصلی عامل قرار دیا ہے جب کہ قرآن نے دونوں سے یکساں خطاب کیا ہے اور وہی خطاب آج بھی دنیا کے تمام مردوں اور عورتوں سے ہے کہ شیطان تم دونوں کا دشمن ہے اور چاہتا ہے کہ تم دونوں کو دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم کردے لہٰذا ہوشیار رہو۔

(7) کافروں کے لئے مثال

ضَرَبَ اللّٰه مثلاً لِلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاتَ نوحٍ وامْرتَ لوط--(سوره مبارکه تحریم، ١٠)

ترجمہ:

خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کے لیے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال بیان کی ہے۔

پیغام:

انسان ہدایت اور گمراہی کے راستہ کے انتخاب میں آزاد ہے اور اس مرحلہ میں مرد اور عورت کی کوئی قید نہیں ہے جیسا کہ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہم السلام کی بیویوں نے پیغمبروں کی بیویاں ہونے کے باوجود ضلالت و گمراہی کا راستہ انتخاب کیا، اللہ تعالیٰ نے یہاں جب کافر انسانوں کا تذکرہ کیا تو کافر عورتوں کی مثال پیش کی ہے اس لیے کہ ہدایت اور گمراہی کا تعلق انسان کے ارادہ سے ہے اس میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں ہے۔

۱۳۶

(8) نمونہ عمل

رَبَّنَا اِنّی أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَتِیْ----(سوره مبارکه ابراهیم، ٣٧)

ترجمہ:

پروردگار میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو چھوڑ دیا ہے۔

پیغام:

حضرت ہاجرہـ حضرت ابراہیم ـ کے قدم بہ قدم صبر و استقامت اور اطاعت خداوندی کا پیکر اتم بنی ہوئی تھیں۔

حضرت ہاجرہـ کے صبر و استقامت نے اپنے شوہر اور بیٹے کے لیے بت شکنی اور کمال سعادت تک پہنچنے کے لیے راستہ ہموار کیا۔

حج کے بہت سے واجب اعمال حضرت ہاجرہـ کی فداکاری کی یاد میں انجام دیئے جاتے ہیں۔ یعنی نمونہ عمل کے لیے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔

(9) صاحبان ایمان کے لیے مثال

وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْراَت فِرْعَوْنَ---(سوره مبارکه تحریم، ١١)

ترجمہ:

اور خدا نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے۔۔۔

۱۳۷

پیغام:

اللہ تعالیٰ نے جب صاحبان ایمان کے لیے مثال پیش کرنا چاہی تو کسی نبی کا انتخاب نہ کیا بلکہ حضرت آسیہ علیہا السلام (زن فرعون) کو نمونہ کے طور پر پیش کیا۔

ظلم و ستم کا صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا ایک نیک صفت ہے چاہے وہ صفت مرد میں پائی جاتی ہو یا عورت میں۔

(10) خدا سے ہم کلام

وَ أَوْحَیْنَا اِلٰی اُمّ مُوْسٰی أَنْ أَرْ ضِعیه--- فَالقیه فِی الْیَمْ--- (سوره مبارکه قصص،٧)

ترجمہ:

اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنے بچے کو دودھ پلاؤ۔۔۔ اور اسے دریا میں ڈال دو۔

پیغام:

فرشتہ صاحبان ایمان سے ہم کلام ہوتا ہے چاہے وہ مرد ہوں یا عورت جناب موسیٰ جیسے اولی العزم نبی نیز تمام لائق اور شائستہ انسان اپنی والدہ کی تربیت کے مرہون منت ہیں۔

حضرت امام خمینی ایک مقام پر فرماتے ہیں ''قرآن بھی انسانوں کی تربیت کرتا ہے اور عورت بھی انسانوں کی تربیت کرتی ہے'' اور یہ چیز عورت کے بلند و بالا مقام و منزلت کے بیان کے لیے کافی ہے۔

۱۳۸

(11) بہادر بہن

وَقَالَتْ لأُختِه قصّیهِ فَبَصُرَت بِه عَنْ جُنُب ---(سوره مبارکه قصص ،١١)

ترجمہ:

مادر موسیٰ نے ان کی بہن سے کہا کہ تم بھی ان کاپیچھا کرو۔۔۔

پیغام:

جناب موسی ـ کی بہن نے بے خوف و خطر اپنے وظیفہ پر عمل کیا۔

تاریخ میں عورتیں ہمیشہ ظلم و ستم کے خلاف جہاد کرتے ہوئے اپنی شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔

انہوں نے اپنے ایمان کی طاقت سے خدا کے ارادہ کو عملی کردکھایا تاکہ جناب موسی ـزندہ رہیں اور فرعون صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔

(12) محنت کش بہنیں

وَ َجَد مِنْ دونِهِمْ امرآتین تذودان---(سورئه مبارکه قصص ، ٢٣)

۱۳۹

ترجمہ:

اور اُن سے الگ دو عورتوں کو اور دیکھا جو جانوروں کو روکے کھڑی تھیں۔۔۔

پیغام:

عورتیں بھی مردوں کی طرح زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے کام کاج کرتی ہیں جس طرح جناب شعیب ـ کی لڑکیاں کام کرتی تھیں۔

عورتوں کے لیے کام کرنا کوئی عیب نہیں ہے البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کی عفت و پاکیزگی پر کوئی آنچ نہ آئے جیسا کہ مرد کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس طرح کام کرے کہ حرام میںمبتلا نہ ہو۔

(13) فساد پھیلانے والی

وَ رَاوَدَتْه' الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهٰا عَنْ نَفْسِهِ وَ غَلَّقَت، الأَبْوابَ---(سوره مبارکه یوسف، ٢٣)

ترجمہ:

اور اس نے ان سے اظہار محبت کیا جس کے گھر میں یوسف رہتے تھے اور دروازے بند کردیئے۔

پیغام:

فاسد انسان دوسروں کے بھی فساد کا سبب بنتا ہے اور اس میں مرد اور عورت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ شیطان سب کو بھڑکاتا ہے مرد اور عورت دونوں ہی کو شیطان سے ہوشیار رہنا چاہیئے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

خلاصہ :

۱) امام (ع) نے بعض روايات ميں فقيہ كو منصب عطا كيا ہے _ اور امام (ع) كے زمانہ حضور اور غيبت دونوں ميں يہ منصب ان كے پاس ہے_

۲) امام كا ولايت كليہ كا حامل ہونا ،بعض امور ميں شيعوں كو فقہاء كى طرف رجوع كرنے كا حكم دينے سے مانع نہيں ہے _

۳) امام صادق نے اس دور ميں فقہاء كو ولايت پر منصوب كيا جب آپ اپنے اختيارات استعمال كرنے ميں بے بس تھے _ اور اس سے كوئي مشكل پيدا نہيں ہوتى كيونكہ نصب ولايت اور ولايت كو بروئے كار لانا ،دو الگ الگ چيزيں ہيں _

۴)فقيہ كى ولايت انتصابى كى ادلّہ پر بعض افراد كا اعتراض يہ ہے كہ امام كى طرف سے فقہا كو ولايت كا حاصل ہونا معاشرتى نظام كے مختل ہونے اور خرابى كا باعث بنتا ہے _

۵) ايك ہى واقعہ ميں مختلف فقہا كا ولايت كو بروئے كار لانا اختلال نظام كا موجب بنتا ہے نہ ان كامنصب ولايت _

۶) بعض روايات ضعف سند يا عدم وضاحت كى وجہ سے ولايت فقيہ كے مؤيّدات كے زمرہ ميں آتى ہيں_

۷) وہ روايات جو علماء اور فقہاء كو انبياء (ع) كا وارث اور رسول خدا (ص) كا خليفہ قرار ديتى ہيں فقيہ كى ولايت كى دليل ہيں كيونكہ معاشرے كے امور كى تدبير اور ولايت بھى انبياء كى صفات ميں سے ہيں_

۲۲۱

سوالات :

۱) ''فقيہ كى ولايت انتصابى ''كا نظريہ كن اعتراضات اور ابہامات سے دوچار ہے ؟

۲) اگر ہر فقيہ عادل ''منصب ولايت'' كا حامل ہو تو كيا اختلال نظام كا باعث بنتا ہے ؟

۳) كيا وہ امام معصوم جو خود بے بس ہو وہ كسى اور كو ولايت عامہ پر منصوب كرسكتا ہے ؟

۴) روايت''اللهم ارحم خلفائي ''سے فقيہ كى ولايت پر استدلال كيجيئے _

۵) روايت ''العلماء ورثة الانبياء '' كس طرح فقيہ كى ولايت پر دلالت كرتى ہے ؟

۲۲۲

تيئيسواں سبق :

ولايت فقيہ پر عقلى دليل

ہم گذشتہ چند اسباق ميں ولايت فقيہ كى اصلى ترين ادلّہ روائي پر نظر ڈال چكے ہيں اب ولايت فقيہ پر قائم عقلى ادلّہ كى تحقيق و بررسى كرتے ہيں _

ہمارے علماء نے ہميشہ نبوت اور امامت كى بحث ميں عقلى ادلّہ سے استدلال كيا ہے '' برہان عقلى '' عقلى اور يقينى مقدمات سے تشكيل پاتا ہے _ يہ مقدمات چار خصوصيات يعنى كليت ، ذاتيت، دوام اور ضرورت كے حامل ہونے چاہي ں_

اسى وجہ سے ان سے جو نتيجہ حاصل ہوتا ہے وہ بھى كلى ، دائمى ، ضرورى اور ذاتى ہوتا ہے اور كبھى بھى جزئي يا افراد سے متعلق نہيں ہوتا_ اسى وجہ سے نبوت اور امامت كے متعلق جو برہان قائم كئے جاتے ہيں وہ كسى خاص شخص كى نبوت يا امامت كے متعلق نہيں ہوتے _ اور نہ ہى كسى خاص فرد كى نبوت يا امامت كو ثابت كرتے ہيں _ بنابريں ولايت فقيہ كے مسئلہ ميں بھى وہ عقلى دليل جو خالصةً عقلى مقدمات سے تشكيل پاتى ہے جامع الشرائط

۲۲۳

فقيہ كى اصل ولايت كو ثابت كرتى ہے _اور يہ كہ كونسا ''فقيہ جامع الشرائط ''اس ولايت كا حامل ہو ؟يہ ايك جزئي اور فردى امر ہے لہذا اس كا تعيّن عقلى دليل سے نہيں ہوگا _ (۱)

دليل عقلى كى دو قسميں ہيں _

الف: عقلى محض ب: عقلى ملفّق

دليل عقلى محض وہ دليل ہے جس كے تمام مقدمات خالصةً عقلى ہوں اور ان ميں كسى شرعى مقدمہ سے استفادہ نہ كيا گيا ہو _

دليل عقلى ملّفق يا مركب وہ دليل عقلى ہے جس كے بعض مقدمات شرعى ہوں مثلاً آيات يا روايات يا كسى شرعى حكم سے مدد لى گئي ہو اور اس برہان كے تمام مقدمات خالصةً عقلى نہ ہوں _ولايت فقيہ كے باب ميں ان دونوں قسم كى عقلى ادلّہ سے استدلال كيا گيا ہے _ ہم بھى اس سبق ميں بطور نمونہ دونوں قسموں سے ايك ايك نمونہ ذكر كريں گے _

ولايت فقيہ كى عقلى ادلّہ كے بيان كرنے سے پہلے دو نكات كا ذكر كرنا ضرورى ہے _

اس ميں كوئي مانع نہيں ہے كہ عقلى دليل كا نتيجہ ايك شرعى حكم ہو _كيونكہ عقل بھى شرعى احكام كے منابع ميں سے ہے اور شارع مقدس كى نظر كو كشف كرسكتى ہے _ علم اصول ميں مستقلات عقليہ اور غير مستقلات عقليہ پر تفصيلى بحث كى گئي ہے اور علماء علم اصول نے بتايا ہے كہ كن شرائط پر عقل شرعى حكم كو كشف كرسكتى ہے _ شرعى حكم كے استنباط ميں عقلى دليل كا بھى وہى كردار ہے جو دوسرى شرعى ادلّہ كا ہے شارع مقدس كى نظر كو كشف كرنے

____________________

۱) ولايت فقيہ، عبدالله جوادى آملى ،صفحہ ۱۵۱_

۲۲۴

ميں عقلى دليل كا قابل اعتبار ہونا اپنى جگہ پر ثابت ہوچكا ہے بنابريں ولايت فقيہ پر '' دليل عقلى محض'' مستقلات عقليہ كى قسم سے ہے اور مستقلات عقليہ ميںكسى نقلى دليل سے مدد نہيں لى جاتى _

دوسرا نكتہ: يہ ہے كہ امامت اور نبوت پر قائم عقليدليل كى تاريخ بہت پرانى ہے _ ليكن ولايت فقيہ پر عقلى دليلبعد والے ادوار ميں قائم كى گئي ہے _ محقق نراقى پہلے شخص ہيں جنہوں نے ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے عقلى دليل كا سہارا ليا ہے پھر ان كے بعد آنے والے فقہاء نے اسے آگے بڑھايا ہے _ مختلف طرز كى عقلى ادلّہ كى وجہ ان كے مقدمات كا مختلف ہونا ہے اور بہت سے موارد ميں ايك مشترك كبرى مثلاً ''قاعدہ لطف ''يا ''حكمت الہى ''سے مدد لى گئي ہے _

ولايت فقيہ پر دليل عقلى محض

نبوت عامہ كى ضرورت پرفلاسفہ كى مشہور برہان كو اس طرح بيان كيا جاسكتا ہے كہ جس كا نتيجہ نہ صرف ''ضرورت نبوت ''بلكہ ''ضرورت امامت'' نيز ''ضرورت نصب فقيہ عادل ''كى صورت ميں سامنے آئے _ يہ برہان جو كہ ''معاشرہ ميں ضرورت نظم ''كى بنياد پر قائم ہے قانون خدا اور اسكے مجرى كے ضرورى ہونے كو ثابت كرتى ہے _ قانون كو جارى كرنے والا پہلے مرحلہ ميں نبى ہوتا ہے اس كے بعد اسكا معصوم وصى اور جب نبى اور امام معصوم نہ ہوں تو پھر ''قانون شناس فقيہ عادل'' كى بار ى آتى ہے _ بوعلى سينا جيسے فلاسفر كہ جنہوں نے اس برہان سے تمسك كيا ہے نے اسے اس طرح بيان كيا ہے كہ وہ صرف ''اثبات نبوت'' اور ''بعثت انبياء كے ضرورى ہونے'' كيلئے كار آمد ہے _(۱)

____________________

۱) الالہيات من الشفاء ،صفحہ ۴۸۷، ۴۸۸_ المقالة العاشرہ، الفصل الثانى _

۲۲۵

ليكن ہمارا مدعا يہ ہے كہ اسے اس طرح بيان كيا جاسكتا ہے كہ امام معصوم كى امامت اور فقيہ عادل كى ولايت كے اثبات كيلئے بھى سودمند ثابت ہو _ اس برہان كے مقدمات درج ذيل ہيں :

۱_ انسان ايك اجتماعى موجود ہے اور طبيعى سى بات ہے كہ ہر اجتماع ميں تنازعات اور اختلافات رونما ہوتے ہيں _ اسى لئے انسانى معاشرہ نظم و ضبط كا محتاج ہے _

۲_ انسان كى اجتماعى زندگى كا نظم و ضبط اس طرح ہونا چاہيے كہ وہ انسانوں كى انفرادى اور اجتماعى سعادت اور كمال كا حامل ہو _

۳_ اجتماعى زندگى كا ايسا نظم و ضبط جو ناروا اختلافات اور تنازعات سے مبرّا اور انسان كى معنوى سعادت كا ضامن ہو وہ مناسب قوانين اور شايستہ مجرى قانون ( قانون جارى كرنے والا) كے بغير ناممكن ہے _

۴_ خدا تعالى كى مداخلت كے بغيرتنہا انسان اجتماعى زندگى كے مطلوبہ نظم و ضبط كے قائم كرنے كى قدرت نہيں ركھتا _

۵_ خدائي قوانين اور معارف الہى كے كسى نقص و تصرف كے بغير مكمل طور پر انسان تك پہنچنے كيلئے ضرورى ہے كہ اس كولانے اور حفاظت كرنے والا'' معصوم ''ہو _

۶_ دين كامل كى تبيين اور اس كے اجرا كيلئے وصى اور امام معصوم كى ضرورت ہے _

۷_ اور جب نبى اور امام معصوم نہ ہوں تو پھر مذكورہ ہدف( مطلوبہ اجتماعى زندگى اور قوانين الہى كا نفاذ ) وحى شناس اور اس پر عمل كرنے والے رہبر كے بغير حاصل كرنا ممكن نہيں ہے _

اس برہان كا چھٹا مقدمہ'' تقرر امام'' كى ضرورت كيلئے سود مند ہے جبكہ ساتواں مقدمہ زمانہ غيبت ميں رہبر كے تقرركى ضرورت كو ثابت كرتا ہے _

۲۲۶

اسى برہان كو آيت ا لله جوادى آملى نے يوں بيان كيا ہے :

انسان كى اجتماعى زندگى اور اس كا انفرادى اور معنوى كمال ايك طرف تو ايسے الہى قانون كا محتاج ہے جو انفرادى اور اجتماعى لحاظ سے ہر قسم كے ضعف و نقص اور خطا و نسيان سے محفوظ ہو اور دوسرى طرف اس قانون كامل كے نفاذ كيلئے ايك دينى حكومت اور عالم و عادل حكمران كى ضرورت ہے _ انسان كى انفرادى يا اجتماعى زندگى ان دو كے بغير يا ان ميں سے ايك كے ساتھ متحقق نہيں ہو سكتى _ اجتماعى زندگى ميں ان دو كا فقدان معاشرہ كى تباہى و بربادى اور فساد و خرابى كا باعث بنتا ہے جس پر كوئي بھى عقلمند انسان راضى نہيں ہوسكتا يہ عقلى برہان كسى خاص زمانہ يا مقام كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _ زمانہ انبيائ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ضرورت نبوت ہے اور آنحضرت (ص) كى نبوت كے بعد والا زمانہ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ضرورت امامت ہے اسى طرح امام معصوم كى غيبت كا زمانہ بھى اس ميں شامل ہے كہ جس كا نتيجہ ''ضرورت ولايت فقيہ ''ہے _(۱)

''دليل عقلى محض ''صرف مذكورہ دليل ميں محدود نہيں ہے بلكہ اس كے علاوہ بھى براہين موجود ہيں جو خالصةً عقلى مقدمات سے تشكيل پاتى ہيں اور زمانہ غيبت ميں نصب ولى كى ضرورت كو ثابت كرتى ہيں _

دليل عقلى ملفق

ولايت فقيہ كى عقلى دليل كو بعض شرعى دلائل اور مقدمات عقليہ كى مدد سے بھى قائم كيا جاسكتا ہے _ يہاں ہم اس طرح كے دو براہين كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

استاد الفقہاء آيت الله بروجردى درج ذيل عقلى اور نقلى مقدمات كى مدد سے فقيہ كى ولايت عامہ كو ثابت كرتے ہيں _

____________________

۱) ولايت فقيہ صفحہ ۱۵۱، ۱۵۲_

۲۲۷

۱_ معاشرہ كا رہبر ايسى ضروريات كو پورا كرتا ہے جن پر اجتماعى نظام كى حفاظت موقوف ہوتى ہے _

۲_ اسلام نے ان عمومى ضروريات كے متعلق خاص احكام بيان كئے ہيں اور ان كے اجرا كى ذمہ دارى مسلمانوں كے حاكم اور والى پر عائد كى ہے_

۳_ صدر اسلام ميں مسلمانوں كے قائد اور راہنما رسول خدا (ص) تھے اور ان كے بعد ائمہ معصومين اور معاشرے كے امور كا انتظام ان كا فريضہ تھا _

۴_ سياسى مسائل اور معاشرتى امور كى تدبير و تنظيم اس زمانے كے ساتھ مخصوص نہيں تھى _ بلكہ ان مسائل كا تعلق ہر زمانہ اور ہر جگہ كے مسلمانوں سے ہے _ ائمہ معصومين كے دور ميں شيعوں كے پراگندہ ہونے كى وجہ سے آسانى كے ساتھ ا ئمہ تك ان كى دسترسى ممكن نہيں تھى _ اس كے باوجود ہميںيقين ہے كہ آپ نے ان كے امور كى تدبير و انتظام كيلئے كسى كو ضرور مقرر كيا ہوگا تا كہ شيعوں كے امور مختل نہ ہوں _ ہم يہ تصور بھى نہيں كرسكتے كہ ايك طرف زمانہ غيبت ميں ائمہ معصو مين نے لوگوں كو طاغوت كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا ہو اور دوسرى طرف سياسى مسائل ، تنازعات كے فيصلے اور دوسرى اجتماعى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے كسى كو مقرر بھى نہ كيا ہو _

۵_ ائمہ معصومين كى طرف سے والى اور حاكم كے تقرر كے ضرورى ہونے كو ديكھتے ہوئے فقيہ عادل اس منصب كيلئے متعين ہے _ كيونكہ اس منصب پر غير فقيہ كے تقرر كا كوئي بھى قائل نہيں ہے _ پس صرف دو احتمال ممكن ہيں _

الف : ائمہ معصومين نے اس سلسلہ ميں كسى كو مقرر نہيں كيا صرف انہيں طاغوت كى طرف رجوع كرنے سے منع كيا ہے _

۲۲۸

ب: اس ذمہ دارى كيلئے فقيہ عادل كو مقرر كيا ہے _

مذكورہ بالا چار مقدمات كى رو سے پہلا احتمال يقينى طور پر باطل ہے _ پس قطعى طور پر فقيہ عادل كو ولايت پر منصوب كيا گيا ہے _(۱)

آيت الله جوادى آملى اس ''دليل عقلى مركب ''كو يوں بيان كرتے ہيں :

دين اسلام كا قيامت تك باقى رہنا ايك قطعى اور واضح سى بات ہے زمانہ غيبت ميں اسلام كا تعطل كا شكار ہوجانا، عقائد ، اخلاق اور اعمال ميں اسلام كى ابديت كے منافى ہے _ اسلامى نظام كى تأسيس ، اس كے احكام اور حدود كانفاذ اور دشمنوں سے اس دين مبين كى حفاظت ايسى چيز نہيں ہے كہ جس كى مطلوبيت اور ضرورى ہونے ميں كسى كو ترديد و شك ہو _ حدود الہى اور لوگوں كى ہتك حرمت ، لوگوں كى ضلالت و گمراہى اور اسلام كا تعطل كا شكار ہوجانا كبھى بھى الله تعالى كيلئے قابل قبول نہيں ہے_ اسلام كے سياسى اور اجتماعى احكام كى تحقيق و بررسى اور نفاذ جامع شرائط فقيہ كى حاكميت كے بغير ممكن نہيں ہے _ ان امور كو ديكھتے ہوئے عقل كہتى ہے : يقينا خداوند كريم نے عصر غيبت ميں اسلام اور مسلمانوں كو بغير سرپرست كے نہيں چھوڑا(۲)

اس دليل كے تمام مقدمات عقلى نہيں ہيں بلكہ اسلام كے اجتماعى اور اقتصادى احكام كے نفاذ ، مثلاًحدود و قصاص ، امر بالمعروف و نہى عن المنكر ، زكات اور خمس سے با صلاحيت حكومت كے وجود پر مدد لى گئي ہے_ لہذا يہ دليل عقلى محض نہيں ہے _

____________________

۱) البدر الزاہر فى صلاة الجمعة و المسافر ۷۳ _ ۷۸

۲) ولايت فقيہہ ص ۱۶۷_ ۱۶۸_

۲۲۹

خلاصہ :

۱) بعض فقہى مسائل ميںعقلى دليل كا سہارا ليا جاتا ہے _ اور دليل عقلى نظر شارع كو كشف كرتى ہے_

۲) دليل عقلى كى دوقسميں ہيں _ ''دليل عقلى محض ''اور'' دليل عقلى ملفق ''دليل عقلى محض مكمل طور پر عقلى اور يقينى مقدمات سے تشكيل پاتى ہے _ جبكہ دليل عقلى ملفق ميں عقلى مقدمات كے علاوہ شرعى مقدمات سے بھى استفادہ كيا جاتا ہے _

۳) بحث امامت اور نبوت ميں دليل عقلى سے استدلال كرنا ايك قديمى اور تاريخى امر ہے _ ليكن ولايت فقيہ كى بحث ميں اس سے استفادہ كرنا بعد كے ادوار ميں شروع ہوا ہے_

۴)وہ دليل جسے فلاسفہ نے نبوت عامہ اور بعثت انبياء كى ضرورت پر پيش كيا ہے اسے اس طرح بھى بيان كيا جاسكتا ہے كہ اس سے امام كى امامت اور فقيہ كى ولايت ثابت ہوجائے _

۵)ولايت فقيہ پر قائم دليل عقلى ملفق كى روح اور جان يہ ہے كہ اسلام ہر دور اور ہر جگہ پر انسان كى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے ہے _ اور جس طرح اسلام كے نفاذ كيلئے امام معصوم كى ضرورت ہے اسى طرح زمانہ غيبت ميں ايك اسلام شناس مجرى قانون كى بھى ضرورت ہے _

۶) دليل عقلى ،امام اور فقيہ كے تقرر كى ضرورت كو ثابت كرتى ہے ليكن كبھى بھى جزئي اور شخصى نتيجہ نہيں ديتى اور اس بات كو مشخص نہيں كرتى كہ امام كون ہوگا _

۲۳۰

سوالات :

۱)'' دليل عقلى محض'' كى تعريف كيجئے_

۲) ''دليل عقلى ملفق يا مركب'' كى تعريف كيجئے _

۳) فقہ ميں دليل عقلى كى كيا حيثيت ہے ؟

۴)ولايت فقيہ پر قائم ايك ''دليل عقلى محض ''كو مختصر طور پر بيان كيجئے_

۵) آيت الله بروجردى نے ولايت فقيہ پر جو دليل عقلى ملفق قائم كى ہے اسے اختصار كے ساتھ بيان كيجئے _

۲۳۱

چوتھا باب:

دينى حكومت كى خصوصيات اور بعض شبہات كا جواب

سبق ۲۴ : فلسفہ ولايت فقيہ

سبق ۲۵:رہبر كى خصوصيات اور شرائط

سبق ۲۶:رہبر كى اطاعت كا دائرہ اور حدود

سبق ۲۷:حكومتى حكم اور مصلحت

سبق ۲۸:حكومتى حكم اور فقيہ كى ولايت مطلق

سبق ۲۹ ، ۳۰ : دينى حكومت كے اہداف اور فرائض

سبق ۳۱، ۳۲ : دينى حكومت اور جمہوريت

۲۳۲

تمہيد:

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر نظريہ ولايت فقيہ كے ساتھ جڑا ہوا ہے _ اور ہمارے سياسى نظام كى بنياد ''ولايت'' پر استورا ہے_گذشتہ باب ميں ہم نے شيعہ فقہا كى كتب سے ولايت كے اثبات اور اس نظرئے كى تاريخى حيثيت پر تفصيلى بحث كى ہے_ اس باب ميں ہم ولائي حكومت كے مختلف پہلووں كى تحقيق، اور اس كى بعض خصوصيات اور اہداف پر روشنى ڈاليں گے حقيقت يہ ہے كہ آج كے دور ميں پورى دنيا ميں سيكولر، اور لبرل جمہورى حكومتيں مقبول عام ہيں جبكہ دينى حكومت اور ولايت فقيہ مختلف قسم كے حملوں كا شكار ہے جسكى وجہ سے ولايت فقيہ اور دينى حاكميت پر مبتنى سياسى نظريہ كے مقابلہ ميں لوگوں كے اذہان سيكولر اور غيردينى سياسى فلسفہ سے زيادہ آشنا اور مانوس ہيں لہذا دينى حكومت اور ولايت فقيہ كے نظريہ كو ثابت كرنے كيلئے ٹھوس اور منطقى ادلہ كى ضرورت ہے_

بعض شبہات اور اعتراضات كى بنيادى وجہ بغض اور كينہ و حسد ہے جبكہ بعض اعتراضات غلط فہمى كى وجہ سے پيدا ہوئے ہيں_ ان دوسرى قسم كے شبہات كے جواب كيلئے استدلالى اور منطقى گفتگو كے علاوہ كوئي چارہ نہيں ہے _ بنابريں اس باب ميں دو بنيادى اہداف ہيں_ ايك طرف ''حكومت ولائي'' كے متعلق پائے جانے والے بعض ابہامات اور شبہات كا جواب ديا جائے گا اور دوسرى طرف دينى حكومت كى بنيادى خصوصيات اور اس كے اہداف كى طرف اشارہ كيا جائے گا_

۲۳۳

چوبيسواں سبق:

فلسفہ ولايت فقيہ

دوسرے معاشروں كى طرف اسلامى معاشرہ بھى سياسى ولايت اور حاكميت كا محتاج ہے جيسا كہ پہلے باب ميں گذرچكاہے كہ انسانى معاشرہ اگرچہ كامل، شائستہ، منظم اور حق شناس افراد سے بھى تشكيل پايا ہو_ تب بھى اسے حكومت اور سياسى ولايت كى ضرورت ہوتى ہے _ كيونكہ اس اجتماع كے امور كى تنظيم و تدبير ايك حكومت كے بغير ناممكن ہے _ وہ شے جو سياسى اقتدار اور ولايت كے وجود كو ضرورى قرار ديتى ہے وہ معاشرے كا نقص اور احتياج ہے_ حكومت اور سياسى اقتدار كے بغير معاشرہ ناقص اور متعدد كمزوريوں كا شكار ہے _ حكومت اور سياسى ولايت كى طرف احتياج اس معاشرہ كے افراد كے ناقص ہونے كى وجہ سے نہيں ہوتي_ بنابريں اگر ہمارے دينى متون ميں فقيہ عادل كيلئے ولايت اور حاكميت قرار دى گئي ہے تو اس كا مقصد فقط اسلامى معاشرہ كے نواقص كا جبران اور تلافى كرنا ہے _ اسلامى معاشرے كى حاكميت، ولايت اور سرپرستى كيلئے فقيہ عادل كے تقرر كا معنى يہ نہيں ہے كہ مسلمان ناقص اوركم فہم ہيں اور انہيں ايك سرپرست كى ضرورت ہے _

۲۳۴

بلكہ يہ انسانى اجتماع اور معاشرے كا نقص ہے كہ جو سياسى اقتدار و ولايت كے تعين سے برطرف ہوجاتاہے_

جيسا كہ تيسرے باب ميں تفصيل سے گذرچكاہے بہت سے شيعہ فقہا زمانہ غيبت ميں اس سياسى ولايت كو جامع الشرائط فقيہ عادل كا حق سمجھتے ہيں، يا اس وجہ سے كہ ادلّہ روائي ميں اس منصب كيلئے فقيہ كا تقرر كيا گيا ہے يا امور حسبيہ كے باب سے كہ ان امور ميں '' فقيہ'' كا حق تصرف قطعى امر ہے اور فقيہ كے ہوتے ہوئے دوسرے افراد ان امور كى سرپرستى نہيں كرسكتے _ حتى كہ وہ افراد جو زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كا معيار امت كے انتخاب كو سمجھتے ہيں اور فقيہ كے تقرر كے منكر ہيں وہ بھى معتقد ہيں كہ امت '' فقيہ عادل'' كے علاوہ كسى اور شخص كو حاكميت كيلئے منتخب نہيں كرسكتى _ يعنى فقيہ كى ولايت انتخابى كے قائل ہيں_ پس يہ ادعا كيا جاسكتاہے كہ زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى نظريہ''' فقيہ عادل'' كى سياسى ولايت پر استوار ہے اور فرق نہيں ہے كہ اس زعامت اور حاكميت كا سرچشمہ ادلّہ روائي ہوں جو فقيہ كو منصوب كرتى ہيں يا اسے امور حسبيہ كے باب سے ثابت كريں يا لوگوں كے منتخب شخص كيلئے فقاہت كو شرط قرار ديں _حقيقت ميں اس نكتہ كا راز كيا ہے ؟ كيوں شيعہ علماء مصرّ ہيں كہ اسلامى معاشرہ كے سربراہ كيلئے فقاہت شرط ہے ؟

اس سوال كا جواب اس نكتہ ميں پنہا ن ہے كہ اسلامى معاشرہ ميں حكومت كى ذمہ دارى يہ ہے كہ مسلمانوں كے مختلف امور كو شرعى تعليمات كے مطابق بنائے_ سيكولر حكومتوں كے برعكس _كہ جو صرف امن و امان برقرار كرنے اور رفاہ عامہ جيسے امور كو لبرل يا دوسرے انسانى مكاتب كے اصولوں كے تحت انجام ديتى ہيں_ دينى حكومت كا ہدف ہر صورت ميں فقط ان امور كا انجام دينا نہيں ہے بلكہ اسلامى معاشرہ ميں اجتماعى تعلقات و روابط كو اسلامى موازين اور اصولوں كے مطابق بنانا اور مختلف اقتصادى و معاشى امور ،قانون ، باہمى تعلقات، اور ثقافتى روابط كودين كے ساتھ ہم آہنگ كرنا ہے_ لہذا اسلامى معاشرہ كے رہبر كيلئے اجتماعى امور كى تنظيم

۲۳۵

كى صلاحيت اور توانائي كے ساتھ ساتھ اسلام اور اس كے موازين و اصولوں سے كافى حد تك آشنا ہونا بھى ضرورى ہے_ پس چونكہ مسلمانوں كى سرپرستى اور سياسى ولايت كا بنيادى اور اصلى ركن اسلام شناسى ہے لہذا اسلامى معاشرے كا سرپرست و سربراہ فقيہ ہونا چاہيے_

يہ نكتہ اہلسنت كے بعض روشن فكر علماء كى نظر سے بھى پنہاں نہيں رہا _ اہلسنت اگرچہ ولايت انتصابى كے معتقد نہيں ہيں اور اكثريت اس كى قائل ہے كہ سياسى رہبر كے تقرر كى كيفيت اور طريقہ كار كے متعلق دينى متون خاموش ہيں _ اس كے باوجود بعض نئے مصنفين اس بات پر مصر ہيں كہ سياست اور اجتماع كى اخلاقى اقدار، اجتماعى تعليمات اور بعض اصولوں كا تعين اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ اسلامى معاشرے كے انتظام كى مطلوبہ شكل تقاضا كرتى ہے كہ اسلامى معاشرہ كے حكّام'' عالم دين'' ہونے چاہئيں_

قرآن اور احاديث ميں كچھ ايسے امور بھى موجود ہيں جنہيں كم از كم اسلام ميں حكومت كے اخلاقى اصول كہا جاسكتاہے _ مثلاً شورى كى مدح اور حكومت كے سلسلہ ميں مشورہ كرنے كى ترغيب دلانا، عدل و انصاف اور فقراء و مساكين كى رعايت كى دعوت دينا وغيرہ ، واضح ہے كہ حكومت ميں ان اخلاقى اصولوں كے اجرا كيلئے ضرورى ہے كہ حكمران'' عالم دين'' ہو ں_ اور ان اصولوں كو جارى كرنے ميں مخلص ہوں _(۱)

شرط فقاہت ميں تشكيك

اس اكثريتى اور مشہور نظريہ '' كہ امت مسلمہ كے سياسى حاكم ميں فقاہت اور دين شناسى شرط ہے اور فقيہ

____________________

۱) الدين والدولة و تطبيق الشريعة، محمد عابد جابرى صفحہ ۳۴_

۲۳۶

كيلئے ولايت انتصابى ثابت ہے يا كم از كم سياسى ولايت ميں فقاہت شرط ہے'' كے برعكس بعض افراد جو كہ فقيہ كى سرپرستى كے منكر ہيں ان كى نظر ميں اسلامى تعليمات كے نفاذ اور فقيہ كى سرپرستى كے درميان كوئي ملازمہ نہيںہے_ درست ہے كہ اسلام اجتماعى اور سياسى تعليمات ركھتا ہے اور مخصوص اصولوں اور اقدار پر تاكيد كرتاہے_ ليكن اس كا يہ مطلب نہيں ہے كہ معاشرہ كا سياسى اقتدار'' فقيہ'' كے ہاتھ ميں ہو كيونكہ فقيہ كا كام احكام بيان كرنا ہے _ ليكن معاشرہ كے امور كى تنظيم اورسرپرستى كيلئے ان احكام كا اجرا اور اس كيلئے عملى اقدام كرنا فقيہ كى ذمہ دارى نہيں ہے لہذا سياسى اقتدار كيلئے فقاہت كى شرط ضرورى نہيں ہے _اگر اجتماعى اور سياسى امور ميں فقيہ كى شركت كو ضرورى سمجھيں تواحكام الہى كے اجرا ميں اس كى نظارت كے قائل ہوں اور واضح سى بات ہے كہ نظارت فقيہ اور ولايت فقيہ دو مختلف چيزيں ہيں اور '' نظارت ''كسى بھى اجرائي ذمہ دارى كو'' فقيہ'' كا منصب قرار نہيں ديتي_

اسلامى معاشرہ كے نظام كے چلانے ميں ''فقاہت'' كى شرط كو قبول نہ كرنے والے بعض لوگ استدلال كرتے وقت سياستدان اور فقيہ كے درميان تفاوت كو مد نظر ركھتے ہيں_ ان كى نظر ميں سياست اور معاشرہ كے امور كا اجرا ايك ايسا فن ہے جس كا تعلق جزئيات سے ہے_ جبكہ فقاہت اور اس سے اعلى تر مناصب يعنى امامت اور نبوت اصول اور كليات سے سروكار ركھتے ہيں_ اصول اور كليات ميں ماہر ہونے كا لازمہ يہ نہيں ہے كہ فقيہ معاشرہ كے نظام كى جزئيات ميں بھى مہارت ركھتا ہو _اصول ، كليات اور احكام ثابت اور نا قابل تغير ہيں جبكہ سياست ہميشہ جزئي اور تبديل ہونے والے امور كے ساتھ سر و كار ركھتى ہے_

جس طرح كوئي فلسفى اپنے عقلى نظريات اورفقيہ اپنے اجتہاد اور دين ميں سمجھ بوجھ كے باوجود بغير كسى تربيت اور تجربہ كے كپڑا نہيں بنا سكتا اور ڈارئيونگ نہيں كرسكتا _ اسى طرح فلسفى اپنى

۲۳۷

عقل نظرى اور فقيہ احكام دين ميں مہارت ركھنے كے باوجو دسياست نہيں كرسكتا _ كيونكہ فلسفہ ايك تھيورى اور نظرى امر ہے _اسى طرح فقاہت يا اخلاقى تھيورى ايك ثابت اور غير متغيّرش ے ہے جبكہ سياست خالصةً ايك متغير شے ہے حكومت اور تدبيرامور مملكت جو كہ لوگوں كے روز مرہ امور كى ديكھ بھال ، امن عامہ كا نظام اور اقتصادى امور سے عبارت ہيں تمام كے تمام عقل عملى كى شاخيں اور جزئي اور قابل تغير چيزيں ہيں كہ جن كا تعلق حسى اور تجرباتى موضوعات سے ہے لہذا لازمى طور پر ان كى وضع و قطع ،الہى فرامين اور وحى سے مختلف ہے _ تجرباتى موضوعات كى صحيح تشخيص صرف لوگوں كى ذمہ دارى ہے اور جب تك وہ صحيح طور پر ان امور كو تشخيص نہ دے ليں شريعت كے كلى احكام عملى طور پر نافذ نہيں ہوسكتے_

اس نظريہ كے بعض دوسرے حامى فقيہ كے كردار كو اصول اور كليات ميں منحصر نہيں سمجھتے _ بلكہ اس كيلئے شان نظارت كے بھى قائل ہيں_ ان كى نظر ميں ايك دينى حكومت كے وجود و تحقق كيلئے ضرورى نہيں ہے كہ اس كى رہبرى فقيہ عادل كے ہاتھ ميں ہو بلكہ فقيہ اگر مشير اور ناظر كے عنوان سے ہو ، اور حكّام شريعت كے نفاذ ميں مخلص ہوں تو دينى حكومت قائم ہوسكتى ہے_

گذشتہ مطالب كى بنا پر سياسى حاكميت ميںفقاہت كى شرط قرار نہ دينے اور نتيجتاً فقيہ كى سياسى ولايت سے انكار كا نظريہ دو امور پر استوارہے_

ايك يہ كہ فقہ ميں مہارت كا حاصل ہونا معاشرہ كے سياسى اور انتظامى امور كى سرپرستى ميں فقيہ عادل كى اولويت پر دلالت نہيں كرتا_

دوسرا يہ كہ دينى حكومت كى تشكيل اور معاشرہ ميں دينى احكام اور اہداف كا حصول فقيہ كى سياسى حاكميت ميں منحصر نہيں ہے بلكہ ايسى دينى حكومتوں كا تصور كيا جاسكتا ہے جن ميں فقيہ كو ولايت حاصل نہ ہواور فقط احكام كى تبيين يا زيادہ سے زيادہ شرعى احكام پر نظارت كرنا اس كى ذمہ دارى ہو_

۲۳۸

فقيہ كى سياسى ولايت كا دفاع:

وہ نظريہ جو اسلامى معاشرہ كے اجتماعى اموركى تدبير كيلئے فقاہت كو شرط قرار نہيں ديتا اور فقيہ كى سياسى ولايت كو ضرورى نہيں سمجھتا درحقيقت بہت سے اہم نكات سے غفلت بر تنے كى وجہ سے وجود ميں آيا ہے_

اس نظريہ كى تحقيق اور تنقيد كيلئے درج ذيل نكات پر سنجيدگى سے غور و فكر كرنے كى ضرورت ہے_

۱_ كيا فقيہ كى سياسى ولايت كے قائلين كى نظرميں اس اجتماعى منصب كے حصول كى واحد علت اور تنہا شرط فقاہت ہے؟ يا اسلامى معاشرہ كى سياسى حاكميت كى ضرورى شروط ميں سے ايك شرط ''فقاہت'' ہے؟ جيسا كہ بعد والے سبق ميں آئے گا كہ دينى منابع ميں مسلمانوں كے امام كے جو اوصاف اور خصوصيات بيان كى گئي ہيں ، ان ميں سے اسلام شناسى اور دين ميں تفقہ و سمجھ بوجھ اہم ترين خصوصيات ميں سے ہے_ عدالت ، شجاعت ، حسن تدبير اور معاشرتى نظام كے چلانے كى صلاحيت اور قدرت بھى مسلمانوں كے امام اور والى كى معتبر شرائط ميں سے ہيں_ اس اجتماعى ذمہ دارى اور منصب ميں مختلف اوصاف كى دخالت سے واضح ہوجاتا ہے كہ اسلامى معاشرہ كے سرپرست كيلئے فقط فقاہت كا ہونا كافى نہيں ہے تا كہ كہا جائے كہ صرف دين ميں تفقہ، معاشرتى نظام كوچلانے كى ضرورى صلاحيت پيدا نہيں كرتااور سياست اورمعاشرتى نظام كو چلانے كيلئے جزئيات كے ادراك كى خاص توانائي كى ضرورت ہے ، جبكہ فقاہت فقط احكام كليہ اور اصول كو درك كرسكتى ہے_

۲_ اگر چہ موجودہ سيكولر حكومتوں ميں سياسى اقتدار كے حاملين اجتماعى امور كى تدبير ، امن عامہ اور رفاہ عامہ جيسے امور كولبرل اصولوں اور انسانى حقوق كى بنياد پر انجام ديتے ہيں ليكن دينى حكومت دين كى پابند ہوتى ہے_ اور مذكورہ بالا اہداف كو شرعى موازين اور اسلامى اصولوں كى بنياد پرتأمين كرتى ہے_ بنابريں سياست اور اسلامى معاشرہ كى تدبير كو كلى طور پر عملى سياست ،عقل عملى اور فن تدبير كے سپرد نہيں كيا جاسكتا كيونكہ ايسى

۲۳۹

حكومت كى تدبيراور سياست كو دينى موازين اور شرعى تعليمات كے مطابق ہونا چاہيے _ پس ايسے معاشرہ كے سرپرست كيلئے ضرورى ہے كہ سياسى صلاحيت اور فن تدبير كے علاوہ فقاہت سے بھى آشنا ہو اور اسلامى تعليمات كى بھى شناخت ركھتا ہو _ اس مدعا كى دليل يہ ہے كہ اسلامى معاشرہ ميں بعض مواردميں نظام اور مسلم معاشرہ كى مصلحت يہ تقاضا كرتى ہے كہ حاكم ايك حكومتى حكم صادر كرے جبكہ بعض موارد ميں يہ حكومتى حكم ،اسلام كے احكام اوّليہ كے منافى ہوتا ہے _ فقيہ عادل كى ولايت عامہ كى ادلّہ كى بنياد پر اس حكومتى حكم كا صادر كرنا'' فقيہ'' كا كام ہے اور اس كے ولائي احكام كى اطاعت كرنا شرعاً واجب ہے_ حالانكہ اگر اسلامى معاشرہ كا حاكم اور سياسى اقتدار كا مالك ''فقاہت'' كا حامل نہ ہو تو نہ ہى وہ ايسے احكام صادر كرنے كا حق ركھتا ہے اور نہ ہى اس كے ان احكام كى پيروى كے لزوم كى كوئي دليل ہے كہ جو ظاہرى طور پر شريعت كے منافى ہيں_

دوسرا شاہد يہ ہے كہ مختلف اجتماعى امور ميں اسلامى تعليمات كے اجرا سے طبيعى طور پر بعض موارد ايسے بھى پيش آجاتے ہيں كہ جن ميں بعض شرعى احكام دوسرے بعض شرعى احكام سے ٹكرا جاتے ہيں اور ان ميں سے ايك پر عمل كرنا دوسرے كے ترك كرنے كا باعث بنتا ہے _ ان موارد ميں حاكم كو تشخيص دينا ہوگى كہ كونسا حكم اہم اور كونسا غير اہم ہے_ اورحاكم اہم كو غير اہم پر ترجيح دے گا_ اہم موارد كو تشخيص دينے اور غير اہم كو چھوڑنے كا حكم دينے كيلئے ضرورى ہے كہ حاكم دينى تعليمات سے گہرى آگاہى ركھتا ہو_

يہ دو دليليں نشاندہى كرتى ہيں كہ اسلامى معاشرہ كى سرپرستى كيلئے دوسرى حكومتوں ميں رائج تدبيرى مہارت كے ساتھ ساتھ ''فقاہت'' كى صلاحيت بھى ضرورى ہے كسى حكومت كا دينى ہونا معاشرہ كى رہبرى كيلئے ايسى شرط كا تقاضا كرتى ہے_

۳_ وہ افراد جو ولايت فقيہ كى بجائے فقيہ كى مشاورت اور نظارت كى بات كرتے ہيں انہيں يہ ياد ركھنا چاہيے كہ فقہاء كو اقتدار سے دور ركھ كر اور فقط انہيں سياسى نظام پر نظارت دينے سے يہ ضمانت نہيں دى جاسكتى

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367