اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143918 / ڈاؤنلوڈ: 3620
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

جبكہ اس كے ساتھ اموال زكوةبھى ہوں در حقيقت ايك معاشرہ كى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے ہے _ ''جزيہ'' جو كہ ذمى كفار سے ليا جاتا ہے اور اسى طرح زرعى محصولات بھى ايك بڑى درآمد كوتشكيل ديتے ہيں_ يہ تمام امور اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ اس قسم كے تمام مالى منابع ايك معاشرہ كى ضروريات كو پورا كرنے او رحكومت كو تشكيل دينے كيلئے ہيں _

ان ميں سے دوسرا مورد وہ احكام ہيں جو اسلامى نظام كى حفاظت اور اسلامى سرزمين اور ملت مسلمہ كے استقلال كے دفاع كيلئے بنائے گئے ہيں انہى دفاعى احكام ميں سے ايك ، قرآن مجيد كى اس آيت شريفہ''و اعدوالهم ما استطعتم من قوة و من رباط الخيل'' (۱) ميں بيان كيا گيا ہے اور مسلمانوں كو كہا جا رہا ہے كہ وہ ہر قسم كے خطرہ سے پہلے اپنى فوجى و دفاعى قوت كو مہيا كرليں اوراپنى حفاظت كا سامان پہلے سے تيار ركھيں _

اس قسم كا ايك اور نمونہ اسلام كے عدالتى اور انسانى حقوق كے متعلق احكام ميں ديكھا جاسكتاہے_ اس قسم كے بہت سارے احكام يا''ديات'' ہيں كہ جنہيں ليكر حق داروں كو دينا ہوتاہے يا''حدود و قصاص''ہيں كہ جنہيںاسلامى حاكم كے زير نظر اجرا كيا جاتاہے اور اس قسم كے امور ايك حكومت كى تشكيل كے بغير قابل عمل نہيں ہيں _ يہ تمام قوانين حكومت كے ساتھ مربوط ہيں اور حكومتى قوت كے بغير ايسے اہم امور كو كوئي انجام نہيں دے سكتا _(۲)

اسلام كا سياسى فلسفہ اور سياسى فقہ

يہ تسليم كرلينے كے بعد كہ اسلام سياسى ابعاد كا حامل ہے اور اس كى بعض تعليمات حكومت اور سياست كے

____________________

۱) سورہ انفال آيت ۶۰_

۲) لايت فقيہ (امام خمينى ) ص ۲۰ تا ۲۵_

۲۱

ساتھ مخصوص ہيں _ يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ اسلام كا سياسى تفكر كن شعبوں پر مشتمل ہے ؟

مجموعى طور پر اسلام كے سياسى تفكر كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _ ايك حصے كو '' اسلام كا سياسى فلسفہ '' اور دوسرے كو '' اسلام كى سياسى فقہ '' كا نام ديتے ہيں _ گذشتہ سبق ميں اشارہ كرچكے ہيں كہ ہر سياسى مكتب فكر كو چند بنيادى سوالات كا جواب دينا ہوتا ہے _ ايسى مباحث كو '' سياسى فلسفہ '' كا نام ديا جاتا ہے _ بنابريں اسلام كے سياسى تفكر كو بھى ايك خاص علمى بنياد پر استوار ہونا چاہيے اور دنيائے سياست كے ان بنيادى سوالات كے مناسب اور مخصوص جوابات دينا چا ہيے _

اسلام كے سياسى تفكر كا دوسرا حصہ يعنى ''سياسى فقہ '' يا '' فقہ الحكومة '' حكومت كى نوعيت اور اسكى شكل و صورت ، حكمرانوں كے مقابلے ميں عوام كے حقوق ، حكومت اور حكمرانوں كے سلسلہ ميں عوام كى ذمہ دارياں ، مذہبى اقليتوں كے حقوق اور اسلامى حكوت (دار الاسلام)كے غير اسلامى حكومتوں ( دارالكفر) كے ساتھ تعلقات جيسى ابحاث پر مشتمل ہے باالفاظ ديگر پہلا حصہ علمى و بنيادى سياست كى مباحث پر مشتمل ہے_ جبكہ يہ حصہ عملى سياست اور معاشرے كے انتظامى و اجرائي امور كے زيادہ قريب ہے _

۲۲

سبق كا خلاصہ :

۱) حكومت اور رياست كے بغير معاشرہ ،نامكمل اور زوال پذير ہے _

۲) اسلام ، حكومت كو ايك اجتماعى او رمعاشرتى ضرورت سمجھتا ہے اسى لئے اس نے لوگوں كو تشكيل حكو مت كى طرف دعوت نہيں دى بلكہ حكومت كيسى ہونى چاہيئے ؟ اس بارے ميں اپنى رائے دى ہے _

۳) اسلام كو سياست سے جدا سمجھنا اس دين حنيف كى حقيقت كو مسخ كردينے كے مترادفہے _

۴) اسلام كے لئے سياسى اور اجتماعى پہلو كا وجود دو طريقوں سے ثابت كيا جاسكتاہے _

الف:روش استقرائي ( طرز جستجو )اور اسلامى تعليمات كا مطالعہ ، اسلام كے سياسى اور اجتماعى پہلو كے اثبات كى بہترين راہ ہے_

ب: اسلام كا آخرى اور مكمل دين ہونا اس كے اجتماعى اور سياسى پہلو كے وجود كى دليل ہے _

۵) اسلام كے بعض قوانين ايك جائز دينى حكومت كے بغير قابل اجرا نہيں ہيں _

۶) اسلام كے سياسى تفكر كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _

الف: اسلام كا سياسى فلسفہ

ب: اسلام كى سياسى فقہ

۲۳

سوالات:

۱) امير المومنين نے خوارج كو جو جواب ديا تھا اس سے ''ضرورت حكومت ''كے سلسلہ ميں كيا حاصل ہوتاہے؟

۲) اسلام نے لوگوں كو اصل حكومت كى تشكيل كى ترغيب كيوں نہيں دلائي ؟

۳) سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے كے اثبات كيلئے طرز جستجو يا روش استقرائي سے كيا مراد ہے ؟

۴) اسلام كے كامل اور خاتم الاديان ہونے سے اس كے سياسى اور اجتماعى امور ميں دخيل ہونےپر كيسے استدلال كيا جاسكتا ہے ؟

۵) كونسے احكام شرعى كا اجراء اسلامى حكومت كى تشكيل پر موقوفہيں ؟

۶) اسلام كے مالى احكام كس طرح اسلام كے سياسى پہلو پر دليل بن سكتے ہيں ؟

۷) اسلام كا سياسى تفكر كنحصوں پر مشتمل ہے ؟

۲۴

تيسرا سبق:

دينى حكومت كى تعريف

انسان كى اجتماعى زندگى كى طويل تاريخ مختلف قسم كى حكومتوں اور رياستوں كے وجودكى گواہ ہے جنہيں مختلف خصوصيات كى بنياد پر ايك دوسرے سے جدا كيا جاسكتاہے اور انہيں مختلف اقسام ميں تقسيم كيا جاتاہے_ مثلاً استبدادى و غير استبدادي،جمہورى و غير جمہوري، استعمارى و استعمار كا شكار حكومتيں ، سوشلسٹ و غير سوشلسٹ، ترقى يافتہ و پسماندہ حكومتيں و غيرہ ان ميں سے ہر تقسيم ايك مخصوص معيار كى بنياد پر ہے _ اسى طرح ايك تقسيم يہ بھى ہوسكتى ہے : دينى حكومت اور سيكولر حكومت _

دينى حكومت ايك اصطلاح ہے جو دو چيزوں سے مركب ہے، حكومت اور دين كيساتھ اس كى تركيب ، اصلى اور بنيادى سوال يہ ہے كہ اس تركيب ميں ''دينى ''سے كس مطلب كا افادہ مقصودہے ؟ دين اور حكومت كى تركيب سے كيا مراد ہے؟ ايك حكومت كے دينى يا غير دينى اور سيكولر ہونے كا معيار كيا ہے؟ ان سوالات كے جواب دينے سے پہلے بہتر ہے حكومت كى تعريف كى جائے _

۲۵

حكومت اور رياست كے معاني

حكومت(۱) اور رياست(۲) گذشتہ اور موجودہ ادوار ميں متعدد معانى ميں استعمال كئے گئے ہيں ان ميں سے بعض معانى مترادف ہيں اور بعض اوقات انہيں مختلف معانى ميں استعمال كيا گيا ہےمثلا جديد دور ميں رياست كامعنى حكومت سے وسيع تر ہے جديد اصطلاح كے مطابق رياست نام ہے ان افراد كے اجتماع كا جو ايك مخصوص سرزمين ميں ساكن ہوں اور ايسى حكومت ركھتے ہوں جو ان پر حاكميت كرتى ہو_ اس تعريف كے مطابق رياست چار اجزا كے مجموعہ كا نام ہے_آبادي،سرزمين ،حكومت، حاكميت_ اس اصطلاح كى بناپر حكومت اور رياست دو مترادف اصطلاحيں نہيں ہيں بلكہ حكومت رياست كا ايك حصہ ہے اور رياست كو تشكيل دينے والے چار عناصر ميں سے ايك عنصر حكومت ہے جو ان اداروں كے مجموعہ كا نام ہے جو ايك دوسرے كے ساتھ مرتبط ہوكر ايك مخصوص سرزمين ميں بسنے والى انسانى آبادى پر حكمرانى كرتى ہے_بنابريں ايرانى رياست اور فرانسيسى رياست و غيرہ انكى حكومتوں سے وسيع تر مفہوم ہے _

ليكن اگر رياست سے مراد وہ منظم سياسى طاقت ہو جو امر و نہى كرتى ہے تو يہ حكومت كے مترادف ہوجائے گى اور اس تعريف كى بناپر رياست صرف كا بينہ اور قوّہ مجريہ كا نام نہيں ہے كہ جن كا كام قانون نافذ كرناہے بلكہ تمام حكومتى ادارے مثلاً قانون ساز ادارے، عدليہ، فوجى اور انتظامى ادارے سب اس ميں شامل ہيں _ در اصل اس تعريف كى رو سے رياست اور حكومت اس قوت حاكمہ كا نام ہے جس ميں معاشرہ پر حاكم سياسى اقتدار كے حامل تمام ادارے شامل ہيں _ اس وقت زير بحث حكومت و رياست سے مراد يہى دوسرا معنى ہے كہ اس معنى ميں حكومت اور رياست جب دين سے مركب ہوتى ہے تو اس كا قابل قبول معنى كونسا ہے_

____________________

۱) Government

۲) State

۲۶

دينى حكومت كى مختلف تعريفيں

دينى حكومت كى مختلف تعريفيںكى جاسكتى ہيں _ دوسرے لفظوں ميں دينى حكومت كى مختلف اور متنوع تفسيريں بيان كى جاسكتى ہيں و اضح سى بات ہے كہ ان ميں سے كچھ تعريفيں صحيح نہيں ہيں ہم اجمالى طور پر ان ميں سے بعض كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

۱) دينى حكومت اس حكومت كو كہتے ہيں جس ميں ايك مخصوص دين كے معتقدين اور ماننے والے سياسى اقتدار كے حامل ہوں معاشرے كى سياسى طاقت اور سياسى ادارے كسى خاص دين كے پيرو افراد_ جيسے پيروان اسلام يا مسيحيت_كے ہاتھوں ميں ہوںاس تعريف كى بناپردينى حكومت يعنى ديندارافراد كى حكومت_

۲) دينى حكومت يعنى وہ حكومتكہ جس ميں سياسى اقتدارايك مخصوص طبقہ بنام'' رجال دين'' يعني( مذہبى افراد) كے ہاتھ ميں ہو اس تعريف كى بنا پر چونكہ سياسى اقتدار كے حامل مختلف ادارے مذہبى افراد كے ہاتھ ميں ہوتے ہيں اسى لئے اسے دينى حكومت كہتے ہيں _

اس دينى حكومت كى افراطى شكل و صورت يورپ ميں قرون وسطى ميں ملاحظہ كى جاسكتى ہے _ بعض اديان مثلاً كيتھولك مسيحيت ميںمذہبى افراد خاص تقدس اور احترام كے حامل ہوتے ہيں اور عالم الوہيت و ربوبيت اور عالم انسانى كے درميان معنوى واسطہ شمار ہوتے ہيں _ قرون وسطى ميں يورپ ميں جو حكومت قائم ہوئي تھى وہ مذكورہ دينى حكومت سے سازگار تھى _ عيسائيوں كے مذہبى افراد اور كليسا كے پادرى خدا اور مخلوق كے درميان واسطہ ہونے كے ناطے مخصوص حق حاكميت كے حامل سمجھے جاتے تھے _ يہ حق حاكميت خدا كى حكومت اور ربوبيت كى ايك كڑى تھى اور يہ تصور كيا جاتا تھا كہ مذہبى افراد چونكہ ملكوت كے ساتھ مربوط و متصل ہيں لہذا قابل تقديس و احترام ہيں ، اسى لئے ان كے فيصلے، تدابير اور كلام، وحى الہى كى طرح مقدس، ناقابل اعتراض

۲۷

اور غلطيوں سے مبرّا ہيں _

۳) دينى حكومت وہ حكومت ہے جو ايك خاص دين كى تبليغ ، دفاع اور ترويج كرتى ہے _ اس تعريف كے مطابق ايك دينى حكومت كا معيار ايك مخصوص دين كا دفاع اور تبليغ ہے _ بنابريں ايران ميں صفويوں اور قاچاريوں كى حكومت، سعودى عرب ميں وہابيوں كى حكومت اور افغانستان ميں طالبان كى حكومت مذكورہ دينى حكومت كے مصاديق ہيں كيونكہ يہ حكومتيں اپنے سياسى اقتدار كو ايك خاص دين كے دفاع، تبليغ اور ترويج كيلئے استعمال كرتى ہيں_

۴)دينى حكومت وہ حكومت ہے جو سياست اور معاشرے كے انتظامى امور ميں ايك خاص دين كى مكمل مرجعيت و حاكميت كو تسليم كرتى ہو يعنى اپنے مختلف حكومتى اداروں ميں ايك خاص دين كى تعليمات كى پابند ہو اور كوشش كرتى ہو كہ قانون بنانے ، عوامى كاموں، معيشت اور اجتماعى امور ميں دينى جھلك نظر آئے اور ان تمام حكومتى امور ميں دينى تعليمات كا ر فرما ہوں اور انہيں دين سے ہم آہنگ كرے _ دينى حكومت كا يہ معنى در حقيقت'' دينى معاشرہ ''كى تشكيل كا خواہاں ہے يعنى حكومت يہ چاہتى ہے كہ ثقافتى ، اقتصادي، سياسى اور فوجى و عسكرى تمام اجتماعى امور دينى تعليمات كى بنياد پر تشكيل پائيں _ دينى معاشرہ كو دين كى فكر ہے اور يہ فكر ہمہ گير ہے كسى خاص جہت ميں محدود نہيں ہے_ دينى معاشرہ چاہتاہے كہ اس كے تمام امور دين كے ساتھ ہم آہنگ اور ہم آوازہوں_ اس معنى كى بنياد پر دينى حكومت دين كيلئے ايك خاص شان و اہميت كى قائل ہے _ اُس كى تعليمات كو اپنے لئے نصب العين قرار ديتى ہے_ دين كى حاكميت اور سياسى و انتظامى ميدانوںميں اس كى اہميت كو تسليم كرتى ہے اور معاشرتى و سماجى امور ميں دينى تعليمات كى دخالت كا معيار ان امور ميں دين كا وارد ہونا ہوگا_ دوسرے لفظوں ميں سياسى اجتماعى اور سماجى امور ميں دين كى دخالت كى حدود مكمل طور پر دينى

۲۸

تعليمات كے تابع ہيں اور جس شعبہ ميں جتنى مقدار دين نے اپنا كوئي پيغام ديا ہو اور اپنى تعليمات پيش كى ہوں اس حكومت كيلئے وہ پيغام اور تعليمات قابل قبول ہوتى ہيں _

مذكورہ چار تعريفوں كا مختصر تجزيہ

مذكورہ چار تعريفوں ميں سے چوتھى تعريف دينى حكومت كى ماہيت و حقيقت كے ساتھ زيادہ مناسبت ركھتى ہے _ كيونكہ ان ميں سے بعض تعريفيں دينى حكومت كے صرف ايك پہلو كى طرف اشارہ كرتى ہيں _ صرف حكمرانوں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كا كسى خاص دين كا معتقد ہونا اس حكومت كے دينى ہونے كى علامت نہيں ہے _ آج دنيا كے اكثر ممالك كہ جن كى حكومتيں غير دينى ہيں ان كے بہت سارے سركارى عہديدار انفرادى طور پردين دار ہيں ، ليكن ان كا ايك خاص دين كے ساتھ لگاؤ اور تديّن ان كى حكومت كے دينى ہونے كى دليل نہيں ہے _ پہلى تعريف ميں جو'' حكومت كے دينى ہونے كا معيار'' بيان كيا گيا ہے وہ چوتھى تعريف ميں بھى شامل ہے_ كيونكہ دين كى حاكميت اور مختلف سركارى اداروں ميں دينى تعليمات كى فرمانروائي كا لازمہ ہے كہ سركارى حكام نظرياتى اور عملى طور پر اس دين كے معتقد ہوں _ اسى طرح تيسر ى تعريف ميں بيان شدہ معيار بھى چوتھى تعريف ميں مندرج ہے كيونكہ جو حكومت دينى معاشرے كى تشكيل اور سماجى و اجتماعى امور ميں دينى تعليمات كے نفوذ كى كوشش كرتى ہے اور حكومتى امور اور قوانين كو دين كے ساتھ ہم آہنگ كرنے كى خواہاں ہوتى ہے _ وہ فطرى طور پر اس دين كا دفاع كرے گى اور اس كى تبليغ و ترويج كيلئے كوشش كرے گى _

دينى حكومت كى دوسرى تعريف كى بنياد'' مذہبى افراد'' كے بارے ميں ايك خاص تصور پر ہے كہ بہت سے اديان، مذہبى شخصيات اور دينى علماء كے متعلق ايسا تصور نہيں ركھتے _ مثال كے طور پر اسلام كسى طرح بھى علماء

۲۹

دين كيلئے كسى خاص طبقاتى حيثيت كا قائل نہيں ہے اور انہيں مقام عصمت كا حامل نہيں سمجھتا_ اس لئے دينى حكومت كى ايسى تفسير كى كوئي راہ نہيں نكلتى _ علاوہ بر ايں صرف علماء دين اور مذہبى افراد كے ہاتھ ميں حكومتى عہدوں كا ہونا اس حكومت كے دينى ہونے كى دليل نہيں ہے بلكہ حقيقت وہى ہے جو چوتھى تعريف ميں بيان كى گئي ہے كہ مختلف اجتماعى و سماجى امور اور حكومتى اداروں ميں دينى تعليمات كا اجرا ہى حكومت اور سياست كو دينى رنگ دے سكتاہے_

قابل ذكر ہے كہ دينى حكومت سے ہمارى مراد كسى خاص دين سے متصف حكومت نہيں ہے _ بلكہ دنيا كے جس گوشہ ميں كوئي حكومت دينى تعليمات كے آگے سر تسليم خم كردے، اس كى فرمانروائي كو قبول كرلے اور اپنے اداروں ميں دينى تعليمات رائج كردے وہ دينى حكومت كہلائے گى چاہے وہ دين آسمانى اديان ميں سے ہو يا ايسے اديان ميں سے ہو جن كے متعلق ہم مسلمانوں كا عقيدہ ہے كہ ان كا تعلق وحى الہى سے نہيں ہے بلكہ شرك و تحريف سے آلودہ ہيں _

نيز توجہ رہے كہ اگر دين سے ہمارى مراد دين اسلام ہو تو پھر دينى حكومت وہى حكومت ہوگى جو اسلامى تعليمات كے مطابق ہو اور اسلامى تعليمات سے مراد وہ دينى اصول و ضوابط ہيں جو معتبر دينى منابع سے ماخوذ ہوں بنابريں كوئي فرق نہيں ہے كہ وہ دينى تعليمات ،وحى اور معتبر روايات سے حاصل ہوئي ہوں يا معتبر عقلى ادلّہ سے_ البتہ چونكہ اسلامى تعليمات كا اصلى اور اہم ترين منبع قرآن و سنت ہيں اسى لئے دينى حكومت اور سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے پر بحث و تحقيق كرنے والے بہت سے افراد كى ''دينى تعليمات''سے مراد وہ تعليمات ہيں جو قرآن اور احاديث سے حاصل ہوئي ہوں_

۳۰

خلاصہ :

۱ لفظ ''حكومت اور رياست ''كے متعدد معانى ہيں كہ جن ميں سے بعض معانى مترادف ہيں_

۲ دور حاضر كى جديد اصطلاح ميں رياست كى جو تعريف كى جاتى ہے ، حكومت اس كا ايك شعبہ اور حصہ ہے _

۳ دينى حكومت كى مختلف تعريفيں كى جاسكتى ہيں يعنى دين اور رياست كى تركيب سے متفاوت معانى پيش كئے جاسكتے ہيں _

۴ اجتماعى اور سياسى زندگى ميں دين كى حاكميت كو قبول كرنے والى حكومت كو دينى حكومت كہنا دين و رياست كى مجموعى حقيقتكے ساتھ زيادہ مطابقت ركھتى ہے_

۵ اس سبق ميں دينى حكومت كى جوچوتھى تعريف كى گئي ہے وہ ايك جامع تعريف ہے اور اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ ايك حكومت كے دينى ہونے كا معيار يہ ہے كہ معاشرے كے مختلف سياسى شعبوں ميں دينى تعليمات حاكم ہوں_

۶ مختلف سياسى شعبوں ميں دين كى حاكميت كو تسليم كرنے والى حكومت كو دينى حكومت كہنا ، ايك ايسى عام تعريف ہے جو كسى مخصوص دين كے ساتھ مربوط نہيں ہے_

۳۱

سؤالات

۱ دور حاضر ميں رياست كى تعريف كيا ہے ؟

۲ كونسى تعريف كے مطابق رياست اور حكومت دو مترادف اصطلاحيں ہيں ؟

۳ كونسى تعريف ميں دينى حكومت دين داروں كى حكومت كے مترادف ہے ؟

۴ دينى حكومت كى كونسى تعريف جامع اور قابل قبول ہے ؟

۵ باقى تعريفوں كى نسبت دينى حكومت كى چوتھى تعريف كونسے امتيازات كى حامل ہے ؟

۳۲

چوتھا سبق:

سياست ميں حاكميت دين كى حدود

گذشتہ سبق سے واضح ہوگيا كہ حكومت كے دينى ہونے كا معيار يہ ہے كہ حكومت اور سياست كے مختلف شعبوں ميں دينى تعليمات كى حكمرانى ہو _وہ چيز جو دينى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے جدا اور ممتاز كرتى ہے ، وہ معاشرے كے سياسى اور ديگر امورميں دين كى حاكميت كو تسليم كرنا ہے_ اس بحث ميں بنيادى سوال يہ ہے كہ اس حاكميت كا دائرہ كس حد تك ہے اور دين كس حد تك دنيائے سياست وحاكميت ميں دخيل ہے ؟

دوسرے لفظوں ميں صاحبان دين كيلئے سياست كے كن شعبوں اور حكومت كے كن اداروں ميں دين اور اس كى تعليمات كو بروئے كار لانا ضرورى ہے ؟ اور كونسے شعبوں ميں دين كى حاكميت سے بے نياز ہيں ؟ ايك دينى حكومت كے كونسے پہلو مدنى اور بشرى ہيں اور كونسے پہلو دينى تعليمات سے ماخوذ ہونے چاہيں؟

اس اہم ترين مسئلہ كى تحقيق سے پہلے حكومت اور سياست كے مختلف پہلوؤں اور شعبوں كى شناخت ضرورى ہے _ كيونكہ حكومت كے متعلق قابل بحث پہلوؤں سے مكمل آگاہى ، ان تمام پہلوؤں ميں دين كى دخالت كے سمجھنے ميں مددگار ثابت ہوسكتى ہے _

۳۳

حكومت اور اس كے سياسى پہلو:

ہم نے حكومت اور رياست كى تعريف كى تھى : '' وہ منظم سياسى قوت جو امر و نہى اور ايك مكمل نظام كے اجرا كى حامل ہو '' اس سياسى قوت كے متعلق مختلف جہات قابل بحث ہيں _ اگر چہ يہ سياسى ابحاث مختلف اور ايك دوسرے سے جدا ہيںليكن باہمى ربط كى حامل ہيں _ حكومت سے متعلق مختلف سياسى پہلوؤں كو درج ذيل صورت ميں بيان كيا جاسكتا ہے _

۱_ حكومتيں مختلف قسم كى ہوتى ہيں ، جمہورى ، شہنشاہى اور نيم شہنشاہى و غيرہ _ بنابريں حكومت سے متعلق بنيادى مباحث ميں سے ايك يہ طے كرناہے كہ كون سا سياسى طرز حكومت معاشرہ پر حاكم ہے_

اسى طرح صاحبان اقتدار كى انفرادى خصوصيات اور شرائط كا تعيّن اسكى بنيادى بحث شمار ہوتى ہے_ سياسى نظام كى نوعيتكى تعيين ہر معاشرے كے سياسى اقتدار كے حامل اداروں كى ضرورى خصوصيات كى ايك حد تك پہچان كروا ديتى ہے _

۲_ ہر حكومت كا ايك حكومتى ڈھانچہ ہوتاہے يعنى ہر حكومت مختلف اداروں اور قُوى سے تشكيل پاتى ہے _ حكومتى ڈھانچے كى تعيين ، اس كے اداروں كے آپس ميں ارتباط كا بيان اور ہر ادارے كے اختيارات اور فرائض كى وضاحت ، سياست اور حكومت كے اہم ترين مسائل ميں سے ہيں _

۳_ ہر رياست اور حكومت قدرت واقتدار(۱) كى حامل ہوتى ہے _ يعنى امرو نہى كرتى ہے ، قوانين بناتى ہے اور انكےصحيح اجرا پر نظارت كرتى ہے _ ايك اہم بحث يہ ہے كہ اس اقتدار كى بنياد كن اہداف اور اصولوں پر ہونى چاہيئے ؟ مختلف حكومتى ادارے جو عوام كو امرو نہى اور روك ٹوك كرتے ہيں وہ كن اصولوں كى بنياد پر

____________________

۱) Authority

۳۴

ہونے چاہيں؟ مثال كے طور پر ايك سوشلسٹ نظريات كى حامل حكومت جو كہ ماركسزم كى تعليمات كى قائل اور وفادار ہے اپنے اقتدار ميں ماركسزم كى تعليمات كے تابع ہے_ اس قسم كى حكومتوں ميں قانون گزارى ، اقتصادى پروگرام ،آئينى اور ثقافتى تعلقات اور بين الاقوامى معاملات ميں اس مكتب كے اصولوں پرخاص توجہ دى جاتى ہے _ جس طرح كہ '' لبرل جمہورى '' حكومتوں ميں ''جيسا كہ آج كل يورپ اور آمريكہ ميں قائم ہيں '' اقتدار كى بنياد لبرل ازم كے اصولوں پر قائم ہے _ ان ممالك ميں جمہوريت اور اكثريت كى رائے بطور مطلق نافذ العمل نہيں ہوتى بلكہ لبرل ازم اسے كنٹرول كرتا ہے _ آمريت ، اقتدار اور حكومت كا دائر ہ كار ان اصولوں پر قائم ہوتا ہے جنہيں لبرل ازم كے تابع بنايا جاتا ہے _

۴_ ہر حكومت كى كچھ ذمہ دارياں ہوتى ہيں جنہيں وہ اپنے عوام كى فلاح و بہبود كيلئے انجام ديتى ہے_ حكومت سے مربوط مباحث ميں سے ايك بحث يہ بھى ہے كہ يہ وظائف اور فرائض كيا ہيں ؟ اور عوام كے مقابلے ميں حكومت كى ذمہ دارياں كيا ہيں ؟

۵_ اپنے افعال اور فرائض كى انجام دہى اور حكومت كى سياسى قدرت كا سرچشمہ اقتدار اعلى(۱) ہوتاہے_

ہر حكومت اپنے اقتدار اعلى كا سہارا ليتے ہوئے مختلف ميدانوں ميں اپنى سياسى قوت كو بروئے كار لاسكتى ہے اور اندرون و بيرون ملك اپنے سياسى ارادوں كو عملى جامہ پہنا سكتى ہے _ ہر حكومت اپنے اقتدار اعلى كى بناپر مختلف احكام نافذ كرتى ہے _ پس سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ كيا اس كا اقتدار اعلى جائز اور مشروع ہے يا نہيں ؟ دوسرے الفاظ ميں كيا وہ حكومت كرنے كا حق ركھتى ہے يا نہيں ؟

سياسى فلسفہ ميں مشروعيت(۲) و غير مشروعيت كى بحث اہم ترين مباحث ميں سے شمار ہوتى ہے _ كوئي بھي

____________________

۱) Sovereignty

۲) Legitimacy

۳۵

سياسى مكتب اس سے بے نياز نہيں ہے _ كيونكہ حكومتى اركان اور ادارے ، اور تمام سياسى فيصلے اور تدابير اپنى حقانيت اور مشروعيت، حكومت كے حق حاكميت اور مشروعيت سے حاصل كرتے ہيں _ ہر حكومت ميں يہ صلاحيت اور قدرت ہونى چاہيے كہ وہ اپنى مشروعيت كا معقول طريقے سے دفاع كرسكتى ہو _

اس مختصر اور اجمالى وضاحت سے روشن ہوجاتا ہے كہ حكومت و رياست كے متعلق كم ازكم پانچ اساسى محور قابل بحث ہيں _ اب ديكھنا يہ ہے كہ ان پانچ محوروں ميں سے كن ميں ''دين'' حاكميت كى صلاحيت ركھتا ہے ؟ دوسرے لفظوں ميں ان پانچ ميدانوں ميں كس ميدان ميں دينى حكومت ، دين كے تابع ہے ؟ كيا يہ دعوى كياجاسكتا ہے كہ ان ميں سے بعض ميں دين كو دخل اندازى كرنے كا حق نہيں ہے اور دين كى حاكميت صرف ان ميں سے بعض ميں ہے ؟

حاكميت دين كى حدود

سياست ميں دين كے دخيل ہونے كى بحث دو لحاظ سے قابل تحقيق ہے :

الف: كس حد تك دين كا دخيل ہونا ممكن ہے_

ب : كس حد تك دين عملا دخيل ہے_

پہلى بحث سے مراد يہ ہے كہ سياست كے كونسے پہلو دين كے محتاج ہيں؟ اور كہاں پر دين اپنى تعليمات سے نواز سكتا ہے اور اپنى حاكميت كو بروئے كار لاسكتا ہے ؟ يہاں اصلى اور بنيادى سوال يہ ہے كہ كيا ممكن ہے دين ان پانچوں ميدانوں ميں دخيل اور معاشرہ كى سياسى زندگى كے تمام شعبوں ميں اس كى راہنمائي كرے ؟ يا يہ كہ بعض شعبوں كا تعلق صرف لوگوں سے ہے اور دين كيلئے سزاوار نہيں ہے كہ وہاں اظہار نظر كرے ؟

دوسرى بحث سے مراد ايك تو اس بات كى تعيين ہےكہ دين مبين اسلام نے سياست كے پانچ ميدانوں

۳۶

ميں سے كن ميں عملى طور پر اظہار نظر كياہے؟ دوسرا يہ كہ ان ميدانوں ميں دين كى تعليمات كس حد تك ہيں ؟ سياست كے مختلف پہلوؤں ميں دين كى دخالت كے امكان كے متعلق ہمارے نزديك دين كى حاكميت كى راہ ميں كوئي شئے مانع نہيں ہے_اور دين ان تمام ميدانوں ميں اپنا پيغام دے سكتا ہے _ منطقى لحاظ سے ضرورى نہيںہے كہ دين كى دخالت سياست كے بعض شعبوں تك محدودرہے بلكہ ممكن ہے دين ،حكومت كے تمام شعبوں ميں اپنى رائے كا اظہار كرے بعنوان مثال سياسى ڈھانچہ ،حكومت كى نوعيت، دينى معاشرے كے حكمرانوں كى شرائط ،خصوصاً رہبر و قائد كى خصوصيات جيسے ابواب ميں دين اپنى تعليمات پيش كرسكتاہے_ دين حكومت كى مشروعيت اور حق حاكميت كے متعلق اپنى رائے كا اظہار كرسكتا ہے _ كونسى حاكميت مشروع ہے اور كونسى نامشروع ،اسكى تعيين كرسكتا ہے ، حكّام پر عوام كے حقوق ، لوگوں كے سلسلہ ميں حكمرانوں كے وظائف اور عوام پر حكمرانوں كے حقوق جيسے امور ميں اپنى رائے دے سكتا ہے _ سياسى اقتدار كے حامل افراد كے لئے اہداف اور اقدار معين كرسكتا ہے تا كہ وہ معيّنہ اصولوں اور اہداف كے مطابق اپنى سياست كو آگے بڑھائيں اورمعاشرتى امور كو انجام ديں _

بنابريں از نظر امكان''سياست ميں دين كى حاكميت '' بلا قيد و شرط ہے اور اسے سياست كے چند مخصوص شعبوں ميں محدود كرنا صحيح نہيں ہے _

يہ تسليم كرلينے كے بعد كہ سياست كے مختلف شعبوں ميں منطقى طور پر دين كى دخالت ممكن ہے ، بعض افراد قائل ہيں كہ مختلف حكومتى شعبوں ميں دين كى حاكميت نہيں ہونى چاہيئے _ ان كى نظر ميں بعض ادلّہ كى روسے دين خود كو سياست سے دور ركھے_ اور ان تمام امور كو لوگوں ، عقل اور تجربہ كے حوالے كردے _ آنے والے اسباق ميں ہم دينى حكومت كے ان منكرين كى ادلہ پر بحثكريں گے _

۳۷

پس يہ مان لينے كے بعد كہ سياست سے متعلق ان پانچ ميدانوں ميں دين كى دخالت ممكن ہے دوسرے مرحلے كو مورد بحث قرار ديتے ہيں _ حكومتى اور سياسى امور ميں دين كى دخالت كس حد تك ہے ؟ اس كى تعيين صرف ايك طريقے سے ممكن ہے اور وہ بلاواسطہ دين اور پيام الہى كى طرف رجوع كرنا ہے _ اسلام كى اجتماعى اور سماجى تعليمات كى طرف عالمانہ اور باريك بينى سے رجوع كرنا ، اس حقيقت كى نقاب كشائي كرتا ہے كہ مذكورہ پانچ ميدانوں ميں سے دين نے كس ميں اپنى راہنمائي و ہدايت سے نوازاہے اور كس حد تك گفتگو كى ہے _ اور كونسے امور كو لوگوں اور ان كى عقل و تدبير پر چھوڑا ہے _ دين كى طرف رجوع اور اس كے مطالب كے ادراك سے واضح ہوجاتا ہے كہ دين نے كس شعبہ ميں اور كس حد تك اپنى حاكميت كو ثابت كيا ہے اور ان كے بارئے ميں اظہار نظر كيا ہے اور كن امور كو لوگوں كے حق انتخاب اور رائے پر چھوڑا ہے كسى بھى صورت ميں دين كى تعليمات كى طرف رجوع كرنے سے پہلے سياست كے بعض شعبوں ميں دين كو دخل اندازى سے نہيں روكا جاسكتا يا بعض امور ميں اس كے اظہار نظر اور دخالت كودين كے اہداف اور اسكى شان كے منافى قرار نہيں ديا جاسكتا _

۳۸

خلاصہ:

۱) حكومت اور سياست كے پانچ پہلو ہيں جو ايك دوسرے كے ساتھ مربوط ہيں _

۲) سياسى نظام كى نوعيت كى تعيين ، نيز اس كے اداروں كى كيفيت و كميت ،سياست كى اہم ترين مباحث ہيں _

۳) اہم ترين سياسى مباحث ميں سے ايك يہ ہے كہ ہر حكومت كا اقتدار كن اصولوں اور اہداف كى بنياد پر ہونا چاہيے _

۴) ہر حكومت اپنى قانونى حكمرانى كى بنياد پر احكام جارى كرتى ہے _

۵) سياسى اقتدار كى مشروعيت كى بحث حاكميت كے جائز اور ناجائز ہونے كى بات كرتى ہے اور اس بنيادى سوال كا جواب ديتى ہے كہ حكومت كا حق كن افراد كو حاصل ہے _

۶)'' دين'' سياست كے مذكورہ بالا پانچ بنيادى ميدانوں ميں اپنى رائے كا اظہار كرسكتا ہے _

۷) سياسى امور ميں دين كى حاكميت دومرحلوں ميں قابل بحث و تحقيق ہے _

الف: كونسے سياسى موارد ميں دين كى دخالت ممكن ہے ؟

ب: كن موارد ميں اسلام نے عملى طور پر اپنى رائے كا اظہار كيا ہے ؟

۸) دوسرے سوال كا جواب صرف دينى تعليمات كى طرف رجوع كرنے سے ہى مل سكتا ہے _ تا كہ واضح ہوسكے كہ حكومتى امور ميں اسلام نے كس حد تك دخالت كى ہے _

۳۹

سوالات :

۱) حكومت اور سياست سے مربوط پانچ مباحث كو اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_

۲) اقتدار سے كيا مراد ہے ؟ اور اس كے متعلق كونسى بحث اہم ہے ؟

۳) مشروعيت كى بحث كيا ہے ؟ اورقانونى حاكميت كى بحث سے اس كا كيا تعلق ہے ؟

۴) حكومت كے ان پانچ ميدانوں ميں سے كس ميدان ميں ''دين'' حكمرانى كرسكتاہے ؟

۵) ان پانچ موارد ميں سے ہر ايك ميں دخالت دين كى حدود كى تشخيص كا طريقہ كيا ہے ؟

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

( تابش آفتاب )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو سورج کی تابانی پر کہ کیسی تدبیر اس میں کار فرما ہے کہ اگر وہ آسمان کے ایک نقطہ پر ظاہر ہوتا اور وہیں رک جاتا، اور ذرہ برابر اپنی جگہ سے حرکت نہ کرتا تو ہرگز اس کی شعاعیں اور اس کے دوسرے فوائد تمام نقاط پر ظاہر نہ ہوتے، اس لئے کہ پہاڑ اور دیواریں اس کے درمیان حائل ہوجاتی۔

( چاند میں نمایاں دلیلیں خداوندتعالیٰ پر دلالت کرتی ہیں )

اے مفضل۔ ذرا چاند پر غور کرو اُس میں ایسی نمایاں دلیلیں موجود ہیں جو خداوند متعال پر دلالت کرتی ہیں ، چاند میں لوگوں کے لئے ایک بہت عظیم رہنمائی پوشیدہ ہے جس کے وسیلے سے لوگ سال کے قمری مہینوں کو پہچانتے ہیں ، چاند کے وسیلے سے سال شمسی کو نہیں پہچانا جاسکتا اس لئے کہ اس کی گردش چار گانہ فصلوں سے مطابقت نہیں رکھتی، اور نہ ہی پھلوںں کی نشوونما، انہیں کاٹنے یا اتارنے کی مدت تکمیل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سال قمری ، سال شمسی سے مختلف ہوتا ہے، اور سال قمری کے مہینے آگے پیچھے ہوجاتے ہیں کہ ایک دفعہ گرمیوں میں دوسری دفعہ سردیوں میں ، اب ذرا رات کے وقت اس کی روشنی اور اس کے فوائد پر غور کرو کہ انسان و حیوان کے آرام اور ہوا کے سرد ہوجانے کے باوجود ان کے لئے ہرگز یہ بات سود مند نہ ہوتی کہ رات بالکل تاریک اور اندھیری ہو، اور روشنی کا کہیں نام و نشان نہ ہو، کیونکہ ایسے میں وہ کوئی کام انجام نہیں دے سکتے تھے جب کہ بہت سے لوگ رات کو کام کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، کیونکہ وہ ان کاموں کو دن کی تنگی یا شدت گرمی کی وجہ سے انجام نہیں دے سکتے، لہٰذا وہ رات میں چاند کی روشنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض کاموں ،مثلاً،

۱۲۱

ذراعت، اینٹوں کا قالب میں رکھنا، درخت کاٹنا، وغیرہ کو انجام دیتے ہیں گویا چاند کی روشنی لوگوں کے لئے اُس وقت مددگار ثابت ہوتی ہے کہ جب وہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، اور چاند کی روشنی سے رات کے مسافر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور چاند میں اس طرح کی تدبیر رکھی کہ وہ بعض راتوں میں ظاہر اور بعض میں غائب ہو، اس کی روشنی کو سورج کی روشنی سے کم رکھا گیا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو تمام لوگ اس کی روشنی سے استفادہ کرنے کے لئے کام کاج میں مشغول ہوجاتے اور بالکل آرام و سکون نہ کرتے کہ یہ عمل ان کی ہلاکت کا سبب بنتا، چاند کے اندر مختلف قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ کبھی وہ کمان کی شکل اور کبھی لکیر نما دکھائی دیتا ہے ، کبھی اس میں زیادتی اور کبھی اس میں کمی واقع ہوتی ہے اور اسی طرح چاندگہن بھی ہوتا ہے کہ جو خالق دوجہاں کی قدرت پر دلالت کرتا ہے ، چاند کا گہن ہونا اور اس قسم کی دوسری تبدیلیاں بھی عالم کی بھلائی کے لئے ہیں جو خالق عالم کی قدرت کا منھ بولتا ثبوت ہیں جس سے عبرت حاصل کرنے والے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔

( ستاروں کی حرکت )

اے مفضل۔ ستاروں اور ان کی حرکت پر غور کرو،اُن میں سے بعض اپنے مرکز سے انفرادی حرکت نہیں کرتے ، بلکہ وہ اجتماعی حرکت کرتے ہیں ، جبکہ ان میں بعض آزادانہ طور پر ایک بُرج سے دوسرے بُرج کی طرف حرکت کرتے ہیں ، یہ اپنی حرکت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ،ان ستاروں کی حرکت دو طرح کی ہے ایک حرکت عمومی ہے جو فلک سے مغرب کی طرف ہے اور ایک حرکت خود ان سے متعلق ہے کہ جو وہ مشرق سے مغرب کی طرف کرتے ہیں ، ان کی مثال اس چیونٹی کی سی ہے، جو چکّی کے پتھر پر چکر لگارہی ہے کہ آسیاب کا پتھر اُسے سیدھی طرف حرکت دیتا ہے اور چیونٹی خود اُلٹی طرف حرکت کرتی ہے ، تو ایسی حالت میں دراصل چیونٹی دو طرح کی حرکت میں مصروف ہے ایک خصوصی

۱۲۲

جس کے تحت آگے کی طرف بڑھ رہی ہے اور دوسری حرکت آسیاب کے پتھر کے تحت انجام پا رہی ہے جو اسے پیچھے کی طرف کھینچتا ہے پس اب سوال کیا جائے اُن لوگوں سے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ستارے اور ان کی یہ گردش حالت میں اتفاق اور بغیر قصد و ارادہ کے ہے اور ان کا کوئی بنانے والا نہیں۔ پس اگر ایسا ہے تو یہ سب ساکن کیوں نہیں یا یہ کہ سب کیوں برج سے برج کی طرف منتقل نہیں ہوتے اس لئے کہ اتفاق کا نتیجہ یہی ہی ہوتا ہے پھر کس طرح ان میں دو حرکتوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ستاروں کی حرکت حکمت، تدبیر اور قصد و ارادہ کا نتیجہ ہے اور ہرگز اتفاق کا نتیجہ نہیں کہ جس طرح فرقہ معطّلہ کے لوگ یہ گمان کرتے ہیں اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ آخر کیوں بعض ستارے ساکن اور بعض متحرک ہیں؟ تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اگر تمام ستارے ایک ہی طرح ہوتے اور ان میں اختلاف نام کی کوئی چیز نہ ہوتی تو کس چیز کے ذریعہ انہیں پہچانا جاتا، اور دوسری بات یہ کہ ان کی حرکت ہی کی وجہ سے عالم میں پیش آنے والے حادثات کی پیشن گوئی کی جاتی ہے اور اگر وہ سب کے سب متحرک ہوتے تو ایسی صورت میں ان کی طرف سیر کرنا مشکل ہوجاتا، اس لئے کہ ان کی کوئی خاص جگہ نہ ہوتی کہ جس کے ذریعہ انہیں پہچانا جاتا ہے، اور نہ ہی کوئی اثر باقی رہتا کہ جس کے وسیلے سے ان تک رسائی ممکن ہوتی بلکہ ستاروں کے ساکن اور اور ثابت ہونے ہی کی وجہ سے ان کے مکان اور ان تک رسائی ممکن ہوتی ہے اس طرح جس طرح سے کوئی مسافر ایک منزل تک مختلف راستوں اور منزلوں کو طے کرتا ہوا پہنچتا ہے تو بس اگر تمام ستارے ایک ہی قسم کی حرکت رکھتے تو تمام نظام خراب ہوجاتا اور پھر کہنے والے کے لئے یہ بات کہنا صحیح ہوتی کہ ان سب کا ایک اندازہ پر ہونا اس چیز پر دلالت ہے کہ یہ سب محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں، لہٰذا جو کچھ ہم نے ستاروں کی اختلاف سیر ان کے عمل اور جو کچھ ان کے فوائد و نتیجہ کے بارے میں بیان کیا، یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ قصد وا رادہ کے تحت وجود میں آئے ہیں اور ان کے وجود میں تدبیر استعمال کی گئی ہے۔

۱۲۳

( ثریا، جوزہ ، شعریین، اور سہل میں حکمت )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ان ستاروں پر کہ جو سال میں کچھ وقت ظاہر اور کچھ وقت پوشیدہ رہتے ہیں، مثلاً ثریا، جوزہ، شعریین ،اور سہل اگر یہ سب ستارے ایک ہی ساتھ اورایک ہی وقت میں ظاہر و نمودار ہوتے تو ان کی پہچان مشکل ہوجاتی اور بہت سے کام انجام نہ دیئے جاتے ، مثلاً ثریا کے طلوع و غروب ہونے کا علم، جس سے لوگ مختلف فائدے حاصل کرتے ہیں ان ستاروں کا طلوع و غروب ہونا ایک دوسرے سے مختلف ہے تاکہ لوگ انہیں پہچان کر ان سے بہرہ مند ہوسکیں، یہی وجہ ہے کہ ثریا، جوزا وغیرہ کبھی غائب ہوتے ہیں اور کبھی ظاہر ہوتے ہیں۔

( بنات النعش ستارہ ہمیشہ ظاہر رہتا ہے )

بنات النعش ستارہ کو خداوند متعال نے اس طرح بنایا ہے کہ وہ ہمیشہ ظاہر رہتا ہے اور غائب نہیں ہوتا، کیونکہ بنات النعش ایک ایسی علامت ہے کہ جس کے ذریعہ لوگ صحراء و بیابان اور دریا میں اپنی کھوئی ہوئی راہ کو پاتے ہیں اسی لئے یہ ہمیشہ ظاہر ہے اور غائب نہیں ہوتا، تاکہ لوگ جب چاہیں اُسے دیکھیں اور اپنی سمت کو معین کریں، درحقیقت یہ امور جو آپس میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لوگوں کی احتیاج و ضرورت کو پورا کرنے اور ان کے فائدے کے لئے ہے،اس قسم کے ستاروں میں اور بہت سے فوائد ہیں وہ یہ کہ بہت سے کاموں کے اوقات ان کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں مثلاً زراعت، درختکاری، سفر دریا، وصحراء اور مختلف حوادث مثلاً ہوا، بارش ، گرمی ، سردی کا ظاہر ہونا بھی انہی کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے اور ان کی روشنی سے رات میں سفر کرنے والے افراد فائدہ اُٹھاتے ہیں، اوراس

۱۲۴

کے ذریعہ سے رہنمائی پاتے ہوئے خوفناک قسم کے بیابان اور دریاؤں میں سفر کو جاری رکھتے ہیں، ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ ان ستاروں کا آسمان کے درمیان پستی و بلندی اور طلوع و غروب کی حالت میں حرکت کرنا عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت ہے کہ تیزی سے یہ ستارے اپنے مدار میں حرکت میں مصروف ہیں ۔

( چاند، سورج اور ستارے ہم سے اس قدر دور کیوں ہیں؟ )

اے مفضل۔ ہم کس طرح سے چاند ، سورج اور ستاروں کو ان کی تیز ترین حرکت کے باوجود قریب سے دیکھ سکتے تھے ؟ کیا ہماری آنکھیں ان کی تیز روشنی سے اپنی بصیرت و بینائی نہ کھو بیٹھیں، جس طرح سے کبھی اگر آنکھوں پر تیز روشنی پڑجائے تو آنکھیں اپنی بینائی کھو بیٹھتی ہیں اس کی مثال اس طرح ہے کہ اگر کچھ لوگ ایک ایسے قُبّہ کے درمیان ہوں جو چراغوں سے پر ہو اور وہ قبہ تیزی سے ان کے ارد گرد چکر لگانے لگے تو مسلماً وہ ان کی آنکھوں کو اس طرح حیراں کردے گا کہ وہ اپنا کام کرنا چھوڑ دیں گی۔ پس ذرا غور کرو اُس تدبیر پر کہ ان کی سیر و حرکت کو انسانوں سے دور رکھا گیا، تاکہ ان کی آنکھیں ان کے ضرر سے محفوظ رہیں، اور ان میں کسی قسم کا خلل ایجاد نہ ہونے پائے۔

ستاروں کو تھوڑی سی روشنی عطا کی گئی تاکہ ان کی روشنی چاند کی غیر موجودگی میں اس کی نیابت کرے، اور لوگوں کے لئے رات کا سفر کرنا ممکن ہوسکے ، اس لئے کہ انسان کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا حادثہ پیش آتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ رات ہی کے وقت اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور ہوتا ہے، پس اب اگر اس آدھی رات میں کوئی چیز ایسی نہ ہو کہ جس کی روشنی میں وہ راہ دیکھ سکیں تو کبھی بھی وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے تھے۔

اب ذرا غور کرو ، اس لطیف تدبیر و حکمت پر کہ خداوند متعال نے رات کے لئے ضرورت کے مطابق

۱۲۵

وقت مقرر کیا اور اس کی تاریکی میں اتنی روشنی رکھی جس سے لوگ اپنی وہ تمام ضرورتیں پوری کرسکیں کہ جس کے بارے میں وضاحت کی جاچکی ہے۔ اے مفضل۔ فکر کرو اس نظام پر جو سورج، چاند، ستاروں اور برجوں کے ساتھ مل کر عالم کے گرد محو گردش ہے اور اس گردش میں ایک صحیح اندازاہ و میزان ہے جس کے نتیجے میں شب ور وز منظم اور چار فصلیں وجود میں آتی ہیں اور جو حیوانات و نباتات پر بھی اثر انداز رہے ہیں اور یہ اس پورے نظام میں ان کی مصلحت ہے، جیسا کہ تمہارے لئے بیان کرچکا ہوں ، تو کیا اب بھی کسی صاحب عقل سے یہ بات پوشیدہ و مخفی رہ جاتی ہے کہ یہ سب کام ایک ذات کی حکمت اور اس کی تدبیر کے سبب ہیں اور یہ کہ اس نظام کا صحیح اور ایک معین اندازہ پر ہونا ایک ہی ذات حکیم کی طرف سے ہے، اب اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ یہ وہ چیزیں ہیں جو اتفاق سے اسی طرح وجود میں آئی ہیں، تو پھر وہ کیوں یہی کلام اس چرخے کے بارے میں نہیں کہتے جو گھومتا ہے اور پانی کو کنویں سے باہر لانے کا کام انجام دیتا ہے جس سے باغ وغیرہ سیراب ہوتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ تمام آلات کو ایک خاص اندازہ کے تحت بنایا جاتا ہے کہ جن میں بعض ، بعض سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ سب باغ اور اس میں موجود اشیاء کے لئے بے انتہاء مفید ہیں، تو پھر کس طرح یہ کلام حقیقت پر مبنی ہوسکتا ہے کہ یہ دنیا خود بخود وجود میں آئی ہے؟ اور لوگوں کی اس وقت کیا رائے ہوتی ہے جب یہ کلام ان کے سامنے کہا جاتا ہے ، وہ اُس کا انکار کرتے ہیں یا نہیں؟ اے مفضل۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ جب اگر کوئی یہ کلام ایک ایسے تختے کے بارے میں کہتا ہے کہ جسے عام انسان نے ایک خاص کام کے لئے بنایا ہے، کہ یہ تختہ خودبخود وجود میں آیا ہے تو سب مل کر اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور اس سے اس کلام کو ہرگز قبول نہیں کرتے ، مگر صد افسوس کہ جب یہ کلام اس عجیب و غریب دنیا کے بارے میں کہا جاتا ہے جو ایک حیرت انگیز حکمت کے تحت وجود میں آئی ہے، کہ جس تک ذہنِ بشری کی رسائی ممکن نہیں اور جسے زمین اور اس میں موجود اشیاء کی بھلائی کے لئے بنایا ہے، تو اسے سب قبول کرلیتے ہیں کہ یہ دنیا

۱۲۶

اتفاق اور بغیر کسی صانع کی صنعت کے وجود میں آئی ہے۔

اے مفضل۔ ذرا سوچو کہ اگر ان افلاک (نظام) میں کوئی خلل پیدا ہوجائے کہ جس طرح ان آلات میں پیدا ہوجاتا ہے کہ جنہیں صنعت کے کام میں استعمال کیا جاتا ہے تو کس صانع کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے بارے میں چارہ اندیشی کرے۔

( رات اور دن پندرہ گھنٹے سے تجاوز نہیں کرتے )

اے مفضل۔غور کرو شب و روز کے اندازہ پر،ان کے واقع ہونے،اور ُس تدبیر پر جس میں اس کے بندوں کی بھلائی ہے جب دن اور رات بڑے ہونا شروع ہوتے ہیں تو '' 5ا پندرہ'' گھنٹے سے کسی بھی صورت میں تجاوز نہیں کرتے ، کیا تم اس بات کو محسوس نہیں کرتے کہ اگردن ''100 '' گھنٹے یا ''200 '' گھنٹے کا ہوتا تو زمین پر زندگی پسر کرنے والے تمام حیوانات و نباتات ہلاک ہوجاتے ، حیوان اس لئے ہلاک ہوتے کہ انہیں آرام وسکون نہ ملتا، چوپائے چرنے سے فارغ نہ ہوتے، اور انسان اپنے کام کاج سے فارغ نہ ہوتا ،اور نباتات اِس لئے ہلاک ہو جاتے کہ سورج کی روشنی اور حرارت ان پر طویل مدت تک پڑتی ، جس کی وجہ سے وہ خشک ہوجاتے اور جل کر خاک بن جاتے اور اسی طرح رات معین شدہ مدت سے زیادہ طولانی ہوتی تو حیوانات اپنی حرکت نہ کر پاتے اور بھوک کے مارے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ، اور اس طولانی مدت میں نباتات سے حرارت طبیعی ختم ہوجاتی ، اور وہ فاسد ہوجاتے بالکل اس پودے کی طرح کہ جسے اس جگہ یا مکان پر رکھ دیا جائے کہ جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی۔

۱۲۷

( سردی اور گرمی کے فوائد )

سردی اور گرمی سے جو چار فصلوں کی تکمیل کا باعث ہیں عبرت حاصل کرو۔ کہ یہ خاص نظم و ضبط اور اعتدال کے ساتھ جہان کو اپنے فائدوں سے بہرہ مند کرتی ہے۔ سردی اور گرمی دو ایسے وسیلے ہیں کہ جن کے ذریعے مال اور بدن کی اصلاح ہوتی ہے اور یہ عمل بدن کی بقاء اور اس کی بھلائی کے لئے ہے، اس لئے کہ اگر سردی وگرمی نہ ہوتیں اور اُن کا بدن پر کوئی اثر نہ ہوتا تو بدن فاسد ، سست اور کمزور پڑجاتا۔ اے مفضل ان میں سے ہر ایک کے دوسرے میں داخلے کی تدریجی حالت پر غور کرو ایک ہلکے ہلکے کم ہوتی ہے اور دوسری پہلی کی طرح ہلکے ہلکے بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ پہلی اپنی انتہاء تک پہنچ جاتی ہے اور اگر ان میں سے ایک کا دوسرے کے اندر داخل ہونا غیر تدریجی ہوتا تو مسلماً یہ عمل جسم کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ، بیمار ہونے کا سبب بن جاتا جس طرح سے اگر تم میں سے کوئی ایک گرم حمام سے نکل کر سرد جگہ پر چلا جائے تو قطعاً وہ مریض ہوجائے گا، پس پھر کیوں خداوند متعال نے سردی اور گرمی کے اندر اس تدریج کو رکھا، سوائے اس کے کہ انسان ان کے ضرر سے محفوظ رہ سکے، اگر یہ عمل تدبیر سے ہٹ کر ہوتا تو کیوں کر انسان سردی اور گرمی کے ناگہاں ضرر سے محفوظ رہتا اب اگر کوئی یہ گمان کرے کہ سردی اور گرمی کا تدریجی طور پر ہونا سورج کی سست رفتار اس کی پستی اور بلندی کی وجہ سے ہے تو اس سے سوال کیا جائے گا کہ سورج کے سست رفتار ہونے کی علت کیا ہے؟اور اگر وہ کہے کہ سورج کی سست رفتار ہونے کی علت مشرق ومغرب کا طویل فاصلہ ہے تو پھر اس سے اس دوری اور اس فاصلہ کی علت کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور اسی طرح یہ مسئلہ اوپر تک چلا جائے گا،یہاں تک کہ بات یہاں ختم ہوگی کہ یہ تمام کام مقصد و ارادہ کے تحت وجود میں آئے ہیں کہ اگر گرمی نہ ہوتی تو پھل کسی بھی صورت میں سخت ونرم، پکے اور میٹھے نہ ہوتے، کہ لوگ ان کے تر اور خشک ہونے سے فائدہ

۱۲۸

اُٹھا سکیں اگر سردی نہ ہوتی تو ذراعت کسی بھی صورت میں اس مقدار میں نہیں ہوسکتی تھی جو تمام حیوانات کی غذا کے لئے کافی ہو اور نہ اس قدر کہ اس کے بیج سے دوبارہ ذراعت کی جاسکے، تو کیا تم نہیں دیکھتے کہ سردی اور گرمی اس قدر فوائد کے باوجود انسان پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ سب چیزیں عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تمام چیزیں خداوند حکیم و مدبر کی تدبیر کے سبب ہیں۔

( ہوا میں تدبیر )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ہوا اور اس میں استعمال شدہ عظیم تدبیر پر ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب ہوا رک جاتی ہے تو فضا میں اس طرح حبس ہوجاتا ہے کہ سانس اکھڑنے لگتے ہیں، ہوا کا رکنا صحیح و سالم کو مریض اور مریض کو مریض تر ، پھلوں کو فاسد، اور سبزیوں کو خراب کر دیتا ہے، ایسی حالت میں بدن کے اندر مختلف قسم کے امراض جنم لیتے ہیں اور غلّہ برباد ہوجاتا ہے ۔ ان تمام چیزوں کا رونما ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہوا کے چلنے ہی میں مخلوق کی بھلائی ہے کہ جو خالق حکیم کی تدبیر کے سبب ہے۔

( ہوا کے فوائد )

اے مفضل۔ میں تمہیں ہوا میں پائے جانے والے فوائد کے بارے میں بتاتا ہوں۔آواز ، وہ اثر ہے کہ جو ہوا میں اجسام کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے یہ ہوا ہے کہ جو اس آواز کو کان تک پہنچاتی ہے ، اگر وہ تمام گفتگو وکلام جو لوگ دن رات اپنے معاملات اور دوسرے امور کے بارے میں کرتے ہیں ہوا میں باقی رہ جاتا کہ جس طرح کاغذ کا لکھا اُس پر باقی رہ جاتا ہے ، تو عالم کلام سے پُر ہوجاتا اور یہ عمل

۱۲۹

لوگوں کو تنگی اور سختی سے دوچار کرتا، اور ان کے لئے مشکلات ایجاد کردیتا اور وہ جو ضرورت ہوا کی تبدیلی اور اُسے تازہ کرنے کے لئے محسوس کرتے ، وہ کاغذ کی تبدیلی اور اس کی تجدید کی احتیاج و ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتی۔ اس لئے کہ جو کچھ کلام کیا جاتا ہے وہ لکھنے سے کئی گناہ زیادہ ہے، لہٰذا خلاق عالم نے ہوا کو ایسا مخفی کاغذ قرار دیا کہ کلام چاہے جتناہو اُسے بغیر کسی وقفہ کے اپنے کاندھوں پر اُٹھا کر محو کرتا ہے اور پھر دوبارہ صاف ہوجاتا ہے۔

اے مفضل۔ اس نسیم سے کہ جسے ہوا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کے فوائد سے عبرت حاصل کرو، اس لئے کہ ہوا بدن کے اندر داخل ہوکر اسے زندگی بخشتی ہے اور اس کا خارج ہونا روح کے لئے باعث آرام و سکون ہے ، ہوا کے اندر ایک بہاؤ ہے کہ جو آواز کو دور ،دور تک پہنچاتا ہے اور یہ ہوا ہے کہ جس کے ذریعہ بوئیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہیں۔ کیا تم اس بات کو محسوس نہیں کرتے کہ کس طرح سے اس جگہ سے بو آتی ہے ، جہاں سے ہوا آرہی ہو، اور بالکل اسی طرح آواز بھی اور یہ ہوا ہے کہ جو سردی اور گرمی کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے جن میں عالم کی بھلائی کا راز پوشیدہ ہے اور یہ ہوا جب اجسام پر چلتی ہے تو ان کے لئے باعث پاکیزگی و رونق ہوتی ہے ، ہوا ہی بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت دیتی ہے ، تاکہ تمام لوگ ان کے فوائد سے بہرہ مند ہوسکیں اور جب بادل غلیظ ہوکر برستے ہیں تو انہیں جدا کرنے کا کام بھی ہوا ہی انجام دیتی ہے، تاکہ یہ باریک ہو کر بکھر جائیں ، ہوا ہی سے درخت پھل دار ہوتے ہیں ،ہوا ہی کشتی کو پانی میں حرکت دیتی ہے، کھانے کو لطیف ، پانی کو ٹھنڈا ، آگ کو شعلہ آور، تر چیزوں کو خشک کرنے کا کام بھی ہوا ہی انجام دیتی ہے مختصر یہ کہ زمین پر تمام موجود اشیاء کو ہوا زندگی بخشتی ہے، کہ اگر ہوا نہ ہوتی تو نباتات خشک ہوجاتے ، حیوانات ہلاک ہوجاتے اور تمام چیزیں فاسد اور ضائع ہوکر رہ جائیں۔

۱۳۰

( زمین کی وسعت )

اے مفضّل ۔ذرا غور کرو کہ چار فصلوں کی ایک وسیع مدت معےّن کی گئی ہے تاکہ لوگ اپنی ضرورت کے مطابق ان سے فائدہ اٹھاسکیںان کی یہ وسعت زمین کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہے ، اگر زمین کا پھیلاؤ اور اس کی وسعت زیادہ نہ ہوتی تو کس طرح لوگوں کے رہنے، ان کے ذراعت کرنے اور جانوروں کے چرانے کے لئے جگہ ہوتی اور اسی طرح لکڑی ، تختہ ، سوکھی لکڑیاں ، ضروری دوائیں اور قیمتی معدنیات کے لئے کہاں سے جگہ فراہم ہوتی؟ شاید کوئی ان خالی و وحشت زدہ بیابان اور خشک زمینوں کا منکر ہو اورکہے کہ ان میں کیا فائدے ہیں؟ تو ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ وہ وحشی جانوروں کے رہنے کی جگہ، اور ان کی چراگائیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ان لوگوں کے لئے پناہ گاہیں ہیں کہ جو پریشانی کے باعث اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہیں اسی وجہ سے تم دیکھتے ہو کہ بیابان و صحراء شہر اور محل سکونت میں تبدیل ہوگئے، اگر زمین کی وسعت اتنی نہ ہوتی تو لوگ ایسا محسوس کرتے کہ جیسے وہ کسی حصار میں گھرگئے ہیں اور وہ درپیش مصیبت و پریشانی سے بچنے کے لئے اپنے وطن کو چھوڑنے کی مجبوری کے باوجود کسی دوسری جگہ نہیں جا سکتے۔

( زمین ثابت کیوں؟ )

اے مفضل۔ اب ذرا زمین پر غور کرو کہ وہ جس دن سے بنی ہے اُسی روز سے ثابت و ساکن ہے تاکہ اسے اشیاء کے لئے وطن قرار دیا جاسکے، اور لوگ اپنے کام کاج کے سلسلے میں کوشش اورجدوجہد کرسکیں اور آرام و سکون کے لئے اس پر بیٹھ سکیں، جسم کی تھکاوٹ و آرام کے لئے اس پر سو سکیں اور

۱۳۱

اپنے امور میں استحکام پیدا کرسکیں، اگر زمین چیزوں کو حرکت دیتی تو اُس پر کبھی بھی محکم عمارتیں نہیں بنائی جاسکتی تھیں، اور تجارت و صنعت جیسے کاروبار کو اس پر انجام نہیں دیا سکتا تھا ، گویا لوگوں کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا کیونکہ ان کے پاؤں کے نیچے وہ زمین ہوتی کہ جو لرزتی رہتی، اس حالت کو تم ان لوگوں میں دیکھ سکتے ہو جو زلزلہ کی کیفیت کو محسوس کرچکے ہوں۔

( زلزلہ اور مختلف بلائیں نازل ہونے کا سبب )

اے مفضل۔ تم دیکھتے ہو کہ ذرا سی دیر کا زلزلہ لوگوں کو گھر چھوڑنے اور وہاں سے فرار کرنے پر مجبور کردیتا ہے اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ آخر یہ زلزلہ کیوں آتا ہے؟ تو ا س کے جواب میں کہا جائے گا کہ زلزلہ اور ایسے دوسرے واقعات لوگوں کے لئے نصیحت ہیں، جن کے ذریعہ لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے، تاکہ برائیوں سے بچیں اور اُن سے منھ موڑ لیں اوروہ بلائیں جو انسان کے بدن میں بیماریوں کی صورت اور ان کے اموال پر نازل ہوتی ہیں وہ بھی ایک عظیم تدبیر کے تحت انسانوں کی اصلاح ، بھلائی اور ان کی استقامت کے لئے ہیں اور اگر بندے ان پر استقامت و صبر کا مظاہرہ کریں تو ان کے اس عمل کا اجر وثواب آخرت کے لئے اس قدر لکھا جاتا ہے کہ دنیا کہ کوئی بھی چیز اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اور جس اجر وثواب کے عطا کرنے میں ان کی دنیاوی بھلائی ہو تو وہ انہیں دنیا ہی میں عطا کردیا جاتا ہے۔

( زمین اور پتھر کا فرق )

اے مفضل ، خداوند متعال نے طبیعی طور پر زمین اور پتھر کو سخت اور خشک پیدا کیا ہے۔ فقط زمین اور پتھر کے درمیان جو فرق ہے ، وہ پتھر کا زیادہ خشک ہونا ہے ، کیا تم اس بات کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ اگر

۱۳۲

زمین بھی پتھر کی طرح خشک اور سخت ہوتی تو کیا نباتات و حیوانات اس پر اپنی زندگی گزار سکتے تھے اور کیا اس پر ذراعت کی جاسکتی تھی کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس کی خشکی کو پتھر کی خشکی سے کم رکھا گیا ہے اور اُسے اس لئے نرم خلق کیا گیا ہے تاکہ مختلف کاموں کو بآسانی اس پر انجام دیا جاسکے۔ اور زمین اپنے ساکنین کے لئے تکیہ گاہ ثابت ہوسکے۔

( شمالی اور جنوبی ہوائیں )

اے مفضل۔ خالق دوجہاں کی تدابیر میں سے ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ اس نے شمالی ہواؤں کے مکان کو جنوبی ہواؤں کے مکان سے کافی بلند رکھا ہے، جانتے ہو خداوند متعال نے ایسا کیوں کیا؟ سوائے اس کے کہ ہوائیں زمین پر چلتی رہیں اور زمین کی تمام ضروریات پوری ہوسکیں بالکل اسی طرح سے جس طرح پانی کے مسلسل جریان کے لئے اس نے زمین کو ایک طرف سے بلند اور دوسری طرف سے نیچے رکھا تاکہ پانی کا بہائو رکنے نہ پائے (جیساکہ تم شمالی ہواؤںاور جنوبی ہواؤں کے بارے میں سن چکے ہو) اگر ایسا نہ ہوتا تو پانی زمین پر پھیل جاتا اور لوگ کام کاج سے مجبور ہوجاتے، اور پھر یہ پانی گلیوں اور سڑکوں کے خراب کردیتا۔

( پانی کی ضرورت )

اے مفضل۔ اگر پانی فراوانی سے نہ ہوتا تو لوگوں کی ضروریات کے باوجود چشموں، بیابانوں اور نہروں میں پانی کی کمی ہوجاتی ، یہ پانی پینے، گلے کے سیراب کرنے، انکی ذراعت، درختوں ، مختلف قسم کے دانوں ، وحشی درندوں ، پرندوں اور مچھلیوں اور ان حیوانات کے پینے کے لئے ہے جو بہت بڑی

۱۳۳

تعداد میں زندگی بسر کرتے ہیں، پانی کے اندر اور بھی دوسرے بہت سے فائدے ہیں کہ جنہیں تم اچھی طرح جانتے ہو، مگر تم اس کے بڑے اور عظیم فائدوں سے بے خبر ہو، اس لئے کہ وہ فائدے ان فائدوں کے علاوہ ہیں کہ جو روئے زمین پر حیوانات و نباتات کو پانی کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں جنہیں ہر ایک جانتا ہے ، اس کے علاوہ پانی کے دوسرے فائدے یہ ہیں کہ اسے بہت سی چیزوں میں مخلوط کیا جاتا ہے جو پینے والے کے لئے خوشمزہ اور زود ہضم ثابت ہوتا ہے ، پانی ہی کے ذریعہ بدن اور لباس کی کثافت کو دور کیا جاتا ہے، پانی ہی سے مٹی کو گیلا کیا جاتا ہے ، تاکہ وہ تعمیراتی کام کے قابل ہوجائے، پانی ہی کے وسیلے سے آگ کے اُن دھکتے ہوئے شعلوں کو ختم کیا جاتا ہے۔ جبکہ وہ جو لوگوں کے لئے باعث زحمت و مشقت بن چکے ہوں ، پانی خود بھی خوشمزہ اور خوش ذائقہ ہے، اور دوسری چیزوں کو بھی خوش ذائقہ بناتا ہے۔ اس کے وسیلے سے لوگ حمام میں جاکر اپنی تھکاوٹ کو دور کرتے ہیں اور اس کے علاوہ بھی پانی کے بہت سے فائدے ہیں کہ جو ضرورت پڑنے پر ظاہر ہوتے ہیں اور اگر تم یہ خیال کرو کہ پانی کی اتنی کثرت و زیادتی کا کیا فائدہ ہے جو دریاؤں میں تہہ بہ تہہ ایک دوسرے پر تکیہ کئے ہوئے ہے، تو اس بات کو جان لو کہ دریاؤں میں پانی جمع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر وہ چیزیں موجود ہیں کہ جنہیں گنا نہیں جاسکتا ، جیسے مختلف مچھلیاں ، آبی حیوانات، معادن، لؤلؤ، یاقوت، عنبر اور اس قسم کی دوسری چیزیں ، دریاؤں ہی کے کنارے پر عور (درخت کا نام) معطر پودے مختلف قسم کے عطریات اور دوائیں اُگتی ہیں، اور اسکے دوسرے فائدے یہ ہیں کہ دریا لوگوں کے سفر اور تجارت کے سازو سامان کے حمل کی جگہ ہے کہ جس کے وسیلے سے چیزیں ایک شہر سے دوسرے شہر لے جائی جاتی ہیں،جیسا کہ مختلف چیزیں ، چین سے عراق اور عراق سے چین لے جائی جاتی ہیں اس لئے کہ اگر حیوانات کے علاوہ کوئی اور دوسری چیزنہ ہوتی جو انہیں حمل کرتی تو یہ سب چیزیں اپنے ہی شہر میں باقی رہ جاتیں اور فاسد و ضائع ہوجاتیں اس لئے کہ انہیں حمل کرنے کی مزدوری ان کی اپنی قیمت سے کہیں

۱۳۴

زیادہ بڑھ جاتی اور ان چیزوں کو کوئی حمل کرنے کی فکر میں نہ ہوتا، اور انہیں حمل کرنے کی صورت میں دو حالتیں سامنے آتیں ۔

اول: یہ کہ ان چیزوں کی ضرورت کے باوجود ان کی بہت زیادہ کمی ہوتی۔

دوم: یہ کہ معیشت اور تجارت کے سامان کو اس ہی وسیلے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ حمل کیا جاتا ہے کہ جس کے نفع سے زندگی آرام و سکون سے گزاری جاتی ہے، وہ سب منقطع ہوکر رہ جاتا اور یہی حال ہوا کا ہے کہ اگر ہوا بھی اس وسعت و فراوانی کے ساتھ نہ ہوتی تو اُس فضا میں منتشر دھووؤںاور بخارات کی وجہ سے لوگوں کے دم گھٹ کر رہ جاتے ، اور ہوا کو اس أمر پر مجبور کیا گیا ہے کہ وہ انہیں بادلوں کی صورت میں تبدیل کرے اور ہوا کے مختلف قسم کے فوائد میں پہلے ہی بیان کرچکا ہوں۔

( آگ کے فوائد )

اے مفضل۔اب ذرا آگ پر غور کرو کہ اگر وہ بھی پانی اور ہوا کی مانند ہر جگہ پھیلی ہوئی ہوتی تو دنیا اور اس کی تمام اشیاء کو جلا کر خاک کردیتی اور کیوں کہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہے اور اس میں ان کے لئے بہت سے فائدے ہیں لہٰذا اسے خزانہ کی مانند کام درخت میں جگہ عطا کی تاکہ اُس کی ضرورت کے وقت اُس سے استفادہ کیا جاسکے، اور تیل اورلکڑی کے وسیلہ سے اُسے اُس وقت تک باقی رکھا جاسکے جب تک اِسکی ضرورت ہے یہ بات بجا اور صحیح ہے کہ تیل اور لکڑی کی مدد سے آگ کو بجھنے نہ دیا جائے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ دھکتی رہے، اور جو چیز بھی ہو اُسے جلا کر خاک کردے، بلکہ وہ ایک ایسی چیز کی طرح ہے کہ جو ہر وقت آمادہ ہے ، مگر پوشیدہ کہ اسی عمل میں اس کے منافع اور مصالح سے استفادہ اور اس کے ضرر سے محفوظ رکھا گیا ہے، اور آگ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانوں کے لئے بنائی گئی ہے ، اس لئے کہ انسانوںکے لئے آگ میں بے انتہا فائدے ہیں انسان کی زندگی میں

۱۳۵

اگر آگ جیسی نعمت نہ ہوتی تو اُس کی معیشت کو بڑا نقصان پہنچتا ، لیکن چوپائے آگ کو استعمال نہیں کرتے اور اس کے فائدے سے محروم ہیں ایسا اس لئے ہے کہ خداوند عالم نے انسان کو ایسے ہاتھ سے نوازا ہے جو ہتھیلی اور انگلیوں کر مرکب ہے جس کے وسیلے سے وہ آگ کو روشن اور دوسرے کام انجام دے سکتا ہے، جبکہ حیوانات اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہیں ، لیکن اس کے بدلے انہیں صبر وتحمل جیسی قوت عطا کی گئی تاکہ آگ کا نہ ہونا ان کے لئے نقصان دہ ثابت نہ ہو جیسا کہ انسان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ اے مفضل، میں تمہیں آگ کے بڑے فائدوں میں سے چھوٹا سا فائدہ بتاتا ہوں ، جس کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے ، اور وہ یہ چراغ ہے کہ جسے لوگ جلاتے ہیں ، اور اس کی روشنی میں وہ اپنے تمام کام انجام دیتے ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتا تو لوگوں کی زندگی اُن مردوں کی طرح گذرتی جو قبر میں ہیں ایسی صورت میں کون لکھنے ، حفظ کرنے یا بننے کے کام کو انجام دے سکتا تھا، یا پھر کوئی کس طرح سے پیش آنے والے حادثہ یا کسی درد والم کے دور کرنے کے لئے مرہم یا دوا فراہم کرسکتا تھا، اور آگ کے دوسرے فائدے یہ ہیں کہ وہ کھانا پکانے، بدن گرم کرنے، چیزوں کو خشک کرنے، اجناس کو حل کرنے کے استعمال میں لائی جاتی ہے ، اور آگ کے دوسرے بہت سے فائدے ہیں کہ جنہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں جو ظاہر و آشکار ہیں۔

( صاف اور بارانی ہوا )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو صاف اور بارانی ہوا پر کہ کس طرح وہ عالم پر سے یکے بعد دیگرے اپنا سفر طے کرتی ہیں کہ جس میں اس دنیا کی بھلائی ہے ، کہ اگر اُن میں سے ایک بھی دائمی ہوتی تو عالم میں فساد ہوجاتا، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب مسلسل بارش ہوتی ہے تو سبزیاں سڑ جاتی ہیں پودے فاسد ہوجاتے ہیں ، حیوانات کے بدن سست اور ہوا سرد ہوجاتی ہے کہ جس سے مختلف قسم کے مرض ایجاد

۱۳۶

ہوتے ہیں ، گلی اور سڑک وغیرہ بھی خراب ہوجاتے ہیں اور اسی طرح اگر ہوا صاف رہے تو زمین خشک ہوجائے، تمام اُگنے والی چیزیں جل جائیں، تمام چشموں، ندیوں ، اور نہروں کا پانی خشک ہوجائے، یہ صورت بھی لوگوں کے لئے بے انتہا نقصان دہ ثابت ہوتی ، اور خشکی ہوا پر مسلط ہوجاتی کہ جس سے مختلف امراض وجود میں آتے ، لیکن ان کے معتدل ہونے کی وجہ سے عالم ان کے ضرر سے محفوظ رہتا ہے ، اور تمام چیزیں فاسد اور ضائع ہونے سے بچ جاتی ہیں اب اگر کوئی سوال کرے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ان دونوں میں سے ایک مضر نہ ہوتی تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ دونوں کا مضر ہونا اس لئے ہے تاکہ انسان کو کچھ درد والم و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے ، اور وہ گناہ سے دوری اختیار کرے، جیسا کہ جب انسان کا بدن مریض ہوجاتا ہے تو وہ تلخ اور کڑوی دواؤں کا محتاج ہوتا ہے ، تاکہ اُسکا جسم صحیح و سالم ہوجائے بالکل ایسے ہی کہ جب انسان طغیان و شرارت میں مبتلاء ہوجائے تو کوئی چیز تو ہونی چاہیے کہ جو ایسے وقت میں اُسے درد والم اور پریشانی میں مبتلا کرے ، تاکہ وہ طغیان اور شرارت کرنے سے رکا رہے، اور ہرگز برے کام انجام نہ دے کہ جس میں اسکی دنیا او ر آخرت دونوں کی بھلائی ہے۔

اے مفضل۔ بادشاہوں میں سے اگرکوئی ایک بادشاہ اپنی رعایا کو ہزاروں سونے و چاندی کے درہم و دینار عطا کردے ، تو کیا یہ بادشاہ کا عطا کرنا اُس رعایا کو عظیم نہیں معلوم ہوتا؟ اور کیا وہ اُس کے کرم و سخاوت کے گن نہیں گاتے؟ جبکہ وہ بادشاہ کہاں اور ایک بارش کا نازل کرنے والا کہاں جس بارش کے وسیلے سے شہر آباد اور نباتات نشوونما پاتے ہیں جسکے فوائد تمام ملکوں اور قوموں کے نزدیک سونے، چاندی کے سکّوں کے وزن سے کہیں زیادہ ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس بارش ہی کے اندر کتنے فائدے اور اسکی قدروقیمت کس قدر عظیم ہے، اسکے باوجود لوگ اس سے غافل ہیں۔ صد افسوس ایسے لوگوں پر جو کم قدر و قیمت کی چیزوں کی حاجت پورا نہ ہونے پر اپنی تندوتیز زبان کو خداوند متعال کے بارے میں دراز کرتے ہیں ، جبکہ اس چیز کا نہ ہونا ہی انکے لئے سودمندہے اور یہ لوگ کم قیمت چیز کو اس

۱۳۷

چیز پر ترجیح دیتے ہیں کہ جس کی قدر وقیمت بہت زیادہ ہے اور یہ ان کے بارش اور اس کے فوائد سے جاہل ہونے کی وجہ سے ہے۔

( بارش کے فائدے )

اے مفضل۔ فکر کرو بارش کے برسنے اور اس میں استعمال شدہ تدبیر پر کہ کس طرح بارش اوپر سے نیچے کی طرف برستی ہے، تاکہ وہ ہرچیز تک پہنچ کر اُسے سیراب کردے کہ اگر بارش اطراف سے برستی تو کبھی بھی تمام چیزوں تک نہیں پہنچ سکتی تھی جس کے نتیجے میں ذراعت کم ہوتی کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ذراعت جو رواں دواں پانی اور چشموں کے ذریعہ ہوتی ہے، اُس ذراعت سے کہیں کمتر ہے جو بارش سے ہوتی ہے اور کیوں کہ بارش تمام زمین ، بیابان، پہاڑ، ٹیلے اور دوسری تمام چیزوں پر برستی ہے اس لئے کہ غلہ زیادہ ہوتاہے، بارش ہی کے وسیلے سے آب پاشی اور آب رسانی کا سلسلہ کم ہوجاتا ہے،اور بارش لوگوں کے درمیان ظلم و ستم اور فساد کا خاتمہ کردیتی ہے کہ قدرت مند لوگ پانی لے جاتے ہیں اور ضعیف و کمزور محروم رہ جاتے ہیں، اور کیوں کہ بارش کے مقدر میں اس بات کو رکھا کہ وہ اوپر سے نیچے کی طرف برسے، لہٰذا اس طرح تدبیر ہوئی کہ وہ قطرہ قطرہ کی صورت میں زمین پر آئے، اور اس میں داخل ہوکر اُسے سیراب کرے، اس لئے کہ اگر وہ ایک ہی مرتبہ میں تمام کی تمام برستی تو فقط زمین پر جاری ہوتی اور ہرگز اس کے اندر داخل نہ ہوتی ، اور اس کے علاوہ اگر وہ ذراعت پر پڑتی تو اُسے تباہ کر دیتی ، ان تمام وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کی تدبیر رکھی گئی کہ وہ آرام اور نرمی کے ساتھ برسے تاکہ وہ دانے کہ جو کاشت کئے جاچکے ہیں ، اُگیں اور زمین ذراعت کے لئے زندہ ہوجائے بارش میں دوسرے بھی بہت سے فائدے ہیں ، وہ یہ کہ بارش بدن کو نرم ، ہوا کو کدورت سے پاک اور اُن بلاؤں کو جو درختوں اور ذراعت پر نازل ہوتی ہیں کہ جن میں سے ایک یرقان ہے دور کرتی ہے،

۱۳۸

اور اس قسم کے دوسرے بے انتہاء فوائد۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ بعض دفعہ اس بارش میں بہت بڑا نقصان دیکھنے میں آتا ہے، چاہے وہ تیز بارش یا اولوں کی صورت میں ہو کہ جو ذراعت کو تباہ کر دیتی ہے ، یا پھر ان بخارات کی وجہ سے جو ہوا میں پیدا ہوتے ہیں کہ جن میں سے بہت سے بیماریاں وجود میں آتی ہیں اور وہ آفات کی صورت میں غلات پر نازل ہوتی ہیں، تو اسکا جواب یہ ہے کہ یقینا بعض دفعہ ایسے حادثات رونما ہوتے ہیںجسکی وجہ لوگوں کی اصلاح ہے، انہیں معصیت سے دور اور اسے مسلسل انجام دینے سے روکتا ہے، لہٰذا ان کے مال کے نقصان کے ذریعہ ان کے دین کے نقصان کو دور کیا جاتا ہے جو مال کے ضرر و نقصان سے کئی گناہ ہے۔

( پہاڑ خداوند عالم کی عظیم نشانی )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو ان بلند پہاڑوں پر کہ کس طرح مٹی و پتھر ایک ساتھ ملے ہوئے ہیں، غافل لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ پہاڑ ایک زائد چیز ہے کہ جسکی ضرورت نہیں جبکہ ان میں بہت سے فائدے ہیں ، یہ ان لوگوں کے لئے کہ جو اسکی ضرورت رکھتے ہیں برف پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑی رہتی ہے تاکہ جو لوگ اس کے ضرورت مند ہوں وہ اُس سے فائدہ اٹھائیں۔ اور پھر یہ برف پانی کی صورت اختیار کرلیتی ہے کہ جس سے بڑی بڑی نہریں وجود میں آتی ہیں ، اور ان نہروں میں اس قسم کے نباتات اور دوائیں اُگتی ہیں کہ جو بیابان اور صحراء میں نہیں اُگتیں اور پہاڑوں ہی کے اندر وحشی درندوں کے رہنے کے لئے غار ہوتے ہیں اور پہاڑ ہی دشمن سے حفاظت کے لئے محکم قلعہ کے حصار کا کام انجام دیتا ہے۔ پہاڑوں ہی سے قیمتی پتھر حاصل کئے جاتے ہیں کہ جو عمارتوں اور چکی وغیرہ کے لئے استعمال میں لائے جاتے ہیں ، اور اسی سے ہمیں مختلف معدنیات حاصل ہوتی ہیں اور پہاڑ میں دوسرے ایسے بھی بہت سے فائدے ہیں کہ جنہیں فقط خداوند متعال ہی جانتا ہے کہ جس نے انہیں اپنی عظیم تدبیر کے تحت خلق کیا ہے۔

۱۳۹

( معدنیات )

اے مفضل۔ معدنیات مثلاً مختلف اقسام کے جواہرات ، چونا کا پتھر، سیمنٹ، قلعی، چوہے مار پوڈر، معدنی دوائ، توتیا، سرمہ، پیتل ، سیسہ، چاندی، سونا، زبرجد، یاقوت، زمرد اور مختلف اقسام کے قیمتی پتھروں پر غور فکر کرو اور ذرا سوچو کہ کس طرح ان سے تارکول، مومیا، ماچس کا مصالحہ، مٹی کا تیل اور دوسری ایسی چیزیں برآمد ہوتی ہیں کہ جن سے لوگ اپنی مختلف ضرورتیں پوری کرتے ہیں تو کیا اب بھی کسی صاحب عقل سے یہ بات پوشیدہ رہ جاتی ہے کہ پہاڑ کیوں بنائے گئے ہیں؟پہاڑ وںمیںخداوند متعال نے بے انتہاء خزانوں کو رکھا، تاکہ لوگ اپنی ضرورت کے وقت انہیں نکالیں اور ان سے استفادہ کریں، اب ذرا دیکھو کہ خداوندمتعال نے انسان کو ہر چیز کے بنانے کا علم عطا نہ کیا کہ اگر ایسا ہوتا تو انسان ان تمام چیزوں کو بناڈالتا، اور وہ دنیا میں بکھر کر رہ جاتیں، سونا اور چاندی وغیرہ عام ہوجاتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگوں کے درمیان ان کی قدر وقیمت کم ہوجاتی ، اور کیونکہ وہ خرید وفروخت میں اپنی کوئی قدروقیمت نہ رکھتے، لہٰذا لوگوں کے درمیان معاملات انکے ذریعہ طے نہ پاتے ، اور کبھی بھی بادشاہ أموال کی طرف نہ کھنچتا، اور کوئی بھی انہیں اپنی اولاد کے لئے ذخیرہ نہ کرتا لہٰذا خداوند متعال نے انسان کو اُس صنعت کا علم عطا کیا، جس میں اس کے لئے ضرر نہیں۔مثلاً پیتل سے مجسمے اور برتن وغیرہ، ریت سے جست،جست سے چاندی اور چاندی سے سونا ، (اے مفضل) ذرا غور کرو کہ کس طرح سے خداوند متعال نے انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا بندوبست کیا کہ جس میں اس کے لئے ذرا بھی نقصان نہیں ، اور ان تمام چیزوں کو انسان سے دور رکھا کہ جس میں اس کے لئے نقصان و ضرر ہے، اب اگر کوئی یہ کوشش کرے کہ وہ اس معدن تک پہنچ جائے کہ جو ایک ایسی بڑی وادی کی انتہا میں ہے کہ جو ایک ایسے پانی سے متصل ہے کہ جو اپنی شدت کے ساتھ جاری ہے، اور اس پانی میں ذرہ برابر چیز بھی

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367