اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143967 / ڈاؤنلوڈ: 3622
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

خلا صہ کلا م یہ ہے کہ خدا کی حکمت کا تقا ضا تھا کہ اس کا فرستادہ اپنے ربّ کی طرف سے کو ئی معجزہ پیش کرے جو اس کے ادّعا کی صداقت پر دلیل ہو اور اس طرح سے لوگوں پر حجت تمام ہو. اس صورت میں جو ما ئل ہو وہ ایمان لے آئے اور جو سر کشی و عناد کر نا چا ہے وہ کرے جیسا کہ تمام معجزا ت پیش کر نے کے بعد حضرت موسیٰ اور حضرت ہا رون کی قوم کا حال تھا.یعنی جادو گر وںنے ایمان قبول کیا لیکن فر عو نیوں اور اس کے گردو پیش والوں نے کفر و عناد کا راستہ اختیار کیا کہ خداوند عالم نے بھی انھیں غرق کر کے ذلت و خواری کی طرف کھینچ دیا۔

جو کچھ انبیا ء اللہ کی جانب سے پیش کرتے ہیں اسلامی اصطلا ح میں اسے معجزہ کہتے ہیں جو کہ خود ہی ان کی صداقت پر ایک دلیل ہے۔

لہٰذا جو کچھ ہم نے بیان کیا اس کے مطا بق ہر پیغمبراور رسول نبی ہو گا، لیکن ہر نبی پیغمبر نہیں ہو گا جیسے یسع کہ وہ نبی اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے وصی تھے۔

بعض پیغمبر ایسی شریعت لے کر آئے جو بعض ان موارد اور اعمال کی جنھیں گزشتہ شریعتوں نے پیش کیا تھا ،ناسخ قرار پائی جیسے حضرت موسیٰ کی شریعت سابق شریعتوں کی بہ نسبت اور بعض کی شریعت گزشتہ شریعت کو مکمّل کر نے والی یا تجدید کر نے والی تھی جیسے حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شریعت حضرت ابراہیم خلیل الرحمن کی شریعت کی بہ نسبت ،کہ خدا فرماتا ہے:

( ثُمَّ اَوْحَیْناَاالَیکَ اَن اتّبع مِلّةابرا هیم حنَیفاً... )

پھر اُس وقت ہم نے تمھیں وحی کی کہ ابراہیم کے پاک وپاکیزہ آئین کا اتباع کرو.( ۱ )

اور سورۂ مائدہ کی تیسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( اَلْیَو م اَکْمَلْتُ لَکُمْ دینکُم وَاَتمَمْتُ عَلیَکُم نِعمتی وَرضیتُ لَکُمُ الاِسلامَ دِیْناً )

آج کے دن ہم نے تمہارے دین کو کا مل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور تمہارے لئے اسلام کو پسند کیا ۔

ان چند اصطلا حوں سے آشنا ئی کے بعد کہ جن پر قرآن کریم ، حدیث اور سیرت کی کتابوں میں انبیاء کی خبروں کا سمجھنا موقوف ہے.اب ہم انشا ء اللہ ان کے اخبار کی تحقیق کر یں گے اور اپنی بات کا آغا ز حضرت آدم ابو لبشر سے کریں گے۔

____________________

(۱) سورۂ نحل:آیت ۱۲۳.

۴۱

( ۲ )

حضرت آدم ـ

* حضرت آدم ـ کی خلقت سے متعلق چند آیات.

* کلمات کی تشریح

* آیات کی تفسیر

آدم ـ کی خلقت

۱۔ خدا وند سبحا ن سورئہ طہٰ ٰکی ۱۱۵ اور ۱۲۲ آیات میں فرماتا ہے.

( وَلَقَدْعَهِدْنَا اِلٰی آدمَ مِن قَبْلُ فَنَسِیَ واَلَمْ نَجدلَهُ عزماً٭...٭ ثم أجْتَباه رَبُّهُ فَتابَ عَلَیْهِ وَهَدیٰ )

اور ہم نے آدم سے عہد وپیمان لیا (کہ شیطا ن کے دھو کے میں نہ آئیں)اور اس عہد میں اُن کو ثابت قدم اور پا ئدار نہیں پا یا ٭ ٭ پھر خدا نے ان کی تو بہ قبو ل کی اور ان کی ہدایت فر مائی اور انھیں مقام نبوت کے لئے انتخاب کیا.

۲۔سورۂ بقرہ کی ۲۷ اور ۳۰ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ ِنِّی جَاعِل فِی الَرْضِ خَلِیفَةً قَالُوا َتَجْعَلُ فِیهَا مَنْ یُفْسِدُ فِیهَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ وَنَحْنُ نُساَبِحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ ِنِّی َعْلَمُ مَا لاَتَعْلَمُونَ ٭ وَعَلَّمَ آدَمَ الَسْمَائَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ َنْبِئُونِی بَِسْمَائِ هَؤُلاَء ِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ٭ قَالُوا سُبْحَانَکَ لاَعِلْمَ لَنَا ِلاَّ مَا عاَلَمْتَنَا ِنَّکَ َنْتَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ ٭ قَالَ یَاآدَمُ َنْبِئْهُمْ بَِسْمَائِهِمْ فَلَمَّا َنْبََهُمْ بَِسْمَائِهِمْ قَالَ اَلَمْ َقُلْ لَکُمْ ِنِّی َعْلَمُ غَیْبَ السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ وََعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ ٭ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا ِلاَّ ِبْلِیسَ َبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنْ الْکَافِرِینَ ٭ وَقُلْنَا یَاآدَمُ اسْکُنْ َنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلاَمِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلاَتَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنْ الظَّالِمِینَ ٭ فََزَلَّهُمَا الشَّیْطَانُ عَنْهَا فََخْرَجَهُمَا مِمَّا کَانَا فِیهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ وَلَکُمْ فِی الَرْضِ مُسْتَقَرّ وَمَتَاع الَی حِینٍ ٭ فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ راَبِهِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ ِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ٭ )

۴۲

٭ جب تمہارے رب نے فر شتوں سے کہا:میں روئے زمین پرایک جا نشین بنا ؤں گا ان لوگوں نے کہا آیا ایسے کو بنا ئے گا جو اس میں خو نر یزی اور فساد بر پا کر تے ہیں؟ جب کہ ہم تیری تسبیح اور حمد کر تے ہیں اور تیری پا کیز گی بیان کرتے ہیں فرمایا ! جومیں جا نتا ہو تم نہیں جا نتے اور آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی اس کے بعد انھیں فر شتوں کے سا منے پیش کیا اور ان سے سوال کیا اگر سچّے ہو تو ان کے اسماء کے بارے میں مجھے خبر دو ۔٭ بو لے خدا وند! تو منزہ ہے ہم تو وہی جا نتے ہیں جو تو نے ہمیں سکھا یا ہے تو دانا اور حکیم ہے۔ ٭

فرمایا : اے آدم ! تم ان کے اسماء کی انھیں خبر دو جب آدم نے انھیں آگاہ کیا تو فرمایا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ ہم زمین و آسما ن کے غیب کے بارے میں یا جو کچھ ظا ہر اور مخفی رکھتے ہواس سے باخبرہیں٭

جب ہم نے فر شتوں سے کہا آدم کا سجدہ کرو سب نے سجدہ کیا جز ابلیس کے اس نے انکار کیا اور تکبر سے کام لیا اور وہ کافروں میں سے تھا۔ ٭ اور ہم نے کہا اے آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں سکو نت اختیار کرو اور وہ پر جہ سے چا ہو کھا ؤ جو تمھیں پسند آئے ،لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جا ؤ گے ٭ شیطا ن نے انھیں فریب دینے کی کوشش کی اور انھیں جنّت سے باہر کر دیا اور میں نے کہا تم سب کے سب نیچے اترو تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہوگا اور تمہارے لئے زمین میں ایک مدت تک کے لئے ٹھہر سکتے ہو اور اس سے بہرہ مند ہوسکتے ہو ٭ پھر آدم نے اپنے خدا سے چند کلمات یا د کئے اور خدا نے ان کی تو بہ قبو ل کی کہ وہ تو بہ قبول کرنے والا اور مہر بان ہے ۔٭

۳۔ سورۂ آل عمران کی ۳۳ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( انَّ اللّٰهَ اِصطَفَیٰ آدَمَ وَ نُوحاً وَآلَ ااِبْرَاهیمَ وَآل عِمرَانَ عَلی العَا لمین )

خدا وند عالم نے آدم ،نوح ،خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو سارے جہان پر انتخا ب کیا۔

سورۂ انعام کی ۸۹ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( اُولئک الَّذِینَ آتَینَاهُمُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالَنُّبوَّة... )

وہ لوگ ( انبیائ)وہی ہیں جنھیں ہم نے آسمانی کتاب، فر ما نروائی اور نبوت عطا کی ہے...

۴۳

کلمات کی تشریح

۱۔اجتباہ :

اسے چنااور انتخاب کیا. مفردات راغب میں مذ کور ہے کہ: اجتباہ اللہ العبد یعنی یہ کہ خدا نے بندہ کو الٰہی فیض سے مخصوص کیاوہ بھی اس طرح سے کہ انواع واقسام کی نعمتیں اُس کے اختیار میںدے دیتا ہے بغیر اس کے کہ بندہ نے اس سلسلے میں کوئی کوشش کی ہو. یہ فیض انبیاء اور ان کے ہم مرتبہ صدیقین اور شہداء سے مخصوص ہے۔

۲۔ تابَ :

اُس نے تو بہ کی بندہ کی توبہ اس کی ند امت اور پشیمانی کا پتہ دیتی ہے اس گناہ سے جو انجام دیا ہے لہٰذا اس گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ کرنا اور جہاں تک ممکن ہو اس کی تلافی اور تدارک کرنا بندہ کی توبہ ہے۔

لیکن ربّ کی تو بہ کے معنی اپنے بندے کی تو بہ قبول کرنا ، اس کی خطاؤں سے در گذر کر نا ، اس کے ساتھ لطف واحسان کر نا اوراس کی بخشش کر نا ہے۔

۳۔خلیفة :

فرشتوں کی آفر نیش سے متعلق ذکر شدہ بحثوں کے ذیل میں ہم کہیں گے:

خلیفہ کی لفظ قرآن میں مفرد اور جمع دونوں صورتوں میں ذکر ہوئی ہے اور مفرد، جمع کی ضمیر کے ساتھ بھی استعمال ہوئی ہے لیکن جہاں پر مفرد ذکر ہوئی ہے اس سے مراد زمین پر اصفیاء اللہ میں سے برگزیدہ شخص ہے اور جہاں جمع یا جمع کی ضمیر کے ساتھ استعما ل ہوئی ہے وہاں اپنے سے پہلے والی قوموں کی جگہ پر زمین میں لوگوں کی جانشینی مراد ہے۔

پہلی وجہ سے متعلق:

۱۔ خدا کا فرشتوں سے خطاب :( اِنّیِ جَاعِل فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً )

میں روئے زمین پر ایک خلیفہ بنا ؤں گا.

۴۴

۲۔خدا کا داؤد سے خطاب:

( یَادَائُ وْدُ اِنَّاجَعَلنَاکَ خَلیفَةً فِی الْاَرْضِ )

اے داؤد!ہم نے تمھیں زمین پرمقام خلا فت عطاکیا.اگرپہلے مورد میں مراد یہ ہو کہ خدا نوع انسان کو زمین پراپنا خلیفہ اورجانشین بنا ئے گا ۔

پھر داؤد کے لئے مقام خلا فت سے مخصوص ہو نے کا شرف باقی نہیں رہ جا تا کیونکہ وہ بھی لوگوں میں سے ایک ہیں کہ خدا نے ان سب کو تا قیام قیا مت زمین پر اپنا خلیفہ اور جا نشین بنا یا ہے.اس بنا ء پر مجبورا ً کہنا چا ہئے: اپنے فرشتوں سے خدا کے خطاب( اِنّی جَاعِل فی الاَرضِ خَلیفہ )کا مطلب تنہا حضرت آدم ہیں یا حضرت آدم اور ان کی بر گزیدہ اولا د جو لوگوں کے امام اور راہ راست کے پیشوا اور راہنما ہیں۔

دوسری وجہ سے متعلق:

۱۔جہاں سورہ ٔ اعراف کی ۶۹ ویں آیت میںحضرت ہود کی اپنی قوم سے گفتگو کی حکایت کرتے ہوئے بیان فرما تا ہے.

( ... وَاذْکُرُ وا اإِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفائَ مِنْ بَعدِ قُومِ نُوح ٍ )

یا د رکھو خدا نے تمھیں قوم نوح کے جانشینوں میں قرار دیا ہے...

۲۔ اس کے بعد، صا لح کی گفتگو اپنی قوم سے متعلق اسی سورۂ کی ۷۴ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَاِذکُرُوا اِذجَعَلَکُم خُلَفائَ مِن بَعدِ عاد ٍ )

یاد رکھو کہ تمھیں قوم عاد کے بعد جا نشین بنا یا.

کیسے ممکن ہے خدا کے دشمن جیسے عاد و ثمود کی اقوام اور ان سے پہلے نوح کی قوم نافرمانی اور خدا سے دشمنی کے سبب، خدا نے انھیں ہلاک کیا اور انکو صفحہ ہستی سے مٹادیا ہے، روئے زمین پر خدا کے خلفا ء اور جانشین ہوں ؟

اس لحا ظ سے جناب ہود علیہ اسلام کی اپنے قوم سے گفتگو کا مطلب جو انھوں نے کی ہے :

( جَعَلَکُم خُلفَاء مِن بَعدِ قُومِ نُوح ٍ ) یہ ہے کہ خدا نے روئے زمین پر تم کو قوم نوح کا جانشین قرار دیا ہے اور حضرت صا لح کی اپنی قوم سے گفتگو کہ جو انھوں نے کی ہے:

۴۵

( جَعَلَکُم خُلفَاء مِن بَعدِ قُومِ عاد ٍ ) یہ ہے کہ قوم عاد کے بعد تمھیں روئے زمین پر ان کا جا نشین قرار دیا ہے۔

تیسری وجہ جو جمع کی ضمیر کے ساتھ ذکر ہوئی ہے وہ بھی اسی طرح سے ہے مثلاً سورہ ٔ اعراف کی ۱۲۹ ویں آیت میں حضرت یو نس کے اپنی قوم سے خطاب میں اسی طرح ذکر ہوا ہے:

( عََسَیٰ رَبَّکُمْ اَنْ یُهْلِکَ عَدُ وَّکُم وَیَسَتخِلَفکُمْ فِی الْاَرْضِ... )

امید ہے کہ خدا وند عالم تمہارے دشمنوں کو زمین سے نابود کر دے اور تمھیں روئے زمین پر ان کا جا نشین قرار دے... مراد یہ ہے کہ خدا وند عالم انھیں ان کے دشمنوں کی جگہ روئے زمین پر جانشین قرار دے گا۔

۴۔ا لاسماء :

عربی لغت میں اسم کے دو معنی ہیں:

۱۔ ایسا لفظ جو مسمیٰ پر دلالت کرتا ہے اور اسے دیگر تمام لوگوں سے ممتاز کر تا ہے مانند مکّہ جو کہ ایک شہر کا نام ہے جس میںکعبہ مشرفہ اور بیت ﷲ الحرام پایا جاتا ہے اور اشخاص کے نام جیسے یوسف، فیصل، عباس وغیرہ۔

۲۔ ایسا لفظ جو مسّمیٰ کی حقیقت یا اس کی صفت پر دلالت کرتا ہے جیسے اس آیہ شریفہ میں لفظ (اسم) (ساَبِحِ اسْمَ راَبِکَ الْاَ عْلٰی) (اے ہمارے رسول! ) اپنے خدا کے نام کی تسبیح کرو جو کہ تمام مو جودات سے بلند و با لا ہے (سورۂ اعلی آیت۱) کہ یہاں پر مراد اسم خدا کی تسبیح کرنا نہیں ہے بلکہ مراد ربّ کی صفت ہے یعنی اپنے بلند رتبہ ربّ کی ربو بیت کو پاک و منزہ قراردو ان چیزوںسے جو اس کی کبر یا ئی کے لئے زیبا نہیں ہیں۔اور اسی طرح سے یہ آیہ شریفہ ہے کہ فرماتا ہے ( وَعَلّمَ آدَمَ ا لْاَ سْمَاْئَ کُلَّھَا) (آدم کو تما م اسماء کی تعلیم دی ) اس سے یہاں پر یہ مراد نہیں ہے کہ خدا وند عالم نے اپنے خلیفہ آدم کو مراکز کے اسماء جیسے بغداد، تہرا ن اور لندن یا آدمی کے بد ن کے اعضا ء جیسے آنکھ، سر اور گردن ْیاپھلوں کے نام جیسے انجیر، زیتون اور انار، یا پتھروں جیسے یاقوت، دُر، زبرجد، یا معادن جیسے سونا، چاندی، پیتل، لوہا، وغیرہ وغیرہ کہ آدمی نے ان چیزوں کے مختلف عنوان سے نام رکھے ہیں،تعلیم دی ہو بلکہ مقصود یہ ہے کہ خدا نے اپنے خلیفہ کو اشیاء کے صفات اور ان کے حقائق سے آگاہ کیا ہے ہم نے خدا کی مرضی سے دوسری جلد میں '' (اسمائے حسنیٰ الٰہی'' ) کی بحث میںاسی سے متعلق تفصیل سے گفتگو کی ہے۔

۴۶

۵۔نسبّح بحمدک:

سَبحّ یعنی منزہ خیال کیا اور سبحان اللہ یعنی خدا پاک اور منزہ ہے.

۶۔نقدّس:

قدّس اللّٰہ تقد یسا ً، یعنی خدا کی شا ئستہ ترین انداز سے تقدیس کی.اور اس کی حمد و ثنا کی اور اسے عظیم اور با عظمت جانا اور اسے تمام ان چیزوں سے جو اس کی ذات اور مقام کے لئے مناسب اور شائستہ نہیں ہے اور مسند الوہیت کے لئے زیبا نہیں ہے، پاک و منزہ جانا۔

آیات کی تفسیر

خدا وند عالم نے حضرت آدم علیہ اسلام کی توبہ قبول کی اور اُن کا انتخاب کیا اور اپنی وحی کے لئے چنا ٹھیک اسی طرح جس طرح دیگر پیغمبروں کو لوگوںکی ہدایت کے لئے چنا ہے۔

ابن سعد کی طبقات اور احمد ابن حنبل کی مسند میں اسی طرح ذکر کیا گیاہے اور ہم یہاںپر صرف ابن سعد کی طبقات سے عبارت نقل کرتے ہیں:

لوگوں نے حضرت آدم کے سلسلہ میںحضرت رسول اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا کہ آیا حضرت آدم نبی تھے یا فرشتہ؟

تو رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا:

وہ نبی مکلَّم تھے یعنی ایسے شخص تھے جن سے خدا نے وحی کے ذریعہ گفتگو کی ہے۔

حضرت ابوذر سے مروی ہے کہ آپ نے کہا میں نے رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا۔سب سے پہلے نبی کو ن تھے ؟

۴۷

فرمایا:آدم ۔

میں نے سوال کیا : کیا آدم نبی تھے؟

جواب دیا : ہاں ،نبی مکلّم تھے۔

میں نے پو چھا رسولوں کی تعداد کتنے افراد پر مشتمل تھی؟

جواب دیا: ان کی مجمو عی تعداد تین سو پندرہ (۳۱۵)افراد پر مشتمل( ۱ ) ہے۔

منجملہ وہ امور جو ان کی شریعت میں ذکر ہوئے ہیں، حج ،خانہ کعبہ کے ارد گرد طواف اور جمعہ کی نماز تھی۔

ابن سعد کی طبقات میں مذکور ہے:

رسول خدا صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرما یا: جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار اور خدا کے نز دیک ان میں

____________________

(۱) طبقات ابن سعد ،طبع بیروت، سال : ۱۳۷۶، ج۱، ص ۳۲و ۳۴، طبع یورپ ، ص ۱۰ و۱۲ اور مسند احمد، ج ۵، ص ۱۷۸، ۱۷۹، ۲۶۵، ۲۶۶ اور تاریخ طبری طبع یورپ، ج۱، ص ۱۵۲ اور دوسری حدیثیں دوسرے مصادر میں مختلف الفاظ کے ساتھ

۴۸

سب سے عظیم دن ہے، کیو نکہ، خدا نے اُس دن حضرت آدم ـکو پیدا کیا اور اسی دن آدم کو زمین پر بھیجا اور اسی دن آدم ـ کو دنیا سے اٹھا یا ۔( ۱ )

حضرت آدم ایسے پیغمبر تھے کہ خدا وند سبحا ن نے انھیں کتاب اور حکمت عطا کی تھی تاکہ اپنے زمانے کے لوگوں کو کہ ان کے زمانے میں ان کی بیوی اور بچے تھے ہدایت کریں۔ وہ اولوالعزم پیغمبروں میں نہیں تھے یعنی بشیر(بشارت دینے وا لے) اور نذ یر(ڈرانے والے) نہیں تھے۔

پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ حضرت آدم کو عراق کی سر زمین پر جہاں انھوں نے وفات پا ئی ہے دفن کیا گیا ہے۔

حضرت آدم نے اپنی حیات میں اپنے فرزند(شیث) سے وصیت کی اور انھیں اپنی شریعت کی حفا ظت اور اس کی تبلیغ کی تاکید کی.خدا کی توفیق سے انشاء اللہ آیندہ فصل میںاس موضوع کے حالات کی تحقیق کریں گے۔

____________________

(۱)طبقات ابن سعد ،طبع بیروت ، ج۱،ص ۳۰ ، طبع یورپ ، ج۱ ، ص ۸.

۴۹

( ۳ )

حضرت آدم ـکے بعد اوصیاء سیرت کی کتابوں میں :

* مقدمہ

* شیث ہبة اللہ

* شیث کے فرزند انوش

* انوش کے فرزند قینان

* قینان کے فرزند مہلائیل

* مہلائیل کے فرزند یرد

* یرد کے فرزنداخنوخ(ادریس)

* اخنوخ (ادریس) کے فرزند متوشلح

* متوشلح کے فرزند لمک

مقدمہ

ابن سعد کی طبقات اور تاریخ طبری اور دیگر مآخذ میں اختصار کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ انھوں نے فر مایا:

حوا سے آدم علیہ اسلام کے بیٹے ہبة اللہ پیدا ہوئے جنھیں عبری زبان میں(شیث)کہا جا تا ہے اور حضرت آدم نے انھیں اپنا وصی قرار دیا .شیث انوش نامی فرزند کے باپ ہوئے اور جب شیث بیمار ہوئے تو انوش کو اپنا وصی اور جا نشین بنایا اور دنیا سے رحلت کر گئے۔

انوش کے فرزند قینان اپنے باپ کے وصی ہوئے۔

قینان کے فرزند مہلائیل اپنے باپ کے وصی ہوئے۔

مہلائیل کے فرزند''یردیا الیارد'' ان کے وصی ہوئے۔

۵۰

اخنوخ کہ وہی ادریس پیغمبر ہیں یرد کے فرزند اور ان کے وصی ہیں۔( ۱ )

متوشلح کے فرزند لمک ان کے وصی ہوئے۔

یہ سارے مطا لب ابن سعد اور طبری کی اس روایت کا خلا صہ ہیں جو ابن عباس سے حضرت آدم کے اوصیاء کے اخبار سے متعلق مروی ہے۔

ان کے اخبار کا فی بسط وتفصیل سے تاریخ یعقوبی متو فی۲۸۴ھ اور مسعودی متوفی ٰ ۲۴۶ھ اور سبط ابن جوزی متوفی ٰ ۶۵۴ ھ میں مذکور ہیں انشاء اللہ اس کی تفصیل بیان کی جائے گی ۔

____________________

( ۱)۔ مذکورہ اخبار کا پتہ لگا نے کے لئے ملاحظہ فرمائیں ابن سعد کی طبقات،طبع یورپ،ج۱،ص ۱۴۔۱۷؛تاریخ طبری، طبع یورپ، ج۱، ص ۱۵۳، ۱۶۵، ۱۶۶؛ شیث سے جناب آدم کی وصیت کی خبر : تاریخ ابن اثیر میں، ج، ۱،ص ۱۹۔۲۰ اور ج۱، ص ۴۰۔ ۴۸ اور تاریخ ابن کیثر، ج۱، ص ۹۸؛ تاریخ یعقوبی، ج۱، ص ۱۱ ، اُس میں ذکر کیا گیا ہے کہ اخنوخ وہی ادریس پیغمبر ہیں.

۵۱

شیث ہبة اللہ سیرت کی کتابوں میں

* شیث ـ کی ولادت

* حضرت شیث ـسے حضرت آدم ـ کی وصیت

* ان کا حکم اور خانہ خدا کا حج

* ان کا اپنے فرزند انوش ـسے وصیت کرنا

حضرت شیث ـکی ولا دت

مسعودی نے مروج الذ ھب میں تحریر فر مایا ہے:

جب جناب حو ّ ا کے بطن میں شیث قرار پا ئے تو ان کی پیشا نی سے نورچمکنے لگا. اور جب شیث پیدا ہوگئے تو وہ نورشیث میں منتقل ہو گیا اور جب شیث بالغ ہوئے اور ایک کا مل اور پختہ جوان ہوگئے تو حضرت آدم نے انھیں اپنا جا نشین قرار دیا اور اپنی وصیت ان کے درمیان رکھی اور انھیں آگاہ کیا کہ وہ آدم کے بعد خدا کی حجت اور روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں.انھیں چاہئے کہ اپنے جا نشینوں تک حق کو پہنچا ئیں اور وہ دوسرے وہ شخص ہیں کہ خاتم ا لا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور جن میںمنتقل ہوا ہے ۔( ۱ )

حضرت آدم ـ کی وصیت حضرت شیث سے

اخبار الزمان میں مذکور ہے:

جب خدا وند عالم نے حضرت آدم کی موت کا ارادہ کیا تو انھیں حکم دیا کہ اپنی وصیت اپنے فرزندشیث کے حوالے کر دیں اور تمام وہ علوم و دانش جو انھیں تعلیم دیئے گئے تھے انھیں تعلیم دے دیں، تو آدم نے ایسا ہی کیا۔( ۲ )

تا ریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

جب حضرت آدم کی موت کا وقت قر یب آیا تو حضرت شیث اپنے فرزند اور پوتوں کے ہمراہ ان کی خدمت میں پہو نچے حضرت آدم نے اُن پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا وند عالم سے بر کت کی درخواست

____________________

(۱)مسعودی کی مروج الذھب کی ج۱،ص ۴۷،۴۸ میں شیث کے حالا ت زندگی کا خلاصہ.(۲)مسعودی کی اخبار الزمان کا خلا صہ،طبع دار الاندلس بیروت ۱۹۷۸ ئ، سبط ابن جوزی نے بھی بعض اخبار وصیت کوشیث کے حالات زندگی کے ضمن میں مرآة الزمان نامی کتاب،طبع دار الشروق بیروت ۱۴۰۵ ھ ص ۲۲۳ پر ذکر کیا ہے.

۵۲

کی ، پھر اُس کے بعد اپنی وصیت شیث کے حوالے کی اور انھیں حکم دیا کہ ان کے جسد کی حفا ظت کریںاور ان کے مر نے کے بعد غار گنج میں رکھد یںاور پھر اس کے بعد اپنی رحلت کے وقت اپنے فرزند او رپو توں کو یکے بعد دیگرے وصیت کریں اور موت کے وقت ہر شخص دوسرے کو اپنا وصی و جا نشین بنائے؛ اور جب اپنی سرزمین سے نیچے آجائیں تو ان کے جسد کو لے کر زمین کے وسط(درمیان) میں رکھ دیں. پھر شیث کو حکم دیا کہ ان کے بعد ان کے فرزندوں میں ان کا قائم مقام رہتے ہوئے، انھیں تقوای الٰہی اور اس کی عبادت وپرستش کا حکم دیں اور انھیں قابیلیوں کے ساتھ مخلوط ہو نے سے روکیں، پھر اس کے بعد حضرت آدم نے ان تمام پر درود بھیجا اور آپ کی آنکھ بند ہوگئی اور جمعہ کے دن دنیا سے رحلت کر گئے۔( ۱ )

ان کا فیصلہ اور خا نۂ خدا کا حج

الف۔ تا ریخ یعقو بی میں مذ کور ہے:

شیثاپنے باپ حضرت آدم کی موت کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور لوگوں کو تقوائے الٰہی اور نیک کاموں کا حکم دیا۔( ۲ )

اخبار الزمان میں ذ کر ہے کہ: خدا وند عالم نے حکم دیاکہ خانہ کعبہ کی تعمیر کریں اور حج وعمرہ بجالائیں شیث سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے عمرہ کیا ہے۔( ۳ )

ب۔مرآة الزمان کتاب میں مذکور ہے :

جب حضرت آدم دنیا سے رخصت ہوگئے، شیث مکّہ تشر یف لائے اور حج و عمرہ انجام دیااور خانہ کعبہ کی فرسودگی اور پرانے ہو نے کے بعد اس کی نئے سر ے سے تعمیر کی اور اسے پتھر اور مٹی سے تعمیر کر کے زمین کی آبادی و عمران کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے باپ کے مانند مفسدوں پر حدود الٰہی کا اجراء کیا ۔( ۴ )

ج۔ مروج الذھب نامی کتاب میں مذکور ہے :

جب حضرت آدم نے شیث سے وصیت کی تو شیث نے اس کے مضمون کو ذہن میں رکھ لیااور لوگوں کے درمیان حکو مت اور فرمانر وائی کر نے لگے اور باپ کے قوا نین کا اجراء کیا پھر اس کے بعد ان کی بیوی

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی، طبع بیروت، ج۱،ص۷.(۲)تاریخ یعقوبی،ج۱، ص۸.(۳)اخبار الزمان ،ص۷۶.(۴)مرآة الزمان، ص ۲۲۳.

۵۳

حاملہ ہوئیں اور انوش کو جنم دیا یہی وقت تھا کہ شیث کی پیشانی میں موجود درخشاں نور انوش میں منتقل ہوگیا. یہ انتقال ان کی ولادت کے وقت عمل میں آیا. جب انوش بالغ ہوئے اور کمال کی منزل کو پہونچے تو شیث نے حضرت آدم کی امانت ان کے حوالے کی اور انھیں اس وصیت کی کرامت، عظمت، شرافت اور مرتبہ سے آگا ہ کیا اور انھیں وصیت کی کہ( وہ بھی) اپنے فرزند کو اس شرف وکرامت کی حقیقت سے آگا ہ کریں اور وہ اپنے فر زندوں کو بھی اس امر سے آگاہ کریں اور اس وصیت کے امر کو جب تک نسلوں کا سلسلہ قائم ہے یکے بعد دیگرے آپس میں منتقل کرتے رہیں۔( ۱ )

وصیت کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور ایک صدی سے دوسری صدی تک منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ خداوند عالم نے نور تاباں کو جناب عبد المطلب اور اُن سے اُن کے فرزند عبد اللہ رسول اکرم صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد تک پہنچا یا اور ہم انشاء اللہ ان میں سے بعض اخبار کو اجداد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اخبار کے ضمن میں ذکر کریں گے۔

شیث کی اپنے فرزند انوش سے وصیت

تاریخ یعقوبی میں مذ کور ہے:

جب شیث کی موت کا زمانہ آیا تو ان کے فرزندوں اور پوتوں نے کہ جن میں انوش، قینان، مہلائیل، یرد،اخنوخ اور ان کی عورتیں اور بچے شامل تھے، ان کے بستر کے پاس سب جمع ہوگئے شیث نے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے برکت طلب کی اور تمام چیزوں سے پہلے اس بات کی وصیت کی کہ قا بیل ملعون کی اولاد کے قریب نہ جائیں اور ان سے رفت وآمد نہ رکھیں، پھر اس وقت اپنے بیٹے انوش سے وصیت کی اور انھیں حکم دیا کہ حضرت آدم کے جسدکو اسی طرح محفوظ رکھیں.اور یہ کہ تقوائے الٰہی اختیار کریں اور اپنی قوم کوبھی تقوائے الٰہی اور نیکی کا حکم دیں؛ پھر اس کے بعد آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۲ )

____________________

(۱) مروج الذھب، مسعودی،۱۔۴۸.(۲) تاریخ یعقوبی، ج ۱، ص ۸۔۹.

۵۴

حضرت شیث ـ کے فرزند انوش ـ

* انوش ـکی ولادت اور ان سے شیث ـکی وصیتاور خا تم ا لا نبیاء صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کا ان میں منتقل ہو نا

* انوش ـ سب سے پہلے شخص جنھوں نے درخت لگا یا اور زراعت کی.

* انوش ـ کی اپنے فرزند قینان سے وصیت اور حضرت آدم ـ کے صحیفوں کی انھیں تعلیم

* انوش ـ کی وفات

۵۵

انوش کی ولادت اور ان سے شیث کی وصیت اورخا تم ا لا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کا ان میں منتقل ہو نا ۔

مرآة الزمان میں مذ کور ہے:

انوش حضرت آدم کی حیات ہی میں پیدا ہو چکے تھے. جب حضرت شیث نے اپنی موت کو قر یب پا یا تو اپنے فر زند انوش کو اپنا وصی قرار دیااور انھیں اس نور سے جو ولادت کے وقت اُن میں منتقل ہوا تھا (یعنی حضرت خاتم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور کہ ان کی نسل سے دنیا میں آئیں گے) آگاہ کیااور انھیں حکم دیا کہ اپنی اولاد کو اس افتخار و شرف سے کہ ایک بزرگ سے دوسرے بزرگ اور ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو گا آگاہ کریں۔

انوش نے اپنے باپ کے انتقال کے بعد ان کے فرا مین کی انجام دہی میں س بہترین طریقہ اپنایا اور رعا یا کے امور کی تد بیر اور قوانین الٰہی کے اجراء کے لئے اپنے باپ کے زمانے کی طرح قیام کیا وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے خرمے کا درخت لگا یا اور زمین میں دانہ ڈ الا۔(۱ )

سب سے پہلا شخص جس نے درخت لگا یا اورکھیتی کی

مر وج الذ ھب میں مذکور ہے :

انوش نے زمین کو آباد کرنے اور اُسے قا بل زارعت بنا نے کے لئے اقدام کیا.اس کے بعدان کے فرزند قینان پیدا ہوئے، تا بندہ نور قینان کی پیشانی پر درخشندہ ہوا.انوش نے اس نور کے بارے میں قینان سے عہد وپیمان لیا( ۲ ) ( یعنی ان سے عہد و پیمان لیا کہ پیغمبر ختمی مرتبت صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کے حاملین کو جو کہ انھیں کے فرزند وںمیں سے ہو گے اس نور کے وجود اور اس کی بر کت سے آگاہ کریں گے۔

____________________

(۱)مرآة الزمان، ص ۲۲۳.(۲) مروج الذھب، مسعودی،ج۱،ص۴۹.

۵۶

انوش کی اپنے فرزند قینان کو وصیت اور انھیں حضرت آدم ـکے صحیفوں کی تعلیم دینا

اخبار الزمان میں مذکور ہے:

انوش حضرت شیث کے فرزند تھے جو کہ ان کے سب سے پہلے فرزند شمار کئے جاتے ہیں اور اپنے باپ کے وصی تھے.انوش نے بھی اپنی رحلت کے وقت اپنے بیٹے قینان کو اپنا وصی بنایا اور (حضرت آدم کے) صحیفوں کی تعلیم دی۔( ۱ )

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے:

شیث کے فرزند انوش نے اپنے باپ اور دادا کی وصیت کی حفا ظت اور نگہد اشت کی اور انھوں نے باحسن الوجوہ خدا کی بند گی اور عبادت کی اور اپنی قوم کو بھی حکم دیا کہ خدا کی احسن طریقہ سے عبادت وپرستش کریں۔( ۲ )

انوش کی وفات

تاریخ طبری میں مذ کور ہے :

انوش اپنے با پ کے بعد ملکی نظام کو چلانے اور رعا یا کے نظم و تد بیر میں مشغول ہوگئے.( ۳ )

جب رحلت کا وقت قریب آیا تو اپنے فر زندوں اور فرزندوں کے فرزندوں ( پو توں ) مہلائیل، یرد، اخنوخ (ادریس)متوشلح اور ان کی عورتوں اور ان کے فرزندوں کو بلا یا.اور جب سب حا ضر ہوگئے توسب پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے برکت کی درخواست کی؛اور اس بات سے منع فر مایا کہ ان کے فرزندوں میں سے کو ئی بھی قا بیل ملعون کی اولاد سے معا شرت اور رفت وآمد کرے، پھر اس وقت قینان کو اپنا وصی نامزد کیا اور انھیں حضر ت آدمکے جسد کی حفا ظت کی وصیت کی اور سب کو حکم دیا کہ ان کی خد مت میں خدا کی نما ز پڑھیں اور اس کی بکثرت تقدیس کریں .پھر اس وقت آنکھ بند ہو گئی اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۴ )

____________________

(۱) اخبار الزمان ص۲۲۳۔ ۲۲۴ .(۲)تاریخ یعقوبی ، طبع بیروت، ج ۱ ،ص۸.(۳) تاریخ طبری ، طبع یورپ،ج ۱ ،ص ۱۶۵

(۴) تاریخ یعقوبی ،ج ۱ ، ص۸۔۹.

۵۷

انوش کے فرزند قینان

* قینان کا عرصہ وجود پر قدم رکھنا اور ان کی پیشا نی میں خا تم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کا درخشاں ہو نا

* انوش نے قینان کو حضرت آدم کے صحیفوں کی تعلیم دیتے ہوئے حکم دیا کہ نما ز قا ئم کریں اور تمام احکام کا اجراء کریں

* قینان کی اپنے فرزند مہلائیل سے وصیت

حضرت قینان کا عرصہ وجود پر قدم رکھنا اور ان کی پیشانی میں حضرت خاتم الا نبیا ء کے نو ر کا درخشاں ہو نا.

الف۔ مروج الذھب میں ذ کر کیا گیا ہے:

انوش کے فرزند قینان پیدا ہوئے جب کہ وہ نورِمعہود ( خا تم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور )ان کی پیشا نی میں ضوبارتھاانوش نے قینان کے پیدا ہو جا نے کے بعد ان کی جا نشینی اور وصا یت کے بارے میںدوسروں سے عہد وپیمان لیا.( ۱ )

ب ۔مرآة الزمان نا می کتاب میں مذ کور ہے:

جب حضرت انوش کی موت کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے فر زندقینان سے وصیت کی اور وہ معہود نور قینان میں منتقل ہو گیا۔

انوش نے قینان کو اس راز کی حقیقت سے جو انھیں سپرد کیا گیا تھا آگاہ کیا پھر انوش کے انتقال کے بعد قینان نے باپ کی روش اپنا ئی۔( ۲ )

مؤ لف فرماتے ہیں: سرسے مراد، وہی حضرت خا تم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور ہے کہ جو پے در پے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتا رہااورہم ا نشاء اللہ اس عہد کے معنی کی خدا کی مر ضی سے انھیں مطا لب کے ذیل میں تحقیق کریں گے.

____________________

(۱) مروج الذ ھب، ج ۱، ص ۴۹.(۲)مرآة الز مان، ص ۲۲۴.

۵۸

انوش نے صحیفوں کی قینان کو تعلیم دی اور انھیں نماز قائم کر نے اور دیگر احکام کا حکم دیا

اخبار الزمان نامی کتاب میں مذکور ہے:

انوش نے اپنے فرزند قینان کو اپنا وصی مقر ر کیا وہ اس سے پہلے حضرت آدم کے صحیفوں کی تعلیم انھیں

دے چکے تھے اور زمین کے ٹکروں اور اس بات کو کہ کون کو ن سی چیز ان کے اندر ہے ان کے لئے بیان کیا۔

انھوں نے قینان کو حکم دیا کہ نما ز قا ئم کریں زکاة دیں، حج بجا لائیں اور قا بیل کی اولاد سے جنگ کریں قینان نے حکم کی تعمیل کی اور باپ کے دستورات کا اجراء کیا۔( ۱ )

قینان کی اپنے فرزند مہلائیل سے وصیت

تاریخ یعقوبی میں مذکور ہے :

قینان ایک خلیق ،ملنسا ر اہل تقویٰ اور پر ہیز گار انسا ن تھے اپنے باپ کے بعد وظا ئف کے انجام دینے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی قوم کو خدا کی اطا عت و فرما نبرداری اور اس کی بنحو احسن عبادت کر نے اور حضرت آدم اور حضرت شیث کی وصیتوں کی پیروی کا حکم دیا.اور جب قینان کی موت کا وقت قریب آیا تو ان کے فر زند اور فر زندوں کے فرزند '' پو تے ''یعنی مہلائیل، یرد ، متوشلح،لمک ان کی عورتیں اور ان کے بچے ان کے پا س جمع ہوگئے. قینان نے ان پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے بر کت کی دعا کی پھر اس وقت مہلائیل سے وصیت کی اور انھیں حضرت آدم کے جسد کی حفا ظت اور نگہداشت کا حکم دیا۔( ۲ )

____________________

(۱)اخبار الزمان،ص۷۷.(۲ )تاریخ یعقوبی ۔ج۱،ص ۹.

۵۹

قینان کے فرزند مہلائیل

* مہلائیل اپنی قوم کو خدا کی اطا عت و فر مانبرداری کا حکم دیتے ہیں.

* مہلائیل وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے درخت کاٹا، شہروںاور مسا جد کی بنا ڈالی اور معدنیات کے نکالنے میں مشغو ل ہوئے.

* مہلائیل اپنے فر زند یر د کو وصیت کرتے ہیں اور حضرت آدم کے صحیفوں کی انھیںتعلیم دیتے ہیں.

* مہلائیل اپنی قوم کو اپنے فرزند یرد کے اندر حضرت خاتم الا نبیا ءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کے منتقل ہونے کی خبر دیتے ہیں.

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

كہ دينى حكومت اپنے اہداف كو حاصل كر سكے گى _ يعنى اگر پيراگراف نمبر ۲ سے چشم پوشى كر ليں اور فقہاء كے علاوہ دوسرے افراد كو سياسى اقتدار دے ديں اور فقيہ كے كردار كو فقط نظارت ميں محدود كرديں تو كيسے اس بات كى ضمانت دى جاسكتى ہے كہ اسلامى نظام برقرار رہے گا اور صاحبان اقتدار '' ناظر فقيہ ''كے اصلاحى مشوروں پر عمل كريں گے_ جب تمام اجرائي امور ان افراد كے ہاتھ ميں ہوں جو شناخت اسلام ميں مہارت نہيں ركھتے تو طبيعى طور پر شريعت كے منافى كام بڑھتے جائيں گے _ تو كن اسباب كى رو سے انہيں فقہاء كى نظارت كا نتيجہ قرار ديا جائے گا_

تجربہ سے ثابت ہوچكا ہے كہ قانوں ساز اداروں ميں اساسى قانون ميں فقيہ كو فقط ناظر قرار دينا اس نظام كے شرعى ہونے كيلئے كافى نہيں ہے_ تاريخ گواہ ہے كہ يہ اساسى قانون جلد ہى ختم ہوگيا _ اور عملى طور پر ملك كے سياسى منظر سے فقہاء كى نظارت محو ہوگئي_ اس كى واضح مثال نہضت مشروطہ ہے(۱)

____________________

۱) تيرہويں ہجرى شمسى كے ابتدائي دس عشروں ميں ايران ميں داخلى ظلم و استبداد اور بيرونى استعمار كے خلاف روحانيت (علمائ) كى قيادت ميں ايك تحريك چلى تھى _ يہ قيام قاجار كى ظالمانہ حكومت كے خاتمہ يعنى ۱۳۲۳ سے ۱۳۸۴ تك جارى رہا_ اس تحريك كے راہنماؤں كا يہ اصرار تھا كہ قومى اسمبلى كے تمام قوانين شريعت اور دينى احكام كے ساتھ مشروط ہوں _ اسى لئے اس تحريك كو نہضت مشروطہ كے نام سے شہرت حاصل ہوئي _

اگر چہ يہ قيام علماء كى راہنمائي ميں شروع ہوا اور انہى كے زير سايہ آگے بڑھا_ اور تمام مجاہدين اور كاركنوں كى تمام تر كوشش يہى رہى كہ دين كى حاكميت قائم ہوجائے_ اور بيرونى طاقتوں كے تسلط كا خاتمہ ہوجائے_ ليكن چونكہ اسلامى حكومت كے تحقق اور شريعت كے نفاذ كيلئے ضرورى اقدامات نہيں كئے گئے اور نہ ہى مراجع تقليد كى آراء كا خيال ركھا گيا اسى لئے تھوڑے ہى عرصہ ميں جيسا كہ اوپر اشارہ ہوچكا ہے اس تحريك نے كاميابى حاصل كرنے كے بعد نہ صرف اپنے اسلامى افكار سے چشم پوشى كرلى _ بلكہ آيت اللہ شيخ فضل اللہ نورى جيسے افراد كو جام شہادت نوش كرنا پڑا اور روحانيت كو حكومتى اداروں سے بے دخل ہونا پڑا_

۲۴۱

خلاصہ :

۱) ''فقيہ عادل'' كيلئے ولايت كا عہدہ معاشرہ كے نقص اور ضعف كى تلافى كيلئے ہے_

۲)شيعہ فقہا معاشرتى امور كى سرپرستى كيلئے فقاہت كو ضرورى سمجھتے ہيں حتى كہ وہ فقہاء بھى جو فقيہ كى ولايت انتصابى كے معتقد نہيں ہيں_

۳) سياسى سرپرستى ميں فقاہت كى شرط كا فلسفہ يہ ہے كہ حكومتى اہداف اور امور امن و امان اور رفاہ عامہ ميں منحصر نہيں ہيں بلكہ مختلف اجتماعى روابط كو اسلامى احكام كے ساتھ ہم آہنگ كرنا بھى حكومتى اہداف كا ايك حصہ ہے_

۴) ولايت فقيہ كے بعض مخالفين نفاذ اسلام اور ولايت فقيہ كے درميان ملازمہ كے قائل نہيں ہيں_ ان كى نظر ميں معاشرہ كا انتظام سنبھالنا سياست دانوں كا كام ہے نہ كہ فقيہ كا _ فقيہ اصول اور كليات كا ماہر ہے _ جبكہ معاشرہ كا انتظام ہميشہ جزئيات اور تغيرات كے ساتھ پيوستہ ہے_

۵)ولايت فقيہ كے بعض دوسرے مخالفين دينى حكومت اور ولايت فقيہ كے درميان ملازمہ كے قائل نہيں ہيں _ كيونكہ اسلامى نظام'' فقيہ كى نظارت'' سے بھى ممكن ہے_

۶) ولايت فقيہ كے مخالفين نے چند بنيادى نكات سے غفلت برتى ہے ان ميں سے ايك نكتہ يہ ہے كہ سياسى سرپرستى كى واحد شرط ''فقاہت'' نہيں ہے تا كہ يہ كہا جائے كہ معاشرہ كى تدبير كيلئے كچھ ايسى خصوصيات كى بھى احتياج ہوتى ہے كہ جن ميںاصول اور كليات كا جان لينا كافى نہيں ہے_

۷) تاريخى تجربہ نے ثابت كيا ہے كہ فقط ''نظارت فقيہ '' مختلف معاشرتى امور اور سياست كو اسلام كے ساتھ ہم آہنگ نہيں كرسكتي_

۲۴۲

سوالات :

۱) كيا مختلف فقہى مسالك متفق ہيں كہ اسلامى معاشرہ كى سرپرستى كيلئے فقاہت شرط ہے؟

۲)سياسى ولايت ميں فقاہت كى شرط كا فلسفہ كيا ہے؟

۳) ان لوگوں كے پاس كيا دليل ہے جو معاشرہ كے سياسى امور كى سرپرستى ''فقيہ ''كا كام نہيں سمجھتے؟

۴)ان افراد كے كلام كا ماحصل كيا ہے جو ''ولايت فقيہ'' كى بجائے ''نظارت فقيہ ''كے قائل ہيں؟

۵)ان افراد كے شبہ كو كيسے رد كيا جاسكتا ہے جو سياسى ولايت كو فقيہ كى شان نہيں سمجھتے؟

۶)ان لوگوں كو كيا جواب ديا جاسكتا ہے جو'' ولايت فقيہ ''كى بجائے ''نظارت فقيہ ''كے قائل ہيں؟

۲۴۳

پچيسواں سبق :

رہبر كى شرائط اور خصوصيات

دوسرے سياسى مكاتب فكركے مقابلہ ميں اسلام كے سياسى تفكر كى امتيازى خصوصيات ميں سے ايك خصوصيت يہ ہے كہ يہ معاشرہ كے سياسى رہبر كيلئے مخصوص شرائط اور اوصاف كا قائل ہے_ آج كے رائج جمہورى نظاموں ميں محبوبيت اورووٹ حاصل كرنے كى صلاحيت كو بہت زيادہ اہميت دى جاتى ہے اورانہيں مكمل طور پر صاحبان اقتدار كے انفرادى كمالات اور خصوصيات پر ترجيح دى جاتى ہے_پروپيگنڈہ ، عوام پسند حركات اور پر كشش نعروں سے لوگوںكے اذہان كو ايك مخصوص سمت متوجہ كرنا اور پھر مقابلہ كے وقت لوگوں كى آراء كو اپنے حق ميں ہموار كرنا رائج جمہورى نظاموں ميں خصوصى اہميت ركھتاہے_

اس كے برعكس اسلام كے مطلوبہ سياسى نظام ميں وہى شخص ولايت كے منصب كا حامل ہوسكتا ہے جو مخصوص انفرادى كمالات اور فضائل كا حامل ہو_ يہاں ہم ان اوصاف ميں سے اہم ترين اوصاف كو ذكر كرتے ہوئے ان آيات و روايات كى طرف اشارہ كرتے ہيں جو ان اوصاف كے ضرورى ہونے كى شرعى ادلّہ ہيں_

۲۴۴

الف : فقاہت

اسلامى معاشرہ كے حاكم كى واضح اور اہم ترين صفت اس كا اسلام اور دين كى اعلى تعليمات سے مكمل طور پر آگاہ ہونا ہے_ گذشتہ سبق ميں ہم اسلامى معاشرہ كے حاكم ميں اس شرط كے وجود كے فلسفہ كى طرف اشارہ كر چكے ہيں_ اس صفت كى اہميت اس نكتہ سے واضح ہوجاتى ہے كہ زمانہ غيبت ميں شيعوں كے سياسى نظام كے تعارف كيلئے اس صفت سے مدد حاصل كى جاتى ہے_ اور اس نظام كو ''ولايت فقيہ'' پر استوار كہا جاتاہے_ حالانكہ اسلامى معاشرہ كے حاكم كيلئے اور بھى شرائط ہيں_ ہم اس نظام كو'' ولايت عادل'' ، ''ولايت مدبر'' يا ''ولايت مومن و متقى '' پر استوار بھى كہہ سكتے ہيں كيونكہ يہ تمام اوصاف بھى اسلامى حاكم كيلئے شرط ہيں _ ليكن دوسرے اوصاف كى نسبت اس وصف'' فقاہت '' كى اہميت كى وجہ سے اسے دوسرے اوصاف پر ترجيح ديتے ہيںاور اسلامى معاشرہ كى ولايت كو ''ولايت فقيہ'' كے نام سے موسوم كرتے ہيں_

فقاہت كى شرط كا ''ولايت فقيہ ''كى روائي ادلّہسے واضح ثبوت ملتا ہے_ ہم نمونہ كے طور پر ان روايات كے بعض جملوں كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

مقبولہ عمر ابن حنظلہ ميں ہے:

''من كان منكم ممّن قد روى حديثنا و نظر فى حلالنا و حرامنا و عرف احكامنا فليرضوا به حكما، فانّى قد جعلته عليكم حاكماً'' (۱)

تم ميں سے جس شخص نے ہمارى احاديث كى روايت كى ہو اورہمارے حلال و حرام ميں غور و

____________________

۱) وسائل الشيعہ ج ۲۷، ص ۱۳۶، ۱۳۷، باب ۱۱ ، از ابواب صفات قاضى ح ۱_

۲۴۵

فكر كيا ہو اور ہمارے احكام سے واقف ہو اسے اپنا حَكَم( فيصلہ كرنے والا) قراردو كيونكہ ميں نے اسے تم پر حاكم بنايا ہے_

مشہورہ ابى خديجہ ميں امام صادق فرماتے ہيں:

''ولكن انظروا الى رجل منكم يعلم شيئاً من قضائنا فاجعلوه بينكم'' (۱)

ليكن ديكھو تم ميں سے جو شخص ہمارى قضاوت سے واقف ہو اسے اپنے درميان ( قاضي) قراردو_

حضرت امير المومنين فرماتے ہيں:

قال رسول الله (ص) ''اللهم ارحم خلفائي'' ثلاث مرّات قيل يا رسول الله : و من خلفائك ؟ قال ''الذين ياتون من بعدى يروون حديثى و سنتي'' (۲)

پيغمبر اكرم (ص) نے تين دفعہ فرمايا: خدايا ميرے خلفا پر رحم فرما پوچھا گيا يا رسول اللہ آپكے خلفا كون ہيں ؟ تو فرمايا جو ميرے بعد آئيں گے اور ميرى حديث و سنت كى روايت كريں گے_

توقيع امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف ميںہے:

''اما الحوادث الواقعة فارجعوا فيها الى رواة احاديثنا'' (۳)

پيش آنے والے واقعات ميں ہمارى احاديث كے راويوں كى طرف رجوع كرو_

ولايت فقيہ كى ادلّہ روائي كى متعلقہ بحث ميں ہم نے ان روايات پر تفصلى بحث كى ہے اور ثابت كرچكے ہيں كہ '' رواة احاديث ''سے يہاں مراد صرف احاديث كو نقل كرنے والے نہيں بلكہ وہ علماء ہيں جو دين ميں

____________________

۱) كافى ج ۷ ، ص ۴۱۲، كتاب القضا و الاحكام باب كراھية الارتفاع الى قضاة الجور ،ح ۴_

۲) كمال الدين ،شيخ صدوق ،ج ۲ ، باب ۴۵ ، ح ۴_

۳) عيون اخبار الرضا ،ج ۲ ، ص ۳۷ ، باب ۳۱ ، ح ۹۴_

۲۴۶

سمجھ بوجھ ركھتے ہيں اور ائمہ معصومين كى احاديث كے مفاہيم اور دقيق اشارات سے آگاہ ہيں _ وگرنہ صرف نقل حديث مرجعيت اور ولايت كيلئے كافى نہيں ہے_

ب : عدالت

سياسى ولايت اور اجتماعى امور كى تدبير سے كم مرتبہ امور مثلاً امامت جماعت اور قضاوت ميں بھى شيعہ فقہا عدالت كو شرط سمجھتے ہيں _ پس اس سے انكار نہيں كيا جاسكتا كہ امت كى امامت جيسے عظيم امر جو كہ لوگوں كى سعادت اور مصالح كے ساتھ مربوط ہے ميں عدالت ايك بنيادى شرط ہے_

بہت سى آيات اور روايات سے استفادہ ہوتا ہے كہ فاسق اور ظالم كا اتباع جائز نہيں ہے_ قرآن مجيد ميں اللہ تعالى ہميں ظالموں كى طرف جھكاؤ سے منع كرتا ہے_

( ''و لا تَركَنوا إلى الّذين ظَلَموا فتمسَّكم النار و ما لَكُم من دون الله من أولياء ثمّ لا تُنصرون'' ) (۱)

اور ظالموں كى طرف جھكاؤ مت اختيار كرو ورنہ جہنم كى آگ تمھيں چھولے گى اور خدا كے علاوہ تمھارا كوئي سر پرست نہيں ہے پھر تمہارى مدد بھى نہيں كى جائے گي_

ظالموں كى طرف تمايل اور ان پر تكيہ كرناان كى دوستى اور اتباع سے وسيع تر ايك مفہوم ہے _ پس غير عادل امام اور رہبر كى نصرت ، مدد اور اطاعت بھى اس ميں شامل ہے _ ظالموں كى طرف جھكاؤ كى وضاحت كے ذيل ميں على بن ابراہيم ايك روايت نقل كرتے ہيں:

''ركون مودّة و نصيحة و طاعة'' (۲)

جھكاؤ سے مراد دوستى ، نصيحت اور اطاعت والا جھكاؤہے _

____________________

۱) سورہ ہود آيت ۱۱۳_

۲) تفسير على ابن ابراہيم قمى ج ۱ ، ص ۳۳۸ ، اسى آيت كے ذيل ميں_

۲۴۷

اللہ تعالى نے بہت سى آيات ميں لوگوں كومسرفين گناہگاروں اور ہوا پرست افراد كى اطاعت سے منع كيا ہے_ يہ تمام امور بے عدالتى كى علامت ہيں_

''و لا تُطيعوا أمرَ المُسرفين* الّذين يُفسدون فى الا رض و لا يُصلحون'' (۱)

اور زيادتى كرنے والوں كى اطاعت نہ كرو_ جو زمين ميں فساد برپا كرتے ہيں اور اصلاح نہيں كرتے_

''و لا تطع من اغفلنا قلبه عن ذكرنا و اتبع هواه و كان امره فرطاً'' (۲)

اور اس كى اطاعت نہ كرو جس كے قلب كو ہم نے اپنى ياد سے غافل كر ديا ہے وہ اپنى خواہشات كا تابع ہے اور اس كا كام سراسر زيادتى كرنا ہے_

بہت سى روايات ميں بھى امام اور رہبر كيلئے عدالت كو شرط قرار ديا گيا ہے_

حضرت امام حسين اہل كوفہ كو لكھتے ہيں:

''فلعمرى ما الامام الاّ الحاكم بالكتاب ، القائم بالقسط والدائن بدين الله'' (۳)

مجھے اپنى جان كى قسم امام وہى ہو سكتا ہے جو قرآن كے مطابق فيصلہ كرے، عدل و انصاف قائم كرے اور دين خدا پر عمل كرے_

____________________

۱) سورہ شعراء آيت ۱۵۱، ۱۵۲_

۲) سورہ كہف آيت ۲۸_

۳) ارشاد مفيد ج ۲ ، ص ۳۹_

۲۴۸

امام باقر محمد ابن مسلم كو مخاطب كر كے فرماتے ہيں:

'' ...والله يا محمّد، مَن اصبح من هذه الا مة لا امامَ له من الله (عزوجل) ظاهر عادل أصبح ضالاً تائهاً ، و ان ماتَ على هذه الحالة مات ميتة كفر و نفاق و اعلم يا محمّد، أنّ أئمة الجور وأتباعهم لمعزولون عن دين الله قد ضلّوا و ا ضلّوا'' (۱)

اے محمد، خدا كى قسم اس امت ميں سے جس شخص نے خدا كى طرف سے مقرر كردہ امام عادل كے بغير صبح كى اس نے گمراہى اور ضلالت كى حالت ميں صبح كى اور اگر وہ اس حالت ميں مرگيا تووہ كفر و نفاق كى موت مرا _ اے محمد، جان لو يقيناً فاسق اور فاجر ائمہ اور ان كا اتباع كرنے والے دين خدا پر نہيں ہيں_ وہ خود بھى گمراہ ہيں اور دوسروں كو بھى گمراہ كرتے ہيں_

معاويہ كے سامنے امام حسن خطبہ ديتے ہوئے فرماتے ہيں: جو شخص ظلم كرے اور عدالت كى راہ سے ہٹ جائے وہ مسلمانوں كا خليفہ نہيں ہوسكتا_

''انما الخليفة مَن سار بكتاب الله و سنة نبيّه (صلى الله عليه وآله و سلم) و ليس الخليفة من سار بالجور'' (۲)

يقيناخليفہ وہى ہے جو كتاب خدا اور سنت رسول (ص) پر عمل كرے_ جو ظلم و جور كى راہ پر چلے وہ خليفہ نہيں ہے_

يہ آيات و روايات جن كى طرف ہم نے بطور نمونہ اشارہ كيا ہے _ ان سے معلوم ہوتا ہے كہ فاسق و فاجر اور ظالم شخص امت كا شرعى حاكم نہيں ہوسكتا اور غير عادل كى ولايت ولايت طاغوت كى اقسام ميں سے ہے_

____________________

۱) كافى ج ۱، ص ۱۸۴، باب معرفة الامام و الرد عليہ ح ۸_

۲) مقاتل الطالبين، ابو الفرج اصفہانى ص ۴۷_

۲۴۹

ج : عقل ،تدبير ، قدرت ، امانت

مذكورہ بالا شرائط عقلائي پہلو كى حامل ہيں _ يعنى سرپرستى كا طبيعى تقاضا يہ ہے كہ انسان ان خصوصيات و شرائط كا حامل ہو اور لوگ ان صفات كو معاشرے كے منتظم كيلئے ضرورى سمجھتے ہيں_ آيات و روايات ميں بھى تاكيد كى گئي ہے كہ معمولى منصب پرفائز لوگوں كيلئے ان خصوصيات كا ہونا ضرورى ہے_

جبكہ معاشرہ كى امامت و رہبرى تو بہت بڑا منصب ہے_

ارشاد خداوندى ہے:

( ''لا تؤتوا السُفهائَ ا موالكم الّتى جعل الله لكم قياماً ) ''

ناسمجھ لوگوں كو اپنے وہ اموال نہ دو جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگى قائم كرركھاہے_(۱)

جب بادشاہ مصر سے حضرت يوسف نے كہا كہ مجھے وزير خزانہ بنادے تو اپنى دو خصوصيات ''علم اور امانت دارى ''كو ذكر كيا _ يہ اس بات كى دليل ہے كہ معاشرہ كے رہبر كو ان خصوصيات كا حامل ہونا چاہيے_

( '' قال اجعلنى على خزائن الارض انّى حفيظ عليم'' ) (۲)

كہا مجھے زمين كے خزانوں پر مقرر كردو ميں محافظ بھى ہوں اور صاحب علم بھي_

حضرت شعيبكى بيٹى نے جب حضرت شعيب كے اموال كى سرپرستى كيلئے حضرت موسى كا تعارف كروايا تو آپ (ع) كى خصوصيات ميں سے ''قدرت و توانائي ''اور '' امين'' ہونے كا خاص طور پر تذكرہ كيا _ لہذا معاشرہ كے سرپرست كو بطريق اولى ان خصوصيات كا حامل ہونا چاہيے_

'' قَالَت إحدَاهُمَا يَاأَبَت استَأجرهُ إنَّ خَيرَ مَن استَأجَرتَ

____________________

۱) سورہ نساء آيت ۵_

۲) سورہ يوسف آيت ۵۵_

۲۵۰

القَويُّ الأَمينُ'' (۱)

ان ميں سے ايك لڑكى نے كہا اے بابا جان اسے اجير ركھ ليجيئے _ كيونكہ آپ جسے بھى اجير ركھيں گے ان ميں سے سب سے بہتر وہ ہوگا جو صاحب قوت بھى ہو اور امانتدار بھي_

حضرت على تاكيد فرماتے ہيں كہ امت كے امور كى باگ ڈور كم عقل، نالائق اور فاسق افراد كے ہاتھ ميں نہيں ہونى چاہيئے_

''و لكنَّنى آسى أن يليَ أمر هذه الا ُمَّة سُفهاؤُ ها و فُجّارُها ، فيتَّخذوا مالَ الله دُوَلاً و عبادَه خَوَلاً والصالحين حَرباً والفاسقين حزباً'' (۲)

ليكن مجھے يہ غم رہے گا كہ اس امت كى حكومت بيوقوفوں اور فاجروں كے ہاتھ ميں آجائے گى ، وہ بيت المال پر قابض ہوجائيں گے، خدا كے بندوں كو غلام بناليں گے، نيك لوگوں سے لڑيں گے، اور بدكاروں سے دوستى كريںگے_

فضل ابن شاذان امام رضا سے روايت كرتے ہيں كہ ''امين امام'' كے نہ ہونے سے شريعت نابود ہوجاتى ہے_

''انّه لو لم يَجعل لَهُم ، اماماً قَيّماً أميناً حافظاً مستودعاً لَدَرَست الملَّة''

اگر ان كيلئے امين ، حفاظت كرنے والا اور امانتدار امام قرار نہ ديا جائے تو ملت محو ہوجائے_(۳)

____________________

۱) سورہ قصص آيت ۲۶_

۲) نہج البلاغہ ، مكتوب ۶۲_

۳) علل الشرائع شيخ صدوق ،باب ۱۸۲، ح ۹ ، ص ۲۵۳_

۲۵۱

حضرت امير المؤمنين حسن تدبير اور سياست كو اطاعت كى شرط قرار ديتے ہوئے فرماتےہيں :

''من حسنت سياستهُ وجبت طاعتُه''

جس كى سياست صالح ہو اس كى اطاعت واجب ہے_(۱)

''مَن احسن الكفاية استحق الولاية'' (۲)

جو حسن تدبير ركھتا ہو وہ حكومت كا حقدار ہے_

ايك روايت ميں حضرت امير المؤمنين لشكريوں كے امور كى سرپرستى كيلئے علم ، حسن تدبير ، سياست اور حلم و بردبارى جيسى صفات كو ضرورى قرار ديتے ہيں _

''و لّ أمر جنودك أفضلهم فى نفسك حلماً وأجمعهم للعلم و حسن السياسة و صالح الا خلاق'' (۳)

تيرے لشكر كى سرپرستى اور كمانڈ اس شخص كے ہاتھ ميں ہونى چاہيئے جو تيرے نزديك ان سب سے زيادہ بردبار ہو _ علم ، حسن سياست اور اچھے اخلاق كا حامل ہو_

ولايت اور رہبرى كى اہم ترين صفات اور شرائط ہم بيان كرچكے ہيں _ ليكن ايك اہم اور قابل توجہ بحث يہ ہے كہ كيا فقہ ميں اعلميت ( سب سے زيادہ فقہ كو جاننے والاہونا) بھى معاشرہ كى امامت اور ولايت كيلئے شرط ہے؟ اس بحث كو ''فقاہت'' كے شرط ہونے كو ثابت كرنے كے بعد ذكر كيا جاتا ہے_

____________________

۱) غرر الحكم آمدي،ج ۵ ، ص ۲۱۱، ح ۸۰۲۵_

۲) غرر الحكم ، صفحہ ۳۴۹ حديث ۸۶۹۲_

۳) دعائم الاسلام ج ۱ ص ۳۵۸_

۲۵۲

فقہ ميں اعلميت كى شرط

سياسى ولايت اور رہبرى كى شروط كى بحث كا ايك اہم نكتہ ''اعتبار اعلميت ''ہے _ يعنى كيا ضرورى ہے كہ ولى فقيہ شرعى احكام كے استنباط اور قوت اجتہاد ميں دوسرے تمام فقہاء سے زيادہ اعلم ہو؟ جامع الشرائط فقيہ مختلف ولايات كا حامل ہوتا ہے_ شرعى فتاوى دينا اس كى شان ہے ،منصب قضاوت پر فائز ہوتا ہے_ امور حسبيہ پر ولايت ركھتا ہے_ ولايت عامہ اور حاكميت كا حامل ہوتا ہے_ سوال يہ ہے كہ ان تمام ولايات ميں فقہى اعلميت شرط ہے؟ فقيہ كے بعض امور و اوصاف ميں اعلميت كى شرط زيادہ كار آمد ہے_ مثلاً منصب قضاوت كى نسبت فتوى دينے اور مرجعيت كيلئے فقہ ميں اعلميت كى شرط زيادہ مناسبت ركھتى ہے كيونكہ اگر منصب قضاوت كيلئے اعلميت كو شرط قرار ديں تو اس كا لازمہ يہ ہے كہ تمام اسلامى ممالك ميں صرف ايك ہى قاضى ہو_ اور يہ عسر و حرج اور شيعوں كے امور كے مختل ہونے كا باعث بنے گا_ اب بحث اس ميں ہے كہ كيا ''ولايت تدبيرى ''اور '' سياسى حاكميت'' قضاوت كى مثل ہے يا فتوى كى مثل ؟ اور كيا فقہى اعلميت اس ميں شرط ہے؟

اگر ہم روايات كو ان كى سند كے ضعف و قوت سے قطع نظر كركے ديكھيں تو ان سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ '' اعلميت شرط'' ہے _ كتاب سليم ابن قيس ہلالى ميں حضرت اميرالمؤمنين سے روايت كى گئي ہے كہ :

''ا فينبغى أن يكونَ الخليفة على الا ُمّة الاّ اعلمهم بكتاب الله و سنّة نبيّه و قد قال الله : ( ( أفمن يَهدى الى الحقّ أحقّ أن يتّبع أمّن لا يَهدّى إلاّ أن يُهدي ) ) (۱)

____________________

۱) كتاب سليم بن قيس ہلالي، ص ۱۱۸_

۲۵۳

امت پر خليفہ وہى ہو سكتا ہے جو دوسروں كى نسبت كتاب خدا اور سنت رسول (ص) كو زيادہ جانتا ہو _ كيونكہ اللہ تعالى فرماتا ہے : كيا جو شخص حق كى طرف ہدايت كرتا ہے زيادہ حقدار ہے كہ اس كا اتباع كيا جائے يا وہ شخص جو ہدايت كرنے كے قابل نہيں ہے بلكہ يہ كہ خود اس كى ہدايت كى جائے_

برقى اپنى كتاب ''المحاسن'' ميں رسولخدا (ص) سے روايت كرتے ہيں:

''مَن أمّ قوماً و فيهم أعلم منه أو أفقه منه لَم يَزَل أمرهم فى سفال الى يوم القيامة'' (۱)

جب كسى قوم كا حاكم ايسا شخص بن جاتا ہے كہ اس قوم ميں اس سے زيادہ علم ركھنے والا اور اس سے بڑا فقيہ موجودہو تو قيامت تك وہ قوم پستى كى طرف گرتى رہے گے_

معاويہ كے سامنے امام حسن خطبہ ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

''قال رسول الله (ص) :'' ما ولّت أُمة أمرها رجلاً قطّ و فيهم من هو أعلم منه الاّ لم يزل أمرهم يذهب سفالاً حتّى يرجعوا الى ما تركوا'' (۲)

رسولخدا (ص) نے فرمايا ہے كہ جب امت اپنى حكومت ايسے شخص كے حوالہ كرديتى ہے جس سے زيادہ علم ركھنے والے موجو د ہوں تو وہ امت ہميشہ پستى اور زوال كى طرف بڑھتى رہتى ہے _ يہاں تك كہ اسكى طرف پلٹ آئيں جسے انہوں نے ترك كيا تھا_

____________________

۱) المحاسن برقى ،ج ۱ ، ص ۹۳ ، ح ۴۹_

۲) غاية المرام ،بحراني، ص ۲۹۸_

۲۵۴

اس مسئلہ كے حل كيلئے درج ذيل نكات پر غور كرنا ضرورى ہے_

۱_ شيعہ فقہاء كے اقوال كا مطالعہ كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ فتوى ، تقليد اور مرجعيت كے علاوہ كسى اور امر ميں اعلميت شرط نہيں ہے_ جنہوں نے اعلميت كو شرط سمجھا ہے انہوں نے اسے مرجعيت اور تقليد ميں منحصر قرار ديا ہے_آيت اللہ سيد كاظم طباطبائي كتاب ''العروة الوثقى '' ''جو كہ بعد والے فقہاء كيلئے ہميشہ سے قابل توجہ رہى ہے '' ميں كہتے ہيں:

لا يعتبر الأعلمية فى ما أمره راجع إلى المجتهد إلاّ فى التقليد ; و أمّا الولاية فلا يعتبر فيها الأعلمية (۱)

مجتہدكے ساتھ مربوط امور ميں سے تقليد كے علاوہ كسى ميں اعلميت شرط نہيں ہے، ولايت ...ميں بھى اعلميت شرط نہيں ہے_

وہ فقہاء جنہوں نے كتاب العروة الوثقى پر حواشى تحرير فرمائے ہيں انہوں نے بھى اس مسئلہ كو قبول كيا ہے_ بنابريں آيت اللہ حائرى ، آيت اللہ نائينى ، آيت اللہ ضياء عراقى ، آيت اللہ كاشف الغطائ، سيد ابوالحسن اصفہانى ، آيت اللہ بروجردى ، سيد احمد خوانسارى ، امام خمينى ، آيت اللہ ميلانى ، آيت اللہ گلپايگانى ، آيت اللہ خوئي ، آيت اللہ محسن حكيم اور آيت اللہ محمود شاہرودى (رحمة اللہ عليہم) بھى حاكم شرعى كيلئے فقہى اعلميت كو شرط قرار نہيں ديتے_

شيخ انصارى (رحمة اللہ عليہ) بھى اختلاف فتوى كے وقت اعلميت كو معتبر سمجھتے ہيں حاكم شرع كى ولايت ميں اسے شرط قرار نہيں ديتے_

____________________

۱) العروة الوثقى ،مسئلہ ۶۸، اجتہاد و تقليد_

۲۵۵

آپ فرماتے ہيں :

''و كذا القول فى سائر مناصب الحكم كالتصرّف فى مال الإمام و تولّى أمر الأيتام و الغيّب و نحو ذلك; فإنّ الاعلمية لا تكون مرجّحاً فى مقام النصب و إنّما هو مع الاختلاف فى الفتوى ''(۱)

اور يہى قول تمام مناصب حكم ميں جارى ہے_ مثلا مال امام ميں تصرف ، يتيموں اور غائب كے امور كى سرپرستى و غيرہ ، كيونكہ ان سب مناصب ميں اعلميت كو ترجيح حاصل نہيں ہے البتہ جب فتاوى ميں اختلاف ہوجائے تو اس وقت اعلميت كو ترجيح دى جائے گى _

صاحب جواہر كہتے ہيں : نصب ولايت كے متعلق جو نصوص اور روايات ہيں ان ميں فقاہت كى شرط ہے نہ كہ اعلميت كى _

''بل لعل اصل تأهل المفضول و كونه منصوباً يجرى على قبضه و ولايته مجرى قبض الافضل من القطعيات التى لاينبغى الوسوسة فيها، خصوصاً بعد ملاحظة نصوص النصب الظاهرة فى نصب الجميع الموصوفين بالوصف المذبور لا الافضل منهم، والا لوجب القول '' انظروا الى الافضل منكم'' لا ''رجل منكم'' كما هو واضح بأدنى تأمّل'' (۲)

____________________

۱) التقليد ،شيخ انصارى ،ص ۶۷_

۲) جواہر الكلام ،ج ۴۰، ص ۴۴، ۴۵_

۲۵۶

۲_اجتماعى امور كى تدبير كيلئے حكم كى شناخت كے علاوہ موضوع كى پہچان اورشناخت بھى ضرورى ہے _ دوسرے لفظوں ميں معاشرے كے امور كے انتظام اورتدبير كيلئے فقط جزئي احكام اور فقہى فروعات كے استنباط كى صلاحيت كافى نہيں ہے _ بنابريں ممكن ہے ان روايات ميں موجود لفظ اعلميت سے مراد يہ ہو كہ حكم اور موضوع كى شناخت سميت ہر لحاظ سے توانائي اور صلاحيت ركھتا ہو، يعنى وہ امت جس ميں ايك ايسا شخص موجود ہو جو انتظامى امور كے سلسلہ ميں اعلم ہو اور علمى اور عملى صلاحيت كے لحاظ سے دوسروں سے آگے ہو، اسے چھوڑ كر اپنے امور اس شخص كے حوالہ كرنا جو اعلم نہيں ہے كبھى بھى سعادت و كاميابى كا باعث نہيں بن سكتا_

۳_فقاہت اور اجتہاد كے مختلف پہلو ہيں; ممكن ہے ايك فقيہ عبادات كے باب ميں اعلم ہو ، دوسرا معاملات ميں اور تيسرا اجتماعى اور سياسى امور ميں اعلم ہو_

حكم اور موضوع كى مناسبت كا تقاضا يہ ہے كہ اگر اعلميت كى شرط پر مصرّ رہيں تو پھر اجتماعى اور سياسى امور ميں اعلميت ''سياسى رہبر اور ولى ''كيلئے معيار ہونى چاہيے كيونكہ صرف عبادات يا معاملات ميں اعلميت'' سياسى ولايت'' كيلئے ترجيح كا باعث نہيں بنتى _بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ معاشرتى اور سياسى امور ميں ''اعلميت'' معيار ہے _ مثلا اس روايت ميں '' فيہ'' كى ضمير اعلميت كو حكومت ميں محدود كر رہى ہے_

''ايها الناس، انّ احق الناس بهذا الامر ا قواهم عليه، و اعلمهم با مر الله فيه'' (۱)

اے لوگو حكومت كرنے كا سب سے زيادہ حقدار وہ ہے جو اس پر سب سے زيادہ قادر ہو اور اس حكومت كے سلسلہ ميں دوسروں كى نسبت امر خدا كو زيادہ جانتا ہو _

____________________

۱) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۳_

۲۵۷

خلاصہ :

۱) اسلام كے سياسى نظام كى ايك خصوصيت يہ ہے كہ وہ سياسى اقتدار كيلئے ذاتى اور انفرادى خصوصيات اور كمالات كا بھى قائل ہے_

۲) اسلامى معاشرہ كے حاكم كى اہم ترين صفت ''فقاہت'' اور اسلام كے بارے ميں مكمل اور عميق آگاہى ہے_

۳) ولايت فقيہ كى ادلّہ روائي سے ''فقاہت كى شرط'' كا صاف پتہ چلتا ہے_

۴)بہت سى نصوص ميں شيعوں كو احاديث كى روايت كرنے والے راويوںكى طرف رجوع كرنے كى ترغيب دلائي گئي ہے كہ جس سے مراد فقہاء ہيں، كيونكہ فقاہت اور تفكر كے بغير فقط احاديث كا نقل كرنا مرجعيت كيلئے كافى نہيں ہے_

۵)اسلامى حاكم كى دوسرى اہم ترين شرط اسكا ''عادل'' ہوناہے_

۶)قرآن مجيد ميں اللہ تعالى نے مختلف آيات كے ذريعہ لوگوں كو ان افراد كى اطاعت كرنے سے منع كيا ہے جن ميں كسى لحاظ سے بے عدالتى ہو_

۷) ادلّہ روائي سے معلوم ہوتا ہے كہ فاسق و فاجر كى ولايت ، ''ولايت طاغوت ''كى قسم ہے_

۸)رہبرى اور حاكميت كى بعض صفات اور شرائط مثلا ً عقل ، حسن تدبير اور صلاحيت، عقلائي پہلو كى حامل ہيں_

۹) شرائط رہبرى كى مباحث ميں سے ايك اہم بحث اعلميت كى شرط كا معتبر ہونا ہے_

۱۰) اكثرفقہا كى نظر ميں اعلميت فتوى كى شرط ہے_ ليكن فقيہ كى دوسرى ذمہ داريوں مثلا قضاوت اور امور حسبيہ كى سرپرستى ايسے امور كيلئے اعلميت شرط نہيں ہے_

۱۱) معاشرتى امور كى تدبير كيلئے حكم كى شناخت كے علاوہ موضوع كى شناخت ، سياسى حالات سے آگاہى اور داخلى و عالمى روابط كے متعلق معلومات بھى ضرورى ہيں لہذا بعض روايات ميں جو اعلميت كو شرط قرار ديا گيا ہے اسے صرف حكم كى شناخت كے استنباط ميں محدود نہيں كيا جاسكتا_

۲۵۸

سوالات :

۱) سياسى ولايت ميں '' فقاہت كى شرط''پر كيا دليل ہے؟

۲) سياسى ولايت ميں عدالت كى شرط كى بعض ادلّہ كو اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_

۳)استنباط ميں اعلميت ،شرعى ولايت كى كونسى قسم كے ساتھ زيادہ مناسبت ركھتى ہے؟

۴)قضاوت كے منصب كيلئے اعلميت شرط نہيں ہے _كيوں؟

۵)كيا ''سياسى ولايت ''ميں ''اعلميت'' شرط ہے؟

۲۵۹

چھبيسواں سبق:

رہبر كى اطاعت كى حدود

اس سبق كا اصلى موضوع يہ ہے كہ ولايت فقيہ پر مبنى نظام ميں لوگ كن امور ميں رہبر كى اطاعت كرنے كے پابند ہيں اور ولى فقيہ كى اطاعت كا دائرہ كس حد تك ہے؟ كيا بعض امور ميں اس كى مخالفت كى جاسكتى ہے؟ اور كيا اس كے فيصلے يا نظريئے كو رد كرسكتے ہيں؟اس سوال كے جواب سے پہلے دو تمہيدى مطالب كى طرف توجہ دينا ضرورى ہے_ پہلا يہ كہ ولايت فقيہ پر مبتنى سياسى نظام ميں رہبر كا كيا مقام ہے؟ اس كى وضاحت كى جائے_ اس كے بعد مختلف قسم كى مخالفتوں اور عدم اتباع كى تحقيق كى جائے_

نظام ولايت ميں رہبر كا مقام

قرآن كريم ميں اللہ تعالى خود كو ولى يكتا اور يگانہ و بلا اختلاف حاكم قرار ديتا ہے_ وہ انسانوں پر حقيقى ولايت ركھتا ہے، اور قانون گذارى اور امر و نہى كا حق فقط اسى كو حاصل ہے ارشاد خداوندى ہے:

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367