اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143917 / ڈاؤنلوڈ: 3620
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

جبكہ اس كے ساتھ اموال زكوةبھى ہوں در حقيقت ايك معاشرہ كى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے ہے _ ''جزيہ'' جو كہ ذمى كفار سے ليا جاتا ہے اور اسى طرح زرعى محصولات بھى ايك بڑى درآمد كوتشكيل ديتے ہيں_ يہ تمام امور اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ اس قسم كے تمام مالى منابع ايك معاشرہ كى ضروريات كو پورا كرنے او رحكومت كو تشكيل دينے كيلئے ہيں _

ان ميں سے دوسرا مورد وہ احكام ہيں جو اسلامى نظام كى حفاظت اور اسلامى سرزمين اور ملت مسلمہ كے استقلال كے دفاع كيلئے بنائے گئے ہيں انہى دفاعى احكام ميں سے ايك ، قرآن مجيد كى اس آيت شريفہ''و اعدوالهم ما استطعتم من قوة و من رباط الخيل'' (۱) ميں بيان كيا گيا ہے اور مسلمانوں كو كہا جا رہا ہے كہ وہ ہر قسم كے خطرہ سے پہلے اپنى فوجى و دفاعى قوت كو مہيا كرليں اوراپنى حفاظت كا سامان پہلے سے تيار ركھيں _

اس قسم كا ايك اور نمونہ اسلام كے عدالتى اور انسانى حقوق كے متعلق احكام ميں ديكھا جاسكتاہے_ اس قسم كے بہت سارے احكام يا''ديات'' ہيں كہ جنہيں ليكر حق داروں كو دينا ہوتاہے يا''حدود و قصاص''ہيں كہ جنہيںاسلامى حاكم كے زير نظر اجرا كيا جاتاہے اور اس قسم كے امور ايك حكومت كى تشكيل كے بغير قابل عمل نہيں ہيں _ يہ تمام قوانين حكومت كے ساتھ مربوط ہيں اور حكومتى قوت كے بغير ايسے اہم امور كو كوئي انجام نہيں دے سكتا _(۲)

اسلام كا سياسى فلسفہ اور سياسى فقہ

يہ تسليم كرلينے كے بعد كہ اسلام سياسى ابعاد كا حامل ہے اور اس كى بعض تعليمات حكومت اور سياست كے

____________________

۱) سورہ انفال آيت ۶۰_

۲) لايت فقيہ (امام خمينى ) ص ۲۰ تا ۲۵_

۲۱

ساتھ مخصوص ہيں _ يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ اسلام كا سياسى تفكر كن شعبوں پر مشتمل ہے ؟

مجموعى طور پر اسلام كے سياسى تفكر كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _ ايك حصے كو '' اسلام كا سياسى فلسفہ '' اور دوسرے كو '' اسلام كى سياسى فقہ '' كا نام ديتے ہيں _ گذشتہ سبق ميں اشارہ كرچكے ہيں كہ ہر سياسى مكتب فكر كو چند بنيادى سوالات كا جواب دينا ہوتا ہے _ ايسى مباحث كو '' سياسى فلسفہ '' كا نام ديا جاتا ہے _ بنابريں اسلام كے سياسى تفكر كو بھى ايك خاص علمى بنياد پر استوار ہونا چاہيے اور دنيائے سياست كے ان بنيادى سوالات كے مناسب اور مخصوص جوابات دينا چا ہيے _

اسلام كے سياسى تفكر كا دوسرا حصہ يعنى ''سياسى فقہ '' يا '' فقہ الحكومة '' حكومت كى نوعيت اور اسكى شكل و صورت ، حكمرانوں كے مقابلے ميں عوام كے حقوق ، حكومت اور حكمرانوں كے سلسلہ ميں عوام كى ذمہ دارياں ، مذہبى اقليتوں كے حقوق اور اسلامى حكوت (دار الاسلام)كے غير اسلامى حكومتوں ( دارالكفر) كے ساتھ تعلقات جيسى ابحاث پر مشتمل ہے باالفاظ ديگر پہلا حصہ علمى و بنيادى سياست كى مباحث پر مشتمل ہے_ جبكہ يہ حصہ عملى سياست اور معاشرے كے انتظامى و اجرائي امور كے زيادہ قريب ہے _

۲۲

سبق كا خلاصہ :

۱) حكومت اور رياست كے بغير معاشرہ ،نامكمل اور زوال پذير ہے _

۲) اسلام ، حكومت كو ايك اجتماعى او رمعاشرتى ضرورت سمجھتا ہے اسى لئے اس نے لوگوں كو تشكيل حكو مت كى طرف دعوت نہيں دى بلكہ حكومت كيسى ہونى چاہيئے ؟ اس بارے ميں اپنى رائے دى ہے _

۳) اسلام كو سياست سے جدا سمجھنا اس دين حنيف كى حقيقت كو مسخ كردينے كے مترادفہے _

۴) اسلام كے لئے سياسى اور اجتماعى پہلو كا وجود دو طريقوں سے ثابت كيا جاسكتاہے _

الف:روش استقرائي ( طرز جستجو )اور اسلامى تعليمات كا مطالعہ ، اسلام كے سياسى اور اجتماعى پہلو كے اثبات كى بہترين راہ ہے_

ب: اسلام كا آخرى اور مكمل دين ہونا اس كے اجتماعى اور سياسى پہلو كے وجود كى دليل ہے _

۵) اسلام كے بعض قوانين ايك جائز دينى حكومت كے بغير قابل اجرا نہيں ہيں _

۶) اسلام كے سياسى تفكر كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _

الف: اسلام كا سياسى فلسفہ

ب: اسلام كى سياسى فقہ

۲۳

سوالات:

۱) امير المومنين نے خوارج كو جو جواب ديا تھا اس سے ''ضرورت حكومت ''كے سلسلہ ميں كيا حاصل ہوتاہے؟

۲) اسلام نے لوگوں كو اصل حكومت كى تشكيل كى ترغيب كيوں نہيں دلائي ؟

۳) سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے كے اثبات كيلئے طرز جستجو يا روش استقرائي سے كيا مراد ہے ؟

۴) اسلام كے كامل اور خاتم الاديان ہونے سے اس كے سياسى اور اجتماعى امور ميں دخيل ہونےپر كيسے استدلال كيا جاسكتا ہے ؟

۵) كونسے احكام شرعى كا اجراء اسلامى حكومت كى تشكيل پر موقوفہيں ؟

۶) اسلام كے مالى احكام كس طرح اسلام كے سياسى پہلو پر دليل بن سكتے ہيں ؟

۷) اسلام كا سياسى تفكر كنحصوں پر مشتمل ہے ؟

۲۴

تيسرا سبق:

دينى حكومت كى تعريف

انسان كى اجتماعى زندگى كى طويل تاريخ مختلف قسم كى حكومتوں اور رياستوں كے وجودكى گواہ ہے جنہيں مختلف خصوصيات كى بنياد پر ايك دوسرے سے جدا كيا جاسكتاہے اور انہيں مختلف اقسام ميں تقسيم كيا جاتاہے_ مثلاً استبدادى و غير استبدادي،جمہورى و غير جمہوري، استعمارى و استعمار كا شكار حكومتيں ، سوشلسٹ و غير سوشلسٹ، ترقى يافتہ و پسماندہ حكومتيں و غيرہ ان ميں سے ہر تقسيم ايك مخصوص معيار كى بنياد پر ہے _ اسى طرح ايك تقسيم يہ بھى ہوسكتى ہے : دينى حكومت اور سيكولر حكومت _

دينى حكومت ايك اصطلاح ہے جو دو چيزوں سے مركب ہے، حكومت اور دين كيساتھ اس كى تركيب ، اصلى اور بنيادى سوال يہ ہے كہ اس تركيب ميں ''دينى ''سے كس مطلب كا افادہ مقصودہے ؟ دين اور حكومت كى تركيب سے كيا مراد ہے؟ ايك حكومت كے دينى يا غير دينى اور سيكولر ہونے كا معيار كيا ہے؟ ان سوالات كے جواب دينے سے پہلے بہتر ہے حكومت كى تعريف كى جائے _

۲۵

حكومت اور رياست كے معاني

حكومت(۱) اور رياست(۲) گذشتہ اور موجودہ ادوار ميں متعدد معانى ميں استعمال كئے گئے ہيں ان ميں سے بعض معانى مترادف ہيں اور بعض اوقات انہيں مختلف معانى ميں استعمال كيا گيا ہےمثلا جديد دور ميں رياست كامعنى حكومت سے وسيع تر ہے جديد اصطلاح كے مطابق رياست نام ہے ان افراد كے اجتماع كا جو ايك مخصوص سرزمين ميں ساكن ہوں اور ايسى حكومت ركھتے ہوں جو ان پر حاكميت كرتى ہو_ اس تعريف كے مطابق رياست چار اجزا كے مجموعہ كا نام ہے_آبادي،سرزمين ،حكومت، حاكميت_ اس اصطلاح كى بناپر حكومت اور رياست دو مترادف اصطلاحيں نہيں ہيں بلكہ حكومت رياست كا ايك حصہ ہے اور رياست كو تشكيل دينے والے چار عناصر ميں سے ايك عنصر حكومت ہے جو ان اداروں كے مجموعہ كا نام ہے جو ايك دوسرے كے ساتھ مرتبط ہوكر ايك مخصوص سرزمين ميں بسنے والى انسانى آبادى پر حكمرانى كرتى ہے_بنابريں ايرانى رياست اور فرانسيسى رياست و غيرہ انكى حكومتوں سے وسيع تر مفہوم ہے _

ليكن اگر رياست سے مراد وہ منظم سياسى طاقت ہو جو امر و نہى كرتى ہے تو يہ حكومت كے مترادف ہوجائے گى اور اس تعريف كى بناپر رياست صرف كا بينہ اور قوّہ مجريہ كا نام نہيں ہے كہ جن كا كام قانون نافذ كرناہے بلكہ تمام حكومتى ادارے مثلاً قانون ساز ادارے، عدليہ، فوجى اور انتظامى ادارے سب اس ميں شامل ہيں _ در اصل اس تعريف كى رو سے رياست اور حكومت اس قوت حاكمہ كا نام ہے جس ميں معاشرہ پر حاكم سياسى اقتدار كے حامل تمام ادارے شامل ہيں _ اس وقت زير بحث حكومت و رياست سے مراد يہى دوسرا معنى ہے كہ اس معنى ميں حكومت اور رياست جب دين سے مركب ہوتى ہے تو اس كا قابل قبول معنى كونسا ہے_

____________________

۱) Government

۲) State

۲۶

دينى حكومت كى مختلف تعريفيں

دينى حكومت كى مختلف تعريفيںكى جاسكتى ہيں _ دوسرے لفظوں ميں دينى حكومت كى مختلف اور متنوع تفسيريں بيان كى جاسكتى ہيں و اضح سى بات ہے كہ ان ميں سے كچھ تعريفيں صحيح نہيں ہيں ہم اجمالى طور پر ان ميں سے بعض كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

۱) دينى حكومت اس حكومت كو كہتے ہيں جس ميں ايك مخصوص دين كے معتقدين اور ماننے والے سياسى اقتدار كے حامل ہوں معاشرے كى سياسى طاقت اور سياسى ادارے كسى خاص دين كے پيرو افراد_ جيسے پيروان اسلام يا مسيحيت_كے ہاتھوں ميں ہوںاس تعريف كى بناپردينى حكومت يعنى ديندارافراد كى حكومت_

۲) دينى حكومت يعنى وہ حكومتكہ جس ميں سياسى اقتدارايك مخصوص طبقہ بنام'' رجال دين'' يعني( مذہبى افراد) كے ہاتھ ميں ہو اس تعريف كى بنا پر چونكہ سياسى اقتدار كے حامل مختلف ادارے مذہبى افراد كے ہاتھ ميں ہوتے ہيں اسى لئے اسے دينى حكومت كہتے ہيں _

اس دينى حكومت كى افراطى شكل و صورت يورپ ميں قرون وسطى ميں ملاحظہ كى جاسكتى ہے _ بعض اديان مثلاً كيتھولك مسيحيت ميںمذہبى افراد خاص تقدس اور احترام كے حامل ہوتے ہيں اور عالم الوہيت و ربوبيت اور عالم انسانى كے درميان معنوى واسطہ شمار ہوتے ہيں _ قرون وسطى ميں يورپ ميں جو حكومت قائم ہوئي تھى وہ مذكورہ دينى حكومت سے سازگار تھى _ عيسائيوں كے مذہبى افراد اور كليسا كے پادرى خدا اور مخلوق كے درميان واسطہ ہونے كے ناطے مخصوص حق حاكميت كے حامل سمجھے جاتے تھے _ يہ حق حاكميت خدا كى حكومت اور ربوبيت كى ايك كڑى تھى اور يہ تصور كيا جاتا تھا كہ مذہبى افراد چونكہ ملكوت كے ساتھ مربوط و متصل ہيں لہذا قابل تقديس و احترام ہيں ، اسى لئے ان كے فيصلے، تدابير اور كلام، وحى الہى كى طرح مقدس، ناقابل اعتراض

۲۷

اور غلطيوں سے مبرّا ہيں _

۳) دينى حكومت وہ حكومت ہے جو ايك خاص دين كى تبليغ ، دفاع اور ترويج كرتى ہے _ اس تعريف كے مطابق ايك دينى حكومت كا معيار ايك مخصوص دين كا دفاع اور تبليغ ہے _ بنابريں ايران ميں صفويوں اور قاچاريوں كى حكومت، سعودى عرب ميں وہابيوں كى حكومت اور افغانستان ميں طالبان كى حكومت مذكورہ دينى حكومت كے مصاديق ہيں كيونكہ يہ حكومتيں اپنے سياسى اقتدار كو ايك خاص دين كے دفاع، تبليغ اور ترويج كيلئے استعمال كرتى ہيں_

۴)دينى حكومت وہ حكومت ہے جو سياست اور معاشرے كے انتظامى امور ميں ايك خاص دين كى مكمل مرجعيت و حاكميت كو تسليم كرتى ہو يعنى اپنے مختلف حكومتى اداروں ميں ايك خاص دين كى تعليمات كى پابند ہو اور كوشش كرتى ہو كہ قانون بنانے ، عوامى كاموں، معيشت اور اجتماعى امور ميں دينى جھلك نظر آئے اور ان تمام حكومتى امور ميں دينى تعليمات كا ر فرما ہوں اور انہيں دين سے ہم آہنگ كرے _ دينى حكومت كا يہ معنى در حقيقت'' دينى معاشرہ ''كى تشكيل كا خواہاں ہے يعنى حكومت يہ چاہتى ہے كہ ثقافتى ، اقتصادي، سياسى اور فوجى و عسكرى تمام اجتماعى امور دينى تعليمات كى بنياد پر تشكيل پائيں _ دينى معاشرہ كو دين كى فكر ہے اور يہ فكر ہمہ گير ہے كسى خاص جہت ميں محدود نہيں ہے_ دينى معاشرہ چاہتاہے كہ اس كے تمام امور دين كے ساتھ ہم آہنگ اور ہم آوازہوں_ اس معنى كى بنياد پر دينى حكومت دين كيلئے ايك خاص شان و اہميت كى قائل ہے _ اُس كى تعليمات كو اپنے لئے نصب العين قرار ديتى ہے_ دين كى حاكميت اور سياسى و انتظامى ميدانوںميں اس كى اہميت كو تسليم كرتى ہے اور معاشرتى و سماجى امور ميں دينى تعليمات كى دخالت كا معيار ان امور ميں دين كا وارد ہونا ہوگا_ دوسرے لفظوں ميں سياسى اجتماعى اور سماجى امور ميں دين كى دخالت كى حدود مكمل طور پر دينى

۲۸

تعليمات كے تابع ہيں اور جس شعبہ ميں جتنى مقدار دين نے اپنا كوئي پيغام ديا ہو اور اپنى تعليمات پيش كى ہوں اس حكومت كيلئے وہ پيغام اور تعليمات قابل قبول ہوتى ہيں _

مذكورہ چار تعريفوں كا مختصر تجزيہ

مذكورہ چار تعريفوں ميں سے چوتھى تعريف دينى حكومت كى ماہيت و حقيقت كے ساتھ زيادہ مناسبت ركھتى ہے _ كيونكہ ان ميں سے بعض تعريفيں دينى حكومت كے صرف ايك پہلو كى طرف اشارہ كرتى ہيں _ صرف حكمرانوں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كا كسى خاص دين كا معتقد ہونا اس حكومت كے دينى ہونے كى علامت نہيں ہے _ آج دنيا كے اكثر ممالك كہ جن كى حكومتيں غير دينى ہيں ان كے بہت سارے سركارى عہديدار انفرادى طور پردين دار ہيں ، ليكن ان كا ايك خاص دين كے ساتھ لگاؤ اور تديّن ان كى حكومت كے دينى ہونے كى دليل نہيں ہے _ پہلى تعريف ميں جو'' حكومت كے دينى ہونے كا معيار'' بيان كيا گيا ہے وہ چوتھى تعريف ميں بھى شامل ہے_ كيونكہ دين كى حاكميت اور مختلف سركارى اداروں ميں دينى تعليمات كى فرمانروائي كا لازمہ ہے كہ سركارى حكام نظرياتى اور عملى طور پر اس دين كے معتقد ہوں _ اسى طرح تيسر ى تعريف ميں بيان شدہ معيار بھى چوتھى تعريف ميں مندرج ہے كيونكہ جو حكومت دينى معاشرے كى تشكيل اور سماجى و اجتماعى امور ميں دينى تعليمات كے نفوذ كى كوشش كرتى ہے اور حكومتى امور اور قوانين كو دين كے ساتھ ہم آہنگ كرنے كى خواہاں ہوتى ہے _ وہ فطرى طور پر اس دين كا دفاع كرے گى اور اس كى تبليغ و ترويج كيلئے كوشش كرے گى _

دينى حكومت كى دوسرى تعريف كى بنياد'' مذہبى افراد'' كے بارے ميں ايك خاص تصور پر ہے كہ بہت سے اديان، مذہبى شخصيات اور دينى علماء كے متعلق ايسا تصور نہيں ركھتے _ مثال كے طور پر اسلام كسى طرح بھى علماء

۲۹

دين كيلئے كسى خاص طبقاتى حيثيت كا قائل نہيں ہے اور انہيں مقام عصمت كا حامل نہيں سمجھتا_ اس لئے دينى حكومت كى ايسى تفسير كى كوئي راہ نہيں نكلتى _ علاوہ بر ايں صرف علماء دين اور مذہبى افراد كے ہاتھ ميں حكومتى عہدوں كا ہونا اس حكومت كے دينى ہونے كى دليل نہيں ہے بلكہ حقيقت وہى ہے جو چوتھى تعريف ميں بيان كى گئي ہے كہ مختلف اجتماعى و سماجى امور اور حكومتى اداروں ميں دينى تعليمات كا اجرا ہى حكومت اور سياست كو دينى رنگ دے سكتاہے_

قابل ذكر ہے كہ دينى حكومت سے ہمارى مراد كسى خاص دين سے متصف حكومت نہيں ہے _ بلكہ دنيا كے جس گوشہ ميں كوئي حكومت دينى تعليمات كے آگے سر تسليم خم كردے، اس كى فرمانروائي كو قبول كرلے اور اپنے اداروں ميں دينى تعليمات رائج كردے وہ دينى حكومت كہلائے گى چاہے وہ دين آسمانى اديان ميں سے ہو يا ايسے اديان ميں سے ہو جن كے متعلق ہم مسلمانوں كا عقيدہ ہے كہ ان كا تعلق وحى الہى سے نہيں ہے بلكہ شرك و تحريف سے آلودہ ہيں _

نيز توجہ رہے كہ اگر دين سے ہمارى مراد دين اسلام ہو تو پھر دينى حكومت وہى حكومت ہوگى جو اسلامى تعليمات كے مطابق ہو اور اسلامى تعليمات سے مراد وہ دينى اصول و ضوابط ہيں جو معتبر دينى منابع سے ماخوذ ہوں بنابريں كوئي فرق نہيں ہے كہ وہ دينى تعليمات ،وحى اور معتبر روايات سے حاصل ہوئي ہوں يا معتبر عقلى ادلّہ سے_ البتہ چونكہ اسلامى تعليمات كا اصلى اور اہم ترين منبع قرآن و سنت ہيں اسى لئے دينى حكومت اور سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے پر بحث و تحقيق كرنے والے بہت سے افراد كى ''دينى تعليمات''سے مراد وہ تعليمات ہيں جو قرآن اور احاديث سے حاصل ہوئي ہوں_

۳۰

خلاصہ :

۱ لفظ ''حكومت اور رياست ''كے متعدد معانى ہيں كہ جن ميں سے بعض معانى مترادف ہيں_

۲ دور حاضر كى جديد اصطلاح ميں رياست كى جو تعريف كى جاتى ہے ، حكومت اس كا ايك شعبہ اور حصہ ہے _

۳ دينى حكومت كى مختلف تعريفيں كى جاسكتى ہيں يعنى دين اور رياست كى تركيب سے متفاوت معانى پيش كئے جاسكتے ہيں _

۴ اجتماعى اور سياسى زندگى ميں دين كى حاكميت كو قبول كرنے والى حكومت كو دينى حكومت كہنا دين و رياست كى مجموعى حقيقتكے ساتھ زيادہ مطابقت ركھتى ہے_

۵ اس سبق ميں دينى حكومت كى جوچوتھى تعريف كى گئي ہے وہ ايك جامع تعريف ہے اور اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ ايك حكومت كے دينى ہونے كا معيار يہ ہے كہ معاشرے كے مختلف سياسى شعبوں ميں دينى تعليمات حاكم ہوں_

۶ مختلف سياسى شعبوں ميں دين كى حاكميت كو تسليم كرنے والى حكومت كو دينى حكومت كہنا ، ايك ايسى عام تعريف ہے جو كسى مخصوص دين كے ساتھ مربوط نہيں ہے_

۳۱

سؤالات

۱ دور حاضر ميں رياست كى تعريف كيا ہے ؟

۲ كونسى تعريف كے مطابق رياست اور حكومت دو مترادف اصطلاحيں ہيں ؟

۳ كونسى تعريف ميں دينى حكومت دين داروں كى حكومت كے مترادف ہے ؟

۴ دينى حكومت كى كونسى تعريف جامع اور قابل قبول ہے ؟

۵ باقى تعريفوں كى نسبت دينى حكومت كى چوتھى تعريف كونسے امتيازات كى حامل ہے ؟

۳۲

چوتھا سبق:

سياست ميں حاكميت دين كى حدود

گذشتہ سبق سے واضح ہوگيا كہ حكومت كے دينى ہونے كا معيار يہ ہے كہ حكومت اور سياست كے مختلف شعبوں ميں دينى تعليمات كى حكمرانى ہو _وہ چيز جو دينى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے جدا اور ممتاز كرتى ہے ، وہ معاشرے كے سياسى اور ديگر امورميں دين كى حاكميت كو تسليم كرنا ہے_ اس بحث ميں بنيادى سوال يہ ہے كہ اس حاكميت كا دائرہ كس حد تك ہے اور دين كس حد تك دنيائے سياست وحاكميت ميں دخيل ہے ؟

دوسرے لفظوں ميں صاحبان دين كيلئے سياست كے كن شعبوں اور حكومت كے كن اداروں ميں دين اور اس كى تعليمات كو بروئے كار لانا ضرورى ہے ؟ اور كونسے شعبوں ميں دين كى حاكميت سے بے نياز ہيں ؟ ايك دينى حكومت كے كونسے پہلو مدنى اور بشرى ہيں اور كونسے پہلو دينى تعليمات سے ماخوذ ہونے چاہيں؟

اس اہم ترين مسئلہ كى تحقيق سے پہلے حكومت اور سياست كے مختلف پہلوؤں اور شعبوں كى شناخت ضرورى ہے _ كيونكہ حكومت كے متعلق قابل بحث پہلوؤں سے مكمل آگاہى ، ان تمام پہلوؤں ميں دين كى دخالت كے سمجھنے ميں مددگار ثابت ہوسكتى ہے _

۳۳

حكومت اور اس كے سياسى پہلو:

ہم نے حكومت اور رياست كى تعريف كى تھى : '' وہ منظم سياسى قوت جو امر و نہى اور ايك مكمل نظام كے اجرا كى حامل ہو '' اس سياسى قوت كے متعلق مختلف جہات قابل بحث ہيں _ اگر چہ يہ سياسى ابحاث مختلف اور ايك دوسرے سے جدا ہيںليكن باہمى ربط كى حامل ہيں _ حكومت سے متعلق مختلف سياسى پہلوؤں كو درج ذيل صورت ميں بيان كيا جاسكتا ہے _

۱_ حكومتيں مختلف قسم كى ہوتى ہيں ، جمہورى ، شہنشاہى اور نيم شہنشاہى و غيرہ _ بنابريں حكومت سے متعلق بنيادى مباحث ميں سے ايك يہ طے كرناہے كہ كون سا سياسى طرز حكومت معاشرہ پر حاكم ہے_

اسى طرح صاحبان اقتدار كى انفرادى خصوصيات اور شرائط كا تعيّن اسكى بنيادى بحث شمار ہوتى ہے_ سياسى نظام كى نوعيتكى تعيين ہر معاشرے كے سياسى اقتدار كے حامل اداروں كى ضرورى خصوصيات كى ايك حد تك پہچان كروا ديتى ہے _

۲_ ہر حكومت كا ايك حكومتى ڈھانچہ ہوتاہے يعنى ہر حكومت مختلف اداروں اور قُوى سے تشكيل پاتى ہے _ حكومتى ڈھانچے كى تعيين ، اس كے اداروں كے آپس ميں ارتباط كا بيان اور ہر ادارے كے اختيارات اور فرائض كى وضاحت ، سياست اور حكومت كے اہم ترين مسائل ميں سے ہيں _

۳_ ہر رياست اور حكومت قدرت واقتدار(۱) كى حامل ہوتى ہے _ يعنى امرو نہى كرتى ہے ، قوانين بناتى ہے اور انكےصحيح اجرا پر نظارت كرتى ہے _ ايك اہم بحث يہ ہے كہ اس اقتدار كى بنياد كن اہداف اور اصولوں پر ہونى چاہيئے ؟ مختلف حكومتى ادارے جو عوام كو امرو نہى اور روك ٹوك كرتے ہيں وہ كن اصولوں كى بنياد پر

____________________

۱) Authority

۳۴

ہونے چاہيں؟ مثال كے طور پر ايك سوشلسٹ نظريات كى حامل حكومت جو كہ ماركسزم كى تعليمات كى قائل اور وفادار ہے اپنے اقتدار ميں ماركسزم كى تعليمات كے تابع ہے_ اس قسم كى حكومتوں ميں قانون گزارى ، اقتصادى پروگرام ،آئينى اور ثقافتى تعلقات اور بين الاقوامى معاملات ميں اس مكتب كے اصولوں پرخاص توجہ دى جاتى ہے _ جس طرح كہ '' لبرل جمہورى '' حكومتوں ميں ''جيسا كہ آج كل يورپ اور آمريكہ ميں قائم ہيں '' اقتدار كى بنياد لبرل ازم كے اصولوں پر قائم ہے _ ان ممالك ميں جمہوريت اور اكثريت كى رائے بطور مطلق نافذ العمل نہيں ہوتى بلكہ لبرل ازم اسے كنٹرول كرتا ہے _ آمريت ، اقتدار اور حكومت كا دائر ہ كار ان اصولوں پر قائم ہوتا ہے جنہيں لبرل ازم كے تابع بنايا جاتا ہے _

۴_ ہر حكومت كى كچھ ذمہ دارياں ہوتى ہيں جنہيں وہ اپنے عوام كى فلاح و بہبود كيلئے انجام ديتى ہے_ حكومت سے مربوط مباحث ميں سے ايك بحث يہ بھى ہے كہ يہ وظائف اور فرائض كيا ہيں ؟ اور عوام كے مقابلے ميں حكومت كى ذمہ دارياں كيا ہيں ؟

۵_ اپنے افعال اور فرائض كى انجام دہى اور حكومت كى سياسى قدرت كا سرچشمہ اقتدار اعلى(۱) ہوتاہے_

ہر حكومت اپنے اقتدار اعلى كا سہارا ليتے ہوئے مختلف ميدانوں ميں اپنى سياسى قوت كو بروئے كار لاسكتى ہے اور اندرون و بيرون ملك اپنے سياسى ارادوں كو عملى جامہ پہنا سكتى ہے _ ہر حكومت اپنے اقتدار اعلى كى بناپر مختلف احكام نافذ كرتى ہے _ پس سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ كيا اس كا اقتدار اعلى جائز اور مشروع ہے يا نہيں ؟ دوسرے الفاظ ميں كيا وہ حكومت كرنے كا حق ركھتى ہے يا نہيں ؟

سياسى فلسفہ ميں مشروعيت(۲) و غير مشروعيت كى بحث اہم ترين مباحث ميں سے شمار ہوتى ہے _ كوئي بھي

____________________

۱) Sovereignty

۲) Legitimacy

۳۵

سياسى مكتب اس سے بے نياز نہيں ہے _ كيونكہ حكومتى اركان اور ادارے ، اور تمام سياسى فيصلے اور تدابير اپنى حقانيت اور مشروعيت، حكومت كے حق حاكميت اور مشروعيت سے حاصل كرتے ہيں _ ہر حكومت ميں يہ صلاحيت اور قدرت ہونى چاہيے كہ وہ اپنى مشروعيت كا معقول طريقے سے دفاع كرسكتى ہو _

اس مختصر اور اجمالى وضاحت سے روشن ہوجاتا ہے كہ حكومت و رياست كے متعلق كم ازكم پانچ اساسى محور قابل بحث ہيں _ اب ديكھنا يہ ہے كہ ان پانچ محوروں ميں سے كن ميں ''دين'' حاكميت كى صلاحيت ركھتا ہے ؟ دوسرے لفظوں ميں ان پانچ ميدانوں ميں كس ميدان ميں دينى حكومت ، دين كے تابع ہے ؟ كيا يہ دعوى كياجاسكتا ہے كہ ان ميں سے بعض ميں دين كو دخل اندازى كرنے كا حق نہيں ہے اور دين كى حاكميت صرف ان ميں سے بعض ميں ہے ؟

حاكميت دين كى حدود

سياست ميں دين كے دخيل ہونے كى بحث دو لحاظ سے قابل تحقيق ہے :

الف: كس حد تك دين كا دخيل ہونا ممكن ہے_

ب : كس حد تك دين عملا دخيل ہے_

پہلى بحث سے مراد يہ ہے كہ سياست كے كونسے پہلو دين كے محتاج ہيں؟ اور كہاں پر دين اپنى تعليمات سے نواز سكتا ہے اور اپنى حاكميت كو بروئے كار لاسكتا ہے ؟ يہاں اصلى اور بنيادى سوال يہ ہے كہ كيا ممكن ہے دين ان پانچوں ميدانوں ميں دخيل اور معاشرہ كى سياسى زندگى كے تمام شعبوں ميں اس كى راہنمائي كرے ؟ يا يہ كہ بعض شعبوں كا تعلق صرف لوگوں سے ہے اور دين كيلئے سزاوار نہيں ہے كہ وہاں اظہار نظر كرے ؟

دوسرى بحث سے مراد ايك تو اس بات كى تعيين ہےكہ دين مبين اسلام نے سياست كے پانچ ميدانوں

۳۶

ميں سے كن ميں عملى طور پر اظہار نظر كياہے؟ دوسرا يہ كہ ان ميدانوں ميں دين كى تعليمات كس حد تك ہيں ؟ سياست كے مختلف پہلوؤں ميں دين كى دخالت كے امكان كے متعلق ہمارے نزديك دين كى حاكميت كى راہ ميں كوئي شئے مانع نہيں ہے_اور دين ان تمام ميدانوں ميں اپنا پيغام دے سكتا ہے _ منطقى لحاظ سے ضرورى نہيںہے كہ دين كى دخالت سياست كے بعض شعبوں تك محدودرہے بلكہ ممكن ہے دين ،حكومت كے تمام شعبوں ميں اپنى رائے كا اظہار كرے بعنوان مثال سياسى ڈھانچہ ،حكومت كى نوعيت، دينى معاشرے كے حكمرانوں كى شرائط ،خصوصاً رہبر و قائد كى خصوصيات جيسے ابواب ميں دين اپنى تعليمات پيش كرسكتاہے_ دين حكومت كى مشروعيت اور حق حاكميت كے متعلق اپنى رائے كا اظہار كرسكتا ہے _ كونسى حاكميت مشروع ہے اور كونسى نامشروع ،اسكى تعيين كرسكتا ہے ، حكّام پر عوام كے حقوق ، لوگوں كے سلسلہ ميں حكمرانوں كے وظائف اور عوام پر حكمرانوں كے حقوق جيسے امور ميں اپنى رائے دے سكتا ہے _ سياسى اقتدار كے حامل افراد كے لئے اہداف اور اقدار معين كرسكتا ہے تا كہ وہ معيّنہ اصولوں اور اہداف كے مطابق اپنى سياست كو آگے بڑھائيں اورمعاشرتى امور كو انجام ديں _

بنابريں از نظر امكان''سياست ميں دين كى حاكميت '' بلا قيد و شرط ہے اور اسے سياست كے چند مخصوص شعبوں ميں محدود كرنا صحيح نہيں ہے _

يہ تسليم كرلينے كے بعد كہ سياست كے مختلف شعبوں ميں منطقى طور پر دين كى دخالت ممكن ہے ، بعض افراد قائل ہيں كہ مختلف حكومتى شعبوں ميں دين كى حاكميت نہيں ہونى چاہيئے _ ان كى نظر ميں بعض ادلّہ كى روسے دين خود كو سياست سے دور ركھے_ اور ان تمام امور كو لوگوں ، عقل اور تجربہ كے حوالے كردے _ آنے والے اسباق ميں ہم دينى حكومت كے ان منكرين كى ادلہ پر بحثكريں گے _

۳۷

پس يہ مان لينے كے بعد كہ سياست سے متعلق ان پانچ ميدانوں ميں دين كى دخالت ممكن ہے دوسرے مرحلے كو مورد بحث قرار ديتے ہيں _ حكومتى اور سياسى امور ميں دين كى دخالت كس حد تك ہے ؟ اس كى تعيين صرف ايك طريقے سے ممكن ہے اور وہ بلاواسطہ دين اور پيام الہى كى طرف رجوع كرنا ہے _ اسلام كى اجتماعى اور سماجى تعليمات كى طرف عالمانہ اور باريك بينى سے رجوع كرنا ، اس حقيقت كى نقاب كشائي كرتا ہے كہ مذكورہ پانچ ميدانوں ميں سے دين نے كس ميں اپنى راہنمائي و ہدايت سے نوازاہے اور كس حد تك گفتگو كى ہے _ اور كونسے امور كو لوگوں اور ان كى عقل و تدبير پر چھوڑا ہے _ دين كى طرف رجوع اور اس كے مطالب كے ادراك سے واضح ہوجاتا ہے كہ دين نے كس شعبہ ميں اور كس حد تك اپنى حاكميت كو ثابت كيا ہے اور ان كے بارئے ميں اظہار نظر كيا ہے اور كن امور كو لوگوں كے حق انتخاب اور رائے پر چھوڑا ہے كسى بھى صورت ميں دين كى تعليمات كى طرف رجوع كرنے سے پہلے سياست كے بعض شعبوں ميں دين كو دخل اندازى سے نہيں روكا جاسكتا يا بعض امور ميں اس كے اظہار نظر اور دخالت كودين كے اہداف اور اسكى شان كے منافى قرار نہيں ديا جاسكتا _

۳۸

خلاصہ:

۱) حكومت اور سياست كے پانچ پہلو ہيں جو ايك دوسرے كے ساتھ مربوط ہيں _

۲) سياسى نظام كى نوعيت كى تعيين ، نيز اس كے اداروں كى كيفيت و كميت ،سياست كى اہم ترين مباحث ہيں _

۳) اہم ترين سياسى مباحث ميں سے ايك يہ ہے كہ ہر حكومت كا اقتدار كن اصولوں اور اہداف كى بنياد پر ہونا چاہيے _

۴) ہر حكومت اپنى قانونى حكمرانى كى بنياد پر احكام جارى كرتى ہے _

۵) سياسى اقتدار كى مشروعيت كى بحث حاكميت كے جائز اور ناجائز ہونے كى بات كرتى ہے اور اس بنيادى سوال كا جواب ديتى ہے كہ حكومت كا حق كن افراد كو حاصل ہے _

۶)'' دين'' سياست كے مذكورہ بالا پانچ بنيادى ميدانوں ميں اپنى رائے كا اظہار كرسكتا ہے _

۷) سياسى امور ميں دين كى حاكميت دومرحلوں ميں قابل بحث و تحقيق ہے _

الف: كونسے سياسى موارد ميں دين كى دخالت ممكن ہے ؟

ب: كن موارد ميں اسلام نے عملى طور پر اپنى رائے كا اظہار كيا ہے ؟

۸) دوسرے سوال كا جواب صرف دينى تعليمات كى طرف رجوع كرنے سے ہى مل سكتا ہے _ تا كہ واضح ہوسكے كہ حكومتى امور ميں اسلام نے كس حد تك دخالت كى ہے _

۳۹

سوالات :

۱) حكومت اور سياست سے مربوط پانچ مباحث كو اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_

۲) اقتدار سے كيا مراد ہے ؟ اور اس كے متعلق كونسى بحث اہم ہے ؟

۳) مشروعيت كى بحث كيا ہے ؟ اورقانونى حاكميت كى بحث سے اس كا كيا تعلق ہے ؟

۴) حكومت كے ان پانچ ميدانوں ميں سے كس ميدان ميں ''دين'' حكمرانى كرسكتاہے ؟

۵) ان پانچ موارد ميں سے ہر ايك ميں دخالت دين كى حدود كى تشخيص كا طريقہ كيا ہے ؟

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

اس کے علاوہ کتاب بخاری ، شرح فتح الباری '' کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة ' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی فرمائش :

لتتبعن سنن من کان قبلکم '' (١٧ ٦٣ ۔ ٦٤)

٥۔ کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١)

حدیث ابو ہریرہ :

١۔ '' فتح الباری '' در شرح صحیح بخاری ( ٦٣١٧)

٢۔ '' سنن '' ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ٣٩٩٤۔

٣۔ '' مسند '' احمد بن حنبل (٢ ٣٢٧ ، ٣٦٧، ٤٥٠، ٥١١، ٥٢٧)

٤۔ کنز العمال (١١ ١٢٣)

ابو واقد لیثی کی حدیث:

١۔'' سنن'' ترمذی ( ٩ ٢٧ ۔٢٨)

٢۔ '' مسند '' طیالسی ، حدیث نمبر ١٣٤٦۔

٣۔ '' مسند '' احمد ( ٥ ٢١٨)

٤۔ '' کنز ل العمال '' ( ١٢٣١١) باب ( الاقوال من کتاب الفتن)

عبدا للہ بن عمرو کی حدیث :

١۔ '' سنن'' ترمذی ( ١٠ ١٠٩) ابواب الایمان۔

٢۔ '' در المنثور '' سیوطی ( ٤ ٦٢) تفسیر آیۂ ' ' وَلَا تَکُونوا کَالَّذِین تَفَرَّقُوا '' آل عمران مستدرک حاکم کے مطابق ۔

۶۱

ابن عباس کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١) بزاز اور حاکم سے روایت کی ہے۔

٢۔ '' کنزل العمال '' ( ١١ ١٢٣) مستدرک حاکم سے نقل کیا ہے۔

سہل بن سعد کی حدیث :

١۔ '' مسند'' احمد بن حنبل ( ٥ ٢٤٠)

٢۔ '' مجمع الزوائد'' (٧ ٢٦١) طبرانی سے نقل کرکے۔

عبد اللہ مسعود کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٢٦١٧) طبرانی سے نقل کرکے۔

مستورد کی حدیث :

١۔ '' مجمع الزوائد'' ( ٧ ٢٦١)

٢۔ کنز ل العمال ( ١١ ١٢٣) طبرانی کی '' اوسط '' سے نقل کرکے ۔

شداد بن اوس کی حدیث:

١۔ '' مسند '' احمد ( ٤ ١٢٥)

٢۔ '' مجمع الزوائد '' ( ٧ ٢٦١)

٣۔ قاموس الکتاب المقدس '' تالیف: مسٹر ماکس ، امریکی ، طبع امریکی مطبع، بیروت١٩٢٨ ئ

٤۔ '' توریت'' ، طبع ، امریکی مطبع، بیروت ، ١٩٠٧ ء

۶۲

آیۂ رجم کے بارے میں عمر کی روایت :

١۔ '' صحیح '' بخاری ( ٤ ١٢٠) کتاب حدود۔

٢۔ '' صحیح'' مسلم ( ٥ ١١٦)

٣۔ '' سنن '' ابی داؤد ( ٢ ٢٢٩) باب رجم ، کتاب حدود۔

٤۔ '' صحیح '' ترمذی ( ٢٠٤٦)باب '' ما جاء فی تحقیق الرجم '' کتاب حدود

٥۔'' سنن '' ابن ماجہ ، باب رجم ، کتاب حدود، نمبر: ٢٥٥٣

٦۔ '' سنن'' دارمی( ٢ ١٧٩) باب حد زنائے محصنہ ، کتاب حدود۔

٧۔ ''موطاء مالک'' ( ٣ ٤٢) کتاب حدود۔

٨۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٠) : ٢٧٦،نمبر ( ١ ٤٧) ٣٣١ ، نمبر : (٥٥١)٣٩١' نمبر

بناوٹی آیت لا تَرغبُو عَنْ آبَائِکُمْ کی روایت:

١۔ '' مسند'' احمد ( ١ ٤٧) نمبر: ٣٣١

٢۔ ''مسند '' احمد (٥٥١) نمبر ٣٩١

'' دس مرتبہ دودھ پلانے '' کے بارے میں عائشہ کی روایت :

١۔'' صحیح'' مسلم (٤ ١٦٧) باب '' التحریم بخمس رضعات '' کتاب رضاع

٢۔ '' سنن'' ابی داؤد ١ ٢٧٩ ) باب '' ھل یحرم ما دون خمس رضعات؟'' کتاب نکاح

٣۔ '' سنن '' نسائی ( ٢ ٨٢) باب '' القدر الذی یحرم من الرضاعة '' کتاب نکاح سے ۔

٤۔ سنن ابن ماجہ ( ١ ٦٢٦ ) باب '' رضاع الکبیر '' کتاب نکاح ، نمبر ١٩٤٤۔

٥۔ سنن دارمی ( ١ ١٥٧) باب '' کم رضعة ترحم '' کتاب نکاح

٦۔ '' موطأ '' مالک ( ٢ ١١٨) باب '' جامع ما جاء فی الرضاعة '' کتاب نکاح

دو خیالی سورتوں کے بارے میں ابو موسیٰ کی روایت

١۔'' صحیح '' مسلم ( ٣ ١٠٠) باب '' لو ان لابن آدم '' کتاب زکات۔

٣۔ '' حلیہ'' ابو نعیم ، '' ابو موسی'' کے حالات کی تشریح میں ۔

۶۳

دوسرا حصہ

سیف بن عمر تمیمی کا تحفہ

*سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ۔

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے

*رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

*پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند ایلچی

*ہم نام اصحاب

*گروہ انصار سے چند اصحاب

۶۴

سیف کے جعلی اصحاب کا ایک اور گروہ

ہم نے اس کتاب کی پہلی اور دوسری جلد کو سیف کے قبیلۂ تمیم سے جعل کئے گئے اصحاب اور ان کے بارے میں خیالی عظمت و افتخارات کیلئے مخصوص کیا ، اور اس کے افسانوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیف کی نظر میں پوری دنیا قبیلۂ تمیم میں خلاصہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ سیف کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ صرف اسی خاندان کے افراد تھے جنہوں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد جمع ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت اور اطاعت کا شرف حاصل کیا ہے۔ حد یہ ہے کہ سیف کے خیال میں رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پروردہ ، گماشتے اور کارندے ، نمائندے اور ایلچی بھی قبیلۂ تمیم سے تعلق رکھتے تھے !

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد بھی اسی قبیلہ کی معروف شخصیتیں تھیں جنہوں نے سقیفۂ بنی ساعدہ کی میٹینگ میں شریک ہوکر ، ابو بکر کی بیعت کی اور اس سلسلے میں اپنے نظریات پیش کئے !!

ارتداد کی جنگوں میں بھی ، تمیمیوں کی ایک جماعت دین سے منحرف ہوکر مرتد ہو گئی تھی۔ اورانہوں نے اپنے عقائدکے دفاع میں سخت جنگ کرکے اپنی پائیداری کا ثبوت دیا ہے ۔

اور اس خاندان کے ان لوگوں نے بھی اپنے ایمان و عقیدہ کے دفاع میں مجاہدانہ طور پر تلوار کھینچ کر شجاعت کے جوہر دکھائے ہیں ، جو اسلام پر باقی اور پائندہ رہے تھے۔

اسی قبیلۂ تمیم کے افراد تھے ، جنہوں نے جنگوں اور لشکر کشیوں میں سپہ سالاری کے عہدے سنبھال کر میدان کارزار میں شجاعت ، بہادری اور دلاوریوں کے جوہر دکھائے ہیں اور کافی رجز خوانیاں کی ہیں ۔

خلاصہ کے طور پر یہ تمیمی ہی تھے جنہوں نے رزم و بزم کے تمام میدانوں میں دوسروں پر سبقت حاصل کرکے پہلا مقام حاصل کیا ہے :

٭پہلا شخص جس نے راہ خدا میں مکہ میں شہادت پائی تمیمی تھا۔

٭پہلا شہسوار جس نے جنگ اور کشور گشائی کیلئے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا اسی قبیلہ سے تھا ۔

٭پہلا شخص اور دلاور جس نے دمشق کے قلعہ کی سر بفلک دیوار پر کمند ڈالکر اوپر چڑھنے کے بعد اسے فتح کیا ، ایک تمیمی سردار تھا۔

٭پہلا شخص جس نے سرزمیں '' رہا '' پر قدم رکھا انہی میں سے تھا۔

٭پہلا بہادر جس نے گھوڑے پر سوار ہوکر دریائے دجلہ کو عبور کرکے اسلامی فوج کے حوصلے بلند کئے تا کہ اس کی اطاعت کریں ، تمیمی تھا ۔

۶۵

٭پہلا سورما جو فاتح کی حیثیت سے مدائن میں داخل ہوا انہی میں سے تھا ۔

٭پہلا بہادر جو کسی خوف و وحشت کے بغیر جلولا کی جنگ میں دشمن کے مورچوں پر حملہ کرکے انھیں شکست دینے میں کامیاب ہوا، تمیمی تھا۔

''ارماث ، اغواث و عماس '' کے خونین دنوں کو خلق کرنے والے یہی ہیں ۔ یہی ہیں جنہوں نے اس وقت کے دنیا کے پادشاہوں ، جیسے کسریٰ ، ہرمز ، قباد ، فیروز، ہراکلیوس ، چین کے خاقان ، ہندوستان کے پادشاہ داہر ، بہرام ، سیاوش ،نعمان اور دیگر عرب پادشاہوں کے جنگی ساز و سامان کو غنیمت کے طور پر حاصل کیا ہے ۔

انہوں نے ہی علاقوں اور شہروں پر حکومت اور فوجی کیمپوں اور چھاؤنیوں کی کمانڈ سنبھالی ہے

عمر کے قاتل کو موت کی سزا دینے والے بھی یہی ہیں ۔

خلافتِ عثمان کے دوران کوفیوں کی بغاوت کو کچلنے والے بھی یہی ہیں ۔

یہی تھے جو عثمان کی مدد کیلئے دوڑپڑے۔

انہوں نے ہی جنگِ جمل میں امیر المؤمنین علی اور عائشہ ، طلحہ و زیبر کے درمیان صلح کرنے کی کوشش کی ۔

جنگِ جمل میں عام معافی کا اعلان کرکے جنگ کے شعلوں کو خاموش کرنے والا بھی انہی میں سے تھا ۔

جنگلی جانوروں نے جس سے فصیح زبان میں گفتگو کی ہے وہ ان ہی میں سے تھا ۔

جس کی زبان پر فرشتوں نے فارسی کے کلمات جاری کئے اور وہ ایک بڑی فتح کا سبب بنا ، ان ہی میں سے تھا۔

جی ہاں ! یہی خیالی خصوصیات سبب بنی ہیں کہ فرشتے اور جنات یک زبان ہوکر قبیلۂ تمیم کے فضائل اور افتخارات کے نغموں کو سیف کے خیالی راویوں کے کانوں تک پہنچائیں تا کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے ان افسانوں کو سیف کے کان میں گنگنائیں ۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیاہے اسے بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ہم نے سیف کے تئیس (٢٣) جعلی اصحاب کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے کے دوران حاصل کی ہیں ۔

اب ہم اس جلد میں بھی خاندان تمیم سے متعلق سیف کے چھ جعلی اصحاب کے علاوہ دیگر عرب قبائل سے خلق کئے گئے سیف کے انیس جعلی اصحاب کے سلسلہ میں حسب ذیل مطالعہ اور بحث وتحقیق کریں گے :

۶۶

تیسرا حصہ: رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمائندے :

٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری ۔

٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

٢٨۔ حر ، یا حارث بن حکیم خضرامہ ضبی

٢٩۔ کبیس بن ہوذہ ، سدوسی ۔

چوتھا حصہ : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے گماشتے اور کارندے

٣٠۔ عبید بن صخر بن لوذان ، انصاری۔

٣١۔ صخر بن لوذان انصاری۔

٣٢ عکاشہ بن ثور ، الغوثی۔

٣٣۔ عبدا ﷲ بن ثور، الغوثی۔

٣٤۔ عبید اللہ بن ثور الغوثی

پانچواں حصہ : رسول خدا کے ایلچی اور کارندے

٣٥۔ وبرة بن یحنس خزاعی

٣٦۔ اقرع بن عبد اللہ ، حمیری۔

٣٧۔ جریر بن عبدا للہ حمیری ۔

٣٨۔ صلصل بن شرحبیل

٣٩۔ عمرو بن محجوب عامری

٤٠۔ عمرو بن خفاجی عامری

۶۷

٤١۔ عمر بن خفاجی عامری

٤٢۔ عوف ورکانی

٤٣۔ عویف ، زرقانی۔

٤٤۔ قحیف بن سلیک ،ہالکی۔

٤٥۔ عمر وبن حکیم ، قضاعی ، قینی۔

٤٦۔ امرؤ القیس ، از بنی عبدا للہ۔

چھٹا حصہ : ہم نام اصحاب

٤٧۔ خزیمة بن ثابت انصاری ( غیو از ذی شہادتین )

٤٨۔ سماک بن خرشہ ، انصاری ( غیر از ابی دجانہ )

ساتواں حصہ : گروہ انصار سے چند اصحاب

٤٩۔ ابو بصیرہ

٥٠۔ حاجب بن زید۔

٥١۔ سہل بن مالک

٥٢۔ سہل بن یربوع

٥٣۔ ام زُمل ، سلمیٰ بنت حضیفہ

۶۸

تیسرا حصہ :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے مختلف قبائل کے منتخب نمائندے

*٢٤ ۔ عبدة بن قرط تمیمی عنبری

*٢٥۔ عبدا ﷲ بن حکیم ضبی

*٢٦۔ حارث بن حکیم ضبی

*٢٧۔ حلیس بن زید ضبی

*٢٨۔حر، یا حارث بن خضرامہ ضبی

*٢٩۔کبیس بن ہوذہ ، سدوسی۔

۶۹

چوبیسواں جعلی صحابی عبدة بن قرط تمیمی

اس نام کا ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں یوں تعارف ہوا ہے :

عبدة بن قرط، خباب بن حرث تمیمی عنبری کا پوتا ہے ۔ ابن شاہین نے سیف بن عمر سے نقل کرکے ، قیس بن سلیمان بن عبدہ عنبری سے اس نے اپنے باپ اور جد سے ، انہوں نے عبدة بن قرط سے ۔۔ جو بنی عنبر کے نمائندوں کے ساتھ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے ۔۔ روایت کی ہے :

'' وردان '' اور '' حیدہ '' ، محزم بن مخرمہ بن قرط کے بیٹے نمائندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی ہے ۔

میں ۔۔ ابن حجر ۔۔ نے '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

ابن حجر نے اس سے قبل '' حیدہ '' کے حالات کی تشریح میں یوں لکھا ہے :

انشاء اللہ اس کے حالات کی تشریح حرف '' ع'' میں '' عبدہ '' کی تشریح کے دوران آئے گی ۔ یہ بھی کہدوں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ہے ۔

عبدہ کا خاندان اور اس کی داستان کا آغاز

سیف نے عبدہ کو ' عمرو بن تمیم '' کے خاندان ِبنی عنبر سے خلق کیا ہے ۔ اس کی داستان کے آغاز کو یوں جعل کیاہے کہ بنی عنبر کے نمائندوں کا ایک گروہ ، جس میں ' ' حیدہ'' اور '' وردان '' کے علاوہ عبدة بن قرط بھی تھا ، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' حیدہ '' اور '' وردان '' کے لئے مخصوص دعائے خیر کی ۔

۷۰

داستان کے مآخذ کی تحقیق

سیف کہتا ہے کہ مذکورہ داستان عبدة بن قرط نے اپنے بیٹے عبدہ سے اور اس نے اپنے بیٹے سلیمان سے اور سلیمان نے بھی اپنے بیٹے قیس سے بیان کی ہے ۔ جبکہ جس عبدة بن قرط کو ۔۔ سیف نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں قبیلے کے سفیر کے عنوان سے پہنچوایا ہے اس کا حقیقت میں کوئی وجود تھا اور نہ اس کے ان بیٹوں کا جن کی فہرست سیف نے مرتب کی ہے۔

بلکہ عبدة بن قرط نامی سیف کا صحابی۔ جسے اس نے نمایندہ کی حیثیت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچایاہے ۔ اور اس کے بیٹے '' عبدہ ، سلیمان ، اور قیس'' سب کے سب سیف کی تخلیق ہیں ۔

روایت کی تحقیق

ہم نے اس کتاب کی دوسری جلد میں ،جہاں '' اسود بن ربیعہ '' کے بارے میں گفتگو کی ہے ، تمیم کے نمائندوں کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے تاریخی حقائق بیان کئے ہیں اور واضح کیا ہے کہ سیف نے مذکورہ روایت میں کیوں اور کس طرح تحریف کی ہے !! یہاں پر اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ۔

یہ بھی ہم بتادیں کہ تمیم کے نمائندوں کے بارے میں سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں نہ تو عبدة بن قرط کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ہے اور نہ ہی اس کی روایت کے راویوں کے سلسلہ کا سراغ ملتا ہے ، کیونکہ یہ صرف سیف بن عمر ہے جس نے یہ داستان خلق کی ہے اور ابن حجرنے بھی اس پر اعتماد کرکے عبدة بن قرط کے نام کو حرف '' ع'' میں اپنی کتاب '' الاصابة '' میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے درجے کے اصحاب میں درج کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

'' عبدة بن قرط '' کے حالات :

١۔الاصابتہ' ابن حجر' (٤٢٧٢) نمبر ٥٢٨٦ کے نیچے

۷۱

حیدہ کے حالات

١۔ الاصابة '' ابن حجر ، ( ٢ ٣٦٤)

بنی عنبر کا شجرۂ نسب :

١۔ '' جمہرۂ انساب '' ابن حزم ( ٢٠٨ ۔ ٢٠٩)

اقرع بن حابس اور قعقاع بن معبدکے حالات :

١۔ '' الاصابة'' ابن حجر اور اس کے علاوہ دیگر منابع میں بھی آئے ہیں ۔

۷۲

پچیسواں جعلی صحابی عبد اللہ بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں اس صحابی کا یوں تعارف کرایا ہے :

سیف بن عمر نے صعب بن عطیہ بن بلال بن ہلال سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے '' عبد الحارث بن حکیم '' سے روایت کی ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا :

تمہارا نام کیا ہے ؟

اس نے جواب دیا: عبدا لحارث بن حکیم

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: آج کے بعد تمہارا نام عبد اللہ ہوگا۔

اس کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے قبیلہ '' بنی ضبہ''کے صدقات جمع کرنے کے لئے ممور فرمایا:

ابو موسیٰ نے اس صحابی کو ابن مندہ سمجھ لیا ہے

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب '' الاصابة'' میں یوں بیان کیا ہے :

دار قطنی نے سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے صعب ابن عطیہ سے روایت کی ہے ...اور اسی مذکورہ داستان کونقل کیا ہے

اس صحابی کی زندگی کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے کتاب '' التجرید'' میں اس طرح درج کئے گئے ہیں :

سیف بن عمر کے ذریعہ نقل ہوا ہے کہ وہ ۔۔ عبد الحارث بن حکیم ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

چھبیسواں جعلی صحابی حارث بن حکیم ضبی

ابن اثیر نے کتاب '' اسد الغابہ '' میں اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

ابو موسیٰ کی کتاب میں آیا ہے ( اس کے بعد عبد الحارث کی وہی داستان اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں نمائندہ کے طور پر پہنچنے کا موضوع بیان کیا ہے !)

۷۳

کتاب ' ' الاصابة'' میں یوں آیا ہے :

ابن شاہین اور ابو موسیٰ دونوں نے سیف سے نقل کیا ہے ( یہاں پر عبدا لحارث کی وہی مذکورہ داستان بیان ہوئی ہے )

ذہبی بھی اپنی '' التجرید'' میں لکھتا ہے :

ناقابل اطمینان طریقے سے روایت کی گئی ہے کہ اس کا نام عبد الحارث تھا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر عبد اللہ رکھا ۔

ہم نے سیف کی گزشتہ روایت میں دیکھا کہ اس نے ایک نمائندہ کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی خبر دی ہے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام عبد الحارث بن حکیم سے بدل کر '' عبداللہ بن حکیم '' رکھا ہے۔

لیکن دانشوروں نے سیف کے تخلیق کردہ اسی ایک آدمی کو دو آدمیوں میں تبدیل کرکے صحابی رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عنوان سے زندگی کے حالات پر الگ الگ روشنی ڈالی ہے۔

لیکن '' اسد الغابہ '' کے مطابق سیف نے دوسری روایت میں ان کی اس داستان کو '' عبدا للہ بن زید بن صفوان '' سے ٍمنسوب کیا ہے ۔ ابن اثیر لکھتا ہے :

دارقطنی نے سیف بن عمر سے اس نے صعب بن عطیہ سے ، اس نے بلال بن ابی بلال ضبی سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ عبد الحارث بن زید ضبی نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اس نے اپنا تعارف کرایا، اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے حق میں دعا کی ۔

یہ صحابی نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے کے بعد اسلام لایا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا:کہ

اس کے بعد تمہارا نام '' عبدا للہ '' ہوگا نہ عبد الحارث۔ اس نے جواب میں کہا :

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حق پر ہیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیا اچھا فرمایا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی قسم کی پرہیز گاری اور تقویٰ تائید الٰہی کے بغیر میسر نہیں ہوتی اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ہے ، شائستہ ترین کام وہ ہے جس کی انجام دہی میں ثواب ہو اور جس چیز سے دوری اختیار کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس کے پیچھے عذاب الٰہی ہوتا ہے۔

اللہ جیسے خدا کو رکھتے ہوئے ہم خوش ہیں ، ہم اس کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں تاکہ اس کے اچھے اور خیر خواہانہ وعدوں سے استفادہ کرسکیں اور اس کے غضب اور عذاب سے امان میں رہیں !

عبد الحارث جو '' عبدا للہ '' بن چکا تھا اپنے قبیلے کی طرف لوٹا اور اس نے ہجرت نہیں کی۔

۷۴

اس مطلب کو ابو موسیٰ نے بھی ذکر کیا ہے

ابن حجر کی '' الاصابة'' میں بھی آیا ہے :

دار قطنی نے سیف بن عمر سے اس نے بلال بن ابی بلال سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مذکورہ داستان کو نقل کرتا ہے )

مذکورہ روایت ابن کلبی کی '' جمہرہ '' میں یوں آئی ہے :

عبد الحارث بن زید... ( اس کا نسب بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :)

وہ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے نام کو بدل کر '' عبداللہ '' رکھا۔

ابن حزم نے بھی اپنی کتاب '' جمہرہ''' میں ان ہی مطالب کو بیان کیا ہے ۔

مذکورہ داستان کو ابن عبدا لبر نے '' استیعاب '' میں ، ابن اثیر نے '' اسدا لغابہ'' میں اور ابن حجر نے ''الاصابہ'' میں ابن کلبی ، محمد بن حبیب اور ابن ماکولا جیسے دانشوروں سے نقل کیا ہے۔

اس بناء پر اس روایت کی سند ابن کلبی پر ختم ہوتی ہے ۔ کیونکہ ابن حبیب ابن حزم اور ابن ماکولا سب کے سب ابن کلبی سے روایت کرنے والے تھے۔ اور چونکہ اس دانشور نے ٢٠٤ ھ میں وفات پائی ہے اور سیف کی کتاب '' فتوح'' بھی اس تاریخ سے آدھی صدی سے زیادہ پہلے لکھی جا چکی ہے ۔ لہذا یہ اطلاعات ہمیں یہ حق دیتے ہیں کہ ہم یہ کہیں کہ : ابن کلبی نے مذکورہ خبر کو سیف سے نقل کرکے اسے خلاصہ کیا ہے ۔

بہر حال ہم زید بن صفوان کو سیف کی تخلیق شمار نہیں کرتے ہیں ، کیونکہ ہمیں ابن کلبی کی کتاب '' جمہرہ'' نہیں ملی جس کے ذریعہ ہم اس کی خبر کی یقینی طور پر تائید کرتے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہی ایک شخص ۔۔۔ زید بن صفوان ۔۔ رجال کی تشریح میں لکھی گئی کتابوں میں حسب ذیل تین روپوں میں درج ہوا ہے :

۷۵

١۔ عبدا للہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' ، '' الاصابہ'' اور ابو موسی کے ذیل میں اسی نام سے آیا ہے۔

٢۔ '' عبد اللہ بن حارث بن زید بن صفوان '' جو '' استیعاب '' ، '' اسد الغابہ'' ، '' تجرید'' اور ابو موسیٰ ذیل میں اسی نام سے ذکر ہوا ہے۔

٣۔ ابن حجر کی '' الاصابہ'' میں عبدا للہ بن حارث کا دو شخصیتوں کے عنوان سے دوجگہ پر تعارف کیا گیا ہے ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے ہوئے نمائندہ '' عبدا للہ بن حارث'' کے نام میں تعدّد کا سر چشمہ شاید پہلی بار '' استیعاب '' میں واقع ہونے والی تحریف جس کے نتیجہ میں ابو موسیٰ ہے نے بھی غلطی کی ہے اور اپنی کتاب ذیل میں ایک بار '' عبد اللہ بن حارث بن زید '' دوسری بار '' عبد اللہ بن زید '' کی زندگی کے حالات لکھے ہیں اور اس کے بعد دانشوروں نے اس کی پیروی کی ہے۔

ابن حجر اس غلطی کے علاوہ ایک دوسری غلطی کا بھی مرتکب ہوا ہے اور '' عبد اللہ بن حارث بن زید''کی زندگی کے حالات پر دوبار' دو جگہوں پر اپنی کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ اس طرح ایک جعلی شخص تین روپوں میں نمودار ہوا ہے۔

ستائیسواں جعلی صحابی حلیس بن زید بن صفوان

اس صحابی کا ' ' اسد الغابہ '' میں یوں تعارف کیا گیا ہے :

ابو موسیٰ نے ابن شاہین سے نقل کرکے ذکر کیا ہے کہ سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ وہ حلیس بن زید بن صفوان اپنے بھائی ' ' حارث'' کی وفات کے بعد نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دست شفقت پھیرنے کے بعدا س کے حق میں د عا فرمائی ہے ۔

حلیس نے اس ملاقات میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :

اگر مجھ پر کسی قسم کا ظلم ہوتو اس کی تلافی کیلئے اٹھتا ہوں تا کہ اپنا حق حاصل کرسکوں ۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:

۷۶

شائستہ ترین کا م جسے انجام دیا جا سکتا ہے ، عفو و بخشش ہے ۔

حلیس نے کہا:

اگر کوئی حسد کرے گا تو اس سے زبردست مقابلہ کرکے تلافی کروں گا۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

کون ہے جو کرم کرنے والوں کے لطف و کرم کا برا جواب دے ؟! جو بھی لوگوں سے حسدکرتا ہے اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا اور اس کا دل آرام نہیں پاتا۔یہ مطالب ابو موسی نے بیان کئے ہیں ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

کتاب '' اصابہ'' میں ہم یوں پڑھتے ہیں :

ابن شاہین نے اس کا نام لیا ہے اور سیف بن عمر سے نقل کرکے روایت کی ہے کہ ( یہاں پر مندرجہ بالا داستان نقل کی گئی ہے )

لیکن کتاب '' تجرید'' میں اس صحابی '' حلیس بن زید '' ۔۔ کے تعارف اور زندگی کے حالات کے بارے میں حسب ذیل مطالب پر اکتفا کی گئی ہے :

غیر مطمئن طریقہ سے روایت ہوئی ہے کہ وہ ۔۔ حلیس ۔۔ نمائندہ کی حیثیت سے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا ہے۔

اٹھائیسواں جعلی صحابی حر، یا حارث بن خضرامہ ، ضبی

'' اسدا لغابہ'' میں یوں ذکر ہوا ہے:

حارث بن خصرامہ ضبی ہلالی کے بارے میں '' حارث بن حکیم '' کے سلسلے میں بیان کئے گئے مآخذ کے مطابق آیا ہے کہ سیف بن عمر نے صعب بن ہلال ضبی اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا:

حر، پیغمبر خدا کی خدمت میں پہنچا ( تا آخر )

۷۷

حر بن خضرامہ ضبی یا ہلالی :

ابن حجر کی کتاب '' اصابہ'' میں حر کی داستان یوں درج ہوئی ہے :

ابن شاہین نے سیف سے نقل کرکے صعب بن ہلال ضبی سے اور اس نے اپنے باپ سے یوں روات کی ہے :

حر بن خضرامہ بنی عباس کا ہم پیمان تھا ۔ گوسفندوں کے ایک ریوڈ اور چند غلاموں کے ہمراہ مدینہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچا۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ایک کفن اور قدرے حنوط عنایت فرمایا ! اس کے بعد زیادہ وقت نہ گزرا کہ حر مدینہ میں فوت ہوگیا ۔ اس کے پسماندگان مدینہ آگئے ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گوسفندوں کو انھیں لوٹا دیا اور حکم دیا کہ غلاموں کو مدینہ میں بیچ کر انکی قیمت انہیں دی جائے۔ابو موسی مدائنی نے دار قطنی سے ابن شاہین کے راوی سے روایت کی ہے کہ اس نے اس صحابی کے بارے میں کہا ہے : حارث بن خضرامہ ، ! اور خدا زیادہ جاننے والا ہے !

ضبّہ کا شجرۂ نسب

ضبی ، یہ ایک نسبتی لفظ ہے اور یہ نسبت تمیم کے چچا ''صنبتہ بن ادبن طابختہ بن الیاس بن مضر '' تک پہنچتیہے ۔

داستان کے مآخذ کی تحقیق:

علماء نے سیف کے اسنادحلیس کی داستان میں ذکر نہیں کئے ہیں ۔ لیکن باقی حدیث کو سیف کے ذریعہ ، صعب سے، بلال بن ابی بلال اور اس کے باپ سے نقل کیا ہے۔

یعنی حقیقت میں ایک بناوٹی راوی نے دوسرے جعلی اور خیالی راوی سے اور اس نے بھی ایک جعلی شخص سے نقلِ قول اور روایت کی ہے۔

ساتھ ہی سیف نے اپنے افسانوں میں سے ایک افسانہ کو اسی ماخذ کے ذریعہ اپنے جعلی صحابی تک ربط دیکر نقل کیا ہے ۔ ہم نے اس موضوع کے بارے میں ا پنی کتاب '' رواة مخلتقون'' میں اشارہ کیا ہے ۔

۷۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

سیف تنہا شخص ہے جس نے مذکورہ داستانوں کی روایت کی ہے ۔ جبکہ جن افراد نے انتہائی دقت اور احتیاط کے ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں پہنچے وفود اورنمائندوں کے بارے میں تفصیلات لکھے ہیں ،ان میں سیف کے مذکورہ مطالب کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابن سعد جیسے عالم نے اپنی کتاب ''طبقات'' میں سیف کی روایتوں پر کوئی توجہ نہیں کی ہے اور ان پر اعتماد بھی نہیں کیا ہے۔

بلاذری نے بھی ۔۔ اپنی کتاب ' ' انساب '' کے پہلے حصہ میں ، جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے مخصوص ہے ۔۔ سیف کی روایتوں پر کوئی اعتماد نہیں کیا ہے اور اسی طرح یعقوبی نے بھی اپنی تاریخ میں سیف کی روایتوں پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ '' عبدا للہ بن زید صفوان '' کے بارے میں نمائندگی کی روایت کو ہم نے ابن کلبی کے ہاں پایا ۔ مگر خود ابن کلبی نے اس روایت کو کہاں سے حاصل کیا ہے ، ہمیں اب تک اس کے مآخذ کا پتہ نہ مل سکا۔

خلاصہ :

سیف نے قبیلہ بنی ضبّہ کے چند افراد کے نمائندہ کے طور پر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے کی داستان کو چار روایتوں میں بیان کیا ہے ۔علماء نے بھی دیگر صحابیوں کے ضمن میں ان کی زندگی کے حالات پر حسب ذیل روشنی ڈالی ہے :

١۔ سیف کی روایت کے پیش نظر '' عبد الحارث بن حکیم ضبی'' کی نمایندگی ، رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس کا نام بدل کر '' عبدا للہ '' رکھنے اور اسے اپنے قبیلہ کے صدقات جمع کرنے کی ماموریت دینے کے مسئلہ کو علماء نے دو صحابیوں کے حق میں الگ الگ بیان کیا ہے :

الف : حارث بن حکیم ضبی

ب: عبد اللہ بن حکیم ضبی

اور اسی ترتیب سے مذکورہ دو صحابی پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں ثبت ہوئے ہیں ۔

۷۹

٢۔ سیف' عبد الحارث بن زید بن صفوان کے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بعنوان نمایندہ پہنچنے کی روایت نقل کرکے مدعی ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا نام بدل کر '' عبد اللہ بن زید '' رکھا ہے ، اور نام بدلنے کے بعد یہ نیا عبد اللہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم و نصیحت کرنے پر اتر کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہتا ہے:

کوئی پرہیز گاری و تقویٰ خدا کی توفیق حفاظت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور کوئی بھی کام توفیق الٰہی کے بغیر انجام نہیں پاسکتا ۔ بہترین اور شائشتہ ترین کام جسے انجام دیا جاسکتا ہے وہ ہے جس میں ثواب ہو اور جس کام سے پرہیز کرنا چاہئے وہ ایسا کام ہے جس پر پروردگار غصہ اور غضب کرے

اس طرح یہ عبدا للہ بن زید صفوان ہے جو خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعلیم اور درس دیتا ہیچہ جائے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے درس دیں !!!

اس کے علاوہ اس صحابی کی نمائندگی کی خبر ' اس کی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نصیحت اور تعلیم کے ذکر کے بغیر ہمیں ابن کلبی اور اس کی حدیث کے راویوں کے ہاں ملی ہے۔ چونکہ سیف زمانہ ابن کلبی سے پہلے ہے لہذا ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ ابن کلبی نے بھی اس خبر کو سیف سے نقل کیا ہوگا!

ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہی ایک شخص، اصحابِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات لکھنے والوں کے ہاں تین روپوں میں ظاہر ہوا ہے !!!

٣۔ سیف بن عمر نے حلیس بن زید کی نمائندگی کا ذکر اس کے بھائی '' حارث بن زید '' کی وفات کے بعد کیا ہے اور اس امر کی تاکید کی ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے سر پر دستِ شفقت پھیر کہ اس کیلئے دعا کی پھر نصیحت کی ہے۔

علماء نے اسی روایت کے پیش نظر اور اسی پر اعتماد کرکے حلیس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اور حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

٤۔ سیف نے حر یا حارث بن خضرامہ کی گوسفندوں کے ریوڑ اور چند غلاموں کے ہمراہ پیغمبر خدا کی خدمت میں نمائندگی کو بیان کیا ہے لیکن اتنی طاقت نہیں رکھتا تھا کہ اپنے اس نئے خلق کئے ہوئے صحابی کو صحیح و سالم اپنے وطن اور اہل و عیال کے پاس لوٹا دے ، بلکہ اس کے بر عکس رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کیلئے کفن اور قدرے حنوط لے لیتا ہے اور اس مفلس کو وہیں پر مسافرت میں مار ڈالتا ہے اور وہیں پر اسے دفن کرتا ہے ! پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایسی شخصیت کے مرنے کے بعد حکم دیتے ہیں کہ اس کے غلاموں کے بیچنے کے بعد ان کی قیمت اور گوسفندوں کے ریوڑ کو مرحوم کے پسماندگان کے حوالے کردیں ۔ اس طرح اسے اصحاب کی فہرست میں قرار دیکر اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367