اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت0%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات:

صفحے: 367
مشاہدے: 111776
ڈاؤنلوڈ: 2419

تبصرے:

اسلامی نظریہ حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111776 / ڈاؤنلوڈ: 2419
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

( ''فالله هو الولي'' ) (۱)

پس خدا ہى ولى ہے_

( ''ان الحكم الا لله'' ) (۲)

حكم فقط خدا كى طرف سے ہے_

( ''ما لكم من دون الله من وليّ'' ) (۳)

اللہ كے سواتمہارا كوئي ولى نہيں ہے_

( ''انما وليكم الله'' ) (۴)

تمھارا ولى فقط خدا ہے_

( ''الا له الخلق و الامر'' ) (۵)

خبرداراسى كيلئے خلق اور امرہے_

ان مطالب كو اگر ''اصل عدم ولايت ''كے ساتھ ملا كر ديكھيں تو يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ كوئي شخص بھى كسى دوسرے پر ولايت نہيں ركھتا ، اور اسے حكم دينے يا اس كيلئے قانون بنانے كا حق نہيں ركھتا_ يہ مقام و منزلت فقط خدا كو حاصل ہے_ ہاںاگر حقيقى ولايت كا مالك يعنى خدا ايك يا چند افراد كو يہ ولايت بخش دے اور حق اطاعت عطا كردے تو پھر ان مقرر كردہ افراد كى ولايت بھى معتبر اور مشروع ہوگى _ قرآن و احاديث كى رو سے اللہ تعالى نے يہ ولايت معصومين كو عطا كى ہے_ اور ''ولايت انتصابي'' كى ادلّہ كے لحاظ سے ائمہ معصومين كى طرف سے عادل فقہا اس ولايت كے حامل ہيں_لہذا زمانہ غيبت ميں علماء كے اوامر و نواہى قابل اعتبار و قابل اطاعت ہيں_ اس لحاظ سے فقيہ كى ولايت رسولخدا (ص) اور ائمہ اہلبيت كى ولايت كى ايك كڑى ہے_ اور رسولخدا (ص) اور ائمہ كى ولايت كا سرچشمہ خداوند كريم كى ولايت و حاكميت ہے_

____________________

۱) (سورہ شورى آيت ۹)_

۲) (سورہ انعام آيت ۵۷)_

۳) (سورہ بقرہ آيت ۱۰۷)_

۴) (سورہ مائدہ آيت ۵۵)_

۵) (سورہ اعراف آيت۵۴)_

۲۶۱

ولايت فقيہ كى نصوص اور ادلّہ كا نتيجہ يہ ہے كہ '' فقيہ عادل ''حكومت كرنے كا حق ركھتا ہے اور سياسى ولايت كا حامل ہونے اور ائمہ معصومين كى طرف سے منصوب ہونے كى وجہ سے امر و نہى اور مسلم معاشرہ كے اجتماعى اورعمومى قوانين بنانے كا حق ركھتا ہے اور اس كے فرامين كى اطاعت واجب ہے_

فقيہ كى ''ولايت انتصابي'' كى بنياد پر باقى حكومتى اداروں كى مشروعيت بھي'' ولى فقيہ'' كے حكم كى بنا پر ہوگي_ فقيہ كى سياسى ولايت كى مشروعيت حكومتى ڈھانچے كے باقى اداروں كى مشروعيت كا سرچشمہ ہے كيونكہ اگر ولى فقيہ كا نفوذ نہ ہو تو باقى تمام حكومتى اداروں اور وزارتوں كى '' مشروعيت'' بحران كا شكار ہوجائے گى _ مثال كے طور پر كچھ وزراء كا بينہ ميں كوئي قرار داد منظور كرتے ہيں، پارليمينٹ ميں كوئي قانون پاس كرتے ہيں، يا كسى معاملہ ميں اپنے اختيارات استعمال كرتے ہيںتو سوال يہ ہے كہ پارليمينٹ ميں منظور شدہ قانون كے ہم كيوں پابند ہوں ؟ كيوں حكومتى فرامين پر عمل كريں؟ كس بنياد پر ملك كے انتظامى اور قضائي قوانين كا احترام كريں؟ اور كس دليل كى رو سے ان كى اطاعت كريں؟

قرآنى آيات كى روسے قانون بنانے اور فرمان دينے كا حق خدا اور ان افراد كو حاصل ہے جو اس كى طرف سے ولايت ركھتے ہوں_

سورہ نساء كى آيت ۵۹ ميں ارشاد خداوندى ہے_

''اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و اولى الامر منكم ''

اللہ كى اطاعت كرو اور رسول اور جو تم ميں سے صاحبان امر ہيں ان كى اطاعت كرو_

لہذا ان كے علاوہ كوئي شخص امر و نہى كرنے اور قانون بنانے كا حق نہيں ركھتا_مگر جب اس كى ولايت اور اختيار ان امور ميں ثابت ہوجائے تو پھر اسے يہ اختيار حاصل ہوجائے گا_

۲۶۲

پس كچھ لوگوں كا بعض افراد كى را ے سے پارليمينٹ ميں پہنچ جانا ان كے قانون وضع كرنے اور امر و نہى كرنے كو شرعى جواز عطا نہيں كرتا _ را ے دينے اور نہ دينے والوں كيلئے ان كى اطاعت اور ان كے بنائے ہوئے قوانين كو تسليم كرنے كيلئے كوئي شرعى وجوب نہيں ہے_ كيونكہ لوگوں كى را ے اس شخص كو حكمرانى كے امور ميں شرعى ولايت كے منصب كا حامل قرار نہيں ديتي_ مگريہ كہ شرعى ولايت كا حامل شخص كسى كو قانون گذارى اور امر و نہى كا حق دے دے_

يہ بحث سياسى اقتدار كے سب اركان ميں جارى ہے_ مثلا عدليہ ميں اگر قاضى اس شخص كى طرف سے مقرر كيا گيا ہے جس كى ولايت مشروع ہے تو پھر اس قاضى كا فيصلہ بھى شرعى حيثيت ركھتا ہے_ اسى وجہ سے ہمارى روايات ميں اُن افراد كى حكومت اور ولايت كو'' ولايت جور اور ولايت طاغوت'' سے تعبير كيا گيا ہے جو اسلامى معاشرہ كى سرپرستى كى شرائط كے حامل نہيں ہيں اور ان كے حكّام اور عمّال كو ظالم اور طاغوت كے كارندے كہا گيا ہے_

بنابريں شيعوں كے سياسى نظام ميں ولايت فقيہ كو بہت بڑى اہميت حاصل ہے_ كيونكہ سياسى نظام كے تمام اركان كى مشروعيت كا سرچشمہ يہى ہے_ اسى نظريہ كى بناپر اسلامى جمہوريہ كے اساسى قانون ميں جو كہ ولايت فقيہ پر مبتنى ہے بنيادى قانون كى تصويب اور عوام كى را ے سے منتخب ہونے والے صدر كيلئے رہبر كى تائيد حاصل كرنا ضرورى ہے_ صرف يہ كہ كچھ افراد نے مل كر قانون بناديا اور لوگوں نے بھى اس كے متعلق مثبت را ے دے دى اس سے شرعى طور پر اس كى اطاعت كا لازم ہونا ثابت نہيں ہوتا _ مگر يہ كہ '' صاحب ولايت شرعي'' اس كى تائيد كردے اور اس كے شرعى ہونے كى گواہى دے دے_ اسى طرح صدر كے اوامر و نواہى كى مشروعيت رہبر كى تائيد سے مربوط ہے كيونكہ صدر كيلئے لوگوں كى را ے اسے شرعى ولايت عطا نہيں كرتي_

۲۶۳

مخالفت كى اقسام

اسلام كے سياسى نظام ميں رہبرى اور ولايت كے اعلى مقام كى وضاحت كے بعد اس نكتہ كى تحقيق ضرورى ہے كہ كونسے موارد ميں رہبر كى اطاعت واجب ہے؟ اور كونسے موارد ميں ولى فقيہ كى مخالفت كى جاسكتى ہے؟ اس سے پہلے يہ جان لينا ضرورى ہے كہ مخالفت دو طرح كى ہوتى ہے :

الف : مخالفت عملى ب : مخالفت نظري

مخالفت عملي: سے مراد يہ ہے كہ حكومت كے فرامين اور قوانين پر عمل نہ كرنا _ جو شخص كسى حكومت كى عملا مخالفت كرتا ہے وہ در حقيقت ملكى مجرم ہے اور عملاً اس حكومت كے سياسى اقتدار كے ساتھ بر سر پيكار ہے_

مخالفت نظرى :كا تعلق اعتقاد ، را ے اور نظر و فكر سے ہے_ وہ شخص جسے حكومت كے بعض قوانين اور منصوبوں پر اعتراض ہے اورانہيں صحيح نہيں سمجھتا ليكن عملى طور پر مخالفت بھى نہيں كرتا اسے نظرى مخالف كہا جاتا ہے_ ايسے شخص كوقانون شكن يا ملكى مجرم نہيں كہتے بلكہ بعض منصوبوں كے متعلق اس كى را ے حكومت كى را ے سے مختلف ہوتى ہے_

ولى فقيہ كى مخالفت كا امكان

ان دو تمہيدى نكات يعنى رہبرى اور ولايت كا مقام اور اس كى مخالفت كى اقسام كے ذكر كرنے كے بعد اس سبق كے اصلى سوال كے جواب كى بارى آتى ہے_سوال يہ تھا كہ نظام ولايت ميں ولى فقيہ كى اطاعت واجب محض ہے يعنى كسى بھى صورت ميں اسكى مخالفت نہيں كى جاسكتى نہ عملى نہ نظرى يا شرعاً اس كى مخالفت ممكن ہے؟

وہ احكام يا فرامين جوولى فقيہ صادر كرتا ہے دوسرے سياسى نظاموں كے صاحبان اقتدار كے فرامين كى

۲۶۴

طرح دو اركان پر مشتمل ہوتے ہيں_

الف: موضوع كى شناخت _

ب : اس موضوع كے مناسب حل كى تشخيص يعنى حكم كى شناخت _

حالات اور موضوع كى دقيق اور گہرى شناخت ہر قسم كے فيصلے اور حكم كيلئے ضرورى ہے_ مخصوصاً وہ موضوعات جن كا تعلق ملك كے اجتماعى مسائل سے ہو اور جو عوام كى تقدير پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہوں مثلا وہ مسائل جن كا تعلق ملك كے امن و امان ، ثقافت اور اقتصاد سے ہے_ اس قسم كے اہم اور بنيادى موضوعات ميں بہت كم ايسے موارد ملتے ہيں جن ميں تمام صاحبان نظر كى آراء مكمل طور پر ايك دوسرے سے ملتى ہوں _ اس قسم كے كسى مسئلہ ميں اگر ولى فقيہ كوئيحكم صادر كرے توممكن ہے اس نے جو موضوعات كى تشخيص دى ہے وہ دوسرے صاحبان نظر كى رائے كے مخالف ہو _ كيا اس بات پر كوئي دليل ہے كہ ولى فقيہ كى تشخيص ،كلى طور پر تمام موارد ميں دوسرے موضوع شناس افراد كى تشخيص پر ترجيح ركھتى ہے ؟ اور نتيجتاً اس موضوع كى شناخت كا قبول كرنا تمام افراد پر واجب ہے _ اور وہ اس كى مخالفت ميں اپنى را ے كے اظہار كا حق نہيں ركھتے؟

اگر ولى فقيہ نے صدور حكم اور اپنے فيصلہ كو آخر ى شكل نہيں دى تو پھر اس موضوع كے سلسلہ ميں صاحبان نظر كيلئے نقد و تنقيد اور تحقيق و بررسى كا دروازہ كھلا ہے_ اور ولى فقيہ كے نظريہ كامعلوم ہوجانا اس بحث و تحقيق ميں ركاوٹ نہيں بن سكتا _اولياء دين كى عملى سيرت گواہ ہے كہ انہوں نے اپنے دوستوں كو اجازت دے ركھى تھى كہ وہ ان موضوعات و مسائل ميں اپنى را ے دے سكتے ہيں ، چاہے وہ ان كى را ے كے مخالف ہى كيوں نہ ہو _ ان كا مسلمانوں اور اپنے دوستوں سے مشورہ لينا اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ '' شناخت موضوع'' ميں ان كى اطاعت ضرورى نہيں ہے_

۲۶۵

ليكن جس وقت ولى فقيہ اور اسلامى معاشرہ كا حاكم كسى موضوع كو آخرى شكل دے دے اور ايك حكم صادر كردے تو تمام افراد پر اس حكم كا اتباع كرنا واجب ہے اور كسى كو حق نہيں پہنچتا كہ وہ شناخت موضوع ميں اختلاف نظر كے بہانے اس الزامى حكم كى مخالفت كرے اور ملكى مجرم بنے_ بنابريں ولى فقيہ كے احكام اور فرامين كى عملى اطاعت ضرورى ہے اگر چہ شناخت موضوع ميں ايسا نہيں ہے_

ولى فقيہ كے احكام كى اطاعت كے وجوب كى فقہى دليل مقبولہ عمر ابن حنظلہ جيسى بعض روايات ہيں كہ جن ميں حاكم كے حكم كى مخالفت كو حكم خدا كے خفيف سمجھنے،مخالفت اہلبيت اور خدا كے حكم سے روگردانى كرنے كے مترادف قرار ديا گيا ہے_

''فاذا حكم بحكمنا فلم يقبل منه فانّما استخف بحكم الله و علينا ردّ و الرادّ علينا الراد على الله '' (۱)

ممكن ہے كوئي يہ تصور كرے كہ اس روايت ميں انكار اور عدم جواز ردّ سے مراد حكم قاضى كا رد كرنا ہے اور حاكم شرع اور ولى فقيہ كا حكومتى حكم اس ميں شامل نہيں ہے _ يہ تصور اس غفلت كا نتيجہ ہے كہ قضاوت بھى جامع الشرائط فقيہ كى ولايت كا ايك شعبہ ہے_ جب ايك مخصوص جزئي نزاع ميں فقيہ كے حكم كى مخالفت نہيں كى جاسكتى تو فقيہ كے اس سے بڑے منصب ميںجو كہ اسلامى معاشرہ كا نظام چلانا ہے، اور حكومتى احكام صادر كرنا ہے ميں يقيناً اس كے فرامين كى مخالفت جائز نہيں ہے_ علاوہ ازيں امام صادق نے يہ جملہ فقيہ كو منصب حكومت پر فائز كرنے كے بعد فرمايا ہے پس يہ حديث حاكم كى مخالفت كے متعلق ہے اورصرف قاضى كى مخالفت ميں منحصر نہيں ہے_

____________________

۱) وسائل الشيعہ، ج ۲۷، ص ۱۳۶، ۱۳۷_ باب ۱۱، ابواب صفات قاضى ح ۱_ ترجمہ پہلے گزر چكا ہے_

۲۶۶

حاكم اور ولى امر كى عملى مخالفت جائز نہيں ہے ليكن نظر اور را ے ميں اس كا ساتھ دينا ضرورى نہيں ہے_ يعنى مومنوں پر واجب نہيں ہے كہ وہ اعتقاد اور نظر ميں بھى حاكم كے ہم را ے اور ہم خيال ہوں بلكہ ان سے فقط يہ كہا گيا ہے كہ عملاًاس كے مطيع ہوں اور اختلال نظام كے اسباب پيدا نہ كريں اسى وجہ سے بعض فقہاء نے اگر چہ حكم حاكم كى مخالفت اور ردّ كرنے كو حرام قرار ديا ہے ، ليكن اس كے متعلق بحث كو حرام قرار نہيں ديا_ (۱)

ولى فقيہ كى اطاعت كا دائرہ حكومتى احكام تك محدود ہے _ اگر ولى فقيہ كسى مورد ميں حكم نہيں ديتا بلكہ فقط ايك چيز كو ترجيح ديتا ہے يا مشورے كے طور پر اپنى رائے كا اظہار كرتا ہے ہے ،تو اس وقت اس كى اطاعت شرعاً واجب نہيں ہے_ اسى طرح ولى فقيہ كے حكومتى حكم كى اطاعت اس كے مقلدين كے ساتھ مخصوص نہيں ہے بلكہ ہر مسلمان مكلف حتى كہ صاحب فتوى مجتہد پر بھى اس حكومتى حكم كى اطاعت واجب ہے_(۲)

آنے والے سبق ميں ہم حكومتى حكم كى حقيقت و ماہيت اور اس سے متعلقہ مباحث پر تفصيلى گفتگو كريں گے_ اسلامى معاشرہ كے رہبر كے حكم كے نفوذ اور اس كى عملى مخالفت كے عدم جواز پر اسلام كى تاكيد اور اصرار اس وجہ سے ہے كہ اسلامى حاكم امت مسلمہ كى عزت و اقتدار كا محور ہے، امت كى وحدت اور اس كى صفوںميں اتحاد عادل ، فقيہ، امين اور متقى رہبر كى عملى اطاعت اور ہمراہى ميں مضمر ہے _ اس كى عزت، امت مسلمہ كى حفظ حرمت اور احترام كا باعث بنتى ہے_ محمد ابن سنان نے جب امام رضا سے جنگ سے فرار ہونے كى حرمت

____________________

۱) جو اہر الكلام ،ج ۴۰ ، ص ۱۰۵_

۲) فقہاء نے صريحاً كہا ہے كہ ولى فقيہ كى اطاعت شرعى كا دائرہ حكومتى حكم تك محدود ہے_ اور يہ اطاعت باقى تمام فقہاء پر واجب ہے_ العروة الوثقى كے باب اجتہاد و تقليد كے مسئلہ ۵۷ ميں آيا ہے كہ جامع الشرائط حاكم كے حكم كى مخالفت جائز نہيں ہے _ حتى كہ دوسرے مجتہد كيلئے بھى ،مگر يہ كہ اس كا غلط ہونا ثابت ہوجائے _ آيت اللہ سيد كاظم حائرى اس سوال كا جواب ديتے ہوئے كہ جب ايك جامع الشرائط فقيہ( ولى فقيہ) كوئي حكم دے تو كيا اس شہر كے دوسرے فقہاء پر اس حكم كى اطاعت واجب ہے جواب ديتے ہيں ''ہاں''نيز اس سوال _ كہ كيا ان افراد پر ولى فقيہ كے اوامر كى اطاعت واجب ہے جو اس كے مقلد نہيں ہيں _كا جواب ديتے ہوئے كہتے ہيں كہ راہبر ولى امر ہونے كى حيثيت سے جو حكم ديتے ہيں سب پر اس كى اطاعت واجب ہے چاہے وہ اس كے مقلد نہ بھى ہوں _

ملاحظہ ہو: الفتاوى المنتخبہ ج ۱ ، كتاب الاجتہاد و التقليد ،مسئلہ ۳۶، ۴۷_

۲۶۷

كى وجہ پوچھى تو آپ نے فرمايا:

اللہ تعالى نے جنگ سے فرار كو اسلئے حرام قرار ديا ہے چونكہ يہ فرار دين كے ضعف و كمزورى اور انبياء كرام (ع) اورعادل ائمہ كو خفيف سمجھنے كا باعث بنتا ہے اور دشمن كے مقابلہ ميں ان كى نصرت كے ترك كرنے كا موجب بنتا ہے_ اور يہ كام مسلمانوں كے خلاف دشمن كى جرا ت ميں اضافہ كرتا ہے_(۱)

امام صادق رسولخدا (ص) سے نقل كرتے ہيں : مسلمان كيلئے جائز نہيں ہے كہ وہ ايسى مجلس ميں حاضر ہو جس ميں امام كو برا بھلا كہا جاتا ہو _ حديث يہ ہے:

''قال رسول الله (ص) من كان يؤمن بالله و اليوم الاخر فلا يجلس فى مجلس يسبّ فيه امام ''(۲)

آنحضرت فرماتے ہيں جو خدا اور روز قيامت پر ايمان ركھتا ہے اس كيلئے جائز نہيں ہے كہ ايسى مجلس ميں حاضر ہو جس ميں امام كو برا بھلا كہا جاتا ہو_

آخر ميں اس نكتہ كا بيان كرنا ضرورى ہے كہ ہمارى بحث اس ميں تھى كہ شرعاً ولى امر كى اطاعت كا دائرہ كہاں تك ہے _ اور قانونى اطاعت ہمارى بحث سے خارج ہے_ كيونكہ ہر حكومت كے مختلف اداروں كے كچھ قوانين و ضوابط ہوتے ہيں كہ جن كا قانونى لحاظ سے اتباع واجب ہو تا ہے_اور ان كى خلاف ورزى كرنے والے كا محاكمہ ہوتا ہے_ ولايت فقيہ والے نظام ميں حكومتى احكام و فرامين كى قانونى اطاعت كے علاوہ شرعى اطاعت بھى واجب ہے _

____________________

۱) وسائل الشيعہ، ج ۱۵، ص ۸۷ باب ۲۹، ابواب جہاد العدو ح ۲_

۲) وسائل الشيعہ ج ۱۶ ص ۲۶۶ باب ۳۸ ،ابواب امر و نہى ح ۲۱_

نوٹ: وہ ممالك جو ولى فقيہ كے زير سايہ ہيں اس ميں رہنے والے مسلم و غير مسلم اسى طرح وہ ممالك جن پر ولى فقيہ كا كنٹرول نہيں ہے ميں بسنے والوں كيلئے ولى فقيہ كے حكم كى اطاعت كہاں تك واجب ہے _ اس كيلئے ضميمہ ۲ و ۳ كى طرف رجوع كريں_

۲۶۸

خلاصہ :

۱) اصل عدم ولايت اور اس كو ديكھتے ہوئے كہ ولى حقيقى فقط خدوند كريم كى ذات ہے_ ہر قسم كى ولايت كى مشروعيت كا سرچشمہ براہ راست يا بابلواسط تقرّر الہى ہے_

۲)فقيہ كى ولايت انتصابى كى بنياد پر سياسى نظام كے تمام اركان اپنى مشروعيت اور جواز ''ولايت فقيہ''سے اخذ كرتے ہيں _ يہ امر اس منصب كے اعلى مقام كى نشاندہى كرتا ہے_

۳)صرف عوام كى را ے كسى شخص كو قانون گذارى اور امر و نہى كے منصب كا حامل قرار نہيں ديتى _

۴)سياسى صاحبان اقتدار كى مخالفت كى دو قسميں ہيں ، مخالفت عملى اور مخالفت نظري_

۵) جرم عملى مخالفت كے ذريعہ ہوتا ہے_ البتہ كسى فرمان يا قانون كے صحيح نہ ہونے كااعتقاد ركھنا ملكى جرم كا باعث نہيں بنتا_

۶) ولى فقيہ كے احكام اور فرامين كى عملى مخالفت جائز نہيں ہے _ جبكہ اس كى نظرى موافقت ضرورى نہيں ہے_

۷) دوسرے نظاموں كے مقابلہ ميں نظام ولايت فقيہ كو يہ امتياز حاصل ہے كہ اس نظام ميں حكومتى قوانين كى عملى مخالفت جرم كے ساتھ ساتھ شرعى مخالفت بھى شمار ہوتى ہے_

۸)فقيہ عادل كے حكومتى احكام كى اطاعت كا وجوب مقبولہ عمر ابن حنظلہ جيسى روايات سے ثابت ہوتا ہے_

۹)ولى فقيہ كے حكومتى احكام كى اطاعت صرف اس كے مقلدين كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _ بلكہ ہر مكلف چاہے وہ مجتہد و فقيہ ہى كيوں نہ ہو اس پر ان احكام كى اطاعت واجب ہے_

۲۶۹

سوالات :

۱) اسلام كے سياسى نظام ميں'' فقيہ عادل ''كے مقام كو كيوں خاص اہميت حاصل ہے؟

۲) تمام حكومتى اداروں كى مشروعيت كا سرچشمہ ''ولى فقيہ ''كيوں ہے؟

۳) مخالفت عملى اور مخالفت نظرى سے كيا مراد ہے؟

۴)ولى فقيہ كى كونسى مخالفت جائز ہے؟

۵)ولائي نظام ميں اطاعت كا دوسرے سياسى نظاموں كے ساتھ كيا فرق ہے؟

۶) اسلام، رہبر كے حكم كے نفوذ اور اس كى اطاعت كے وجوب پركيوں اصراركرتا ہے؟

۷) فقيہ عادل كے حكومتى احكام كى اطاعت كن افراد پر واجب ہے؟

۲۷۰

ستائيسواں سبق :

حكومتى حكم اور مصلحت

پہلے گذر چكا ہے كہ ''فقيہ عادل'' ولايت عامہ كا حامل ہوتا ہے اور اس كا حكومتى فرمان نہ صرف اس كے مقلدين كيلئے بلكہ دوسرے فقہاء اور ان كے مقلدين كيلئے بھى واجب الاطاعت ہوتا ہے _ يہاں چند سوال ہيں_ حكومتى حكم سے كيا مراد ہے؟ حكومتى حكم اور فتوى ميں كيا فرق ہے؟ حكومتى حكم كن مبانى كى بنياد پر صادر ہوتا ہے؟ كيا حكومتى حكم، قاضى كے حكم كى قسم سے ہے يا اس سے مختلف ہے؟ كيا حكومتى حكم ''فقہ كے احكام ثانويہ'' كى قسم سے ہے؟ كيا حكومتى احكام كے صدور كى كوئي مخصوص حد ہے؟ اس قسم كے سوالات، حكومتى حكم كى حقيقت و ماہيت ، مبنى اور اس كى حد ،كے متعلق بحث كے ضرورى ہونے كو آشكار كرتے ہيں_ اس لئے ضرورى ہے كہ پہلے حكم كى اقسام كى تحقيق و بررسى كى جائے_ تا كہ حكم حاكم اور دوسرے شرعى احكام اور فتوى كے درميان فرق واضح ہوجائے_

۲۷۱

حكم كى اقسام

الف : شرعى حكم

حكم كى مشہورترين قسم، شرعى حكم ہے_ شرعى حكم سے مراد يہ ہے كہ اسے شارع مقدس نے ''وضع'' كياہو_ قوانين الہي، شرعى حكم كى واضح مثاليں ہيں_ شرعى حكم كو شارع مقدس صادر كرتا ہے_ اور اسى كے وضع كرنے سے وجود ميں آتا ہے_ شرعى حكم كى دو قسميں ہيں_حكم تكليفى اورحكم وضعي_ ''احكام تكليفي'' سے مراد وہ شرعى قوانين ہيں جو مكلفين كے افعال كے جائز يا ناجائز ہونے كے متعلق اظہار نظر كرتے ہيں_ اس قسم كے احكام اس بات كو واضح اور روشن كرتے ہيں كہ كونسے كام انجام دينا ضرورى ہيں ، اور كن كاموں سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_ كونسے كاموں كو انجام دينا بہتر ہے_ اور كونسے كاموں كو ترك كرنا بہتر ہے احكام تكليفى كى پانچ قسميں ہيں_ واجب ، حرام ، مستحب ، مكروہ اور مباح _

شرعى احكام كى دوسرى قسم'' احكام وضعي'' ہے_احكام وضعى بھى شارع مقدس كے وضع كردہ ہيں_ يہ احكام براہ راست مكلف كے فعل كے جائز يا ناجائز ہونے كے متعلق اظہار نظر نہيں كرتے_ احكام وضعى ميں شارع مقدس كے جعل كى وجہ سے شرعى معانى وجود ہيں آجائے ہيں جو'' مخصوص احكام تكليفى ''كا موضوع قرار پاتے ہيں_ مثلا طہارت ، نجاست ،مالكيت اور زوجيت و غيرہ وضعى احكام كے مصاديق ہيں_ نجاست كوئي تكليفى حكم نہيں ہے _ ليكن وہ امور جو شارع كے جعل كردہ اس حكم وضعى كے تحت نجس قرار ديئے گئے ہيں حكم تكليفى كا موضوع قرار پاتے ہيں _ ان كا كھانا پينا اور بعض موارد ميں ان كى خريد و فروخت، حرام ہوجاتى ہے_'' شرعى حكم'' كى اور بھى اقسام ہيں مثلا حكم ظاہرى ، حكم واقعي، حكم اوّلى اور حكم ثانوى و غيرہ كہ دوران بحث ان ميں سے بعض پر ايك نظر ڈاليں گے_

۲۷۲

فقہاء كے اجتہاد كا معنى يہ ہے كہ منابع و مصادر سے شرعى حكم كو كشف كرنے كى كوشش كى جائے_ بنابريں مجتہد كافقہى فتوى در حقيقت شارع مقدس كے ''شرعى حكم كا بيان'' ہے_ فقيہ اپنے فتوى سے شرعى حكم جعل نہيں كرتا بلكہ شارع مقدس كے بنائے ہوئے حكم كو بيان كرتا ہے_ مقام استنباط ميں فقيہ اور مجتہد كا فريضہ شارع مقدس كے بنائے ہوئے شرعى حكم كو كشف كرنا ہے_

ب: قاضى كا حكم

تنازعات اور لڑائي جھگڑوں كى تحقيق كے بعد قاضى جو حكم صادر كرتا ہے وہ خود قاضى كا جعل كردہ حكم ہے_ فتوى كى قسم سے نہيں ہے_ كيونكہ فتوى جعل شارع كا بيان كرنا ہے جبكہ مقام قضاوت ميں قاضى حكم كوجعل كرتا ہے_اگر چہ قاضى كا حكم شرعى احكام سے غير مربوط نہيں ہوتا اور قاضى شرعى موازين كے مطابق حكم صادر كرتا ہے جھگڑوں كا فيصلہ كرتا ہے ليكن اس كا كام شرعى حكم كا بيان كرنا نہيں ہوتا بلكہ شرعى احكام كو مد نظر ركھتے ہوئے حكم صادر كرنا ہوتا ہے_ قاضى دونوں طرف كے دلائل سنتا ہے ، پھر ايك طرف'' قرائن و شواہد'' اور دوسرى طرف ''شرعى احكام اور قوانين'' كو مد نظر ركھتے ہوئے حكم صادر كرتا ہے_ پس قاضى كا حكم'' شرعى حكم'' كے علاوہ ايك الگ حكم ہے_

ج: حكومتى حكم

اب تك يہ معلوم ہو چكا ہے كہ فقيہ فتوى دينے كے علاوہ بھى حكم جعل كرسكتا ہے _ اور يہ جعل حكم ''مقام قضاوت'' ميں ہوتا ہے_ سوال يہ ہے كہ فقيہ عادل كا جعل كردہ حكم، فقط تنازعات كے حل اور جھگڑوں كے ختم كرنے تك محدود ہے؟ يقينى طور پر ايسے موارد آتے ہيں جہاں فقہاء نے يہ تسليم كيا ہے كہ ''فقيہ عادل'' تنازعات كے حل كے علاوہ دوسرے مقامات پر بھى حكم ''جعل'' كرسكتا ہے_

۲۷۳

اس قسم كے احكام كے دو مشہور مورد ،''رؤيت ہلال ''اور ''حدود الہى كا اجرا'' ہيں_ شيعہ فقہاء نے صراحت سے كہا ہے كہ حدود الہى كا اجرا ،جامع الشرائط فقيہ كى خصوصيات ميں سے ہے اور ان حدود كا اجرا، حاكم شرعى كے حكم كا محتاج ہے _ حدود الہى كا اجرا، تنازعات كى قسم سے نہيں ہے تا كہ اسے قضاوت كے موارد ميں سے قرار ديا جائے_

اس بات كو تسليم كرنے كے بعد كہ فقيہ ''ولايت عام ''ركھتا ہے ، اور جامع الشرائط فقيہ كى ''ولايت '' فتوى دينے ، قضاوت اور بے بس افراد كى سرپرستى كرنے تك محدو دنہيں ہے_ وہ ولايت تدبيرى (سياسى ولايت) كا بھى حامل ہوتا ہے اور جانشينى كے قابل ، تمام امور ميں امام معصوم كا نائب ہوتا ہے_ حكومتى حكم كے صدور كو فقط ''رؤيت ہلال'' اور '' حدود الہى كے اجرا ''ميں منحصر نہيں كيا جاسكتا _ جواہر الكلام كے مصنف فقيہ كى ولايت عامہ كے حامى كے عنوان سے مقبولہ عمر ابن حنظلہ كے جملہ ''انى جعلتہ حاكماً'' كے اطلاق كے پيش نظر ''فقيہ عادل كے حكم كو قضاوت ميں منحصر نہيں سمجھتے'' بلكہ اس سے وسيع اور عام سمجھتے ہيں_ وہ اس مطلب كو حكم حاكم اور فتوى كے درميان فرق كى وجہ بيان كرنے كے ضمن ميں يوں ذكر كرتے ہيں_

''الظاهر أنّ المراد بالاولى الفتوي الإخبار عن الله تعالى بحكم شرعى متعلق بكلى ، كالقول بنجاسة ملا قى البول أو الخمر وأمّا الحكم فهو انشاء إنفاذ من الحاكم لا منه تعالى لحكم شرعى أو وضعى أو موضوعهما فى شيء مخصوص_ و لكن هل يشترط فيه مقارنته لفصل خصومة كما هو المتيقّن من أدلّته؟ لا أقل من الشك والاصل عدم ترتّب الآثار على غيره، أو لا يشترط; لظهور قوله(ع) : '' إنّى جعلتُه حاكماً'' فى أنّ له الانفاذ

۲۷۴

والإلزام مطلقاً و يندرج فيه قطع الخصومة التى هى مورد السؤال، و من هنالم يكن إشكال عندهم فى تعلّق الحكم بالهلال والحدود التى لا مخاصمة فيها'' (۱)

ظاہراً فتوى سے مراد اللہ تعالى كے اس شرعى حكم كا بيان كرنا اور اسكى خبر ديناہے جو ايك كلى كے ساتھ مربوط ہوتا ہے، مثلا پيشاب يا شراب كے ساتھ لگنے والى شئے كا نجس ہونا جبكہ ''حكم'' خود حاكم كى طرف سے جعل كردہ ہے نہ كہ اللہ تعالى كى طرف سے كسى شرعى يا وضعى حكم كيلئے يا كسى مخصوص شئے كے موضوع كيلئے_ ليكن كيا اس جعل كردہ حكم ميں شرط ہے كہ صرف تنازعات كے متعلق ہو؟جيسا كہ ادلّہ سے بھى يقينى مقدار يہى معلوم ہوتى ہے يا كم از كم اگر يقينى مقدار نہ بھى ہو تو اس بات كا گمان ہے كہ ادلہ كى دلالت يہى ہے _ اور اصل يہ ہے كہ اس كے علاوہ كسى اور چيز پر يہ آثار مرتب نہيں ہوں گے، يا شرط نہيں ہے؟ كيونكہ معصوم كے قول '' ميں نے اسے تم پر حاكم قرار ديا ہے'' سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ اس كا حكم ہر لحاظ سے نافذ ہے _ اور تنازعات كے فيصلے بھى اسى حكم ميں آجاتے ہيں كہ جس كے متعلق خصوصى طور پر سوال كيا گيا ہے _ اسى لئے علماء اس بات كو تسليم كرتے ہيں كہ رؤيت ہلال اور اجرائے حدود، ميں حاكم كا حكم نافذ العمل ہے _ حالانكہ ان كا تعلق تنازعات سے نہيں ہے_

حكم كى يہ دوسرى اور تيسرى قسم اس لحاظ سے مشترك ہيں كہ دونوں فقيہ كے جعل اور انشاء ہيں اور شارع كے جعل كو كشف كرنے يا بيان كرنے كى قسم سے نہيں ہيں_ البتہ ان دونوں ميں فرق يہ ہے كہ قاضى كا حكم، تنازعات اور جھگڑوں كے فيصلہ كرنے ميں منحصر ہے جبكہ حكومتى حكم تنازعات ميں محدود نہيں ہے_

____________________

۱) جواہر الكلام، ج ۴۰ ، ص ۱۰۰_

۲۷۵

حكومتى حكم كے صدور كى بنياد:

حاكم شرع اور فقيہ عادل كے حكم كى چند قسميں ہيں_ جيسا كہ پہلے گزر چكا ہے كہ ماہ مبارك رمضان، شوال اور دوسرے مہينوں كے آغاز كا اعلان، حاكم شرعى كے اختيارات ميں سے ہے_ اگر فقيہ عادل چاند ثابت ہونے كا اعلان كردے تو اس كى اطاعت واجب ہے _ اسى طرح حدود الہى كا اجرا بھى حكم حاكم كى اقسام ميں سے ہے _ اگر چہ شريعت ميں زانى ، محارب ( خدا و رسول سے جنگ كرنے والا)اور شارب الخمر كى حدود بيان كى گئي ہيں _ ليكن ان كے اجرا كيلئے فقيہ عادل كے حكم كى احتياج ہوتى ہے_ حاكم شرع كے احكام كى ايك اور قسم معاشرتى امور اور اسلامى معاشرہ كے اجتماعى مسائل كے ساتھ مربوط ہے حكومتى احكام كى يہى قسم اس وقت ہمارے زير بحث ہے_

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ ہر سياسى اقتدار كا اہم ترين فريضہ شہريوں كو بعض امور كے انجام دينے اور بعض سے اجتناب كرنے كا پابند كرنا ہوتا ہے_ اجتماعى امور كا انتظام انہى پابنديوں اور امر و نہى كے سايہ ميں پروان چڑھتا ہے_ ولايت فقيہ پر مبتنى سياسى نظام ميں فقيہ عادل جو كہ حاكم شرع ہے عوام كو ان امور پر پابند كرنے كا حق ركھتا ہے اور اس كى حكومتى پابنديوں كى اطاعت شرعاً واجب ہے_

حكومتى احكام كے صدور كى بنياد مسلمانوں اور اسلامى نظام كى مصلحت ہے _ ولى فقيہ مسلمانوں كے مختلف امور كى مصلحت اور رعايت كى بنا پر اسلامى معاشرہ كے اموال ميں تصرف كرتا ہے اور مختلف امور كے انتظام كيلئے احكام صادر كرتا ہے _ امام خمينى اس بارے ميں فرماتے ہيں :

''فللفقيه العادل جميع ما للرسول و الا ئمة (ع) مما يرجع الى الحكومة و السياسة و لا يعقل الفرق، لانّ الوالى _ آيّ شخص كان هو مجرى ا حكام الشريعة والمقيم للحدود الإلهية والآخذ للخراج و سائر الماليات والمتصرّف فيها بما هو صلاح المسلمين _

۲۷۶

فالنبيّ (ص) يضرب الزانى ما ة جلدة والإمام (ع) كذلك والفقيه كذلك و يا خذون الصدقات بمنوال واحد و مع اقتضاء المصالح يا مرون الناس بالا وامر التى للوالي، و يجب إطاعتهم ''(۱)

حكومت اور سياست سے متعلقہ تمام اختيارات جو رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كو حاصل ہيں فقيہ عادل كو بھى حاصل ہيں_ ان ميں تفريق كرنا معقول نہيں ہے كيونكہ والى جو بھى ہو وہى شرعى احكام كو نافذ كرتا ہے، حدود الہيہ كو قائم كرتا ہے ، خراج اور دوسرے ماليات كو وصول كرتا ہے، اور انہيں مسلمانوں كے رفاہ عامہ كے امور ميں خرچ كرتا ہے_ رسولخدا (ص) زانى كو سو كوڑے مارسكتے ہيں_ امام بھى اسى طرح ہيں اور فقيہ بھى _ يہ سب ايك ہى ضابطہ كے مطابق صدقات وصول كرتے ہيں اور مصالح كى بنياد پر لوگوں كو ان اوامر كا حكم ديتے ہيں جو والى كے اختيار ميں ہيں اور لوگوں پر ان احكام كى اطاعت واجب ہے_

يہاں ايك اہم سوال پيش آتا ہے اور وہ يہ كہ وہ مصلحت جو حكومتى حكم كے صدور كى بنياد ہے، اسے اہميت كے لحاظ سے كس درجہ پر ہونا چاہيے كہ حاكم اس حكومتى حكم كے صادر كرنے پر مجبور ہوجائے؟ كيا ہر قسم كى مصلحت ايسے الزامى حكم كے صدور كيلئے كافى ہے؟ يا مصلحت كو اس قدر اہم ہونا چاہيے كہ اسے نظر انداز كرنے سے عسرو حرج اور اختلال نظام لازم آتا ہو؟

اس سوال كو دوسرے انداز سے بھى بيان كيا جاسكتا ہے _ ہم نے علم فقہ اور كلام سے يہ سمجھا ہے كہ ہر فعل كا شارع مقدس كے نزديك ايك'' حكم واقعي'' ہے اور افعال مكلفين ميں سے كوئي بھى فعل پنجگانہ احكام تكليفيہ سے خالى نہيں ہے_ بنابريں حكومتى احكام طبيعى طور پر اس فعل كے حكم واقعى كے مخالف ہوں گے_ بطور مثال تحريم تمباكوكے سلسلہ ميں ميرزا شيرازى كے حكومتى حكم كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_ شريعت اسلام ميں تمباكو كا استعمال اور اس كى خريد و فروخت مباح ہے_ ليكن اس فقيہ كے حكومتى حكم كى وجہ سے وقتى طور پر اور ان

____________________

۱) البيع ،امام خمينى ج ۲ ص ۴۶۷_

۲۷۷

خاص حالات ميں تمباكو كا استعمال اور اس كى خريد و فروخت حرام ہوجاتى ہے _ اب سوال يہ ہے كہ كن موارد ميں مصلحت اور حالات كا تقاضا حكم واقعى كے ملاك( ہمارى مثال ميں اباحت كا ملاك ) پر مقدم ہوجاتے ہيں؟ كيا صرف اسى صورت ميں ہے كہ جب حكومتى حكم كے صدور كى مصلحت كو نظر انداز كرنے سے مومنين كيلئے عسرو حرج لازم آتا ہو اور نظام مسلمين كے اختلال كا باعث بنتا ہو تو فقيہ اس حكم واقعى كے مقابلہ ميں حكومتى حكم صادر كرسكتا ہے؟ يا صرف اگر اسلام اور مسلمين كى مصلحت ،احكام واقعى كے ملاك پر ترجيح ركھتى ہو تويہى ترجيح حكومتى حكم كے صدور كيلئے كافى ہے_ اگر چہ اضطرار ، عسر و حرج اور اختلال نظام كى حد تك نہ بھى پہنچے؟ اس سوال كا جواب اس نكتہ كى وضاحت پر موقوف ہے كہ كيا حكومتى حكم اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے يا احكام ثانوية ميں سے؟ اگر حكومتى حكم احكام ثانويہ ميں سے ہے تو اس كا صدور، اضطرار ، عسرو حرج يا اختلال نظام پر موقوف ہے_ دوسرے لفظوں ميں اگر ہم حكومتى حكم كو احكام ثانويہ ميں سے شمار كريں تو اس كا لازمہ يہ ہے كہ وہ مصلحت جو حكومتى حكم كے صدور كى بنياد ہے اسے اس قدر قابل اہميت ہونا چاہيے كہ اسے نظر انداز كرنے سے اختلال نظام مسلمين يا عسرو حرج لازم آتا ہو _ اس مجبورى ميں جب تك ايسے حالات ہيں فقيہ احكام اوليہ كے خلاف وقتى طور پر حكومتى حكم صادر كرے گا_

احكام اوّليہ اور ثانويہ:

پہلے گذر چكاہے كہ انسان كے تمام اختيارى افعال پنجگانہ احكام تكليفيہ ميں سے كسى ايك حكم كے حامل ہوتے ہيں_ بنابريں مكلفين كا ہر فعل ايك حكم اولى ركھتا ہے _ شارع مقدس نے ہر واقعہ اور فعل كے حكم اولى كو مصالح و مفاسد اور اس كے ذاتى اور واقعى ملاكات كے مطابق وضع كيا ہے _ افعال اور اشياء كے احكام اوّليہ ''ذات موضوع'' كو مد نظر ركھتے ہوئے وضع كيئےجاتے ہيں اور اس ميں كسى قسم كے خاص حالات كو پيش نظر نہيں ركھا جاتا _ مردار كا حكم اوّلى ''حرمت'' ہے ، حكم اولى يہ ہے كہ ماہ رمضان كا روزہ ہر مسلمان مكلف پر

۲۷۸

واجب ہے ، حكم اولى يہ ہے كہ ہر مسلمان مكلف پر واجب ہے كہ وہ نمازپنجگانہ كيلئے وضو كرے_

كبھى خاص حالات پيش آجاتے ہيں كہ جن كى وجہ سے ''افعال كے حكم اولى ''كو بجا لاناممكن نہيںہوتا_ يہ حالات مكلف كو ايسے دوراہے پرلے آتے ہيں كہ اس كا'' احكام اوليہ'' پر عمل كرنا بہت مشكل ہوجاتا ہے اس صورت ميں شارع مقدس نے مكلف كيلئے ''احكام ثانويہ'' وضع كئے ہيں مثلا اگر چہ مردار كا كھانا حرام ہے، ليكن اگر مكلف اپنى جان بچانے كيلئے اس كے كھانے پر مجبور ہے تو اس صورت ميں اس كيلئے مردار حلال ہے_

( '' فمن اضطر غير باغ و لا عاد فلا أثم عليه '' ) (۱)

اگر كوئي مضطر ہوجائے اور بغاوت كرنے والا اور ضرورت سے تجاوز كرنے والا نہ ہو تو اس پر كوئي گناہ نہيں ہے_

بنابريں اضطرار ايك عارضى عنوان ہے جو كہ مكلف كو ايك خاص حالت ميں عارض ہوكر سبب بنتا ہے كہ جب تك مكلف اس حالت ميں گرفتار ہے اس پر حكم اولى كى بجائےحكم ثانوى لاگو ہوگا _

حكم ثانوى اضطرار ، ضرر،اكراہ ، عسرو حرج اور اختلال نظام جيسے خاص عناوين كے ساتھ مربوط ہوتا ہے_ البتہ احكام اوّليہ اور ثانويہ دونوں حكم واقعى كى قسميں ہيں_ دونوں شارع مقدس كے جعل كردہ ہيں_ البتہ اتنا فرق ہے كہ حكم ثانوى كا مرتبہ حكم اولى كے بعد ہے_ يعنى حكم ثانوى كى بارى اس وقت آئے گى جب كوئي مخصوص عنوان اس پر عارض ہوجائے اور حكم اولى پر عمل كرنا ممكن نہ ہو_ دوسرا يہ كہ حكم ثانوى عارضى ہوتا ہے_

حكم اوّلى اور حكم ثانوى كى وضاحت كے بعد اب يہ ديكھنا ہے كہ حكومتى حكم احكام ثانويہ ميں سے ہے يا اوّليہ ميں سے؟

____________________

۱) سورہ بقرہ آيت ۱۷۳_

۲۷۹

خلاصہ :

۱) حكم كے تين مشہور معانى ہيں_ شرعى حكم ، قاضى كا حكم ، حكومتى حكم_

۲) شرعى حكم سے مراد يہ ہے كہ اسے شارع مقدس نے وضع و جعل كيا ہے_

۳)مجتہد كا فتوى شرعى حكم كا كشف و استنباط ہوتا ہے_ يعنى فقيہ مقام فتوى و استنباط ميں شرعى حكم كے بارے ميں خبر ديتا ہے_ اپنى طرف سے حكم جعل نہيں كرتا _

۴) قاضى فيصلہ كے وقت اپنا حكم صادر كرتا ہے اور اس كا حكم فتوى كى قسم سے نہيں ہے_

۵)فقيہ عادل كے اختيارات كو صرف ''مقام قضاوت ميں جعل حكم ''ميں منحصر نہيں كيا جاسكتا _

۶)فقيہ كى ولايت عامہ كى بنياد پر ''حاكم شرع اور فقيہ عادل كے جعل حكم ''كو رؤيت ہلال اور حدود الہى كے نفاذ و اجرا ميں منحصر نہيں كيا جاسكتا _

۷)حكومتى حكم اور حكم قاضى دونوں انشاء اور جعل ہيں_

۸)حكومتى حكم كے صدور كى بنياد مسلمانوں اور اسلامى نظام كى مصلحت ہے_

۹) كيا ہر قسم كى مصلحت حكومتى حكم كے صدور كى بنياد بن سكتى ہے؟ يا اسے اس قدر قابل اہميت ہونا چاہيے كہ اس كے نظر اندازكرنے سے عسروحرج اور اختلال نظام لازم آتا ہو؟

۱۰) اس سوال كا جواب اس نكتہ كى وضاحت پر موقوف ہے كہ حكومتى حكم ،اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے يا احكام ثانويہ ميں سے_

۱۱)احكام ثانويہ كا مرتبہ احكام اوّليہ كے بعد ہے_

۲۸۰