اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت10%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143984 / ڈاؤنلوڈ: 3622
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

آپ کی توہین کے علاوہ عملی طور پر دباؤ ڈالنے کے لیے چالیس مشکل ترین مسئلے قتادہ کے ذریعے تیار کئے کہ اس محفل میں امام صادق(ع) سے پوچھے جائیں۔

لیکن جس وقت امام (ع) اس محفل میں داخل ہوئے تو تمام حاضرین محفل غیر ارادی طور پر اٹھ کھڑے ہوئے اور غیر معمولی احترام کے ساتھ آپ کا استقبال کیا۔ آپ کی ہیبت و جلالت سے سارا مجمع مبہوت ہوگیا اور مکمل طور پر سناٹا چھا گیا یہاں تک کہ خود امام علیہ السلام نے خاموشی کو توڑا اور قتادہ سے پوچھا کیا کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟ قتادہ نے مودب ہو کر کہا یا ابن رسول اﷲ کیا پنیر کھانا جائز ہے آپ(ع) نے تبسم فرمایا اور پوچھا کیا تمہارے سوالات اس طرح کے ہیں؟ قتادہ نے کہا۔ نہیں خدا کی قسم میں نے چالیس مشکل سوالات ترتیب دیے تھے لیکن آپ کی ہیبت و جلالت نے سب کچھ بھلا دیا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا تم جانتے ہو کہ کس کے سامنے بیٹھے ہو یہ وہی ہے جس کے بارے میں خداوند عالم نے فرمایا ہے۔

“فىِ بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَ الاَْصَال‏رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تجَِرَةٌ وَ لَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ الله‏”

“ ( اس کے نور کے طرف ہدایت پانے والے) ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں اﷲ نے بلند کرنے اور اپنے نام کا ذکر کرنے کی اجازت دی ہے ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اﷲ کی یاد سے غافل نہیں کردیتی ہے۔” ( سورہ نور آیت 36۔37)

یہ سن کر قتادہ نے کہا یا بن رسول اﷲ یہ گھر اینٹ اور گارے کے بنے ہوئے نہیں بلکہ یہ گھر آپ حضرات (ع) کے اجسام مطہر ہیں۔ ابن ابی العوجا کے بارے میں یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ جس طرح حضرت امیرالمومنین(ع)  کے پاس مالک اشتر تھے جو دشمنوں کی صفوں میں گھس کر انہیں پائمال کرتے تھے تو حضرت صادق آل محمد(ع) کے

۱۰۱

 پاس ہشام بن حکم تھے جس کے سامنے ابن ابی العوجا شیر کے پنجوں میں گرفتار ایک لومڑی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے تھے۔ ان دونوں بزرگوں کی دشمنان ، آل محمد(ع) کے ساتھ بہت سارے مناظرے تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔

جب بنی عباس نے یہ جان لیا کہ ان کے چوری چھپے حربے کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے تو انہوں نے آپ کو شدید دباؤ میں رکھا آپ کے دروس کو ختم کیا اور آپ کو اپنے گھر میں نظر بند رکھا یہاں تک کہ راوی کہتا ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا۔ “الباب علي ه خلق والستر مرخی ” یعنی دروازہ بند تھا اور اس پر پردہ بھی ڈالا ہوا تھا اور کسی کو  آپ سے ملاقات کی اجازت نہیں تھی یہاں تک کہ اسی حالت میں آپ کو زہر سے شہید کردیا گیا۔

آپ کے فضائل

آپ کے فضائل بیان کی حدود سے باہر ہیں ایک مشہور جملہ اہلسنت کے امام مالک بن انس کا ہے انہوں نے فرمایا “ جعفر بن محمد(ع) سے بہتر فرد نہ تو آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا اور نہ دل میں خیال آیا” اور امام ابو حنیفہ سے یہ جملہ مشہور ہے کہ آپ نے کہا۔“مارايت افق ه من جعفر بن محمد ۔” یعنی میں نے جعفر بن محمد(ع) سے بڑھ کر کسی کو فقیہہ پایا۔ آپ(ع) کی اپنی زبان سے بھی سنتے ہیں ۔ ضریس کہتا ہے کہ حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے آیت “ كُلُّ شَيْ‏ءٍ هالِكٌ إِلاَّ وَجْهَه ”( اﷲ کے چہرے کے سوا ہر چیز نے فنا ہونا ہے) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ۔ عن وجہ اﷲ الذی یوتی اﷲ منہ۔ “ ہم نے ہی اﷲ کا وہ چہرہ ہیں جس کے ذریعہ اس کی پہچان ہوتی ہے۔ ” یعنی امام (ع) نے فرمایا کہ آپ(ع) ذات حق کے لیے آئینہ ہیں۔

۱۰۲

آپ(ع) کے ایمان کی منزل

ہم یہاں پر امام صادق علیہ السلام کے اخبار غیبی کے خبر دینے کے چند واقعات بیان کرتے ہیں جس سے آپ کے ایمان و شہور  پر خود بخود دلالت ہوتی ہے۔

1 ـ محمد بن عبداﷲ کہتا ہے کہ ایک شیعہ راوی عبدالحمید زندان میں تھا میں عرفہ کے دن مکہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اور انہوں نے ان کی رہائی کے لیے دعا مانگی اس کے فورا بعد ہی فرمایا“ آپ کا دوست قید سے آزاد ہوا” جب میں نے مکے سے واپس آکر عبدالحمید سے ملاقات کی تو معلوم ہوا کہ عبدالحمید کو اسی گھڑی رہائی ملی تھی جس وقت آپ(ع)  نے ان کی رہائی کے لیے دعا مانگی تھی۔

2 ـ ؟؟؟ کہتا ہے کہ ایک دفعہ امام صادق علیہ السلام سے ملاقات کے لیے مدینہ چلاگیا وہاں کچھ عرصہ رہا اور ایک مکان کرائے پر لے رکھا تھا۔ کچھ دنوں بعد مالک مکان کی ایک کنیز کی طرف مجھے رغبت ہوئی ایک دن موقع پا کر اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ اسی دن میں امام(ع) کی خدمت میں پہنچا تو امام(ع) نے فرمایا آج تم کہاں تھے؟ میں نے جھوٹ بولا اور کہا صبح کو میں مسجد میں گیا ہوا تھا یہ سن کر آپ نے فرمایا اما تعلم ان ہذا لا ینال الا بالور “ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ولایت کے مقام تک تقوی کے بغیر نہیں پہنچا جاسکتا ۔”

3 ـ ابی بصیر کہتا ہے کہ ایک دن میں جنب تھا لیکن دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ  آپ کی خدمت میں جارہا ہے تو میں بھی اسی حالت میں چلا گیا مجھےدیکھ کر آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہمارے گھروں میں جنب کی حالت میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔

۱۰۳

4 ـ شعرانی کہتا ہے ایک دفعہ منصور دوانقی اپنے چند افراد کو انعامات دے رہا تھا میں بھی گھر کے دروازے میں کھڑا تھا اتنے میں امام صادق علیہ السلام تشریف لائے میں آپ(ع) کے سامنے گیا اور عرض کیا کہ منصور سے مجھے بھی کوئی انعام دلوا دیں آپ جب واپس آئے تو میرے لیے بھی کچھ لے آئے تھے ۔ مجھے دے دیا اور فرمایا ۔“إِنَّ الْحَسَنَ مِنْ كُلِّ أَحَدٍ حَسَنٌ‏ وَ إِنَّهُ مِنْكَ أَحْسَنُ لِمَكَانِكَ مِنَّا.” “ اچھا کام جس سے بھی سرزد ہوا اچھا ہے اور تم سے سرزد ہونا بہت اچھا ہے کیونکہ تمہاری نسبت ہم سے ہے اور برا کام جس کسی سے بھی سرزد ہو جائے برا ہے اور تم سے سرزد ہونا بہت برا ہے کیونکہ تمہاری نسبت ہم سے ہے۔”

شقرانی کہتا ہے کہ امام(ع) کا یہ فرمان میری ایک بری حرکت کی طرف اشارہ تھا کیونکہ میں کبھی کبھار مخفی طور پر شراب پیتا تھا۔

آپ(ع) کا علم

آپ(ع) کے علم کی منزلت کو سمجھنے کےلیے آپ کی زبان سے ہی سنتے ہیں۔

1 ـ علاء بن سبابہ کہتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا میں اس سے آگاہ ہوں جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے اور جو کچھ جنت اور جہنم میں ہے اس سے بھی آگاہ ہوں میں گذشتہ اور آئندہ یہاں تک کہ قیامت تک کے واقعات سے آگاہ ہوں اس کے بعد آپ نے فرمایا اس علم کو میں قرآن سے جانتا ہوں اور قرآن پر مجھے اس طرح عبور حاصل ہے جسے ہاتھ کی ہتھیلی پر عبور حاصل ہوتا ہے ۔ اور خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا کہ قرآن تمام چیزوں کا بیان کرنے والا ہے۔

2 ـ بکیر بن اعین کہتا ہے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا میں ان تمام

۱۰۴

 چیزوں سے آگاہ ہوں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے اور اسے بھی جانتا ہوں جو دنیا و آخرت میں ہے۔ یہ کہہ کر آپ(ع) نے دیکھا کہ کچھ پیچیدگی پیدا ہونے لگی ہے تو آپ(ع) نے فرمایا اے بکیر میں نے یہ علم قرآن سے حاصل کیا ہے کیونکہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے۔“وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ ( سورہ نحل آیت 89)

“ ہم نے تم پر قرآن نازل کیا ہے جو ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے۔”

3 ـ صفوان بن عیسی کہتا ہے کہ حضرت صادق آل محمد(ع) نے فرمایا میں اولین و آخرین کا علم رکھتا ہوں اور جوکچھ بھی ماں باپ کے رحم و صلب میں ہے اسے بھی جانتا ہوں۔

آپ (ع) کا صبر

جس وقت آپ کے بڑے صاحبزادے اسماعیل وفات پاگئے تو آپ نے تعزیت کے لیے آنے والے افراد کا بڑا خندہ پیشانی کےساتھ استقبال کیا اور بعض لوگ یہ حالت دیکھ کر تعجب کرنے لگے اور اس بارے میں انہوں نے آپ سے پوچھا بھی تو آپ نے فرمایا اﷲ کا حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔ ایک اور مصیبت میں آپ نے فرمایا ہم اہل بیت (ع) مصیبت کے وارد ہونے سے پہلے اپنی فعالیتوں کو انجام دیتے ہیں اور جب مصیبت واقع ہوتی ہے تو تقدیر الہی کو تسلیم کرتے ہوئے راضی رہتے ہیں۔

آپ(ع) کا حلم

منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ نے اپنے غلام کو کسی کام سے بھیجا غلام نے دیر کیا

۱۰۵

 تو آپ خود اس کام کے لیے چلے گئے تو راستے میں غلام کو دیکھا جو سویا ہوا تھا آپ نے اسے پتوں سے ہوا کی وہ بیدار ہوا تو فرمایا اچھا یہ ہوتا کہ رات کو سوتے اور دن کو کام کرتے۔

آپ(ع) کا عفو

ایک دفعہ کسی نے آپ کو یہ خبر پہنچا دی کہ آپ کا چچا زاد بھائی عوام کے سامنے آپ کو ناسزا کہتا پھرتا ہے یہ سن کر آپ اٹھے اور دو رکعت نماز ادا کی اور نماز کے بعد کمال رقت کے ساتھ دعا مانگی خداوندا! میں نے اسے اپنا حق معاف کیا تو اکرم الاکرمین ہے اسے کے کردار کی پاداش میں گرفتار نہ فرما۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ قطع رحم کے مواخذے کی شدت اور سرعت کی طرف متوجہ تھے لہذا اس کے لیے معاف کرنے اور دعا کرنے میں جلدی کی۔

آپ(ع) کی سخاوت

ہشام بن سالم کہتا ہے حضرت امام صادق علیہ السلام کا دستور تھا کہ جس وقت رات کا ایک حصہ گزر جاتا تھا تو ایک تھیلے میں بھر کر اشیاء لے کر نکلتے اور مدینہ کے محتاجوں میں تقسیم کرتے تھے اور محتاجوں کو آپ کی خبر تک نہ ہوتی تھی جب آپ کی شہادت واقع ہوئی تب لوگوں کو پتہ چلا کہ کون ان کی مدد کرتا تھا۔

منثعمی کہتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے ایک دفعہ دینار کی ایک تھیلی دی اور کسی آدمی کو دینے کے لیے کہا اور تاکید کی کہ میں آپ کا نام نہ لوں میں نے وہ تھیلی اس شخص کو دی مگر وہ شخص گلہ کر رہا تھا کہ امام صادق علیہ السلام قدرت رکھنے کے باوجود میرا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

۱۰۶

آپ(ع) کی عبادت

ابان بن تغلب کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو رکوع و سجود میں ستر دفعہ تسبیح پڑھتے ہوئے سنا۔

خراج راوندی میں ہے کہ راوی کہتا ہے “ میں نے امام صادق علیہ السلام کو مسجد نبوی میں دیکھا ہے نماز میں مشغول ہیں اور تین سو مرتبہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ کہا۔

مالک بن انس کہتا ہے کہ میں نے علم و تقوی میں جعفر بن محمد(ع) سے بڑھ کر اور کسی کو نہیں پایا۔ جب بھی میں نے آپ کو دیکھا آپ یا تو ذکر میں مشغول تھے یا روزے میں تھے۔ یا نماز میں مشغول تھے وہ خدا کے نیک بندوں میں سے تھے بہت بڑے زاہد تھے ہر وقت خوف لاحق رہتا تھا اور مسجد میں شدت خشوع سے گریہ کرتے تھے ۔ میں ایک سال مکہ میں آپ(ع) کے ساتھ تھا جب تلبیہ کہنے کا وقت آیا تو شدت رقت سے تلبیہ نہ کہہ سکے، فرماتے تھے کہ اگر میں کہدوں لبیک اور وہ لا لبیک کہے تو کیا کروں؟

مفضل ایک عظیم شیعہ عالم ہیں کہ کتاب توحید مغفل کے نام سے موجود ہے جس میں خالق اور اس کی صفات کا ذکر ہے۔ مغفل امام(ع) کے بارے میں کہتا ہے کہ “ ایک دفعہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا اور قریب ہی ابن ابی العوجا اور اس کے مرید بیٹھے ہوئے کفر آمیز کلمات کہہ رہے تھے مجھ رہا نہ گیا میں ان پر برس پڑا یہ دیکھ کر ابن ابی العوجا نے کہا اے شخص اگر تو جعفر صادق(ع) کے پیروکاروں میں سے ہے تو ان کا طریقہ ایسا نہیں ہے ہم ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں ، بحث کرتے، دلیل دیتے تو وہ صبر و سکون کے ساتھ پوری توجہ سے سنتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا جواب بھی سوچ لیا ہے اس کے بعد وہ ہماری ایک ایک دلیل کو رد کرتے ہیں۔

۱۰۷

آخر میں ہم خود ابی بصیر کا واقعہ ذکر کرتے ہیں جو بجائے خود ایک معجزہ ہے۔

ابوبصیر کہتا ہے کہ ایک نہایت ہی گناہ گار شخص ہمارا ہمسایہ تھا ہم ہر چند ایسے نصیحت کرتے تھے اس  پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ہم اس سے بڑے تنگ تھے ایک دفعہ جب میں مدینہ جانے کی تیاری کررہا تھا تو میرے پاس وہ شخص آیا اور کہا اے ابا بصیر میں گناہوں میں مبتلا ایک شخص ہوں جنہیں ترک کرنا میرے بس میں نہیں مجھے اپنے آپ پر قیاس مت کرو تم نے شیطان سے نجات پائی ہے میری حالت حضرت امام صادق (ع) کے گوش گزار کرو کہ میری کچھ فکر کریں۔ ابو بصیر کہتا ہے میں نے اس واقعہ کا تذکرہ مدینہ پہنچ کر امام کی خدمت میں کیا یہ سن کر آپ(ع) نے فرمایا اے میرا سلام کہنا ساتھ ہی یہ بھی کہنا کہ اگر گناہ ترک کروگے تو میں بہشت کی ضمانت دیتا ہوں جب میں واپس آیا تو وہ شخص مجھ سے ملنے آیا میں نے اسے امام صادق علیہ السلام کا سلام اور پیغام پہنچا دیا وہ شخص یہ سن کر پلٹ گیا اور توبہ کی ایک عرصے کے بعد میں جب اس دیکھنے گیا تو جانکنی کی حالت میں پایا جب میں نزدیک گیا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور کہا امام صادق علیہ السلام نے اپنے وعدے کو پورا فرمایا۔ وہ شخص مرگیا ایک سال بعد میں امام ( ع) کی خدمت میں مدینے گیا تو امام صادق علیہ السلام ے فرمایا ابو بصیر ہم نے اپنے وعدے کو پورا کیا۔

ایک اور ایسا ہی واقعہ ابو بصیر بیان کرتے ہیں جو یوں ہے کہ ایک دفعہ میں بنی امیہ کی حکومت کے ایک کارندے کو امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں لے گیا تاکہ آپ کے ہاتھوں میں توبہ کرے آپ نے اس شخص کو دیکھ کر گلہ کرتے ہوئےفرمایا اگر لوگ بنی امیہ کے ساتھ تعاون نہ کرتے تو ہمارا حق غصب نہیں کرسکتے تھے اس کے بعد فرمایا کہ میں جو کچھ کہوں گا اس پر عمل کرو گے اس شخص نے کچھ لمحے سکوت اختیار کر کے بعد میں قبول کیا کہ جو کچھ آپ فرمائیں گے انجام دے گا

۱۰۸

آپ نے فرمایا تمام اموال صدقے میں دے دو تو میں تمہارے لیے بہشت کی ضمانت دیتا ہوں۔

ابو بصیر کہتا ہے کہ چند دنوں کے بعد اس شخص نے اپنی بیٹی کے ذریعے مجھے بلا بھیجا میں اس کے پاس گیا تو دیکھا کہ جو کچھ اموال اس کے پاس تھا صدقہ میں دیا ہے یہاں تک کہ اس کے جسم پر کرتا بھی نہیں ہے۔ میں نے اس کے لیے ایک کرتے کا بندوبست کیا چند دن بعد جب وہ احتضار کی حالت میں تھا میں اس کے پاس گیا تو اس نے کہا ابو بصیر امام صادق علیہ السلام نے اپنا وعدہ پورا کیا اور جب میں امام(ع) کی خدمت میں پہنچا ابھی بیٹھا بھی نہیں تھا کہ امام (ع) نے فرمایا ابو بصیر ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا۔

یہ امام صادق علیہ السلام کے فضائل کے سمندروں میں سے ایک قطرہ تھا جو بیان ہوا اور اگر ہم امام صادق علیہ السلام کے بارے میں کچھ کہہ سکتے ہیں تو صرف اس قدر جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے۔

جھنی کہتا ہے کہ ایک دفعہ ہم مدینے میں اہل بیت(ع) کے فضائل کے بارے میں بات کررہے تھے گفتگو کے دوران ربوبیت کا شبہ پیدا ہونے لگا لہذا ہم نے امام صادق علیہ السلام سے ملاقات کی اور عرض مدعا کیا تو آپ نے پوچھا یہ بے ہودہ خیال تمہیں کیسے آیا؟ ہم تو وہ لوگ ہیں جن کا ایک پروردگار ہے جو ہمیشہ ہمارا محافظ ہے ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں تم ہمارے بارے میں جو چاہو  کہو مگر اس شرط کے ساتھ کہ ہمیں خداوند متعال کی مخلوق جانو۔

یہ جملہ اکثر ائمہ طاہرین علیہم السلام نے ادا فرمایا ہے لہذا ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام ممکن الوجود ہیں، مخلوق بندے ہیں، اور محض احتیاج ہیں اور خود سے کوئی استقلال نہیں رکھتے جب کہ استقلال وجوب وجود، ربوبیت اور خلق و بے نیازی پروردگار عالم کی ذات سے مخصوص ہے لیکن یہ حضرات صرف واسطہ فیض

۱۰۹

 عالم ہیں صفات الہی کے مظہر ہیں اﷲ کے سوا ہر چیز کا علم رکھتے ہیں اور تمام صفات کمال سے آراستہ ہیں بقول امیرالمومنین علیہ السلام ۔“ ہمیں خدا نہ کہو باقی جو کچھ چاہو ہمارے بارے میں کہو۔”

۱۱۰

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام

آپ کا نام نامی موسیٰ اور مشہور لقب کاظم ، عبد صالح اور باب الحوائج ہیں، آپ کی مشہور کنیت ابو الحسن ہے۔ آپ کی عمر مبارک تقریبا 54 سال تھی۔ 7 صفر 128 ہجری کو آپ نے ولادت پائی۔ اور 25 رجب سال 186ہجری کو ہارون رشید کے حکم سے سندی بن شاہک کے ہاتھوں زہر خورانی کی وجہ سے شہادت پائی۔ آپ کی مدت امامت آپ کے والد بزرگوار کی طرح 34 سال ہے۔ اس پوری مدت میں یا تو آپ زندان میں تھے یا جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔

آپ عوام میں مکمل نفوذ رکھتے تھے اور ہر وقت دشمن کے ساتھ مقابلہ پر رہے اور دشمن بھی غیر معمولی حد تک آپ سے ڈرتے تھے۔ دشمن کے آخری وقت میں یہ چاہتا تھا کہ بالکل خاموشی کے ساتھ کسی کو پتہ کرائے بغیر آپ کی تدفین کرے۔ مگر خدا کو یہ منظور نہیں تھا۔ لہذا بڑے اہتمام کے ساتھ آپ(ع) کی تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی شہادت کے وقت بہت سارے علماء، فضلاء اور چیدہ چیدہ لوگوں کو جمع کیا گیا تاکہ یہ لوگ گواہی دیں کہ آپ اپنی طبعی  موت مرے ہیں۔ لیکن آپ کی باتوں نے ان کے جھوٹ کا فاش کردیا۔

حضرت موسی ابن جعفر علیہ السلام کے القاب بھی دوسرے اہل بیت(ع) کی طرح بے مقصد نہیں بلکہ ان کے تمام القاب عالم ملکوت سے ہی معین کئے گئے تھے۔ لہذا ہم

۱۱۱

 آپ کے صرف القاب کی مختصر تشریح پر اکتفا کرتے ہیں۔

آپ کے القاب میں سے ایک لقب کاظم ہے آپ اپنے صبر و حلم میں بے مثال تھے۔ اور عظیم سے عظیم مصیبتیں آپ کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ کرسکیں۔ آپ کی زیارت میں ہم پڑھتے ہیں۔

“ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ وَ صَلِّ عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وَصِيِّ الْأَبْرَارِ وَ إِمَامِ الْأَخْيَارِ وَ عَيْبَةِ الْأَنْوَارِ وَ وَارِثِ‏ السَّكِينَةِ وَ الْوَقَارِ وَ الْحِكَمِ وَ الْآثَارِ”

“ بار الہ درود نازل فرما حضرت محمد (ص) اور ان کے پاکیزہ آل پر اور درود نازل فرما وصی ابرار حضرت موسی بن جعفر(ع) پر جو نیکوں کے جانشین ، مومنوں کے امام، صفات الہی کے مظہر، وقار وسکون کے وارث ، جس نے مصائب میں صبر و استقامت کا ساتھ دیا جو اہل بیت (ع) کے حکمت اور علم کے وارث ہیں۔”

مختصر یہ کہ آپ کاظم ہیں، صابر ہیں، حلیم ہیں، فراخ دل ہیں ، قسم قسم کے طوفان اور اتار چڑھاؤ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہنے والے ہیں اور دشمن اپنی تمام طاقت و اقتدار کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کرسکا۔

ہارون رشید نے اپنی تمام تر مساعی ختم کیں کہ موسی کاظم علیہ السلام آپ کے سامنے عجز و انکسار اختیار کریں۔ لیکن اسی خواہش کے ساتھ قبر میں پہنچا جو کبھی پوری نہ ہوسکی۔ ربیع کہتا ہے کہ ہارون نے مجھے زندان میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ مجھے معلوم ہے آپ بے گناہ ہیں۔ لیکن میری اور آپ کی بھلائی اسی میں ہے کہ آپ زندان میں رہیں۔ لہذا جو بھی غذا آپ چاہیں حکم فرما دیں تاکہ تیار کی جائے ربیع کہتا ہے کہ میں اس پیغام کے ساتھ آپ کے پاس زندان میں پہنچا تو دیکھا کہ آپ نماز میں مشغول ہیں۔ ہر چند میں نے کوشش کی کہ آپ کےساتھ بات

۱۱۲

کروں اور پیغام پہنچا دوں مگر آپ کے مسلسل نماز میں مشغول ہونے کی وجہ سے بہت دیر بعد اتنا موقع ملا کہ آپ  نے یہ پیغام سن کر جواب میں فرمایا۔“لا حاضر لی مال فينضعنی و لم اخلق سولا ” اس کے بعد پھر نماز میں مشغول ہوئے۔ یعنی آپ نے فرمایا “ میرا کوئی مال نہیں کہ اس سے فائدہ اٹھاؤں اور سوال کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہوں۔” یعنی ہم اہل بیت(ع) کسی سے سوال نہیں کرتے۔ ہم اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ بے جا سوال مت کریں۔ یعنی پیٹ کا جہنم  بھرنے کے لیے سوال کی ذلت نہ اٹھائیں۔ ربیع کہتا ہے کہ ہارون نے ایک اور دفعہ مجھے آپ(ع) کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ میں آپ(ع) سے کہوں کہ آپ(ع) اپنے جرم کا اقرار کریں تو آپ کو زندان سے رہائی مل جائے گی۔ آپ (ع) صرف میرے سامنے اقرار کریں۔ میرے اور آپ کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں ہوگا۔ چونکہ میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک آپ اپنے جرم کا اقرار نہیں کریں گے رہائی نہیں دوں گا۔ آپ نے جواب میں فرمایا “ میری طرف سے ہارون کو کہدو کہ میری تکلیف اور تمہاری راحت و خوشی کے دن مسلسل گزر رہے ہیں اور گزرنے والے ہیں میرے اور تمہارے درمیان حاکم خداوند عالم ہے اب بہت کم دن رہ گئے ہیں۔” ربیع کہتا ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کو جواب سن کر ہارون کی پیشانی پر پل پڑگئے اور کئی دنوں تک ان کا موڈ آف رہا۔

آپ کے مشہور ترین القاب میں سے ایک عہد صالح ہے ہم آپ کی زیارت میں کہتے ہیں۔“ الصَلاة عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ كَانَ يُحْيِي اللَّيْلَ بِالسَّهَرِ إِلَى السَّحَرِ بِمُوَاصَلَةِ الِاسْتِغْفَارِ حَلِيفِ السَّجْدَةِ الطَّوِيلَةِ وَ الدُّمُوعِ الْغَزِيرَةِ وَ الْمُنَاجَاةِ الْكَثِيرَةِ وَ الضَّرَاعَاتِ الْمُتَّصِلَةِ الْجَمِيلَةِ

“ موسی بن جعفر پر ہمارا سلام ہو جو رات سے لے کر صبح صادق تک استغفار طویل سجدہ ، گریہ و زاری اور اپنے رب کے حضور مناجات میں

۱۱۳

 گزارنے والے ہیں۔”

راوی کہتا ہے کہ آپ(ع) جب بغداد میں جلا وطن تھے تو ہارون نے مجھے بھیجا میں نے بغداد پہنچ کر آپ کو تلاش کیا تو بہت دور ایک جھونپڑی میں آپ کو پایا جو خرما کے پتوں اور جھال سے بنائی گئی تھی۔ آپ وہاں تشریف فرما تھے اور ایک غلام آپ کے سامنے ہاتھ میں قینچی لیے آپ کے عضائے سجدہ کے گھٹوں کو کاٹ رہا تھا۔ آپ اس قدر طویل سجدہ کرتے تھے کہ آپ کے اعضائے سجدہ میں گھٹے پڑے ہوتے تھے۔ زندان میں آپ جو دعائیں پڑھت تھے ان میں سے ایک کے الفاظ ہیں۔

“ میرے معبود! میں تیری عبادت کے لیے ایک خلوت کی جگہ مانگتا تھا۔ تیرا شکر کہ تو نے وہ جگہ میرے لیے عنایت فرمائی۔”

آپ (ع) کا ایک لقب عالم بھی ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی تقریبا ساری عمر زندان یا جلا وطنی میں گزری۔ اسلام ادر انسانیت کے دشمنوں نے عوام کو موسی بن جعفر علیہ السلام کےعلم سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔ اس کے باوجود حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام نے اپنے بہترین لائق شاگرد اور فقیہ کے درجے کے حامل افراد کی تربیت کی اور مسلمانوں کو ہدیہ پیش کیا۔ شیخ طوسی علیہ الرحمتہ نے اپنے رجال میں بہت سارے افراد جیسے، یونس بن عبدالرحمان ، صفوان بن یحی ، محمد بن ابی عمیر ، عبداﷲ بن مغیرہ ، حسن بن محبوب، احمد بن ابی نصرہ وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔

جو بڑے پائے کے فقہاء تھے علی بن یقطین جس نے تشیع کی بہت خدمت کی ہے آپ ہی کہ صحابہ میں سے تھے۔ آپ نے ہی علی بن کو ظالم حکومت کی ملازمت اختیار کرنے کو کہا تھا۔ علی بن یقطین ہارون رشید کا وزیر تھا۔ مگر امام موسی کاظم علیہ السلام ان کی ترتیت کررہے تھے۔ جس طرح آپ ان کی ترتیب کا خیال رکھتے تھے۔ اسی طرح ان کے تحفظ کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ یہاں پر ان کے چند ایک واقعات

۱۱۴

کا ذکر کرتے ہیں۔

1 ـ ایک دفعہ ابراہیم جمال جو آپ کے اچھے پیروکاروں میں سے تھے۔ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے بغداد آئے اور چاہا کہ علی بن یقطین سے ملتے ہوئے امام (ع) کے پاس جاتے ۔ لیکن علی بن یقطین اتنے مصروف تھے کہ ابراہیم جمال ان کے ساتھ ملاقات کئے بغیر مدینہ روانہ ہوئے اور جب مدینہ میں امام (ع) کے حضور پہنچے تو امام نے علی بن یقطین کے بارے میں پوچھا تو ابراہیم جمال نے اپنا واقعہ اور ملاقات نہ ہونے کا ذکر کیا۔ اسی سال علی بن یقطین بھی مدینہ پہچے چاہا کہ امام کی خدمت میں حاظر ہوجائیں مگر امام نے انہیں اجازت نہ دی اور دوسرے اور تیسرے دن بھی امام نے ملاقات کی اجازت نہیں دی۔ علی بن یقطین بڑے آزردہ ہوئے۔ اور گریہ کرنے لگے کہ مجھ سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے؟ آخر کار امام (ع) نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ جب تک ابراہیم جمال کو راضی نہ کرا دو ہم تم سے راضی نہیں۔ یہ سن کر علی بن یقطین مدینہ گئے اور ابراہیم جمال سے معافی مانگی اور معاف کرنے کی نشانی کے طور پر ابراہیم جمال کے پاؤں اپنے چہرے پر زبردستی رکھوادئے اور اس کے نشانات کی حفاظت کر کے امام کے حضور پہنچے اور امام نے یہ دیکھ کر فرمایا اب ہم تم سے راضی ہیں۔

امام (ع) کا یہ حکم کرنا علی بن یقطین کی تہذیب نفس کے لیے ایک خاص لطف پر مبنی تھا۔

2 ـ ایک دفعہ ہارون رشید نے ایک قیمتی کپڑا علی بن یقطین کو انعام کے طور پر دے دیا۔ علی بن یقطین نے وہ کپڑا حضرت امام موسی کاظم علیہ الرحمہ کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے کپڑا واپس کرتے ہوئے کہلا بھیجا کہ وہ کپڑے کو حفاظت سے رکھے اور اسے خوشبو سے معطر کر کے رکھے۔ کچھ عرصے کے بعد چغل خوروں نے ہارون کے پاس

۱۱۵

 چغلی کھائی کہ علی بن یقطین نے وہ کپڑا امام موسی کاظم علیہ السلام کو بھیجا ہے۔ ہارون نے انہیں طلب کر کے پوچھا کہ جو لباس میں نے انعام کے طور پر دیا تھا اسے کیوں نہیں پہنے ہو؟ انہوں نے جواب دیا چونکہ آپ کا انعام دیا ہوا ہے لہذا اسے معطر کر کے حفاظت سے اٹھا رکھا ہے۔ ساتھ ہی غلام کو بھیج کر وہ کپڑا منگوا لیا۔ ہارون نے جب یہ صورت حال دیکھی تو قسم کھائی کہ آئندہ علی بن یقطین کے  بارے میں کسی کی کوئی بات نہیں سنے گا۔

3 ـ علی بن یقطین اپنے معمولی کے مطابق اپنے وظائف شرعی پر عمل کررہے تھے۔ ایک دن انہیں امام موسی کاظم علیہ السلام  کی طرف سے ایک خط ملا جس میں یہ ہدایت تھی کہ اپنے معروف طریقے کے برخلاف وضو کے طریقے پر عمل کرے۔ خط ملتے ہی اس نے عمل شروع کیا۔ چند دن تک  یہ سلسلہ جاری رہا اسی دوران بدخواہوں نے ہارون کے کان میں یہ بات ڈال دی کہ علی بن یقطین شیعہ ہیں۔ ہارون نے صدیق کے لیے چھپ کر ان کا وضو کرنا دیکھا تو علی بن یقطین کو اپنے طریقے پر وضو کرتے پایا اور چغلی کرنے والوں کی سرزنش کی۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد امام(ع) کی طرف سے دوسرا خط جس میں اپنے طریقے کے مطابق وضو کرنے کا حکم تھا۔

حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام نے اپنے اصحاب ، اجماع ، شاگردوں کے علاوہ دوسرے ایسے افراد کی بھی تربیت کی جنہوں نے مذہب شیعہ کی غیر معمولی خدمت کی ہے جیسے کہ علی بن یقطین۔

اگر ہم حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کےعلم کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو آپ کے لیے زیارات میں پایا جانے والا یہ لفظ آپ کے علم پر کما حقہ دلالت کرنے کے لیے موجود ہے اور وہ لفظ “ عیبتہ الانوار” ہے عیبہ کے معنی تجوری کے ہیں جس میں گرانقدر قیمتی جواہرات کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام

۱۱۶

انوار الہی کی تجوری قرار پاتے ہیں۔ قدرت خدا کی تجوری ، خدا کی وسیع رحمتوں کی تجوری، صفات حقہ کی تجوری، ہم جس قدر بھی آپ کے علم کے بارے میں بات کریں گے وہ ناکافی ہے۔ آپ کے علم کے اظہار کے لیے صحیح اور مناسب تر لفظ “ عیبتہ الانوار” ہے۔ آپ کا ایک لقب باب الحوائج  ہے۔ محمد بن طلحہ شافعی آپ  کے بارے میں کہتا ہے۔

“ انه الامام جليل القدر عظيم الشان کثير التهجد المواظب علی الطاعات المشهور بالکرامات مسهر الليل بالسجدته والقيام و متم اليوم بالصيام والصدقه والخيرات المسمی بالکاظم لعفوه و احسانه بمن اسائه والمسمی بالعبد الصالح لکثيره عبوديته والمشهور باب الحوائج اذ کل من يتوسل اليه اصاب حاجته کراماته تحار منها العقول”

“ بتحقیق آپ (ع) جلیل القدر ، عظیم الشان پیشوا ہیں۔ راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے والے اور اﷲ کے اطاعت گزار ہیں۔ اپنی کرامات میں مشہور راتوں کو طویل سجدے اور قیام کرنے والے ہیں اور دنوں کو روزے رکھنے والے ہیں، ضرورتمندوں کی مدد کرنے والے ہیں۔ ان بزرگ کا لقب کاظم (ع) ہے ۔ جو آپ کے ساتھ برا کرتے ہیں آپ انہیں معاف کرتے ہوئے ان کےساتھ نیکی کرتے ہیں۔ آپ کا لقب عبدصالح بھی ہے کثرت عبادت اور بندگی کی وجہ سے یہ لقب پڑ گیا۔ باب الحوائج بھی آپ کا لقب ہے جو بھی آپ کا وسیلہ اختیار کرتا ہے اس کی حاجت پوری ہوتی ہے حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی کرامات اتنی زیادہ ہیں کہ انسانی عقل متحیر ہوتی ہے۔”

خطیب خوارزمی کہتا ہے کہ مجھے جب کبھی بھی کوئی غم والم در پیش ہوا میں حضرت

۱۱۷

 موسی بن جعفر (ع) کے روضے پر گیا اور میرا غم بھی دور ہوا۔ تاریخی تجربات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام باب الحوائج ہیں۔ منقول ہے کہ خلفاء میں کسی ایک کو دل کی بیماری لاحق ہوئی۔ ہر چند دوا تجویز کی گئی مگر افاقہ نہٰیں ہوا ۔ اس کے خاص حکیم نے جو نصرانی تھا کہا تمہارے اس درد کی کوئی دوا نہیں تو کسی اﷲ والے کو تلاش کرو اور اس کے ذریعے دعا کراؤ۔ خلیفہ نے کہا کہ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کو بلایا جائے آپ(ع) نے آکر دعا فرمائی تو وہ بالکل تندرست ہوئے۔ اس کے شفا پانے کے بعد آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے کیا پڑھا تھا کہ فورا صحت یاب ہوا۔ آپ (ع) نے فرمایا ،میں نے صرف اتنا کہا تھا۔ “ اللہم کما اریتہ ذل معصیتہ فارہ عن طاعتی” خداوندا جس طرح تو نے اسے نافرمانی کی ذلت سے آگاہ کیا اسی طرح میری اطاعت کی عزت بھی اسے دکھا۔” آپ دیکھیں کیا ہی بلیغ اور لطیف کلام کس طرح کا تعمیری اور تہدیدی کلام ہے۔

شیخ طوسی اپنے رجال میں حماد سے نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “ ایک دفعہ مٰیں حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرے حق میں دعا فرمائیں کہ خداوند عالم مجھے اچھا گھر ، اچھی بیوی اور نیک اولاد دے اور پچاس حج کرنے کی توفیق دے۔ آپ نے دعا فرمائی تھوڑی مدت نہیں گزری تھی کہ خداوند عالم نے مجھے سب کچھ دیا۔” یہ شخص ہر سال حج کرنے جاتا تھا۔ ایک دفعہ حج پر گیا تھا۔ احرام کےموقع پر غسل کرنے پانی میں اترا اور وہی غرق ہوکر مرا اس طرح آخری سال حج بجا نہ لاسکا۔ تاریخ میں حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام سےمتعلق اسی قسم کے واقعات بہت ملتے ہیں۔

آپ(ع) کی شہادت کا سبب

حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ (ع)

۱۱۸

 دوسروں کی خواہشات کی بھینٹ چڑھ گئے یعنی یحی برمکی کے حسد، ہارون کی جاہ طلبی اور علی بن اسماعیل کی زر پرستی جو آپ کا بھتیجا بھی تھا۔ ابن اشعث ہارون کے بیٹے امین کی تربیت پر مامور تھا ہارون کے نزدیک بہت مقرب تھا۔ یحی برمکی کو یہ خوف تھا کہ باد شاہت ہارون کے بعد اس کے بیٹے امین کو ملے گی اور ابن اشعث اس کی جگہ سنبھالے  گا۔ لہذا حسد کے مارے اس نے حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام اور ابن اشعث کے خلاف ہارون کے کان بھرنے شروع کئے۔ مامون وسوسے میں مبتلا ہوا اور حضرت موسی بن جعفر(ع) کے بارے میں تحقیق کرانی چاہی اور اس مقصد کے لیے آپ کے بھتیجے علی بن اسماعیل کو بلا بھیجا۔ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام نے اسے جانے کو منع کیا اور خطرات سے آگاہ کیا مگر وہ گیا اور ہارون سے پہلے یحی برمکی سے ملاقات کی اور ہارون کے پاس جاکر کہا ایک مملکت میں دو بادشاہ نہیں ہوسکتے۔ یہ سن کر ہارون نے حکم دیا کہ انہیں دو لاکھ درہم دیئے جائیں۔ حکم کی تعمیل مگر ایک درد اٹھا اور علی بن اسماعیل وہی پر مرگیا۔ یعنی رقم دیکھ کر ہی مرگیا۔ ہارون نے حضرت موسی بن جعفر (ع) کو گرفتار کر کے زندان میں رکھا اور کچھ عرصے کے  بعد شہید کیا۔ اور بہت  ہی کم مدت میں برمکی خاندان بھی صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ سورہ یونس میں ارشاد ہوا۔“ لوگو ! تمہارا ظلم تم پر ہی لوٹ کر آتا ہے اس کے بعد تمہاری بازگشت ہماری طرف ہوتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو ہم اس کی خبر تمہیں دیں گے۔”

۱۱۹

حضرت امام رضا علیہ السلام

آپ کا نام نامی علی(ع) کنیت ابوالحسن ثانی اور مشہور لقب رضا(ع) ہے۔ آپ کی عمر مبارک 55 سال تھی۔ 11 ذی العقعدہ 148 ہجری کو ولادت پائی اور 203 ہجری میں صفر کی آخری تاریخ کو وفات پائی ۔ سبب شہادت مامون کا زہر دینا تھا۔

مدت امامت بیس سال ہے۔ سترہ سال مدینہ میں عوام کے پشت پناہ علماء کے استاد اور مروج دین رہے اور آخری تین سال آپ کو مجبورا طوس پہنچایا گیا اور یہاں بھی آپ نے جہاں تک ممکن تھا دین کی حفاظت فرمائی انجام کار کار مامون ہاتھوں شہید ہوئے۔

اسلامی کتب تاریخ کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کلمات الہی کے معدن ، انوار الہی کے صندوق اور الہی علوم کے خزینہ دار تھے۔ مامون کے دربار میں دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ آپ کے مباحث اور مناظرے آپ کی علمی شخصیت کو نمایاں کرتے ہیں جس کا اعتراف مامون اکثر یہ کہہ کر کرتا تھا ۔ “ میں نے روئے زمین پر اس شخص سے بڑھ کر کسی کو عالم نہیں دیکھا۔” فرید وجدی اپنے دائرة المعارف میں لفظ رضا کے ذیل میں لکھتا ہے “ مامون نے اپنے دربار میں 33 ہزار لائق فاضل افراد کو جمع کیا ہوا تھا ۔ ایک دفعہ ان سے رائے لی اور پوچھا کہ میرے ولی عہد بننے کے لیےکون سب سے زیادہ اور مناسب ہے اور ان تمام

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

سوالات :

۱) حكم شرعى ، حكم تكليفى اور حكم وضعى سے كيا مراد ہے؟

۲) حكم قاضى اور فتوى ميں كيا فرق ہے؟

۳)حكومتى حكم اور قاضى كے حكم ميں كيا فرق ہے؟

۴)حكومتى حكم كے صدور كى بنياد كيا ہے؟

۵)حكم اوّلى اور حكم ثانوى كى بحث كا حكومتى احكام كى بحث ميں كيا كردار ہے؟

۶) احكام ثانويہ كيا ہيں اور احكام اوليہ سے ان كا كيسا تعلق ہے؟

۲۸۱

اٹھائيسواں سبق :

حكومتى حكم اور فقيہ كى ولايت مطلقہ

گذشتہ سبق ميں يہ ثابت ہوچكا ہے كہ فقيہ عادل جس طرح شرعى حكم كو استنباط كرسكتا ہے اسى طرح حكومتى حكم كے صادر كرنے كا بھى اختيار ركھتا ہے_

فتوى ميں فقيہ كا كام شارع مقدس كے حكم سے پردہ اٹھانا ہے _ اب جبكہ حكومتى حكم خود فقيہ صادر كرتا ہے_ حكومتى حكم كے جعل اور صادر كرنے ميں فقيہ عادل، شرعى اصول و مبانى كو بھى نظر ميں ركھتا ہے اور اسلام و مسلمين كى مصلحت كو بھى _ گذشتہ سبق كا آخرى سوال يہ تھا كہ ''حكومتى حكم اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے يا احكام ثانويہ ميں سے''؟

امام خمينى اس مسئلہ كے جواب كو'' اسلام ميں حكومت كے مقام ''كے ساتھ منسلك كرتے ہيں_ ان كى نظر ميں ولى فقيہ كے اختيارات اور حكومتى حكم كے صدور كا دائرہ اور حد، حكومت اور اسلامى نظام كے احكام اوليہ كے ساتھ رابطے كے تعيّن اور اسلام كى نظر ميں حكومت اور نظام كے مقام كو واضح و مشخص كرنے كے تابع ہے_

۲۸۲

اسلامى جمہوريہ ايران كے بانى نجف اشرف ميں اپنے فقہ كے دروس خارج ميں اس نكتہ پر اصرار كرتے تھے كہ حكومت اور اسلامى نظام اسلامى فروعات ميں سے ايك فرع يا اجزائے اسلام ميں سے ايك جزء نہيں ہے بلكہ اس كى شان اس سے بہت بلند ہے اس طرح كہ فقہى احكام حكومت اور اسلامى نظام كى حفاظت اور تثبيت كيلئے ہيں _ اسلامى حكومت شريعت كى بقاء اور حفاظت كى ضامن ہے اسى لئے اولياء الہى نے نظام اسلام و مسلمين كى حفاظت اور بقاء كيلئے اپنى جانوں كو خطرات ميں ڈالتے تھے _ ان كى نظر ميں شرعى احكام امور حكومت ميں سے ہيں_ شرعى احكام ذاتاً مقصود اور ہدف نہيں ہيں بلكہ عدل و انصاف قائم كرنے كيلئے اسلامى حكومت كے ذرائع ہيں اسى لئے روايات ميں حاكم اور ولى فقيہ كو اسلام كا قلعہ كہا گيا ہے (۱) _

''الاسلام هو الحكومة بشؤونها، و الاحكام قوانين الاسلام و هى شان من شؤونها ، بل الاحكام مطلوبات بالعرض و امور آلية لاجرائها و بسط العدالة'' (۲)

امام خمينى اس بات پر اصرار كرتے ہيں كہ حكومت اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے_ نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام پر مقدم ہے_ رہبر انقلاب آيت اللہ خامنہ اى كے نام لكھے گئے اپنے ايك خط ميں امام خمينى فرماتے ہيں:

حكومت رسولخدا (ص) كى ولايت مطلقہ كا ايك شعبہ ہے، اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے، اور اس كے تمام احكام فرعيہ ،نماز روزہ اور حج و غيرہ پر مقدم ہے(۳)

____________________

۱) امام خمينى كى درج ذيل عربى عبارت كا مفہوم بھى يہى ہے _(مترجم)

۲) كتاب البيع، ج ۲ ص ۴۷۲_

۳) صحيفہ نور ج ۲۰ ، ص ۱۷۰

۲۸۳

لہذا حكومتى حكم كا صدور اسلام اور نظام مسلمين كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے_ ضرورى نہيں ہے كہ عناوين ثانويہ مثلا عسروحرج ، اضطرار يا اختلال نظام ميں سے كوئي ہو بلكہ اسلامى حكم كى مصلحت حكومتى حكم كى بنياد قرار پاتى ہے اگر چہ مذكورہ عناوين ميں سے كوئي بھى نہ ہو_

اس كے باوجود انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں بعض موارد ميں انہوں نے حكومتى حكم كے صدور اور بظاہر شريعت كے منافى احكام و قوانين بنانے كا حق پارليمنٹ كو ديا ليكن احتياط اور مزيد استحكام كيلئے ايسے قوانين كے وضع كرنے كو اختلال نظام ، ضرورت اور عسرو حرج جيسے ثانوى عناوين كے ساتھ منسلك كرديا_ اگر چہ آپ فقہى لحاظ سے حكومتى حكم كے صدور كو ان عناوين پر موقوف نہيں سمجھتے اور اسے اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں_

مورخہ ۲۰/ ۷/ ۱۳۶۰ ھ ش كو قومى اسمبلى كے اسپيكر كو ايك خط كا جواب ديتے ہوئے لكھتے ہيں:

وہ شئے جو اسلامى نظام كى حفاظت ميں دخالت ركھتى ہے ، جس كا انجام دينا يا ترك كردينا اختلال نظام كا باعث بنے، خرابى و فساد كا باعث بنے يا اس سے حرج و مرج لازم آتا ہو، تو پارليمنٹ كے ممبران كى اكثريت را ے كے ذريعہ موضوع كى تشخيص كے بعد اس وضاحت كے ساتھ قانون بنايا جائے كہ جب تك يہ موضوع ہے يہ قانون ہے_ اور موضوع كے ختم ہونے كے ساتھ ہى يہ قانون لغو ہوجائے گاوہ اس قانون كے بنانے اور جارى كرنے كا اختيار ركھتے ہيں_(۱)

اس اصرار كے ساتھ كہ حكومت ''اسلام كے احكام اوليہ'' ميں سے ہے_ اپنى مبارك زندگى كے آخرى سالوں ميں اس ميں اور شدت آگئي اور انہوں نے صاف الفاظ ميں كہہ ديا كہ حكومتى حكم كا صدور'' مصلحت نظام'' پر مبنى ہے _مصلحت نظام اختلال نظام ، ضرورت اور عسر و حرج جيسے عناوين ثانوى سے قطعى مختلف ہے

____________________

۱) صحيفہ نور، ج ۱۵ ، ص ۱۸۸_

۲۸۴

اسى لئے مصالح كى تشخيص اور حكومتى حكم كے صادر كرنے ميں ولى فقيہ كى مدد كرنے كے لئے '' مجمع تشخيص مصلحت نظام ''كے نام سے ايك ادارہ تشكيل ديا گيااور حكومتى احكام كے مبانى كى تشخيص كا كام اس كے سپرد كيا گيا_

فقيہ كى ولايت مطلقہ

فقيہ كى '' ولايت عامّہ ''، ''نيابت عامہ'' يا ''عمومى ولايت'' جيسے الفاظ سابقہ فقہاء كے كلمات ميں استعمال ہوتے رہے ہيں_ ليكن '' ولايت مطلقہ'' كى تعبير عام نہيں تھى _ امام خمينى كے كلمات ميں رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كى سياسى ولايت كو ''ولايت مطلقہ ''سے تعبير كيا گيا ہے_ اور يہى خصوصيت جامع الشرائط فقيہ عادل كيلئے بھى ثابت ہے_ ۱۳۶۸ ھ ش ميں جب اساسى قانون پر نظر ثانى كى گئي تو اس ميں لفظ '' ولايت مطلقہ ''استعمال ہونے لگا _

اسلامى جمہوريہ ايران ميں قواى حاكم يہ ہيں: مقننہ ،مجريہ اور عدليہ يہ تينوں ادارے ولايت مطلقہ كے زير نظر اس قانون كے آئندہ طے پانے والے اصولوں كے مطابق عمل كريںگے_(۱)

''ولايت مطلقہ'' ميں لفظ '' مطلقہ'' اور'' فلسفہ سياست'' كى اصطلاح ميں استعمال ہونے والے لفظ ''مطلقہ''كے درميان لفظى شباہت كى وجہ سے بعض لا علم اور مخالفين نے ولايت فقيہ پر اعتراض كيا ہے _

فلسفہ سياست كى رائج اصطلاح ميں'' حكومت مطلقہ'' ڈكٹيٹر شپ اورمطلق العنان آمريت كو كہتے ہيں_ جس ميں حكومت كا سربراہ اپنى مرضى سے حكومت چلا تا ہے ، دل خواہ قوانين وضع كرتا ہے اور معاشرے كا

____________________

۱) قانون اساسى اصل ۵۷_

۲۸۵

خيال نہيں ركھتا_ آنے والے مطالب سے واضح ہوجائے گا كہ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''بنيادى طور پراس ''حكومت مطلقہ''سے بہت مختلف ہے_

ولايت فقيہ كے مفہوم كے صحيح ادارك كيلئے درج ذيل تمہيد پر غور كرنا ضرورى ہے_

فقہى استنباط كى حقيقت ،در اصل شارع كے جعل اور انشاء كو كشف كرنا ہے_فتوى ، كے وقت فقيہ، نہ حكم كو جعل كرتا ہے نہ نافذ كرتا ہے_ فقيہ، ادلّہ كى طرف رجوع كر كے اس مسئلہ سے پردہ اٹھاتا ہے كہ نماز عشاء واجب ہے، اس حكم كا ايك نفاذ ہے _ اور وہ نماز مغرب كے بعد نماز عشاء كا پڑھنا ہے_ نماز عشاء كا پڑھنا فقيہ كے تعين ، را ے اور نافذ كرنے پر موقوف نہيں ہے_ وہ موارد جن ميں شرعى حكم كو متعدد طريقوں سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے ان كے نافذ كرنے كى كيفيت ميں بھى فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا_ مثلا اسلامى شريعت ميں شادى كرنا جائز ہے_ اس حكم جواز (بمعناى اعم)كے متعدد نفاذ ہيں يعنى مرد كو اختيار ہے كہ وہ كسى بھى خاندان، قبيلہ يا قوم سے اپنے لئے زوجہ كا انتخاب كرسكتا ہے_اس جواز كے انشاء اور نفاد كى كيفيت ميں فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا بلكہ فقط اس شرعى حكم كا كشف كرنا فقيہ كى علمى كوشش كے ساتھ و ابستہ ہے_

جبكہ اس كے مقابلہ ميں ''حكومتى حكم ''ميں جعل اور نفاذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _ فقيہ بعض موارد ميں حكم كو جعل كرتا ہے اور بعض موارد ميں نافذ كرتا ہے_ مثلا حدود الہى كے اجراء كے سلسلہ ميں فقيہ عادل كے حكم كے بغير كسى مجرم پر الہى حدود جارى نہيں كى جاسكتيں_ اسى طرح اگر فقيہ كسى مصلحت كى بنياد پر بعض مصنوعات يا اشيا كو ممنوع يا كسى ملك كيساتھ تجارت كرنے كو حرام قرار ديتاہے يا اس كے برعكس ان مصنوعات كى بعض مخصوص ممالك كيساتھ تجارت كو جائز قرار ديتاہے تو اس نے ايك تو حكومتى حكم '' جعل'' كيا ہے اور دوسرا اسے ايك خاص طريقے سے نافذ كرنے كا حكم ديا ہے_ كيونكہ مباح مصنوعات يا اشياء كى تجارت كو متعددطريقوں

۲۸۶

سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے_ اور اسے مختلف طريقوں سے فروخت كيا جاسكتا ہے _ خاص كيفيت اور موردكا تعيّن ايك حكم كى تنفيذ ميں مداخلت ہے_

حاكم شرع كى تنفيذى دخالت كى دوسرى مثال دو شرعى حكموں ميں تزاحم اور تصادم كا مورد ہے_ معاشرے ميںاجرائے احكام كے وقت بعض اوقات دو شرعى حكموں ميں تصادم ہوجاتا ہے_ اس طرح كہ ايك كو ترجيح دينے كا مطلب دوسرے كو ترك كرنا ہوتاہے _ اس وقت ولى فقيہ اہم مورد كو تشخيص دے كر اہم شرعى حكم كو نافذ كرتا ہے اور دوسرے كو ترك كر ديتا ہے_

موردبحث نكتہ يہ ہے كہ كيا ولى فقيہ كسى اہم شرعى حكم كے بغير بھى كسى دوسرے حكم كے نفاذ كو روك سكتاہے؟ يعنى اگر كسى مورد ميں وجوب يا حرمت كا حكم موجود ہے توكيا اس ميں مصلحت كى صورت ميں ولى فقيہ اس حكم كے برخلاف كوئي دوسرا حكم'' جعل'' كرسكتا ہے؟ مثلا عارضى طور پر مسلمانوں كو حج تمتع سے روك دے؟ يہاں دو مختلف بنيادى نظريے ہيں_ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كے حامى اس سوال كا جواب ہاں ميں ديتے ہيں _ ليكن فقيہ كي'' ولايت مقيّدہ '' كے حامى فقيہ عادل كيلئے اس قسم كے كسى حق كے قائل نہيں ہيں_

فقيہ كى ولايت مقيّدہ كے حامى معتقد ہيں كہ حكومتى حكم كى جگہ وہاں ہے جہاں شريعت كا كوئي الزامى حكم نہ ہو اور يہ كہ حكومتى حكم كے صدور ميں'' ولى فقيہ'' شريعت كے تابع ہے كسى تصادم و تزاحم كے بغير صرف كسى مصلحت كى وجہ سے شريعت كے واجب يا حرام كے برعكس كوئي حكم صادر نہيں كرسكتا _ ان كى نظر ميں حكومتى حكم كا دائرہ غير الزامى احكام يا الزامى احكام_ تزاحم كى صورت ميں _اور يا اس موردتك محدود ہے كہ جس كے متعلق شريعت نے كوئي حكم بيان نہيں كيا ولى فقيہ حكومتى حكم كے ذريعہ اس قانونى خلا كو پر كر سكتا ہے_ يہ سكوت يا شريعت كے حكم اوّلى كا نہ ہونا شريعت كے ناقص ہونے كى وجہ سے نہيں ہے بلكہ اس مورد ميں طبعى تقاضا يہ تھا

۲۸۷

كہ كسى الزامى حكم سے سكوت اختياركيا جائے _ شہيد صدر فرماتے ہيں:

واقعات اور انسانى ضروريات كى متغير حقيقت باعث بنتى ہے كہ ان ميں كوئي حكم وضع نہ كيا جائے البتہ شارع نے اسے مہمل اور بے مہار نہيں چھوڑا ، بلكہ اسلامى حكومت كے سربراہ كو حق ديا ہے كہ وہ اس موقع كى مناسبت سے حكم جعل كرے_(۱)

علامہ طباطبائي بھى فقيہ كى ولايت مقيدہ كے قائل ہيں _ ان كى نظر ميں اسلامى قوانين دو قسم كے ہيں متغير اور ثابت _

اسلام كے ثابت قوانين و احكام انسان كى فطرت ،اور ان خصوصيات كو مدنظر ركھتے ہوئے بنائے گئے ہيں جو بدلتى نہيں ہيں اور انہيں اسلامى شريعت كا نام ديا گيا ہے _ احكام كى دوسرى قسم جو كہ قابل تغير ہے اور زمان و مكان كى مصلحت كے مختلف ہونے سے مختلف ہوجاتے ہيں يہ ولايت عامہ كے آثار كے عنوان سے رسولخدا (ص) ،ائمہ معصومين اور ان كے مقرر كردہ جانشينوںكى را ے سے مربوط ہوتے ہيں اور وہ انہيں دين كے ثابت قوانين اور زمان و مكان كى مصلحت كے پيش نظر تشخيص ديتے ہيں اور جارى كرتے ہيں _ البتہ اصطلاحى لحاظ سے اس قسم كے قوانين دينى اور شرعى احكام ميں شمار نہيں ہوتے_ ثقافت اور لوگوں كى معاشرتى زندگى كى پيشرفت اور ارتقاء كے لئے ولى امر جو قوانين وضع كرتا ہے واجب الاجرا ہونے كے باوجود وہ شريعت اور حكم الہى كے زمرہ ميں نہيں آتے اس قسم كے قوانين كا اعتبار اس مصلحت كے تابع ہے جو ان كے وضع كرنے كا باعث بنى ہے_ ليكن احكام الہى جو كہ عين شريعت ہيں ہميشہ ثابت رہتے ہيں اور كوئي بھى حتى كہ ولى امر بھى يہ حق نہيں ركھتا كہ وقتى مصلحت كى وجہ سے انہيں تبديل يا لغو كردے(۲)

____________________

۱) اقتصادنا ،شہيد محمد باقر صدر، ص ۷۲۱_

۲) فرازہاى از اسلام، ص ۷۱ _ ۸۰_

۲۸۸

اس نظريہ كے مقابلہ ميں كہ جو فقيہ كى ولايت عامہ كو شرعى احكام ميں محدود قرار ديتاہے امام خميني، فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كا دفاع كرتے ہيں _

اس نظريہ كے مطابق شريعت كے الزامى احكام بھى حكومتى حكم كے صدور ميں ركاوٹ نہيں بن سكتے _ اورفقيہ كى ولايت شريعت كے حصارميں محدود اور منحصر نہيں ہے_ اگر اسلامى نظام اور مسلمانوں كى مصلحت كا تقاضا ہو، تو جب تك يہ مصلحت ہے _جو كہ سب سے اہم مصلحت ہے_ فقيہ وقتى طور پر حكومتى حكم صادر كرسكتاہے اگر چہ وہ حكم شريعت كے كسى الزامى حكم كے منافى ہى كيوں نہ ہو_

پس شرعى احكام كے لحاظ سے فقيہ كى ولايت محدود اور مقيد نہيں ہے بلكہ مطلق ہے _ اس نظريہ كا سرچشمہ اور بنياد يہ ہے كہ امام خمينى كى نظر ميں'' حكومت'' اسلام كے احكام اوليہ ميں سے ہے اور نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام اوليہ پر مقدم ہے _

حكومت يا ''ولايت مطلقہ'' جو كہ اللہ تعالى كى طرف سے آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي ہے اہم ترين حكم الہى ہے اور خدا كے تمام احكام فرعيہ پر مقدم ہے _ اگر حكومتى اختيارات احكام فرعيہ الہيہ ميں محدودہوجائيں تو آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي حكومت الہى اور ولايت مطلقہ ايك كھوكھلى سى چيز بن كر رہ جائے گى _ حكومت ہر اس عبادى يا غير عبادى امر كو اس وقت تك روك سكتى ہے جب تك اس كا اجرا مصلحت اسلام كے منافى ہو(۱)

حكومتى حكم كا صدور، حفظ نظام كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے _ امام خمينى كى نظر ميں اگر حفظ نظام كى مصلحت اس حد تك پہنچ جائے كہ ولى فقيہ كى نظر ميں وہ شريعت كے كسي'' حكم اولي'' كے ساتھ ٹكرارہى ہے تو ہميشہ حفظ نظام كى مصلحت مقدم رہے گي_ اور اس شرعى حكم كے ملاك اور مصلحت سے اہم قرار پائے گى اورولي

____________________

۱) صحيفہ نور، جلد ۲۰ صفحہ ۱۷۰_

۲۸۹

فقيہ كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ اس مصلحت پر عمل كرے او رجب تك وہ مصلحت باقى ہے اہم كو مہم پر ترجيح دے_

آخر ميں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ اگر چہ اسلامى جمہوريہ ايران كے قانون اساسى كى شق ۱۱۰ ميں ''ولى فقيہ ''كے وظائف اور اختيارات ذكر كئے گئے ہيں ليكن فقيہ كى ''ولايت مطلقہ'' كو ديكھتے ہوئے اس كے اختيارات ان امور ميں محدود نہيں ہيں بلكہ اس كے اختيارات كا دائرہ اسلامى معاشرہ كے مصالح كى بنياد پر ہوگا_

۲۹۰

خلاصہ:

۱) امام خمينى حكومت اور اسلامى نظام كو اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں _

۲) ان كى نظر ميں حكومت ،فقہ كے اجزا ميں سے نہيں ہے_ بلكہ تمام كى تمام فقہ نظام مسلمين كى حفاظت كيلئے ہے_ اسى لئے اسلامى حكومت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے _

۳) اس بناپر حكومتى حكم كا صدور كسى ثانوى عنوان كے محقق ہونے پر موقوف نہيں ہے_

۴) امام خمينى انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں احتياط كى بناپرحكومتى اورظاہر شريعت كے منافى حكم كو ثانوى عناوين كے ساتھ مربوط سمجھتے تھے_

۵) فقيہ كى ولايت مطلقہ كى بحث براہ راست حكومتى حكم كے صدور كى بحث كے ساتھ منسلك ہے _

۶) فقيہ كى ولايت مطلقہ اور سياسى فلسفہ ميں موجود حكومت مطلقہ كو ايك جيسا قرار نہيں ديا جاسكتا_

۷) فتوى كے برعكس حكومتى حكم ميں جعل و انشاء اور تنفيذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _

۸) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا لازمہ يہ ہے كہ اگر مصلحت كا تقاضا ہو تو فقيہ عادل شريعت كے الزامى حكم يعنى وجوب و حرمت كے منافى حكم بھى صادر كرسكتاہے_

۹) فقيہ كى ولايت مقيدہ كا معنى يہ ہے كہ فقيہ، فقط شريعت كے غير الزامى احكام كے مقابلہ ميں حكومتى حكم صادر كرسكتاہے _ اس كى ولايت، شريعت كے الزامى احكام كے عدم وجود كے ساتھ مشروط ہے _

۱۰ ) امام خمينى كى نظر ميں جب حفظ نظام كى مصلحت كسى شرعى حكم كى مصلحت كے ساتھ ٹكرا جائے تو حفظ نظام كى مصلحت اہم اور مقدم ہے _

۲۹۱

سوالات:

۱) حكومت كے مقام اور احكام شريعت كے ساتھ اس كے رابطہ كے متعلق امام خميني كا نظريہ كيا ہے ؟

۲) فقيہ كى ولايت مطلقہ سے كيا مراد ہے ؟

۳) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا حكومت مطلقہ كى بحث سے كيا تعلق ہے ؟

۴) فقيہ كى ولايت مقيدہ سے كيا مراد ہے ؟

۵) جب حفظ نظام كى مصلحت ، شريعت كے احكام اوليہ كے ملاكات سے ٹكرا جائے تو كيا كرنا چاہيے؟

۲۹۲

انتيسواں سبق :

دينى حكومت كے اہداف اور فرائض -۱-

كسى سياسى نظام كے دوسرے سياسى نظاموں سے امتياز كى ايك وجہ وہ فرائض ، اختيارات اور اہداف ہيںجو اس كے پيش نظر ہيں _ مختلف مكا تب اور سياسى نظام اپنى حكومت كيلئے مختلف اہداف اور فرائض قرار ديتے ہيں _ اگر چہ بہت سے اہداف مشترك ہوتے ہيں مثلاً امن عامہ كا برقرار كرنا اور دشمن كے تجاوز اور رخنہ اندازى سے خود كو محفوظ ركھنا ايسے اہداف ہيں كہ جنہيںتمام سياسى نظاموں نے اپنے اپنے ذوق و سليقہ كے مطابق اپنے اوپر فرض قرار دے ركھاہے _

آج سياسى ماہرين اور مفكرين كے در ميان حكومت كے فرائض اور اختيارات كے متعلق بڑى سنجيدہ بحثيں ہو رہى ہيں _ بعض سياسى نظريات'' حكومت حداقل'' كا دفاع كرتے ہيں _ ان سياسى فلسفوںكا عمومى اعتقاد يہ ہے كہ جتنا ممكن ہو سكے حكومت مختلف امور ميں كم سے كم مد اخلت كيا كرے_ انيسويں صدى كے كلاسيكى اور آج كے نيولبرل ازم ( New Liberalism ) اقتصادى لحاظ سے بازار تجارت ميں حكومت كى كمترين مداخلت كے قائل ہيں انكا نظريہ يہ ہے كہ بازار ميں موجود كارو بار و تجارت ميں حكومت كى عدم مداخلت سے

۲۹۳

اقتصادى توازن بر قرار رہے گا _اور حكومت كى مداخلت آزاد تجارت كے نظم و نسق كو در ہم بر ہم كردے گى _ اس كے مقابلہ ميں سو شلزم كى طرف مائل افراديہ چاہتے ہيں كہ حكومت براہ راست اقتصادى امور ميں مداخلت كرے حتى كہ تمام اقتصادى مراكز حكومت كے ہاتھ ميں ہونے چاہئيں_ اس نظريہ كى ہلكى سى جھلك لبرل ازم كى تاريخ كے ايك مختصر دور ميں دكھائي ديتى ہے _جديد لبرل ازم جو كہ بيسويں صدى كے اوائل سے ليكر ۱۹۷۰ تك رہا ہے رفاہى رياست (۱) كا خواہاں ہے _ وہ چاہتاہے كہ حكومت آزاد تجارت ميں مداخلت كرے تا كہ ايك طرف بازار رونق پكڑے اور دوسرى طرف آسيب پذير طبقے كا دفاع ہو اور معاشرتى اور اجتماعى امور پر كوئي زد نہ پڑے _

اقتصاد سے ہٹ كر سياسى فلسفہ كى ايك اہم ترين بحث يہ بھى ہے كہ سعادت ، اخلاقيات اور معنويات ميں حكومت كا كيا كردار ہے _ اور ان كے ارتقاء كے سلسلہ ميں حكومت كے كيا فرائض ہيں ؟كيا عوام كى سعادت اور نجات بھى حكومت كے اہداف اور فرائض ميں سے ہے؟

ماضى ميں بھى بہت سے سياسى فلسفے خير و سعادت پر گہرى نگاہ ركھتے تھے _سياسى ماہرين اپنے سياسى نظاموں كو خير و سعادت كى بنياد پر متعارف كرواتے تھے اورخيرو سعادت كى جو مخصوص تعريف كرتے تھے اسى لحاظ سے اپنے اہداف اور دستور العمل كو متعين كرتے تھے _آخرى دو صديوں ميں ہم نے ايسے ايسے سياسى نظريات ديكھے ہيں جو اس سلسلہ ميں حكومت كے كردار اور فرائض كوبالكل نظر انداز كرتے ہيں ان نئے نظريات كى بنياد پر خير و سعادت جيسے امور حكومت كے فرائض و اہداف سے خارج ہيں_ حكومت كا كام فقط امن وامان اور رفاہ عامہ كے متعلق سو چناہے _ اور اسے چاہيے كہ خيروسعادت ، اور اخلاق و معنويت جيسے امور خود عوام اور معاشرے كے افراد كے حوالہ كردے_

____________________

۱) Welfare State .

۲۹۴

لبرل ازم اس نظريہ كى سخت حمايت كرتا ہے كہ اس قسم كے امور عوام كے ساتھ مربوط ہيں لہذا ان امور ميں حكومت كسى قسم كى مداخلت نہيں كر سكتى ، بلكہ اس قسم كے مسائل ميں مداخلت لوگوں كے ذاتى مسائل ميں مداخلت ہے اور ان كے حقوق اور ان كى شخصى آزادى كو سلب كرنے كے مترادف ہے_ حكومت كو اپنے فرائض عوامى حقوق اور شخصى آزادى كو ملحوظ خاطر ركھ كر انجام دينے چاہيں_ لبرل نظريات كے حامى افراد كى نظر ميں ''حقوق بشر كا عالمى منشور'' جو كہ لبرل نظريات كے اصولوں كى بنياد پر بنايا گياہے، حكومت كے اہداف و فرائض متعين كرنے كيلئے انتہائي مناسب راہنماہے حكومت كو اسى كا دفاع كرنا ہے اور اسے امن وامان برقرار ركھنے ، شخصى مالكيت كى حفاظت، ثقافتى ، مذہبى اور اقتصادى آزادى كيلئے كوشش كر نى چاہيے _ خير و سعادت اور اخلاقيات كو خود عوام كے سپرد كرد ے تا كہ ہر شخص اپنى مرضى كى خير و سعادت كے متعلق اپنے مخصوص نظر يہ كے مطابق زندگى گزار سكے_

ا س تمہيد كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ ديكھنا ہے كہ اسلام كن اہداف اور فرائض كو حكومت كے كندھوں پر ڈالتا ہے _حكومت كے متعلق اسلام كا نظر يہ كيا ہے ،اور اس كيلئے كس مقام كا قائل ہے ؟

ہم اس تحقيق كو تين مرحلوں ميں انجام ديں گے ، پہلے حكومت اور اس كے مقام كے متعلق اسلامى نظر يہ كى تحقيق كريں گے _پھر دينى حكومت كے اہداف پر ايك نگاہ ڈاليں گے اور آخر ميں اسلامى سربراہوں كے جزئي وظائف اور فرائض كى طرف اشارہ كريں گے _

حقيقت حكومت از نظر اسلام

دوسرے باب ميں ''اسلام كى نظر ميں امامت اور سياسى قيادت كے مقام و مرتبہ'' كے متعلق ہم تفصيلى گفتگو كر چكے ہيں _يہاں حقيقت و ماہيت كے متعلق بحث سے ہمارى يہ مراد نہيں ہے كہ ہم نئے سرے سے اس كى

۲۹۵

اہميت كا تذكرہ كرنا چاہتے ہيں _ بلكہ يہاں ہم يہ جاننا چاہتے ہيں كہ حكومت كو اسلام كس نگاہ سے ديكھتاہے اور اس كے نزديك اس كى ماہيت اور حقيقت كيا ہے ؟

آيات و روايات كى طرف رجوع كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اسلام كى نگاہ ميں حكومت اور دنيوى مقامات و مناصب بذات خود كوئي اہميت و كمال نہيں ركھتے، ''حكومت'' ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كا نام ہے _ اس ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كيلئے اہليت ، صلاحيت اور انفرادى كمالات كى ضرورت ہے -_ اسى وجہ سے اسلامى معاشرہ كے حاكم كيلئے مخصوص خصوصيات اور شرائط كا لحاظ ركھا گيا ہے - _اسلام كى نگاہ ميں ہر قسم كا اجتماعى منصب خصوصاًحكومت اور امارت ايك الہى امانت ہے لہذا اسے كوئي كمال شمار نہيں كيا جاتا -_ سورہ نساء كى آيت ۵۸ ميں ارشاد خداوندى ہے:

( ''إنَّ الله َ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمَانَات إلَى أَهلهَا وَإذَا حَكَمتُم بَينَ النَّاس أَن تَحكُمُوا بالعَدل إنَّ الله َ نعمَّا يَعظُكُم به إنَّ الله َ كَانَ سَميعا بَصيرا'' ) (۵۸)

يقينا خدا تمہيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچا دو اور جب لوگوں كے درميان كوئي فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _ خدا تمھيں بہترين نصيحت كرتا ہے بے شك خدا سننے والا اور ديكھنے والا ہے_

حضرت اميرالمومنين آذربايجان ميں لشكر اسلام كے سپہ سالار اشعث ابن قيس كو ايك خط ميں تاكيد كرتے ہيں كہ حكومت اور امارت تيرے لئے ايك لذيذ لقمہ نہيں ہے كہ تو اس سے لطف اندوز ہو -_ بلكہ ايك بار امانت ہے جسكا تجھے جواب دينا ہے _ بيت المال در حقيقت خدا كا مال ہے _ لہذا اس كيلئے امانتدار محافظ بنو_

۲۹۶

انّ عملك ليس لك بطعمة ، و لكنّه ف عْنقك أمانة ، و أنت مسترعى لمَن فوقك ليس لك أن تفتات ف رعيّة ، و لا تخاطر إلّا بوثيقة ، و ف يديك مال من مال الله (عزّوجلّ) و أنت من خْزّانة حتى تسلّمه إلّ (۱)

يہ امارت تيرے لئے روزى كا وسيلہ نہيں ہے- بلكہ تيرى گردن ميں امانت (كا طوق) ہے تمہارے لئے ضرورى ہے كہ اپنے فرمانروا اور امام كى اطاعت كرو، اور تمہيں يہ حق حاصل نہيں ہے كہ اپنى رعيت كے معاملہ ميں جو چاہو كر گزر و خبردار كسى مضبوط دليل كے بغير كوئي اہم قدم مت اٹھانا اور تيرے ہاتھ ميں خدا كا مال ہے تو اس كا ايك محافظ ہے يہاں تك كہ اسے ميرے پاس پہنچا دے

اپنے ايك اور عامل كے نام لكھے گئے خط ميں مقام و منصب سے غلط اور ناجائز فائدہ اٹھانے كو امانت الہى ميں خيانت كے مترادف قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

''فَقَد بلغنى عنك أمر إن كنت فعلته فقد أسخطت ربّك و عصيت إمامك و أخزيتَ أمانتك '' (۲)

تمھارے متعلق مجھے ايك اطلاع ملى ہے _ اگر واقعاً تونے ايسا كيا ہے تو پھر تو نے اپنے رب كو غضبناك كيا ہے، اپنے امام كى نافرمانى كى ہے اور اپنى امانت كو رسوا كيا ہے _

حضرت اميرالمومنين حكومت اور اسكے منصب كو ايك امانت سمجھتے ہيں اور اس ميں خيانت كرنے كو بارگارہ پروردگار ميں ذلت و رسوائي كا باعث قرار ديتے ہيں_ اسلامى نقطہ نظر سے حكومتى اہلكار، خدا كى بارگاہ

____________________

۱) نہج البلاغہ ،مكتوب ۵_

۲) نہج البلاغہ ، مكتوب ۴۰_

۲۹۷

ميں اس امانت الہى كے سلسلہ ميں جوابدہ ہيں جو انہوں نے اپنے كندھوں پر اٹھا ركھى ہے _ اہواز كے قاضى ''رفاعہ'' كو لكھتے ہيں :

''اعلم يا رفاعة انّ هذه الامارة امانة فَمَنْ جعلها خيانة فعليه لعنة الله الى يوم القيامة و من استعمل خائنا فان محمد (ص) برى منه فى الدنيا والاخرة'' (۱)

اے رفاعہ جان لو كہ يہ امارت ايك امانت ہے جس نے اس ميں خيانت كى اس پر قيامت تك خدا كى لعنت ہے _اور جو كسى خائن كو عامل بنائے رسولخدا (ص) دنيا و آخرت ميں اس سے برى الذمہ ہيں_-

جلال الدين سيوطى اپنى تفسير ميں حضرت على سے يوں نقل كرتے ہيں :

''حقّ على الإمام أن يحكم بما أنزل اللّه و أن يؤدّ الأمانة ، فإذا فعل ذلك فحقّ على النّاس أن يسمعوا له و أن يطيعوا ، و أن يجيبوا إذا دعوا'' (۲)

امام كيلئے ضرورى ہے كہ وہ خدا كے احكام كے مطابق فيصلے كرے اور امانت كو ادا كرے _ پس جب وہ ايسا كرے تو لوگوں پر واجب ہے كہ اس كى بات سنيں اس كى اطاعت كريں اور جب وہ بلائے تو لبيك كہيں_

حكومت بذات خود كوئي معنوى حيثيت نہيں ركھتي_ اور نہ ہى حاكم كيلئے كوئي كمال شمار ہوتا ہے_ مگر يہ كہ وہ اس سياسى اقتدار كے ذريعہ اس ذمہ دارى اور امانت الہى كو صحيح طور پر ادا كرے_

عبدالله ابن عباس كہتے ہيں كہ بصرہ كى طرف جا تے ہوئے '' ذى قار'' نامى ايك جگہ پر ميں اميرالمومنين كے پاس گيا _ وہ اپنے جوتے كو ٹانكا لگا رہے تھے _ مجھ سے پوچھتے ہيں اس جوتے كى قيمت كيا ہے ؟ ميں نے جواب ديا: كچھ بھى نہيںتو آپ نے فرمايا :

____________________

۱) دعائم الاسلام، ج ۲ ، ص ۵۳۱_

۲) الدر المنثور ،ج ۲ ، ص ۱۷۵_

۲۹۸

''واللّه له أحبّ إلّ من إمرتكم ، إلّا أن أْقيم حقّا أو أدفع باطلا'' (۱)

خدا كى قسم ميں اسے تم پر حكومت كرنے سے زيادہ پسند كرتا ہوں _ مگر يہ كہ حق كو قائم كروں اور باطل كو دور كردوں _

بنابريں حكومت اور قيادت اس وقت اہميت ركھتے ہيں جب اس كے اہداف عملى شكل اختيار كرليں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كى تمام تر كوشش ان اہداف كو پورا كرنے كيلئے ہو _

دينى حكومت كے اہداف :

دينى منابع كى طرف رجوع كرنے سے يہ حقيقت عياں ہوجاتى ہے كہ اسلام ،حكومت كے اہداف كو رفاہ عامہ اور امن وامان برقرار كرنے ميں محدود نہيں كرتا _ بلكہ اسلامى معاشرہ كى خير و سعادت اور معنويات سے مربوط امور كو بھى حاكميت كے دستورالعمل ميں سے قرار ديتا ہے دينى حكومت كيلئے ضرورى ہے كہ وہ معاشرے كو ايمان اور اخلاق سے لبريز زندگى فراہم كرئے اور رفاہ عامہ كے ساتھ ساتھ دينى ثقافت اور الہى پيغامات كے فروغ پر بھى زور دے _ دينى حكومت كے اہداف كو بيان كرنے والى بعض آيات اور روايات كى مدد سے ہم ان اہداف ميں سے بعض كى طرف اشارہ كريں گے _ كلى طور پر ہم ان اہداف كو دو بنيادى حصوں ميں تقسيم كرسكتے ہيں _ ايك حصہ معنوى اہداف پر مشتمل ہے اور دوسرا دنيوى اہداف پر_ دينى حكومت كے دنيوى اہداف ايسے امور پر مشتمل ہيں جو بڑى حد تك غير دينى حكومتوں كے بھى مورد نظر ہوتے ہيں _ جبكہ دينى حكومت كے معنوى اہداف وہ امور ہيں جو فقط اسلامى حكومت كے ساتھ مخصوص ہيں اوراسلامى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے ممتاز كرتے ہيں_ دينى حكومت كى خصوصيت وہ عہد و پيمان ہے جو ان اہداف كو پورا كرتا ہے _

____________________

۱) نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۳ _ارشاد مفيد ،ج ۱، ص ۲۴۷ميں يہى حديث مختصر سے فرق كے ساتھ بيان كى گئي ہے _

۲۹۹

الف: معنوى اہداف

دينى حكومت كے معنوى اہداف سے مراد وہ كوششيں ہيں جو معاشرے كى فطرت الہى كے مطابق رشد و ترقى كى خاطر سازگار ماحول فراہم كرنے كيلئے كى جاتى ہيں_ ان ميں سے بعض كا تعلق تہذيب و ثقافت اور صحيح مذہبى پروپيگنڈے سے ہے _ اور بعض احكام شريعت اور حدود الہى كے نفاذ اور آلودگى و تباہى سے معاشرہ كو محفوظ ركھنے كے ساتھ تعلق ركھتے ہيں _ يہاں پر ہم ان آيات و روايات كو بطور نمونہ پيش كرتے ہيں جو دينى حكومت كے معنوى اہداف كو بيان كرتى ہيں _ پھر ان اہداف كى فہرست بندى كريں گے _

جو لوگ زمين پراقتدار حاصل كرليتے ہيں، اللہ تعالى ان كے ليئے كچھ مخصوص فرائض بيان كرتاہے_

مثلا نماز كا قائم كرنا ، نيكى كا حكم دينا اور برائي سے روكنا _سورہ حج كى آيت ۴۱ ميں ارشاد خداوندى ہے_

( ''الذين ان مَكّنا هم فى الارض أقاموا الصلوة و آتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الامور ) _''

يہ وہ لوگ ہيں اگرہم انہيں زمين ميں اختيار ديں تو وہ نماز قائم كريں گے اور زكوة ادا كريں گے ، نيكى كا حكم ديں گے اور برائي سے منع كريں گے _ اور يقينا تمام امور كا انجام خدا كے اختيار ميں ہے_

معاشرتى عدل و انصاف پر اسلام نے بہت زيادہ زور ديا ہے _ يہاں تك كہ اسے دينى حكومت كے بنيادى اہداف ميں شمار كيا ہے _سورہ نحل كى آيت ۹۰ ميں ارشاد ہوتاہے:

( ''ان الله يأمر بالعدل والاحسان'' )

يقينا خدا عدل و انصاف اور نيكى كا حكم ديتا ہے _

سورہ شورى كى آيت ۱۵ ميں ارشاد ہے :

''( اُمرت لاعدل بينكم'' )

مجھے حكم ملاہے كہ تمھارے در ميان انصاف كروں_

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367