اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143960 / ڈاؤنلوڈ: 3622
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

زيادہ نہ ہوں تو اس پرحج كيلئے انہيں بيچنا واجب نہيں ہے اور وہ مستطيع نہيں ہوگي_

س ۳۶: ايك عورت حج كيلئے استطاعت ركھتى ہے ليكن اس كا شوہر اسے اسكى اجازت نہيں ديتا تو اسكى ذمہ دارى كيا ہے ؟_

ج: واجب حج ميں شوہر كى اجازت معتبر نہيں ہے ہاں اگر شوہر كى اجازت كے بغير حج پر جانے سے عورت حرج ميں مبتلا ہوتى ہو تو وہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے_

س ۳۷: اگر شادى كے عقد كے وقت ميرے شوہر نے مجھے حج كرانے كا وعدہ ديا ہو تو كيا ميرے ذمے ميں حج مستقر ہوجائيگا؟

ج: صرف اس سے حج ذمے ميں مستقر نہيں ہوتا_

س ۳۸: كيا حج كى استطاعت حاصل كرنے كيلئے ضروريات زندگى ميں تنگى

۲۰۱

لانا جائز ہے ؟

ج: يہ جائز ہے ليكن شرعا واجب نہيں ہے البتہ يہ تب ہے جب تنگى اپنے آپ پر كرے ليكن جن اہل و عيال كا خرچ اس پر واجب ہے ان پر معمول كى حد سے تنگى كرنا جائز نہيں ہے_

س ۳۹:ماضى ميں ميرى طرف سے دين كى پابندى اور اس كا اہتمام كوئي اچھا نہيں تھا اور ميرے پاس اتنا مال تھاجو سفر حج كيلئے كافى تھا ( يعنى ميں مستطيع تھا) ليكن اپنى اس حالت كيوجہ سے ميں حج پر نہيں گيا تو اس وقت ميرے لئے كيا حكم ہے؟جبكہ اس وقت ميرے پاس لازمى رقم نہيں ہے _ جيسا كہ اسكے دو راستے ہيں ايك ادارہ حج ميں نام لكھوا كر اور ايك دوسرا راستہ كہ جس ميں زحمت زيادہ ہے تو كيا حكومت كے ہاں نام لكھوا دينا كافى ہے ؟

ج: اگر آپ ماضى ميں مستطيع تھے اور فريضہ حج كى ادائيگى

۲۰۲

كيلئے سفر پر قادر تھے اسكے باوجود آپ نے حج كو مؤخر كيا تو آپ پر حج مستقر ہوچكاہے اور آپ پر ہر جائز اور ممكن طريقے سے حج پر جانا واجب ہے البتہ جبتك عسر وحرج نہ ہو اور اگر آپ سب جہات سے مستطيع نہيں تھے تو سوال كى مفروضہ صورت ميں آپ پر حج واجب نہيں ہے_

س ۴۰: جب مسجدالحرام خون يا پيشاب كے ساتھ نجس ہوجاتى ہے تو جو لوگ اسے پاك كرنے پر مامور ہيں وہ ايسے طريقے كو استعمال كرتے ہيں جو پاك نہيں كرتا تو رطوبت ہونے يا نہ ہونے كى صورت ميں مسجد كى زمين پر نماز پڑھنے كا كيا حكم ہے ؟

ج: جبتك سجدے والى جگہ كے نجس ہونے كا علم نہ ہو نماز پڑھنے ميں كوئي حرج نہيں ہے _

س ۴۱: كيا مسجد نبوى ميں جائے نماز پر سجدہ كرنا صحيح ہے؟ بالخصوص روضہ

۲۰۳

شريفہ ميں كہ جہاں كوئي ايسى چيز ركھنا جس پر سجدہ كرنا صحيح ہے _جيسے كاغذ يادرخت كى شاخوں سے بنى ہوئي جائے نماز _توجہ كو جذب كرتاہے اور نمازى لوگوں كى نظروں كا نشانہ بنتاہے جيسے كہ اس سے مخالفين كو مذاق اڑانے كا بھى موقع ملتاہے_

ج: كسى ايسى چيز كا ركھنا كہ جس پر سجدہ صحيح ہے اگر تقيہ كے خلاف ہو تو جائز نہيں ہے اور اس پر واجب ہے كہ ايسى جگہ كا انتخاب كرے كہ جس ميں مسجد كے پتھروں پريا كسى ايسى چيز پر سجدہ كرسكے كہ جس پر سجدہ كرنا صحيح ہے البتہ اگر اس كيلئے يہ ممكن ہو ورنہ تقيةً اسى جائے نماز پر سجدہ كرے_

س ۴۲: اذان و اقامت كے وقت دو مسجدوںسے نكلنے كا كيا حكم ہے جبكہ اہل سنت برادران انكى طرف جارہے ہوتے ہيں اور اس وقت ہمارے نكلنے كے بارے ميں باتيں كررہے ہوتے ہيں ؟

ج: اگر دوسروں كى نظر ميں يہ كام نماز كو اسكے اول وقت

۲۰۴

ميں قائم كرنے كو ہلكا سمجھنا شمار ہوتاہو تو جائز نہيں ہے بالخصوص اگر اس ميں مذہب پر عيب لگتاہو_

س ۴۳: ايك شخص اپنے شہر پلٹنے كے بعد متوجہ ہوتاہے كہ عمل كے دور ان اس كا احرام نجس تھا تو كيا وہ احرام سے خارج ہے يانہيں ؟

ج: اگر وہ موضوع يعنى عمل كى حالت ميں اپنے احرام ميں نجاست كے وجود سے جاہل ہو تو وہ احرام سے خارج ہے اور اس كا طواف اور حج صحيح ہے ؟

س ۴۴: جسمكلفنے كسى كو نائب بنايا ہو كہ اسكى طرف سے قربانى كرے تو كيا نائب كے پلٹنے اور اسكے يہ خبر دينے سے پہلے كہ قربانى ہوچكى ہے اس كيلئے تقصير يا حلق كرنا جائز ہے ؟

ج: اس پر واجب ہے كہ انتظار كرے يہاں تك كہ نائب كى طرف سے قربانى ہوجانے كا انكشاف ہوجائے ليكن

۲۰۵

اگر حلق يا تقصير ميں جلدى كرے اور اتفاقاً يہ نائب كى طرف سے قربانى ہو جانے سے پہلے ہو تو اس كا عمل صحيح ہے اور اس پر اعادہ واجب نہيں ہے _

س۴۵: جس مكلف نے اپنى طرف سے قربانى كرنے كيلئے كسى كو نائب بنايا ہوا ہے كيا اس كيلئے نائب كى طرف سے اسے ذبح كرنے كى خبر پہنچنے سے پہلے سونا جائز ہے ؟

ج: اس سے كوئي مانع نہيں ہے _

س۴۶: موجودہ دور ميں منى ميں قربانى كو ذبح كرنا ممكن نہيں ہے بلكہ اس كيلئے انہوں نے منى سے باہر ليكن منى كے قريب ہى ايك جگہ معين كرركھى ہے اور دوسرى جانب سے قربانى كے جانور كہ جن كيلئے بڑى رقوم خرچ كى جاتى ہيں كہاجاتاہے كہ ان كاگوشت وہيں پھينك دياجاتاہے اور وہ گل سٹر كر ضائع ہوجاتاہے جبكہ اگر انہيں ديگر ممالك ميں ذبح كيا جائے تو ان كا

۲۰۶

گوشت ضرورت مند فقرا كو ديا جاسكتاہے تو كيا حاجى كيلئے جائز ہے كہ وہ اپنے ملك ميں قربانى كرے اور كسى كے ساتھ طے كرلے كہ وہ اسكى طرف سے قربانى كردے يا ديگر ممالك ميں اور ٹيليفون كے ذريعے قربانى كرلے يا اسے مقررہ جگہ پر ہى ذبح كرنا واجب ہے اور كيا اس مسئلہ ميں اس مرجع كى طرف رجوع كرنا جائز ہے جو اسكى اجازت ديتاہے جيسے كے بعض بزرگ فقہاء سے يہ منقول ہے ؟

ج: يہ كام جائز نہيں ہے اور قربانى صرف منى ميں ہوسكتى ہے اور اگر يہ ممكن نہ ہو توجہاں اس وقت قربانى كى جاتى ہے وہيںكى جائيگى تا كہ قربانى كے شعائر كى حفاظت كى جاسكے كيونكہ قربانى شعائر اللہ ميں سے ہے _

س ۴۷: اگر حكومت منى كے اندر قربانى كرنے پر پابندى لگادے تو كيا حجاج كيلئے مكہ مكرمہ سے باہر قربانى كرنا جائز ہے اور كيا مكہ كے اندر قربانى كرنا كافى ہے ؟

۲۰۷

ج: حج كى قربانى كافى نہيں ہے مگر منى ميں ہاں اگر اس ميں قربانى كرنے پر پابندى لگ جائے تو اس كيلئے جو جگہ تيار كى گئي ہے وہاں قربانى كرنا كافى ہے جيسے كہ اس صورت ميں مكہ كے اندر قربانى كرنا بھى كافى ہے ليكن اگر قربانى كى جگہ كا منى سے فاصلہ اتنا ہى ہو جتنا اس جگہ كا ہے جو قربانى كيلئے تيار كى گئي ہے يا اس سے كم ہو_

۴۸: ايسے خيراتى ادارے موجود ہيں جو حاجى كى نيابت ميں قربانى كرتے ہيں اور پھر اسے ضرورتمند فقرا كے حوالے كرديتے ہيں اس سلسلے ميں راہبر معظم كى رائے كيا ہے اور كيا جناب عالى كى نظر ميں اسكى شرائط ہيں ؟

ج: قربانى كى ان شرائط كا احراز كرنا ضرورى ہے كہ جو مناسك ميں ذكر ہوچكى ہيں _

س ۴۹: كيا قربانى كو ذبح كرنے كے بعد اسے ان خيراتى اداروں كو دينا

۲۰۸

جائز ہے جو اسے فقرا تك پہنچاتے ہيں ؟

ج: اس ميں كوئي حرج نہيں ہے _

س ۵۰: صفا و مروہ كے درميان سعى كرتے وقت صفا و مروہ كے پہاڑوں كے پاس لوگوں كى بڑى تعداد جمع ہوجاتى ہے جو سعى كرنے والوں كى بھيڑ كا سبب بنتى ہے تو كيا سعى كرنے والے پر واجب ہے كہ وہ ہر چكر ميں خود پہاڑ تك جائے يا سنگ مر مر سے بنى ہوئي پہلى بلندى كافى ہے كہ جو چلنے سے عاجز لوگوں كے راستے كے ختم ہونے كے ساتھ شروع ہوتى ہے ؟

ج: اس حد تك چڑھنا كافى ہے كہ جسكے ساتھ يہ صدق كرے كہ يہ پہاڑ تك پہنچاہے اور اس نے دو پہاڑوں كے درميان كے پورے فاصلے كى سعى كى ہے _

س ۵۱: كيا عمرہ مفردہ اور حج تمتع كيلئے ايك طواف النساء كافى ہے ؟

ج: عمرہ مفردہ اور حج تمتع ميں سے ہر ايك كيلئے الگ

۲۰۹

طواف النساء ہے پس ايك طواف دو طواف سے كافى نہيں ہے ہاں مُحل ہونے كيلئے ايك طواف كا كافى ہونا بعيد نہيں ہے_

س ۵۲: جو شخص بارہويں كى رات منى ميں بسر كرے اور آدھى رات كے بعد كوچ كرے تو كيا اس پر واجب ہے كہ زوال سے پہلے اسكى طرف واپس پلٹ آئے تا كہ يہ بھى وہ كو چ كرسكے جو وہاں پر موجود لوگوں كيلئے زوال كے بعد واجب ہوتاہے اور اس بات سے كوئي مانع ہے كہ وہ صبح كے وقت منى آكر جمرات كو كنكرياں مارلے پھر مكہ پلٹ جائے يا اس پر وہيں رہنا واجب ہے ؟ بالخصوص جب وہ اپنے اختيار كے ساتھ ظہر كے بعد جمرات كو كنكرياں مارنے اور مغرب سے پہلے منى سے نكلنے پر قادرہے_

ج : جو شخص منى ميں ہے اس پر واجب ہے كہ زوال كے بعد كوچ كرے اگر چہ اس طرح كے زوال كے بعد جمرات

۲۱۰

كو كنكرياں مارنے كيلئے مكہ سے آجائے اور كنكرياں مارنے كے بعد غروب سے پہلے كوچ كرجائے پس آدھى رات كے بعد مكہ جانا جائز ہے ليكن كنكرياں مارنے كيلئے بارہويں كے دن پلٹ آئيگا اور زوال كے بعد كوچ كرےگا_

س ۵۳: آيت اللہ گلپايگانى (قدس سرہ) كے اعمال حج كى كتاب ميں اعمال حج سے متعلقہ بہت سارے مستحبات مذكور ہيں _ ان مستحبات پر عمل كرنے كے سلسلے ميں جناب كى كيا رائے ہے؟

ج: قصد رجاء كے ساتھ ان پر عمل كرنے ميں كوئي حرج نہيں ہے_

س ۵۴: كيا اس آب زمزم سے وضو كرنا جائز ہے جو پينے كيلئے مخصوص ہے_

ج: مشكل ہے اور احتياط كى رعايت كرنا ضرورى ہے _

دعای عرفه

اس کتاب کے صفحہ ۲۱۹ سے ۲۴۷ تک دعا عرفہ ہے

۲۱۱

فہرست

مقدمہ: ۷

وجوب حج كے منكر اور تارك حج كا حكم ۸

حج كى اقسام: ۹

نيز حج كى تين قسميں ہيں تمتع ، افراد ، قران ۱۰

باب اول: ۱۱

حَجة الاسلام اورنيابتى حج كے بارے ميں ۱۱

فصل اول : حجة الاسلام ۱۲

حجة الاسلام كے وجوب كے شرائط ۱۳

پہلى شرط : ۱۳

دوسرى شرط: ۱۴

تيسرى شرط : ۱۵

ہر ايك كى تفصيل ۱۵

الف : مالى استطاعت : ۱۵

۱_ زاد و راحلہ ۱۶

۲_ سفر كى مدت ميں اپنے اہل و عيال كے اخراجات ۲۰

۳_ ضروريات زندگي: ۲۱

۴_ رجوع الى الكفاية: ۲۴

مالى استطاعت كے عمومى مسائل ۲۶

ب_ جسمانى استطاعت: ۲۹

۲۱۲

ج_ سربى استطاعت: ۳۰

د_زمانى استطاعت: ۳۱

دوسرى فصل :نيابتى حج ۳۲

نائب كى شرائط : ۳۵

منوب عنہ كى شرائط : ۳۷

چند مسائل : ۳۸

باب دوم : ۴۴

حج و عمرہ كے اعمال كے بارے ميں ۴۴

حج و عمرہ كى اقسام ۴۵

چند مسائل: ۴۶

حج تمتع اور عمرہ تمتع كى صورت ۴۹

حج افراد اور عمرہ مفردہ ۵۱

حج قران ۵۲

حج تمتع كے عمومى احكام : ۵۳

پہلاحصہ : ۵۶

اعمال عمرہ كے بارے ميں ۵۶

پہلى فصل :مواقيت ۵۷

مذكورہ مواقيت كے بالمقابل مقام ۶۰

چند مسائل : ۶۱

دوسرى فصل :احرام ۶۶

۲۱۳

۱_ احرام كے واجبات ۶۶

اول : نيت ۶۶

دوم : تلبيہ ۶۹

سوم : دو كپڑوں كا پہننا ۷۲

۲_ احرام كے مستحبات ۷۶

۳_ احرام كے مكروہات ۷۷

۴_ احرام كے محرمات ۷۸

محرمات احرام كے احكام : ۸۰

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا ۸۰

۲_ اس چيز كا پہننا جو پاؤں كے اوپر والے پورے حصے كو چھپالے_ ۸۲

۳_ مرد كا اپنے سر اور عورت كا اپنے چہرے كو ڈھا نپنا ۸۴

۴_ مردوں كيلئے سايہ كرنا _ ۸۷

۵_ خوشبو كا استعمال: ۸۹

۶_ آئينے ميں ديكھنا: ۹۱

۷_ انگوٹھى پہننا: ۹۲

۸_ مہندى اور رنگ كا استعمال كرنا : ۹۳

۹_ بدن پر تيل لگانا : ۹۳

۱۰_ بدن كے بالوں كو زائل كرنا: ۹۴

۱۱_ سرمہ ڈالنا: ۹۶

۱۲_ ناخن تراشنا: ۹۶

۲۱۴

۱۳_ بدن سے خون نكالنا ۹۸

۱۴_ فسوق: ۹۹

۱۵_ جدال ۹۹

۱۶_ حشرات بدن كو مارنا: ۱۰۱

۱۷_ حرم كے پودوں اور درختوں كو كاٹنا: ۱۰۱

۱۸_ اسلحہ اٹھانا: ۱۰۲

۱۹_ خشكى كا شكار كرنا: ۱۰۲

۲۰_ جماع ۱۰۳

۲۱_ عقد نكاح: ۱۰۴

۲۲_ استمنائ ۱۰۵

محرمات احرام كے كفارات كے احكام ۱۰۵

مكہ مكرمہ كى طرف جانا ۱۰۶

حرم ميں داخل ہونے كى دعا ۱۰۷

مسجد الحرام ميں داخل ہونے كے مستحبات ۱۰۸

تيسرى فصل : ۱۱۰

طواف اور نماز طواف كے بارے ميں ۱۱۰

طواف: ۱۱۰

طواف كى شرائط ۱۱۱

پہلى شرط نيت ۱۱۱

دوسرى شرط : حدث اكبر اور اصغر سے پاك ہونا ۱۱۳

۲۱۵

تيسرى شرط: بدن اور لباس كا خبث سے پاك ہونا ۱۲۰

چوتھى شرط : ختنہ ۱۲۳

پانچويں شرط: شرم گاہ كو چھپانا ۱۲۳

چھٹى شرط: طواف كى حالت ميں لباس كاغصبى نہ ہو نا ۱۲۴

ساتويں شرط: موالات ۱۲۴

طواف كے واجبات ۱۲۶

اول: حجر اسود سے شروع كرنا يعنى اسكے بالمقابل جگہ سے شروع ۱۲۶

دوم: ہر چكر كو حجر اسود پر ختم كرنا : ۱۲۶

سوم: طواف بائيں جانب ہوگا اس طرح كے طواف كے دوران خانہ كعبہ حاجى كى بائيں طرف ہو اور اس سے مقصود طواف كى سمت كو معين كرنا ہے _ ۱۲۷

چہارم: حجر اسماعيل عليہ السلام كو اپنے طواف كے اندر داخل كرنا اور اسكے باہر سے طواف كرنا _ ۱۲۸

پنجم : طواف كے دوران ميں خانہ كعبہ اور اسكى ديوار كى نچلى جانب كى ۱۲۸

ہفتم : طواف كے سات چكر ہيں _ ۱۳۰

نماز طواف : ۱۳۳

چوتھى فصل :سعي ۱۳۶

سعى كے ترك كرنے اور اس ميں كمى بيشى كرنے كے بارے ميں چند مسائل ۱۳۹

پانچويں فصل: تقصير ۱۴۱

دوسرا حصہ: ۱۴۵

اعمال حج كے بارے ميں ۱۴۵

پہلى فصل :احرام ۱۴۶

۲۱۶

دوسرى فصل :عرفات ميں وقوف كرنا ۱۴۹

تيسرى فصل :مشعرالحرام ( مزدلفہ) ميں وقوف كرنا ۱۵۲

چوتھى فصل :كنكرياں مارنا ۱۵۴

كنكرياں مارنے (رمي) كى شرائط ۱۵۴

كنكريوں كى شرائط: ۱۵۶

پانچويں فصل :قربانى كرنا ۱۵۸

دوم : صحيح و سالم ہونا ۱۵۹

سوم: يہ كہ بہت دبلا نہ ہو ۱۵۹

چھٹى فصل :تقصير يا حلق ۱۶۳

ساتويں فصل : مكہ مكرمہ كے اعمال ۱۶۷

آٹھويں فصل: منى ميں رات گزارنا ۱۷۱

نويں فصل :تين جمرات كو كنكرياں مارنا ۱۷۴

متفرق مسائل : ۱۷۸

حج كا حكم كيا ہے ؟ ۱۸۱

دعای عرفه ۲۱۱

۲۱۷

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

سوالات :

۱) حكم شرعى ، حكم تكليفى اور حكم وضعى سے كيا مراد ہے؟

۲) حكم قاضى اور فتوى ميں كيا فرق ہے؟

۳)حكومتى حكم اور قاضى كے حكم ميں كيا فرق ہے؟

۴)حكومتى حكم كے صدور كى بنياد كيا ہے؟

۵)حكم اوّلى اور حكم ثانوى كى بحث كا حكومتى احكام كى بحث ميں كيا كردار ہے؟

۶) احكام ثانويہ كيا ہيں اور احكام اوليہ سے ان كا كيسا تعلق ہے؟

۲۸۱

اٹھائيسواں سبق :

حكومتى حكم اور فقيہ كى ولايت مطلقہ

گذشتہ سبق ميں يہ ثابت ہوچكا ہے كہ فقيہ عادل جس طرح شرعى حكم كو استنباط كرسكتا ہے اسى طرح حكومتى حكم كے صادر كرنے كا بھى اختيار ركھتا ہے_

فتوى ميں فقيہ كا كام شارع مقدس كے حكم سے پردہ اٹھانا ہے _ اب جبكہ حكومتى حكم خود فقيہ صادر كرتا ہے_ حكومتى حكم كے جعل اور صادر كرنے ميں فقيہ عادل، شرعى اصول و مبانى كو بھى نظر ميں ركھتا ہے اور اسلام و مسلمين كى مصلحت كو بھى _ گذشتہ سبق كا آخرى سوال يہ تھا كہ ''حكومتى حكم اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے يا احكام ثانويہ ميں سے''؟

امام خمينى اس مسئلہ كے جواب كو'' اسلام ميں حكومت كے مقام ''كے ساتھ منسلك كرتے ہيں_ ان كى نظر ميں ولى فقيہ كے اختيارات اور حكومتى حكم كے صدور كا دائرہ اور حد، حكومت اور اسلامى نظام كے احكام اوليہ كے ساتھ رابطے كے تعيّن اور اسلام كى نظر ميں حكومت اور نظام كے مقام كو واضح و مشخص كرنے كے تابع ہے_

۲۸۲

اسلامى جمہوريہ ايران كے بانى نجف اشرف ميں اپنے فقہ كے دروس خارج ميں اس نكتہ پر اصرار كرتے تھے كہ حكومت اور اسلامى نظام اسلامى فروعات ميں سے ايك فرع يا اجزائے اسلام ميں سے ايك جزء نہيں ہے بلكہ اس كى شان اس سے بہت بلند ہے اس طرح كہ فقہى احكام حكومت اور اسلامى نظام كى حفاظت اور تثبيت كيلئے ہيں _ اسلامى حكومت شريعت كى بقاء اور حفاظت كى ضامن ہے اسى لئے اولياء الہى نے نظام اسلام و مسلمين كى حفاظت اور بقاء كيلئے اپنى جانوں كو خطرات ميں ڈالتے تھے _ ان كى نظر ميں شرعى احكام امور حكومت ميں سے ہيں_ شرعى احكام ذاتاً مقصود اور ہدف نہيں ہيں بلكہ عدل و انصاف قائم كرنے كيلئے اسلامى حكومت كے ذرائع ہيں اسى لئے روايات ميں حاكم اور ولى فقيہ كو اسلام كا قلعہ كہا گيا ہے (۱) _

''الاسلام هو الحكومة بشؤونها، و الاحكام قوانين الاسلام و هى شان من شؤونها ، بل الاحكام مطلوبات بالعرض و امور آلية لاجرائها و بسط العدالة'' (۲)

امام خمينى اس بات پر اصرار كرتے ہيں كہ حكومت اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے_ نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام پر مقدم ہے_ رہبر انقلاب آيت اللہ خامنہ اى كے نام لكھے گئے اپنے ايك خط ميں امام خمينى فرماتے ہيں:

حكومت رسولخدا (ص) كى ولايت مطلقہ كا ايك شعبہ ہے، اسلام كے احكام اوّليہ ميں سے ہے، اور اس كے تمام احكام فرعيہ ،نماز روزہ اور حج و غيرہ پر مقدم ہے(۳)

____________________

۱) امام خمينى كى درج ذيل عربى عبارت كا مفہوم بھى يہى ہے _(مترجم)

۲) كتاب البيع، ج ۲ ص ۴۷۲_

۳) صحيفہ نور ج ۲۰ ، ص ۱۷۰

۲۸۳

لہذا حكومتى حكم كا صدور اسلام اور نظام مسلمين كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے_ ضرورى نہيں ہے كہ عناوين ثانويہ مثلا عسروحرج ، اضطرار يا اختلال نظام ميں سے كوئي ہو بلكہ اسلامى حكم كى مصلحت حكومتى حكم كى بنياد قرار پاتى ہے اگر چہ مذكورہ عناوين ميں سے كوئي بھى نہ ہو_

اس كے باوجود انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں بعض موارد ميں انہوں نے حكومتى حكم كے صدور اور بظاہر شريعت كے منافى احكام و قوانين بنانے كا حق پارليمنٹ كو ديا ليكن احتياط اور مزيد استحكام كيلئے ايسے قوانين كے وضع كرنے كو اختلال نظام ، ضرورت اور عسرو حرج جيسے ثانوى عناوين كے ساتھ منسلك كرديا_ اگر چہ آپ فقہى لحاظ سے حكومتى حكم كے صدور كو ان عناوين پر موقوف نہيں سمجھتے اور اسے اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں_

مورخہ ۲۰/ ۷/ ۱۳۶۰ ھ ش كو قومى اسمبلى كے اسپيكر كو ايك خط كا جواب ديتے ہوئے لكھتے ہيں:

وہ شئے جو اسلامى نظام كى حفاظت ميں دخالت ركھتى ہے ، جس كا انجام دينا يا ترك كردينا اختلال نظام كا باعث بنے، خرابى و فساد كا باعث بنے يا اس سے حرج و مرج لازم آتا ہو، تو پارليمنٹ كے ممبران كى اكثريت را ے كے ذريعہ موضوع كى تشخيص كے بعد اس وضاحت كے ساتھ قانون بنايا جائے كہ جب تك يہ موضوع ہے يہ قانون ہے_ اور موضوع كے ختم ہونے كے ساتھ ہى يہ قانون لغو ہوجائے گاوہ اس قانون كے بنانے اور جارى كرنے كا اختيار ركھتے ہيں_(۱)

اس اصرار كے ساتھ كہ حكومت ''اسلام كے احكام اوليہ'' ميں سے ہے_ اپنى مبارك زندگى كے آخرى سالوں ميں اس ميں اور شدت آگئي اور انہوں نے صاف الفاظ ميں كہہ ديا كہ حكومتى حكم كا صدور'' مصلحت نظام'' پر مبنى ہے _مصلحت نظام اختلال نظام ، ضرورت اور عسر و حرج جيسے عناوين ثانوى سے قطعى مختلف ہے

____________________

۱) صحيفہ نور، ج ۱۵ ، ص ۱۸۸_

۲۸۴

اسى لئے مصالح كى تشخيص اور حكومتى حكم كے صادر كرنے ميں ولى فقيہ كى مدد كرنے كے لئے '' مجمع تشخيص مصلحت نظام ''كے نام سے ايك ادارہ تشكيل ديا گيااور حكومتى احكام كے مبانى كى تشخيص كا كام اس كے سپرد كيا گيا_

فقيہ كى ولايت مطلقہ

فقيہ كى '' ولايت عامّہ ''، ''نيابت عامہ'' يا ''عمومى ولايت'' جيسے الفاظ سابقہ فقہاء كے كلمات ميں استعمال ہوتے رہے ہيں_ ليكن '' ولايت مطلقہ'' كى تعبير عام نہيں تھى _ امام خمينى كے كلمات ميں رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومين كى سياسى ولايت كو ''ولايت مطلقہ ''سے تعبير كيا گيا ہے_ اور يہى خصوصيت جامع الشرائط فقيہ عادل كيلئے بھى ثابت ہے_ ۱۳۶۸ ھ ش ميں جب اساسى قانون پر نظر ثانى كى گئي تو اس ميں لفظ '' ولايت مطلقہ ''استعمال ہونے لگا _

اسلامى جمہوريہ ايران ميں قواى حاكم يہ ہيں: مقننہ ،مجريہ اور عدليہ يہ تينوں ادارے ولايت مطلقہ كے زير نظر اس قانون كے آئندہ طے پانے والے اصولوں كے مطابق عمل كريںگے_(۱)

''ولايت مطلقہ'' ميں لفظ '' مطلقہ'' اور'' فلسفہ سياست'' كى اصطلاح ميں استعمال ہونے والے لفظ ''مطلقہ''كے درميان لفظى شباہت كى وجہ سے بعض لا علم اور مخالفين نے ولايت فقيہ پر اعتراض كيا ہے _

فلسفہ سياست كى رائج اصطلاح ميں'' حكومت مطلقہ'' ڈكٹيٹر شپ اورمطلق العنان آمريت كو كہتے ہيں_ جس ميں حكومت كا سربراہ اپنى مرضى سے حكومت چلا تا ہے ، دل خواہ قوانين وضع كرتا ہے اور معاشرے كا

____________________

۱) قانون اساسى اصل ۵۷_

۲۸۵

خيال نہيں ركھتا_ آنے والے مطالب سے واضح ہوجائے گا كہ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''بنيادى طور پراس ''حكومت مطلقہ''سے بہت مختلف ہے_

ولايت فقيہ كے مفہوم كے صحيح ادارك كيلئے درج ذيل تمہيد پر غور كرنا ضرورى ہے_

فقہى استنباط كى حقيقت ،در اصل شارع كے جعل اور انشاء كو كشف كرنا ہے_فتوى ، كے وقت فقيہ، نہ حكم كو جعل كرتا ہے نہ نافذ كرتا ہے_ فقيہ، ادلّہ كى طرف رجوع كر كے اس مسئلہ سے پردہ اٹھاتا ہے كہ نماز عشاء واجب ہے، اس حكم كا ايك نفاذ ہے _ اور وہ نماز مغرب كے بعد نماز عشاء كا پڑھنا ہے_ نماز عشاء كا پڑھنا فقيہ كے تعين ، را ے اور نافذ كرنے پر موقوف نہيں ہے_ وہ موارد جن ميں شرعى حكم كو متعدد طريقوں سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے ان كے نافذ كرنے كى كيفيت ميں بھى فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا_ مثلا اسلامى شريعت ميں شادى كرنا جائز ہے_ اس حكم جواز (بمعناى اعم)كے متعدد نفاذ ہيں يعنى مرد كو اختيار ہے كہ وہ كسى بھى خاندان، قبيلہ يا قوم سے اپنے لئے زوجہ كا انتخاب كرسكتا ہے_اس جواز كے انشاء اور نفاد كى كيفيت ميں فقيہ كا كوئي كردار نہيں ہوتا بلكہ فقط اس شرعى حكم كا كشف كرنا فقيہ كى علمى كوشش كے ساتھ و ابستہ ہے_

جبكہ اس كے مقابلہ ميں ''حكومتى حكم ''ميں جعل اور نفاذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _ فقيہ بعض موارد ميں حكم كو جعل كرتا ہے اور بعض موارد ميں نافذ كرتا ہے_ مثلا حدود الہى كے اجراء كے سلسلہ ميں فقيہ عادل كے حكم كے بغير كسى مجرم پر الہى حدود جارى نہيں كى جاسكتيں_ اسى طرح اگر فقيہ كسى مصلحت كى بنياد پر بعض مصنوعات يا اشيا كو ممنوع يا كسى ملك كيساتھ تجارت كرنے كو حرام قرار ديتاہے يا اس كے برعكس ان مصنوعات كى بعض مخصوص ممالك كيساتھ تجارت كو جائز قرار ديتاہے تو اس نے ايك تو حكومتى حكم '' جعل'' كيا ہے اور دوسرا اسے ايك خاص طريقے سے نافذ كرنے كا حكم ديا ہے_ كيونكہ مباح مصنوعات يا اشياء كى تجارت كو متعددطريقوں

۲۸۶

سے عملى اور نافذ كيا جاسكتا ہے_ اور اسے مختلف طريقوں سے فروخت كيا جاسكتا ہے _ خاص كيفيت اور موردكا تعيّن ايك حكم كى تنفيذ ميں مداخلت ہے_

حاكم شرع كى تنفيذى دخالت كى دوسرى مثال دو شرعى حكموں ميں تزاحم اور تصادم كا مورد ہے_ معاشرے ميںاجرائے احكام كے وقت بعض اوقات دو شرعى حكموں ميں تصادم ہوجاتا ہے_ اس طرح كہ ايك كو ترجيح دينے كا مطلب دوسرے كو ترك كرنا ہوتاہے _ اس وقت ولى فقيہ اہم مورد كو تشخيص دے كر اہم شرعى حكم كو نافذ كرتا ہے اور دوسرے كو ترك كر ديتا ہے_

موردبحث نكتہ يہ ہے كہ كيا ولى فقيہ كسى اہم شرعى حكم كے بغير بھى كسى دوسرے حكم كے نفاذ كو روك سكتاہے؟ يعنى اگر كسى مورد ميں وجوب يا حرمت كا حكم موجود ہے توكيا اس ميں مصلحت كى صورت ميں ولى فقيہ اس حكم كے برخلاف كوئي دوسرا حكم'' جعل'' كرسكتا ہے؟ مثلا عارضى طور پر مسلمانوں كو حج تمتع سے روك دے؟ يہاں دو مختلف بنيادى نظريے ہيں_ فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كے حامى اس سوال كا جواب ہاں ميں ديتے ہيں _ ليكن فقيہ كي'' ولايت مقيّدہ '' كے حامى فقيہ عادل كيلئے اس قسم كے كسى حق كے قائل نہيں ہيں_

فقيہ كى ولايت مقيّدہ كے حامى معتقد ہيں كہ حكومتى حكم كى جگہ وہاں ہے جہاں شريعت كا كوئي الزامى حكم نہ ہو اور يہ كہ حكومتى حكم كے صدور ميں'' ولى فقيہ'' شريعت كے تابع ہے كسى تصادم و تزاحم كے بغير صرف كسى مصلحت كى وجہ سے شريعت كے واجب يا حرام كے برعكس كوئي حكم صادر نہيں كرسكتا _ ان كى نظر ميں حكومتى حكم كا دائرہ غير الزامى احكام يا الزامى احكام_ تزاحم كى صورت ميں _اور يا اس موردتك محدود ہے كہ جس كے متعلق شريعت نے كوئي حكم بيان نہيں كيا ولى فقيہ حكومتى حكم كے ذريعہ اس قانونى خلا كو پر كر سكتا ہے_ يہ سكوت يا شريعت كے حكم اوّلى كا نہ ہونا شريعت كے ناقص ہونے كى وجہ سے نہيں ہے بلكہ اس مورد ميں طبعى تقاضا يہ تھا

۲۸۷

كہ كسى الزامى حكم سے سكوت اختياركيا جائے _ شہيد صدر فرماتے ہيں:

واقعات اور انسانى ضروريات كى متغير حقيقت باعث بنتى ہے كہ ان ميں كوئي حكم وضع نہ كيا جائے البتہ شارع نے اسے مہمل اور بے مہار نہيں چھوڑا ، بلكہ اسلامى حكومت كے سربراہ كو حق ديا ہے كہ وہ اس موقع كى مناسبت سے حكم جعل كرے_(۱)

علامہ طباطبائي بھى فقيہ كى ولايت مقيدہ كے قائل ہيں _ ان كى نظر ميں اسلامى قوانين دو قسم كے ہيں متغير اور ثابت _

اسلام كے ثابت قوانين و احكام انسان كى فطرت ،اور ان خصوصيات كو مدنظر ركھتے ہوئے بنائے گئے ہيں جو بدلتى نہيں ہيں اور انہيں اسلامى شريعت كا نام ديا گيا ہے _ احكام كى دوسرى قسم جو كہ قابل تغير ہے اور زمان و مكان كى مصلحت كے مختلف ہونے سے مختلف ہوجاتے ہيں يہ ولايت عامہ كے آثار كے عنوان سے رسولخدا (ص) ،ائمہ معصومين اور ان كے مقرر كردہ جانشينوںكى را ے سے مربوط ہوتے ہيں اور وہ انہيں دين كے ثابت قوانين اور زمان و مكان كى مصلحت كے پيش نظر تشخيص ديتے ہيں اور جارى كرتے ہيں _ البتہ اصطلاحى لحاظ سے اس قسم كے قوانين دينى اور شرعى احكام ميں شمار نہيں ہوتے_ ثقافت اور لوگوں كى معاشرتى زندگى كى پيشرفت اور ارتقاء كے لئے ولى امر جو قوانين وضع كرتا ہے واجب الاجرا ہونے كے باوجود وہ شريعت اور حكم الہى كے زمرہ ميں نہيں آتے اس قسم كے قوانين كا اعتبار اس مصلحت كے تابع ہے جو ان كے وضع كرنے كا باعث بنى ہے_ ليكن احكام الہى جو كہ عين شريعت ہيں ہميشہ ثابت رہتے ہيں اور كوئي بھى حتى كہ ولى امر بھى يہ حق نہيں ركھتا كہ وقتى مصلحت كى وجہ سے انہيں تبديل يا لغو كردے(۲)

____________________

۱) اقتصادنا ،شہيد محمد باقر صدر، ص ۷۲۱_

۲) فرازہاى از اسلام، ص ۷۱ _ ۸۰_

۲۸۸

اس نظريہ كے مقابلہ ميں كہ جو فقيہ كى ولايت عامہ كو شرعى احكام ميں محدود قرار ديتاہے امام خميني، فقيہ كى ''ولايت مطلقہ ''كا دفاع كرتے ہيں _

اس نظريہ كے مطابق شريعت كے الزامى احكام بھى حكومتى حكم كے صدور ميں ركاوٹ نہيں بن سكتے _ اورفقيہ كى ولايت شريعت كے حصارميں محدود اور منحصر نہيں ہے_ اگر اسلامى نظام اور مسلمانوں كى مصلحت كا تقاضا ہو، تو جب تك يہ مصلحت ہے _جو كہ سب سے اہم مصلحت ہے_ فقيہ وقتى طور پر حكومتى حكم صادر كرسكتاہے اگر چہ وہ حكم شريعت كے كسى الزامى حكم كے منافى ہى كيوں نہ ہو_

پس شرعى احكام كے لحاظ سے فقيہ كى ولايت محدود اور مقيد نہيں ہے بلكہ مطلق ہے _ اس نظريہ كا سرچشمہ اور بنياد يہ ہے كہ امام خمينى كى نظر ميں'' حكومت'' اسلام كے احكام اوليہ ميں سے ہے اور نظام اور اسلامى حكومت كى حفاظت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے اور اسلام كے باقى تمام احكام اوليہ پر مقدم ہے _

حكومت يا ''ولايت مطلقہ'' جو كہ اللہ تعالى كى طرف سے آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي ہے اہم ترين حكم الہى ہے اور خدا كے تمام احكام فرعيہ پر مقدم ہے _ اگر حكومتى اختيارات احكام فرعيہ الہيہ ميں محدودہوجائيں تو آنحضرت (ص) كو عطا كى گئي حكومت الہى اور ولايت مطلقہ ايك كھوكھلى سى چيز بن كر رہ جائے گى _ حكومت ہر اس عبادى يا غير عبادى امر كو اس وقت تك روك سكتى ہے جب تك اس كا اجرا مصلحت اسلام كے منافى ہو(۱)

حكومتى حكم كا صدور، حفظ نظام كى مصلحت كے ساتھ مربوط ہے _ امام خمينى كى نظر ميں اگر حفظ نظام كى مصلحت اس حد تك پہنچ جائے كہ ولى فقيہ كى نظر ميں وہ شريعت كے كسي'' حكم اولي'' كے ساتھ ٹكرارہى ہے تو ہميشہ حفظ نظام كى مصلحت مقدم رہے گي_ اور اس شرعى حكم كے ملاك اور مصلحت سے اہم قرار پائے گى اورولي

____________________

۱) صحيفہ نور، جلد ۲۰ صفحہ ۱۷۰_

۲۸۹

فقيہ كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ اس مصلحت پر عمل كرے او رجب تك وہ مصلحت باقى ہے اہم كو مہم پر ترجيح دے_

آخر ميں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ اگر چہ اسلامى جمہوريہ ايران كے قانون اساسى كى شق ۱۱۰ ميں ''ولى فقيہ ''كے وظائف اور اختيارات ذكر كئے گئے ہيں ليكن فقيہ كى ''ولايت مطلقہ'' كو ديكھتے ہوئے اس كے اختيارات ان امور ميں محدود نہيں ہيں بلكہ اس كے اختيارات كا دائرہ اسلامى معاشرہ كے مصالح كى بنياد پر ہوگا_

۲۹۰

خلاصہ:

۱) امام خمينى حكومت اور اسلامى نظام كو اسلام كے احكام اوليہ ميں سے سمجھتے ہيں _

۲) ان كى نظر ميں حكومت ،فقہ كے اجزا ميں سے نہيں ہے_ بلكہ تمام كى تمام فقہ نظام مسلمين كى حفاظت كيلئے ہے_ اسى لئے اسلامى حكومت اہم ترين واجبات الہيہ ميں سے ہے _

۳) اس بناپر حكومتى حكم كا صدور كسى ثانوى عنوان كے محقق ہونے پر موقوف نہيں ہے_

۴) امام خمينى انقلاب كے ابتدائي سالوں ميں احتياط كى بناپرحكومتى اورظاہر شريعت كے منافى حكم كو ثانوى عناوين كے ساتھ مربوط سمجھتے تھے_

۵) فقيہ كى ولايت مطلقہ كى بحث براہ راست حكومتى حكم كے صدور كى بحث كے ساتھ منسلك ہے _

۶) فقيہ كى ولايت مطلقہ اور سياسى فلسفہ ميں موجود حكومت مطلقہ كو ايك جيسا قرار نہيں ديا جاسكتا_

۷) فتوى كے برعكس حكومتى حكم ميں جعل و انشاء اور تنفيذ دونوں عنصر ہوتے ہيں _

۸) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا لازمہ يہ ہے كہ اگر مصلحت كا تقاضا ہو تو فقيہ عادل شريعت كے الزامى حكم يعنى وجوب و حرمت كے منافى حكم بھى صادر كرسكتاہے_

۹) فقيہ كى ولايت مقيدہ كا معنى يہ ہے كہ فقيہ، فقط شريعت كے غير الزامى احكام كے مقابلہ ميں حكومتى حكم صادر كرسكتاہے _ اس كى ولايت، شريعت كے الزامى احكام كے عدم وجود كے ساتھ مشروط ہے _

۱۰ ) امام خمينى كى نظر ميں جب حفظ نظام كى مصلحت كسى شرعى حكم كى مصلحت كے ساتھ ٹكرا جائے تو حفظ نظام كى مصلحت اہم اور مقدم ہے _

۲۹۱

سوالات:

۱) حكومت كے مقام اور احكام شريعت كے ساتھ اس كے رابطہ كے متعلق امام خميني كا نظريہ كيا ہے ؟

۲) فقيہ كى ولايت مطلقہ سے كيا مراد ہے ؟

۳) فقيہ كى ولايت مطلقہ كا حكومت مطلقہ كى بحث سے كيا تعلق ہے ؟

۴) فقيہ كى ولايت مقيدہ سے كيا مراد ہے ؟

۵) جب حفظ نظام كى مصلحت ، شريعت كے احكام اوليہ كے ملاكات سے ٹكرا جائے تو كيا كرنا چاہيے؟

۲۹۲

انتيسواں سبق :

دينى حكومت كے اہداف اور فرائض -۱-

كسى سياسى نظام كے دوسرے سياسى نظاموں سے امتياز كى ايك وجہ وہ فرائض ، اختيارات اور اہداف ہيںجو اس كے پيش نظر ہيں _ مختلف مكا تب اور سياسى نظام اپنى حكومت كيلئے مختلف اہداف اور فرائض قرار ديتے ہيں _ اگر چہ بہت سے اہداف مشترك ہوتے ہيں مثلاً امن عامہ كا برقرار كرنا اور دشمن كے تجاوز اور رخنہ اندازى سے خود كو محفوظ ركھنا ايسے اہداف ہيں كہ جنہيںتمام سياسى نظاموں نے اپنے اپنے ذوق و سليقہ كے مطابق اپنے اوپر فرض قرار دے ركھاہے _

آج سياسى ماہرين اور مفكرين كے در ميان حكومت كے فرائض اور اختيارات كے متعلق بڑى سنجيدہ بحثيں ہو رہى ہيں _ بعض سياسى نظريات'' حكومت حداقل'' كا دفاع كرتے ہيں _ ان سياسى فلسفوںكا عمومى اعتقاد يہ ہے كہ جتنا ممكن ہو سكے حكومت مختلف امور ميں كم سے كم مد اخلت كيا كرے_ انيسويں صدى كے كلاسيكى اور آج كے نيولبرل ازم ( New Liberalism ) اقتصادى لحاظ سے بازار تجارت ميں حكومت كى كمترين مداخلت كے قائل ہيں انكا نظريہ يہ ہے كہ بازار ميں موجود كارو بار و تجارت ميں حكومت كى عدم مداخلت سے

۲۹۳

اقتصادى توازن بر قرار رہے گا _اور حكومت كى مداخلت آزاد تجارت كے نظم و نسق كو در ہم بر ہم كردے گى _ اس كے مقابلہ ميں سو شلزم كى طرف مائل افراديہ چاہتے ہيں كہ حكومت براہ راست اقتصادى امور ميں مداخلت كرے حتى كہ تمام اقتصادى مراكز حكومت كے ہاتھ ميں ہونے چاہئيں_ اس نظريہ كى ہلكى سى جھلك لبرل ازم كى تاريخ كے ايك مختصر دور ميں دكھائي ديتى ہے _جديد لبرل ازم جو كہ بيسويں صدى كے اوائل سے ليكر ۱۹۷۰ تك رہا ہے رفاہى رياست (۱) كا خواہاں ہے _ وہ چاہتاہے كہ حكومت آزاد تجارت ميں مداخلت كرے تا كہ ايك طرف بازار رونق پكڑے اور دوسرى طرف آسيب پذير طبقے كا دفاع ہو اور معاشرتى اور اجتماعى امور پر كوئي زد نہ پڑے _

اقتصاد سے ہٹ كر سياسى فلسفہ كى ايك اہم ترين بحث يہ بھى ہے كہ سعادت ، اخلاقيات اور معنويات ميں حكومت كا كيا كردار ہے _ اور ان كے ارتقاء كے سلسلہ ميں حكومت كے كيا فرائض ہيں ؟كيا عوام كى سعادت اور نجات بھى حكومت كے اہداف اور فرائض ميں سے ہے؟

ماضى ميں بھى بہت سے سياسى فلسفے خير و سعادت پر گہرى نگاہ ركھتے تھے _سياسى ماہرين اپنے سياسى نظاموں كو خير و سعادت كى بنياد پر متعارف كرواتے تھے اورخيرو سعادت كى جو مخصوص تعريف كرتے تھے اسى لحاظ سے اپنے اہداف اور دستور العمل كو متعين كرتے تھے _آخرى دو صديوں ميں ہم نے ايسے ايسے سياسى نظريات ديكھے ہيں جو اس سلسلہ ميں حكومت كے كردار اور فرائض كوبالكل نظر انداز كرتے ہيں ان نئے نظريات كى بنياد پر خير و سعادت جيسے امور حكومت كے فرائض و اہداف سے خارج ہيں_ حكومت كا كام فقط امن وامان اور رفاہ عامہ كے متعلق سو چناہے _ اور اسے چاہيے كہ خيروسعادت ، اور اخلاق و معنويت جيسے امور خود عوام اور معاشرے كے افراد كے حوالہ كردے_

____________________

۱) Welfare State .

۲۹۴

لبرل ازم اس نظريہ كى سخت حمايت كرتا ہے كہ اس قسم كے امور عوام كے ساتھ مربوط ہيں لہذا ان امور ميں حكومت كسى قسم كى مداخلت نہيں كر سكتى ، بلكہ اس قسم كے مسائل ميں مداخلت لوگوں كے ذاتى مسائل ميں مداخلت ہے اور ان كے حقوق اور ان كى شخصى آزادى كو سلب كرنے كے مترادف ہے_ حكومت كو اپنے فرائض عوامى حقوق اور شخصى آزادى كو ملحوظ خاطر ركھ كر انجام دينے چاہيں_ لبرل نظريات كے حامى افراد كى نظر ميں ''حقوق بشر كا عالمى منشور'' جو كہ لبرل نظريات كے اصولوں كى بنياد پر بنايا گياہے، حكومت كے اہداف و فرائض متعين كرنے كيلئے انتہائي مناسب راہنماہے حكومت كو اسى كا دفاع كرنا ہے اور اسے امن وامان برقرار ركھنے ، شخصى مالكيت كى حفاظت، ثقافتى ، مذہبى اور اقتصادى آزادى كيلئے كوشش كر نى چاہيے _ خير و سعادت اور اخلاقيات كو خود عوام كے سپرد كرد ے تا كہ ہر شخص اپنى مرضى كى خير و سعادت كے متعلق اپنے مخصوص نظر يہ كے مطابق زندگى گزار سكے_

ا س تمہيد كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ ديكھنا ہے كہ اسلام كن اہداف اور فرائض كو حكومت كے كندھوں پر ڈالتا ہے _حكومت كے متعلق اسلام كا نظر يہ كيا ہے ،اور اس كيلئے كس مقام كا قائل ہے ؟

ہم اس تحقيق كو تين مرحلوں ميں انجام ديں گے ، پہلے حكومت اور اس كے مقام كے متعلق اسلامى نظر يہ كى تحقيق كريں گے _پھر دينى حكومت كے اہداف پر ايك نگاہ ڈاليں گے اور آخر ميں اسلامى سربراہوں كے جزئي وظائف اور فرائض كى طرف اشارہ كريں گے _

حقيقت حكومت از نظر اسلام

دوسرے باب ميں ''اسلام كى نظر ميں امامت اور سياسى قيادت كے مقام و مرتبہ'' كے متعلق ہم تفصيلى گفتگو كر چكے ہيں _يہاں حقيقت و ماہيت كے متعلق بحث سے ہمارى يہ مراد نہيں ہے كہ ہم نئے سرے سے اس كى

۲۹۵

اہميت كا تذكرہ كرنا چاہتے ہيں _ بلكہ يہاں ہم يہ جاننا چاہتے ہيں كہ حكومت كو اسلام كس نگاہ سے ديكھتاہے اور اس كے نزديك اس كى ماہيت اور حقيقت كيا ہے ؟

آيات و روايات كى طرف رجوع كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اسلام كى نگاہ ميں حكومت اور دنيوى مقامات و مناصب بذات خود كوئي اہميت و كمال نہيں ركھتے، ''حكومت'' ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كا نام ہے _ اس ذمہ دارى اور امانت كا بوجھ اٹھانے كيلئے اہليت ، صلاحيت اور انفرادى كمالات كى ضرورت ہے -_ اسى وجہ سے اسلامى معاشرہ كے حاكم كيلئے مخصوص خصوصيات اور شرائط كا لحاظ ركھا گيا ہے - _اسلام كى نگاہ ميں ہر قسم كا اجتماعى منصب خصوصاًحكومت اور امارت ايك الہى امانت ہے لہذا اسے كوئي كمال شمار نہيں كيا جاتا -_ سورہ نساء كى آيت ۵۸ ميں ارشاد خداوندى ہے:

( ''إنَّ الله َ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمَانَات إلَى أَهلهَا وَإذَا حَكَمتُم بَينَ النَّاس أَن تَحكُمُوا بالعَدل إنَّ الله َ نعمَّا يَعظُكُم به إنَّ الله َ كَانَ سَميعا بَصيرا'' ) (۵۸)

يقينا خدا تمہيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچا دو اور جب لوگوں كے درميان كوئي فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _ خدا تمھيں بہترين نصيحت كرتا ہے بے شك خدا سننے والا اور ديكھنے والا ہے_

حضرت اميرالمومنين آذربايجان ميں لشكر اسلام كے سپہ سالار اشعث ابن قيس كو ايك خط ميں تاكيد كرتے ہيں كہ حكومت اور امارت تيرے لئے ايك لذيذ لقمہ نہيں ہے كہ تو اس سے لطف اندوز ہو -_ بلكہ ايك بار امانت ہے جسكا تجھے جواب دينا ہے _ بيت المال در حقيقت خدا كا مال ہے _ لہذا اس كيلئے امانتدار محافظ بنو_

۲۹۶

انّ عملك ليس لك بطعمة ، و لكنّه ف عْنقك أمانة ، و أنت مسترعى لمَن فوقك ليس لك أن تفتات ف رعيّة ، و لا تخاطر إلّا بوثيقة ، و ف يديك مال من مال الله (عزّوجلّ) و أنت من خْزّانة حتى تسلّمه إلّ (۱)

يہ امارت تيرے لئے روزى كا وسيلہ نہيں ہے- بلكہ تيرى گردن ميں امانت (كا طوق) ہے تمہارے لئے ضرورى ہے كہ اپنے فرمانروا اور امام كى اطاعت كرو، اور تمہيں يہ حق حاصل نہيں ہے كہ اپنى رعيت كے معاملہ ميں جو چاہو كر گزر و خبردار كسى مضبوط دليل كے بغير كوئي اہم قدم مت اٹھانا اور تيرے ہاتھ ميں خدا كا مال ہے تو اس كا ايك محافظ ہے يہاں تك كہ اسے ميرے پاس پہنچا دے

اپنے ايك اور عامل كے نام لكھے گئے خط ميں مقام و منصب سے غلط اور ناجائز فائدہ اٹھانے كو امانت الہى ميں خيانت كے مترادف قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

''فَقَد بلغنى عنك أمر إن كنت فعلته فقد أسخطت ربّك و عصيت إمامك و أخزيتَ أمانتك '' (۲)

تمھارے متعلق مجھے ايك اطلاع ملى ہے _ اگر واقعاً تونے ايسا كيا ہے تو پھر تو نے اپنے رب كو غضبناك كيا ہے، اپنے امام كى نافرمانى كى ہے اور اپنى امانت كو رسوا كيا ہے _

حضرت اميرالمومنين حكومت اور اسكے منصب كو ايك امانت سمجھتے ہيں اور اس ميں خيانت كرنے كو بارگارہ پروردگار ميں ذلت و رسوائي كا باعث قرار ديتے ہيں_ اسلامى نقطہ نظر سے حكومتى اہلكار، خدا كى بارگاہ

____________________

۱) نہج البلاغہ ،مكتوب ۵_

۲) نہج البلاغہ ، مكتوب ۴۰_

۲۹۷

ميں اس امانت الہى كے سلسلہ ميں جوابدہ ہيں جو انہوں نے اپنے كندھوں پر اٹھا ركھى ہے _ اہواز كے قاضى ''رفاعہ'' كو لكھتے ہيں :

''اعلم يا رفاعة انّ هذه الامارة امانة فَمَنْ جعلها خيانة فعليه لعنة الله الى يوم القيامة و من استعمل خائنا فان محمد (ص) برى منه فى الدنيا والاخرة'' (۱)

اے رفاعہ جان لو كہ يہ امارت ايك امانت ہے جس نے اس ميں خيانت كى اس پر قيامت تك خدا كى لعنت ہے _اور جو كسى خائن كو عامل بنائے رسولخدا (ص) دنيا و آخرت ميں اس سے برى الذمہ ہيں_-

جلال الدين سيوطى اپنى تفسير ميں حضرت على سے يوں نقل كرتے ہيں :

''حقّ على الإمام أن يحكم بما أنزل اللّه و أن يؤدّ الأمانة ، فإذا فعل ذلك فحقّ على النّاس أن يسمعوا له و أن يطيعوا ، و أن يجيبوا إذا دعوا'' (۲)

امام كيلئے ضرورى ہے كہ وہ خدا كے احكام كے مطابق فيصلے كرے اور امانت كو ادا كرے _ پس جب وہ ايسا كرے تو لوگوں پر واجب ہے كہ اس كى بات سنيں اس كى اطاعت كريں اور جب وہ بلائے تو لبيك كہيں_

حكومت بذات خود كوئي معنوى حيثيت نہيں ركھتي_ اور نہ ہى حاكم كيلئے كوئي كمال شمار ہوتا ہے_ مگر يہ كہ وہ اس سياسى اقتدار كے ذريعہ اس ذمہ دارى اور امانت الہى كو صحيح طور پر ادا كرے_

عبدالله ابن عباس كہتے ہيں كہ بصرہ كى طرف جا تے ہوئے '' ذى قار'' نامى ايك جگہ پر ميں اميرالمومنين كے پاس گيا _ وہ اپنے جوتے كو ٹانكا لگا رہے تھے _ مجھ سے پوچھتے ہيں اس جوتے كى قيمت كيا ہے ؟ ميں نے جواب ديا: كچھ بھى نہيںتو آپ نے فرمايا :

____________________

۱) دعائم الاسلام، ج ۲ ، ص ۵۳۱_

۲) الدر المنثور ،ج ۲ ، ص ۱۷۵_

۲۹۸

''واللّه له أحبّ إلّ من إمرتكم ، إلّا أن أْقيم حقّا أو أدفع باطلا'' (۱)

خدا كى قسم ميں اسے تم پر حكومت كرنے سے زيادہ پسند كرتا ہوں _ مگر يہ كہ حق كو قائم كروں اور باطل كو دور كردوں _

بنابريں حكومت اور قيادت اس وقت اہميت ركھتے ہيں جب اس كے اہداف عملى شكل اختيار كرليں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كى تمام تر كوشش ان اہداف كو پورا كرنے كيلئے ہو _

دينى حكومت كے اہداف :

دينى منابع كى طرف رجوع كرنے سے يہ حقيقت عياں ہوجاتى ہے كہ اسلام ،حكومت كے اہداف كو رفاہ عامہ اور امن وامان برقرار كرنے ميں محدود نہيں كرتا _ بلكہ اسلامى معاشرہ كى خير و سعادت اور معنويات سے مربوط امور كو بھى حاكميت كے دستورالعمل ميں سے قرار ديتا ہے دينى حكومت كيلئے ضرورى ہے كہ وہ معاشرے كو ايمان اور اخلاق سے لبريز زندگى فراہم كرئے اور رفاہ عامہ كے ساتھ ساتھ دينى ثقافت اور الہى پيغامات كے فروغ پر بھى زور دے _ دينى حكومت كے اہداف كو بيان كرنے والى بعض آيات اور روايات كى مدد سے ہم ان اہداف ميں سے بعض كى طرف اشارہ كريں گے _ كلى طور پر ہم ان اہداف كو دو بنيادى حصوں ميں تقسيم كرسكتے ہيں _ ايك حصہ معنوى اہداف پر مشتمل ہے اور دوسرا دنيوى اہداف پر_ دينى حكومت كے دنيوى اہداف ايسے امور پر مشتمل ہيں جو بڑى حد تك غير دينى حكومتوں كے بھى مورد نظر ہوتے ہيں _ جبكہ دينى حكومت كے معنوى اہداف وہ امور ہيں جو فقط اسلامى حكومت كے ساتھ مخصوص ہيں اوراسلامى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے ممتاز كرتے ہيں_ دينى حكومت كى خصوصيت وہ عہد و پيمان ہے جو ان اہداف كو پورا كرتا ہے _

____________________

۱) نہج البلاغہ ، خطبہ ۳۳ _ارشاد مفيد ،ج ۱، ص ۲۴۷ميں يہى حديث مختصر سے فرق كے ساتھ بيان كى گئي ہے _

۲۹۹

الف: معنوى اہداف

دينى حكومت كے معنوى اہداف سے مراد وہ كوششيں ہيں جو معاشرے كى فطرت الہى كے مطابق رشد و ترقى كى خاطر سازگار ماحول فراہم كرنے كيلئے كى جاتى ہيں_ ان ميں سے بعض كا تعلق تہذيب و ثقافت اور صحيح مذہبى پروپيگنڈے سے ہے _ اور بعض احكام شريعت اور حدود الہى كے نفاذ اور آلودگى و تباہى سے معاشرہ كو محفوظ ركھنے كے ساتھ تعلق ركھتے ہيں _ يہاں پر ہم ان آيات و روايات كو بطور نمونہ پيش كرتے ہيں جو دينى حكومت كے معنوى اہداف كو بيان كرتى ہيں _ پھر ان اہداف كى فہرست بندى كريں گے _

جو لوگ زمين پراقتدار حاصل كرليتے ہيں، اللہ تعالى ان كے ليئے كچھ مخصوص فرائض بيان كرتاہے_

مثلا نماز كا قائم كرنا ، نيكى كا حكم دينا اور برائي سے روكنا _سورہ حج كى آيت ۴۱ ميں ارشاد خداوندى ہے_

( ''الذين ان مَكّنا هم فى الارض أقاموا الصلوة و آتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الامور ) _''

يہ وہ لوگ ہيں اگرہم انہيں زمين ميں اختيار ديں تو وہ نماز قائم كريں گے اور زكوة ادا كريں گے ، نيكى كا حكم ديں گے اور برائي سے منع كريں گے _ اور يقينا تمام امور كا انجام خدا كے اختيار ميں ہے_

معاشرتى عدل و انصاف پر اسلام نے بہت زيادہ زور ديا ہے _ يہاں تك كہ اسے دينى حكومت كے بنيادى اہداف ميں شمار كيا ہے _سورہ نحل كى آيت ۹۰ ميں ارشاد ہوتاہے:

( ''ان الله يأمر بالعدل والاحسان'' )

يقينا خدا عدل و انصاف اور نيكى كا حكم ديتا ہے _

سورہ شورى كى آيت ۱۵ ميں ارشاد ہے :

''( اُمرت لاعدل بينكم'' )

مجھے حكم ملاہے كہ تمھارے در ميان انصاف كروں_

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367