اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143963 / ڈاؤنلوڈ: 3622
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پہلامحور

آیہء مباہلہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ

پہلی بحث یہ کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مباہلہ کے سلسلہ میں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے کن افرادکودعوت دینی چاہئے تھی،اس سلسلہ میں ایہء شریفہ میں غوروخوض کے پیش نظردرج ذیل چندمسائل ضروری دکھائی دیتے ہیں:

الف:”ابنائنا“اور”نسائنا“سے مرادکون لوگ ہیں؟

ب:”انفسنا“کامقصودکون ہے؟

۔۔۔( تعالوا ندع اٴبنائناو اٴبنا ئکم ) ۔۔۔

ابناء ابن کاجمع ہے یعنی بیٹے،اورچونکہ”ابناء کی“ضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“ کی طرف نسبت دی گئی ہے(۱) اوراس سے مرادخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں،اس لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکم ازکم تین افراد،جوان کے بیٹے شمارہوں،کومباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لاناچاہئے۔

۔۔۔( ونسائنا ونسائکم ) ۔۔۔

”نساء“اسم جمع ہے عورتوں کے معنی میں اورضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“کی طرف اضافت دی گئی ہے۔اس کاتقاضایہ ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے گھرانے میں موجود تمام عورتوں(چنانچہ جمع مضاف کی دلالت عموم پرہوتی ہے) یاکم ازکم تین عورتوں کو)جوکم سے

____________________

۱۔اس آیہء شریفہ میں استعمال کئے گئے متکلم مع الغیر والی ضمیریں،معنی کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔”ندع“میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورطرف مباہلہ وآنحضرت علیہ السلام یعنی نصاریٰ مقصودہے،اور”ابناء“،”نساء“و”انفس“اس سے خارج ہیں۔اور”ابنائنا،”نسائنا“اور”انفسنا“میں خودپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقصودہیں اورطرف مباہلہ اورابناء،نسائ اور انفس بھی اس سے خارج ہیں۔”نبتھل“ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طرف مباہلہ اور ابناء،نساء اورانفس سب داخل ہیں۔

۴۱

کم جمع کی مقدار اور خاصیت ہے)مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے۔

اس بحث میں قابل ذکرہے،وہ”ابنائناونسائناوانفسنا“کی دلالت کااقتضاہے اوربعدوالے جوابات محورمیں جومباہلہ کے ھدف اورمقصدپربحث ہوگی وہ بھی اس بحث کاتکملہ ہے۔

لیکن”ابناء“اور”نساء“کے مصادیق کے عنوان سے کتنے اورکون لوگ مباہلہ میں حاضرہوئے،ایک علیحدہ گفتگوہے جس پرتیسرے محورمیں بحث ہوگی۔

( وانفسنا وانفسکم ) ۔۔۔

انفس،نفس کی جمع ہے اورچونکہ یہلفظ ضمیرمتکلم مع الغیر”نا“(جس سے مقصودخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات ہے)کی طرف مضاف ہے،اس لئے اس پر دلالت کرتاہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو)جمع کے اقتضاکے مطابق)کم ازکم تین ایسے افراد کومباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے جوآپ کے نفس کے زمرے میں آتے ہوں۔ کیا”انفسنا“خودپیغمبراکرم) ص)پرقابل انطباق ہے؟

اگر چہ”انفسنا“ میں لفظ نفس کا اطلاق اپنے حقیقی معنی میں صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نفس مبارک پرہے،لیکن آیہء شریفہ میں موجود قرائن کے پیش نظر”انفسنا“میں لفظ نفس کوخودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پراطلاق نہیں کیاجاسکتا ہے اور وہ قرائن حسب ذیل ہیں:

۴۲

۱ ۔”انفسنا“جمع ہے اورہرفرد کے لئے نفس ایک سے زیادہ نہیں ہوتاہے۔

۲ ۔جملہء( فقل تعالواندع ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواس کے حقیقی معنی میں دعوت دینے کاذمہ دارقراردیتا ہے اورحقیقی دعوت کبھی خودانسان سے متعلق نہیں ہوتی ہے،یعنی انسان خودکودعوت دے،یہ معقول نہیں ہے۔

اس بنائ پر،بعض لوگوں نے تصورکیاہے کہ”فطوّعت لہ نفسہ“یا”دعوت نفسی“جیسے استعمال میں ”دعوت“)دعوت دینا )جیسے افعال نفس سے تعلق پیداکرتے ہیں۔یہ اس نکتہ کے بارے میں غفلت کانتیجہ ہے کہ یہاں پریا تو یہ”نفس“خودانسان اوراس کی ذات کے معنی میں استعمال نہیں ہواہے،یا”دعوت سے مراد “(دعوت دینا)حقیقی نہیں ہے۔بلکہ”فطوّعت لہ نفسہ قتل اخیہ“کی مثال میں نفس کامقصودانسان کی نفسانی خواہشات ہے اوراس جملہ کا معنی یوں ہے ”اس کی نفسانی خواہشات نے اس کے لئے اپنے بھائی کوقتل کرناآسان کردیا“اور”دعوت نفسی“کی مثال میں مقصوداپنے آپ کوکام انجام دینے کے لئے مجبوراورآمادہ کرناہے اوریہاں پردعوت دینا اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ جونفس سے متعلق ہو۔

۳ ۔”ندع“اس جہت سے کہ خودپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرمشتمل ہے اس لئے نفس پردلالت کرتاہے اوریہ ضروری نہیں ہے،کہ دوسروں کودعوت دینے والا خودمباہلہ کا محورہو،اوروہ خودکوبھی دعوت دے دے۔

۴۳

دوسرامحور:

مباہلہ میں اہل بیت رسول (ص)کے حاضر ہونے کامقصد

پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوکیوں حکم ہوا کہ مباہلہ کر نے کے واسطے اپنے خاندان کوبھی اپنے ساتھ لائیں،جبکہ یہ معلوم تھاکہ مباہلہ دوفریقوں کے درمیان دعویٰ ہے اوراس داستان میں ایک طرف خودپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دوسری طرف نجران کے عیسائیوں کے نمائندے تھے؟

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ترین رشتہ داروں کے میدان مباہلہ میں حاضر ہونے کامقصدصرف آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سچی ہونے اوران کی دعوت صحیح ہونے کے سلسلہ میں لوگوں کواطمینان ویقین دکھلانا تھا،کیونکہ انسان کے لئے اپنے عزیز ترین اشخاص کو اپنے ساتھ لاناصرف اسی صورت میں معقول ہے کہ انسان اپنی بات اوردعویٰ کے صحیح ہونے پرمکمل یقین رکھتاہو۔اوراس طرح کااطمینان نہ رکھنے کی صورت میں گویا اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیزوں کوخطرے میں ڈالناہے اورکوئی بھی عقلمند انسان ایسااقدام نہیں کرسکتا۔

پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام رشتہ داروں میں سے صرف چنداشخاص کے میدان مباہلہ میں حاضرہونے کے حوالے سے یہ توجیہ صحیح نہیں ہوسکتی ہے،کیونکہ اس صورت میں اس خاندان کامیدان مباہلہ میں حاضرہونااور اس میں شرکت کرناان کے لئے کسی قسم کی فضیلت اورقدرمنزلت کاباعث نہیں ہوسکتاہے،جبکہ آیہء شریفہ اوراس کے ضمن میں بیان ہونے والی احادیث میں غوروخوض کرنے سے معلوم یہ ہوتاہے کہ اس ماجرامیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جانے والوں کے لئے ایک بڑی فضیلت ہے۔

۴۴

اہل سنت کے ایک بڑے عالم علامہ زمخشری کہتے ہیں:

وفیه دلیل لاشیئ اقویٰ منه علی فضله اصحاب الکساء(۱)

”آیہء کریمہ میں اصحاب کساء)علیہم السلام)کی فضیلت پرقوی ترین دلیل موجود ہے“

آلوسی کاروح المعانی میں کہناہے:

و دلالتها علی فضل آل اللّٰه و رسوله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ممّا لایمتری فیهامؤمن والنصب جازم الایمان(۲)

”آیہ کریمہ میں ال پیغمبر (ص)کہ جو آل اللہ ہیں ان کی فضیلت ہے اوررسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فضیلت،ایسے امور میں سے ہے کہ جن پرکوئی مؤمن شک و شبہ نہیں کر سکتا ہے اور خاندان پیغمبر (ص)سے دشمنی اور عداوت ایمان کونابودکردیتی ہے“

اگرچہ آلوسی نے اس طرح کی بات کہی ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والی سطروں میں اس نے ایک عظیم فضیلت کو خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے موڑ نے کی کوشش کی ہے۔(۳)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال نے کیوں حکم دیاکہ اہل بیت علہیم السلام پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مباہلہ کر نے کے لئے حاضر ہوں؟اس سوال کے جواب کے لئے ہم پھرسے آیہء شریفہ کی طرف پلٹتے ہیں ۔۔۔( فقل تعالوا ندع اٴبناء ناو اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم ثمّ نبتهل فنجعل لعنة اللّٰه علی الکاذبین )

آیہء شریفہ میں پہلے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے’ابناء“،”نسا ء“ اور”انفس“کودعوت دینااورپھردعاکرنااورجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردینابیان ہواہے۔

____________________

۱۔تفسیرالکشاف،ج۱،ص۳۷۰،دارالکتاب العربی ،بیروت۔

۲۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،دارئ احیائ التراث العربی ،بیروت۔

۳۔اس کے نظریہ پراعتراضات کے حصہ میں تنقید کریں گے۔

۴۵

آیہء مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کی فضیلت وعظمت کی بلندی

مفسرین نے کلمہ”ابتھال“کودعامیں تضرع یانفرین اورلعنت بھیجنے کے معنی میں لیاہے اوریہ دونوں معنی ایک دوسرے سے منا فات نہیں رکھتے ہیں اور”ابتھال“کے یہ دونوں معافی ہوسکتے ہیں۔

آیہء شریفہ میں دوچیزیں بیان کی گئی ہیں،ایک ابتھال جو”نبتھل“کی لفظ سے استفادہ ہو تاہے اوردوسرے ”ان لوگوں پرخدا کی لعنت قراردیناجواس سلسلہ میں جھوٹے ہیں“( فنجعل لعنةالله علی الکاذبین ) کاجملہ اس پردلالت کرتاہے اوران دونوں کلموں میں سے ہرایک کے لئے خارج میں ایک خاص مفہوم اورمصداق ہے دوسرا فقرہ جوجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردیناہے پہلے فقرے ابتہال پر”فاء“کے ذریعہ کہ جو تفریع اور سببیت کے معنی میں ہے عطف ہے۔

لہذا،اس بیان کے پیش نظرپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کا تضرع)رجوع الی اللہ)ہے اورجھوٹوں پرخداکی لعنت اورعقوبت کامرتب ہونا اس کامعلول ہے،اوریہ ایک بلند مقام ہے کہ خداکی طرف سے کافروں کوہلاک کرنااورانھیں سزادیناپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ انجام پائے۔یہ مطلب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت)علیہم السلام)کی ولایت تکوینی کی طرف اشارہ ہے،جوخداوندمتعال کی ولایت کے برابر ہے۔

اگرکہاجائے کہ:( فنجعل لعنةالله ) میں ”فاء“اگرچہ ترتیب کے لئے ہے لیکن ایسے مواقع پر”فاء“کے بعدوالاجملہ اس کے پہلے والے جملہ کے لئے مفسرقرار پاتاہے اور وہ تر تیب کہ جس پر کلمہ ”فاء“ دلالت کرتا ہے وہ تر تیب ذکری ہے جیسے:

( ونادیٰ نوح ربّه فقال ربّ إنّ ابنی من اٴهلی ) )ہود/۴۵)

”اورنوح نے اپنے پروردگارکو آواز دی کہ پروردگارامیرافرزندمیری اہل سے ہے۔“

۴۶

یہاں پرجملہء”فقال۔۔۔“جملہ ”فنادیٰ“ کوبیان )تفسیر)کرنے والاہے۔جواب یہ ہے:

اولاً:جس پرکلمہ”فاء“دلالت کرتاہے وہ ترتیب وتفریع ہے اوران دونوں کی حقیقت یہ ہے کہ”جن دوجملوں کے درمیان”فاء“نے رابطہ پیداکیاہے،ان دونوں جملوں کا مضمون ہے کہ دوسرے جملہ کامضمون پہلے جملہ پرمترتب ہے“

اوریہ”فاء“کاحقیقی معنی اورتفریع کالازمہ ہے۔یعنی ترتیب ذکری پر”فاء“کی دلالت اس کے خارج میں دومضمون کی ترتیب کے معنی میں نہیں ہے،بلکہ لفظ اور کلام میں ترتیب ہے لہذا اگراس پرکوئی قرینہ مو جودنہ ہوتوکلام کواس پرحمل نہیں کر سکتے۔اس صورت میں ایہء شریفہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کے لئے ایک عظیم مر تبہ پردلالت رہی ہے کیونکہ ان کی دعاپیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کے برابرہے اورمجموعی طور پریہ دعااس واقعہ میں جھوٹ بولنے والوں پر ہلاکت اورعذاب ا لہٰی نازل ہو نے کا باعث ہے۔

دو سرے یہ کہ:جملہء”فنجعل لعنة اللّٰہ“میں مابعد”فاء“جملہء سابق یعنی ”نبتھل“کے لئے بیّن اورمفسّرہونے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،کیونکہ دعاکرنے والے کا مقصدخداسے طلب کر ناہے نہ جھوٹوں پرلعنت کر نا۔اس صفت کے پیش نظراس کو لعنت قرار دینا )جو ایک تکوینی امر ہے) پہلے پیغمبراسلام (ص)اورآپکے اہل بیت علیہم السلام سے مستندہے اوردوسرے”فاء“تفریع کے ذریعہ ان کی دعاپر متو قف ہے۔گویااس حقیقت کا ادراک خودنجران کے عیسائیوں نے بھی کیاہے۔اس سلسلہ میں ہم فخررازی کی تفسیر میں ذکرکئے گئے حدیث کے ایک جملہ پرتوجہ کرتے ہیں:

۴۷

”۔۔۔فقال اٴسقف نجران: یامعشرالنصاریٰ! إنّی لاٴری وجوهاً لوساٴلو الله اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها فلا تباهلوا فتهلکوا ولایبقی علی وجه الاٴرض نصرانّی إلیٰ یوم القیامة ۔“(۱)

”نجران کے) عسائی)پادریان نورانی چہروں کودیکھ کرانتہائی متائثرہوئے اور بو لے اے نصرانیو!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگروہ خدا سے پہاڑ کے اپنی جگہ سے ٹلنے کا٘ مطالبہ کریں تووہ ضرور اپنی جگہ سے کھسک جا ئیں گے۔اس لئے تم ان سے مباہلہ نہ کرنا،ورنہ ھلاک ہوجاؤگے اورزمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔“

غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آیہء شریفہ کے مضمون میں درج ذیل امورواضح طور پربیان ہوئے ہیں:

۱ ۔پیغمبراکرم (ص)،اپنے اہل بیت علیہم السلام کواپنے ساتھ لے آئے تاکہ وہ آپ کے ساتھ اس فیصلہ کن دعامیں شر یک ہوں اورمباہلہ آنحضرت (ص)اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے مشترک طور پر انجام پائے تاکہ جھوٹوں پرلعنت اورعذاب نازل ہونے میں مؤثرواقع ہو۔

۲ ۔آنحضرت (ص)اورآپکے اہل بیت (ع)کاایمان و یقین نیز آپ کی رسالت اور دعوت کا مقصد تمام لوگوں کے لئے واضح ہوگیا۔

۳ ۔اس واقعہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کا بلند مرتبہ نیز اہل بیت کی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت دنیاوالوں پرواضح ہوگئی۔

اب ہم یہ دکھیں گے کہ پیغمبراسلام)ص)”ابنائنا“)اپنے بیٹوں)”نسائنا“)اپنی عورتوں)اور”انفسنا“)اپنے نفسوں)میں سے کن کواپنے ساتھ لاتے ہیں؟

____________________

۱۔التفسیر الکبیر،فخر رازی،ج۸،ص۸۰،داراحیائ التراث العربی۔

۴۸

تیسرامحور

مباہلہ میں پیغمبر (ص)اپنے ساتھ کس کو لے گئے

شیعہ اور اہل سنّت کااس پراتفاق ہے کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مباہلہ کے لئے علی، فاطمہ، حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکواپنے ساتھ نہیں لائے۔اس سلسلہ میں چندمسائل قابل غورہیں:

الف:وہ احادیث جن میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت علیہم السلام کامیدان مباہلہ میں حاضرہونابیان کیاگیاہے۔

ب:ان احادیث کا معتبراورصحیح ہونا۔

ج۔اہل سنّت کی بعض کتابوں میں ذکرہوئی قابل توجہ روایتیں۔

مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کے حاضر ہونے کے بارے میں حدیثیں ۱ ۔اہل سنّت کی حد یثیں:

چونکہ اس کتاب میں زیادہ تر روئے سخن اہل سنّت کی طرف ہے لہذااکثرانھیں کے منابع سے احادیث نقل کی جائیں گی۔نمو نہ کے طورپراس حوالے سے چنداحادیث نقل کی جا رہی ہیں:

پہلی حدیث:

صحیح مسلم(۱) سنن ترمذی(۲) اورمسنداحمد(۳) میں یہ حدیث نقل ہوئی ہےجس کی متفق اور مسلم لفظیں یہ ہیں:

____________________

۱۔صحیح مسلم،ج۵،ص۲۳کتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل علی بن ابیطالب،ح۳۲،موسسئہ عزالدین للطباعةوالنشر

۲۔سنن ترمذی،ج۵،ص۵۶۵ دارالفکر ۳۔مسنداحمد،ج،۱،ص۱۸۵،دارصادر،بیروت

۴۹

”حدثنا قتیبة بن سعید و محمد بن عباد قالا: حدثنا حاتم) و هو ابن اسماعیل) عن بکیر بن مسمار، عن عامر بن سعد بن اٴبی وقاص، عن اٴبیه، قال: اٴمر معاویه بن اٴبی سفیان سعدا ًفقال: ما منعک اٴن تسب اٴبا التراب؟ فقال: اٴماّ ما ذکرتُ ثلاثاً قالهنّ له رسواللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فلن اٴسبّه لاٴن تکون لی واحدة منهنّ اٴحبّ إلیّ من حمرالنعم

سمعت رسول للّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول له لماّ خلّفه فی بعض مغازیه فقال له علیّ: یا رسول اللّٰه، خلّفتنی مع النساء والصبیان؟ فقال له رسول اللّٰه( ص) :اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی إلاّ انه لانبوة بعدی؟

و سمعته یقول یوم خیبر: لاٴُعطیّن الرایة رجلاً یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله قال: فتطاولنا لها فقال: اُدعو الی علیاً فاٴُتی به اٴرمد، فبصق فی عینه ودفع الرایة إلیه،ففتح اللّٰه علیه

ولماّنزلت هذه الایة( فقل تعا لواندع ابنائناوابنائکم ) دعا رسول اللّٰه-صلی اللّٰه علیه وسلم –علیاًوفاطمةوحسناًوحسیناً فقال:اللّهمّ هؤلائ اٴهلی“

”قتیبةبن سعید اور محمد بن عبادنے ہمارے لئے حدیث نقل کی،-- عامربن سعدبن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ)سعد بن ابی وقاص)سے کہ معاویہ نے سعدکوحکم دیااورکہا:تمھیں ابوتراب)علی بن ابیطالب علیہ السلام)کودشنام دینے اور برا بھلا کہنے سے کو نسی چیز مانع ہوئی)سعدنے)کہا:مجھے تین چیزیں)تین فضیلتیں)یادہیں کہ جسے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے،لہذامیں انھیں کبھی بھی برابھلا نہیں کہوں گا۔اگرمجھ میں ان تین فضیلتوں میں سے صرف ایک پائی جاتی تووہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے محبوب ترہوتی:

۵۰

۱ ۔میں نے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے ایک جنگ کے دوران انھیں)حضرت علی علیہ السلام)مدینہ میں اپنی جگہ پررکھاتھااورعلی(علیہ السلام)نے کہا:یارسول اللہ!کیاآپمجھے عورتوں اوربچوں کے ساتھ مدینہ میں چھوڑرہے ہیں؟ )آنحضرت (ص)نے) فرمایا:کیاتم اس پرراضی نہیں ہوکہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہوجو ہارون کی)حضرت)موسی)علیہ السلام )کے ساتھ تھی،صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں ہو گا؟

۲ ۔میں نے)رسول خدا (ص))سے سنا ہے کہ آپ نے روز خیبر علی کے با رے میں فرمایا:بیشک میں پرچم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گاجوخدا ورسول (ص)کو دوست رکھتاہے اورخداورسول (ص)اس کو دوست رکھتے ہیں۔)سعدنے کہا):ہم)اس بلندمرتبہ کے لئے)سراٹھاکر دیکھ رہے تھے)کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس امر کے لئے ہمیں مقررفرماتے ہیںیانہیں؟)اس وقت آنحضرت (ص)نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کو میرے پاس بلاؤ ۔ علی (علیہ السلام) کو ایسی حالات میں آپکے پاس لایا گیا، جبکہ ان کی آنکھوں میں دردتھا،آنحضرت (ص)نے اپنا آب دہن ان کی آنکھوں میں لگا یااورپرچم ان کے ہاتھ میں تھمادیااورخدائے متعال نے ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کوفتح عطاکی۔

۳ ۔جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی( : قل تعالو اندع اٴبناء نا و اٴبنائکم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ) ۔۔۔ توپیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین) علیہم السلام )کوبلاکرفرمایا:خدایا!یہ میرے اہل بیت ہیں۔“

اس حدیث سے قابل استفادہ نکات:

۱ ۔حدیث میں جوآخری جملہ آیاہے:”الّٰلہمّ ھٰؤلاء ا ھلی“خدایا!یہ میرے اہل ہیں،اس بات پردلالت کرتاہے”ابناء“”نساء“اور”انفس“جوآیہء شریفہ میں ائے ہیں،وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل ہیں۔

۵۱

۲ ۔”ابناء“”نساء“و”انفس“میں سے ہرایک جمع مضاف ہیں)جیساکہ پہلے بیان کیاگیا)اس کا اقتضایہ ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنے خاندان کے تمام بیٹوں،عورتوں اور وہ ذات جو آپ کا نفس کہلاتی تھی،سب کومیدان مباہلہ میں لائیں،جبکہ آپ نے”ابناء“میں سے صرف حسن وحسیںعلیہما السلام کواور”نساء“سے صرف حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکواور”انفس“سے صرف حضرت علی علیہ السلام کواپنے ساتھ لایا۔اس مطلب کے پیش نظرجوآپ نے یہ فرمایا:”خدایا،یہ میرے اہل ہیں“اس سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل صرف یہی حضرات ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اس معنی میں اپکے اہل کے دائرے سے خارج ہیں۔

۳ ۔”اہل“اور”اہل بیت“کے ایک خاص اصطلاحی معنی ہیں جوپنجتن پاک کہ جن کوآل عبااوراصحاب کساء کہاجاتاہے،ان کے علاوہ دوسروں پر اس معنی کااطلاق نہیں ہو تاہے۔یہ مطلب،پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی احا دیث سے کہ جو آیہء تطہیر کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ دوسری مناسبتوں سے بیان کی ہیں گئی بخوبی استفادہ کیا جاسکتاہے۔

دوسری حدیث:

فخررازی نے تفسیرکبیرمیں ایہء مباہلہ کے ذیل میں لکھاہے:

”روی اٴنّه - علیه السلام - لماّ اٴورد الدلائل علی نصاری نجران،ثمّ إنّهم اٴصروا علی جهلهم، فقال - علیه السلام - إنّ اللّٰه اٴمرنی إن لم تقبلوا الحجّة اٴن اٴباهلکم فقالوا: یا اٴبا القاسم، بل نرجع فننظر فی اٴمرنا ثمّ ناٴتیک

فلمّا رجعوا قالوا للعاقب - وکان ذاراٴیهم - :یا عبدالمسیح، ماتری؟ فقال: و اللّٰه لقد عرفتم یا معشر النصاری اٴنّ محمداً نبیّ مرسل و لقد جاء کم بالکلام الحق فی اٴمر صاحبکم و اللّٰه ما باهل قوم نبیاً قط فعاش کبیرهم و لا نبت صغیرهم! و لئن فعلتم لکان الا ستئصال ، فإن اٴبیتم إلاّ الإصرار علی دینکم و الإقامة علی ما اٴنتم علیه فوادعوا الرجل و انصرفوا إلی بلادکم

۵۲

و کان رسول اللّٰه( ص) خرج وعلیه مرط من شعراٴسود، وکان قد احتضن الحسین واٴخذ بید الحسن، و فاطمه تمشی خلفه وعلی - علیه السلام - خلفها، و هو یقول:إذا دعوت فاٴمّنوا فقال اٴسقف نجران: یا معشر النصاری! إنّی لاٴری وجوها ًلو ساٴلوا اللّٰه اٴن یزیل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها! فلا تباهلوا فتهلکوا، و لا یبقی علی وجه الاٴض نصرانیّ إلی یوم القیامة ثمّ قالوا: یا اٴبا القاسم! راٴینا اٴن لا نباهلک و اٴن نقرّک علی دینک فقال:- صلوات اللّٰه علیه - فإذا اٴبیتم المباهلة فاسلموا یکن لکم ما للمسلمین، و علیکم ما علی المسلمین، فاٴبوا، فقال: فإنیّ اٴُناجزکم القتال، فقالوا مالنا بحرب العرب طاقة، ولکن نصالک علی اٴن لا تغزونا و لاتردّنا عن دیننا علی اٴن نؤدّی إلیک فی کل عام اٴلفی حلّة:اٴلفاٴ فی صفر و اٴلفافی رجب، و ثلاثین درعاً عادیة من حدید، فصالحهم علی ذلکوقال: والّذی نفسی بیده إنّ الهلاک قد تدلّی علی اٴهل نجران، ولولاعنوالمسخوا قردة و خنازیر و لاضطرم علیهم الوادی ناراً ولاستاٴ صل اللّٰه نجران واٴهله حتی الطیر علی رؤس الشجر و لما حالا لحوال علی النصاری کلّهم حتی یهلکوا و روی اٴنّه - علیه السلام -لمّ خرج فی المرط الاٴسود فجاء الحسن -علیه السلام - فاٴدخله، ثمّ جائ الحسین -علیه السلام - فاٴدخله ،ثمّ فاطمة - علیها السلام - ثمّ علی - علیه السلام - ثمّ قال:( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) واعلم اٴنّ هذه الروایة کالمتّفق علی صحّتها بین اٴهل التّفسیر والحدیث“(۱)

”جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پردلائل واضح کردئے اور انہوں نے اپنی نادانی اورجہل پراصرارکیا،تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:خدائے متعال نے مجھے حکم دیاہے اگرتم لوگوں نے دلائل کوقبول نہیں کیا تو تمہارے ساتھ مباہلہ کروں گا۔“)انہوں نے)کہا:اے اباالقاسم!ہم واپس جاتے ہیں تاکہ اپنے کام کے بارے میں غوروفکرکرلیں،پھرآپکے پاس آئیں گے۔

____________________

۱۔تفسیرکبیرفخر رازی،ج۸،ص،۸،داراحیائ التراث العربی۔

۵۳

جب وہ)اپنی قوم کے پاس)واپس چلے گئے،انھوں نے اپنی قوم کے ایک صاحب نظر کہ جس کا نام”عاقب“تھا اس سے کہا:اے عبدالمسیح!اس سلسلہ میں آپ کانظریہ کیا ہے؟اس نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!تم لوگ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوپہنچانتے ہواورجانتے ہووہ ا للہ کے رسول ہیں۔اورآپ کے صاحب)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام)کے بارے میں حق بات کہتے ہیں۔خداکی قسم کسی بھی قوم نے اپنے پیغمبرسے مباہلہ نہیں کیا،مگر یہ کہ اس قوم کے چھوٹے بڑے سب ہلاک ہو گئے ۔چنانچہ اگرتم نے ان سے مباہلہ کیاتو سب کے سب ہلاک ہوجاؤگے۔ اس لئے اگراپنے دین پرباقی رہنے کے لئے تمھیں اصرار ہے توانہیں چھوڑکراپنے شہر واپس چلے جاؤ۔پیغمبراسلام (ص))مباہلہ کے لئے)اس حالت میں باہرتشریف لائے کہ حسین(علیہ السلام)آپکی آغوش میں تھے،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے تھے،فاطمہ (سلام اللہ علیہا)آپکے پیچھے اورعلی(علیہ السلام)فاطمہ کے پیچھے چل رہے تھے۔آنحضرت (ص)فرماتے تھے:”جب میں دعامانگوں تو تم لوگ آمین کہنا“نجران کے پادری نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگرخداسے دعا کریں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ۔لہذاان کے ساتھ مباہلہ نہ کرنا،ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤگے اور روی زمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہیں کریں گے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اب جبکہ مباہلہ نہیں کررہے ہوتومسلمان ہوجاؤتاکہ مسلمانوں کے نفع ونقصان میں شریک رہو۔انہوں نے اس تجویزکوبھی قبول نہیں کیا۔

۵۴

آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس صورت میں تمھارے ساتھ ہماری جنگ قطعی ہے۔انہوں نے کہا:عربوں کے ساتھ جنگ کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔لیکن ہم آپ کے ساتھ صلح کریں گے تاکہ آپ ہمارے ساتھ جنگ نہ کریں اورہمیں اپنادین چھوڑنے پرمجبورنہ کریں گے،اس کے بدلہ میں ہم ہرسال آپ کودوہزارلباس دیں گے،ایک ہزار لباس صفرکے مہینہ میں اورایک ہزارلباس رجب کے مہینہ میں اورتیس ہزارآ ہنی زرہ اداکریں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس تجویزکوقبول کر لیااس طرح ان کے ساتھ صلح کرلی۔اس کے بعدفرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اہل نجران نابودی کے دہانے پرپہو نچ چکے تھے،اگرمباہلہ کرتے توبندروں اورسوروں کی شکل میں مسنح ہوجاتے اورجس صحرامیں سکونت اختیار کر تے اس میں آگ لگ جاتی اورخدا وندمتعال نجران اوراس کے باشندوں کو نیست و نابود کر دیتا،یہاں تک کہ درختوں پرموجودپرندے بھی ہلاک ہوجاتے اورایک سال کے اندراندرتمام عیسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔روایت میں ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہرتشریف لائے)اپنے بیٹے)حسن(علیہ السلام)کوبھی اس میں داخل کر لیا،اس کے بعدحسین(علیہ السلام) آگئے انہیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعدعلی و فاطمہ )علیہما السلام) تشریف لائے اس کے بعد فرمایا:( إنّمایریداللّه ) ۔۔۔ ”پس اللہ کاارادہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر طرح کی کثافت وپلیدی سے دوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے میں کہا ہے کہ تمام علماء تفسیر و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق علیہ ہے۔“

۵۵

حدیث میں قابل استفادہ نکات:

اس حدیث میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:

۱ ۔اس حدیث میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت کاحضور اس صورت میں بیان ہواہے کہ خودآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آگے آگے)حسین علیہ السلام)کوگود میں لئے ہوئے ،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے جوحسین(علیہ السلام)سے قدرے بڑے ہیں اورآپکی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہاآپکے پیچھے اوران کے پیچھے(علیہ السلام) ہیں۔یہ کیفیت انتہائی دلچسپ اور نمایاں تھی۔کیو نکہ یہ شکل ترتیب آیہء مباہلہ میں ذکرہوئی تر تیب و صورت سے ہم آہنگ ہے۔اس ہماہنگی کا درج ذیل ابعادمیں تجزیہ کیاجاسکتاہے:

الف:ان کے آنے کی ترتیب وہی ہے جوآیہء شریفہ میں بیان ہوئی ہے۔یعنی پہلے ”ابناء نا“اس کے بعد”نسائنا“اورپھرآخرپر”ا نفسنا“ہے۔

ب:یہ کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چھوٹے فرزندحسین بن علی علیہماالسلام کوآغوش میں لئے ہوئے اوراپنے دوسرے فرزندخورد سال حسن بن علی علیہماالسلام کاہاتھ پکڑے ہوئے ہیں،یہ آیہء شریفہ میں بیان ہوئے”بناء نا“ کی عینی تعبیرہے۔

ج۔بیچ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کاقرارپانااس گروہ میں ”نساء نا“کے منحصربہ فردمصداق کے لئے آگے اورپیچھے سے محافظ قرار دیا جا نا،آیہء شریفہ میں ”نساء نا“کی مجسم تصویر کشی ہے۔

۲ ۔اس حدیث میں پیغمبراکرم (ص)نے اپنے اہل بیت علیہم السلام سے فرمایا:اذادعوت فاٴ منوا “یعنی:جب میں دعاکروں توتم لوگ آمین(۱) کہنااوریہ وہی

____________________

۱۔دعا کے بعد آمین کہنا،خدا متعال سے دعا قبول ہونے کی درخواست ہے۔

۵۶

چیزہے جوآیہء مباہلہ میں ائی ہے:( نبتهل فنجعل لعنةالله علی الکاذبین )

یہاں پر”ابتھال“)دعا)کوصرف پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت دی گئی ہے،بلکہ”ابتھال“پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعاکی صورت میں اورآپ کے ہمراہ آئے ہوئے اعزّہ واقر باکی طرف سے آمین کہنے کی صورت میں محقق ہونا چاہئے تاکہ )اس واقعہ میں )جھوٹوں پرہلاکت اورعقوبت الہٰی واقع ہونے کاسبب قرارپائے،جیساکہ گزر چکا ہے۔

۳ ۔گروہ نصارٰی کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی عظمت وفضیلت کا اعتراف یہاں تک کہ ان کے نورانی و مقدس چہروں کو دیکھنے کے بعد مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا۔

تیسری حدیث:

ایک اورحدیث جس میں ”ابنائنا“،”نسائنا“اور”انفسنا“کی لفظیں صرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام پر صادق آتی ہیں،وہ حدیث”مناشد یوم الشوری“ہے۔اس حدیث میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام،اصحاب شوریٰ)عثمان بن عفان،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیراورسعدبن ابی وقاص) سے کہ جس دن یہ شورٰی تشکیل ہوئی اورعثمان کی خلافت پرمنتج و تمام ہوئی،اپنے فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتے ہیں۔اس طرح سے کہ ان تمام فضیلتوں کو یاد دلاتے ہوئے انہیں خداکی قسم دیتے ہیں اور ان تمام فضیلتوں کو اپنی ذات سے مختص ہونے کاان سے اعتراف لیتے ہیں۔حدیث یوں ہے:

۵۷

”اٴخبر نا اٴبو عبد اللّٰه محمد بن إبرهم، اٴنا ابوالفضل اٴحمد بن عبدالمنعم بن اٴحمد ابن بندار، اٴنا اٴبوالحسن العتیقی، اٴنا اٴبوالحسن الدارقطنی، اٴنا اٴحمد بن محمد بن سعید، اٴنا یحی بن ذکریا بن شیبان، اٴنا یعقوب بن سعید، حدثنی مثنی اٴبو عبداللّٰه،عن سفیان الشوری، عن اٴبن إسحاق السبیعی، عن عاصم بن ضمرةوهبیرة و عن العلاء بن صالح، عن المنهال بن عمرو، عن عبادبن عبداللّٰه الاٴسدی و عن عمروبن و اثلة قالوا: قال علیّ بن اٴبی طالب یوم الشوری: واللّٰه لاٴحتجنّ علیهم بمالایستطیع قُرَشیّهم و لا عربیّهم و لا عجمیّهم ردّه و لا یقول خلافه ثمّ قال لعثمان بن عفان ولعبدالرحمن بن عوف و الزبیر و لطلحة وسعد - و هن اٴصحاب الشوری و کلّهم من قریش، و قد کان قدم طلحة - اُنشدکم باللّٰه الذی لا إله إلّاهو، اٴفیکم اٴحد وحّد اللّٰه قبلی؟ قالوا:اللّهمَّ لا قال: اٴنشدکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴخو رسول اللّٰه - صلی اللّٰه علیه وسلم - غیری، إذ آخی بین المؤمنین فاٴخی بینی و بین نفسه و جعلنی منه بمنزلة هارون من موسی إلّا اٴنی لست بنبیً؟قالوا:لاقال:اٴنشدکم باللّٰه،اٴفیکم مطهَّرغیری،إذسدّ رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اٴبوابکم و فتح بابی و کنت معه فی مساکنه ومسجده؟ فقام إلیه عمّه فقال: یا رسول اللّٰه، غلّقت اٴبوابنا و فتحت باب علیّ؟ قال: نعم، اللّٰه اٴمر بفتح با به وسدّ اٴبوابکم !!! قالوا:اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد اٴحب إلی للّٰه و إلی رسوله منّی إذ دفع الرایة إلیّ یوم خیر فقال : لاٴعطینّ الرایة إلی من یحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله، و یوم الطائر إذ یقول: ” اللّهمّ ائتنی باٴحب خلقک إلیک یاٴکل معی“، فجئت فقال: ” اللّهمّ و إلی رسولک ، اللّهمّ و إلی رسولک“

۵۸

غیری؟(۱) قالوا:اللّهمّ لا قال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد قدم بین یدی نجواه صدقة غیری حتی رفع اللّٰه ذلک الحکم؟ قالوا: اللّهمّ لاقال:نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم من قتل مشرکی قریش و العرب فی اللّٰه و فی رسوله غیری؟ قالوا:اللّهمّ لاقال: نشدتکم باللّٰه، اٴفیکم اٴحد دعا رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فیالعلم و اٴن یکون اُذنه الو اعیة مثل ما دعالی؟ قالوا: اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، هل فیکم اٴحد اٴقرب إلی رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی الرحم و من جعله و رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نفسه و إبناء اٴنبائه وغیری؟ قالوا:اللّٰهم لا“(۲)

اس حدیث کومعاصم بن ضمرةوہبیرةاورعمروبن وائلہ نے حضرت )علی علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے شوریٰ کے دن یوں فرمایا:

”خداکی قسم بیشک میں تمہارے سامنے ایسے استدلال پیش کروں گا کہ اھل عرب و عجم نیز قریش میں سے کوئی شخص بھی اس کومستردنہیں کرسکتااورمذھبی اس کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہے۔میں تمھیں اس خداکی قسم دلاتاہوں جس کے سوا کوئی خدانہیں ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ایسا ہے جس نے مجھ سے پہلے خدائے واحدکی پرستش کی ہو۔؟ انہوں نے کہا: خدا شاہد ہے! نہیں۔ آپ(ع)نے فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی ہو،جب)آنحضرت (ص)نے)مؤمنین کے درمیان اخوت اوربرادری برقرارکی،اورمجھے اپنا بھائی بنایااور میرے بارے

____________________

۱۔شائدمقصودیہ ہوکہ”خداوندا!تیرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے نزدیک بھی محبوب ترین مخلوق علی)علیہ السلام ہیں۔“

۲۔تاریخ مدینہ دمشق،ج۴۲،ص۴۳۱،دارالفکر

۵۹

میں یہ ارشاد فر ما یا کہ:” تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی جیسے ہارون کی موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میں نبی نہیں ہوں “۔

انہوں نے کہا:نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دے کر کہتاہوں کہ کیامیرے علاوہ تم لوگوں میں کوئی ایساہے جسے پاک وپاکیزہ قراردیاگیاہو،جب کہ پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمھارے گھروں کے دروازے مسجدکی طرف بندکردئیے تھے اورمیرے گھرکادروازہ کھلارکھا تھااورمیں مسکن ومسجدکے سلسلہ میں انحضرت (ص)کے ساتھ )اور آپ کے حکم میں )تھا،چچا)حضرت)عباس اپنی جگہ اٹھے اورکہا:اے اللہ کے رسول !ہمارے گھروں کے دروازے بند کر دئیے اورعلی) علیہ السلام )کے گھرکاادروازہ کھلارکھا؟

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:یہ خدائے متعال کی طرف سے ہے کہ جس نے ان کے دروازہ کوکھلارکھنے اورآپ لوگوں کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا؟

انہوں نے کہا:خداشاہدہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیا تمہارے درمیان کوئی ہے جسے خدااوررسول مجھ سے زیادہ دوست رکھتے ہوں،جبکہ پیغمبر (ص)نے خیبرکے دن علم اٹھاکرفرمایا”بیشک میں علم اس کے ہاتھ میں دونگاجوخداورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کودوست رکھتاہے اورخدااوررسول اس کودوست رکھتے ہیں“اورجس دن بھنے ہوئے پرندہ کے بارے میں فرمایا:”خدایا!میرے پاس اس شخص کو بھیج جسے توسب سے زیادہ چاھتا ہے تاکہ وہ میرے ساتھ کھا نا کھائے۔“اوراس دعاکے نتیجہ میں ،میں اگیا۔میرے علاوہ کون ہے جس کے لئے یہ اتفاق پیش آیا ہو؟

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

سورہ نساء كى آيت ۵۸ ميں حكم ہے :

''ان الله يأمركم ا ن تُودّوا الامانات الى اهلها و اذا حكمتم بين الناس ا ن تحكموا بالعدل ''

بے شك خدا تمھيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچادو _اور جب لوگوں كے درميان فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _

ابوحمزہ ثمالى نے امام باقر سے امام اور لوگوں كے باہمى حقوق كے متعلق پوچھا تو امام نے عدل و انصاف كو لوگوں كا امام پر حق قرار ديا _ ابوحمزہ ثمالى كہتے ہيں :

''سألت أبا جعفر (ع) ما حقّ الإمام على الناّس؟ قال: '' حقه عليهم ان يسمعوا له و يطيعوا'' قلت: فما حقّهم عليه ؟ قال: '' يقسّم بينهم بالسوية و يعدل فى الرعية ''(۱)

ميں نے امام باقر سے پوچھا كہ امام كا لوگوں پر كيا حق ہے ؟آپ نے فرمايا امام كا ان پر يہ حق ہے كہ وہ امام كى بات سنيں اور اطاعت كريں _پھر ميں نے پوچھا لوگوں كا امام پر كيا حق ہے ؟آپ نے فرمايا: بيت المال كو ان كے در ميان بطور مساوى تقسيم كرے اور رعيت كے درميان عدل و انصاف كرے

حضرت على فرماتے ہيں : ''امام عادل خيرٌ من مطر وابل''

امام عادل موسلہ دھار بارش سے بہتر ہے _(۲)

امام رضا مخصوص معنوى اورثقافتى اہداف كو امام كے فرائض ميں سے شمار كرتے ہوئے فرماتے ہيں :

والإمام يحلّ حلال الله و يحرّم حرام الله و يقيم حدود الله ويذبّ عن دين الله و يدعوا إلى سبيل ربه بالحكمة و الموعظة

____________________

۱) كافى ،ج ۱، ص ۴۰۵، باب مايجب من حق الامام على الرعية، ح۱_

۲) غررالحكم ،آمدى ج ۱ ، ص ۳۸۶، ح ۱۴۹۱_

۳۰۱

الحسنة و الحجةالبالغة (۱)

امام حلال خدا كو حلال اور حرام خدا كو حرام قرار ديتا ہے ، حدود الہى كو قائم كرتا ہے ، دين خدا كا دفاع كرتا ہے اور(لوگوں كو ) حكمت ، موعظہ حسنہ اور محكم دليل كے ذريعہ راہ خدا كى طرف دعوت ديتا ہے_

حضرت اميرالمومنين خدا سے مناجات كرتے ہيں _ اور اس نكتہ'' كہ مسلمانوں پر حكومت قبول كرنے كاميرامقصد كوئي دنيوى منصب و اقتدار اور بے قيمت دنيوى مال و متاع كا حصول نہيں تھا ''كے ضمن ميں تين اہداف كا ذكر كرتے ہيں جن ميں سے دو معنوى اہداف ہيں :

''اللهمّ إنّك تعلم انّه لم يكن الذى كان منّا منافسة فى سلطان، ولا التماس شي من فضول الحطام ، و لكنّ لنرد المعالم من دينك ، و نُظهر الاصلاح فى بلادك فيأمن المظلومون من عبادك، و تقام المعطّلة من حدودك ''

اے پروردگار تو جانتا ہے كہ ميں نے يہ كام نہ ملك و سلطنت كے حصول كيلئے كيا ہے اور نہ ہى اس دنيا كے پست و بے قيمت مال كو اكھٹا كرنے كيلئے كيا ہے _

ميں نے يہ قدم اس لئے اٹھايا ہے تا كہ تيرے دين كى تعليمات كو واپس لے آؤں، صلح و سلامتى كو تيرے شہروں ميں برقرار كروں تا كہ تيرے مظلوم بندے امن سے رہ سكيں اور تيرے ان قوانين كو زندہ كروں جنہيں معطل كر ديا گيا ہے_(۲)

حق كا قيام اور باطل سے مبارزت بھى دينى حكومت كے اہداف ميں سے ہے سورہ ص كى آيت ۲۶ ميں ارشادہے : ''يا داود انّا جعلناك خليفة فى الارض فاحكم بين الناس بالحق'' اے داود ہم نے تمھيں زمين پر خليفہ مقرركيا ہے _ پس لوگوں كے درميان حق كے ساتھ فيصلہ كرو_

____________________

۱) كافي، ج ۱، ص۲۰۰، باب نادر جامع فى فضل الامام و صفاتہ ،ح ۱_

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۳۱_

۳۰۲

حضرت على اور ابن عباس كے درميان ''ذى قار'' كے مقام پر جو مكالمہ ہوا تھا اس ميں آپ (ع) نے حكومت كرنے كا مقصد حق كا قيام اور باطل كو روكنا قرار ديا تھا آنحضرت (ص) نے جب معاذ ابن جبل كو يمن كا والى بنا كر بھيجا تو انہيں كچھ اہم نصيحتيں كيں _ جن ميں سے بعض دينى حكومت كے معنوى اہداف كى طرف اشارہ كرتى ہيں آپ نے فرمايا :

''يا معاذ، عَلّمهُم كتابَ الله وأحسن أدبَهم على الأخلاق الصالحة و أنزل النّاس منازلَهم خيرَهم و شرّهم و أمت أمرَ الجاهليّة إلاّ ما سنّه الإسلام و أظهر أمر الإسلام كلَّه، صغيرَه و كبيرَه، و ليكن أكثر همّك الصلاة: فإنّها رأس الإسلام بعد الإقرار بالدين و ذكّر الناس بالله واليوم الآخر و اتّبع الموعظة; فإنّه أقوى لهم على العمل بما يحبّ الله ثمّ بثّ فيهم المعلّمين، و اعبد الله الّذ إليه ترجع، و لا تَخَف فى الله لومة لائم'' (۱)

اے معاذ لوگوں كو قرآن كى تعليم دينا _ اچھے اخلاق سيكھانا ، اچھے اور برے افراد كو ان كے مقام پرركھنا ...جاہليت كى ہر رسم كو فنا كردينا مگر جس كى اسلام نے اجازت دى ہے _ اسلام كے چھوٹے بڑے ہر حكم كو قائم كرنا _ ليكن تيرى زيادہ كوشش نماز كے متعلق ہونى چاہيے _ كيونكہ دين كا اقرار كرنے كے بعد نماز اسلام كا سب سے اہم ركن ہے ، لوگوں كو خدا اور قيامت كى ياد دلانا ، وعظ و نصيحت كو ياد ركھنا ، يہ ان كے لئے خدا كے پسنديدہ امور پر عمل كرنے كيلئے مدد گار ثابت ہوگا _ پھر معلمين كو ان ميں پھيلادينا اور اس خدا كى عبادت كرنا جس كى طرف تجھے پلٹ كرجانا ہے اور خدا كے سلسلہ ميں كسى ملامت كرنے والے كى ملامت سے مت ڈرنا_

____________________

۱) تحف العقول ،ص ۲۶_

۳۰۳

خلاصہ :

۱) دوسرے سياسى نظاموں سے دينى حكومت كو ممتاز كرنے والى ايك چيز اسلامى حكومت كے اہداف اور فرائض ہيں _

۲) موجودہ دور ميں خصوصاً لبرل جمہوريت ميں نظريہ '' حكومت حداقل'' اور حكومت كے اہداف و فرائض كو محدود كرنے كى حمايت كى جاتى ہے _

۳) لبرل جمہورى حكومتيں خير و سعادت اور اخلاق و معنويت جيسے امور كو انفرادى خصوصيات قرار ديتے ہوئے حكومت كے اہداف اور فرائض سے خارج سمجھتى ہے _

۴)دينى حكومت كے اہداف و فرائض كى تحقيق و بررسى ''اسلام كى نگاہ ميں مقام حكومت كى وضاحت ''كے ساتھ مربوط ہے _

۵) اسلام كى نظر ميں حكومت ايك سنگين ذمہ دارى اور عظيم امانت ہے ، اور حكومت كا حاصل كرلينا كسى مقام و منزلت يا كمال پر فائز ہونا نہيں ہے _

۶)حكومت كى اہميت امانت الہى كى ادائيگى ميں ہے اور امانت كا ادا كرنا ان اہداف اور فرائض كے انجام دينے پر موقوف ہے جو حكومت اور حكمرانوں كيلئے مقرر كئے گئے ہيں _

۷) دينى حكومت كے اہداف كو دو بنيادى قسموں يعني'' معنوى اہداف'' اور'' دنيوى اہداف'' ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _

۸) آيات و روايات ميں حكومت كے معنوى اہداف پر بہت زور ديا گيا ہے _

۳۰۴

سوالات :

۱) حكومت كے اہداف اور فرائض كے متعلق لبرل ازم كا كيا نظريہ ہے ؟

۲) لبرل جمہوريت كے معتقدين كے سياسى نظريہ ميں سعادت اور معنويت كا كيا مقام ہے ؟

۳) اسلام كى نگاہ ميں حكومت كى حقيقت كيا ہے ؟

۴) دينى حكومت كے ''معنوى اہداف ''سے كيا مراد ہے ؟

۳۰۵

تيسواں سبق :

دينى حكومت كے اہداف اور فرائض -۲-

گذشتہ سبق ميں ہم نے دينى حكومت كے اہداف كو دو حصوں ميں تقسيم كيا تھا مادى اہداف اور معنوى اہداف ، اور بعض وہ آيات و روايات ذكر كى تھيں جو معنوى اہداف كو بيان كرتى ہيں _ معنوى اہداف كو درج ذيل امور ميں خلاصہ كيا جاسكتا ہے _

۱)_ امور كے اجرا ميں حق كا قيام اور حق پرستى جبكہ باطل، شرك اور جاہليت كا خاتمہ

۲)_ عدل و انصاف كو عام كرنا _

۳)_ حدود الہى كا اجرا _

۴)_ معارف الہى كى تعليم اور عبادت و عبوديت كو پھيلانے كيلئے كوششيں كرنا_

۵)_ نيكى كا حكم دينا اور برائي سے روكنا _

۶)_ دين الہى كا دفاع اور توحيد الہى كى دعوت كو عام كرنا _

۳۰۶

ب_ دنيوى اہداف

دينى حكومت كے دنيوى اہداف سے مراد وہ اہداف ہيں جن كے بارے ميں عقلى طور پر ہميشہ يہ توقع كى جاتى ہے كہ ايك با صلاحيت عوامى حكومت ان كيلئے خاص اہتمام كرے اور ان كو خصوصى اہميت دے_ يہاں ان اہداف كے ذكر كرنے كا مقصد يہ ہے كہ ہمارے دينى منابع نے امر معاش ،رفاہ عامہ اور معاشرہ كے امن و امان سے سرد مہرى اور بے توجہى نہيں برتي_ اسلامى تعليمات ميں دنيوى آباد كارى كے ساتھ ساتھ ہميشہ آخرت كى فكر بھى اولياء دين كے پيش نظر رہى ہے _ بنابريں دينى حكومت كے اہداف ميں ان امور كى طرف بھى اشارہ كيا گيا ہے جو معاش اور مختلف دنيوى پہلوؤں كے ساتھ مربوط ہوتے ہيں _ دينى حكومت كے دنيوى اہداف وہى اہداف ہيں جن كا دوسرى سيكولر حكومتيں دعوى كرتى ہيں _ بحث كے آخر ميں ہم ان اہداف كے حصول ميں دينى حكومت اور سيكولر حكومت ميں جو بنيادى فرق ہے اس كى طرف اشارہ كريں گے _

قرآن مجيد ميں حفظ امنيت اور اسلامى معاشرہ كى فوجى قوت پر بڑا زور ديا گيا ہے

سورہ انفال كى آيت ۶۰ ميں ارشاد خداوندى ہے:

''( و اعدوا لهم ما استطعتم من قوة و من رباط الخيل ترهبون به عدوّ الله و عدوّكم ) ''

اور تم بھى جہاں تك ممكن ہوسكے قوت اور گھوڑوں كى صف بندى كا انتظام كرو تا كہ تم اس سے خدا اور اپنے دشمن كو خوفزدہ كرو_

امام صادق بھى امن و امان كى برقرارى اور آباد كارى كو لوگوں كى عمومى ضروريات ميں سے قرار ديتے ہيں كہ ہر معاشرہ ميں ان پر خاص توجہ دينا ضرورى ہے _ آپ فرماتے ہيں:

''ثلاثة اشياء يحتاج الناس طرّاً إليها : الامن والعدل والخصب''

۳۰۷

تين چيزوں كى لوگوں كو ضرورت ہوتى ہے _ امن ، انصاف ، اور فراخى و خوشحالي_ (۱)

حضرت على نے مالك اشتر كو جب مصر كا حاكم بناكر بھيجا تو اسے ايك عہد نامہ ديا جس كے شروع ميں چند حكومتى اہداف كى طرف اشارہ كيا گيا ہے _

'' هذا ما أمر به عبدالله عليّ أمير المؤمنين مالك بن الحارث الأشتر فى عهده إليه حين و لاه مصر: جباية خَراجها، و جهاد عدوّها، و استصلاح أهلها و عمارة بلادها (۲)

يہ خدا كے بندے على (ع) اميرالمومنين (ع) كى طرف سے مالك ابن حارث اشتر كو دستور ديا جارہا ہے جب اسے مصر كى ولايت عطا كى كہ: وہ وہاں كا خراج اكھٹا كرے ، اس كے دشمنوں سے جہاد كرے ، اس كے رہنے والوں كى اصلاح اور اس كے شہروں كى آباد كارى كيلئے كوشش كرے_

حضرت اميرالمومنين اپنے ايك خطبہ ميں لوگوں كے حقوق بيان كرتے ہيں كہ جنہيں دينى حكومت كے بنيادى اہداف ميں سے شمار كيا جاسكتاہے _ ان ميں سے بعض يہ ہيں، تعليم و تربيت كا عام كرنا اور ملك كے مالى منابع سے لوگوں كو ان كاحصہ دينا _

''أيّها الناس، إنّ لى عليكم حَقّاً و لكم عليّ حقّ; حقّكُم عليّ، فالنصيحة لكم و توفيرُ فيئكم عليكم و تعليمكم كيلا تجهلوا و تأديبكم كيما تعلموا'' (۳)

____________________

۱) تحف العقول، ص ۲۳۶_

۲) نہج البلاغہ ،مكتوب ۵۳_

۳) نہج البلاغہ ،خطبہ ۳۴_

۳۰۸

اے لوگوں ميرا تم پر ايك حق ہے _ اور تمھارا مجھ پر ايك حق ہے _ تمھارا مجھ پر يہ حق ہے كہ ميں تمھيں نصيحت كروں، تمھارے مال كو تم پر خرچ كروں، تمھيں تعليم دوں تا كہ تم جہالت سے نجات حاصل كرلو، اور تمھارى تربيت كروں تا كہ تم عالم ہوجاؤ _

ان صاحبان قدرت كے مقابلہ ميں جو ظلم و ستم كے ذريعہ اپنى ثروت و طاقت ميں اضافہ كرتے ہيں ظلم كے خلافجنگ و مبارزہ اور مظلوموں كى حمايت ان اہداف ميں سے ہيں جن كى اسلام نے بہت زيادہ تاكيد كى ہے _ حضرت على اس امر كو علماء كيلئے ايك منصب الہى سمجھتے ہيں اور اس عہد كے وفا كرنے كو خلافت كے قبول كرنے كى ادلّہ ميں سے قرار ديتے ہوئے _ فرماتے ہيں:

''لو لا حضورُ الحاضر و قيامُ الحجّة بوجود الناصر و ما أخذَ الله على العلماء أن لا يقارّوا على كظَّة ظالم و لا سَغَب مظلوم، لا لقيتُ حَبلَها على غاربها '' (۱)

اگر بيعت كرنے والوں كى موجود گى اور مدد كرنے والوں كے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئي ہوتى اور وہ عہد نہ ہوتا جو خدا نے علماء سے لے ركھا ہے كہ وہ ظالم كى شكم پرى اور مظلوم كى گرسنگى پر آرام سے نہ بيٹھيں تو ميں خلافت كے اونٹ كى مہار اسى كے كند ہے پر ڈال ديتا_

خوارج جو كہ لاحكم الّالله كا نعرہ لگاتے تھے اور اس طرح حكومت كا انكار كرتے تھے_ حضرت على نے ان كے مقابلہ ميں وجود حكومت كے كچھ فوائد گنوائے ہيں جو در حقيقت وہ اہداف ہيں كہ ہر حكومت كيلئے ان كا حاصل كرنا ضرورى ہے _ ان ميں سے ايك ہدف ظالم اور جابر افراد سے كمزوروں اور مظلوموں كا حق وصول كرنا ہے _ فرماتے ہيں :(و يؤخذ به للضعيف من القوي )(۲)

____________________

۱) نہج البلاغہ خطبہ ۳ _

۲) نہج البلاغہ خطبہ ۴۰_

۳۰۹

اس (حكومت)كے ذريعہ طاقتور سے مظلوم كا حق واپس ليا جاتا ہے _

مختلف معاشرتى امور كى اصلاح بھى دينى حكومت كے اہداف ميں سے ہے _'' إن أريد إلا الإصلاح ما استطعت'' ميں تو فقط اصلاح چاہتاہوں جہاں تك مجھ سے ممكن ہوسكے(۱)

حضرت على شہروں كى اصلاح كو اپنى خلافت كے اہداف ميں سے قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں : ''و نُظہر الإصلاح فى بلادك ، فيأمن المظلومون من عبادك''ہم تيرے شہروں ميں امن و بہبودى كى صورت پيدا كريں گے تا كہ تيرے مظلوم بندے امن سے رہيں _(۲)

گذشتہ مطالب كى روشنى ميں دينى حكومت كے دنيوى اہداف كو درج ذيل امور ميں خلاصہ كيا جاسكتا ہے _

۱_ امن و امان قائم كرنا _

۲_ اسلامى سرحدوں كى حفاظت اور دفاع كو مضبوط بنانا

۳_ رفاہ عامہ اور آباد كارى كيلئے اقدام كرنا _

۴_ مختلف معاشرتى امور كى اصلاح _

۵_ عمومى اموال كى حفاظت اور معاشرہ ميں اس كى عادلانہ تقسيم_

۶_ تعليم و تربيت كو عام كرنا _

۷_ معاشرتى ضروريات پورى كرنااور مظلوم اور آسيب زدہ افراد كى حمايت

دينى حكومت كے دنيوى اہداف وہى عمومى اہداف ہيں كہ جن كى ہر حكومت مدعى ہوسكتى ہے _ يہ اہداف عقلائي پہلو كے حامل ہيں اور ان كا بيان كرنا شريعت اور دين كے ساتھ مخصوص نہيں ہے_ اس كے باوجود ان اہداف كے پورا كرنے ميں دينى حكومت دوسرى غير دينى حكومتوں سے مختلف ہے اور يہ فرق دوجہت سے ہے_

____________________

۱) سورہ ہود آيت ۸۸_

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۳۱_

۳۱۰

الف: يہ كہ دينى حكومت ان اہداف پر خاص توجہ ديتى ہے_ جبكہ دوسرى حكومتوں ميں اس قسم كا اہتمام ديكھنے كو نہيں ملتا _ بطور نمونہ پانچويں اور ساتويں نمبر شمار كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے _ حكومت كے سلسلہ ميں ائمہ معصومين كى روايات اور آنحضرت (ص) اور اميرالمومنين كى عملى سيرت ميں فقراء ضعفاء اورتہى دست افراد كى مدد كرنے پر بہت زور ديا گيا ہے _ اور دوسرى طرف مختلف معاشرتى امور ميں بيت المال كى عادلانہ تقسيم كى تاكيد بھى كى گئي ہے _

ب: ان اہداف كے حصول كى روش كے لحاظ سے ہے _ دينى حكومت اپنے دنيوى اہداف كو بھى معنوى اہداف كے ساتھ ساتھ ركھتى ہے _ اجتماعى زندگى كے دنيوى اور عقلائي پہلوؤں كو اخلاقيات ، معنويات اور دين كے سايہ ميں آگے بڑھاتى ہے _ مثال كے طور پر معاشرہ كى اصلاح اور آبادكارى اگر چہ دينى حكومت كے دنيوى اہداف ہيں ليكن انہيں بھى معنوى اہداف كے زير سايہ پورا كيا جاتا ہے _ يعنى عدل و انصاف كى حاكميت ان دنيوى اہداف كے حصول كى راہيں ہموار كرتى ہے _ حضرت على فرماتے ہيں :

''العدلُ يضع الأُمور فى مواضعها'' (۱)

عدل يہ ہے كہ تمام امور كو ان كے مقام پر ركھا جائے _

''ما عُمرت البُلدان بمثل العَدل ''(۲)

شہروں كى آبادكارى عدل سے ہى ممكن ہے_

در حقيقت رفاہ عامہ اور امن و امان اسى وقت پابرجا ہوسكتے ہيں جب انسان كى اجتماعى زندگى اخلاقيات ، معنويات اور الہى اقدار سے سرشار ہو_ اسى وجہ سے دينى حكومت كے معنوى اہداف كا تحقق اس كے دنيوى اہداف كے حصول كيلئے مددگار ثابت ہوتا ہے _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۷۵، ص ۳۵۷، باب احوال الملوك والامرائ، ح ۷۲_

۲) غررالحكم، آمدى ج ۶ ، ص ۶۸،ح ۴۳ ۹۵_

۳۱۱

دينى حكومت كے اہلكاروں كے فرائض

دينى حكومت كے مادى اور معنوى اہداف كا حصول اس كے حكّام اور اہلكاروں كے كندھوں پر سنگين ذمہ دارى ہے_ معنوى اہداف پر اسلام كى تاكيداسلامى حكّام سے ايك خاص انفرادى خصوصيات كى خواہاں ہے _ يہ بھى دينى حكومت كى ان خصوصيات ميں سے ہے ہيں جو اسے دوسرى حكومتوں سے ممتاز كرتى ہيں _ ہم يہاں اجمالى طور پر بعض فرائض كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

۱_ تقوى الہى كى رعايت :

دينى حكومت نے روح ايمان و تقوى كى تقويت ،معارف الہى كے پھيلاؤ اور عدل و انصاف كے قيام كو اپنا ہدف قرار ديا ہے _ اسى لئے ضرورى ہے كہ حكومتى اہل كار تقوى اور عبوديت سے سرشار ہوں آشكار اور پنہان دونوں حالتوں ميں تقوى الہى كو مد نظر ركھيں ، ان كى گفتار اور كردار ايك ہو _ حضرت على اپنے ايك عامل كو خط لكھتے ہوئے فرماتے ہيں _

''آمره بتقوى الله فى سرائر امره و خفيّات عمله، حيث لا شاهد غيره و لا وكيل دونه، و أمره أن لا يعمل بشيء من طاعة الله فيما ظهر; فيخالف الى غيره فيما أسره و مَن لم يختلف سره و علانيته و فعله و مقالته ، فقد أدّى الامانة و أخلص العبادة'' (۱)

ميں انہيں حكم ديتا ہوں كہ وہ اپنے پوشيدہ امور اور مخفى كاموں ميں الله سے ڈرتے رہيں _ جہاں نہ خدا كے سوا كوئي گواہ ہے اور نہ اس كے سوا كوئي نگران ہے _ اور انہيں حكم ديتا ہوں كہ وہ ظاہر ميں الله كا كوئي ايسا فرمان بجانہ لائيں كہ ان كہ چھپے ہوئے اعمال اسكے خلاف ہوں _

____________________

۱) نہج البلاغہ مكتوب ۲۶_

۳۱۲

اور جس شخص كا باطن و ظاہر اور كردار و گفتار مختلف نہ ہو ، اس نے امانتدارى كا فرض انجام ديا اور الله كى عبادت ميں خلوص سے كام ليا _

تقوى كا تقاضا ہے كہ اسلامى مملكت كے حكمران ہر كام ميں الہى فرامين كو مد نظر ركھيں ، اپنى خواہشات نفسانى كو امرخدا پر ترجيح نہ ديں ، امام صادق پيشواؤں كو حق و باطل كى طرف تقسيم كرنے كے بعد اس خصوصيت كو پيشوايان حق كا طرہ امتياز قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

إن الائمة فى كتاب الله عزّوجلّ _ إمامان ; قال الله (تبارك و تعالي): ''و جعلناهم ائمة يهدونَ بأمرنا'' لا بأمر الناس، يقدّمون أمر الله قبل أمرهم، و حكم الله قبل حُكمهم _ قال: ( ( و جعلناهم ائمة يهدون إلى النار ) ) يقدمون أمرهم قبل أمرالله و حُكمهم قبل حكم الله ، و يأخذون بأهوائهم خلاف ما فى كتاب الله (۱)

قرآن مجيد ميں دو قسم كے ائمہ كا ذكر ہے خدا فرماتا ہے '' وجعلناہم أئمة يہدون بأمرنا ...''كہ: ہم نے انہيں پيشوابنايا جو ہمارے حكم كے مطابق راہنمائي كرتے ہيں نہ كہ لوگوں كے امر كے مطابق ، خدا كے امر كو اپنے امر پر اور خدا كے حكم كو اپنے حكم پر ترجيح ديتے ہيں _ دوسرى جگہ خداوند متعال نے فرمايا( ''و جعلنا هم ائمة يهدون الى النار'' ) ''اور ہم نے ان كو ايسے ائمہ قرار ديا جو جہنم كى طرف لے جاتے ہيں '' يہ اپنے امر كو خدا كے امر پر اور اپنے حكم كو خدا كے حكم پر ترجيح ديتے ہيں _ اور كتاب خدا كى ہدايات كے برعكس اپنى خواہشات پر عمل كرتے ہيں _

____________________

۱) كافى ج ۱ ص ۲۱۶ باب ان الائمة فى كتاب اللہ امامان ح ۲ _

۳۱۳

۲_ شائستہ قيادت :

اسلامى حكّام كے لئے پہلے مرتبہ ميں يہ ضرورى ہے كہ وہ خود لائق اور پابند افراد ہوں شائستہ اور مہذب افراد كو عہدے ديں ، اسلام و مسلمين كى مصلحت كو تمام روابط و ضوابط پر ترجيح ديں _ حضرت على نے اپنے عہد نامہ ميں مالك اشتر كو حكومتى اہلكاروں كے انتخاب كے سلسلہ ميں خاص توجہ دينے كا حكم دياہے اور مختلف پہلوؤں كو مد نظر ركھنے پر اصرار كيا ہے _

''ثمّ انظر فى أمور عُمّالك فاستعملهم اختباراً ، و لا تولّهم محاباة و اثرة ; فانّهما جماع من شُعب الجَور والخيانة، و توخّ منهم أهل التجربة و الحياء من أهل البيوتات الصالحة و القدم فى الإسلام المتقدّمة: فانّهم أكرم أخلاقاً و أصحّ أعراضاً و أقلّ فى المطامع إشراقاً و أبلغ فى عواقب الامور نظراً''

''ثم اختر للحكم بين الناس أفضل رعيّتك فى نفسك، ممّن لا تضيق به الأمور و لا تُمحكُمه الخصوم، و لا يتمادى فى الزلّة، و لا يحصر من الفيء إلى الحقّ إذا عرفه''(۱)

پھر اپنے عہدہ داروں كے بارے ميں نظر ركھنا اور انہيں اچھى طرح آزمانے كے بعد منصب دينا ، صرف رعايت اور جانبدارى كى بناپر عہدہ نہ دينا كيونكہ يہ چيزيں نا انصافى اور بے ايمانى كا سرچشمہ ہيں ، ايسے لوگوں كو منتخب كرنا جو تجربہ كار اور غيرت مندہوں ، اچھے گھرانوں سے ان كا تعلق ہو ، اسلام كے سلسلہ ميں پہلے سے ان كى خدمات ہوں ، كيونكہ ايسے لوگ بلند

____________________

۱) نہج البلاغة مكتوب ۵۳_

۳۱۴

اخلاق ،بے داغ عزت والے ہوتے ہيں حرص و طمع كى طرف كم مائل ہوتے ہيں اور عواقب و نتائج پر زيادہ نظر ركھتے ہيں _ پھر يہ كہ لوگوں كے معاملات كا فيصلہ كرنے كيلئے ايسے شخص كو منتخب كرو جو تمھارے نزديك تمھارى رعايا ميں سب سے بہتر ہو، جو واقعات كى پيچيدگيوں سے اكتا نہ جاتا ہو ، اور نہ جھگڑا كرنے والوں كے رويہ سے غصہ ميں آتا ہو ، اور نہ ہى اپنے كسى غلط نقطہ نظر پر اڑتا ہو اور نہ ہى حق كو پہچان كر اس كے اختيار كرنے ميں طبيعت پر بوجھ محسوس كرتا ہو _

۳_زہد اور سادگى :

گذشتہ سبق ميں ہم اشارہ كرچكے ہيں كہ اسلامى نقطہ نظر سے ''حكومت'' ايك سنگين ذمہ داريوں كى حامل الہى امانت ہے اور ہرگز كسى اجتماعى امتياز يا دولت سميٹنے كيلئے كوئي وسيلہ شمار نہيں ہوتى _ دوسرى طرف كمزوروں كى حمايت اور طاقتور افراد سے ستم رسيدہ اور كمزور افراد كے حق كى وصولي،اسلامى نظام كے اہداف ميں سے ہے لہذا ضرورى ہے كہ حكام اور حكومتى اہلكار فقيروں اور مظلوموں كے درد سے آشنا ہوں اور معاشى و اقتصادى لحاظ سے ان سے دور نہ ہوں _ حضرت اميرالمومنين فرماتے ہيں :

''إنّ الله جعلنى إماماً لخلقه، ففرضَ على التقدير فى نفسى و مطعمى و مَشربى و مَلبسى كضعفاء الناس، كى يقتدى الفقير بفقرى و لا يطغى الغنى غناه '' (۱)

خدا نے مجھے لوگوں كا امام بنايا ہے _ اور مجھ پر واجب قرار ديا ہے كہ ميں اپنے نفس ،كھانے پينے اور لباس ميں فقراء كى طرح رہوں تا كہ فقير ميرے فقر ميں ميرى پيروى كرے اور دولتمند اپنى دولت كى بناپر نافرمانى اور سركشى نہ كرے _

____________________

۱) كافى ج۱ ص ۴۱۰ باب سيرة الامام فى نفسہ ح۱_

۳۱۵

معلى ابن خنيس كہتے ہيں : ميں نے خاندان بنى عباس كى معاشرتى حالت اور شان و شوكت ديكھ كر خواہش كى كہ كاش امام صادق-- كو حكومت مل جاتى تا كہ ہم بھى ان كے زير سايہ ايك خوشحال اور عيش و عشرت سے بھرى زندگى گزارتے امامنے جواب ميں فرمايا :

'' هيهات، يا معلّى أما و الله ان لو كان ذاك ما كان إلا سياسة الليل و سياحة النهار و لُبس الخَشن و أكل الجَشب'' (۱)

ہرگز نہيں اے معلى خدا كى قسم اگر ايسا ہوتا (يعنى ہم حكمران ہوتے) تو تدبر شب ،دن ميں كام كاج ، كھردرے كپڑے اور سادہ كھانے كے سوا كچھ نہ ہو تا_

۴_اجتماعى امور ميں مساوات :

اسلامى معاشرہ كے صاحبان اقتدار كے فرائض ميں سے يہ بھى ہے كہ وہ دوسرے عام افراد سے اپنے آپ كو برتر اور ممتازنہ سمجھيں _قانون كے سامنے اپنے كو دوسروں كے برابر سمجھيں_لہذا اگر كسى حكومتى اہلكار سے كوئي جرم سر زدہو جائے تو دوسرے افراد كى طرح اس پر بھى خدا كى حدودجارى ہو نگى _امام صادق فرماتے ہيں :

قال أمير المؤمنين لعمر بن الخطاب : ''ثلاث ان حفظتهن و عملت بهن كفتك ما سواهن و ان تركتهن لم ينفعك شي سواهن'' قال: و ما هنّ يا أبا الحسن؟ قال: '' إقامة الحدود على القريب والبعيد، والحكم بكتاب الله فى الرضا والسخط، و القسم بالعدل بين الاحمر والاسود'' (۲)

____________________

۱) كافى ج۱ ص ۴۱۰ باب سيرة الامام فى نفسہ ح۲_

۲) وسائل الشيعہ، ج۲۷،ص ۲۱۲،۲۱۳، باب ۱، از ابواب آداب قاضى ح ۲_

۳۱۶

اميرالمومنين على نے عمر ابن خطاب سے فرمايا اگر تو نے تين چيزوں كا خيال ركھا اور ان پر عمل كيا تو تم دوسرى چيزوں سے بے نياز ہو جائوگے اور اگر ان تين چيزوں كو چھوڑديا تو كوئي دوسر ى شےء تمھيں فائدہ نہيں دے گى _پوچھا اے ابوالحسن وہ كيا ہيں ؟فرمايا :قريبى اور غير قريبى پر حدود الہى كااجرا خوشنودى و ناراضگى ميں قرآن كے مطابق حكم لگانا ،اور سرخ و سياہ كے در ميان عادلانہ تقسيم_

۵_لوگوں سے براہ راست رابطہ :

اسلام نے حكام سے يہ مطالبہ كيا ہے كہ وہ عوام كے ساتھ محبت سے پيش آئيں ،ان كى بات سنيںاور ان سے مشورہ ليں _اس سے عوام كى حوصلہ افزائي ہو گى اور حكاّم بھى ان كے دردسے آشنا ہوں گے اور ان كى مقبوليت ميں اضافہ ہو گا ارشاد خداوندى ہے :

''فبما رحمة: من الله لنْتَ لهم و لو كنت فظّاً غليظ القلب لانفضّوا من حَوْلكَ فاعف عنهم و استغفر لهم و شاورهم فى الامر'' (۱)

(اے رسول )يہ الله كا كرم ہے كہ آپ ان لوگوں كيلئے نرم ہيں _وگرنہ اگر آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو يہ آپ كے پاس سے بھاگ كھڑے ہوتے پس انہيں معاف كردو ، ان كے ليئے استغفار كرو اور معاملات ميں ان سے مشورہ كرلياكرو _

دوسرى جگہ ارشاد ہوتاہے:

''و منهم الذين يُؤذون النبيّ و يقولون هو أذن قل أُذنُ خَير: لَكُم يُؤمن بالله و يُؤمن للمؤمنين و رحمةٌ للّذين آمنوا منكم'' (۲)

____________________

۱) آل عمران آيت ۱۵۹_

۲) سورہ توبہ آيت ۶۱_

۳۱۷

ان ميں سے وہ بھى ہيں جو پيغمبر (ص) كو اذيت ديتے ہيں اور كہتے ہيں: وہ تو صرف كان (كے كچے) ہيں_ آپ كہہ ديجئے تمھارے حق ميں بہترى كے كان ہيں كہ خدا پر ايمان ركھتے ہيں ،مومنين كى تصديق كرتے ہيں اور جو تم ميں سے صاحبان ايمان ہيں ان كيلئے رحمت ہيں_

اميرالمومنين مالك اشتر كو نصيحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ اپنے اور لوگوں كے در ميان كوئي ركاوٹ قائم نہ كرنا _كيونكہ اس سے لوگوں كے بارے ميں حكاّم كى اطلاع كم ہو جاتى ہے ،حق و باطل مخلوط ہو جاتے ہيں اور حقيقت ان پر مشتبہ ہو جاتى ہے :

''فلا تطوّلنَّ احتجابك عن رعيتك فان احتجاب الولاة عن الرعية شعبة من الضيق و قلة علم بالامور ، و الاحتجاب منهم يقطع عنهم علم ما احتجبوا دونه ...'' (۱)

پس رعايا سے لمبى مدت تك روپوشى اختيار نہ كرنا _كيونكہ حكمرانوں كا رعايا سے چھپ كررہنا ايك طرح كى تنگ دلى اور معاملات سے بے خبر رہنے كا سبب ہے اور يہ روپوشى انہيں بھى ان امور پر مطلع ہونے سے روكتى ہے كہ جن سے وہ ناواقف ہيں

۶_فقر كا خاتمہ اور ضروريات زندگى كى فراہمي:

دينى حكومت كا اہم ترين فريضہ غربت كا خاتمہ اور معاشرہ كے كمزور افراد كى مادى ضروريات كا پور ا كرنا ہے_ اس بارے ميں بہت سى روايات موجود ہيں _ہم نمونہ كے طور پر صرف دو روايات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_ رسولخدا (ص) فرماتے ہيں:

''ما من غريم ذهب بغريمه الى و ال من وُلاة المسلمين و

____________________

۱) نہج البلاغہ، مكتوب نمبر ۵۳_

۳۱۸

استبان للوالى عُسرته، إلاّ بَرأ هذا المعسرمن دينه و صار دينه على و الى المسلمين فيما يديه من أموال المسلمين '' (۱)

قرضوں كے بوجھ تلے دبا ہوا شخص جب اسلامى حاكم كے پاس جائے اور اپنى بدحالى كا ذكر كرے تو وہ اس قرض سے برى ہوجاتاہے_اس كا يہ قرض حاكم پر ہے اور وہ اسے بيت المال سے ادا كرے_

حضرت على نے ايك بوڑھے فقير كو ديكھا جو بھيك مانگ رہاتھا _ آپ نے پو چھا يہ مرد كون ہے ؟ ساتھيوں نے كہا: عيسائي ہے _حضرت نے فرمايا :''استعملتموه،حتّى اذا كبر و عجز منعتموه؟ أنفقوا عليه من بيت المال'' تم نے اس سے كام لياليكن جب يہ بوڑھا اور عاجز ہو گيا تو اسے پوچھا تك نہيں ؟ اسے بيت المال سے نفقہ عطا كرو(۲)

اسلامى حكمرانوں كے فرائض اس سے بہت زيادہ ہيں جو ہم نے يہاں بيان كئے ہيں واضح سى بات ہے كہ دينى حكومت كے معنوى اور دنيوى اہداف ميں سے ہر ايك اسلامى معاشرہ كے حكاّم پر خا ص فرائض اور ذمہ دارياں عائد كرتا ہے _

____________________

۱) مستدرك الوسائل _ ج۱۳،ص ۴۰۰ ح۱۵۷۲۳ _

۲) وسائل الشيعہ ،ج ۱۵ ،ص۶۶باب ۱۹ از ابواب جہاد العدو ،ح۱ _

۳۱۹

خلاصہ :

۱)حق كا قيام ،باطل كا خاتمہ ،عدل و انصاف كى ترويج ،حدودالہى كا اجرا ،نيكى كا حكم د ينااور برائي سے روكنا اور معارف الہى كى تعليم ، دينى حكومت كے اہم ترين اہداف ميں سے ہے _

۲)دينى حكومت كے دنيوى اہداف سے مرادوہ اہداف ہيں جو عقلائي طور پر ہر حكومت كے پيش نظر ہوتے ہيں _

۳)امن وامان كا برقرار كرنا ،سر حدوں كى حفاظت ،رفاہ عامہ كا قيام ،آباد كارى ،تعليم و تربيت كا عام كرنا اور مختلف معاشرتى امور كى اصلاح حكومت كے ا ن اہم ترين اہداف ميں سے ہيں جن كى آيات و روايات ميں بہت تاكيد كى گئي ہے _

۴)دينى حكومت كى يہ خصوصيت ہے كہ وہ اپنے دنيوى اہداف كو بھى معنوى اہداف كے زير سايہ حاصل كرتى ہے_

۵)دينى حكومت كے اہداف خصوصاً معنوى اہداف كا حصول حكومتى اہل كاروں پر سنگين ذمہ دارى لاتا ہے_

۶)تقوى الہى كى رعايت ،شائستہ قيادت ،زہد وسادگى اور قانون كے سامنے سب كا برابر ہونا دينى حكومت كے اہل كاروں كے اہم ترين فرائض ميں سے ہيں _

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367