اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143912 / ڈاؤنلوڈ: 3620
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

جبكہ اس كے ساتھ اموال زكوةبھى ہوں در حقيقت ايك معاشرہ كى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے ہے _ ''جزيہ'' جو كہ ذمى كفار سے ليا جاتا ہے اور اسى طرح زرعى محصولات بھى ايك بڑى درآمد كوتشكيل ديتے ہيں_ يہ تمام امور اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ اس قسم كے تمام مالى منابع ايك معاشرہ كى ضروريات كو پورا كرنے او رحكومت كو تشكيل دينے كيلئے ہيں _

ان ميں سے دوسرا مورد وہ احكام ہيں جو اسلامى نظام كى حفاظت اور اسلامى سرزمين اور ملت مسلمہ كے استقلال كے دفاع كيلئے بنائے گئے ہيں انہى دفاعى احكام ميں سے ايك ، قرآن مجيد كى اس آيت شريفہ''و اعدوالهم ما استطعتم من قوة و من رباط الخيل'' (۱) ميں بيان كيا گيا ہے اور مسلمانوں كو كہا جا رہا ہے كہ وہ ہر قسم كے خطرہ سے پہلے اپنى فوجى و دفاعى قوت كو مہيا كرليں اوراپنى حفاظت كا سامان پہلے سے تيار ركھيں _

اس قسم كا ايك اور نمونہ اسلام كے عدالتى اور انسانى حقوق كے متعلق احكام ميں ديكھا جاسكتاہے_ اس قسم كے بہت سارے احكام يا''ديات'' ہيں كہ جنہيں ليكر حق داروں كو دينا ہوتاہے يا''حدود و قصاص''ہيں كہ جنہيںاسلامى حاكم كے زير نظر اجرا كيا جاتاہے اور اس قسم كے امور ايك حكومت كى تشكيل كے بغير قابل عمل نہيں ہيں _ يہ تمام قوانين حكومت كے ساتھ مربوط ہيں اور حكومتى قوت كے بغير ايسے اہم امور كو كوئي انجام نہيں دے سكتا _(۲)

اسلام كا سياسى فلسفہ اور سياسى فقہ

يہ تسليم كرلينے كے بعد كہ اسلام سياسى ابعاد كا حامل ہے اور اس كى بعض تعليمات حكومت اور سياست كے

____________________

۱) سورہ انفال آيت ۶۰_

۲) لايت فقيہ (امام خمينى ) ص ۲۰ تا ۲۵_

۲۱

ساتھ مخصوص ہيں _ يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ اسلام كا سياسى تفكر كن شعبوں پر مشتمل ہے ؟

مجموعى طور پر اسلام كے سياسى تفكر كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _ ايك حصے كو '' اسلام كا سياسى فلسفہ '' اور دوسرے كو '' اسلام كى سياسى فقہ '' كا نام ديتے ہيں _ گذشتہ سبق ميں اشارہ كرچكے ہيں كہ ہر سياسى مكتب فكر كو چند بنيادى سوالات كا جواب دينا ہوتا ہے _ ايسى مباحث كو '' سياسى فلسفہ '' كا نام ديا جاتا ہے _ بنابريں اسلام كے سياسى تفكر كو بھى ايك خاص علمى بنياد پر استوار ہونا چاہيے اور دنيائے سياست كے ان بنيادى سوالات كے مناسب اور مخصوص جوابات دينا چا ہيے _

اسلام كے سياسى تفكر كا دوسرا حصہ يعنى ''سياسى فقہ '' يا '' فقہ الحكومة '' حكومت كى نوعيت اور اسكى شكل و صورت ، حكمرانوں كے مقابلے ميں عوام كے حقوق ، حكومت اور حكمرانوں كے سلسلہ ميں عوام كى ذمہ دارياں ، مذہبى اقليتوں كے حقوق اور اسلامى حكوت (دار الاسلام)كے غير اسلامى حكومتوں ( دارالكفر) كے ساتھ تعلقات جيسى ابحاث پر مشتمل ہے باالفاظ ديگر پہلا حصہ علمى و بنيادى سياست كى مباحث پر مشتمل ہے_ جبكہ يہ حصہ عملى سياست اور معاشرے كے انتظامى و اجرائي امور كے زيادہ قريب ہے _

۲۲

سبق كا خلاصہ :

۱) حكومت اور رياست كے بغير معاشرہ ،نامكمل اور زوال پذير ہے _

۲) اسلام ، حكومت كو ايك اجتماعى او رمعاشرتى ضرورت سمجھتا ہے اسى لئے اس نے لوگوں كو تشكيل حكو مت كى طرف دعوت نہيں دى بلكہ حكومت كيسى ہونى چاہيئے ؟ اس بارے ميں اپنى رائے دى ہے _

۳) اسلام كو سياست سے جدا سمجھنا اس دين حنيف كى حقيقت كو مسخ كردينے كے مترادفہے _

۴) اسلام كے لئے سياسى اور اجتماعى پہلو كا وجود دو طريقوں سے ثابت كيا جاسكتاہے _

الف:روش استقرائي ( طرز جستجو )اور اسلامى تعليمات كا مطالعہ ، اسلام كے سياسى اور اجتماعى پہلو كے اثبات كى بہترين راہ ہے_

ب: اسلام كا آخرى اور مكمل دين ہونا اس كے اجتماعى اور سياسى پہلو كے وجود كى دليل ہے _

۵) اسلام كے بعض قوانين ايك جائز دينى حكومت كے بغير قابل اجرا نہيں ہيں _

۶) اسلام كے سياسى تفكر كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _

الف: اسلام كا سياسى فلسفہ

ب: اسلام كى سياسى فقہ

۲۳

سوالات:

۱) امير المومنين نے خوارج كو جو جواب ديا تھا اس سے ''ضرورت حكومت ''كے سلسلہ ميں كيا حاصل ہوتاہے؟

۲) اسلام نے لوگوں كو اصل حكومت كى تشكيل كى ترغيب كيوں نہيں دلائي ؟

۳) سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے كے اثبات كيلئے طرز جستجو يا روش استقرائي سے كيا مراد ہے ؟

۴) اسلام كے كامل اور خاتم الاديان ہونے سے اس كے سياسى اور اجتماعى امور ميں دخيل ہونےپر كيسے استدلال كيا جاسكتا ہے ؟

۵) كونسے احكام شرعى كا اجراء اسلامى حكومت كى تشكيل پر موقوفہيں ؟

۶) اسلام كے مالى احكام كس طرح اسلام كے سياسى پہلو پر دليل بن سكتے ہيں ؟

۷) اسلام كا سياسى تفكر كنحصوں پر مشتمل ہے ؟

۲۴

تيسرا سبق:

دينى حكومت كى تعريف

انسان كى اجتماعى زندگى كى طويل تاريخ مختلف قسم كى حكومتوں اور رياستوں كے وجودكى گواہ ہے جنہيں مختلف خصوصيات كى بنياد پر ايك دوسرے سے جدا كيا جاسكتاہے اور انہيں مختلف اقسام ميں تقسيم كيا جاتاہے_ مثلاً استبدادى و غير استبدادي،جمہورى و غير جمہوري، استعمارى و استعمار كا شكار حكومتيں ، سوشلسٹ و غير سوشلسٹ، ترقى يافتہ و پسماندہ حكومتيں و غيرہ ان ميں سے ہر تقسيم ايك مخصوص معيار كى بنياد پر ہے _ اسى طرح ايك تقسيم يہ بھى ہوسكتى ہے : دينى حكومت اور سيكولر حكومت _

دينى حكومت ايك اصطلاح ہے جو دو چيزوں سے مركب ہے، حكومت اور دين كيساتھ اس كى تركيب ، اصلى اور بنيادى سوال يہ ہے كہ اس تركيب ميں ''دينى ''سے كس مطلب كا افادہ مقصودہے ؟ دين اور حكومت كى تركيب سے كيا مراد ہے؟ ايك حكومت كے دينى يا غير دينى اور سيكولر ہونے كا معيار كيا ہے؟ ان سوالات كے جواب دينے سے پہلے بہتر ہے حكومت كى تعريف كى جائے _

۲۵

حكومت اور رياست كے معاني

حكومت(۱) اور رياست(۲) گذشتہ اور موجودہ ادوار ميں متعدد معانى ميں استعمال كئے گئے ہيں ان ميں سے بعض معانى مترادف ہيں اور بعض اوقات انہيں مختلف معانى ميں استعمال كيا گيا ہےمثلا جديد دور ميں رياست كامعنى حكومت سے وسيع تر ہے جديد اصطلاح كے مطابق رياست نام ہے ان افراد كے اجتماع كا جو ايك مخصوص سرزمين ميں ساكن ہوں اور ايسى حكومت ركھتے ہوں جو ان پر حاكميت كرتى ہو_ اس تعريف كے مطابق رياست چار اجزا كے مجموعہ كا نام ہے_آبادي،سرزمين ،حكومت، حاكميت_ اس اصطلاح كى بناپر حكومت اور رياست دو مترادف اصطلاحيں نہيں ہيں بلكہ حكومت رياست كا ايك حصہ ہے اور رياست كو تشكيل دينے والے چار عناصر ميں سے ايك عنصر حكومت ہے جو ان اداروں كے مجموعہ كا نام ہے جو ايك دوسرے كے ساتھ مرتبط ہوكر ايك مخصوص سرزمين ميں بسنے والى انسانى آبادى پر حكمرانى كرتى ہے_بنابريں ايرانى رياست اور فرانسيسى رياست و غيرہ انكى حكومتوں سے وسيع تر مفہوم ہے _

ليكن اگر رياست سے مراد وہ منظم سياسى طاقت ہو جو امر و نہى كرتى ہے تو يہ حكومت كے مترادف ہوجائے گى اور اس تعريف كى بناپر رياست صرف كا بينہ اور قوّہ مجريہ كا نام نہيں ہے كہ جن كا كام قانون نافذ كرناہے بلكہ تمام حكومتى ادارے مثلاً قانون ساز ادارے، عدليہ، فوجى اور انتظامى ادارے سب اس ميں شامل ہيں _ در اصل اس تعريف كى رو سے رياست اور حكومت اس قوت حاكمہ كا نام ہے جس ميں معاشرہ پر حاكم سياسى اقتدار كے حامل تمام ادارے شامل ہيں _ اس وقت زير بحث حكومت و رياست سے مراد يہى دوسرا معنى ہے كہ اس معنى ميں حكومت اور رياست جب دين سے مركب ہوتى ہے تو اس كا قابل قبول معنى كونسا ہے_

____________________

۱) Government

۲) State

۲۶

دينى حكومت كى مختلف تعريفيں

دينى حكومت كى مختلف تعريفيںكى جاسكتى ہيں _ دوسرے لفظوں ميں دينى حكومت كى مختلف اور متنوع تفسيريں بيان كى جاسكتى ہيں و اضح سى بات ہے كہ ان ميں سے كچھ تعريفيں صحيح نہيں ہيں ہم اجمالى طور پر ان ميں سے بعض كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

۱) دينى حكومت اس حكومت كو كہتے ہيں جس ميں ايك مخصوص دين كے معتقدين اور ماننے والے سياسى اقتدار كے حامل ہوں معاشرے كى سياسى طاقت اور سياسى ادارے كسى خاص دين كے پيرو افراد_ جيسے پيروان اسلام يا مسيحيت_كے ہاتھوں ميں ہوںاس تعريف كى بناپردينى حكومت يعنى ديندارافراد كى حكومت_

۲) دينى حكومت يعنى وہ حكومتكہ جس ميں سياسى اقتدارايك مخصوص طبقہ بنام'' رجال دين'' يعني( مذہبى افراد) كے ہاتھ ميں ہو اس تعريف كى بنا پر چونكہ سياسى اقتدار كے حامل مختلف ادارے مذہبى افراد كے ہاتھ ميں ہوتے ہيں اسى لئے اسے دينى حكومت كہتے ہيں _

اس دينى حكومت كى افراطى شكل و صورت يورپ ميں قرون وسطى ميں ملاحظہ كى جاسكتى ہے _ بعض اديان مثلاً كيتھولك مسيحيت ميںمذہبى افراد خاص تقدس اور احترام كے حامل ہوتے ہيں اور عالم الوہيت و ربوبيت اور عالم انسانى كے درميان معنوى واسطہ شمار ہوتے ہيں _ قرون وسطى ميں يورپ ميں جو حكومت قائم ہوئي تھى وہ مذكورہ دينى حكومت سے سازگار تھى _ عيسائيوں كے مذہبى افراد اور كليسا كے پادرى خدا اور مخلوق كے درميان واسطہ ہونے كے ناطے مخصوص حق حاكميت كے حامل سمجھے جاتے تھے _ يہ حق حاكميت خدا كى حكومت اور ربوبيت كى ايك كڑى تھى اور يہ تصور كيا جاتا تھا كہ مذہبى افراد چونكہ ملكوت كے ساتھ مربوط و متصل ہيں لہذا قابل تقديس و احترام ہيں ، اسى لئے ان كے فيصلے، تدابير اور كلام، وحى الہى كى طرح مقدس، ناقابل اعتراض

۲۷

اور غلطيوں سے مبرّا ہيں _

۳) دينى حكومت وہ حكومت ہے جو ايك خاص دين كى تبليغ ، دفاع اور ترويج كرتى ہے _ اس تعريف كے مطابق ايك دينى حكومت كا معيار ايك مخصوص دين كا دفاع اور تبليغ ہے _ بنابريں ايران ميں صفويوں اور قاچاريوں كى حكومت، سعودى عرب ميں وہابيوں كى حكومت اور افغانستان ميں طالبان كى حكومت مذكورہ دينى حكومت كے مصاديق ہيں كيونكہ يہ حكومتيں اپنے سياسى اقتدار كو ايك خاص دين كے دفاع، تبليغ اور ترويج كيلئے استعمال كرتى ہيں_

۴)دينى حكومت وہ حكومت ہے جو سياست اور معاشرے كے انتظامى امور ميں ايك خاص دين كى مكمل مرجعيت و حاكميت كو تسليم كرتى ہو يعنى اپنے مختلف حكومتى اداروں ميں ايك خاص دين كى تعليمات كى پابند ہو اور كوشش كرتى ہو كہ قانون بنانے ، عوامى كاموں، معيشت اور اجتماعى امور ميں دينى جھلك نظر آئے اور ان تمام حكومتى امور ميں دينى تعليمات كا ر فرما ہوں اور انہيں دين سے ہم آہنگ كرے _ دينى حكومت كا يہ معنى در حقيقت'' دينى معاشرہ ''كى تشكيل كا خواہاں ہے يعنى حكومت يہ چاہتى ہے كہ ثقافتى ، اقتصادي، سياسى اور فوجى و عسكرى تمام اجتماعى امور دينى تعليمات كى بنياد پر تشكيل پائيں _ دينى معاشرہ كو دين كى فكر ہے اور يہ فكر ہمہ گير ہے كسى خاص جہت ميں محدود نہيں ہے_ دينى معاشرہ چاہتاہے كہ اس كے تمام امور دين كے ساتھ ہم آہنگ اور ہم آوازہوں_ اس معنى كى بنياد پر دينى حكومت دين كيلئے ايك خاص شان و اہميت كى قائل ہے _ اُس كى تعليمات كو اپنے لئے نصب العين قرار ديتى ہے_ دين كى حاكميت اور سياسى و انتظامى ميدانوںميں اس كى اہميت كو تسليم كرتى ہے اور معاشرتى و سماجى امور ميں دينى تعليمات كى دخالت كا معيار ان امور ميں دين كا وارد ہونا ہوگا_ دوسرے لفظوں ميں سياسى اجتماعى اور سماجى امور ميں دين كى دخالت كى حدود مكمل طور پر دينى

۲۸

تعليمات كے تابع ہيں اور جس شعبہ ميں جتنى مقدار دين نے اپنا كوئي پيغام ديا ہو اور اپنى تعليمات پيش كى ہوں اس حكومت كيلئے وہ پيغام اور تعليمات قابل قبول ہوتى ہيں _

مذكورہ چار تعريفوں كا مختصر تجزيہ

مذكورہ چار تعريفوں ميں سے چوتھى تعريف دينى حكومت كى ماہيت و حقيقت كے ساتھ زيادہ مناسبت ركھتى ہے _ كيونكہ ان ميں سے بعض تعريفيں دينى حكومت كے صرف ايك پہلو كى طرف اشارہ كرتى ہيں _ صرف حكمرانوں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كا كسى خاص دين كا معتقد ہونا اس حكومت كے دينى ہونے كى علامت نہيں ہے _ آج دنيا كے اكثر ممالك كہ جن كى حكومتيں غير دينى ہيں ان كے بہت سارے سركارى عہديدار انفرادى طور پردين دار ہيں ، ليكن ان كا ايك خاص دين كے ساتھ لگاؤ اور تديّن ان كى حكومت كے دينى ہونے كى دليل نہيں ہے _ پہلى تعريف ميں جو'' حكومت كے دينى ہونے كا معيار'' بيان كيا گيا ہے وہ چوتھى تعريف ميں بھى شامل ہے_ كيونكہ دين كى حاكميت اور مختلف سركارى اداروں ميں دينى تعليمات كى فرمانروائي كا لازمہ ہے كہ سركارى حكام نظرياتى اور عملى طور پر اس دين كے معتقد ہوں _ اسى طرح تيسر ى تعريف ميں بيان شدہ معيار بھى چوتھى تعريف ميں مندرج ہے كيونكہ جو حكومت دينى معاشرے كى تشكيل اور سماجى و اجتماعى امور ميں دينى تعليمات كے نفوذ كى كوشش كرتى ہے اور حكومتى امور اور قوانين كو دين كے ساتھ ہم آہنگ كرنے كى خواہاں ہوتى ہے _ وہ فطرى طور پر اس دين كا دفاع كرے گى اور اس كى تبليغ و ترويج كيلئے كوشش كرے گى _

دينى حكومت كى دوسرى تعريف كى بنياد'' مذہبى افراد'' كے بارے ميں ايك خاص تصور پر ہے كہ بہت سے اديان، مذہبى شخصيات اور دينى علماء كے متعلق ايسا تصور نہيں ركھتے _ مثال كے طور پر اسلام كسى طرح بھى علماء

۲۹

دين كيلئے كسى خاص طبقاتى حيثيت كا قائل نہيں ہے اور انہيں مقام عصمت كا حامل نہيں سمجھتا_ اس لئے دينى حكومت كى ايسى تفسير كى كوئي راہ نہيں نكلتى _ علاوہ بر ايں صرف علماء دين اور مذہبى افراد كے ہاتھ ميں حكومتى عہدوں كا ہونا اس حكومت كے دينى ہونے كى دليل نہيں ہے بلكہ حقيقت وہى ہے جو چوتھى تعريف ميں بيان كى گئي ہے كہ مختلف اجتماعى و سماجى امور اور حكومتى اداروں ميں دينى تعليمات كا اجرا ہى حكومت اور سياست كو دينى رنگ دے سكتاہے_

قابل ذكر ہے كہ دينى حكومت سے ہمارى مراد كسى خاص دين سے متصف حكومت نہيں ہے _ بلكہ دنيا كے جس گوشہ ميں كوئي حكومت دينى تعليمات كے آگے سر تسليم خم كردے، اس كى فرمانروائي كو قبول كرلے اور اپنے اداروں ميں دينى تعليمات رائج كردے وہ دينى حكومت كہلائے گى چاہے وہ دين آسمانى اديان ميں سے ہو يا ايسے اديان ميں سے ہو جن كے متعلق ہم مسلمانوں كا عقيدہ ہے كہ ان كا تعلق وحى الہى سے نہيں ہے بلكہ شرك و تحريف سے آلودہ ہيں _

نيز توجہ رہے كہ اگر دين سے ہمارى مراد دين اسلام ہو تو پھر دينى حكومت وہى حكومت ہوگى جو اسلامى تعليمات كے مطابق ہو اور اسلامى تعليمات سے مراد وہ دينى اصول و ضوابط ہيں جو معتبر دينى منابع سے ماخوذ ہوں بنابريں كوئي فرق نہيں ہے كہ وہ دينى تعليمات ،وحى اور معتبر روايات سے حاصل ہوئي ہوں يا معتبر عقلى ادلّہ سے_ البتہ چونكہ اسلامى تعليمات كا اصلى اور اہم ترين منبع قرآن و سنت ہيں اسى لئے دينى حكومت اور سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے پر بحث و تحقيق كرنے والے بہت سے افراد كى ''دينى تعليمات''سے مراد وہ تعليمات ہيں جو قرآن اور احاديث سے حاصل ہوئي ہوں_

۳۰

خلاصہ :

۱ لفظ ''حكومت اور رياست ''كے متعدد معانى ہيں كہ جن ميں سے بعض معانى مترادف ہيں_

۲ دور حاضر كى جديد اصطلاح ميں رياست كى جو تعريف كى جاتى ہے ، حكومت اس كا ايك شعبہ اور حصہ ہے _

۳ دينى حكومت كى مختلف تعريفيں كى جاسكتى ہيں يعنى دين اور رياست كى تركيب سے متفاوت معانى پيش كئے جاسكتے ہيں _

۴ اجتماعى اور سياسى زندگى ميں دين كى حاكميت كو قبول كرنے والى حكومت كو دينى حكومت كہنا دين و رياست كى مجموعى حقيقتكے ساتھ زيادہ مطابقت ركھتى ہے_

۵ اس سبق ميں دينى حكومت كى جوچوتھى تعريف كى گئي ہے وہ ايك جامع تعريف ہے اور اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ ايك حكومت كے دينى ہونے كا معيار يہ ہے كہ معاشرے كے مختلف سياسى شعبوں ميں دينى تعليمات حاكم ہوں_

۶ مختلف سياسى شعبوں ميں دين كى حاكميت كو تسليم كرنے والى حكومت كو دينى حكومت كہنا ، ايك ايسى عام تعريف ہے جو كسى مخصوص دين كے ساتھ مربوط نہيں ہے_

۳۱

سؤالات

۱ دور حاضر ميں رياست كى تعريف كيا ہے ؟

۲ كونسى تعريف كے مطابق رياست اور حكومت دو مترادف اصطلاحيں ہيں ؟

۳ كونسى تعريف ميں دينى حكومت دين داروں كى حكومت كے مترادف ہے ؟

۴ دينى حكومت كى كونسى تعريف جامع اور قابل قبول ہے ؟

۵ باقى تعريفوں كى نسبت دينى حكومت كى چوتھى تعريف كونسے امتيازات كى حامل ہے ؟

۳۲

چوتھا سبق:

سياست ميں حاكميت دين كى حدود

گذشتہ سبق سے واضح ہوگيا كہ حكومت كے دينى ہونے كا معيار يہ ہے كہ حكومت اور سياست كے مختلف شعبوں ميں دينى تعليمات كى حكمرانى ہو _وہ چيز جو دينى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے جدا اور ممتاز كرتى ہے ، وہ معاشرے كے سياسى اور ديگر امورميں دين كى حاكميت كو تسليم كرنا ہے_ اس بحث ميں بنيادى سوال يہ ہے كہ اس حاكميت كا دائرہ كس حد تك ہے اور دين كس حد تك دنيائے سياست وحاكميت ميں دخيل ہے ؟

دوسرے لفظوں ميں صاحبان دين كيلئے سياست كے كن شعبوں اور حكومت كے كن اداروں ميں دين اور اس كى تعليمات كو بروئے كار لانا ضرورى ہے ؟ اور كونسے شعبوں ميں دين كى حاكميت سے بے نياز ہيں ؟ ايك دينى حكومت كے كونسے پہلو مدنى اور بشرى ہيں اور كونسے پہلو دينى تعليمات سے ماخوذ ہونے چاہيں؟

اس اہم ترين مسئلہ كى تحقيق سے پہلے حكومت اور سياست كے مختلف پہلوؤں اور شعبوں كى شناخت ضرورى ہے _ كيونكہ حكومت كے متعلق قابل بحث پہلوؤں سے مكمل آگاہى ، ان تمام پہلوؤں ميں دين كى دخالت كے سمجھنے ميں مددگار ثابت ہوسكتى ہے _

۳۳

حكومت اور اس كے سياسى پہلو:

ہم نے حكومت اور رياست كى تعريف كى تھى : '' وہ منظم سياسى قوت جو امر و نہى اور ايك مكمل نظام كے اجرا كى حامل ہو '' اس سياسى قوت كے متعلق مختلف جہات قابل بحث ہيں _ اگر چہ يہ سياسى ابحاث مختلف اور ايك دوسرے سے جدا ہيںليكن باہمى ربط كى حامل ہيں _ حكومت سے متعلق مختلف سياسى پہلوؤں كو درج ذيل صورت ميں بيان كيا جاسكتا ہے _

۱_ حكومتيں مختلف قسم كى ہوتى ہيں ، جمہورى ، شہنشاہى اور نيم شہنشاہى و غيرہ _ بنابريں حكومت سے متعلق بنيادى مباحث ميں سے ايك يہ طے كرناہے كہ كون سا سياسى طرز حكومت معاشرہ پر حاكم ہے_

اسى طرح صاحبان اقتدار كى انفرادى خصوصيات اور شرائط كا تعيّن اسكى بنيادى بحث شمار ہوتى ہے_ سياسى نظام كى نوعيتكى تعيين ہر معاشرے كے سياسى اقتدار كے حامل اداروں كى ضرورى خصوصيات كى ايك حد تك پہچان كروا ديتى ہے _

۲_ ہر حكومت كا ايك حكومتى ڈھانچہ ہوتاہے يعنى ہر حكومت مختلف اداروں اور قُوى سے تشكيل پاتى ہے _ حكومتى ڈھانچے كى تعيين ، اس كے اداروں كے آپس ميں ارتباط كا بيان اور ہر ادارے كے اختيارات اور فرائض كى وضاحت ، سياست اور حكومت كے اہم ترين مسائل ميں سے ہيں _

۳_ ہر رياست اور حكومت قدرت واقتدار(۱) كى حامل ہوتى ہے _ يعنى امرو نہى كرتى ہے ، قوانين بناتى ہے اور انكےصحيح اجرا پر نظارت كرتى ہے _ ايك اہم بحث يہ ہے كہ اس اقتدار كى بنياد كن اہداف اور اصولوں پر ہونى چاہيئے ؟ مختلف حكومتى ادارے جو عوام كو امرو نہى اور روك ٹوك كرتے ہيں وہ كن اصولوں كى بنياد پر

____________________

۱) Authority

۳۴

ہونے چاہيں؟ مثال كے طور پر ايك سوشلسٹ نظريات كى حامل حكومت جو كہ ماركسزم كى تعليمات كى قائل اور وفادار ہے اپنے اقتدار ميں ماركسزم كى تعليمات كے تابع ہے_ اس قسم كى حكومتوں ميں قانون گزارى ، اقتصادى پروگرام ،آئينى اور ثقافتى تعلقات اور بين الاقوامى معاملات ميں اس مكتب كے اصولوں پرخاص توجہ دى جاتى ہے _ جس طرح كہ '' لبرل جمہورى '' حكومتوں ميں ''جيسا كہ آج كل يورپ اور آمريكہ ميں قائم ہيں '' اقتدار كى بنياد لبرل ازم كے اصولوں پر قائم ہے _ ان ممالك ميں جمہوريت اور اكثريت كى رائے بطور مطلق نافذ العمل نہيں ہوتى بلكہ لبرل ازم اسے كنٹرول كرتا ہے _ آمريت ، اقتدار اور حكومت كا دائر ہ كار ان اصولوں پر قائم ہوتا ہے جنہيں لبرل ازم كے تابع بنايا جاتا ہے _

۴_ ہر حكومت كى كچھ ذمہ دارياں ہوتى ہيں جنہيں وہ اپنے عوام كى فلاح و بہبود كيلئے انجام ديتى ہے_ حكومت سے مربوط مباحث ميں سے ايك بحث يہ بھى ہے كہ يہ وظائف اور فرائض كيا ہيں ؟ اور عوام كے مقابلے ميں حكومت كى ذمہ دارياں كيا ہيں ؟

۵_ اپنے افعال اور فرائض كى انجام دہى اور حكومت كى سياسى قدرت كا سرچشمہ اقتدار اعلى(۱) ہوتاہے_

ہر حكومت اپنے اقتدار اعلى كا سہارا ليتے ہوئے مختلف ميدانوں ميں اپنى سياسى قوت كو بروئے كار لاسكتى ہے اور اندرون و بيرون ملك اپنے سياسى ارادوں كو عملى جامہ پہنا سكتى ہے _ ہر حكومت اپنے اقتدار اعلى كى بناپر مختلف احكام نافذ كرتى ہے _ پس سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ كيا اس كا اقتدار اعلى جائز اور مشروع ہے يا نہيں ؟ دوسرے الفاظ ميں كيا وہ حكومت كرنے كا حق ركھتى ہے يا نہيں ؟

سياسى فلسفہ ميں مشروعيت(۲) و غير مشروعيت كى بحث اہم ترين مباحث ميں سے شمار ہوتى ہے _ كوئي بھي

____________________

۱) Sovereignty

۲) Legitimacy

۳۵

سياسى مكتب اس سے بے نياز نہيں ہے _ كيونكہ حكومتى اركان اور ادارے ، اور تمام سياسى فيصلے اور تدابير اپنى حقانيت اور مشروعيت، حكومت كے حق حاكميت اور مشروعيت سے حاصل كرتے ہيں _ ہر حكومت ميں يہ صلاحيت اور قدرت ہونى چاہيے كہ وہ اپنى مشروعيت كا معقول طريقے سے دفاع كرسكتى ہو _

اس مختصر اور اجمالى وضاحت سے روشن ہوجاتا ہے كہ حكومت و رياست كے متعلق كم ازكم پانچ اساسى محور قابل بحث ہيں _ اب ديكھنا يہ ہے كہ ان پانچ محوروں ميں سے كن ميں ''دين'' حاكميت كى صلاحيت ركھتا ہے ؟ دوسرے لفظوں ميں ان پانچ ميدانوں ميں كس ميدان ميں دينى حكومت ، دين كے تابع ہے ؟ كيا يہ دعوى كياجاسكتا ہے كہ ان ميں سے بعض ميں دين كو دخل اندازى كرنے كا حق نہيں ہے اور دين كى حاكميت صرف ان ميں سے بعض ميں ہے ؟

حاكميت دين كى حدود

سياست ميں دين كے دخيل ہونے كى بحث دو لحاظ سے قابل تحقيق ہے :

الف: كس حد تك دين كا دخيل ہونا ممكن ہے_

ب : كس حد تك دين عملا دخيل ہے_

پہلى بحث سے مراد يہ ہے كہ سياست كے كونسے پہلو دين كے محتاج ہيں؟ اور كہاں پر دين اپنى تعليمات سے نواز سكتا ہے اور اپنى حاكميت كو بروئے كار لاسكتا ہے ؟ يہاں اصلى اور بنيادى سوال يہ ہے كہ كيا ممكن ہے دين ان پانچوں ميدانوں ميں دخيل اور معاشرہ كى سياسى زندگى كے تمام شعبوں ميں اس كى راہنمائي كرے ؟ يا يہ كہ بعض شعبوں كا تعلق صرف لوگوں سے ہے اور دين كيلئے سزاوار نہيں ہے كہ وہاں اظہار نظر كرے ؟

دوسرى بحث سے مراد ايك تو اس بات كى تعيين ہےكہ دين مبين اسلام نے سياست كے پانچ ميدانوں

۳۶

ميں سے كن ميں عملى طور پر اظہار نظر كياہے؟ دوسرا يہ كہ ان ميدانوں ميں دين كى تعليمات كس حد تك ہيں ؟ سياست كے مختلف پہلوؤں ميں دين كى دخالت كے امكان كے متعلق ہمارے نزديك دين كى حاكميت كى راہ ميں كوئي شئے مانع نہيں ہے_اور دين ان تمام ميدانوں ميں اپنا پيغام دے سكتا ہے _ منطقى لحاظ سے ضرورى نہيںہے كہ دين كى دخالت سياست كے بعض شعبوں تك محدودرہے بلكہ ممكن ہے دين ،حكومت كے تمام شعبوں ميں اپنى رائے كا اظہار كرے بعنوان مثال سياسى ڈھانچہ ،حكومت كى نوعيت، دينى معاشرے كے حكمرانوں كى شرائط ،خصوصاً رہبر و قائد كى خصوصيات جيسے ابواب ميں دين اپنى تعليمات پيش كرسكتاہے_ دين حكومت كى مشروعيت اور حق حاكميت كے متعلق اپنى رائے كا اظہار كرسكتا ہے _ كونسى حاكميت مشروع ہے اور كونسى نامشروع ،اسكى تعيين كرسكتا ہے ، حكّام پر عوام كے حقوق ، لوگوں كے سلسلہ ميں حكمرانوں كے وظائف اور عوام پر حكمرانوں كے حقوق جيسے امور ميں اپنى رائے دے سكتا ہے _ سياسى اقتدار كے حامل افراد كے لئے اہداف اور اقدار معين كرسكتا ہے تا كہ وہ معيّنہ اصولوں اور اہداف كے مطابق اپنى سياست كو آگے بڑھائيں اورمعاشرتى امور كو انجام ديں _

بنابريں از نظر امكان''سياست ميں دين كى حاكميت '' بلا قيد و شرط ہے اور اسے سياست كے چند مخصوص شعبوں ميں محدود كرنا صحيح نہيں ہے _

يہ تسليم كرلينے كے بعد كہ سياست كے مختلف شعبوں ميں منطقى طور پر دين كى دخالت ممكن ہے ، بعض افراد قائل ہيں كہ مختلف حكومتى شعبوں ميں دين كى حاكميت نہيں ہونى چاہيئے _ ان كى نظر ميں بعض ادلّہ كى روسے دين خود كو سياست سے دور ركھے_ اور ان تمام امور كو لوگوں ، عقل اور تجربہ كے حوالے كردے _ آنے والے اسباق ميں ہم دينى حكومت كے ان منكرين كى ادلہ پر بحثكريں گے _

۳۷

پس يہ مان لينے كے بعد كہ سياست سے متعلق ان پانچ ميدانوں ميں دين كى دخالت ممكن ہے دوسرے مرحلے كو مورد بحث قرار ديتے ہيں _ حكومتى اور سياسى امور ميں دين كى دخالت كس حد تك ہے ؟ اس كى تعيين صرف ايك طريقے سے ممكن ہے اور وہ بلاواسطہ دين اور پيام الہى كى طرف رجوع كرنا ہے _ اسلام كى اجتماعى اور سماجى تعليمات كى طرف عالمانہ اور باريك بينى سے رجوع كرنا ، اس حقيقت كى نقاب كشائي كرتا ہے كہ مذكورہ پانچ ميدانوں ميں سے دين نے كس ميں اپنى راہنمائي و ہدايت سے نوازاہے اور كس حد تك گفتگو كى ہے _ اور كونسے امور كو لوگوں اور ان كى عقل و تدبير پر چھوڑا ہے _ دين كى طرف رجوع اور اس كے مطالب كے ادراك سے واضح ہوجاتا ہے كہ دين نے كس شعبہ ميں اور كس حد تك اپنى حاكميت كو ثابت كيا ہے اور ان كے بارئے ميں اظہار نظر كيا ہے اور كن امور كو لوگوں كے حق انتخاب اور رائے پر چھوڑا ہے كسى بھى صورت ميں دين كى تعليمات كى طرف رجوع كرنے سے پہلے سياست كے بعض شعبوں ميں دين كو دخل اندازى سے نہيں روكا جاسكتا يا بعض امور ميں اس كے اظہار نظر اور دخالت كودين كے اہداف اور اسكى شان كے منافى قرار نہيں ديا جاسكتا _

۳۸

خلاصہ:

۱) حكومت اور سياست كے پانچ پہلو ہيں جو ايك دوسرے كے ساتھ مربوط ہيں _

۲) سياسى نظام كى نوعيت كى تعيين ، نيز اس كے اداروں كى كيفيت و كميت ،سياست كى اہم ترين مباحث ہيں _

۳) اہم ترين سياسى مباحث ميں سے ايك يہ ہے كہ ہر حكومت كا اقتدار كن اصولوں اور اہداف كى بنياد پر ہونا چاہيے _

۴) ہر حكومت اپنى قانونى حكمرانى كى بنياد پر احكام جارى كرتى ہے _

۵) سياسى اقتدار كى مشروعيت كى بحث حاكميت كے جائز اور ناجائز ہونے كى بات كرتى ہے اور اس بنيادى سوال كا جواب ديتى ہے كہ حكومت كا حق كن افراد كو حاصل ہے _

۶)'' دين'' سياست كے مذكورہ بالا پانچ بنيادى ميدانوں ميں اپنى رائے كا اظہار كرسكتا ہے _

۷) سياسى امور ميں دين كى حاكميت دومرحلوں ميں قابل بحث و تحقيق ہے _

الف: كونسے سياسى موارد ميں دين كى دخالت ممكن ہے ؟

ب: كن موارد ميں اسلام نے عملى طور پر اپنى رائے كا اظہار كيا ہے ؟

۸) دوسرے سوال كا جواب صرف دينى تعليمات كى طرف رجوع كرنے سے ہى مل سكتا ہے _ تا كہ واضح ہوسكے كہ حكومتى امور ميں اسلام نے كس حد تك دخالت كى ہے _

۳۹

سوالات :

۱) حكومت اور سياست سے مربوط پانچ مباحث كو اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_

۲) اقتدار سے كيا مراد ہے ؟ اور اس كے متعلق كونسى بحث اہم ہے ؟

۳) مشروعيت كى بحث كيا ہے ؟ اورقانونى حاكميت كى بحث سے اس كا كيا تعلق ہے ؟

۴) حكومت كے ان پانچ ميدانوں ميں سے كس ميدان ميں ''دين'' حكمرانى كرسكتاہے ؟

۵) ان پانچ موارد ميں سے ہر ايك ميں دخالت دين كى حدود كى تشخيص كا طريقہ كيا ہے ؟

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

سيكولرازم كے استدلال كا پہلا مقدمہ يہ ہے كہ اجتماعى اورسماجى روابط و تعلقات ہميشہ بدلتے رہتے ہيں_ طول تاريخ ميں انسان كے اجتماعى اور اقتصادى روابط تبديل ہوتے رہے ہيں اور اس تبديلى كا سرچشمہ علمى اور انسانى تجربات كا رشد ہے_ ديہاتى اور قبائلى معاشرہ ميں حاكم سياسى ،ثقافتى اور اقتصادى روابط ،صنعتى اور نيم صنعتى معاشرہ پر حاكم اجتماعى روابط سے بہت مختلف ہيں _ بنابريں اجتماعى زندگى كے تحول و تغير كى بناپر اجتماعى روابط ميں تبديلى ايك ايسى حقيقت ہے جس سے انكار نہيں كيا جاسكتا_

دوسرا مقدمہ يہ ہے كہ دين اور اس كى تعليمات ثابت اور غير قابل تغيير ہيں_كيونكہ دين نے ايك خاص زمانہ جو كہ اس كے ظہور كا دور تھا ميں انسان سے خطاب كيا ہے اور اس زمانے كو ديكھتے ہوئے ايك مخصوص اجتماع كےحالات اور خاص ماحول كے تحت اس سے سروكار ركھاہے_ دين اور شريعت ايسى حقيقت نہيں ہے جو قابل تكرار ہو_ اسلام نے ايك خاص زمانہ ميں ظہور كيا ہے اور اس طرح نہيں ہے كہ سماجى تحولات كے ساتھ ساتھ وحى الہى بھى بدل جائے اور اسلام بھى نيا آجائے _ دين ايك امر ثابت ہے اور سماجى تحولات كے ساتھ اس ميں جدّت پيدا نہيں ہو تى اور اس كے اصول و ضوابط اور تعليمات نئے نہيں ہوجاتے _ ان دو مقدموں كانتيجہ يہ ہے كہ ايك امر ثابت، امر متغير پر قابل انطباق نہيں ہے _ دين جو كہ امر ثابت ہے ہر زمانے كے مختلف اجتماعى اور سماجى روابط كو منظم نہيں كرسكتا_ صرف اُن معاشروں ميں شريعت كا نفاذ مشكل سے دوچار نہيں ہوتا جو اس كے ظہوركے قريب ہوں كيونكہ اس وقت تك ان معاشروں كے اجتماعى روابط ميں كوئي بنيادى تبديلى نہيں ہوئي تھى _ ليكن ان معاشروں ميں شريعت كا نفاذ مشكل ہوتاہے، جن كے اجتماعى مسائل نزول وحى كے زمانہ سے مختلف ہيںپس شريعت كے نفاذ كے غير ممكن ہونے كا نتيجہ يہ ہے كہ سياسى اور اجتماعى امور ميں دين كى حاكميت اور دينى حكومت كى تشكيل كى ضرورت نہيں ہے_

۶۱

اس پہلي دليل كا جواب

اس استدلال اور اس كے دو اساسى مقدموں پر درج ذيل اشكالات ہيں _

۱_ اجتماعى امور اور روابط ميں تبديليوں كا رونما ہونا ايك حقيقت ہے ليكن يہ سب تبديلياںايك جيسى نہيں ہيں اور ان ميں سے بعض شريعت كے نفاذ ميں ركاوٹ نہيں بنتيں _ اس نكتہ كو صحيح طور پر سمجھ لينا چاہيے كہ تمام اجتماعى تغيرات اساسى اور بنيادى نہيں ہيں بلكہ بعض اجتماعى تبديلياں صرف ظاہرى شكل و صورت كے لحاظ سے ہوتى ہيں بايں معنى كہ گذشتہ دور ميں معاشرے ميں لوگوں كے درميان اقتصادى روابط تھے آج بھى ويسے ہى اقتصادى روابط موجود ہيں ليكن ايك نئي شكل ميں نہ كہ نئے روابط نے ان كى جگہ لى ہے_ مختلف اجتماعى روابط ميں شكل و صورت كى يہ تبديلى قابل تصور ہے_ مثلاًتمام معاشروں ميں اقتصادى و تجارتى تعلقات; خريد و فروخت، اجارہ ، صلح اور شراكت جيسے روابط اور معاملات كى صورت ميں موجود رہے ہيں اور آج بھى موجود ہيں _زمانہ كے گزرنے كے ساتھ ساتھ ان كى شكل و صورت ميں تبديلى آجاتى ہے ليكن ان معاملات كى اصل حقيقت نہيں بدلتي_ اگر ماضى ميں خريد و فروخت ،اجارہ اور شراكت كى چند محدود صورتيںتھيں ، تو آج انكى بہت سارى قسميں وجود ميں آچكى ہيں _ مثلاً ماضى ميں حصص كاكا روبار كرنے والي(۱) اور مشتركہ سرمايہ كى(۲) بڑى بڑى كمپنياں نہيں تھيں_ اسلام نے ان معاملات كى اصل حقيقتكے احكام مقرر كر ديئے ہيں _ تجارت ، شراكت اور اجارہ كے متعلق صدر اسلام كے فقہى احكام ان تمام نئي صورتوں اور قسموں كے ساتھ مطابقت ركھتے ہيں كيونكہ يہ احكام اصل حقيقت كے متعلق ہيں نہ كہ ان كى كسى مخصوص شكل و صورت كے متعلق_ لہذا اب بھى باقى ہيں _

____________________

۱) Exchange. Stock

۲) jointstock companis

۶۲

اسى طرح اسلام نے بعض اقتصادى معاملات كو ناجائز قرار ديا ہے _ آج اگر وہ نئي شكل ميں آجائيں تب بھى اسلام كيلئے ناقابل قبول ہيں اور اس نئي شكل پر بھى اسلام كا وہى پہلے والا حكم لاگو ہوتا ہے _ مثلاً سودى معاملات اسلام ميں حرام ہيں _ آج نئے طرز كے سودى معاملات موجود ہيں جو ماضيميں نہيں تھے _ اگر تجزيہ و تحليل كرتے وقت مجتہد كو معلوم ہوجائے كہ يہ سودى معاملہ ہے تو وہ اس كى حرمت اور بطلان كا حكم لگا دے گا _ بنابريں اس نئے مورد ميں بھى سود والا حكم لگانے ميں كوئي دشوارى نہيں ہوگى _ لہذا اقتصادى روابط و معاملات ميں تغير و تبدل شرعى احكام كے منطبق ہونے ميں ركاوٹ نہيں بنتا _

۲_ بعض اجتماعى تحولات، ايسے مسائل كو جنم ديتے ہيں جوحقيقت اور شكل و صورت كے لحاظ سے بالكل نئے ہوتے ہيں كہ جنہيں ''مسائل مستحدثہ'' كہتے ہيں اس قسم كے مسائل كا حل بھى شريعت كے پاس موجود ہے_ پس سيكولرازم كے استدلال كا دوسرا مقدمہ كہ'' دين ثابت ہے اور تغير پذير اشياء پر منطبق ہونے كى صلاحيت نہيں ركھتا'' درست نہيں ہے كيونكہ دين اگر چہ ثابت ہے اور معاشرتى تحولات كے ساتھ ساتھ تبديل نہيں ہوتا ليكن اس كے باوجود دين مبين اسلام ميں ايسے قوانين و اصول موجود ہيں جن كى وجہ سے فقہ اسلامى ہر زمانہ كے مسائل مستحدثہ (نئے مسائل ) پر منطبق ہونے اور ان كو حل كرنے كى قدرت و صلاحيت ركھتى ہے اور اس ميں اسے كوئي مشكل پيش نہيں آتى _ ان ميں سے بعض اصول و قوانين يہ ہيں_

الف_ اسلامى فقہ خصوصاً فقہ اہلبيت ميں اجتہاد كا دروازہ كھلا ہے بايں معنى كہ فقيہ اور مجتہد كا كام صرف يہ نہيں ہے كہ فقہى منابع ميں موجود مسائل كے احكام كا استنباط كرے بلكہ وہ فقہى اصول و مبانى كو مد نظر ركھتے ہوئے جديد مسائل كے احكام كے استخراج كيلئے بھى كوشش كرسكتا ہے _

ب_ شرط كى مشروعيت اور اس كى پابندى كا لازمى ہونا فقہ كے بعض شرائط اور جديد مسائل كے ساتھ

۶۳

مطابقت كى راہ ہموار كرتا ہے كيونكہ بہت سے نئے عقلائي معاملات كو ''شرط اور اس كى پابندى كے لزوم'' كے عنوان سے جواز بخشا جاسكتاہے _ مثلاً عالمى تجارت كے قوانين ،دريائي اور بحرى قوانين، قوانين حق ايجاد ، فضائي راستوںاور خلائي حدود كے قوانين سب نئے امور اور مسائل ہيں كہ جن كے متعلق اسلامى فقہ ميں واضح احكام موجود نہيں ہيں _ ليكن اسلامى نظام ان ميں سے جن ميں مصلحت سمجھتاہے ان كو بين الاقوامى يا بعض انفرادى معاملات كے ضمن ميں قبول كرسكتاہے اور لوگوں كو ان كى پابندى كرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے كيلئے راہنمائي كرسكتا ہے _

ج_ مصلحت كے پيش نظر جامع الشرائط ولى فقيہ كا حكم حكومتى زمانہ كے تقاضوں كے ساتھ فقہ كى مطابقت كے اہم ترين اسباب ميں سے ہے _نئے امور كہ جن كے متعلق مخصوص فقہى حكم موجود نہيں ہے ميں ولى فقيہ حكومتى حكم كے تحت ان كى شرعى حيثيت كا تعين كرسكتا ہے_

مختصر يہ كہ:

اولاً: تو تمام اجتماعى تبديلياں ايسى نہيں ہيں جو نئے شرعى جواب كا مطالبہ كريں اور نفاذ شريعت ميں دين كا ثبات اور استحكام ركاوٹ پيدا كرے كيونكہ صرف شكل وصورت بدلى ہے لہذا شريعت كا حكم آسانى سے اس پر منطبق ہوسكتا ہے _

ثانياً: اگر اجتماعى تحولات كى وجہ سے بالكل نئے مسائل پيدا ہوجائيں تب بھى اسلامى فقہ ميں ايسے اسباب وا صول موجود ہيں جن كى وجہ سے شريعت ان نئے مسائل كيلئے بھى جواب گو ہوسكتى ہے _ بنابريں '' ثبات دين'' كا معنى يہ نہيں ہے كہ دين كا جديد مسائل پر منطبق ہونا ممكن نہيں ہے _ بلكہ دين ثابت ميں ايسےعناصرموجود ہيں كہ جن كى بناپر دين جديد تبديليوںاور مسائل كے قدم بہ قدم چل سكتا ہے _

۶۴

خلاصہ :

۱)'' سيكولرازم'' دينى حكومت كو تطبيق اور نفاذ شريعت كى مشكل سے دوچا ر سمجھتاہے _

۲) دينى حكومت كى مخالفت كے سلسلہ ميں ''سيكولرازم'' كى مشہور دليل يہ ہے كہ فقہ اپنے ثبات كى وجہ سے اجتماعى تحولات پر منطبق نہيں ہوسكتى _

۳)''سيكولرازم'' كے استدلال كا بنيادى نكتہ يہ ہے كہ دين ثابت ہے اور اجتماعى روابط تبديل ہوتے رہتے ہيں اور ثابت چيز متغيّر شےء پر منطبق نہيں ہو سكتى پس دين معاشرے ميں قابل اجرا نہيں ہے _

۴) حقيقت يہ ہے كہ اجتماعى تغيرات ايك جيسے نہيں ہيں _

۵) اجتماعى معاملات كى شكل و صورت ميں تبديلى نفاد شريعت ميں مشكل پيدا نہيں كرتى _

۶) اگر چہ بعض تبديلياں بالكل نئي ہيں ليكن شريعت ميں ان كيلئے راہ حل موجود ہے _

۷) دين اگر چہ ثابت ہے ليكن اس ميں مختلف حالات كے ساتھ سازگار ہونے كے اسباب فراہم ہيں_

۶۵

سوالات :

۱) دينى حكومت كى نفى پر ''سيكولرازم'' كى پہلى دليل بيان كيجيئے _

۲) دو قسم كے اجتماعى تغيرات كى مختصر وضاحت كيجيئے _

۳) كس قسم كے اجتماعى تغيرات ميں شريعت كا اجرازيادہ مشكل ہے ؟

۴)''سيكولرازم'' كے پہلے استدلال كا اختصار كيساتھ جواب بيان كيجئے_

۵) جديد مسائل پر اسلامى فقہ كو قابل انطباق بنانے والے عناصر كى چند مثاليں پيش كيجئے_

۶۶

آٹھواں سبق :

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلّہ -۲-

دوسرى دليل :

سيكولرازم كى پہلى دليل اس زاويہ نگاہ سے بيان كى گئي تھى كہ اجتماعى معاملات اور مسائل ہميشہ بدلتے رہتے ہيں جبكہ دين و شريعت ثابت ہے لہذا فقہ ان معاملات اور مسائل كا جواب دينے سے قاصر ہے _ سياست اور اجتماع كے متعلق فقہ كى ناتوانى پر سيكولرازم كى دوسرى دليل درج ذيل مقدمات پر مشتمل ہے _

۱_ فقہ كے سياسى اہداف ميں سے ايك معاشرتى مشكلات كا حل اور انسان كى دنيوى زندگى كے مختلف پہلوؤں كى تدبير كرنا ہے غير عبادى معاملات مثلاً ارث ، وصيت، تجارت ، حدود اور ديات ميں واضح طور پريہ ہدف قابل فہم ہے _ مثال كے طور پر معاشرتى برائيوں كو روكنے كيلئے حدود و ديات كا باب اور معاشرہ كى اقتصادى مشكلات كے حل كيلئے مختلف تجارتى اور معاملاتى ابواب كارسازہيں _

۲_ گذشتہ ادوار ميں اجتماعى روابط بہت ہى سادہ اور لوگوں كى ضروريات نہايت كم اور غير پيچيدہ تھيں _ فقہ آسانى سے ان اہداف سے عہدہ برا ہو سكتى تھى اور انسان كى اجتماعى ضروريات كو پورا كرنے كى صلاحيت

۶۷

ركھتى تھى بنابريں فقہ اور فقہى نظارت صرف اس معاشرہ كے ساتھ ہم آہنگ ہوسكتى ہے جو نہايت سادہ اور مختصرہو_

۳_ آج معاشرہ اور اجتماعى زندگى مخصوص پيچيدگيوں كى حامل ہے لہذا اس كى مشكلات كے حل كيلئے علمى منصوبہ بندى(۱) كى ضرورت ہے اور موجودہ دور كى مشكلات كو فقہ اپنى سابقہ قد و قامت كيساتھ حل كرنے سے قاصر ہے كيونكہ فقہ بنيادى طور پر منصوبہ بندى كے فن كو نہيں كہتے بلكہ فقہ كا كام احكام شريعت كو بيان كرنا ہے فقہ صرف قانونى مشكلات كو حل كرسكتى ہے جبكہ موجودہ دور كى تمام مشكلات قانونى نہيں ہيں _

ان مقدمات كا نتيجہ يہ ہے كہ فقہ موجودہ معاشروں كو چلانے سے قاصر ہے كيونكہ فقہ صرف قانونى مشكلات كا حل پيش كرتى ہے جبكہ موجود معاشرتى نظام كو ماہرانہ اور فنى منصوبہ بندى كى ضرورت ہے _ لہذا آج كى ماہرانہ علمى اورسائنٹيفك منصوبہ بنديوں كے ہوتے ہوئے فقہى نظارت كى ضرورت نہيں ہے _

اس دوسرى دليل كاجواب:

مذكورہ دليل ''دينى حكومت'' اور'' اجتماعى زندگى ميں فقہ كى دخالت ''كى صحيح شناخت نہ ہونے كا نتيجہہے _ اس دليل ميں درج ذيل كمزورنكات پائے جاتے ہيں _

۱_ اس دليل كے غلط ہونے كى ايك وجہ فقہى نظارت اور علمى و عقلى نظارت(۲) كے در ميان تضاد قائم كرنا ہے _گويا ان دونوں كے درميان كسى قسم كا توافق اور مطابقت نہيں ہے _ اس قسم كے تصور كا سرچشمہ عقل اور دين كے تعلق كا واضح نہ ہونا اوردينى حكومت اور اس ميں فقہ كے كردار كے صحيح تصور كا فقدان ہے_ اسى ابہام كى وجہ سے سيكولرازم نے يہ سمجھ ليا ہے كہ معاشرے كى تمام تر زمام نظارت يا تو فقہ كے ہاتھ ميں ہو اور تمام تر

____________________

۱) scientific management

۶۸

اجتماعى و سماجى مشكلات كا حل فقہ كے پاس ہو اور علم و عقل كى اس ميں كسى قسم كى دخالت نہ ہو يا فقہ بالكل ايك طرف ہوجائے اور تمام تر نظارت علم و عقل كے پاس ہو_

اس تضاد كى كوئي بنياد اور اساس نہيں ہے دينى حكومت اور سيكولر حكومت ميں يہ فرق نہيں ہے كہ دينى حكومت عقل ، علم اور انسانى تجربات كو بالكل ناديدہ سمجھتى ہے اور معاشرے كے انتظامى امور ميں صرففقہى احكام پر بھروسہ كرتى ہے جبكہ سيكولر حكومت معاشرتى امور ميں مكمل طور پر عقل و علم پر انحصار كرتى ہے _اس قسم كى تقسيم بندى اور فرق كاملاً غير عادلانہ اور غير واقعى ہے_دينى حكومت بھى عقل و فہم اور تدبيرومنصوبہ بندى سے كام ليتى ہے_ دينى حكومت اور سيكولر حكومت ميں فرق يہ ہے كہ دينى حكومت ميں عقل اور منصوبہ بندى كو بالكل بے مہار نہيں چھوڑ اگيا بلكہ عقل دينى تعليمات كے ساتھ ہم آہنگ ہوتى ہے اور دينى حكومت عقل سے بے بہرہ نہيں ہے_ بلكہ اسے وہ عقل چاہيے جو شريعت كے رنگ ميں رنگى ہو اور دينى حكومت ميں نظارت اور عقلى منصوبہ بندى كيلئے ضرورى ہے كہ وہ دينى تعليمات سے آراستہ ہوں اور اسلامى حدودكو مد نظر ركھتے ہوئے معاشرتى امور كو چلائے _ سيكولر حكومت ميںعقلى نظارت ،بے مہار اور دين سے لا تعلق ہوتى ہے _ ايسى عقلينظارت دين سے كوئي مطابقت نہيں ركھتى _

۲_ دينى حكومت ميں دين كى حاكميت اور اسلامى احكام كى رعايت كا يہ معنى نہيں ہے كہ حكومت كے تمام كام مثلاً قانون گذارى ، فيصلے اور منصوبہ بندى جيسے امور بلاواسطہ'' فقہ سے ماخوذ'' ہوں _ دينى حكومت كى اساس اس پر نہيں ہے كہ معاشيات كى جزوى تدابير، بڑے بڑے سياسى اور اقتصادى منصوبے اور اجتماعى پيچيدگيوں كا حل عقل و علم كى دخالت اور مددكے بغير براہ راست فقہ سے اخذ كيا جائے_ يہ بات نا ممكن ہے اور دين نے بھى اس قسم كا كوئي دعوى نہيں كيا _ نہ ماضى ميں اور نہ حال ميں كبھى بھى فقہ تمام مشكلات كا حل نہيں

۶۹

رہى بلكہ ماضى ميں بھى جو مشكلات سيكولر افراد كى نظر ميں صرف فقہ نے حل كى ہيں در حقيقت ان ميں عقل اور انسانى تجربات بھى كار فرما رہے ہيں_ آنحضرت (ص) ،اميرالمؤمنيناور صدر اسلام كے دوسرے خلفاء نے اسلامى معاشرے كے انتظامى امور ميں جس طرح فقہ سے مدد لى ہے اسى طرح عقلى چارہ جوئي، عرفى تدابير اور دوسروں كے مشوروں سے بھى فائدہ اٹھايا ہے _ ايسا ہرگز نہيں ہے كہ فقہ تمام اجتماعى مسائل اور مشكلات كا حل رہى ہو اور اس نے عقل و تدبيركى جگہ بھى لے لى ہو _ پس جس طرح ماضى ميں دينى حكومت نے فقہ اور عقل و عقلى تدابير كو ساتھ ساتھ ركھا ہے اسى طرح آج بھى دينى حكومت ان دونوں كو ساتھ ساتھ ركھ سكتى ہے _ سيكولر حضرات كو يہ غلط فہمى ہے كہ ماضى ميں دينى حكومت صرف فقہ كى محتاج تھى اور آج چونكہ دنيا كو اجتماعى اورناقابل انكار منصوبہ بندى كى ضرورت ہے لہذا دينى حكومت جو كہ صرف فقہى نظارت پر مشتمل ہوتى ہے معاشرتى نظام كو چلانے سے قاصر ہے_

۳_ اجتماعى زندگى ميں فقہ كے دو كام ہيں_ ايك : مختلف پہلوؤں سے قانونى روابط كو منظم كرنا اور ان كى حدود متعين كرنا_ دوسرا : ثقافت ، معيشت اور داخلى و خارجى سياست كے كلى اصول و ضوابط مشخص كرنا_دينى حكومت كا فقہ پر انحصار يا فقہى نظارت كا مطلب يہ ہے كہ وہ حكمراني، خدمتگزاري،كا ركردگى اور قوانين بنانے ميں ان قانونى حدود كا بھى خيال ركھے اور ان اصول و قوانين كے اجرا اور اپنے اہداف كے حصول كيلئے عملى منصوبہ بندى بھى كرے_ فقہى نظارت كا معنى يہ نہيں ہے كہ فقہ صرف افراط زر ، بے روزگارى اور ٹريفك كى مشكلات كو حل كرے بلكہ فقہى نظارت كا معنى يہ ہے كہ اسلامى معاشرے كے حكمران اور منتظمين اقتصادى اور سماجى مشكلات كو حل اوران كى منصوبہ بندى كرتے وقت شرعى حدود كى رعايت كريں _ اور ايسے قوانين كا اجرا كريں جو فقہى موازين كے ساتھ سب سے زيادہ مطابقت ركھتے ہوں _ لہذا دليل كے تيسرے حصّے ميں جو يہ

۷۰

كہا گيا ہے كہ فقہ صرف قانونى پہلو ركھتى ہے اور تمام معاشرتى مسائل قانونى نہيں ہيں وہ اس نكتے پر توجہ نہ دينے كى وجہ سے كہا گيا ہے _ اگرچہ تمام معاشرتى مسائل قانونى نہيں ہيں ليكن ايك دينى معاشرے ميں ان مشكلات اور جديد مسائل كے حل كا طريقہ بہت اہميت ركھتا ہے_ ايك اجتماعى مشكل كے حل كے مختلف طريقوں ميں سے وہ طريقہ اختيار كيا جائے جس ميں اسلامى احكام كى زيادہ رعايت كى گئي ہو اورجو اسلامى اصولوں سے زيادہ مطابقت ركھتا ہو _ پس كسى اجتماعى مشكل كے قانونى نہ ہونے كا مطلب يہ نہيں ہے كہ اس كے حل كيلئے اسلامى احكام كو بالكل نظر انداز كرديا جائے_

يہ دو دليليں جو ان دو سبقوںميں بيان كى گئي ہيں ''سياست اور معاشرتى نظارت ميں دين كى عدم دخالت '' پر سيكولر حضرات كى اہم اور مشہورترين ادلّہ ميں سے ہيں _باقى ادلّہ اتنى اہم نہيں ہيں لہذا انہيں ذكر نہيں كرتے اورانہيں دو پر اكتفاء كرتے ہيں _

۷۱

خلاصہ :

۱) فقہ كے اہداف ميں سے ايك انسانى معاشرے كى اجتماعى مشكلات كو حل كرنا ہے _

۲)سيكولر حضرات كا خيال ہے كہ ماضى ميں ان مشكلات كے حل كرنے ميں اسلامى فقہ كامياب رہى ہے ليكن موجودہ جديد دور ميں وہ اس كى صلاحيت نہيں ركھتي_

۳) موجودہ دور، خاص قسم كى پيچيدگيوں اور مسائل كا حامل ہے پس اس كى تمام مشكلات فقہ سے حل نہيں ہو سكتيں لہذا ان كے حل كيلئے علمى نظارت اور منصوبہ بندى كى ضرورت ہے _

۴) سيكولر حضرات كا خيال ہے كہ علمى و عقلى نظارت، فقہى نظارت كى جانشين بن چكى ہے_

۵) سيكولر حضرات كى نظر ميں فقہ صرف قانونى مشكلات كو بر طرف كرتى ہے جبكہ موجودہ دور كى مشكلات صرف قانونى نہيں ہيں_

۶) سيكولر حضرات كو فقہى نظارت اور علمى نظارت كے درميان تضاد قرار دينے ميں غلط فہمى ہوئي ہے _

۷) دينى حكومت اور فقہى نظارت نے ماضى سے ليكر آج تك عقل سے فائدہ اٹھايا ہے _

۸) امور حكومت ميں فقہ كو بروئے كار لانا ،عقل سے مدد حاصل كرنے كے منافى نہيں ہے _

۹)دينى حكومت ميں اجتماعى مشكلات كے حل ، منصوبہ بندى اور نظارت ميں فقہى موازين اور دينى اقدار كى رعايت كرنا ضرورى ہے _

۷۲

سوالات :

۱) سيكولرحضرات اجتماعى اور سماجى مشكلات كے حل كرنے ميں فقہ كى توانائي اور صلاحيت كے بارے ميں كيا نظريہ ركھتے ہيں؟

۲) دينى حكومت كى نفى پر سيكولر حضرات كى دوسرى دليل كو مختصر طور پربيان كيجئے ؟

۳) سيكولر حضرات كى نظر ميں موجودہ دور كيلئے كس قسم كى نظارت كى ضرورت ہے ؟

۴) كيا علمى نظارت اور فقہى نظارت ميں تضادہے ؟

۵) اجتماعى زندگى ميں فقہ كا دائرہ كاركيا ہے ؟

۶) ''معاشرے كى نظارت ميں دين كى حاكميت ''سے كيا مراد ہے ؟

۷۳

دوسرا باب :

اسلام اور حكومت

سبق نمبر ۹،۱۰ : آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت

سبق نمبر ۱۱ : آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت

سبق نمبر ۱۲ : شيعوں كا سياسى تفكر

سبق نمبر ۱۳، ۱۴ : سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار

۷۴

تمہيد :

گذشتہ باب ميں ہم نے كہا تھا كہ دينى حكومت كا معنى '' حكومتى امور ميں دينى تعليمات كى دخالت اور مختلف سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو قبول كرناہے'' _ دينى حكومت كے مخالفين كى ادلّہ پر ايك نگاہ ڈالتے ہوئے ہم يہ ثابت كرچكے ہيں كہ اجتماعى و معاشرتى امور ميں دين كى حاكميت اور دينى حكومت كى تشكيل ميں كوئي ركاوٹ نہيں ہے _

اس باب ميں اس نكتہ كى تحقيق كى جائے گى كہ كيا اسلام مسلمانوں كو دينى حكومت كى تشكيل كى دعوت ديتا ہے يانہيں ؟ اور حكومت كى تشكيل، اس كے اہداف و مقاصد اور اس كے فرائض كے متعلق اس كا كوئي خاص نظريہ ہے يا نہيں ؟ دوسرے لفظوں ميں كيا اسلام نے دين اور حكومت كى تركيب كا فتوى ديا ہے ؟ اور كوئي خاص سياسى نظريہ پيش كيا ہے ؟

واضح سى بات ہے كہ اس تحقيق ميں دينى حكومت كے منكرين كى پہلى قسم كى آراء اور نظريات جو كہ گذشتہ باب ميں بيان ہوچكے ہيں پر تنقيد كى جائے گى _ يہ افراد اس بات كا انكار نہيں كرتے كہ معاشرے اور سياست ميں دين كى دخالت ممكن ہے _ اسى طرح اس كے بھى قائل ہيں كہ اجتماعى امور ميں دين كى حاكميت ميں كوئي ركاوٹ نہيں ہے بلكہ ان كا كہناہے كہ'' اسلام ميں ايسا ہوانہيں '' _ يعنى ان كى نظر ميں اسلام نے حكومت كى تشكيل ، اس كى كيفيت اور حكومتى ڈھانچہ جيسے امور خود مسلمانوں كے سپرد كئے ہيں اور خود ان كے متعلق كسى قسم كا اظہار رائے نہيں كيا _

۷۵

نواں سبق:

آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت -۱-

كيا اسلام نے دينى حكومت كى دعوت دى ہے؟ كيا مختلف سياسى اور حكومتى امور ميں اپنى تعليماتپيش كى ہيں ؟ اس قسم كے سوالات كے جواب ہميں صدر اسلام اور آنحضرت (ص) كى مدنى زندگى كى طرف متوجہ كرتے ہيں_

آنحضرت (ص) نے اپنى زندگى كے جو آخرى دس سال مدينہ ميں گزارے تھے اس وقت امت مسلمہ كى قيادت اور رہبرى آپ كے ہاتھ ميں تھى _سوال يہ ہے كہ يہ قيادت اور رہبرى كيا مسلمانوں پر حكومت كے عنوان سے تھي؟ يااصلاً آ پ (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہيہ رہبرى و قيادت صرف مذہبى اور معنوى عنوان سے تھى ؟

گذشتہ زمانے كے تمام مسلمانوں اور موجودہ دور كے اسلامى مفكرين كى اكثريت معتقدہے كہ تاريخى شواہد بتاتے ہيں كہ اس وقت آنحضرت (ص) نے ايك اسلامى حكومت تشكيل دى تھى جس كا دارالحكومت مدينہ تھا _ اس مشہور نظريہ كے مقابلہ ميں قرن اخير ميں مسلمان مصنفينكى ايك قليل تعداد يہ كہتى ہےكہ پيغمبر

۷۶

اكرم (ص) صرف دينى رہبر تھے اور انہوں نے كوئي حكومت تشكيل نہيں دى تھى _

آنحضرت (ص) كى قيادت كے سلسلہ ميں دو بنيادى بحثيں ہيں :

الف_ كيا آپ (ص) نے حكومت تشكيل دى تھى ؟

ب_ بنابر فرض تشكيل حكومت كيا آنحضر ت (ص) كى يہ رياست اور ولايت ،وحى اور دينى تعليمات كى رو سے تھى يا ايك معاشرتى ضرورت تھى اور لوگوں نے اپنى مرضى سے آپ(ص) كو اپنا سياسى ليڈر منتخب كر ليا تھا؟ پہلے ہم پہلے سوال كى تحقيق كريں گے اور ان افراد كى ادلّہ پر بحث كريں گے جو كہتے ہيں : آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _

حكومت كے بغير رسالت

مصرى مصنف على عبدالرازق اس نظريہ كا دفاع كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) كى قيادت ورہبرى صرف مذہبى عنوان سے تھى اور اس قيادت كا سرچشمہ آپ كى نبوت اور رسالت تھى اسى وجہ سے آپ كى رحلت كے بعد اس قيادت كا خاتمہ ہوگيا _ اور يہ امر جانشينى اور نيابت كے قابل نہيں تھا _ آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد خلفاء نے جو قيادت كى وہ آنحضرت (ص) والى رہبرى نہيں تھى بلكہ خلفاء كى قيادت سياسى تھى اور اپنى اس سياسى حكومت كى تقويت كيلئے خلفاء نے آنحضرت (ص) كى دينى دعوت سے فائدہ اٹھايا_ اس نئي حكومت كے اہلكاروں نے خود كو خليفہ رسول كہلوايا جس كى وجہ سے يہ سمجھ ليا گيا كہ ان كى رہبرى رسول اكرم (ص) كى قيادت كى جانشينى كے طور پر تھى حالانكہ آنحضرت (ص) صرف دينى قيادت كے حامل تھے اور يہ قيادت قابل انتقال نہيں ہے_ پيغمبر اكرم (ص) سياسى قيادت كے حامل نہيں تھے كہ خلفا آپ كے جانشين بن سكتے(۱) _

____________________

۱) ''الاسلام و اصول الحكم ''على عبدالرازق صفحہ ۹۰، ۹۴_

۷۷

عبدالرازق نے اپنے مدعا كے اثبات كيلئے دو دليلوں كا سہارا ليا ہے _

الف _ پہلى دليل ميں انہوں نے بعض قرآنى آيات پيش كى ہيں ان آيات ميں شان پيغمبر (ص) كو رسالت ، بشير اور نذير ہونے ميں منحصر قرار ديا گيا ہے _ ان كے عقيدہ كے مطابق ''اگر آنحضرت (ص) رسالت اور نبوت كے علاوہ بھى كسى منصب كے حامل ہوتے يعنى حكومت اور ولايت كے منصب پر بھى فائز ہوتے تو كبھى بھى ان آيات ميں ان كى شان كو نبوت ، بشير اور نذير ہونے ميں منحصر نہ كيا جاتا''(۱)

ان ميں سے بعض آيات يہ ہيں_

( ''ان ا نا الّا نذيرو بشير '' ) (۲)

ميں تو صرف ڈرانے اور بشارت دينے والا ہوں _

( ''وَ مَا على الرسول الّا البلاغ المبين '' ) (۳)

اور رسول كے ذمہ واضح تبليغ كے سوا كچھ بھى نہيں ہے _

( ''قل انّما ا نا بشر مثلكم يُوحى الي'' ) (۴)

كہہ ديجيئے ميں تمھارے جيسا بشر ہوں مگر ميرى طرف وحى آتى ہے_

( ''انّما ا نت منذر'' ) (۵)

يقيناً تو صرف ڈرانے والا ہے _

____________________

۱) ''الاسلام و اصول الحكم ''على عبد الرازق صفحہ ۷۳_

۲) سورہ اعراف آيت۱۸۸_

۳) سورہ نور آيت ۵۴_

۴) سورہ كہف آيت۱۱۰_

۵) سورہ رعد آيت ۷_

۷۸

'' ( فان ا عرضوا فما ا رسلناك عليهم حفيظاً ان عليك الا البلاغ'' ) (۱)

اگر يہ روگردانى كريں تو ہم نے آپ كو ان كا نگہبان بنا كر نہيں بھيجا ہے _ آپ كا فرض صرف پيغام پہنچا دينا ہے_

ب_ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _ عبدالرازق اس كى دوسرى دليل يہ ديتے ہيں كہ آج كل ہر حكومت بہت سے شعبوں اور اداروں پر مشتمل ہوتى ہيں _ ضرورى نہيں ہے كہ گذشتہ دور كى حكومتيں بھى اسى طرح وسيع تر اداروں پر مشتمل ہوں ليكن جہاں بھى حكومت تشكيل پاتى ہے كم از كم كچھ سركارى محكموں مثلاً انتظاميہ ،داخلى و خارجى اور مالى امور سے متعلقہ اداروںو غيرہ پر مشتمل ہوتى ہے_ يہ وہ كمترين چيز ہے جس كى ہر حكومت كو احتياج ہوتى ہے ليكن اگر ہم آنحضرت (ص) كے دور فرمانروائي كى طرف ديكھيں تو كسى قسم كے انتظامى اداروں كا نشان نہيں ملتا _ يعنى آنحضر ت (ص) كى حاكميت ميں ايسے كمترين انتظامى ادارے بھى مفقود ہيں جو ايك حكومت كيلئے ضرورى ہوتے ہيں_

ممكن ہے ذہن ميں يہ خيال آئے كہ چونكہ آنحضرت (ص) ايك سادہ زندگى بسر كرتے تھے لہذا انہوں نے اپنى حكومت كے دوران اس قسم كے اداروں كے قائم كرنے كى ضرورت محسوس نہيں كى ليكن عبدالرازق كے نزديك يہ احتمال صحيح نہيں ہے كيونكہ اس قسم كے ادارے ايك حكومت كيلئے ناگزير ہيں اور سادہ زندگى كے منافى بھى نہيں ہيں _ لہذا ان امور اور اداروں كا نہ ہونا اس بات كى دليل ہے كہ آنحضر ت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى اور يہ كہ اسلام صرف ايك دين ہے اور رسالت پيغمبر اكرم (ص) دينى حكومت كے قيام كو شامل نہيں تھي_(۲)

____________________

۱) سورہ شورى آيت ۴۸_

۲) الاسلام و اصول الحكم صفحہ ۶۲_ ۶۴_

۷۹

پہلى دليل كا جواب

قرآن مجيد كى طرف رجوع كرنے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ آنحضرت (ص) كے مناصب اور ذمہ دارياں پيام الہى كے ابلاغ اور لوگوں كو ڈرانے ميں منحصر نہيں تھے بلكہ قرآن كريم نے كفار اور منافقين كے ساتھ جہاد، مشركين كے ساتھ جنگ كيلئے مومنين كى تشويق ، عدالتى فيصلے اور معارف الہى كے بيان جيسے امور كو بھى آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى قرار ديا ہے_

اور يہ امور پيام الہى كے ابلاغ اور لوگوں كو ڈرانے جيسے امور كے علاوہ ہيں _ ان ميں سے ہر منصب كيلئے ہم بطور دليل ايك آيت پيش كرتے ہيں_

''( يا ايها النبى جاهد الكفار و المنافقين و اغلظ عليهم ) ''(۱)

اے پيغمبر (ص) آپ كفار اور منافقين سے جہاد كريں اور ان پر سختى كريں_

''( يا ايها النبى حرّض المومنين على القتال ) ''(۲)

اے پيغمبر مومنين كو جہاد پر آمادہ كريں_

''( وما كان لمومن و لا مومنة اذا قضى الله و رسوله امراً ان يكون لهم الخيرة من امرهم ) ''(۳)

كسى مومن مرد يا عورت كو اختيار نہيں ہے كہ جب خدا اور اس كا رسول كسى امر كے بارے ميں فيصلہ كريں تو وہ بھى اپنے امر كے بارے ميں صاحب اختيار بن جائے_

____________________

۱) سورہ تحريم آيت ۹_

۲) سورہ انفال آيت ۶۵_

۳) سورہ احزاب آيت۳۶_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367