اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت0%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات:

صفحے: 367
مشاہدے: 111386
ڈاؤنلوڈ: 2414

تبصرے:

اسلامی نظریہ حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 111386 / ڈاؤنلوڈ: 2414
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

سورہ نساء كى آيت ۵۸ ميں حكم ہے :

''ان الله يأمركم ا ن تُودّوا الامانات الى اهلها و اذا حكمتم بين الناس ا ن تحكموا بالعدل ''

بے شك خدا تمھيں حكم ديتا ہے كہ امانتوں كو ان كے اہل تك پہنچادو _اور جب لوگوں كے درميان فيصلہ كرو تو انصاف كے ساتھ كرو _

ابوحمزہ ثمالى نے امام باقر سے امام اور لوگوں كے باہمى حقوق كے متعلق پوچھا تو امام نے عدل و انصاف كو لوگوں كا امام پر حق قرار ديا _ ابوحمزہ ثمالى كہتے ہيں :

''سألت أبا جعفر (ع) ما حقّ الإمام على الناّس؟ قال: '' حقه عليهم ان يسمعوا له و يطيعوا'' قلت: فما حقّهم عليه ؟ قال: '' يقسّم بينهم بالسوية و يعدل فى الرعية ''(۱)

ميں نے امام باقر سے پوچھا كہ امام كا لوگوں پر كيا حق ہے ؟آپ نے فرمايا امام كا ان پر يہ حق ہے كہ وہ امام كى بات سنيں اور اطاعت كريں _پھر ميں نے پوچھا لوگوں كا امام پر كيا حق ہے ؟آپ نے فرمايا: بيت المال كو ان كے در ميان بطور مساوى تقسيم كرے اور رعيت كے درميان عدل و انصاف كرے

حضرت على فرماتے ہيں : ''امام عادل خيرٌ من مطر وابل''

امام عادل موسلہ دھار بارش سے بہتر ہے _(۲)

امام رضا مخصوص معنوى اورثقافتى اہداف كو امام كے فرائض ميں سے شمار كرتے ہوئے فرماتے ہيں :

والإمام يحلّ حلال الله و يحرّم حرام الله و يقيم حدود الله ويذبّ عن دين الله و يدعوا إلى سبيل ربه بالحكمة و الموعظة

____________________

۱) كافى ،ج ۱، ص ۴۰۵، باب مايجب من حق الامام على الرعية، ح۱_

۲) غررالحكم ،آمدى ج ۱ ، ص ۳۸۶، ح ۱۴۹۱_

۳۰۱

الحسنة و الحجةالبالغة (۱)

امام حلال خدا كو حلال اور حرام خدا كو حرام قرار ديتا ہے ، حدود الہى كو قائم كرتا ہے ، دين خدا كا دفاع كرتا ہے اور(لوگوں كو ) حكمت ، موعظہ حسنہ اور محكم دليل كے ذريعہ راہ خدا كى طرف دعوت ديتا ہے_

حضرت اميرالمومنين خدا سے مناجات كرتے ہيں _ اور اس نكتہ'' كہ مسلمانوں پر حكومت قبول كرنے كاميرامقصد كوئي دنيوى منصب و اقتدار اور بے قيمت دنيوى مال و متاع كا حصول نہيں تھا ''كے ضمن ميں تين اہداف كا ذكر كرتے ہيں جن ميں سے دو معنوى اہداف ہيں :

''اللهمّ إنّك تعلم انّه لم يكن الذى كان منّا منافسة فى سلطان، ولا التماس شي من فضول الحطام ، و لكنّ لنرد المعالم من دينك ، و نُظهر الاصلاح فى بلادك فيأمن المظلومون من عبادك، و تقام المعطّلة من حدودك ''

اے پروردگار تو جانتا ہے كہ ميں نے يہ كام نہ ملك و سلطنت كے حصول كيلئے كيا ہے اور نہ ہى اس دنيا كے پست و بے قيمت مال كو اكھٹا كرنے كيلئے كيا ہے _

ميں نے يہ قدم اس لئے اٹھايا ہے تا كہ تيرے دين كى تعليمات كو واپس لے آؤں، صلح و سلامتى كو تيرے شہروں ميں برقرار كروں تا كہ تيرے مظلوم بندے امن سے رہ سكيں اور تيرے ان قوانين كو زندہ كروں جنہيں معطل كر ديا گيا ہے_(۲)

حق كا قيام اور باطل سے مبارزت بھى دينى حكومت كے اہداف ميں سے ہے سورہ ص كى آيت ۲۶ ميں ارشادہے : ''يا داود انّا جعلناك خليفة فى الارض فاحكم بين الناس بالحق'' اے داود ہم نے تمھيں زمين پر خليفہ مقرركيا ہے _ پس لوگوں كے درميان حق كے ساتھ فيصلہ كرو_

____________________

۱) كافي، ج ۱، ص۲۰۰، باب نادر جامع فى فضل الامام و صفاتہ ،ح ۱_

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۳۱_

۳۰۲

حضرت على اور ابن عباس كے درميان ''ذى قار'' كے مقام پر جو مكالمہ ہوا تھا اس ميں آپ (ع) نے حكومت كرنے كا مقصد حق كا قيام اور باطل كو روكنا قرار ديا تھا آنحضرت (ص) نے جب معاذ ابن جبل كو يمن كا والى بنا كر بھيجا تو انہيں كچھ اہم نصيحتيں كيں _ جن ميں سے بعض دينى حكومت كے معنوى اہداف كى طرف اشارہ كرتى ہيں آپ نے فرمايا :

''يا معاذ، عَلّمهُم كتابَ الله وأحسن أدبَهم على الأخلاق الصالحة و أنزل النّاس منازلَهم خيرَهم و شرّهم و أمت أمرَ الجاهليّة إلاّ ما سنّه الإسلام و أظهر أمر الإسلام كلَّه، صغيرَه و كبيرَه، و ليكن أكثر همّك الصلاة: فإنّها رأس الإسلام بعد الإقرار بالدين و ذكّر الناس بالله واليوم الآخر و اتّبع الموعظة; فإنّه أقوى لهم على العمل بما يحبّ الله ثمّ بثّ فيهم المعلّمين، و اعبد الله الّذ إليه ترجع، و لا تَخَف فى الله لومة لائم'' (۱)

اے معاذ لوگوں كو قرآن كى تعليم دينا _ اچھے اخلاق سيكھانا ، اچھے اور برے افراد كو ان كے مقام پرركھنا ...جاہليت كى ہر رسم كو فنا كردينا مگر جس كى اسلام نے اجازت دى ہے _ اسلام كے چھوٹے بڑے ہر حكم كو قائم كرنا _ ليكن تيرى زيادہ كوشش نماز كے متعلق ہونى چاہيے _ كيونكہ دين كا اقرار كرنے كے بعد نماز اسلام كا سب سے اہم ركن ہے ، لوگوں كو خدا اور قيامت كى ياد دلانا ، وعظ و نصيحت كو ياد ركھنا ، يہ ان كے لئے خدا كے پسنديدہ امور پر عمل كرنے كيلئے مدد گار ثابت ہوگا _ پھر معلمين كو ان ميں پھيلادينا اور اس خدا كى عبادت كرنا جس كى طرف تجھے پلٹ كرجانا ہے اور خدا كے سلسلہ ميں كسى ملامت كرنے والے كى ملامت سے مت ڈرنا_

____________________

۱) تحف العقول ،ص ۲۶_

۳۰۳

خلاصہ :

۱) دوسرے سياسى نظاموں سے دينى حكومت كو ممتاز كرنے والى ايك چيز اسلامى حكومت كے اہداف اور فرائض ہيں _

۲) موجودہ دور ميں خصوصاً لبرل جمہوريت ميں نظريہ '' حكومت حداقل'' اور حكومت كے اہداف و فرائض كو محدود كرنے كى حمايت كى جاتى ہے _

۳) لبرل جمہورى حكومتيں خير و سعادت اور اخلاق و معنويت جيسے امور كو انفرادى خصوصيات قرار ديتے ہوئے حكومت كے اہداف اور فرائض سے خارج سمجھتى ہے _

۴)دينى حكومت كے اہداف و فرائض كى تحقيق و بررسى ''اسلام كى نگاہ ميں مقام حكومت كى وضاحت ''كے ساتھ مربوط ہے _

۵) اسلام كى نظر ميں حكومت ايك سنگين ذمہ دارى اور عظيم امانت ہے ، اور حكومت كا حاصل كرلينا كسى مقام و منزلت يا كمال پر فائز ہونا نہيں ہے _

۶)حكومت كى اہميت امانت الہى كى ادائيگى ميں ہے اور امانت كا ادا كرنا ان اہداف اور فرائض كے انجام دينے پر موقوف ہے جو حكومت اور حكمرانوں كيلئے مقرر كئے گئے ہيں _

۷) دينى حكومت كے اہداف كو دو بنيادى قسموں يعني'' معنوى اہداف'' اور'' دنيوى اہداف'' ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _

۸) آيات و روايات ميں حكومت كے معنوى اہداف پر بہت زور ديا گيا ہے _

۳۰۴

سوالات :

۱) حكومت كے اہداف اور فرائض كے متعلق لبرل ازم كا كيا نظريہ ہے ؟

۲) لبرل جمہوريت كے معتقدين كے سياسى نظريہ ميں سعادت اور معنويت كا كيا مقام ہے ؟

۳) اسلام كى نگاہ ميں حكومت كى حقيقت كيا ہے ؟

۴) دينى حكومت كے ''معنوى اہداف ''سے كيا مراد ہے ؟

۳۰۵

تيسواں سبق :

دينى حكومت كے اہداف اور فرائض -۲-

گذشتہ سبق ميں ہم نے دينى حكومت كے اہداف كو دو حصوں ميں تقسيم كيا تھا مادى اہداف اور معنوى اہداف ، اور بعض وہ آيات و روايات ذكر كى تھيں جو معنوى اہداف كو بيان كرتى ہيں _ معنوى اہداف كو درج ذيل امور ميں خلاصہ كيا جاسكتا ہے _

۱)_ امور كے اجرا ميں حق كا قيام اور حق پرستى جبكہ باطل، شرك اور جاہليت كا خاتمہ

۲)_ عدل و انصاف كو عام كرنا _

۳)_ حدود الہى كا اجرا _

۴)_ معارف الہى كى تعليم اور عبادت و عبوديت كو پھيلانے كيلئے كوششيں كرنا_

۵)_ نيكى كا حكم دينا اور برائي سے روكنا _

۶)_ دين الہى كا دفاع اور توحيد الہى كى دعوت كو عام كرنا _

۳۰۶

ب_ دنيوى اہداف

دينى حكومت كے دنيوى اہداف سے مراد وہ اہداف ہيں جن كے بارے ميں عقلى طور پر ہميشہ يہ توقع كى جاتى ہے كہ ايك با صلاحيت عوامى حكومت ان كيلئے خاص اہتمام كرے اور ان كو خصوصى اہميت دے_ يہاں ان اہداف كے ذكر كرنے كا مقصد يہ ہے كہ ہمارے دينى منابع نے امر معاش ،رفاہ عامہ اور معاشرہ كے امن و امان سے سرد مہرى اور بے توجہى نہيں برتي_ اسلامى تعليمات ميں دنيوى آباد كارى كے ساتھ ساتھ ہميشہ آخرت كى فكر بھى اولياء دين كے پيش نظر رہى ہے _ بنابريں دينى حكومت كے اہداف ميں ان امور كى طرف بھى اشارہ كيا گيا ہے جو معاش اور مختلف دنيوى پہلوؤں كے ساتھ مربوط ہوتے ہيں _ دينى حكومت كے دنيوى اہداف وہى اہداف ہيں جن كا دوسرى سيكولر حكومتيں دعوى كرتى ہيں _ بحث كے آخر ميں ہم ان اہداف كے حصول ميں دينى حكومت اور سيكولر حكومت ميں جو بنيادى فرق ہے اس كى طرف اشارہ كريں گے _

قرآن مجيد ميں حفظ امنيت اور اسلامى معاشرہ كى فوجى قوت پر بڑا زور ديا گيا ہے

سورہ انفال كى آيت ۶۰ ميں ارشاد خداوندى ہے:

''( و اعدوا لهم ما استطعتم من قوة و من رباط الخيل ترهبون به عدوّ الله و عدوّكم ) ''

اور تم بھى جہاں تك ممكن ہوسكے قوت اور گھوڑوں كى صف بندى كا انتظام كرو تا كہ تم اس سے خدا اور اپنے دشمن كو خوفزدہ كرو_

امام صادق بھى امن و امان كى برقرارى اور آباد كارى كو لوگوں كى عمومى ضروريات ميں سے قرار ديتے ہيں كہ ہر معاشرہ ميں ان پر خاص توجہ دينا ضرورى ہے _ آپ فرماتے ہيں:

''ثلاثة اشياء يحتاج الناس طرّاً إليها : الامن والعدل والخصب''

۳۰۷

تين چيزوں كى لوگوں كو ضرورت ہوتى ہے _ امن ، انصاف ، اور فراخى و خوشحالي_ (۱)

حضرت على نے مالك اشتر كو جب مصر كا حاكم بناكر بھيجا تو اسے ايك عہد نامہ ديا جس كے شروع ميں چند حكومتى اہداف كى طرف اشارہ كيا گيا ہے _

'' هذا ما أمر به عبدالله عليّ أمير المؤمنين مالك بن الحارث الأشتر فى عهده إليه حين و لاه مصر: جباية خَراجها، و جهاد عدوّها، و استصلاح أهلها و عمارة بلادها (۲)

يہ خدا كے بندے على (ع) اميرالمومنين (ع) كى طرف سے مالك ابن حارث اشتر كو دستور ديا جارہا ہے جب اسے مصر كى ولايت عطا كى كہ: وہ وہاں كا خراج اكھٹا كرے ، اس كے دشمنوں سے جہاد كرے ، اس كے رہنے والوں كى اصلاح اور اس كے شہروں كى آباد كارى كيلئے كوشش كرے_

حضرت اميرالمومنين اپنے ايك خطبہ ميں لوگوں كے حقوق بيان كرتے ہيں كہ جنہيں دينى حكومت كے بنيادى اہداف ميں سے شمار كيا جاسكتاہے _ ان ميں سے بعض يہ ہيں، تعليم و تربيت كا عام كرنا اور ملك كے مالى منابع سے لوگوں كو ان كاحصہ دينا _

''أيّها الناس، إنّ لى عليكم حَقّاً و لكم عليّ حقّ; حقّكُم عليّ، فالنصيحة لكم و توفيرُ فيئكم عليكم و تعليمكم كيلا تجهلوا و تأديبكم كيما تعلموا'' (۳)

____________________

۱) تحف العقول، ص ۲۳۶_

۲) نہج البلاغہ ،مكتوب ۵۳_

۳) نہج البلاغہ ،خطبہ ۳۴_

۳۰۸

اے لوگوں ميرا تم پر ايك حق ہے _ اور تمھارا مجھ پر ايك حق ہے _ تمھارا مجھ پر يہ حق ہے كہ ميں تمھيں نصيحت كروں، تمھارے مال كو تم پر خرچ كروں، تمھيں تعليم دوں تا كہ تم جہالت سے نجات حاصل كرلو، اور تمھارى تربيت كروں تا كہ تم عالم ہوجاؤ _

ان صاحبان قدرت كے مقابلہ ميں جو ظلم و ستم كے ذريعہ اپنى ثروت و طاقت ميں اضافہ كرتے ہيں ظلم كے خلافجنگ و مبارزہ اور مظلوموں كى حمايت ان اہداف ميں سے ہيں جن كى اسلام نے بہت زيادہ تاكيد كى ہے _ حضرت على اس امر كو علماء كيلئے ايك منصب الہى سمجھتے ہيں اور اس عہد كے وفا كرنے كو خلافت كے قبول كرنے كى ادلّہ ميں سے قرار ديتے ہوئے _ فرماتے ہيں:

''لو لا حضورُ الحاضر و قيامُ الحجّة بوجود الناصر و ما أخذَ الله على العلماء أن لا يقارّوا على كظَّة ظالم و لا سَغَب مظلوم، لا لقيتُ حَبلَها على غاربها '' (۱)

اگر بيعت كرنے والوں كى موجود گى اور مدد كرنے والوں كے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئي ہوتى اور وہ عہد نہ ہوتا جو خدا نے علماء سے لے ركھا ہے كہ وہ ظالم كى شكم پرى اور مظلوم كى گرسنگى پر آرام سے نہ بيٹھيں تو ميں خلافت كے اونٹ كى مہار اسى كے كند ہے پر ڈال ديتا_

خوارج جو كہ لاحكم الّالله كا نعرہ لگاتے تھے اور اس طرح حكومت كا انكار كرتے تھے_ حضرت على نے ان كے مقابلہ ميں وجود حكومت كے كچھ فوائد گنوائے ہيں جو در حقيقت وہ اہداف ہيں كہ ہر حكومت كيلئے ان كا حاصل كرنا ضرورى ہے _ ان ميں سے ايك ہدف ظالم اور جابر افراد سے كمزوروں اور مظلوموں كا حق وصول كرنا ہے _ فرماتے ہيں :(و يؤخذ به للضعيف من القوي )(۲)

____________________

۱) نہج البلاغہ خطبہ ۳ _

۲) نہج البلاغہ خطبہ ۴۰_

۳۰۹

اس (حكومت)كے ذريعہ طاقتور سے مظلوم كا حق واپس ليا جاتا ہے _

مختلف معاشرتى امور كى اصلاح بھى دينى حكومت كے اہداف ميں سے ہے _'' إن أريد إلا الإصلاح ما استطعت'' ميں تو فقط اصلاح چاہتاہوں جہاں تك مجھ سے ممكن ہوسكے(۱)

حضرت على شہروں كى اصلاح كو اپنى خلافت كے اہداف ميں سے قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں : ''و نُظہر الإصلاح فى بلادك ، فيأمن المظلومون من عبادك''ہم تيرے شہروں ميں امن و بہبودى كى صورت پيدا كريں گے تا كہ تيرے مظلوم بندے امن سے رہيں _(۲)

گذشتہ مطالب كى روشنى ميں دينى حكومت كے دنيوى اہداف كو درج ذيل امور ميں خلاصہ كيا جاسكتا ہے _

۱_ امن و امان قائم كرنا _

۲_ اسلامى سرحدوں كى حفاظت اور دفاع كو مضبوط بنانا

۳_ رفاہ عامہ اور آباد كارى كيلئے اقدام كرنا _

۴_ مختلف معاشرتى امور كى اصلاح _

۵_ عمومى اموال كى حفاظت اور معاشرہ ميں اس كى عادلانہ تقسيم_

۶_ تعليم و تربيت كو عام كرنا _

۷_ معاشرتى ضروريات پورى كرنااور مظلوم اور آسيب زدہ افراد كى حمايت

دينى حكومت كے دنيوى اہداف وہى عمومى اہداف ہيں كہ جن كى ہر حكومت مدعى ہوسكتى ہے _ يہ اہداف عقلائي پہلو كے حامل ہيں اور ان كا بيان كرنا شريعت اور دين كے ساتھ مخصوص نہيں ہے_ اس كے باوجود ان اہداف كے پورا كرنے ميں دينى حكومت دوسرى غير دينى حكومتوں سے مختلف ہے اور يہ فرق دوجہت سے ہے_

____________________

۱) سورہ ہود آيت ۸۸_

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۳۱_

۳۱۰

الف: يہ كہ دينى حكومت ان اہداف پر خاص توجہ ديتى ہے_ جبكہ دوسرى حكومتوں ميں اس قسم كا اہتمام ديكھنے كو نہيں ملتا _ بطور نمونہ پانچويں اور ساتويں نمبر شمار كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے _ حكومت كے سلسلہ ميں ائمہ معصومين كى روايات اور آنحضرت (ص) اور اميرالمومنين كى عملى سيرت ميں فقراء ضعفاء اورتہى دست افراد كى مدد كرنے پر بہت زور ديا گيا ہے _ اور دوسرى طرف مختلف معاشرتى امور ميں بيت المال كى عادلانہ تقسيم كى تاكيد بھى كى گئي ہے _

ب: ان اہداف كے حصول كى روش كے لحاظ سے ہے _ دينى حكومت اپنے دنيوى اہداف كو بھى معنوى اہداف كے ساتھ ساتھ ركھتى ہے _ اجتماعى زندگى كے دنيوى اور عقلائي پہلوؤں كو اخلاقيات ، معنويات اور دين كے سايہ ميں آگے بڑھاتى ہے _ مثال كے طور پر معاشرہ كى اصلاح اور آبادكارى اگر چہ دينى حكومت كے دنيوى اہداف ہيں ليكن انہيں بھى معنوى اہداف كے زير سايہ پورا كيا جاتا ہے _ يعنى عدل و انصاف كى حاكميت ان دنيوى اہداف كے حصول كى راہيں ہموار كرتى ہے _ حضرت على فرماتے ہيں :

''العدلُ يضع الأُمور فى مواضعها'' (۱)

عدل يہ ہے كہ تمام امور كو ان كے مقام پر ركھا جائے _

''ما عُمرت البُلدان بمثل العَدل ''(۲)

شہروں كى آبادكارى عدل سے ہى ممكن ہے_

در حقيقت رفاہ عامہ اور امن و امان اسى وقت پابرجا ہوسكتے ہيں جب انسان كى اجتماعى زندگى اخلاقيات ، معنويات اور الہى اقدار سے سرشار ہو_ اسى وجہ سے دينى حكومت كے معنوى اہداف كا تحقق اس كے دنيوى اہداف كے حصول كيلئے مددگار ثابت ہوتا ہے _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۷۵، ص ۳۵۷، باب احوال الملوك والامرائ، ح ۷۲_

۲) غررالحكم، آمدى ج ۶ ، ص ۶۸،ح ۴۳ ۹۵_

۳۱۱

دينى حكومت كے اہلكاروں كے فرائض

دينى حكومت كے مادى اور معنوى اہداف كا حصول اس كے حكّام اور اہلكاروں كے كندھوں پر سنگين ذمہ دارى ہے_ معنوى اہداف پر اسلام كى تاكيداسلامى حكّام سے ايك خاص انفرادى خصوصيات كى خواہاں ہے _ يہ بھى دينى حكومت كى ان خصوصيات ميں سے ہے ہيں جو اسے دوسرى حكومتوں سے ممتاز كرتى ہيں _ ہم يہاں اجمالى طور پر بعض فرائض كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

۱_ تقوى الہى كى رعايت :

دينى حكومت نے روح ايمان و تقوى كى تقويت ،معارف الہى كے پھيلاؤ اور عدل و انصاف كے قيام كو اپنا ہدف قرار ديا ہے _ اسى لئے ضرورى ہے كہ حكومتى اہل كار تقوى اور عبوديت سے سرشار ہوں آشكار اور پنہان دونوں حالتوں ميں تقوى الہى كو مد نظر ركھيں ، ان كى گفتار اور كردار ايك ہو _ حضرت على اپنے ايك عامل كو خط لكھتے ہوئے فرماتے ہيں _

''آمره بتقوى الله فى سرائر امره و خفيّات عمله، حيث لا شاهد غيره و لا وكيل دونه، و أمره أن لا يعمل بشيء من طاعة الله فيما ظهر; فيخالف الى غيره فيما أسره و مَن لم يختلف سره و علانيته و فعله و مقالته ، فقد أدّى الامانة و أخلص العبادة'' (۱)

ميں انہيں حكم ديتا ہوں كہ وہ اپنے پوشيدہ امور اور مخفى كاموں ميں الله سے ڈرتے رہيں _ جہاں نہ خدا كے سوا كوئي گواہ ہے اور نہ اس كے سوا كوئي نگران ہے _ اور انہيں حكم ديتا ہوں كہ وہ ظاہر ميں الله كا كوئي ايسا فرمان بجانہ لائيں كہ ان كہ چھپے ہوئے اعمال اسكے خلاف ہوں _

____________________

۱) نہج البلاغہ مكتوب ۲۶_

۳۱۲

اور جس شخص كا باطن و ظاہر اور كردار و گفتار مختلف نہ ہو ، اس نے امانتدارى كا فرض انجام ديا اور الله كى عبادت ميں خلوص سے كام ليا _

تقوى كا تقاضا ہے كہ اسلامى مملكت كے حكمران ہر كام ميں الہى فرامين كو مد نظر ركھيں ، اپنى خواہشات نفسانى كو امرخدا پر ترجيح نہ ديں ، امام صادق پيشواؤں كو حق و باطل كى طرف تقسيم كرنے كے بعد اس خصوصيت كو پيشوايان حق كا طرہ امتياز قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

إن الائمة فى كتاب الله عزّوجلّ _ إمامان ; قال الله (تبارك و تعالي): ''و جعلناهم ائمة يهدونَ بأمرنا'' لا بأمر الناس، يقدّمون أمر الله قبل أمرهم، و حكم الله قبل حُكمهم _ قال: ( ( و جعلناهم ائمة يهدون إلى النار ) ) يقدمون أمرهم قبل أمرالله و حُكمهم قبل حكم الله ، و يأخذون بأهوائهم خلاف ما فى كتاب الله (۱)

قرآن مجيد ميں دو قسم كے ائمہ كا ذكر ہے خدا فرماتا ہے '' وجعلناہم أئمة يہدون بأمرنا ...''كہ: ہم نے انہيں پيشوابنايا جو ہمارے حكم كے مطابق راہنمائي كرتے ہيں نہ كہ لوگوں كے امر كے مطابق ، خدا كے امر كو اپنے امر پر اور خدا كے حكم كو اپنے حكم پر ترجيح ديتے ہيں _ دوسرى جگہ خداوند متعال نے فرمايا( ''و جعلنا هم ائمة يهدون الى النار'' ) ''اور ہم نے ان كو ايسے ائمہ قرار ديا جو جہنم كى طرف لے جاتے ہيں '' يہ اپنے امر كو خدا كے امر پر اور اپنے حكم كو خدا كے حكم پر ترجيح ديتے ہيں _ اور كتاب خدا كى ہدايات كے برعكس اپنى خواہشات پر عمل كرتے ہيں _

____________________

۱) كافى ج ۱ ص ۲۱۶ باب ان الائمة فى كتاب اللہ امامان ح ۲ _

۳۱۳

۲_ شائستہ قيادت :

اسلامى حكّام كے لئے پہلے مرتبہ ميں يہ ضرورى ہے كہ وہ خود لائق اور پابند افراد ہوں شائستہ اور مہذب افراد كو عہدے ديں ، اسلام و مسلمين كى مصلحت كو تمام روابط و ضوابط پر ترجيح ديں _ حضرت على نے اپنے عہد نامہ ميں مالك اشتر كو حكومتى اہلكاروں كے انتخاب كے سلسلہ ميں خاص توجہ دينے كا حكم دياہے اور مختلف پہلوؤں كو مد نظر ركھنے پر اصرار كيا ہے _

''ثمّ انظر فى أمور عُمّالك فاستعملهم اختباراً ، و لا تولّهم محاباة و اثرة ; فانّهما جماع من شُعب الجَور والخيانة، و توخّ منهم أهل التجربة و الحياء من أهل البيوتات الصالحة و القدم فى الإسلام المتقدّمة: فانّهم أكرم أخلاقاً و أصحّ أعراضاً و أقلّ فى المطامع إشراقاً و أبلغ فى عواقب الامور نظراً''

''ثم اختر للحكم بين الناس أفضل رعيّتك فى نفسك، ممّن لا تضيق به الأمور و لا تُمحكُمه الخصوم، و لا يتمادى فى الزلّة، و لا يحصر من الفيء إلى الحقّ إذا عرفه''(۱)

پھر اپنے عہدہ داروں كے بارے ميں نظر ركھنا اور انہيں اچھى طرح آزمانے كے بعد منصب دينا ، صرف رعايت اور جانبدارى كى بناپر عہدہ نہ دينا كيونكہ يہ چيزيں نا انصافى اور بے ايمانى كا سرچشمہ ہيں ، ايسے لوگوں كو منتخب كرنا جو تجربہ كار اور غيرت مندہوں ، اچھے گھرانوں سے ان كا تعلق ہو ، اسلام كے سلسلہ ميں پہلے سے ان كى خدمات ہوں ، كيونكہ ايسے لوگ بلند

____________________

۱) نہج البلاغة مكتوب ۵۳_

۳۱۴

اخلاق ،بے داغ عزت والے ہوتے ہيں حرص و طمع كى طرف كم مائل ہوتے ہيں اور عواقب و نتائج پر زيادہ نظر ركھتے ہيں _ پھر يہ كہ لوگوں كے معاملات كا فيصلہ كرنے كيلئے ايسے شخص كو منتخب كرو جو تمھارے نزديك تمھارى رعايا ميں سب سے بہتر ہو، جو واقعات كى پيچيدگيوں سے اكتا نہ جاتا ہو ، اور نہ جھگڑا كرنے والوں كے رويہ سے غصہ ميں آتا ہو ، اور نہ ہى اپنے كسى غلط نقطہ نظر پر اڑتا ہو اور نہ ہى حق كو پہچان كر اس كے اختيار كرنے ميں طبيعت پر بوجھ محسوس كرتا ہو _

۳_زہد اور سادگى :

گذشتہ سبق ميں ہم اشارہ كرچكے ہيں كہ اسلامى نقطہ نظر سے ''حكومت'' ايك سنگين ذمہ داريوں كى حامل الہى امانت ہے اور ہرگز كسى اجتماعى امتياز يا دولت سميٹنے كيلئے كوئي وسيلہ شمار نہيں ہوتى _ دوسرى طرف كمزوروں كى حمايت اور طاقتور افراد سے ستم رسيدہ اور كمزور افراد كے حق كى وصولي،اسلامى نظام كے اہداف ميں سے ہے لہذا ضرورى ہے كہ حكام اور حكومتى اہلكار فقيروں اور مظلوموں كے درد سے آشنا ہوں اور معاشى و اقتصادى لحاظ سے ان سے دور نہ ہوں _ حضرت اميرالمومنين فرماتے ہيں :

''إنّ الله جعلنى إماماً لخلقه، ففرضَ على التقدير فى نفسى و مطعمى و مَشربى و مَلبسى كضعفاء الناس، كى يقتدى الفقير بفقرى و لا يطغى الغنى غناه '' (۱)

خدا نے مجھے لوگوں كا امام بنايا ہے _ اور مجھ پر واجب قرار ديا ہے كہ ميں اپنے نفس ،كھانے پينے اور لباس ميں فقراء كى طرح رہوں تا كہ فقير ميرے فقر ميں ميرى پيروى كرے اور دولتمند اپنى دولت كى بناپر نافرمانى اور سركشى نہ كرے _

____________________

۱) كافى ج۱ ص ۴۱۰ باب سيرة الامام فى نفسہ ح۱_

۳۱۵

معلى ابن خنيس كہتے ہيں : ميں نے خاندان بنى عباس كى معاشرتى حالت اور شان و شوكت ديكھ كر خواہش كى كہ كاش امام صادق-- كو حكومت مل جاتى تا كہ ہم بھى ان كے زير سايہ ايك خوشحال اور عيش و عشرت سے بھرى زندگى گزارتے امامنے جواب ميں فرمايا :

'' هيهات، يا معلّى أما و الله ان لو كان ذاك ما كان إلا سياسة الليل و سياحة النهار و لُبس الخَشن و أكل الجَشب'' (۱)

ہرگز نہيں اے معلى خدا كى قسم اگر ايسا ہوتا (يعنى ہم حكمران ہوتے) تو تدبر شب ،دن ميں كام كاج ، كھردرے كپڑے اور سادہ كھانے كے سوا كچھ نہ ہو تا_

۴_اجتماعى امور ميں مساوات :

اسلامى معاشرہ كے صاحبان اقتدار كے فرائض ميں سے يہ بھى ہے كہ وہ دوسرے عام افراد سے اپنے آپ كو برتر اور ممتازنہ سمجھيں _قانون كے سامنے اپنے كو دوسروں كے برابر سمجھيں_لہذا اگر كسى حكومتى اہلكار سے كوئي جرم سر زدہو جائے تو دوسرے افراد كى طرح اس پر بھى خدا كى حدودجارى ہو نگى _امام صادق فرماتے ہيں :

قال أمير المؤمنين لعمر بن الخطاب : ''ثلاث ان حفظتهن و عملت بهن كفتك ما سواهن و ان تركتهن لم ينفعك شي سواهن'' قال: و ما هنّ يا أبا الحسن؟ قال: '' إقامة الحدود على القريب والبعيد، والحكم بكتاب الله فى الرضا والسخط، و القسم بالعدل بين الاحمر والاسود'' (۲)

____________________

۱) كافى ج۱ ص ۴۱۰ باب سيرة الامام فى نفسہ ح۲_

۲) وسائل الشيعہ، ج۲۷،ص ۲۱۲،۲۱۳، باب ۱، از ابواب آداب قاضى ح ۲_

۳۱۶

اميرالمومنين على نے عمر ابن خطاب سے فرمايا اگر تو نے تين چيزوں كا خيال ركھا اور ان پر عمل كيا تو تم دوسرى چيزوں سے بے نياز ہو جائوگے اور اگر ان تين چيزوں كو چھوڑديا تو كوئي دوسر ى شےء تمھيں فائدہ نہيں دے گى _پوچھا اے ابوالحسن وہ كيا ہيں ؟فرمايا :قريبى اور غير قريبى پر حدود الہى كااجرا خوشنودى و ناراضگى ميں قرآن كے مطابق حكم لگانا ،اور سرخ و سياہ كے در ميان عادلانہ تقسيم_

۵_لوگوں سے براہ راست رابطہ :

اسلام نے حكام سے يہ مطالبہ كيا ہے كہ وہ عوام كے ساتھ محبت سے پيش آئيں ،ان كى بات سنيںاور ان سے مشورہ ليں _اس سے عوام كى حوصلہ افزائي ہو گى اور حكاّم بھى ان كے دردسے آشنا ہوں گے اور ان كى مقبوليت ميں اضافہ ہو گا ارشاد خداوندى ہے :

''فبما رحمة: من الله لنْتَ لهم و لو كنت فظّاً غليظ القلب لانفضّوا من حَوْلكَ فاعف عنهم و استغفر لهم و شاورهم فى الامر'' (۱)

(اے رسول )يہ الله كا كرم ہے كہ آپ ان لوگوں كيلئے نرم ہيں _وگرنہ اگر آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو يہ آپ كے پاس سے بھاگ كھڑے ہوتے پس انہيں معاف كردو ، ان كے ليئے استغفار كرو اور معاملات ميں ان سے مشورہ كرلياكرو _

دوسرى جگہ ارشاد ہوتاہے:

''و منهم الذين يُؤذون النبيّ و يقولون هو أذن قل أُذنُ خَير: لَكُم يُؤمن بالله و يُؤمن للمؤمنين و رحمةٌ للّذين آمنوا منكم'' (۲)

____________________

۱) آل عمران آيت ۱۵۹_

۲) سورہ توبہ آيت ۶۱_

۳۱۷

ان ميں سے وہ بھى ہيں جو پيغمبر (ص) كو اذيت ديتے ہيں اور كہتے ہيں: وہ تو صرف كان (كے كچے) ہيں_ آپ كہہ ديجئے تمھارے حق ميں بہترى كے كان ہيں كہ خدا پر ايمان ركھتے ہيں ،مومنين كى تصديق كرتے ہيں اور جو تم ميں سے صاحبان ايمان ہيں ان كيلئے رحمت ہيں_

اميرالمومنين مالك اشتر كو نصيحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ اپنے اور لوگوں كے در ميان كوئي ركاوٹ قائم نہ كرنا _كيونكہ اس سے لوگوں كے بارے ميں حكاّم كى اطلاع كم ہو جاتى ہے ،حق و باطل مخلوط ہو جاتے ہيں اور حقيقت ان پر مشتبہ ہو جاتى ہے :

''فلا تطوّلنَّ احتجابك عن رعيتك فان احتجاب الولاة عن الرعية شعبة من الضيق و قلة علم بالامور ، و الاحتجاب منهم يقطع عنهم علم ما احتجبوا دونه ...'' (۱)

پس رعايا سے لمبى مدت تك روپوشى اختيار نہ كرنا _كيونكہ حكمرانوں كا رعايا سے چھپ كررہنا ايك طرح كى تنگ دلى اور معاملات سے بے خبر رہنے كا سبب ہے اور يہ روپوشى انہيں بھى ان امور پر مطلع ہونے سے روكتى ہے كہ جن سے وہ ناواقف ہيں

۶_فقر كا خاتمہ اور ضروريات زندگى كى فراہمي:

دينى حكومت كا اہم ترين فريضہ غربت كا خاتمہ اور معاشرہ كے كمزور افراد كى مادى ضروريات كا پور ا كرنا ہے_ اس بارے ميں بہت سى روايات موجود ہيں _ہم نمونہ كے طور پر صرف دو روايات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_ رسولخدا (ص) فرماتے ہيں:

''ما من غريم ذهب بغريمه الى و ال من وُلاة المسلمين و

____________________

۱) نہج البلاغہ، مكتوب نمبر ۵۳_

۳۱۸

استبان للوالى عُسرته، إلاّ بَرأ هذا المعسرمن دينه و صار دينه على و الى المسلمين فيما يديه من أموال المسلمين '' (۱)

قرضوں كے بوجھ تلے دبا ہوا شخص جب اسلامى حاكم كے پاس جائے اور اپنى بدحالى كا ذكر كرے تو وہ اس قرض سے برى ہوجاتاہے_اس كا يہ قرض حاكم پر ہے اور وہ اسے بيت المال سے ادا كرے_

حضرت على نے ايك بوڑھے فقير كو ديكھا جو بھيك مانگ رہاتھا _ آپ نے پو چھا يہ مرد كون ہے ؟ ساتھيوں نے كہا: عيسائي ہے _حضرت نے فرمايا :''استعملتموه،حتّى اذا كبر و عجز منعتموه؟ أنفقوا عليه من بيت المال'' تم نے اس سے كام لياليكن جب يہ بوڑھا اور عاجز ہو گيا تو اسے پوچھا تك نہيں ؟ اسے بيت المال سے نفقہ عطا كرو(۲)

اسلامى حكمرانوں كے فرائض اس سے بہت زيادہ ہيں جو ہم نے يہاں بيان كئے ہيں واضح سى بات ہے كہ دينى حكومت كے معنوى اور دنيوى اہداف ميں سے ہر ايك اسلامى معاشرہ كے حكاّم پر خا ص فرائض اور ذمہ دارياں عائد كرتا ہے _

____________________

۱) مستدرك الوسائل _ ج۱۳،ص ۴۰۰ ح۱۵۷۲۳ _

۲) وسائل الشيعہ ،ج ۱۵ ،ص۶۶باب ۱۹ از ابواب جہاد العدو ،ح۱ _

۳۱۹

خلاصہ :

۱)حق كا قيام ،باطل كا خاتمہ ،عدل و انصاف كى ترويج ،حدودالہى كا اجرا ،نيكى كا حكم د ينااور برائي سے روكنا اور معارف الہى كى تعليم ، دينى حكومت كے اہم ترين اہداف ميں سے ہے _

۲)دينى حكومت كے دنيوى اہداف سے مرادوہ اہداف ہيں جو عقلائي طور پر ہر حكومت كے پيش نظر ہوتے ہيں _

۳)امن وامان كا برقرار كرنا ،سر حدوں كى حفاظت ،رفاہ عامہ كا قيام ،آباد كارى ،تعليم و تربيت كا عام كرنا اور مختلف معاشرتى امور كى اصلاح حكومت كے ا ن اہم ترين اہداف ميں سے ہيں جن كى آيات و روايات ميں بہت تاكيد كى گئي ہے _

۴)دينى حكومت كى يہ خصوصيت ہے كہ وہ اپنے دنيوى اہداف كو بھى معنوى اہداف كے زير سايہ حاصل كرتى ہے_

۵)دينى حكومت كے اہداف خصوصاً معنوى اہداف كا حصول حكومتى اہل كاروں پر سنگين ذمہ دارى لاتا ہے_

۶)تقوى الہى كى رعايت ،شائستہ قيادت ،زہد وسادگى اور قانون كے سامنے سب كا برابر ہونا دينى حكومت كے اہل كاروں كے اہم ترين فرائض ميں سے ہيں _

۳۲۰