اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت0%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف: علی اصغر رضوانی
زمرہ جات:

صفحے: 367
مشاہدے: 114092
ڈاؤنلوڈ: 2525

تبصرے:

اسلامی نظریہ حکومت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114092 / ڈاؤنلوڈ: 2525
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

سوالات :

۱) دينى حكومت كے معنوى اہداف كے پانچ موارد بيان كيجئے ؟

۲)دينى حكومت كے دنيوى اہداف سے كيا مراد ہے ؟

۳)حكومت كے وہ كونسے دنيوى اہداف ہيں جن پر آيات و روايات ميں تاكيد كى گئي ہے ؟

۴)دنيوى اہداف كے حصول كے سلسلہ ميں دينى حكومت كا دوسرى حكومتوں سے كيا فرق ہے ؟

۵)حكومتى عہدے داروںكے انتخاب كے سلسلہ ميں اميرالمومنين نے مالك اشتر كو كونسى نصيحتيں كى ہيں ؟

۶)حكومتى اہل كاروں كے كچھ فرائض بيان كيجئے ؟

۳۲۱

اكتيسواں سبق :

دينى حكومت اور جمہوريت -۱-

اسلام كے سياسى فلسفہ كى اہم ترين بحثوں ميں سے ايك ''دين اور جمہوريت'' كے در ميان تعلق كى تحقيق و بررسى ہے _اس بحث ميں بہت سے سوالات اور شبہات پائے جاتے ہيں _ ان ميں سے بعض شبہات كا سرچشمہ اسلام كے اصول ومبانى اور جمہوريت كے اصول و مبانى كے درميان ناقابل حل عدم مطابقت وعدم ہم آہنگى كا تصور ہے _ دينى حكومت اور جمہوريت كى ہم آہنگى كے بعض منكرين اس سرچشمہ كو نظريہ ولايت فقيہ ميں تلاش كرتے ہيں _ان كے خيال ميں اسلام جمہوريت سے ذاتى مخالفت نہيں ركھتا _ليكن ولائي نظام جو كہ ولايت فقيہ پر مبتنى ہے جمہوريت كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتا _ بنابريں ايك كلى تقسيم بندى كے لحاظ سے ہميں تين اساسى نظريات كاسامنا ہے _

الف_ ايك نظريہ يہ ہے كہ دينى حكومت اور جمہوريت كى تركيب ممكن ہے اس نظريہ كے مطابق اسلام اور

۳۲۲

اس كى تعليمات كى پابندى جمہوريت اورمعاشرہ كے سياسى و انتظامى امور ميں لوگوں كى مداخلت سے مانع نہيں ہے _ جمہورى اسلامى كا نظام اور اس كا اساسى قانون اسى سياسى نظريہ پر قائم ہے _

ب_ وہ نظريہ جو اسلام اور -جمہوريت كے درميان ذاتى تضاد كا قائل ہے يہ نظريہ اس بنياد پر قائم ہے كہ اسلام بنيادى طور پر عوامى قيادت كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتا _ اسى لئے نہ صرف'' حكومت ولائي'' اور ولايت فقيہ كا سياسى نظريہ ، بلكہ ہر وہ دينى حكومت جو اسلام كى حاكميت كو تسليم كرتى ہے اور اس كى تعليمات اور احكام كى پابند ہے وہ ايك جمہورى اور عوامى حكومت نہيں ہوسكتى _

ج _ تيسرا نظريہ وہ ہے جو بنيادى طور پر دين اور جمہوريت كى تركيب كے امكان كا منكر نہيں ہے _ بلكہ اسے اس نظام ميں مشكل پيش آرہى ہے جو ولايت فقيہ پر مبتنى ہے _ اس نظريہ كى بنياد پر ولايت فقيہ كے اعتقاد اور جمہوريت كى باہمى تركيب ممكن نہيں ہے _ جمہوريت اور ولائي حكومت كبھى بھى ہم آہنگ نہيں ہوسكتے وہ حكومت جو ولايت فقيہ كى بنياد پر قائم ہوكبھى بھى جمہورى اور عوامى نہيں كہلاسكتى _ جمہوريت پر اعتقاد اور ولايت فقيہ پر اعتقاد، دو متضاد چيزيں ہيں _

ان تين نظريات كے متعلق فيصلہ كرنے اور دينى حكومت كے مخالفين كے نظريہ كے متعلق تفصيلى بحث سے پہلے بہتر ہے : جمہوريت كى حقيقت كے متعلق مزيدآشنائي حاصل كرليں _

جمہوريت كى حقيقت :

جمہوريت ايك يونانى اصطلاح ہے جو دو الفاظ'' demo '' يعنى عوام اور '' cracy '' يعنى حكومت سے مركب ہے _ عوامى حكومت يا عوامى قيادت اپنے دقيق معنى كے ساتھ تو ايك ايسا خواب ہے جو كبھى بھى شرمندہ تعبير نہيں ہوسكتا _ كيونكہ آج كے پيچيدہ معاشرے ميں كہ جہاں روزانہ دسيوں بڑے بڑے معاشرتى فيصلے

۳۲۳

كئے جاتے ہيں اور مختلف حكومتى اداروں ميں مختلف قوانين وضع ہوتے ہيں ممكن ہى نہيں ہے كہ يہ فيصلے اور قوانين براہ راست لوگوں كے ذريعے انجام پائيں _ پس ناچار جمہورى حكومتوں ميں كچھ افراد لوگوں كى اكثريت رائے سے ان كى نمائندگى كرتے ہوئے عنان حكومت اپنے ہاتھ ميں لے ليتے ہيں اور در حقيقت عملى طور پر يہى افراد حكومت كرتے ہيں نہ كہ عوام_ البتہ قديم يونان كے شہروں كى حكومتوں ميں بہت سارے فيصلے شہر كے چوك ميں كھلے عام اور لوگوں كى رائے سے انجام ديئے جاتے تھے ليكن وہاں بھى تمام لوگوں كو راے دہى كا حق نہيں تھا كيونكہ خواتين اور غلام رائے نہيں دے سكتے تھے-_

ڈيمو كريسى يعنى جمہوريت ايك ايسا كلمہ ہے جس كى مختلف تفسيريں اور معانى كئے گئے ہيں _ اس مدعى كى دليل يہ ہے كہ مختلف مكاتب فكر نے بالكل متضاد نظريات كے باوجود جمہوريت كى حمايت كى ہے _ لبرل ازم اور فاشزم كے حامى اور قدامت پسند سبھى خود كو جمہوريت نواز كہتے ہيں اور اپنے آپ كو حقيقى جمہوريت قائم كرنے والا قرار ديتے ہيں _ اشتراكى جمہوريت ، لبرل ازم ، آزاد جمہوريت ، صنعتى جمہوريت اور كثيرالراے جمہوريت(۱) جيسى مختلف اصطلاحيں حقيقت ميں اس بات كى نشاندہى كرتى ہيں كہ جمہوريت سے مراد كوئي مخصوص معنى اور اصطلاح نہيں ہے _

جمہوريت كا كوئي ثابت معنى نہيںہے _ دنيا كے بيشتر ممالك ميں مختلف جمہورى حكومتيں قائم ہيں اور جمہوريت مختلف سياسى نظريات كے ساتھ ہم ساز و ہم آہنگ ہے يہ اس بات كى دليل ہے كہ جمہوريت كا كوئي ايسا معنى موجود نہيں ہے كہ جس پر سبھى متفق ہوں_ اس نے مختلف معاشروں كے اجتماعى تحولات اور تغيرات كے ساتھ ساتھ مختلف روپ ڈھالے ہيں _

____________________

۱) Social democracy - Liberal democracy - Industrial democracy

۳۲۴

آج چونكہ جمہوريت ايك مثبت معنى ركھتى ہے لہذابہت سے سياسى نظام خود كو جمہوريت نواز كہتے ہيں اگرچہ ان كى حكومتوں ميں عوام كا عمل دخل بہت ہى كم ہو_

بنيادى طور پر جمہوريت كو دو لحاظ سے ديكھا جاتاہے_ از لحاظ قدر و قيمت اور از لحاظ ايك روش _ جمہوريت از لحاظ قدر و قيمت سے مراد يہ ہے كہ اكثريت كا انتخاب ہميشہ معاشرہ كى بھلائي اور حق كے انتخاب كے ہمراہ ہے _ جن موارد ميں عمومى آراء كا لحاظ كيا جاتا ہے وہاں حق باطل سے ممتازہوجاتا ہے _ بنابريں جمہوريت اجتماعى زندگى گزارنے كيلئے مناسب اور صحيح راہ حل دے سكتى ہے _ معاشرہ كى سعادت اور خوشبختى اكثريت كے انتخاب كى مرہون منت ہے _ كلاسيكل جمہوريت يعنى اٹھار ہويں صدى كى جمہوريت اسى نظريہ پر استوار تھى اور آج بھى كچھ گروہ اسى زاويہ نگاہ سے جمہوريت كو ديكھتے ہيں اور اكثريت كى رائے كو حق و باطل كى تشخيص كا معيار قرار ديتے ہيں _ اكثريت كى رائے كو قدر كى نگاہ سے ديكھتے ہيں اور حق و حقيقت كو اسى ميں تلاش كرتے ہيں _

اس نظريہ كا نقطہ استدلال يہ ہے _

واضح سى بات ہے كہ ہر شخص اپنى انفرادى زندگى ميں اپنى ذاتى منفعت اور سعاد ت و خوشبختى كا خواہان ہے_ اور زندگى كے مختلف شعبوں ميں بہترين اور صحيح امور كا انتخاب كرتا ہے _ دوسرے لفظوں ميں لوگ اپنى انفرادى زندگى ميں منافع پر نظر ركھتے ہيں اور اپنى ذاتى خيرو بھلائي كى تلاش ميں رہتے ہيں_ لہذا اجتماعى زندگى ميں بھى اكثريت كا انتخاب ايك صحيح ترين انتخاب ہوگا _ چونكہ لوگ اپنے منافع كا صحيح اور بہترين ادراك ركھتے ہيں اور عمومى منافع و مصالح بھى اسى انفرادى تشخيص پر موقوف ہيں _ ہر فرد نے اجتماعى امور اور معاشرہ كے منافع و مصالح كو اپنى ذاتى تشخيص سے متعين كيا ہے اور اكثريت كى رائے معاشرہ كى خيرو منفعت

۳۲۵

كى تعيين و تشخيص ميں عمومى رائے كى نشاندہى كرتى ہے بنابريں ہر اجتماعى واقعہ و مسئلہ آسانى سے خوب و بد اور نافع و مضر ميں تقسيم ہوسكتا ہے _ اور ارادہ عمومى جو كہ اكثريت رائے سے حاصل ہوا ہے اس خوب و بد اور مفيدو مضر كى آسانى سے شناخت كرسكتا ہے _

''جمہوريت از لحاظ ايك روش ''سے مراد يہ ہے كہ جمہوريت صرف اجتماعى تنازعات كا حل اور سياسى اقتدار كى تبديلى كا ايك ذريعہ ہے _ طول تاريخ كے عقلانے تجربہ سے يہ نتيجہ حاصل كيا ہے كہ جمہوريت، حكّام اور صاحبان اقتدار كے تعيّن كا بہترين طريقہ ہے بجائے اس كے كہ مختلف سياسى جماعتيں ، سياسى ليڈر اور اقتدار كے خواہشمند افراد جنگ، قتل و غارت ،دہشت گردى اور اختلافى مسائل كے ذريعہ اقتدار كو اپنے درميان تقسيم كرليں_ اس كيلئے ايك معقول اور بہترين راہ موجود ہے اور وہ حكمران يا پارليمنٹ كے ممبران كى تشخيص اور انتخاب كيلئے رائے عامہ كى طرف رجوع كرنا ہے _ اس لحاظ سے جمہوريت اور اكثريت كى رائے خوب و بد اور صحيح و غلط كا معيار نہيں ہے -ہوسكتا ہے لوگوں كى منتخب شدہ جماعت كہ جس كے متعلق اكثريت نے راے دى ہے عملى طور پر معاشرہ كى فلاح و بہبود كيلئے كوئي قدم نہ اٹھائے _ اكثريت كا انتخاب حق و حقانيت كے انتخاب كى دليل نہيں ہے _

موجودہ دور كے صاحبان نظرجمہوريت كو از لحاظ قدر و قيمت نہيں ديكھتے كوئي بھى يہ تصور نہيں كرتا كہ اكثريت كى رائے حتمى طور پر معاشرہ كى فلاح و بہبود كا پيغام ہے _ جرمن نازى ، اٹالوى فاشسٹ ، اور روسى اور مشرقى بلاك كے كيمونسٹ ،اكثريت كى رائے سے انقلاب لائے اور اقتدار حاصل كرنے ميں كامياب ہوئے _ ليكن عملى طور پر ان كے دور اقتدار انسانى الميوں سے بھرے ہوئے ہيں _

اجمالى طور پر جمہوريت كى حقيقت كے واضح ہونے كے بعد اس نظريہ كى تحقيق كى بارى آتى ہے كہ اسلام اور جمہوريت كے اصولوں ميں توافق اور ہم آہنگى ممكن نہيں ہے _

۳۲۶

اسلام اور جمہوريت كے در ميان ذاتى عدم توافق

بعض افراد معتقد ہيں كہ جمہوريت كچھ خاص اصولوں پر مبتنى ہے _ انسان ، معاشرہ اور سياست پر اس كى ايك خاص نگاہ ہے اور مخصوص اہداف كى حامل ہے _ يہ اصول و اہداف ،اسلامى تعليمات اور ان پر حاكم اصولوں كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتے _

اسلام اور جمہوريت كے درميان توافق نہيں ہوسكتا اور اسكى ادلة ہم ذكر كريں گے_ اصلاً اسلام اور جمہوريت كے درميان توافق ممكن نہيں ہے مگر يہ كہ اسلام مكمل طور پر سيكولر ہوجائے _ جمہوريت كے نظرى اصول ميں سے ايك يہ بھى ہے كہ انسان سے خطا اور غلطى كا سرزد ہونا ممكن ہے يہ اصول خود ايك دوسرے اصول پر مبنى ہے كہ انسان ايك صاحب اختيار وجود ہے اور اسے انتخاب كا حق ہے _ خطا اور غلطى اس كے اختيار اور انتخاب كا لازمہ ہے انسان كے انتخاب كا بہترين مورد، فكر اور عقائد كى دنيا ہے _ انسان كيلئے يہ امكان ہونا چاہيئے كہ وہ آزادانہ طور پر مختلف آراء و نظريات كے متعلق غور و فكر كرسكے اور آزادانہ طور پر اپنا انتخاب كرسكے _ وہ اديان ميں سے كسى دين يا بے دينى كو اختيار كرنے ميں آزاد ہے _ جمہوريت كا ايك اصول يہ ہے كہ حقيقت واضح نہيں ہے اور وہ سب انسانوں كے درميان منتشر ہے لہذا ہر انتخاب حقيقت اور غير حقيقت كى ايك تركيب ہے_ليكن اگر كو ئي مكتب يا دين خود كو حق و حقيقت كا مظہر سمجھتا ہے اور دوسرے اديان كو كفر ، شرك اور ضلالت كا مجموعہ قرار ديتا ہے تو پھر كسى جمہورى حكومت كى كوئي جگہ نہيں بنتى _ اسلام قرآنى آيات كى روسے فقط خود كو دين بر حق سمجھتا ہے _ درج ذيل آيات صريحاً جمہوريت كى نفى كرتى ہيں _ سورہ يونس كى آيت ۳۲ ميں ارشاد ہوتاہے:

''( ماذا بعدالحق الاالضلال ) ''

اور حق ( كو ترك كرنے) كے بعد ضلالت و گمراہى كے سوا كچھ نہيں _

۳۲۷

سورہ آل عمران كى آيت ۸۵ ميں ہے :

( ''من يبتغ غير الاسلام ديناً فلن يقبل منه'' )

اور جو شخص اسلام كے علاوہ كسى اور دين كا خواہاں ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہيں كيا جائے گا_

سورہ توبہ كى ابتدائي آيات بھى انسانى انتخاب كى نفى كرتى ہيں _

اس استدلال ميں واضح طور پر جمہوريت كے دو بنيادى اصولوںكو مد نظر ركھا گيا ہے _ پہلا يہ كہ'' كثرت رائے معرفت شناختي''ہے _ نسبى گرائي(۱) اور ''تكثر گرائي(۲) معرفت شنا ختي'' سے مراد يہ ہے كہ لوگوں كے پاس حقيقت كو كشف كرنے كا كوئي راستہ نہيں ہے اور حق كو باطل سے صحيح طور پر تشخيص نہيں ديا جاسكتا ،كوئي شخص بھى يہ دعوى نہيں كرسكتا كہ اس كى فكر ،سوچ ،اعتقاد اور دين ،حق ہے اور دوسرے افكار باطل ہيں _ حق و باطل دونسبى چيزيں ہيں اور ممكن ہے ہردين ، اعتقاد اور فكر حقانيت ركھتا ہو _ خالص باطل اور خالص حق كا كوئي وجود نہيں ہے_ يہ شكاكيت اور نسبى گرائي معرفتي، تمام افكار و عقائد اور نظريات كو ايك ہى نگاہ سے ديكھتے ہيں اور سب كو قابل اعتبار سمجھتے ہيں لہذا يہ ايك قسم كا پلورل ازم(۳) ہے اور اس كا لازمہ يہ ہے كہ كسى فكر ، نظريئےور مذہب كو منطق اور استدلال كے ذريعہ ثابت نہيں كيا جاسكتا بلكہ يہ انسان ہيں -جو مختلف آراء و افكار اور مذاہب ميں سے ايك كا انتخاب كرليتے ہيں _ پس حق كو باطل پر اور صحيح كو غلط پر ترجيح دينے كى دعوت دينے كى بجائے آزاد انتخاب كى راہيں ہموار كى جائيں كيونكہ حق كو باطل سے اور صحيح كو غلط سے تميز دى ہى نہيںجاسكتى _

____________________

۱) Relativism

۲) pluralism

۳) pluralism

۳۲۸

اسى اصول پر ايك دوسرا اصول مبتنى ہے _ يعنى فكر و بيان اور عقائد و افكار كے انتخاب كى آزادى كا سرچشمہ يہى ''تكثير گرائي معرفتي'' ہے _ كيونكہ اگر ہميں حق كو باطل سے تميز دينے كے امكان كا يقين ہو جائے تو پھر كلى طور پر''آزادى انتخاب'' كا كوئي معنى نہيں رہتا _ كوئي صاحب عقل يہ تصور نہيں كر سكتا كہ حق و باطل كے در ميان تشخيص كا امكان ہوتے ہو ئے ہم اسے حق وباطل كے درميان انتخاب كى دعوت ديں _ كيونكہ معقول اور فطرى بات يہى ہے كہ حق كى تشخيص كے بعد اس كا اتباع كيا جائے _

اس استدلال كى بنا پر دين اور جمہوريت ميں توافق ممكن نہيں ہے _كيونكہ دينى حكومت اسلام كى پابند ہے_ اور فقط اسلام كى حقانيت كو تسليم كرتى ہے بلكہ قوانين كے بنانے اور دوسرے معاشرتى امور ميں اسى اسلام كو اپنا مرجع قرار ديتى ہے _پس كيسے ممكن ہے كہ دينى حكومت اسلام كى پابند ہونے كے ساتھ ساتھ جمہوريت كى بھى پابند رہے _جمہوريت اپنے دو بنيادى اصولوںكے لحاظ سے اسلام اور دوسرے مذاہب كے در ميان كسى فرق كى قائل نہيں ہے اور اسى پريقين ركھتى ہے كہ حقانيت كے اعتبار سے اسلام دوسرے مذاہب سے كوئي امتياز نہيں ركھتا_-

آنے والے سبق ميں ہم اس نظريہ پر بحث كريں گے_

۳۲۹

خلاصہ:

۱) دينى حكومت اور جمہوريت كے درميان توافق ممكن ہے_ اس نظريہ كے مقابلہ ميں ايك نظريہ يہ ہے كہ اسلام اور جمہوريت كے درميان ذاتاً ''عدم توافق'' ہے_ اور بعض ''ولايت فقيہ اور جمہوريت ''كے درميان عدم توافق كے قائل ہيں_

۲-) جمہوريت اپنے حقيقى معنى يعنى (عوامى حكومت ) كے لحاظ سے ايسا خواب ہے جو كبھى شرمندہ تعبير نہيں ہوسكتا_

۳-) جمہوريت كى مختلف تفسيريں كى گئي ہيں اور بنيادى طور پر يہ كلمہ لچكدار ہے_

۴) جمہوريت كى مختلف تفاسير كو دو كلى نظريوں ميں تقسيم كيا جاسكتاہے_ ايك وہ نظريہ ہے جو جمہوريت كو اجتماعى امور كے نظم و نسق كا ذريعہ اور روش سمجھتاہے_ اور دوسرا نظريہ اسے قابل قدر و قيمت سمجھتاہے_

۵) دوسرا نظريہ جو كہ جمہوريت كى قدر كا قائل ہے اكثريت كے انتخاب كو معاشرہ كى فلاح و بہبود كے انتخاب كے مترادف قرار ديتاہے_ بنابريں زندگى گزارنے كى كيفيت اكثريت كے انتخاب كى بنياد پر ہونى چاہيے_

۶) موجودہ دور ميں جمہويت كے متعلق ''نگاہ قدر ''كے نظريہ كى اہميت كم ہوچكى ہے اور اس كے حاميوں كى تعداد بہت كم رہ گئي ہے _

۷) بعض افراد يہ سمجھتے ہيں كہ اسلام اور جمہوريت كے درميان عدم توافق كى وجہ جمہوريت كے دو بنيادى اصول ہيں _

۸)''تكثر گرائي معرفت شنا ختي''اور'' مطلق آزادى انتخاب كا حق'' جمہوريت كے دو بنيادى اصول ہيں _

۹) اسلام اپنى تعليمات كى حقانيت پر تاكيد كرتاہے_ لہذا تكثّر حقيقت اور حق و باطل كى تركيب كا معتقد نہيں ہے اور اس كے نزديك حق كو باطل سے تشخيص دى جاسكتى ہے _

۳۳۰

سوالات:

۱) دينى حكومت كے جمہوريت كے ساتھ تعلق كے بارے ميں كونسے تين بنيادى نظر يات ہيں؟

۲) جمہوريت اپنے حقيقى مفہوم كے ساتھ قابل وجود كيوں نہيں ہے؟

۳) جمہوريت كے متعلق ''نگاہَ قدر 'سے كيا مراد ہے؟

۴) جمہوريت كو ايك روش سمجھنے سے كيا مراد ہے ؟

۵) اسلام اور جمہوريت كے درميان ''ذاتى تضاد'' كى كيادليل ہے ؟

۶)'' تكثر گرائي معرفت شنا ختي'' سے كيا مراد ہے ؟

۳۳۱

بتيسواں سبق:

دينى حكومت اور جمہور يت – ۲-

گذشتہ سبق ميں ہم اس نظريہ كو تفصيل كے ساتھ بيان كرچكے ہيں كہ اسلام اور جمہوريت كے درميان عدم توافق ''ذاتي'' ہے _ اب ہم اس نظريہ كى تحقيق كرتے ہيں_

دين اور جمہوريت كے درميان توافق كا امكان

پہلے اشارہ كرچكے ہيں كہ جمہوريت كى كوئي ايك تفسير يا تعريف نہيں ہے_ جمہوريت كے متعلق مختلف نظريات بيان كئے جاسكتے ہيں_اسلام اور جمہوريت كے درميان ذاتى عدم توافق كى جو وجہ بيان كى گئي ہے وہ جمہوريت كے متعلق ايك خاص نظريہ يعنى جمہوريت تكثر گرا(كثرت رائے) پر مبنى ہے _ البتہ جمہوريت كى يہ تفسير اسلام اور ہر اس مكتب كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتى جو بعض امور كو حق اور صحيح سمجھتاہے_ اور ان كے نسبى ہونے كو نہيں مانتا_ جمہوريت كى مختلف تفسيريں ہيں_ اور ان ميں سے بعض مذكورہ بالا استدلال ميں بيان كئے گئے دو بنيادى اصولوں پر مبنى نہيں ہيں _ مثال كے طور پر وہ نظريہ جو جمہوريت كو سياسى اقتدار كى تقسيم كى ايك روش اور معاشرتى امور كے منظم كرنے كا ايك كارآمد وسيلہ سمجھتاہے وہ تكثر گرائي معرفتى اور مطلق

۳۳۲

آزادى انتخاب پر موقوف نہيں ہے_

جمہوريت از لحاظ ايك روش كو محدود كيا جاسكتاہے يعنى كچھ مخصوص اصولوں كو حق اور صحيح تسليم كيا جاسكتاہے اس وقت جمہوريت كو ان اصولوں اور اقدار كى حفاظت كے لئے كام ميں لايا جاسكتاہے_ جمہوريت كے اس تصور ميں ايك تو ''نسبيت'' اورتكثرگرائي معرفتى كو ہٹاديا گياہے كيونكہ حقانيت كا اعتقاد پيدا كرچكے ہيں _ دوسرا يہ كہ لوگوں كا انتخاب ،مطلق اور آزاد نہيںہے بلكہ مقيد ہے كيونكہ اس نظريہ كے قائل افراد ان طے شدہ اصولوں كے خلاف كسى اور چيز كا انتخاب نہيں كرسكتے_ پس جمہوريت كا يہ تصور ان دو اصولوں يعني'' تكثر گرائي معرفتى ''اور'' مطلق آزادى انتخاب ''پر موقوف نہيں ہے_

''لبرل جمہوريت'' جمہوريت كے اسى تصور كى بنياد پر تشكيل پائي ہے_ ابتداء ميں لبرل ازم كے حاميوں نے جمہوريت كے سلسلہ ميں اكثريت كے انتخاب كو كوئي خاص اہميت نہيں دى كيونكہ وہ اس سے خوفزدہ تھے كہ كہيں اكثريت رائے ان كے لبرل اصولوں اور اقدار كو پامال نہ كردے_ يہ اپنے لبرل اصولوں مثلاً ذاتى مالكيت كا احترام ، آزاد تجارت، آزادى بازار اقتصاد، مذہبى آزادى اور فكر و بيان كى آزادى پر يقين ركھتے تھے _ لہذا وہ چا ہتے تھے كہ جمہوريت كو ان اصولوں ميں اس طرح پابند كرديں كہ اكثريت رائے ان اصولوں كو پامال نہ كرسكے_ بنابريں لبرل ازم كى حقانيت اور اس كے اصولوں اور اقدار كے صحيح ہونے كے اعتقاد اور جمہوريت ميں ناہم آہنگى نہيں ہے_ لہذا جمہوريت كو لبرل اصولوں اور اقدار ميں مقيد ايك روش تصور كرتے ہوئے اسے'' لبرل جمہوريت'' كہہ سكتے ہيں_

جب ايسا ہے تو پھر كيا مشكل ہے كہ ہم جمہوريت از لحاظ ايك روش كو اسلامى اصول و ضوابط ميں منحصركر د يں اور كہيں: سياسى حكام كے تعيّن كيلئے عوام كى طرف رجوع كريں گے اور لوگ اپنى آراء سے پارليمنٹ كے ممبران

۳۳۳

كاانتخاب كريں گے_ ليكن منتخب شدہ ممبران حق نہيں ركھتے كہ اسلامى تعليمات كے منافى قوانين بنائيں_ اكثريت كا انتخاب اور لوگوں كى آراء اس وقت تك قابل احترام ہيں جب تك قبول كئے گئے عقائد كے مخالف نہ ہوں بنابريں جس طرح لبرل عقيدہ كے حامى ''جمہوريت'' كو اپنے اصولوں كے زير سايہ ركھتے ہيں اسى طرح اسلام بھى جمہوريت كو اپنے اصولوں كے زير سايہ ركھتاہے_ پس جمہوريت اور اسلام كے درميان توافق قائم كيا جاسكتاہے_ اسلامى جمہوريہ ايران كا سياسى نظام اس كا عملى نمونہ ہے_ ايران كا اساسى قانون اگر چہ جمہورى نظام كے تحت بنايا گيا ہے اور اس ميں عوام كى آراء شامل ہيں_ ليكن اس كے ساتھ ساتھ خدا كى حاكميت اور اسلامى تعليمات كو بھى مدنظر ركھا گيا ہے اور قومى حاكميت كو الہى حاكميت كے زير سايہ قرار ديا گيا ہے_

ولايت فقيہ اور جمہوريت ميں عدم توافق

گذشتہ سبق ميں اشارہ ہوچكاہے كہ بعض افراد'' ولايت فقيہ اور جمہوريت ''كے درميان عدم توافق كے نظريہ كے قائل ہيں در اصل اس نظريہ كى بنياد ولايت فقيہ كى ايك خاص تحليل و تفسير پرہے-_ وہ يہ كہ يہ افراد ولايت فقيہ كو بے بس ومحجور افراد كى سرپرستى كے باب سے قرار ديتے ہيں_اس نظريہ كى بناپر نظام ولايت فقيہ اورجمہوريت كى تركيب دو متضاد چيزوں كى تركيب كے مترادف ہے_ اور جس اساسى قانون ميں جمہوريت اور ولايت فقيہ كو جمع كيا گيا ہے وہ ناقبل حل مشكل سے دوچار ہے _ كيونكہ اس قانون ميں دو متضاد چيزوں كو جمع كياگيا ہے _

اسلامى جمہوريہ ايران ميں'' مجلس خبرگان رہبري''(۱) كے انتخاب كيلئے عوامى آراء كى طرف رجوع كيا جاتاہے_ اكثريت كى آراء كى طرف رجوع كرنے كا معنى يہ ہے كہ در حقيقت يہ عوام ہى ہيں جو رہبر اور ولي

____________________

۱) Assembly Of experts .

۳۳۴

امر كا انتخاب كرتے ہے _ فقہى اصطلاح ميں وہ افراد جو ولايت فقيہ كے نظام ميں'' مولّى عليہ'' فرض كئے جاتے ہيں مثلاً ، بچے اور پاگل و غيرہ _ اگر مولّى عليہ شرعى يا قانونى طور پر اپنے ولى امر كا انتخاب خود كرے تو وہ خود بالغ اور عاقل ہے اور طبيعى طور پر وہ مولّى عليہ نہيں ہے كہ اسے ولى امر كى احتياج و ضرورت ہو _ اور اگر حقيقتاً مولّى عليہ ہے اور اسے ولى امر كى احتياج ہے تو پھر وہ خود كيسے اپنے لئے ولى امر كا انتخاب كرسكتاہے؟

جيسا كہ اس استدلال كى اصلى بنياد اس پر ہے كہ اسلامى جمہوريہ كے اساسى قانون ميں عوام كے بارے ميں تضاد پايا جاتاہے _ كيونكہ ايك طرف جمہوريت ميں يہ فرض ہے كہ عوام سمجھ بوجھ ركھتے ہيں ، صاحب اختيار ہيں اور اپنى سياسى سرنوشت كا تعين كرسكتے ہيں اور ان كى آراء اور انتخاب قابل اعتبار ہيں _ جبكہ دوسرى طرف ولايت فقيہ ميں فرض يہ ہے كہ لوگ مولى عليہ ہيں ، سمجھ بوجھ نہيں ركھتے اور انہيں اپنے امورسنبھالنے كيلئے ايك سرپرست اور ولى كى ضرورت ہے _ بنابريں عوام كے بارے ميں يہ دو فرض جمع نہيں ہوسكتے_ كيونكہ ممكن نہيں ہے كہ لوگ جس وقت رشيد اور مختار شمار كئے جارہے ہيں اسى وقت مولّى عليہ اور غير رشيد بھى ہوں_ پس اس تحليل كى بناپر اساسى قانون ميں جمہوريت اور ولايت فقيہ كى تركيب دو متضاد باتوں كا جمع كرنا ہے _

مذكورہ شبہہ كا جواب:

ولايت فقيہ اور جمہوريت ميں عدم توافق كے شبہ كا منشاء اور سبب در حقيقت ولايت فقيہ كى غلط تفسير ہے _ پندرہويں اورسولہويں سبق ميں اس نكتہ كى وضاحت ہوچكى ہے كہ ولايت فقيہ محجورو بے بس افراد پر ولايت كے باب سے نہيں ہے _ بلكہ اس ولايت كى قسم سے ہے جو رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين كو امت پر حاصل تھى _ بنابريں ولايت فقيہ كى اس صحيح تفسير كى مدد سے يہ نكتہ واضح ہو جاتاہے كہ ولايت فقيہ ميں يہ فرض

۳۳۵

نہيں كياگيا كہ لوگ ناسمجھ اور محجورہيں پس اس لحاظ سے جمہوريت اور رائے عامہ كا احترام كرنے ميں كوئي مشكل پيش نہيں آتي_

دينى حكومت اور جمہوريت كى بحث كے آخر ميں اس بات كى وضاحت ضرورى ہے كہ اگر چہ سياسى اور اجتماعى زندگى ميں جمہوريت ايك مقبول روش ہے _ ليكن فوائدكے لحاظ سے اسكے بارے ميں مبالغہ آرائي نہيں كرنى چاہے كيونكہ يہ نئي چيز بہت سى آفات اور نقصانات كى حامل ہے _ جن ميں سے بعض كى طرف يہاں مختصر طور پر اشارہ كيا جاتاہے_

جمہوريت كى آفات

جمہوريت كى روح اور اساس يہ ہے كہ مختلف معاشرتى امور ميں لوگوں كى شركت اور رائے عامہ سے استفادہ كيا جائے_ليكن متعدد وجوہات كى بنياد پر آج جو حكومتيں جمہورى كہلاتى ہيں اس روح سے خالى ہيں_ بہت سى حكومتيں فقط نام كى حد تك جمہورى ہيں اور وہ جمہوريت فقط اس معنى ميں ہے كہ اپنے پر حكومت كرنے والوں كو يا انتخاب كرليں ياردّ كرديں_ در حقيقت يہ سياستدان ہيں جو حكومت كرتے ہيں _

جمہوريت كى ايك اور اہم مصيبت اور مشكل جو كہ اس كى تمام شكلوں ميں موجود ہے اس ميں عوام كا كردار ہے _ عوام عام طور پر سياسى اور اجتماعى مسائل كے بارے ميں غير ذمہ دارانہ رويہ ركھتے ہيں _ اپنے ذاتى امور مثلاً شادي، گھر يا گاڑى كے خريدنے ميں بہت زيادہ غور و فكر اور دقت سے كام ليتے ہيں ان كى پورى كوشش ہوتى ہے كہ مفيد ترين اور بہترين كا انتخاب كريں ليكن اجتماعى اور سياسى امور ميں كاہلى اور تساہل سے كام ليتے ہيں _اس وجہ سے جذباتى نعروں اور پروپيگنڈے كى زد ميں آجاتے ہيں اور داخلى و خارجى عوامل سے متاثر ہوجاتے ہيں_

ايك اور آفت يہ ہے كہ سياسى جماعتيں اور سياستدان جديدترين پروپيگنڈا مشينرى اور حربوں كو بروئے

۳۳۶

كار لاكر سياسى طاقت كى تقسيم اورحكومتوں اور صاحبان قدرت پر عوامى نظارت كے سلسلے ميں رائے عامہ كى تاثير كو مشكوك بناديتے ہيں_ عالم سياست ميں رائے عامہ كم ہوتى ہے اكثر بناوٹ اور دھوكا بازى سے كام ليا جاتاہے _ موجودہ جمہوريت ميں بجائے اس كے كہ رائے عامہ ايك اساسى عامل اور متحرك قوت ہو يہ پروپيگنڈا اور مخصوص سياسى جماعتوں كى فعاليت كا نتيجہ ہوتى ہے_ ہر برٹ ماركو زہ كے بقول:

ميڈيا اور پروپيگنڈا لوگوں ميں غلط شعور پيدا كرديتے ہيں _ يعنى ايسے حالات پيدا كرديئے جاتے ہيں كہ لوگ اپنے حقيقى منافع كا اداراك نہيں كرپاتے(۱)

جديد جمہوريت كى بنيادى اور اصلى ترين مشكل يہ ہے كہ تجارت پر حاوى بڑے بڑے افراد معاشرے كے ايك چيدہ گروہ كے عنوان سے معاشروں كى اقتصاديات پر غير مرئي كنٹرول ركھنے كے علاوہ سياست كے كليدى امور پر بھى كنٹرول ركھتے ہيں_ تمام سياسى جماعتيں ان كے زير اثر ہوتى ہيں اوربہت سے موارد ميں موجود ہ لبرل جمہوريت ميں حكومتى منصوبوں ميں لوگوں كا براہ راست عمل دخل بہت كم ہے فقط نمائندوں كے ذريعہ سے ہے اور نمائندے لوگوں كے دقيق انتخاب كے بجائے پروپيگنڈے كے زير اثر اور اقتصادى طاقتوں كى غير مرئي راہنمائي پر منتخب ہوتے ہيں _ واضح سى بات ہے كہ ايسے نمائندے سب سے پہلے تجارتى پارٹيوں كے مفادات كا خيال ركھيں گے_

____________________

۱) مدلہاى دموكراسى ڈيوڈ ہلڈ، ترجمہ بزبان فارسي، عباس مخبر ، صفحہ ۳۴۷_

۳۳۷

خلاصہ :

۱) اسلام اور جمہوريت ميں توافق و مفاہمت ممكن ہے _

۲) وہ افراد جو اسلام اور جمہوريت ميں ذاتى عدم توافق كے قائل ہيں در حقيقت ان كے پيش نظر جمہوريت كى ايك خاص تعريف ہے اور وہ'' جمہوريت اكثريت رائے ''كى حمايت كرتے ہيں_

۳) بغير كسى شرط و قيد كے'' مطلق جمہوريت''كا كوئي وجود نہيں ہے _ موجودہ دور ميں بہت سے ممالك لبرل اصولوں اور اقدار كے زير اثر جمہوريت كو تسليم كرتے ہيں _

۴) لبرل جمہوريت كے مقابلے ميں ہم اسلام كے اصولوں كے مطابق جمہوريت كو قائم كرسكتے ہيں_

۵) اسلامى جمہوريہ ايران كا نظريہ عوامى حاكميت كو الہى حاكميت كے زير اثر قبول كرنے كى ايك مثال ہے_

۶) وہ نظريہ جو ولايت فقيہ اور جمہوريت كے درميان عدم توافق كا قائل ہے اس كے پيش نظر ولايت فقيہ كى ايك خاص تعريف ہے _

۷) اگر كوئي غلط طور پر'' ولايت فقيہ كو بے بس اور محجور افراد پر ولايت ''كے باب سے قرار ديتاہے تو اسے ولايت فقيہ اورجمہوريت ميں توافق قائم كرنے ميں مشكل پيش آتى ہے _

۸)'' ولايت فقيہ ''امت پر رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين كى ولايت كے باب سے ہے_

۹) جمہوريت بہت سى مصيبتوں اور آفات سے دوچار ہے_

۱۰) جديد دور ميں جمہوريت كى عظيم ترين آفت يہ ہے كہ لوگوں كے انتخاب كے پيچھے تجارتى يونينز اور پروپيگنڈے كا ہاتھ ہوتاہے _

۳۳۸

سوالات:

۱) اسلام اور جمہوريت كے درميان'' ذاتى عدم توافق ''كے نظريہ كا كيا جواب ہے ؟

۲) دينى حكومت جمہوريت كى كونسى تعريف كے ساتھ مطابقت ركھتى ہے ؟

۳) لبرل جمہوريت سے كيامراد ہے؟

۴) حكومت ولائي اور جمہوريت كے درميان عدم توافق كى دليل كيا ہے؟

۵) ولايت فقيہ اور عوامى قيادت كے درميان تضاد والے شبہ كا جواب كيا ہے ؟

۶) جمہوريت كو كن آفات و مشكلات كا سامناہے؟

۳۳۹

ضميمہ جات

باسمہ تعالى

ضميمہ نمبر۱

سوال : كيا اہلسنت كے نزديك بھى ''ولايت فقيہ'' نام كى كوئي چيز ہے؟

مختصر جواب:

اہلسنت كے نزديك خود'' خلافت'' در حقيقت '' ولايت فقيہ '' كى مثل ايك چيز ہے _ ليكن كيفيت اور شرائط كے لحاظ سے مختلف ہے _ اہم ترين فرق يہ ہے كہ شيعوں كے اعتقاد كے مطابق زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين (ع) كى حكومت كا تسلسل ہے_ ولى فقيہ بطور عام يا خاص آنحضرت(ص) كى جانب سے منصوب ہونا چاہيے_ ليكن جس خلافت كے اہلسنت قائل ہيں وہ اس طرح نہيں ہے _ تاريخ گواہ ہے كہ خود ان كے اعتقاد كے مطابق خليفہ اول كا تقرر بھى آنحضرت(ص) كى طرف سے نہيں تھا_ بلكہ ان كا تقرر بعض صحابہ كى بيعت كے نتيجہ ميں ہوا تھا_اموى اور عباسى دور ميں جو خلافت تھى اسلامى حكومت سے ذرا بھى مشابہت نہيں ركھتى تھي_

تفصيلى جواب:

انسان نے طول تاريخ ميں معاشرتى انصاف اور اپنى سياسى زندگى كيلئے مختلف نظاموں اور حكومتوں كا

۳۴۰