اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143906 / ڈاؤنلوڈ: 3620
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

جبكہ اس كے ساتھ اموال زكوةبھى ہوں در حقيقت ايك معاشرہ كى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے ہے _ ''جزيہ'' جو كہ ذمى كفار سے ليا جاتا ہے اور اسى طرح زرعى محصولات بھى ايك بڑى درآمد كوتشكيل ديتے ہيں_ يہ تمام امور اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ اس قسم كے تمام مالى منابع ايك معاشرہ كى ضروريات كو پورا كرنے او رحكومت كو تشكيل دينے كيلئے ہيں _

ان ميں سے دوسرا مورد وہ احكام ہيں جو اسلامى نظام كى حفاظت اور اسلامى سرزمين اور ملت مسلمہ كے استقلال كے دفاع كيلئے بنائے گئے ہيں انہى دفاعى احكام ميں سے ايك ، قرآن مجيد كى اس آيت شريفہ''و اعدوالهم ما استطعتم من قوة و من رباط الخيل'' (۱) ميں بيان كيا گيا ہے اور مسلمانوں كو كہا جا رہا ہے كہ وہ ہر قسم كے خطرہ سے پہلے اپنى فوجى و دفاعى قوت كو مہيا كرليں اوراپنى حفاظت كا سامان پہلے سے تيار ركھيں _

اس قسم كا ايك اور نمونہ اسلام كے عدالتى اور انسانى حقوق كے متعلق احكام ميں ديكھا جاسكتاہے_ اس قسم كے بہت سارے احكام يا''ديات'' ہيں كہ جنہيں ليكر حق داروں كو دينا ہوتاہے يا''حدود و قصاص''ہيں كہ جنہيںاسلامى حاكم كے زير نظر اجرا كيا جاتاہے اور اس قسم كے امور ايك حكومت كى تشكيل كے بغير قابل عمل نہيں ہيں _ يہ تمام قوانين حكومت كے ساتھ مربوط ہيں اور حكومتى قوت كے بغير ايسے اہم امور كو كوئي انجام نہيں دے سكتا _(۲)

اسلام كا سياسى فلسفہ اور سياسى فقہ

يہ تسليم كرلينے كے بعد كہ اسلام سياسى ابعاد كا حامل ہے اور اس كى بعض تعليمات حكومت اور سياست كے

____________________

۱) سورہ انفال آيت ۶۰_

۲) لايت فقيہ (امام خمينى ) ص ۲۰ تا ۲۵_

۲۱

ساتھ مخصوص ہيں _ يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ اسلام كا سياسى تفكر كن شعبوں پر مشتمل ہے ؟

مجموعى طور پر اسلام كے سياسى تفكر كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _ ايك حصے كو '' اسلام كا سياسى فلسفہ '' اور دوسرے كو '' اسلام كى سياسى فقہ '' كا نام ديتے ہيں _ گذشتہ سبق ميں اشارہ كرچكے ہيں كہ ہر سياسى مكتب فكر كو چند بنيادى سوالات كا جواب دينا ہوتا ہے _ ايسى مباحث كو '' سياسى فلسفہ '' كا نام ديا جاتا ہے _ بنابريں اسلام كے سياسى تفكر كو بھى ايك خاص علمى بنياد پر استوار ہونا چاہيے اور دنيائے سياست كے ان بنيادى سوالات كے مناسب اور مخصوص جوابات دينا چا ہيے _

اسلام كے سياسى تفكر كا دوسرا حصہ يعنى ''سياسى فقہ '' يا '' فقہ الحكومة '' حكومت كى نوعيت اور اسكى شكل و صورت ، حكمرانوں كے مقابلے ميں عوام كے حقوق ، حكومت اور حكمرانوں كے سلسلہ ميں عوام كى ذمہ دارياں ، مذہبى اقليتوں كے حقوق اور اسلامى حكوت (دار الاسلام)كے غير اسلامى حكومتوں ( دارالكفر) كے ساتھ تعلقات جيسى ابحاث پر مشتمل ہے باالفاظ ديگر پہلا حصہ علمى و بنيادى سياست كى مباحث پر مشتمل ہے_ جبكہ يہ حصہ عملى سياست اور معاشرے كے انتظامى و اجرائي امور كے زيادہ قريب ہے _

۲۲

سبق كا خلاصہ :

۱) حكومت اور رياست كے بغير معاشرہ ،نامكمل اور زوال پذير ہے _

۲) اسلام ، حكومت كو ايك اجتماعى او رمعاشرتى ضرورت سمجھتا ہے اسى لئے اس نے لوگوں كو تشكيل حكو مت كى طرف دعوت نہيں دى بلكہ حكومت كيسى ہونى چاہيئے ؟ اس بارے ميں اپنى رائے دى ہے _

۳) اسلام كو سياست سے جدا سمجھنا اس دين حنيف كى حقيقت كو مسخ كردينے كے مترادفہے _

۴) اسلام كے لئے سياسى اور اجتماعى پہلو كا وجود دو طريقوں سے ثابت كيا جاسكتاہے _

الف:روش استقرائي ( طرز جستجو )اور اسلامى تعليمات كا مطالعہ ، اسلام كے سياسى اور اجتماعى پہلو كے اثبات كى بہترين راہ ہے_

ب: اسلام كا آخرى اور مكمل دين ہونا اس كے اجتماعى اور سياسى پہلو كے وجود كى دليل ہے _

۵) اسلام كے بعض قوانين ايك جائز دينى حكومت كے بغير قابل اجرا نہيں ہيں _

۶) اسلام كے سياسى تفكر كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _

الف: اسلام كا سياسى فلسفہ

ب: اسلام كى سياسى فقہ

۲۳

سوالات:

۱) امير المومنين نے خوارج كو جو جواب ديا تھا اس سے ''ضرورت حكومت ''كے سلسلہ ميں كيا حاصل ہوتاہے؟

۲) اسلام نے لوگوں كو اصل حكومت كى تشكيل كى ترغيب كيوں نہيں دلائي ؟

۳) سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے كے اثبات كيلئے طرز جستجو يا روش استقرائي سے كيا مراد ہے ؟

۴) اسلام كے كامل اور خاتم الاديان ہونے سے اس كے سياسى اور اجتماعى امور ميں دخيل ہونےپر كيسے استدلال كيا جاسكتا ہے ؟

۵) كونسے احكام شرعى كا اجراء اسلامى حكومت كى تشكيل پر موقوفہيں ؟

۶) اسلام كے مالى احكام كس طرح اسلام كے سياسى پہلو پر دليل بن سكتے ہيں ؟

۷) اسلام كا سياسى تفكر كنحصوں پر مشتمل ہے ؟

۲۴

تيسرا سبق:

دينى حكومت كى تعريف

انسان كى اجتماعى زندگى كى طويل تاريخ مختلف قسم كى حكومتوں اور رياستوں كے وجودكى گواہ ہے جنہيں مختلف خصوصيات كى بنياد پر ايك دوسرے سے جدا كيا جاسكتاہے اور انہيں مختلف اقسام ميں تقسيم كيا جاتاہے_ مثلاً استبدادى و غير استبدادي،جمہورى و غير جمہوري، استعمارى و استعمار كا شكار حكومتيں ، سوشلسٹ و غير سوشلسٹ، ترقى يافتہ و پسماندہ حكومتيں و غيرہ ان ميں سے ہر تقسيم ايك مخصوص معيار كى بنياد پر ہے _ اسى طرح ايك تقسيم يہ بھى ہوسكتى ہے : دينى حكومت اور سيكولر حكومت _

دينى حكومت ايك اصطلاح ہے جو دو چيزوں سے مركب ہے، حكومت اور دين كيساتھ اس كى تركيب ، اصلى اور بنيادى سوال يہ ہے كہ اس تركيب ميں ''دينى ''سے كس مطلب كا افادہ مقصودہے ؟ دين اور حكومت كى تركيب سے كيا مراد ہے؟ ايك حكومت كے دينى يا غير دينى اور سيكولر ہونے كا معيار كيا ہے؟ ان سوالات كے جواب دينے سے پہلے بہتر ہے حكومت كى تعريف كى جائے _

۲۵

حكومت اور رياست كے معاني

حكومت(۱) اور رياست(۲) گذشتہ اور موجودہ ادوار ميں متعدد معانى ميں استعمال كئے گئے ہيں ان ميں سے بعض معانى مترادف ہيں اور بعض اوقات انہيں مختلف معانى ميں استعمال كيا گيا ہےمثلا جديد دور ميں رياست كامعنى حكومت سے وسيع تر ہے جديد اصطلاح كے مطابق رياست نام ہے ان افراد كے اجتماع كا جو ايك مخصوص سرزمين ميں ساكن ہوں اور ايسى حكومت ركھتے ہوں جو ان پر حاكميت كرتى ہو_ اس تعريف كے مطابق رياست چار اجزا كے مجموعہ كا نام ہے_آبادي،سرزمين ،حكومت، حاكميت_ اس اصطلاح كى بناپر حكومت اور رياست دو مترادف اصطلاحيں نہيں ہيں بلكہ حكومت رياست كا ايك حصہ ہے اور رياست كو تشكيل دينے والے چار عناصر ميں سے ايك عنصر حكومت ہے جو ان اداروں كے مجموعہ كا نام ہے جو ايك دوسرے كے ساتھ مرتبط ہوكر ايك مخصوص سرزمين ميں بسنے والى انسانى آبادى پر حكمرانى كرتى ہے_بنابريں ايرانى رياست اور فرانسيسى رياست و غيرہ انكى حكومتوں سے وسيع تر مفہوم ہے _

ليكن اگر رياست سے مراد وہ منظم سياسى طاقت ہو جو امر و نہى كرتى ہے تو يہ حكومت كے مترادف ہوجائے گى اور اس تعريف كى بناپر رياست صرف كا بينہ اور قوّہ مجريہ كا نام نہيں ہے كہ جن كا كام قانون نافذ كرناہے بلكہ تمام حكومتى ادارے مثلاً قانون ساز ادارے، عدليہ، فوجى اور انتظامى ادارے سب اس ميں شامل ہيں _ در اصل اس تعريف كى رو سے رياست اور حكومت اس قوت حاكمہ كا نام ہے جس ميں معاشرہ پر حاكم سياسى اقتدار كے حامل تمام ادارے شامل ہيں _ اس وقت زير بحث حكومت و رياست سے مراد يہى دوسرا معنى ہے كہ اس معنى ميں حكومت اور رياست جب دين سے مركب ہوتى ہے تو اس كا قابل قبول معنى كونسا ہے_

____________________

۱) Government

۲) State

۲۶

دينى حكومت كى مختلف تعريفيں

دينى حكومت كى مختلف تعريفيںكى جاسكتى ہيں _ دوسرے لفظوں ميں دينى حكومت كى مختلف اور متنوع تفسيريں بيان كى جاسكتى ہيں و اضح سى بات ہے كہ ان ميں سے كچھ تعريفيں صحيح نہيں ہيں ہم اجمالى طور پر ان ميں سے بعض كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

۱) دينى حكومت اس حكومت كو كہتے ہيں جس ميں ايك مخصوص دين كے معتقدين اور ماننے والے سياسى اقتدار كے حامل ہوں معاشرے كى سياسى طاقت اور سياسى ادارے كسى خاص دين كے پيرو افراد_ جيسے پيروان اسلام يا مسيحيت_كے ہاتھوں ميں ہوںاس تعريف كى بناپردينى حكومت يعنى ديندارافراد كى حكومت_

۲) دينى حكومت يعنى وہ حكومتكہ جس ميں سياسى اقتدارايك مخصوص طبقہ بنام'' رجال دين'' يعني( مذہبى افراد) كے ہاتھ ميں ہو اس تعريف كى بنا پر چونكہ سياسى اقتدار كے حامل مختلف ادارے مذہبى افراد كے ہاتھ ميں ہوتے ہيں اسى لئے اسے دينى حكومت كہتے ہيں _

اس دينى حكومت كى افراطى شكل و صورت يورپ ميں قرون وسطى ميں ملاحظہ كى جاسكتى ہے _ بعض اديان مثلاً كيتھولك مسيحيت ميںمذہبى افراد خاص تقدس اور احترام كے حامل ہوتے ہيں اور عالم الوہيت و ربوبيت اور عالم انسانى كے درميان معنوى واسطہ شمار ہوتے ہيں _ قرون وسطى ميں يورپ ميں جو حكومت قائم ہوئي تھى وہ مذكورہ دينى حكومت سے سازگار تھى _ عيسائيوں كے مذہبى افراد اور كليسا كے پادرى خدا اور مخلوق كے درميان واسطہ ہونے كے ناطے مخصوص حق حاكميت كے حامل سمجھے جاتے تھے _ يہ حق حاكميت خدا كى حكومت اور ربوبيت كى ايك كڑى تھى اور يہ تصور كيا جاتا تھا كہ مذہبى افراد چونكہ ملكوت كے ساتھ مربوط و متصل ہيں لہذا قابل تقديس و احترام ہيں ، اسى لئے ان كے فيصلے، تدابير اور كلام، وحى الہى كى طرح مقدس، ناقابل اعتراض

۲۷

اور غلطيوں سے مبرّا ہيں _

۳) دينى حكومت وہ حكومت ہے جو ايك خاص دين كى تبليغ ، دفاع اور ترويج كرتى ہے _ اس تعريف كے مطابق ايك دينى حكومت كا معيار ايك مخصوص دين كا دفاع اور تبليغ ہے _ بنابريں ايران ميں صفويوں اور قاچاريوں كى حكومت، سعودى عرب ميں وہابيوں كى حكومت اور افغانستان ميں طالبان كى حكومت مذكورہ دينى حكومت كے مصاديق ہيں كيونكہ يہ حكومتيں اپنے سياسى اقتدار كو ايك خاص دين كے دفاع، تبليغ اور ترويج كيلئے استعمال كرتى ہيں_

۴)دينى حكومت وہ حكومت ہے جو سياست اور معاشرے كے انتظامى امور ميں ايك خاص دين كى مكمل مرجعيت و حاكميت كو تسليم كرتى ہو يعنى اپنے مختلف حكومتى اداروں ميں ايك خاص دين كى تعليمات كى پابند ہو اور كوشش كرتى ہو كہ قانون بنانے ، عوامى كاموں، معيشت اور اجتماعى امور ميں دينى جھلك نظر آئے اور ان تمام حكومتى امور ميں دينى تعليمات كا ر فرما ہوں اور انہيں دين سے ہم آہنگ كرے _ دينى حكومت كا يہ معنى در حقيقت'' دينى معاشرہ ''كى تشكيل كا خواہاں ہے يعنى حكومت يہ چاہتى ہے كہ ثقافتى ، اقتصادي، سياسى اور فوجى و عسكرى تمام اجتماعى امور دينى تعليمات كى بنياد پر تشكيل پائيں _ دينى معاشرہ كو دين كى فكر ہے اور يہ فكر ہمہ گير ہے كسى خاص جہت ميں محدود نہيں ہے_ دينى معاشرہ چاہتاہے كہ اس كے تمام امور دين كے ساتھ ہم آہنگ اور ہم آوازہوں_ اس معنى كى بنياد پر دينى حكومت دين كيلئے ايك خاص شان و اہميت كى قائل ہے _ اُس كى تعليمات كو اپنے لئے نصب العين قرار ديتى ہے_ دين كى حاكميت اور سياسى و انتظامى ميدانوںميں اس كى اہميت كو تسليم كرتى ہے اور معاشرتى و سماجى امور ميں دينى تعليمات كى دخالت كا معيار ان امور ميں دين كا وارد ہونا ہوگا_ دوسرے لفظوں ميں سياسى اجتماعى اور سماجى امور ميں دين كى دخالت كى حدود مكمل طور پر دينى

۲۸

تعليمات كے تابع ہيں اور جس شعبہ ميں جتنى مقدار دين نے اپنا كوئي پيغام ديا ہو اور اپنى تعليمات پيش كى ہوں اس حكومت كيلئے وہ پيغام اور تعليمات قابل قبول ہوتى ہيں _

مذكورہ چار تعريفوں كا مختصر تجزيہ

مذكورہ چار تعريفوں ميں سے چوتھى تعريف دينى حكومت كى ماہيت و حقيقت كے ساتھ زيادہ مناسبت ركھتى ہے _ كيونكہ ان ميں سے بعض تعريفيں دينى حكومت كے صرف ايك پہلو كى طرف اشارہ كرتى ہيں _ صرف حكمرانوں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كا كسى خاص دين كا معتقد ہونا اس حكومت كے دينى ہونے كى علامت نہيں ہے _ آج دنيا كے اكثر ممالك كہ جن كى حكومتيں غير دينى ہيں ان كے بہت سارے سركارى عہديدار انفرادى طور پردين دار ہيں ، ليكن ان كا ايك خاص دين كے ساتھ لگاؤ اور تديّن ان كى حكومت كے دينى ہونے كى دليل نہيں ہے _ پہلى تعريف ميں جو'' حكومت كے دينى ہونے كا معيار'' بيان كيا گيا ہے وہ چوتھى تعريف ميں بھى شامل ہے_ كيونكہ دين كى حاكميت اور مختلف سركارى اداروں ميں دينى تعليمات كى فرمانروائي كا لازمہ ہے كہ سركارى حكام نظرياتى اور عملى طور پر اس دين كے معتقد ہوں _ اسى طرح تيسر ى تعريف ميں بيان شدہ معيار بھى چوتھى تعريف ميں مندرج ہے كيونكہ جو حكومت دينى معاشرے كى تشكيل اور سماجى و اجتماعى امور ميں دينى تعليمات كے نفوذ كى كوشش كرتى ہے اور حكومتى امور اور قوانين كو دين كے ساتھ ہم آہنگ كرنے كى خواہاں ہوتى ہے _ وہ فطرى طور پر اس دين كا دفاع كرے گى اور اس كى تبليغ و ترويج كيلئے كوشش كرے گى _

دينى حكومت كى دوسرى تعريف كى بنياد'' مذہبى افراد'' كے بارے ميں ايك خاص تصور پر ہے كہ بہت سے اديان، مذہبى شخصيات اور دينى علماء كے متعلق ايسا تصور نہيں ركھتے _ مثال كے طور پر اسلام كسى طرح بھى علماء

۲۹

دين كيلئے كسى خاص طبقاتى حيثيت كا قائل نہيں ہے اور انہيں مقام عصمت كا حامل نہيں سمجھتا_ اس لئے دينى حكومت كى ايسى تفسير كى كوئي راہ نہيں نكلتى _ علاوہ بر ايں صرف علماء دين اور مذہبى افراد كے ہاتھ ميں حكومتى عہدوں كا ہونا اس حكومت كے دينى ہونے كى دليل نہيں ہے بلكہ حقيقت وہى ہے جو چوتھى تعريف ميں بيان كى گئي ہے كہ مختلف اجتماعى و سماجى امور اور حكومتى اداروں ميں دينى تعليمات كا اجرا ہى حكومت اور سياست كو دينى رنگ دے سكتاہے_

قابل ذكر ہے كہ دينى حكومت سے ہمارى مراد كسى خاص دين سے متصف حكومت نہيں ہے _ بلكہ دنيا كے جس گوشہ ميں كوئي حكومت دينى تعليمات كے آگے سر تسليم خم كردے، اس كى فرمانروائي كو قبول كرلے اور اپنے اداروں ميں دينى تعليمات رائج كردے وہ دينى حكومت كہلائے گى چاہے وہ دين آسمانى اديان ميں سے ہو يا ايسے اديان ميں سے ہو جن كے متعلق ہم مسلمانوں كا عقيدہ ہے كہ ان كا تعلق وحى الہى سے نہيں ہے بلكہ شرك و تحريف سے آلودہ ہيں _

نيز توجہ رہے كہ اگر دين سے ہمارى مراد دين اسلام ہو تو پھر دينى حكومت وہى حكومت ہوگى جو اسلامى تعليمات كے مطابق ہو اور اسلامى تعليمات سے مراد وہ دينى اصول و ضوابط ہيں جو معتبر دينى منابع سے ماخوذ ہوں بنابريں كوئي فرق نہيں ہے كہ وہ دينى تعليمات ،وحى اور معتبر روايات سے حاصل ہوئي ہوں يا معتبر عقلى ادلّہ سے_ البتہ چونكہ اسلامى تعليمات كا اصلى اور اہم ترين منبع قرآن و سنت ہيں اسى لئے دينى حكومت اور سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے پر بحث و تحقيق كرنے والے بہت سے افراد كى ''دينى تعليمات''سے مراد وہ تعليمات ہيں جو قرآن اور احاديث سے حاصل ہوئي ہوں_

۳۰

خلاصہ :

۱ لفظ ''حكومت اور رياست ''كے متعدد معانى ہيں كہ جن ميں سے بعض معانى مترادف ہيں_

۲ دور حاضر كى جديد اصطلاح ميں رياست كى جو تعريف كى جاتى ہے ، حكومت اس كا ايك شعبہ اور حصہ ہے _

۳ دينى حكومت كى مختلف تعريفيں كى جاسكتى ہيں يعنى دين اور رياست كى تركيب سے متفاوت معانى پيش كئے جاسكتے ہيں _

۴ اجتماعى اور سياسى زندگى ميں دين كى حاكميت كو قبول كرنے والى حكومت كو دينى حكومت كہنا دين و رياست كى مجموعى حقيقتكے ساتھ زيادہ مطابقت ركھتى ہے_

۵ اس سبق ميں دينى حكومت كى جوچوتھى تعريف كى گئي ہے وہ ايك جامع تعريف ہے اور اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ ايك حكومت كے دينى ہونے كا معيار يہ ہے كہ معاشرے كے مختلف سياسى شعبوں ميں دينى تعليمات حاكم ہوں_

۶ مختلف سياسى شعبوں ميں دين كى حاكميت كو تسليم كرنے والى حكومت كو دينى حكومت كہنا ، ايك ايسى عام تعريف ہے جو كسى مخصوص دين كے ساتھ مربوط نہيں ہے_

۳۱

سؤالات

۱ دور حاضر ميں رياست كى تعريف كيا ہے ؟

۲ كونسى تعريف كے مطابق رياست اور حكومت دو مترادف اصطلاحيں ہيں ؟

۳ كونسى تعريف ميں دينى حكومت دين داروں كى حكومت كے مترادف ہے ؟

۴ دينى حكومت كى كونسى تعريف جامع اور قابل قبول ہے ؟

۵ باقى تعريفوں كى نسبت دينى حكومت كى چوتھى تعريف كونسے امتيازات كى حامل ہے ؟

۳۲

چوتھا سبق:

سياست ميں حاكميت دين كى حدود

گذشتہ سبق سے واضح ہوگيا كہ حكومت كے دينى ہونے كا معيار يہ ہے كہ حكومت اور سياست كے مختلف شعبوں ميں دينى تعليمات كى حكمرانى ہو _وہ چيز جو دينى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے جدا اور ممتاز كرتى ہے ، وہ معاشرے كے سياسى اور ديگر امورميں دين كى حاكميت كو تسليم كرنا ہے_ اس بحث ميں بنيادى سوال يہ ہے كہ اس حاكميت كا دائرہ كس حد تك ہے اور دين كس حد تك دنيائے سياست وحاكميت ميں دخيل ہے ؟

دوسرے لفظوں ميں صاحبان دين كيلئے سياست كے كن شعبوں اور حكومت كے كن اداروں ميں دين اور اس كى تعليمات كو بروئے كار لانا ضرورى ہے ؟ اور كونسے شعبوں ميں دين كى حاكميت سے بے نياز ہيں ؟ ايك دينى حكومت كے كونسے پہلو مدنى اور بشرى ہيں اور كونسے پہلو دينى تعليمات سے ماخوذ ہونے چاہيں؟

اس اہم ترين مسئلہ كى تحقيق سے پہلے حكومت اور سياست كے مختلف پہلوؤں اور شعبوں كى شناخت ضرورى ہے _ كيونكہ حكومت كے متعلق قابل بحث پہلوؤں سے مكمل آگاہى ، ان تمام پہلوؤں ميں دين كى دخالت كے سمجھنے ميں مددگار ثابت ہوسكتى ہے _

۳۳

حكومت اور اس كے سياسى پہلو:

ہم نے حكومت اور رياست كى تعريف كى تھى : '' وہ منظم سياسى قوت جو امر و نہى اور ايك مكمل نظام كے اجرا كى حامل ہو '' اس سياسى قوت كے متعلق مختلف جہات قابل بحث ہيں _ اگر چہ يہ سياسى ابحاث مختلف اور ايك دوسرے سے جدا ہيںليكن باہمى ربط كى حامل ہيں _ حكومت سے متعلق مختلف سياسى پہلوؤں كو درج ذيل صورت ميں بيان كيا جاسكتا ہے _

۱_ حكومتيں مختلف قسم كى ہوتى ہيں ، جمہورى ، شہنشاہى اور نيم شہنشاہى و غيرہ _ بنابريں حكومت سے متعلق بنيادى مباحث ميں سے ايك يہ طے كرناہے كہ كون سا سياسى طرز حكومت معاشرہ پر حاكم ہے_

اسى طرح صاحبان اقتدار كى انفرادى خصوصيات اور شرائط كا تعيّن اسكى بنيادى بحث شمار ہوتى ہے_ سياسى نظام كى نوعيتكى تعيين ہر معاشرے كے سياسى اقتدار كے حامل اداروں كى ضرورى خصوصيات كى ايك حد تك پہچان كروا ديتى ہے _

۲_ ہر حكومت كا ايك حكومتى ڈھانچہ ہوتاہے يعنى ہر حكومت مختلف اداروں اور قُوى سے تشكيل پاتى ہے _ حكومتى ڈھانچے كى تعيين ، اس كے اداروں كے آپس ميں ارتباط كا بيان اور ہر ادارے كے اختيارات اور فرائض كى وضاحت ، سياست اور حكومت كے اہم ترين مسائل ميں سے ہيں _

۳_ ہر رياست اور حكومت قدرت واقتدار(۱) كى حامل ہوتى ہے _ يعنى امرو نہى كرتى ہے ، قوانين بناتى ہے اور انكےصحيح اجرا پر نظارت كرتى ہے _ ايك اہم بحث يہ ہے كہ اس اقتدار كى بنياد كن اہداف اور اصولوں پر ہونى چاہيئے ؟ مختلف حكومتى ادارے جو عوام كو امرو نہى اور روك ٹوك كرتے ہيں وہ كن اصولوں كى بنياد پر

____________________

۱) Authority

۳۴

ہونے چاہيں؟ مثال كے طور پر ايك سوشلسٹ نظريات كى حامل حكومت جو كہ ماركسزم كى تعليمات كى قائل اور وفادار ہے اپنے اقتدار ميں ماركسزم كى تعليمات كے تابع ہے_ اس قسم كى حكومتوں ميں قانون گزارى ، اقتصادى پروگرام ،آئينى اور ثقافتى تعلقات اور بين الاقوامى معاملات ميں اس مكتب كے اصولوں پرخاص توجہ دى جاتى ہے _ جس طرح كہ '' لبرل جمہورى '' حكومتوں ميں ''جيسا كہ آج كل يورپ اور آمريكہ ميں قائم ہيں '' اقتدار كى بنياد لبرل ازم كے اصولوں پر قائم ہے _ ان ممالك ميں جمہوريت اور اكثريت كى رائے بطور مطلق نافذ العمل نہيں ہوتى بلكہ لبرل ازم اسے كنٹرول كرتا ہے _ آمريت ، اقتدار اور حكومت كا دائر ہ كار ان اصولوں پر قائم ہوتا ہے جنہيں لبرل ازم كے تابع بنايا جاتا ہے _

۴_ ہر حكومت كى كچھ ذمہ دارياں ہوتى ہيں جنہيں وہ اپنے عوام كى فلاح و بہبود كيلئے انجام ديتى ہے_ حكومت سے مربوط مباحث ميں سے ايك بحث يہ بھى ہے كہ يہ وظائف اور فرائض كيا ہيں ؟ اور عوام كے مقابلے ميں حكومت كى ذمہ دارياں كيا ہيں ؟

۵_ اپنے افعال اور فرائض كى انجام دہى اور حكومت كى سياسى قدرت كا سرچشمہ اقتدار اعلى(۱) ہوتاہے_

ہر حكومت اپنے اقتدار اعلى كا سہارا ليتے ہوئے مختلف ميدانوں ميں اپنى سياسى قوت كو بروئے كار لاسكتى ہے اور اندرون و بيرون ملك اپنے سياسى ارادوں كو عملى جامہ پہنا سكتى ہے _ ہر حكومت اپنے اقتدار اعلى كى بناپر مختلف احكام نافذ كرتى ہے _ پس سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ كيا اس كا اقتدار اعلى جائز اور مشروع ہے يا نہيں ؟ دوسرے الفاظ ميں كيا وہ حكومت كرنے كا حق ركھتى ہے يا نہيں ؟

سياسى فلسفہ ميں مشروعيت(۲) و غير مشروعيت كى بحث اہم ترين مباحث ميں سے شمار ہوتى ہے _ كوئي بھي

____________________

۱) Sovereignty

۲) Legitimacy

۳۵

سياسى مكتب اس سے بے نياز نہيں ہے _ كيونكہ حكومتى اركان اور ادارے ، اور تمام سياسى فيصلے اور تدابير اپنى حقانيت اور مشروعيت، حكومت كے حق حاكميت اور مشروعيت سے حاصل كرتے ہيں _ ہر حكومت ميں يہ صلاحيت اور قدرت ہونى چاہيے كہ وہ اپنى مشروعيت كا معقول طريقے سے دفاع كرسكتى ہو _

اس مختصر اور اجمالى وضاحت سے روشن ہوجاتا ہے كہ حكومت و رياست كے متعلق كم ازكم پانچ اساسى محور قابل بحث ہيں _ اب ديكھنا يہ ہے كہ ان پانچ محوروں ميں سے كن ميں ''دين'' حاكميت كى صلاحيت ركھتا ہے ؟ دوسرے لفظوں ميں ان پانچ ميدانوں ميں كس ميدان ميں دينى حكومت ، دين كے تابع ہے ؟ كيا يہ دعوى كياجاسكتا ہے كہ ان ميں سے بعض ميں دين كو دخل اندازى كرنے كا حق نہيں ہے اور دين كى حاكميت صرف ان ميں سے بعض ميں ہے ؟

حاكميت دين كى حدود

سياست ميں دين كے دخيل ہونے كى بحث دو لحاظ سے قابل تحقيق ہے :

الف: كس حد تك دين كا دخيل ہونا ممكن ہے_

ب : كس حد تك دين عملا دخيل ہے_

پہلى بحث سے مراد يہ ہے كہ سياست كے كونسے پہلو دين كے محتاج ہيں؟ اور كہاں پر دين اپنى تعليمات سے نواز سكتا ہے اور اپنى حاكميت كو بروئے كار لاسكتا ہے ؟ يہاں اصلى اور بنيادى سوال يہ ہے كہ كيا ممكن ہے دين ان پانچوں ميدانوں ميں دخيل اور معاشرہ كى سياسى زندگى كے تمام شعبوں ميں اس كى راہنمائي كرے ؟ يا يہ كہ بعض شعبوں كا تعلق صرف لوگوں سے ہے اور دين كيلئے سزاوار نہيں ہے كہ وہاں اظہار نظر كرے ؟

دوسرى بحث سے مراد ايك تو اس بات كى تعيين ہےكہ دين مبين اسلام نے سياست كے پانچ ميدانوں

۳۶

ميں سے كن ميں عملى طور پر اظہار نظر كياہے؟ دوسرا يہ كہ ان ميدانوں ميں دين كى تعليمات كس حد تك ہيں ؟ سياست كے مختلف پہلوؤں ميں دين كى دخالت كے امكان كے متعلق ہمارے نزديك دين كى حاكميت كى راہ ميں كوئي شئے مانع نہيں ہے_اور دين ان تمام ميدانوں ميں اپنا پيغام دے سكتا ہے _ منطقى لحاظ سے ضرورى نہيںہے كہ دين كى دخالت سياست كے بعض شعبوں تك محدودرہے بلكہ ممكن ہے دين ،حكومت كے تمام شعبوں ميں اپنى رائے كا اظہار كرے بعنوان مثال سياسى ڈھانچہ ،حكومت كى نوعيت، دينى معاشرے كے حكمرانوں كى شرائط ،خصوصاً رہبر و قائد كى خصوصيات جيسے ابواب ميں دين اپنى تعليمات پيش كرسكتاہے_ دين حكومت كى مشروعيت اور حق حاكميت كے متعلق اپنى رائے كا اظہار كرسكتا ہے _ كونسى حاكميت مشروع ہے اور كونسى نامشروع ،اسكى تعيين كرسكتا ہے ، حكّام پر عوام كے حقوق ، لوگوں كے سلسلہ ميں حكمرانوں كے وظائف اور عوام پر حكمرانوں كے حقوق جيسے امور ميں اپنى رائے دے سكتا ہے _ سياسى اقتدار كے حامل افراد كے لئے اہداف اور اقدار معين كرسكتا ہے تا كہ وہ معيّنہ اصولوں اور اہداف كے مطابق اپنى سياست كو آگے بڑھائيں اورمعاشرتى امور كو انجام ديں _

بنابريں از نظر امكان''سياست ميں دين كى حاكميت '' بلا قيد و شرط ہے اور اسے سياست كے چند مخصوص شعبوں ميں محدود كرنا صحيح نہيں ہے _

يہ تسليم كرلينے كے بعد كہ سياست كے مختلف شعبوں ميں منطقى طور پر دين كى دخالت ممكن ہے ، بعض افراد قائل ہيں كہ مختلف حكومتى شعبوں ميں دين كى حاكميت نہيں ہونى چاہيئے _ ان كى نظر ميں بعض ادلّہ كى روسے دين خود كو سياست سے دور ركھے_ اور ان تمام امور كو لوگوں ، عقل اور تجربہ كے حوالے كردے _ آنے والے اسباق ميں ہم دينى حكومت كے ان منكرين كى ادلہ پر بحثكريں گے _

۳۷

پس يہ مان لينے كے بعد كہ سياست سے متعلق ان پانچ ميدانوں ميں دين كى دخالت ممكن ہے دوسرے مرحلے كو مورد بحث قرار ديتے ہيں _ حكومتى اور سياسى امور ميں دين كى دخالت كس حد تك ہے ؟ اس كى تعيين صرف ايك طريقے سے ممكن ہے اور وہ بلاواسطہ دين اور پيام الہى كى طرف رجوع كرنا ہے _ اسلام كى اجتماعى اور سماجى تعليمات كى طرف عالمانہ اور باريك بينى سے رجوع كرنا ، اس حقيقت كى نقاب كشائي كرتا ہے كہ مذكورہ پانچ ميدانوں ميں سے دين نے كس ميں اپنى راہنمائي و ہدايت سے نوازاہے اور كس حد تك گفتگو كى ہے _ اور كونسے امور كو لوگوں اور ان كى عقل و تدبير پر چھوڑا ہے _ دين كى طرف رجوع اور اس كے مطالب كے ادراك سے واضح ہوجاتا ہے كہ دين نے كس شعبہ ميں اور كس حد تك اپنى حاكميت كو ثابت كيا ہے اور ان كے بارئے ميں اظہار نظر كيا ہے اور كن امور كو لوگوں كے حق انتخاب اور رائے پر چھوڑا ہے كسى بھى صورت ميں دين كى تعليمات كى طرف رجوع كرنے سے پہلے سياست كے بعض شعبوں ميں دين كو دخل اندازى سے نہيں روكا جاسكتا يا بعض امور ميں اس كے اظہار نظر اور دخالت كودين كے اہداف اور اسكى شان كے منافى قرار نہيں ديا جاسكتا _

۳۸

خلاصہ:

۱) حكومت اور سياست كے پانچ پہلو ہيں جو ايك دوسرے كے ساتھ مربوط ہيں _

۲) سياسى نظام كى نوعيت كى تعيين ، نيز اس كے اداروں كى كيفيت و كميت ،سياست كى اہم ترين مباحث ہيں _

۳) اہم ترين سياسى مباحث ميں سے ايك يہ ہے كہ ہر حكومت كا اقتدار كن اصولوں اور اہداف كى بنياد پر ہونا چاہيے _

۴) ہر حكومت اپنى قانونى حكمرانى كى بنياد پر احكام جارى كرتى ہے _

۵) سياسى اقتدار كى مشروعيت كى بحث حاكميت كے جائز اور ناجائز ہونے كى بات كرتى ہے اور اس بنيادى سوال كا جواب ديتى ہے كہ حكومت كا حق كن افراد كو حاصل ہے _

۶)'' دين'' سياست كے مذكورہ بالا پانچ بنيادى ميدانوں ميں اپنى رائے كا اظہار كرسكتا ہے _

۷) سياسى امور ميں دين كى حاكميت دومرحلوں ميں قابل بحث و تحقيق ہے _

الف: كونسے سياسى موارد ميں دين كى دخالت ممكن ہے ؟

ب: كن موارد ميں اسلام نے عملى طور پر اپنى رائے كا اظہار كيا ہے ؟

۸) دوسرے سوال كا جواب صرف دينى تعليمات كى طرف رجوع كرنے سے ہى مل سكتا ہے _ تا كہ واضح ہوسكے كہ حكومتى امور ميں اسلام نے كس حد تك دخالت كى ہے _

۳۹

سوالات :

۱) حكومت اور سياست سے مربوط پانچ مباحث كو اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_

۲) اقتدار سے كيا مراد ہے ؟ اور اس كے متعلق كونسى بحث اہم ہے ؟

۳) مشروعيت كى بحث كيا ہے ؟ اورقانونى حاكميت كى بحث سے اس كا كيا تعلق ہے ؟

۴) حكومت كے ان پانچ ميدانوں ميں سے كس ميدان ميں ''دين'' حكمرانى كرسكتاہے ؟

۵) ان پانچ موارد ميں سے ہر ايك ميں دخالت دين كى حدود كى تشخيص كا طريقہ كيا ہے ؟

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

كہ دينى حكومت اپنے اہداف كو حاصل كر سكے گى _ يعنى اگر پيراگراف نمبر ۲ سے چشم پوشى كر ليں اور فقہاء كے علاوہ دوسرے افراد كو سياسى اقتدار دے ديں اور فقيہ كے كردار كو فقط نظارت ميں محدود كرديں تو كيسے اس بات كى ضمانت دى جاسكتى ہے كہ اسلامى نظام برقرار رہے گا اور صاحبان اقتدار '' ناظر فقيہ ''كے اصلاحى مشوروں پر عمل كريں گے_ جب تمام اجرائي امور ان افراد كے ہاتھ ميں ہوں جو شناخت اسلام ميں مہارت نہيں ركھتے تو طبيعى طور پر شريعت كے منافى كام بڑھتے جائيں گے _ تو كن اسباب كى رو سے انہيں فقہاء كى نظارت كا نتيجہ قرار ديا جائے گا_

تجربہ سے ثابت ہوچكا ہے كہ قانوں ساز اداروں ميں اساسى قانون ميں فقيہ كو فقط ناظر قرار دينا اس نظام كے شرعى ہونے كيلئے كافى نہيں ہے_ تاريخ گواہ ہے كہ يہ اساسى قانون جلد ہى ختم ہوگيا _ اور عملى طور پر ملك كے سياسى منظر سے فقہاء كى نظارت محو ہوگئي_ اس كى واضح مثال نہضت مشروطہ ہے(۱)

____________________

۱) تيرہويں ہجرى شمسى كے ابتدائي دس عشروں ميں ايران ميں داخلى ظلم و استبداد اور بيرونى استعمار كے خلاف روحانيت (علمائ) كى قيادت ميں ايك تحريك چلى تھى _ يہ قيام قاجار كى ظالمانہ حكومت كے خاتمہ يعنى ۱۳۲۳ سے ۱۳۸۴ تك جارى رہا_ اس تحريك كے راہنماؤں كا يہ اصرار تھا كہ قومى اسمبلى كے تمام قوانين شريعت اور دينى احكام كے ساتھ مشروط ہوں _ اسى لئے اس تحريك كو نہضت مشروطہ كے نام سے شہرت حاصل ہوئي _

اگر چہ يہ قيام علماء كى راہنمائي ميں شروع ہوا اور انہى كے زير سايہ آگے بڑھا_ اور تمام مجاہدين اور كاركنوں كى تمام تر كوشش يہى رہى كہ دين كى حاكميت قائم ہوجائے_ اور بيرونى طاقتوں كے تسلط كا خاتمہ ہوجائے_ ليكن چونكہ اسلامى حكومت كے تحقق اور شريعت كے نفاذ كيلئے ضرورى اقدامات نہيں كئے گئے اور نہ ہى مراجع تقليد كى آراء كا خيال ركھا گيا اسى لئے تھوڑے ہى عرصہ ميں جيسا كہ اوپر اشارہ ہوچكا ہے اس تحريك نے كاميابى حاصل كرنے كے بعد نہ صرف اپنے اسلامى افكار سے چشم پوشى كرلى _ بلكہ آيت اللہ شيخ فضل اللہ نورى جيسے افراد كو جام شہادت نوش كرنا پڑا اور روحانيت كو حكومتى اداروں سے بے دخل ہونا پڑا_

۲۴۱

خلاصہ :

۱) ''فقيہ عادل'' كيلئے ولايت كا عہدہ معاشرہ كے نقص اور ضعف كى تلافى كيلئے ہے_

۲)شيعہ فقہا معاشرتى امور كى سرپرستى كيلئے فقاہت كو ضرورى سمجھتے ہيں حتى كہ وہ فقہاء بھى جو فقيہ كى ولايت انتصابى كے معتقد نہيں ہيں_

۳) سياسى سرپرستى ميں فقاہت كى شرط كا فلسفہ يہ ہے كہ حكومتى اہداف اور امور امن و امان اور رفاہ عامہ ميں منحصر نہيں ہيں بلكہ مختلف اجتماعى روابط كو اسلامى احكام كے ساتھ ہم آہنگ كرنا بھى حكومتى اہداف كا ايك حصہ ہے_

۴) ولايت فقيہ كے بعض مخالفين نفاذ اسلام اور ولايت فقيہ كے درميان ملازمہ كے قائل نہيں ہيں_ ان كى نظر ميں معاشرہ كا انتظام سنبھالنا سياست دانوں كا كام ہے نہ كہ فقيہ كا _ فقيہ اصول اور كليات كا ماہر ہے _ جبكہ معاشرہ كا انتظام ہميشہ جزئيات اور تغيرات كے ساتھ پيوستہ ہے_

۵)ولايت فقيہ كے بعض دوسرے مخالفين دينى حكومت اور ولايت فقيہ كے درميان ملازمہ كے قائل نہيں ہيں _ كيونكہ اسلامى نظام'' فقيہ كى نظارت'' سے بھى ممكن ہے_

۶) ولايت فقيہ كے مخالفين نے چند بنيادى نكات سے غفلت برتى ہے ان ميں سے ايك نكتہ يہ ہے كہ سياسى سرپرستى كى واحد شرط ''فقاہت'' نہيں ہے تا كہ يہ كہا جائے كہ معاشرہ كى تدبير كيلئے كچھ ايسى خصوصيات كى بھى احتياج ہوتى ہے كہ جن ميںاصول اور كليات كا جان لينا كافى نہيں ہے_

۷) تاريخى تجربہ نے ثابت كيا ہے كہ فقط ''نظارت فقيہ '' مختلف معاشرتى امور اور سياست كو اسلام كے ساتھ ہم آہنگ نہيں كرسكتي_

۲۴۲

سوالات :

۱) كيا مختلف فقہى مسالك متفق ہيں كہ اسلامى معاشرہ كى سرپرستى كيلئے فقاہت شرط ہے؟

۲)سياسى ولايت ميں فقاہت كى شرط كا فلسفہ كيا ہے؟

۳) ان لوگوں كے پاس كيا دليل ہے جو معاشرہ كے سياسى امور كى سرپرستى ''فقيہ ''كا كام نہيں سمجھتے؟

۴)ان افراد كے كلام كا ماحصل كيا ہے جو ''ولايت فقيہ'' كى بجائے ''نظارت فقيہ ''كے قائل ہيں؟

۵)ان افراد كے شبہ كو كيسے رد كيا جاسكتا ہے جو سياسى ولايت كو فقيہ كى شان نہيں سمجھتے؟

۶)ان لوگوں كو كيا جواب ديا جاسكتا ہے جو'' ولايت فقيہ ''كى بجائے ''نظارت فقيہ ''كے قائل ہيں؟

۲۴۳

پچيسواں سبق :

رہبر كى شرائط اور خصوصيات

دوسرے سياسى مكاتب فكركے مقابلہ ميں اسلام كے سياسى تفكر كى امتيازى خصوصيات ميں سے ايك خصوصيت يہ ہے كہ يہ معاشرہ كے سياسى رہبر كيلئے مخصوص شرائط اور اوصاف كا قائل ہے_ آج كے رائج جمہورى نظاموں ميں محبوبيت اورووٹ حاصل كرنے كى صلاحيت كو بہت زيادہ اہميت دى جاتى ہے اورانہيں مكمل طور پر صاحبان اقتدار كے انفرادى كمالات اور خصوصيات پر ترجيح دى جاتى ہے_پروپيگنڈہ ، عوام پسند حركات اور پر كشش نعروں سے لوگوںكے اذہان كو ايك مخصوص سمت متوجہ كرنا اور پھر مقابلہ كے وقت لوگوں كى آراء كو اپنے حق ميں ہموار كرنا رائج جمہورى نظاموں ميں خصوصى اہميت ركھتاہے_

اس كے برعكس اسلام كے مطلوبہ سياسى نظام ميں وہى شخص ولايت كے منصب كا حامل ہوسكتا ہے جو مخصوص انفرادى كمالات اور فضائل كا حامل ہو_ يہاں ہم ان اوصاف ميں سے اہم ترين اوصاف كو ذكر كرتے ہوئے ان آيات و روايات كى طرف اشارہ كرتے ہيں جو ان اوصاف كے ضرورى ہونے كى شرعى ادلّہ ہيں_

۲۴۴

الف : فقاہت

اسلامى معاشرہ كے حاكم كى واضح اور اہم ترين صفت اس كا اسلام اور دين كى اعلى تعليمات سے مكمل طور پر آگاہ ہونا ہے_ گذشتہ سبق ميں ہم اسلامى معاشرہ كے حاكم ميں اس شرط كے وجود كے فلسفہ كى طرف اشارہ كر چكے ہيں_ اس صفت كى اہميت اس نكتہ سے واضح ہوجاتى ہے كہ زمانہ غيبت ميں شيعوں كے سياسى نظام كے تعارف كيلئے اس صفت سے مدد حاصل كى جاتى ہے_ اور اس نظام كو ''ولايت فقيہ'' پر استوار كہا جاتاہے_ حالانكہ اسلامى معاشرہ كے حاكم كيلئے اور بھى شرائط ہيں_ ہم اس نظام كو'' ولايت عادل'' ، ''ولايت مدبر'' يا ''ولايت مومن و متقى '' پر استوار بھى كہہ سكتے ہيں كيونكہ يہ تمام اوصاف بھى اسلامى حاكم كيلئے شرط ہيں _ ليكن دوسرے اوصاف كى نسبت اس وصف'' فقاہت '' كى اہميت كى وجہ سے اسے دوسرے اوصاف پر ترجيح ديتے ہيںاور اسلامى معاشرہ كى ولايت كو ''ولايت فقيہ'' كے نام سے موسوم كرتے ہيں_

فقاہت كى شرط كا ''ولايت فقيہ ''كى روائي ادلّہسے واضح ثبوت ملتا ہے_ ہم نمونہ كے طور پر ان روايات كے بعض جملوں كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

مقبولہ عمر ابن حنظلہ ميں ہے:

''من كان منكم ممّن قد روى حديثنا و نظر فى حلالنا و حرامنا و عرف احكامنا فليرضوا به حكما، فانّى قد جعلته عليكم حاكماً'' (۱)

تم ميں سے جس شخص نے ہمارى احاديث كى روايت كى ہو اورہمارے حلال و حرام ميں غور و

____________________

۱) وسائل الشيعہ ج ۲۷، ص ۱۳۶، ۱۳۷، باب ۱۱ ، از ابواب صفات قاضى ح ۱_

۲۴۵

فكر كيا ہو اور ہمارے احكام سے واقف ہو اسے اپنا حَكَم( فيصلہ كرنے والا) قراردو كيونكہ ميں نے اسے تم پر حاكم بنايا ہے_

مشہورہ ابى خديجہ ميں امام صادق فرماتے ہيں:

''ولكن انظروا الى رجل منكم يعلم شيئاً من قضائنا فاجعلوه بينكم'' (۱)

ليكن ديكھو تم ميں سے جو شخص ہمارى قضاوت سے واقف ہو اسے اپنے درميان ( قاضي) قراردو_

حضرت امير المومنين فرماتے ہيں:

قال رسول الله (ص) ''اللهم ارحم خلفائي'' ثلاث مرّات قيل يا رسول الله : و من خلفائك ؟ قال ''الذين ياتون من بعدى يروون حديثى و سنتي'' (۲)

پيغمبر اكرم (ص) نے تين دفعہ فرمايا: خدايا ميرے خلفا پر رحم فرما پوچھا گيا يا رسول اللہ آپكے خلفا كون ہيں ؟ تو فرمايا جو ميرے بعد آئيں گے اور ميرى حديث و سنت كى روايت كريں گے_

توقيع امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف ميںہے:

''اما الحوادث الواقعة فارجعوا فيها الى رواة احاديثنا'' (۳)

پيش آنے والے واقعات ميں ہمارى احاديث كے راويوں كى طرف رجوع كرو_

ولايت فقيہ كى ادلّہ روائي كى متعلقہ بحث ميں ہم نے ان روايات پر تفصلى بحث كى ہے اور ثابت كرچكے ہيں كہ '' رواة احاديث ''سے يہاں مراد صرف احاديث كو نقل كرنے والے نہيں بلكہ وہ علماء ہيں جو دين ميں

____________________

۱) كافى ج ۷ ، ص ۴۱۲، كتاب القضا و الاحكام باب كراھية الارتفاع الى قضاة الجور ،ح ۴_

۲) كمال الدين ،شيخ صدوق ،ج ۲ ، باب ۴۵ ، ح ۴_

۳) عيون اخبار الرضا ،ج ۲ ، ص ۳۷ ، باب ۳۱ ، ح ۹۴_

۲۴۶

سمجھ بوجھ ركھتے ہيں اور ائمہ معصومين كى احاديث كے مفاہيم اور دقيق اشارات سے آگاہ ہيں _ وگرنہ صرف نقل حديث مرجعيت اور ولايت كيلئے كافى نہيں ہے_

ب : عدالت

سياسى ولايت اور اجتماعى امور كى تدبير سے كم مرتبہ امور مثلاً امامت جماعت اور قضاوت ميں بھى شيعہ فقہا عدالت كو شرط سمجھتے ہيں _ پس اس سے انكار نہيں كيا جاسكتا كہ امت كى امامت جيسے عظيم امر جو كہ لوگوں كى سعادت اور مصالح كے ساتھ مربوط ہے ميں عدالت ايك بنيادى شرط ہے_

بہت سى آيات اور روايات سے استفادہ ہوتا ہے كہ فاسق اور ظالم كا اتباع جائز نہيں ہے_ قرآن مجيد ميں اللہ تعالى ہميں ظالموں كى طرف جھكاؤ سے منع كرتا ہے_

( ''و لا تَركَنوا إلى الّذين ظَلَموا فتمسَّكم النار و ما لَكُم من دون الله من أولياء ثمّ لا تُنصرون'' ) (۱)

اور ظالموں كى طرف جھكاؤ مت اختيار كرو ورنہ جہنم كى آگ تمھيں چھولے گى اور خدا كے علاوہ تمھارا كوئي سر پرست نہيں ہے پھر تمہارى مدد بھى نہيں كى جائے گي_

ظالموں كى طرف تمايل اور ان پر تكيہ كرناان كى دوستى اور اتباع سے وسيع تر ايك مفہوم ہے _ پس غير عادل امام اور رہبر كى نصرت ، مدد اور اطاعت بھى اس ميں شامل ہے _ ظالموں كى طرف جھكاؤ كى وضاحت كے ذيل ميں على بن ابراہيم ايك روايت نقل كرتے ہيں:

''ركون مودّة و نصيحة و طاعة'' (۲)

جھكاؤ سے مراد دوستى ، نصيحت اور اطاعت والا جھكاؤہے _

____________________

۱) سورہ ہود آيت ۱۱۳_

۲) تفسير على ابن ابراہيم قمى ج ۱ ، ص ۳۳۸ ، اسى آيت كے ذيل ميں_

۲۴۷

اللہ تعالى نے بہت سى آيات ميں لوگوں كومسرفين گناہگاروں اور ہوا پرست افراد كى اطاعت سے منع كيا ہے_ يہ تمام امور بے عدالتى كى علامت ہيں_

''و لا تُطيعوا أمرَ المُسرفين* الّذين يُفسدون فى الا رض و لا يُصلحون'' (۱)

اور زيادتى كرنے والوں كى اطاعت نہ كرو_ جو زمين ميں فساد برپا كرتے ہيں اور اصلاح نہيں كرتے_

''و لا تطع من اغفلنا قلبه عن ذكرنا و اتبع هواه و كان امره فرطاً'' (۲)

اور اس كى اطاعت نہ كرو جس كے قلب كو ہم نے اپنى ياد سے غافل كر ديا ہے وہ اپنى خواہشات كا تابع ہے اور اس كا كام سراسر زيادتى كرنا ہے_

بہت سى روايات ميں بھى امام اور رہبر كيلئے عدالت كو شرط قرار ديا گيا ہے_

حضرت امام حسين اہل كوفہ كو لكھتے ہيں:

''فلعمرى ما الامام الاّ الحاكم بالكتاب ، القائم بالقسط والدائن بدين الله'' (۳)

مجھے اپنى جان كى قسم امام وہى ہو سكتا ہے جو قرآن كے مطابق فيصلہ كرے، عدل و انصاف قائم كرے اور دين خدا پر عمل كرے_

____________________

۱) سورہ شعراء آيت ۱۵۱، ۱۵۲_

۲) سورہ كہف آيت ۲۸_

۳) ارشاد مفيد ج ۲ ، ص ۳۹_

۲۴۸

امام باقر محمد ابن مسلم كو مخاطب كر كے فرماتے ہيں:

'' ...والله يا محمّد، مَن اصبح من هذه الا مة لا امامَ له من الله (عزوجل) ظاهر عادل أصبح ضالاً تائهاً ، و ان ماتَ على هذه الحالة مات ميتة كفر و نفاق و اعلم يا محمّد، أنّ أئمة الجور وأتباعهم لمعزولون عن دين الله قد ضلّوا و ا ضلّوا'' (۱)

اے محمد، خدا كى قسم اس امت ميں سے جس شخص نے خدا كى طرف سے مقرر كردہ امام عادل كے بغير صبح كى اس نے گمراہى اور ضلالت كى حالت ميں صبح كى اور اگر وہ اس حالت ميں مرگيا تووہ كفر و نفاق كى موت مرا _ اے محمد، جان لو يقيناً فاسق اور فاجر ائمہ اور ان كا اتباع كرنے والے دين خدا پر نہيں ہيں_ وہ خود بھى گمراہ ہيں اور دوسروں كو بھى گمراہ كرتے ہيں_

معاويہ كے سامنے امام حسن خطبہ ديتے ہوئے فرماتے ہيں: جو شخص ظلم كرے اور عدالت كى راہ سے ہٹ جائے وہ مسلمانوں كا خليفہ نہيں ہوسكتا_

''انما الخليفة مَن سار بكتاب الله و سنة نبيّه (صلى الله عليه وآله و سلم) و ليس الخليفة من سار بالجور'' (۲)

يقيناخليفہ وہى ہے جو كتاب خدا اور سنت رسول (ص) پر عمل كرے_ جو ظلم و جور كى راہ پر چلے وہ خليفہ نہيں ہے_

يہ آيات و روايات جن كى طرف ہم نے بطور نمونہ اشارہ كيا ہے _ ان سے معلوم ہوتا ہے كہ فاسق و فاجر اور ظالم شخص امت كا شرعى حاكم نہيں ہوسكتا اور غير عادل كى ولايت ولايت طاغوت كى اقسام ميں سے ہے_

____________________

۱) كافى ج ۱، ص ۱۸۴، باب معرفة الامام و الرد عليہ ح ۸_

۲) مقاتل الطالبين، ابو الفرج اصفہانى ص ۴۷_

۲۴۹

ج : عقل ،تدبير ، قدرت ، امانت

مذكورہ بالا شرائط عقلائي پہلو كى حامل ہيں _ يعنى سرپرستى كا طبيعى تقاضا يہ ہے كہ انسان ان خصوصيات و شرائط كا حامل ہو اور لوگ ان صفات كو معاشرے كے منتظم كيلئے ضرورى سمجھتے ہيں_ آيات و روايات ميں بھى تاكيد كى گئي ہے كہ معمولى منصب پرفائز لوگوں كيلئے ان خصوصيات كا ہونا ضرورى ہے_

جبكہ معاشرہ كى امامت و رہبرى تو بہت بڑا منصب ہے_

ارشاد خداوندى ہے:

( ''لا تؤتوا السُفهائَ ا موالكم الّتى جعل الله لكم قياماً ) ''

ناسمجھ لوگوں كو اپنے وہ اموال نہ دو جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگى قائم كرركھاہے_(۱)

جب بادشاہ مصر سے حضرت يوسف نے كہا كہ مجھے وزير خزانہ بنادے تو اپنى دو خصوصيات ''علم اور امانت دارى ''كو ذكر كيا _ يہ اس بات كى دليل ہے كہ معاشرہ كے رہبر كو ان خصوصيات كا حامل ہونا چاہيے_

( '' قال اجعلنى على خزائن الارض انّى حفيظ عليم'' ) (۲)

كہا مجھے زمين كے خزانوں پر مقرر كردو ميں محافظ بھى ہوں اور صاحب علم بھي_

حضرت شعيبكى بيٹى نے جب حضرت شعيب كے اموال كى سرپرستى كيلئے حضرت موسى كا تعارف كروايا تو آپ (ع) كى خصوصيات ميں سے ''قدرت و توانائي ''اور '' امين'' ہونے كا خاص طور پر تذكرہ كيا _ لہذا معاشرہ كے سرپرست كو بطريق اولى ان خصوصيات كا حامل ہونا چاہيے_

'' قَالَت إحدَاهُمَا يَاأَبَت استَأجرهُ إنَّ خَيرَ مَن استَأجَرتَ

____________________

۱) سورہ نساء آيت ۵_

۲) سورہ يوسف آيت ۵۵_

۲۵۰

القَويُّ الأَمينُ'' (۱)

ان ميں سے ايك لڑكى نے كہا اے بابا جان اسے اجير ركھ ليجيئے _ كيونكہ آپ جسے بھى اجير ركھيں گے ان ميں سے سب سے بہتر وہ ہوگا جو صاحب قوت بھى ہو اور امانتدار بھي_

حضرت على تاكيد فرماتے ہيں كہ امت كے امور كى باگ ڈور كم عقل، نالائق اور فاسق افراد كے ہاتھ ميں نہيں ہونى چاہيئے_

''و لكنَّنى آسى أن يليَ أمر هذه الا ُمَّة سُفهاؤُ ها و فُجّارُها ، فيتَّخذوا مالَ الله دُوَلاً و عبادَه خَوَلاً والصالحين حَرباً والفاسقين حزباً'' (۲)

ليكن مجھے يہ غم رہے گا كہ اس امت كى حكومت بيوقوفوں اور فاجروں كے ہاتھ ميں آجائے گى ، وہ بيت المال پر قابض ہوجائيں گے، خدا كے بندوں كو غلام بناليں گے، نيك لوگوں سے لڑيں گے، اور بدكاروں سے دوستى كريںگے_

فضل ابن شاذان امام رضا سے روايت كرتے ہيں كہ ''امين امام'' كے نہ ہونے سے شريعت نابود ہوجاتى ہے_

''انّه لو لم يَجعل لَهُم ، اماماً قَيّماً أميناً حافظاً مستودعاً لَدَرَست الملَّة''

اگر ان كيلئے امين ، حفاظت كرنے والا اور امانتدار امام قرار نہ ديا جائے تو ملت محو ہوجائے_(۳)

____________________

۱) سورہ قصص آيت ۲۶_

۲) نہج البلاغہ ، مكتوب ۶۲_

۳) علل الشرائع شيخ صدوق ،باب ۱۸۲، ح ۹ ، ص ۲۵۳_

۲۵۱

حضرت امير المؤمنين حسن تدبير اور سياست كو اطاعت كى شرط قرار ديتے ہوئے فرماتےہيں :

''من حسنت سياستهُ وجبت طاعتُه''

جس كى سياست صالح ہو اس كى اطاعت واجب ہے_(۱)

''مَن احسن الكفاية استحق الولاية'' (۲)

جو حسن تدبير ركھتا ہو وہ حكومت كا حقدار ہے_

ايك روايت ميں حضرت امير المؤمنين لشكريوں كے امور كى سرپرستى كيلئے علم ، حسن تدبير ، سياست اور حلم و بردبارى جيسى صفات كو ضرورى قرار ديتے ہيں _

''و لّ أمر جنودك أفضلهم فى نفسك حلماً وأجمعهم للعلم و حسن السياسة و صالح الا خلاق'' (۳)

تيرے لشكر كى سرپرستى اور كمانڈ اس شخص كے ہاتھ ميں ہونى چاہيئے جو تيرے نزديك ان سب سے زيادہ بردبار ہو _ علم ، حسن سياست اور اچھے اخلاق كا حامل ہو_

ولايت اور رہبرى كى اہم ترين صفات اور شرائط ہم بيان كرچكے ہيں _ ليكن ايك اہم اور قابل توجہ بحث يہ ہے كہ كيا فقہ ميں اعلميت ( سب سے زيادہ فقہ كو جاننے والاہونا) بھى معاشرہ كى امامت اور ولايت كيلئے شرط ہے؟ اس بحث كو ''فقاہت'' كے شرط ہونے كو ثابت كرنے كے بعد ذكر كيا جاتا ہے_

____________________

۱) غرر الحكم آمدي،ج ۵ ، ص ۲۱۱، ح ۸۰۲۵_

۲) غرر الحكم ، صفحہ ۳۴۹ حديث ۸۶۹۲_

۳) دعائم الاسلام ج ۱ ص ۳۵۸_

۲۵۲

فقہ ميں اعلميت كى شرط

سياسى ولايت اور رہبرى كى شروط كى بحث كا ايك اہم نكتہ ''اعتبار اعلميت ''ہے _ يعنى كيا ضرورى ہے كہ ولى فقيہ شرعى احكام كے استنباط اور قوت اجتہاد ميں دوسرے تمام فقہاء سے زيادہ اعلم ہو؟ جامع الشرائط فقيہ مختلف ولايات كا حامل ہوتا ہے_ شرعى فتاوى دينا اس كى شان ہے ،منصب قضاوت پر فائز ہوتا ہے_ امور حسبيہ پر ولايت ركھتا ہے_ ولايت عامہ اور حاكميت كا حامل ہوتا ہے_ سوال يہ ہے كہ ان تمام ولايات ميں فقہى اعلميت شرط ہے؟ فقيہ كے بعض امور و اوصاف ميں اعلميت كى شرط زيادہ كار آمد ہے_ مثلاً منصب قضاوت كى نسبت فتوى دينے اور مرجعيت كيلئے فقہ ميں اعلميت كى شرط زيادہ مناسبت ركھتى ہے كيونكہ اگر منصب قضاوت كيلئے اعلميت كو شرط قرار ديں تو اس كا لازمہ يہ ہے كہ تمام اسلامى ممالك ميں صرف ايك ہى قاضى ہو_ اور يہ عسر و حرج اور شيعوں كے امور كے مختل ہونے كا باعث بنے گا_ اب بحث اس ميں ہے كہ كيا ''ولايت تدبيرى ''اور '' سياسى حاكميت'' قضاوت كى مثل ہے يا فتوى كى مثل ؟ اور كيا فقہى اعلميت اس ميں شرط ہے؟

اگر ہم روايات كو ان كى سند كے ضعف و قوت سے قطع نظر كركے ديكھيں تو ان سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ '' اعلميت شرط'' ہے _ كتاب سليم ابن قيس ہلالى ميں حضرت اميرالمؤمنين سے روايت كى گئي ہے كہ :

''ا فينبغى أن يكونَ الخليفة على الا ُمّة الاّ اعلمهم بكتاب الله و سنّة نبيّه و قد قال الله : ( ( أفمن يَهدى الى الحقّ أحقّ أن يتّبع أمّن لا يَهدّى إلاّ أن يُهدي ) ) (۱)

____________________

۱) كتاب سليم بن قيس ہلالي، ص ۱۱۸_

۲۵۳

امت پر خليفہ وہى ہو سكتا ہے جو دوسروں كى نسبت كتاب خدا اور سنت رسول (ص) كو زيادہ جانتا ہو _ كيونكہ اللہ تعالى فرماتا ہے : كيا جو شخص حق كى طرف ہدايت كرتا ہے زيادہ حقدار ہے كہ اس كا اتباع كيا جائے يا وہ شخص جو ہدايت كرنے كے قابل نہيں ہے بلكہ يہ كہ خود اس كى ہدايت كى جائے_

برقى اپنى كتاب ''المحاسن'' ميں رسولخدا (ص) سے روايت كرتے ہيں:

''مَن أمّ قوماً و فيهم أعلم منه أو أفقه منه لَم يَزَل أمرهم فى سفال الى يوم القيامة'' (۱)

جب كسى قوم كا حاكم ايسا شخص بن جاتا ہے كہ اس قوم ميں اس سے زيادہ علم ركھنے والا اور اس سے بڑا فقيہ موجودہو تو قيامت تك وہ قوم پستى كى طرف گرتى رہے گے_

معاويہ كے سامنے امام حسن خطبہ ديتے ہوئے فرماتے ہيں:

''قال رسول الله (ص) :'' ما ولّت أُمة أمرها رجلاً قطّ و فيهم من هو أعلم منه الاّ لم يزل أمرهم يذهب سفالاً حتّى يرجعوا الى ما تركوا'' (۲)

رسولخدا (ص) نے فرمايا ہے كہ جب امت اپنى حكومت ايسے شخص كے حوالہ كرديتى ہے جس سے زيادہ علم ركھنے والے موجو د ہوں تو وہ امت ہميشہ پستى اور زوال كى طرف بڑھتى رہتى ہے _ يہاں تك كہ اسكى طرف پلٹ آئيں جسے انہوں نے ترك كيا تھا_

____________________

۱) المحاسن برقى ،ج ۱ ، ص ۹۳ ، ح ۴۹_

۲) غاية المرام ،بحراني، ص ۲۹۸_

۲۵۴

اس مسئلہ كے حل كيلئے درج ذيل نكات پر غور كرنا ضرورى ہے_

۱_ شيعہ فقہاء كے اقوال كا مطالعہ كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ فتوى ، تقليد اور مرجعيت كے علاوہ كسى اور امر ميں اعلميت شرط نہيں ہے_ جنہوں نے اعلميت كو شرط سمجھا ہے انہوں نے اسے مرجعيت اور تقليد ميں منحصر قرار ديا ہے_آيت اللہ سيد كاظم طباطبائي كتاب ''العروة الوثقى '' ''جو كہ بعد والے فقہاء كيلئے ہميشہ سے قابل توجہ رہى ہے '' ميں كہتے ہيں:

لا يعتبر الأعلمية فى ما أمره راجع إلى المجتهد إلاّ فى التقليد ; و أمّا الولاية فلا يعتبر فيها الأعلمية (۱)

مجتہدكے ساتھ مربوط امور ميں سے تقليد كے علاوہ كسى ميں اعلميت شرط نہيں ہے، ولايت ...ميں بھى اعلميت شرط نہيں ہے_

وہ فقہاء جنہوں نے كتاب العروة الوثقى پر حواشى تحرير فرمائے ہيں انہوں نے بھى اس مسئلہ كو قبول كيا ہے_ بنابريں آيت اللہ حائرى ، آيت اللہ نائينى ، آيت اللہ ضياء عراقى ، آيت اللہ كاشف الغطائ، سيد ابوالحسن اصفہانى ، آيت اللہ بروجردى ، سيد احمد خوانسارى ، امام خمينى ، آيت اللہ ميلانى ، آيت اللہ گلپايگانى ، آيت اللہ خوئي ، آيت اللہ محسن حكيم اور آيت اللہ محمود شاہرودى (رحمة اللہ عليہم) بھى حاكم شرعى كيلئے فقہى اعلميت كو شرط قرار نہيں ديتے_

شيخ انصارى (رحمة اللہ عليہ) بھى اختلاف فتوى كے وقت اعلميت كو معتبر سمجھتے ہيں حاكم شرع كى ولايت ميں اسے شرط قرار نہيں ديتے_

____________________

۱) العروة الوثقى ،مسئلہ ۶۸، اجتہاد و تقليد_

۲۵۵

آپ فرماتے ہيں :

''و كذا القول فى سائر مناصب الحكم كالتصرّف فى مال الإمام و تولّى أمر الأيتام و الغيّب و نحو ذلك; فإنّ الاعلمية لا تكون مرجّحاً فى مقام النصب و إنّما هو مع الاختلاف فى الفتوى ''(۱)

اور يہى قول تمام مناصب حكم ميں جارى ہے_ مثلا مال امام ميں تصرف ، يتيموں اور غائب كے امور كى سرپرستى و غيرہ ، كيونكہ ان سب مناصب ميں اعلميت كو ترجيح حاصل نہيں ہے البتہ جب فتاوى ميں اختلاف ہوجائے تو اس وقت اعلميت كو ترجيح دى جائے گى _

صاحب جواہر كہتے ہيں : نصب ولايت كے متعلق جو نصوص اور روايات ہيں ان ميں فقاہت كى شرط ہے نہ كہ اعلميت كى _

''بل لعل اصل تأهل المفضول و كونه منصوباً يجرى على قبضه و ولايته مجرى قبض الافضل من القطعيات التى لاينبغى الوسوسة فيها، خصوصاً بعد ملاحظة نصوص النصب الظاهرة فى نصب الجميع الموصوفين بالوصف المذبور لا الافضل منهم، والا لوجب القول '' انظروا الى الافضل منكم'' لا ''رجل منكم'' كما هو واضح بأدنى تأمّل'' (۲)

____________________

۱) التقليد ،شيخ انصارى ،ص ۶۷_

۲) جواہر الكلام ،ج ۴۰، ص ۴۴، ۴۵_

۲۵۶

۲_اجتماعى امور كى تدبير كيلئے حكم كى شناخت كے علاوہ موضوع كى پہچان اورشناخت بھى ضرورى ہے _ دوسرے لفظوں ميں معاشرے كے امور كے انتظام اورتدبير كيلئے فقط جزئي احكام اور فقہى فروعات كے استنباط كى صلاحيت كافى نہيں ہے _ بنابريں ممكن ہے ان روايات ميں موجود لفظ اعلميت سے مراد يہ ہو كہ حكم اور موضوع كى شناخت سميت ہر لحاظ سے توانائي اور صلاحيت ركھتا ہو، يعنى وہ امت جس ميں ايك ايسا شخص موجود ہو جو انتظامى امور كے سلسلہ ميں اعلم ہو اور علمى اور عملى صلاحيت كے لحاظ سے دوسروں سے آگے ہو، اسے چھوڑ كر اپنے امور اس شخص كے حوالہ كرنا جو اعلم نہيں ہے كبھى بھى سعادت و كاميابى كا باعث نہيں بن سكتا_

۳_فقاہت اور اجتہاد كے مختلف پہلو ہيں; ممكن ہے ايك فقيہ عبادات كے باب ميں اعلم ہو ، دوسرا معاملات ميں اور تيسرا اجتماعى اور سياسى امور ميں اعلم ہو_

حكم اور موضوع كى مناسبت كا تقاضا يہ ہے كہ اگر اعلميت كى شرط پر مصرّ رہيں تو پھر اجتماعى اور سياسى امور ميں اعلميت ''سياسى رہبر اور ولى ''كيلئے معيار ہونى چاہيے كيونكہ صرف عبادات يا معاملات ميں اعلميت'' سياسى ولايت'' كيلئے ترجيح كا باعث نہيں بنتى _بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ معاشرتى اور سياسى امور ميں ''اعلميت'' معيار ہے _ مثلا اس روايت ميں '' فيہ'' كى ضمير اعلميت كو حكومت ميں محدود كر رہى ہے_

''ايها الناس، انّ احق الناس بهذا الامر ا قواهم عليه، و اعلمهم با مر الله فيه'' (۱)

اے لوگو حكومت كرنے كا سب سے زيادہ حقدار وہ ہے جو اس پر سب سے زيادہ قادر ہو اور اس حكومت كے سلسلہ ميں دوسروں كى نسبت امر خدا كو زيادہ جانتا ہو _

____________________

۱) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۳_

۲۵۷

خلاصہ :

۱) اسلام كے سياسى نظام كى ايك خصوصيت يہ ہے كہ وہ سياسى اقتدار كيلئے ذاتى اور انفرادى خصوصيات اور كمالات كا بھى قائل ہے_

۲) اسلامى معاشرہ كے حاكم كى اہم ترين صفت ''فقاہت'' اور اسلام كے بارے ميں مكمل اور عميق آگاہى ہے_

۳) ولايت فقيہ كى ادلّہ روائي سے ''فقاہت كى شرط'' كا صاف پتہ چلتا ہے_

۴)بہت سى نصوص ميں شيعوں كو احاديث كى روايت كرنے والے راويوںكى طرف رجوع كرنے كى ترغيب دلائي گئي ہے كہ جس سے مراد فقہاء ہيں، كيونكہ فقاہت اور تفكر كے بغير فقط احاديث كا نقل كرنا مرجعيت كيلئے كافى نہيں ہے_

۵)اسلامى حاكم كى دوسرى اہم ترين شرط اسكا ''عادل'' ہوناہے_

۶)قرآن مجيد ميں اللہ تعالى نے مختلف آيات كے ذريعہ لوگوں كو ان افراد كى اطاعت كرنے سے منع كيا ہے جن ميں كسى لحاظ سے بے عدالتى ہو_

۷) ادلّہ روائي سے معلوم ہوتا ہے كہ فاسق و فاجر كى ولايت ، ''ولايت طاغوت ''كى قسم ہے_

۸)رہبرى اور حاكميت كى بعض صفات اور شرائط مثلا ً عقل ، حسن تدبير اور صلاحيت، عقلائي پہلو كى حامل ہيں_

۹) شرائط رہبرى كى مباحث ميں سے ايك اہم بحث اعلميت كى شرط كا معتبر ہونا ہے_

۱۰) اكثرفقہا كى نظر ميں اعلميت فتوى كى شرط ہے_ ليكن فقيہ كى دوسرى ذمہ داريوں مثلا قضاوت اور امور حسبيہ كى سرپرستى ايسے امور كيلئے اعلميت شرط نہيں ہے_

۱۱) معاشرتى امور كى تدبير كيلئے حكم كى شناخت كے علاوہ موضوع كى شناخت ، سياسى حالات سے آگاہى اور داخلى و عالمى روابط كے متعلق معلومات بھى ضرورى ہيں لہذا بعض روايات ميں جو اعلميت كو شرط قرار ديا گيا ہے اسے صرف حكم كى شناخت كے استنباط ميں محدود نہيں كيا جاسكتا_

۲۵۸

سوالات :

۱) سياسى ولايت ميں '' فقاہت كى شرط''پر كيا دليل ہے؟

۲) سياسى ولايت ميں عدالت كى شرط كى بعض ادلّہ كو اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_

۳)استنباط ميں اعلميت ،شرعى ولايت كى كونسى قسم كے ساتھ زيادہ مناسبت ركھتى ہے؟

۴)قضاوت كے منصب كيلئے اعلميت شرط نہيں ہے _كيوں؟

۵)كيا ''سياسى ولايت ''ميں ''اعلميت'' شرط ہے؟

۲۵۹

چھبيسواں سبق:

رہبر كى اطاعت كى حدود

اس سبق كا اصلى موضوع يہ ہے كہ ولايت فقيہ پر مبنى نظام ميں لوگ كن امور ميں رہبر كى اطاعت كرنے كے پابند ہيں اور ولى فقيہ كى اطاعت كا دائرہ كس حد تك ہے؟ كيا بعض امور ميں اس كى مخالفت كى جاسكتى ہے؟ اور كيا اس كے فيصلے يا نظريئے كو رد كرسكتے ہيں؟اس سوال كے جواب سے پہلے دو تمہيدى مطالب كى طرف توجہ دينا ضرورى ہے_ پہلا يہ كہ ولايت فقيہ پر مبتنى سياسى نظام ميں رہبر كا كيا مقام ہے؟ اس كى وضاحت كى جائے_ اس كے بعد مختلف قسم كى مخالفتوں اور عدم اتباع كى تحقيق كى جائے_

نظام ولايت ميں رہبر كا مقام

قرآن كريم ميں اللہ تعالى خود كو ولى يكتا اور يگانہ و بلا اختلاف حاكم قرار ديتا ہے_ وہ انسانوں پر حقيقى ولايت ركھتا ہے، اور قانون گذارى اور امر و نہى كا حق فقط اسى كو حاصل ہے ارشاد خداوندى ہے:

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367