اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت10%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143863 / ڈاؤنلوڈ: 3616
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

جبكہ اس كے ساتھ اموال زكوةبھى ہوں در حقيقت ايك معاشرہ كى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے ہے _ ''جزيہ'' جو كہ ذمى كفار سے ليا جاتا ہے اور اسى طرح زرعى محصولات بھى ايك بڑى درآمد كوتشكيل ديتے ہيں_ يہ تمام امور اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ اس قسم كے تمام مالى منابع ايك معاشرہ كى ضروريات كو پورا كرنے او رحكومت كو تشكيل دينے كيلئے ہيں _

ان ميں سے دوسرا مورد وہ احكام ہيں جو اسلامى نظام كى حفاظت اور اسلامى سرزمين اور ملت مسلمہ كے استقلال كے دفاع كيلئے بنائے گئے ہيں انہى دفاعى احكام ميں سے ايك ، قرآن مجيد كى اس آيت شريفہ''و اعدوالهم ما استطعتم من قوة و من رباط الخيل'' (۱) ميں بيان كيا گيا ہے اور مسلمانوں كو كہا جا رہا ہے كہ وہ ہر قسم كے خطرہ سے پہلے اپنى فوجى و دفاعى قوت كو مہيا كرليں اوراپنى حفاظت كا سامان پہلے سے تيار ركھيں _

اس قسم كا ايك اور نمونہ اسلام كے عدالتى اور انسانى حقوق كے متعلق احكام ميں ديكھا جاسكتاہے_ اس قسم كے بہت سارے احكام يا''ديات'' ہيں كہ جنہيں ليكر حق داروں كو دينا ہوتاہے يا''حدود و قصاص''ہيں كہ جنہيںاسلامى حاكم كے زير نظر اجرا كيا جاتاہے اور اس قسم كے امور ايك حكومت كى تشكيل كے بغير قابل عمل نہيں ہيں _ يہ تمام قوانين حكومت كے ساتھ مربوط ہيں اور حكومتى قوت كے بغير ايسے اہم امور كو كوئي انجام نہيں دے سكتا _(۲)

اسلام كا سياسى فلسفہ اور سياسى فقہ

يہ تسليم كرلينے كے بعد كہ اسلام سياسى ابعاد كا حامل ہے اور اس كى بعض تعليمات حكومت اور سياست كے

____________________

۱) سورہ انفال آيت ۶۰_

۲) لايت فقيہ (امام خمينى ) ص ۲۰ تا ۲۵_

۲۱

ساتھ مخصوص ہيں _ يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ اسلام كا سياسى تفكر كن شعبوں پر مشتمل ہے ؟

مجموعى طور پر اسلام كے سياسى تفكر كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _ ايك حصے كو '' اسلام كا سياسى فلسفہ '' اور دوسرے كو '' اسلام كى سياسى فقہ '' كا نام ديتے ہيں _ گذشتہ سبق ميں اشارہ كرچكے ہيں كہ ہر سياسى مكتب فكر كو چند بنيادى سوالات كا جواب دينا ہوتا ہے _ ايسى مباحث كو '' سياسى فلسفہ '' كا نام ديا جاتا ہے _ بنابريں اسلام كے سياسى تفكر كو بھى ايك خاص علمى بنياد پر استوار ہونا چاہيے اور دنيائے سياست كے ان بنيادى سوالات كے مناسب اور مخصوص جوابات دينا چا ہيے _

اسلام كے سياسى تفكر كا دوسرا حصہ يعنى ''سياسى فقہ '' يا '' فقہ الحكومة '' حكومت كى نوعيت اور اسكى شكل و صورت ، حكمرانوں كے مقابلے ميں عوام كے حقوق ، حكومت اور حكمرانوں كے سلسلہ ميں عوام كى ذمہ دارياں ، مذہبى اقليتوں كے حقوق اور اسلامى حكوت (دار الاسلام)كے غير اسلامى حكومتوں ( دارالكفر) كے ساتھ تعلقات جيسى ابحاث پر مشتمل ہے باالفاظ ديگر پہلا حصہ علمى و بنيادى سياست كى مباحث پر مشتمل ہے_ جبكہ يہ حصہ عملى سياست اور معاشرے كے انتظامى و اجرائي امور كے زيادہ قريب ہے _

۲۲

سبق كا خلاصہ :

۱) حكومت اور رياست كے بغير معاشرہ ،نامكمل اور زوال پذير ہے _

۲) اسلام ، حكومت كو ايك اجتماعى او رمعاشرتى ضرورت سمجھتا ہے اسى لئے اس نے لوگوں كو تشكيل حكو مت كى طرف دعوت نہيں دى بلكہ حكومت كيسى ہونى چاہيئے ؟ اس بارے ميں اپنى رائے دى ہے _

۳) اسلام كو سياست سے جدا سمجھنا اس دين حنيف كى حقيقت كو مسخ كردينے كے مترادفہے _

۴) اسلام كے لئے سياسى اور اجتماعى پہلو كا وجود دو طريقوں سے ثابت كيا جاسكتاہے _

الف:روش استقرائي ( طرز جستجو )اور اسلامى تعليمات كا مطالعہ ، اسلام كے سياسى اور اجتماعى پہلو كے اثبات كى بہترين راہ ہے_

ب: اسلام كا آخرى اور مكمل دين ہونا اس كے اجتماعى اور سياسى پہلو كے وجود كى دليل ہے _

۵) اسلام كے بعض قوانين ايك جائز دينى حكومت كے بغير قابل اجرا نہيں ہيں _

۶) اسلام كے سياسى تفكر كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _

الف: اسلام كا سياسى فلسفہ

ب: اسلام كى سياسى فقہ

۲۳

سوالات:

۱) امير المومنين نے خوارج كو جو جواب ديا تھا اس سے ''ضرورت حكومت ''كے سلسلہ ميں كيا حاصل ہوتاہے؟

۲) اسلام نے لوگوں كو اصل حكومت كى تشكيل كى ترغيب كيوں نہيں دلائي ؟

۳) سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے كے اثبات كيلئے طرز جستجو يا روش استقرائي سے كيا مراد ہے ؟

۴) اسلام كے كامل اور خاتم الاديان ہونے سے اس كے سياسى اور اجتماعى امور ميں دخيل ہونےپر كيسے استدلال كيا جاسكتا ہے ؟

۵) كونسے احكام شرعى كا اجراء اسلامى حكومت كى تشكيل پر موقوفہيں ؟

۶) اسلام كے مالى احكام كس طرح اسلام كے سياسى پہلو پر دليل بن سكتے ہيں ؟

۷) اسلام كا سياسى تفكر كنحصوں پر مشتمل ہے ؟

۲۴

تيسرا سبق:

دينى حكومت كى تعريف

انسان كى اجتماعى زندگى كى طويل تاريخ مختلف قسم كى حكومتوں اور رياستوں كے وجودكى گواہ ہے جنہيں مختلف خصوصيات كى بنياد پر ايك دوسرے سے جدا كيا جاسكتاہے اور انہيں مختلف اقسام ميں تقسيم كيا جاتاہے_ مثلاً استبدادى و غير استبدادي،جمہورى و غير جمہوري، استعمارى و استعمار كا شكار حكومتيں ، سوشلسٹ و غير سوشلسٹ، ترقى يافتہ و پسماندہ حكومتيں و غيرہ ان ميں سے ہر تقسيم ايك مخصوص معيار كى بنياد پر ہے _ اسى طرح ايك تقسيم يہ بھى ہوسكتى ہے : دينى حكومت اور سيكولر حكومت _

دينى حكومت ايك اصطلاح ہے جو دو چيزوں سے مركب ہے، حكومت اور دين كيساتھ اس كى تركيب ، اصلى اور بنيادى سوال يہ ہے كہ اس تركيب ميں ''دينى ''سے كس مطلب كا افادہ مقصودہے ؟ دين اور حكومت كى تركيب سے كيا مراد ہے؟ ايك حكومت كے دينى يا غير دينى اور سيكولر ہونے كا معيار كيا ہے؟ ان سوالات كے جواب دينے سے پہلے بہتر ہے حكومت كى تعريف كى جائے _

۲۵

حكومت اور رياست كے معاني

حكومت(۱) اور رياست(۲) گذشتہ اور موجودہ ادوار ميں متعدد معانى ميں استعمال كئے گئے ہيں ان ميں سے بعض معانى مترادف ہيں اور بعض اوقات انہيں مختلف معانى ميں استعمال كيا گيا ہےمثلا جديد دور ميں رياست كامعنى حكومت سے وسيع تر ہے جديد اصطلاح كے مطابق رياست نام ہے ان افراد كے اجتماع كا جو ايك مخصوص سرزمين ميں ساكن ہوں اور ايسى حكومت ركھتے ہوں جو ان پر حاكميت كرتى ہو_ اس تعريف كے مطابق رياست چار اجزا كے مجموعہ كا نام ہے_آبادي،سرزمين ،حكومت، حاكميت_ اس اصطلاح كى بناپر حكومت اور رياست دو مترادف اصطلاحيں نہيں ہيں بلكہ حكومت رياست كا ايك حصہ ہے اور رياست كو تشكيل دينے والے چار عناصر ميں سے ايك عنصر حكومت ہے جو ان اداروں كے مجموعہ كا نام ہے جو ايك دوسرے كے ساتھ مرتبط ہوكر ايك مخصوص سرزمين ميں بسنے والى انسانى آبادى پر حكمرانى كرتى ہے_بنابريں ايرانى رياست اور فرانسيسى رياست و غيرہ انكى حكومتوں سے وسيع تر مفہوم ہے _

ليكن اگر رياست سے مراد وہ منظم سياسى طاقت ہو جو امر و نہى كرتى ہے تو يہ حكومت كے مترادف ہوجائے گى اور اس تعريف كى بناپر رياست صرف كا بينہ اور قوّہ مجريہ كا نام نہيں ہے كہ جن كا كام قانون نافذ كرناہے بلكہ تمام حكومتى ادارے مثلاً قانون ساز ادارے، عدليہ، فوجى اور انتظامى ادارے سب اس ميں شامل ہيں _ در اصل اس تعريف كى رو سے رياست اور حكومت اس قوت حاكمہ كا نام ہے جس ميں معاشرہ پر حاكم سياسى اقتدار كے حامل تمام ادارے شامل ہيں _ اس وقت زير بحث حكومت و رياست سے مراد يہى دوسرا معنى ہے كہ اس معنى ميں حكومت اور رياست جب دين سے مركب ہوتى ہے تو اس كا قابل قبول معنى كونسا ہے_

____________________

۱) Government

۲) State

۲۶

دينى حكومت كى مختلف تعريفيں

دينى حكومت كى مختلف تعريفيںكى جاسكتى ہيں _ دوسرے لفظوں ميں دينى حكومت كى مختلف اور متنوع تفسيريں بيان كى جاسكتى ہيں و اضح سى بات ہے كہ ان ميں سے كچھ تعريفيں صحيح نہيں ہيں ہم اجمالى طور پر ان ميں سے بعض كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

۱) دينى حكومت اس حكومت كو كہتے ہيں جس ميں ايك مخصوص دين كے معتقدين اور ماننے والے سياسى اقتدار كے حامل ہوں معاشرے كى سياسى طاقت اور سياسى ادارے كسى خاص دين كے پيرو افراد_ جيسے پيروان اسلام يا مسيحيت_كے ہاتھوں ميں ہوںاس تعريف كى بناپردينى حكومت يعنى ديندارافراد كى حكومت_

۲) دينى حكومت يعنى وہ حكومتكہ جس ميں سياسى اقتدارايك مخصوص طبقہ بنام'' رجال دين'' يعني( مذہبى افراد) كے ہاتھ ميں ہو اس تعريف كى بنا پر چونكہ سياسى اقتدار كے حامل مختلف ادارے مذہبى افراد كے ہاتھ ميں ہوتے ہيں اسى لئے اسے دينى حكومت كہتے ہيں _

اس دينى حكومت كى افراطى شكل و صورت يورپ ميں قرون وسطى ميں ملاحظہ كى جاسكتى ہے _ بعض اديان مثلاً كيتھولك مسيحيت ميںمذہبى افراد خاص تقدس اور احترام كے حامل ہوتے ہيں اور عالم الوہيت و ربوبيت اور عالم انسانى كے درميان معنوى واسطہ شمار ہوتے ہيں _ قرون وسطى ميں يورپ ميں جو حكومت قائم ہوئي تھى وہ مذكورہ دينى حكومت سے سازگار تھى _ عيسائيوں كے مذہبى افراد اور كليسا كے پادرى خدا اور مخلوق كے درميان واسطہ ہونے كے ناطے مخصوص حق حاكميت كے حامل سمجھے جاتے تھے _ يہ حق حاكميت خدا كى حكومت اور ربوبيت كى ايك كڑى تھى اور يہ تصور كيا جاتا تھا كہ مذہبى افراد چونكہ ملكوت كے ساتھ مربوط و متصل ہيں لہذا قابل تقديس و احترام ہيں ، اسى لئے ان كے فيصلے، تدابير اور كلام، وحى الہى كى طرح مقدس، ناقابل اعتراض

۲۷

اور غلطيوں سے مبرّا ہيں _

۳) دينى حكومت وہ حكومت ہے جو ايك خاص دين كى تبليغ ، دفاع اور ترويج كرتى ہے _ اس تعريف كے مطابق ايك دينى حكومت كا معيار ايك مخصوص دين كا دفاع اور تبليغ ہے _ بنابريں ايران ميں صفويوں اور قاچاريوں كى حكومت، سعودى عرب ميں وہابيوں كى حكومت اور افغانستان ميں طالبان كى حكومت مذكورہ دينى حكومت كے مصاديق ہيں كيونكہ يہ حكومتيں اپنے سياسى اقتدار كو ايك خاص دين كے دفاع، تبليغ اور ترويج كيلئے استعمال كرتى ہيں_

۴)دينى حكومت وہ حكومت ہے جو سياست اور معاشرے كے انتظامى امور ميں ايك خاص دين كى مكمل مرجعيت و حاكميت كو تسليم كرتى ہو يعنى اپنے مختلف حكومتى اداروں ميں ايك خاص دين كى تعليمات كى پابند ہو اور كوشش كرتى ہو كہ قانون بنانے ، عوامى كاموں، معيشت اور اجتماعى امور ميں دينى جھلك نظر آئے اور ان تمام حكومتى امور ميں دينى تعليمات كا ر فرما ہوں اور انہيں دين سے ہم آہنگ كرے _ دينى حكومت كا يہ معنى در حقيقت'' دينى معاشرہ ''كى تشكيل كا خواہاں ہے يعنى حكومت يہ چاہتى ہے كہ ثقافتى ، اقتصادي، سياسى اور فوجى و عسكرى تمام اجتماعى امور دينى تعليمات كى بنياد پر تشكيل پائيں _ دينى معاشرہ كو دين كى فكر ہے اور يہ فكر ہمہ گير ہے كسى خاص جہت ميں محدود نہيں ہے_ دينى معاشرہ چاہتاہے كہ اس كے تمام امور دين كے ساتھ ہم آہنگ اور ہم آوازہوں_ اس معنى كى بنياد پر دينى حكومت دين كيلئے ايك خاص شان و اہميت كى قائل ہے _ اُس كى تعليمات كو اپنے لئے نصب العين قرار ديتى ہے_ دين كى حاكميت اور سياسى و انتظامى ميدانوںميں اس كى اہميت كو تسليم كرتى ہے اور معاشرتى و سماجى امور ميں دينى تعليمات كى دخالت كا معيار ان امور ميں دين كا وارد ہونا ہوگا_ دوسرے لفظوں ميں سياسى اجتماعى اور سماجى امور ميں دين كى دخالت كى حدود مكمل طور پر دينى

۲۸

تعليمات كے تابع ہيں اور جس شعبہ ميں جتنى مقدار دين نے اپنا كوئي پيغام ديا ہو اور اپنى تعليمات پيش كى ہوں اس حكومت كيلئے وہ پيغام اور تعليمات قابل قبول ہوتى ہيں _

مذكورہ چار تعريفوں كا مختصر تجزيہ

مذكورہ چار تعريفوں ميں سے چوتھى تعريف دينى حكومت كى ماہيت و حقيقت كے ساتھ زيادہ مناسبت ركھتى ہے _ كيونكہ ان ميں سے بعض تعريفيں دينى حكومت كے صرف ايك پہلو كى طرف اشارہ كرتى ہيں _ صرف حكمرانوں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كا كسى خاص دين كا معتقد ہونا اس حكومت كے دينى ہونے كى علامت نہيں ہے _ آج دنيا كے اكثر ممالك كہ جن كى حكومتيں غير دينى ہيں ان كے بہت سارے سركارى عہديدار انفرادى طور پردين دار ہيں ، ليكن ان كا ايك خاص دين كے ساتھ لگاؤ اور تديّن ان كى حكومت كے دينى ہونے كى دليل نہيں ہے _ پہلى تعريف ميں جو'' حكومت كے دينى ہونے كا معيار'' بيان كيا گيا ہے وہ چوتھى تعريف ميں بھى شامل ہے_ كيونكہ دين كى حاكميت اور مختلف سركارى اداروں ميں دينى تعليمات كى فرمانروائي كا لازمہ ہے كہ سركارى حكام نظرياتى اور عملى طور پر اس دين كے معتقد ہوں _ اسى طرح تيسر ى تعريف ميں بيان شدہ معيار بھى چوتھى تعريف ميں مندرج ہے كيونكہ جو حكومت دينى معاشرے كى تشكيل اور سماجى و اجتماعى امور ميں دينى تعليمات كے نفوذ كى كوشش كرتى ہے اور حكومتى امور اور قوانين كو دين كے ساتھ ہم آہنگ كرنے كى خواہاں ہوتى ہے _ وہ فطرى طور پر اس دين كا دفاع كرے گى اور اس كى تبليغ و ترويج كيلئے كوشش كرے گى _

دينى حكومت كى دوسرى تعريف كى بنياد'' مذہبى افراد'' كے بارے ميں ايك خاص تصور پر ہے كہ بہت سے اديان، مذہبى شخصيات اور دينى علماء كے متعلق ايسا تصور نہيں ركھتے _ مثال كے طور پر اسلام كسى طرح بھى علماء

۲۹

دين كيلئے كسى خاص طبقاتى حيثيت كا قائل نہيں ہے اور انہيں مقام عصمت كا حامل نہيں سمجھتا_ اس لئے دينى حكومت كى ايسى تفسير كى كوئي راہ نہيں نكلتى _ علاوہ بر ايں صرف علماء دين اور مذہبى افراد كے ہاتھ ميں حكومتى عہدوں كا ہونا اس حكومت كے دينى ہونے كى دليل نہيں ہے بلكہ حقيقت وہى ہے جو چوتھى تعريف ميں بيان كى گئي ہے كہ مختلف اجتماعى و سماجى امور اور حكومتى اداروں ميں دينى تعليمات كا اجرا ہى حكومت اور سياست كو دينى رنگ دے سكتاہے_

قابل ذكر ہے كہ دينى حكومت سے ہمارى مراد كسى خاص دين سے متصف حكومت نہيں ہے _ بلكہ دنيا كے جس گوشہ ميں كوئي حكومت دينى تعليمات كے آگے سر تسليم خم كردے، اس كى فرمانروائي كو قبول كرلے اور اپنے اداروں ميں دينى تعليمات رائج كردے وہ دينى حكومت كہلائے گى چاہے وہ دين آسمانى اديان ميں سے ہو يا ايسے اديان ميں سے ہو جن كے متعلق ہم مسلمانوں كا عقيدہ ہے كہ ان كا تعلق وحى الہى سے نہيں ہے بلكہ شرك و تحريف سے آلودہ ہيں _

نيز توجہ رہے كہ اگر دين سے ہمارى مراد دين اسلام ہو تو پھر دينى حكومت وہى حكومت ہوگى جو اسلامى تعليمات كے مطابق ہو اور اسلامى تعليمات سے مراد وہ دينى اصول و ضوابط ہيں جو معتبر دينى منابع سے ماخوذ ہوں بنابريں كوئي فرق نہيں ہے كہ وہ دينى تعليمات ،وحى اور معتبر روايات سے حاصل ہوئي ہوں يا معتبر عقلى ادلّہ سے_ البتہ چونكہ اسلامى تعليمات كا اصلى اور اہم ترين منبع قرآن و سنت ہيں اسى لئے دينى حكومت اور سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے پر بحث و تحقيق كرنے والے بہت سے افراد كى ''دينى تعليمات''سے مراد وہ تعليمات ہيں جو قرآن اور احاديث سے حاصل ہوئي ہوں_

۳۰

خلاصہ :

۱ لفظ ''حكومت اور رياست ''كے متعدد معانى ہيں كہ جن ميں سے بعض معانى مترادف ہيں_

۲ دور حاضر كى جديد اصطلاح ميں رياست كى جو تعريف كى جاتى ہے ، حكومت اس كا ايك شعبہ اور حصہ ہے _

۳ دينى حكومت كى مختلف تعريفيں كى جاسكتى ہيں يعنى دين اور رياست كى تركيب سے متفاوت معانى پيش كئے جاسكتے ہيں _

۴ اجتماعى اور سياسى زندگى ميں دين كى حاكميت كو قبول كرنے والى حكومت كو دينى حكومت كہنا دين و رياست كى مجموعى حقيقتكے ساتھ زيادہ مطابقت ركھتى ہے_

۵ اس سبق ميں دينى حكومت كى جوچوتھى تعريف كى گئي ہے وہ ايك جامع تعريف ہے اور اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ ايك حكومت كے دينى ہونے كا معيار يہ ہے كہ معاشرے كے مختلف سياسى شعبوں ميں دينى تعليمات حاكم ہوں_

۶ مختلف سياسى شعبوں ميں دين كى حاكميت كو تسليم كرنے والى حكومت كو دينى حكومت كہنا ، ايك ايسى عام تعريف ہے جو كسى مخصوص دين كے ساتھ مربوط نہيں ہے_

۳۱

سؤالات

۱ دور حاضر ميں رياست كى تعريف كيا ہے ؟

۲ كونسى تعريف كے مطابق رياست اور حكومت دو مترادف اصطلاحيں ہيں ؟

۳ كونسى تعريف ميں دينى حكومت دين داروں كى حكومت كے مترادف ہے ؟

۴ دينى حكومت كى كونسى تعريف جامع اور قابل قبول ہے ؟

۵ باقى تعريفوں كى نسبت دينى حكومت كى چوتھى تعريف كونسے امتيازات كى حامل ہے ؟

۳۲

چوتھا سبق:

سياست ميں حاكميت دين كى حدود

گذشتہ سبق سے واضح ہوگيا كہ حكومت كے دينى ہونے كا معيار يہ ہے كہ حكومت اور سياست كے مختلف شعبوں ميں دينى تعليمات كى حكمرانى ہو _وہ چيز جو دينى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے جدا اور ممتاز كرتى ہے ، وہ معاشرے كے سياسى اور ديگر امورميں دين كى حاكميت كو تسليم كرنا ہے_ اس بحث ميں بنيادى سوال يہ ہے كہ اس حاكميت كا دائرہ كس حد تك ہے اور دين كس حد تك دنيائے سياست وحاكميت ميں دخيل ہے ؟

دوسرے لفظوں ميں صاحبان دين كيلئے سياست كے كن شعبوں اور حكومت كے كن اداروں ميں دين اور اس كى تعليمات كو بروئے كار لانا ضرورى ہے ؟ اور كونسے شعبوں ميں دين كى حاكميت سے بے نياز ہيں ؟ ايك دينى حكومت كے كونسے پہلو مدنى اور بشرى ہيں اور كونسے پہلو دينى تعليمات سے ماخوذ ہونے چاہيں؟

اس اہم ترين مسئلہ كى تحقيق سے پہلے حكومت اور سياست كے مختلف پہلوؤں اور شعبوں كى شناخت ضرورى ہے _ كيونكہ حكومت كے متعلق قابل بحث پہلوؤں سے مكمل آگاہى ، ان تمام پہلوؤں ميں دين كى دخالت كے سمجھنے ميں مددگار ثابت ہوسكتى ہے _

۳۳

حكومت اور اس كے سياسى پہلو:

ہم نے حكومت اور رياست كى تعريف كى تھى : '' وہ منظم سياسى قوت جو امر و نہى اور ايك مكمل نظام كے اجرا كى حامل ہو '' اس سياسى قوت كے متعلق مختلف جہات قابل بحث ہيں _ اگر چہ يہ سياسى ابحاث مختلف اور ايك دوسرے سے جدا ہيںليكن باہمى ربط كى حامل ہيں _ حكومت سے متعلق مختلف سياسى پہلوؤں كو درج ذيل صورت ميں بيان كيا جاسكتا ہے _

۱_ حكومتيں مختلف قسم كى ہوتى ہيں ، جمہورى ، شہنشاہى اور نيم شہنشاہى و غيرہ _ بنابريں حكومت سے متعلق بنيادى مباحث ميں سے ايك يہ طے كرناہے كہ كون سا سياسى طرز حكومت معاشرہ پر حاكم ہے_

اسى طرح صاحبان اقتدار كى انفرادى خصوصيات اور شرائط كا تعيّن اسكى بنيادى بحث شمار ہوتى ہے_ سياسى نظام كى نوعيتكى تعيين ہر معاشرے كے سياسى اقتدار كے حامل اداروں كى ضرورى خصوصيات كى ايك حد تك پہچان كروا ديتى ہے _

۲_ ہر حكومت كا ايك حكومتى ڈھانچہ ہوتاہے يعنى ہر حكومت مختلف اداروں اور قُوى سے تشكيل پاتى ہے _ حكومتى ڈھانچے كى تعيين ، اس كے اداروں كے آپس ميں ارتباط كا بيان اور ہر ادارے كے اختيارات اور فرائض كى وضاحت ، سياست اور حكومت كے اہم ترين مسائل ميں سے ہيں _

۳_ ہر رياست اور حكومت قدرت واقتدار(۱) كى حامل ہوتى ہے _ يعنى امرو نہى كرتى ہے ، قوانين بناتى ہے اور انكےصحيح اجرا پر نظارت كرتى ہے _ ايك اہم بحث يہ ہے كہ اس اقتدار كى بنياد كن اہداف اور اصولوں پر ہونى چاہيئے ؟ مختلف حكومتى ادارے جو عوام كو امرو نہى اور روك ٹوك كرتے ہيں وہ كن اصولوں كى بنياد پر

____________________

۱) Authority

۳۴

ہونے چاہيں؟ مثال كے طور پر ايك سوشلسٹ نظريات كى حامل حكومت جو كہ ماركسزم كى تعليمات كى قائل اور وفادار ہے اپنے اقتدار ميں ماركسزم كى تعليمات كے تابع ہے_ اس قسم كى حكومتوں ميں قانون گزارى ، اقتصادى پروگرام ،آئينى اور ثقافتى تعلقات اور بين الاقوامى معاملات ميں اس مكتب كے اصولوں پرخاص توجہ دى جاتى ہے _ جس طرح كہ '' لبرل جمہورى '' حكومتوں ميں ''جيسا كہ آج كل يورپ اور آمريكہ ميں قائم ہيں '' اقتدار كى بنياد لبرل ازم كے اصولوں پر قائم ہے _ ان ممالك ميں جمہوريت اور اكثريت كى رائے بطور مطلق نافذ العمل نہيں ہوتى بلكہ لبرل ازم اسے كنٹرول كرتا ہے _ آمريت ، اقتدار اور حكومت كا دائر ہ كار ان اصولوں پر قائم ہوتا ہے جنہيں لبرل ازم كے تابع بنايا جاتا ہے _

۴_ ہر حكومت كى كچھ ذمہ دارياں ہوتى ہيں جنہيں وہ اپنے عوام كى فلاح و بہبود كيلئے انجام ديتى ہے_ حكومت سے مربوط مباحث ميں سے ايك بحث يہ بھى ہے كہ يہ وظائف اور فرائض كيا ہيں ؟ اور عوام كے مقابلے ميں حكومت كى ذمہ دارياں كيا ہيں ؟

۵_ اپنے افعال اور فرائض كى انجام دہى اور حكومت كى سياسى قدرت كا سرچشمہ اقتدار اعلى(۱) ہوتاہے_

ہر حكومت اپنے اقتدار اعلى كا سہارا ليتے ہوئے مختلف ميدانوں ميں اپنى سياسى قوت كو بروئے كار لاسكتى ہے اور اندرون و بيرون ملك اپنے سياسى ارادوں كو عملى جامہ پہنا سكتى ہے _ ہر حكومت اپنے اقتدار اعلى كى بناپر مختلف احكام نافذ كرتى ہے _ پس سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ كيا اس كا اقتدار اعلى جائز اور مشروع ہے يا نہيں ؟ دوسرے الفاظ ميں كيا وہ حكومت كرنے كا حق ركھتى ہے يا نہيں ؟

سياسى فلسفہ ميں مشروعيت(۲) و غير مشروعيت كى بحث اہم ترين مباحث ميں سے شمار ہوتى ہے _ كوئي بھي

____________________

۱) Sovereignty

۲) Legitimacy

۳۵

سياسى مكتب اس سے بے نياز نہيں ہے _ كيونكہ حكومتى اركان اور ادارے ، اور تمام سياسى فيصلے اور تدابير اپنى حقانيت اور مشروعيت، حكومت كے حق حاكميت اور مشروعيت سے حاصل كرتے ہيں _ ہر حكومت ميں يہ صلاحيت اور قدرت ہونى چاہيے كہ وہ اپنى مشروعيت كا معقول طريقے سے دفاع كرسكتى ہو _

اس مختصر اور اجمالى وضاحت سے روشن ہوجاتا ہے كہ حكومت و رياست كے متعلق كم ازكم پانچ اساسى محور قابل بحث ہيں _ اب ديكھنا يہ ہے كہ ان پانچ محوروں ميں سے كن ميں ''دين'' حاكميت كى صلاحيت ركھتا ہے ؟ دوسرے لفظوں ميں ان پانچ ميدانوں ميں كس ميدان ميں دينى حكومت ، دين كے تابع ہے ؟ كيا يہ دعوى كياجاسكتا ہے كہ ان ميں سے بعض ميں دين كو دخل اندازى كرنے كا حق نہيں ہے اور دين كى حاكميت صرف ان ميں سے بعض ميں ہے ؟

حاكميت دين كى حدود

سياست ميں دين كے دخيل ہونے كى بحث دو لحاظ سے قابل تحقيق ہے :

الف: كس حد تك دين كا دخيل ہونا ممكن ہے_

ب : كس حد تك دين عملا دخيل ہے_

پہلى بحث سے مراد يہ ہے كہ سياست كے كونسے پہلو دين كے محتاج ہيں؟ اور كہاں پر دين اپنى تعليمات سے نواز سكتا ہے اور اپنى حاكميت كو بروئے كار لاسكتا ہے ؟ يہاں اصلى اور بنيادى سوال يہ ہے كہ كيا ممكن ہے دين ان پانچوں ميدانوں ميں دخيل اور معاشرہ كى سياسى زندگى كے تمام شعبوں ميں اس كى راہنمائي كرے ؟ يا يہ كہ بعض شعبوں كا تعلق صرف لوگوں سے ہے اور دين كيلئے سزاوار نہيں ہے كہ وہاں اظہار نظر كرے ؟

دوسرى بحث سے مراد ايك تو اس بات كى تعيين ہےكہ دين مبين اسلام نے سياست كے پانچ ميدانوں

۳۶

ميں سے كن ميں عملى طور پر اظہار نظر كياہے؟ دوسرا يہ كہ ان ميدانوں ميں دين كى تعليمات كس حد تك ہيں ؟ سياست كے مختلف پہلوؤں ميں دين كى دخالت كے امكان كے متعلق ہمارے نزديك دين كى حاكميت كى راہ ميں كوئي شئے مانع نہيں ہے_اور دين ان تمام ميدانوں ميں اپنا پيغام دے سكتا ہے _ منطقى لحاظ سے ضرورى نہيںہے كہ دين كى دخالت سياست كے بعض شعبوں تك محدودرہے بلكہ ممكن ہے دين ،حكومت كے تمام شعبوں ميں اپنى رائے كا اظہار كرے بعنوان مثال سياسى ڈھانچہ ،حكومت كى نوعيت، دينى معاشرے كے حكمرانوں كى شرائط ،خصوصاً رہبر و قائد كى خصوصيات جيسے ابواب ميں دين اپنى تعليمات پيش كرسكتاہے_ دين حكومت كى مشروعيت اور حق حاكميت كے متعلق اپنى رائے كا اظہار كرسكتا ہے _ كونسى حاكميت مشروع ہے اور كونسى نامشروع ،اسكى تعيين كرسكتا ہے ، حكّام پر عوام كے حقوق ، لوگوں كے سلسلہ ميں حكمرانوں كے وظائف اور عوام پر حكمرانوں كے حقوق جيسے امور ميں اپنى رائے دے سكتا ہے _ سياسى اقتدار كے حامل افراد كے لئے اہداف اور اقدار معين كرسكتا ہے تا كہ وہ معيّنہ اصولوں اور اہداف كے مطابق اپنى سياست كو آگے بڑھائيں اورمعاشرتى امور كو انجام ديں _

بنابريں از نظر امكان''سياست ميں دين كى حاكميت '' بلا قيد و شرط ہے اور اسے سياست كے چند مخصوص شعبوں ميں محدود كرنا صحيح نہيں ہے _

يہ تسليم كرلينے كے بعد كہ سياست كے مختلف شعبوں ميں منطقى طور پر دين كى دخالت ممكن ہے ، بعض افراد قائل ہيں كہ مختلف حكومتى شعبوں ميں دين كى حاكميت نہيں ہونى چاہيئے _ ان كى نظر ميں بعض ادلّہ كى روسے دين خود كو سياست سے دور ركھے_ اور ان تمام امور كو لوگوں ، عقل اور تجربہ كے حوالے كردے _ آنے والے اسباق ميں ہم دينى حكومت كے ان منكرين كى ادلہ پر بحثكريں گے _

۳۷

پس يہ مان لينے كے بعد كہ سياست سے متعلق ان پانچ ميدانوں ميں دين كى دخالت ممكن ہے دوسرے مرحلے كو مورد بحث قرار ديتے ہيں _ حكومتى اور سياسى امور ميں دين كى دخالت كس حد تك ہے ؟ اس كى تعيين صرف ايك طريقے سے ممكن ہے اور وہ بلاواسطہ دين اور پيام الہى كى طرف رجوع كرنا ہے _ اسلام كى اجتماعى اور سماجى تعليمات كى طرف عالمانہ اور باريك بينى سے رجوع كرنا ، اس حقيقت كى نقاب كشائي كرتا ہے كہ مذكورہ پانچ ميدانوں ميں سے دين نے كس ميں اپنى راہنمائي و ہدايت سے نوازاہے اور كس حد تك گفتگو كى ہے _ اور كونسے امور كو لوگوں اور ان كى عقل و تدبير پر چھوڑا ہے _ دين كى طرف رجوع اور اس كے مطالب كے ادراك سے واضح ہوجاتا ہے كہ دين نے كس شعبہ ميں اور كس حد تك اپنى حاكميت كو ثابت كيا ہے اور ان كے بارئے ميں اظہار نظر كيا ہے اور كن امور كو لوگوں كے حق انتخاب اور رائے پر چھوڑا ہے كسى بھى صورت ميں دين كى تعليمات كى طرف رجوع كرنے سے پہلے سياست كے بعض شعبوں ميں دين كو دخل اندازى سے نہيں روكا جاسكتا يا بعض امور ميں اس كے اظہار نظر اور دخالت كودين كے اہداف اور اسكى شان كے منافى قرار نہيں ديا جاسكتا _

۳۸

خلاصہ:

۱) حكومت اور سياست كے پانچ پہلو ہيں جو ايك دوسرے كے ساتھ مربوط ہيں _

۲) سياسى نظام كى نوعيت كى تعيين ، نيز اس كے اداروں كى كيفيت و كميت ،سياست كى اہم ترين مباحث ہيں _

۳) اہم ترين سياسى مباحث ميں سے ايك يہ ہے كہ ہر حكومت كا اقتدار كن اصولوں اور اہداف كى بنياد پر ہونا چاہيے _

۴) ہر حكومت اپنى قانونى حكمرانى كى بنياد پر احكام جارى كرتى ہے _

۵) سياسى اقتدار كى مشروعيت كى بحث حاكميت كے جائز اور ناجائز ہونے كى بات كرتى ہے اور اس بنيادى سوال كا جواب ديتى ہے كہ حكومت كا حق كن افراد كو حاصل ہے _

۶)'' دين'' سياست كے مذكورہ بالا پانچ بنيادى ميدانوں ميں اپنى رائے كا اظہار كرسكتا ہے _

۷) سياسى امور ميں دين كى حاكميت دومرحلوں ميں قابل بحث و تحقيق ہے _

الف: كونسے سياسى موارد ميں دين كى دخالت ممكن ہے ؟

ب: كن موارد ميں اسلام نے عملى طور پر اپنى رائے كا اظہار كيا ہے ؟

۸) دوسرے سوال كا جواب صرف دينى تعليمات كى طرف رجوع كرنے سے ہى مل سكتا ہے _ تا كہ واضح ہوسكے كہ حكومتى امور ميں اسلام نے كس حد تك دخالت كى ہے _

۳۹

سوالات :

۱) حكومت اور سياست سے مربوط پانچ مباحث كو اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_

۲) اقتدار سے كيا مراد ہے ؟ اور اس كے متعلق كونسى بحث اہم ہے ؟

۳) مشروعيت كى بحث كيا ہے ؟ اورقانونى حاكميت كى بحث سے اس كا كيا تعلق ہے ؟

۴) حكومت كے ان پانچ ميدانوں ميں سے كس ميدان ميں ''دين'' حكمرانى كرسكتاہے ؟

۵) ان پانچ موارد ميں سے ہر ايك ميں دخالت دين كى حدود كى تشخيص كا طريقہ كيا ہے ؟

۴۰

پانچواں سبق:

دينى حكومت كے منكرين

''دينى حكومت'' ايك سياسى نظريہ ہے ، جو مختلف سياسى و حكومتى امور ميں دين كى حكمرانى كوتسليم كرنے سے وجود ميں آتا ہے _ دينى حكومت وہ حكومت ہے جو دين كے ساتھ سازگار ہوتى ہے اور كوشش كرتى ہے كہ دين كے پيغام پر لبيك كہے جو انتظامى امور ، اجتماعى و سماجى روابط اور ديگر حكومتى امور ميں دين كى باتوں پركان دھرے اور معاشرتى امور كو دينى تعليمات كى روشنى ميں منظم كرے _يہ تمام بحث گذر چكى ہے _

دين اور حكومت كى تركيب اور دينى حكومت كے قيام كے ماضى ميں بھى مخالفين رہے ہيں اور آج بھى موجود ہيں _ اس مخالفت سے ہمارى مراد دين اور حكومت كى تركيب كا نظرياتى انكار ہے اور دينى حكومت كے خلاف سياسى جنگ اور عملى مخالفت ہمارى بحث سے خارج ہے_ دينى حكومت كے منكرين وہ افراد ہيں جو نظريہ'' تركيب دين و حكومت ''اور مختلف سياسى امور ميں دين كى حكمرانى كو منفى نگاہ سے ديكھتے ہيں اور اس كاانكار كرتے ہيں_ اس انكار كى مختلف ادلّہ ہيں اختلاف ادلّہ كے اعتبار سے دينى حكومت كے مخالفين و منكرين كى ايك مجموعى تقسيم بندى كى جاسكتى ہے _

دينى حكومت كے مخالفين تين گروہوں ميں تقسيم ہوتے ہيں_

۴۱

۱_ وہ مسلمان جو معتقد ہيں كہ اسلام صرف انسان كى معنوى اور اخلاقى ہدايت كيلئے آيا ہے اور فقط انسان كو آداب عبوديت سيكھاتا ہے ان افراد كے بقول اسلام نے سياسى امور ميں كسى قسم كى مداخلت نہيں كى ہے _ دين اور سياست دو الگ الگ چيزيں ہيں اور دينى اہداف سياست ميں دين كى دخالت كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتے _

دينى حكومت كے مخالفين كايہ گروہ سياسى امور ميں دين كى حكمرانى كا كلى طور پر انكار نہيں كرتا بلكہ اس كا اصرار يہ ہے كہ اسلامى و دينى تعليمات ميں سياسى پہلو مفقود ہے _ يہ افراد اس بات كو تسليم كرتے ہيں كہ اگر دينى تعليمات ميں تشكيل حكومت كى دعوت دى گئي ہوتى اور دين نے مختلف سياسى شعبوں اور حكومتى امور ميں عملى طور پر راہنمائي كى ہوتى تو دينى حكومت كى تشكيل ميں كوئي ركاوٹ نہ ہوتى _ بنابريں دينى حكومت كے قائلين كے ساتھ ان كاجھگڑا فقہى و كلامى ہے _ نزاع يہ ہے كہ كيا دينى تعليمات ميں ايسے دلائل اور شواہد موجود ہيں جوہميں دينى حكومت كى تشكيل اور دين و سياست كى تركيب كى دعوت ديتے ہيں ؟

۲_ دينى حكومت كے مخالفين كا دوسرا گروہ ان افراد پر مشتمل ہے ، جو تاريخى تجربات اور دينى حكومتوں كے قيام كے منفى نتائج كى وجہ سے دين اور سياست كى جدائي كے قائل ہيں _ ان كى نظر ميں دينى حكومت كى تشكيل كے بعض تاريخى تجربات كچھ زيادہ خوشگوار نہيں تھے _ اس كى واضح مثال قرون وسطى ميں يورپ ميں قائم كليسا كى حكومت ہے كہ جس كے نتائج بہت تلخ تھے _

اس نظريہ كے قائلين كى نظر ميں دين و سياست كى تركيب دين كے چہرہ كو بگاڑ ديتى ہے اور اس سے لوگوں كا دين كو قبول كرنا خطرے ميں پڑجاتاہے_ لہذا بہتر ہے كہ دين كو سياست سے جدا ركھا جائے_ چاہے سياست اور حكومت كے سلسلہ ميں دينى تعليمات موجود ہى كيوں نہ ہوں _ بنابريں اس گروہ كے بقول بحث

۴۲

اس ميں نہيں ہے كہ دين سياسى پہلو كا حامل نہيں ہے بلكہ يہ افراد سياست اور حكومت ميں دينى تعليمات كى دخالت ميں مصلحت نہيں سمجھتے _ ان كا عقيدہ ہے كہ اگر چہ دين سياسى جہات كا حامل ہى كيوں نہ ہو تب بھى دينى حكومت كى تشكيل كے منفى اور تلخ نتائج كى وجہ سے اس قسم كى دينى تعليمات سے ہاتھ كھينچ لينا چاہيے اور سياست كو خالصة ً لوگوں پر چھوڑ ديناچاہيے _

۳_ دينى حكومت كے مخالفين كا تيسرا گروہ وہ ہے جو امور سياست ميں دين كى مداخلت كاكلى طور پرمخالف ہے _ يہ افراد سياسى اور حكومتى امور ميں دين كى حكمرانى كو تسليم نہيں كرتے _ ان كى نظر ميں بات يہ نہيں ہے كہ كيا حكومتى امور او رمعاشرتى نظام كے متعلق دين كے پاس تعليمات ہيں يا نہيں ؟ بلكہ ان كى نظر ميں دين كو اجتماعى اور سياسى امو رسے الگ رہنا چاہيے اگر چہ اجتماعى اور سياسى امور كے متعلق اس كے پاس بہت سے اصول اور تعليمات ہى كيوں نہ ہوں _ اس نظريہ كى بنياد پر اگر دين، سياسى امور ميں اپنے لئے حكمرانى كا قائل ہو اور اس نے دينى حكومت تشكيل دينے كا كہا ہو ،اور مختلف سياسى امور ميں اپنى تعليمات پيش بھى كى ہوں ليكن عملى طور پر سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو تسليم نہيں كيا جا سكتا كيونكہ سياست او رمعاشرتى نظام مكمل طو ر پر انسانى اور عقلى امر ہے او ردين اس ميں مداخلت كى صلاحيت نہيں ركھتا اور اس ميں دين كو دخيل كرنے كا واضح مطلب، انسانى علم و دانش اور تدبر وعقل سے چشم پوشى كرنا ہے_يہ افراد در حقيقت سيكو لر حكومت كى حمايت كرتے ہے اور مكمل طور پر سيكولرازم كے وفادار ہيں _

سياست سے اسلام كى جدائي

جيسا كہ اشارہ ہو چكا ہے : دينى حكومت كے مخالفين كا پہلا گروہ يہ اعتقاد ركھتا ہے كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں مسلمانوں كو دينى حكومت كى تشكيل كى ترغيب نہيں دلائي _ان كا زور اس بات پر ہے كہ

۴۳

آنحضرت (ص) مدينہ ميں كئي سال رہے ليكن كيا آپ (ص) نے وہاں حكومت تشكيل دى ؟اگر مان بھى ليا جائے كہ حكومت قائم كى تھى سوال يہ ہے كہ كيا اس حكومت كے قيام كا سرچشمہ فرمان الہى اور دعوت دينى تھى ؟ يا نہيں بلكہ اس كا سرچشمہ صرف عوام تھے ،اور تشكيل حكومت كے سلسلہ ميں اسلامى تعليمات خاموش تھيں ؟

تاريخى حقيقت يہ ہے كہ ہجرت مدينہ كے بعد آنحضرت (ص) نے اطراف مدينہ كے قبائل كو اسلام كى دعوت دى تھى اورايك اتحاد تشكيل ديا كہ جس كا مركز مدينة النبى تھا_

اس سے مسلمانوں نے ہميشہ يہى سمجھا كہ آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں حكومت بنائي تھي_ نبوت اور ہدايت وراہنمائي كے ساتھ ساتھ مسلمانوں كے سياسى امور كى باگ ڈور بھى آپ (ص) كے ہاتھ ميں تھى آپ (ص) كے اس اقدام كا سرچشمہ وحى اور الہى تعليمات تھيں او رآنحضرت (ص) كى سياسى ولايت كا سرچشمہ فرمان الہى تھا:

''( النبى اولى بالمؤمنين من انفسهم ) ''

نبى تمام مومنين سے ان كے نفس كى نسبت زيادہ اولى ہے_ (سورہ احزاب آيت۶)

''( انّا انزلنااليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بمااريك الله ) ''

ہم نے آپ پر برحق كتاب نازل كى ہے تاكہ آپ لو گوں كے در ميان حكم خدا كے مطابق فيصلہ كريں_(سورہ نساء آيت ۱۰۵)

ان دو آيات ميں الله تعالى نے مسلمانوں پر آنحضرت (ص) كو ولايت عطا فرمائي ہے اور آپ (ص) كو حكم دياہے كہ قرآن نے آپ كو جو سيكھاياہے اس كے مطابق لوگوں كے در ميان فيصلہ كريں_ اسى طرح دوسرى آيات ميں مسلمانوں كو حكم دياہے كہ وہ آپ (ص) كى اطاعت كريں_

''( اطيعواالله واطيعواالرسول ) ''

خدا اور رسول كى اطاعت كرو (سورہ نساء آيت۵۹)

۴۴

( ''فلا و ربّك لا يؤمنون حتى يحكّموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوافى انفسهم حرجامّما قضيتَ و يسلّمواتسليماً'' )

پس آپ(ص) كے پروردگار كى قسم يہ كبھى بھى صاحب ايمان نہيں بن سكتے جب تك آپ كو اپنے باہمى اختلاف ميں منصف نہ بنائيں اور پھر جب آپ فيصلہ كرديں تو اپنے دل ميں كسى تنگى كا احساس نہ كريں_ اور آپ كے فيصلہ كے سامنے سرا پا تسليم ہوجا ہيں_(سورہ نساء آيت ۶۵)

اس مشہور و معروف تفسير كى بنياد پر صدر اسلام ميں مسلمانوں كے دينى حكومت كے تشكيل دينے كا سرچشمہ دين اور اس كى تعليمات تھيں اور يہ اقدام مكمل طور پر دينى اور مشروع تھا اور در حقيقت يہ دين كے پيغام پر لبيك تھا_ ليكن آخرى عشروں ميںبعض سنى اور بہت كم شيعہ مصنفين نے اس معروف تفسير اور نظريہ كى مخالفت كى ہے_(۱)

مدينہ ميں آنحضرت (ص) كى اس سياسى حاكميت كى يہ افراد كچھ اور تفسير كرتے ہيں_ بعض تو سرے سے ہى اس كے منكر ہيں اور اس بات پر مصر ہيں كہ آنحضرت (ص) صرف دينى رہبر و قائد تھے اور انہوں نے حكومتى و سياسى امور كبھى بھى اپنے ہاتھ ميں نہيں لئے تھے_ جبكہ اس كے مقابلہ ميں بعض افراد معتقد ہيں كہ آنحضرت (ص) سياسى ولايت بھى ركھتے تھے ليكن يہ ولايت خدا كى طرف سے عطا نہيں ہوئي تھى بلكہ اس كا سرچشمہ رائے عامہ تھي_ اورلوگوںنے ہى حكومت آپ كے سپرد كى تھي_ پس دين نے اپنى تعليمات ميں تشكيل حكومت كى دعوت نہيں دى ہے اور رسولخدا (ص) كى حكومت خالصةًايك تاريخى اور اتفاقى واقعہ تھا لہذا اسے ايك دينى دستور كے طور پر نہيں ليا جاسكتا_

ہم اس كتاب كے دوسرے باب ميں جو اسلام كے سياسى تفكر كى بحث پر مشتمل ہے مذكورہ نظريوں كے

____________________

۱) اس بحث كا آغاز ۱۹۲۵ عيسوى ميں مصرى مصنف على عبدالرزاق كى كتاب '' الاسلام و اصول الحكم'' كے چھپنے كے بعد ہوا_

۴۵

بارے ميں تفصيلى گفتگو كريں گے اور دينى حكومت كے مخالف اس گروہ كى ادلہ كا جواب ديں گے_

دينى حكومت كا تاريخى تجربہ :

پہلے اشارہ كر چكے ہيں كہ دينى حكومت كے مخالفين كا دوسرا گروہ دينى حكومت كى تشكيل كے منفى اور تلخ نتائج پر مصر ہے اور يہ افراد اپنے انكار كى بنياد انہى منفى نتائج كو قرار ديتے ہيں_ ان كى ادلّہ كا محور دينى حكومت كے قيام كے تاريخى تجربات كا تنقيدى جائزہ ہے_

ان افراد كے جواب كے طور پر ہم چند نكات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

۱_ انسانى تاريخ مختلف قسم كى دينى حكومتوں كى گواہ ہے_ ان ميں سے بعض اپنى تاريخى آزمائشےوں ميں كامياب نہ ہوسكيں ليكن بعض انبيائ اور اوليا الہى كى حق اور عدل و انصاف پر مبنى حكومتيں دينى حكومت كى تاريخ كا سنہرى ورق ہيں_ مدينہ ميں آنحضرت (ص) كى دس سالہ قيادت و رہبرى اور حضرت امير المؤمنين كى تقريباً پانچ سالہ حكومت، دينى حكومت كى بہترين مثاليں ہيں_ جن كى جزئيات اور درخشاں دور تاريخ كے ہر محقق اور مورّخ كے سامنے ہے_ اس دور ميں عدل ، تقوى اور فضيلت كى حكمرانى كے روح پرور جلوے ايسے خوشگوار اور مسرت انگيز ہيں كہ نہ صرف مسلمانوں كيلئے بلكہ پورى انسانيت كيلئے قابل فخر و مباہات ہيں_ بنابريں كلى طور پر تمام دينى حكومتوں كو يكسر رد نہيں كيا جاسكتا _ بلكہ علمى انصاف كا تقاضا يہ ہے كہ ہر تاريخى تجربہ كا باريك بينى سے جائزہ ليا جائے_

۲_ دينى حكومت كے بھى مراتب اور درجات ہيں_ عالم اسلام اور عيسائيت كى بعض دينى حكومتيں اگر چہ بہت اعلى اور مطلوب حد تك نہيں تھيں ليكن اپنے دور كى غير دينى حكومتوں سے بہت بہتر تھيں_ عالم اسلام كى

۴۶

ابتدائي سو سالہ اسلامى حكومتيں '' اگر چہ ہمارے نزديك ان ميں سے اكثر حكومتيں غاصب تھيں اور اسلامى اصولوں پر استوار نہيں تھيں'' اس كے باوجود دينى حكومت كے كچھ مراتب كا پاس ضرور ركھتى تھي_ لہذا يہ ادعا كيا جاسكتا ہے كہ يہ حكومتيں اپنے دور كى غير دينى حكومتوں كى نسبت بہت سے بہتر نكات كى حامل تھيں_مفتوحہ علاقوں كے رہنے والوں سے مسلمان فاتحين كے سلوك كو بطور نمونہ پيش كيا جاسكتا ہے كہ جس نے ان كے اسلام لانے ميں اہم كردار ادا كيا_ اس لحاظ سے كشور كشائي كے خواہشمند سلاطين اور دوسرى فاتح حكومتوں كا ان سے مقائسہ نہيں كيا جاسكتا_

۳_ اس حقيقت سے انكار نہيں كيا جاسكتا كہ بہت سے اعلى حقائق ، گرانقدرمفاہيم اور بلند و بالا اہداف سے غلط استفادہ كيا جاسكتا ہے _ كيا نبوت كے جھوٹے دعوے نہيں كئے گئے ؟ كيا آبادكارى اور تعمير و ترقى كے بہانے استعمارى حكومتوں نے كمزور ممالك كو تاراج نہيں كيا؟ موجودہ دور ميں جمہوريت اور آزادى كى علمبردار مغربى حكومتوں نے حقوق بشر اور آزادى كے بہانے عظيم جرائم كا ارتكاب نہيں كيا؟ اور فلسطين جيسى مظلوم قوموں كے حق ميں تجاوز نہيں كيا؟

ان غلط استفادوں اور تحريفات كا كيا كيا جائے؟ كيا نبوت ، امامت ، دين ، آزادى اور حقوق بشر كو ترك كرديا جائے؟ صرف اس دليل كى بنياد پر كہ بعض افراد نے بعض موارد ميں ان گرانقدر اور مقدس امور سے غلط استفادہ كيا ہے؟ بلكہ معقول اور منطقى بات يہ ہے كہ ہوشيارى ، دقت ، آگاہى اور طاقت سے غلط كاريوں اور سوء استفادہ كى روك تھام كى جائے_

دينى حكومت بھى ان مشكلات سے دوچار ہے _ دين كے تقدس اوردينى حكومت سے غلط فائدہ اٹھانے اور دين كى حقيقت اور روح كو پس پشت ڈال دينے كا امكان ہميشہ موجود ہے_ دينى حكومتوں كو راہ راست

۴۷

سے بھٹكنے اور دينى تعليمات سے ہٹنے كا خطرہ ہميشہ موجود رہتا ہے لہذا صاحبان دين كى علمى آگاہى اور نظارت كى ضرورت مزيد بڑھ جاتى ہے_ ليكن كسى صورت ميں بھى يہ بات عقلى و منطقى نہيں ہے كہ ان خطرات كى وجہ سے دين كى اصل حاكميت اور سماج و سياست ميں اس كے كردار سے منہ موڑليا جائے_صاحبان دين كو ہميشہ اس كى طرف متوجہ رہنا چاہيے كہ حقيقى اسلام كا نفاد اور دين مقدس كى گرانقدر تعليمات كى بنياد پر اجتماعى امور كى تدبير لوگوں كيلئے كس قدر شيريں ، گوارا اور پر ثمر ہے_

۴۸

خلاصہ

۱) دين اور سياست كى تركيب كے مخالفين تين قسم كے ہيں_

الف : دينى حكومت كے مخالفين كا ايك گروہ وہ مسلمان ہيں جن كا عقيدہ يہ ہے كہ اسلام نے دينى حكومت كے قيام كى دعوت نہيں دى اور سياست كے متعلق اس كے پاس كوئي خاص اصول اور تعليمات نہيں ہيں_

ب: مخالفين كا دوسرا گروہ دينى حكومت كے انكار كى بنياد ماضى ميں قائم دينى حكومتوں كے تلخ اور ناخوشگوار نتائج كو قرار ديتا ہے_

ج : تيسرا گروہ سرے سے اجتماعى اور سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو تسليم ہى نہيںكرتا_

۲) تاريخى حقيقت يہ ہے كہ آنحضرت (ص) نے دينى حكومت قائم كى تھى اور ان كى سياسى فرمانروائي كا سرچشمہ وحى الہى تھى _

۳) طول تاريخ ميں تمام دينى حكومتيں منفى نہيں تھيں بلكہ ان ميں سے بعض قابل فخر اور درخشاں دور كى حامل تھيں_

۴)مقدس امور سے غلط استفادہ كا امكان صرف دين اور دينى حكومت ميں منحصر نہيں ہے بلكہ دوسرے مقدس الفاظ و مفاہيم سے بھى غلط استفادہ كيا جاسكتا ہے_

۴۹

سوالات :

۱) دين و سياست كى تركيب كے مخالفين كى مختصر تقسيم بندى كيجئے_

۲) جو افراد دينى حكومت كے انكار كى وجہ تاريخ كے تلخ تجربات كو قرار ديتے ہيں وہ كيا كہتے ہيں؟

۳) رسولخد ا (ص) كى سياسى ولايت كا سرچشمہ كيا ہے؟

۴) دينى حكومت كے منكرين كے دوسرے گروہ كو ہم نے كيا جواب ديا ہے؟

۵۰

چھٹا سبق:

سيكولرازم اور دينى حكومت كا انكار

گذشتہ سبق ميں اشارہ كرچكے ہيں كہ دينى حكومت كے منكرين كا تيسرا گروہ اجتماعى اور سياسى امور ميں سرے سے ہى دينى حاكميت كى مخالفت كرتا ہے اور سيكولر حكومت كى حمايت كرتا ہے_ اگر چہ اس نظريہ كے قائلين خود كو سيكولر نہيں كہتے ليكن حقيقت ميں سيكولرازم كے بنيادى ترين اصول كے موافق اور سازگار ہيںكيونكہ يہ اجتماعى اور سياسى امور ميں دين سے بے نيازى كے قائل ہيں ان افراد كى ادلّہ كى تحقيق سے پہلے بہتر ہے سيكولرازم اور اس كے نظريات كى مختصر وضاحت كردى جائے_

سيكولرازم كى تعريف:

سيكولرازم(۱) وہ نظريہ ہے جو يورپ ميں عہد '' رنسانس'' كے بعد اقتصادى ، ثقافتى اور سماجى تحولات كے نتيجہ ميں معرض وجود ميں آيا_ اس كا اہم ترين نتيجہ اور اثر سياست سے دين كى عليحد گى كا نظريہ ہے_ سيكولرازم كا فارسى ميں دنيوى ، عرفى اور زمينى جيسے الفاظ سے ترجمہ كيا گيا ہے_ اور عربى ميں اس كيلئے '' العلمانيہ '' اور

____________________

۱) Secularism

۵۱

''العَلَمانية ''كے الفاظ استعمال كئے جاتے ہيں_ جنہوں نے سيكولرازم كيلئے لفظ ''العلمانيہ'' كا انتخاب كيا ہے_ انہوں نے اس كو '' علم '' سے مشتق جانا ہے _ اور اسے علم كى طرف دعوت دينے والا نظريہ قرار ديا ہے اور جنہوں نے اس كيلئے ''العَلمانية'' كے لفظ كا انتخاب كيا ہے _ انہوں نے اسے عالَم ( دنيا ، كائنات) سے مشتق سمجھاہے اور سكولرازم كو آخرت كى بجائے دنيا پر ستى والا نظريہ قرار ديا ہے كہ وحى الہى سے مدد لينے كى بجائے انسان كى دنيوى طاقت مثلا عقل و علم سے مدد لى جائے_

فارسى اور عربى كے اس جيسے ديگر الفاظ اور خود لفظ (سيكولر) اس اصطلاح كے تمام اور ہمہ گير مفہوم كو ادا نہيں كرسكتے _ طول زمان كے ساتھ ساتھ بہت سى تاريخى اصطلاحوں كى طرح لفظ سيكولرازم اور سيكولر بھى مختلف اور متعدد معانى ميں استعمال ہوتے رہے ہيں اور تاريخى تحولات كے ساتھ ساتھ ان كے معانى بدلتے رہے ہيں_ابتدا ميں سيكولر اور لائيك(۱) كى اصطلاحيں غير مذہبى و غير دينى معانى و مفاہيم كيلئے استعمال ہوتى تھيں_قرون وسطى ميں يورپ ميں بہت سى موقوفہ اراضى ( وقف شدہ زمين) تھيں جو مذہبى افراد اور راہبان كليسا كے زير نظر تھيں جبكہ غير موقوفہ اراضى غير مذہبى يعنى سيكولر افراد كے زير نظر تھيں اس لحاظ سے سيكولر غير مذہبى اور غير پادرى افراد كو كہا جاتا تھا_

____________________

۱) آج بہت سى حكو متوں كو لائيك اور سيكولر كہا جاتاہے _ قابل غور ہے كہ سيكولر اور لائيك كے درميان كوئي بنيادى فرق نہيں ہے_ اور دونوں اصطلاحيں ايك ہى مخصوص نظريہ پر دلالت كرتيں ہيں _ وہى نظريہ جو سياست ميں دين كى مداخلت كو قبول نہيں كرتا _ اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ پروٹسٹنٹ t Protestan (دين مسيحيت كے ماننے والوں كا ايك فرقہ) علاقوں ميں سيكولرازم اور سيكولر كى اصطلاحيں رائج ہوئيں_ ليكن كيتھولك ممالك مثلا فرانس و غيرہ ميں لائيك اور لائيسيتہ ( Laicite ) كى اصطلاح مشہور ہوئي _ و گرنہ لائيك اور سيكولر ميں معنى كے لحاظ سے كوئي فرق نہيں ہے_

۵۲

زمانہ كے گزرنے كے ساتھ ساتھ لفظ سيكولر اور لائيك ايك مخصوص معنى ميں استعمال ہونے لگے_ حتى كہ بعض موارد ميں اس سے دين اور صاحبان دين سے دشمنى كى بو آتى ہے _ ليكن اكثر موارد ميں انہيں غير مذہبيت يا كليسا اور مذہبى لوگوں كے تحت نظر نہ ہونے كيلئے استعمال كيا جاتا تھا نہ كہ دين دشمنى كے معنى ميں_ مثلا سيكولر مدارس ان سكولوں كو كہتے ہيں جن ميں دينى تعليم كى بجائے رياضى يا دوسرے علوم كى تعليم دى جاتى ہے اور ان كے اساتذہ مذہبى افراد اور پادرى نہيں ہوتے _

آہستہ آہستہ يہ فكر اور نظريہ رائج ہونے لگا كہ نہ صرف بعض تعليمات اور معارف ، دين اور كليسا كے اثر و نفوذ سے خارج ہيں بلكہ انسانى زندگى كے كئے شعبے دين اور كليسا كے دائرہ كار سے خارج ہيں_

يوں سيكولرازم اور لائيك نے ايك نئي فكرى شكل اختيار كر لى اور سيكولرازم نے كائنات اورانسان كو ايك نيا نظريہ ديايہ نيا نظريہ بہت سے موارد ميں دين كى حاكميت اور اس كى تعليمات كى قدر و قيمت كا منكر ہے_

سيكولر حضرات ابتداء ميں علم اور ايمان كى عليحد گى پر اصرار كرتے تھے_ اس طرح انہوں نے تمام انسانى علوم حتى كہ فلسفى اور ماورائے طبيعت موضوعات كو بھى دينى حاكميت اور دينى تعليمات كے دائرے سے خارج كرديا_البتہ ان لوگوںكى يہ حركت اور فكر كليسا كى سخت گيرى كا نتيجہ اور رد عمل تھا كہ جنہوں نے علم و معرفت كو عيسائيوں كى مقدس كتب كى خو د ساختہ تفسيروں ميں محدود كرديا تھا اور دانشوروں كى تحقيقات اور علمى رائے كى آزادى كو سلب كرليا تھا_ مسيحى كليساؤں نے قرون وسطى كے تمام علمى ، ادبى اور ثقافتى شعبوں ميں مقدس كتب اور اپنى اجارہ دارى قائم كر ركھى تھي_ اس وجہ سے سيكولر حضرات رد عمل كے طور پر'' سيكولر علوم اور وہ علوم جو دين اور كليسا كى دسترس سے خارج تھے'' كے دفاع كيلئے اٹھ كھڑے ہوئے_

علم طبيعيا سے علم فلسفہ ميں بھى يہى بات سرايت كر گئي اور سيكولر فلسفہ كى بنياد پڑي_ پھر آہستہ آہستہ سياسى

۵۳

اور سماجى و اجتماعى امور بھى اس ميں داخل ہوگئے اور علم و فلسفہ كى طرح سياسى ميدان ميں بھى سيكولرازم كى راہ ہموار ہوگئي _ سيكولر افراد كے ہاں سياست سے دين كى جدائي كا نظريہ اور سياسى امور ميں دين اور كليساكى حاكميت كى نفى كا نظريہ شدت اختيار كر گيا لہذا سيكولرازم نہ صرف سياست سے دين كى عليحد گى كا حامى ہے بلكہ علم سے بھى دين كى جدائي كا دفاع كرتا ہے_ بنيادى طور پر سيكولرازم اس كا خواہاں ہے كہ ان تمام امور كو سيكولر اور غير دينى ہوجانا چاہيے جو دين كے بغير قائم رہ سكتے ہيں_ پس سيكولرازم ، سيكولر علم ، سيكولر فلسفہ ، سيكولر قانون اور سيكولر حكومت كا حامى ہے_

سيكولر ازم كى بنياد ايك ايسى چيز پر ہے جسے'' سيكولر عقلانيت''(۱) كہتے ہيں _ اس مخصوص عقلانيت(۲) نے موجودہ مغربى معاشرہ كى تشكيل ميں بہت بڑا كردار ادا كيا ہے_ '' سيكولر عقلانيت '' نے ايك طرف حاكميت دين كى حدودكے متعلق نئے نظريات پيش كئے ہيں تو دوسرى طرف انسانى عقل اور علم كى اہميت پر زور ديا ہے_ سيكولرازم صرف انسان كى انفرادى زندگى اور اس كے خدا كے ساتھ تعلق ميں دين كى حاكميت كا قائل ہے جبكہ انسان كى علمى اور اجتماعى زندگى ميں دين كى حكمرانى كو تسليم نہيں كرتا_ بلكہ ان امور ميں انسانى علم اورعقل كى فرمانروائي پر زور ديتا ہے'' سيكولر عقلانيت'' كے نزديك انسانى علم و عقل ہر قسم كے سرچشمہ معرفت سے مستقل اور بے نياز ہے لہذا اسے اپنے استقلال اور بے نيازى پر باقى رہنا چاہيے _ انسانى عقل اور علم ، دين اور ہر قسم كے سرچشمہ معرفت سے بے نياز اور مستقل رہتے ہوئے انسانى زندگى كى پيچيدگيوں كو حل كرنے كى صلاحيت ركھتے ہيں_ اس طرح سيكولرازم نے سيكولر عقلانيت اور انسانى عقل و علم كے بارے ميں اس خاص

____________________

۱) Secular Rationality

۲) Rationality

۵۴

نظريہ كى بناء پر آہستہ آہستہ مختلف علمى امور سے دين كى حاكميت كو ختم كيااور علمى زندگى اورموجودہ مغربى معاشرہ كے مختلف شعبوں ميں خود انسان اور عقل پر زيادہ زور دينے لگا _ (۱)

دين اور سيكولرازم

سيكولرازم عقل اورا نسانى علم كو وحى اور دينى تعليمات سے بے نياز سمجھتا ہے اور ان تمام امور ميں دين كى طرف رجوع كرنے كى نفى كرتا ہے جن تك انسانى عقل اور علم كى رسائي ہے _ سيكولرازم كى نظر ميں صرف ان امور ميں دين كى حاكميت قبول ہے جن تك انسانى عقل اور علم كى رسائي نہيں ہوتى _دين كے ساتھ سيكولرازم كے اس رويہ كو كيا الحاد اور دين دشمنى كا نام ديا جاسكتا ہے؟

حقيقت يہ ہے كہ حاكميت دين كى حدود سے متعلق سيكولرازم كى تفسير اس تفسير سے بالكل مختلف ہے جو صاحبان دين كرتے ہيں_ صاحبان دين كے نزديك دين كى مشہور، رائج اور قابل قبول تشريح يہ ہے كہ دين كى حاكميت صرف انسان كى خلوت اور خدا كے ساتھ اس كے انفرادى رابطے تك منحصر نہيں ہے بلكہ ايك انسان كا دوسرے انسان سے تعلق ، اور انسان كا كائنات اور فطرت سے تعلق سب دينى ہدايت كے تابع ہيںاور اجتماعى زندگى كے مختلف شعبوں ميں دين نے اپنى تعليمات پيش كى ہيں_ دين كے بارے ميں اس رائج فكر كے ساتھ ''سيكولر عقلانيت'' اتنا فرق نہيں ركھتى كہ ہم سيكولرازم كو ملحد اور دشمن دين سمجھيں _ سيكولرازم كا انسانى عقل و علم كے وحى اور دينى تعليمات سے جدا اور بے نياز ہونے پر اصرار ايمان اور دين كے ساتھ تضاد نہيں ركھتا _ سيكولرازم يقيناً دين كى حاكميت كو محدود كرتا ہے اور وہ امور جو عقل انسانى اور علم بشرى كى دسترس ميں ہيں انہيں ايمان اور دين كى فرمانروائي سے خارج سمجھتا ہے_ اس قسم كے موارد ميںانسانى علم و فہم سے حاصل شدہ

____________________

۱) سيكولرازم كے متعلق مزيد تفصيل كيلئے احمد واعظى كى كتاب حكومت دينى (نشر مرصاد ۱۳۷۸قم ) كى دوسرى فصل كا مطالعہ فرمائيں_

۵۵

ظن و گمان كودينى تعليمات سے حاصل ہونے والے يقين و اعتقاد پر ترجيح ديتاہے اور اس كو شش ميں رہتا ہے كہ دينى اعتقادات كو عقل و علم اور انسانى منطق كى كسوٹى پر پركھے ليكن اس كے باوجود سيكولرازم كو ملحد اور دشمن دين نہيں كہا جاسكتا_

ہمارى نظر ميں سيكولر ہونے كى بنياد'' سيكولر عقلانيت'' كے قبول كرنے پر منحصر ہے يعنى ہر شخص جو خود پر بھروسہ كرتا ہے، انسانى علم و عقل كے مستقل ہونے كا عقيدہ ركھتا ہے ، دين كى حاكميت كو انسان كے عالم غيب كے ساتھ رابطہ ميں منحصر سمجھتا ہے اور جو امور انسانى عقل و علم كى دسترس ميں ہيں، ان ميں دين كى مداخلت كو ممنوع قرار ديتا ہے وہ ايك سيكولر انسان ہے_ چاہے وہ حقيقتاً خدا اور كسى خاص دين كا معتقد ہو يا بالكل منكر دين اور ملحد ہو _

مختصر يہ كہ سيكولرازم صرف ان امور ميں دين كے نفوذ كا قائل ہے جو انسانى عقل كى دسترس سے خارج ہوں _ يہ وہ انفرادى امور ہيں جو انسان اور خدا كے تعلق كے ساتھ مربوط ہيں_ يہ ہر فرد كا حق ہے كہ وہ اس ذاتى تعلق كو ردّ يا قبول كرنے كا فيصلہ كرے _ اس لحاظ سے اس رابطے و تعلق كے انكار يا اقرار پر سيكولرازم زور نہيں ديتا_ اور دينى امور ميں سہل انگارى كا معتقد ہے اور يہ سہل انگارى الحاد يا بے دينى نہيں ہے_ البتہ سيكولر شخص كى دين دارى ايك مخصوص ديندارى ہے جو عقل كى محوريت پر استوار ہے اور دين كى حاكميت كو بہت محدود قرار ديتى ہے_

گذشتہ مطالب كو ديكھتے ہوئے سيكولرازم كا بنيادى نكتہ '' سيكولر عقلانيت'' كو تسليم كرنا ہے_ يہ عقلانيت جو خود پر بھروسہ كرنے اورا نسانى عقل و علم كو وحى اور دينى تعليمات سے بے نياز سمجھتى ہے بہت سے امور ميں دينى مداخلت كيلئے كسى گنجائشے كى قائل نہيں ہے _ دين اور انسان كى علمى طاقت كے متعلق يہ فكر متعدد نتائج كى حامل

۵۶

ہے اور بہت سے امور كو سيكولر اور غير دينى كرديتى ہے _ علم ، فلسفہ ، قانون ، اخلاق اور سياست تمام كے تمام غير دينى اور سيكولر ہو جاتے ہيں_ بنابريں سياست سے دين كى جدائي بھى سيكولرازم كے نتائج و ثمرات ميں سے ايك نتيجہ ہے، نہ كہ صرف يہى اس كا نتيجہ ہے _ لہذا'' سياست سے دين كى جدائي'' سيكولرازم كى دقيق اور مكمل تعريف نہيں ہے_ كيونكہ اس صورت ميں سيكولرازم كى بنياد يعنى سيكولر عقلانيت كے ذريعہ تعريف كى بجائے اس كے ايك نتيجے كے ذريعہ تعريف ہوجائے گى اسى طرح الحاد اور بے دينى كے ساتھ بھى اس كى تعريف كرنا صحيح نہيں ہے كيونكہ ممكن ہے كوئي خدا پر ايمان ركھتا ہو ليكن سيكولر عقلانيت كو تسليم كرتے ہوئے عملى طور پر سيكولرازم كا حامى ہو_

سيكولرازم كے مفہوم كى اجمالى وضاحت اور دين دارى كے ساتھ اس كى نسبت كے بعد دينى حكومت كى نفى پر اور سياست اور معاشرتى نظام ميں دين كى مداخلت كے انكار پر سيكولرازم كى بعض ادلہ ذكر كرنے كى بارى ہے اور آنے والے سبق ميں ہم ان كى دو اصلى دليلوں پر بحث كريں گے_

۵۷

خلاصہ :

۱) دينى حكومت كے مخالفين كا تيسرا گروہ سيكولرازم كى فكر كو قبول كرتا ہے_

۲) '' سيكولرازم '' ايك خاص علمى نظريہ ہے جو '' رنسانس'' كے بعد منظر عام پرآيا_

۳) '' سيكولرازم '' كے تحت اللفظى تراجم اس كے مفہوم كى صحيح عكاسى نہيں كرتے _

۴)''سيكولر'' اور '' لائيك'' دو مترادف اصطلاحيں ہيں_

۵)لفظ '' سيكولر'' كا معنى وقت كے ساتھ ساتھ بدلتارہاہے_

۶) سيكولراز م كى بنياد'' سيكولر عقلانيت ''كے قبول كرنے پر ہے_سيكولر عقلانيت خود پر بھروسہ كرنے اور دين اور دينى تعليمات سے عقل و علم كى بے نيازى كى قائل ہے_

۷) '' سيكولرازم ''بہت سے شعبوں ميں دين كى حاكميت سے انكار كرتا ہے_

۸) سياست سے دين كى جدائي كے ساتھ سيكولرازم كى تعريف كرنا صحيح نہيں ہے_كيونكہ يہ تو اس كا ايك نتيجہ ہے جيسا كہ علم اور فلسفہ سے دين كى جدائي بھى اس كے نتائج ميں سے ہے_

۹) سيكولرازم كا معنى دين دشمنى اور الحاد نہيں ہے_ بلكہ يہ دين كى حاكميت كو محدود كرنا چاہتا ہے_

۱۰) موحد اور ملحد دونوں سيكولر ہوسكتے ہيں، كيونكہ دين دارى اور الحاد ميں سے كوئي بھى اسكى بنياد نہيں ہے بلكہ اس كى بنياد سيكولر عقلانيت كے قبول كرنے پر ہے_

۵۸

سوالات :

۱) لفظ '' سيكولرازم'' كا اردو اور عربى ميںترجمہ كيجئے؟

۲)لفظ ''سيكولر'' اور لفظ'' لائيك'' ميں كيا فرق ہے؟

۳)ابتدا ميں لفظ'' سيكولر ''كن معانى ميں استعمال ہوتا تھا؟

۴)''سيكولر عقلانيت ''سے كيا مراد ہے ؟

۵)سيكولرازم اور دين دارى ميں كيا نسبت ہے؟

۶)دين كى حاكميت كے متعلق سيكولر ازم كا كيا عقيدہ ہے؟

۷) كيا سياست سے دين كى جدائي كے ساتھ سيكولرازم كى تعريف كرنا صحيح ہے؟

۵۹

ساتواں سبق:

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلہ -۱-

پہلى دليل:

سياست ميں دين كى عدم مداخلت پر سيكولرازم نے جو استدلال كئے ہيں ان ميں سے ايك وہ ہے جسے ''مشكل نفاذ شريعت ''كے نام سے ياد كيا جاتاہے _يہ استدلال جو دو اساسى مقدموں پر مشتمل ہے، شريعت كے نفاذ كے ممكن نہ ہونے پر استوار ہے _ دينى حكومت كے قائلين اپنے استدلال اور ادلّہ ميں اس نكتہ پر اصرار كرتے ہيں كہ اسلامى شريعت ميں كچھ ايسے احكام اور قوانين ہيں جن كا اجرا ضرورى ہے _ دوسرى طرف يہ احكام حكومت كى پشت پناہى كے بغير قابل اجرا نہيں ہيں _ لہذا مختلف اجتماعى امور ميں شريعت كے نفاذ كيلئے دينى حكومت كا قيام ضرورى ہے _ سيكولرازم دينى حكومت كى تشكيل كى نفى كيلئے اس نكتہ پر اصرار كرتا ہے كہ اجتماعى اور سماجى امور ميں شريعت كا نفاذ مشكل ہے اور معاشرہ ميں فقہ اور شريعت كو نافذ نہيں كيا جاسكتا_ اس طرح وہ اپنے زعم ناقص ميں دينى حكومت كى تشكيل پر سواليہ نشان لگاتے ہيں_ كيونكہ دينى حكومت كے قيام كى اساس اور بنياد معاشرے ميں دين اور شريعت كے نفاذ كے علاوہ كچھ بھى نہيں ہے_

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367