اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت10%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143921 / ڈاؤنلوڈ: 3620
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

توحید اور شرک

(کے معیار کی شناخت)

(تالیف)

مولانا سید نسیم حیدرزیدی

انوار القرآن اکیڈمی (پاکستان)

۱

بسم اﷲالرّحمن الرّحیم

۲

توحید اور شرک

(کے معیار کی شناخت)

( ولقد بعثنا فی کلّ امّةٍ رسولاًان اعبدوا اﷲواجتنبوا الطّاغوت )

ہم نے ہر امّت کے درمیان ایک پیغمبر مبعوث کیا ہے تاکہ خدا کی پرستش کریں اور خدا کے علاوہ ہر معبود سے اجتناب کریں۔

(سورہ مبارکہ نحل آیت 36 )

۳

باب اوّل : توحید ودلائل توحید

مسئلہ توحید جو ما سوا اللّہ کے وجود کی نفی اور خداوند متعال کے اثبات کے مضمون پر دلالت کرتا ہے ، تمام ادوار میں پیغمبران ِ خدا کی دعوت کا اساس رہا ہے ۔تمام انسانوں کو چاہیے کہ خدا کی پر ستش کریں اور دوسرے موجودات کی عبادت اور پرستش سے اجتناب کریں ۔ایک خدا کو ماننا اور دوئی کی زنجیروں کو توڑنا خداکی طرف سے بھیجے ہوئے بنیادی ترین احکام میں سے ایک ہے ۔تمام انبیائے الٰہی (ع)کے مشن میں جو چیز سر فہرست ہے وہ یہی ہے ۔گویا تمام انبیاء (علیہم السّلام )ایک ہی ہدف کے لیئے چنے گئے ہیں اور وہ یہ کہ مسئلہ توحید اور یکتا پرستی کو انسانوں کے دلوں میں راسخ کریں ۔اور شرک کے خلاف بطور مطلق جہاد کریں ۔

قرآن مجید نے اس حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

١ ( ولقد بعثنا فی کلّ امّةٍ رسولاًان اعبدوا اﷲواجتنبوا الطّاغوت ) (1)

''ہم نے ہر امّت کے درمیان ایک پیغمبر مبعوث کیا ہے تاکہ خدا کی پرستش کریں اور خداکے علاوہ ہر معبود سے اجتناب کریں''۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ مبارکہ نحل آیت 36

۴

٢ (وماارسلنا من قبلک من رسول الّا نوحی الیه انّه لااله الاّ انا فاعبدون ) (2)

''آپ سے قبل ہم نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اسے ہم نے وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں اور

میری ہی عبادت و بندگی کرو ''

قرآن مجید نے خدا کی عبادت اور پر ستش کو تمام آسمانی شریعتوں کے لیئے ''اصل مشترک ''کے طور پر پہچنوایا ہے

(قل یا اهل الکتاب تعالوا الی کلمةٍسوائٍ بینناو بینکمالّانعبدو االّاﷲولا نشر ک به شیئاً) (1)

''اے رسول آپ کہدیجئے،کہ اے اہل کتاب آو اس کلمہ کو قبول کریں جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا کے علاوہ ہم کسی کی پرستش نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں ۔

قرآن مجید نے اسی اساسی اور بنیادی مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیئے متعدد دلائل اور براہین قاطعہ پیش کیے ہیں جنھیں دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔دلائل نظری اور دلائل مشاہداتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) سورہ مبارکہ نحل آیت 36 (2)سورہ مبارکہ انبیاء آیت 25

۵

(1)دلائل نظری

قرآن مجید نے نظری استدلال کا اندازو اسلوب اختیار کرتے ہوئے اثبات توحید کے باب میں متعدد مقامات پر جو ارشاد فرمایا ہے یہاں اس کا بیان مقصود ہے

پہلی دلیل:

قرآن مجید تصوّر توحید کو انتہائی مثبت اور انوکھے انداز میں یوں پیش کرتا ہے

(والٰهکم الٰه واحد لآاله الاهو الرّحمن الرّحیم ) (1)

'' اور تمھارا معبود خدائے واحد ہے اس کے سواء کوئی معبود نہیں (وہ) نہایت مہربان بہت رحم والا ہے''

ابتدائے آفرینش سے انسان کی یہ کمزوری رہی ہے کہ وہ توہماتی طورپر ہر اس وجود کو منصب الوہیت پر فائز کرکے اس کی بندگی اور پرستش کا خوگر بنا رہا ،جس سے اس کی ذات کے لئے مادی منفعت کا کوئی پہلو نظر آتا تھا ،ایک نادیدہ خدا کا تصوّر اس کے لئے عجیب وغریب بات تھی ۔

اس کائنات رنگ و بو میں خدا کی ربوبیت نے جتنے بھی اسباب مہیا فرمائے اور مظاہر قدرت پیدا کئے ہیں وہ سب کسی نہ کسی طرح انسان کی خدمت بجا لانے اور اس کے لئے منفعت اندوزی کا سامان مہیا کر نے میں لگے ہوئے ہیں ۔انسان نے اپنی اس ازلی اور فطری کمزوری کی بنا پرعناصر اربعہ آگ ،پانی ،مٹی ،ہوا اور ان کے متعلقات

----------------

(1) سورہ مبارکہ بقرہ 2:162

۶

کو جن سے وہ کسی نہ کسی صورت میں تمتّع حاصل کرتا رہا ،مقام الوہیت پر لا بٹھایااور اپنی نادانی اور کوتاہ نظری سے انہیں خدایا خدا تک پہنچنے کا ذریعہ تصوّر کرتا رہادرج بالا آیہ کریمہ میں اس باطل تصوّر کی نفی کرتے ہوئے انسان پر یہ حقیقت واشگاف کی جارہی ہے کہ وہ ذات جونفع رساں اور مسلسل ا پنی بے پایان رحمت عمومی کے خزانے نچھاور کرنے والی ہے ہی ،منصب الوہیت کی سزاواراور اس لائق ہے کہ جبینِ نیاز اسی کے سامنے جھکائی جائے ۔وہی لازوال ہستی جو تمھارے معاش کی حاجتوں کو پورا کرنے والی اورمعاد کی حاجتوںاور ضرورتوں کو بھی فراہم کرنے والی ہے اس بات کی مستحق ہے کہ تم اپنا سر تسلیم اور جبیں بندگی اسی کے سامنے خم کرو اور سبھی معبودان باطلہ کی پرستش و بندگی سے باز آجاو۔

دو سری دلیل:

قرآن مجید سورہ بقرہ کی 164 ویں آیت میں اسی عقلی و نظری استدلال کو بروئے کار لاتے ہوئے انسان کو تخلیق کائنات اوراختلاف لیل ونہار کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہے ۔ ارشاد ربّ العزت ہے ۔

(انّ فی خلق السمّوات والارض واختلاف الّیلِ والنّهارِلایات لّقومِ یعقلون )

''بے شک آسمانوںاور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں ''

۷

اس آیہ کریمہ میں انسان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جارہی ہے کہیہ کائنات ارضی و سماوی تو خود مخلوق ہے لہذا یہ الہٰ کیسے ہوسکتی ہے منصب الوہیت پر فائز ہونے کی حقدار تو وہی ذات ہو سکتی ہے جو پیدا نہ کی گئی ہو ،اس لئے کہ پیدا کی جانے والی ذات حادث تصوّر ہو گی اور حادث ذات کبھی الہٰ نہیں ہوسکتی۔

تیسری دلیل:

قرآن مجید میں ایک مقام پرخداوندمتعال نے اپنی خالقیت وربوبیت کو اپنی الوہیت ومعبودیت کی عقلی دلیل کے طور پر ان الفاظ میں پیش کیا ہے ۔

(یا أيّها الناس اعبدوا ربّکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلّکم تتّقون الذی جعل لکم الارض فراشاًوّالسمائَ بنائًوانزل من السّمائِ مائً فاخرج به من الثّمرات رزقاًلّکم فلا تجعلوا للّه انداداًوّانتم تعلمون ) (1)

'' اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاو۔جس نے تمھارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمانوں سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعے تمھارے کھانے کے لئے پھل پیدا کئے پس تم اﷲ کے لئے شریک نہ ٹھراو حالانکہ تم جانتے ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورہ مبارکہ بقرہ،2:21۔22

۸

اس آیہ کریہ میں اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ بنی نوع انسان کی تمام گزشتہ اور آئندہ

نسلوں اور انسانیت کے تمام طبقوں کو معرض وجود میں لانے والی اور ان کی کفالت کرنے والی واحد ہستی ہی اس امر کی مستحق ہے کہ اس کے سامنے سر بندگی اور جبین نیاز خم کی جائے ۔اس انداز استدلال سے اس بات کا استشہاد کیا گیا ہے کہ جب سب کو پیدا کرنے والی اور پرورش وتربیت کرنے والی ذات رب ذو الجلال کی ہے تو انسان کس وجہ سے معبودان ِ باطلہ کو اس کے ساتھ عبادت میں شریک کرتا ہے ۔گویا خالقیت اور ربوبیت میں یکتا اور واحد ہونا اس کی الوہیت و معبودیت میں یکتا و واحد ہونے پر محکم دلیل ہے ۔کیوں کہ یہ بات عقل ِسلیم کے خلاف ہے کہ انسان کو پردہ نیستی سے وجود میں لانے والی اور اس کی تمام فطری اور جبلّی ضرورتوں کی تکمیل و تسکین کا سامان فراہم کرنے والی تو اس کی ذات ہو اور وہ عبادت کسی اور کی کرتا رہے ۔جب وہ اوّلین وآخرین سب کا خالق و مالک اور پروردگار ہے تو اسے چھوڑ کر کسی مخلوق کی عبادت کرنا یا اﷲ کی عبادت کے ساتھ اس کو شریک کرلینا عقل و فہم کی رو سے کب جائز وروا ہوگا۔

مشاہداتی دلائل:

خدا کی ہستی اور اثبات توحیدپرقرآن ِ مجید کا طرز واسلوبِ استدلال اس ہمہ گیر ربوبیت کے نظام میں تعقّل و تفکّر اورتدبّر کی دعوت دیتاہے جو اس کائنات بسیط میں ایک خاص نظم و ضبط اور ترتیب و قاعدے کے ساتھ بندھا ہوا ہے ۔چنانچہ قرآن جا بجا انسان کوعالم انفس ،آفاق میں تدبّر کی دعوت دیتا ہے اور اس سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے

۹

کہ وہ اپنی اور اس کائنات کی خلقت پر غور کریاور دیکھے کہ یہ کارخانہ حیات کس نظم وانضباط کے ساتھ چل رہا ہے ۔ انسان اگر غور و فکر کرے تو خود اپنی پیدائش اور عالم گرد و پیش کے مشاہدات اس پر عرفان ذات اور معرفت خداوند متعال کے بہت سے سر بستہ راز کھول دیں گے ۔اس سلسلے میں قرآن مجید نے جن دلائل سے ذات باری تعالیٰ کی توحید پر استشہاد کیا ہے ان میں سے چند کا اجمالی تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے۔

پہلی دلیل:

اگر گوش اور دیدہ بینا کو وا کرکے ہم کائنات کی کھلی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس کے ورق ورق سے ایک پروردگار کے وجود کا اعلان ہوتا دکھائی دے گا۔اس کے اندر سے یہ پکار سنائی دے گیکہ اس کائنات کی تخلیق با لحق ہوئی ہے ۔انسان بے ساختہ اس بات کے اقرار پر مجبور ہوگا کہ (ربّنا ما خلقت ھذا باطل )(1)

''اے ہمارے رب ! تونے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا ۔

دوسری دلیل:

قرآن اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان کائنات میں کار فرما نظام ِ ربوبیت کا بے لاگ مطالعہ کرنے بیٹھے اور اس کے وجدان میں ایک ربّ العالمین ہستی کے ہونے کایقین انگڑائیاں نہ لینے لگے ۔یہ ممکن ہے کہ انسان سرکشی ،اور تمرّد اور غفلت کی بنا پر ہر چیز سے انکار کردے ، لیکن وہ اپنی فطرت سے انکار نہیں کرسکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) آل عمران 3: 191

۱۰

اس کی فطرت سلیمہ کے خمیر میں خدا پرستی کا جذبہ خوابیدہ حالت میں ودیعت کیا گیا ہے ۔ جب اس کی غفلت کا پردہ چاک ہوتا ہے تو اس کا وجدان خود اس کی رہنمائی کرکے اسے اس کے مدّعا تک پہنچادیتا ہے ۔

چنانچہ قرآن مجید نے اس حقیقت کی نشاندہی ان الفاظ میں کی ہے ۔

( بل الانسان علیٰ نفسه بصیر ة) (1)

''بلکہ انسان خود بھی اپنی حالت پر مطلّع ہے ''

تیسری دلیل :

قرآن مجید میں ایسے مقامات ہیں جن میں ایک وسیع البنیاد نظام ربوبیت سے توحید باری تعالیٰ پر استدلال کیا گیا ہے ،بے شمار ہیں ۔لیکن یہاں طوالت کے خوف سے صرف چند ارشادات پر اکتفا کیا جائے گا ۔

انسان سے مخاطب ہو کر فرمایا گیا

( فلینظر الانسان الیٰ طعامه انّا صببنا المأئَ صبّا ثمّ شققنا الارض شقاًفانبتنا فیها حبّا) (2)

''پس انسان کو چاہیے کہ اپنی غذا کی طرف غور کرےبشک ہم ہی نے خوب پانی برسایا پھر ہم نے زمین کو جابجا پھاڑدیاپھر ہم نے اس میں غلّہ پیدا کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مبارکہ قیامت ،75:14

(2)سورہ مبارکہ عبس ،24۔۔27

۱۱

یہاں ''فلینظر الانسان '' کے ابتدائی کلمات ہی انتہائی فکر انگیز اور بصیرت افزاء ہیں ۔انسان ہر چیز سے غافل ہو سکتا ہے لیکن وہ اپنی خوراک کی طرف سے آنکھیں نہیں پھیر سکتا ۔وہ دانہ گندم پر بیج سے پودا بننے کے نامیاتی عمل پر غور کرے تو نظام کائنات کے باطن میں جھلکنے والی ربوبیت اسے اس کار خانہ حیات کے پیدا کرنے والی ہستی کا سراغ دے گی ۔

سورہ نحل میں خدا کے کارخانہ ربوبیت کی مثال شہد کی مکھی سے انتہائی بلیغ پیرائے میں دی گئی ہے ارشاد ربّ العزت ہے ۔

(واوحیٰ ربّک الیٰ النحل ان اتّخذی من الجبال بیوتاًو من الشجروممّایعرشون ) (1)

''اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوںمیں اور بعض چھپروں میں جھنیں لوگ اونچا بناتے ہیں۔''

یہ بات طے شدہ ہے کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جسے پرورش کی احتیاج نہ ہو جس طرح ہر چیز جو مخلوق ہے اپنے خالق پر دلالت کرتی ہے ۔ایسی ہر چیز جو مربوب ہے اس کے لئے لازمی ہے کہ اس کا ایک رب بھی ہو۔

رحم مادر میں پرورش پانے والے جنین کو غذاپہنچانے کے پیچیدہ نظام کے مطالعہ سے نظام ربوبیت کی وہ کرشمہ سازیاں عیاں ہوتی ہیں جو کسی پرورش کرنے والی ہستی کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مبارکہ نحل،:68

۱۲

خبر دیتی ہیں ۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہر ایک کی پرورش ہو رہی ہو اور پرورش کرنے والی کوئی ذات موجود نہ ہو۔خود بخود تخلیق کے تصوّرکی کوئی سائنسی بنیاد نہیں اور اس کی لغویت اتنی آشکارا ہے کہ غیر جانبدارانہ تعقّل و تفکّر سے انسان خدا کے وجود کا اقرار کئے بغیر رہ نہیں سکتا ۔

۱۳

باب دوم :توحید اور شرک کا معیار

توحید اور شرک کی بحث میں سب سے اہم مسئلہ دونوں کے معیار کی شناخت ہے۔ اگر کلیدی طور پر اس مسئلہ کو حل نہ کیا گیا تو بہت سے بنیادی مسائل کا حل ہونا مشکل ہے لہٰذا ہم مختصرطور پر توحید اور شرک کے مختلف پہلوئوں پر بحث کریں گے۔

1۔ توحید ذات

توحید ذات کی دو صورتیں ہیں:

الف: خدا (علماء کلام کی تعبیر کے مطابق ''واجب الوجود'') ایک ہے اس کی مثل و نظیر نہیں ہے۔ یہ وہی توحید ہے جس کو خداوند عالم نے قرآن مجید میں مختلف انداز سے بیان کیا ہے۔ مثلاً :

(لیس کَمِثْلِهِ شیئ) (1)

کوئی چیز اس کی مثل و نظیر نہیں ہے۔

یا دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ شوریٰ، آیت 11۔

۱۴

(وَ لَمْ یَکُنْ لَه' کُفْواً أَحَدا) (1)

کوئی اس جیسا نہیں ہے۔

قدیم فلاسفہ و حکماء کے نزدیک یہ کائنات دو حصوں میں منقسم ہے ۔

1۔ ممکن الوجود

2۔ واجب الوجود

ممکن الوجود کے زمرے میںوہ سب وجود اور چیزیں شامل ہیں جن کا ہست و نیست ہونا اور موجود و معدوم ہونا دونوں جائز اور روا ہے اور ان کے وجود پر کائنات کے وجود کا انحصار نہ ہو ۔گویا دوسرے لفظوں میں ان کا وجود اور عدم وجود برابر و یکساں ہے۔ اگر ان مختلف ا لنوع ا شیاء کا کائنات میں وجود مان بھی لیا جائے تب بھی درست ہے اور اگر نہ مانا جائے تب بھی درست و جائز ہے ۔اس میں خداوند متعال کے علاوہ کائنات کی ہر چیز شامل ہے جبکہ اس کے بر عکس واجب الوجود ہستی سے مراد وہ ذات ہے جس کے وجود پر کائنات کے وجود کا انحصار ہے اور اس کاہر آن ،ہر زمانے اور ہر کیفیت میں ہونا بہر حال ضروری ہے ۔اس کے عدم وجود کا تصوّر بھی ناممکن ومحال ہے ۔اس بنا پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلان چیز واجب ہے تو اس کا معنیٰ لا محالہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا ہونا لازمی ہے اور نہ ہونے کا سوال ہی خارج از بحث ہے ۔اس کا اطلاق صرف اور صرف خداوند متعال کی ذات مطلق پر ہوتا ہے کہ تنہا وہی ایک ایسی ہستی ہے جو ازل

---------------

(1)۔ سورہ مبارکہ اخلاص، آیت 4۔

۱۵

سے موجود ہے اور ابد تک رہے گی اور اس کے وجود پرتمام کائنات کا دارو مدار ہے ۔

البتہ اس طرح کی توحید کی کبھی عوامی صورت سامنے آتی ہے جس میں توحید عددی کا رنگ شامل ہوتاہے اور کہا جاتا ہے کہ ''خدا ایک ہے'' دو نہیں ہیں ظاہر ہے کہ اس قسم کی توحید مقامِ الوہیت کے شایانِ شان نہیں ہے خدا کی ذات بسیط ہے مرکب نہیں ہے کیونکہ اجزائے ذہنی یا اجزاء خارجی سے کسی موجود کی ترکیب کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اجزاء کا محتاج ہے اور احتیاج، امکان کی دلیل ہے۔ امکان اور علت کی احتیاج کا لازم و ملزوم ہونا واجب الوجود کی شان کے خلاف ہے۔

2۔ توحید خالقیت

توحید خالقیت عقل و نقل کے اعتبار سے قابل قبول ہے عقلی اعتبار سے اللہ کے علاوہ، ایک امکانی نظام ہے جس میں کسی قسم کا کوئی کمال یا جمال نہیں پایا جاتا۔ اس نظام کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ''غنی بالذات'' منبع فیض کی دِین ہے۔ لہٰذا دنیا میں کمال و جمال کے جو بھی جلوے نظر آتے ہیں سب اسی کی عطا ہیں۔

توحید خالقیت کے موضوع پر قرآن میں بہت سے آیتیں ہیں نمونہ کے طور پر ہم یہاں ایک آیت پیش کر رہے ہیں:

(قل اللّٰه خالق کل شیئٍ وهو الواحد القهار) (1)

کہہ دیجئے کہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا خدا ہے جو ایک اور غالب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ رعد، آیت 16۔

۱۶

کلی طور پر توحید خالقیت میں کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا، البتہ پیدائش کی دو تفسیریں بیان کی جاتی ہیں۔

الف: موجودات کے درمیان ہر طرح علت و معلول اور سبب و مسبب والا قانون ''علة العلل'' اور مسبب الاسباب تک منتہی ہوتا ہے درحقیقت مستقل اور حقیقی خالق خدا ہے۔ اپنے معلولات میں غیر خدا کی اثر اندازی خدا کی اجازت اور مشیت کے بغیر ناممکن ہے۔

اس نظریہ میں اس علت و معلول والے نظام کا اعتراف ہے جو دنیا میں کارفرما ہے اور علم بشر نے بھی اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سارا نظام کسی نہ کسی انداز سے خدا سے متعلق ہے۔ وہ اس نظام کا خالق ہے۔ اسباب و علل کو اسباب و علل بنانے والا اور مؤثر کو تاثیر عطا کرنے والا وہی ہے۔

ب: دوسرا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں صرف ایک خالق کا وجود ہے اور وہ خدا ہے نظام ہستی میں اشیاء کے درمیان کسی طرح کی تاثیر و تأثر نہیں ہے ۔ وہ بلا واسطہ ساری طبیعی اشیاء کا پیدا کرنے والا ہے۔ یہاں تک کہ انسان کی طاقت بھی اس کے فعل پر اثر انداز نہیں ہوتی۔اس وجہ سے کائنات میں ایک ہی علت ہے۔ اس کے سوا اور کسی علت کا وجود نہیں ہے۔ علم جِسے علل طبیعی کے عنوان سے روشناس کراتا ہے۔ وہ وہی ذات ہے اور بس!

توحید خالقیت کے موضوع پر یہ تفسیر اشاعرہ نے پیش کی ہے لیکن اشاعرہ سے بعض

۱۷

اشخاص نے اس تفسیر سے انکار کیا ہے اور پہلی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ مثلاً۔ امام الحرمین(1) اور شیخ محمد عبدہ نے رسالہ توحید میں اسی رُخ کو اختیار کیا ہے۔

3۔ کائنات کی تنظیم میں توحید

چونکہ کائنات کا پیدا کرنے والا خدا ہے۔ اس لیے نظام ہستی کا چلانے والا بھی اسی کو ہونا چاہیے۔ دنیا کا منتظم صرف ایک ہے اور جس عقلی دلیل سے خالق کا ایک ہونا ثابت ہوتا ہے اِسی سے کائنات کے منتظم کا ایک ہونا ثابت ہوتا ہے۔

قرآن مجید نے بھی مختلف آیتوں میں یہی بتایا ہے کہ منتظم کائنات ایک ہے۔

( قُلْ أغَیْرَ اﷲِ أبْغِی رَبًّا وَهُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْئٍ) (2)

کہہ دیجئے کہ کیا میں خدا کے علاوہ کوئی دوسرا پروردگار ڈھونڈوں حالانکہ تمام چیزوں کا رب وہی ہے۔

توحید خالقیت میں جو دو تفسیریں بیان کی گئی تھیں، وہی مدبر ومنتظم کائنات کی توحید میں بھی بیان کی جاتی ہیں۔ ہماری نظر میں مستقل اور اصلی مدبر خدا ہی کی ذات ہے۔

چونکہ نظام ہستی میں سب کچھ خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ سے انجام پاتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے بھی ان تدبیر اور تنظیم کرنے والوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو خالق کی ذات سے وابستہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ ملل و نحل: شہرستانی، ج1۔

(2)۔ سورہ مبارکہ انعام، آیت 164۔

۱۸

(فَالْمُدَبِّرٰاتِ أمْراً) (1)

وہ نظام ہستی کا انتظام کرنے والے ہیں۔

4۔ توحیدِ حاکمیت

توحید حاکمیت سے مراد یہ ہے کہ حقِ ثابت کے عنوان سے حکومت کا حق صرف اللہ کو ہے اور سارے انسانوں پر صرف وہی حاکم ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

(ان الحکم اِلّا اللّٰه) (2)

صرف خدا کو حاکمیت کا حق ہے۔

اس بنا پر خدا کی مشیت سے ہی دوسروں کی حکومت قائم ہوسکتی ہے تاکہ نیک انسان معاشرہ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں سنبھالیں اور منزلِ سعادت و کمال کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں۔

قرآن خود کہتا ہے:

(یَادَاوُودُ ِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِی الَْرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقّ)(3)

اے دائود ہم نے تم کو زمین پر اپنا نمائندہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں کے درمیان حق فیصلے کرو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ نازعات، آیت 5۔

(2)۔ سورہ مبارکہ یوسف، آیت 40۔

(3)۔ سورہ مبارکہ ص، آیت 26۔

۱۹

5۔ اطاعت میں توحید

بالذات جس کی پیروی لازم ہے وہ خداوند عالم کی ذات ہے۔ اس بنا پر انبیائ، ائمہ ٪ فقیہ، ماں باپ وغیرہ کی اطاعت خدا کے حکم اور ارادہ کی پابند ہے۔

6۔ قانون سازی کے مسئلہ میں توحید

اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون سازی اور شریعت بنانے کا حق صرف خدا کو حاصل ہے اسی وجہ سے ہماری آسمانی کتاب کے مطابق جو حکم قانون الٰہی حدوں سے خارج ہو وہ کفر، فسق اور ظلم و ستم ہے۔

( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنزَلَ اﷲُ فَأُوْلَئِکَ هُمْ الْکَافِرُون) (1)

جو قانون الٰہی کے مطابق حکم نہیں کرتے وہی لوگ کافر ہیں۔

( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنزَلَ اﷲُ فَأُوْلَئِکَ هُمْ الْفاسِقُون) (2)

جو قانون الٰہی کے مطابق حکم نہیں کرتے وہی لوگ فاسق ہیں۔

( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنزَلَ اﷲُ فَأُوْلَئِکَ هُمْ الْظَالِمُون) (3)

جو قانون الٰہی کے مطابق حکم نہیں کرتے وہی لوگ ظالم ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ مبارکہ مائدہ، آیت 44۔

(2)۔ سورہ مبارکہ مائدہ، آیت 47۔

(3)۔ سورہ مبارکہ ص، آیت 45۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

تجربہ كيا ہے _ ليكن رسول خدا(ص) اور امير المؤمنين (ع) كى مختصر دورانيہ كى حكومت كے سوااس نے اپنے بنيادى اہداف اور منطقى آرزؤوں كو ان حكومتوں سے حاصل نہيں كيا _ جبكہ اسلامى نظام نظرياتى لحاظ سے اور تھيورى كى حد تك مكمل تھا اور زمانہ كى پيشرفت اور ارتقاء كے ساتھ مكمل طور پر ہم آہنگ تھا _ ليكن كيوں عملى نہ ہوا _ يہ ايك سربستہ راز ہے جس كى وضاحت كسى اور وقت پر اٹھا ركھتے ہيں_

لفظ '' ولايت فقيہ'' قديم زمانہ سے شيعہ فقہ اور كلام ميں ايك جانا پہچانا كلمہ ہے كہ جوايران ميں اسلامى جمہورى نظام كے نفاذ كے ذريعے مرحلہ عمل ميں آيا _ اور وہ نام ہے '' كائنات اور انسان پر اللہ تعالى كى حاكميت مطلقہ كى بنياد پر زمانہ غيبت ميں وسيع اسلامى سرزمين ميں امت مسلمہ كے دينى اور دنياوى امور ميں ايك زمانہ شناس ' بہادر'اور مدبر فقيہ عادل كى مكمل اور بھر پور حاكميت ''(۱)

امام خمينى فرماتے ہيں : حاكميت كى شرائط براہ راست اسلامى حكومت كى حقيقت سے پھوٹتى ہيں_ عام شرائط يعنى عقل اور تدبر كے علاوہ اس كى دوبنيادى شرطيں اور ہيں _ ايك '' قانون كا علم '' اور دوسرى ''عدالت'' اگر كسى شخص ميں يہ دو شرطيں پائي جاتى ہوں اور وہ قيام كرے وہ حكومت تشكيل دے سكتاہے اور اسے وہى ولايت حاصل ہوگى جو آنحضرت(ص) معاشرتى امور ميں ركھتے تھے اور تمام افراد پر واجب ہے كہ وہ اس كى اطاعت كريں(۲) اس وضاحت كے ساتھ شيعہ نكتہ نظر سے زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ در حقيقت امام معصوم (ع) كى حكومت كا تسلسل ہے اور اس وقت ولى فقيہ امام معصوم (ع) كا نائب سمجھا جاتاہے اس لحاظ سے خدا كى حاكميت، رسول خدا(ص) اور ائمہ معصومين ( عليہم السلام)كى حكومت اور زمانہ غيبت ميں ولايت فقيہ بالترتيب ايك ہى سلسلہ كى كڑياں ہے جو آپس ميں جڑى ہوئي ہيں(۳)

____________________

۱) عباس كعبى '' بررسى تطبيقى مفہوم ولايت فقيہ '' قم ، مؤسسہ انتشاراتى ظفر۰ ۱۳۸ ، ص ۴۱ _ قانون اساسى جمہورى اسلامى ايران اصل پنجم_

۲) '' ولايت فقيہ'' امام خمينى ، مؤسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى ۱۳۷۳ ص ۳۷_

۳) ايضاً ص ۴۰_

۳۴۱

اہلسنت كے نظريہ كے مطابق خلافت نام ہے جانشينى رسول (ص) كے عنوان سے دينى اور دنياوى امور ميں مكمل حاكميت كا _

ابن خلدون كہتے ہيں : خلافت نام ہے دين كى حفاظت اور سياست دنيا كيلئے صاحب شريعت كى طرف سے جانشين ہونا(۱)

ماوردى (متوفى ۴۵۰ ھ ) كہتے ہيں :

الامامة موضوعة لخلافة النبوة فى حراسة الدين و سياسة الدنيا (۲)

خلافت نام ہے دين كى حفاظت اور سياست دنيا كيلئے رسول خدا(ص) كى طرف سے جانشين ہونے كا _

اخوان الصفا كہتے ہيں : بادشاہ زمين پر خدا كے جانشين ہيں _اور دين كے پاسبان ہيں(۳) ماوردى خلافت كى تعريف كرنے كے بعد كہتے ہيں ' ' اصم'' كے علاوہ تمام علماء اسلام متفق ہيں كہ امام كى بيعت واجب ہے _البتہ اس كے وجوب كے مدرك اور دليل ميں اختلاف ہے كہ كيا وہ عقل ہے يا شرع؟ ليكن شريعت نے ''حاكميت'' ولى خدا كے حوالے كى ہے _

اللہ تعالى قرآن ميں فرماتاہے:

( يا ايها الذين آمنوا اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و اولى الامر منكم ) (۴)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۱۶۶_

۲ _ '' الاحكام السلطانيہ'' على بن محمد الماوردى ، بيروت لبنان، دار الكتب الاسلاميہ ۱۹۸۵ ، ۱۴۰۵ ق ص ۵_

۳_ ''نظام حكومتى و ادارى در اسلام'' باقر شريف قرشى ترجمہ عباس على سلطانى مشہد ،بنياد پوہش ہاى اسلامى ۱۳۷۹ ص ۲۴۰_

۴_ سورہ نساء ۵۹_

۳۴۲

اے ايمان والو خدا كى اطاعت كرو اور رسول او ر اپنے ميں سے صاحبان امر كى اطاعت كرو_

اس طرح خدا نے '' اولى الامر'' جو كہ معاشرے كے رہبر ہيں كى اطاعت ہم پر واجب قرار دى ہے _

ہشام بن عروة، ابوہريرہ سے روايت كرتے ہيں : رسول خدا(ص) نے فرمايا : ميرے بعد تم پر رہبر حكومت كريں گے _ نيك حاكم نيكى كےساتھ اور بدكردار حاكم برائي كےساتھ _ پس جو حق كے مطابق ہو اس كى اطاعت كرو _ كيونكہ اگر نيك كام كريں گے تو تمہارے اور ان كے فائدے ميں ہوں گے اور اگر برے كام انجام ديں گے تو تمہارے فائدے اور خود ان كے نقصان ميں ہوں گے(۱)

علمائے اہلسنت نے اصل خلافت كو آيت '' اولى الامر'' سے ليا ہے(۲) جبكہ تمام شيعہ علماء اور مفسرين اس بات پر متفق ہيں كہ اس آيت ميں اولى الامر سے مراد ائمہ معصومين (ع) (ع) ہيں جو كہ مادى اور معنوى رہبر ہيں _ اس كى دليل يہ ہے كہ اس آيت ميں اطاعت كو بغير كسى قيد اور شرط كے اور خدا و رسول (ص) كى اطاعت كے رديف ميں ذكر كيا گيا ہے _ لہذا ايسى اطاعت صرف معصومين(ع) كيلئے قابل تصور ہے _ جبكہ دوسرے افراد جن كى اطاعت واجب ہوتى ہے وہ محدود اور قيود و شرائط كے ساتھ ہوسكتى ہے(۳) بہر حال رہبر يا خليفہ كى شرائط بھى متفق عليہ نہيں ہيں _ ماوردى امامت كيلئے درج ذيل شرائط كو معتبر قرار ديتے ہيں _

عدالت اپنى تمام شرائط كےساتھ مرتبہ اجتہاد پر فائز ہونا

____________________

۱ _ الماوردى ص ۵_

۲_ تفسير كبير فخر الدين رازى بيروت دار الكتب العلمية ۱۴۱۱ ق ۱۹۹۰ م ج ۹ ، ۱۰ ص ۱۱۶ ، ۱۱۷، جامع البيان فى تفسير القرآن طبرى ج ۵ ص ۲۴۱ ، ۲۴۲ تفسير المنار ج۵ ص ۱۸۱_

۳ _ '' ترجمہ تفسير الميزان'' محمد حسين طباطبائي ج ۴ ص ۶۳۶_۶۶۳ سورہ بقرہ ذيل آيت ۵۹ پيام قرآن ، ناصر مكارم شيرازى و ہمكاران ج۹ ص ۵۴_

۳۴۳

ناقص الاعضاء نہ ہو

صاحب را ے ہونا

شجاعت و بہادري

نسب يعنى امام كا تعلق قبيلہ قريش سے ہو(۱)

البتہ اكثر علمائے اہلسنت عدالت كو شرط نہيں سمجھتے(۲) چنانچہ كہتے ہيں : اولو الامر سے مراد حكام، امراء اور بادشاہ ہيں اور ہر حاكم جو حكومت حاصل كرلے اس كى اطاعت واجب ہے چاہے وہ عادل ہو يا ظالم_

تفسير المنار ميں اشارةً كہا ہے كہ بعض كا نظريہ ہے كہ آيت تمام حاكموں كى اطاعت كے متعلق ہے اور اسے واجب قرار ديتى ہے(۳) اور اس بارے ميں انہوں نے روايات بھى نقل كى ہيں(۴)

مختصر طور پر يوں كہاجاسكتاہے كہ ہمارے عقيدہ كے مطابق خلافت ''الاحكام السلطانيہ'' ميں مذكور تعريف اور خصوصيات كے پيش نظر حيات اسلامى كى ضروريات ميں سے ہے_ ليكن قابل غور نكتہ يہ ہے كہ وہ خلافت جو اموى اور عباسى دور يا حتى رحلت رسول (ص) كے بعد سامنے آئي ، حقيقى اسلامى حكومت كے ساتھ اس كا كوئي تعلق نہيں تھا_ اس دن سے خلافت ابہام كا شكار ہے _ ليكن پہلا سوال يہ ہے كہ رسول خدا(ص) كى طرف سے مقرر كردہ خليفہ كون ہے ؟ تاريخ بتاتى ہے كہ رسول خدا(ص) نے ''يوم الدار''(۵) ميں لفظ خليفہ ، نيابت اور جانشينى كے معنى ميں حضرت على (ع) كيلئے استعمال كيا تھا_

حضرت ابوبكر كى خلافت كے بارے ميں ابن خلدون كہتے ہيں : رسول خدا(ص) كى وفات كے وقت صحابہ نے پيش قدمى كى اور ان كى بيعت كرلى(۶) لہذا وہ آنحضرت(ص) كے مقرر كردہ نہيں ہيں_

____________________

۱) الماوردى ايضاًص ۶_

۲) الاردشاد ،امام الحرمين جوينى ص ۴۲۶ ، ۴۲۷ _ايضاً باقر شريف قرشى ص ۲۵۶ ، ۲۶۰ _

۳) تفسير المنار ج۵ ص ۱۸۱_

۴) صحيح مسلم ج ۳ ، كتاب الامارہ باب اطاعة الامراء و ان منعوا الحق ص ۴۷۴ ، ۴۶۷_

۵) يوم الدار وہ دن ہے جس دن رسول خدا (ص) نے حكم خدا سے اپنے رشتہ داروں كو اسلام كى دعوت دى تھى _

۶) باقر شريف القرشى ص ۲۴۶_

۳۴۴

علاوہ برايں '' الاحكام السلطانيہ'' ميں اسلامى حاكم كى جو خصوصيات بيان كى گئي ہيں اگر انكا مصداق خارجى وجود ميں آجائے تو يہ ان صفات كے بہت قريب ہيں جو علماء شيعہ نے ولى فقيہ كے متعلق بيان كى ہيں _ سوائے قريشى ہونے كے كہ جو خالصةً اہلسنت كا نظريہ ہے _البتہ اہلسنت كے چار مذاہب كے بعض فقہاء معتقد ہيں كہ ممكن ہے خلافت اور حكومت طاقت كے زور پر حاصل كى جائے _ اور جو طاقت كے زور پر حاكم بن جائے اسكى اطاعت واجب ہے (۱) احمد ابن حنبل'' علم اور عدالت ''كو شرط نہيں سمجھتے _ اور ايك حديث نقل كرتے ہيں جس كے مطابق ہر وہ شخص جو تلوار (طاقت ) كے زور پر بر سر اقتدار آجائے وہ خليفہ اور امير المؤمنين ہے _ كسى كيلئے جائز نہيں ہے كہ اس كى امامت كا انكار كرے چاہے وہ نيك ہو يا فاسق و فاجر(۲)

ان تمام تنازعات اور اختلافات سے صرف نظر كرتے ہوئے شيعہ اور اہلسنت كے نظريات كے درميان بنيادى فرق يہ ہے كہ شيعہ معتقدہيں زمانہ غيبت ميں صرف وہى افراد حق حكومت ركھتے ہيں جو بطور خاص يا عام اس ذمہ دارى كيلئے آنحضرت(ص) كى طرف سے مقرر كئے گئے ہوں_ اصطلاح ميں اسے ولايت فقيہ كہتے ہيں يعنى اس نظريہ كے مطابق حكومت كا تعين اوپر سے ہوتاہے حتى كہ جو حق عوام كو حاصل ہے وہ خدا كى جانب سے ہے_ايك خدا پرست انسان كبھى بھى حكومت كى بنياد كے طور پر مخلوق كے ارادہ كو قبول نہيں كرسكتا جب تك وہ خالق كے ارادہ سے منسلك نہ ہو _

ليكن اہلسنت كے نظريہ كے مطابق ايسا نہيں ہے _ جيسا كہ خليفہ اول كى خلافت بھى رسول خدا (ص) كے تقرر سے نہيں تھي_ بلكہ بعض صحابہ كى بيعت كے نتيجہ ميں وجود ميں آئي تھي_ اور اسى طرز سے آگے بڑھي_

____________________

۱) ''الفقہ الاسلامى و ادلتہ ''ج ۶ ص ۶۸۲_

۲) ''الماوردي'' ص ۲۰_

۳۴۵

باسمہ تعالى

ضميمہ نمبر ۲

سوال:ايسا معاشرہ جس ميں شيعہ ، غير شيعہ، مسلم اور غير مسلم افراد بستے ہيں اس ميں ولى فقيہ كے حكم كى حد ودكيا ہيں ؟

مختصر جواب:

حكومتى مسائل كے سلسلہ ميں وہ ولايت مطلقہ جو اللہ تعالى كى طرف سے رسول خدا (ص) كو عطا كى گئي ہے وہى حكومتى اختيارات ائمہ معصومين (ع) اور ان كے بعد فقيہ عادل كو ديئے گئے ہيں _ اور اس ميں كوئي فرق نہيں ہے_

قرآن مجيد اور شيعہ و سنى احاديث ميں غور كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ اسلام ايسا دين نہيں ہے جو فقط عبادات اور انفرادى آداب و رسوم ميں منحصر ہو_ اور سياسى ، اجتماعى اور اقتصادى مسائل پراس كى نگاہ نہ ہو _ فقيہ كا حكم بھى خدا و رسول كا حكم ہے _ اسلام ايك عالمگير دين ہے _ فقط مسلمانوں كےساتھ مخصوص نہيں ہے _ بلكہ آيات و روايات نے صراحت كے ساتھ اس حقيقت كو بيان كيا ہے _اور اسلامى احكام دنيا كے تمام افراد كيلئے ہيں _

تفصيلى جواب:

اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ رسول خدا (ص) اور ائمہ معصومين (ع) كى ولايت ، اس حكومت و ولايت كے واضح ترين مصاديق ميں سے ہے جو ہر دور و زمانہ ميں معاشرے كى ضرورت رہى ہے _ يہ ولايت اورخلافت

۳۴۶

خداوند كريم كى طرف سے معصومين (ع) اور زمانہ غيبت ميں '' جامع الشرائط فقيہ '' كو تفويض كى گئي ہے (۱)

ولايت چاہے تكوينى ہو يا تشريعى ، اللہ تعالى كى ذات ميں منحصر ہے _اور اس حاكميت ميں كوئي بھى اس كا شريك نہيں ہے _

عقل نے ہميشہ انسان كو خدا كى اطاعت كا پابند قرار ديا ہے _اور الہى قوانين كى مخالفت كو اس كيلئے حرام قرار ديا ہے _اور يہ ولايت مطلقہ اور اطاعت ہميشہ خدا كى ذات واحدہ ميں منحصر ہے _ مگر يہ كہ خداند متعال مقام تشريع ميں ولايت كا كوئي مرتبہ كسى دوسرے كو تفويض كردے كتاب و سنت كى رو سے اللہ تعالى نے يہ ولايت انبياء اور ائمہ معصومين عليہم السلام كو عطا فرمائي ہے _

مذكورہ سوال كى وضاحت كيلئے ضرورى ہے كہ پہلے فتوى اور حكم كے دقيق معانى بيان كئے جائيں _ نيز حكم اور فتوى كے درميان موجود فرق كو واضح كيا جائے _پھر ولى فقيہ كے حكم كى حدود اور شيعہ و سنى اور مسلم غير مسلم تمام افراد كيلئے اس كى اطاعت كے لازم ہونے كى تحقيق كى جائے_ جناب عميد زنجانى كہتے ہيں لغت ميں حكم: استقرار ، ثبوت اور استحكام كو كہتے ہيں _ ليكن قرآنى اصطلاحى ميں حق كو باطل سے ممتاز كرنے ، اختلاف كو ختم كرنے اور فيصلہ كرنے كو '' حكم'' كہتے ہيں _ جبكہ فقہى اصطلاح ميں ''حكم'' كا اطلاق عام طور پر قانون الہى پر ہوتاہے _ اس كى تعريف بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں حكم نام ہے اس خطاب شرعى كا جو مكلفين كے افعال كے ساتھ مربوط ہو_ اور اس كى دو قسميں ہيں تكليفى اور وضعى(۲)

حكم اور فتوى ميں فرق

اگر حاكم يا جامع الشرائط مجتہد كسى خاص موضوع كے متعلق كوئي حكم صادر كرے تو دوسرے مجتہدين اس

____________________

۱)قال الامام حسن العسكرى (ع) فانى قد جعلته عليكم حاكما فاذا حكم بحكمنا فلم يقبله منه فانما استخف بحكم الله و علينا رد و الراد علينا الراد على الله و هو على حد الشرك بالله _ بحار الانوار ج ۲ ص ۲۲۱ ح۱_

۲) عميد زنجانى ، عباس على '' فقہ سياسي'' ج۲ ص ۱۴۸ انتشارات ۱۳۷۷_

۳۴۷

حكم كى مخالفت نہيں كرسكتے اور تمام افراد پر چاہے وہ دوسرے مجتہدين كے مقلد ہوں اس حكم كا اتباع كرنا واجب ہوتاہے _ بلكہ يہ حكم حاكم اور دوسرے مجتہديں پر بھى حجت ہوتاہے _ جبكہ فتوى ميں اگر كوئي مجتہد كسى مسئلہ كے متعلق ايك فتوى ديتاہے تو ممكن ہے بعض ديگر مجتہدين كا فتوى اس كے خلاف ہو (۱)

ولى فقيہ كے حكم كى حدود

''مسئلہ ولايت فقيہ '' كى ايك اہم ترين بحث '' ولى فقيہ كے اختيارات كى حدود'' كے بارے ميں ہے _ كيا يہ اختيارات محدود اور نسبى ہيں ؟ يا ولى فقيہ رسول خدا(ص) كے تمام حكومتى اختيارات كا حامل ہوتاہے ؟ دوسرے لفظوں ميں حكومتى امور ميں فقيہ عادل كى ولايت رسول خدا(ص) كى ولايت كى طرح ہے ؟ يا نہ ؟ اگر چہ بعض افراد فقيہ كے اختيارات كو امور حسبيہ اورمال مجہول المالك ميں تصرف جيسے امور ميں محدود قرار ديتے ہيں _ اور فقيہ عادل كے مكمل اور مطلق اختيارات كے قائل نہيں ہيں _ بلكہ اسے نسبى سمجھتے ہيں _ ليكن اس بات كو ديكھتے ہوئے كہ فقيہ عادل ايك اسلامى حكومت كا سربراہ ہے _ لہذاضرورى ہے كہ وہ اسے بہترين طريقہ سے چلاسكتاہو_ لہذا عوام كے مصالح ، قوانين الہى اور اسلامى موازين و ضوابط كى حدود كے علاوہ ولى فقيہ كے اختيارات كى كوئي حد نہيں ہے _اسى لئے ولايت فقيہ كو ولايت مطلقہ فقيہ سے تعبير كرتے ہيں حكومتى مسائل كے سلسلہ ميں خداوند كريم كى طرف سے رسول خدا كو جو ولايت مطلقہ تفويض ہوئي ہے _ بالكل وہى حكومتى اختيارات ائمہ معصومين (ع) اور ان كے بعد فقيہ عادل كو ديئے گئے ہيں _ اور اس سلسلہ ميں كسى قسم كا كوئي فرق نہيں ہے(۲)

اسى بارے ميں امام خمينى فرماتے ہيں : يہ خيال بالكل غلط ہے كہ رسول خدا (ص) كے حكومتى اختيارات امير المؤمنين (ع) سے زيادہ تھے يا امير المؤمنين كے اختيارات كا دائرہ فقيہ كے اختيارات سے وسيع تر ہے_ البتہ رسول خدا(ص) كے فضائل تمام كائنات سے بڑھ كر ہيں_ اور ان كے بعد حضرت امير المؤمنين كے فضائل

____________________

۱) احكام تقليد و اجتہاد ، موگہى عبدالرحيم ص ۱۶۴ ، سال ۱۳۷۵_

۲) ودموكراسى در نظام ولايت فقيہ كواكبيان ، مصطفى ص ۱۲۶ انتشارات عروج سال ۱۳۷۰_

۳۴۸

سب سے زيادہ ہيں _ ليكن معنوى فضائل كى زيادتى حكومتى اختيارات ميں اضافہ كا باعث نہيں بنتى (۱)

قرآن كريم ، شيعہ و سنى احاديث اور مختلف ابواب ميں فقہاء كے فتاوى ميں غور كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ اسلام ايك ايسا دين نہيں ہے جو فقط عبادات اور انفرادى آداب و رسوم ميں محدود و منحصر ہو_ اور سياسى ، اجتماعى اور اقتصادى مسائل پر اس كى نگاہ نہ ہو_ خدا ، حكومت ، خاندان ، امت مسلمہ اور غير مسلم امتوں كے متعلق انسان كو اپنى پيدائشے سے ليكر زندگى كے آخرى مراحل تك جو كچھ انجام دينا ہے اس كيلئے اسلام كے پاس قوانين و ضوابط ہيں _ جيسا كہ پہلے كہا جاچكاہے كہ فقيہ كا حكم خدا اور رسول (ص) كا حكم ہے _ اور اسلام ايك عالمگير دين ہے _ فقط مسلمانوں كے ساتھ مربوط نہيں ہے _ جس طرح آيات اور روايات اس حقيقت كى وضاحت كرتى ہيں _ ہم بطور نمونہ بعض كى طرف اشارہ كرتے ہيں _

( و ما ارسلناك الا كافة للناس بشيراً و نذيراً و لكن اكثر الناس لا يعلمون ) (۲)

اور ہم نے تمہيں تمام افراد كيلئے بشارت دينے اور ڈرانے والا بناكر بھيجا ہے _ ليكن اكثر لوگ نہيں جانتے_

لفظ '' الناس'' ميں شيعہ ، سنى ، مسلمان اور غير مسلمان سب شامل ہيں _ نيز ارشاد ہوتاہے يا ايہا الناس انى رسول اللہ اليكم جميعا(۳) اے لوگوں ميں تم سب كى طرف خدا كا بھيجا ہوا ہوں _ لفظ ''الناس '' ضمير '' كم'' اور لفظ '' جميعاً'' سے معلوم ہوتاہے كہ خطاب سب لوگوں سے ہے اور سب اس ميں شامل ہيں _ آيت سے معلوم ہوتاہے كہ رسول خدا(ص) كا تعلق كسى ايك قوم ، گروہ يا قبيلہ كے ساتھ نہيں ہے بلكہ آپ (ص) خدا كى طرف سے تمام افراد كيلئے بھيجے گئے ہيں _

____________________

۱) ولايت فقيہ ، امام خمينى ص ۶۴ مؤسسہ نشر آثار امام خمينى چاپ اول ۱۳۷۳_

۲) سورة نساء ۲۸_

۳) سورة اعراف ۱۵۸_

۳۴۹

بسم اللہ الرحمن الرحيم

ضميمہ نمبر ۳

سوال : ولى فقيہ كے ساتھ مسلمانوں كا رابطہ اور تعلق كس طرح كا ہونا چاہيئے؟

مختصر جواب:

۱ _ ولايت فقيہ كے الہى اور عوامى جواز والے نظريے كے مطابق غير مسلم ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر بھى ولى فقيہ كى اطاعت واجب ہے _

۲ _ امام خمينى فرماتے ہيں : ولى فقيہ تمام صورتوں ميں ولايت ركھتاہے_ ليكن مسلمانوں كے امور كى سرپرستى اور حكومت كى تشكيل مسلمانوں كى اكثريت آرا كے ساتھ وابستہ ہے_

۳ _ جب دوسرے ممالك ميں مسلمانوں كى سرپرستى كرنے ميں كوئي مشكل در پيش نہ ہو تو پھر امت مسلمہ پر ولايت كے سلسلہ ميں كوئي ركاوٹ نہيں رہتى _

۴ _ امير المؤمنين (ع) امام اور امت كے رابطے كو مندرجہ ذيل موارد كے قالب ميں بيان فرماتے ہيں امت كے امام پر يہ حقوق ہيں خيرخواہي، حقوق كى ادائيگي، تعليم، آداب سكھانا اور امت پر امام كے حقوق ہيں بيعت پر قائم رہنا، خيرخواہى كا حق ادا كرنا اور مطيع رہنا_

۳۵۰

تفصيلى جواب:

مذكورہ سوال كے جواب كے متعلق سب سے پہلے تو مسئلہ كے تمام مفروضات اور اس كے متعلقہ مسائل پر گفتگو كريں گے _ اور آخر ميں رابطہ كى اقسام كو مورد تحقيق قرار ديں گے_

مفروضات _ ايك اسلامى معاشرہ يا جغرافيايى حدود كے ساتھ متعين ايك اسلامى ملك جو ايك خاص سسٹم اور نظام بنام '' ولايت فقيہ'' كے تحت كام كرتاہو(۱) دوسرے لفظوں ميں ايك ايسى سرزمين جس پر اسلامى حكومت كا مكمل تسلط ہو _ اور ايك خاص حيثيت كى حامل ہو كہ جسے ہم ام القرى كہتے ہيں(۲) ام القرى كى اہم ترين اور اصلى خصوصيت يہ ہے كہ ايك تو اس سرزمين پر اسلامى حكومت قائم ہو اور دوسرا يہ كہ ام القرى كى رہبرى كا دائرہ كار تمام امت مسلمہ كى حد تك ہے _اگر چہ فى الحال سرزمين ام القرى كادائرہ كار محدود حد تك ہے(۳) ان مفروضہ موارد كى طرف ديكھتے ہوئے ولى فقيہ كے ساتھ مسلمانوں كے روابط پر بحث كرتے ہيں_

رابطہ كى اقسام

۱ _ سياسى فقہي۲ _ امت اور امام

رابطہ كى اقسام سے پہلے اسلامى ممالك كى حدود، ولايت فقيہ كے معتبر ہونے كى ادلہ اور ولايت فقيہ كے معتبر ہونے ميں بيعت كے كردار جيسے مسائل كى تحقيق كرتے ہيں از نظر اسلام امت اور اسلامى معاشرہ كى وحدت كا اصلى عامل عقيدہ كى وحدت ہے _ ليكن اس كے باوجود يہ ياد رہے كہ ايك طرف تو طبيعى اور بين الاقوامى جغرافيايى حدود كى حامل سرزمين كلى طور پر فاقد اعتبار نہيں ہے _ چنانچہ ہم ديكھتے ہيں كہ دار الاسلام جو كہ مخصوص حدود كے ساتھ مشخص ہوتاہے اسلامى فقہ ميں اس كے خاص احكام موجود ہيں _

____________________

۱) آيت اللہ مصباح يزدى '' اختيارات ولى فقيہ در خارج از مرزہا'' مجلہ '' حكومت اسلامي'' سال اول ش ۱ ص ۸۱_

۲) محمد جواد لاريجانى '' مقولاتى در استراتى ملى '' تہران مركز ترجمہ و نشر كتاب ۱۳۶۷ ص ۲۵_

۳) محمد جواد لاريجانى '' حكومت اسلامى و مرزہاى سياسي'' مجلہ '' حكومت اسلامى '' سال اول ش ۲ زمستان ۷۵ ص ۴۶ ، ۴۵_

۳۵۱

دوسرى طرف عقيدہ كا مختلف ہونا كلى طور پراختلاف كا يقينى عامل نہيں ہے _ كيونكہ ممكن ہے :اسلامى ممالك ميں موجود غير مسلم افرا دكو اسلامى حكومت كى حمايت حاصل ہو_ اورايك طرح سے اس كے شہرى ہوں (۱) ولايت فقيہ كى مشروعيت والے نظريہ كى بناپر ممكن ہے اس كا سرچشمہ ولايت تشريعى الہى ہو يا عوامى ہو _ دوسرى صورت ميں در حقيقت '' بيعت'' ولايت فقيہ كو مشروعيت عطا كرنے ميں بنيادى كردار ادا كرتى ہے _ ولى فقيہ كے مسلمانوں كےساتھ سياسى فقہى تعلق كے بارے ميںآيت اللہ مصباح يزدى فرماتے ہيں :

اگر ہم ولايت فقيہ كى مشروعيت كے سلسلے ميں پہلے نظريہ كے قائل ہوں _ يعنى ولايت فقيہ كا سرچشمہ الہى ولايت تشريعى كو قرار ديں تو پھر اس كا فرمان ہر مسلمان كيلئے لازم الاجراء ہوگا _ پس غير اسلامى ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر بھى اس كى اطاعت واجب ہوگي_

اور اگر دوسرے نظريہ كے قائل ہوں يعنى ولايت فقيہ كى مشروعيت كا سرچشمہ عوام ہوں _ تو كہہ سكتے ہيں كہ امت كى اكثريت كا انتخاب يا اہل حل و عقد اور شورى كے ممبران كى اكثريت كا انتخاب دوسروں پر بھى حجت ہے_

اس نظريہ كى بنياد پر بھى غير مسلم ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر ولى فقيہ كى اطاعت ضرورى ہے چاہے انہوں نے اس كى بيعت كى ہو يا نہ(۲)

اسى كے متعلق جب امام خمينى سے فتوى پوچھا گيا كہ كونسى صورت ميں جامع الشرائط ولى فقيہ اسلامى معاشرہ پر ولايت ركھتاہے تو آپ نے فرمايا :

بسمہ تعالى _ تمام صورتوں ميں ولايت ركھتاہے _ ليكن مسلمانوں كے امور كى سرپرستى اور حكومت كى تشكيل مسلمانوں كى اكثريت آراء كےساتھ مربوط ہے كہ جس كا ذكر اسلامى جمہوريہ ايران كے قانون

____________________

۱) سابقہ مصدرآيت اللہ مصباح يزدى ص ۸۴_

۲) آيت اللہ مصباح يزدى _ اختيارات ولى فيہ در خارج از مرزہا حكومت اسلامى سال اول ش ۱ ص ۸۸، ۸۹_

۳۵۲

اساسى ميں موجودہے _ اور جسے صدر اسلام ميں بيعت كے ساتھ تعبير كيا جاتا تھا _ روح اللہ الموسوى الخميني (۱)

اس بارے ميں آيت اللہ جوادى آملى فرماتے ہيں :

يہاں دو باتيں ہيں جو ايك دوسرے سے جدا ہونى چاہيں ايك شرعى جہت كے ساتھ مربوط ہے اور دوسرى بين الاقوامى قانون كے ساتھ _شرعى لحاظ سے كوئي مانع نہيں ہے نہ فقيہ كيلئے كہ وہ سب كاوالى ہواور نہ ہى تمام دنيا كے مسلمانوں كيلئے كہ اس كى ولايت كو تسليم كرليں _ بلكہ ايسى ولايت كا مقتضى موجودہے جس طرح مرجع كى تقليد اور قضاوت كا نافذ ہونا ہے _كيونكہ اگر ايك مرجع تقليد (مجتہد) ايك خاص ملك ميں زندگى بسر كرتاہو اور اسى ملك كا رہنے والا ہو تو اس كا فتوى دنيا ميں رہنے والے اس كے تمام مقلدين كيلئے نافذ العمل ہے _ اسى طرح جامع الشرائط فقيہ اگر كوئي فيصلہ صادر كرتاہے تو تمام مسلمانوں پر اس پر عمل كرنا واجب ہے اور اس كى مخالفت كرنا حرام ہے_

اور دوسرا مطلب يعنى بين الاقوامى قانون كے لحاظ سے جب تك كوئي رسمى تعہد او ر قانونى عہد و پيمان اس ولايت كے نافذ ہونے ميں ركاوٹ نہ بنے اور نہ ولايت فقيہ كيلئے كوئي مانع ہو اور نہ ہى دنيا كے دوسرے ممالك كے رہنے والے مسلمانوں كى سرپرستى كيلئے كوئي ركاوٹ ہو تو پھر تقليد اور فيصلے كى طرح يہ ولايت بھى واجب العمل ہوگى _ ليكن اگر كوئي قانونى اور بين الاقوامى عہد اس ولايت كے نفوذ ميں مانع بن جائے اور مخالفين عملى طور پر اس كيلئے ركاوٹ بن جائيں تو پھر فقيہ اور عوام دونوں مجبور ہيں(۲)

اب ہم رابطہ كى دوسرى قسم يعنى امت اور امام كے رابطہ پر بحث كرتے ہيں _ اور اس كيلئے يہاں ہم نہج البلاغہ سے امير المؤمنين (ع) كے كلام كا ايك ٹكڑا ذكر كرتے ہيں _امير المؤمنين قاسطين (اہل صفين) كے

____________________

۱) مصطفى كواكبيان '' مبانى مشروعيت در نظام ولايت فقيہ '' تہران عروج چاپ اول ۱۳۷۸ ص ۲۵۸ ، ۲۵۷_

۲) عبداللہ جوادى آملى '' ولايت فقيہ'' ولايت فقاہت و عدالت'' اسراء ، چاپ اول ۱۳۷۸ ، ص۴۷۸، ۴۷۹_

۳۵۳

خلاف جنگ پر ابھارتے ہوئے لوگوں سے فرماتے ہيں :

اے لوگو ميرا تم پر ايك حق ہے او رتمہارا بھى مجھ پر ايك حق ہے _ مجھ پر واجب ہے كہ تمہارى خير خواہى سے دريغ نہ كروں_ بيت المال ميں سے جو تمہارا حق ہے اسے ادا كروں _ تمہيں تعليم دوں تا كہ جاہل نہ رہو_ اور تمہيں آداب سكھاؤں تا كہ اہل علم بنو_

اور ميرا تم پر يہ حق ہے كہ ميرى بيعت پر قائم رہو_ پوشيدہ اور علانيہ طور پر ميرى خير خواہى كا حق ادا كرو _ جب تمہيں بلاؤں تو آجاؤ اور جب حكم دوں تو اس پر عمل كرو(۱)

____________________

۱) نہج البلاغہ خطبہ ۳۴_

۳۵۴

اصطلاحات

۱) Rationality

۲) Secular Rationality

۳) Industrial Democracy

۴) Liberalism

۵) Pluralism

۶) Realism

۷) Nazism

۸) fascism

۹) Absolute choiceism

۱۰) Relativism

۱۱) Pluralism

۱۲) Individualism

۱۳) Wholism

۱۴) Political philosophy

۱۵) Strategic Studies

۱۶) Constitutionality

۱۷) Assembly Of Experts

۳۵۵

فہرست

پہلا باب : ۴

دين اور سياست ۴

تمہيد: ۵

پہلا سبق : ۶

سياست اور اس كے بنيادى مسائل ۶

علم سياست اور سياسى فلسفہ(۱) ۸

خلاصہ ۱۳

سوالات : ۱۴

دوسرا سبق : ۱۵

اسلام اور سياست ۱۵

سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے كى ادلّہ ۱۹

اسلام كا سياسى فلسفہ اور سياسى فقہ ۲۱

سبق كا خلاصہ : ۲۳

سوالات: ۲۴

تيسرا سبق: ۲۵

دينى حكومت كى تعريف ۲۵

حكومت اور رياست كے معاني ۲۶

دينى حكومت كى مختلف تعريفيں ۲۷

مذكورہ چار تعريفوں كا مختصر تجزيہ ۲۹

۳۵۶

خلاصہ : ۳۱

سؤالات ۳۲

چوتھا سبق: ۳۳

سياست ميں حاكميت دين كى حدود ۳۳

حكومت اور اس كے سياسى پہلو: ۳۴

حاكميت دين كى حدود ۳۶

خلاصہ: ۳۹

سوالات : ۴۰

پانچواں سبق: ۴۱

دينى حكومت كے منكرين ۴۱

سياست سے اسلام كى جدائي ۴۳

دينى حكومت كا تاريخى تجربہ : ۴۶

خلاصہ ۴۹

سوالات : ۵۰

چھٹا سبق: ۵۱

سيكولرازم اور دينى حكومت كا انكار ۵۱

سيكولرازم كى تعريف: ۵۱

دين اور سيكولرازم ۵۵

خلاصہ : ۵۸

سوالات : ۵۹

۳۵۷

ساتواں سبق: ۶۰

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلہ -۱- ۶۰

پہلى دليل: ۶۰

اس پہلي دليل كا جواب ۶۲

خلاصہ : ۶۵

سوالات : ۶۶

آٹھواں سبق : ۶۷

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلّہ -۲- ۶۷

دوسرى دليل : ۶۷

اس دوسرى دليل كاجواب: ۶۸

خلاصہ : ۷۲

سوالات : ۷۳

دوسرا باب : ۷۴

اسلام اور حكومت ۷۴

تمہيد : ۷۵

نواں سبق: ۷۶

آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت -۱- ۷۶

حكومت كے بغير رسالت ۷۷

پہلى دليل كا جواب ۸۰

دوسرى دليل كا جواب : ۸۲

۳۵۸

خلاصہ : ۸۵

سوالات : ۸۶

دسواں سبق: ۸۷

آنحضرت (ص) اور تأسيس حكومت -۲- ۸۷

جابرى كے نظريئےکا جواب : ۸۹

آنحضرت (ص) كى حكومت كا الہى ہونا : ۹۱

خلاصہ : ۹۶

سوالات : ۹۷

گيا رہواں سبق: ۹۸

آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت ۹۸

اہلسنت اور نظريہ خلافت : ۱۰۰

خلاصہ : ۱۰۵

سوالات : ۱۰۶

بارہواں سبق : ۱۰۷

شيعوں كا سياسى تفكر ۱۰۷

زمانہ غيبت ميں شيعوں كا سياسى تفكر : ۱۱۲

خلاصہ : ۱۱۵

سوالات : ۱۱۶

تيرہواں سبق: ۱۱۷

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۱- ۱۱۷

۳۵۹

بيعت كا مفہوم اور اس كى اقسام : ۱۱۸

نظريہ انتخاب كى مؤيد روايات ۱۲۰

صدور روايات كا زمانہ اور ماحول: ۱۲۳

خلاصہ: ۱۲۶

سوالات ۱۲۷

چودہواں سبق: ۱۲۸

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۲- ۱۲۸

ان روايات كے جدلى ہونے كى دليليں ۱۲۹

خلاصہ : ۱۳۷

سوالات: ۱۳۸

تيسرا باب: ۱۳۹

ولايت فقيہ كا معنى ، مختصر تاريخ اور ادلّہ ۱۳۹

تمہيد : ۱۴۰

پندرہواں سبق: ۱۴۱

ولايت فقيہ كا معني ۱۴۱

ولايت كى حقيقت اور ماہيت ۱۴۲

اسلامى فقہ ميں دوطرح كى ولايت ۱۴۴

خلاصہ ۱۴۶

سوالات: ۱۴۷

سولہواں سبق : ۱۴۸

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367