اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت21%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143937 / ڈاؤنلوڈ: 3621
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

سيكولرازم كے استدلال كا پہلا مقدمہ يہ ہے كہ اجتماعى اورسماجى روابط و تعلقات ہميشہ بدلتے رہتے ہيں_ طول تاريخ ميں انسان كے اجتماعى اور اقتصادى روابط تبديل ہوتے رہے ہيں اور اس تبديلى كا سرچشمہ علمى اور انسانى تجربات كا رشد ہے_ ديہاتى اور قبائلى معاشرہ ميں حاكم سياسى ،ثقافتى اور اقتصادى روابط ،صنعتى اور نيم صنعتى معاشرہ پر حاكم اجتماعى روابط سے بہت مختلف ہيں _ بنابريں اجتماعى زندگى كے تحول و تغير كى بناپر اجتماعى روابط ميں تبديلى ايك ايسى حقيقت ہے جس سے انكار نہيں كيا جاسكتا_

دوسرا مقدمہ يہ ہے كہ دين اور اس كى تعليمات ثابت اور غير قابل تغيير ہيں_كيونكہ دين نے ايك خاص زمانہ جو كہ اس كے ظہور كا دور تھا ميں انسان سے خطاب كيا ہے اور اس زمانے كو ديكھتے ہوئے ايك مخصوص اجتماع كےحالات اور خاص ماحول كے تحت اس سے سروكار ركھاہے_ دين اور شريعت ايسى حقيقت نہيں ہے جو قابل تكرار ہو_ اسلام نے ايك خاص زمانہ ميں ظہور كيا ہے اور اس طرح نہيں ہے كہ سماجى تحولات كے ساتھ ساتھ وحى الہى بھى بدل جائے اور اسلام بھى نيا آجائے _ دين ايك امر ثابت ہے اور سماجى تحولات كے ساتھ اس ميں جدّت پيدا نہيں ہو تى اور اس كے اصول و ضوابط اور تعليمات نئے نہيں ہوجاتے _ ان دو مقدموں كانتيجہ يہ ہے كہ ايك امر ثابت، امر متغير پر قابل انطباق نہيں ہے _ دين جو كہ امر ثابت ہے ہر زمانے كے مختلف اجتماعى اور سماجى روابط كو منظم نہيں كرسكتا_ صرف اُن معاشروں ميں شريعت كا نفاذ مشكل سے دوچار نہيں ہوتا جو اس كے ظہوركے قريب ہوں كيونكہ اس وقت تك ان معاشروں كے اجتماعى روابط ميں كوئي بنيادى تبديلى نہيں ہوئي تھى _ ليكن ان معاشروں ميں شريعت كا نفاذ مشكل ہوتاہے، جن كے اجتماعى مسائل نزول وحى كے زمانہ سے مختلف ہيںپس شريعت كے نفاذ كے غير ممكن ہونے كا نتيجہ يہ ہے كہ سياسى اور اجتماعى امور ميں دين كى حاكميت اور دينى حكومت كى تشكيل كى ضرورت نہيں ہے_

۶۱

اس پہلي دليل كا جواب

اس استدلال اور اس كے دو اساسى مقدموں پر درج ذيل اشكالات ہيں _

۱_ اجتماعى امور اور روابط ميں تبديليوں كا رونما ہونا ايك حقيقت ہے ليكن يہ سب تبديلياںايك جيسى نہيں ہيں اور ان ميں سے بعض شريعت كے نفاذ ميں ركاوٹ نہيں بنتيں _ اس نكتہ كو صحيح طور پر سمجھ لينا چاہيے كہ تمام اجتماعى تغيرات اساسى اور بنيادى نہيں ہيں بلكہ بعض اجتماعى تبديلياں صرف ظاہرى شكل و صورت كے لحاظ سے ہوتى ہيں بايں معنى كہ گذشتہ دور ميں معاشرے ميں لوگوں كے درميان اقتصادى روابط تھے آج بھى ويسے ہى اقتصادى روابط موجود ہيں ليكن ايك نئي شكل ميں نہ كہ نئے روابط نے ان كى جگہ لى ہے_ مختلف اجتماعى روابط ميں شكل و صورت كى يہ تبديلى قابل تصور ہے_ مثلاًتمام معاشروں ميں اقتصادى و تجارتى تعلقات; خريد و فروخت، اجارہ ، صلح اور شراكت جيسے روابط اور معاملات كى صورت ميں موجود رہے ہيں اور آج بھى موجود ہيں _زمانہ كے گزرنے كے ساتھ ساتھ ان كى شكل و صورت ميں تبديلى آجاتى ہے ليكن ان معاملات كى اصل حقيقت نہيں بدلتي_ اگر ماضى ميں خريد و فروخت ،اجارہ اور شراكت كى چند محدود صورتيںتھيں ، تو آج انكى بہت سارى قسميں وجود ميں آچكى ہيں _ مثلاً ماضى ميں حصص كاكا روبار كرنے والي(۱) اور مشتركہ سرمايہ كى(۲) بڑى بڑى كمپنياں نہيں تھيں_ اسلام نے ان معاملات كى اصل حقيقتكے احكام مقرر كر ديئے ہيں _ تجارت ، شراكت اور اجارہ كے متعلق صدر اسلام كے فقہى احكام ان تمام نئي صورتوں اور قسموں كے ساتھ مطابقت ركھتے ہيں كيونكہ يہ احكام اصل حقيقت كے متعلق ہيں نہ كہ ان كى كسى مخصوص شكل و صورت كے متعلق_ لہذا اب بھى باقى ہيں _

____________________

۱) Exchange. Stock

۲) jointstock companis

۶۲

اسى طرح اسلام نے بعض اقتصادى معاملات كو ناجائز قرار ديا ہے _ آج اگر وہ نئي شكل ميں آجائيں تب بھى اسلام كيلئے ناقابل قبول ہيں اور اس نئي شكل پر بھى اسلام كا وہى پہلے والا حكم لاگو ہوتا ہے _ مثلاً سودى معاملات اسلام ميں حرام ہيں _ آج نئے طرز كے سودى معاملات موجود ہيں جو ماضيميں نہيں تھے _ اگر تجزيہ و تحليل كرتے وقت مجتہد كو معلوم ہوجائے كہ يہ سودى معاملہ ہے تو وہ اس كى حرمت اور بطلان كا حكم لگا دے گا _ بنابريں اس نئے مورد ميں بھى سود والا حكم لگانے ميں كوئي دشوارى نہيں ہوگى _ لہذا اقتصادى روابط و معاملات ميں تغير و تبدل شرعى احكام كے منطبق ہونے ميں ركاوٹ نہيں بنتا _

۲_ بعض اجتماعى تحولات، ايسے مسائل كو جنم ديتے ہيں جوحقيقت اور شكل و صورت كے لحاظ سے بالكل نئے ہوتے ہيں كہ جنہيں ''مسائل مستحدثہ'' كہتے ہيں اس قسم كے مسائل كا حل بھى شريعت كے پاس موجود ہے_ پس سيكولرازم كے استدلال كا دوسرا مقدمہ كہ'' دين ثابت ہے اور تغير پذير اشياء پر منطبق ہونے كى صلاحيت نہيں ركھتا'' درست نہيں ہے كيونكہ دين اگر چہ ثابت ہے اور معاشرتى تحولات كے ساتھ ساتھ تبديل نہيں ہوتا ليكن اس كے باوجود دين مبين اسلام ميں ايسے قوانين و اصول موجود ہيں جن كى وجہ سے فقہ اسلامى ہر زمانہ كے مسائل مستحدثہ (نئے مسائل ) پر منطبق ہونے اور ان كو حل كرنے كى قدرت و صلاحيت ركھتى ہے اور اس ميں اسے كوئي مشكل پيش نہيں آتى _ ان ميں سے بعض اصول و قوانين يہ ہيں_

الف_ اسلامى فقہ خصوصاً فقہ اہلبيت ميں اجتہاد كا دروازہ كھلا ہے بايں معنى كہ فقيہ اور مجتہد كا كام صرف يہ نہيں ہے كہ فقہى منابع ميں موجود مسائل كے احكام كا استنباط كرے بلكہ وہ فقہى اصول و مبانى كو مد نظر ركھتے ہوئے جديد مسائل كے احكام كے استخراج كيلئے بھى كوشش كرسكتا ہے _

ب_ شرط كى مشروعيت اور اس كى پابندى كا لازمى ہونا فقہ كے بعض شرائط اور جديد مسائل كے ساتھ

۶۳

مطابقت كى راہ ہموار كرتا ہے كيونكہ بہت سے نئے عقلائي معاملات كو ''شرط اور اس كى پابندى كے لزوم'' كے عنوان سے جواز بخشا جاسكتاہے _ مثلاً عالمى تجارت كے قوانين ،دريائي اور بحرى قوانين، قوانين حق ايجاد ، فضائي راستوںاور خلائي حدود كے قوانين سب نئے امور اور مسائل ہيں كہ جن كے متعلق اسلامى فقہ ميں واضح احكام موجود نہيں ہيں _ ليكن اسلامى نظام ان ميں سے جن ميں مصلحت سمجھتاہے ان كو بين الاقوامى يا بعض انفرادى معاملات كے ضمن ميں قبول كرسكتاہے اور لوگوں كو ان كى پابندى كرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے كيلئے راہنمائي كرسكتا ہے _

ج_ مصلحت كے پيش نظر جامع الشرائط ولى فقيہ كا حكم حكومتى زمانہ كے تقاضوں كے ساتھ فقہ كى مطابقت كے اہم ترين اسباب ميں سے ہے _نئے امور كہ جن كے متعلق مخصوص فقہى حكم موجود نہيں ہے ميں ولى فقيہ حكومتى حكم كے تحت ان كى شرعى حيثيت كا تعين كرسكتا ہے_

مختصر يہ كہ:

اولاً: تو تمام اجتماعى تبديلياں ايسى نہيں ہيں جو نئے شرعى جواب كا مطالبہ كريں اور نفاذ شريعت ميں دين كا ثبات اور استحكام ركاوٹ پيدا كرے كيونكہ صرف شكل وصورت بدلى ہے لہذا شريعت كا حكم آسانى سے اس پر منطبق ہوسكتا ہے _

ثانياً: اگر اجتماعى تحولات كى وجہ سے بالكل نئے مسائل پيدا ہوجائيں تب بھى اسلامى فقہ ميں ايسے اسباب وا صول موجود ہيں جن كى وجہ سے شريعت ان نئے مسائل كيلئے بھى جواب گو ہوسكتى ہے _ بنابريں '' ثبات دين'' كا معنى يہ نہيں ہے كہ دين كا جديد مسائل پر منطبق ہونا ممكن نہيں ہے _ بلكہ دين ثابت ميں ايسےعناصرموجود ہيں كہ جن كى بناپر دين جديد تبديليوںاور مسائل كے قدم بہ قدم چل سكتا ہے _

۶۴

خلاصہ :

۱)'' سيكولرازم'' دينى حكومت كو تطبيق اور نفاذ شريعت كى مشكل سے دوچا ر سمجھتاہے _

۲) دينى حكومت كى مخالفت كے سلسلہ ميں ''سيكولرازم'' كى مشہور دليل يہ ہے كہ فقہ اپنے ثبات كى وجہ سے اجتماعى تحولات پر منطبق نہيں ہوسكتى _

۳)''سيكولرازم'' كے استدلال كا بنيادى نكتہ يہ ہے كہ دين ثابت ہے اور اجتماعى روابط تبديل ہوتے رہتے ہيں اور ثابت چيز متغيّر شےء پر منطبق نہيں ہو سكتى پس دين معاشرے ميں قابل اجرا نہيں ہے _

۴) حقيقت يہ ہے كہ اجتماعى تغيرات ايك جيسے نہيں ہيں _

۵) اجتماعى معاملات كى شكل و صورت ميں تبديلى نفاد شريعت ميں مشكل پيدا نہيں كرتى _

۶) اگر چہ بعض تبديلياں بالكل نئي ہيں ليكن شريعت ميں ان كيلئے راہ حل موجود ہے _

۷) دين اگر چہ ثابت ہے ليكن اس ميں مختلف حالات كے ساتھ سازگار ہونے كے اسباب فراہم ہيں_

۶۵

سوالات :

۱) دينى حكومت كى نفى پر ''سيكولرازم'' كى پہلى دليل بيان كيجيئے _

۲) دو قسم كے اجتماعى تغيرات كى مختصر وضاحت كيجيئے _

۳) كس قسم كے اجتماعى تغيرات ميں شريعت كا اجرازيادہ مشكل ہے ؟

۴)''سيكولرازم'' كے پہلے استدلال كا اختصار كيساتھ جواب بيان كيجئے_

۵) جديد مسائل پر اسلامى فقہ كو قابل انطباق بنانے والے عناصر كى چند مثاليں پيش كيجئے_

۶۶

آٹھواں سبق :

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلّہ -۲-

دوسرى دليل :

سيكولرازم كى پہلى دليل اس زاويہ نگاہ سے بيان كى گئي تھى كہ اجتماعى معاملات اور مسائل ہميشہ بدلتے رہتے ہيں جبكہ دين و شريعت ثابت ہے لہذا فقہ ان معاملات اور مسائل كا جواب دينے سے قاصر ہے _ سياست اور اجتماع كے متعلق فقہ كى ناتوانى پر سيكولرازم كى دوسرى دليل درج ذيل مقدمات پر مشتمل ہے _

۱_ فقہ كے سياسى اہداف ميں سے ايك معاشرتى مشكلات كا حل اور انسان كى دنيوى زندگى كے مختلف پہلوؤں كى تدبير كرنا ہے غير عبادى معاملات مثلاً ارث ، وصيت، تجارت ، حدود اور ديات ميں واضح طور پريہ ہدف قابل فہم ہے _ مثال كے طور پر معاشرتى برائيوں كو روكنے كيلئے حدود و ديات كا باب اور معاشرہ كى اقتصادى مشكلات كے حل كيلئے مختلف تجارتى اور معاملاتى ابواب كارسازہيں _

۲_ گذشتہ ادوار ميں اجتماعى روابط بہت ہى سادہ اور لوگوں كى ضروريات نہايت كم اور غير پيچيدہ تھيں _ فقہ آسانى سے ان اہداف سے عہدہ برا ہو سكتى تھى اور انسان كى اجتماعى ضروريات كو پورا كرنے كى صلاحيت

۶۷

ركھتى تھى بنابريں فقہ اور فقہى نظارت صرف اس معاشرہ كے ساتھ ہم آہنگ ہوسكتى ہے جو نہايت سادہ اور مختصرہو_

۳_ آج معاشرہ اور اجتماعى زندگى مخصوص پيچيدگيوں كى حامل ہے لہذا اس كى مشكلات كے حل كيلئے علمى منصوبہ بندى(۱) كى ضرورت ہے اور موجودہ دور كى مشكلات كو فقہ اپنى سابقہ قد و قامت كيساتھ حل كرنے سے قاصر ہے كيونكہ فقہ بنيادى طور پر منصوبہ بندى كے فن كو نہيں كہتے بلكہ فقہ كا كام احكام شريعت كو بيان كرنا ہے فقہ صرف قانونى مشكلات كو حل كرسكتى ہے جبكہ موجودہ دور كى تمام مشكلات قانونى نہيں ہيں _

ان مقدمات كا نتيجہ يہ ہے كہ فقہ موجودہ معاشروں كو چلانے سے قاصر ہے كيونكہ فقہ صرف قانونى مشكلات كا حل پيش كرتى ہے جبكہ موجود معاشرتى نظام كو ماہرانہ اور فنى منصوبہ بندى كى ضرورت ہے _ لہذا آج كى ماہرانہ علمى اورسائنٹيفك منصوبہ بنديوں كے ہوتے ہوئے فقہى نظارت كى ضرورت نہيں ہے _

اس دوسرى دليل كاجواب:

مذكورہ دليل ''دينى حكومت'' اور'' اجتماعى زندگى ميں فقہ كى دخالت ''كى صحيح شناخت نہ ہونے كا نتيجہہے _ اس دليل ميں درج ذيل كمزورنكات پائے جاتے ہيں _

۱_ اس دليل كے غلط ہونے كى ايك وجہ فقہى نظارت اور علمى و عقلى نظارت(۲) كے در ميان تضاد قائم كرنا ہے _گويا ان دونوں كے درميان كسى قسم كا توافق اور مطابقت نہيں ہے _ اس قسم كے تصور كا سرچشمہ عقل اور دين كے تعلق كا واضح نہ ہونا اوردينى حكومت اور اس ميں فقہ كے كردار كے صحيح تصور كا فقدان ہے_ اسى ابہام كى وجہ سے سيكولرازم نے يہ سمجھ ليا ہے كہ معاشرے كى تمام تر زمام نظارت يا تو فقہ كے ہاتھ ميں ہو اور تمام تر

____________________

۱) scientific management

۶۸

اجتماعى و سماجى مشكلات كا حل فقہ كے پاس ہو اور علم و عقل كى اس ميں كسى قسم كى دخالت نہ ہو يا فقہ بالكل ايك طرف ہوجائے اور تمام تر نظارت علم و عقل كے پاس ہو_

اس تضاد كى كوئي بنياد اور اساس نہيں ہے دينى حكومت اور سيكولر حكومت ميں يہ فرق نہيں ہے كہ دينى حكومت عقل ، علم اور انسانى تجربات كو بالكل ناديدہ سمجھتى ہے اور معاشرے كے انتظامى امور ميں صرففقہى احكام پر بھروسہ كرتى ہے جبكہ سيكولر حكومت معاشرتى امور ميں مكمل طور پر عقل و علم پر انحصار كرتى ہے _اس قسم كى تقسيم بندى اور فرق كاملاً غير عادلانہ اور غير واقعى ہے_دينى حكومت بھى عقل و فہم اور تدبيرومنصوبہ بندى سے كام ليتى ہے_ دينى حكومت اور سيكولر حكومت ميں فرق يہ ہے كہ دينى حكومت ميں عقل اور منصوبہ بندى كو بالكل بے مہار نہيں چھوڑ اگيا بلكہ عقل دينى تعليمات كے ساتھ ہم آہنگ ہوتى ہے اور دينى حكومت عقل سے بے بہرہ نہيں ہے_ بلكہ اسے وہ عقل چاہيے جو شريعت كے رنگ ميں رنگى ہو اور دينى حكومت ميں نظارت اور عقلى منصوبہ بندى كيلئے ضرورى ہے كہ وہ دينى تعليمات سے آراستہ ہوں اور اسلامى حدودكو مد نظر ركھتے ہوئے معاشرتى امور كو چلائے _ سيكولر حكومت ميںعقلى نظارت ،بے مہار اور دين سے لا تعلق ہوتى ہے _ ايسى عقلينظارت دين سے كوئي مطابقت نہيں ركھتى _

۲_ دينى حكومت ميں دين كى حاكميت اور اسلامى احكام كى رعايت كا يہ معنى نہيں ہے كہ حكومت كے تمام كام مثلاً قانون گذارى ، فيصلے اور منصوبہ بندى جيسے امور بلاواسطہ'' فقہ سے ماخوذ'' ہوں _ دينى حكومت كى اساس اس پر نہيں ہے كہ معاشيات كى جزوى تدابير، بڑے بڑے سياسى اور اقتصادى منصوبے اور اجتماعى پيچيدگيوں كا حل عقل و علم كى دخالت اور مددكے بغير براہ راست فقہ سے اخذ كيا جائے_ يہ بات نا ممكن ہے اور دين نے بھى اس قسم كا كوئي دعوى نہيں كيا _ نہ ماضى ميں اور نہ حال ميں كبھى بھى فقہ تمام مشكلات كا حل نہيں

۶۹

رہى بلكہ ماضى ميں بھى جو مشكلات سيكولر افراد كى نظر ميں صرف فقہ نے حل كى ہيں در حقيقت ان ميں عقل اور انسانى تجربات بھى كار فرما رہے ہيں_ آنحضرت (ص) ،اميرالمؤمنيناور صدر اسلام كے دوسرے خلفاء نے اسلامى معاشرے كے انتظامى امور ميں جس طرح فقہ سے مدد لى ہے اسى طرح عقلى چارہ جوئي، عرفى تدابير اور دوسروں كے مشوروں سے بھى فائدہ اٹھايا ہے _ ايسا ہرگز نہيں ہے كہ فقہ تمام اجتماعى مسائل اور مشكلات كا حل رہى ہو اور اس نے عقل و تدبيركى جگہ بھى لے لى ہو _ پس جس طرح ماضى ميں دينى حكومت نے فقہ اور عقل و عقلى تدابير كو ساتھ ساتھ ركھا ہے اسى طرح آج بھى دينى حكومت ان دونوں كو ساتھ ساتھ ركھ سكتى ہے _ سيكولر حضرات كو يہ غلط فہمى ہے كہ ماضى ميں دينى حكومت صرف فقہ كى محتاج تھى اور آج چونكہ دنيا كو اجتماعى اورناقابل انكار منصوبہ بندى كى ضرورت ہے لہذا دينى حكومت جو كہ صرف فقہى نظارت پر مشتمل ہوتى ہے معاشرتى نظام كو چلانے سے قاصر ہے_

۳_ اجتماعى زندگى ميں فقہ كے دو كام ہيں_ ايك : مختلف پہلوؤں سے قانونى روابط كو منظم كرنا اور ان كى حدود متعين كرنا_ دوسرا : ثقافت ، معيشت اور داخلى و خارجى سياست كے كلى اصول و ضوابط مشخص كرنا_دينى حكومت كا فقہ پر انحصار يا فقہى نظارت كا مطلب يہ ہے كہ وہ حكمراني، خدمتگزاري،كا ركردگى اور قوانين بنانے ميں ان قانونى حدود كا بھى خيال ركھے اور ان اصول و قوانين كے اجرا اور اپنے اہداف كے حصول كيلئے عملى منصوبہ بندى بھى كرے_ فقہى نظارت كا معنى يہ نہيں ہے كہ فقہ صرف افراط زر ، بے روزگارى اور ٹريفك كى مشكلات كو حل كرے بلكہ فقہى نظارت كا معنى يہ ہے كہ اسلامى معاشرے كے حكمران اور منتظمين اقتصادى اور سماجى مشكلات كو حل اوران كى منصوبہ بندى كرتے وقت شرعى حدود كى رعايت كريں _ اور ايسے قوانين كا اجرا كريں جو فقہى موازين كے ساتھ سب سے زيادہ مطابقت ركھتے ہوں _ لہذا دليل كے تيسرے حصّے ميں جو يہ

۷۰

كہا گيا ہے كہ فقہ صرف قانونى پہلو ركھتى ہے اور تمام معاشرتى مسائل قانونى نہيں ہيں وہ اس نكتے پر توجہ نہ دينے كى وجہ سے كہا گيا ہے _ اگرچہ تمام معاشرتى مسائل قانونى نہيں ہيں ليكن ايك دينى معاشرے ميں ان مشكلات اور جديد مسائل كے حل كا طريقہ بہت اہميت ركھتا ہے_ ايك اجتماعى مشكل كے حل كے مختلف طريقوں ميں سے وہ طريقہ اختيار كيا جائے جس ميں اسلامى احكام كى زيادہ رعايت كى گئي ہو اورجو اسلامى اصولوں سے زيادہ مطابقت ركھتا ہو _ پس كسى اجتماعى مشكل كے قانونى نہ ہونے كا مطلب يہ نہيں ہے كہ اس كے حل كيلئے اسلامى احكام كو بالكل نظر انداز كرديا جائے_

يہ دو دليليں جو ان دو سبقوںميں بيان كى گئي ہيں ''سياست اور معاشرتى نظارت ميں دين كى عدم دخالت '' پر سيكولر حضرات كى اہم اور مشہورترين ادلّہ ميں سے ہيں _باقى ادلّہ اتنى اہم نہيں ہيں لہذا انہيں ذكر نہيں كرتے اورانہيں دو پر اكتفاء كرتے ہيں _

۷۱

خلاصہ :

۱) فقہ كے اہداف ميں سے ايك انسانى معاشرے كى اجتماعى مشكلات كو حل كرنا ہے _

۲)سيكولر حضرات كا خيال ہے كہ ماضى ميں ان مشكلات كے حل كرنے ميں اسلامى فقہ كامياب رہى ہے ليكن موجودہ جديد دور ميں وہ اس كى صلاحيت نہيں ركھتي_

۳) موجودہ دور، خاص قسم كى پيچيدگيوں اور مسائل كا حامل ہے پس اس كى تمام مشكلات فقہ سے حل نہيں ہو سكتيں لہذا ان كے حل كيلئے علمى نظارت اور منصوبہ بندى كى ضرورت ہے _

۴) سيكولر حضرات كا خيال ہے كہ علمى و عقلى نظارت، فقہى نظارت كى جانشين بن چكى ہے_

۵) سيكولر حضرات كى نظر ميں فقہ صرف قانونى مشكلات كو بر طرف كرتى ہے جبكہ موجودہ دور كى مشكلات صرف قانونى نہيں ہيں_

۶) سيكولر حضرات كو فقہى نظارت اور علمى نظارت كے درميان تضاد قرار دينے ميں غلط فہمى ہوئي ہے _

۷) دينى حكومت اور فقہى نظارت نے ماضى سے ليكر آج تك عقل سے فائدہ اٹھايا ہے _

۸) امور حكومت ميں فقہ كو بروئے كار لانا ،عقل سے مدد حاصل كرنے كے منافى نہيں ہے _

۹)دينى حكومت ميں اجتماعى مشكلات كے حل ، منصوبہ بندى اور نظارت ميں فقہى موازين اور دينى اقدار كى رعايت كرنا ضرورى ہے _

۷۲

سوالات :

۱) سيكولرحضرات اجتماعى اور سماجى مشكلات كے حل كرنے ميں فقہ كى توانائي اور صلاحيت كے بارے ميں كيا نظريہ ركھتے ہيں؟

۲) دينى حكومت كى نفى پر سيكولر حضرات كى دوسرى دليل كو مختصر طور پربيان كيجئے ؟

۳) سيكولر حضرات كى نظر ميں موجودہ دور كيلئے كس قسم كى نظارت كى ضرورت ہے ؟

۴) كيا علمى نظارت اور فقہى نظارت ميں تضادہے ؟

۵) اجتماعى زندگى ميں فقہ كا دائرہ كاركيا ہے ؟

۶) ''معاشرے كى نظارت ميں دين كى حاكميت ''سے كيا مراد ہے ؟

۷۳

دوسرا باب :

اسلام اور حكومت

سبق نمبر ۹،۱۰ : آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت

سبق نمبر ۱۱ : آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت

سبق نمبر ۱۲ : شيعوں كا سياسى تفكر

سبق نمبر ۱۳، ۱۴ : سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار

۷۴

تمہيد :

گذشتہ باب ميں ہم نے كہا تھا كہ دينى حكومت كا معنى '' حكومتى امور ميں دينى تعليمات كى دخالت اور مختلف سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو قبول كرناہے'' _ دينى حكومت كے مخالفين كى ادلّہ پر ايك نگاہ ڈالتے ہوئے ہم يہ ثابت كرچكے ہيں كہ اجتماعى و معاشرتى امور ميں دين كى حاكميت اور دينى حكومت كى تشكيل ميں كوئي ركاوٹ نہيں ہے _

اس باب ميں اس نكتہ كى تحقيق كى جائے گى كہ كيا اسلام مسلمانوں كو دينى حكومت كى تشكيل كى دعوت ديتا ہے يانہيں ؟ اور حكومت كى تشكيل، اس كے اہداف و مقاصد اور اس كے فرائض كے متعلق اس كا كوئي خاص نظريہ ہے يا نہيں ؟ دوسرے لفظوں ميں كيا اسلام نے دين اور حكومت كى تركيب كا فتوى ديا ہے ؟ اور كوئي خاص سياسى نظريہ پيش كيا ہے ؟

واضح سى بات ہے كہ اس تحقيق ميں دينى حكومت كے منكرين كى پہلى قسم كى آراء اور نظريات جو كہ گذشتہ باب ميں بيان ہوچكے ہيں پر تنقيد كى جائے گى _ يہ افراد اس بات كا انكار نہيں كرتے كہ معاشرے اور سياست ميں دين كى دخالت ممكن ہے _ اسى طرح اس كے بھى قائل ہيں كہ اجتماعى امور ميں دين كى حاكميت ميں كوئي ركاوٹ نہيں ہے بلكہ ان كا كہناہے كہ'' اسلام ميں ايسا ہوانہيں '' _ يعنى ان كى نظر ميں اسلام نے حكومت كى تشكيل ، اس كى كيفيت اور حكومتى ڈھانچہ جيسے امور خود مسلمانوں كے سپرد كئے ہيں اور خود ان كے متعلق كسى قسم كا اظہار رائے نہيں كيا _

۷۵

نواں سبق:

آنحضرت (ص) اور تاسيس حكومت -۱-

كيا اسلام نے دينى حكومت كى دعوت دى ہے؟ كيا مختلف سياسى اور حكومتى امور ميں اپنى تعليماتپيش كى ہيں ؟ اس قسم كے سوالات كے جواب ہميں صدر اسلام اور آنحضرت (ص) كى مدنى زندگى كى طرف متوجہ كرتے ہيں_

آنحضرت (ص) نے اپنى زندگى كے جو آخرى دس سال مدينہ ميں گزارے تھے اس وقت امت مسلمہ كى قيادت اور رہبرى آپ كے ہاتھ ميں تھى _سوال يہ ہے كہ يہ قيادت اور رہبرى كيا مسلمانوں پر حكومت كے عنوان سے تھي؟ يااصلاً آ پ (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہيہ رہبرى و قيادت صرف مذہبى اور معنوى عنوان سے تھى ؟

گذشتہ زمانے كے تمام مسلمانوں اور موجودہ دور كے اسلامى مفكرين كى اكثريت معتقدہے كہ تاريخى شواہد بتاتے ہيں كہ اس وقت آنحضرت (ص) نے ايك اسلامى حكومت تشكيل دى تھى جس كا دارالحكومت مدينہ تھا _ اس مشہور نظريہ كے مقابلہ ميں قرن اخير ميں مسلمان مصنفينكى ايك قليل تعداد يہ كہتى ہےكہ پيغمبر

۷۶

اكرم (ص) صرف دينى رہبر تھے اور انہوں نے كوئي حكومت تشكيل نہيں دى تھى _

آنحضرت (ص) كى قيادت كے سلسلہ ميں دو بنيادى بحثيں ہيں :

الف_ كيا آپ (ص) نے حكومت تشكيل دى تھى ؟

ب_ بنابر فرض تشكيل حكومت كيا آنحضر ت (ص) كى يہ رياست اور ولايت ،وحى اور دينى تعليمات كى رو سے تھى يا ايك معاشرتى ضرورت تھى اور لوگوں نے اپنى مرضى سے آپ(ص) كو اپنا سياسى ليڈر منتخب كر ليا تھا؟ پہلے ہم پہلے سوال كى تحقيق كريں گے اور ان افراد كى ادلّہ پر بحث كريں گے جو كہتے ہيں : آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _

حكومت كے بغير رسالت

مصرى مصنف على عبدالرازق اس نظريہ كا دفاع كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) كى قيادت ورہبرى صرف مذہبى عنوان سے تھى اور اس قيادت كا سرچشمہ آپ كى نبوت اور رسالت تھى اسى وجہ سے آپ كى رحلت كے بعد اس قيادت كا خاتمہ ہوگيا _ اور يہ امر جانشينى اور نيابت كے قابل نہيں تھا _ آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعد خلفاء نے جو قيادت كى وہ آنحضرت (ص) والى رہبرى نہيں تھى بلكہ خلفاء كى قيادت سياسى تھى اور اپنى اس سياسى حكومت كى تقويت كيلئے خلفاء نے آنحضرت (ص) كى دينى دعوت سے فائدہ اٹھايا_ اس نئي حكومت كے اہلكاروں نے خود كو خليفہ رسول كہلوايا جس كى وجہ سے يہ سمجھ ليا گيا كہ ان كى رہبرى رسول اكرم (ص) كى قيادت كى جانشينى كے طور پر تھى حالانكہ آنحضرت (ص) صرف دينى قيادت كے حامل تھے اور يہ قيادت قابل انتقال نہيں ہے_ پيغمبر اكرم (ص) سياسى قيادت كے حامل نہيں تھے كہ خلفا آپ كے جانشين بن سكتے(۱) _

____________________

۱) ''الاسلام و اصول الحكم ''على عبدالرازق صفحہ ۹۰، ۹۴_

۷۷

عبدالرازق نے اپنے مدعا كے اثبات كيلئے دو دليلوں كا سہارا ليا ہے _

الف _ پہلى دليل ميں انہوں نے بعض قرآنى آيات پيش كى ہيں ان آيات ميں شان پيغمبر (ص) كو رسالت ، بشير اور نذير ہونے ميں منحصر قرار ديا گيا ہے _ ان كے عقيدہ كے مطابق ''اگر آنحضرت (ص) رسالت اور نبوت كے علاوہ بھى كسى منصب كے حامل ہوتے يعنى حكومت اور ولايت كے منصب پر بھى فائز ہوتے تو كبھى بھى ان آيات ميں ان كى شان كو نبوت ، بشير اور نذير ہونے ميں منحصر نہ كيا جاتا''(۱)

ان ميں سے بعض آيات يہ ہيں_

( ''ان ا نا الّا نذيرو بشير '' ) (۲)

ميں تو صرف ڈرانے اور بشارت دينے والا ہوں _

( ''وَ مَا على الرسول الّا البلاغ المبين '' ) (۳)

اور رسول كے ذمہ واضح تبليغ كے سوا كچھ بھى نہيں ہے _

( ''قل انّما ا نا بشر مثلكم يُوحى الي'' ) (۴)

كہہ ديجيئے ميں تمھارے جيسا بشر ہوں مگر ميرى طرف وحى آتى ہے_

( ''انّما ا نت منذر'' ) (۵)

يقيناً تو صرف ڈرانے والا ہے _

____________________

۱) ''الاسلام و اصول الحكم ''على عبد الرازق صفحہ ۷۳_

۲) سورہ اعراف آيت۱۸۸_

۳) سورہ نور آيت ۵۴_

۴) سورہ كہف آيت۱۱۰_

۵) سورہ رعد آيت ۷_

۷۸

'' ( فان ا عرضوا فما ا رسلناك عليهم حفيظاً ان عليك الا البلاغ'' ) (۱)

اگر يہ روگردانى كريں تو ہم نے آپ كو ان كا نگہبان بنا كر نہيں بھيجا ہے _ آپ كا فرض صرف پيغام پہنچا دينا ہے_

ب_ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _ عبدالرازق اس كى دوسرى دليل يہ ديتے ہيں كہ آج كل ہر حكومت بہت سے شعبوں اور اداروں پر مشتمل ہوتى ہيں _ ضرورى نہيں ہے كہ گذشتہ دور كى حكومتيں بھى اسى طرح وسيع تر اداروں پر مشتمل ہوں ليكن جہاں بھى حكومت تشكيل پاتى ہے كم از كم كچھ سركارى محكموں مثلاً انتظاميہ ،داخلى و خارجى اور مالى امور سے متعلقہ اداروںو غيرہ پر مشتمل ہوتى ہے_ يہ وہ كمترين چيز ہے جس كى ہر حكومت كو احتياج ہوتى ہے ليكن اگر ہم آنحضرت (ص) كے دور فرمانروائي كى طرف ديكھيں تو كسى قسم كے انتظامى اداروں كا نشان نہيں ملتا _ يعنى آنحضر ت (ص) كى حاكميت ميں ايسے كمترين انتظامى ادارے بھى مفقود ہيں جو ايك حكومت كيلئے ضرورى ہوتے ہيں_

ممكن ہے ذہن ميں يہ خيال آئے كہ چونكہ آنحضرت (ص) ايك سادہ زندگى بسر كرتے تھے لہذا انہوں نے اپنى حكومت كے دوران اس قسم كے اداروں كے قائم كرنے كى ضرورت محسوس نہيں كى ليكن عبدالرازق كے نزديك يہ احتمال صحيح نہيں ہے كيونكہ اس قسم كے ادارے ايك حكومت كيلئے ناگزير ہيں اور سادہ زندگى كے منافى بھى نہيں ہيں _ لہذا ان امور اور اداروں كا نہ ہونا اس بات كى دليل ہے كہ آنحضر ت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى اور يہ كہ اسلام صرف ايك دين ہے اور رسالت پيغمبر اكرم (ص) دينى حكومت كے قيام كو شامل نہيں تھي_(۲)

____________________

۱) سورہ شورى آيت ۴۸_

۲) الاسلام و اصول الحكم صفحہ ۶۲_ ۶۴_

۷۹

پہلى دليل كا جواب

قرآن مجيد كى طرف رجوع كرنے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ آنحضرت (ص) كے مناصب اور ذمہ دارياں پيام الہى كے ابلاغ اور لوگوں كو ڈرانے ميں منحصر نہيں تھے بلكہ قرآن كريم نے كفار اور منافقين كے ساتھ جہاد، مشركين كے ساتھ جنگ كيلئے مومنين كى تشويق ، عدالتى فيصلے اور معارف الہى كے بيان جيسے امور كو بھى آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى قرار ديا ہے_

اور يہ امور پيام الہى كے ابلاغ اور لوگوں كو ڈرانے جيسے امور كے علاوہ ہيں _ ان ميں سے ہر منصب كيلئے ہم بطور دليل ايك آيت پيش كرتے ہيں_

''( يا ايها النبى جاهد الكفار و المنافقين و اغلظ عليهم ) ''(۱)

اے پيغمبر (ص) آپ كفار اور منافقين سے جہاد كريں اور ان پر سختى كريں_

''( يا ايها النبى حرّض المومنين على القتال ) ''(۲)

اے پيغمبر مومنين كو جہاد پر آمادہ كريں_

''( وما كان لمومن و لا مومنة اذا قضى الله و رسوله امراً ان يكون لهم الخيرة من امرهم ) ''(۳)

كسى مومن مرد يا عورت كو اختيار نہيں ہے كہ جب خدا اور اس كا رسول كسى امر كے بارے ميں فيصلہ كريں تو وہ بھى اپنے امر كے بارے ميں صاحب اختيار بن جائے_

____________________

۱) سورہ تحريم آيت ۹_

۲) سورہ انفال آيت ۶۵_

۳) سورہ احزاب آيت۳۶_

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

آیات کر یمہ میں حضرت ہود پیغمبر کی سیرت

۱۔ خدا وند عالم سورۂ احقا ف کی ۲۱ ویں تا ۲۵ ویں آیات میں اپنے رسول کو مخاطب کر کے حضرت ہود کے بارے میں ان سے فر ما تا ہے :

( وَ اذْ کُرْ اَخاعَاد ٍ اإِذْ اَنْذَ رَ قَوْ مَهُ بِا لاَ حقا فِ وَ قَدْ خَلَتِ النُّذُ رُمِنْ بَینِ یَدَ یْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ اَ لّا تَعْبُدُوا اِ لاّ اللّٰهَ اِنّی اَخَافُ عَلَیْکُم عَذ ابَ یَوْ مٍ عَظیمٍ٭ قَا لُوا اَجِئتَناَ لِتأفِکَنَا عَنْ آلِهَتِنَافَأ تِنَابِمَاتَعِدُ نَااِنْ کُنْتَ مِنَ الصّادِقِینَ ٭ قَالَ اِنّمَاالعِلمُ عِنَداللّٰهِ وَاُبَلّغُکُمْ مَااُرْسِلْتُ بِه وَ لِکنِیّ اَر یٰکُم قَوْ ماًً تَجْهَلُونَ٭ فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضاً مُسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِهِمْ قَالُواهَذَا عَارِض مُمْطِرُنَا بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِه رِیْح فِیهَا عَذا ب اَلیم٭ تُدَمِّرُ کُلَّ شَیئٍٍ بِاَ مْرِ راَبِهَا فَاَصْبَحُوا لَایُریٰ اِلَّاّمَسا کِنُهُمْ کَذ لِکَ نَجْزیِ القَومَ الْمُجْرِمِینَ )

قوم عاد کے بھا ئی (ہود) کو یا د کرو جب اس نے احقا ف نامی سر زمین پر اپنی قوم کو انذار کیا (ڈرایا) جب کہ ان کے زما نے میں اور ان سے پہلے پیغمبر آچکے تھے (اس بات پر کہ) خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو کیوںکہ میں تمہارے سلسلہ میں عظیم دن کے عذ اب کے بارے میں خو فز دہ ہو. انھوں نے کہا : کیا تم اس لئے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے خداؤں سے منحر ف کر دو؟ اگر سچے ہو تو جس عذاب کا ہم سے وعدہ کیا ہے نازل کر دو ۔

( حضرت ہود نے) کہا : علم (عذاب) خدا کے پا س ہے جس چیز کے لئے مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا ہے اس کی میں تمھیں تبلیغ کروں گا،لیکن میں تمھیں ایک ایسی قوم دیکھ رہا ہوں جو جہالت کی راہ پر گا مزن ہے. اور جب عذاب کو دیکھا کہ بادل کی صورت ان کی سر زمین کی طر ف آرہا ہے تو سب نے کہا : یہ بادل ہے جو ہمیں بارش نصیب کرے گا،( حضرت ہودنے) کہا: ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے آنے کے لئے تم نے جلد بازی کی ہے ، ایک ہوا ہے جس میں درد ناک عذا ب ہے .اور ہر زندہ چیز کو اپنے خدا کے حکم سے تباہ و برباد کردے گا جیسے ہی ان کی صبح ہوئی، ان کے گھر وں کے علا وہ( کوئی چیز ) دکھا ئی نہ دی، ہم گنا ہگا ر قوم کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔

۱۰۱

۲۔ سورہ ٔ ہود کی ۵۰ویںتا۵۵ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَالیٰ عَاد ٍ اَخَاهُمْ هُودا ً قَالَ یَا قُومِ اعْبُدوا اللّٰهَ مَا لَکُم مِنْ اِلٰهٍ غَیرُهُ اِنْ اَنتُم اِلَّامُفْتَرُونَ٭یَا قَومِ لَا أسْأ لُکُم عَلیهِ أَجْرًا اِ نْ أجْرِیَ لَّاعَلٰی الَّذِی فَطَرَ نِی أفَلاَ تَعْقِلُونَ٭وَ یَاقَومِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُم ثُمَّ تُوبُوا الیهِ یُرْ سِلِ السَّمائَ عَلَیْکُم مِدْرَارا ً وَ یَزِدْ کُمْ قُوَّةً اِ لیٰ قُوَّ تِکُم وَ لَا تتو لَّوا مُجْرِمینَ٭ قَالُوا یَاهُودُ مَاجِئتنَا بِبیِّنةٍ وَ مَا نَحنُ بِتٰارکی آلهَتنَاعَن قَو لِکَ وَ مَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤمِنِینَ٭ اِنْ نَقُولُ الاّ اعترَاک بَعضُ آلهتِنَا بِسُو ء ٍ قَالَ اِ نیّ أُشْهِدُ اللّٰه وَ اشْهَدُوا أ نّی بِریئ مِمّا تُشرِ کُون٭ مِن دُونهِ فَکیدُونِی جَمیعاًً ثُمَّ لَاتُنْظِرُونِ )

قوم عاد کی طرف ان کے بھا ئی ہود کو ہم نے بھیجا،اس نے کہا : اے میری قوم والو! خدا کی عبادت کرو کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ، تم لوگ بتوں کی پو جا کر کے ( خدا وند سبحان پر) تہمت لگا نے کے علا وہ کوئی کام نہیں کر تے : اے قوم ! میں تم سے رسا لت کی اجرت نہیں چا ہتا ،میری اجرت میرے خا لق کے ذمّہ ہے کیا تم غور کر نا نہیں چا ہتے؟ ! اے میری قوم ! اپنے خدا سے بخشش طلب کرو اور اس کی بار گاہ میں تو بہ کرو تا کہ تم پروہ کثرت سے بارش نازل کرے اور تمہاری قوت میں اضا فہ کرے اور گنا ہ گا ر حا لت میں مجھ سے رو گردانی نہ کرو. سب نے کہا: اے ہود ! تم نے ہمارے سامنے کو ئی (معجزہ) دلیل پیش نہیں کی ہے اور ہم اپنے خداؤں کو صرف تمہارے کہنے سے نہیں چھوڑیں گے اور تم پر ایمان نہیں لائیں گے. صرف یہ کہیں گے کہ ہمارے بعض خداؤں نے تمھیں دیوانہ بنا دیا ہے حضرت ہود نے کہا: میں خدا کو گواہ بنا تا ہوں اور تمھیں بھی گواہ بنا تا ہوں کہ میں اس چیز سے بیزار ہو جس چیز کو تم لوگ خدا کا شریک قرار دیتے ہو پس تم سب کے سب مجھ سے فریب کرو اور مجھے مہلت نہ دو۔

۳۔ سورہ ٔ مو منو ن کی ۳۳ ویں تا ۴۱ ویں آیات میں ارشا د ہوتا ہے :

( وَقَالَ الْمَلَا ُٔمِنْ قَوْمِهِ الَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِلِقَائِ الآخِرَةِ وََتْرَفْنَاهُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا مَا هَذَا ِلاَّ بَشَر مِثْلُکُمْ یَْکُلُ مِمَّا تَْکُلُونَ مِنْهُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ ٭ وَلَئِنْ َطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَکُمْ ِنَّکُمْ ِذًا لَخَاسِرُونَ ٭ َیَعِدُکُمْ َنَّکُمْ ِذَا مِتُّمْ وَکُنتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا َنَّکُمْ مُخْرَجُونَ ٭ هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ ٭ ِنْ هِیَ ِلاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِینَ ٭ ِنْ هُوَ ِلاَّ رَجُل افْتَرَی عَلَی ﷲ کَذِبًا وَمَا نَحْنُ لَهُ بِمُؤْمِنِینَ ٭ قَالَ راَبِ انصُرْنِی بِمَا کَذَّبُونِ ٭ قَالَ عَمَّا قَلِیلٍ لَیُصْبِحُنَّ نَادِمِینَ ٭ فََخَذَتْهُمْ الصَّیْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاهُمْ غُثَائً فَبُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ) َ)

۱۰۲

اُن ( حضرت ہود)کی قوم کے بزر گوں نے جو کہ کا فر ہوگئے تھے اور عا لم آخرت کی تکذ یب کی اور دنیا میں انھیں عیش وعشرت کی ہم نے زند گی دی تھی انھوں نے کہا: یہ( ہود ) بھی تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے جو تم کھا تے ہو وہ بھی کھا تا ہے جو تم پیتے ہو وہ بھی پیتا ہے. اور اگر اپنے ہی جیسے انسا ن کا کہنا مانوگے تو اس صورت میں تم لوگ نقصا ن اُٹھا نے والوں میں ہو گے کیا وہ تمھیں وعدہ دیتا ہے کہ جب مر جاؤگے اور بوسیدہ ہو کر (سڑ گل کر ) خاک ہو جا ؤ گے تو پھر تمھیں قبر سے باہر نکا لا جائے گا؟! کتنا دور ہے وہ وعدہ جو تم سے کیا گیا ہے .زند گی یہی دنیا ہے، کہ مر یں گے اور زندہ جئیں گے اور پھر کبھی اٹھا ئے نہیں جائیںگے اس شخص نے خدا پر جھو ٹا الزا م لگا یا ہے ہم اس پر ایمان نہیں لائیں گے.( حضرت ہود) نے کہا : خدا یا ! میر ی مدد کر کہ انھوں نے میری تکذیب کی ہے ۔

خدا نے کہا : کچھ دن بعد وہ پشیمان ہوں گے ، ایک بر حق آسمانی صیحہ( چنگھاڑ ) نے انھیں اپنی گر فت میں لے لیا اور ہم نے انھیں کوڑا کرکٹ بنا دیا. خدا کی اس ستمگر قوم پر لعنت ہو۔

۴۔ سورہ ٔ اعراف کی ۶۵ ویں تا ۷۲ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَالَی عَادٍ َخَاهُمْ هُودًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا ﷲ مَا لَکُمْ مِنْ ِلٰهٍ غَیْرُهُ َفَلاَتَتَّقُونَ ٭ قَالَ الْمَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ ِنَّا لَنَرَاکَ فِی سَفَاهَةٍ وَِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکَاذِبِینَ ٭ قَالَ یَاقَوْمِ لَیْسَ بِی سَفَاهَة وَلَکِنِّی رَسُول مِنْ راَبِ الْعَالَمِینَ ٭ ُبَلِّغُکُمْ رِسَالَاتِ راَبِی وََنَا لَکُمْ نَاصِح َمِین ٭ َوَعَجِبْتُمْ َنْ جَائَکُمْ ذِکْر مِنْ راَبِکُمْ عَلَی رَجُلٍ مِنْکُمْ لِیُنذِرَکُمْ وَاذْکُرُوا إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَائَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْکُرُوا آلَائَ ﷲ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ٭ قَالُوا َجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ ﷲ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا کَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا ِنْ کُنتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ٭ قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِنْ راَبِکُمْ رِجْس وَغَضَب َتُجَادِلُونَنِی فِی َسْمَائٍ سَمَّیْتُمُوهَا َنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا نَزَّلَ ﷲ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ فَانتَظِرُوا ِنِّی مَعَکُمْ مِنْ الْمُنتَظِرِینَ ٭ فََنجَیْنَاهُ وَالَّذِینَ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَمَا کَانُوا مُؤْمِنِینَ )

۱۰۳

ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھا ئی ''ہود'' کو بھیجا .اُس (ہود) نے کہا : اے قوم:واحد اور یکتا خدا کی عبادت کرو کہ اس کے سوا کو ئی معبود نہیں ہے آیا ( اس کے عذا ب سے ) ڈ رتے نہیں؟ کافر قوم کے بز رگوں نے کہا:ہم تمھیں نادانی اور سفا ہت کا پیکر جا نتے ہیں اور ہمارا خیا ل ہے کہ تم جھوٹوںمیں سے ہو ہو د نے کہا :اے میری قوم!مجھ میں کوئی سفا ھت نہیں ہے بلکہ پروردگا ر عا لم کی طرف سے ایک پیغمبر ہوں اپنے رب کے پیغام تم تک پہنچا تا ہوں اور تمہارے لئے ایک خیر خواہ اور امین ہوں.کیا تم نے تعجب کیا کہ تمہارے لئے پروردگا ر کی جا نب سے تم ہی میں سے ایک مرد کے ذریعہ نصیحت آئی ہے تا کہ تمھیں ڈرائے؟!اُس وقت کو یاد کرو جب خدا وند عالم نے تمھیں قوم نوح کے بعد جا نشین قرار دیا اور تمہاری قوت میں اضا فہ فر مایا خدا کی انواع واقسام کی نعمتوں کو یا د کرو شا ید کامیاب ہو جاؤ. قوم ہود نے کہا ! تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم صرف خدا کی عبادت کریں اور جو کچھ ہمارے آبا ء واجداد پو جتے تھے اسے چھو ڑ دیں؟ جس عذاب کا تم نے ہم سے وعدہ کیا ہے اگر سچے ہو تو لے آؤ۔

ہود نے کہا: یقینا خدا کا عذا ب اور اس کا غضب تم پرنازل ہو گا،آیا تم ان اسماء کے بارے میں جو تم نے اور تمہارے آباء واجداد نے اُن بتوں کو دیا ہے اور خدا نے اس سلسلے میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ہم سے جنگ و جدا ل کرتے ہو ؟! لہذا منتظر رہو کہ ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں. ہم نے ہود اور ان کے ہمراہ افراد کو اپنی رحمت سے نجا ت دی ہے اور ان لوگوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلا یا اور ہم پر ایمان نہیں لائے۔

۵۔ سورۂ قمر کی ۱۸ ویں تا ۲۰ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

(کَذَّبَتْ عَاد فَکَیْفَ کَانَ عَذَابِی وَنُذُرِ ٭ ِنَّا َرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِیحًا صَرْصَرًا فِی یَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ ٭ تَنزِعُ النَّاسَ کََنَّہُمْ َعْجَازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ )

قوم عاد نے ( اپنے پیغمبر کی ) تکذ یب کی لہٰذ ا(دیکھو کہ) میرا عذاب اور انذار کیسا تھا؟.ہم نے تیزوتند، وحشتناک اور سرد ہوا ایک منحوس دن میں پے در پے بھیجی. کہ وہ ہوا لوگوں کو کجھو ر کے جڑ سے اکھڑ ے ہوئے درختوں کے تنے کے مانند اکھا ڑ پھینکتی تھی ۔

۱۰۴

کلما ت کی تشریح

۱ احقاف :

حقف: ریت کے طو لا نی پر پیچ ا و ر خم دار ٹیلے کو کہتے ہیں، اس کی جمع احقاف ہے. یہاں پر احقاف سے مراد عمان سے حضر موت تک ایک ریتیلا علا قہ ہے جس کی تفصیل کو حمو ی کی معجم البلدان میں لفظ احقا ف کے باب میں مطا لعہ کیجئے۔

۲ لتا فکنا : افک:

عظیم افتراء اور جھوٹ ہے اور مشر کین کا مقصد یہ تھا کہ : تم آئے ہوتا کہ ہمیں اپنے عظیم افتراء اور جھوٹ سے ہمارے خداؤں سے رو گرداں اور منحرف کر دو؟!

۳ عارض : عارض :

جو کچھ افق میں منجملہ بادل کا ٹکڑا ہو یا ٹڈی اور شہد کی مکھی نمودار ہوتی ہے۔

۴ اترفنا ہمُ:

ترف :لغت میں تنعم کے معنی میں ہے. یعنی ہم نے انھیں انواع و اقسام کی نعمتوں، مال ، اولاد اور عا لی شان محلوں سے نوزا۔

۵ ھیھا ت:

ھیھا ت ھذا ا لا مر، اس سے مراد یہ ہے کہ اس کا انجام بہت بعید ہے یعنی نہ ہونے وا لا ہے۔

۶۔ بصطة:

بصطہ لغت میں وہی وسعت اور فرا خی ہے، بصطة فی العلم، علم میں وسعت، فضیلت اور زیادتی کے معنی میں ہے. بصطہ فی الجسم، قوت اور طاقت میںزیادتی کے معنی میں ہے کہ یہاںپریہی آخری معنی مراد ہے۔

۱۰۵

۷ رجس:

یہاں پر اس عذا ب کے معنی میں ہے جو نا پسندیدہ اعمال اور نا زیبا افعال کی بناء پر نازل ہوتا ۔

۸قطعنا دا بر ھم:

قطع الدابرعجز اور بے چا ر گی مراد ہے ، قطع اللہ دا بر ھم یعنی خدا نے ان کی بیخ کنی کی اور ان کو درمیان سے اٹھا لیا۔

گز شتہ آیات کی تفسیر کا خلا صہ

عاد قبیلہ حضرت نوح کے اعقاب میں سے تھا وہ لوگ تہذ یب و ثقا فت میں اس در جہ ترقی کر چکے تھے کہ حضرت نوح کی وسیع وعر یض شریعت کے لا ئق اور منا سب ہوگئے، لیکن شیطان انھیں آہستہ آہستہ بتوں کی عبا دت کی طرف کھینچ لے گیا یہی وجہ تھی کہ خدا نے ان کی ہدایت کے لئے ہود کو جو کہ اسی قبیلہ سے تھے پیغمبری کے لئے مبعوث کیا تو ہود نے انھیں خدا وند یکتا کی عبادت و بندگی اور دین اسلام پر عمل کرنے کی دعوت دی جو خدا کی شریعت سے متعلق تھا اور حضرت نوح اسے لائے تھے انھوں نے انھیں پند ونصیحت اور انذار کیا ، لیکن قوم عاد نے عناد اور گمرا ہی کا را ستہ اختیار کیا تو خدا نے بھی ان پر سختی کی اور ان سے بارش کو روک دیا ، شاید کہ وہ خود کو سنبھال لیں اور خدا کی اطا عت و عبادت کا راستہ اختیار کر لیں ،پھر ہود نے انھیں بشارت دی کہ اگر ایمان لا کر، ناشا ئستہ اور ناروا اعمال سے تو بہ کر یں تو خدا وند عا لم انھیںفراوان با رش سے نواز ے گا اور عذا ب خداوندی سے انھیںڈرایا لیکن وہ لوگ اس کے بر عکس اپنی سر کشی اور عناد میں اضا فہ ہی کرتے رہے اسی وجہ سے خدا نے ان کی طرف سیاہ اور کا لی آندھی بھیج دی جب قوم عاد نے اس آندھی کو دور سے افق کے کنارے دیکھا تو سمجھی کہ وہ بر سنے والا با دل ہے،اس بات سے غا فل کہ وہ ایک تیز و تند آندھی ہے جو انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی اور ان کے گھروں کو اپنی جگہ پر چھوڑ دے گی.قوم ثمود کا بھی یہی انجام ہوا اب انشاء اللہ ان کے حالات کی تفصیل بیان کریں گے۔

۱۰۶

حضرت صالح پیغمبر

* قرآن کریم میں حضرت صا لح کی سیرت اور روش

* کلما ت کی تشریح

* آیات کی تفسیر

قرآن کریم میں حضرت صا لح کی سیرت اور روش

۱۔ خدا وند سبحا ن سورۂ نمل کی ۴۵ ویں تا ۴۷ ویں آیات میں ارشاد فر ماتا ہے:

( وَلَقَدْ َرْسَلْنَإ الَی ثَمُودَ َخَاهُمْ صَالِحًا َنِ اعْبُدُوا ﷲ فَِذَا هُمْ فَرِیقَانِ یَخْتَصِمُونَ ٭ قَالَ یَاقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلاَتَسْتَغْفِرُونَ ﷲ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ٭ قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِکَ واَبِمَنْ مَعَکَ قَالَ طَائِرُکُمْ عِنْدَ ﷲ بَلْ َنْتُمْ قَوْم تُفْتَنُون )

اور ہم نے قوم ثمود کی جانب ان کے بھائی صالح کو بھیجا تا کہ وہ کہیں کہ خدا وند واحد ویکتا کی عباد ت کرو،ان کی قوم دو گروہ میں تقسیم ہو گئی( ایک مومن گروہ اور دوسرا کا فر گروہ) اور آپس میں دونوںجنگ وجدال کر نے لگے.صا لح نے کہا: اے قوم والو! کیوں قبل اس کے کہ کوئی نیک کا م کرو بر ے کا موں کی طرف جلد بازی کر رہے ہو تم ﷲ سے استغفار کیوں نہیں کرتے کہ شاید تم پر رحم کر دیا جائے ؟انھوں نے کہا: ہم تجھے اور تیرے ما ننے والوں کو فال بد جا نتے ہیں. صا لح نے کہا:تمہا ری سر نوشت( برا انجام) خدا کے پاس ہے بلکہ تم لوگ آزمائے گئے ہو۔

۲۔سورۂ شعراء کی ۱۴۱تا ۱۵۵ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( کَذَّبَتْ ثَمُودُ الْمُرْسَلِینَ ٭ إِذْ قَالَ لَهُمْ َخُوهُمْ صَالِح َلاَتَتَّقُونَ ٭ ِنِّی لَکُمْ رَسُول َمِین ٭ فَاتَّقُوا ﷲ وََطِیعُونِ ٭ وَمَا َسَْلُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ َجْرٍ ِنْ َجْرِی ِلاَّ عَلَی راَبِ الْعَالَمِینَ ٭ َتُتْرَکُونَ فِی مَا هَاهُنَا آمِنِینَ ٭ فِی جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ ٭ وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِیم ٭ وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتًا فَارِهِینَ ٭ فَاتَّقُوا ﷲ وََطِیعُونِ ٭ وَلاَتُطِیعُوا َمْرَ الْمُسْرِفِینَ٭ الَّذِینَ یُفْسِدُونَ فِی الَرْضِ وَلاَیُصْلِحُونَ ٭ قَالُوا ِنَّمَا َنْتَ مِنْ الْمُسَحَّرِینَ ٭ مَا َنْتَ ِلاَّ بَشَر مِثْلُنَا فَْتِ بِآیَةٍ ِنْ کُنْتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ٭ قَالَ هَذِهِ نَاقَة لَهَا شِرْب وَلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَعْلُومٍ )

۱۰۷

قوم ثمود نے بھی اپنے پیغمبروں کی تکذ یب کی .جب ان کے بھائی صالح نے ان سے کہا : کیوں تم لوگ خدا سے نہیں ڈرتے؟! میں تمہارے لئے ایک امانتدار پیغمبر ہوں، لھٰذا ﷲ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو میں تم سے اپنی رسالت کا اجر نہیں چاہتا میرا اجر ربّ العا لمین کے ذمّہ ہے .کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ اس دنیا وی ناز ونعمت میں رہو گے؟! انھیں باغات، بہتے چشموں،کھیتیوں اور نخلستان میں جو کہ لطیف اور نازک پھول والے ہیں اور جو پہاڑوں میں ہنرمندی اور مہارت کے ساتھ گھروں کو تعمیر کرتے ہو؟! خدا سے ڈرو اور میری بات مانو اور فضول خرچی اور اسراف کرنے والوں کا کہنا نہ مانو. وہی لوگ جو اس سرزمین پر فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے انھوں نے کہا: یقینا تم پر جادو کر دیا گیا ہے ،تم ہمارے جیسے انسان کے علا وہ کچھ نہیں ہو،اگر سچے ہو تو معجزہ دکھاؤ. (صالح) نے کہا: یہ اونٹنی ہے ایک دن یہ پانی پیئے گی اور ایک دن پینا تم لوگوں کے لئے معین اور مخصوص ہے.

۳۔اور سورۂ ہود کی ۶۱تا ۶۸ویںآیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَِلٰی ثَمُودَ َخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا ﷲ مَا لَکُمْ مِنْ ِلٰهٍ غَیْرُهُ هُوَ َنشََکُمْ مِنْ الَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا الَیهِ ِنَّ راَبِی قَرِیب مُجِیب ٭ قَالُوا یَاصَالِحُ قَدْ کُنتَ فِینَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَذَا َتَنْهَانَا َنْ نَعْبُدَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَِنَّنَا لَفِی شَکٍّ مِمَّا تَدْعُونَا الَیهِ مُرِیبٍ ٭ قَالَ یَاقَوْمِ َرََیْتُمْ ِنْ کُنتُ عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ راَبِی وَآتَانِی مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ یَنصُرُنِی مِنَ ﷲ ِنْ عَصَیْتُهُ فَمَا تَزِیدُونَنِی غَیْرَ تَخْسِیرٍ ٭ وَیَاقَوْمِ هَذِهِ نَاقَةُ ﷲ لَکُمْ آیَةً فَذَرُوهَا تَْکُلْ فِی َرْضِ ﷲ وَلاَتَمَسُّوهَا بِسُوئٍ فَیَْخُذَکُمْ عَذَاب قَرِیب ٭ فَعَقَرُوهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوا فِی دَارِکُمْ ثَلَاثَةَ َیَّامٍ ذَلِکَ وَعْد غَیْرُ مَکْذُوبٍ ٭ فَلَمَّا جَائَ َمْرُنَا نَجَّیْنَا صَالِحًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَمِنْ خِزْیِ یَوْمِئِذٍ ِنَّ رَبَّکَ هُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیزُ٭ وََخَذَ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فََصْبَحُوا فِی دِیَارِهِمْ جَاثِمِینَ ٭ کََنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیهَا َ لَاِنَّ ثَمُودَ کَفَرُوا رَبَّهُمْ َلَابُعْدًا لِثَمُودَ )

قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو پیغمبری کے لئے مبعوث کیا .صالح نے کہا: اے میری قوم! اس خدا کی عبادت کرو جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے .اس نے تمھیں خاک سے پیدا کیا اور تمھیں اس میں آباد کیا لہٰذ ا اس سے مغفرت طلب کرو اور گناہوں سے توبہ کرو یقینا میرا ربّ ( تم سے) نزدیک ہے اور توبہ قبول کر نے والا ہے۔

۱۰۸

انھوں نے کہا :اے صالح !اس سے قبل تم ہم لو گوں کے نزدیک ایک پناہ گاہ (امید کی جگہ) تھے کیا تم ہمیں ہمارے آباؤ اجداد کے خداؤں کی عبادت کرنے سے روک کر رہے ہو ؟ جس چیز کے لئے تم ہمیں دعوت دے رہے ہو اس کی بہ نسبت ہم بد گمان اور مشکوک ہیں۔

صالح نے کہا!اے قوم والو! اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے کوئی معجزہ دکھاؤں جوکہ اس نے مجھ کو اپنی رحمت سے منتخب کیا ہے تو اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟.اور اگر اس کا کہنا نہ مانوں تو پھر کون ہے جو ہمیں اللہ( کے غضب) سے امان دے گا؟ کہ تم لوگ مجھ پر ضرر ونقصان کے اضا فے کے سواء کچھ نہیں کرسکتے .اور اے میری قوم! یہ اونٹنی خدا کی ہے جو تمہارے لئے معجزہ ہے،اسے چھوڑ دو تا کہ اللہ کی سرزمین میں چرے اور اسے ایذا نہ پہنچاؤ ورنہ بہت جلد ہی خدا کا عذا ب تمھیں اپنی گرفت میں لے لے گا.صالح کی قوم نے اونٹنی کو مار ڈالا .صالح نے ان سے کہا:تین دن مزید اپنے گھروں میں زند گی کا لطف اٹھاؤ،یہ وعدہ جھوٹا نہیںہے. جب ہمارا عذاب آیا توصالح اور ان کے ہمراہ با ایمان افراد کو اپنی رحمت کے ذریعہ اس دن کی رسوائی سے نجات دی، بے شک تمہاراپروردگار تو قوی اور عزیز ہے. اور ستمگروںکو آسمانی صیحہ(چنگھاڑ) نے اپنی گرفت میں لے لیا اور ہنگا م صبح اپنے گھروں میں موت کی نیند سورہے تھے گویا وہ لوگ کبھی اس دیار میں زندہ ہی نہیں تھے. جان لو کہ ثمود کی قوم اپنے رب کی منکر ہوئی اور خدا کی رحمت سے دور ہو گئی ۔

۴۔سورۂ اعراف کی ۷۳۔۷۹ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَالَی ثَمُودَ َخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا ﷲ مَا لَکُمْ مِنْ ِلَهٍ غَیْرُهُ قَدْ جَائَتْکُمْ بَیِّنَة مِنْ راَبِکُمْ هَذِهِ نَاقَةُ ﷲ لَکُمْ آیَةً فَذَرُوهَا تَْکُلْ فِی َرْضِ ﷲ وَلاَتَمَسُّوهَا بِسُوئٍ فَیَْخُذَکُمْ عَذَاب َلِیم ٭ وَاذْکُرُوا إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَائَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَبَوََّکُمْ فِی الَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِنْ سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُیُوتًا فَاذْکُرُوا آلَائَ ﷲ وَلاَتَعْثَوْا فِی الَْرْضِ مُفْسِدِینَ ٭ قَالَ الْمَلُ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لِلَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَنَ مِنْهُمْ َتَعْلَمُونَ َنَّ صَالِحًا مُرْسَل مِنْ راَبِهِ قَالُوا ِنَّا بِمَا ُرْسِلَ بِهِ مُؤْمِنُونَ٭ قَالَ الَّذِینَ اسْتَکْبَرُوا ِنَّا بِالَّذِی آمَنتُمْ بِهِ کَافِرُونَ ٭ فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ َمْرِ راَبِهِمْ وَقَالُوا یَاصَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا ِنْ کُنتَ مِنْ الْمُرْسَلِینَ ٭ فََخَذَتْهُمْ الرَّجْفَةُ فََصْبَحُوا فِی دَارِهِمْ جَاثِمِینَ ٭ فَتَوَلَّی عَنْهُمْ وَقَالَ یَاقَوْمِ لَقَدْ َبْلَغْتُکُمْ رِسَالَةَ راَبِی وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلَکِنْ لاَتُحِبُّونَ النَّاصِحِینَ )

۱۰۹

اورقوم ثمود پر ان کے بھائی صالح کو پیغمبری کے لئے مبعوث کیا .صالح نے کہا : اے میری قوم والو !خدا کی عبادت کرو کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے .بتحقیق تمہارے رب کی طرف سے آشکار معجزہ آیا ہے یہ خدا کی اونٹنی ہے جو کہ تمہارے لئے ایک معجزہ ہے اُسے چھوڑ دو تاکہ خدا کی سر زمین میں چرے اور اسے ایذا نہ پہنچانا ورنہ دردناک عذاب میں مبتلا ہو جاؤ گے.

اُ س وقت کو یاد کرو جب خدا نے تمھیں قوم عاد کی ہلا کت کے بعد گزشتہ افراد کا جانشین بنا یا اور زمین میں ٹھکانہ دیا کہ اس کی ہموار زمینوں میں محلوں کی تعمیر کرو اور پہاڑوں میں گھروں کی بنا ڈالو.لہٰذا خدا کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین پر فساد برپا نہ کرو ، تو اس قوم کے بڑے لوگوں نے کمزور بنادیئے جانے والے لوگوں میں سے جو ایمان لائے تھے ان سے کہا: کہ تم کو کیا معلوم کہ صالح اپنے ربّ کافرستادہ ہے ؟ وہ لوگ بولے : جو آئین(قانون) وہ لائے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ہیں، تو جن بڑے لوگوں نے ہٹ دھرمی اور ضد سے کام لیا تھا بو لے:جن باتوں پر تم ایمان لائے ہو ہم ان کے منکر اور کافر ہیں.لہذا اونٹنی کو مارڈالا اور خدا کے حکم کی نا فرمانی کی اور کہا: اے صالح! اگر تم پیغمبر ہو تو جس عذاب کا تم نے ہم سے وعدہ کیا ہے وہ لے آؤ .پھر وہ زلزلہ میں گرفتار ہوگئے اور اپنے گھروں میں بے جان پڑے رہ گئے. پھر اس وقت صالح نے ان سے منھ پھیر کر کہا: اے میری قوم ! میں نے اپنے ربّ کا پیغام تم تک پہنچا دیا اور تمھیں پند ونصیحت بھی کر دی لیکن تم لوگ خیر خواہوں اور نصیحت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتے۔

۵۔ سورہ ٔ نمل کی۴۸ ویں تا۵۳ویںآیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَکَانَ فِی الْمَدِینَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ یُفْسِدُونَ فِی الَرْضِ وَلاَیُصْلِحُونَ ٭ قَالُوا تَقَاسَمُوا بِﷲ لَنُبَیِّتَنَّهُ وََهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِیِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِکَ َهْلِهِ وَِنَّا لَصَادِقُونَ ٭ وَمَکَرُوا مَکْرًا وَمَکَرْنَا مَکْرًا وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ٭ فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ مَکْرِهِمْ َنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ َجْمَعِینَ ٭ فَتِلْکَ بُیُوتُهُمْ خَاوِیَةً بِمَا ظَلَمُوا ِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ ٭ وََنجَیْنَا الَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

اُس شہر میں نو افراد قبیلہ(رؤسائے میں سے ) تھے جو فساد کر تے تھے اور اصلاح نہیں کر تے تھے ان لوگوں نے کہا : تم سب آپس میں خدا کی قسم کھا ؤ کہ شب میں اس (صالح ) کو اور جو اس کے ساتھ ہیں ان سب کو ہم قتل کر ڈالیں گے،پھر اس وقت انکے ورثہ سے کہیں گے کہ ہم لوگ ان کے ساتھیوں کی ہلا کت کے وقت حاضر نہیں تھے اور سچ کہتے ہیں.انھوں نے زبردست دھو کا دیا اور ہم نے ان کی بے خبری میں تد بیر کی غور کرو کہ ان کے فریب کا نتیجہ کیا ہوا ؟ ہم نے ان سب کو اور ان کی قوم کو ایک ساتھ ہلاک کر ڈالا اور یہ خالی گھر انھیں کے ہیں جن کی دیواریں اور چھتیں نیچے گر گئی ہیں ان کے ان مظا لم کے سبب سے جو انھوں نے کئے ہیں ؛ اس میں، ان لوگوں کے لئے جوجا نتے ہیں ایک عبرت ہے. اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیااور پرہیز گاری کا ثبوت دیا ہم نے انھیں نجات دی۔

۱۱۰

کلمات کی تشریح

۱۔اطّیرنا وطا ئر کم: تطےّر و اطّیر:

اس نے بد فالی کی،بد شگو نی کی اور طائر کم یہاں پر تمہاری بد شگو نی اور نحوست کے معنی میں ہے۔

۲۔ ھضیم:

ھضیم پختہ اور قابل استفادہ اور لطیف یعنی خوشگوار اور نر م میوہ ۔

۳۔فارھین:

فارہ، مد ہوش اور ماھر کہ دونوں ہی معنی بحث سے منا سبت رکھتے ہیں۔

۴۔جاثمین:

جثم جثو ما ً، زمین سے چپکا ہوا، افتاد ہ اور ہلاک شدہ۔

۵۔بؤاکم:

بوّاہ منزلا ً، وہاں اسے نیچے لا یا۔

۶۔و لا تعثوا:

عاث و عثا،زبردست فساد کیا۔

۱۱۱

۷۔عتوّا :

عتا عتوّا،تکبر کیا سرکشی اور طغیانی کی حد کر دی۔

۸۔رجفةً:

رجف،اُسے زبردست حرکت اور جنبشں پر مجبور کیا، الرّجفہ:یکبارگی لرزنا( زلزلہ)۔

۹۔ رھط:

رھط یہاں پر دس آدمی سے کم کا ایک گروہ ہے جس میں کو ئی عورت نہ ہو۔

آیات کی تفسیر کا خلا صہ

ثمود کا قبیلہ حضرت نوح کے اعقا ب میں تھا جو قوم عاد کے بعد زند گی گذار رتے تھے وہ لوگ مد ینہ اور شام کے درمیان عالی شان محلوں میں زندگی گذار تے تھے.

یہ قوم خود پسندی اور سر کشی میں مبتلا ہو گئی اور خدا کو ترک کر دیا اور بتوں کی پرستش میں مشغول ہوگئی خداوند عالم نے بھی صالح پیغمبر کو جو کہ اسی ثمود قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے بشارت وانذار کی ذمہ داری دے کر ان کی طرف بھیجا گزشتہ آیات میں آپ نے ملا حظہ کیا کہ ان کے اور ان کے افراد قبیلہ کے درمیان کیا گزری۔

آخر کار قوم ثمود نے اپنے پیغمبر سے معجزہ طلب کیا اس شرط کے ساتھ کہ پہاڑ سے ایک حاملہ اونٹنی اپنے مدعا کی صداقت کے عنوان سے ظاہر کریں. خداوند سبحا ن نے ان کی یہ خواہش پوری کی، پہاڑ کے اندر زبردست پیچ وتاب کی کیفیت پیدا ہوئی پھر اس سے ایک حاملہ موٹی اونٹنی بر آمد ہوئی اور اس نے قوم ثمود کے سامنے بچہ جنا۔

۱۱۲

حضرت صالح نے اپنی قوم سے طے کیا کہ ایک دن ناغہ کر کے نہر کا پانی اُس اونٹنی سے مخصوص رہے اور کوئی دوسرا اس پانی سے استفادہ نہ کرے اور اونٹنی کا دودھ پانی کی جگہ ان کا ہو گا.اور دوسرے دن نہر کا پا نی ان کے اور ان کے چوپایوں کے لئے ہو گا.ایک مدت تک وہ لوگ اس عہد پر باقی رہے،یہاں تک کہ ۹ اوباش اور ظالم افراد نے اس اونٹنی کے قتل کا مصمم عزم کر لیا اور آخر کار اسے قتل کر ڈالا۔نتیجہ کے طور پر خوفناک آسمانی آواز ( چنگھاڑ) آئی اور زمین کو شدید جنبش ہوئی(زلزلہ آیا) اور اپنی جگہ پر ہلاک ہوگئے۔

بحث کا نتیجہ

خدا وند عالم نے ہود اور صالح علیھما السلام کو (رحمت خدا وندی کا )بشارت دینے والا اور (اس کے عذاب سے) ڈرانے والا بنا کر ان کی قوم کی طرف بھیجا.انھون نے بھی شریعت نوح اور ان کے قوانین و آئین پر عمل کرنے کی دعوت دی۔

اس طرح سے جو بھی حضرت نوح کے بعد آیا ان کے آئین اور شریعت کی تبلیغ کرتا تھا وہ نوح پیغمبر کا ان کی شریعت پر وصی تھا خواہ خدا کی طرف سے رسول ہو جیسے ہود اور صالح علیہما السلام یا نہ ہو جیسے نوح کے فرزند سام یا دیگر اوصیاء جو ان کے بعد تشریف لائے ہیں؛یہاں تک کہ خدا نے حضرت ابراہیم کو شریعت حنفیہ کے ساتھ رسالت کے لئے مبعوث کیا کہ انشاء اللہ اس موضوع سے متعلق مطا لب آیندہ بحث میں آئیں گے۔

۱۱۳

(۷)

ابراہیم ( خلیل الرحمن)

* قرآن کریم میں حضرت ابراہیم کی سر گذ شت کے مناظر.

* حضرت ابراہیم اور مشرکین.

* حضرت ابراہیم اور حضرت لوط

* حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل کعبہ کی تعمیر اور مناسک حج کی ادائیگی کے لئے دعوت دینا.

* حضرت ابراہیم ، حضرت اسحق اور حضرت یعقوب

۱۱۴

قرآن کریم میں حضرت ابراہیم کی سر گذشت کے مناظر

پہلا منظر، حضرت ابراہیم اور مشر کین.

۱۔خدا وند سبحان سورۂ شعراء کی ۶۹ویں سے ۸۲ ویں آیات میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبََ اِبْرَاهِیمَ ٭ إِذْ قَالَ لِاَبِیهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ ٭ قَالُوا نَعْبُدُ َصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاکِفِینَ ٭ قَالَ هَلْ یَسْمَعُونَکُمْ إِذْ تَدْعُونَ ٭ َوْ یَنْفَعُونَکُمْ َوْ یَضُرُّونَ٭ قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَائَنَا کَذَلِکَ یَفْعَلُونَ ٭ قَالَ َفَرََیْتُمْ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُونَ ٭ َنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ الَقْدَمُونَ ٭ فَإِنَّهُمْ عَدُوّ لِی ِلاَّ رَبَّ الْعَالَمِینَ ٭ الَّذِی خَلَقَنِی فَهُوَ یَهْدِینِ ٭ وَالَّذِی هُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِینِ ٭ وَِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِینِ ٭ وَالَّذِی یُمِیتُنِی ثُمَّ یُحْیِینِ ٭ وَالَّذِی َطْمَعُ َنْ یَغْفِرَ لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّینِ )

(اے پیغمبر!)ابراہیم کی خبر امت کے لئے بیان کرو .جب انھوں نے اپنے مربیّ باپ( چچا) اور اپنی قوم سے کہا:تم لوگ کس معبود کی عبادت کر تے ہو.انھوں نے جواب دیا:اُن بتوں کی جو مسلسل ہماری پرستش کا محل و محور ہیں اُنھوں نے کہا تم لوگ انھیں پکا رتے ہو تو کیا وہ تمہاری باتیں سنتے ہیں؟!.یا تمہارے حال کے لئے کوئی نفع ونقصان کے مالک ہیں؟ انھوں نے کہا :ہم نے اپنے آبا ء واجداد کو دیکھا ہے کہ ایسا کرتے تھے حضرت ابراہیم نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ تم جن کی پر ستش کرتے ہو، تم اور تمہارے گزشتہ آباء واجداد .میں ان سب کو دشمن رکھتا ہوں جز ربّ العا لمین کے کہ اُس نے ہمیں پیدا کیا اور راہ راست کی ہمیں راہنمائی کی وہ ہے جس نے ہمیں سیر کیا ہے اور ہماری تشنگی دور کی ہے اور جب بیمار ہوتے ہیں تو ہمیں شفا دیتا ہے. اور وہ کہ جو ہمیں مارتا اور اُس کے بعد زندہ کر تا ہے وہ خدا جس سے لو لگائے رہتے ہیں کہ قیامت کے دن ہمارے گناہوں کو بخش دے۔

۲۔ سورہ ٔ انعام کی ۷۴ویں سے ۸۱ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَإِذْ قَالَ اِبْرَاهِیمُ لِاَبِیهِ آزَرَ َتَتَّخِذُ َصْنَامًا آلِهَةً ِنِّی َرَاکَ وَقَوْمَکَ فِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ ٭ وَکَذَلِکَ نُرِی اِبْرَاهِیمَ مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ وَلِیَکُونَ مِنْ الْمُوقِنِینَ ٭ فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ اللَّیْلُ رََی کَوْکَبًا قَالَ هَذَا راَبِی فَلَمَّا َفَلَ قَالَ لاَُحِبُّ الآْفِلِینَ ٭ فَلَمَّارََی الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا راَبِی فَلَمَّا َفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ یَهْدِنِی راَبِی لََکُونَنَّ مِنْ الْقَوْمِ الضَّالِّینَ ٭ فَلَمَّا رََی الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا راَبِی هَذَا َکْبَرُ فَلَمَّا َفَلَتْ قَالَ یَاقَوْمِ ِنِّی بَرِیئ مِمَّا تُشْرِکُونَ ٭ ِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالَرْضَ حَنِیفًا وَمَا َنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ ٭ وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ َتُحَاجُّونِّی فِی اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلاََخَافُ مَا تُشْرِکُونَ بِهِ ِلاَّ َنْ یَشَائَ راَبِی شَیْئًا وَسِعَ راَبِی کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا َفَلاَ تَتَذَکَّرُونَ ٭ وَکَیْفَ َخَافُ مَا َشْرَکْتُمْ وَلاَتَخَافُونَ َنَّکُمْ َشْرَکْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا فََیُّ الْفَرِیقَیْنِ َحَقُّ بِالَمْنِ ِنْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ )

۱۱۵

(اے پیغمبر)اُس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے مربیّ باپ آزر سے کہا :آیا تم نے بتوں کو خدا بنا یا ہے ؟! میں تمھیں اور تمہاری قوم کو آشکار گمراہی میں دیکھتا ہوں.اور اس طرح سے ابراہیم کو زمین وآسمان کے ملکوت کا نظا رہ کرایا تا کہ مقام یقین تک پہنچ جائیں. لہٰذا جب شب کی تاریکی چھائی، تو ایک ستارے کو دیکھا اور کہا یہ میرا رب ّ ہے.لیکن جب وہ ستارہ ڈوب گیا تو کہا:میں ڈوبنے والوں کو دوست نہیں رکھتاہوں پھر جب چاند کو درخشاں دیکھا،تو کہا : یہ میرا ربّ ہے،لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا : اگر خدا میری راہنمائی نہ کرے تو یقینا میں گمرا ہوں میں ہو جا ؤں گا.اور جب ضوفشاں خو رشید(تابناک سورج) کو دیکھا تو کہا: یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے لیکن جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہا: اے میری قوم ! میں ان چیز وں سے جن کو تم خدا کا شریک قرار دیتے ہو بیزار ہوں.میں نے خا لص ایمان کے ساتھ اس خدا کی طرف رُخ کیا ہے جو زمین اور آسمانوں کا خا لق ہے اور میں کبھی مشرکین کا موافق نہیں ہوںگا. ابراہیم کی قوم ان کے ساتھ دشمنی اور کٹ حجتی پر آمادہ ہو گئی.تو آپ نے کہا: آیا ہم سے خدا کے بارے میں بحث کرتے ہو جبکہ خدا نے درحقیقت ہماری ہدایت کی ہے؟!تم جن چیزوں کو خدا کا شریک قرار دیتے ہو میں ان سے خوفزدہ نہیں ہوں مگر یہ کہ خدا کی مرضی ہو کہ ہمارے ربّ کا علم تمام مو جودات کو محیط ہے،کیوں تم لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے؟! اور میں کیسے ان چیزوں سے خوف کھا ؤں جنھیں تم خدا کا شریک قرار دیتے ہو جبکہ تم خدا کا شریک قرار دینے سے نہیں ڈرتے جب کہ اس سلسلے میںکوئی حجت اور بر ہان نہیں ہے؟! ہم دونوں میں سے کون سلامتی ( اور کون خوف)کا سزاوار ہے،اگر تم لوگ فہم رکھتے ہو( یا جا نتے ہو تو بتاؤ)۔

۳۔سورۂ عنکبوت کی ۱۶ سے ۱۸اور۲۴اور ۲۵ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَاِبْرَاهِیمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا ﷲ وَاتَّقُوهُ ذَلِکُمْ خَیْر لَکُمْ ِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ٭ ِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ ﷲ َوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ ِفْکًا ِنَّ الَّذِینَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ ﷲ لاَیَمْلِکُونَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ ﷲ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْکُرُوا لَهُ الَیهِ تُرْجَعُونَ ٭ وَِنْ تُکَذِّبُوا فَقَدْ کَذَّبَ ُمَم مِنْ قَبْلِکُمْ وَمَا عَلَی الرَّسُولِ ِلاَّ الْبَلَاغُ الْمُبِینُ ٭...٭فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ ِلاَّ َنْ قَالُوا اقْتُلُوهُ َوْ حَرِّقُوهُ فََنجَاهُ ﷲ مِنْ النَّارِ ِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ٭ وَقَالَ ِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ ﷲ َوْثَانًا مَوَدَّةَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا وَمَْوَاکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ نَاصِرِینَ )

۱۱۶

ابراہیم کی داستان کو یاد کرو جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا: خدا کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو. اگر سمجھو تو تمہارے لئے یہ بہتر ہے. تم خدا کے علاوہ صرف بتوں کی عبادت کرتے ہو اور اپنے پاس سے جھوٹ گڑھتے ہو اور جن لوگوں کو خدا کے علا وہ پو جتے ہو وہ تمھیں روزی دینے پر قادر نہیں ہیں لہٰذا خدا وند سبحان سے روزی طلب کرو اور اس کی عباد ت کرو اور اس کا شکر بجالا ؤکہ تمہاری بازگشت اسی کی طرف ہے.اور تم لوگ جو مجھے جھٹلاتے ہو تو تم سے پہلے کی امتوں نے بھی (اپنے پیغمبروں کی) تکذیب کی ہے ، لیکن رسول پر رسا لت کی آشکار تبلیغ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ...( ان تمام نصیحتوں کے بعد جو ابراہیم نے کی ہے ) ان کی قوم کا جواب اس کے علا وہ کچھ بھی نہ تھا کہ انھوں نے کہا : اسے قتل کر ڈالو یا جلا ڈالو؛ اور خدا نے اسے آتش سے نجا ت دی بیشک اس حکا یت میں صاحبان قوم کے لئے نشا نیاں ہیں. پھر ابراہیم نے کہا:اے لو گو!جن کو تم لوگ خدا کے سوا خدا بنائے ہوئے ہو وہ ایسے بت ہیں جو تم نے صرف اپنے درمیان دنیاوی زندگی میں دوستی کے لئے اپنا یا ہے (اور) پھر قیامت کے دن تم لوگ ایک دوسرے کی تکفیر کروگے اور ایک دوسرے پر لعن و نفرین کروگے اور تمہارا ابدی ٹھکا نہ آتش جہنم ہو گا اور کوئی یاور و مددگار بھی نہیںہو گا۔

۴۔ سورہ صافا ت کی ۷۹اور۸۳سے۹۸ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( سَلاَم عَلَی نُوحٍ فِی الْعَالَمِین٭...٭وَِنَّ مِنْ شِیعَتِهِ لَاِبْرَاهِیمَ ٭ إِذْ جَائَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِیمٍ ٭ إِذْ قَالَ لَِبیهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ ٭ َئِفْکًا آلِهَةً دُونَ ﷲ تُرِیدُونَ ٭ فَمَا ظَنُّکُمْ بِراَبِ الْعَالَمِینَ ٭ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِی النُّجُومِ ٭ فَقَالَ ِنِّی سَقِیم ٭ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِینَ ٭ فَرَاغَ الَی آلِهَتِهِمْ فَقَالَ َلاَتَْکُلُونَ ٭ مَا لَکُمْ لاَتَنطِقُونَ ٭ فَرَاغَ عَلَیْهِمْ ضَرْبًا بِالْیَمِینِ ٭ فََقْبَلُوا الَیهِ یَزِفُّونَ ٭ قَالَ َتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ ٭ وَﷲ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ٭ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْیَانًا فََلْقُوهُ فِی الْجَحِیمِ ٭ فََرَادُوا بِهِ کَیْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الَسْفَلِینَ )

تمام عا لم میں نوح پر سلام...اور ان کے شیعوں میں ایک ابراہیم ہیں وہ پاکیزہ دل اور سالم قلب کے ساتھ اپنے ربّ کی بارگاہ میں آئے اُس وقت جب انھوں نے اپنے مربیّ باپ اور اپنی قوم سے کہا:یہ کیا ہے جس کی تم لوگ پرستش کرتے ہو؟!آیا جھو ٹے خداؤں کو(سچے ) خدا کی جگہ چاہتے ہو؟! عالمین کے رب کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟!اُس وقت ستاروں کی طرف نگا ہ ڈالی اور کہا: میں بیمر ہوں. (لوگ ) ان سے منھ موڑ کر با ہر نکل گئے. انھوں نے ان کے بتوں کی طرف رخ کیا اور کہا: آیا اُ ن غذاؤں کو (جو مشر کین عید کے دن تمہارے لئے لا تے ہیں) کیو نہیں کھا تے؟! تمھیں کیا ہو گیا ہے ،کیو نہیں بولتے؟! ( یہ کہا )اور کلہاڑی سے بتوں پر حملہ کر دیا اور بڑے بت کے علا وہ سب کو توڑ پھو ڑ ڈا لا .(شہر کے لوگ) ہراساں اور سراسیمگی کے عالم میں ان کی طرف دوڑے۔

۱۱۷

ابرا ہیم نے پوچھا: آیا اپنے ہا تھوں کے بنائے ہوئے بتوں کی پو جا کر تے ہو.جبکہ خدا نے تمھیں اور تمہارے بنائے ہوئے بتوں ( پتھروں) کو پید اکیاہے؟!

انھوں نے کہا:اس کے لئے کوئی عمارت بنا ؤ اور اسے آگ میں ڈال دو.انھوں نے ان کے ساتھ ایک چال چلنا چاہی لیکن ہم نے انھیں پست اور ذلیل کر دیا ہے۔

۵۔سورۂ انبیاء کی ۵۱ ویں تا ۷۰ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا اِبْرَاهِیمَ رُشْدَهُ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِهِ عَالِمِینَ ٭ إِذْ قَالَ لاَبِیهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِیلُ الَّتِی َنْتُمْ لَهَا عَاکِفُونَ٭ قَالُوا وَجَدْنَا آبَائَنَا لَهَا عَابِدِینَ ٭ قَالَ لَقَدْ کُنتُمْ َنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ٭ قَالُوا َجِئْتَنَا بِالْحَقِّ َمْ َنْتَ مِنَ اللاَّعِبِینَ ٭ قَالَ بَل رَبُّکُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالَرْضِ الَّذِی فَطَرَهُنَّ وََنَا عَلَی ذَلِکُمْ مِنَ الشَّاهِدِینَ ٭ وَتَﷲ لَکِیدَنَّ َصْنَامَکُمْ بَعْدَ َنْ تُوَلُّوا مُدْبِرِینَ ٭ فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا ِلاَّ کاَبِیرًا لَهُمْ لَعَلَّهُمْ الَیهِ یَرْجِعُونَ ٭ قَالُوا مَنْ فَعَلَ هَذَا بِآلِهَتِنَا ِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِینَ ٭ قَالُوا سَمِعْنَا فَتًی یَذْکُرُهُمْ یُقَالُ لَهُ اِبْرَاهِیمُ ٭ قَالُوا فَْتُوا بِهِ عَلَی َعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَشْهَدُونَ ٭ قَالُوا ََنْتَ فَعَلْتَ هَذَا بِآلِهَتِنَا یَااِبْرَاهِیمُ ٭ قَالَ بَلْ فَعَلَهُ کاَبِیرُهُمْ هَذَا فَاسَْلُوهُمْ ِنْ کَانُوا یَنطِقُونَ ٭ فَرَجَعُوإ الَی نفُسِهِمْ فَقَالُوا ِنَّکُمْ َنْتُمْ الظَّالِمُونَ ٭ ثُمَّ نُکِسُوا عَلَی رُئُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَائِ یَنطِقُونَ ٭ قَالَ َفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ ﷲ مَا لاَیَنفَعُکُمْ شَیْئًا وَلاَیَضُرُّکُمْ ٭ ُفٍّ لَکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ ﷲ َفَلاَتَعْقِلُونَ ٭ قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَکُمْ ِنْ کُنتُمْ فَاعِلِینَ ٭ قُلْنَا یَانَارُ کُونِی بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَی اِبْرَاهِیمَ ٭ وََرَادُوا بِهِ کَیْدًا فَجَعَلْنَاهُمْ الَخْسَرِینَ )

بیشک ہم نے ابراہیم کو وہ رشد عطا کیا جو ان میں ہو نا چا ہئے تھا اور ہم اس سے آگا ہ تھے جب انھوں نے اپنے مربیّ باپ اور اپنی قوم سے کہا : یہ مورتیاں کیا ہیں کہ جن کی عبادت میں مشغول ہوگئے ہو؟! انھوں نے کہا.ہم نے اپنے آباء و اجدادکو ان کا پجا ری پا یا ہے ابراہیم نے کہا: بیشک تم اور تمہارے آباء واجداد کھلی ہوئی گمرا ہی میں ہو. انھوں نے پو چھا: آیا تم حق کی طرف سے ہماری جانب آئے ہو یا تم بھی ایک بازی گرہو؟! ابراہیم نے کہا : بلکہ تمہارا ربّ زمین اور آسمانوں کا ربّ ہے ، جس نے ان سب کو خلق کیا ہے اور میں اس امر پر گواہی دیتا ہوں .خدا کی قسم تمہارے باہر جا نے کے بعد تمہارے بتوں کے بارے میں کوئی تدبیر میں ضرور کروں گا پھر بتوں کو ٹکڑے ٹکڑ ے کر دیا جز بڑے بُت کے کہ شاید اس کی جانب رجو ع کر یں (لوگوں نے) کہا: جس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے وہ ستمگر وں میں سے ہے.انھوں نے کہا:ہم نے سنا ہے کہ ابرا ہیم نامی جوان ہمارے بتوں کو بُرے لفظوں سے یاد کرتا ہے.انھوں نے کہا: اسے لوگوں کے سامنے حا ضر کرو تا کہ سب گو اہی دیں. انھوں نے پو چھا!اے ابراہیم !کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا ہے؟

۱۱۸

.ابراہیم نے جواب دیا:بلکہ ان میں جو سب سے بزرگ ہے اس نے ایسا کیا ہے، اگر یہ بول سکتے ہیں تو ان سے پو چھ لو!.(قوم) نے اپنے نفوس کی طرف رجو ع کر کے کہا: تم خود ہی ظا لم و ستمگر ہو.پھر سر جھکا کر بو لے ، ( اے ابراہیم ) تم تو جا نتے ہو کہ یہ کلام نہیں کر سکتے. ابراہیم نے کہا : پھر خدا کے سوا کیوں کسی ایسی چیز کی عبادت کر تے ہو جو نہ تم کو نفع پہنچا سکے اور نہ نقصا ن؟!. تم پر اور ان بتوں پر وائے ہو جن کی خدا کے بجائے پرستش کر تے ہو، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے ؟ ! (لوگوں نے کہا ) اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی نصرت کرو اگر تم لوگ کچھ کر سکتے ہو تو. اور ہم نے خطا ب کیا کہ: اے آگ! ابراہیم پر سلا متی کے ساتھ ٹھنڈی ہوجا. انھوں نے ان (ابراہیم ) کے ساتھ مکر و فر یب کا ارادہ کیا تو ہم نے بھی انھیں نقصان اٹھانے والوں میں قرار دیا۔

۶۔ سورۂ بقرہ ۲۵۸ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( لَمْ تَرَ الَی الَّذِی حَاجَّ اِبْرَاهِیمَ فِی راَبِهِ َنْ آتَاهُ ﷲ الْمُلْکَ إِذْ قَالَ اِبْرَاهِیمُ راَبِی الَّذِی یُحْیِی وَیُمِیتُ قَالَ َنَا ُحْیِی وَُمِیتُ قَالَ اِبْرَاهِیمُ فَإِنَّ ﷲ یَاْتِی بِالشَّمْسِ مِنْ الْمَشْرِقِ فَْتِ بِهَا مِنْ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِی کَفَرَ وَﷲ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِین )

کیا تم نے نہیں دیکھا اس شخص ( بادشاہ وقت ) کو جس نے ابرا ہیم سے ان کے ربّ کے بارے میں بحث کی صرف اس لئے کہ خدا نے اس کو ملک عطا کیا تھا جس وقت ابراہیم نے کہا: میرا ربّ وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ، (بادشاہ) نے کہا کہ میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابراہیم نے کہا: میرا خدا وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکا لتا ہے ( اے بادشاہ) تو اسے مغرب سے نکال دے وہ کافر (بادشاہ) مبہو ت وششدر ہو گیا اور جواب سے عا جز اور بے بس ہو گیا خدا ستمگروں کی راہنمائی نہیں کر تا۔

دوسرا منظر۔ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط

۱۔سورہ عنکبوت کی ۲۶۔۲۷۔ ۳۱۔ ۳۲۔ آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( فَآمَنَ لَهُ لُوط وَقَالَ ِنِّی مُهَاجِر الَی راَبِی ِنَّهُ هُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ٭ وَوَهَبْنَا لَهُ ِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْکِتَابَ وَآتَیْنَاهُ َجْرَهُ فِی الدُّنْیَا وَِنَّهُ فِی الآخِرَةِ لَمِنْ الصَّالِحِینَ ٭...٭وَلَمَّا جَائَتْ رُسُلُنَا اِبْرَاهِیمَ بِالْبُشْرَی قَالُوا ِنَّا مُهْلِکُو َهْلِ هَذِهِ الْقَرْیَةِ ِنَّ َهْلَهَا کَانُوا ظَالِمِینَ ٭ قَالَ ِنَّ فِیهَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ َعْلَمُ بِمَنْ فِیهَا لَنُنَجِّیَنَّهُ وََهْلَهُ ِلاَّ امْرََتَهُ کَانَتْ مِنْ الْغَابِرِین )

۱۱۹

پس لوط ان ( ابراہیم) پر ایمان لائے اور کہا :میں (اس دیار شرک سے ) اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں،میرا ربّ عزیز اور حکیم ہے اور ہم نے اسے اسحق اور یعقوب عطا کیا اور اس کے خاندان میں نبوت اور آسمانی کتاب قرار دی اور دنیا میں اسے اس کا اجر مرحمت کیا اور آخرت میں بھی وہ صالحین کے زمرہ میں ہے .اور جب ہمارے نمائندہ فرشتوں نے ابرا ہیم کے لئے (فرزند کی ولادت کی )خوشخبری دی اور انھوں نے کہا : ہم ( اپنے ربّ کے حکم سے) اس دیار کے لوگوں کو جو ظالموں کے زمرہ میں ہیں ہلاک کر دیں گے. ابراہیم نے کہا :لوط بھی وہیں ہیں، انھوں نے کہا: ہم وہاں کے رہنے والوں سے زیادہ واقف ہیں،ہم لوط اور ان کے خا ندان کونجات دے دیں گے ان کی بیوی کے علاوہ جو کہ ہلا ک ہو نے والی ہے ۔

۲۔ سورہ ٔہود کی ۶۹۔۷۶ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَلَقَدْ جَائَتْ رُسُلُنَا اِبْرَاهِیمَ بِالْبُشْرَی قَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَام فَمَا لاَبِثَ َنْ جَائَ بِعِجْلٍ حَنِیذٍ٭فَلَمَّا رََی َیْدِیَهُمْ لاَتَصِلُ الَیهِ نَکِرَهُمْ وََوْجَسَ مِنْهُمْ خِیفَةً قَالُوا لاَتَخَفْ ِنَّا ُرْسِلْنَإ الَی قَوْمِ لُوطٍ ٭ وَامْرََتُهُ قَائِمَة فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَائِ ِسْحَاقَ یَعْقُوبَ ٭ قَالَتْ یَاوَیْلَتَا ََلِدُ وََنَا عَجُوز وَهَذَا بَعْلِی شَیْخًا ِنَّ هَذَا لَشَیْئ عَجِیب٭ قَالُوا َتَعْجاَبِینَ مِنْ َمْرِ ﷲ رَحْمَةُ ﷲ وَبَرَکَاتُهُ عَلَیْکُمْ َهْلَ الْبَیْتِ ِنَّهُ حَمِید مَجِید ٭ فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرَاهِیمَ الرَّوْعُ وَجَائَتْهُ الْبُشْرَی یُجَادِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطٍ ٭ ِنَّ اِبْرَاهِیمَ لَحَلِیم َوَّاه مُنِیب ٭ یَااِبْرَاهِیمُ َعْرِضْ عَنْ هَذَا ِنَّهُ قَدْ جَائَ َمْرُ راَبِکَ وَِنَّهُمْ آتِیهِمْ عَذَاب غَیْرُ مَرْدُودٍ )

ہمارے فرشتوں نے ابراہیم کو بشارت دی (مژدہ سنایا)اور انھیں سلام کیا،ابرا ہیم نے بھی جواب سلام دیا اور (چونکہ انھیں آدمی کی شکل میں دیکھا تھا اس لئے) ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ایک بھنا ہوا گائے کا بچھڑا حا ضر کر دیا اور جب دیکھا کہ وہ لوگ غذا کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا تے تو انھیں نا راض سمجھا اور دل میں ان سے خو فزدہ ہوئے(فرشتوں نے ) کہا : نہ ڈرو ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں انکی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی (خو شی سے) ہنسنے لگی. پھر ہم نے اس کو اسحق کی بشا رت دی اور اسحق کے بعد یعقوب کی، اس نے کہا: اے وائے! میں ایک بو ڑھی عورت ہوں اور میرا شوہر بھی ضعیف ہے ( کیا میں بچہ پیدا کر سکتی ہوں) یہ تو بالکل عجیب سی بات ہے .فرشتوں نے کہا : کیا تمہیں حکم الٰہی میں تعجب ہورہا ؟! خدا کی رحمت اور بر کت تم گھر والوں پر ہووہ بیشک حمد و مجد اور بزرگی کا سزوار ہے اور جب حضرت ابرا ہیم کا ڈر ختم ہوگیا اور فرزند کی بشا رت مل گئی ،تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں اصرار کرنا شروع کردیا ،یقینا ابراہیم حلیم وبردوبار، دلسوزاور ہمدرد،توبہ وانا بت کر نے والے تھے ۔

اے ابرا ہیم!اس بات سے اعراض کرو کہ تمہارے ربّ کا حکم آچکا ہے ان کی طرف قطعی اور اٹل عذاب آنے وا لا ہے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367