اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت10%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143779 / ڈاؤنلوڈ: 3612
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

اسلامی نظریہ حکومت کے بارے میں بتیس سبق

مصنف : علی اصغر رضوانی

۳

پہلا باب :

دين اور سياست

سبق نمبر ۱: سياست اور اس كے بنيادى مسائل

سبق نمبر ۲: اسلام اور سياست

سبق نمبر ۳: دينى حكومت كى تعريف

سبق نمبر ۴ : سياست ميں حاكميت دين كى حدود

سبق نمبر ۵: دينى حكومت كے منكرين

سبق نمبر ۶: سيكولرازم اور دينى حكومت كا انكار

سبق نمبر ۷،۸: دينى حكومت كى مخالفت ميں كى ادلّہ

۴

تمہيد:

''دين اور سياست كا باہمى تعلق '' گذشتہ چند عشروں سے اسلامى معاشروں ميں ايك اہم ترين فكرى بحث كے طور پر سامنے آياہے _ ايران ميں ا سلامى انقلاب كى كاميابى اور اسلامى جمہورى نظام كى تشكيل نے اس بحث كو مزيد وسعت دى ہے _ اوراسلامى حكومت كو بہت سے لكھاريوں اور مفكرين كى توجہ كا مركز بنادياہے _

دينى حكومت كے مختلف پہلو قابل غور ہيں _ پہلے باب ميں ہمارى كوشش يہ ہے كہ ''دين اور سياست كے باہمى تعلق'' كے مختلف پہلوؤں كو اختصار كے ساتھ واضحكريں اور دينى حكومت كى ايك واضح تصوير آپ كے سامنے پيش كريں_ دينى حكومت كے تصور كوموجودہ دور كے بعض سياسى مفكرين كى شديد مخالفت كا سامنا ہے لہذا اس باب ميں ہم انكى مخالفت كى مختلف قسموں كاجائزہ ليتے ہوئے ان ميں سے بعض كى ادلة كے جواب ديں گے_

۵

پہلا سبق :

سياست اور اس كے بنيادى مسائل

انسان ايك اجتماعى موجودہے كيونكہ عاطفى ، اقتصادى اور ثقافتى ضروريات اسے ايك اجتماعى اور معاشرتى زندگى گزارنے پر مجبور كرتے ہيں _ گھرانہ ، خاندان ، قبيلہ، ديہات، شہر ، ملك اور قوم و ملت تمام اجتماعى زندگى كے مختلف جلوے ہيں اجتماعى زندگى ميں تمام افراد كے منافع اور ضروريات ايك دوسرے كے ساتھ مربوط ہوتے ہيں _ بنابريں ايسے موارد بھى آتے ہيں كہ جن كا تعلق پورے معاشرہ كے ساتھ ہوتاہے _ اور ہر فرد اپنے طور پر تنہا ان كے متعلق فيصلہ نہيں كرسكتا_

مثال كے طور پر اگر ہم ايك قبيلہ كو مدنظر ركھيں تو اگر چہ اس كا ہر فرد اپنے طور پر اپنے كچھ ذاتى مسائل كا فيصلہ كرسكتاہے اور اپنے ذاتى فيصلےكے مطابق عمل كر سكتاہے_ ليكن كسى دوسرے قبيلہ كے ساتھ جنگ يا صلح جيسے مسائل ميں اپنى انفرادى رائے كے مطابقفيصلہ نہيں كرسكتا_ كيونكہ جنگ يا صلح ايسے مسائل ہيں جوپورے معاشرے كے ساتھ مربوط ہيں نہ كہ انفرادى مسائل كہ معاشرے كا ہر فرد انفرادى طور پر ان كے متعلق فيصلہ كرے اور اپنى ذاتى تشخيص كے مطابق عمل كرے _

يہ حقيقت ہے كہ چھوٹے بڑے ہر معاشرے ميں كچھ اجتماعى مسائل اور مشكلات ہوتى ہيں كہ جن كے حل

۶

كرنے كيلئے اجتماعى فيصلوں كى ضرورت ہوتى ہے اور اسى حقيقت نے انسان كو'' رياست و حكومت ''كے قبول كرنے كى طرف راغب كيا ہے _ طول تاريخ ميں جہاں پر بھى انسانى معاشرہ رہاہے ''رياست اور حكومت'' كا وجود بھى اسكے ہمراہ رہاہے_ہر معاشرے نے چاہے وہ جس شكل ميں بھى ہو_ اپنے اجتماعى امور كى تدبير كيلئے ايك فرد يا چند افراد كو رئيس ، حاكم، امير، والى ، سلطان اور بادشاہ ايسے مختلف عناوين كے تحت قبول كيا ہے _

ہر انسانى معاشرے ميں ايك يا چند افراد ''سياسى اقتدار ''كے حامل ہوتے ہيں _ اور اس كے اجتماعى امور كى تدبير اور اجتماعى زندگى كے مختلف امور كو انجام دينا ان كى ذمہ دارى ہوتى ہے _ بنابريں ''سياست''(۱) كى يوں تعريف كى جاسكتى ہے :

'' سياست'' يعنى ايك معاشرے كے بڑے بڑے مسائل و مشكلات كے بارے ميں فيصلہ كرنا اور انكى تدبير كرنا_ يہ سرپرستى اس معاشرے كى مشكلات كو رفع كرنے ، مختلف امور كو منظم كرنے ، منصوبہ بندى اور اسكے اجراء كو شامل ہے _

____________________

۱)سياست لفظ '' سوس'' سے نكلاہے_ جس كے لغوى معنى رياست ، پرورش، سزا دينا اور رعايا كے امور كى ديكھ بھال كرنا ہے_

ابن منظور كہتے ہيں: السوس: الرياسة ،يقال: ساسوہم سوساً و ساس الا مرَ سياسة قام بہ (لسان العرب ج۶ ص ۱۰۸ ''سوس'')_

فيروز آبادى كہتے ہيں : سُستُ الرّعية سياسة : امرتہا و نہيتہا و سُوّسَ فلانٌ ا مرَ الناس صُيّر ملكاً (القاموس المحيط ص ۷۱۰ '' سوس'') سياسى لغت ناموں ميںسياست كى مختلف تعريفيں كى گئي ہيں ان ميں سے بعض كى طرف ہم اشارہ كرتے ہيں _

الف: انسانى معاشروں پر حكومت كرنے كے فن كو'' سياست'' كہتے ہيں _

ب:مختلف مسائل كے حل كے بارے ميں فيصلہ كرنا_

ج:ملكى امور كے انتظام كيلئے حكومت جن تدابير كو كام ميں لاتى ہے انہيں سياست كہتے ہيں _

د:اجتماعى امور كو منظم كرنے كيلئے حكومت جس طاقت كو بروئے كار لاتى ہے اس كے علم كو سياست كہتے ہيں _

۷

'' سياست'' كے بہت سے ديگر معانى بھى ہيں بطور مثال اگر ہم سياست كے عملى پہلو كو مدنظر ركھيں تو كہہ سكتے ہيں : سياسى قدرت كو حاصل كرنے كيلئے كوشش اور اسكى حفاظت اور تقويت كرناسياست كہلاتاہے_

اگر ہم سياست كے فكرى اور نظرياتى پہلو كو ديكھيں تو پھر يوں تعريف كرسكتے ہيں : سياسى طاقت حكومتى ڈھانچہ اور سياسى حكومت ميں مختلف گروہوں كے باھمى تعلقات كا مطالعاتى جائزہ، سياست كہلائے گا _

بہر حال سياست ، سياسى اقتدار سے متعلقہ ابحاث اور اجتماعى امور كى تدبير ہميشہ سے صاحبان فكر كى توجہ كا مركز رہى ہيں _ افلاطون كى كتاب '' جمہوريت ''، ارسطو كى كتاب'' سياست'' اور ابو نصر فارابى كى كتاب ''مدينہ فاضلہ'' اس بات كى شاہد ہيں كہ عظيم مفكرين كے نزديك سياست كے موضوع كو ہميشہ بڑى سنجيدگى سے ليا گيا ہے_ انسانى معاشروں كے دن بدن پيچيدہ ہونے اور ان كے ايك دوسرے كے ساتھ بڑھتے ہوئے سياسى ، اقتصادى اور ثقافتى تعلقات نے سياسى ابحاث كو مزيد اہميت كا،حامل بنادياہے اور انكى وسعت ميں مزيداضافہ كردياہے_

علم سياست اور سياسى فلسفہ(۱)

عنوان '' سياست'' كے تحت داخل مسائل بہت مختلف اور متنوع ہيں_'' علم سياست'' ، ''سياسى فلسفہ'' ، ''سياسى آئيڈيالوجي'' اور ''سياسى تجزيہ'' جيسے الفاظ ميں سے ہر ايك سياست كے ساتھ مرتبط مختلف امور كى تحقيقات اور مطالعات كے ايك گوشے كى طرف اشارہ ہے _ ان ميں سے بعض مطالعات عملى مباحث كے

___________________

۱) political philosophy

۸

ساتھ مختص ہيں جبكہ بعض كا تعلق نظرياتى پہلوسے ہے_ اس تنوع اور وسعت كا راز يہ ہے كہ سياسى سوالات اور سياسى افكار بہت ہى مختلف اقسام كے ہيں اور علم سياست كا ايك شعبہ ان تمام سوالات اور ضروريات كا جواب نہيں دے سكتا _ بعض سياسى سوالات اور احتياجات كا تعلق عمل سے ہے_ مثلا ايك ملك كے سياسى ماہرين اور سياستدان جاننا چاہتے ہيں كہ ہمسايہ اور دوسرے ممالك سے تعلقات قائم كرنے ميں انكا موقف كيا ہونا چاہيے اور عالمى سطح پر بين الاقوامى تعلقات كو كس طرح استوار كريں تو اس كيلئے ان كے پاس عالمى اور بين الاقوامى سطح پر قائم سياسى اقتدار اور طاقتوں كے متعلق اسى طرح جامع تجزيہ ہونا چاہيئےہ جس طرح قومى سطح پر ان كے لئے علاقہ كى سياست كے پيچ و خم سے آگاہ ہونا ضرورى ہے _ پس عالمى اور علاقائي حالات سے آگاہ ہونے كے بعد اپنے سياسى اہداف اور قومى منافع كو متعين كريں اور انتہائي دقت نظر سے طے كريں كہ ان كے دراز مدت اورمختصر مدت مفادات كونسے ہيں اس مرحلے كے بعد اگلے مرحلے ميں وہ اپنے سياسى اہداف كے حصول كيلئے ايك منظم لائحہ عمل تيار كريں اور وسيع پيمانے پر منصوبہ بندى كريں اور پھر بڑى باريك بينى سے انہيں عملى جامہ پہنائيں_

اس قسم كے سياسى مطالعات جو عملى پہلو كے حامل ہيں_'' علم سياست''، ''سياسى تجزيہ و تحليل'' اور'' لشكرى و فوجى مطالعات ''(۱) جيسے شعبوں كے ساتھ مماثلت ركھتے ہيں _ اور ان فنون اور شعبوں پر مسلط ہونا اس قسم كے سوالات اور مسائل كے جواب دينے كيلئے مفيد ثابت ہوسكتے ہيں_

دوسرى قسم كے سياسى سوالات اور مسائل كا تعلق علمى اور نظرياتيپہلو سے ہے_ عملى پہلوكى نسبت علمى پہلو عالَم سياست ميں بنيادى اور اساسى حيثيت ركھتا ہے_ يہاں پر ہم اس قسم كے چند سوالات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

____________________

۱) Strategie studies

۹

بنيادى طور پر ہميں حكومت كى احتياج كيوں ہے؟

حكومت كرنا كن افراد كا حق ہے؟

حكمرانوںاور سياسى اقتدار كے حاملين كى اطاعت كيوں ضرورى ہے؟

عوام كے مقابلے ميں حكمرانوں كے فرائض كياہيں؟

حكومت كے اہداف كيا ہونے چاہئيں؟

حكومت كس حد تك عوام كى آزادى كو محدود كرنے كا حق ركھتى ہے؟

كيا حكومت صرف مادى فلاح و بہبود اور امن و امان كى ذمہ دار ہے؟ يا معاشرے كى خوشحالى اوراسكي

روحانى ضروريات كو پورا كرنے كى بھى ذمہ دار ہے؟

معاشرہ كى خوشحالى اور خير و بركت سے كيا مراد ہے؟ اور اس كا معيار كيا ہے؟

معاشرتى امور كو چلانے اور انكى منصوبہ بندى كرنے ميں معاشرتى انصاف كا كيا كردار ہے؟

معاشرتى انصاف اور اقتصادى و انفرادى آزادى كے در ميان تضاد اور ٹكراو كى صورت ميں كسے ترجيح دى جائے گى ؟

اس قسم كے بنيادى سوالات كى تحقيق '' سياسى فلسفہ'' ميں كى جاتى ہے_

مختلف سياسى مكاتب كہ جنہيں ہم ''سياسى افكار و نظريات'' سے تعبير كرتے ہيں انہى سوالات كے جوابات كى بنياد پر تشكيل پاتے ہيں_ دوسرے لفظوں ميں ہر سياسى مكتب كى بنياد ايك مخصوص سياسى نظريہ ( سياسى فلسفہ) پر ہوتى ہے _ مثال كے طور پر'' لبرل ازم''(۱) ايك سياسى مكتب فكر ہے _ وہ ان سوالات كے

____________________

۱) Liberalism

۱۰

ايسے جواب ديتے ہيں جو بعض جہات سے دوسرے سياسى مكتب فكر مثلا اشتراكيت (۱) كى تعليمات سے بالكل مختلف ہوتے ہيں _ لبرل ازم فردي، اقتصادى اور ثقافتى آزادى كا حامى ہے_ اور اس نظريے كا قائل ہے كہ معاشرتى انصاف كے بہانے، ذاتى مالكيت اور اقتصادى آزادى پر قدغن نہيں لگايا جاسكتا_ لبرل ازم كى نظر ميں حكومت كے اختيارات محدود ہونے چاہيں_ حكومت كا كام صرف رفاہ عامہ ، امن و امان قائم كرنا اورانسانى حقوق كے بنيادى ڈھانچے كى حفاظت كرنا ہے _ سعادت ، خوشبختى ، معنويات اور اخلاقيات كا تعلق انسان كى انفرادى زندگى كے ساتھ ہے _ يہ حكومت كے فرائض ميں شامل نہيں ہيں _ اس كے مقابلہ ميں سوشلزم كہتاہے: معاشرتى انصاف كا قيام حكومت كى سب سے بڑى اور اہم ذمہ دارى ہے اسى لئے اقتصادى امور حكومت كے كنٹرول ميں ہونے چاہيں جبكہ ذاتى مالكيت يا تو بہت محدود ہونى چاہيے ياپھر اسكا سرے سے ہى خاتمہ كردينا چاہيے_يہاں پردو نكات كى وضاحت ضرورى ہے_

۱ : علم سياست اور سياسى تجزيہ و تحليل كے ساتھ مربوط بہت سے مسائل ہميشہ جديد اور تبديل ہوتے رہتے ہيں كيونكہ عالمى سطح پر حكومتيں اور سياسى تعلقات بدلتے رہتے ہيں_

اقتصادى ، ثقافتى اور سياسى تبديلياںعلاقائي اور عالمى سياست پر اثر انداز ہوتى ہيں جس كے نتيجہ ميں سياسى ماہرين كو ہميشہ نت نئے سوالات اور مسائل كا سامنا كرنا پڑتا ہے_ ليكن ''سياسى فلسفہ''كے متعلقہ مسائل

ميں كوئي تبديلى نہيں ہوتى يہ اساسى اور مخصوص مسائل ہوتے ہيں كہ جن سے سياسى ماہرين دوچار رہتے ہيں_

ہر سياسى ماہر جب اپنے مخصوص نظريات كے تحت ان سوالات كا جواب ديتا ہے تو اس سے ايك سياسى نظريہ يا مكتب تشكيل پاتا ہے_ لہذا ملكى يا بين الاقوامى سياست ميں تبديلى آنے سے يہ سياسى مكاتب تبديل نہيں ہوتے_

____________________

۱) socialism

۱۱

۲: ''سياسى فلسفہ'' كے دائرہ ميں بہت سے سوالات آتے ہيں_ جيسا كہ اوپر اشارہ ہوچكا ہے كہ ان سوالات كے جو جواب ديئے جاتے ہيں انہى كى بنياد پر سياسى مكاتب تشكيل پاتے ہيں اورا سى بنياد پر ان كى شناخت ہوتى ہے _ ليكن اس كا مطلب يہ نہيں ہے كہ ان مختلف سياسى مكاتب ميں كوئي وجہ اشتراك نہيں ہے اور سياسى فلسفہ كے تمام مسائل كے جوابات ايك دوسرے سے بنيادى فرق ركھتے ہيں_ ممكن ہے كہ ايك سياسى مكتب كى دوسرے سياسى مكاتب سے عليحد گى اورامتياز صرف ايسى ہى بعض مباحث ميں ہو_ اور بعض ديگر جہات سے وہ دوسرے سياسى مكاتب سے اتفاق نظر ركھتا ہو _ مثلا '' اشتراكى جمہوريت '' (۱) اور '' آزاد جمہوريت''(۲) جو كہ سياسى نظريات كے عنوان سے دو رقيب مكتب فكر ہيں ، اس نكتہ پر متفق ہيں كہ جمہوريت اور را ے عامہ سياسى حاكميت كے جواز كى بنياد ہے اور حكومت و حكمران كا انتخاب عوام كى را ے كى بنياد پر ہونا چاہيے اور ان دو مكاتب ميں اختلافى نكتہ يہ ہے كہ پہلا مكتب فكر معاشرتى عدل و انصاف پر زور ديتا ہے اور دوسرا شخصى آزادى و خصوصى مالكيت پر، ايك اشتراكيت كى بات كرتا ہے اور دوسرا انفراديت كى _

____________________

۱) Social Democracy

۲) Liberal Democracy

۱۲

خلاصہ

۱) ''رياست'' انسان كى اجتماعى زندگى كا جزء لاينفك ہے _ ہر معاشرہ اپنے اجتماعى امور كے نظم و تدبير كيلئے ايك يا چند افراد كے سياسى اقتدار كو تسليم كرتا ہے_

۲)'' سياست'' يعنى معاشرتى امور كى تدبير ، ہميشہ سے مفكرين كى توجہ كا مركز بنى ہوئي ہے_

۳) دنيائے سياست كے مختلف شعبے ہيں_ اسى لئے علم و تفكر كے متعدد گوشے اس كے مسائل كے ساتھ مربوط ہيں_

۴) علم سياست ، سياسى تجزيہ و تحليل اور سياسى نظريات كا عملى سياست كى مباحث كے ساتھ گہرا تعلق ہے_

۵)''سياسى فلسفہ ''سياست كى علمى اور بنيادى مباحث كو زير بحث لاتا ہے_

۶) ہر سياسى مكتب اور نظريہ كى بنياد ايك مخصوص سياسى فلسفہ پر ہوتى ہے_

۷) عملى سياست كو ہميشہ نت نئے مسائل اورموضوعات كا سامنا كرنا پڑتا ہے_ جبكہ سياسى فلسفہ كے متعلقہ مسائل ہميشہ ثابت اور استوار ہوتے ہيں_

۸) ممكن ہے مختلف سياسى مكاتب فكر سياسى فلسفہ كے بعض مسائل ميں ايك ہى را ے ركھتے ہوں_

۱۳

سوالات :

۱) كيا وجہ ہے كہ ہر انسانى معاشرہ ''حكومت اور سياسى اقتدار ''كا حامى اور خواہشمند ہوتا ہے؟

۲) سياست كى تعريف كيجئے؟

۳)علمى سياست كا كونسا شعبہ عملى سياست كے شعبوں كى تحقيق و بررسى كرتا ہے؟

۴) چند ايسے سوالات ذكر كيجئے جن كا جواب ''سياسى فلسفہ'' ديتا ہے؟

۵) لبرل ازم ايك سياسى مكتب فكر كے عنوان سے كن امور كا دفاع كرتا ہے؟

۶) روز مرہ كے سياسى اور اقتصادى تحولات سياسى مطالعات كے كس شعبہ پر اثر انداز ہوتے ہيں؟

۱۴

دوسرا سبق :

اسلام اور سياست

حكومت ايك اجتماعى ضرورت ہے_ چونكہ انسانى معاشرہ ايسے افراد سے تشكيل پاتاہے كہ جنكے مفادات ، تعلقات اور طرزتفكر متضاد اور متعارض ہيں لہذا اسے ايك حكومت كى ضرورت ہے_ انسانى اجتماع چاہے وہ ايك محدود اور مختصر شكل ميں ہى كيوں نہ ہو جس طرح ايك قبيلہ يا ديہات ، اُس ميں بھى رئيس و مرئوس (حاكم اور رعيت) كى ضرورت ہے _ مفادات كا ٹكراؤ ، باہمى تنازعات ، حق تلفى اور امن عامہ كو خراب كرنے والے عناصر ، ايسے عوامل ہيں جو ان امور كى ديكھ بھال كرنے والى اور نظم ونسق كو برقرار ركھنے والى مركزيت كا تقاضا كرتے ہيں _بنابريں اس مركزيت كے بغير كہ جسے ہم حكومت يا رياست كہتے ہيں معاشرہ نامكمل رہے گا اور اپنى بقا سے بھى ہاتھ دھو بيٹھے گا _ يہمركزيت سياسى اقتدار ،قوت فيصلہ اورقدرت امر و نہى كى حامل ہو گي_

جب خوارج نے اپنے فكرى انحطاط اور شورش طلب انداز ميں لا حكم الاللہ ( خدا كے سوا كسى كا حكم قابل قبول نہيں) كا نعرہ بلند كيا اور اسلامى معاشرے كيلئے حكومت و حكمرانى كى نفى اور اپنے اوپر صرف خدا كى حكومت كے خواہاں ہوئے تو اميرالمؤمنين نے فرمايا:

۱۵

انه لا بد للناس من امير برّ: اوفاجر ، يعمل فى امرته المؤمن ، و يَستمتعُ فيها الكافر، و يُبَلّغُ الله فيها الاجل، و يُجمع به الفيء ، و يقاتلُ به العَدو، و تأمن به السُبُل ، و يُؤخذ به الضعيف من القويّ، حتى يَستريحَ برّ ، و يستراح من فاجر (۱)

لوگوں كيلئے ايك حاكم كاہونا ضرورى ہے _ خواہ وہ اچھا ہو يا برا _ تا كہ مومن اس كے زير سايہ اپنے كام انجام دے سكے _ اور كافر اس كے عہد ميں لذائد سے بہرہ مند ہوگا _ اللہ تعالى اس نظام حكومت ميں ہر چيز كو اس كى آخرى حدوں تك پہنچا دے گا اسى حاكم كى وجہ سے مال غنيمت جمع ہوتا ہے، دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہيں،قوى سے كمزور كا حق دلايا جاتا ہے، يہاں تك كہ نيك لوگ خوشحال اور برے لوگوں سے امان پاتے ہيں _

امير المؤمنين كا يہ فرمان حكومت كے ضرورى ہونے كى نشان دہى كرتا ہے_ اور اس بات كا عند يہ ديتاہے كہ انسانى معاشرے كيلئے حكومت كى اتنى اہميت ہے كہ ايك غاصب اور فاجر و فاسق كى حكومت بھى معاشرہ كى بد امنى اور فقدان حكومت سے بہتر ہے كيونكہ حكومت اگر چہ فاسق و فاجر كى ہى كيوں نہ ہو بعض اجتماعى نقائص اور خاميوں كو چھپا ديتى ہے _ اور بعض اجتماعى ضروريات كو پورا كر تيہے _

قرآن و حديث كے مطالعہ سے واضح ہوجاتا ہے كہ اسلام نے ايك دينى فرمان يا حكم كے تحت مسلمانوں كو حكومت كى تشكيل كى دعوت نہيں دى كيونكہ لوگ خود بخود حكومت كى تشكيل كرتے ہيں اور اس كيلئے

____________________

۱) نہج البلاغہ خطبہ ۴۰_

۱۶

انہيں كسى دعوت ، ترغيب يا نصيحت كى ضرورت نہيں ہے اس نكتے كى طرف عظيم مفكر اور فيلسوف علامہ طباطبائي نے اپنى كتاب تفسير الميزان ميں اشارہ فرماياہے: قطعى طور پر لوگ اپنے معاشرے ميں حكومت اور رياست كے قائل ہيں _ اور اپنے انتظامى امور كيلئے ايك يا چند افراد كو سياسى اقتدار سونپ ديتے ہيں _ اسى لئے قرآن كريم نے لوگوں كو حكومت كى تشكيل كى دعوت نہيں دى بلكہ اسے ان ضرورى و بديہى امور ميں سے لياہے كہ جن ميں كسى دعوت يا تشويق كى ضرورت نہيں ہے _ وہ چيز جس كى طرف قرآن كريم لوگوں كو دعوت ديتاہے وہ محور دين پر اجتماع و اتفاق ہے_ (۱)

اس كے باوجود كيا حكومت اور سياست انسانى معاشرے كى ايك واقعى ضرورت كے عنوان سے دين اسلام كى مورد توجہ قرار نہيں پائي؟ يہ دين جس نے خود كو دين كامل اور خاتم الاديان كہا ہے، كيا يہ اس حقيقت سے آنكھيں بند كر كے گزرگيا اور اس كے متعلق كوئي ہدايت يا فرمان جارى نہيں كيا ؟ كيا اسلامى تعليمات صرف انسان كى انفرادى زندگى اور اس كے خدا كے ساتھ تعلق تك محدود ہيں؟ كيا اس دين مبين نے اجتماعى تعلقات ، معاشرتى امور كا نظم ونسق اور سياست و حكومت كوخود لوگوں كے حوالے كر دياہے؟ كيسے مان ليا جائے كہ وہ دين كامل جس نے پيدائشے سے ليكر وفات تك انسان كى زندگى كى بہت سى جزئيات ميں ہدايت و راہنمائي كى ہے، اس نے حكومت اور معاشرے كے نظم و نسق جيسے اہم امور جو كہ انسان كى شخصيت اور سعادت ميں اہم كردار ادا كرتے ہيں، كے متعلق كچھ نہيں كہا اور ان كے متعلق كسى قسم كا اظہار نظر نہيں كيا_

يہ تمام سوالات در حقيقت ايك سوال كو جنم ديتے ہيں كيا اسلام سياسى فكر كا حامل ہے ؟ اس سوال كے مثبت جواب كا مطلب يہ ہے كہ اگر چہ اصل حكومت كے بديہى ہونے كى وجہ سے اسلام نے اسے بيان

____________________

۱) تفسير الميزان ج ۳ ، ص ۱۴۴، ۱۴۹_ سورہ آل عمران آيت ۲۶ كے ذيل ميں_

۱۷

كرنے كى ضرورت محسوس نہيں كى ليكن اس كے متعلق اظہار نظر كيا ہے كہ حكومت كيسے كى جائے اور حكمرانى كا حق كسے حاصل ہے _ جس طرح اسلام نے گھريلو اور اجتماعى زندگى ميںلوگوں كے باہمى روابط كو بيان كيا ہے اسى طرح حكومت و سياست ميں حكمرانوں اور عوام كے باہمى تعلق اور ہر ايك كے حقوق اور ذمہ داريوں كو بھى بيان فرمايا ہے_

بنا بر يں معاشرتى اور سياسى ميدان سے اسلام كو حذف كرنا اوراسے ا نفرادى زندگى اور گوشہ نشينى كى طرف مائل كرنے والا دين قرار دينا اسے اپنى حقيقت سے جدا كرنے كے مترادف ہے _ اسلامى جمہوريہ ايران كے بانى امام خمينى (رح) ان بلند پايہ علماء اور فقہاء ميں سے تھے جنہوں نے اسلام كے اجتماعى اور معاشرتى پہلو پر خاص توجہ دى اور اس بات پر مصر تھے كہ اسلام كو راہبانہ دين قرار دينا در حقيقت اغيار اور استعمارى طاقتوں كى سازش ہے جن كى كوشش ہے كہ اس فكر كے ذريعہ اسلامى ممالك كى پسماندگى كے اسباب فراہم كئے جائيں_ امام خمينى فرماتے ہيں

اسلام ان مجاہدين كا دين ہے جو حق و عدالت كے خواہاں ہيں ان لوگو ں كا دين ہے جو آزادى اور استقلال كے چاہنے والے ہيں ، يہ استعمار كے خلاف جہد و جہد كرنے والوں كا مكتب ہے _ ليكن انہوںنے اسلام كوايك اور طرح سے پيش كيا ہے اورپيش كرتے ہيں _ لوگوں كے ذہنوں ميں اسلام كا غلط تصور ڈالا ہے علمى مدارس ميں اس كى شكل مسخ كركے پيش كى گئي ہے ، تا كہ اسلام كى جاودانى اور انقلابى خصوصيات كو اس سے چھين ليا جائے _ مثلا يہ تبليغ كر رہے ہيں كہ اسلام معاشرتى دين نہيں ہے ، دين حيات نہيں ہے، اس كے پاس معاشرتى نظام نہيں ہے ، كوئي قانون نہيں ہے ، كوئي حكومتى دستور نہيں ہے اور نہ ہى حكمرانى كا كوئي لائحہ عمل ہے(۱) _

____________________

۱) ولايت فقيہ ، ص ۴_

۱۸

سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے كى ادلّہ

اسلام ايك اجتماعى اور معاشرتى دين ہے ، اس كى حكومت و فرمانروائي انفرادى زندگى سے وسيع ترہے اوريہ مختلف اجتماعى اور سياسى روابط پر مشتمل ہے _ اس مدعا كو دو دليلوں سے ثابت كيا جا سكتا ہے _

الف _ استقرائي روش كے ساتھ ہم كتاب و سنت ميں غور كرتے ہيں اور مختلف فقہى ابواب ميں دينى تعليمات كا مطالعہ كرتے ہيں _ اس تدريجى اور ہمہ گير جستجو سے واضح ہو جائے گا كہ بعض صوفيانہ اور راہبانہ اديان جيسے بدھ مذہب او رعيسائيت كے بعض فرقوں كى طرح كيا اسلام بھى ايك انفرادى دين ہے كہ جس كا معاشرتى اور اجتماعى امور سے كوئي تعلق نہيں ہے ؟يا عبوديت ، خدا كے سامنے انسان كى بندگى كى كيفيت كے بيان ، لوگوں كے با ہمى تعلقات ، اخلاقيات او رمعنوى زندگى كے بيان كرنے كے ساتھ ساتھ اسلام نے انسان كى اجتماعى زندگى كے مختلف پہلوؤں كے بارے ميں بھى اظہار نظر كيا ہے اور انسان كى اجتماعى زندگى كے مختلف ابعاد ميں سے ايك ،مسئلہ حكومت و سياست بھى ہے _اس طرز جستجو كو ہم'' روش درون ديني'' كا نام ديتے ہيں كيونكہ اس ميں ہم اپنے سوال كا جواب براہ راست اندرون و باطن دين يعنى قرآن و سنت جو كہ اس كے اصلى منابع ہيں سے دريافت كريں گے _

ب_ سياست اور اجتماعى زندگى ميں اسلام كے دخيل ہونے كے اثبات كا دوسرا طريقہ اس دين مبين كے بعض اوصاف اور خصوصيات كے ساتھ تمسك ہے _ اسلام كابعض خصوصيات سے متصف ہونا ، مثلا يہ دين كامل ہے ، دين خاتَم ہے ، اس كى آسمانى كتاب يعنى قرآن كريم ہرشئے كى وضاحت كرنے والى ہے(۱) اور ان تمام امور پر مشتمل ہے جن پر انسان كى ہدايت اور سعادت موقوف ہے اس كا عقلى اور منطقى لازمہ يہ ہے

____________________

۱) سورہ نحل آيت ۸۹_

۱۹

كہ يہ دين اجتماعى امور ميں دخالت ركھتاہے _ اس استدلال سے معلوم ہوتاہے كہ كمال دين اوراس كے قلمرو ميں حكومت اور اجتماعى امور كا داخل ہونالازم و ملزوم ہيں _ اوراجتماعى امور اور سياست ميں دين كا راہنمائي نہ كرنا اس كے ناقص ہونے كى دليل ہے _اس دوسرے طرز استدلال كے بارے ميں ہم آئندہ مزيد گفتگو كريں گے _ يہاں صرف پہلے طرز استدلال يعنى روش جستجو (استقرائي روش) پرروشنى ڈالتے ہيں _

۱۳۴۸ ھ ش ميں نجف اشرف ميں جب امام خمينى نے دينى حكومت كے متعلق ابحاثكيں تو اسى پہلے طريقے سےسياست او راجتماعى امور ميں اسلام كى دخالت پر استدلال كيا_ انہوں نے اس نكتہ پر زور ديا كہ اسلامى قوانين اور شرعى احكام كى ماہيت اور كيفيت بتاتى ہے كہ يہ قوانين اسلامى معاشرہ كے سياسى ، اقتصادى اور ثقافتى امور كو منظم كرنے كيلئے بنائے گئے ہيں اور يہ احكام حكومت كى تشكيل كے بغيرقابل اجرا نہيں ہيں _ اس قسم كے احكام كے اجرا كيلئے مسلمانوں كى شرعى ذمہ دارى ہے كہ وہ ايك حكومت تشكيل ديں _ اس قسم كے احكام اسلامى فقہ كے تمام ابواب ميں بكھرے ہوئے ہيںبطور نمونہ ايسے بعض احكام كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

ان ميں سے ايك مورد ''اسلام كے مالى احكام'' ہيں _ اسلام ميں جو ماليات مقرر كئے گئے ہيں وہ صرف غرباء اور سادات كى ضروريات پورى كرنے كيلئے نہيں ہيںبلكہ ايك عظيم حكومت كى تشكيل او راس كے ضرورى اخراجات پورے كرنے كيلئے بھى ہيں كيونكہ وہ اموال جن كا تعلق مسلمانوں كے بيت المال سے ہے ان ميں سے ايك ''خمس '' ہے _ فقہ اہلبيت كے مطابق زرعى منافع ،كاروبار، زمين كے اوپر اور زمين كے نيچے موجود تمام ذرائع آمدنى ميں سے اور بطور كلى ہر قسم كے فائدے اور منفعت ميں سے عادلانہ طور پر خمس ليا جاتاہے _ واضح سى بات ہے كہ اس قدر كثير در آمد ايك اسلامى مملكت كو چلانے اور اس كے مالى اخراجات كو پورا كرنے كيلئے ہے وگرنہ اس قدر سرمايہ فقيرسادات كى ضروريات سے بہت زيادہ ہے _ اس قدر وسيع بجٹ

۲۰

جبكہ اس كے ساتھ اموال زكوةبھى ہوں در حقيقت ايك معاشرہ كى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے ہے _ ''جزيہ'' جو كہ ذمى كفار سے ليا جاتا ہے اور اسى طرح زرعى محصولات بھى ايك بڑى درآمد كوتشكيل ديتے ہيں_ يہ تمام امور اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ اس قسم كے تمام مالى منابع ايك معاشرہ كى ضروريات كو پورا كرنے او رحكومت كو تشكيل دينے كيلئے ہيں _

ان ميں سے دوسرا مورد وہ احكام ہيں جو اسلامى نظام كى حفاظت اور اسلامى سرزمين اور ملت مسلمہ كے استقلال كے دفاع كيلئے بنائے گئے ہيں انہى دفاعى احكام ميں سے ايك ، قرآن مجيد كى اس آيت شريفہ''و اعدوالهم ما استطعتم من قوة و من رباط الخيل'' (۱) ميں بيان كيا گيا ہے اور مسلمانوں كو كہا جا رہا ہے كہ وہ ہر قسم كے خطرہ سے پہلے اپنى فوجى و دفاعى قوت كو مہيا كرليں اوراپنى حفاظت كا سامان پہلے سے تيار ركھيں _

اس قسم كا ايك اور نمونہ اسلام كے عدالتى اور انسانى حقوق كے متعلق احكام ميں ديكھا جاسكتاہے_ اس قسم كے بہت سارے احكام يا''ديات'' ہيں كہ جنہيں ليكر حق داروں كو دينا ہوتاہے يا''حدود و قصاص''ہيں كہ جنہيںاسلامى حاكم كے زير نظر اجرا كيا جاتاہے اور اس قسم كے امور ايك حكومت كى تشكيل كے بغير قابل عمل نہيں ہيں _ يہ تمام قوانين حكومت كے ساتھ مربوط ہيں اور حكومتى قوت كے بغير ايسے اہم امور كو كوئي انجام نہيں دے سكتا _(۲)

اسلام كا سياسى فلسفہ اور سياسى فقہ

يہ تسليم كرلينے كے بعد كہ اسلام سياسى ابعاد كا حامل ہے اور اس كى بعض تعليمات حكومت اور سياست كے

____________________

۱) سورہ انفال آيت ۶۰_

۲) لايت فقيہ (امام خمينى ) ص ۲۰ تا ۲۵_

۲۱

ساتھ مخصوص ہيں _ يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ اسلام كا سياسى تفكر كن شعبوں پر مشتمل ہے ؟

مجموعى طور پر اسلام كے سياسى تفكر كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _ ايك حصے كو '' اسلام كا سياسى فلسفہ '' اور دوسرے كو '' اسلام كى سياسى فقہ '' كا نام ديتے ہيں _ گذشتہ سبق ميں اشارہ كرچكے ہيں كہ ہر سياسى مكتب فكر كو چند بنيادى سوالات كا جواب دينا ہوتا ہے _ ايسى مباحث كو '' سياسى فلسفہ '' كا نام ديا جاتا ہے _ بنابريں اسلام كے سياسى تفكر كو بھى ايك خاص علمى بنياد پر استوار ہونا چاہيے اور دنيائے سياست كے ان بنيادى سوالات كے مناسب اور مخصوص جوابات دينا چا ہيے _

اسلام كے سياسى تفكر كا دوسرا حصہ يعنى ''سياسى فقہ '' يا '' فقہ الحكومة '' حكومت كى نوعيت اور اسكى شكل و صورت ، حكمرانوں كے مقابلے ميں عوام كے حقوق ، حكومت اور حكمرانوں كے سلسلہ ميں عوام كى ذمہ دارياں ، مذہبى اقليتوں كے حقوق اور اسلامى حكوت (دار الاسلام)كے غير اسلامى حكومتوں ( دارالكفر) كے ساتھ تعلقات جيسى ابحاث پر مشتمل ہے باالفاظ ديگر پہلا حصہ علمى و بنيادى سياست كى مباحث پر مشتمل ہے_ جبكہ يہ حصہ عملى سياست اور معاشرے كے انتظامى و اجرائي امور كے زيادہ قريب ہے _

۲۲

سبق كا خلاصہ :

۱) حكومت اور رياست كے بغير معاشرہ ،نامكمل اور زوال پذير ہے _

۲) اسلام ، حكومت كو ايك اجتماعى او رمعاشرتى ضرورت سمجھتا ہے اسى لئے اس نے لوگوں كو تشكيل حكو مت كى طرف دعوت نہيں دى بلكہ حكومت كيسى ہونى چاہيئے ؟ اس بارے ميں اپنى رائے دى ہے _

۳) اسلام كو سياست سے جدا سمجھنا اس دين حنيف كى حقيقت كو مسخ كردينے كے مترادفہے _

۴) اسلام كے لئے سياسى اور اجتماعى پہلو كا وجود دو طريقوں سے ثابت كيا جاسكتاہے _

الف:روش استقرائي ( طرز جستجو )اور اسلامى تعليمات كا مطالعہ ، اسلام كے سياسى اور اجتماعى پہلو كے اثبات كى بہترين راہ ہے_

ب: اسلام كا آخرى اور مكمل دين ہونا اس كے اجتماعى اور سياسى پہلو كے وجود كى دليل ہے _

۵) اسلام كے بعض قوانين ايك جائز دينى حكومت كے بغير قابل اجرا نہيں ہيں _

۶) اسلام كے سياسى تفكر كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _

الف: اسلام كا سياسى فلسفہ

ب: اسلام كى سياسى فقہ

۲۳

سوالات:

۱) امير المومنين نے خوارج كو جو جواب ديا تھا اس سے ''ضرورت حكومت ''كے سلسلہ ميں كيا حاصل ہوتاہے؟

۲) اسلام نے لوگوں كو اصل حكومت كى تشكيل كى ترغيب كيوں نہيں دلائي ؟

۳) سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے كے اثبات كيلئے طرز جستجو يا روش استقرائي سے كيا مراد ہے ؟

۴) اسلام كے كامل اور خاتم الاديان ہونے سے اس كے سياسى اور اجتماعى امور ميں دخيل ہونےپر كيسے استدلال كيا جاسكتا ہے ؟

۵) كونسے احكام شرعى كا اجراء اسلامى حكومت كى تشكيل پر موقوفہيں ؟

۶) اسلام كے مالى احكام كس طرح اسلام كے سياسى پہلو پر دليل بن سكتے ہيں ؟

۷) اسلام كا سياسى تفكر كنحصوں پر مشتمل ہے ؟

۲۴

تيسرا سبق:

دينى حكومت كى تعريف

انسان كى اجتماعى زندگى كى طويل تاريخ مختلف قسم كى حكومتوں اور رياستوں كے وجودكى گواہ ہے جنہيں مختلف خصوصيات كى بنياد پر ايك دوسرے سے جدا كيا جاسكتاہے اور انہيں مختلف اقسام ميں تقسيم كيا جاتاہے_ مثلاً استبدادى و غير استبدادي،جمہورى و غير جمہوري، استعمارى و استعمار كا شكار حكومتيں ، سوشلسٹ و غير سوشلسٹ، ترقى يافتہ و پسماندہ حكومتيں و غيرہ ان ميں سے ہر تقسيم ايك مخصوص معيار كى بنياد پر ہے _ اسى طرح ايك تقسيم يہ بھى ہوسكتى ہے : دينى حكومت اور سيكولر حكومت _

دينى حكومت ايك اصطلاح ہے جو دو چيزوں سے مركب ہے، حكومت اور دين كيساتھ اس كى تركيب ، اصلى اور بنيادى سوال يہ ہے كہ اس تركيب ميں ''دينى ''سے كس مطلب كا افادہ مقصودہے ؟ دين اور حكومت كى تركيب سے كيا مراد ہے؟ ايك حكومت كے دينى يا غير دينى اور سيكولر ہونے كا معيار كيا ہے؟ ان سوالات كے جواب دينے سے پہلے بہتر ہے حكومت كى تعريف كى جائے _

۲۵

حكومت اور رياست كے معاني

حكومت(۱) اور رياست(۲) گذشتہ اور موجودہ ادوار ميں متعدد معانى ميں استعمال كئے گئے ہيں ان ميں سے بعض معانى مترادف ہيں اور بعض اوقات انہيں مختلف معانى ميں استعمال كيا گيا ہےمثلا جديد دور ميں رياست كامعنى حكومت سے وسيع تر ہے جديد اصطلاح كے مطابق رياست نام ہے ان افراد كے اجتماع كا جو ايك مخصوص سرزمين ميں ساكن ہوں اور ايسى حكومت ركھتے ہوں جو ان پر حاكميت كرتى ہو_ اس تعريف كے مطابق رياست چار اجزا كے مجموعہ كا نام ہے_آبادي،سرزمين ،حكومت، حاكميت_ اس اصطلاح كى بناپر حكومت اور رياست دو مترادف اصطلاحيں نہيں ہيں بلكہ حكومت رياست كا ايك حصہ ہے اور رياست كو تشكيل دينے والے چار عناصر ميں سے ايك عنصر حكومت ہے جو ان اداروں كے مجموعہ كا نام ہے جو ايك دوسرے كے ساتھ مرتبط ہوكر ايك مخصوص سرزمين ميں بسنے والى انسانى آبادى پر حكمرانى كرتى ہے_بنابريں ايرانى رياست اور فرانسيسى رياست و غيرہ انكى حكومتوں سے وسيع تر مفہوم ہے _

ليكن اگر رياست سے مراد وہ منظم سياسى طاقت ہو جو امر و نہى كرتى ہے تو يہ حكومت كے مترادف ہوجائے گى اور اس تعريف كى بناپر رياست صرف كا بينہ اور قوّہ مجريہ كا نام نہيں ہے كہ جن كا كام قانون نافذ كرناہے بلكہ تمام حكومتى ادارے مثلاً قانون ساز ادارے، عدليہ، فوجى اور انتظامى ادارے سب اس ميں شامل ہيں _ در اصل اس تعريف كى رو سے رياست اور حكومت اس قوت حاكمہ كا نام ہے جس ميں معاشرہ پر حاكم سياسى اقتدار كے حامل تمام ادارے شامل ہيں _ اس وقت زير بحث حكومت و رياست سے مراد يہى دوسرا معنى ہے كہ اس معنى ميں حكومت اور رياست جب دين سے مركب ہوتى ہے تو اس كا قابل قبول معنى كونسا ہے_

____________________

۱) Government

۲) State

۲۶

دينى حكومت كى مختلف تعريفيں

دينى حكومت كى مختلف تعريفيںكى جاسكتى ہيں _ دوسرے لفظوں ميں دينى حكومت كى مختلف اور متنوع تفسيريں بيان كى جاسكتى ہيں و اضح سى بات ہے كہ ان ميں سے كچھ تعريفيں صحيح نہيں ہيں ہم اجمالى طور پر ان ميں سے بعض كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

۱) دينى حكومت اس حكومت كو كہتے ہيں جس ميں ايك مخصوص دين كے معتقدين اور ماننے والے سياسى اقتدار كے حامل ہوں معاشرے كى سياسى طاقت اور سياسى ادارے كسى خاص دين كے پيرو افراد_ جيسے پيروان اسلام يا مسيحيت_كے ہاتھوں ميں ہوںاس تعريف كى بناپردينى حكومت يعنى ديندارافراد كى حكومت_

۲) دينى حكومت يعنى وہ حكومتكہ جس ميں سياسى اقتدارايك مخصوص طبقہ بنام'' رجال دين'' يعني( مذہبى افراد) كے ہاتھ ميں ہو اس تعريف كى بنا پر چونكہ سياسى اقتدار كے حامل مختلف ادارے مذہبى افراد كے ہاتھ ميں ہوتے ہيں اسى لئے اسے دينى حكومت كہتے ہيں _

اس دينى حكومت كى افراطى شكل و صورت يورپ ميں قرون وسطى ميں ملاحظہ كى جاسكتى ہے _ بعض اديان مثلاً كيتھولك مسيحيت ميںمذہبى افراد خاص تقدس اور احترام كے حامل ہوتے ہيں اور عالم الوہيت و ربوبيت اور عالم انسانى كے درميان معنوى واسطہ شمار ہوتے ہيں _ قرون وسطى ميں يورپ ميں جو حكومت قائم ہوئي تھى وہ مذكورہ دينى حكومت سے سازگار تھى _ عيسائيوں كے مذہبى افراد اور كليسا كے پادرى خدا اور مخلوق كے درميان واسطہ ہونے كے ناطے مخصوص حق حاكميت كے حامل سمجھے جاتے تھے _ يہ حق حاكميت خدا كى حكومت اور ربوبيت كى ايك كڑى تھى اور يہ تصور كيا جاتا تھا كہ مذہبى افراد چونكہ ملكوت كے ساتھ مربوط و متصل ہيں لہذا قابل تقديس و احترام ہيں ، اسى لئے ان كے فيصلے، تدابير اور كلام، وحى الہى كى طرح مقدس، ناقابل اعتراض

۲۷

اور غلطيوں سے مبرّا ہيں _

۳) دينى حكومت وہ حكومت ہے جو ايك خاص دين كى تبليغ ، دفاع اور ترويج كرتى ہے _ اس تعريف كے مطابق ايك دينى حكومت كا معيار ايك مخصوص دين كا دفاع اور تبليغ ہے _ بنابريں ايران ميں صفويوں اور قاچاريوں كى حكومت، سعودى عرب ميں وہابيوں كى حكومت اور افغانستان ميں طالبان كى حكومت مذكورہ دينى حكومت كے مصاديق ہيں كيونكہ يہ حكومتيں اپنے سياسى اقتدار كو ايك خاص دين كے دفاع، تبليغ اور ترويج كيلئے استعمال كرتى ہيں_

۴)دينى حكومت وہ حكومت ہے جو سياست اور معاشرے كے انتظامى امور ميں ايك خاص دين كى مكمل مرجعيت و حاكميت كو تسليم كرتى ہو يعنى اپنے مختلف حكومتى اداروں ميں ايك خاص دين كى تعليمات كى پابند ہو اور كوشش كرتى ہو كہ قانون بنانے ، عوامى كاموں، معيشت اور اجتماعى امور ميں دينى جھلك نظر آئے اور ان تمام حكومتى امور ميں دينى تعليمات كا ر فرما ہوں اور انہيں دين سے ہم آہنگ كرے _ دينى حكومت كا يہ معنى در حقيقت'' دينى معاشرہ ''كى تشكيل كا خواہاں ہے يعنى حكومت يہ چاہتى ہے كہ ثقافتى ، اقتصادي، سياسى اور فوجى و عسكرى تمام اجتماعى امور دينى تعليمات كى بنياد پر تشكيل پائيں _ دينى معاشرہ كو دين كى فكر ہے اور يہ فكر ہمہ گير ہے كسى خاص جہت ميں محدود نہيں ہے_ دينى معاشرہ چاہتاہے كہ اس كے تمام امور دين كے ساتھ ہم آہنگ اور ہم آوازہوں_ اس معنى كى بنياد پر دينى حكومت دين كيلئے ايك خاص شان و اہميت كى قائل ہے _ اُس كى تعليمات كو اپنے لئے نصب العين قرار ديتى ہے_ دين كى حاكميت اور سياسى و انتظامى ميدانوںميں اس كى اہميت كو تسليم كرتى ہے اور معاشرتى و سماجى امور ميں دينى تعليمات كى دخالت كا معيار ان امور ميں دين كا وارد ہونا ہوگا_ دوسرے لفظوں ميں سياسى اجتماعى اور سماجى امور ميں دين كى دخالت كى حدود مكمل طور پر دينى

۲۸

تعليمات كے تابع ہيں اور جس شعبہ ميں جتنى مقدار دين نے اپنا كوئي پيغام ديا ہو اور اپنى تعليمات پيش كى ہوں اس حكومت كيلئے وہ پيغام اور تعليمات قابل قبول ہوتى ہيں _

مذكورہ چار تعريفوں كا مختصر تجزيہ

مذكورہ چار تعريفوں ميں سے چوتھى تعريف دينى حكومت كى ماہيت و حقيقت كے ساتھ زيادہ مناسبت ركھتى ہے _ كيونكہ ان ميں سے بعض تعريفيں دينى حكومت كے صرف ايك پہلو كى طرف اشارہ كرتى ہيں _ صرف حكمرانوں اور سياسى اقتدار كے حامل افراد كا كسى خاص دين كا معتقد ہونا اس حكومت كے دينى ہونے كى علامت نہيں ہے _ آج دنيا كے اكثر ممالك كہ جن كى حكومتيں غير دينى ہيں ان كے بہت سارے سركارى عہديدار انفرادى طور پردين دار ہيں ، ليكن ان كا ايك خاص دين كے ساتھ لگاؤ اور تديّن ان كى حكومت كے دينى ہونے كى دليل نہيں ہے _ پہلى تعريف ميں جو'' حكومت كے دينى ہونے كا معيار'' بيان كيا گيا ہے وہ چوتھى تعريف ميں بھى شامل ہے_ كيونكہ دين كى حاكميت اور مختلف سركارى اداروں ميں دينى تعليمات كى فرمانروائي كا لازمہ ہے كہ سركارى حكام نظرياتى اور عملى طور پر اس دين كے معتقد ہوں _ اسى طرح تيسر ى تعريف ميں بيان شدہ معيار بھى چوتھى تعريف ميں مندرج ہے كيونكہ جو حكومت دينى معاشرے كى تشكيل اور سماجى و اجتماعى امور ميں دينى تعليمات كے نفوذ كى كوشش كرتى ہے اور حكومتى امور اور قوانين كو دين كے ساتھ ہم آہنگ كرنے كى خواہاں ہوتى ہے _ وہ فطرى طور پر اس دين كا دفاع كرے گى اور اس كى تبليغ و ترويج كيلئے كوشش كرے گى _

دينى حكومت كى دوسرى تعريف كى بنياد'' مذہبى افراد'' كے بارے ميں ايك خاص تصور پر ہے كہ بہت سے اديان، مذہبى شخصيات اور دينى علماء كے متعلق ايسا تصور نہيں ركھتے _ مثال كے طور پر اسلام كسى طرح بھى علماء

۲۹

دين كيلئے كسى خاص طبقاتى حيثيت كا قائل نہيں ہے اور انہيں مقام عصمت كا حامل نہيں سمجھتا_ اس لئے دينى حكومت كى ايسى تفسير كى كوئي راہ نہيں نكلتى _ علاوہ بر ايں صرف علماء دين اور مذہبى افراد كے ہاتھ ميں حكومتى عہدوں كا ہونا اس حكومت كے دينى ہونے كى دليل نہيں ہے بلكہ حقيقت وہى ہے جو چوتھى تعريف ميں بيان كى گئي ہے كہ مختلف اجتماعى و سماجى امور اور حكومتى اداروں ميں دينى تعليمات كا اجرا ہى حكومت اور سياست كو دينى رنگ دے سكتاہے_

قابل ذكر ہے كہ دينى حكومت سے ہمارى مراد كسى خاص دين سے متصف حكومت نہيں ہے _ بلكہ دنيا كے جس گوشہ ميں كوئي حكومت دينى تعليمات كے آگے سر تسليم خم كردے، اس كى فرمانروائي كو قبول كرلے اور اپنے اداروں ميں دينى تعليمات رائج كردے وہ دينى حكومت كہلائے گى چاہے وہ دين آسمانى اديان ميں سے ہو يا ايسے اديان ميں سے ہو جن كے متعلق ہم مسلمانوں كا عقيدہ ہے كہ ان كا تعلق وحى الہى سے نہيں ہے بلكہ شرك و تحريف سے آلودہ ہيں _

نيز توجہ رہے كہ اگر دين سے ہمارى مراد دين اسلام ہو تو پھر دينى حكومت وہى حكومت ہوگى جو اسلامى تعليمات كے مطابق ہو اور اسلامى تعليمات سے مراد وہ دينى اصول و ضوابط ہيں جو معتبر دينى منابع سے ماخوذ ہوں بنابريں كوئي فرق نہيں ہے كہ وہ دينى تعليمات ،وحى اور معتبر روايات سے حاصل ہوئي ہوں يا معتبر عقلى ادلّہ سے_ البتہ چونكہ اسلامى تعليمات كا اصلى اور اہم ترين منبع قرآن و سنت ہيں اسى لئے دينى حكومت اور سياست ميں اسلام كے دخيل ہونے پر بحث و تحقيق كرنے والے بہت سے افراد كى ''دينى تعليمات''سے مراد وہ تعليمات ہيں جو قرآن اور احاديث سے حاصل ہوئي ہوں_

۳۰

خلاصہ :

۱ لفظ ''حكومت اور رياست ''كے متعدد معانى ہيں كہ جن ميں سے بعض معانى مترادف ہيں_

۲ دور حاضر كى جديد اصطلاح ميں رياست كى جو تعريف كى جاتى ہے ، حكومت اس كا ايك شعبہ اور حصہ ہے _

۳ دينى حكومت كى مختلف تعريفيں كى جاسكتى ہيں يعنى دين اور رياست كى تركيب سے متفاوت معانى پيش كئے جاسكتے ہيں _

۴ اجتماعى اور سياسى زندگى ميں دين كى حاكميت كو قبول كرنے والى حكومت كو دينى حكومت كہنا دين و رياست كى مجموعى حقيقتكے ساتھ زيادہ مطابقت ركھتى ہے_

۵ اس سبق ميں دينى حكومت كى جوچوتھى تعريف كى گئي ہے وہ ايك جامع تعريف ہے اور اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ ايك حكومت كے دينى ہونے كا معيار يہ ہے كہ معاشرے كے مختلف سياسى شعبوں ميں دينى تعليمات حاكم ہوں_

۶ مختلف سياسى شعبوں ميں دين كى حاكميت كو تسليم كرنے والى حكومت كو دينى حكومت كہنا ، ايك ايسى عام تعريف ہے جو كسى مخصوص دين كے ساتھ مربوط نہيں ہے_

۳۱

سؤالات

۱ دور حاضر ميں رياست كى تعريف كيا ہے ؟

۲ كونسى تعريف كے مطابق رياست اور حكومت دو مترادف اصطلاحيں ہيں ؟

۳ كونسى تعريف ميں دينى حكومت دين داروں كى حكومت كے مترادف ہے ؟

۴ دينى حكومت كى كونسى تعريف جامع اور قابل قبول ہے ؟

۵ باقى تعريفوں كى نسبت دينى حكومت كى چوتھى تعريف كونسے امتيازات كى حامل ہے ؟

۳۲

چوتھا سبق:

سياست ميں حاكميت دين كى حدود

گذشتہ سبق سے واضح ہوگيا كہ حكومت كے دينى ہونے كا معيار يہ ہے كہ حكومت اور سياست كے مختلف شعبوں ميں دينى تعليمات كى حكمرانى ہو _وہ چيز جو دينى حكومت كو دوسرى حكومتوں سے جدا اور ممتاز كرتى ہے ، وہ معاشرے كے سياسى اور ديگر امورميں دين كى حاكميت كو تسليم كرنا ہے_ اس بحث ميں بنيادى سوال يہ ہے كہ اس حاكميت كا دائرہ كس حد تك ہے اور دين كس حد تك دنيائے سياست وحاكميت ميں دخيل ہے ؟

دوسرے لفظوں ميں صاحبان دين كيلئے سياست كے كن شعبوں اور حكومت كے كن اداروں ميں دين اور اس كى تعليمات كو بروئے كار لانا ضرورى ہے ؟ اور كونسے شعبوں ميں دين كى حاكميت سے بے نياز ہيں ؟ ايك دينى حكومت كے كونسے پہلو مدنى اور بشرى ہيں اور كونسے پہلو دينى تعليمات سے ماخوذ ہونے چاہيں؟

اس اہم ترين مسئلہ كى تحقيق سے پہلے حكومت اور سياست كے مختلف پہلوؤں اور شعبوں كى شناخت ضرورى ہے _ كيونكہ حكومت كے متعلق قابل بحث پہلوؤں سے مكمل آگاہى ، ان تمام پہلوؤں ميں دين كى دخالت كے سمجھنے ميں مددگار ثابت ہوسكتى ہے _

۳۳

حكومت اور اس كے سياسى پہلو:

ہم نے حكومت اور رياست كى تعريف كى تھى : '' وہ منظم سياسى قوت جو امر و نہى اور ايك مكمل نظام كے اجرا كى حامل ہو '' اس سياسى قوت كے متعلق مختلف جہات قابل بحث ہيں _ اگر چہ يہ سياسى ابحاث مختلف اور ايك دوسرے سے جدا ہيںليكن باہمى ربط كى حامل ہيں _ حكومت سے متعلق مختلف سياسى پہلوؤں كو درج ذيل صورت ميں بيان كيا جاسكتا ہے _

۱_ حكومتيں مختلف قسم كى ہوتى ہيں ، جمہورى ، شہنشاہى اور نيم شہنشاہى و غيرہ _ بنابريں حكومت سے متعلق بنيادى مباحث ميں سے ايك يہ طے كرناہے كہ كون سا سياسى طرز حكومت معاشرہ پر حاكم ہے_

اسى طرح صاحبان اقتدار كى انفرادى خصوصيات اور شرائط كا تعيّن اسكى بنيادى بحث شمار ہوتى ہے_ سياسى نظام كى نوعيتكى تعيين ہر معاشرے كے سياسى اقتدار كے حامل اداروں كى ضرورى خصوصيات كى ايك حد تك پہچان كروا ديتى ہے _

۲_ ہر حكومت كا ايك حكومتى ڈھانچہ ہوتاہے يعنى ہر حكومت مختلف اداروں اور قُوى سے تشكيل پاتى ہے _ حكومتى ڈھانچے كى تعيين ، اس كے اداروں كے آپس ميں ارتباط كا بيان اور ہر ادارے كے اختيارات اور فرائض كى وضاحت ، سياست اور حكومت كے اہم ترين مسائل ميں سے ہيں _

۳_ ہر رياست اور حكومت قدرت واقتدار(۱) كى حامل ہوتى ہے _ يعنى امرو نہى كرتى ہے ، قوانين بناتى ہے اور انكےصحيح اجرا پر نظارت كرتى ہے _ ايك اہم بحث يہ ہے كہ اس اقتدار كى بنياد كن اہداف اور اصولوں پر ہونى چاہيئے ؟ مختلف حكومتى ادارے جو عوام كو امرو نہى اور روك ٹوك كرتے ہيں وہ كن اصولوں كى بنياد پر

____________________

۱) Authority

۳۴

ہونے چاہيں؟ مثال كے طور پر ايك سوشلسٹ نظريات كى حامل حكومت جو كہ ماركسزم كى تعليمات كى قائل اور وفادار ہے اپنے اقتدار ميں ماركسزم كى تعليمات كے تابع ہے_ اس قسم كى حكومتوں ميں قانون گزارى ، اقتصادى پروگرام ،آئينى اور ثقافتى تعلقات اور بين الاقوامى معاملات ميں اس مكتب كے اصولوں پرخاص توجہ دى جاتى ہے _ جس طرح كہ '' لبرل جمہورى '' حكومتوں ميں ''جيسا كہ آج كل يورپ اور آمريكہ ميں قائم ہيں '' اقتدار كى بنياد لبرل ازم كے اصولوں پر قائم ہے _ ان ممالك ميں جمہوريت اور اكثريت كى رائے بطور مطلق نافذ العمل نہيں ہوتى بلكہ لبرل ازم اسے كنٹرول كرتا ہے _ آمريت ، اقتدار اور حكومت كا دائر ہ كار ان اصولوں پر قائم ہوتا ہے جنہيں لبرل ازم كے تابع بنايا جاتا ہے _

۴_ ہر حكومت كى كچھ ذمہ دارياں ہوتى ہيں جنہيں وہ اپنے عوام كى فلاح و بہبود كيلئے انجام ديتى ہے_ حكومت سے مربوط مباحث ميں سے ايك بحث يہ بھى ہے كہ يہ وظائف اور فرائض كيا ہيں ؟ اور عوام كے مقابلے ميں حكومت كى ذمہ دارياں كيا ہيں ؟

۵_ اپنے افعال اور فرائض كى انجام دہى اور حكومت كى سياسى قدرت كا سرچشمہ اقتدار اعلى(۱) ہوتاہے_

ہر حكومت اپنے اقتدار اعلى كا سہارا ليتے ہوئے مختلف ميدانوں ميں اپنى سياسى قوت كو بروئے كار لاسكتى ہے اور اندرون و بيرون ملك اپنے سياسى ارادوں كو عملى جامہ پہنا سكتى ہے _ ہر حكومت اپنے اقتدار اعلى كى بناپر مختلف احكام نافذ كرتى ہے _ پس سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ كيا اس كا اقتدار اعلى جائز اور مشروع ہے يا نہيں ؟ دوسرے الفاظ ميں كيا وہ حكومت كرنے كا حق ركھتى ہے يا نہيں ؟

سياسى فلسفہ ميں مشروعيت(۲) و غير مشروعيت كى بحث اہم ترين مباحث ميں سے شمار ہوتى ہے _ كوئي بھي

____________________

۱) Sovereignty

۲) Legitimacy

۳۵

سياسى مكتب اس سے بے نياز نہيں ہے _ كيونكہ حكومتى اركان اور ادارے ، اور تمام سياسى فيصلے اور تدابير اپنى حقانيت اور مشروعيت، حكومت كے حق حاكميت اور مشروعيت سے حاصل كرتے ہيں _ ہر حكومت ميں يہ صلاحيت اور قدرت ہونى چاہيے كہ وہ اپنى مشروعيت كا معقول طريقے سے دفاع كرسكتى ہو _

اس مختصر اور اجمالى وضاحت سے روشن ہوجاتا ہے كہ حكومت و رياست كے متعلق كم ازكم پانچ اساسى محور قابل بحث ہيں _ اب ديكھنا يہ ہے كہ ان پانچ محوروں ميں سے كن ميں ''دين'' حاكميت كى صلاحيت ركھتا ہے ؟ دوسرے لفظوں ميں ان پانچ ميدانوں ميں كس ميدان ميں دينى حكومت ، دين كے تابع ہے ؟ كيا يہ دعوى كياجاسكتا ہے كہ ان ميں سے بعض ميں دين كو دخل اندازى كرنے كا حق نہيں ہے اور دين كى حاكميت صرف ان ميں سے بعض ميں ہے ؟

حاكميت دين كى حدود

سياست ميں دين كے دخيل ہونے كى بحث دو لحاظ سے قابل تحقيق ہے :

الف: كس حد تك دين كا دخيل ہونا ممكن ہے_

ب : كس حد تك دين عملا دخيل ہے_

پہلى بحث سے مراد يہ ہے كہ سياست كے كونسے پہلو دين كے محتاج ہيں؟ اور كہاں پر دين اپنى تعليمات سے نواز سكتا ہے اور اپنى حاكميت كو بروئے كار لاسكتا ہے ؟ يہاں اصلى اور بنيادى سوال يہ ہے كہ كيا ممكن ہے دين ان پانچوں ميدانوں ميں دخيل اور معاشرہ كى سياسى زندگى كے تمام شعبوں ميں اس كى راہنمائي كرے ؟ يا يہ كہ بعض شعبوں كا تعلق صرف لوگوں سے ہے اور دين كيلئے سزاوار نہيں ہے كہ وہاں اظہار نظر كرے ؟

دوسرى بحث سے مراد ايك تو اس بات كى تعيين ہےكہ دين مبين اسلام نے سياست كے پانچ ميدانوں

۳۶

ميں سے كن ميں عملى طور پر اظہار نظر كياہے؟ دوسرا يہ كہ ان ميدانوں ميں دين كى تعليمات كس حد تك ہيں ؟ سياست كے مختلف پہلوؤں ميں دين كى دخالت كے امكان كے متعلق ہمارے نزديك دين كى حاكميت كى راہ ميں كوئي شئے مانع نہيں ہے_اور دين ان تمام ميدانوں ميں اپنا پيغام دے سكتا ہے _ منطقى لحاظ سے ضرورى نہيںہے كہ دين كى دخالت سياست كے بعض شعبوں تك محدودرہے بلكہ ممكن ہے دين ،حكومت كے تمام شعبوں ميں اپنى رائے كا اظہار كرے بعنوان مثال سياسى ڈھانچہ ،حكومت كى نوعيت، دينى معاشرے كے حكمرانوں كى شرائط ،خصوصاً رہبر و قائد كى خصوصيات جيسے ابواب ميں دين اپنى تعليمات پيش كرسكتاہے_ دين حكومت كى مشروعيت اور حق حاكميت كے متعلق اپنى رائے كا اظہار كرسكتا ہے _ كونسى حاكميت مشروع ہے اور كونسى نامشروع ،اسكى تعيين كرسكتا ہے ، حكّام پر عوام كے حقوق ، لوگوں كے سلسلہ ميں حكمرانوں كے وظائف اور عوام پر حكمرانوں كے حقوق جيسے امور ميں اپنى رائے دے سكتا ہے _ سياسى اقتدار كے حامل افراد كے لئے اہداف اور اقدار معين كرسكتا ہے تا كہ وہ معيّنہ اصولوں اور اہداف كے مطابق اپنى سياست كو آگے بڑھائيں اورمعاشرتى امور كو انجام ديں _

بنابريں از نظر امكان''سياست ميں دين كى حاكميت '' بلا قيد و شرط ہے اور اسے سياست كے چند مخصوص شعبوں ميں محدود كرنا صحيح نہيں ہے _

يہ تسليم كرلينے كے بعد كہ سياست كے مختلف شعبوں ميں منطقى طور پر دين كى دخالت ممكن ہے ، بعض افراد قائل ہيں كہ مختلف حكومتى شعبوں ميں دين كى حاكميت نہيں ہونى چاہيئے _ ان كى نظر ميں بعض ادلّہ كى روسے دين خود كو سياست سے دور ركھے_ اور ان تمام امور كو لوگوں ، عقل اور تجربہ كے حوالے كردے _ آنے والے اسباق ميں ہم دينى حكومت كے ان منكرين كى ادلہ پر بحثكريں گے _

۳۷

پس يہ مان لينے كے بعد كہ سياست سے متعلق ان پانچ ميدانوں ميں دين كى دخالت ممكن ہے دوسرے مرحلے كو مورد بحث قرار ديتے ہيں _ حكومتى اور سياسى امور ميں دين كى دخالت كس حد تك ہے ؟ اس كى تعيين صرف ايك طريقے سے ممكن ہے اور وہ بلاواسطہ دين اور پيام الہى كى طرف رجوع كرنا ہے _ اسلام كى اجتماعى اور سماجى تعليمات كى طرف عالمانہ اور باريك بينى سے رجوع كرنا ، اس حقيقت كى نقاب كشائي كرتا ہے كہ مذكورہ پانچ ميدانوں ميں سے دين نے كس ميں اپنى راہنمائي و ہدايت سے نوازاہے اور كس حد تك گفتگو كى ہے _ اور كونسے امور كو لوگوں اور ان كى عقل و تدبير پر چھوڑا ہے _ دين كى طرف رجوع اور اس كے مطالب كے ادراك سے واضح ہوجاتا ہے كہ دين نے كس شعبہ ميں اور كس حد تك اپنى حاكميت كو ثابت كيا ہے اور ان كے بارئے ميں اظہار نظر كيا ہے اور كن امور كو لوگوں كے حق انتخاب اور رائے پر چھوڑا ہے كسى بھى صورت ميں دين كى تعليمات كى طرف رجوع كرنے سے پہلے سياست كے بعض شعبوں ميں دين كو دخل اندازى سے نہيں روكا جاسكتا يا بعض امور ميں اس كے اظہار نظر اور دخالت كودين كے اہداف اور اسكى شان كے منافى قرار نہيں ديا جاسكتا _

۳۸

خلاصہ:

۱) حكومت اور سياست كے پانچ پہلو ہيں جو ايك دوسرے كے ساتھ مربوط ہيں _

۲) سياسى نظام كى نوعيت كى تعيين ، نيز اس كے اداروں كى كيفيت و كميت ،سياست كى اہم ترين مباحث ہيں _

۳) اہم ترين سياسى مباحث ميں سے ايك يہ ہے كہ ہر حكومت كا اقتدار كن اصولوں اور اہداف كى بنياد پر ہونا چاہيے _

۴) ہر حكومت اپنى قانونى حكمرانى كى بنياد پر احكام جارى كرتى ہے _

۵) سياسى اقتدار كى مشروعيت كى بحث حاكميت كے جائز اور ناجائز ہونے كى بات كرتى ہے اور اس بنيادى سوال كا جواب ديتى ہے كہ حكومت كا حق كن افراد كو حاصل ہے _

۶)'' دين'' سياست كے مذكورہ بالا پانچ بنيادى ميدانوں ميں اپنى رائے كا اظہار كرسكتا ہے _

۷) سياسى امور ميں دين كى حاكميت دومرحلوں ميں قابل بحث و تحقيق ہے _

الف: كونسے سياسى موارد ميں دين كى دخالت ممكن ہے ؟

ب: كن موارد ميں اسلام نے عملى طور پر اپنى رائے كا اظہار كيا ہے ؟

۸) دوسرے سوال كا جواب صرف دينى تعليمات كى طرف رجوع كرنے سے ہى مل سكتا ہے _ تا كہ واضح ہوسكے كہ حكومتى امور ميں اسلام نے كس حد تك دخالت كى ہے _

۳۹

سوالات :

۱) حكومت اور سياست سے مربوط پانچ مباحث كو اختصار كے ساتھ بيان كيجئے_

۲) اقتدار سے كيا مراد ہے ؟ اور اس كے متعلق كونسى بحث اہم ہے ؟

۳) مشروعيت كى بحث كيا ہے ؟ اورقانونى حاكميت كى بحث سے اس كا كيا تعلق ہے ؟

۴) حكومت كے ان پانچ ميدانوں ميں سے كس ميدان ميں ''دين'' حكمرانى كرسكتاہے ؟

۵) ان پانچ موارد ميں سے ہر ايك ميں دخالت دين كى حدود كى تشخيص كا طريقہ كيا ہے ؟

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367