اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت15%

اسلامی نظریہ حکومت مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 367

اسلامی نظریہ حکومت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 367 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 143976 / ڈاؤنلوڈ: 3622
سائز سائز سائز
اسلامی نظریہ حکومت

اسلامی نظریہ حکومت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اولاد میں سے بھی بعض موجود تھے انھوں نے جب پانی دیکھا تو بڑی خوشیاں منائیں۔ جب آپ(ع) نے یہ محسوس کیا تو فرمایا ۔ “میرے بچو! اس باغ اور اس نہر کی وجہ سے خوشحال نہ ہونا۔ اور ساتھ ہی آپ نے قلم ودوات لانے کا حکم فرمایا ۔ حکم کی تعمیل ہوئی تو آپ نے نہر اور باغ دونوں فقراء کے لیے وقف کردیا۔

آپ(ع) کا در گزر

عفو کے اسلامی اور حقیقی معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے ذاتی حق سے دستبردار ہوجائے مگر اس طرح دشمن کو گستاخی کرنے کا موقع نہ ملے۔ اس قسم کا عفو و درگزر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کا اولین مقصد رہا ہے۔ ابن ملجم کے بارے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی نصیحتیں قابل انکار نہیں ہیں اور اس طرح عورت کی کہاںی جو مشک کاندھے پر لیے امیرالمومنین (ع) کا گالیاں دے رہی تھی۔ آپ نے سن کر اس کی دلجوئی کی۔ اسی طرح معاویہ کی فوج نے پانی کے گھاٹ پر قبضہ کرنے کے بعد علی(ع) کے لشکر کے لیے پانی بند کیا۔ لیکن جب حضرت امیرالمومنین (ع) کی فوجوں نے پانی کے گھاٹ پر دوبارہ قبضہ کیا تو معاویہ کے لشکر کے لیے پانی واگزار کردیا۔

جارج جرداق کا کہنا ہے کہ علی (ع) رحم کرنے والے ہیں اور جو رحم طلب کرتے ہیں انہیں معاف کرتے ہیں چاہیے وہ شخص عمرو بن عاص ہی کیوں نہ ہو جس نے جنگ کے دوران لباس کو اوپر اٹھا کر اپنے آپ کو ننگا کیا تھا۔

آپ(ع) کی انکساری

 ایک دفعہ حضرت امیرالمومنین(ع) انبار سے گزر رہے تھے وہاں کے لوگوں نے ساسانیوں کے رواج کے مطابق جو اپنے بادشاہوں کے آنے پر پہلے راستے پر عطر پاشی کرتے تھے اور بعد میں بادشاہوں کے آگے آگے دوڑتے تھے۔آپ(ع) کے سامنے

۴۱

بھی دوڑنے لگے تو فرمایا ہم تم سب اﷲ کے بندے ہیں اور ایسا کرنا تمہارے لیے ذلت کا باعث ہے انسان کو چاہیے کہ صرف خداوند عالم کے حضور خاکساری برتے۔

امیرالمومنین علیہ السلام غذا ، خوراک ، لباس ، گھر اور دیگر ضروریات میں تمام لوگوں سے زیادہ سادگی اختیار کرتے تھے۔ آپ(ع) اکثر فرماتے تھے۔

“أَ أَقْنَعُ مِنْ نَفْسِي بِأَنْ يُقَالَ هَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ لَا أُشَارِكُهُمْ فِي مَكَارِهِ‏ الدَّهْرِ”

“ کیا میں صرف اسی پر اکتفا کروں کہ لوگ امیرالمومنین (ع) کہیں اور میں ان کے مصائب میں شریک نہ ہوں۔”

امیرالمومنین (ع) جیسے مرد آزاد کے بارے میں اس پہلو سے بحث جائز نہیں۔ لیکن نہج البلاغہ میں جیسے اشارہ ہوا ہے۔ جس میں آپ نے اپنے خداندان والوں سے فرمایا ہے کہ اگر میں چاہوں تو اپنے لئے بہترین غذا اور لباس مہیا کرسکتا ہوں لیکن۔

“هَيْهَاتَ أَنْ يَغْلِبَنِي هَوَايَ وَ لَعَلَّ بِالْحِجَازِ أَوْ بِالْيَمَامَةِ مَنْ لَا طَمَعَ‏ لَهُ فِي الْقُرْصِوَ لَا عَهْدَ لَهُ بِالشِّبَعِ”

“ یہ بہت بعید ہے کہ میرا نفس مجھ پر غالب آئے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ دور حجاز یا یمن کوئی ایسا شخص ہو جو بھوکا ہو یا پیٹ بھر کر طعام نہ کھایا ہو۔”

جارج جرادق نے کیا ہی خوب کہا ہے دنیا کے تمام سمندروں ، تالابوں کے پانی، جھیلوں کے پانی ،اوقیانوس کے پانی میں طوفان آسکتا ہے مگر جہاں طوفان نہیں آسکتا تو وہ علی (ع) کے وجود کا سمندر ہے۔ کوئی شخص اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس میں طوفان و ہلچل پیدا کرسکے۔ واقعا ایسا ہی ہے۔

کیا اچھا کھانے کی فطری خواہش علی(ع) میں ہلچل مچاسکتی ہے؟ حالانکہ یہ ایک ایسی فطری خواہش ہے جو افراد کو اپنی اولاد تک کو کھا جانے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہی وہ جبلت ہے جسے فرائڈ کے شاگردوں نے دوسری تمام خواہشات کے سرچشمہ قرار دیا ہے ۔ بر خلاف فرائڈ کے کہ اس نے جنسی خواہش کو سرچشمہ سمجھا ہے مگر شاگردوں

۴۲

 نے رد کر کے کہا دوسری تمام جبلی خواہشات اس کھانے کی جبلت کی وجہ سے ہیں۔

حمزہ کہتا ہے ایک دفعہ شام کے وقت معاویہ کےہاں تھا اور اس نے اپنا مخصوص ڈنر میرے سامنے رکھا مگر غصے کی وجہ سے لقمہ میرے منہ میں اٹک گیا میں نے پوچھا معاویہ یہ غذا کیا ہے؟ اس نے کہا یہ ایک خاص غذا ہے جو گندم کے نشاستہ ، حیوانات کے  مغز اور بادام کے روغن وغیرہ سے تیار کی گیا ہے۔ یہ سن کر میں نے کہا ایک رات دار الامارہ میں علی(ع) کی خدمت میں تھا افطار میں میرے لیے ایک روٹی اور تھوڑا سا دودھ تھا اور امیرالمومنین (ع) کی غذا جو کی خشک روٹی تھی جسے پانی میں بھگو کر کھا رہے تھے  اور یہ روٹی بھی ایسے فصل کی تھی جسے آپ(ع) نے اپنے ہاتھوں سے کاشت کر کے حاصل کیا تھا اور جس وقت کنیز نے آکر دسترخوان اٹھانا چاہا تو میں نے کہا کہ اب امیرالمومنین(ع) ضعیف ہوچکے ہیں ان کی غذا میں خیال رکھیں۔ کیونکہ ان کا زیادہ کا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سن کر خادمہ رونے لگی اور کہا امیرالمومنین (ع) اس بات پر راضی نہیں کہ ان کی روٹی میں تھوڑا سا زیتون کا تیل ملائیں تاکہ روٹی نرم ہوجائے۔ یہ سن کر امیرالمومنین(ع) نے فرمایا حمزہ! مسلمانوں کے حاکم کے  چاہئے کہ وہ غذا، لباس، اور مکان کی حیثیت سے تمام سے کمتر ہو تاکہ قیامت کے دن اس سے کم سے کم حساب لیا جائے۔  یہ سن کر معاویہ رونے لگے اور کہا۔

“ ایک ایسے شخص کا نام درمیان میں آیا جس کے فضائل اور مناقب سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔”

اسی طرح اقتدار پرستی کی خواہش بھی دوسری خواہشات سے بڑھ کر ہے اور اقتدار کا طلب گار شخص اپنی تمام دوسری خواہشات کو اس پر قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اپنی ذات سے محبت کے بعد ایک عام انسان کے لیے جاہ طلبی کی جبلت ایک اہمیت رکھتی ہے کیا جاہ طلبی کی خواہش بھی علی(ع) میں ہلچل مچاسکی؟

۴۳

ابن عباس کہتے ہیں کہ جنگ جمل میں چند سرکردہ لوگ آئے تاکہ میں انہیں علی(ع) کے پاس لے جاؤں میں آپ کے خیمے میں پہنچا تو آپ اپنی جوتی کی مرمت کررہے تھے میں نے اعتراض کیا تو آپ نے جوتا میرے سامنے پھینک کر کہا “ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں علی(ع) کی جان ہے یہ حکومت و اقتدار علی(ع) کے نزدیک اس جوتی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے کسی کا حق دلادوں یا اس اقتدار کے ذریعے کسی باطل کو مٹادوں۔”

طلحہ اور زبیر بہت اصرار کر کے بصرہ اور مصر کی گورنری حاصل کر کے آپ کا شکریہ ادا کرنے لگے تو آپ نے ان دونوں کا تقرر نامہ پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا میں تمہارے کندھوں پر اتنا عظیم بوجھ رکھ رہا ہوں مگر تم میرا شکریہ ادا کر رہے ہو۔

معلوم ہوتا ہے کہ تم سوء استفادہ کا ارادہ رکھتے ہو۔

عمرو بن عاص ، عمر بن سعد، معاویہ، طلحہ اور زبیر وغیرہ سب اسی جاہ طلبی کی خواہش میں غرق ہوگئے لیکن امیرالمومنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اس دنیا اور اس کی حکومت کو ایک ٹڈی کے منہ میں پتہ یا پرانی جوتیوں سے کم قیمت یا بکری کی چھینک سے بے وقعت بتا دیا ہے۔

صعصعہ کہتا ہے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شخصیت آپ کی اس ہیبت کے باوجود ہمارے درمیان آپ ہماری طرح ہی رہتے تھے جہاں ہم کہتے بیٹھ جاتے ، جوکچھ کہتے اسے سنتے تھے اور جہاں کہیں آپ کو بلاتے تو آپ آجاتے تھے۔

حضور اکرم(ص) نے آپ کو اگر گرانقدر اور دین کا پشت پناہ قرار دیا ہے تو بالکل بجا فرمایا ہے۔ روایت ثقلین جسے شیعہ و سنی سب نے نقل کیا ہے سب کے نزدیک مسلم ہے۔ صاحب طبقات الانوار اہل سنت کی کتب سے پانچ سو دو کتابوں سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے قرآن اور عترت کو دو گرانقدر چیزیں قرار دی ہیں۔

۴۴

   “ إِنِّي‏ تَارِكٌ‏ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي  وَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.”

“ بے شک میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں۔”

“وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ء”( النحل : 89  )

“ ہم نے تم پر جو کتاب نازل کی ہے وہ ہر چیز کا بیان کرنے والی ہے اور فتنوں کے زمانے میں ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم ہوا ۔”

“إِذَا الْتَبَسَتْ‏ عَلَيْكُمُ‏ الْأُمُورُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ”

“ جب رات کی تاریکیوں کی طرح فتنے تمہاری طرف بڑھیں تو قرآن کا سہارا لو۔”

اور عترت کو قرآن کے ساتھ قرار دیا اور اس کے اکمال کو عترت کے ذریعے قرار دیا ہے۔

 “ ِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً”

“ آج کے دن تمہارے دین کو کامل کیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا ”

بحث کے آخر میں عمرو عاص، یزید اور معاویہ کے اشعار یہاں درج کرتے ہیں معاویہ نے کہا ہے۔

             خير البريه بعد احمد حيدر              والناس ارضی والوصی سماء

حضرت احمد(ص) کے بعد بہترین مردم حیدر(ع) ہے دوسرے لوگ زمین اور وصی آسمان کی مانند ہے۔

عمرو عاص نے کہا ہے۔

کمليحه شهدت لها ضرا تها                 فاالحسن ماشهدت به الصنراء

۴۵

اس حسین عورت کی طرح جس کے حسن وجمال کا اعتراف اس کی سوتن کرے۔ فضیلت یہ ہی کافی ہے کہ اس کی سوتن اس کا اقرار کرتی ہے۔

ومناقب شهد العدو لفضلها         والفضل ما شهدت به الاعداء

اس میں فضیلت و مناقب وہی ہے جس کی گواہی دشمن بھی دیں۔

جارج جرداق اپنی کتاب “ ندائے عدالت انسانی” میں کسی مسیحی کے اشعار نقل کرتا ہے ۔ ان اشعار میں وہ مسیحی کہتا ہے  کہ اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے کہ تم نے علی(ع) کی تعریف کی ہے لہذا پوپ کی مدح بھی کرو تو میں جواب میں کہوں گا میں تو فضیلت و شرف کا دلدادہ ہوں اور میں نے علی(ع) کو فضیلت کا شرچشمہ پایا لہذا ان کی تعریف کی ہے۔

۴۶

حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام

(ام الائمہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اﷲ علیہا )

آپ کا نام نامی فاطمہ(س) ہے اور آپ کے مشہور القاب آٹھ ہیں، صدیقہ ، راضیہ، مرضیہ، زہرا، بتول، عذرا، مبارکہ اور طاہرہ بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ ذکیہ اور محدثہ بھی ان معظمہ کے القاب ہیں اور آپ کی کنیت “ ام ابیہا ” ہے۔

آپ (س) کی عمر مبارک تقریبا 18 سال ہے 20 جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال پیدا ہوئیں اور ہجرت کے گیارہویں سال تین جمادی الثانی کو ثقیفہ بن ساعدہ کے کرتا دھرتا  لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوئیں۔

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی شخصیت کا احاطہ اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں اس لیے جو کچھ بیان ہوگا آپ کی فضیلت کے سمندر میں سے ایک قطرہ لینے کے مترادف ہوگا۔

اسلامی شخصیت کا ادراک دو طریقوں سے ہوتا ہے ایک تو حسب ونسب کے ذریعے اور دوسرے ذاتی فضائل کی بنیاد پر۔ لیکن اسلام نے نسب کے اعتبار سے جس شخصیت کو قبول کیا ہے وہ مختلف عوامل کی تاثیر کے تحت ہے۔ قانون وراثت ، شرعی احکام کے تحت ، غذا و ماحول کا اثر میاں بیوی کی تاثیر ، اولاد صالح وغیرہ کسی شخصیت میں اپنا نقش ثبت کرتے ہیں۔

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا قانون وراثت کی روسے رسول اکرم(ص) جیسا باپ جو

۴۷

انسانی کمالات کے تمام مراتب کو طے کرچکا ہے ۔ آپ (ص) کےجمال سے دنیا کی تمام تاریکیاں منور ہوچکی ہیں اور آپ(ص) کی صفات کے بارے میں انتہائی بات یہ کہی جاسکتی ہے۔

             بلغ العلی بکماله               کشف الدجی بجماله

             حسنت جميع خصاله           صلو عليه و آله

اور آپ(س) کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ الکبری(ع) ہیں۔ وہی خاتون ، اسلام جن کا مرہون منت ہے، مسلمانوں کی وہی مان جس نے تین سال تک جب مسلمان شعب ابی طالب(ع) میں محصور تھے تو ان کے اخراجات کا بندوبست کیا اور اپنے تمام اموال صرف کئے وہی ماں جس نے مکہ کے کمر شکن مصائب کا مقابلہ کیا اور رسول اکرم(ص) کے شانہ بشانہ اسلام کی مدد کی اور مدد و ںصرت کی اس راہ میں جسم اطہر پر پتھر بھی لگے۔ طعنے بھی سنے مگر جس قدر مصائب بڑھتے گئے اس معظمہ نے صبر و استقامت کا نمونہ بن کر برداشت کیا۔

اور غذا کی تاثیر کے تحت دیکھیں تو پتہ چلتا ہے مورخوں نے لکھا ہے کہ جس وقت خداوند عالم نے حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کو تخلیق کا ارادہ فرمایا تو رسول اکرم(ص) کو حکم ملا کہ چالیس روز تک غار حرا میں عبادت کریں اور حضرت خدیجہ سلام علیہا لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنے گھر میں عبادت میں مشغول ہوئیں اور حضور اکرم (ص) غار حرا میں اس مدت کے بعد حضور اکرم (ص) کو حکم ملا کہ گھر واپس لوٹیں۔ عالم ملکوت سے ان کے لیے غذا لائی گئی جس کے بعد زہرا(س) کو نور حضرت خدیجہ(ع) کو منتقل ہوا۔ ماحول کے اثرات کی روسے علاوہ اس کے کہ حضرت زہرا(ع) کو ایک فداکار

۴۸

 خاتون کی گود نصیب تھی جو ثابت قدمی میں ایک نمونہ تھیں ساتھ ہی حضور اکرم(ص) جیسے باپ کی تربیت میں پروان چڑھیں۔ آپ جس ماحول میں زندگی گزار رہی تھیں وہ تلاطم سے پر تھا مکہ معظمہ اپنی تمام مصیبتوں اور ناگوار حادثوں کےساتھ آپ کی پرورش کا ماحول تھا۔ آپ نے شعب ابی طالب میں جس طرح زندگی گزاری اس کی تعریف میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے معاویہ کو یوں کہا۔ “تم لوگوں نے ہمیں تین سال تک سورج کے نیچے قید میں رکھا ۔ وہ بھی اس طرح کہ ہمارے بچے بھوک اور پیاس سے مرگئے ، ہمارے بڑوں کی جلدیں اکھڑ گئیں تھیں او بچوں اور عورتوں کے گریہ و فریاد کی آواز سنی جاتی تھیں۔”

واضح رہے کہ جو بچہ ایسے ماحول اور معاشرے میں پل رہا ہو اور اس کی پرورش کرنے والی رسول اکرم(ص) جیسی ہستی ہوتو اس کے صبر و استقامت اور وسعت صدر (قلب ) زیادہ سے زیادہ ہی ہوگی۔

ناز پروردہ تنعم نہ برد راہ بہ دوست                عاشقی شیوہ رندان بلاکش باشد

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا بیوی، ہم نشین رفیق اور اولاد کی حیثیت سے فوق العادت ہستی ہیں حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب (ع) جیسا شوہر جس کی شان مں قرآن کی تین سو سے زیادہ آیات موجود ہیں اور تاریخ نے اسلام کو انہی کی ذات کے مرہون منت سمجھا ہے۔

ایک ایسا شوہر ہے کہ خود اہلسنت کے اقرار کے مطابق مختلف مواقع میں حضرت عمر نے 72 سے زیادہ مرتبہلو لا علی ل ه ک العمر کہا ۔ خداوند عالم نے آپ کو حسن(ع) حسین(ع) اور زینب(س) و ام کلثوم(س) جیسی اولاد عطا کی جو اگر نہ ہوتے تو اسلام ہی نہ ہوتا۔ حضرت امام حسین(ع) کے کہنے کے مطابق “و علی الاسلام السلام ” اولاد کے اعتبار

۴۹

 سے حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا “ ام الائمہ” ہیں اور حضرت قائم آل محمد(ص) ہمارے عالم خلقت کے نچوڑ میں ایک ودیعت کئے ہوئے سربستہ راز ہیں۔

اور انسانی فضائل کی روسے اس ہستی کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جس کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) نے متعدد دفعہ فرمایا “ إنّ‏ اللّه‏ اصطفيك‏ و طهّرك و اصطفيك على نساء العالمين.”

بے شک خداوند عالم نے تمہیں منتخب کیا اور تمہیں پاکیزہ کیا اور تمام جہانوں کی عورتوں سے برگزیدہ قرار دیا۔”

اگر حضرت زہرا(س) کی شان میں سورہ کوثر کے علاوہ کچھ نہ ہوتا تو بھی آپ کی عظمت کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتا کہ آپ تمام جہان والوں کی نسبت خدا کے حضور برتری اور فضیلت کی حامل ہیں۔

“بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‏ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر فَصَلّ‏ِ لِرَبِّكَ وَ انحَْر إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْترَُ”

“ بے شک ہم نے تمہیں کوثر عطا کی پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو بے شک تمہارا دشمن ہی دم کٹا ہوگا۔”

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا ایمان کے اعتبار سے راضیہ اور مرضیہ ہیں۔

“يَأَيَّتهَُا النَّفْسُ الْمُطْمَئنَّةُ ارْجِعِى إِلىَ‏ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّة فَادْخُلىِ فىِ عِبَادِى وَ ادْخُلىِ جَنَّتى‏”

“ اے نفس مطمینہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا اس حالت میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہے پس تو میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری بہشت میں داخل ہوجا۔”

ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حضرات چہاردہ معصومین علیہم السلام کے القاب اور کنیتیں بے سبب نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک راز کی حامل ہیں اگر آپ زہرا(س) ،

۵۰

 صدیقہ، ذکیہ، طاہرہ، محدثہ القاب کی اسم با مسمی نہ ہو تو یہ بڑی بے معنی بات ہوگی۔ اگر جبرئیل(ع) نہ آتے اس مطمینہ کے ساتھ بات نہ کرتے باوجود اس کے آپ کو محدثہ کہا جائے گا۔ تو یہ جھوٹ ہوگا۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی محدثہ ہو اور اس کا ایمان شہود کی منزل تک نہ پہنچا ہو۔

علمی اعتبار سے آپ صحیفہ کی حامل ہیں

روایات کے مطابق کچھ کتابیں حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام کے پاس ہیں جن میں سے ایک صحف فاطمہ(س) ہے اسی کتاب پر ائمہ علیہم السلام نے فخر کیا ہے اور کہا ہے کہ علم ما کان وما یکون وما ہو کائن۔ اس میں موجود ہے یعنی جو کچھ ہوا ہو، جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے اس کا علم اس میں موجود ہے اور یہ صحیفہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کا لکھایا ہوا ہے اور حضرت امیرالمومنین (ع) کے دست مبارک کا لکھا ہوا ہے۔

حضرت زہرا(س) کا زہد

جس دن حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا علی(ع) کے گھر میں بیاہ کر آئیں تو امیر المومنین علیہ السلام نے “ش” ایک قسم کی گھاس کا فرش بجھایا ہوا تھا اور حضرت رسول اکرم(ص) نے آپ کو جو جہیز دیا تھا اس تمام کی قیمت 63 درہم تھی اور وہ جہیزیہ تھا۔ عباء، مقنعہ، پیراہن ، چٹائی، پردہ، لحاف ، کٹورہ ، پیالہ ، دستی چکی ، پانی کا مشکیزہ، گوسفند کا چمڑا ، تکیہ

حضور اکرم(ص) سے جب جہیز کے سامان کو دیکھا تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا“ خداوند! اس جہیز میں برکت عطا فرما جس میں سے اکثر مٹی کا بنا ہوا ہے۔”

۵۱

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا نے اپنے شوہر کے گھر کی طرف جاتے ہوئے وہ پیراہن ایک مسکین کو دیدیا اور اپنے پرانے پیراہن میں ہی شوہر کے گھر پہنچ گئیں۔ دوسرے دن حضرت پیغمبر اکرم(ص) بیٹی سے ملنے کے لیے آئے تو یہ تحفہ بیٹی کے لیے لے آئے تھے۔

“ علی فاطمه خدمته ما دون الباب و علی علی خدمته ما خلفه”گھر کے اندر کے کام فاطمہ(س) کے سرد ہیں اور گھر کے باہر کا کام علی(ع) کے ذمے ہیں۔” اس تحفے کو جناب زہرا سلام اﷲ علیہا نے بخوشی قبول کیا بلکہ بے حد خوشی کا اظہار کیا اور کہا “ ما يعلم الا الله ما داخلنی من السرور ”خداوند عالم کے علاوہ اور کوئی نہیں جان سکتا کہ اس تقسیم سے میں کس قدر خوش ہوئی ہوں۔”

حضرت زہرا(س) کی عبادت

روایات میں وارد ہے کہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا اس قدر عبادت کرتیں اور قیام میں رہتی تھیں کہ آپ کے پاؤں سوجھ جاتے تھے ۔ حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے تھے کہ میری والدہ گرامی رات کے ابتدائی حصے سے صبح تک عبادت میں  مشغول رہتی تھیں اور جب بھی آپ نماز سے فارغ ہوتی تھیں تو ہمسایوں کے لیے دعا کرتی تھیں اور جب ہم آپ سے پوچھتے تھے کہ اماں آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتی تھیں بیٹے “الجار ثم الدار ” بیٹے پہلے ہمسائے پھر گھر۔ حضرت زہرا(س) کی تسبیح کی بے حد فضیلت بیان ہوئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ “ میری داماد حضرت زہرا(س) کی تسبیح میرے نزدیک ایک ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے۔”

کہتے ہیں کہ گھر کے کاموں میں حضرت زہرا(س) کی مدد کے لیے ایک خادم کی ضرورت تھی اور اس وقت کا رواج بھی تھا کہ خادم یا خادمہ گھر میں رکھے جاتے تھے جس

۵۲

 وقت حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا حضور اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو قبل اس کے کہ حضرت فاطمہ (س) کچھ عرض کرتیں رسول اکرم(ص) نے فرمایا “ میری جان زہرا(س) کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ میں تمہیں ایک ایسی چیز سکھادوں جو دنیا و ما فیہا سے بہتر ہو اور ساتھ ہی آپ نے مشہور تسبیح جسے “ تسبیح فاطمہ” کہتے ہیں آپ کو سکھا دی۔ یہ تسبیح سیکھ کر حضرت زہرا(س) خوشی خوشی گھر آئیں  اور حضرت علی (ع) سے فرمایا “ اپنے پدر بزرگوار سے دعا سیکھ کر میں نے دنیا کی بھلائی کا حصہ حاصل کیا ہے۔”

آپ کی سخاوت اور ایثار

تمام مفسرین شیعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک دفعہ حضرت زہرا(س) اور آپ کے گھر والوں نے روزہ رکھا اور افطار کا وقت قریب ہوا تھا کہ ایک فقیر نے آکر آواز دی تمام گھر والوں نے اپنی اپنی روٹی اس کے حوالے کردی اور پانی سے روزہ افطار کر کے سوگئے دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا جب افطار کا وقت قریب آیا تو ایک یتیم نے آکر سوال کیا حضرت فاطمہ(س) آپ کے شوہر اور آپ کے بچوں نے نیز آپ کی خادمہ نے بھی اپنی روٹی اٹھا کر یتیم کے حوالے کی اور اس دن بھی تمام گھر والے پانی سے افطار کر کے سوگئے تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا عین افطار کے وقت ایک قیدی آیا تو سب نے اپنا اپنا کھانا اے دے دیا عین اسی وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

“وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلىَ‏ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَ يَتِيمًا وَ أَسِيرًا إِنمََّا نُطْعِمُكمُ‏ْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكمُ‏ْ جَزَاءً وَ لَا شُكُورًا”

“ یہ لوگ اﷲ کی محبت میں مسکین ، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو صرف اور صرف اﷲکی خوشنودی کی خاطر کھلاتے ہیں اور تم سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے ہیں۔”

بحث کے آخر میں ہم آپ کے نام اور کنیت کے بارے میں کچھ گفتگو کرتے ہیں۔ حضرت زہرا(س) کے القاب کے بارے میں بہت ساری تاویلیں کی ہیں کہ ان تمام کا ذکر

۵۳

 یہاں ممکن نہیں بلکہ ان کے خلاصے کو طور پر ہم صرف آپ کے نام اور کنیت کے بارے میں تھوڑی سی بحث کرتے ہیں۔

حضرت زہرا(س) کی کنیت “ ام ابیہا ” ہے اور یہی کنیت جو آپ کے لیے باعث افتخار ہے خود حضور اکرم(ص)نے دی ہے۔ “ام ابیہا ” کے معنی “ اپنے باپ کی ماں” ہیں اس کنیت کے مختلف معانی ہیں لیکن بہترین معانی یہ ہیں جو رسول اکرم(ص)نے اس کنیت کو دیئے ہیں یعنی ” زہرا(س) دنیا کی علت غائی ہیں۔” ایسی بعض روایات و احادیث بھی منقول ہیں کہ حضرت زہرا(س) دنیا جہان کی علت غائی ہیں اور اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ عالم ہستی کے فیض کا واسطہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا ہیں تو یہ بھی بے دلیل نہیں اور حضرت فاطمہ(س) کو فاطمہ(س)  کیوں کہا گیا ہے اس کے بھی اسرار ہیں اور روایات اس راز کو یوں بیان کرتی ہیں۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةُ لِأَنَّهَا فُطِمَتْ مِنَ الشَّرِّ

1ـ آپ کو فاطمہ اس لیے کہا گیا کہ آپ برائی سے جدا اور الگ ہیں یہ جملہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی عصمت پر دلیل ہے کیوںکہ آپ کا معصومہ ہونا ثابت ہے اور آیت تطہیر آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

“إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً”

“ اے اہل بیت رسول(ص) خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ تم اہل بیت کو ہر قسم کے رجس سے ایسا پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔”

إِنَّهَا سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةَ لِأَنَّهَا فُطِمَتْ عَنِ الطَّمْثِ.

2ـ حضرت فاطمہ(س) کو فاطمہ(س) اس لیے کہا گیا ہے کہ آپ عورتوں کی ماہانہ عادت سے پاک تھیں یہ آپ کی ظاہری طہارت کی طرف اشارہ ہے روایات سے ثابت ہے کہ آپ طاہرہ اور مطہرہ تھیں۔ طاہرہ یعنی ظاہری نجاسات سے پاک اور مطہرہ معنوی نجاسات سے پاک ۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةُ لِأَنَّها فُطِمت عَنْ الْخَلْقَ

۵۴

3ـ فاطمہ (س) کو فاطمہ(س) اس لیے کہا گیا کہ آپ مخلوق سے جدا تھیں یہ تفسیر آپ کے عرفان کی منزل کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کے دل میں سوائے خدا کے اور کسی کا تصور نہیں تھا اور ہر وقت آپ کا دل مشغول عبادت حق تھا۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةَ لِأَنَّ الْخَلْقَ فُطِمُوا عَنْ کنه مَعْرِفَتِهَا.

4ـ آپ کو فاطمہ اس لیے کہا گیا کہ لوگ آپ کی معرفت سے قاصر ہیں یہ تفسیر آپ کے اسی مرتبہ کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ کو رسول اکرم(ص) نے “ ام ابیہا” کہا ہے۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَة فَاطِمَة لِأَنَّهَا فُطِمَتْ شِيعَتُهَا عن النَّارِ

5ـ آپ کو فاطمہ نام اس لیے دیا گیا کہ قیامت کے دن اپنے شیعوں کو جہنم کی آگ سے نجات دلا دیں گی۔ یہ اشارہ آپ کی شفاعت کے حق کی طرف ہے۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةَ فاطِمَة لِأَنَّ أَعْدَاؤهَا فطِمُوا عَنْ حُبِّهَا

6ـ آپ کو فاطمہ(س) ا سلیے کہا گیا کہ آپ کے دشمن کو آپ کی محبت سے الگ کیا گیا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ جس کے پاس محبت اہل بیت(ع) کی سعادت نہٰیں ہوگی اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔

اس فاطمہ(س) کی توصیف کیسے کی جاسکتی ہے کہ جب حضرت زہرا(س) حضور اکرم(ص) کے ہاں جاتیں یا حضور اکرم (ص) حضرت زہرا(س) کے ہاں آتی تو آپ کے ہاتھ اور چہرے کے بوسے لیتے آپ کا استقبال کرتے اور اپنی جگہ بٹھاتے اور فرماتے تھے کہ “ مجھے فاطمہ(ع) سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔”

لیکن یہی زہرا(ع) اس قدر متواضع تھیں کہ جب امیرالمومنین (ع) کہتے ہیں کہ گھر میں کوئی مہمان آرہے ہیں تو فرماتی ہیں یہ گھر آپ کا ہے اور میں آپ کی کنیز ہوں۔ باوجود اس کے کہ آپ ان لوگوں سے سخت بیزار تھیں لیکن آپ کے شوہر نے

۵۵

اجازت چاہی تو اجازت دی۔ ایک دفعہ ایک عورت آتی ہے اور ایک مسئلہ شرعی پوچھتی ہے مسئلہ پوچھ کر چلی گئی لیکن بھول کی بیماری میں مبتلا ہونے کہ وجہ سے کئی دفعہ یہاں تک دس بار واپس آئی تو آپ نے ہر بار اسے مسئلے کا جواب بتا دیا جب وہ عورت معذرت کرتی ہے تو آپ فرماتی ہیں۔ “ تمہارے ہر بار سوال کرنے سے خداوند عالم مجھے جزا دے رہا ہے تم بار بار پوچھنے کی معذرت مت کرو۔”

جس وقت حضرت زہرا(س) کو ان کے پدر بزرگوار نے خادمہ کی حیثیت سے فضہ دیا تو اپنے پدر گرامی کے حکم کے مطابق گھر کے کاموں کو تقسیم کیا۔ اس طرح ایک دن حضرت فضہ اور ایک دن آپ(ع) کام کرتی تھیں۔

یہ بات نہیں بھولنی چاہئے اور خصوصا خواتین یاد رکھیں کہ تمام اہل بیت(ع) ہماری زندگی کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ قرآن بھی یہی حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ پیغمبر اکرم(ص) اور ان کے خاندان کو نمونہ عمل قرار دیں۔

“لَقَدْ كانَ لَكُمْ في‏ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الْآخِرَ ”( سورہ الاحزاب آیت 21  )

“ بے شک رسول اﷲ(ص) ان لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہیں جو اﷲ اور روز جزا پر امید رکھتے ہیں۔”

اگر ہمیں دو جہاںوں کی سعادت مطلوب ہے تو چاہئے کہ رسول اکرم(ص) اور ان کے اہل بیت(ع) کی  پیروی کریں۔ مسلمان خواتین اسی وقت سعادت حاصل کرسکتی ہیں جب وہ عفت ، ایثار، جان نثاری، شوہر داری، خانہ داری اور اولاد کی تربیت مٰیں حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی پیروی اختیار کریں۔

صاحب وسائل شیعہ نے وسائل کے جلد دوم میں ایک واقعہ لکھا ہے جو حضرت زہرا(س) کے بارے میں ہے لہذا خصوصا خواتین کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔ ایک دفعہ

۵۶

حضرت فضہ نے جناب زہرا(س) کو مغموم پایا اور وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا مجھے یہ فکر ہے جب میرا جنازہ ٹھایا جائے گا تو میرے بدن کا حجم نامحرم لوگوں کو نظر آئے گا۔ فضہ کہتے ہیں یہ سن کر میں نے ایک عماری کا نقشہ کھینچا اور کہا کہ عجم میں لوگوں کی یہ رسم ہے کہ معزز لوگوں کو اس میں رکھ کر لے جاتے ہیں۔ یہ سن کر آپ بہت خوش ہوئی اور تاکید کے ساتھ وصیت کی کہ ان کے جنازے کے عماری میں رکھ کر اٹھایا جائے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ بھی وصیت کی تھی کہ رات کے وقت تجہیز و تکفین و تدفین کی جائے۔

     زوجہ علی(ع) کی بنت رسالت ہیں فاطمہ(س)                اتری ہے جن کے گھر میں امامت ہیں فاطمہ(س)

     کاظم نہ پوچھ رتبہ سردار مومنات                             گر ہیں اذان رسول (ص)  اقامت ہیں فاطمہ (س)

                                                     سید کاظم عباس زیدی

۵۷

حضرت امام حسن علیہ السلام

آپ کا نام نامی حسن(ع) ہے اور یہ نام آپ کےلیے پروردگار عالم کی طرف سے عنایت ہوا۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس وقت امام حسن(ع) دنیا میں آئے تو حضور اکرم(ص) کے پاس خداوند عالم کی طرف سے جبرائیل امین(ع) نازل ہوئے اور کہا کہ چونکہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) کی نسبت آپ کے ساتھ ایسی ہے جیسے ہارون کو موسی(ع) کے ساتھ تھی۔ اس لیے علی(ع) کے بیٹے کا نام ہارون(ع) کے بیٹے کے نام پر رکھو جس کا نام حسن(ع) تھا۔ لہذا تم بھی اپنے اس نواسے کا نام حسن رکھو۔

“ روایت منزلت ” علمائے اسلام کے نزدیک ایک مشہور حدیث ہے اہلسنت و شیعہ کے متعدد ذرائع نے یہ حدیث رسول اکرم(ص) سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم (ص) نے متعدد بار فرمایا “يا علی أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ‏ مِنْ مُوسَى إِلَّا إنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي” اے علی(ع) تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون (ع) کو موسی(ع) سے تھی۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ ” یعنی جس طرح موسی(ع) کی غیر حاضری میں وہ موسی(ع) کے خلیفہ تھے اسی طرح میری غیر موجودگی میں تم میرے خلیفہ ہو صرف یہ فرق ہے کہ موسی(ع) کے بعد نبوت کا سلسلہ تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

آپ کی مشہور کنیت ابو محمد (ع) اور مشہور لقب مجتبیٰ(ع) اور سبط اکبر ہیں آپ نے 47 سال کی عمر پائی۔ آپ کی ولادت 3 ہجری 15 رمضان المبارک کو ہوئی تھی۔ سات سال آپ نے اپنے نانا کے زیر سایہ گزارے اور 30 سال اپنے والد گرامی کے ساتھ گزارے اور آپ کی مدت امامت دس سال ہے۔ آپ ہر پہلو سے “حسن(ع)”

۵۸

 تھے رسول اکرم(ص) جیسا نانا، والدہ گارمی حضرت زہرا(ع)مرضیہ، والد گرامی علی ابن ابی طالب(ع)۔

اگر ہم بچے کی تربیت میں موثر عامل کے تمام قوانین جیسے قانون وراثت وغیرہ کا مطالعہ کریں گے تو مان باپ کے اثرات کا انکار نہیں کرسکتے۔ آپ کے نانا اتنی عبادت کرتے تھے کہ کثرت قیام سے پاؤں میں ورم آجاتا تھا۔ اور خداوند عالم کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی۔ “طه مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْءَانَ لِتَشْقَى ‏”“ ہمارے رسول(ص) ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مشقت میں پڑو۔” اسی ہستی کے زیر تربیت رہ کر نواسہ پلا بڑھا جس نے بیس سے زیادہ حج پا پیادہ کئے اور بعض سفروں میں آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے۔

ان کے والد گرامی حضرت امیرالمومنین علی(ع) رات کی تاریکی میں مصلے بچھاتے اور امام حسن (ع) کی تکبیروں اور خوف الہی سے گریہ و زاری کرنے کی آوازیں سنتے تھے تو اس فرزند کی تربیت اس انداز میں ہوئی کہ وضو کرتے وقت کانپ اٹھتے تھے اور مسجد میں داخل ہوتے وقت روتے ہوئے کہتے تھے

 “إِلَهِي‏ ضَيْفُكَ‏ بِبَابِكَ يَا مُحْسِنُ قَدْ أَتَاكَ الْمُسِي‏ءُ فَتَجَاوَزْ عَنْ قَبِيحِ مَا عِنْدِي بِجَمِيلِ مَا عِنْدَكَ يَا كَرِيمُ.”

“اے میرے معبود! تیرا مہمان دروازے پر ہے اے نیکی کرنے والے ! تیرے حضور گناہ گار پہنچا اپنی خوبی کے وسیلے اس کی برائیوں کو معاف فرما۔”

جس باپ نے تیس تک اسلام کے مصالح کی خاطر صبر کیا اور ایسے زندگی گزاری جیسے آنکھ میں خار اور گلے میں ہڈی انکی ہوتو اس کے بیٹے نے دس سال تک مصالح اسلام کی خاطر صبر کیا اور معاویہ کے ساتھ صلح کی اور والدہ گرامی زہرا(ع) مرضیہ تھیں جو اپنا متعلقین کا کھانا  پہلے فقیر کو خیرات میں دیتی ہیں اس کے بعد اپنا کھانا دوبارہ پکاتی ہیں تو ایک یتیم کی آواز سن کر غذا اس کے حوالے کرتی ہیں اور

۵۹

اپنے گھر والوں کے لیے کھانا پکانے لگتی ہیں جب کھانا تیار ہوتا ہے تو ایک اسیر کی آواز سن کر کھانا اس کے حوالے کرتی ہیں۔ اور خود کو اور گھر والوں کو روزہ افطار کرنے کے لیے کچھ نہیں رہتا ہے تو پانی سے افطار کرتے ہیں۔

اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔

“وَ يُطْعِمُونَ‏ الطَّعامَ‏ عَلى‏ حُبِّهِ مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً”

“ یہ لوگ اپنی غذا کو جس کی خود انہیں بھی ضرورت ہے مسکین یتیم اور اسیر کو دے دیتے ہیں۔”اسی ایثار کو ان کا فرزند حسن(ع) میں پاتا ہے۔

ایک دن ایک سائل کے حضور آکر اپنے فقر کی شکایت کرنے لگا اور اس مضمون کے دو شعر کہے کہ۔

میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جسے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کروں میری حالت اس کی گواہ ہے صرف اس وقت میری آبرو محفوظ  ہے میں نے ہر چند چاہا کہ نہ بیچوں مگر آج آپ کو خریدار پایا میری آبرو کو خرید کر مجھے فقر سے نجات دیں۔ یہ سن کر آپ نے اخراجات کے ذمے دار سے فرمایا آج جو کچھ تمہارے سامنے موجود ہے اسے دے دو لہذا اس نے بارہ ہزار درہم جو موجود تھے۔ اس کے حوالے کئے اور اور اس روز گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ آپ نے دو شعر جواب میں یوں لکھ کر دیئے۔

“ تم نے جلدی میں ہم سے جلدی میں ہم سے کچھ چاہا جو کچھ موجود تھا دیا مگر یہ بہت کم تھا اسے لے لو اور اپنی آبرو کی حفاظت کرو گویا ہمیں دیکھا نہ ہو اور نہ ہمیں کچھ فروخت کیا ہو۔” آپ کی مادر گرامی اس منزلت کی تھیں کہ راتوں کو صبح تک نماز میں مشغول رہتیں ہیں اور ہر نماز کے بعد دوسروں کے لئے دعا کرتی رہتیں ہیں۔ آپ کے فرزند حسن(ع) آپ سے پوچھتے ہیں“ اماں آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتیں

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

'' ( و انزلنا اليك الذكر لتبين للناس ما نزّل اليهم ) ''(۱)

اور آپ (ص) كى طرف قرآن كو نازل كيا تا كہ لوگوں كيلئے جواحكام آئے ہيں انہيں بيان كرديں_

اس حقيقت كو ديكھتے ہوئے كہ آنحضرت (ص) مختلف مناصب كے حامل تھے معلوم ہوتاہے كہ عبدالرازق كى پيش كردہ آيات ميں موجود '' حصر'' حقيقى نہيں بلكہ ''اضافي'' ہے _ حصر اضافى كا مطلب يہ ہے كہ جب سامنے والا يہ سمجھ رہا ہو كہ موصوف دو صفتوں كے ساتھ متصف ہے تو متكلم تاكيداً مخاطب پر يہ واضح كرتا ہے كہ نہيں موصوف ان ميں سے صرف ايك صفت كے ساتھ متصف ہے _ مثلاً لوگ يہ سمجھتے تھے كہ آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى پيام الہى كا پہنچانا بھى اور لوگوں كو زبردستى ہدايت كى طرف لانا بھى ہے_ اس و ہم كو دور كرنے كيلئے آيت نے حصر اضافى كے ذريعہ آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى كو پيام الہى كے ابلاغ ميں منحصر كر ديا ہے اور فرمايا ہے :( ''و ما على الرسول الا البلاغ'' ) اور رسول كے ذمہ تبليغ كے سوا كچھ نہيں ہے(۲) يعنى پيغمبر اكرم (ص) كا كام لوگوں كو زبردستى ايمان پر مجبور كرنا نہيں ہے بلكہ صرف خدا كا پيغام پہنچانا اور لوگوں كو راہ ہدايت دكھانا ہے_ لوگ خود راہ ہدايت كو طے كريں اور نيك كاموں كى طرف بڑھيں_ پس آنحضرت (ص) لوگوں كى ہدايت كے ذمہ دار نہيں ہيں بلكہ صرف راہ ہدايت دكھانے كے ذمہ دا ر ہيں آنحضرت (ص) صرف ہادى ہيں اور لوگوں كى ہدايت كے ذمہ دار نہيں ہے _ بلكہ لوگ خود ہدايت حاصل كرنے اور نيك اعمال بجا لانے كے ذمہ دار ہيں_ اس حقيقت كو آيت نے حصر اضافى كے قالب ميں يوں بيان فرمايا ہے_(۳)

____________________

۱) سورہ نحل آيت۴۴_

۲) سورہ نورآيت ۵۴_

۳) تفسير ميزان ج ۱۲ ، ص ۲۴۱، ۲۴۲ سورہ نحل آيت ۳۵ كے ذيل ميں _ ج ۱۰ ص ۱۳۳ سورہ يونس آيت نمبر۱۰۸ كے ذيل ميں _

۸۱

( ''فمن اهتدى فانما يهتدى لنفسه و من ضل فانما يضّل عليها و ما انا عليكم بوكيل'' ) (۱)

پس اب جو ہدايت حاصل كرے گا وہ اپنے فائدہ كيلئے كرے گا اور جو گمراہ ہوگا وہ اپنے آپ كا نقصان كرے گا اور ميں تمہارا ذمہ دار نہيں ہوں _

بنابريں عبدالرازق سے غلطى يہاں ہوئي ہے كہ انہوں نے مذكورہ آيات ميںحصر كو حقيقى سمجھا ہے اور ان آيات ميں مذكورمخصوص صفت كے علاوہ باقى تمام اوصاف كى آنحضرت (ص) سے نفى كى ہے_ حالانكہ ان آيات ميںحصر'' اضافي'' ہے بنيادى طور پريہ آيات دوسرے اوصاف كو بيان نہيں كررہيںبلكہ ہر آيت صرف اس وصف كى نفى كر رہى ہے جس وصف كا وہم پيدا ہوا تھا_

دوسرى دليل كا جواب :

ظہور اسلام سے پہلے كى تاريخ عرب كااگر مطالعہ كيا جائے تو يہ حقيقت واضح ہوجاتى ہے كہ ظہور اسلام سے پہلے جزيرہ نما عرب ميں كوئي منظم حكومت نہيں تھى _ ايسى كوئي حكومت موجود نہيں تھى جو ملك ميں امن و امان برقرار كر سكے اور بيرونى دشمنوں كا مقابلہ كر سكے صرف قبائلى نظام تھا جو اس وقت اس سرزمين پر رائج تھا_ اس دور كى مہذب قوموں ميں جو سياسى ڈھانچہ اور حكومتى نظام موجود تھا جزيرة العرب ميں اس كا نشان تك نظر نہيں آتا _ ہر قبيلے كا ايك مستقل وجود اور رہبر تھا_ ان حالات كے باوجود آنحضرت (ص) نے جزيرة العرب ميں كچھ ايسے بنيادى اقدامات كئے جو سياسى نظم و نسق اور تأسيس حكومت كى حكايت كرتے ہيں حالانكہ اس ماحول ميں كسى مركزى حكومت كا كوئي تصور نہيں تھا_ يہاں ہم آنحضرت (ص) كے ان بعض اقدامات كى طرف اشارہ كرتے ہيں جو آپ (ص) كے ہاتھوں دينى حكومت كے قيام پر دلالت كرتے ہيں_

____________________

۱) سورہ يونس آيت نمبر۱۰۸_

۸۲

الف _ آنحضرت (ص) نے مختلف اور پراگندہ قبائل كے درميان اتحاد قائم كيا _ يہ اتحاد صرف دينى لحاظ سے نہيں تھا بلكہ اعتقادات اور مشتركہ دينى تعليمات كے ساتھ ساتھ سياسى اتحاد بھى اس ميں شامل تھا _ كل كے مستقل اور متخاصم قبائل آج اس سياسى اتحاد كى بركت سے مشتركہ منافع اور تعلقات كے حامل ہوگئے تھے_ اس سياسى اتحاد كا نماياں اثر يہ تھا كہ تمام مسلمان قبائل غير مسلم قبائل كيساتھ جنگ اور صلح كے موقع پر متحد ہوتے تھے_

ب _ آنحضرت (ص) نے مدينہ كو اپنا دارالحكومت قرار ديا اور وہيں سے دوسرے علاقوں ميں والى اور حكمران بھيجے طبرى نے ايسے بعض صحابہ كے نام ذكر كئے ہيں_ اُن ميں سے بعض حكومتى امور كے علاوہ دينى فرائض كى تعليم پر بھى مامور تھے جبكہ بعض صرف اس علاقہ كے مالى اور انتظامى امور سنبھالنے كيلئے بھيجے گئے تھے جبكہ مذہبى امور مثلانماز جماعت كا قيام اور قرآن كريم اور شرعى احكام كى تعليم دوسرے افراد كى ذمہ دارى تھى _

طبرى كے بقول آنحضرت (ص) نے سعيد ابن عاص كو ''رمَعْ و زبيد '' كے درميانى علاقے پر جو نجران كى سرحدوں تك پھيلا ہوا تھا عامر ابن شمر كو ''ہمدان ''اور فيروز ديلمى كو ''صنعا ''كے علاقے كى طرف بھيجا _ اقامہ نماز كيلئے عمرو ابن حزم كو اہل نجران كى طرف بھيجا جبكہ اسى علاقہ سے زكات اور صدقات كى جمع آورى كيلئے ابوسفيان ابن حرب كو مامور فرمايا_ ابو موسى اشعرى كو ''مأرب ''اور يعلى ابن اميہ كو ''الجند ''نامى علاقوں كى طرف روانہ كيا(۱)

ج _ مختلف علاقوں كى طرف آنحضرت (ص) كا اپنے نمائندوںكو خطوط ديكر بھيجنا اس بات كى واضح دليل ہے كہ آپ (ص) نے اپنى قيادت ميں ايك وسيع حكومت قائم كى تھى _ ان ميں سے بعض خطوط اور عہد نامے ايسے ہيں جو دلالت كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے ان افراد كو حاكم اور والى كے عنوان سے بھيجا تھا_ عمرو بن حزم

____________________

۱) تاريخ طبرى ( تاريخ الرسل و الملوك ) ج ۳ ص ۳۱۸_

۸۳

كو آپ نے حكم نامہ ديا تھا اس ميں آپ (ص) نے لكھا تھا :لوگوں سے نرمى سے پيش آنا ليكن ظالموں سے سخت رويہ ركھنا _ غنائم سے خمس وصول كرنا اور اموال سے زكات ان ہدايات كے مطابق وصول كرنا جو اس خط ميں لكھى گئي ہيں (۱) واضح سى بات ہے كہ ايسے امور حاكم اور والى ہى انجام دے سكتا ہے_

د _ آنحضرت (ص) كے ہاتھوں حكومت كے قيام كى ايك اور دليل يہ ہے كہ آپ (ص) نے مجرموں اور ان افراد كيلئے سزائيں مقرر كيں جو شرعى حدود كى پائمالى اور قانون شكنى كے مرتكب ہوتے تھے اور آپ (ص) نے صرف اخروى عذاب پر اكتفاء نہيں كيا اورحدود الہى كا نفاذ اور مجرموں كيلئے سزاؤں كا اجراحكو متى ذمہ داريوں ميں سے ہيں_

ہ_ قرآن كريم اور صدر اسلام كے مومنين كى زبان ميں حكومت اور سياسى اقتدار كو لفظ''الامر''سے تعبير كيا جاتا تھا_

''( و شاورهم فى الامر'' ) (۲) اور اس امر ميں ان سے مشورہ كرو _( ''و امرهم شورى بينهم'' ) (۳) اور آپس كے معاملات ميں مشورہ كرتے ہيں _

اگر آنحضرت (ص) كى رہبرى اور قيادت صرف دينى رہبرى ميں منحصر تھى تو پھر رسالت الہى كے ابلاغ ميں آپ (ص) كو مشورہ كرنے كا حكم دينا ناقابل قبول اور بے معنى ہے لہذا ان دو آيات ميں لفظ ''امر'' سياسى فيصلوں اور معاشرتى امور كے معنى ميں ہے_

____________________

۱) اس خط كى عبارت يہ تھى _''امره ان ياخذ بالحق كما امره الله ، يخبر الناس بالذى لهم و الذى عليهم ، يلين للناس فى الحق و يشتدّ عليهم فى الظلم ، امره ان ياخذ من المغانم خمس الله ''

ملاحظہ ہو: نظام الحكم فى الشريعة و التاريخ الاسلامى ، ظافر القاسمي، الكتاب الاول ص ۵۲۹_

۲) سورہ العمران آيت ۱۵۹_

۳) سورہ شورى آيت ۳۸_

۸۴

خلاصہ :

۱) آنحضرت (ص) اپنى امت كے قائد تھے اور تمام مسلمان قائل ہيں كہ آپ نے حكومت تشكيل دى تھى _ موجودہ دور كے بعض مسلمان مصنفين آپ (ص) كى دينى قيادت كے معترف ہيں ليكن تشكيل حكومت كا انكار كرتے ہيں_

۲) آپ (ص) كى حكومت كے بعض منكرين نے ان آيات كا سہارا ليا ہے جو شان پيغمبر كو ابلاغ وحى ، بشارت دينے اور ڈرانے والے ميں منحصر قرار ديتى ہيں اور ان آيات ميں آپ كى حاكميت كاكوئي تذكرہ نہيں ہے_

۳) ان آيات سے'' حصر اضافي'' كا استفادہ ہوتا ہے نہ كہ'' حصر حقيقي'' كا _ لہذايہ آنحضر ت (ص) كے سياسى اقتدار كى نفى كى دليل نہيں ہيں_

۴)بعض منكرين كى دوسرى دليل يہ ہے كہ مسلمانوں پر آپ (ص) كى حاكميت ميں ايسے كمترين امور بھى نہيں پائے جاتے جو ايك حكومت كى تشكيل كيلئے انتہائي ضرورى ہوتے ہيں_

۵) تاريخ شاہد ہے كہ آنحضرت (ص) نے اس دور كے اجتماعى ، ثقافتى اور ملكى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے حكومتى انتظامات كئے تھے_

۶) مختلف علاقوں كى طرف صاحب اختيار نمائندوں كا بھيجنا اور مجرموں كيلئے سزائيں اور قوانين مقرر كرنا آنحضرت (ص) كى طرف سے تشكيل حكومت كى دليل ہے_

۸۵

سوالات :

۱) آنحضرت (ص) كى زعامت اور رياست كے متعلق كونسى دو اساسى بحثيں ہيں؟

۲) آنحضرت (ص) كے ہاتھوں تشكيل حكومت كى نفى پر عبدالرازق كى پہلى دليل كونسى ہے؟

۳) عبدالرازق كى پہلى دليل كے جواب كو مختصر طور پر بيان كيجئے_

۴)عبدالرزاق كى دوسرى دليل كيا ہے ؟

۵) آنحضرت (ص) كے ذريعے تشكيل حكومت پر كونسے تاريخى شواہد دلالت كرتے ہيں؟

۸۶

دسواں سبق:

آنحضرت (ص) اور تأسيس حكومت -۲-

محمد عابد الجابرى نامى ايك عرب مصنف آنحضرت (ص) كى دينى حكومت كى نفى كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ آپ (ص) نے كوئي سياسى نظام اور دينى حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہ آپ (ص) كى پورى كوشش ايك ''امت مسلمہ ''كى تاسيس تھى _ آپ (ص) نے كوئي حكومت قائم نہيں كى تھى بلكہ آپ (ص) نے لوگوں ميں ايك خاص اجتماعى اور معنوى طرز زندگى كو رائج كيا اور ايسى امت كو وجود ميں لائے جو ہميشہ دين الہى كى حفاظت كيلئے كوشش كرتى رہى اور اسلام اور بعثت نبوى كى بركت سے ايك منظم معنوى اور اجتماعى راہ كو طے كيا_ اس معنوى و اجتماعى راہ كى توسيعكى كوششوں اور امت مسلمہ كى پرورش كے باوجود آنحضرت (ص) نے اپنے آپ (ص) كو بادشاہ ، حكمران يا سلطان كا نام نہيں ديا _ بنابريںدعوت محمدى سے ابتدا ميں ايك ''امت مسلمہ'' وجود ميں آئي پھر امتداد زمانہ كے ساتھ ايك خاص سياسى ڈھانچہ تشكيل پايا جسے اسلامى حكومت كا نام ديا گيا _ سياسى نظم و نسق اور

۸۷

حكومت كى تشكيل عباسى خلفا كے عہد ميں وقوع پذير ہوئي _ صدر اسلامكےمسلمان اسلام اور دعوت محمدى كو دين خاتم كے عنوان سے ديكھتے تھے نہحكومت كے عنوان سے_ اسى لئے ان كى تمام تر كوشش اس دين كى حفاظت اور اس امت مسلمہ كى بقا كيلئےرہى نہ كہ سياسى نظام اور نوزائيدہ مملكت كى حفاظت كيلئے_ صدر اسلام ميں جو چيز اسلامى معاشرے ميں وجود ميں آئي وہ امت مسلمہ تھى پھر اس دينى پيغام اور الہى رسالت كے تكامل اور ارتقاء سے دينى حكومت نے جنم ليا_

عابد جابرى نے اپنے مدعا كى تائيد كيلئے درج ذيل شواہد كا سہارا ليا ہے_

الف _ زمانہ بعثت ميں عربوںكے پاس كوئي مملكت اور حكومت نہيں تھى _ مكہ اور مدينہ ميں قبائلى نظام رائج تھا جسے حكومت نہيں كہا جا سكتا تھا كيونكہ حكومت كا وجود چند امور سے تشكيل پاتا ہے: اس سرزمين كى جغرافيائي حدود معين ہوں ،لوگ مستقل طور پر وہاں سكونت اختيار كريں_ايك مركزى قيادت ہو جو قوانين كے مطابق ان لوگوں كے مسائل حل كرے _جبكہ عرب ميں اس قسم كى كوئي شئے موجود نہيں تھي_

ب _ آنحضرت (ص) نے اس دينى اور معاشرتى رسم و رواج اور طرز زندگى كى ترويج كى جسے اسلام لايا تھا اور خود كو حكمران يا سلطان كہلو انے سے اجتناب كيا _

ج _ قرآن مجيد نے كہيں بھى اسلامى حكومت كى بات نہيں كى بلكہ ہميشہ امت مسلمہ كا نام ليا ہے ''و كنتم خير امّة ا ُخرجت للناس''تم بہترين امت ہو جسے لوگوں كيلئے لايا گيا ہے_(۱)

د _ حكومت ايك سياسى اصطلاح كے عنوان سے عباسى دور ميں سامنے آئي _ اس سے پہلے صرف'' امت مسلمہ '' كا لفظ استعمال كيا جاتا تھا جب امويوں سے عباسيوں كى طرف اقتدار منتقل ہوا تو ان كى اور ان

____________________

۱) سورہ آل عمران آيت ۱۱۰_

۸۸

كے حاميوں كى زبان پر'' ہذہ دولتنا'' ( يہ ہمارى حكومت ہے) جيسے الفاظ جارى ہوئے جو كہ دين و حكومت كے ارتباط كى حكايت كرتے ہيں اور امت كى بجائے حكومت اور رياست كا لفظ استعمال ہونے لگا _ (۱)

جابرى كے نظريئےکا جواب :

گذشتہ سبق كا وہ حصہ جو عبدالرازق كى دوسرى دليل كے جواب كے ساتھ مربوط ہے جابرى كے اس نظريہ كے رد كى دليل ہے كہ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى _ يہاں ہم جابرى كے نظريہ كے متعلق چند تكميلى نكات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

۱_ اسلام اور ايمان كى بركت سے عرب كے متفرق اور مختلف قبائل كے درميان ايك امت مسلمہ كى تشكيل اور ايك مخصوص اجتماعى اور معنوى طرز زندگى اس سے مانع نہيں ہے كہ يہ امت ايك مركزى حكومت قائم كر لے _كسى كو بھى اس سے انكار نہيں ہے كہ آنحضرت (ص) مختلف اور متعدد قبائل سے'' امت واحدہ'' كو وجود ميں لائے_ بحث اس ميں ہے كہ يہ امت سياسى اقتداراور قدرت كى حامل تھى _ حكومت كا عنصراس امت ميں موجود تھا اور اس حكومت اور سياسى اقتدار كى قيادت و رہبرى آنحضرت (ص) كے ہاتھ ميں تھى _

گذشتہ سبق كے آخر ميں ہم نے جو شواہد بيان كئے ہيں وہ اس مدعا كو ثابت كرتے ہيں_

۲_ عبدالرازق اور جابرى دونوں اس بنيادى نكتہ سے غافل رہے ہيں: كہ ہر معاشرہ كى حكومت اس معاشرہ كے مخصوص اجتماعى اور تاريخى حالات كى بنياد پر تشكيل پاتى ہے_ ايك سيدھا اور سادہ معاشرہ جو كہ پيچيدہ مسائل كا حامل نہيں ہے اس كى حكومت بھى طويل و عريض اداروں پر مشتمل نہيں ہوگى _جبكہ ايك وسيع معاشرہ جو كہ مختلف اجتماعى روابط اور پيچيدہ مسائل كا حامل ہے واضح سى بات ہے اسے ايك ايسى حكومت

____________________

۱) الدين و الدولہ و تطبيق الشريعة محمد عابد جابرى ص ۱۳_ ۲۴ _

۸۹

كى ضرورت ہے جو وسيع انتظامى امور اور اداروں پر مشتمل ہوتا كہ اس كے مسائل حل كر سكے _ جس غلط فہمى ميں يہ دو افراد مبتلا ہوئے ہيں وہ يہ ہے كہ انہوں نے آنحضرت (ص) كے دور كے اجتماعى حالات پر غور نہيں كيا _ انہوں نے حكومت كے متعلق ايك خاص قسم كا تصور ذہن ميں ركھا ہے لہذا جب آنحضرت (ص) كے دور ميں انہيں حكومت كے متعلق وہ تصور نہيں ملا توكہنے لگے آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى بلكہ عباسيوں كے دور ميں ا سلامى حكومت وجود ميں آئي _

يہ نظريہ كہ جس كا سرچشمہ عبدالرازق كا كلام ہے كى ردّ ميں ڈاكٹر سنہورى كہتے ہيں :

عبد الرازق كى بنيادى دليل يہ ہے كہ ايك حكومت كيلئے جو انتظامى امور اور ادارے ضرورى ہوتے ہيں_ وہ رسولخدا (ص) كے زمانہ ميں نہيںتھے_ ليكن يہ بات عبدالرازق كے اس مدعاكى دليل نہيں بن سكتى كہ آپ (ص) كے دور ميں حكومت كا وجود نہيں تھا_ كيونكہ اس وقت جزيرة العرب پر ايك سادہ سى طرز زندگى حاكم تھى جو اس قسم كے پيچيدہ اور دقيق نظم و نسق كى روادار نہيں تھى لہذا اس زمانہ ميں جو بہترين نظم و نسق ممكن تھا آنحضرت (ص) نے اپنى حكومت كيلئے قائم كيا _ پس اس اعتراض كى كوئي گنجائشے نہيں رہتى كہ ''اگر آپ نے حكومت تشكيل دى تھى تو اس ميں موجود ہ دور كى حكومتوں كى طرح كا نظم و نسق اور انتظامى ادارے كيوں نہيں ملتے_ كيونكہ اس قسم كانظم و نسق اور طرز حكومت آنحضرت (ص) كے زمانہ كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتا تھا ليكن اس كے باوجود آپ نے اپنى اسلامى حكومت كيلئے ماليات ، قانون گذارى ، انتظامى امور اور فوجى ادارے قائم كئے_(۱)

۳_ ہمارا مدعا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) سياسى اقتدار اور ايك مركزى حكومت كى ماہيت كو وجود ميں لائے_ ہمارى بحث اس ميں نہيں ہے كہ اس وقت لفظ حكومت استعمال ہوتا تھا يا نہيں يا وہ الفاظ جو كہ عموماً حكمران

____________________

۱) ''فقہ الخلافة و تطورہا ''عبدالرزاق احمد سنہورى ص ۸۲_

۹۰

استعمال كرتے تھے مثلاً امير ، بادشاہ يا سلطان و غيرہ آنحضرت (ص) نے اپنے لئے استعمال كئے يا نہيں؟تاكہ جابرى صرف اس بنا پر كہ آپ (ص) نے خود كو حكمران يا بادشاہ نہيںكہلوايا ياعباسيوں كے دور ميں ''ہمارى حكومت '' جيسے الفاظ رائج ہوئے تشكيل حكومت كو بعد والے ادوار كى پيداوار قرار ديں_

وہ تاريخى حقيقت كہ جس كا انكار نہيں كيا جاسكتا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كے دور ميں مدينہ ميں سياسى اقتدار وجود ميں آچكا تھا _ البتہ يہ حكومت جو كہ اسلامى تعليمات كى بنياد پر قائم تھى شكل و صورت اور لوگوں كے ساتھ تعلقات ميں اس دور كى دوسرى مشہور حكومتوں سے بہت مختلف تھى _

آنحضرت (ص) كى حكومت كا الہى ہونا :

اس نكتہ كى وضاحت كے بعد كہ آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں حكومت تشكيل دى تھى اور آپ كى رسالت اور نبوت سياسى ولايت كے ساتھ ملى ہوئي تھى _ اس اہم بحث كى تحقيق كى بارى آتى ہے كہ آنحضرت (ص) كو يہ حكومت اور سياسى ولايت خداوند كريم كى طرف سے عطا ہوئي تھى يا اس كا منشأ رائے عامہ اور بيعت تھى ؟ دوسرے لفظوں ميں كيا آ پ (ص) كى سياسى ولايت كا منشأدينى تھا يا عوامى اورمَدني؟

اس سوال كا جواب اسلام اور سياست كے رابطہ كى تعيين ميں اہم كردار ادا كرے گا _ اگر آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اور حكومت كا منشا دينى تھا_ اور يہ منصب آپ (ص) كو خدا كى طرف سے عطا كيا گيا تھا تو پھر اسلام اور سياست كا تعلق'' ذاتي'' ہوگا _ بايں معنى كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں حكومت پر توجہ دى ہے اور مسلمانوں سے دينى حكومت كے قيام كا مطالبہ كيا ہے لہذا آنحضرت (ص) نے اس دينى مطالبہ پر لبيك كہتے ہوئے حكومت كى تشكيل اور مسلمانوں كے اجتماعى اور سياسى امور كے حل كيلئے اقدام كيا ہے_ اور اگر آنحضرت (ص) كى حكومت اور سياسى ولايت كا منشأ و سرچشمہ صرف لوگوں كى خواہش اور مطالبہ تھا تو اس صورت ميں اسلام اور حكومت كے درميان تعلق ايك ''تاريخى تعلق ''كہلائے گا _ اس تاريخى تعلق سے مراد يہ

۹۱

ہے كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں دينى حكومت كى تشكيل كا مطالبہ نہيں كيا اور آنحضرت (ص) كيلئے سياسى ولايت جيسا منصب يا ذمہ دارى قرار نہيں دى بلكہ رسولخدا (ص) كے ہاتھوں دينى حكومت كا قيام ايك تاريخى واقعہ تھا جو اتفاقاً وجود ميں آگيا _ اگر مدينہ كے لوگ آپ(ص) كو سياسى قائد كے طور پر منتخب نہ كرتے اور آپ (ص) كى بيعت نہ كرتے تو اسلام اورحكومت كے درميان اس قسم كا تعلق پيدا نہ ہوتا كيونكہ اس نظريہ كے مطابق اسلام اور سياست كے درميان كوئي ''ذاتى تعلق'' نہيں ہے اور نہ ہى اس دين ميں سياسى ولايت كے متعلق اظہار رائے كياگيا ہے _

اس نظريہ كے حاميوں ميں سے ايك كہتے ہيں :

آسمانى پيغام كو پہنچانے كيلئے رسولخدا (ص) كى اجتماعى ، سياسى اور اخلاقى قيادت سب سے پہلے لوگوں كے منتخب كرنے اور بيعت كے ذريعہ وجود ميں آئي پھر اس بيعت كو خداوند كريم نے پسند فرمايا جيسا كہ سورہ فتح كى آيت'' لقد رضى اللہ عن المومنين اذ يبايعونك تحت الشجرة ''(۱) ''بے شك اللہ تعالى مومنوں سے اس وقت راضى ہو گيا جب وہ درخت كے نيچے تيرى بيعت كر رہے تھے''_ سے معلوم ہوتا ہے ايسا نہيں ہے كہ آنحضرت (ص) كى سياسى قيادت الہى ماموريت اور رسالت كا ايك حصہ ہو بلكہ آپ كى سياسى قيادت اورفرمانروائي جو كہ لوگوں كى روزمرہ زندگى اور عملى و اجرائي دستورات پر مشتمل تھى لوگوں كے انتخاب اور بيعت كے ذريعہ وجود ميں آئي لہذا يہ رہبرى وحى الہى كے زمرے ميں نہيں آتي_

يہ نظريہ صحيح نہيں ہے كہ دين اور سياست كا تعلق ايك تاريخى تعلق ہے اور آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت ايك مدنى ضرورت تھى _ آپ (ص) كى حكومت اس دور كے تقاضے اور لوگوں كے مطالبہ سے اتفاقاً وجود ميں نہيں

____________________

۱) سورہ فتح آيت نمبر۱۸_

۹۲

آئي تھى _بلكہ اس كا سرچشمہ اسلامى تعليمات تھيں اور جيسا كہ آگے ہم وضاحت كريں گے كہ لوگوں كى خواہش اور بيعت نے درحقيقت اس دينى دعوت كے عملى ہونے كى راہ ہموار كى _ متعدد دلائل سے ثابت كيا جاسكتا ہے كہ آپ (ص) كى سياسى ولايت كا سرچشمہ اسلام اور وحى الہى تھى ان ميں سے بعض دلائل يہ ہيں_

الف _ اسلام كچھ ايسے قوانين اور شرعى فرائض پر مشتمل ہے كہ جنہيں دينى حكومت كى تشكيل كے بغير اسلامى معاشرہ ميں جارى نہيں كيا جاسكتا _ اسلامى سزاؤں كا نفاذ اور مسلمانوں كے مالى واجبات مثلا ً زكوة ، اور اموال و غنائم كے خمس كى وصولى اور مصرف ايسے امور ہيں كہ دينى حكومت كى تشكيل كے بغير ان كا انجام دينا ممكن نہيں ہے _ بنابريں دينى تعليمات كے اس حصہ كو انجام دينے كيلئے آپ (ص) كيلئے سياسى ولايت ناگزير تھي_ ہاں اگر مسلمان آپ (ص) كا ساتھ نہ ديتے اور بيعت اور حمايت كے ذريعہ آپ (ص) كى پشت پناہى نہ كرتے تو آپ كى سياسى ولايت كو استحكام حاصل نہ ہوتا اور دينى تعليمات كا يہ حصہ نافذ نہ ہوتا _ ليكن اس كا يہ معنى نہيںہے كہ آپ(ع) كى سياسى ولايت كا منشأ عوام تھے اور اسلام سے اس كا كوئي تعلق نہيں تھا_

ب _ قرآنى آيات رسولخدا (ص) كى سياسى ولايت كو ثابت كرتى ہيں اورمؤمنين سے مطالبہ كرتى ہيں كہ وہ آپ (ص) كى طرف سے ديے گئے اوامر اور نواہى كى اطاعت كريں:

( '' النبى اولى بالمومنين من انفسهم '' ) (۱)

بے شك نبى تمام مومنوں سے ان كے نفس كى نسبت اولى ہيں _

( '' انما وليّكم الله و رسوله و الذين آمنوا الذين يقيمون الصلوة و يؤتون الزكوة و هم راكعون'' ) (۲)

____________________

۱) سورہ احزاب آيت ۶_

۲) سورہ مائدہ آيت۵۵_

۹۳

يقينا ً تمہارا ولى خدا ، اس كا رسول اور وہ صاحبان ايمان ہيں جو نماز قائم كرتے ہيں اور حالت ركوع ميں زكوة ديتے ہيں _

( '' انا انزلنا اليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بما اريك الله'' ) (۱)

ہم نے تمہارى طرف بر حق كتاب نازل كى تا كہ لوگوں كے درميان حكم خدا كے مطابق فيصلہ كريں_

اس قسم كى آيات سے ثابت ہوتا ہے كہ آنحضرت (ص) مومنين پر ولايت ،اولويت اور حق تقدم ركھتے ہيں_ بحث اس ميں ہے كہ يہ ولايت اور اولويت كن امور ميں ہے _ ان آيات سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ يہ ولايت اور اولويت ان امور ميں ہے جن ميں لوگ معمولاً اپنے رئيس كى طرف رجوع كرتے ہيں يعنى وہ اجتماعى امور جن كے ساتھ معاشرہ اور نظام كى حفاظت كا تعلق ہے _ مثلاً نظم و نسق كا برقرار ركھنا ،لوگوں كے حقوق كى پاسدارى ، ماليات كى جمع آورى ، انكى تقسيم اورمستحقين تك ان كا پہنچانا اور اس طرح كے دوسرے ضرورى مصارف ، مجرموں كو سزا دينا اور غيروں سے جنگ اور صلح جيسے امور _

ج_ وہ افراد جو آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت كو مدنى اور غير الہى سمجھتے ہيں ان كى اہم ترين دليل مختلف موقعوں پر مسلمانوں كا رسولخدا ا(ص) كى بيعت كرنا ہے _ بعثت كے تير ہويں سال اہل يثرب كى بيعت اور بيعت شجرہ( بيعت رضوان) كہ جس كى طرف اسى سبق ميں اشارہ كيا گيا ہے يہ وہ بيعتيں ہيں جن سے ان افراد نے تمسك كرتے ہوئے كہا ہے كہ آنحضرت (ص) كى حكومت كا منشأ دينى نہيں تھا _

بعثت كے تير ہويں سال اعمال حج انجام دينے كے بعد اور رسولخدا (ص) كى مدينہ ہجرت سے پہلے اہل يثرب كے نمائندوں نے آنحضرت (ص) كى بيعت كى تھى _ جسے بيعت عقبہ كہتے ہيں_ اگر اس كا پس منظر ديكھا

____________________

۱) سورہ نساء آيت ۱۰۵_

۹۴

جائے تو بخوبى واضح ہوجاتا ہے كہ اس بيعت كا مقصد مشركين مكہ كى دھمكيوں كے مقابلہ ميں رسولخدا (ص) كى حمايت كرنا تھا _ اس بيعت ميں كوئي ايسى چيز نہيں ہے جو دلالت كرتى ہو كہ انہوں نے آنحضرت (ص) كو سياسى رہبر كے عنوان سے منتخب كيا ہو _ اس بيعت كے وقت آنحضرت (ص) نے فرمايا:

''امّا مالى عليكم فتنصروننى مثل نسائكم و ابنائكم و ان تصبروا على عضّ السّيف و ان يُقتل خياركم ''

بہر حال ميرا تم پر يہ حق ہے كہ تم ميرى اسى طرح مدد كرو جس طرح اپنى عورتوں اور بچوں كى مدد كرتے ہو اور يہ كہ تلواروں كے كاٹنے پر صبر كرو اگر چہ تمہارے بہترين افراد ہى كيوں نہ مارے جائيں_

براء بن معرور نے آنحضرت (ص) كا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں ليا اور كہا :

''نعم و الذى بعثك بالحق لنمنعنّك ممّا نمنع منه ازرنا ''(۱ )

ہاں اس ذات كى قسم جس نے آپ كو حق كے ساتھ مبعوث كيا ہے ہم ہراس چيز سے آپ كا دفاع كريں گے جس سے اپنى قوت و طاقت كا دفاع كرتے ہيں_

بيعت رضوان كہ جس كى طرف سورہ فتح كى اٹھارويں آيت اشارہ كر رہى ہے سن چھ ہجرى ميں ''حديبيہ'' كے مقام پر ہوئي اس بيعت سے يہ استدلال كرنا كہ آنحضرت(ص) كى حكومت كا منشا مدنى اور عوامى تھا ناقابل فہم بہت عجيب ہے كيونكہ يہ بيعت مدينہ ميں آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اور اقتدار كے استحكام كے كئي سال بعد ہوئي پھر اس بيعت كا مقصد مشركين كے ساتھ جنگ كى تيارى كا اظہار تھا _ لہذا سياسى رہبر كے انتخاب كے مسئلہ كے ساتھ اس كا كوئي تعلق نہيں تھا _

____________________

۱) مناقب آل ابى طالب ج ۱، ص ۱۸۱_

۹۵

خلاصہ :

۱) عصر حاضر كے بعض مصنفين قائل ہيں كہ آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل نہيں دى تھى بلكہ ايك امت مسلمہ كى نبياد ركھى تھى _ امت مسلمہ كى تشكيل كے بعد عباسيوں كے دور ميں دينى حكومت قائم ہوئي _

۲) اس مدعا كى دليل يہ ہے كہ رسولخد ا (ص) كے دور ميں جو قبائلى نظام رائج تھا اس پر حكومت كى تعريف صادق نہيں آتى _ دوسرا يہ كہ آنحضرت (ص) نے اپنے آپ كو امير يا حاكم كا نام نہيں ديا نيز قرآن نے بھى مسلمانوں كيلئے ''امت ''كا لفظ استعمال كيا ہے _

۳) اس نظريہ كے حامى اس نكتہ سے غافل رہے ہيں كہ ہر معاشرے اور زمانے كى حكومت اس دور كے اجتماعى حالات كے مطابق ہوتى ہے لہذا دور حاضر ميں حكومت كى جو تعريف كى جاتى ہے اس كا رسولخدا (ص) كے زمانے كى حكومت پر صادق نہ آنا اس بات كى نفى نہيں كرتاكہ مدينہ ميں آنحضرت (ص) نے حكومت تشكيل دى تھى _

۴) دوسرا نكتہ جس سے غفلت برتى گئي ہے وہ يہ ہے كہ بحث لفظ ''حكومت، رياست اور امارت'' ميں نہيں ہے _ ہمارا مدعا يہ ہے كہ رسولخدا (ص) كے زمانہ ميں حكومت اور سياسى ولايت موجود تھى _

۵) مسلمانوں ميں حكومت كا وجود ان پر لفظ ''امت'' كے اطلاق كے منافى نہيں ہے _

۶) اصلى مدعا يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت اسلام اور سياست كے در ميان ذاتى تعلق كا نتيجہ ہے نہ كہ ايك اتفاقى اور تاريخى واقعہ _ پس اسلام اور سياست كا تعلق ايك تاريخى تعلق نہيں ہے_

۷) آنحضرت (ص) كى حكومت كے الہى اور غير مدنى ہونے پر بہت سى ادلّہ موجود ہيں _

۹۶

سوالات :

۱) جو لوگ يہ كہتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے حكومت كى بجائے امت مسلمہ كى نبياد ركھى تھى اس سے ان كى مراد كيا ہے ؟

۲) اس مدعا پر انہوں نے كونسى ادلّہ پيش كى ہيں ؟

۳) آنحضرت (ص) كے ہاتھوںتشكيل حكومت كے منكرين كے اس گروہ كو كيا جواب ديا گيا ہے؟

۴) اسلام اور سياست كے درميان ''ذاتى تعلق'' اور ''تاريخى تعلق'' سے كيا مراد ہے ؟

۵)اس بات كى كيا دليل ہے كہ آنحضرت (ص) كى حكومت الہى تھى اور اس كا سرچشمہ دين تھا ؟ اور يہ كہ آپ (ص) كى حكومت مدنى نہ تھي_

۹۷

گيا رہواں سبق:

آنحضرت (ص) كے بعد سياسى ولايت

گذشتہ سبق ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ كرچكے ہيں كہ آنحضرت (ص) كى سياسى ولايت، شرعى نص اور وحى الہى كى بنياد پر تھى اور اس ولايت كى مشروعيت كا سرچشمہ فرمان الہى تھا _ اب سوال يہ ہے كہ كيا رحلت كے بعد مسلمانوں كے سياسى نظام اور امت كے سياسى اقتدار كے متعلق اسلامى تعليمات اور دينى نصوص ميں اظہار رائے كيا گيا ہے ؟ يا اسلام اس بارے ميں خاموش رہا ہے اور امر ولايت اور سياسى اقتدار اور اس كى كيفيت كو خود امت اور اس كے اجتہاد و فكر پر چھوڑ ديا ہے ؟

يہ مسئلہ جو كہ'' كلام اسلامي'' ميں ''مسئلہ امامت'' كے نام سے موسوم ہے طول تاريخ ميں عالم اسلام كى اہم ترين كلامى مباحث ميں رہا ہے اوراسلام كے دو بڑے فرقوں يعنى شيعہ و سنى كے درميان نزاع كا اصلى محور يہى ہے _ اہلسنت كہتے ہيں: آنحضرت(ص) كى رحلت كے بعد امر حكومت كے متعلق دينى نصوص ساكت ہيں اور نظام حكومت ، مسلمانوں كے حكمران كى شرائط اور اس كے طرزانتخاب كے متعلق كوئي واضح فرمان نہيں ديا گيا _ آنحضرت(ص) كے بعد جو كچھ ہوا وہ صدر اسلام كے مسلمانوں كے اجتہاد كى بناپرتھا _ اہل سنت اس اجتہاد كا نتيجہ

۹۸

''نظام خلافت''كے انتخا ب كو قرار ديتے ہيں _

جبكہ اس كے مقابلے ميں اہل تشيع يہ كہتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے اپنى زندگى ميں ہى حكم خدا سے متعدد شرعى نصوص كے ذريعہ امت كى سياسى ولايت اور'' نظام امامت'' كى بنياد ركھ دي_

ان دو بنيادى نظريات كى تحقيق سے پہلے جو كہ آپس ميں بالكل متضاد ہيں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ اہلسنت نے ''مسئلہ امامت'' كو وہ اہميت اور توجہ نہيں دى جو شيعوں نے دى ہے _ اہلسنت كے نزديك مسئلہ خلافت ، شرائط خليفہ اور اس كى تعيين كا طريقہ ايك فقہى مسئلہ ہے _ جس كا علم كلام اور اعتقاد سے كوئي تعلق نہيں ہے _ اسى لئے انہوں نے اسے اتنى اہميت نہيں دى _ ان كى كلامى كتب ميںاس مسئلہ پر جووسيع بحث كى گئي ہے وہ در حقيقت ضد اور شيعوں كے رد عمل كے طور پر كى گئي ہے _ كيونكہ شيعوں نے اس اہم مسئلہ پر بہت زور ديا ہے اور'' مسئلہ امامت'' كو اپنى اعتقادى مباحث كے زمرہ ميں شمار كرتے ہوئے اسے بہت زيادہ اہميت دى ہے _ لہذا اہلسنت بھى مجبوراً اس فرعى اور فقہى بحث كو علم كلام اور اعتقادات ميں ذكر كرنے لگے بطور مثال ،غزالى مسئلہ امامت كے متعلق كہتے ہيں :

''النظر فى الامامة ليس من المهمات و ليس ايضاً من فنّ المعقولات بل من الفقهيات''

امامت كے بارے ميں غور كرنا اتنا اہم نہيں ہے اور نہ ہى يہ علم كلام كے مسائل ميں سے ہے بلكہ اس كا تعلق فقہ سے ہے(۱)

مسئلہ امامت شيعوں كے نزديك صرف ايك فرعى اور فقہى مسئلہ نہيں ہے اور نہ ہى معاشرتى نظام كے چلانے كى كيفيت اور سياسى ولايت ميں منحصر ہے بلكہ ايك كلامى مسئلہ ہے اور جزء ايمان ہے لہذا ائمہ

____________________

۱) الاقتصاد فى الاعتقاد، ابوحامد غزالى ص ۹۵_

۹۹

معصومين كى امامت پر اعتقاد نہ ركھنا در حقيقت دين كے ايك حصّے كے انكار اور بعض نصوص اور دينى تعليمات سے صرف نظر كرنے كے مترادف ہے ،جس كے نتيجہ ميں ايمان ناقص رہ جاتا ہے _ شيعوں كے نزديك امامت ايك ايسا بلند منصب ہے كہ سياسى ولايت اس كا ايك جزء ہے _ شيعہ ہونے كا اساسى ركن امامت كا معتقد ہونا ہے _ يہى وجہ ہے كہ اہلسنت كے مشہور عالم ''شہرستاني'' '' شيعہ'' كى تعريف كرتے ہوئے كہتے ہيں: الشيعة ہم الذين شايعوا علياً على الخصوص و قالوا بامامتہ و خلافتہ نصاً و وصيتاً اما جلياً و اما خفيا و اعتقدوا ان امامتہ لا تخرج من اولادہ (۱ ) شيعہ وہ لوگ ہيں جو بالخصوص حضرت على كا اتباع كرتے ہيں اور آنحضرت (ص) كى ظاہرى يا مخفى وصيت اور نص كى روسے انكى امامت اور خلافت كے قائل ہيں اور معتقد ہيں كہ امامت ان كى اولاد سے باہر نہيں جائے گى _

اہلسنت اور نظريہ خلافت :

اگر موجودہ صدى كے بعض روشن فكر عرب مسلمانوں كے سياسى مقاصد اور نظريات سے چشم پوشى كرليں تو اہلسنت كا سياسى تفكر تاريخى لحاظ سے نظام خلافت كے قبول كرنے پر مبتنى ہے _

اہلسنت كے وہ پہلے مشہور عالم ماوردى(۲) كہ جنہوں نے اسلام كى سياسى فقہ كے متعلق ايك مستقل كتاب لكھى ہے كے زمانہ سے ليكر آج تك سياسى تفكر كے بارے ميں انكى سب تحريروں كا محور نظريہ خلافت ہے_

اہلسنت كى فقہ سياسى اور فلسفہ سياسى دينى نصوص كى بجائے صحابہ كے عمل سے متاثر ہے _ اہلسنت سمجھتے ہيں كہ خليفہ كى تعيين كى كيفيت اورشرائط كے متعلق قرآن اور سنت ميں كوئي واضح تعليمات موجو د نہيں ہيں

____________________

۱) الملل و النحل، شہرستانى ج ۲ ص ۱۳۱_

۲) على ابن محمد ابن حبيب ابوالحسن ماوردى ( ۳۶۴ _ م ۴۵۰ ق) شافعى مذہب كے عظيم فقہا ميں سے ہيں فقہ سياسى كے متعلق ''احكام سلطانيہ'' كے علاوہ ديگر كتب كے بھى مؤلف ہيں جيسے ''الحاوي'' اور ''تفسير قرآن'' _

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367