امت کی رہبری

امت کی رہبری0%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

امت کی رہبری

مؤلف: آیة اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 15765
ڈاؤنلوڈ: 2440

تبصرے:

امت کی رہبری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15765 / ڈاؤنلوڈ: 2440
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

اکیسویں فصل

دو سوالوں کے جواب

دو سوال

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںکی بلا فصل خلافت کا اعلان غدیر خم میں کر دیا اور ان کی اطاعت و پیروی تمام مسلمانوں پر لازم و واجب قرار دے دی ۔یہاں دو سوال سامنے آتے ہیں۔

۱۔ جب حضرت علی ںکی جانشینی کا اعلان ایسے مخصوص دن کر دیا گیاتھا تو پھر اصحاب نے آنحضر ت کی رحلت کے بعدحضرت علیںکی وصایت و ولی عھدی کو اندیکھا کرتے ہوئے کسی اور کی پیروی کیوں کی ؟

۲۔ امام علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لئے اس حدیث سے استدلال کیوں نہیں کیا؟

پہلے سوال کا جواب :

اگرچہ اصحاب پیغمبر کے ایک گروہ نے حضرت علی ںکی جانشینی کو فراموش کرتے ہوئے غدیر کے الٰہی فرمان سے چشم پوشی کرلی اور بھت سے لاتعلق و لاپرواہ لوگوں نے -- جن کی مثالیں ہر معاشرہ میں بھت زیادہ نظر آتی ہیں-- --- --ان لوگوں کی پیروی کی ،لیکن ان کے مقابل ایسی نمایاں شخصیتیں اور اہم افراد بھی تھے جو حضرت علیںکی امامت و پیشوائی کے سلسلہ میں وفادار رہے ۔ اور انھوں نے امام علی ںکے علاوہ کسی اور کی پیروی نہیں کی ۔ یہ افراد اگر چہ تعداد میں پہلے گروہ سے کم اور اقلیت شمار ہوتے تھے ،لیکن کیفیت و شخصیت کے اعتبار سے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ممتاز اصحاب میں شمار ہوتے تھے جیسے :سلمان فارسی ،ابوذر غفاری ،مقداد بن اسود ، عمار یاسر ،ابی بن کعب ،ابو ایوب انصاری ،خزیمہ بن ثابت ،بریدہ اسلمی ، ابوھثیم بن التیھان،خالد بن سعید اور ایسے ہی بھت سے افراد کہ تاریخ اسلام نے ان کے نام اور ان کی زندگی کے خصوصیات و نیک صفات ، موجودہ خلافت پر ان کی تنقیدیں اورامیر المومنین علی ںسے ان کی وفاداریوں کو پوری باریکی کے ساتھ محفوظ کیا ہے۔

تاریخ اسلام نے دو سو پچاس صحابیوں کا ذکر کیا ہے کہ یہ سب کے سب امام کے وفادار تھے اور زندگی کے آخری لمحہ تک ان کے دامن سے وابستہ رہے ۔ ان میں سے بھت سے لوگوں نے امام کی محبت میں شھادت کا شرف بھی حاصل کیا۔(۱۵۶)

افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ہے کہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی وصایت و ولایت کا مسئلہ ہی نہیں ہے جس میں آنحضرت کے صریح و صاف حکم کے باوجود پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعض صحابیوں نے مخالفت اور آنحضرت کے حکم سے چشم پوشی کی ،بلکہ تاریخ کے صفحات کی گواہی کے مطابق خود پیغمبر کے زمانہ میں بھی بعض افراد نے آنحضرت کے صاف حکم کو اندیکھا کیا ، اس کی مخالفت کی اور اس کے خلاف اپنے نظریہ کا اظھار کیا ۔

دوسری لفظوں میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بعض اصحاب جب آنحضرت کے حکم کو اپنے باطنی خواہشات اور سیاسی خیالات کے مخالف نہیں پاتے تھے تو دل سے اسے قبول کرلیتے تھے ۔ لیکن اگر پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تعلیمات کے کسی حصہ کو اپنے سیاسی افکار و خیالات اور اپنی جاہ پسند خواہشات کے خلاف پاتے تھے تو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اس کام کی انجام دھی سے روکنے کی کوشش کرتے تھے اور اگر پیغمبر اپنی بات پر جمے رہتے تو آنحضرت کے حکم سے سرتابی کی کوشش کرتے تھے یا اعتراض کرنے لگتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ خود پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان کی پیروی کریں۔

ذیل میں ہم بعض اصحاب کی اس ناپسندیدہ روش کے چند نمونے بیان کرتے ہیں:

۱۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حکم دیا کہ میرے لئے قلم و دوات لے آؤ تاکہ میں ایک ایسی تحریر لکہ دوں جس کی روشنی میں میرے بعد میری امت کبھی گمراہ نہ ہو۔لیکن وھاں موجود بعض افراد نے اپنی مخصوص سیاسی سوجہ بوجہ سے یہ سمجھ لیا کہ اس تحریر کا مقصد اپنے بعد کے لئے جانشین کے تعین کا تحریری اعلان ہے لھٰذا پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صریحی حکم کی مخالفت کر بیٹھے اور لوگوں کو قلم و کاغذ لانے سے روک دیا!

ابن عباس نے اپنی آنکھوں سے اشک بھاتے ہوئے کہا : مسلمانوں کی مصیبت اور بدبختی اسی روز سے شروع ہوئی جب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) بیمار تھے اور آپ نے اس وقت قلم کا غذ لانے کا حکم دیا تاکہ ایسی چیز لکہ دیں کہ ان کے بعد امت اسلام گمراہ نہ ہو ۔لیکن اس موقع پر بعض حاضرین نے جھگڑا اور اختلاف شروع کردیا ۔بعض لوگوں نے کھا: قلم ،کا غذ لے آؤ بعض نے کہا نہ لاؤ ۔ آخر کار پیغمبر نے جب یہ جھگڑا اور اختلاف دیکھا تو جو کام انجام دینا چاہتے تھے نہ کر سکے۔(۱۵۷)

۲۔ مسلمانوں کے لشکر کے سردار ”زید بن حارثہ"رومیوں کے ساتھ ،جنگ موتہ میں قتل ہوگئے

اس واقعہ کے بعد پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک فوج تشکیل دی اور مھاجرین وانصار کی تمام شخصیتوں کو اس میں شرکت کاحکم دیا اور لشکر کاعلم اپنے ھاتھوں سے ”اسامہ ابن زید“کے حوالے کیا۔ناگھاں اسی روز آنحضرت کو شدید بخار آیاجس نے آنحضرت کو سخت مریض کردیا۔اس دوران پیغمبر کے بعض اصحاب کی جانب سے اختلاف ،جھگڑے اور پیغمبر خدا کے صاف حکم سے سرتابی کاآغاز ہوا۔بعض لوگوں نے ”اسامہ"جیسے جوان کی سرداری پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے غصہ کااظھار کیا اور آنحضرت سے اس کی معزولی کامطالبہ کیا۔ ایک گروہ جن کے لئے آنحضرت کی موت قطعی ہوچکی تھی،جھاد میں جانے سے ٹال مٹول کرنے لگا کہ ایسے حساس موقع پر مدینہ سے باہر جانا اسلام اور مسلمانوں کے حق میں اچھا نہیں ۔

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب بھی اپنے اصحاب کی اس ٹال مٹول اور لشکر کی روانگی میں تاخیر سے آگاہ ہوتے تھے تو آپ کی پیشانی اور چھرہ سے غصہ کے آثار ظاہر ہونے لگتے تھے اور اصحاب کو آمادہ کرنے کے لئے دوبارہ تاکید کے ساتھ حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے :جلد ازجلد مدینہ ترک کرو اور روم کی طرف روانہ ہوجاو۔لیکن اس قدر تاکیدات کے باوجود ان ہی اسباب کے پیش نظر جو اوپر بیان ہوچکے ہیں،ان افراد نے آنحضرت کے صاف وصریح حکم کو ان سنا کردیا اور اپنی ذاتی مرضی آگے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیھم تاکیدات کو ٹھکرادیا۔

۳۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے فرمان سے بعض اصحاب کی مخالفت کے یھی دو مذکورہ نمونے نہیں ہیں۔ اس قسم کے افراد نے سرزمین ”حدیبیہ" پر بھی،جب آنحضرت قریش سے صلح کی قرار داد باندہ رہے تھے،سختی کے ساتھ آنحضرت کی مخالفت کی اور ان پر اعتراض اور تنقیدیں کیں۔

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ان لوگوں کی آنحضرت کے دستورات سے مخالفت اس سے زیادہ ہے۔کیونکہ ان ہی افراد نے بعض اسباب کے تحت نماز اور اذان کی کیفیت میں تبدیلی

کردی ”ازدواج موقت“کی آیت کو ان دیکھا کردیا ماہ رمضان مبارک کی شبوں کے نوافل کوجنہیں فرادیٰ پڑھنا چاہئے ایک خاص کیفیت کے ساتھ جماعت میں تبدیل کردیا اور میراث کے احکام میں بھی تبدیلیاں کیں۔

ان میں سے ہر ایک تبدیلیوں اور تحریفوں اور آنحضرت کے حکم سے ان سرتا بیوں کے اسباب و علل اور اصطلاحی طور سے ”نص کے مقابلہ میں اجتھاد“کی تشریح اس کتاب میں ممکن نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں کتاب ”المراجعات“کے صفحات ۲۱۸۔۲۸۲تک اور ایک دوسری کتاب ”النص و الاجتھاد “ کا مطالعہ مفید ہوگا ،جو اسی موضوع سے متعلق لکھی گئی ہے۔

اصحاب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی مخالفت اور شرارت اس قدربڑہ گئی تھی کہ قرآن مجید نے انہیں سخت انداز میں رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے دستورات سے مخالفت اور ان پر سبقت کرنے سے منع کیا چنانچہ فرماتا ہے:

( فلیحذر الذین یخالفون عن امره ان تصیبهم فتنة او یصیبهم عذاب الیم ) (۱۵۸)

یعنی جو لوگ رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے فرمان کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس بات سے ڈریں کہ کھیں کسی بلا یا درد ناک عذاب میں مبتلا نہ ہوں۔

اور فرماتاہے :

( یا ایها الذین آمنوا لا تقدموا بین یدی الله و رسوله واتقوا اللّٰه ان الله سمیع علیم ) (۱۵۹)

اے ایمان لانے والو!خدا اور اس کے رسول پر سبقت نہ کرو اور اللہ سے ڈرو کہ بلا شبہ اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔

جولوگ یہ اصرار کرتے تھے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)ان کے نظریات و خیالات کی پیروی کریں خداوند عالم انہیں بھی وارننگ دیتا ہے:

( واعلموا ان فیکم رسول الله لو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم ) (۱۶۰)

اور جان لو کہ تمھارے درمیان رسول خدا جیسی شخصیت موجود ہے۔اگر بھت سے امور میں وہ تمھارے نظریات کی پیروی کریں گے تو تم زحمت میں پڑجاوگے۔

یہ حادثات اور یہ آیات اس بات کی صاف حکایت کرتی ہےں کہ اصحاب پیغمبر میں ایک گروہ تھا جو آنحضرت کی مخالفت کرتا تھا اور جیسی ان کی اطاعت کرنا چاہئے اطاعت نہیں کرتا تھا ۔بلکہ یہ لوگ کوشش کرتے تھے کہ جو احکام الٰہی ان کے افکار اور سلیقہ سے سازگار نہیں تھے،ان کی پیروی نہ کریں۔حتیٰ یہ کوشش کرتے تھے کہ خود رسول خدا کو اپنے نظریات کا پیرو بنائیں۔

افسوس رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد سیاسی میدان میں دوڑنے والے اور سقیفہ نیز فرمائشی شوریٰ کی تشکیل دینے والے یھی لوگ جنھوں نے غدیر خم میں پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صاف حکم اور نص الٰہی کو اپنی باطنی خواہشات کے مخالف پایا لھٰذابھت تیزی سے اسے بھلادیا۔

دوسرے سوال کاجواب:

جیسا کہ اس سوال میں در پردہ ادعا کیا گیا ہے ،یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ حضرت علی ں نے اپنی زندگی میں متعدد موقعوں پر حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی حقانیت اور اپنی خلافت پر استدلال کیا ہے۔حضرت امیرالمومنین جب بھی موقع مناسب دیکھتے تھے مخالفوں کو حدیث غدیر یاد دلاتے تھے ۔ اس طرح سے اپنی حیثیت لوگوں کے دلوں میں محکم فرماتے تھے اور حقیقت کے طالب افراد پر حق کو آشکار کردیتے تھے ۔

نہ صرف حضرت امام علی (ع) بلکہ بنت رسول خدا حضرت فاطمہ زھرا(ع) اور ان کے دونوں صاحب زادوں امام حسن اور امام حسین علی ہما السلام اور اسلام کی بھت سی عظیم شخصیتوں مثلاً عبداللہ بن جعفر،عمار یاسر،اصبغ بن نباتہ،قیس بن سعد، حتیٰ کچھ اموی اور عباسی خلفاء مثلاً عمر بن عبد العزیز اور مامون الرشید اور ان سے بھی بالاتر حضرت(ع) کے مشھور مخالفوں مثلا عمروبن عاص اور.... نے حدیث غدیر سے احتجاج واستدلال کیاہے۔

حدیث غدیر سے استدلال حضرت علی (ع) کے زمانہ سے آج تک جاری ہے اور ہر زمانہ وھر صدی میں حضرت (ع) کے دوست داروں نے حدیث غدیر کو حضرت کی امامت وولایت کے دلائل میں شمار کیاہے۔ھم یہاں ان احتجاجات اور استدلالوںکے صرف چند نمونے پیش کرتے ہیں:

۱۔سب جانتے ہیں کہ خلیفہ دوم کے حکم سے بعد کے خلیفہ کے انتخاب کے لئے چہ رکنی کمیٹی تشکیل پائی تھی کمیٹی کے افراد کی ترکیب ایسی تھی کہ سبھی جانتے تھے کہ خلافت حضرت علی (ع)تک نہیں پھنچے گی کیونکہ عمر نے اس وقت کے سب سے بڑے سرمایہ دار عبدالرحمان بن عوف (جو عثمان کے قریبی رشتہ دار تھے)کو ویٹو پاور دے رکھا تھا۔ان کا حضرت علی (ع) کے مخالف گروہ سے جو رابطہ تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ حضرت علی (ع) کو اس حق سے محروم کردیں گے ۔

بھر حال جب خلافت عبد الرحمان بن عوف کے ذریعہ عثمان کو بخش دی گئی تو حضرت علی (ع)نے شوریٰ کے اس فیصلہ کو باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا:میں تم سے ایک ایسی بات کے ذریعہ احتجاج کرتاہوں جس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا یہاں تک کہ فرمایا :میں تم لوگوں کو تمھارے خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس کے بارہ میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا ہو ”من کنت مولاه فهذا علیّ مولاه، اللّٰهم وال من والاه وانصر من نصره لیبلغ الشاهد الغائب “ یعنی میں جس جس کا مولاہوں یہ علی (ع)بھی اس کے مولا ہیں۔خدا یاتواسے دوست رکہ اور اس کی مدد فرما جو علی (ع)کی مدد کرے۔حاضرین ہر بات غائب لوگوں تک پھنچائیں۔

اس موقع پر شوریٰ کے تمام ارکان نے حضرت علی (ع)کی تصدیق کرتے ہوئے کھا: خدا کی قسم یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی ۔(۱۶۱)

امام علی (ع)کا احتجاج و استدلال اس حدیث سے صرف اسی ایک موقع پر نہیں تھا بلکہ امام نے حدیث غدیر سے دوسرے مقامات پر بھی استدلال فرمایا ہے۔

۲۔ ایک روز حضرت علی ں کوفہ میں خطبہ دے رہے تھے۔تقریر کے دوران آپ نے مجمع سے خطاب کرکے فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں ،جوشخص بھی غدیر خم میں موجود تھا اور جس نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مجھے اپنی جانشینی کے لئے منتخب کیا ہے وہ کھڑے ہو کر گواہی دے۔لیکن صرف وھی لوگ کھڑے ہوں جنھوں نے خود اپنے کانوں سے پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے یہ بات سنی ہے۔وہ نہ اٹھیںجنھوں نے دوسروںسے سنا ہے۔اس وقت تیس افراد اپنی جگہ پر کھڑے ہوئے اور انھوں نے حدیث غدیر کی گواہی دی۔

یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ جب یہ بات ہوئی تو غدیر کے واقعہ کو گزرے ہوئے پچیس سال ہوچکے تھے۔اور پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بھت سے اصحاب کوفہ میں نہیں تھے،یا اس سے پہلے انتقال کرچکے تھے اور کچھ لوگوں نے بعض اسباب کے تحت گواہی دینے سے کوتاہی کی تھی۔

”علامہ امینی“ مرحوم نے اس احتجاج وا ستدلال کے بھت سے حوالے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ میں نقل کئے ہیں۔شائقین اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔(۱۶۲)

۳۔حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں مھاجرین و انصار کی دوسو بڑی شخصیتیں مسجد نبی میں جمع ہوئیں۔ان لوگوں نے مختلف موضوعات پر گفتگو شروع کی۔یہاں تک کہ بات قریش کے فضائل ان کے کارناموں اور ان کی ہجرت کی آئی اور قریش کا ہر خاندان اپنی نمایاں شخصیتوں کی تعریف کرنے لگا۔جلسہ صبح سے ظھر تک چلتا رہا اور لوگ باتیں کرتے رہے حضرت امیر المومنین (ع) پورے جلسہ میں صرف لوگوں کی باتیں سنتے رہے۔اچانک مجمع آپ (ع)کی طرف متوجہ ہوا اور درخواست کرنے لگا کہ آپ بھی کچھ فرمائیے۔امام علیہ السلام لوگوں کے اصرار پر اٹھے اور خاندان پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اپنے رابطہ اور اپنے درخشاںماضی سے متعلق تفصیل سے تقریر فرمائی۔یہاں تک کہ فرمایا:

کیا تم لوگوں کو یاد ہے کہ غدیر کے دن خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو یہ حکم دیا تھا کہ جس طرح تم نے لوگوں کو نماز ،زکات اور حج کی تعلیم دی یوں ہی لوگوں کے سامنے علی (ع)کی پیشوائی کا بھی اعلان کردو۔اسی کام کے لئے پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا: خداوند عالم نے ایک فریضہ میرے اوپر عائد کیاہے۔میں اس بات سے ڈرتا تھا کہ کھیں اس الٰہی پیغام کو پھنچانے میں لوگ میری تکذیب نہ کریں،لیکن خدواند عالم نے مجھے حکم دیا کہ میں یہ کام انجام دوں اور یہ خوش خبری دی کہ اللہ مجھے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

اے لوگو! تم جانتے ہو کہ خدا میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان کے حق میں ان سے زیادہ اولیٰ بالتصرف ہوں؟سب نے کہا ھاں۔اس وقت پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا: علی ! اٹھو ۔میں اٹہ کھڑا ہوا۔ آنحضرت نے مجمع کی طرف رُخ کرکے فرمایا:”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللّٰھم وال من والاہ و عاد من عاداہ “ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی (ع)مولا ہیں ۔خدایا! تو اسے دوست رکہ جو علی (ع)کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکہ جو علی (ع)سے دشمنی کرے۔

اس موقع پر سلمان فارسی نے رسول خدا (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے دریافت کیا : علی (ع)ھم پر کیسی ولایت رکھتے ہیں ؟پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا:”ولائه کولائی ،من کنت اولی به من نفسه ،فعلیّ اولی به من نفسه “ یعنی تم پر علی (ع)کی ولایت میری ولایت کے مانندھے ۔میں جس جس کی جان اور نفس پر اولویت رکھتا ہوں علی (ع)بھی اس کی جان اور اس کے نفس پر اولویت رکھتے ہیں۔(۱۶۳)

۴۔ صرف حضرت علی ںنے ہی حدیث غدیر سے اپنے مخالفوں کے خلاف احتجاج و استدلال نہیں کیا ہے بلکہ پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی پارہ جگر حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے ایک تاریخی دن جب آپ اپنے حق کو ثابت کرنے کے لئے مسجد میں خطبہ دے رہی تھیں، تو

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا:

کیا تم لوگوں نے غدیر کے دن کو فراموش کردیا جس دن پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے حضرت علی (ع) کے بارے میں فرمایا تھا :

من کنت مولاه فهٰذ ا علی مولاه " جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کے مولا ہیں.

۵۔ جس وقت امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی قرار داد باندھنے کا فیصلہ کیا تو مجمع میں کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا:

”خدا وندعالم نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اہل بیت (ع)کو اسلام کے ذریعہ مکرم اور گرامی قرار دیا ہمیں منتخب کیا اور ہر طرح کی رجس و کثافت کو ہم سے دور رکھا یہاں تک کہ فرمایا: پوری امت نے سنا کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حضرت علی ںسے فرمایا: تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ھارون کو موسی (ع) سے تھی“

تمام لوگوں نے دیکھا اور سناکہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے غدیر خم میں حضرت علیں کا ھاتہ تھام کرلوگوں سے فرمایا:

” من کنت مولاه فعلی مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه "(۱۶۴)

۶۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی سرزمین مکہ پر حاجیوں کے مجمع میں جس

میں اصحاب پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ---خطبہ دیتے ہوئے

فرمایا:

”میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ پیغمبر اسلام نے غدیر کے دن حضرت علی ںکو اپنی خلافت و ولایت کے لئے منتخب کیا اور فرمایا کہ : حاضرین یہ بات غائب لوگوں تک پھنچا دیں “ ؟ پورے مجمع نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں ۔

۷۔ ان کے علاوہ جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں ، پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے کئی اصحاب مثلا عماریاسر ،زید بن ارقم ،عبداللہ بن جعفر ،اصبغ بن نباتہ اور دوسرے افراد نے بھی حدیث غدیر کے ذریعہ حضرت علی ںکی خلافت و امامت پر استدلال کیا ہے ۔(۱۶۵)

____________________

۱۵۶۔ سید علی خان مرحوم ”مدنی“ نے اپنی گرانقدر کتاب ”الدرجات الرفیعہ فی طبقات الشیعة الامامیة “ میں اصحاب پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)میں سے ایسے افراد کے نام و خصوصیات بیان کیئے ہیں جو حضرت علی علیہ السلام کے وفادار رہے ۔مرحوم شرف الدین عاملی نے بھی اپنی تالیف العقو ل المھمة ص/۱۷۷تاص۱۹۲ میں اپنی تحقیق کے ذریعہ ان میں مزید افراد کا اضافہ کیا ہے ۔

اس کتاب کے مولف نے بھی ”شخصیتھای اسلامی در شیعہ" کے عنوان سے ایک کتاب تدوین کی ہے جس میں ان افراد کے حالات زندگی اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے ان کی ولایت کے مراتب دقیق ماخذ کے ساتھ بیان کئے ہیں اور یہ کتاب چند جلدوں میں شائع ہوگی۔

۱۵۷۔صحیح بخاری ج/۱،ص/۲۲(کتاب علم)

۱۵۸۔نور /۶۳

۱۵۹۔حجرات /۱

۱۶۰۔الحجرات/۷

۱۶۱۔مناقب خوارزمی ،ص/۲۱۷

۱۶۲۔الغدیر، ج/۱،ص/۱۵۳۔۱۷۱

۱۶۳۔فرائد المسطین،باب۵۸۔حضرت علی علیہ السلام نے ان تین موقعوں کے علاوہ مسجد کوفہ میں ”یوم الرجعہ “ نام کے دن ،روز ”جمل “ ”حدیث الرکبان“کے واقعہ میں اور ”جنگ صفین “ میں حدیث غدیر سے اپنی امامت پر استدلال کیا ہے۔

۱۶۴۔ ینابیع المودة ص/۴۸۲

۱۶۵۔ مزید آگاہی کے لئے ”الغدیر “ ج/۱ص/۱۴۶تا ص/۱۹۵ ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں بائیس استدلال حوالوںکے ساتھ درج ہیں۔

بائیسویں فصل

حدیث”ثقلین “اورحدیث ” سفینہ"قرآن و عترت کا باہم اٹوٹ رشتہ

حدیث ثقلین(۱۶۶) اسلام کی ان قطعی و متواتر احادیث میں سے ہے جسے علمائے اسلام نے پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کیا ہے ۔مختلف زمانوں اور صدیوں میں اس حدیث کے متعدد اور قابل اعتماد اسناد پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حدیث کو قطعی ثابت کرتے ہیں اور کوئی بھی صحیح فکر اور صحیح مزاج والا شخص اس کی صحت و استواری میں شک نہیں کر سکتا ۔

علمائے اہل سنت کے نقطہ نظرسے اس حدیث کا جائزہ لینے سے پہلے ہم ان سے بعض افراد کی گواہی یہاں نقل کرتے ہیں:

”منادی“ کے بقول:یہ حدیث ایک سو بیس(۱۲۰) سے زیادہ صحابیوں نے

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے نقل کی ہے ۔(۱۶۷)

ابن حجر عسقلانی کے بقول : حدیْث ثقلین بیس(۲۰) سے زیادہ طریقوں سے نقل ہوئی ہے(۱۶۸)

عظیم شیعہ عالم علامہ میر حامد حسین مرحوم ،جن کا انتقال ۱۳۰۶ء ہ میں ہوا ہے ،انھوں نے مذکورہ حدیث کو علمائے اہل سنت کی ۵۰۲ کتابوں سے نقل کیا ہے ۔ حدیث کی سند اور دلالت سے متعلق ان کی تحقیق چہ جلدوں میں اصفھان سے شائع ہو چکی ہے ، شائقین اس کتاب کے ذریعہ اس حدیث کی عظمت سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔

اگر ہم اہل سنت کے مذکورہ راویوں پر شیعہ راویوں کا اضافہ کردیں تو حدیث ثقلین معتبر اور متواتر ہونے کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ پر نظر آتی ہے ،جس کے اعتبار کا مقابلہ حدیث غدیر کے علاوہ کسی اور حدیث سے نہیں کیا جا سکتا ۔حدیث ثقلین کا متن یہ ہے

انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بیتی ماان تمسکتم ب هما لن تضلوا ابدا ولن یفترقا حتیٰ یردا علی الحوض

”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں ،ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت و اہل بیت(ع) ہیں ،جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے ،یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پہ پھنچ جائیں“

البتہ یہ حدیث اس سے بھی وسیع انداز میں نقل ہوئی ہے ۔حتی ابن حجر نے لکھا ہے کہ

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس حدیث کے آخر میں اضافہ فرمایا:

”ھٰذا علی من القرآن و القرآن مع علی لا یفترقان(۱۶۹)

”یعنی یہ علی ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ہمراہ ہے۔یہ دونوںایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے“

مذکورہ بالا روایت حدیث کی وہ مختصر صورت ہے جسے اسلامی محدثوں نے نقل کیا ہے اور اس کی صحت پر گواہی دی ہے ۔ لیکن حدیث کی صورت میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مختلف موقعوں پر الگ الگ تعبیروں میں لوگوں کو قرآن و اہل بیت(ع) کے اٹوٹ رشتہ سے آگاہ کیا ہے ۔ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ان دونوں حجتوں کے ربط کو حجة الوداع کے موقع پر غدیر خم(۱۷۰) میں ۔منبرپر(۱۷۱) ، اور بستر بیماری پر(۱۷۲) جب کہ آپ کا حجرہ اصحاب سے بھرا ہو ا تھا ،بیان کیا تھا ۔اور اجمال و تفصیل کے لحاظ سے حدیث کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت نے اسے مختلف تعبیروں سے بیان کیا ہے

اگر چہ حدیث مختلف صورتوں سے نقل ہوئی ہے اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی دو یادگاروں کو کبھی ”ثقلین “ کبھی ”خلیفتین“ اور کبھی ” امرین“ کے الفاظ سے یاد کیا ہے ، اس کے باوجود سب کا مقصد ایک ہے اور وہ ہے قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اہل بیت (ع)کے درمیان اٹوٹ رابطہ کا ذکر۔

حدیث ثقلین کا مفاد

حدیث ثقلین کے مفاد پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اہل بیت (ع)گناہ تو گناہ خطا ولغزش سے بھی محفوظ و معصوم ہیں ،کیوں کہ جو چیز صبح قیامت تک قرآن کریم سے اٹوٹ رشتہ و رابطہ رکھتی ہے وہ قرآن کی ہی طرح (جسے خدا وند عالم نے ہر طرح کی

تحریف سے محفوظ رکھا ہے) ہر خطا و لغزش سے محفوظ ہے۔

دوسرے لفظوں میں یہ جو پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا کہ اسلامی امت صبح قیامت تک (جب یہ دونوں یادگاریں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملاقات کریں گی) ان دونوں سے وابستہ رہے اور ان دونوں کی اطاعت و پیروی کرے ،اس سے یہ بات اچھی سمجھی جا سکتی ہے کہ یہ دونوں الٰہی حجتیں اور پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی یادگاریں ، ہمیشہ خطا و غلطی سے محفوظ اور ہر طرح کی کجی و انحراف سے دور ہیں ۔ کیوں کہ یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ خدا وند عالم کسی عاصی و گناہگار انسان کی اطاعت ہم پر واجب کرے یا قرآن مجید جیسی خطا سے پاک کتاب کا کسی خطا کار گروہ سے اٹوٹ رشتہ قرار دےدے ۔قرآن کا ہمسر اور اس کے برابر تنھا وھی گروہ ہو سکتا ہے جو ہر گناہ اور ہر خطا و لغزش سے پاک ہو۔

جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں ،امامت کے لئے سب سے اہم شرط عصمت یعنی گناہ و خطا سے اس کامحفوظ رہنا ہے ۔آگے بھی ہم عقل کی روشنی میں الٰہی پیشواؤںاور رہبروں کے لئے اس کی ضرورت پر ثبوت فراہم کریں گے حدیث ثقلین بخوبی اس بات کی گواہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عترت و اہل بیت (ع)قرآن کی طرح ہر عیب و نقص ،خطا و گناہ سے پاک ہیں اور چونکہ ان کی پیروی واجب کی گئی ہے لھٰذا انہیں بھر حال گناہ و معصیت سے پاک ہونا چاہئے۔

امیر المومنین (ع)کا حدیث ثقلین سے استدلال

کتاب ”احتجاج “ کے مولف احمد بن علی ابن ابیطالب کتاب ”سلیم بن قیس “ سے (جوتابعین میں ہیں اور حضرت امیر المومنینں کے عظیم شاگرد ہیں)نقل کرتے ہیں کہ عثمان کی خلافت کے دور میں مسجد النبی میں مھاجرین و انصار کا ایک جلسہ ہو اجس میں ہر شخص اپنے فضائل و کمالات بیان کر رہا تھا ۔ اس جلسہ میں امام علیں بھی موجود تھے لیکن خاموش بیٹھے ہوئے سب کی باتیں سن رہے تھے ۔ آخر کا ر لوگوں نے امام (ع)سے درخواست کی کہ آپ (ع)بھی اپنے بارہ میں کچھ بیان کریں ،امام نے ایک تفصیلی خطبہ ارشاد فرمایاجس میں چند آیات کی تلاوت بھی فرمائی جو آپ کے حق میں نازل ہوئی تھی اس کے ساتھ ہی آپ نے ارشاد فرمایا: میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا نے اپنی زند گی کے آخری ایام میں خطبہ دیا تھا اور اس میں فرمایا تھا:

” یا ایها الناس انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بیتی فتمسکوا بهما لاتضلوا “

” اے لوگو! میں تمھارے درمیان دو گرانقدر میراث چھوڑے جا رہا ہوں ۔ اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت (ع)پس ان دونوں سے وابستہ رہو کہ ہر گز گمراہ نہ ہوگے ۔(۱۷۳)

مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی عترت و اہل بیت (ع)سے مراد ان سے وابستہ تمام افراد نہیں ہیں کیوں کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ تمام وابستہ افراد لغزش و گناہ سے پاک و مبرا نہیں تھے بلکہ اس سے مراد وہ معین تعداد ہے جن کی امامت پر شیعہ راسخ عقیدہ رکھتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں اگر ہم حدیث ثقلین کے مفاد کو قبول کر لیں تو عترت و اہل بیت کے افراد اور ان کے مصداق مخفی نہیں رہ جائیں گے کیوں کہ پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے فرزندوں یا ان سے وابستہ افراد کے درمیان صرف وھی لوگ اس حدیث کے مصداق ہو سکتے ہیں جو ہر طرح کی لغزش و خطا سے مبرا و پاک ہیں اور امت کے درمیان طھارت ،پاکیزگی ،اخلاقی فضائل اور وسیع و بیکراں علم کے ذریعہ مسلمانوں میں مشھور ہیں اور لوگ انہیں نام و نشان کے ساتھ پھچانتے ہیں۔

ایک نکتہ کی یاد دھانی

اس مشھوراور متفق علیہ حدیث یعنی حدیث ثقلین کا متن بیان ہو چکا اور ہم نے دیکھا کہ

پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ہر جگہ" کتاب و عترت “ کو اپنی دو یاد گار کے عنوان سے یاد کیا ہے اور ان دو الٰہی حجتوں کے باہم اٹوٹ رشتہ کو ذکر کیا ہے لیکن سنت کی بعض کتابوں میں کھیں کھیں ندرت کے ساتھ ”کتاب اللہ و عترتی “ کے بجائے ”کتاب اللہ و سنتی “ ذکر ہو اہے اور ایک غیر معتبر روایت کی شکل میں نقل ہوا ہے ۔

ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب میں حدیث کی دوسری صورت بھی نقل کی ہے اور اس کی توجیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : در حقیقت سنت پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)جو قرآنی آیات کی مفسر ہے اس کی بازگشت خود کتاب خدا کی طرف ہے اور دونوں کی پیروی لازم وواجب ہے ۔

ہمیں اس وقت اس سے سرو کار نہیں کہ یہ توجیہ درست ہے یا نہیں ۔جو بات اہم ہے یہ ہے کہ حدیث ثقلین جسے عام طور سے اسلامی محدثوں نے نقل کیا ہے وہ وھی ” کتاب اللہ و عترتی “ھے اور اگر جملہ ”کتاب اللہ و سنتی “ بھی پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے صحیح و معتبر سند کے ساتھ نقل ہوئی ہوگی تو وہ ایک دوسری حدیث ہوگی ۔ جو حدیث ثقلین سے کوئی ٹکراؤ نہ رکھے گی ۔جبکہ یہ تعبیر احادیث کی کتابوں میں کسی قابل اعتماد سند کے ساتھ نقل نہیں ہوئی ہے ۔اور جو شھرت و تواتر پہلی بایوں کہا جائے کہ اصل حدیث ثقلین کو حاصل ہے وہ اسے حاصل نہیں ہے۔

عترت پیغمبر سفینہ نوح کے مانند

اگر حدیث سفینہ کو حدیث ثقلین کے ساتھ ضم کردیا جائے تو ان دونوں حدیثوں کا مفاد

پیغمبر اسلام (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اہل بیت (ع)کے لئے فضائل و کمالات کی ایک دنیا کو نمایاں کرتاہے۔

سلیم ابن قیس نے لکھا ہے کہ : میں حج کے زمانہ میں مکہ میں موجود تھا.میں نے دیکھا کہ جناب ابوذر غفاری کعبہ کے حلقہ کو پکڑے ہوئے بلند آواز میں کھہ رہے ہیں:

اے لوگو! جو مجھے پھچانتا ہے وہ پھچانتاہے اور جو نہیں پھچانتا میں اسے اپنا تعارف کراتا ہوں۔ میں جندب بن جنادہ ”ابوذر“ھوں.اے لوگو! میں نے پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ہے کہ"

”ان مثل اہل بیتی فی امتی کمثل سفینة نوح فی قومہ من رکبھا نجیٰ ومن ترکھا غرق“

میرے اہل بیت کی مثال میری امت میں جناب نوح کی قوم میں ان کی کشتی کے مانند ہے کہ جو شخص اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے اسے ترک کردیا وہ غرق ہوگیا.(۱۷۴)

حدیث سفینہ ،حدیث غدیر اور حدیث ثقلین کے بعد اسلام کی متواتر حدیثوں میں سے ہے اور محدثین کے درمیان عظیم شھرت رکھتی ہے

کتاب عبقات الانوار(۱۷۵) کے مولف علامہ میر حامد حسین مرحوم نے اس حدیث کو اہل سنت کے نوے /۹۰ مشھور علماء و محدثین سے نقل کیا ہے.(۱۷۶)

حدیث سفینہ کا مفاد

حدیث سفینہ جس میں پیغمبر اکرم (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عترت کو نوح کی کشتی سے تعبیر کیا گیا ہے.اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بیت (ع)کی پیروی نجات کا سبب اور ان کی مخالفت نابودی کا سبب ہے ۔

اب یہ دیکھنا چاہیئے کہ کیا صرف حلال و حرام میں ان کی پیروی کرنا چاہیئے اور سیاسی و اجتماعی مسائل میں ان کے ارشاد و ہدایت پر عمل کرنا واجب نہیں ہے یا یہ کہ تمام موارد میں ان کی پیروی واجب ہے اور ان کے اقوال اور حکم کو بلا استثناء جان و دل سے قبول کرنا ضروری ہے ؟

جولوگ کھتے ہیں کہ اہل بیت (ع)پیغمبر (صل اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی پیروی صرف دین کے احکام اور حلال و حرام سے مربوط ہے وہ کسی دلیل کے بغیر پیروی کے موضوع کو محدود کرتے ہیں اور اس کی وسعت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے جب کہ حدیث میں اس طرح کی کوئی قید و شرط نہیں ہے۔

لھٰذا حدیث سفینہ بھی اس سلسلہ میں وارد ہونے والی دوسری احادیث کی طرح اسلامی

قیادت و سرپرستی کے لئے اہل بیت (ع)کی لیاقت و شائستگی کو ثابت کرتی ہے۔

اس کے علاوہ مذکورہ حدیث اہل بیت (ع)کی عصمت و طھارت اور ان کے گناہ و لغزش سے پاک ہونے کی بھترین گواہ ہے،کیونکہ ایک گناہگار و خطا کار بھلا کس طرح دوسروں کو نجات اور گمراہوں کی ہدایت کرسکتا ہے ؟!

حضرت امیر المومنین ںاور ان کے جانشینوں کی ولایت اور امت اسلام کی پیشوائی و رہبری کے لئے ان کی لیاقت و شائستگی کے دلائل اس سے کھیں زیادہ ہیں اور اس مختصر کتاب میں سمیٹے نہیں جاسکتے لھٰذا ہم اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں اور اپنی گفتگو کاآغاز عصمت کے موضوع سے کرتے ہیں جو الٰہی رہبروں کے لئے بنیادی شرط ہے ۔

____________________

۱۶۶۔ ثقل ،فتح ”ق“ اور ”ث“ اس کے معنی ہیں کوئی بھت نفیس اور قیمتی امر ۔ اور کسرِ ”ث“ اور جزم ”ق“ سے مراد کوئی گرانقدر چیز.

۱۶۷۔فیض القدیر ،ج/۳ص/۱۴

۱۶۸۔صواعق محرقہ ،عسقلانی ،حدیث ۱۳۵

۱۶۹۔ ینابیع المودة ص/۳۲وص/۴۰

۱۷۰۔ مستدرک ،حاکم ،ج/۳ص/۱۰۹ وغیرہ

۱۷۱۔ بحار الانوار ج/۲۲ص/۷۶نقل از مجالس مفید

۱۷۲۔ الصواعق المحرقہ ،ص/۷۵

۱۷۳۔احتجاج ج/۱،ص/۲۱۰

۱۷۴۔احتجاج طبرسی،ص/۲۲۸

۱۷۵۔جزء دوم از جلد دوازدھم ،ص/۹۱۴کے بعد ملاحظہ فرمائیں۔

۱۷۶۔ مستدرک حاکم ،ج/۳،ص/۳۴۳۔کنز العمال ،ج/۱،ص/۲۵۰۔صواعق،ص/۷۵۔ فیض القدیر،ج/۴،ص/۳۵۶۔