امت کی رہبری

امت کی رہبری11%

امت کی رہبری مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

امت کی رہبری
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 38 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18582 / ڈاؤنلوڈ: 4218
سائز سائز سائز
امت کی رہبری

امت کی رہبری

مؤلف:
اردو

گیارہویں فصل

سقیفہ بنی ساعدہ کی غم انگیر داستان

پیغمبرکی تشویش کھیں امت جاہلیت کی طرف پلٹ نہ جائے !

قرآن مجید کی آیات اور تاریخی قرائن اس امر کے شاہد ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلامی معاشرے کے مستقبل کے بارے میں سخت فکر مند تھے ۔ اور (غیبی الھامات سے قطع نظر ) بعض سلسلہ وار ناگوار حوادث کو دیکھتے ہوئے آپ کے ذھن میں یہ احتمال تقویت پارہا تھا کہ ممکن ہے ایک گروہ یا بھت سے لوگ آپ(ع)کی رحلت کے بعد جاہلیت کے زمانے کی طرف پلٹ جائیں اور سنن الھی کو پس پشت ڈال دیں اس احتمال اور خدشہ نے اس وقت آپ(ع)کے ذھن میں اور زیادہ قوت پائی جب آپ(ع)نے جنگ اُحد میں (جب دشمن کی طرف سے پیغمبر اسلام کے قتل ہونے کی افواہ پھیلائی گئی تھی ) اس بات کا عینی مشاہدہ کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت نے بھاگ کر پھاڑوں اور دور دراز علاقوں میں پناہ لے لی۔ اور بعض لوگوں نے فیصلہ کرلیا کہ منافقوں کے سردار ” عبدالله ابن ابی “ کے ذریعہ ابو سفیان سے امان حاصل کریں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کا مذہبی عقیدہ اتنا کمزور اور متزلزل ہوا تھا کہ وہ خدا کے بار ے میں بد گمان ہو کر جاہلانہ افکار کے مرتکب ہوگئے تھے ۔ قرآن مجید نے اس راز کا یوں پردہ چاک کیا ہے :

( وَ طاَئِفةٌ قَدْاهمتهُمْ انْفُسُهُمْ یِظُنُّونَ بَاللهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهلیَّةِ یَقُولُونَ هَلْ لَّنٰا مِن َ الامْرِ شَیْءٌ ) (۴۳)

(اصحاب پیغمبر میں سے ایک گروہ کو ) اپنی جان کی اس قدر فکر تھی کہ وہ خداکے بارے میں دور ان جاہلیت کے جیسے باطل خیالات کے مرتکب ہوگئے تھے اور وہ یہ کھہ رہے تھے کہ آیا (مسلمین پر حاکمیت ) جیسی کوئی چیز ہم پر ہے ؟

قرآن مجید ایک اور آیہ کریمہ میں اصحاب رسول خدا کے آپسی اختلافات کے بارے میں اشارتاً خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے :

( وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِه الرُّسُلُ افَإِنْ مَاتَ اوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَٰی اعْقَٰبِکُمْ وَ مَنْ یَنقَلِبْ عَلَٰی عَقِبَیْه فَلَنْ یَضُرَّ اللهَ شیْئاً وَ سَیَجْزِی اللهُ الشَّٰکِرِینَ ) (۴۴)

” اور محمد تو صرف خدا کی جانب سے ایک رسول ہیں جن سے پہلے بھت سے رسول گذر چکے ہیں کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل ہوجائیں تو تم الٹے پیر پلٹ جاؤ گے ؟ تو جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا دے گا “۔

یہ آیہ شریفہ اصحاب رسول خدا کو دو حصوں یعنی عصر جاہلیت کی طرف لوٹ جانے والے اور ” ثابت قدم و شکر گزار “ گروہ میں تقسیم کرکے اشارتاً یہ بیان کرتی ہے کہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد مسلمان افتراق و اختلاف کے شکار ہو کر دو گروہ میں بٹ جائیں گے ایک گروہ عصر جاہلیت کی طرف پلٹ جائے گااور دوسرا گروہ ثابت قدم و شکر گذار رہے گا ۔

کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ پیغمبر اسلام ایک ایسی امت کو جو اختلاف و افتراق سے دو چارہو ، اپنے حال پر چھوڑ دیں اور ان کےلئے ایک امام و پیشوا اور حاکم و فرمان روا مقرر نہ فرمائیں؟

پیغمبر کےلئے یاقومی اتحاد کے قائل افراد کےلئے بھی یہ ہر گز جائز نہیں کہ ایک ایسے لوگون کی اجتماعی و سیاسی زندگی کی باگ ڈورخود ان کے ھاتہ میں دیدیں ، بلکہ حالات پر قابو رکھنے کےلئے لازم بن جاتا ہے کہ ایک لائق اور قابل شخص کو امت کے امام و پیشوا کی حیثیت سے مقرر کیا جائے تا کہ حتی الامکان اختلاف و افتراق اور ناامنی سے معاشرے کو بچایا جاسکے ۔

پیغمبر اسلام جانتے تھے کہ آپ کی امت میں اختلاف و افتراق پایا جاتا ہے اور یہ امت بھی گزشتہ امتوں کی طرح مختلف گروہوں میں بٹ جائے گی ، حتی آپ نے اپنی امت کے بارے میں پیشینگوئی کے ذریعہ فرمایا ہے :

” ستفترق امتی علی ثلاث و سبعین فرقة ، فرقة ناجیة و الباقون فی النار“

عنقریب میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے صرف ایک گروہ اہل نجات ہوگا اور باقی فرقے جھنمی ہوں گے“(۴۵)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اطلاع و آگاہی رکھنے کے باوجود کہ امت کی رہبری کا انتخاب بھت سے اختلافات کا سد باب بن سکتا ہے کس طرح اس اہم امر کو ایک متلون مزاج جمعیت کے سپرد کیا ، جس کے نتیجہ میں امت میں یہ وسیع اختلافات و شگاف پیدا ہوگیا ؟!

اسلامی سماج ، ان دنوں مختلف گروہوں میں بٹ گیا تھا اور ہر گروہ ایک آرزو اور مقصد رکھتا تھا: انصار دو معروف گروہوں یعنی ” اوس“ و ” خزرج“ پر مشتمل تھے ، اور مھاجر ، بنی ھاشم اور بنی امیہ کے علاوہ قبائل ” تیم “ اور ” عدی “ پر مشتمل تھے ۔ ہر گروہ چاہتا تھا معاشرے کی قیادت اس کے ھاتہ میں آجائے اور ان کے قبیلہ کا سردار اس عھدہ کا مالک بنے ۔

کیا ان متضاد گروہوں کے ہوتے ہوئے امت میں اتحاد و یکجھتی اور دین کے سلسلے میں مسلمانوں کے استحکام و پائیداری کی امید کی جاسکتی ہے یا سب سے پہلے اختلاف و افتراق کے اسباب کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہیے تب ایسی امید رکھنی چاہئے ؟

پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی صفوں میں جوسب سے بڑی دراڑ پیدا ہوئی اور جس سے ان کے اتحاد و یکجھتی پر کاری ضرب لگی وہ اسلامی قیادت کے بارے میں اختلاف نظر کا سبب تھا ۔ اگر مسلمان اس موضوع پر اختلاف و افتراق کے شکار نہ ہوتے تو بھت سے اختلافات قیادت کے مسئلہ میں اتفاق نظر اور اتحاد کی وجہ سے حل ہوجاتے ۔ لیکن اسی اہم اور بنیادی امر پر اختلاف ہی بعد والے اختلافات ، جنگوں اور فتنوں کا سبب بنا نتیجہ کے طور پر امت مختلف گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم ہوگئی اور بعض گروہ ایک دوسرے کی مخالفت اور ٹکراؤ پر اتر آئے ۔

اہل سقیفہ کی منطق

قرآن مجید یاران پیغمبر کو تنبیہ کرتا ہے کہ مبادا آپ کی رحلت کے بعد وہ زمانہ جاہلیت کے افکار کی طرف پلٹ جائیں۔

سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے گروہ کی سرگزشت کی تحقیقات اورمطالعہ سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اس دن پوشیدہ اسرار اور کینہ و عداوت سے پردے اٹہ گئے اور اصحاب رسول کی گفتگو میں ایک بار پھر قومی اور قبیلہ ای تعصبات اور جاہلیت کے افکار رونما ہوئے اور واضح ہوگیا کہ اسلامی تربیت نے ابھی بھت سے اصحاب رسول کے دلوں کی گھرائیوں تک رسوخ نہیں کیا تھا اور اسلام ، جاہلیت کے منحوس چھرے پر ایک نقاب کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

اس تاریخی واقعہ کے مطالعہ اور تحقیق سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اس اجتماع کا مقصد کیا تھا،جھگڑالوں تقریروں ،ایک دوسرے پر حملوں کا مقصد ذاتی منفعت طلبی اور سود جوئی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہر شخص خلافت کا لباس شائستہ ترین شخص کو پھنانے کے بجائے اپنے بدن پر زیب تن کرنے کی کوشش میں تھا ، اور جو موضوع اس مجلس میں زیر بحث نہ آیا وہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت عامہ یا اس منصب کےلئے ایک شائستہ ترین فرد کی تلاش کرنا تھا ، جو عقلمندانہ تدبیر ، وسیع علم ، عظیم روح اور پسندیدہ اخلاق سے اسلام کی ڈوبتی کشتی کو ساحل تک پھنچانے میں قیادت کے فرائض انجام دیتا ۔

حادثہ سقیفہ کے مطالعہ و تجزیہ سے بخوبی پتا چلتا ہے کہ سقیفہ کے ہدایت کار اپنے اور اپنے منافع کے علاوہ کوئی اور فکر نہیں رکھتے تھے اور ہر شخص اپنا الو سیدھا کرنے کی فکر میں تھا۔

تاریخی المیہ !

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا جسداطھر ابھی زمین پر تھا ، بنی ھاشم اور آنحضرت کے بعض سچے اصحاب ، پیغمبر اسلام کی تجھیز و تکفین کے مقدمات میں مصروف تھے کہ اچانک انصار کا گروہ پیغمبر اسلام کے گھر سے چند قدم کی دوری پر ” سقیفہ بنی ساعدہ'' نام کے ایک سائبان کے نیچے جمع ہوا تا کہ پیغمبر اکرم کا خلیفہ و جانشین مقرر کرے۔ گویا ان لوگوں کی نظر میں خلیفہ کا تقرر پیغمبر اسلام کی تجھیز و تکفین و تدفین سے انتھائی فوری اوراہم مسئلہ تھا !۔

جس وقت حضرت علی علیہ السلام بنی ھاشم اور مھاجرین کے ایک گروہ کے ہمراہ گھر کے اندر اور اس کے باہر پیغمبر اسلام کی نماز جنازہ اور تدفین کی تیاریوں میں مصروف تھے ، اچانک حضرت عمر نے جو گھرکے باہر تھے ، انصار کے سقیفہ میں جمع ہونے کی خبر سنی ۔ کسی کے ذریعہ فوراً حضرت ابو بکر کو اطلاع دی کہ جتنی جلد ہوسکے گھر سے باہر آئے ۔ حضرت ابوبکر حضرت عمر کے بلاوے کے سبب سے آگاہ نہ تھے اس لئے عذر خواہی کے ساتھ جواب دیا کہ : ” میں یہاں پر کام میں مصروف ہوں لیکن آخر کار حضرت عمر کے اصرار پر مجبور ہوکر گھر اور پیغمبر کے جسد اطھر کو چھوڑ کر باہر آئے ۔ جب وہ بھی حضرت عمر کی طرح ماجرا سے آگاہ ہوئے توانھوں نے بھی سب کچھ چھوڑ کر سقیفہ کی راہ لی ۔دونوں سقیفہ کی طرف چلے اور ابو عبیدہ ابن جراح کو بھی اپنے ساتھ لئے گئے ۔اب ذرا غور سے طرفین کے مناظرہ اور استدلال کو سنیے کہ یہ لوگ کس منطق کے تحت خود کو اور اپنے قبیلہ کو خلافت کےلئے دوسرے سے لائق و شائستہ سمجھتے تھے۔

اس جلسہ میں انصار کے ترجمان سعد بن عبادہ اور حباب بن منذر تھے اور مھاجرین کی ترجمانی کا فریضہ ابوبکر ، عمر اور ابو عبیدہ انجام دے رہے تھے ، آخر میں انصار کی طرف سے بھی دو افراد نے سعد بن عبادہ کے کام میں روڑے اٹکانے کےلئے تقریریں کی ۔ اب پورا قضیہ ملاحظہ ہو :

سعد (انصار سے مخاطب ہوکر ) : تم لوگ ایسی فضیلت اور برتری کے مالک ہو کہ دوسرے اس سے محروم ہیں ، پیغمبر گرامی نے سالھا سال اپنے لوگوں کو توحید کی دعوت دی ، لیکن چند لوگوں کے علاوہ کوئی آپ پر ایمان نہ لایا اور وہ بھی آپ کا دفاع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ لیکن تم لوگ انصار ! آنحضرت پر ایمان لائے آنحضرت اور آپ کے اصحاب کا دفاع کیا ۔ آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی جس کے نتیجہ میں لوگوں نے آپ کا دین قبول کیا ۔ یہ تم لوگوں کی تلواریں تھیں جس کی وجہ سے عرب آنحضرت کے سامنے ھتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے ۔ جب پیغمبر اسلام اس دنیا سے رخصت ہوئے تو تم لوگوں سے راضی اور پر امید تھے اس لحاظ سے ضروری ہے کہ امر خلافت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لے لو کیونکہ تم لوگ اس امر میں تمام لوگوں سے شائستہ اور بہتر ہو ۔(۴۶)

سعد کی منطق یہ تھی ، چونکہ ہم نے پیغمبر اور آپ کے اصحاب کو پناہ دی ہے ، آپ اور آپ کے اصحاب کا دفاع کیا ہے اور آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی ہے اس لئے ہم قیادت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لینے میں دوسروں سے سزاوار اور لائق ہیں ۔

اب دیکھئے کہ اس کے مقابلے میں مھاجرین کی منطق کیا تھی؟

حضرت ابو بکر :مھاجرین اولین گروہ ہیں جو دین پیغمبر پر ایمان لائے اور اس فضیلت پر افتخار کرتے ہیں ۔ انھوںنے مشکلات اور سختیوں میں صبر و تحمل سے کام لیا ہے ، افراد کی کمی پر نہیں ڈرے ہیں ، دشمنوں کی اذیتوں کو برداشت کیا ہے اور آنحضرت پر ایمان اور آپ کے دین سے منہ نہیں موڑا۔ ہم ، آپ ، انصار کے فضائل اور خدمات سے ہر گز انکار نہیں کرتے اور بے شک مھاجرین کے بعد دیگر لوگوں پر آپ فضیلت اور برتری رکھتے ہیں ۔ اس لئے قیادت و رہبری کی باگ ڈور مھاجرین کے ھاتہ اور وزارت آپ لوگوں کے ھاتہ میں ہوگی اور ہم حاکم ہوں گے اور آپ وزیر اور کوئی بھی کام آپ لوگوں کے مشورہ کے بغیر انجام نہیں پائے گا(۴۷)

مھاجرین کی برتری کا استدلال یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں اور آپ کے دین کو قبول کیا ہے ۔

حباب بن منذر : اے جماعت انصار ! حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ھاتہ میں لے لو۔ دوسرے لوگ تمھاری ہی قدرت کے سائے میں زندگی بسر کرتے ہیں اور کوئی تمھارے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی جرات نہیں کرسکتا تم لوگ صاحب قدرت ہو اور تعداد میں بھی زیادہ ہو۔اپنی صفوں میں ہر گز اختلاف و تفرقہ پیدا نہ ہونے دو، اختلاف کی صورت میں تباہی اور بردباری کے سوا کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ اگر مھاجرین نے اقتدار پر قبضہ کرنے پر اصرار کیا تو ہم مسئلہ کو ” دو امیر“ کے طریقے سے حل کریں گے اور ایک قائد اور حاکم ہم میں سے اور ایک حاکم ان میں سے مقرر ہوگا(۴۸)

اس مناظرہ میں انصار کی منطق افراد کی کثرت اور ان کے دھڑے کی طاقت پر منحصر ہے ۔ وہ کھتے ہیں چونکہ ہم طاقتور ہیں اس لئے حاکم ہم میں سے ہونا چاہئے ۔

حضرت عمر: ایک غلاف میں ہرگز دو تلواریں نہیں سما سکتی ہیں۔ خدا کی قسم عرب تم لوگوں کی فرمانروائی کے سامنے ہرگز تسلیم نہیں ہوں گے کیونکہ ان کا پیغمبر آپ لوگوں میں سے نہیں ہے۔ لیکن اگر حکومت پیغمبر کے کسی رشتہ دار کے ھاتہ آئے تو عرب کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا ۔ کس کی جرات ہے کہ اس حکومت کے بارے میں ہمارا مقابلہ کرے اور ہم سے لڑے جس کی داغ بیل حضرت محمد نے ڈالی ہے ، جب کہ ہم آپ کے رشتہ دار ہیں ۔

اس گفتگو میں حضرت عمر نے زمام حکومت کو ھاتہ میں لینے کا معیار پیغمبر کے ساتھ اپنی رشتہ داری اور قرابت کو قرار دیا اور اس طرح مھاجر اور ان میں قبیلہ قریش کو خلافت کےلئے شائستہ و حقدار جتلایا ہے (۔۴۹)

” حباب بن منذر“ نے ایک بار پھر انصار کی طاقت کا سھارا لیتے ہوئے کھا:

اے انصار کی جماعت ! عمر اور اس کے ہم فکروں کی بات پر کان نہ دھرو وہ تم لوگوں سے قیادت اور فرمان روائی چھیننا چاہتے ہیں ۔ اگر انھوں نے ہماری بات نہ مانی تو ان سب کو اس سرزمین سے نکال باہر کرو تم لوگ اس کام (فرمانروائی) کےلئے دوسرے لوگوں سے زیادہ شائستہ ہو ۔ تم ہی لوگوں کی تلواروں کی جھنکار کے نتیجہ میں لوگوں نے یہ دین قبول کیا ہے ۔

عمر : خدا تجھے موت دے

حباب : خدا تجھے موت دے۔

ابو عبیدہ نے گویا انصار کو ایک رشوت دیتے ہوئے مھاجرین کو حکومت دیئے جانے کی یوں تائید کی :

اے انصار کی جماعت ! تم لوگ وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے پیغمبر اسلام کی حمایت اور مدد کی اب یہ ہر گز سزاوار نہیں ہے کہ تم ہی لوگ سب سے پہلے پیغمبر کی سنت کو بھی بدل دو۔

یہاں پر انصار میں سے سعد بن عبادہ (جو خلافت کےلئے انصار میں سے تقریباً آدھے لوگوں کا امیدوار تھا )کا چچیرا بھائی بشیر بن سعد ، اٹہ کھڑا ہوا ، امیدتھی وہ انصار کے حق میں بول کر قضیہ کو ختم کردے گا لیکن اس نے اس کے برخلاف ، سعد بن عبادہ کے ساتھ اپنی دیرینہ عداوت کی وجہ سے حضرت عمر کے استدالال کی تائید کی اور اپنے رشتہ داروں کی طرف مڑکر کھا:

محمد قریش میں سے ہیں اور آپ کے رشتہ دار خلافت کےلئے دوسروں سے اولیٰ اور شائستہ ہیں ، میں یہ ہرگز نہیں دیکھنا چاہتا کہ آپ لوگ اس مسئلے میں ان سے ٹکرائیں طرفین نے اپنی اپنی بات سنادی اور کوئی دوسرے کو مطمئن نہ کرسکا تو حضرت ابو بکر نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک تجربہ کار سیاستداں کی طرح ایک نئی تجویز پیش کی اور ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ دو آدمیوں کو پیش کرے تا کہ لوگ ان دونوں میں سے ایک کی بیعت کرلیں ، خاص کر انھوں نے مشاہدہ کیا کہ انصار میں اتفاق رائے نہیں ہے اور بشیر بن سعد ، سعد بن عبادہ (قبیلہ خزرج کے سردار ) کا مخالف ہے ۔

اس لئے ایک خاص انداز میں بحث و مباحثہ کو ختم کرتے ہوئے بولے:

” میری درخواست ہے کہ مھربانی کرکے اختلاف و تفرقہ سے پرہیز کیجئے میں آپ لوگوں کا خیر خواہ ہوں ، بہتر ہے بات کو مختصر کیجئے اور عمرو ابو عبیدہ میں سے کسی ایک کی بیعت کر لیجئے“

عمرو ابوعبیدہ دونوں نے کھا:

ہمارے لئے ہرگز یہ مناسب نہیں ہے کہ آپ جیسی شخصیت کے ہوئے ہوئے حکومت و خلافت کی باگ ڈور ہم اپنے ھاتہ میں لے لیں ۔ مھاجرین میں سے کوئی بھی آپ کے برابر نہیں ہے ۔ آپ غار ثور میں پیغمبر کے ہمنشین تھے ،آپ نے پیغمبر کی جگہ پر نماز پڑھائی ہے اور آپ کی مالی حالت بھی بہتر ہے ، اپنے ھاتہ کو آگے بڑھائے تا کہ ہم آپ کی بیعت کریں۔

یہاں پر حضرت ابو بکر نے بلاکسی تکلف کے بغیر کچھ کھے اپنا ھاتہ پھیلادیا اور دل میں موجود راز سے پردہ اٹھادیا ، اور یہ بات کھل گئی کہ عمر اور ابو عبیدہ کو آگے بڑھانے کا مقصد اپنے لئے راہ ہموار کرنے کے علاوہ کچھ اور نہ تھا۔

لیکن اس سے پہلے کہ عمر ، ابو بکر کے ھاتہ پر بیعت کرے ، بشیر بن سعد نے سبقت کی اور حضرت ابو بکر کے ھاتہ پر دوسروں سے پہلے بیعت کی۔ اس کے بعد عمر اور ابو عبیدہ نے بھی جانشین رسول کی حیثیت سے حضرت ابو بکر کی بیعت کی۔ اسی وقت گروہ انصار میں وہ گھری دراڑ پڑگئی جس کا امکان بشیر کی تقریر کے بعد پیدا ہوچکا تھا ۔ اس طرح انصار کی ناکامی قطعی ہوگئی۔

حباب بن منذر ، بشیر کی بیعت (جو خود انصار میں سے تھا ) پر آگ بگولا ہوگیا اور فریاد بلند کرتے ہوئے بولا: بشیر ! تم نے نمک حرامی کی اور اپنے چچیرے بھائی سے رشک کی بنا پر اسے حاکم بننے نہیں دیا۔

بشیر نے کھا:

ھر گز ایسا نہیں ہے بلکہ میں یہ نہیں چاہتا تھاکہ خدا نے جو حق گروہ مھاجر کےلئے مخصوص کیا تھا ، اس پر جھگڑا برپا کروں۔

” اسید بن حضیر“ قبیلہ اوس کا سردار__جس کے دل میں ابھی بھی خزرج کے سردار کی طرف سے کینہ تھا__ اٹھا اور اپنے قبیلہ سے مخاطب ہوکر بولا :

اٹھوا اور ابو بکر کی بیعت کرو ، کیونکہ اگر سعد حکومت کی باگ ڈور اپنے ھاتہ میں لے لے گا تو قبیلہ خزرج ہم پر ایک قسم کی برتری پیدا کرلے گا اس پر قبیلہ اوس نے بھی اپنے سردار کے حکم سے حضرت ابو بکر کی بیعت کر لی۔

اس موقع پر سیدھے سادھے لوگوں کی جماعت جن میں فکری شعور نہیں پایا جاتا اور جو اپنے سردار کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے حضرت ابو بکر کی بیعت کےلئے اس طرح آگے بڑھے کہ سعد قدموں تلے روند ڈالا گیا۔

ایک نامعلوم شخص نے پکارتے ہوئے کھا:

خزرج کا سردار پیروں تلے روند ڈالا گیا ! اس کا خیال کرو!

لیکن حضرت عمر اس بے احترامی سے خوش ہوئے اور کہا :

خدا اسے موت دے ، کیونکہ ہمارے لئے ابو بکر کی بیعت سے بالاتر کوئی چیز نہیں ہے !

خود حضرت عمر جب بعد میں سقیفہ کا ماجرا بیان کرتے تھے تو حضرت ابو بکر کے حق میں اپنی بیعت کی وضاحت یوں کرتے تھے :

اگر ہم اس دن نتیجہ حاصل کئے بغیر جلسہ کو ترک دیتے تو ممکن تھا ہمارے چلے جانے کے بعد انصار اتفاق رائے پیدا کرلیتے اور اپنے لئے کسی قائد کا انتخاب کرلیتے ۔

بالآخر سقیفہ کا جلسہ بیان شدہ صورت میں خلافت کےلئے حضرت ابو بکر کے انتخاب کے اوپر ختم ہوا اور حضرت ابو بکر مسجد رسول کی طرف بڑھے جبکہ حضرت عمر ، ابو عبیدہ اور قبیلہ اوس کا ایک گروہ انہیں اپنے درمیان میں لئے ہوئے تھا اور سعد بھی اپنے تمام ساتھیوں کے ہمراہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا(۵۰)

____________________

۴۳۔آل عمران /۱۵۴۔

۴۴۔آل عمران : ۱۴۴

۴۵۔ صحیح ابن ماجہ ، باب فتن و غیرہ ۔

۴۶۔الامامة و السیاسة ج ۱، ص ۵

۴۷۔ الامامة و السیاسة ج ۱ ، ص ۵۔

۴۸۔انصار نے دو امیروں کی تجویز پیش کرکے اپنے پیروں پر کلھاڑی ماری ۔ اس مقابلہ میں ایک قدم پیچھے ھٹے اور مھاجرین کے مقابلے میں اپنے ضعف و کمزوری کا اعتراف کیا ۔ اس لئے جب قبیلہ خزرج کے سردار نے ” حباب“ سے یہ بات سنی تو انتھائی افسوس کے ساتھ بول اٹھا : ھذا اول الوھن ، یہ تجویز ہماری کمزوری کی نشانی ہے

۴۹۔ آیندہ بحث میں اس سلسلے میں امیر المؤمنین کی تنقید بیان ہوگی۔

۵۰۔ حادثہ سقیفہ کی تفصیلات کو تاریخ طبری ج۳،(حوادت سال یازدھم ) اور الامامة و السیاسة ، ابن قتیبہ دینوری ج۱، اور شرح ابن ابی الحدید ج۲ ص ۲۲ ۔۶۰ سے نقل کیا گیا ہے ۔

دوسری فصل

امامت کے سلسلہ میں دو نظر یئے

خلافت ،علمائے اہل سنت کی نظر میں ،ایک ایسا اجتماعی و سماجی عھدہ و منصب ہے جس کے لئے اس سے مخصوص مقاصد کی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کوئی اور شرط نہیں ہے۔جب کہ شیعی نقطہ نظر سے امامت ایک الٰہی منصب ہے جس کا تعین خدا کی طرف سے ضروری ہے اور وہ بھت سے حالات اور ذمہ داریوںمیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے برابر و یکساں ہے۔

لھٰذا امامت کی حقیقت کے سلسلے میں علماء کے یہاں دو نظر یئے پائے جاتے ہیں ایک نظریہ اہل سنت کے علماء کا ہے اور دوسرا شیعہ علماء کا نظریہ ہے :

الف۔ علمائے اہل سنت کا نظریہ -:

علمائے اہل سنت کی عقائد و کلام کی کتابیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ امامت ان کی نظرمیں وسیع پیمانہ پر مسلمانوں کے دینی و دنیوی امور کی سر پرستی ہے اور خود ”امام “اور ان کی اصطلاح میں ”خلیفہ“ وہ شخص ہے جو پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد اس منصب کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کے دینی و دنیاوی امور سے مربوط ہر گرہ اسی کے ذریعہ کھلتی ہے۔

یہ علماء ،امامت کی یوں تعریف کرتے ہیں :

”الامامة رئاسة عامة فی امور الدین و الدنیا خلافة عن النبی(ص ) (۵)

اہل سنت کے نظر یہ کے مطابق یہ عظیم دینی و اجتماعی عھدہ و منصب ایک سماجی بخشش ہے جو لوگوں کی طرف سے خلیفہ کو عطا ہوئی ہے اور خلیفہ انتخاب کے ذریعہ اس مرتبہ پر فائز ہوا ہے ۔ خلیفہ کی ذمہ داریوںکا دائرہ بھی مذکورہ تعریف میں پورے طور سے مشخص کر دیا گیا ہے۔

الف:۔دینی امور کی سرپرستی : اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کے دینی مشکلات خلیفہ کے ھاتھوں حل ہوتے ہیں مثلا پوری دنیا میں جھاد کے ذریعہ اسلام کی توسیع ایک دینی امر ہے جس کا عھدہ دار امام کو ہونا چاہئے ۔

ب: ۔ دنیاوی امور کی سرپرستی : امام و خلیفہ کو چاہئے کہ طاقت کے ذریعہ عمومی امن و امان قائم کرے اور لوگوں کے اموال ان کی ناموس اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے۔

اس تعریف اورخلیفہ کے سپرد کی گئی ذمہ داریوں پر غور کرنے سے ایک حقیقت سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ امام یا خلیفہ ان کے نقطہ نظر سے ایک فرعی اور ایک سماجی حاکم ہے جو ملکی قوانین کا اجراء کرنے عمومی امن و امان قائم کرنے اور سماجی عدل وانصاف برقرار کرنے کے لئے منتخب ہوا ہے اور اس طرح کی حاکمیت کے لئے لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی اور چیز کی شرط نہیں ہے (نہ اسلامی احکام کے کلی و وسیع علم کی ضرورت ہے اور نہ سھو وخطا سے معصوم ہونے کی ضرورت ہے)

دوسرے لفظوں میں کوئی بھی معاشرہ چاہے جتنا بھی گناہ اور فسادسے پاک ہو پھر بھی برائی پورے طور سے اس سے دور نہیں ہوتی اور کھیں نہ کھیں گوشہ و کنار میں ایسے شر یر افراد ضرور نظر آتے ہیں جو جوا وشراب کی طرف ھاتھ بڑھاتے نظر آتے ہیں یا لوگوں کے عمومی اموال و جائداد پر زبردستی ڈاکاڈالتے ہیں اور ان پر قابض ہو جاتے ہیں یا لوگوں کی عزت و ناموس پر حملے کی فکر میں رہتے ہیں۔

اس لئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد ایک ایسے شائستہ و لائق شخص کی ضرورت ہے جو گناہ گاروں اور فسادیوں کی الٰہی قانون کی روشنی میں تنبیہ کرکے اس طرح کی برائیوں اور آلودگیوں کو روکے ۔یہ اور اسی طرح کے امور وہ ہیں جو انسان کی دنیا سے مربوط ہیں، جن کی سرپرستی پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد امام کے حوالے کی گئی ہے۔

مذکورہ امور کے مقابل کچہ دوسرے امور بھی ہیں جو دنیا میں اسلام کی ترقی اور پھیلاؤ سے مربوط ہیں اور جن کا تعلق انسان کے دین سے ہے ۔ مثلاً امام کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اسلحوں سے لیس ایک منظم اور مضبوط فوج تیار کرے جو نہ صرف اسلامی سرحدوں کو ہر طرح کے باہری حملوں سے محفوظ رکھے بلکہ اگر ممکن ہو تو جھاد کے ذریعہ توحید کا پیغام پوری دنیا میں پھیلاسکے۔

اب یہاں آپ یہ کھیں گے کہ پھر لوگ اپنے حرام و حلال اور دینی و علمی مسائل کس سے دریافت کریں گے، اور اس عھدہ کا ذمہ دار کون ہوگا ؟ تو اس کے جواب میں علمائے اہل سنت کھیں گے کہ اصحاب پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جنھوں نے آنحضرت سے حرام و حلال کے احکام سیکھے ہیں اس طرح کے مسائل میں امت کے مرجع ہیں ۔

اگر امام کی ذمہ داری ان ہی امور کی دیکہ بھال میں منحصر ہو ،جنہیں ہم نے اہل سنت کی زبانی نقل کیاہے ، تو ظاہر ہے کہ ایسے امام کے لئے صرف تھوڑی سی لیاقت و شائستگی کے علاوہ کسی بھی اخلاقی فضیلت اور انسانی کمال کی ضرورت نہیں ہے ، چہ جائیکہ اس کے بارے میں وسیع علم اور خطا و گناہ سے بچانے والی عصمت کی شرط رکھی جائے۔

افسوس کہ امام کا معنوی و روحانی مرتبہ و منصب اہل سنت کی نظر میں رفتھ رفتھ اس قدر گر گیا کہ قاضی باقلانی جیسا شخص پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتاہے کہ خلیفہ و امام پست ترین اخلاقی خصلتوں کی غلاظت اور اپنے کالے سیاسی کارناموں کے باوجود امت کی قیادت و رہبری کے منصب پر باقی رہ سکتا ہے !وہ کھتا ہے :

لا یخلع الامام بفسقه و ظلمه بغصب الاموال و تناول النفوس المحترمة و تضییع الحقوق و تعطیل الحدود(۶)

یعنی امام اپنے فسق وفجور اور ظلم کے ذریعہ ،لوگوں کے اموال غصب کرکے ، محترم افراد کو قتل کرکے ،حقوق کو ضائع کرکے اور الٰہی حدود و قوانین کو معطل کرکے بھی اپنے منصب سے معزول نہیں ہوتا بلکہ یہ امت پر ہے کہ اس کی برائیوں کو درست کریں اور اس کی و ہدایت کریں!

اور ہمیں مزید تعجب نہ ہوگا اگر ہم محقق تفتازانی جیسے عالم کو خلیفہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے بارہ میں ایسے خیالات کا اظھار کرتے ہوئے دیکھیں،وہ لکھتے ہیں:

یہ ہرگز ضروری نہیں کہ امام لغزش اور گناہ سے پاک ہو یاامت کی سب سے اعلیٰ فرد شمار ہو۔ امام کی نافرمانی اور الٰہی احکام سے اس کی جھالت منصب خلافت سے اس کی معزولی کا سبب ہرگز نہیں ہوسکتی(۷)

خلیفہ اسلام کے بارے میں اس طرح کے فیصلوں اور نظریوں کی بنیاد یہ ہے کہ ان لوگوں نے امام کو ایک عرفی اور انتخابی حاکم سمجہ لیا ہے ۔کیونکہ ایک عرفی حاکم کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ نظام کو چلانے اور معاشرہ میں آرام و سکون برقرار کرنے کی لازمی صلاحیت رکھتا ہو اور فسادیوں کو کنٹرول کرسکے ۔خود اس کا گناہ سے آلودہ ہونا یا اس کی غلطیاںاس منصب کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتیں جس کے لئے وہ منتخب ہواہے ۔

ب۔ شیعہ علماء کا نظریہ :

مذکورہ بالا نظریہ کے مقابل ایک دوسرا نظریہ بھی ہے جس پر شیعہ علماء تکیہ کرتے ہیں ۔یہ نظریہ کھتاہے کہ :امامت ایک طرح کی الٰہی ولایت ہے جو خداوند عالم کی جانب سے بندہ کو دی جاتی ہے۔ واضح الفاظ میں یوں کھیں کہ : امامت ،نبوت کی طرح ایک انتصابی منصب ہے اور اس کا عھدہ دار خود خدا کی طرف سے ،معین و منصوب ہوتا ہے ۔

اس بنیاد پر امام رسالت ہی کا سلسلہ ہے فرق یہ ہے کہ پیغمبر شریعت کی بنیاد رکھنے والا اورآسمانی پیام لانے والاہے اور امام شریعت کو بیان کرنے والا اور اس کا محافظ و نگھبان ہے ۔امام ، نزول وحی کے علاوہ تمام مراتب میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے برابر اور قدم بقدم ہے اور وہ تمام شرائط جوپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے ضروری و لازم قرار دیے گئے ہیں (مثلاً اسلام کے معارف،اس کے اصول و فروع اور احکام کا علم اور ہر طرح کی خطاو گناہ سے اس کا محفوظ ہونا) بعینہ امام کے لئے بھی لازم و ضروری ہیں۔

یہ نظریہ رکھنے والے معتقد ہیں کھ: صحیح ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)لوگوں کے لئے مکمل دستور حیات لائے اور انھوں نے اسلامی تعلیمات اور دین حق کے تمام کلیات لوگوں کے حوالے کردئیے لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی حیات کے بعد کوئی تو ایسا شخص ہونا چاہئے جو ان کلیات سے جزئی احکام کو استنباط کرے اورنکالے اور یہ کام علم (اور وہ بھی وسیع اور خدا داد علم )کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

صحیح ہے کہ اسلام کے تمام احکام کی تشریح پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے زمانہ میں ہوئی ہے اور یہ احکام وحی الٰہی کے ذریعہ انہیں بتائے گئے ہیں۔لیکن مساعدحالات نہ ہونے یا روزانہ پیش آنے والے نئے مسائل کے حل کے لئے احکام کا بیان امام کے ذمہ بھی کیا گیا ہے ،اور اس منصب کا سنبھالنا اللہ سے وابستہ اور مستند علم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اسی لئے شیعوں کا اعتقاد ہے کہ امام کو شریعت کے تمام امور سے واقف و آگاہ ہونا چاہئے۔(۸)

لیکن امام معصوم کیوںھو؟تو جواب یہ ہے کہ شیعہ امام کو امت کا معلم و مربی جانتے ہیں اور تربیت سب سے زیادہ عملی پہلو رکھتی ہے اور مربی کے عمل کے ذریعہ انجام پانی چاہئے۔اگر مربی خود قانون توڑنے والا اور حدود کو پھچاننے والا نہ ہوتو لوگوںپر مثبت اثر کیسے ڈال سکے گا؟لھٰذا یہ نظریہ کھتا ہے کہ امت کے لئے ایسے شخص کی شناخت وسیع و خداداد علم اور ہمہ جھت عصمت کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور امام کو خدا کی جانب سے منصوب ہونا چاہئے۔

یہ دو نظریے ہیں جو ان دونوں گروہوں کے علماء کے ذریعہ بیان ہوئے ہیں۔اب ہم دیکھیں کہ ان میں سے کون سا نظریہ صحیح و استوا ر نیز قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی معتبر حدیث سے سازگار ہے ۔

____________________

(۵) شرح تجرید ،علاء الدین قوشجی ص/۴۷۲۔ اس کے علاوہ اور بھی تعریفیں علماء اہل سنت نے بیان کی ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر ہم ان سے گریز کرتے ہیں۔

(۶)التمھید ص/۱۸۶

(۷)شرح مقاصد ،ج/۲،ص/۲۷۱

(۸)چونکہ شیعہ علماء اہل سنت کے نظریہ کے برخلاف ،امامت کو ایک الٰہی منصب سمجھتے ہیں لھذا وہ امامت کی یوں تعریف کرتے ہیں ”الامامة رئاسة عامة الٰھیة فی امور الدین و الدنیا و خلافة عن النبی “امامت لوگوں کے دینی و دنیاوی امور میں ایک عام الٰہی سرپرستی اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشینی ہے۔

تیسری فصل

شیعہ نظریہ کی صحت کی دلیلیں

عقلی اور نقلی دلائل گواہی دیتے ہیں کہ امامت کا منصب نبوت کے مانند ایک الٰہی منصب ہے اور امام کو خدا کی جانب سے معین ہونا چاہئے اور جو شرائط پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے لئے (وحی اور بانی شریعت ہونے کے علاوہ ) معتبر ہیں وہ امام میں ہونے چاہئے۔

اب ہم دلائل کا جائزہ لیتے ہیں:

پیش آنے والے نئے مسائل :

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی حیات طیبہ میں اسلام کے اصول و فروع کے تمام کلیات بیان کردئیے تھے اور اسلام اسی طریقہ سے خود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ھاتھوں تکمیل پایا۔لیکن کیا یہ اصول و کلیات امت کی علمی ضرورتوں کو پورا کرنے والی کسی مرکزی علمی شخصیت کے بغیر کافی ہیں؟یہ طے شدہ بات ہے کہ کافی نہیں ہیں۔بلکہ آنحضرت کے بعد ایسے معصوم پیشواوں کی ضرورت ہے جو اپنے وسیع و بے پایان عظیم علم کے ذریعہ کلیات قرآن و اصول اورسنت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی روشنی میں پیش آنے والے مختلف مسائل میں امت کی علمی ضرورت کی تکمیل کریں۔خصوصاً ایسے مسائل میں جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں پیش نہیں آئے تھے اور نہ حضرت کے زمانہ میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی بعثت کے بعد رسالت کے تیرہ سال مکہ میں بت برستوں کے خلاف جدو جھد میں بسر کئے۔اور اس عرصہ میں حالات اور ماحول سازگار نہ ہونے کی وجہ سے آپ الٰہی شریعت کے احکام بیان کرتے ہیں کامیاب نہ ہوئے بلکہ آپ نے اپنی پوری توجہ اسلامی اصول و مبدا اور معاد یعنی توحید و قیامت کے سلسلہ میں لوگوں کا ذھن ہموار کرنے میں صرف کی،اور چونکہ حرام و حلال اور الٰہی فرائض و سنن بیان کرنے کے حالات نہیں تھے،لھٰذا آپ نے احکام کے اس حصہ کو بعد کے لئے اٹھار کھا۔

جب آنحضرت مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے سامنے مسائل ومشکلات کا ایک لشکر تھا۔ مدینہ میں آپ کی زندگی دس سال سے زیادہ نہ رہی لیکن آپ نے اسی مدت میں ستائیس مرتبہ خود بت پرستوں نیز مدینہ اور خیبر کے یھودیوں کے خلاف جنگوں میں شرکت فرمائی ۔دوسری طرف منافقوں کی ساز شوں نیز اہل کتاب سے مناظرہ و مجادلہ میں بھی آپ کا بڑا قیمتی وقت صرف ہوا۔

یہ حادثات و واقعات سبب بنے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اپنی رسالت کے دوران زیادہ تر اسلام کے فروع و احکام کے کلیات بیان کریں اور ان کلیات سے دوسرے احکام کے استنباط و استخراج کا کام دوسرے شخص کے حوالے کیا جائے۔

اگر قرآن یہ فرماتا ہے کہ( الیوم اکملت لکم دینکم ) (۹) تو اس سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)اور اسلام کی اس وقت کی حالت و کیفیت کو دیکھتے ہوئے آیت کے نزول یعنی دس ہجری کے وقت مراد یہ ہے کہ توحید و قیامت سے متعلق معارف و عقائد اور فروع و احکام کے تمام اصول و کلیات آیت کے نزول کے وقت خو د پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ھاتھوں تکمیل ہوگئے اور اس اعتبار سے دین کے ارکان میں کوئی نقص باقی نہیں رہا اور یھی کلیات صبح قیامت تک امت کوپیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کرنے میں بنیاد و اساس کا کام کریں گے۔

اب یہ دیکھنا چاہئے کہ کون سا شخص ان اصول و کلیات کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کی تمام ضرورتوں اور مسائل کا جواب دے سکتا ہے۔احکام سے متعلق قرآن میں ذکر شدہ آیات اور پیغمبر اکرم کی محدود احادیث کے ذریعہ صبح قیامت تک پیش آنے والے بے شمار مسائل کا حل اور احکام کا استنباط کرنا بھت ہی دشوار اور پیچیدہ کام ہے جو عام افراد کے بس کا نہیں ہے ۔کیونکہ قرآن مجید میں فقھی و شرعی احکام سے متعلق آیات کی تعداد تین سو سے زیادہ نہیں ہے۔اسی طرح سے حلال و حرام اور فرائض سے متعلق آنحضرت کی احادیث کی تعداد چارسو سے زیادہ نہیں ہے اور ایک عام انسان اپنے محدود علم کے ذریعہ ان محدود مدارک سے مسلمانوں کے روز افزوں مسائل و مشکلات کا حل نکال نہیں سکتا ۔بلکہ اس کے لئے ایک ایسے لائق اور شائستہ شخص کی ضرورت ہے جو اپنے الٰہی اور غیبی علم کے ذریعہ ان محدود دلائل سے الٰہی احکام نکال کر امت کے حوالے کرسکتا ہو۔

ساتھ ہی ساتھ ایساشخص اپنے اس وسیع و لا محدو دعلم کی وجہ سے گناہ و خطا سے محفوظ بھی ہونا چاہئے تاکہ لوگ اس پر اعتماد کرسکیں اور ایسے شخص کو خدا کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا لھٰذا وھی اسے معین بھی فرمائے گا۔

تکمیل دین کی دوسری نوعیت

یہاں ایک دوسری بات بھی کھی جاسکتی ہے ،اور وہ یہ ہے کہ آیت اکمال جو اسلام کی تکمیل سے متعلق ہے اسلام کی بقا دوام کو بیان کررہی ہے ۔کیونکہ یہ آیت کریمہ اسلامی محدثین کی متعدد و متواتر روایات کے مطابق غدیر کے دن حضرت علی ںکی ولایت و خلافت کے اعلان کے بعد نازل ہوئی ہے ۔اب رہی فرائض و محرمات اور دوسرے احکام سے متعلق تکمیل دین کی بات تو یہ اس آیت کے مقصد سے باہر کی چیز ہے ۔اس حصہ میں اسلام کے مسلمات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جانا چاہئے کہ اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد وحی الٰہی کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور اب کوئی امین وحی کسی اسلامی حکم کو لےکر نہیں آئے گا ،بلکہ انسان کو صبح قیامت تک جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ سب جبرئیل امین رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس لا چکے ۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیںکہ دنیا کے تمام ہونے تک اسلامی معاشرہ کو پیش آنے والے مسائل کا حکم بیان کرنے کے لئے فقھی دلائل ہمارے پاس کافی نہیں ہیں بلکہ بھت سے احکام قرآن و حدیث میں بیان ہی نہیں کئے گئے ہیں۔

ان دو باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کھنے پر مجبور ہیں کہ تمام الٰہی احکام خود پیغمبر اکرم کے زمانہ میں آچکے تھے اور آپ کو ان کی تعلیم دی جا چکی تھی ۔اب چوں کہ رسالت کی مدت بھت ہی مختصر تھی،ساتھ ہی ہر روز کے مسائل اور دشواریاں ،نتیجہ میں آپ ان تمام احکام کی تبلیغ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے لھٰذا آپ نے وہ تمام تعلیمات الٰہی اور جو کچہ بھی آپ نے وحی کے ذریعہ الٰہی احکام اور اسلامی اصول و فروع کی شکل میں حاصل کیا تھا سب کچہ اپنے اس وصی و جانشین کے حوالے کردیا اور اسے سکھا دیا ،جو خود آنحضرت کی طرح خطا و غلطی سے بری اور محفوظ تھا ۔تاکہ وہ آپ کے بعد یہ تعلیمات اور احکام رفتھ رفتھ امت کو بتائے ۔ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی شناخت جو اس قدر وسیع علم رکھتا ہو اور ہر طرح کی خطا و لغزش سے پاک ہو صرف پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے تعارف اور اللہ کی جانب سے نصب و تعیین کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔امت انتخابات کے ذریعہ ایسے کسی شخص کو نہیں پھچان سکتی۔

یہ بھی عرض کردوں کہ ہم جو یہ کھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)جو کچہ امت سے بیان نہ کرسکے وہ انھوں نے اپنے وصی و جانشین کو تعلیم دے دیا تو اس سے مراد وہ معمولی تعلیم نہیں ہے جو ایک شاگرد اپنے استاد سے چند پرسوں میں حاصل کرتا ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ایک شخص کو اس طرح کی تربیت دینے کے بجائے ایک گروہ یا بھت سے لوگوں کی تعلیم و تربیت فرماتے ۔جب کہ یہ تعلیم ایک غیر معمولی تعلیم تھی جس میں آنحضرت نے اپنے وصی کی روح و قلب پر تصرف فرما کر تھوڑی ہی دیر میں اسلام کے تمام حقائق و تعلیمات سے انہیں آگاہ کر دیا اور کوئی چیز پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے جانشین سے مخفی و پوشیدہ نہیں رہ گئی ۔

آخر میں یہ یاد دھانی بھی کرادوں کہ جب اسلام دنیا کے مختلف علاقوں میں پھیلا تو مسلمان نئے نئے حالات سے دو چار ہوئے جن سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے عھد میں سابقہ نہیں پڑا تھا اور آنحضرت نے ان نئے حالات اور حادثات کے سلسلہ میں کوئی بات نہیں بتائی تھی۔

قرآن وحدیث کے اصول وکلیات سے اس طرح کے نئے حالات و مسائل کا حکم کشف کرنا اور نکالنا بھت ہی پیچیدہ اور اختلاف انگیز ہے ۔اس سلسلہ میں تکمیل شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ خاندان وحی سے وابستہ کوئی فرد ان نئے مسائل کا حکم قرآن و حدیث سے استنباط کرے یا ان کا حکم اس وھبی علم کے ذریعہ بیان کرے جو آنحضرت نے اس کے حوالے کیا ہے۔

اہل سنت معاشرہ کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ احکام سے متعلق قرآن کریم کی محدود آیات اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی چار سو حدیثوں سے ہی اسلام کے تمام احکام کا استنباط و استخراج کرنا چاہتے ہیں لیکن جونکہ بھت سے مواقع پر ناتوانی کا احساس کرتے ہیں اور مذکورہ بالا دلیلوں کو کافی نہیں پاتے لھٰذا قیاس و استحسان جن کی کوئی محکم اساس و بنیاد نہیں ہے ،کا سھارا لے کر امت کی ضرورتوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ خود جانتے ہیں کہ ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس یا فقھی استحسان کے ذریعہ کسی مسئلہ کا حکم بیان کرنا کوئی صحیح بنیاد نہیں رکھتا ۔لیکن اگر امت میں کوئی ایسا شائستہ ولائق شخص ہو جو اپنے وسیع علم کے ساتھ اس قسم کے مسائل کا حکم ایک خاص طریقہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے حاصل کرکے امت کے حوالے کرے اور گمان و شک پر عمل کی اس بے سرو سامانی کا خاتمہ کردے تو یہ روش شریعت کی تکمیل اور لوگوں کے حقیقت تک پھچنے کی راہ میں زیادہ موثر ثابت ہوگی ۔

پھر بھی گنتی کے چند نادر موارد میں قیاس و استحسان کی ضرورت پیش آئی تو ہم یہ کھہ سکتے ہیں کہ ان جزئی موارد میں اسلام نے آسانی کے لئے ان پر عمل کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ لیکن اگر شریعت کے پورے پیکر کو ظن و گمان پر استوار کریں اور ایسے قوانین دنیا کے حوالے کریں جن کی بنیاد حدس و گمان اور استحسان اور ایک مورد کا دوسرے مورد پر قیاس ہو تو ایسی صورت میں ہم نے ایسے اسلامی احکام اور اسلام کا ایسا حقوقی و جزائی مکتب فکر اور اخلاقی نظام دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس کی اساس و بنیاد ہی ناہموار اور پھس پھسی ہے کیا ایسی صورت میں ہم یہ توقع رکہ سکتے ہیں کہ دنیا کے لوگ ایسے اسلام کے حقوقی و جزائی احکام پر عمل کریں گے جس کے بیشتر احکام وحی الھٰی سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے۔

خلفاء امت کی لا علمی

تاریخ اسلامی امت کے حکام و خلفاء کی اسلامی اصول و فروع سے لا علمی کے بھت سے واقعات اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔علمی محاسبات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ امت کے درمیان ایک عالم وآگاہ امام و پیشوا کا وجود ضروری ہے جو اسلامی احکام کا محافظ اور ان کا خزانہ دار ہو اور مستقل الٰہی تعلیمات کولوگوں تک پھنچاتارہے۔ھم یہاں پر خلفا کی لاعلمی اور اسلام کے بنیادی احکام سے ان کی جھالت کے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

۱۔حضرت عمر نے اصحاب کے مجمع میں ایک شوھر دار حاملہ عورت کو جو زنا کی مرتکب ہوئی تھی سنگسار کرنے کا حکم دیا لیکن آخر کار حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی راہنمائی کے ذریعہ یہ حکم تبدیل کیا گیا۔کیونکہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ماں نے گناہ کیا ہے تو وہ قصور وار ہے لیکن بچہ نے کیا قصور کیا ہے جو ابھی اس کے رحم میں ہے؟

۲۔خلیفہ نے ایک ایسے شادی شدہ شوھرکو جس کی بیوی دوسرے شھر میں رہتی تھی زنا کے جرم میں سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔جبکہ ایسے شخص کے لئے جس کی بیوی اس سے دور ہو اللہ کا حکم سو تازیانہ (کوڑے) کی سزاہے ،سنگسار نہیں ہے ۔چنانچہ یہ حکم بھی حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ تبدیل کیا گیا۔

۳۔پانچ بدکار مردوں کو خلیفہ کے پاس لایا گیا اور گواہی دی گئی کہ یہ لوگ زنا کے مرتکب ہوئے ہیں ۔خلیفہ نے حکم دیا کے سب کو ایک طرف سے سو سو کوڑے لگائے جائیں۔امام علی علیہ السلام اس جگہ موجود تھے آپ نے فرمایا:ان میں سے ہر ایک کی سزا جدا جدا ہے۔ایک کافر ذمی ہے،اس نے اپنے شرائط پر عمل نہیں کیاہے۔وہ قتل کیاجائے گا۔دوسرا شادی شدہ مرد ہے جسے سنگسار کیا جائے گا ۔ تیسرا جوان آزاد ہے اور غیر شادی شدہ ہے، اسے سو کوڑے لگائے جائیںگے ۔ چوتھا غیر شادی شدہ غلام ہے ،اسے آزادکی آدھی سزا یعنی پچاس کوڑے لگائے جائیں گے، اور پانچواںشخص دیوانہ ہے، اسے چھوڑ دیا جائے گا۔

۴۔حضرت ابوبکر کے زمانہ میں ایک مسلمان نے شراب پی لی تھی لیکن اس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ ایسے لوگوں میں زندگی بسر کرتا رہا ہے جو سب کے سب شراب پیتے تھے اور وہ نہیں جانتا تھا کہ اسلام میں شراب پینا حرام ہے ۔ خلیفہ اور ان کے وزیر حضرت عمر نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور اس مشکل کو حل کرنے میں ناکام رہے آخرکار مجبور ہوکر انھوںنے حضرت علی علیہ السلام سے رجوع کیا۔ آپ(ۡع)نے فرمایا: اس شخص کو مھاجرین و انصار کے مجمع میں پھراواگر ان میں سے کسی ایک شخص نے بھی یہ کھہ دیا کہ اس نے تحریم شراب کی آیت اسے سنائی ہے تو اس پر حجت تمام ہے اور اس پر حد جاری ہوگی ورنہ اسے معذور سمجہ کر چھوڑ دیا جائے گا۔

۵۔ایک شادی شدہ عورت کو زنا کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور اسے سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔امام علی علیہ السلام نے فرمایا:اس عورت سے مزید تحقیق کی جائے،شاید اس کے پاس اس جرم کا کوئی عذر موجود ہو۔عورت کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا۔اس نے اس جرم کے ارتکاب کی وجہ یوں بیان کی کہ میں اپنے شوھر کے اونٹوں کو چرا نے صحرا لے گئی تھی ۔ اس بیابان میں مجہ پر پیاس کا غلبہ ہوا میں نے وھاں موجود شخص سے بھت منت سماجت کی اور اس سے پانی مانگا لیکن وہ ہر بار یہ کھتا تھا کہ تم میرے آگے تسلیم ہوجاوتو میں تمھیں پانی دوںگا۔جب میں نے محسوس کیا کہ پیاس سے مرجاوںگی تو میں مجبوراًاس کی شیطانی ہوس کے آگے تسلیم ہوگئی۔

اس وقت حضرت علی ںنے تکبیر بلند کی اور فرمایا:”اللہ اکبر فمن الضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم علیہ “یعنی اگر کوئی اضطرار اور مجبوری کی حالت میں کوئی غلط کام کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

اس طرح کے واقعات خلفاء کی تاریخ میں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان پر ایک مستقل کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔ ان تمام حوادث کا حکم بیان کرنے کا ذمہ دار کون ہے ۔اس طرح کے حوادث

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں پیش نہیں آئے تھے کہ امت ان کاحکم مرکز وحی یعنی خود آنحضرت سے حاصل کرلیتی۔ پھر آنحضرت کی رحلت کے بعد اس قسم کے احکام بیان کرنے والا اور الٰہی احکام کا محافظ و خزانہ دار کسے ہونا چاہئے ۔کیا یہ کھنا درست ہوگا کہ خداوند عالم نے ایسے حالات میں امت کو خود اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور اپنے معنوی فیضان کو امت سے دورکرلیا ہے ۔چاہے امت کی نادانی و جھالت کی وجہ سے لوگوں کی ناموس خطرے میں پڑجائے اور احکام حق کی جگہ باطل احکام لے لیں۔(۱۰)

____________________

(۹)مائدہ /۳ ۔ یعنی آج میں نے تمھارا دین مکمل کردیا

(۱۰)اسلام کے فروعی احکام سے متعلق امت کے حکام اور خلفاء کی لاعلمی کی ان رودادوں کی وضاحت کی ہمیں ضرورت نہیں ہے ان قضیوں کی تشریح تاریخ حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں موجود ہے۔علامہ امینی نے اپنی گرانقدر کتاب ”الغدیر“ کی چھٹی،ساتویں،اور آٹھویں جلد میں خلفاء کی عملی لیاقت کے سلسلہ میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔شائقین مزید معلومات کے لئے اس کتاب کی طرف رجوع کریں۔


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17