آداب معاشرت

آداب معاشرت50%

آداب معاشرت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 108

آداب معاشرت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 108 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 57754 / ڈاؤنلوڈ: 4301
سائز سائز سائز
آداب معاشرت

آداب معاشرت

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

تدوين : اسلامى تحقيقاتى مركز

ترجمہ: معارف اسلام پبلشرز

نشر: نور مطاف

سنہ اشاعت: شعبان المعظم ۱۴۲۴ ھ_ق

چاپ: دوم

تعداد: ۲۰۰۰

Web : www.maaref-foundation.com

E-mail: info@maaref-foundation.com

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _

۳

بسم الله الرحمن الرحيم

و صلى الله على سيدنا و مولى نا ابى القاسم

محمد و على اهل بيته الطاهرين و لعنة الله

على اعدائهم اجمعين

قال امير المؤمنين عليه السلام : من اصلح ما بينه و بين الله اصلح الله ما بينه و بين الناس و من اصلح امر آخرته اصلح الله له دنياه

۴

پيش لفظ:

موجودہ دور ميں بشر كے انفرادى اور اجتماعى روابط بظاہر بہت حسين ، خوب صورت و پرلطف دكھائي ديتے ہيں اور بظاہر ايسا لگتاہے كہ معاشرے ميں زندگى كے صحيح اصول اور آداب و رسوم موجود ہيں ليكن كبھى كبھى يہ روابط حسرت كا باعث اور انسانوں كو اس مدينہ فاضلہ كى ياد دلاتے ہيں جس كا ان سے وعدہ كيا گيا ہے _ اگر چہ آج كا انسان مادى وسائل اور اجتماعى آسائشے و رفاہ كے اعتبار سے توقع سے زيادہ اپنى آرزؤں اور اميدوں كو پاچكاہے اور ان تك رسائي حاصل كرچكاہے ليكن اس جذاب اور پرفريب ظاہر كوچھوڑ كر اگر اس كى حقيقى اور باطنى زندگى كى طرف چند قدم آگے بڑھ كر ديكھيں تو ايك عظيم اور ہولناك حالت كا مشاہدہ كريں گے جو بدترين قسم كے انفرادى اور اجتماعى روابط كى عكاس ہے_

۵

يہ نكتہ قابل توجہ ہے كہ معنوى تلخى اور پستى و زبوں حالى كا اصل سبب انسان كى مادى كاميابياں نہيں بلكہ اس غم انگيز اور افسوس ناك صورت حال اور انسانوں كے اجتماعى آداب و رسومات كے آلودہ اور مريض ہونے كى علت ان كا آسمانى و آفاقى اعلى اسلامى اقدار سے دورى اختيار كرناہے_

يہ كتاب جو دوسرى بار طبع كى جارہى ہے ، ان بعض معاشرتى آداب كى بيانگر ہے جنہيں اسلام كى نگاہ ميں اجتماعى امنيت كے فراہم كرنے اور ايك اچھى اور دلپذير زندگى كو حاصل كرنے كيلئے اپنانا ضرورى ہے_

مؤسسہ معارف اسلامى خداوند متعال كا شكر گزار ہے كہ اس نے يہ توفيق عنايت فرمائي كہ اپنى اصل ذمہ دارى يعنى اسلامى معارف اور ثقافت كى نشر و اشاعت، كو پورا كرتے ہوئے اس كتاب كو نظر ثانى كے ساتھ دوسرى مرتبہ طبع كررہے ہيں _

آخر ميں ہم خداوند متعال سے دعا كرتے ہيں كہ مركز تحقيقات اسلامى كے محترم محققين_ جنہوں نے اس مفيد اثر كى تدوين ميں زحمت فرمائي اور ان محترم مترجمين كہ جنہوں نے ترجمہ اور تصحيح ميں زحمت فرمائي_ كو اجر وافر عنايت فرمائے اورہم سب كو اپنے فضل و كرم سے امام زمانہ(عج) كے انصار و اعوان ميں سے قرار دے _

معارف اسلام پبلشرز

۱۵ شعبان المعظم ۱۴۲۴

۶

پہلا سبق:

اخلاق حسنہ

۱)_'' حسن خلق'' كا معني:

''حُسن خلق '' يعنى ''پسنديدہ اور اچھى عادت''، چنانچہ اس شخص كو ''خوش اخلاق'' كہا جاتا ہے كہ اچھى عادتيں اُس كى ذات و فطرت كا جزو بن چكى ہوں اور وہ دوسروں كے ساتھ كھلے چہرے اور اچھے انداز كے ساتھ پيش آنے كے ساتھ ساتھ پسنديدہ ميل جول ركھے_ امام جعفر صادق عليه السلام نے حسن خلق كى تشريح كرتے ہوئے فرمايا :

''تُلين جانبك' وتطيّبُ كلامك وتلقى ا خاك ببشر: حَسَن :''_

''تم اپنى ملاقات كے انداز ميںنرمى پيدا كرو' اپنى گفتگو كو شائستہ بنائو اور اپنے بھائي سے خندہ پيشانى سے ملو''(۱)

عام طور پر اخلاق و حديث كى كتابوں ميں حسن خلق سے يہى معنى مراد ليا جاتاہے_

____________________

۱_ اصول كافى _ ج ۳ ، ص ۱۶۲، (ايمان و كفر :حُسن بشر)_بحارالانوار ج ۷۱ ، ص ۳۸۹(مطبوعة اسلامية)

۷

اسلام ميں اخلاق حسنہ كا مقام:

اسلام ہميشہ اپنى پيروكاروں كو دوسروں كے ساتھ نرمى اور خوش مزاجى سے پيش آنے كى طرف دعوت ديناہے، اسلام نے خوش اخلاق انسان كى اہميت كو صرف مسلمانوں تك محدود نہيں ركھا ہے بلكہ اگر غير مسلمان بھى اس نيك صفت كا حامل ہوں تو وہ بھى اس كے فوائد كو پاسكتاہے_ جيسا كہ تاريخ ميں بيان ہوا ہے كہ : آنحضور (ص) نے حضرت امام على عليه السلام كوايسے تين افراد كے ساتھ جنگ كرنے كا حكم ديا جو آپ (ص) كو شہيد كرنے كى سازش ميں متحد ہوچكے تھے، امام على عليه السلام نے ان ميں سے ايك كوقتل كيا اور باقى دو كو قيدى بنا كر آپ (ص) كے سامنے پيش كيا _ آنحضرت (ص) نے پہلے انہيں دين مبين اسلام كى طرف دعوت دي، ليكن انہوں نے اسے قبول كرنے سے انكار كيا ، پھر آپ (ص) نے قتل كى سازش كے جرم پر ان كے خلاف قتل كا حكم جارى فرمايا ، اسى دوران آپ (ص) پر جبرئيل (ع) نازل ہوئے اور عرض كى : ''اللہ تعالى فرماتا ہے كہ ان دونوں ميں سے ايك شخص كو معاف كريں كيونكہ وہ خوش اخلاق اور سخاوتمند ہے'' _ آپ (ص) نے بھى اس شخص كو معاف فرمايا، جب اس شخص كو معلوم ہو اكہ اللہ تعالى نے اسے ان دو نيك صفات كى خاطر معاف فرمايا ہے تو اس نے اسلام كو تہ دل سے قبول كرليا_ پھر آپ (ص) نے اس شخص كے بارے ميں فرمايا :

'' ان لوگوں ميں سے ہے جو خوش اخلاق اور سخاوتمند ہونے كى بناء پر جنت كا مستحق ہوے''(۱)

اسلامى مقدس نظر يہ ميں حسن خلق كا معنى كبھى يہ نہيں كہ اگر كسى نے كوئي غلط اور ناپسند يدہ فعل انجام ديا تو اس كے سامنے خاموش ہوجائيں يا ہنس ديں بلكہ ايسے موقع پر

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۷۱، ص ۳۹۰

۸

اس بات پر تاكيد كى گئي ہے كہ اس فعل كے خلاف مناسب رد عمل كا اظہار كرنا چاہئے' اگرچہ چند افراد كى ناراضگى كا سبب بن جائے _ كيونكہ ہميں اس وقت تك دوسروں كو ناراض نہيں كرنا چاہئے، جب تك اسلامى احكام اور اس كے اصول كى پامالى نہ ہوپائے_

۲)_معصومين (ع) كے ارشادات:

رسول خدا (ص) اور ا ئمہ معصومين عليہم اسلام اخلاق حسنہ كى اعلى ترين مثاليں ہيں اور يہ بے مثال ''حُسن خلق ''ان كے كردار اور گفتار سے عياں تھا_ ان ہى عظےم شخصيتوں كے ارشادات كى روشنى ميں ہم ''حُسن خلق'' كے اعلى درجہ پر فائز ہوسكتے ہيں_ چنانچہ ہم يہاں اُن كے ارشادات سے چند نمونے پيش كررہے ہيں تاكہ وہ ہمارى زندگى كے لئے مشعل راہ بن جائيں : رسول خدا (ص) نے صحابہ كو مخاطب كركے فرمايا :

''كيا ميں تمہيں وہ چيز نہ بتائوں كہ اخلاق كے لحاظ سے تم ميں سے كون مجھ سے زيادہ مشابہ ہے؟ صحابہ نے عرض كى : ''اے اللہ كے رسول (ص) ضرور بتايئے_'' تو آپ (ص) نے فرمايا :

''جس كا اخلاق بہت اچھا ہے''(۱)

آپ (ص) ہى كا ارشاد گرامى ہے:

''خوش نصيب ہے وہ شخص جو لوگوں سے خوش خلقى سے ملتا ہے ' ان كى مدد كرتا ہے اور اپنى برائي سے انہيں محفوظ ركھتا ہے''(۲)

____________________

۱_ اصول كافى (مترجم ) ج۲، ص ۸۴يا تحف العقول ص۴۸

۲_ تُحف العقول ، ص۲۸

۹

امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں:

''خداوند عالم نے اپنے ايك پيغمبر كو مخاطب كركے فرمايا :

''خوش خلقى گناہوں كو اُسى طرح ختم كرديتى ہے جس طرح سورج برف كو پگھلاديتا ہے''(۱)

آپ (ع) ہى كا ارشاد ہے:

''بے شك بندہ اپنے حسن اخلاق سے دن كو روزہ ركھنے والے اور رات كو نماز قائم كرنے والے كا درجہ حاصل كرليتا ہے''(۲)

۳)_اخلاق معصومين (ع) كے چند نمونے:

ہمارے معصوم رہبروں (ع) نے جس طرح ''اخلاق حسنہ'' كے بارے ميں نہايت ہى سبق آموز ارشادات فرمائے ہيں ' اسى طرح دوست اور دشمن كے سامنے نيك اخلاق كے بہترين على نمونے بھى پيش كئے ہيں; ملاحظہ كيجئے:

۱_انس (پيغمبر اكرم (ص) كے خادم) سے مروى ہے كہ : ميں نے رسالت مآب (ص) كى نوسال تك خدمت كى 'ليكن اس طويل عرصے ميںحضور (ص) نے مجھے حتى ايك بار بھى يہ نہيں فرمايا: ''تم نے ايسا كيوں كيا؟'' _ ميرے كسى كام ميں كبھى كوئي نقص نہيں نكالا، ميں نے اس مدت ميں آنحضرت (ص) كى خوشبو سے بڑھ كر كوئي اور خوشبو نہيں سونگھي، ايك دن ايك باديہ نشين (ديہاتي) آيا اور آنحضرت (ص) كى عبا كو اتنى زور سے كھينچا كہ عبا كے نشان آپ (ص) كى گردن پر ظاہر

____________________

۱_ تحف العقول _ ص ۲۸_ بحارالانوار ج ۷۱، ص ۳۸۳

۲_ وسائل الشيعہ ج۸، ص ۵۶_ تحف العقول ص ۴۸

۱۰

ہوگئے_ اس كا اصرار تھا كہ حضور اكرم (ص) اسے كوئي چيز عطا فرمائيں_ رسالتمآب (ص) نے بڑى نرمى اور مہربانى سے اُسے ديكھا اور مسكراتے ہوئے فرمايا:

''اسے كوئي چيز دے دو''_

چنانچہ خداوند عالم نے يہ آيت نازل فرمائي:

( انّك لَعلى خُلق: عظيم ) (۱)

''بے شك آپ اخلاق (حسنہ) كے اعلى درجہ پر فائز ہيں''_

۲_حضرت امام زين العابدين _ كے قريبى افراد ميں سے ايك شخص آپ (ع) كے پاس آيا اور بُرا بھلا كہنے لگا ' ليكن آپ (ع) خاموش رہے ، جب وہ شخص چلا گيا تو امام (ع) نے حاضرين كو مخاطب كركے فرمايا:

''آپ لوگوں نے سن ليا ہوگا كہ اس شخص نے مجھ سے كيا كہا ہے اب ميں چاہتا ہوں كہ آپ ميرے ساتھ چليں اور ميرا جواب بھى سن ليں''_

امام عليه السلام راستے ميں اس آيت كى تلاوت فرماتے جارہے تھے:

''( و الكاظمين الغيظ والعافين عن الناس والله يحب المحسنين ) ''(۲) ''جو لوگ غصے كو پى جاتے ہيں اور لوگوں كو معاف اور درگذر كرديتے ہيں اوراللہ تعالى ايسے احسان كرنے والوں كو دوست ركھتا ہے''_

ساتھيوں نے سمجھ ليا كہ امام (ع) آيت عفو كى تلاوت فرما رہے ہيں، لہذا اسے كوئي تكليف نہيں پہنچائيں گے ،جب اس كے گھر پہنچے تو امام (ع) نے اس كے خادم سے فرمايا

____________________

۱_منتہى الآمال، ج ا ، ص ۳۱_ سورہ قلم ، آيت ۴

۲ _ سورہ آل عمران آيت ۱۳۴

۱۱

كہ اپنے مالك سے كہدو كہ على ابن الحسين عليه السلام تمہيں بلا رہے ہيں_

جب اس شخص نے سنا كہ امام (ع) فوراً ہى اس كے پاس آئے ہيں تو اس نے دل ميں كہا كہ يقينا حضرت (ع) مجھے ميرے كئے كى سزا ديں گے اور اس كا انتقام ليں گے_ چنانچہ اس نے يہ سوچ كر خود كو مقابلہ كے لئے تيار كرليا، ليكن جب باہر آيا تو امام (ع) نے فرمايا :

''ميرے عزيز تم نے اب سے كچھ دير پہلے ميرے متعلق كچھ باتيں كہى تھيں ' اگر يہ باتيں مجھ ميں پائي جاتى ہيں تو خدا مجھے معاف كرے' اور اگر ميں اُن سے پاك اور بَرى ہوں تو خدا تمہيں معاف كرے''_

اُس شخص نے جب يہ سنا تو بہت شرمندہ ہوا ' امام (ع) كى پيشانى پر بوسہ ديا اور معافى مانگنے لگا اور عرض كى :''ميں نے جو كچھ كہا ' غلط كہا' بے شك آپ (ع) ايسى باتوں سے پاك ہيں'ہاں ' ميرے اندر يہ باتيں موجود ہيں ''(۱)

۴)_ حسن خلق كے ثمرات و فوائد:

الف: ... دُنيوى فوائد:

۱_دوستانہ تعلقات مضبوط ہوتے ہيں_

چنانچہ حضرت رسول خدا (ص) فرماتے ہيں:

____________________

۱_منتہى الآمال، ج۳ ، ص ۵_ مطبوعہ انتشارات جاويدان

۱۲

''حُسن خلق يُثبت المَوَدَّةَ'' (۱)

'' حسن خلق، دوستى اور محبت كو مستحكم كرتا ہے''_

۲_اس سے زمين آباد اور عمريں طولانى ہوتى ہيں_

چنانچہ حضرت امام جعفر صادق _ فرماتے ہيں:

'' انّ البرَّ و حُسن َ الخلق يَعمر ان الدّيارَ و يزيدان فى الاعمار''(۲)

''نيكى اور اچھے اخلاق سے زمينيں آباد اور عمريں طولانى ہوتى ہيں''_

۳_رزق و روزى ميں بركت پيدا ہوتى ہے_

امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں:

''حُسن الخلق منَ الدين و ہو يزيدُ فى الّرزق:''(۳)

''حسن خلق دين كا جزو ہے اور روزى ميں اضافہ كا سبب ہے''_

۴_عزّت اور بزرگى كا موجب بنتا ہے_

چنانچہ حضرت اميرالمومنين عليه السلام فرماتے ہيں:

''كَم من وَضيع: رَفَعہ حُسن خُلقہ''(۴)

''كتنے ہى پست لوگ ايسے ہيں كہ جنہيںاُن كے نيك اخلاق نے بلند كيا ''_

____________________

۱_ تحف العقول، ص ۳۸_ بحارالانوار ج ۷۱، ص ۱۵۰

۲_ اصول كافى ، ج ۳، ص ۱۵۷ _ بحارالانوار ج ۷۱، ص ۳۹۵

۳_ تحف العقول ، ص۳۷(۳) ۴_ شرح غررالحكم، ج ۷، ص ۹۴_

۱۳

۵_كينہ پرورى اور كدورتوں كو دو ر كرتا ہے _

رسالتمآب (ص) كا ارشاد ہے:

''خندہ پيشانى اور كشادہ روئي كينوں كو دور كرديتى ہے''(۱)

ب: ...اُخروى فوائد:

۱_''حُسن خُلق'' كے سبب قيامت كے دن حساب ميں آسانى ہوگى _

حضرت اميرالمومنين على عليه السلام فرماتے ہيں :

''صلہ رحمى كرو كہ يہ تمہارى عمر كو بڑھائے گا ' اپنے اخلاق كو اچھا بنائو كہ خدا تمہارا حساب آسان كرے گا ''(۲)

۲_جنت ميں جانے كا موجب بنتا ہے _

حضرت رسول خدا (ص) فرماتے ہيں :

''ميرى امت ' تقوى اور حسن اخلاق جيسى صفت كے زيادہ ہونے كى وجہ سے جنت ميں جائےگي''(۳)

۳_بلند درجات كا سبب قرار پاتا ہے_

چنانچہ پيغمبر اكرم (ص) كا ارشاد ہے:

''بے شك حسن اخلاق كى وجہ سے بندہ آخرت كے بلند درجات اور اعلى

____________________

۱_تحف العقول، ص ۳(۸ ) ۲ _ بحارالانوار ج ۷۱، ص ۳۳(۸ ) ۳_اصول كافى ، ج ۲، ص ۱۰۰_ مستدرك الوسايل ج ۲، ص ۸(۲ )

۱۴

مراتب تك جا پہنچتا ہے، اسكا حسن خلق اسكى عبادت كو چار چاند لگا ديتاہے(۱)

۵)_بدخلقي:

بدخُلقي' حُسن خُلق كى متضاد ہے_ جس قدر حُسن خُلق لائق تحسين اور قابل ستائشے ہے ' بدخلقى اسى قدر قابل مذمت اور قابل تنفر ہے_

اسلام نے جہاں اخلاق حسنہ كى بے حد تعريف كى ہے وہاں بدخُلقى كو نفرت كى نگاہ سے ديكھاہے _

رسول اكرم (ص) فرماتے ہيں :

''خَصلَتان لاَ تَجتَمعان فى مسلم:' اَلبُخلُ و سُوئُ الخلق'' (۲)

''كسى مسلمان ميں دو خصلتيں جمع نہيں ہوسكتيں' كنجوسى اور بداخلاقي''_

حضرت على عليه السلام اس بُرى خصلت كو ذلّت اور پستى كى علامت قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''منَ اللوَّم سُوء الخُلق'' (۳)

''بداخلاقى ايك لعنت وپستى ہے ''_

دوسرى جگہ اسے جہالت اور نادانى كا نتيجہ قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں :

''الخلق المذموم من ثمار الجهل'' _

''بدخلقى جہالت كے ثمر ات ميں سے ہے''_

____________________

۱_ اصول كافى ، ج ۳، ص ۱۵(۷) ۲_ ميزان الحكمہ، ج ۳، ص ۱۵۳

۳_ شرح غررالحكم ، ج ۷، ص ۹۵

۱۵

۶_بداخلاقى كا انجام:

بداخلاقى كا انجام بہت برا ہوتا ہے نمونے كے طور پر ملاحظہ فرمائيں :

الف_ انسان كو خدا كے قرب سے دور كرديتى ہے _

جيسا كہ امام محمد باقر عليه السلام كا ارشاد ہے:

''عُبُوس الوجه: وسوئُ البشر مكسَبَة لّلمقت وبعد من الله ''(۱)

''تُرش روئي اور بدخلقى خدا كى ناراضگى اور اس سے دورى كى سبب ہے''_

ب_ بداخلاقى انسان كى روح كو دكھ پہنچاتى ہے_

جيسا كہ حضرت امام جعفر صادق عليه السلام فرماتے ہيں :

''مَن ساء خلقه عذب نفسه'' (۲)

''جو شخص بد اخلاق ہوتا ہے وہ خود ہى كو عذاب ميں مبتلا ركھتا ہے''_

ج_ نيك اعمال كو تباہ وبرباد كرديتى ہے_

رسول خدا (ص) فرماتے ہيں:

''الخلق ُ السَّي يُفسد العمل كَما يُفسد الخَلُّ العَسَل'' (۳)

''بد اخلاقى ' انسان كے عمل كو ايسے ہى تباہ كرديتى ہے جس طرح سركہ شہد كو تباہ كرديتاہے''_

د_ توبہ كے قبول ہونے ميں ركاوٹ بنتى ہے_

جيسا كہ آنحضرت (ص) كا ارشاد ہے:

____________________

۱_تحف العقول ، ص ۲۹(۶) ۲ _ بحارالانوار ، ج۷۸، ص ۲۴(۶) ۳_ميزان الحكمة، ج ۳، ص ۱۵(۲ )

۱۶

''خداوند عالم بداخلاق شخص كى توبہ كوقبول نہيں كرتا''_

لوگوں نے پوچھا: ''يا رسول اللہ (ص) ايسا كيوں ہے؟'' فرمايا :

''اس لئے كہ جب انسان كسى گناہ سے توبہ كرتا ہے ' تو پھر اس سے بڑے گناہ كا مرتكب ہوجاتا ہے''(۱)

ھ_ رزق كو كم كرديتى ہے_

اميرالمومنين عليه السلام فرماتے ہيں :

''مَن سَآء خلقه ضاقَ رزقه'' (۲) ''بداخلاقى روزى كو كم كرديتى ہے''_

و_ انسان كو جہنمى بناديتى ہے_

جيسا كہ رسول خدا (ص) كى خدمت ميںجب عرض كيا گيا كہ فلاں شخص دن كو روزہ ركھتا ہے' اور رات كو عبادت ميں گزار ديتا ہے' ليكن بداخلاق ہے اور ہمسايوں كو ستاتا ہے ' تو آنحضرت (ص) نے فرمايا :

''اس شخص ميں كوئي اچھائي نہيں' وہ جہنمى ہے''(۳)

____________________

۱_ بحارالانوار ، ج ۷۳، ص ۲۹۹

۲_ميزان الحكمة، ج ۳، ص ۱۵۵

۳ _ ميزان الحكمة ، ج ۳، ص ۱۵۴

۱۷

دوسرا سبق:

نظم و ضبط

۱)_اسلام ميں نظم و ضبط كى اہميت

۲)_نجى زندگى ميں اس كى اہميت

الف) صفائي

ب)ستھرائي

۳)_ معاشرتى زندگى ميں اس كى اہميت

۴)_عہدپيمان ميں اس كى اہميت

۵)_عبادات ميں اس كى اہميت

۶)_اخراجات ميں اس كى اہميت

۷)_محاذ جنگ اور عسكرى امور ميں اس كى اہميت

۱۸

خدا نے ہر ايك چيز كونظم كى بنيا دپر خلق فرمايا ہي، اس بھرى كائنات ميں ہر چيز كا اپنا ايك مقام ہے اور اس كى مخصوص ذمہ دارى ہي_

بقول ايك شاعر كے :

جہان چون خدوخال وچشم وابروست

كہ ہر چيزى بہ جاى خويش نيكوست

يعنى يہ كائنات شكل وصورت اور چشم وابرو كى مانند ہي' جس كى ہر ايك چيز اپنى اپنى جگہ پر نہايت ہى مناسب اور موزوں ہي_

۱_اسلام ميں نظم وضبط كى اہميت:

خدائے عالم وقادر نے اپنى پورى كائنات ميں محيّر العقول نظم كو جارى وسارى فرمايا ہے اور اس بات كو پسند كرتا ہے كہ بنى نوع انسان بھى اپنى نجى اور معاشرتى زندگى ميں نظم وضبط پيدا كريں_

۱۹

اس نے آسمانى مذاہب كے ذريعے خصوصاً دين اسلام كے ذريعہ نظم وضبط كى اہميت بيان فرمائي ہے اور اس كى پابندى كا حكم ديا ہي_

ہم يہاں نظم وضبط سے متعلق كچھ اسلامى احكام بيان كرتے ہيں، اميد ہے كہ قارئين احكام الہى كو پيش نظر ركھ كر اپنى زندگى كو پورى طرح سنوار نے كى كوشش كريں گي_

۲_نجى اور فردى زندگى ميں نظم وضبط كى اہميت:

كسى مسلمان كى فردى زندگى ميں نظم وضبط كا تعلق' صحت وصفائي، لباس كى وضع و قطع ' سر اور چہرے كى اصلاح ' بالوں كو سنوارنا اور مسواك وغيرہ كرنے سے ہوتا ہي_

اختصار كے ساتھ ہم يہاں ان امور سے متعلق گفتگو كريں گي:

الف:___صفائي:

لباس ' بدن اور زندگى كے دوسرے امور ميںپاكيزگى اور صفائي كے حوالے سے اسلام نے بہت زور ديا ہے _ چنانچہ رسالتمآب (ص) كا ارشاد ہي:

''خداوند عالم پاك و پاكيزہ ہے اور پاكيزگى ' طہارت اور صفائي كو دوست ركھتا ہي''(۱)

____________________

۱_ ميزان الحكمة ، ج ۱۰، ص ۹۲

۲۰

ہم جیسے

احمد فراز

حُسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے

کہ تُو عظیم ہے بے ننگ و نام ہم جیسے

*

برنگِ ماہ ہے بالائے بام تجھ جیسا

تو فرشِ راہ کئی زیرِ بام ہم جیسے

*

وہ اپنی ذات کی پہچان کو ترستے ہیں

جو خاص تیری طرح ہیں نہ عام ہم جیسے

*

یہ بے گلیم جو ہر کربلا کی زینت ہیں

یہ سب ندیم یہ سب تشنہ کام ہم جیسے

*

بہت سے دوست سرِ دار تھے جو ہم پہنچے

سبھی رفیق نہ تھے سست گام ہم جیسے

*

خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں

ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے

*

تُو سر بریدہ ہوا شہرِ نا سپاساں میں

زباں بریدہ ہوئے ہیں تمام ہم جیسے

*

۲۱

پہن کے خرقۂ خوں بھی کشیدہ سر ہیں فراز

بغاوتوں کے علم تھے مدام ہم جیسے

***

(مجموعہ۔"نابیناشہرمیںآئینہ")

۲۲

کوثر نیازی

دل و دماغ میں مہر و وفا کے افسانے

تصورات میں روشن فضائے بدر و حُنین

*

خوشا یہ اوجِ مقدر، زہے یہ عز و شرف

مری زباں پہ جاری ہے آج ذکرِ حُسین

**

نہ فکر سود و زیاں کی، نہ ذکرِ تیغ و تبر

حُسین، راہِ خدا میں تری یہ بے تابی

*

بہار گلشنِ اسلام میں پلٹ آئی

کہ تیرے خون سے قائم ہے اس کی شادابی

**

کہیں بھی اہلِ محبت کی تشنگی نہ بجھی

فرات و نیل کے ساحل سے تا بہ گنگ و جمن

*

برائے لالہ و گل اجنبی ہے فصلِ بہار

خزاں کے دستِ تصرف میں آگیا ہے چمن

**

ہر ایک سمت میں عفریت ظلم کے رقصاں

خدا کے دین کا حلقوم ہے تہِ شمشیر

*

نئے یزید، نئی کربلا ہوئی پیدا

زمانہ ڈھونڈ رہا ہے کوئی نیا شبّیر

***

۲۳

مرثیۂ امام

فیض احمد فیض

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے

ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے

*

مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے

مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے

*

تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے

یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

**

دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی

پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی

*

ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی

یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی

*

رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے

تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

**

۲۴

اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار

اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار

*

تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار

اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار

*

مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے

ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

**

کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی

ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی

*

ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی

ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی

*

پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا

پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

**

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل

الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل

*

بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل

وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل

*

بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو

باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

**

۲۵

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی

اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی

*

نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی

شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی

*

دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا

خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

**

پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا

تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا

*

ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا

یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا

*

کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے

خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

**

فرمایا کہ کیوں در پئے ‌آزار ہو لوگو

حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو

*

واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو

معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو

*

کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے

معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

**

۲۶

سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو

اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو

*

زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو

جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو

*

سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے

اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

**

طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار

باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار

*

انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار

ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار

*

جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے

جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

**

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا

تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا

*

جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا

جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا

*

نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا

نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

**

۲۷

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر

پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر

*

قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر

خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر

*

مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا

اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا

***

(مجموعہ۔"شامِ.شہرِیاراں")

۲۸

سلام

منیر نیازی

خوابِ جمالِ عشق کی تعبیر ہے حُسین

شامِ ملالِ عشق کی تصویر ہے حسین

*

حیراں وہ بے یقینیِ اہلِ جہاں سے ہے

دنیا کی بیوفائی سے دلگیر ہے حسین

*

یہ زیست ایک دشت ہے لا حد و بے کنار

اس دشتِ غم پہ ابر کی تاثیر ہے حسین

*

روشن ہے اس کے دم سے الم خانۂ جہاں

نورِ خدائے عصر کی تنویر ہے حسین

*

ہے اس کا ذکر شہر کی مجلس میں رہنما

اجڑے نگر میں حسرتِ تعمیر ہے حسین

***

(مجموعہ۔"ساعتِ.سیّار")

۲۹

حفیظ تائب

رموزِ عشق و محبت تمام جانتا ہوں

حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں

*

انہی کے در کو سمجھتا ہوں محورِ مقصود

انہی کے گھر کو میں دارالسلام جانتا ہوں

*

میں ان کی راہ کا ہوں ایک ذرۂ ناچیز

کہوں یہ کیسے کہ ان کا مقام جانتا ہوں

*

مجھے امام نے سمجھائے ہیں نکاتِ حیات

سوادِ کفر میں جینا حرام جانتا ہوں

*

نگاہ کیوں ہے مری ظاہری وسائل پر

جو خود کو آلِ نبی کا غلام جانتا ہوں

*

میں جان و مال کو پھر کیوں عزیز رکھتا ہوں

جو خود کو پیروِ خیر الانام جانتا ہوں

*

شکارِ مصلحت و یاس کیوں ہو پھر تائب

جو اس کٹے ہوئے سر کا پیام جانتا ہوں

***

۳۰

مرثیہ

از میر تقی میر

بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یار

جاویں گے مارے آنکھوں کے آگے سب ایک بار

*

ناچار اپنے مرنے کا ہو گا امیدوار

ہے آج رات اور یہ مہمان روزگار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

یک دم کہ تیری ہستی میں ہو جائے گا غضب

سادات مارے جائیں گے دریا پہ تشنہ لب

*

برسوں فلک کے رونے کا پھر ہے یہی سبب

مت آ عدم سے عالمِ ہستی میں زینہار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

ماریں گے تیر شام کے نامرد سارے لوگ

دیویں گے ساتھ اس کا جنہوں نے لیا ہے جوگ

*

۳۱

تا حشر خلق پہنے رہیں گے لباسِ سوگ

ہو گا جہاں جوان سیہ پوش سوگوار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

اکبر مرے گا جان سے قاسم بھی جائے گا

عباس دل جہان سے اپنا اٹھائے گا

*

اصغر بغل میں باپ کی اک تیر کھائے گا

شائستہ ایسے تیر کا وہ طفل شیر خوار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

اے کاش کوئی روز شبِ تیغ اب رہے

تا اور بھی جہاں میں وہ عالی نسب رہے

*

لیکن عزیز جس کے مریں سب وہ کب رہے

بے چارہ سینہ خستہ و بے یار و بے وتار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

۳۲

ذات مقدس ابن علی کی ہے مغتنم

اک دم میں اس کے ہوویں الٰہی بزار دم

*

کیا شب رہے تو ہووے ہے ایام ہی میں کم

آتا ہے کون عالمِ خاکی میں بار بار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

کاکل میں تیرے فتنے ہیں ہر اک شکن کے ساتھ

ہنگامہ لگ رہا ہے ترے دم زدن کے ساتھ

*

رہ کوئی دن عدم میں ہی رنج و محن کے ساتھ

یہ بات دونوں صمع میں رکھتی ہے اشتہار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

جلوے میں تیرے سینکڑوں جلووں کی مے فنا

یعنی سحر پہ آنا قیامت کا ہے رہا

*

دن ہو گیا کہ سبط نبی مرنے کو چلا

ساتھ اپنے دے چکا ہے تلف ہونے کا قرار

*

۳۳

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

آبِ فرات پر تو بہ شب دن نہ پھر کبھی

خوں ریز ورنہ ہونے لگے گا بہم ابھی

*

سیِّد تڑپ کے پیاس سے مر جائیں گے سبھی

پیغمبرِ خدا ہی کا پروردۂ کنار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

دن شب کو کس امید کے اوپر کرے بھلا

جو جانتا ہو یہ کہ ستم ہو گا برملا

*

نکلے گی تیغِ جور کٹے گا مرا گلا

اے وائے دل میں اپنے لیے حسرتیں ہزار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

ایسا نہ ہو کہیں کہ نکل آوے آفتاب

وہ جو غیور مرنے میں اپنے کرے شتاب

*

۳۴

دے بیٹھے سر کو مصر کے میں کھا کے پیچ و تاب

تر خوں میں دونوں کسو ہوں سر پر پڑے غبار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

جس دم خطِ شعاعی ہوئے رونقِ زمیں

افگار ہو کے نیزہ خطی سیوہ حسیں

*

ہوویں گے جمع پیادے سوار آن کر وہیں

ہو گا جدا وہ گھوڑے سے مجروح بے شمار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

لوہو جبیں کے زخم سے جاوے گا کر کے جوش

فرق مبارک اس کے میں مطلق نہ ہو گا ہوش

*

سجدے میں ہو رہے گا جھکا سر کے تئیں خموش

آنے کا اپنے آپ میں کھینچے گا انتظار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

۳۵

خورشید کی بلند نہ ہو تیغ خوں فشاں

ہے درمیاں نبی کے نواسے کا پائے جاں

*

ایسا اگر ہوا تو قیامت ہوئی عیاں

وہ حلق تشنہ ہو گا تہِ تیغ آب دار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

روشن ہوا جو روز تو اندھیر ہے نداں

میداں میں صاف ہو کے کھڑا دے چکے گا جاں

*

ناموس کی پھر اس کے نہ عزت ہے کچھ نہ شاں

اک شش جہت سے ہو گی بلا آن کر دو چار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

پھر بعد قتل اس کے غضب ایک ہے یہ اور

بختی چرخ راہ چلے گا انہوں کے طور

*

شیوہ جفا شعار ستم طرز جن کی جور

عابد کے دست بستہ میں دی جائے گی مہار

*

۳۶

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

خورشید سا سر اس کا سناں پر چڑھائیں گے

عالم میں دن وہی ہے سیہ کر دکھائیں گے

*

بیٹے کے تئیں سوار پیادہ چلائیں گے

ہو گا عنان دل پہ نہ کچھ اس کا اختیار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

پیکر میں ایک کشتہ کے ہو گی نہ نیم جان

خیل و حشم کا اس کے نہ پاویں گے کچھ نشاں

*

شوکت کہاں سر اس کا کہاں جاہ وہ کہاں

یہ جائے اعتبار ہے کیا یاں کا اعتبار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

صاحب موئے اسیر ہوئے شام جائیں گے

سو کر جھکائے شرم سے ہر گام جائیں گے

*

۳۷

ناچار رنج کھینچتے ناکام جائیں گے

لطف خدائے عز و جل کے امیدوار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

لازم ہے خوں چکان روش گفتگو سے شرم

کر اس نمود کرنے کی ٹک آرزو سے شرم

*

تجھ کو مگر نہیں ہے محمد کے رو سے شرم

بے خانماں بے دل و بے خویش بے تبار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

راہِ رضا میں عاقبتِ کار سر گیا

ایسی گھڑی چلا کہ مدینے نہ پھر گیا

*

ہوں آفتاب جانبِ شام آ کے گھر گیا

خاطر شکستہ غم زدہ آزردہ دل فگار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

۳۸

آثار دکھ کے ہیں در و دیوار سے عیاں

چھایا ہے غم زمین سے لے تا بہ آسماں

*

کچھ میر ہی کے چہرے پہ آنسو نہیں رواں

آیا ہے ابر شام سے روتا ہے زار زار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*****

۳۹

شامِ غریباں

پروین شاکر

غنیم کی سرحدوں کے اندر

زمینِ نا مہرباں پہ جنگل کے پاس ہی

شام پڑ چکی ہے

ہوا میں کچے گلاب جلنے کی کیفیت ہے

اور ان شگوفوں کی سبز خوشبو

جو اپنی نو خیزیوں کی پہلی رتوں میں

رعنائیِ صلیبِ خزاں ہوئے

اور بہار کی جاگتی علامت ہوئے ابد تک

جلے ہوئے راکھ خیموں سے کچھ کھلے ہوئے سر

ردائے عفت اڑھانے والے

بریدہ بازو کو ڈھونڈتے ہیں

بریدہ بازو کہ جن کا مشکیزہ

ننھے حلقوم تک اگرچہ پہنچ نہ پایا

مگر وفا کی سبیل بن کر

فضا سے اب تک چھلک رہا ہے

برہنہ سر بیبیاں ہواؤں میں سوکھے پتوں

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108