آداب معاشرت

آداب معاشرت0%

آداب معاشرت مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 108

آداب معاشرت

مؤلف: اسلامى تحقيقاتى مركز
زمرہ جات:

صفحے: 108
مشاہدے: 48965
ڈاؤنلوڈ: 2687

تبصرے:

آداب معاشرت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 108 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 48965 / ڈاؤنلوڈ: 2687
سائز سائز سائز
آداب معاشرت

آداب معاشرت

مؤلف:
اردو

رسول خدا (ص) نے فر مايا :

''تم نے اس كى غيبت كى ہي_''۱

(۵)_غيبت كے اسباب:

غيبت ايك قسم كى روحا نى بيمارى ہي،جس ميں غيبت كر نے والا مختلف اسباب و عوامل كى وجہ سے مبتلا ہو جا تا ہے ،حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام نے ايك روايت ميںاس كے دس اسباب ذكر فرمائے ہيں،ملا حظہ كيجئي:

''واصل الغيبة متنوع بعشرة انواع،شفاء غيظ و مسا عدة قوم و تهمة و تصديق بلا خبر كشفه و سو ء ظن و حسد و سخرية و تعجب و تبرم وتزين'' (۲)

غيبت كے سرزد ہونے كے مند رجہ ذيل دس اسبا ب ہيں:

۱) ......غصّہ اور غيظ و غضب جو انسان كے اندر موجود ہو تا ہے ،وہ غيبت كے ذريعہ اسے ٹھنڈا كر كے خود كو تسكين پہنچاتا ہي_

۲) ......غيبت كر نے والوں كے گروہ كے ساتھ تعاون اور انكى مدد كر تا ہي_

۳) ......كسى پر الزام لگانے كے لئے غيبت كا سہارا ليتا ہي_

۴) ......كسى كى با ت كى تحقيق اور چھان بين كئے بغير تصديق كرتا ہے اور اسے سچّا ثا بت كرنے كے لئے غيبت كر تا ہي_

۵) ......دو سروں پر بد گمانى ،اسے غيبت پر اكساتى ہي_

____________________

۱_ جامع السعادات_ ج ۲_ ص ۳۰۳

۲_ مصباح الشريعة _ ص ۲۰۶

۶۱

۶) ......حسد ،اسے غيبت پر بھڑ كا تا ہي_

۷) ......كسى كا مذاق اڑانے كے لئے اس كى غيبت كرتا_

۸) ......اس كا تعجّب كر نا بھى غيبت ہي_

۹) ......كسى سے تنگدل ہو جا تاہي، تو اس كى غيبت كر تا ہي_

۱۰) ......اپنى با ت كو بنا سنوار كر پيش كر نے كے لئے كسى كى غيبت كر تا ہي_

۶)غيبت كا كفا رہ :

چو نكہ غيبت خد اكے حرام كردہ امور ميں سے ايك ہے ،لہذا غيبت كر ناحُّق ُاللہ غصب كر نے كے زمرہ ميں اتى ہي،اور چونكہ كسى انسان كى ابرو كو بر با د كر تى ہے لہذا حق النّاس پر تجا وز _ بھى شما ر ہو تى ہي_پس غيبت كر نے والے كو چاہيئے كہ پہلے تو وہ خدا كى با ر گا ہ ميںتوبہ كر ے اور اور اپنے اس گنا ہ كى معا فى مانگے ،تا كہ خدا وند تعالى اس كے اس گنا ہ كو بخش دے اور اس كى توبہ كو قبول كرے ،پھر وہ اس انسان كے حق كاتدارك كرے جس جس كى اس نے غيبت كى ہي،اگر وہ زندہ ہے اور اس تك رسائي ممكن ہے ،اگر اس كے رنجيدہ خا طر يا غصّے ہو نے كا مو جب نہيں بنتا تو اس سے معا فى ما نگے ،بہر حال ہر طريقے سے اسے راضى كر نے كى كو شش كرے _اور اگر وہ اس دنيا سے رخصت ہو گيا ہے يا زندہ ہي،ليكن اس تك رسا ئي مشكل ہے تو خدا سے اس كے لئے گناہوں كى بخشش كى دعا كرے ، اور اگر اس تك رسائي ممكن ہي،ليكن وہ غيبت سن كر نا را ض يا رنجيدہ خا طر ہو جا تا ہي،يا فتنہ كھڑا ہو نے كا با عث ہو تا ہے تو بھى اس كے لئے استغفار اور گناہوں كى بخشش كى دعا كرے _ ايك

۶۲

حديث ميں ہے كہ رسول صلّى اللہ عليہ و الہ وسّلم سے كسى نے سوال كيا:''غيبت كا كيا كفّارہ ہي''؟تو انحضرت (ص) نے فرمايا:

''تستغفر الله لمن اغتبته كلما ذكرته'' (۱)

''يعنى جب بھى تم اس شخص كو ياد كرتے ہو جس كى غيبت كى ہے ، تو اس كے لئے خدا سے استغفار كرو''_

حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام فرماتے ہيں:

''فان اغتبت فبلغ المغتاب فاستحل منه وان لم تبلغه ولم تلحقه فاستغفر الله له'' (۲)

'' اگر تم نے كسى كى غيبت كى ہے اور وہ اس كے كان تك جا پہنچى ہے تو تم اس سے معافى مانگ كر بخشش طلب كر ليا كرو ، اور اگراس تك نہيں پہنچى ہو تو اس كے لئے خدا سے دعائے مغفرت كرو'' _

قرآن و حديث ميں تہمت كى مذمّت :

جو برائياں ہم نے غيبت كے لئے ذكر كى ہيں وہ سب تہمت كو بھى شامل ہيں، علاوہ بريں تہمت لگانے والا جانتا ہے كہ جو متہَّم كى طرف نسبت دے رہا ہے وہ جھوٹى اور حقيقت كے خلاف ہے _

قران مجيد نے تہمت كو ''اثم مبين''(كھلا گناہ)كے نام سے ياد كيا ہي،اور خبر دار كيا ہے كہ تہمت لگانے والا اچھى طرح جا نتا ہے كہ وہ جو كام كر ر ہا ہے وہ نا جائز

____________________

۱_ اصول كافي_ ج۲ ص ۳۵۷

۲_ مصباح الشريعہ_ ص ۲۰۵

۶۳

اور گناہ ہي،قر ان مجيد كا ارشادہي:

( والذين يو ذون المو منين والمومنات بغير ما اكتسبوا فقد احتملو ابهتانا وا ثما مبينا'' ) (۱)

''جو لوگ مومن مر دوں اور عورتوں كو ان كے نا كر دہ گنا ہوں كى وجہ سے تكليف پہنچاتے ہيں، وہ بھتان اور كھلم كھلّا گناہ كے متحمل ہو تے ہيں_''

حضرت امام جعفر صادق _نے تہمت كو دين و ايمان كے تباہ كر نے والے مادّہ كا نام ديا ہي،فر ماتے ہيں:

''اذا اتهم المومن اخاه انماث الايمان من قبله كما ينماث الملح فى المائ'' (۲)

''جب مو من اپنے كسى بھائي پر تہمت لگاتا ہے تو اس كے دل سے ايمان يوں نيست ونابود ہو جاتا ہے جس طرح نمك پانى ميں گُھل جا تا ہي_''

حضرت امام ر ضا عليہ السّلام فر ما تے ہيں كہ رسول خدا (ص) نے فر مايا:

''من بهت مو منا او مو منة او قال فيه ما ليس فيه ا قامه الله يوم القيامة على تل من نا ر حتى يخرج مما قال فيه'' (۳)

''جو شخص كسى مو من مرد يا عورت پر تہمت لگا تا ہے يا اس كے بارے ميں كوئي ايسى بات كر تا ہے جو اس ميں نہيں ہي، تو خدا وند عالم اسے بروز قيامت آگ كے ايك ٹيلے پر اس وقت تك كھڑ ركھے گا جب تك وہ اس

____________________

۱_ سورہ احزاب _ آيت ۵۸

۲_ اصول كافى _ ج۲ ص ۳۶۱

۳_ بحارالانوار _ ج ۷۲_ ص ۱۹۴

۶۴

كے عہدہ سے بر نہيں ائے گا (اپنى با توں كا ثبوت پيش نہيں كر يگا)_ليكن يہ با ت واضح ہے كہ وہ اس كا ثبوت تو نہيں پيش كر سكے گا ،لہذا عذاب ميں ہميشہ مبتلا رہے گا''

دعا ہے كہ خدا وند عا لم ہميں ان دو نوں گنا ہوں سے ہميشہ محفوظ ركھي_

آمين_

۶۵

چھٹا سبق:

بھائي چارہ اور اتّحاد

۱) تمہيد

۲) ......ا خوّت ،ايك خدا ئي نعمت

۳) ......دينى بھا ئيوں كے حقوق

۴) ......بہترين بھائي

۵) ......ا تحاد ايك قرانى حكم

۶) ......فرقہ بندى كے خطرات

۷) تفرقہ پردازى ايك سا مر اجى شيوہ

۸) ......فرقہ بندي،خدا كا ايك عذاب

۶۶

(۱) _ تمہيد:

رسول خدا (ص) كے مكّہ سے مدينہ كى طرف ہجرت كے فوراًبعد اور اسلامى حكومت كى تشكيل كے آغاز ہى ميں خدا وند عالم نے مومنين كو آپس ميں بھائي كے نام سے ياد فرمايا ، قرآن مجيد كا ارشاد ہے :

''انما المئومنون اخوة فاصلحو ابين اخويكم ،،(۱)

''يقينا تمام مومنين آپس ميں بھائي ہيں ، الہذا تم اپنے دو بھائيوں كے درميان صلح كرا ديا كرو _ ،،

رسول خدا (ص) نے بھى اسى آيت كى بنياد پر اپنے صحابہ كرام كے درميان اخوّت و بھائي چارہ قائم كيا ، اور حضرت على عليہ السلام كو اپنا بھائي بنايا(۲) _ بھائي چارے كى يہ رسم محض لفظى كاروائي نہيں تھى ، بلكہ اس كے عملى انجام كو پيش نظر ركھا گيا

____________________

۱_ سورہ حجرات _ آيت ۱۰

۲_ يرت ابن ہشام _ ج ۱_ ص ۵۰۵

۶۷

تھا، اس طرح كے رشتے سے مومنين كا ايك دوسرے پر حق پيدا ہو گيا، وہ مشكلات ميں ايك دوسرے كا ہاتھ بٹاتے تھے ، كسى مومن كى غير حاضرى كى صورت ميں اس كا مومن بھائي اس كے گھريلو امور اور مال كى نگہداشت كرتا تھا ، اس قسم كا رشتہ ، كسى اور دين ميں نہيں ملتا اور يہ خصوصيت صرف اور صرف اسلام كو ہى حاصل ہے _

اسى طرح مسلمانان عالم خدائي محبت كے رشتہ كے تحت ايك دوسرے سے منسلك ہيں ، اور ان كے دل ايك دوسرے سے اس طرح نزديك ہيں گويا كہ سب كا دل ايك ہى ہے اور صرف خدا ہى كى خوشنودى كے لئے دھڑكتا ہے _

مسلمانوں كے درميان تفرقہ يا جدائي ايك بے معنى سى بات ہے ، وہ سب ايك دوسرے كى خوشى اور غم ميں برابر كے شريك ہيں _ بقول شاعر :

مومنان بى حدولى ايمان يكي --- جسمشان معدود وليكن جان يكي

جان حيوانى ندارد اتحاد ----- تو مجو اين اتحّاد از روح باد

جان گُر گان و سگان از ہم جداست --- متّحد جانہاى شيران خداست

مومنين تو حّد و حساب سے باہر ہيں ، ليكن ان سب كا ايمان ايك ہے _ ان كے جسم زيادئہ ليكن جان ايك ہے _ جانوروں كى جانوں ميں اتّحاد نہيں ہوتا ، تمہيں يہ اتحاد ہوا كى روح ميں تلاش نہيں كرنا چاہيئے بھيڑيوں اور كتّوں كى جانيں ايك

۶۸

دوسرے سے عليحدہ ہيں ، اللہ كے شيروں كى جانيں متّحد اور ايك ہيں _

(۲) _اخّوت ، ايك خدائي نعمت :

د لوں كا ايك دوسر ے سے جو ڑ،دائمى اور اٹوٹ ہي_خدا كى يہ عظيم نعمت ، اسلامى اخوت اور بھا ئي چا رہ كے سا يہ ميں حاصل ہو تى ہي_اللہ تعا لى مسلمانو ں كو اس با ت كى تا كيد فر ما تا ہے كہ ميرى اس نعمت كو ہميشہ يا دركھيں،اس كى قدر جا نيں اور اس كا شكر بجا لا ئيں _ارشاد فر ما تا ہي:

''واذكروا نعمة الله عليكم اذكنتم اعداء فا لف بين قلو بكم فا صبحتم بنعمته ا خوا نا'' (۱)

''خدا كى نعمت كو ياد كرو جو اس نے تمہيں عطا كى ہي،كيو نكہ تم ايك دوسرے كے دشمن تھي_پس خدا نے تمہا رے دلوں كو الفت كے ر شتے ميں منسلك كر ديا اور اس كى نعمت كى وجہ سے تم ايك دوسرے كے بھا ئي بن گئي''_

مو من كے فر ائض ميں شا مل ہے كہ وہ خدا كى بے انتہا نعمتوں كا شكر ادا كر ے ،اور ہر ايك نعمت كا شكر ايك مخصوص طر يقہ سے ادا ہو تا ہي_اخوت اور بھائي چا رہ كى نعمت كا شكر اس طرح ادا ہو تا ہے كہ اسلامى احكام پر صحيح عمل كيا جائے اور اپنے دينى بھا ئيوں كے حقوق كا احترام ركھا جا ئي،ان حقوق ميں سے چند كى طرف ہم ذيل ميں اشارہ كر تے ہيں:

____________________

۱_ آل عمران آيہ ۱۰۳

۶۹

(۳)_دينى بھا ئيوں كے حقوق:

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام مو من كے حق كى ادائيگى كو ايك بہت بڑى عبا دت سے تعبير فر ما تے ہيں،چنا نچہ ارشاد ہي:

''ما عبد اللہ بشيئي افضل من اداء حق المو من ''(۱) ''مو من كے حق كى ادا ئيگى سے بہتر خدا كى كو ئي اور عبا دت نہيںہي_''

ايك اور روايت ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام كى طرف سے مو من كے مند رجہ سا ت حق بتلائے گئے ہيں :

۱) ......جو كچھ تم اپنے لئے پسند كر تے ہو،اپنے مو من بھائي كے لئے بھى و ہى چيز پسند كرو_اور جو اپنے لئے پسند نہيں كر تے اس كے لئے بھى پسند نہ كرو_

۲) ......جو با ت اس كى نا ر ضگى كا سبب ہي،اس سے پر ہيز كرو،اور اس كى خوشنودى حاصل كر نے كى كو شش كرو اور اس كى با تو ں پر عمل كرو _

۳) ......اپنى جان،مال،ہا تھ پا ئوں اور ز بان كے سا تھ اس كى مدد كيا كرو_

۴) ......اس كى انكھ كى مانند بنو اور اس كى راہ نمائي كرو_

۵) ......ايسا نہ ہو كے تم تو سيراب رہو اور وہ بھو كا اور پيا سا رہ جا ئي،تم كپڑے پہنو اور وہ عر يان رہي_

۶) ......ا گر تمہا رے بھائي كى خدمت كر نے والا كو ئي نہيں،تو كسى كو اس كے پاس بھيجو جو اس كے كپڑے دھوئي،اس كے لئے كھا نا تيار كرے اور

____________________

۱_ اصول كافى (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۴۷

۷۰

اس كى زندگى كو سنواري_

۷) ......اس كى قسم كا اعتبار كر و،اس كى دعوت كو قبول كرو،اس كى بيما رى ميں عيادت كرو،اس كے جناز ميں شر كت كرو ،اگر اسے كوئي ضرورت پيش ہو تو اسكے اظہار سے پہلے اسے پورا كرو اگر ايسا كرديا تو يقين كرو كہ تم نے اپنى دو ستى كو مضبوط اور مستحكم كر ديا ہي''(۱) مو من كے حقوق ميں مند رجے ذيل امور كو بھى شا مل كيا جا سكتا ہي:

الف: ......نصيحت اور خير خو اہي_حضرت امام جعفر صادق عليہ السّلام فرماتے ہيں:

''يحب للمومن على المومن ان ينا صحه '' (۲) ''مو من پر وا جب ہے كہ وہ دو سرے مو من كے لئے خير خواہ ہو_''

ب: ......مہر با نى اور احترام_حضرت رسول اكرم صلّى اللہ عليہ وا لہ وسلّم سے روايت ہے كہ:

''ما فى امتى عبد الطف اخاه فى الله بشي من لطف اخدمه الله من خدام الجنته'' (۳) ''ميرى امت ميں كو ئي ايسا بندہ نہيں ہے جو خدا كى رضا كى خاطر اپنے بھائي پر مہر با نى كري،مگر يہ كہ خدا وند عا لم جنت كے خد مت كا روں ميں سے كچھ خد مت گار اس كے لئے بھيج ديتا ہي_''

____________________

۱_ اصول كافي_ (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۴۶

۲_ اصول كافى (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۹۶

۳_ اصول كافي_ (مترجم)_ ج ۳_ ص ۲۹۴

۷۱

ج: حاجت برآوري، حضرت امام محمد باقر _ سے منقول ہے كہ خداوند عالم نے حضرت موسى عليه السلام كى طرف وحى فرمايا كہ ميرے بندوں ميں سے كچھ ايسے بھى ہيں جو ''حسنہ'' يعنى نيكى كے ذريعہ ميرا قرب حاصل كرتے ہيں ' اور ميں انہيں جنت كا حاكم بنائوں گا، موسى عليه السلام نے عرض كيا:' 'خداوندا وہ حسنہ يعنى نيكى كيا ہے ؟''_ خداوند تعالى نے فرمايا: ''كسى مومن كا اپنے بھائي كے لئے اس كى حاجت برآورى كے لئے چل پڑنا ' خواہ وہ حاجت پورى ہو يا نہ ہو ''(۱) د: ......خوش كرنا _ حضرت رسالتمآب (ص) فرماتے ہيں :

''ان الله احبَّ الاعمال الى الله عزوجل ادخال السُّرور على المومنين'' (۲) ''يقينا خدا كے نزديك بہترين عمل ' مومنين كو مسرور كرنا ہے ''_

(۴)_ بہترين بھائي :

ہم يہاں اميرالمومنين على عليه السلام كے فرمان كى روشنى ميں ايك بہترين بھائي كى چند صفات كو بيان كر رہے ہيں :

الف: ''خير اخوانك من دلك على هديً واكسبك تُقيً و صدَّك عن اتباع هويً'' )

____________________

۱_ اصول كافى (مترجم)_ ج۳_ ص ۲۸۱

۲_ اصول كافى (مترج) _ ج۳ _ ص ۲۸۱

۳_ شرح غررالحكم_ ج ۷_ ص ۸

۷۲

''تمہارا بہترين بھائي وہ ہے جو تمہيں ہدايت اور راہ راست كى راہنمائي كري' تمہارى پرہيزگارى ميں اضافہ كرے اور تمہيں خواہشات نفسانى كى پيروى سے باز ركھي''_

ب:''خير إخوانك مَن دعاك الى صدق المقال بصدق مقاله وندبك إلى افضل الا عمال بحسن اعماله'' (۱)

''تمہارا بہترين بھائي وہ ہے جو اپنى سچى باتوں كے ذريعہ تمہيں سچ بولنے كى دعوت دي' اوراپنے اچھے كردار كے ذريعہ تمہيں نيك كاموں كى طرف پكاري''_

ج: ''خيرا الإخوان من كانت فى الله مَوَدته'' (۲)

''بہترين بھائي (اور دوست) وہ ہے جس كى دوستى خدا كيلئے ہو''_

۵)_ اتحاد' ايك قرآنى حكم:

اتحاد و اتّفاق ميں برادرى كا راز مضمر ہي، جب اسلامى معاشرہ كے تمام افراد آپس ميں برادرى اور اخوت كا مظاہرہ كريں گے تو ان كے درميان وسيع پيمانے پر اتحاد اور ہم آہنگى پيدا ہوگي_

عزّت و وقار اور سربلندى اور سرفرازى كا جامہ ايسے معاشرہ كے لئے زيبا ہے جس كے افراد كے دل اور افكار ايك ہوں' تفرقہ اور جدائي سے پرہيز كرتے ہوں' آپس ميں مہربان ہوں اور سينوں سے كينوں اور كدورتوں كو اكھاڑ پھنكا ہو''_

____________________

۱_ شرح غررالحكم _ ج ۷_ ص ۸

۲_ شرح غررالحكم _ ج ۷_ ص ۹

۷۳

اتحاد اور اتفاق ايسى چيز ہے جس كے بارے ميں قرآن مجيد نے بڑى تاكيد كى ہي_ ارشاد خداوندى ہے :

( واعتصوا بحبل الله جميعاً وَّ لا تفرقوا'' ) (۱)

''تم سب (ملكر) خداكى رسى كو مضبوطى سے پكڑے رہو اور ايك دوسرے سے تفرقہ وجدائي اختيار نہ كرو ''_

پھر فرماتاہي:

( ولا تكونوا كالذين تفرَّقوا واختلفوا من بعد ما جآئهم البينات ) ''(۲)

''تم لوگ (مسلمان) ان لوگوں كى طرح مت ہوجانا جو اپنے پاس روشن آيات اور نشانيوں كے آجانے كے بعد تفرقہ اور اختلاف ميں پڑگئے تھے ''_

۶)_ فرقہ بندى كے خطرات :_

مسلمانوں كا ايك دوسرے كے خلاف فرقہ بندى اور باہمى اختلاف كے بہت سے نقصانات ہيں' جن ميں سے چند يہاں بيان كئے جاتے ہيں :

الف: صراط مستقيم سے ہٹ جانا ; جب رشتہ وحدت ٹوٹ جاتا ہے تو انسان كو شرك كى طرف كھينچ كر لے جانے كے لئے شيطان كو آسانى ہوجاتى ہے اور انسانى تخليق كا اصل مقصد جو كہ خدا كى عبادت اور اسكے بتائے ہوئے راستوں پر چلنا ہے اس سے ہٹ كر وہ طاغوت كى

____________________

۱_ سورہ آل عمران _ آيت ۱۰۳

۲_ سورہ آل عمران _ آيت ۱۰۵

۷۴

اطاعت كرنے لگتا ہي_ اس سلسلے ميںقرآن مجيد فرماتا ہي:

( وانَّ هذا صراطى مستقيماً فاتبعوه ولا تتبعوا السُّبُل فتفرق بكم عن سبيله ذلكم وصى كم به لعلَّكم تتقون '' ) (۱) ''اور يہ (دين) ميرا سيدھا راستہ ہے ' لہذا تم اس كى پيروى كرو اور دوسرى راہوں كى پيروى نہ كرو كہ (وہ راہيں) تم كو اس (اللہ) كى راہ سے متفرق اور جدا كرديں گي، اللہ تعالى نے تمہيں اس كا حكم ديا ہے ( كہ اس كے خلاف چلنے سے اجتناب كرو) تاكہ شايد تم پرہيز گار بن جائو''_

ب: عظمت ختم ہوجاتى ہي: عظمت و اقتدار كاراز ' وحد ت اور اتحاد ميں مضمر ہي' جب كہ اس كے برعكس ضعف و ناتواني' اختلاف وانتشار كا نتيجہ ہوتى ہي_ چنانچہ قرآن مجيد مسلمانوں كو باہمى اختلاف سے باز ركھنے كے ساتھ ساتھ اسكے برے انجام سے بھى خبردار كر رہاہي، ارشاد ہي:

( واطيعواالله و رسوله ولا تناز عوا فتفشلوا وتذهب ريحكم'' ) (۲)

''خدا اور اس كے رسول (ص) كى اطاعت كرو ' اور آپس ميں جھگڑا نہ كرو كہ اس طرح تم سست ہوجائو گے اور تمہارى عظمت كى روح تم سے رخصت ہوجائے گي''_

ج: ذلّت; كوئي بھى قوم كہ جو وحدت كى حامل ہوتى ہي' وہ سرى طاقتوں كى يلغار سے محفوظ رہتى ہے اور كسى كو اس كى طرف آنكھ اٹھاكرديكھنے كى جرا ت نہيں ہوتي، ليكن اگر اتحاد كا دامن چھوڑ دے تو

____________________

۱_ سورہ انعام _ آيت ۱۵۳

۲_ سورہ انفال _ آيت ۴۶

۷۵

معاشرہ كى عزت و عظمت اور حشمت و شوكت خاك ميں مل جاتى ہے ' اور وہ اغيار كى يلغار اور يورش كا تختہ مشق بن جاتا ہے ، تاريخ ہمارے اس دعوے كى گواہ ہي_ حضرت اميرالمومنين على عليه السلام نہج البلاغہ كے ايك خطبہ ميں اس چيز كو اس طرح بيان فرماتے ہيں :

''اب ذرا اسماعيل كى اولاد' اسحاق كے فرزندوں اور يعقوب كے بيٹوں كے حالات سے عبرت ونصيحت حاصل كرو_ (اقوام وملل كي) حالات كس قدر ملتے جلتے اور طور طريقے كتنے يكساں ہيں' ان كے منتشر اور پراگندہ ہوجانے كے بعد جو واقعات رونما ہوئے ہيں ان ميں غور وخوض كرو كہ جب كسرى (شاہان عجم) اور قيصر (سلاطين دوم) ان پر حكمران تھي، واقعات نے انہيں اطراف عالم كے سبزہ زاروں ' عراق كے دريائوں اور دنيا كى شادابيوں سے خاردار جھاڑيوں' ہوائوں كے بے روك گذرگاہوں اور معيشت كى دشواريوں كى طرف دھكيل ديا اور آخر كار انہيںفقير و نادار اور زخمى پيٹھ والے اونٹوں كا چرواہا اور بالوں كى جھونپڑيوں كا باشندہ بناكر چھوڑديا_ ' ان كے گھر بار دنيا سے بڑھ كر خستہ و خراب اور ان كے ٹھكانے خشك ساليوں سے تباہ حال تھي، نہ ان كى كوئي آواز تھى جس كے پرو بال كا سہارا ليں ' نہ انس ومحبت كى چھائوں تھى جس كے بل بوتے پر بھروسہ كريں، ان كے حالات پراگندہ' ہاتھ الگ الگ تھي' كثرت وجمعيت بٹى ہوئي تھي' جانگداز مصيبتوں اور جہالت كى تہ بہ تہ تہوں ميں پڑے ہوئے تھي' اور وہ يوں كہ لڑكياں زندہ در گور تھيں' (گھر

۷۶

گھر) مورتى كى پوجاہوتى تھي، رشتے ناتے توڑے جاچكے تھي' اور لوٹ كھسوٹ كى گرم بازارى تھي''(۱)

بقول مولانا روم:

گفت پيغمبر (ص) كہ اندر ساق عرش ---- مُنشى نور اين چنين بنوشتہ نقش

ذلّت اولاد آدم بى خلاف ---- زاختلاف است' اختلاف است اختلاف

حضرت پيغمبر اكرم(ص) نے فر مايا كہ عرش كے ستون پر نور كے كا تب نے يہ لكھ ديا ہے كہ بنى ادم كى ذلّت كے اس راز ميںكسى كو اختلاف نہيں، ہے اور وہ اختلاف اختلاف ہے اور صرف اختلاف ہي_

۷)_تفرقہ پر دازى ايك سامراجى كا شيوہ:

شير و شكر اور اتّحاد كى دولت سے مالامال معا شرے كو منتشر اور پر اگندہ كرنا ايسے سامراجى عناصركا شيوہ ہے جس كے دل و دماغ ميںعالمى سطح پر لوٹ ما ر كر نے كا سودہ سما يا ہوا ہي،اور اقوام عالم كو اپنا محكومم بنانے كى فكر ميں ہي_چو نكہ كسى قوم پر فتح پانا اور اسے زير كر نا پہلے ہى مر حلہ ميں ممكن نہيں ہي،لہذا مر حلے وار اپنے مذموم مقا صد كو حاصل كر نے كے لئے ان كے در ميان فر قہ و اريت كا بيج بو ديتے ہيں،پھر اہستہ

____________________

۱_ نہج البلاغہ _ خطبہ ۱۹۲_ (خطبہ قاصعہ )_

۷۷

اہستہ ان كے جان اور مال پر ڈاكے ڈالنا شروع كر ديتے ہيں 'اور اس طرح ان پر مسّلط ہو جا تے ہيں_فر عون،ہما رے اس دعوے كى روشن دليل ہي،جس كے بارے ميں قران فر ماتا ہي:

( ان فرعون علا فى الارض و جعل اهلها شيعا يستضعف طائفة منهم يذيح ابنا هم و يستحى نسا ئهم انه كان من المفسدين ) (۱) ''بے شك فرعون نے زميں ميں بہت سر اٹھايا تھا،اور اس نے وہاں كے رہنے والو ں كو كئي گرو ہوں ميں با نٹ ديا تھا،اُن ميں سے ايك گر وہ بنى اسرائيل كو عا جز اور كمزور كر ليا تھا اُن كے بيٹوں كو ذبح كر ديتا تھا اور ان كى عورتوں اور بيٹيوں كو زندہ رہنے ديتا تھا،بے شك وہ مفسدين ميں سے تھا_''

اس حقيقت كے پيش نظر،مسلمانوں پر وا جب ہے كہ وہ بيدارى اور ہو شيارى كا ثبوت ديں اور اپنى تقدير اور بھا گ دوڑ تفرقہ پر داز اور مفسدوں كے ہا تھوں ميں نہ ديں_

فرقہ بعدى ، خدا كا ايك عذاب :

قرآن مجيد ، ايسے لوگوں كو مختلف قسم كے عذابوں سے ڈراتا ہے جو خدائي قوانين سے رو گردانى كرتے ہيں، ان مختلف عذابوں ميں سے ايك '' فرقہ بندى ،، ہے ، ارشاد ہوتا ہے :

( قل هوا القادر على ان يبعث عليكم عذابا من فوقكم او من تحت ار جلكم او يلبسكم شيعا و يذيق بعضكم باس بعض انظر كيف

____________________

۱_ سورہ قصص _ آيت ۴

۷۸

نصرف الاى ت لعلهم يفقهون ) ،،(۱)

''اے رسول (ص) ،، تم كہدو وہى ( خدا ) اس پر اچھى طرح قادر ہے كہ تم پر تمہارے سر كے اوپر سے كوئي عذاب نازل كرے يا تمہارے پائوں تلے سے ، يا تمہيں مختلف فرقوں ميں تقسيم كر دے ، اور تم ميں سے بعض كو بعض كے عذاب كا مزہ چكھا دے _ ذرا ديكھو كہ ہم كس طرح اپنے دلائل كو مختلف پہلوئوں سے بيان كرتے ہيں تاكہ شايد وہ سمجھ جا ئيں _''

جى ہاں جس طرح ارضى اور سماوى مصيبتيں اور بلائيں گناہگار قوموں كو نيسّت ونابود كر ديتى ہيں ، اسى طرح فرقہ بندى بھى معاشروں كى سردارى اور سعادت و خوشبختى كو تہس نہيں كر ديتى ہے _

ہميں اميد ہے كہ مسلمانان عالم باہم اتّحاد اور اتّفاق كے ساتھ ايك امّت بن جائيں گے ' اور خدا وند كريم ورحيم كے فضل وكرم سے اپنى عظمت رفتہ كو پاليں گے _ مثل مشہور ہے ، ''آرى بااتّفاق '' جھان را مى تو ان گرفت ،، جى ہاں اتّفاق كى بدولت ،كائنات كو مسّخر كيا جا سكتا ہے _

____________________

۱_ سورہ انعام _ آيت ۶۵

۷۹

ساتواں سبق :

والدين كے حقوق

۱) .........معصومين(ع) كے كلام كى روشنى ميں

۲) اويس قرنى كا سبق آموز كردار

۳) .........باپ كا احترام ' امام زمانہ(ع) كا فرمان

۴) .........والدين كے لئے اولاد كا فريضہ

۵) .........مرنے كے بعد ياد ركھنا

۶) .........والدين سے نيك سلوك كى جزائ

۷) خدا كا فرمان ، يا والدين كى خواہش كى تكميل

۸۰