گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 105168
ڈاؤنلوڈ: 5628

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105168 / ڈاؤنلوڈ: 5628
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

گناھان کبیرہ

مصنف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی

آیة اللہ دستغیب کی مختصر سوانح حیات

شہید آیة اللہ دستغیب ایک پاکیزہ گھرانے کے کے پاکیزہ قلب انسان تھے۔ آپ نے آٹھ سو سالہ قدیم بزرگ علمی گھرانے دستغیب میں پیدا ہوئے۔ گھر کے مذہبی ماحول اور "اسلام" اور "روحانیت" سے قدرتی لگاؤ کی بنا پر ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے نجف اشرف کا رُخ کیا۔

وہاں آپ نے جوارِ حضرت مولیٰ الموحدین امیرالمومنین حضرت علی بن ابیطالب(علیہ السلام) (عراق) میں بزرگ اساتذہ کرام اور آیاتِ عظام کے حضور زانوئے ادب تہہ کیا، اس کے بعد اُس وقت کے بزرگ مراجع کرام سے اجازہ اجتہاد حاصل کر کے شیرازہ واپس لوٹ آئے۔ شیرازہ میں آپ نے جامع مسجد عتیق کی (جو کہ نہایت بوسیدہ حالت میں تھی )لاکھوں تومان خرچ کر کے تعمیرِ نو کرائی، اور پھر وہاں درسِ تفسیر واخلاق کا سلسلہ شروع کیا۔ لہٰذا آپ کی متواتر کوششوں کے سبب شیراز کے حورزہ عِلمیہ نے درسِ فقہ واصول اور اخلاقیات میں ممتاز حیثیت اختیار کر لی۔

ظالم شاہ کی بے دین حکومت سے مسلسل مبارزہ کی بناء پر آپ متعدد بار گرفتار ہوئے اور آپ کو گھر میں بھی نظربند رکھا گیا۔ انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے بعد آپ مجلسِ خیرگان کے رکن منتخب ہوئے اور اہلِ شیراز کی درخواست پر آپ کو اما خمینی کے نمائندہ اور امامِ جمعہ شیراز کے منصب پر فائز کیا گیا۔

شہید دستغیب نے متعدد علمی آثار چھوڑے ہیں جن میں "شرح حاشیہ کفایہ، رسائل ومکاسب، گناہانِ کبیرہ، قلبِ سلیم، صلوٰة الخاشعین، معاد، توبہ، زندگانی حضرت زہراء وزینب کبریٰ + ، استعاذہ اور ہزار سوال "کے علاوہ درجنوں اخلاقی فقہی اور تفسیر کی کتب شامل ہیں۔

الغرض آپ اخلاق ومحبت ، خلوص ومروت اور زہدوتقویٰ کے مکمل عملی نمونہ تھے۔ ۲۰/ آذر ماہ، سن ۱۳۶۰ ء ھ ش کو عین اس وقت جب آپ جمعہ کے طاغوت شکن اجتماع میں نماز کی اقتداء کرنے کی غرض سے مسجد کی جانب تشریف لے جا رہے تھے عالمی استکبار کے ایجنٹوں (منافقین) کے ہاتھوں بم کے دھماکے میں شہید ہو گئے۔

لَقَدْ عَاشَ سَعِیْد ادَمٰات شَهِیْداً

حقیر

سیّد محمد علی الحسینی بلتستانی

تقویٰ کی حقیقت

تقویٰ کا مصدر وقایہٰ ہے، جس کے معنی ہیں حفاظت اور پرہیزگاری۔ شرعی اصطلاح میں خود کو ہر اس چیز سے روکنا جو آخرت کے لیے نقصان دہ ہو، باالفاظِ دیگر اوامر و نواہی میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے پرہیز کرنا تقویٰ ہے چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے جب تقویٰ کے معنی دریافت کیے گئے تو آپ نے فرمایا :

اَنْ َ لایَفْقُدُکَ حَیْثُ اَمَرَکَ وَ َ لا یَدَاکَ حَیْثُ نَهَاکَ

(سفینة البحار جلد ۳ ص ۶۷۸)

"جہاں حکمِ خدا ہے وہاں سرِ تسلیم خم کر دو اور جہاں نہی خداوندی ہے وہاں سے دُور رہو"۔

یعنی احکامِ خداوندی کو بجا لانے والے اور اُس کی منہیات سے بچنے والے بنو اس بناء پر تقویٰ کی دو قسمیں ہیں:

اوّل اطاعتِ الٰہی حاصل کرنا اور اُس کے احکامات کو بجا لانا یعنی اس طرح کہ کوئی واجب ترک نہ ہو۔واجب امور وہ ہیں جن کے انجام نہ دینے سے پروردگارِ عالم کے غیظ وغضب کا مورد قرار پائے گا ساتھ ہی جہاں تک ممکن ہو مستحبات کو بھی ترک نہ کرے۔ مستحب وہ اعمال ہیں جن کی بجا آوری میں ثواب ہے لیکن اُن کو ترک کرنے میں عذاب نہیں۔

تقویٰ کی دوسری قسم حرام چیزوں سے بچنا اور جن باتوں سے منع کیا گیا ہے اُن کو ترک کرنا ہے اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اور منع کی ہوئی باتوں سے کہ جو اس کے غیظ وغضب کا موجب ہیں بچتا رہے ۔حرام بندہ کا وہ عمل ہے جس کے ارتکاب سے وہ عذابِ الٰہی کا مستوجب ٹھہرے ۔ اس کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ وہ مکروہات کو بھی ترک کر دے ۔مکروہ بندہ کا وہ عمل ہے جس کا نہ کرنا بہتر ہے اور ترک کرنے میں شارع مقدس کی رضا ہے۔ لیکن اس کے کرنے پر عذاب نہیں۔ وہ شخص کہ جو سعادت اور تقویٰ کے بلند مقام کا طالب ہے اُسے چاہیئے کہ تقویٰ کے دوسرے مرتبے کو جو حرام چیزوں اور گناہوں سے پرہیز کرنا ہے زیادہ اہمیت دے۔ کیونکہ اگر حرام چیزوں سے پرہیز کر لیا تو اس کا عمل کتنا ہی حقیر اور کم ہی کیوں نہ ہو بارگاہِ خداوندی میں قبول پاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

( اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَقِّیْنَ ) (سورہ ۵ آیت ۲۷)

"خداصرف پرہیز گاروں سے (اعمال)قبول کرتا ہے "۔

اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)نے ارشاد فرمایا :

یَکْفِیْ مِنَ الدُّعَاءِ مَعَ البِرِّ مَایَکْفِیْ الطَّعَامِ مِنَ الْمِلْحِ

"دعا کی استجابت کے لیے پرہیز گار شخص کی مختصر سی دعا اس طرح سے کافی ہے جس طرح کھانے کو خوش ذائقہ بنانے کے لیے تھوڑا سا نمک کافی ہے۔" (عدة الداعی)

گناہ اچھے اعمال کو ضائع کر دیتا ہے

بعض گناہانِ کبیرہ اعمالِ صالح کو نابود کر دیتے ہیں جس کی تفسیر آگے بیان کی جائے گی۔ مختصر یہ کہ گناہ سے پرہیز کرنا اچھے اعمال بجا لانے سے زیادہ اہم ہے۔ اس مقصد کے ثبوت میں کچھ روایات نقل کی جاتی ہیں:

روایات میں ترکِ حرام کی اہمیت

پہلی روایت:

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا :

تَرْکُ لُقْمَةِ الْحَرَامِ اَحَبُّ اِلٰی اللّٰهِ مِنْ صَلٰوةِ اَلْفَیْ رَکْعَةِ تَطَوَّعاً (عدةالدّاعی)

"لقمہ حرام کا نہ کھانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کی خوشنودی کے لیے دو ہزار رکعت مستحبی نماز پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے "۔

دوسری روایت:

رَزُدَانِقِ حَرَامٍ یَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰهِ سَبْعِیْنَ حَجَّةً مَّبْرُوْرَةً (عدة الداعی)

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا :"ایک درہم اس کے مالک کو واپس کر دینا خداوندِعالم کے نزدیک ستّر حج مقبول کے برابر ہے"۔

تیسری روایت:

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا :

جِدُّوْا وَاجْتَهِدُوْا وَاِن لَّمْ تَعْمَلُوْا فَلاَ تَعْصُوْا، فَاِنَّ مَنْ یَّبْنِیْ وَ َ لایَهْدِمُ یَرْتَفِعُ بِنَائَه وَاِنّ کانَ یَسِیْرًا وَمَنْ یَبْنِیْ وَ یَهْدِمُ یُوْشَکُ اَنْ َ لایَرتَفِع بِنَائَه

(عدة الداعی۔ ص ۲۳۵)

"اچھے اعمال کو بجا لا نے کی کوشش زیادہ کرو ، اگر نیک اعمال نہ بجا لا سکو تو کم از کم نافرمانی نہ کرو، کیونکہ اگر کوئی عمارت کہ بنیاد رکھے اور اُسے خراب نہ کرے تو اگرچہ کام کی رفتار کم بھی ہو وہ عمارت یقینا بلند ہوتی ہے اور ( اس کے برعکس) وہ شخص جو بنیاد رکھدے اور ساتھ خراب بھی کرتا رہے اس عمارت کی دیوار ہو سکتا ہے کہ کبھی بلند نہ ہو"۔

بہشت کے درخت کو جلانے والی آگ

چوتھی روایت:

قَالَ النَّبِیُّ (ص) مَنْ قَالَ سُبحَانَ اللّٰهِ غَرَسَ اللّٰهُ لَه شَجَرَةً فِی الْجَنَّةِ فَقَامَ رَجُلٌ مِّنْ قُرَیْشٍ وَقَالَ اِنَّ شَجَرَنَا فِی الْجَنَّةِ لَکَثِیْرَةٌ قَالَ (ص) نَعَمْ وَلٰکِنْ اِیَّاکُمْ اَنْ تُرْسِلُوْا اِلَیْهَا نِیْراناً فَتُحْرِ قُوْهَا (عدة الداعی ص ۲۳۵)

حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)نے فرمایا:اگر کوئی سبّحان اللہ کہے تو خداوندِ عالم اس کے لیے بہشت میں ایک درخت لگاتا ہے "، یہ سنتے ہی قریش کاایک شخص کھڑا ہو گیا اور عرض کیا ؛ "اگر ایسا ہے تو ہمارے لیے بہشت میں بہت سے درخت ہو نگے" ، حضرت نے فرمایا؛" ہاں ، لیکن اس چیز سے ڈرنا کہ تم یہاں سے اُس کے لیے آگ بھیج کر کہیں سب کو خاکستر نہ کر دو"۔

پانچویں روایت:

الْحَسَدُ یَأکُلُ الْاِیْمَانَ کَمَا یَأکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ

"حسد ایمان کو کھا کر نابود کر دیتا ہے جیسا کہ آگ لکڑی کو"۔(اصول کافی وعدة الداعی)

حرام خوری عبادت کو جلا دیتی ہے

چھٹی روایت:

لَیَجِیْئَنَّ اَقْوَامٌ یَوْمَ الْقِیَامَةِ لَهُمْ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَجبَالِ تَهَامَةَ فَیُوْمَرُ بِهِمْ اِلٰی النَّارِ، فَقِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ اَمْ مُّصَلُّوْنَ ؟ قَالَ (ص) کَانُوا مُصَلّوْنَ وَیَصُوْمُوْنَ وَیَاْخُذُوْنَ وَهْنًا مِّنَ اللَّیْلِ لٰکِنَّهُمْ کَانُوْا اِذَالاَحَ لَهُمْ شَی مِنْ الدُّنْیَا وَسَبُوْا اِلَیْهِ

"قیامت کے دن ایسی قومیں بھی ہو ں گی جن کے نیک اعمال تہامہ کے پہاڑوں کی طرح وزنی ہوں گے باوجود اس کے حکم ہو گاکہ انہیںآ تشِ جہنم میں جھونک دیاجائے"۔(یہ سن کر) کسی نے عرض کیا،" یارسول اللہ ! کیا یہ لوگ نماز گزار تھے "؟ فرمایا ،"ہاں؛ نماز پڑھتے تھے اور روزہ رکھتے تھے اور رات کا کچھ حصہ عبادت میں گزارتے تھے۔ لیکن جب بھی ان کو دنیا کی کوئی چیزملتی اس پر بے تحاشہ ٹوٹ پڑتے تھے ۔ (یعنی حلال و حرام میں فرق نہ رکھتے تھے)"۔

حق الناس قبولیت اعمال میں رکاوٹ ہے

ساتویں روایت:

قَالَ النَّبِیُّ صَلَّیٰ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ اَوْحَی اللّٰهُ تَعَالٰی اِلیَّ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَکَ، لاَ تَدْخُلُوا بَیْتاً مِّنْ بُیْوتِیْ وَلاَ حَدٍ مِّنْ عِبَادِیْ عِنْدَ اَحَدٍ مِّنْکُمُ مَظّلَمَةٌ فَاِنِی اَلْعَنُهُ مَادَامَ قَائِماً یُصَلِّیْ بَیْنَ یَدَیَّ حَتَیٰ یَرُد المظٰلَمَةَ (عدة الداعی ص ۲۳۶)

حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:"مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ اپنی قوم کو ڈراؤ اور کہو کہ میرے گھروں (مساجد ) میں سے کسی گھر (مسجد) میں داخل نہ ہو نا اس حالت میں کہ میرے بندوں میں سے کسی بندے کا حق تمہارے ذمے ہو۔ اس حالت میں اگر وہ نماز کے لیے کھڑا ہو گا تو میں اس پر لعنت کرتا رہوں گا جب تک کہ وہ حق اس کے مالک کو واپس نہ کر دے"۔

آ ٹھویں روایت:

نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

اِنَّ لِلّٰهِ مَلَکاً یُنَادِیْ عَلٰی بَیْتِ الْمَقْدَسِ کُلَّ لَیْلَةٍ، مَنْ اَکَلَ حَرَاماً لَّمْ یَقْبَل اللّٰهُ مِنْهُ صَرْفاً وَلاَ عَدْلاً

"اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جو ہر رات بیت المقدس سے آواز بلند کر تا ہے جو کوئی حرام کھاتا ہے ، خدا اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا خواہ واجب ہو یا مستحب"۔

صرف پرہیز گاری کے ساتھ عمل قبول ہوتا ہے

نویں روایت:

لَوْصَلَّیْتُم حَتّٰی تَکُوْنوا کَالْاَوْتَادِ وَصُفتُمْ حَتّیٰ تَکُوْنُوا کَالْحَنَایَا لمْ یَقْبَلِ اللّٰهُ مِنْکُمْ اِلاَّ بِوَرَعٍ حاجِرْ (عدة الداعی)

"اگر تم اس طرح نماز میں کھڑے رہو جیسے زمین میں گڑی ہوئی میخ اور اس قدر روزہ رکھو کہ سوکھی ہوئی لکڑی کہ طرح کمزور ہو جاؤ اور تیر کمان کی طرح جھک جاؤ پھر بھی خدائے تعالیٰ تم سے کوئی عمل قبول نہیں کرتا جب تک تمہارے پاس گناہوں سے باز رکھنے والا زہد و تقویٰ نہ ہو"۔

گناہ دعا کی قبولیت میں مانع ہے

دسویں روایت:

وَعَنْهُ عَلَیْهِ السَّلام: مَرَّمُوْسٰی بِرَجُلٍ مِنْ اَصْحَابِهِ وَهُوَ سَاجِدٌ وَانْصَرَفَ مِنْ حَاجَتِهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَقَالَ لَوْکَانْتَ حَاجَتَکَ بِیَدِیْ لَقَضَیْتُهَالَکَ فَاَوْحیٰ اللّٰهُ اِلَیْهِ یَامُوْسٰی لَوْسَجَدَ حَتْیٰ اِنْقَطَعَ عُنُقُه مَاقَبِلْتُه اَوْیَتَحَوَّلُ عَمَّا اَکْرَهُ اِلٰی مَااُحِبُّ ۔(عدة الداعی ص ۱۲۵)

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا گزر ایک شخص کی طرف سے ہوا جو ان کے اصحاب میں سے تھا، وہ سجدے کی حالت میں تھا ، پھر جب موسیٰ اپنے کام سے فارغ ہو کر واپس آئے تب بھی اُسے سجدے میں دیکھا تو آ پ نے فرمایا،" اگر تمہاری حاجت بر آوری میرے اختیار میں ہوتی تو میں خود تمہاری حاجت پوری کرتا"۔

خداوند تعالیٰ نے موسیٰ پر وحی نازل کی کہ اگر یہ شخص میرے لئے اتنے سجدے کرے کہ اس کی گردن کٹ جائے پھر بھی میں اس کے اعمال قبول نہیں کروں گا یہاں تک کہ وہ جو چیز مجھے نا پسند ہے اس سے روگردانی نہ کرے اور جو مجھے پسند ہے اُسے بجا لائے (یعنی گناہوں سے پرہیز کرے اور عبادات بجا لائے) ورنہ گناہ دعا کی قبولیت کو روک لیتا ہے۔

گناہ ترک کرنا حقیقی عبادت ہے

گیارہویں روایت:

اَصْلُ الدَیْن الْوَدَعُ کُنْ وَرِعاً تَکُنْ اَعْبَدَ النَّاسِ کُنْ بِالعَمَل بِالْتَّقْویٰ اَشَدَّ اِهْتِمَاماً مِنْکَ بِالعَمَلِ بِغَیْرِهِ فَاِنَّهُ لاَ یَقِلُّ عَمَلٌ یَتَقَبَّلُ لِقَوْلهٍ تَعَالٰی "اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنِ" (الداعی)

گناہوں سے پرہیز کرنا دین کی بنیاد ہے۔ اس لیے گناہ سے اجتناب کرو تاکہ سب سے زیادہ عبادت گزار متقّی ہو جاؤ اور سختی کے ساتھ اپنے آپ کو تقویٰ سے مزیّن کرنے کا اہتمام کرو۔ تقویٰ کے بغیر کوئی عمل بجا نہ لاؤ۔ یقیناوہ عمل مقبول ِالٰہی ہے ، جس کے ساتھ تقویٰ ہو اگرچہ عمل مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا صرف پرہیز گاروں کے (اعمال) قبول کرتا ہے۔

یعنی اگر تم نے گناہ سے دوری اختیار کی اگرچہ تمہارا عمل کم سے کم کیوں نہ ہو ، قبول ِ درگاہ ِ الہٰی ہو تا ہے اور مقبول عمل اس لحاظ سے جب کہ رب العالمین نے اسے شرف ِ قبولیت بخشا ہو کم عمل اور چھوٹا عمل نہیں کہا جا سکتا۔

گناہ سے بچنا چاہیئے

ان روایتوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے گناہ سے زیادہ ڈرنا چاہیئے اور بہت ہوشیارہنا چاہیئے، تب جا کر اس سے نیک کام صادر ہوتا ہے، اور ان نیک کاموں کو آل ِ محمد (علیہم السلام) کے قرب و جوار کے منازل اور اعلیٰ درجات تک پہنچانا چاہیئے۔ مبادا گناہ کے ارتکاب سے وہ ضائع اور برباد ہو جائے۔ ایسے خسارے اور نقصان سے بہت ہوشیار رہنا چاہیئے جس سے انسان اپنے ہی ہاتھوں اپنے نیک اعمال کے ذخیرے کو ضائع کرتا ہے۔

نیک اعمال گردوغبار کی طرح پراگندہ ہو سکتے ہیں

عَنْ سُلَیْمَانِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ سَئَلْتُ اَبَاعَبْدِاللّٰهِ (ع) عَن قَوْلِ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ "وَقَدِ منَا اِلٰی مَاعَمِلُوا مِنَ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنشُوْراً " قَالَ اَمَا وَاللّٰهُ وَاِنْ کَانَ اَعْمَالُهُمْ اَشَدَّ بَیَاضاً مِنَ الْقَبَاطِیْ وَلٰکِنْ کَانُوْا اِذا عَرَضَ لَهُمْ حَرَامٌ لَّمْ یَدْعُوْهُ (عدة الداعی)

"سلیمان بن خالد کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اس قول ِ خدا کے بارے میں پوچھا، ٌہم نے قصد کیا اُس عمل کا جو خوبصورت شکل میں ہے پھر اس عمل کو ذروں کی طرح ہوا میں بکھیر دیتے ہیں تو حضرت نے فرمایا؛ خدا کی قسم اگرچہ ان کے اعمال مصری کپڑوں کے مانند زیادہ سفید ، چمکدار بھی ہوں گے مگر جب ان کے سامنے گناہ اور حرام نمودار ہوتا ہے تو وہ اسے چھوڑتے نہیں ہیں"۔ ٌ

بعبارت دیگر ان کے اعمال تقویٰ نہ ہونے اورحرام میں مرتکب ہونے کی بنا پرگردوغبار کی طرح فضا میں پراگندہ ہوتے ہیں ایسے اعمال کی قدروقیمت ہی نہیں ہوتی۔

علامہ مجلسی علیہ الرحمة والرضوان اس حدیث کی شرح کے ضمن فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ عبادات واطاعات گناہ کی سبب سے فنا ہوتی ہیں ۔

بے شمار پرھیز گار لوگ جنت میں جائیں گے

قَالَ اَبُوْ عَبْداللّٰهِ (ع) اَوْحیٰ اللّٰهُ تَعالٰی اِلٰی مُوْسٰی اِنَّ عِبَادِیْ لَمْ یَتَقَرّبُوْا اِلیَّ بِشَی اَحبِّ اِلَیَّ مِنْ ثَلَاثِ خِصَالٍ قَالَ مُوْسٰی یَارَبِّ وَمَاهُنَّ قَالَ تَعَالٰی یَامُوْسٰی الزُّهْدُ فِی الدُّنْیَا واَلْوَرَعُ عَنْ مَّعَاصیْ وَالبُکَاءُ مِنْ خَشْیَتِیْ قَالَ مُوْسٰی مَالِمَنْ صَنَعَ ذا؟ فَاَوْحیٰ اللّٰهُ اِلَیْهِ اَمَّا الزَّاهِدُوْنَ فِی الدُّنْیَا فَفِیْ الجَنَّةِ وَاَمََّا البَکَّاونَ مِنْ خَشْیَتِیْ فَفِیْ الرَّفِیْع اِلْاَعَْلٰی لاَ یُشَارِکُهُمْ فِیْهِ اَحَدٌ غَیْرُ هُمْ وَاَمَّا الْوَرِعُوْنَ عَنْ مَّعَاصِیْ فَاِنِّیْ اُفَتِشُ النَّاسَ وَلاَ اُفْتِیْشُهُمْ (عدة الداعی)

"حضرت صادق آلِ محمدعلیہ الصٰلوةوالسلام نے فرمایا:اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر وحی نازل کی اور فرمایا یقینا میرا بندہ میرے نزدیک نہیں ہو سکتا مگر میری پسندیدہ تین چیزوں کے بغیر۔حضرت موسیٰ نے عرض کی میرے پالنے والے وہ تین چیزیں کونسی ہیں؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛اے موسیٰ وہ تین چیزیں دنیا میں زہد سے کام اور گناہوں سے پرہیز کرنا اور میرے خوف سے گریہ کرناہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:پروردگار !جو یہ چیزیں بجا لایا اس کے لیے کیا اجروثواب ہے؟فرمایا:دنیا میں زہد سے کام لینے والوں کے لیے بہشت ہو گی اور میرے ڈر سے گریہ کرنے والوں کے لیے ایسا بلند مقام ہو گا جہاں ان کے علاوہ اور کسی کو ٹھہرنے کی گنجائش نہیں ہو گی ۔لیکن میری نافرمانی سے پرہیز کرنے والوں کے لیے بے شک تمام مخلوق کے اعمال کی باز پرس ہو گی مگر ان کے اعمال کا حساب و کتاب نہیں ہو گا ااور بغیر حساب بہشت میں داخل ہوں گے"۔

گناہانِ ِ کبیرہ و صغیرہ کی تقسیم

کبیرہ سے اجتناب صغیرہ سے درگزر کا سبب بنتا ھے

اگر کوئی گناہانِ کبیرہ سے پرہیز کرے تو اس کے چھوٹے گناہوں کی باز پرس نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اُسے بخش دیتا ہے۔ جیسا کہ سورة النساء کی آیت ۳۰ میں فرماتا ہے:

اِنْ تجتَنِبُوْا کَبَائِرَ مَاتُنْهَوْنَ عَنْهُ نُکَفِرّ عَنْکُمْ سَیِّئاتِکُمْ وَنُدْخِلَکُمْ مُّدْ خَلاً کَرِیْماً (سورہ ۴ ۔ آیت ۳۰)

"اگر ان میں سے تم گناہان ِکبیرہ سے بچتے رہو تو ہم تمہارے (صغیرہ) گناہوں سے بھی درگزر کریں گے اور تم کو بہت اچھی عزت کی جگہ پہنچا د یں گے اور تمہارا بڑے گناہوں سے اجتناب کرنا چھوٹے گناہوں کا کفّارہ قرار دیاجائے گا"۔

بہشت کے دروازے پرہیزگاروں کے سامنے کھلے ہیں

حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے روایت ہے کہ آ پ نے فرمایا: قسم ہے اُس خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کوئی بندہ ایسا نہیں کہ دن میں پانچ مرتبہ واجب نماز بجا لائے ،ماہ ِ مبارک رمضان کا روزہ رکھے اور گناہان ِکبیرہ سے دوری اختیار کرلے مگر یہ کہ بہشت کے دروازے اس کے سامنے کھولے جائیں گے۔ اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے گذشتہ آ یہ مبارکہ کو تلاوت فرمایا۔(تفسیر منہج الصادقین)

شفاعت

جس سے گناہِ کبیرہ سر زد ہو اور توبہ نہ کرے تو وہ فاسق ہے۔ اس کے پیچھے نماز جائز نہیں اور اس کی گواہی قابل ِ قبول نہیں اور مرنے کے بعد عذاب ِ الٰہی کا مستحق ہوتا ہے۔ مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اس کے شامل ِ حال ہو جائے اور فضل ِ الہٰی میں سے ایک حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) و آلِ محمد (علیہم السلام) کی شفاعت ہے۔ چنانچہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے:

اِدَّخَرْتُ شَفَاعَتِیْ لِاَهْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتِیْ

(ج ۳ بحارالانوار۔ عدة الداعی)

"میری شفاعت میری اُمّت کے گناہانِ کبیرہ کے مرتکب افراد کے لیے ذخیرہ کی گئی ہے"۔ اور فرمایا:

اِنَّمَا شَفَاعَتِیْ لِاَهْلِ الْکَبَائِر مِنْ اُمَتِیْ فَاَمَّا الْمُحسِنُوْنَ فَمَا عَلَیْهِمْ مِّنْ سَبِیْل (ج ۳ بحارالانوار۔ عدة الداعی)

"میری شفاعت میری اُمّت کے گناہانِ کبیرہ بجالانے والوں کے لیے (مخصوص) ہے لیکن گناہانِ کبیرہ کے ترک کرنے والوں ، یعنی نیکوکاروں کے لیے کوئی موأخذہ نہیں "۔

شفاعت معصیّت کرنے پر دلیری کا سبب نہیں ہونی چاہیئے

دراصل شفاعت کی حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ پیغمبر ِ اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آئمہ اطہار (علیہم السلام) کی عظمت اور شان و بزرگی اور دوسرے شفاعت کرنے والوں کے احترام کا اظہار ہے۔ کیونکہ گناہان ِ کبیرہ میں ملّوث افراد کو انہیں کے حوالہ کیا جا ئے گا بلکہ ان کی شفاعت کی برکت سے گناہ گاروں کو ان کے دوسرے دوستوں کی طرح بلند مقام اور مرتبے پر فائز کیا جائے گا۔ اور یہی قرآن ِ مجید اور صحیح خبروں میں اور متواتر و مسلّم احادیث سے ظاہر ہوتا ہے اور یہاں اس مختصر بحث میں ان سب کا ذکر طوالت کا سبب ہو گا۔ جو چیز یہاں ذکر کرنا لازم ہے وہ یہ ہے کہ شفاعت کا موضوع معصیّت پر جرأت کا سبب نہ بنے ، نہ توبہ سے غفلت کرے۔

نجات کی امید میں خودکشی کرنا

شفاعت کی امید میں گناہ کرنا اور توبہ نہ کرنا زہر کھانے اور اژدہے کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے ۔ یہ امید رکھنا کہ ڈاکٹر پہنچ جائے گا اور علاج کردیگاخلافِ عقل ہے۔کیونکہ زہرکھانے کے بعدیقین پیدانہیں ہوتاکہ ڈاکٹراور دوا میسرآجائیں گے ۔دوسری بات یہ ہے کہ ممکن ہے کہ ڈاکٹر اور دوا دونوں فراہم ہو جائیں مگر زہر رگوں میں داخل ہو کر دل کو ناکارہ بنادے اور موت سے ہمکنار کر دے ۔اسی طرح جو شخص گناہ کرتا ہے وہ کس طرح یقین رکھتا ہے کہ مرنے کے بعد سفارش کرنے والے کی شفاعت فوراً حاصل ہوجائے گی۔

موت کی تین قسموں میں سے ایک قسم واقع ہوتی ہے

حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام)نے اپنے اجدادکرام سے روایت نقل کی ہے :

قال قیل لامیرالمُومنین صِفْ لَنَااَلْمُوْتَ؟ فَقَالَ عَلَیْهِ السَّلاَم؛ عَلٰی الخَبِیْرِ سَقَطْتُمْ هُوَاَحَدُ ثَلاثَةِ اُمُورٍ یُرَدُّ عَلَیْهِ اِمَّا بَشَارَةٌ بِنَعِیْمِ الْاَبَدِ وَاِمَّا بَشَارَةٌ بِعَذَابِ الْاَبَدِ وَاِمَّا تَحزِیْنٌ وَتَهْوِیْلٌ وَاَمْرُه مُبْهَمٌ لاَ یَذرِیْ مِنْ اَیِّ الْفِرَاقِ هُوَ فَمُوَا الِیْنَا الْمُطِیْعُ لِاَمْرِنَا فَهُوَ الْبَشَرَّ بِنَعِیْم اِلْاَبَدِ وَاَمَا عَدُوَّنَا الْمُخَالِفُ عَلَیْنَا فَهُوَ الْمُبَشَرُ بِعَذابِ الْاَبَدِ وَاَمَّا الْمُبْهَمُ اَمْرُهُ الَّذِیْ لاَ یَدْرِیْ مَاحَالُهُ فَهُوَ الْمُومِنْ مِنَ الْمُسْرِفْ عَلٰی نفسِهِ لاَ یَدْرِیْ مَایَولُ اِلَیْهِ حَالُه یَاتیهِ الْخَبَرُ مُبْهَمًا تَخُوْفاً ثُمَّ لَنْ یُسَوِّیَهُ اللّٰهُ بِهِ اَعدَائَنَا لکِنْ یُخْرِجُه مِنَ النّارِ بِشَفَاعَتِنَا فَاعَمَلُوْا وَاطِیعُوْا وَلاَتَنْکِلُوْا وَلاَ تَسْتَصْغِرُوْا عُقُوْبَةَ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ فَاِنَّ مِنَ الْمُسْرِفِیْنَ مَنْ لاَ تُلْحِقُهُ شَفَاعَتُنَا اِلاَّ بَعْدَ ثَلٰثمأةِ اَلْفِ سَنَةٍ (ج ۳ بحارالانوار نقل از معانی الاخبار)

"حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام)سے کسی نے موت کی تعریف پوچھی تو آپ نے فرمایا:تم عالم اور باخبرہستی کے پاس آئے ہو ، (اب سنو ):تین میں سے ایک حالت میں انسان کی موت واقع ہو تی ہے۔ ابدی نعمت کی خوشخبری دی جاتی ہے،یاابدی عذاب کی وعید سناتی ہے ،یا وہ ہمیشہ کے لئے وحشت اورخوف میں مبتلا رہتا ہے اور اس کا کام غیر یقینی اور تردد کی حالت میں رہتا ہے اور پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس قسم کی موت سے دو چار ہوتا ہے۔

پس جاننا چاہیئے کہ ہمارا دوست ہمارا فرمانبردار ہوتا ہے ۔وہ معصیت کار نہیں ہوتا ۔اسے ابدی نعمتوں کی خوشخبری دی جاتی ہے لیکن ہمارا بد خواہ جو ہماری مخالفت کرتا رہا ہے ہمیشہ کے عذاب میں گرفتار رہے گا۔

لیکن وہ شخص جو غیر یقینی حالت میں ہے اور معلوم نہیں کہ اس کا انجام کیا ہو گاجبکہ وہ ایسا مومن ہے کہ جس اپنے نفس پر ظلم اور اسراف کیا ہے یعنی وہ گنہگار اور اس کی موت ڈراور خوف وہراس اور مبہم حالت میں آتی ہے ۔پس اللہ تعالیٰ اس کو اور ہمارے دشمن کو مساوی نہیں دیکھتا بلکہ ہماری شفاعت کی وجہ سے وہ جہنم سے نکالا جائیگا۔

پس (میرے دوست) عمل کرو ۔اور احکامات الہٰی کی اطاعت کرو ۔خداوند کے عذاب کو چھوٹا اور حقیر شمار نہ کرو۔ اور بے شک کچھ ایسے گناہ گار بھی ہیں جن کو ہماری شفاعت نصیب نہیں ہوتی مگر تین لاکھ سال گزر جانے کے بعد"۔

میں تمہارے بارے میں برزخ سے ڈرتا ہوں

قُلْتُ لِاَبِیْ عَبْداللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلاَمْ اِنِّیْ سَمِعْتُکَ تَقُوْلُ کُلُّ شِیْعَتِنَا فِی الْجَنَّةِ عَلٰی مَاکَانَ فِیْهِمْ

قَالَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ صَدَّقْتُکَ؛ کُلُّهُمْ وَاللّٰهِ فِیْ الجَنَّةِ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ اَنَّ الذُّنُوْبَ کثیرةٌ کَبَائِرٌ

قَالَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ اَمَّا فِیْ الْقِیٰمَةِ فَکُلُّکُمْ فِیْ الجَنَّةِ بِشفاعَةِ نَبِیّ المُطَاعِ اووصِیّ النَّبِیِّ وَلٰکِنْ وَاللّٰهِ اَتَخَوَّفُ عَلَیْکُمْ فِیْ البَرْزَخِ

قُلْتُ وَمَا البْرَزَخُ قَالَ عَلَیْهِ السَّلاَم القَبْرُ منْذُحِیْنَ مَوْتِهِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ (کافی)

"عمر بن یزید کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر سے دریافت کیا کہ میں نے آپ کو یہ کہتے ہوے سنا تھا کہ ہمارے تمام شیعہ خواہ کتنے بھی گنہگار ہوں بہشتی ہوں گے۔

فرمایا : اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے سچ کہا ہے ! وہ سب کے سب بہشتی ہوں گے ۔

پھر میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں؛بے شک گناہ زیادہ اور بڑا ہو ( پھر بھی کیا بہشت میں ہوں گے؟)، فرمایا، " قیامت کے دن حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) یا ان کے کسی بھی وصی کی شفاعت سے تم سب بہشت میں داخل ہو ں گے۔ لیکن خداوندِعالم کی قسم تمھارے بارے میں برزخ سے ڈرتا ہوں۔میں نے عرض کیا؛"مولا برزخ کیاچیزہے؟"جوابافرمایا؛برزخ قبر ہےاس کی مدت مرنے کے وقت سے لیکر قیامت کے دن تک ہوتی ہے"۔

کل خون کے آنسو بہائے گا

حضرت رسول ِ اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ابنِ مسعود کو مخاطب کر کے کچھ نصیحتیں فرمائیں۔ اس سلسلے میں ارشاد فرمایا:

لاَتَحْقِرَنْ ذَنْباً وَّلاَ تَصْغِرَنَّهُ وَاجْتَنِبِ الْکَبَائِرَ فَاِنَّ الْعَبْدَ اِذَا نَظَر اِلٰی ذُنُوبِهِ دَمِعَتْ عَیْنَاهُ دَمًا وَقِیْحًا یَقُوْلُ اللّٰهُ تَعَالٰی یَوْمَ تَجِدْکُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خیْرٍ مُحْضَرًا وَّمَا عَمَلَتْ مِنْ سُوْءٍ تَوَدُ لَوْ اَنَّ بَیْنَها وَبَیْنَه اَمَدًا بَعِیْداً (جلد ۱۷ ۔ بحارالانوار)

"ہر گز کسی گناہ کو چھوٹا اور حقیر تصوّر نہ کرو اور بڑے گناہوں سے پرہیز کرو کیونکہ قیامت کے دن جب بندہ اپنے گناہ پر نظر کرے گا تو بے اختیار اس کی آنکھوں سے خون اور پیپ کے آنسو بہیں گے ، اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ قیامت وہ دن ہے کہ ہر ایک اپنے نیک و بد اعمال اپنے سامنے پائے گا اور آ رزو کرے گا کہ خود اس کے اور گناہوں کے درمیان بہت دور کا فاصلہ ہو جائے۔ "، اور حضرت رسول ِ اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منقول ہے کہ فرمایا:

اِنَّ الْعَبْدَ لَیُجْسُ عَلٰی ذَنْبٍ مِّنْ ذُنُوْبِهِ مِأةَ عَامٍ (کافی)

"بے شک بندے کے ہر ایک گناہ کی سزا میں اسے ایک سو سال جہنم میں قید رکھا جائے گا"۔

نماز کو حقیر شمار کرنے والوں کے لیے شفاعت نہیں

نماز کا استخفاف گناہانِ کبیرہ میں شمار ہوتا ہے۔ بعض روایتوں میں واضح طور پر بیان ہے کہ نماز کو حقیر سمجھنے والا شفاعت سے محروم ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

لاَ تَنَالُ شَفَاعَتُنَا مَنْ اِسْتَخَفَّ بِصَلَا تِه

"ہماری شفاعت ان لوگوں کو نہیں ملتی جنہوں نے نماز کو حقیر سمجھا "۔

حضرت رسول ِ اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

"لَیْسَ مِنِّیْ مَنْ اِسْتَخَفَّ بِالصَّلوٰةِ لاَیَرِدُ عَلَیَّ الحَوْضَ لاَوَاللّٰهِ " (بحارالانوار)

"جو کوئی نماز کو حقیر شمار کرتا ہے وہ مجھ سے نہیں۔ اللہ کی قسم وہ مجھ سے نہیں ، اللہ کی قسم وہ حوض ِکوثر پر میرے نزدیک نہیں پہنچ سکتا"۔ (بحار الانوار)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گناہوں سے نہ بچنا اور دلیری سے گناہوں میں ملّوث ہونا اور شفاعت کی امید میں توبہ کرنے میں تاخیر کرنا جہالت ، گھمنڈ اور لاپروائی کی علامت ہے۔

زیادہ گناہ ایمان کو ختم کر دیتا ہے

جو کچھ شفاعت کے بارے میں ذکر کیا گیا اس وقت کام آتا ہے جب کہ کوئی شخص ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جائے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گناہوں میں زیادہ ملّوث ہونے اور توبہ میں تاخیر کرنے سے ایمان کا نور دل سے ختم ہو جاتا ہے اور وہ شک میں پڑ کر انکار کی حد تک پہنچ جاتا ہے، اور ایسی حالت میں پھر وہ موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ اس شخص کی مانند ہے کہ جس نے اس قدر مہلک زہر کھا لیا ہو کہ ڈاکٹر کے پہنچنے سے پہلے وہ مر جائے۔ اس صورت میں ڈاکٹر اس کا علاج نہیں کر سکتا۔ اسی طرح شفاعت کرنے والے کی سفارش اسے فائدہ نہیں دیتی۔

( فَمَاتَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِیْنِ ) (سورہ ۷۴ ۔آیت ۴۹)

میں اس دعوے کے ثبوت کے لیے ایک آیت شریفہ اور دو روایتیں ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں ۔ چنانچہ سورہ روم، آیت ۱۰ میں ارشاد ہوتا ہے:

( ثُمَّ کانَ عَاقِبَةُ الَّذیْنَ اَسَاوا السُّوٰٓیْ اَنْ کَذَّبُوْا بِٰآیٰاتِ اللّٰهِ وَکَانُوْا بِهَایَسْتَهْزِون ) ۔

"پھر جن لوگوں نے بُرائی کی تھی ان کا انجام بُرا ہی ہوا کیونکہ ان لوگوں نے خدا کی آیتوں کو جھٹلایا تھا اور ان کے ساتھ مسخرہ پن کیا تھا"۔

گناہ دل کو سیاہ کر د یتا ہے

پہلی حدیث حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

مَا مِنْ عَبْدٍ اِلاَّ وَفِیْ قَلْبِهِ نُکْتَةٌ بَیْضَاءٌ فَاِذا اَذْنَبَ ذَنْباًخَرَجَ مِن نُکتِهِ نُکْتَةٌ سَوْدٰٓاءٌ فَاِذَاتَابَ ذَهَبَ ذٰلِکَ السَّوٰادُ وَاِنْ تَمَادیٰ فِی الذُّنُوْبِ زَادَذٰلکَ السَّوَادُ حَتٰی یغَطْیِ البَیَاضَ فَاِذَا غَطٰی البَیَاضُ لَمْ یَرْجِعْ صَاحِبُهُ اِلٰی الْخَیرِ اَبَداً وَهُوَ قَوْلُهُ تَعَالٰی کَلاَّبَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَاکانْوا یَکْسِبُوْنَ (کتاب کافی)

"کوئی بندہ نہیں مگر اس کے دل میں ایک سفید نقطہ ہوتا ہے۔ جب گناہ کرتا ہے اس نقطے سے سیاہ نقطہ نکل آتا ہے۔ اگر توبہ کرے تو وہ سیاہی مٹ جاتی ہے ، اگر وہ گناہوں میں ڈوب گیا اور لگاتار آلودہ رہا تو دل کی سیاہی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ دل کی پوری سفیدی کو گھیر لیتی ہے۔ جب سفیدنقطہ پر مکمل طور پر کالا پردہ چھا جاتا ہے تو ایسے دل کے مالک کبھی بھی خیر کی طرف رجوع نہیں کریں گے۔ یہ روایت فرمان ِ الٰہی کے عین مطابق ہے ۔ جیسا کہ ارشاد ہے:"نہیں ، نہیں بات یہ ہے کہ جو لوگ اعمال (بد) کرتے ہیں ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے"۔