گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 105615
ڈاؤنلوڈ: 5724

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105615 / ڈاؤنلوڈ: 5724
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

حرام خوریا

پچیسواں گناہ حرام خودی حرام خوری ہے جس کے گناہِ کبیرہ ہونے پر نص قرآن و حدیث ہے ۔ کتاب "عیون الاخبار " میں امام علی رضا علیہ السلام سے جو روایت نقل ہے اسی طرح اعمش نے امام جعفر صادق علیہ السّلام سے روایت نقل کی ہے اس میں اس کی وضاحت موجود ہے ۔ سورئہ مائدہ میں حرام خوری کو یہودیوں کی صفت بتایا گیا ہے۔ ارشاد ہوا:

( وَتَریٰ کَثِیْراً مِّنْهُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثمِ والعُدْوَانِ وَاَکْلِهِمُ السُّحْتََ لَبِئسَ مَاکَانُوایَعْمَلُوْنَ لَوْلَا یَنْهَا هُمُ والرَّبّانِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قُوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَاکَانُوا یَصْنََعُوْنَ ) ۔ (سورئہ مائدہ ۵ : آیت ۶۲ ، ۶۳)

یعنی (اے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ)) تم ان (یہودیوں میں سے بہتروں کو دیکھوگے کہ گناہ وسرکشی اور حرام خودی کی طرف دوڑ پڑتے ہیں ، جو کام لوگ کرتے تھے وہ یقینا بہت ہی بُرا ہے۔ ان کو الله والے اور علماء جھوٹ بولنے اور حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے؟جو (درگزر) یہ لوگ کرتے رہے یقینا بہت ہی بُرا ہے۔ "

اَکْلِ سُحْت جسے گناہاں ِ کبیرہ میں شمارکیا گیا ہے،سے مراد مال حرام کھاناہے ۔ مال ِ حرا م کھانے کا مطلب اس میں تصّرف کرنا ہے، خواہ یہ تصّرف کسی طرح بھی کیا جائے ۔ یعنی خواہ اسے کھایا پیا جائے یامکان وغیرہ تعمیر کیا جائے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص مالِ حرام کو صرف اپنے پاس رکھے اور اسے اس کے مالک تک نہ پہنچائے تب بھی یہ مال حرام میں تصّرف ہوگا اور کہا جائے گا کہ اس نے حرام کا مال کھایا ہے ! یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ سود کھانے اور یتیم کا مال کھانے سے مراد اس میں ہر طرح کا تصّرف کرنا ہے، صرف کھانا ہی حرام نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ مالِ حرام میں کسی طرح کا بھی تصّرف جائز نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مال وجہ یہ ہے کہ مالِ حرام کو آیت میں"سُحْت " کہاگیا ہے۔سُحت کے لغوی معنی زائل ہونے اور دور ہوجانے کے ہیں اور مال مسحُوت کے معنی ہلاک شدہ مال یا تلف شدہ مال ہیں اب چونکہ حرام کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور اس میں تصّرف کرنے والا فائدہ نہیں اٹھاسکتا لہذا اسی مناسبت سے حرام خوری کو قرآن نے : اَکلُ السُّحْتِ کہا ہے۔ لفط سُحْت سے مراد ہر قسم کا مال ِحرام ہے۔یعنی ہر وہ مال جس کو ناجائز طریقہ سے حاصل کیا جائے اور اس میں تصّرف کیا جائے اَکْلُ السُّّحْتِ ہے۔

سیّد ابوالاعلی مودودی  کتاب "اسلام ومشکلاتِ اقتصادی "میں لکھتے ہیں کہ : "اسلام انسان کو اس کی اپنی مرضی کے مطابق ضروریات زندگی حاصل کرنے کا حق دیتا ہے۔ وہ اپنی روزی حاصل کرنے اور کسبِ معاش میں آزاد ہے اپنی زندگی گزارنے کے لئے ضرورت کے چیزوں کے انتخاب میں بھی آزاد ہے۔ لیکن اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ وسائل زندگی حاصل کرنے کیلئے ایسا راستہ اختیا ر کرے جس سے اخلاق خراب ہوں اور وہ تباہ وبرباد ہوجائے، یا معاشرے اور انسانی ثقافت کو نقصان پہنچے ۔ اسلامی قانون کی روسے نہ صرف کہ شراب، نشہ آور چیزیں اور فحاشی وبے ہودگی حرام ہیں بلکہ وہ تمام کام جس کے نتیجے میں یہ چیزیں وجود میں آتی ہیں حرام ہیں مثلاً شراب کے لئے یا کسی نشہ آور چیز کے لئے کاشت کرنا ، اس کا بنانا، اسے لے جانا، اس کی خریدوفروخت ، اسے اٹھا کر دینا اور استعمال کرنا یہ سب بھی حرام ہیں اسلام ہرگز زنا اورفحاشی کو انسانی فعل نہیں سمجھتا، رقص کوحرام پیشہ قرار دیتا ہے۔ گانا گانے اور موسیقی بجا کر کمانے کو صحیح نہیں سمجھتا اسلام ہر وہ کام جس میں کسی کاایک کا فائدہ ہولیکن اس سے دوسرے کو خواہ مخواہ نقصان اٹھانا پرے یا اس سے معاشرہ تباہ ہوجائے ایسے کام کو جرم اور گناہ قرار دیتا ہے اس قسم کے جرم کی دنیا میں سخت سزا کا اور آخرت کے سخت عذاب کا اعلان کرتا ہے جیسے رشوت، چوری جوا سود ہر ایسا معاملہ جس میں ملاوٹ اور دھوکہ کیا گیا ہو،کھانے پینے کی اور عام ضرورت کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی اس خیال سے کرنا کہ ان کی قیمت بڑھ جائے اگرچہ اس سے غریبوں کی زندگی گزارنا مشکل ہوجائے اسی طرح ہروہ کام کہ جس کے نتیجے میں جنگ وجدل کا بازار گرم ہوجائے اور ایساکام کہ جس میں کسی طرح کی کوشش اور جدّوجہدنہ کرنی پڑے اور قسمت سے دولت مل جائے(جیسے انعامی ٹکٹ)یہ سب حرام ہیں۔"

مال حرام میں تصّرف کرنا گناہ ہے ۔ البتہ بعض تصّرفات میں گنا ہوں سے زیادہ ہے۔ سود کھانے والے کو تو خدا ورسول سے جنگ کرنے والا کہاگیاہے! رشوت کھانے والے کو کافر قرار دیا گیاہے! چنانچہ شیخ صدوق نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

مَنْ غَلَّ مِن الاِمَام فَهُوَسُحْتُ وَالسُّحْتُ اَنْواعُ کَثیرَة ۔ "یعنی " ہروہ چیز جس میں امام سے خیانت کی جائے سُحْت ہے اور سحت کی بہت سی قسمیں ہیں:مِنْهَامَا اُصِیْبَ مِنْ اَعْمالِ الْوُلَاةِ لظَّلَمَة ۔"ان میں سے ایک وہ مال کہے جو ظلم وستم کے ساتھ حکم کرنے والوں سے ملے "وَمِنْهَا َاُجُوْرَُالقُضاةِ وَاُجُوْرُ الْفُواَجِرِ وثََمَنُ الخَمْرِ وَالنَّبِیْذِ المُسْکِرِ وَالرِّبٰو بَعدْ البَیََّنَّةِ "اور اسی میں قاضیوں کی اجرت ، بدکارعورتوں کی اُجرت، شراب کی قیمت ، اس نبیذ(جو کی شرب ) کی قیمت جو نشہ کرنے والی ہو، اور سود کھانا بھی شامل ہیں یعنی یہ سب بھی سحت اور حرا م ہیں جیسے شریعت نے ان کو حرام ظاہر کیا ہے ۔"اَمّاَ الرَّشَافِیْ الْاَحکامِ فَهُوَالْکُفْرُ با للّٰهِ العَظِیْم (کتاب "خصال") "اور قاضی کا فیصلہ کرتے وقت رشوت لینا، خدائے بزرگ وبرتر سے انکار اور کفر ہے!"

کتاب "کافی " میں اسی طرح کی ایک روایت امام محمد باقر علیہ اسلام سے نقل ہے کہ :اسُّحْتُ ثَمَنُ الْمَیَتْةِِ وَثَمَنُ الکلبِ وَثَمَنُ الْخَمْرِوَمهْرُ الْبَغْی وَائرَّشْوَةِ فِی الَحُکْمِ وَاَجْرُْکَاهِنِ (وسائل الشیعہ کتاب التجارة، باب ۲۳) یعنی : "سُحت سے مراد مُردار،غیر شکاری کتے اور شراب کی قیمتی ہے اسی طرح زناکار عورت کی زنا کرانے پر

اجر ت اور عدالتی حکم دینے میں رشوت لینا اورجنات کے ذریعے غیب کیی باتیں بتا کر اجرت لینا بھی سُحت ہے۔"

ان احادیث سے اور ایسی ہی دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کامالِ حرام کھانا سُحت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعض کو بڑی شدت کے ساتھ حرام قرار دیا گیاہے اور ان کا عذاب انتہائی شدید ہے ۔ ان میں سب سے بدتر رشوت کھانا ہے۔ رشوت کھانے والا کافر کے حکم میں ہے اور رسو ل (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس پر لعنت کی ہے۔

رشوت کی قسمیں

رشوت کی تین قسمیں ہیں : قاضی کا حکم صادر کرنے کے لئے رشوت ، حرام کام کے لئے رشوت ، مباح کام کے لئے رشوت ۔

پہلی قسم کی رشوت یہ ہے کہ قاضی یا جج کو مال دیا جائے تاکہ وہ اس کے حق میں حکم صادرکرے یا دوسرے فریق پر غلبہ حاصل کرنے کا طریقہ بتائے۔ ایسا کرنا حرام ہے اگرچہ کہ رشوت دینے والا حق پر ہی کیوں نہ ہو اور قاضی برحق فیصلہ ہی کیوں نہ صادر کرے ! لہذا ایسی رشوت لینا اور دینا بھی حرام ہے، اس میں تصّرف بھی حرام ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے ؟ ۱ یسی رشوت دینے ، لینے اور دلانے والا خدا کی لعنت کا سزاوار ہے۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں :لَعَنَ اللّٰهُ الرَاشیْ وَالْمُرْتَشِیَ وَالمَاشِیَ بَیْنَهُمَا ۔ (سفینتہ البحار، جلد صفحہ ۵۲۳) یعنی : "خدا رشوت دینے والے ، رشوت لینے والے اور جو بھی انکے درمیان واسطے اور رابطے کا کام کرے اس پر لعنت کرتا ہے۔ " ایک اور مقام پر آپ نے فرمایا:اِیّا کُمْ وَالرّشْوَةَ فَاِنّهَا مَحْضُ الْکُفْرِ وَلاَیَشُمُّ صَاحِبةُ الرّشْوَهِ رِیْحَ الْجَنَةِ (سفینتہ البحار جلد، صفحہ ۵۲۳) یعنی: "اپنے آپ کو رشوت سے بچاو!کیونکہ یہ کفر کے علاوہ اور کچھ نہیں ! رشوت میں ملوث آدمی بہشت ک خوشبوتک نہیں سونگھ سکے گا۔ رشوت دیناگناہ ہونے کے علاوہ اعانتِ اثم ، یعنی گناہ کرنے میں مدد بھی ہی ہے۔ ہاں البتہ اگر مجبور ہو اوررشوت دے بغیر اپنا حق حاصل نہ کرسکتا ہو تو رشوت دینا جائز ہے اگرچہ کہ رشوت لینے والے کے لئے حرام ہے ۔اسی طرح رشوت لے کر دوسرے تک پہنچانا بھی حرام ہے اور بیچ میں پڑ کر رشوت کی مقدار کو کم یا زیادہ کروانا بھی حرام ہے ۔ایسی رشوت بہر حال حرام ہے خواہ وہ نقد رقم کی صورت میں ہومکان یا دوکان کا نفع ہو یا کوئی کام ہو مثلا قاضی کے لیے کپڑے سی کر دے یا اس کا مکان تعمیر کرے۔ کبھی زبان سے بھی رشوت دی جاسکتی ، مثلاً قاضی کی تعریف کرے تاکہ وہ اس کی طرف متوجہ ہو اور اس کے حق میں فیصلہ دے دے ۔ ان تمام قسموں کی رشوت کے حرام ہونے میں کسی طرح کا کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔

خمس اور ہدیہ کے نام پر رشوت

اگر خمس اور ہدیہ کے نام پر رشوت دی جائے تو وہ بھی حرام ہے مثلاًرشوت کی نیت سے کوئی ہدیہ دے یا صلح کے عنوان سے کوئی مال کسی کو دے اوردل میں رشوت کا ارادہ ہو، یعنی اس نیت سے دے کہ ایسا کرنے سے میری مرضی کا کام ہوجائے گا تو یہ حرام ہے۔ اسی طرح اپنے واجبات یعنی خمس وزکات کو رشوت کی نیت سے دے تو یہ بھی حرام ہے اور اس کا خمس اور زکات ادا نہیں ہوگا۔ ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ دو بارہ خمس وزکات ادا کرنے کیونکہ ان کی ادائیگی کے لئے قصد قربت (یعنی حکمِ خداوندی کی بجاآوری ا رادہ ) ضروری ہے۔ حدیث میں قُرب قیامت کی ایک نشانی کو کچھ اس طرح بیان کیا گیاہے کہ : "ایک زمانہ ایسا آئے گا جب لوگ رشوت کو ہدیہ کہہ کر حلال قرار دیں گے! "یعنی رشوت لیں گے اور اسے ہدیہ قرار دیں گے ۔

رشوت کی دوسری قسم حرام کام کے لئے رشوت ہے یعنی کسی حاکم کو یا کسی ظالم اور غنڈے شخص کوکوئی رشوت دے تاکہ اس کے ذریعے کسی شخص پر ظلم کرے یا کوئی اور گناہ کرے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کی رشوت بھی حرام ہے جیسا کہ قرآن ِمجید میں آیا ہے کہ یہ:اَکْلُ الْمَالِ بِاِ لْبَاطِلِ ہے یعنی: مال کو باطل طریقہ سے کھانا ہے آیت میں یہ بات بڑے واضح طور پر ذکر ہے کہ:( وَلاَ تَاکُلُوااَمْوَالَکُم بَیْنَکُمْ باِلبَاطِلِ وَتُدْلُوْابِهاَ الٰی الْحُکّٰام لِتَاْکُلُوااَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بَالبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهاَالٰی الحُکام لِتَاْکُلُوْافَرِیقاً مِنْ اَمْوَالِ الناَّس بِالْاِثم وَاَنْتمُ تَعْلَمُوْنَ ) ۔ (سورئہ بقرہ ۲ : آیت ۱۸۸) " اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نہ کھاجاو اور (نہ ) مال کو رشوت میں حکام کے حق جھونک دو تاکہ لوگوں کے مال میں (جو) کچھ ہاتھ لگے ناحق خورد بُرد کر جاو حالانکہ تم جانتے ہو۔ " اس آیت میں مسلمانوں کو دو چیزوں سے منع کیا گیاہے ۔ پہلی بات یہ کہ جب تک کوئی مال شرعاًجائز نہ ہو اسے استعمال نہ کیاجائے، جیسے چوری کا مال امانت میں خیانت کر کے کسی کے مال کو غصب کرلینا وغیرہ ۔ دوسری بات یہ کہ اپنا مال ومتاع بھی اس مقصد سے ظالم حکام کو نہیں دیا جائے کہ اس کی وجہ سے ظالم حکام دوسروں کا مال ناحق چھین کر کھانے میں اس کی مدد کریں۔

اپنا حق حاصل کرنے کے لئے رشوت د ینا

رشوت کی تیسری قسم مباح کام کے لیے رشوت دینا ہے۔ اور اس سے مُراد یہ ہے کہ ا پنا مال کیسی شخص کودے تاکہ اس کی حمایت سے اپنا حق حاصل کرے یا اپنے آپ سے کسی ظالم کو دور کرے یاکسی مباح کام کو انجام دے سکے۔ رشوت کی یہ تیسری قسم حلال ہے ۔

محمد ابن مسلم یہ صحیح روایت نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہہ(عَنْ محَّمدبْن مُسْلِم قال: ) سَئَلْتُ اَباَ جَعْفَرٍ الرَّجُلِ یَرْ شُوْهُ عَن اِلرَّجُلِ یَرْشُوْهُ الرَّجُلُ عَلیٰ اَنْ یَتَحَوَّلَ مِنْ مَنْزِلِهِ فَیَسْکُنَه "میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس کو آدمی اس لئے رشوت دے تاکہ وہ اس کا مکان خالی کردے (قبضہ چھوڑدے ) اور تاکہ وہ خود اس مکان میں رہ سکے ۔ "قَالَ لَابَاْسَ ۔ اما م نے فرمایا " اس (رشوت دینے میں ) کوئی حرج نہیں ہے ۔" البتہ اس حدیث میں مکان سے مراد سوال کرنے والے کا ذاتی مکان نہیں ہے بلکہ مشتر کہ مکا ن اور وقف شدہ ، جگہ کے بارے میں سوال کیا گیا ہے۔ جیسے مسجد، مدرسہ، گلی کوچہ، بازار اور اس طرح کی جگہ۔ لہٰذا اگر کوئی شخص مسجد یا حرمِ امام میں کسی جگہ بیٹھا ہو یا طالب علم اپنے کمرے میں رہتا ہو اور انھیں کچھ رقم دے کر وہ جگہ ان سے حاصل کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

حفص الاعور نے امام علی النقی علیہ السّلام سے سوال کیا کہ: بادشاہ اپنے کارندے معین کرتا ہے تاکہ وہ ہم سے اجناس خرید کر لے جائیں۔ کیا ہمارے لئے یہ جائز ہے کہ ان کارندوں کو ہم رشوت دیں تاکہ ہم بادشاہ کے ظلم و ستم سے محفوظ رہیں؟" (فَقَال) امام نے جواب میں فرمایا:لَابَاْسَ بِمَا تَصْلَحُ بِهِ مَالَکَ ۔ "کوئی حرج نہیں " تم جتنا دینے میں اپنی مصلحت سمجھتے ہو دے دو۔" اس کے بعد آپ نے فرمایا:(قال) اِذَا اَنْتَ رَشَوْتَه یَا خُذُمِنْکَ اَقَلَّ مِنْ الشَرْطِ؟ "جب تم بادشاہ کے کارندے کو رشوت دے دیتے ہو تو کیا اس صورت میں تمہیں بادشاہ کو کم مال دینا پڑتا ہے؟ سوال کرنے والے نے کہا "ہاں" (قُلْتُ نَعَمْ) امام نے فرمایا: (قال) فَسَدْتَ رَشْوَتَکَ (وسائل الشیعہ، کتاب تجارت، باب ۳۷) " تم نے رشوت ہی کو فاسد کر دیا!" حدیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ اپنا حق حاصل کرنے اور ظلم سے بچنے کے لئے رشوت دینا صحیح اور جائز ہے۔ لیکن دوسرے کاحق حاصل کرنے یا کسی پر ظلم کرنے کے لئے رشوت دینا حرام ہے۔

جائز کام کے لئے رشوت لینا

یہاں پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ تیسری قسم کی رشوت جو اپنے حق حاصل کرنے یا کسی مباح کام کو انجام دینے کے لئے ہدیہ کے طور پر دی جاسکتی ہے لیکن اس جائز کام کے لئے رشوت لینا کراہیت سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا ہدیہ ہے جو رشوت سے مشابہت رکھتا ہے۔ اگر ایسا بھی ہوتا ہے جائز کام کے لئے رشوت دینے کی سہولت اور عادت آدمی کو ناجائز کام کے لئے بھی رشوت دینے پر اکساتی ہے، اور آدمی حرام میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ پرہیز گار آدمی اگر حلال، لیکن مکروہ قسم کی رشوت دینے سے بچے گا تو یقینا حرام قسم کی رشوت دینے سے بھی بچا رہے گا، احادیث سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے۔

( اَکَّالُوْنَ لِلسُّحْتِ ) (سورئہ مائدہ ۵: آیت ۴۲) " جو لوگ حرام مال بہت کھاتے ہیں (خدا ان کے دلوں کو گناہوں سے پاک کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔)"

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السّلام اس آیہ شریفہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ(قَالَ) هُوَالرَّجُلُ یَقْضِیْ لِاَخِیْه حَاجَتَه ثُمَّ یَقْبَلُ هَدِیَّتَه (کتاب عیون اخبار الرضا) یعنی: "یہ ایسا شخص ہوتا ہے جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے مگر اس کے مقابلے میں کوئی تحفہ لے لیتا ہے!" شیخ انصاری نے کتاب مکاسب میں فرمایا ہے کہ:

اس حدیث شریف کے کئی مطلب نکالے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک معنی یہ ہے کہ ضرورتمند لوگوں سے تحفہ قبول کرنے سے آدمی کو سخت پرہیز کرنا چاہیئے تاکہ وہ کسی دن حرام رشوت میں مبتلا نہ ہوجائے۔

حرام خور کی پہچانا

حرام خور کی پہچان یہ ہے کہ اس کے مال میں برکت ہیں ہوتی ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ : مَنْکَسَبَ مَالاً مَنْ غَیْرِ حِلِّه سُلِّطَ عََلَیْه البِناءُ وَالطّینُ وَاْلَماءُ (بحا رالانوار ، جلد ۲۳ ، اور سفینتہ البحار جلداوّل ۲۹۸) یعنی : "جو شخص ناجائز طریقے سے مال کماتا ہو اس کے سر میں عمارت، مٹی اور پانی کا سودا سماجاتاہے۔" یعنی حرام مال کمانے والے شخص کر ہر وقت یہ فکر لگی رہتی ہے کہ وہ اپنا مال عمارت بنانے اور اس کو وسیع کرنے میں لگاتارہے تاکہ وہ مال ضائع نہ ہوجائے۔ پانی اور مٹی کی آمیزش سے بننے والی عمارت آدمی کو نہ تو دنیامیں مطلوبہ سکون فراہم کرتی ہے اور نہ ہی آخرت میں مفید ثابت ہوتی ہے وہ زمین کے ایک ٹکڑے کو حکم دیتا ہے کہ اس کا سارا حرام مال نگل لے۔

حرام مال میں ایک طرف دنیاوی اعتبار سے برکت نہیں ہوتی تو دوسری طرف حرام مال کھانا عبادتوں کے قبول ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے حضرت رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ :اَذَا الُّلقْمَةُ مِنْ حَرَامٍ فِیْ جَوْفِ الْعَبْدِ لَعَنَه کُلُّ مَلَکٍ فِی السَّمٰواتِ وَلْاَرْضِ (سفینہ البحار جلد اوّل ، صفحہ ۲۴۵) یعنی : "جب کسی بندے کی پیٹ میں حرام مال کا ایک لقمہ چال جاتا ہے اور بدن کا جزء بن جاتا ہے۔ تو آسمان وزمین کے تمام فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں !:"

آنحضرت کا یہ بھی ارشاد ہے کہ :اَلعِبَادةُ مَعَ اَکَْل اِلَحَرَامِ کَلْبِنَاءِ عَلیٰ الرَّمْل (سفینہ البحار ، جلد اول ، صفحہ ۲۹۹) یعنی : "حرام خوری کے ساتھ کی جانے والی عبادت بُھربھری مٹی پر تعمیر ہونے والی عمارت کی طرح ہے ! یعنی بے بنیاد ہے اور اس کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ۔ ایسی عمارت یا تو قائم نہیں ہوتی ، یاجلد منہدم ہوجاتی ہے ۔

حرام خور کی دُعا قبول نہیں ہوتی

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا رشاد ہے:امَنْ اَکَلَ لُقْمَةَ حَرَامٍ لَمْ تَقْبَلْ لَه صَلاٰ ةُ اُرْبَعِیْنَ لَیْلَةً وَلَمْ تُسْتَجَبْ لَه دَعْوَةُ اَرَبَعِیْن صبَا حًا "جو شخص حرام مال کا ایک لقمہ بھی کاکھا ئے گا اس کی چالیس دن کی نمازیں بھی قبول نہیں ہوں گی اور ان چالیس دنوں میں اس کی کوئی دعابھی قبول نہیں ہوگی۔"وَکُلُّ لَحْمٍ یُنْبِتُه الْحَرَامُ فَالنَّارُ اَوْلٰی بِه، وَاِنَّ اللُّقْمَةَ الْوَاحِدَةَ تَنْبِتُ الَّلحْمَ (سفینة البحار، جلد اول صفحہ ۲۴) " اور ہر وہ گوشت جو حرام مال کھانے کی وجہ سے نشوونما پایا ہو جہنم کی آگ میں جلنے کا سب سے زیادہ حق رکھتا ہے۔ اور بے شک ایک لقمہ بھی کچھ نہ کچھ گوشت کی نشوونما کر دیتا ہے!"

آنحضرت یہ بھی فرماتے ہیں کہ:

مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُسْتَجابَ دُعَاوه فَلْیُطِیْبَ مَطْعَمَه وَ مَکْسَبَه (کتاب "عدة الداعی")

یعنی"جو شخص یہ چاہتے ہو کہ اس کی دعا قبول ہو، اسے چاہئیے کہ وہ اپنی خوراک اور اپنے ذرائع معاش کو حرام سے پاک رکھے!"

ایک شخص نے آنحضرت کی خدمت میں آکر عرض کیا:

اُحِبُّ اَنْ یُسْتَجٰابَ دُعَائِیْ "میں چاہتا ہوں کہ میری دعا مستجاب اور قبول ہو۔ "قَالَ طَهِّرْ مَا کَلَکَ وَلَا تُدْخِلْ بَطْنَکَ الْحَرَامَ (کتاب "عدة الداعی") آنحضرت نے اُس سے فرمایا: "اپنی خوراک کو حرام سے پاک کرو اور اپنے پیٹ میں کوئی حرام چیز جانے نہ دو۔"

خداوند تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم کو وحی فرمائی:قُلْ لِظَلَمَةِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ لَا تَدْعُوْنِی وَالسُّحْتُ تَحْتُ اَقْدَامِکُمْ (کتاب "عدة الداعی") "بنی اسرائیل میں جو لوگ ظالم ہیں ان سے کہہ دو کہ وہ مجھے اس وقت تک نہ پکاریں اور اس وقت تک دعا نہ مانگیں جب تک کہ حرام مال اُن کے تصرف میں ہے!" اس کے بعد یہ کہنے کا حکم ملا کہ: "اور اگر اسی حالت میں لوگ مجھے پکاریں گے یا مجھ سے دعا مانگیں گے تو میں ان پر لعنت کروں گا!!"

حرام خور سنگ دل ہوجاتا ہے

انسان جو خوراک کھاتا ہے وہ زمین میں بوئے جانے والے بیج کی طرح ہوتی ہے۔ اگر اچھا بیج زمین میں بویا جائے تو اس کا اچھا پھل نکلتا ہے اور اگر کڑوی اور زہر آلود چیزوں کا بیج بویا جائے تو پھل بھی کڑوا اور زہر آلود ہوتا ہے۔ یہی حال انسان کی غذا کا بھی ہے۔ اگر وہ پاکیزہ اور حلال ہوتی ہے تو اس کا اچھا اثر دل کی سرزمین پر ہوتا ہے۔ دل گندگی اور خباثت سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور انسان کے اعضاء و جوارح سے خیر اور نیکی کے پھل حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر آدمی حرام مال سے حاصل کی گئی غذا کھاتا ہے تو اس کا دل سخت تاریک ہو جاتا ہے ۔ سنگدلی کے اثرات نمودار ہوجاتے ہیں۔ جب دل پتھر کا ہو جاتا ہے تو نصیحت اس پر اثر نہیں کرتی اور وہ انتہائی سخت ظلم دیکھ کر بھی متاثر نہیں ہوتا۔ خیر کی کوئی امید نظر نہیں آتی تاریک دل سے نیکی کی کوئی کرن نہیں پھوٹتی یہی وہ بات ہے جو حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السّلام نے ابن سعد کے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرمائی تھی۔ فرمایا تھا:

فَقَدْ مُلِئَتْ بُطُوْنَکُمْ مِنْ الْحَرَامِ وَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَیْلَکُمْ اَلاَ تُنْصِفُوْنَ اَلاَ تَسْمَعُوْن َ(کتاب "نفس المہموم")

یعنی "تمہارے پیٹ حرام مال سے بھر چکے ہیں، اور تمہارے دلوں پر مہر لگ چکی ہے، اب تم حق کو قبول نہیں کرو گے۔ تم انصاف سے کام کیوں نہیں لیتے؟! اب تم میری بات کیوں نہیں سنتے؟!" خلاصہ یہ کہ جب حرام مال کھانے کی وجہ سے دل سخت اور تاریک ہو جاتا ہے تو آدمی حق کو حق تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے کسی نصیحت سے متاثر نہیں ہوتا، بلکہ بڑے سے بڑا جرم بھی کر بیٹھتا ہے۔ واقعہ کربلا اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

عباسی بادشاہ مہدی کے زمانے میں شریک بن عبدالله نامی ایک قاضی ہوا کرتا تھا جب تک بادشاہ نے اسے اپنے پاس نہیں بلایا تھا وہ ایک متقی مجتہد تھا (لیکن مہدی عباسی نے اسے بلاکر مجبور کر دیا کہ وہ تین کاموں میں سے کوئی ایک کام اختیار کرے یا تو بادشاہ کا قاضی بن جائے یا بادشاہ کے بچوں کی تعلیم و تربیت کرے، یا پھر بادشاہ کے ساتھ ایک مرتبہ بیٹھ کر کھانا کھا لے!

قاضی شریک نے خیال کیا کہ ایک مرتبہ شاہی طعام کھالینا سب سے آسان کام ہے۔ اس خیالِ خام کے تحت اس نے کھانا کھانے پر رضا مندی ظاہر کی بادشاہ نے اپنے خاص باورچی کو حکم دیا کہ وہ انواع و اقسام کے انتہائی لذیذ کھانے تیار کرے۔ قاضی شریک نے جب بادشاہ کے ساتھ کھانا کھالیا تو بادشاہ کے خاص باورچی نے اپنے لوگوں سے کہا: "قاضی شریک نجات نہیں پائیں گے!"

ہوا بھی یہی ۔ حرام غذا نے قاضی پر اتنا برا اثر ڈالا کہ اس نے باقی کے دو کام بھی قبول کر لئے ، بادشاہ کا خاص قاضی بھی بن گیا اور بادشاہ کے بچوں کا معلم بھی ۔ کہتے ہیں کہ قاضی شریک کو بیت المال سے وظیفہ ملتا تھا اور وہ اپنا وظیفہ شاہی خزانچی سے حاصل کرنے میں بہت سختی سے کام لیتا تھا۔ ایک دن خزانچی نے شریک سے کہا: "آپ نے مجھے کوئی گندم تو نہیں بیچا ہے جس کی قیمت وصول کرنے میں آپ اتنی سختی کر رہے ہیں۔" قاضی شریک نے جواب دیا تھا: "ہاں ، میں نے گندم سے زیادہ قیمتی چیز بیچ دی ہے! میں نے اپنا دین بیچ دیا ہے!!"

ایک دن ہارون رشید کی جانب سے بہلول دانا کے پاس شاہی طعام سے بھرا ہوا ایک خوان بھیجا گیا۔ انہوں نے اسے قبول نہ کیا۔ بادشاہ کے آدمیوں نے کہا: "خلیفہ کا عطا کردہ ہدیہ واپس نہیں لوٹایا جاسکتا!" بہلول دانا نے آس پاس کے کتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "ان کے سامنے رکھ دو" بادشاہ کے آدمیوں کو سخت غصہ آگیا اور وہ تیزی میں آکر کہنے لگے: "تم نے خلیفہ کے تحفے کی توہین کر دی ہے!!"بہلول دانا نے ان کو چپ کراتے ہوئے فرمایا:"آہستہ بولو، اگر کتوں نے سمجھ لیا کہ یہ خلیفہ کا طعام ہے تو وہ بھی نہیں کھائیں گے!!"

لقمہ حلال

حرام خوری ہر قسم کے شر اور فساد کا سر چشمہ ہے۔ جبکہ لقمہ حلال ہر قسم کے نیکیوں اور خوبیوں کا باعث ہے۔ اکل حلال یعنی حلال روزی کھانے کی فضیلت میں بہت سی روایتیں وارد ہوئی ہیں۔ مثلاً پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "الْعِبَادَة سَبْعُوْنَ جُزْءً اَفْضَلُهَا طَلَبُ الْحَلَالِ (سفینة البحار، جلد اول : صفحہ ۲۹۸) " عبادت کی ستر اقسام ہیں ان میں سب سے افضل قسم کی عبادت حلال روزی کمانا ہے!"

آنحضرت فرماتے ہیں کہ :مَنْ اَکَلَ الْحَلَالَ قَامَ عَلٰی رَاْسِه مَلَکُ یَّسْتَغْفِرُ لَه حَتّٰی یَفْرُغَ مِنْ اَکْلِه (سفینة البحار، جلد اول، صفحہ ۲۹۹) " جو شخص حلال خوراک کھاتا ہے ایک فرشتہ اس کے سر پر کھڑے ہو کر اس وقت تک اس کے لئے مغفرت کرتا رہتا ہے جب تک وہ کھانے سے فارغ نہیں ہو جاتا۔"

آنحضرت یہ بھی فرماتے ہیں :مَنْ بَاتَ کَالَّا مِّنْ طَلَبِ الْحَلَالِ بَاتَ مَغْفُوْراً ۔ (سفینة البحار، جلد اول، صفحہ ۲۹۸) " جو شخص رزقِ حلال کمانے میں صبح سے رات کر دے تو اس کی مغفرت ہو جاتی ہے۔"

وَقَالَ النَّبِیُّ : قَالَ اللهُ تَعَالٰی مَنْ لَّمْ یُبَالِیْ مِنْ اَیِّ بابٍ اکْتَسَبَ الدِّینَارَ وَالدِّرْهَمَ لَمْ اُبَالِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ مِنْ اَیِّ اَبْوَابِ النَّارِ اَدْخَلْتُهُ ۔ (بحارالانوار، جلد ۲۳ ، صفحہ ۶) یعنی: "نبی کریم نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ کا ارشاد ہے : "جو شخص اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ (حلال یا حرام ) کس دروازے سے وہ دینار و درہم کمارہا ہے تو قیامت کے دن میں بھی پرواہ نہیں کروں گا کہ اسے جہنم کے کس دروازے سے داخل کروں!

عَنِ النَّبِی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ) ارشاد فرماتے ہیں کہ:لَا یَکْتَسِبُ الْعَبْدُ مَالاً حَرَاماً فَیَتَصَدَّقُ مِنْه فَیُوجَرُعَلَیْهِ "کوئی بندہ حرام مال کما کر اس میں سے صدقہ دیتا ہے تو اس کو اس کا کوئی اجر نہیں ملتا۔"وَلَایُنْفِقُ مِنْه فیُبَارَکُ لَه "بندہ حرام مال میں سے کچھ راہِ خدا میں بھی خرچ کرتا ہے تو اس کے مال میں برکت پیدا نہیں ہوتی!"وَلَا یَتْرُکُه خَلْفَ ظَهرةِ اِلّا کَانَ زَادَه الٰی النَّارِ (بحارالانوار، جلد ۲۳ ، صفحہ ۷) " بندہ اپنے پیٹھ پیچھے حرام مال چھوڑ جاتا ہے تو وہ اسے مزید جہنم کی طرف ہی لے جاتا ہے۔

خدا، حرام روزی نہیں دیت

ہوسکتا ہے کہ حرام کمائی سے پرہیز نہ کرنے والے لوگ یہ خیال کرتے ہوں کہ اگر وہ حرام مال کو نظر انداز کردے اور حاصل نہ کریں تو ان کے معاشی حالت تباہ ہو جائے گی اور وہ تنگدست ہوجائیں گے۔ یہ محض ایک خیالِ خام ہے۔ یہ شیطان کا وسوسہ اور نفس کی پڑھائی ہوئی بات ہوتی ہے۔ یہ بات نہ صرف یہ کہ قطعاً عقل کے خلاف ہے ، بلکہ قرآن مجید میں بارہا دہرائے گئے رزقِ حلال کے الہٰی وعدے کے بھی خلاف ہے اور اہلِ بیت علیہم السّلام کی بہت سی صریح روایتوں کے بھی برعکس ہے۔ خداوند تعالیٰ نے ہر ذی روح مخلوق کو حلال رزق فراہم کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ خدا کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا۔ بس خدا بندوں سے امتحان لیتا ہے کہ وہ حلال کمائی کی راہ میں صبر و قناعت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں یا بے صبری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مقدر میں جو حلال رزق لکھا ہوتا ہے وہ تو مل کر رہتا ہے۔ بس یہ لوگوں کے بے صبری اور ان کے ایمان کی کمزوری ہے کہ وہ حلال روزی کی راز چھوڑ کر حرام کمائی کے راستے پر چل دیتا ہے۔ جب بندہ ایسا کرتا ہے تو امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے۔ خداوند تعالیٰ ایسی صورت میں بندے کو اس رزقِ حلال سے محروم کر دیتا ہے جو اس کے مقدر میں اس نے لکھا تھا ایسا نہیں ہے کہ ابتدا میں خدا نے کسی کے مقدر میں حرام کمائی لکھی ہو۔

انسان اپنا رزق مکمل طور پر حاصل کئے بغیر نہیں مرت

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حجة الوداع کے موقع پر مسجد الحرام (خانہ کعبہ کی مسجد) میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

اَلَا اِنَّ رُوْحُ الْاَمِیْنِ نَفَثَ فِی رَوْعِیْ اَنَّه لَا تَمُوْتُ نَفْسُ حَتٰی یَسْتَکْمِلَ رِزْقُهَا ۔ "آگاہ ہوجاؤ کہ میری روح پر روح الامین (جبرئیل) نے یہ وحی لائی ہے کہ کوئی جاندار اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اس کا رزق پورااسے نہیں مل جاتا۔"

فَاتَّقُواالله َ وَاَجْمِلُوْا فِی الطَّلَبِ " پس خدا سے ڈرو اور روزی کی طلب میں حرص نہ کرو۔"

وَلَا یَحْمِلَنَّکُمْ اسْتِطَاءُ شیءٍ مِّنَ الرّزْقِ اَنْ تَطْلُبُوه بِمَعْصِیَةِ اللهِ "اگر رزق کی فراہمی میں کچھ تاخیر ہوجائے تو ایسا نہیں ہونا چاہئیے کہ تم خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کی طلب پر لگ جاؤ۔"

فَاِنَّ اللهَ قَسَّمَ الْاَرْزَاقَ بَیْنَ خَلْقِه حَلا لاً وَلَمْ یُقَسِّمْهَا حَرَاماً "بے شک خدائے تعالیٰ نے ہر مخلوق کی روزی حلال ہی تقسیم کی ہے اور کسی کی قسمت میں حرام روزی نہیں لکھی ہے۔"

فَمَنِ اتَّقٰی وَصَبَرَ اَتاهُ اللهُ بِرِزْقِهِ مِنْ حِلِّهِ ، وَمَنْ هَتَکَ حِجَابَ السِّتْرِ وَ عَجَّلَ اَخَذَهُ مِنْ غِیْرحِلّهِ قْصَّ بِه مِنْ رزْقِهِ الْحَلَالِ "پس جو شخص خدا سے ڈرے گا اور صبر سے کام لے گا تو خدا حلال طریقہ سے اسے رزق فراہم کر دے گا۔ لیکن جو شخص اپنی پاکیزگی کا دامن چاک کرے گا اور جلدی میں ناجائز طریقے اپنا لے گا تو اس کے حلال رزق میں سے اتنا رزق کاٹ لیا جائے گا۔"

وَحُوْسِبَ عَلَیْهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کَمَا وَنَهٰی اللهُ عَنْه بِقَوْلِه وَلَا تَتَبَدَّلُواالْخَبِیْثَ بِالطَیِّبِ بِاَنْ تُعَجِّلُوا الْحَرَامَ قَبْلَ اَنْ یَّاتِیْکُمُ الرِّزْقَ الْحَلَالَ الَّذِیْ قَدَّرَلَکُمْ (عُدَّةِالدّاعِی) "قیامت کے دن اس حرام کمائی کا اس سے حساب لیا جائے گا۔ خداوند تعالیٰ نے یہ کہہ کر اس سے منع فرمادیا ہے کہ: وَلَا تَتَبَدَّلُواالْخَبِیثَ بِالطَّیِّبِ (سورئہ نساء ۴ آیت ۲) " یعنی پاکیزہ چیز کے بدلے خبیث اور بری چیز نہ لے لو! ایسا نہ ہو کہ حرام روزی کے سلسلے میں عجلت کر بیٹھو اس سے پہلے کہ خداوند تعالیٰ اس رزقِ حلال میں سے تمہیں عطا کرے جو اس نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے۔"

چور رزقِ حلال سے محروم ہو گیا

ایک روز حضرت علی اپنے سواری کے جانور سے مسجد کے دروازے کے قریب اترے۔ آپ نے خچر ایک شخص کے حوالے کیا اور خود مسجد میں تشریف لے گئے۔ اُ س شخص نے خچر کی لگام کھینچ کر نکال لی۔ خچر کو یوں ہی چھوڑ دیا اور لگام لے کر فرار ہوگیا۔ جب حضرت علی علیہ السّلام مسجد سے باہر تشریف لائے تو دو درہم ہاتھ میں لئے ہوئے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ یہ دو درہم اس شخص کو دیں جسے آپ نے خچر کی حفاظت کے لئے معین فرمایا تھا۔ خچر کو بغیر لگام پایا ۔ گھر پہنچ کر وہ دو درہم اپنے غلام کو دئیے تاکہ وہ لگام خرید لائے۔ غلام بازار گیا۔ اس نے وہی لگام ایک شخص کے ہاتھ میں دیکھی معلوم ہوا کہ چور نے اسے دو درہم میں بیچا اور اسے اس کے قسمت کے وہی دو درہم ملے ہیں جو حضرت علی علیہ السّلام اسے خود بھی عطا فرمانا چاہتے تھے۔ جب غلام نے یہ سارا ماجرا حضرت کو سنایا تو آپ نے ارشاد فرمایا:اِنَّ الْعَبْدَ لَیَحْرُمُ نَفْسَه الرِّزْقَ الْحَلاَلَ بِتَرْکِ الصَّبْرِ وَلَا یَزْدَادُ عَلٰی مَاقُدِرَلَه (کتاب لئالی الاخبار، صفحہ ۱۵۱) یعنی: "بندہ خود دامنِ صبر کو چھوڑ دینے کی وجہ سے اور جلد بازی کی وجہ سے اپنے رزقِ حلال کو حرام کر لیتا ہے۔ حالانکہ جو کچھ اس کی قسمت میں لکھا ہوا ہوتا ہے اس سے زیادہ ہ نہیں پاتا"

تکبر کرنا

تینتیس واں گنا ہ کبیرہ کے جس کے بارے میں نص ہے وہ تکبر ہے کہ جسے فضل بن شاذان کی روایت میں امام علی رضا (علیہ السلام)سے نقل کیا گیا ہے اور شیخ انصاری نے بھی مکاسب میں مذکورہ روایت کے معتبر ہونے کی تصدیق کی ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ اس کی سند صحیح روایت سے کمتر نہیں ہے اور اعمش کی روایت میں بھی امام جعفر صادق (علیہ السلام) گناہان کبیرہ کے ضمن میں فرماتے ہیںوَاِسْتِعِمٰالُ التّکُبّر وَالَّجَبِّرُ تکبر اور جبر سے کام لینا بھی گناہان کبیرہ ہے میں سے ہے۔اس کے علاوہ یہ ایسا گناہ ہے کہ قرآن مجید میں جس کے لئے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے سورہ زمر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

( ألَیْسَ فِی جَهَنَّمَ مَثْویً لِلْمُتَکبََّرِیْن ) (سورہ زمر آیت ۶۰)

کیا غرور کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے۔

یعنی جی ہاں ان کی جگہ کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے۔

یعنی جی ہاں ان کی جگہ دوزخ ہے اور یہ بھی فرماتا ہے۔

( قِیْلَ ادْخُلُوْا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰا لِدِیْنَ فِیْهٰا فَبِئْسَ مَثْوی لَلْمُتِکَبْرِیْنَ ) (سورہ زمر آیت ۷۲)

کہاجائے گا کہ جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاو اور ہمیشہ اسی میں رہو۔پس تکبر کرنے والوں کا (جہنم) کیا برا ٹھکانہ ہے۔

سورہ مومن میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے۔

( کَذَالِکَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰی کُلِّ قَلْبٍ مُّتَکَبِّرٍ جَبّٰارٍ ) ۔ (سورہ مومن آیت ۳۵)

یوں خداوند عالم ہر متکبر سر کش کے دل پر علامت مقرر کر دیتا ہے۔یعنی جو اپنے آپ کو دوسروں سے بر تر سمجھتا ہے۔تا کہ وہ اس علامت سے پہچانا جائے۔ تکبر سے متعلق آیات بہت زیادہ ہیں لیکن یہاں پر اسی آیت کا ذکر کافی ہے جو شیطان کے تکبر کرنے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کہ اپنے اس عمل کی وجہ سے وہ مردود و ملعون بنا اور ابدی عذاب میں مبتلا ہو گیا چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں فرماتا ہے

( اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَ کٰانَ مِنَ الْکَافِرِیْن ) (سورہ بقرہ آیت ۳۴)

(شیطان نے آدم کو سجدے سے انکار کیا اس نے تکبر کیا اورکافروں میں سے ہو گیا۔

حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) ایک خطبے میں فرماتے ہیںَ

فَاعْتَبِرُوْا بِمٰا کَانَ مِنْ فِعْلِ اللّٰهِ بِاِبْلِسَ اَذٰا اَحْبَطَ عَمَلَهُ الطَّوِیْلَ وَ جَهْدَهُ الْجَهِیْدِ وَکٰانَ قَدْ عَبَدَ اللّٰهَ سِتََّهَِ الٰافٍ سَنَةٍلَا یَدْری اَمَنْ سِنیَ الدُّنْیٰا اَمْ مِنْ سِنَی الْاٰخِرَةِ عٰلِی کِبْرِسٰاعَةٍ وٰاحِدَةٍ، فَمِنْ ذٰا بَعْد اِبْلِیْس یُسْلَمُ عَلَی اللّٰهِ بِمِثْلِ مَعْصِییَتِه کَلّاٰ مٰا کٰانٰ اللّٰهُ سُبْحَانَهُ لِیَدْخُلَ الْجَنَّتَهَ بَشَراً بِاَمْرٍ اَخْرَجَ مِنْهٰا مَلَکاًوَمٰا بَیْنَ اللّٰهِ وَبَیْنَ اَحَدٍ مَنْ خَلْقِه هَوٰادٰةً فِیْ ابٰاحَتِه حِمیً حُرْمَتَهَ عََلَی الْعٰالِمَیْن (نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ ۱۹۱)

اللہ تعالیٰ نے جو کچھ شیطان کے ساتھ کیا اس سے عبرت حاصل کرو جب اس (خدا)نے اس کے طویل عمل اوربے انتہا کوشش کو ایک ساعت کے تکبر کی وجہ سے ضائع کر دیا حالانکہ اس نے چھ ہزار سال(کی مدت) تک خداوند عالم کی عبادت کی تھی معلوم نہیں کہ یہ سال دنیا کے سال تھے یا آخرت کے سال( کہ جس کا ہر دن ہزار سال کے برابر ہے) تو اب ابلیس کے بعد اس جیسا جرم کر کے کو ن بچ سکتا ہے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ جس جرم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک ملک(فرشتے)کو جنت سے نکال کہ دیا ہو اس جرم پر کسی بشر کو جنت میں جگہ دیدے۔خداوند عالم کو حکم اہل آسمان اور اہل زمین کے لئے یکساں ہے۔(اور خدا کی ان مخلوقات میں سے کسی ایک فرد کے ساتھ دوستی نہیں ہے)کہ جو اس سارے جہاں والوں پر حرام کیا ہے۔وہ اس کے لئے مباح کردے(یعنی عزت وکبریائی)

کچھ جملوں کے بعد آپ فرماتے ہیں:

اور اس قابیل کی طرح نہ ہو جاو جس نے اپنے بھائی ہابیل کے مقابلے میں تکبر کیا بغیر اس کے کہ خداوند عالم نے اسے کوئی فضیلت دی ہو سوائے اس کے کہ حاسد انہ عداوت کی وجہ سے اس کے دل میں بڑائی کا خیال پیدا ہو گیا اور خود پسندی نے اس کے دل میں غیض و غضب کی آگ بھڑ کادی اور شیطان نے اس کے دماغ میں تکبر اور غرور کی ہوا پھونک دی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ندامت اس کے پیچھے لگا دی اور قیامت تک کے قاتلوں کے گناہوں کا اسے ذمہ دار(بانی) قرار دیا۔خلاصہ قابیل اپنے بھائی سے تکبر کی بنا پر ابدی بدبختی اور سخت ترین عذاب میں مبتلا ہو گیا۔کچھ کلمات کے بعد آپ فرماتے ہیں۔

پس تم سے پہلے تکبر کرنے والے امتوں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو سختیاں اور عتاب وعقاب و عذاب نازل ہوئے ان سے عبرت لو اور ان کے رخساروں کے بل لیٹنے کی جگہ (خاک)اور پہلووں کے بل گرنے کے مقامات (قبروں)سے نصیحت حاصل کرو اور جس طرح زمانے کی آنے والیل مصیبتوں سے پناہ مانگتے ہو اسی طرح سرکش بنانے والی خصلتوں سے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو۔(نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ ۱۹۱

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں:

ثَلٰثَةٌ لٰا یُکلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَلٰا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰامٰةِ وَلٰا یُزَکِیِّهِمْ وَلَهُمْ عَذٰابٌ اِلِیْمٌشَیْخٌ زٰانٍ وَمَلِکٌ جَبّٰا رٍ وَمُقِلٌّ مَخْتٰالٍ (کافی صفحہ ۳۱۱)

روز قیامت اللہ تعالیٰ تین گروہوں سے کلام نہیں کرے گا۔ (یعنی وہ خداوند عالم کے غضب کا نشانہ ہوں گے)اور ان پر رحمت کی نظر نہیں کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ ۱ ۔بوڑھا زانی ۲ ۔ ظالم حاکم ۳ ۔مغرور فقیر۔

یعنی ان تین گروہوں کا عذاب،جوانی میں زنا کرنے والے اور ایسے ظالم سے جو حاکم نہ ہو اور ایسے مغرور سے جو فقیر نہ ہو،زیادہ ہے اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کیونکہ مذکورہ تین گروہوں میں گناہ کا سبب موجود نہیں۔یعنی شہوت کی جو آگ جوانی میں ہوتی ہے وہ بڑھاپے میں نہیں ہوتی۔تو جب بھی(بوڑھا)زنا کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ بہت بے حیاء ہے اور احکام خدواوندی کی پروا نہیں کرتا لہذا گناہوں میں بوڑھوں کی سزا جوانوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے ۔اور اسی طرح حاکم کے لئے جیسا کہ خداوند عالم نے اسے حکومت اور طاقت عدل کو وسعت دینے کے لئے دی ہے لیکن اگر وہ ستم کو اپنا پیشہ بنائے تو گناہ کے علاوہ خداوند عالم کی نعمتوں کے انکار کی بنا پر درحقیقت اپنی بندگی کا منکر ہو گیا۔اور اسی طرح تکبر کرنے والا فقیر کے لئے جیسا کہ بڑائی کا ایک سبب مال ہے اور جو کوئی مال کے نہ ہوتے ہوئے تکبر کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ خبیث اور پیدا کرنے والے خدا کا دشمن ہے۔

ایک شخص نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا۔

عَنْ حَکِیْم قٰالَ سَئَلْتُ اَبٰا عَبْدِ اللّٰهِ عَیَیْهِ السَّلٰامُ عَنْ اَدْنَی الْاِلْحٰادِفَقَالَ عَلَیْهِ اَنَّ الْکِبْرَاَدْ نٰاهُ ۔(کافی جلد ۲ ۔صفحہ ۳۰۹)

کفرکے کمترین درجات یعنی حق سے رو گردانی کیا ہے؟امام (علیہ السلام) اس کا کمترین درجہ تکبر ہے۔امام محمد ماقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔

اَلعِزُّرِدآءُ اللّٰهِ وَالْکِبْر اِزٰارُهُ فَمَنْ تَنٰاوَلَ شَیئاً مِّنْهُ اَکَبَّهُ اللّٰهُ فِیْ جَهَنَّم (کافی جلد ۲ صفحه ۳۰)

عزت و بزرگی اور کبریائی کا اظہار اللہ تعالیٰ کے دو مخصوص لباس کی مانند ہیں۔یعنی جس طرح حاکم کے مخصوص لباس میں کوئی شرکت کا حق نہیں رکھتا اسی طرح کوئی بھی مخلوق ان دو صفات اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرکت کا حق نہیں رکھتی)پس جو کوئی بھی ان دو صفات سے متصف ہونے کی جرأت کرے گا تو خداوند عالم اسے سر کے بل جہنم میں ڈال دے گا۔

آپ نے یہ بھی فرمایا۔

اَلْکِبْرُ رِدٰآءُ اللّٰهِ وَالْمُتَکَبِّرُ ینُازِغُ اللّٰهَ رِدٰوآئهُ ۔

کبر و بزرگی اللہ تعالیٰ کے دو مخصوص لباس کی مانند ہے اور جو کوئی تکبر کرے(خداوند عالم کی اس مخصوص صفت میں )تو اس نے خداوند عزوجل سے جنگ کی ہے ۔(کافی جلد ۲ ۔صفحہ ۳۰۹)

کیونکہ تکبر کرنے والا حالت تکبر میں اپنے بندگی کو فراموش کر دیتا ہے ۔جبکہ اس کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ اور اپنے آپ کو مستقل اور فعال شئے سمجھتا ہے۔اور فرعون کی طرح کہتا ہے کہ میں سب سے بڑا اور اعلیٰ ہوں میں ایسا اور ویسا ہوں پس اس حالت میں خدائے واحد کے مقابل کھڑا ربوبیت کا دعویٰ کرتا ہے۔خلاصہ یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کی (اس کے علاوہ)ہر ایک صفت مثلاً عفو در گزر ،رحم،سخاوت احسان،کرم ،حلم ،علم ،محبت ،مہربانی سے متصف ہو سکتا ہے۔بلکہ قرب کے درجات انہی صفات کی کمی و زیادتی سے ظاہر ہوتے ہیں لیکن عزت و عظمت اور کبریائی کی صفت صرف خدائے عزوجل سے مختص ہے اور کسی انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ان دو صفات سے متصف کرے۔قرآن مجید میں خداوند عالم فرماتا ہے۔

( وَلَهُ الْکِبْرِیٰآءُ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) ۔(سورہ جاثیہ آیت ۳۷)

اور سارے آسمان و زمین میں اس کے لئے بڑائی ہے۔امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔

اِنَّ فِیْ جَهَنَّمَ لَوادٰ یاً للّمتکبّرِیْن یُقٰالُ لَهُ سَقَر شکَیٰ اِلَی اللّٰهِ عَزَّو جَلَّ شِدّ ةِ حِدِّهوَسَئَلَهُ اَنْ یثاذَنَ لَهُ اَنْ یَتَنَفَّسَ فَتَنَفَّسَ فَاحَرْقَ جَهَنَّمَ (کافی جلد ۲ صفحہ ۳۱۰)

دوزخ میں ایک ایسا درہ ہے جو متکبروں کے لئے مخصوص ہے کہ جسے سقر کہتے ہیں اس سے اپنی گرمی کی شدت کی خداوند عالم سے شکایت کی اور سانس لینے کی اجازت چاہی پس اس نے سانس لیا اور جہنم کو جلادیا ۔آپ نے یہ بھی فرمایا۔

اِنَّ المُتکَبَّرِیْن یَجْعَلُونَ فِیْ صُوَرِ الذَرِّ یتَوَ طَئَاهمُ النّٰاسَ حَتّٰی یَفْرغُ اللّٰهُ مِنَ الْحِسٰابِ (کافی جلد ۲ صفحہ ۳۱۱)

بلاشبہ تکبر کرنے والے(روز قیامت)باریک چیونٹیوں کی صورت میں محشور ہوں گے اور خداوند عالم کی مخلوق کے حساب سے فارغ ہونے تک لوگ انہیں پاوں تلے روندیں گے۔

علامہ مجلسی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ ممکن ہے کہ روز قیامت انسان اپنے دنیاوی جسم کے مقابلے میں ایک چھوٹے سے ذرے کی مانند ہو حالانکہ سب اصلی اجزاء یا کچھ اس میں موجود ہوں۔اور اس کے بعد دوسرے اجزاء کا اضافہ کیا جائے اور وہ سخت تر ہوجائے۔کیوں بعید ہے کہ ملے ہوئے اجزاء کو اس حد تک بھی کوٹا جائے اور ہو سکتا ہے اس کا مطلب یہ ہو کہ وہ اپنے جسم کے ساتھ اسی طرح ذلیل محشور ہوں گے اگر چہ ان کا جسم بڑا ہو۔یا چیونٹی کی صورت میں محشور ہونے سے مراد ان کی ذلت وپستی مراد ہو یعنی جیسی بھی صورت ہو لوگوں کے پیروں تلے روندیں جائیں گے۔

کبر اورتکبر اور اس کی قسمیں

انسان میں خودبینی کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو دوسرے (یادوسروں)سے بڑا اوراونچا سمجھتا ہے۔اور پنی باتوں یا عمل سے اس حالت کے اظہار کو تکبر کہتے ہیں اور اس کی تین قسمیں ہیں۔

پہلا:اللہ تعالیٰ کے مقابل تکبر کرنا۔دوسرا۔پیغمبر اورامام کے مقابل تکبر کرنا۔ تیسرا۔لوگوں کے مقابل تکبر کرنا۔

خداوند عالم کے مقابل تکبر کی کئی قسمیں ہیں۔بعض اوقات جاہل اور مغرور انسان پر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ اس عالم میں وہ اپنے آپ کو مستقل(ہستی)سمجھتا ہے ۔اپنی ہستی اور اپنی تمام حیثیت کو اپنی کوششوں کا نتیجہ سمجھتا ہے اور وہ اس بات کے لئے آمادہ نہیں کہ اپنے آپ کو مخلوق و زیر دست اور تدبیر خدا کا ماتحت و پروردہ خدا سمجھے۔اپنے زبان و کردار سے اپنے انا کو ظاہر کرتا ہے اور اپنی زبان سے یہ کہتا ہے میں نے یہ کیا اورمیں ایسا کروں گا اور اپنی محدود ظاہری طاقت اور مال و جاہ کی مستی کی بنا پر پیدا کرنے والے کی خدائی و پروردگاری کا اقرار نہیں کرتا اور ظلمت و کفر اس کے قلب پر چھا گئی ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔(کچھ احادیث وآیات یہ ہیں)

ا( َنْ فِیْ صُدُورِهِمْ اِلاّ کِبْرٌ مٰا هُمْ بِبٰالِغِیْه ) (سورہ مومن آیت ۵۶)

ان کے دل میں بڑائی(اور سرکشی)کے سوا کچھ نہیں حالانکہ وہ اس تک کبھی پہنچنے والے نہیں۔(یعنی نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں بزرگی حاصل کر سکیں گے اور نہ حق پرغالب آسکیں گے)۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

( فَالذِّیْنَ لٰا یُومِنُوْنِ بَالٰاخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُنْکِرَ ةٌ وَّهُمْ مُسَتَکْبِرُوْنَ ) (سورہ نحل آیت ۲۲)

جولوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ہی اس وضع کے ہیں کہ ہر بات کا انکار کرتے ہیں اور بڑے مغرور ہیں اور کبھی یہ غرور تکبر اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ انسان اپنے تمام کاموں کو اپنی طرف نسبت دینے کے علاوہ دوسروں کی ربوبیت اور الوھیت کا دعویٰ بھی کرنے لگتا ہے۔اور کہتا ہے میں فلاں جماعت کانظام چلاتا ہوں اور میرے ماتحت اور زیر تربیت ہیں ۔جیسا کہ احمق فرعون کہتا تھا۔( اَنَارِبُّکُمْ الْاَعْلیٰ ) (سورة النازعات آیت ۲۴)

میں تم لوگوں کا سب سے بڑا پروردگار ہوں۔ اوراپنے دعوے کی دلیل یہ پیش کرتا تھا۔

( اَلَیْسَ لٰی مُلْک مِصْر وَهٰذِهِ الْاَنْهٰارُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ ) (سورہ زخرف آیت ۵۱)

کیا ملک مصر میرے تصرف اور سلطنت میں نہیں(اور اس مملکت کے تمام امور اور)میرے محل کے نیچے جاری نہریں کیا میری ملکیت نہیں اور کبھی کہتا تھا۔

( مٰا عَلِمْتُ لَکُمْ مَنْ اِلٰهٍ غَیْرَیْ ) ۔ (سورةُ القصص آیت ۳۸)

میں اپنے سوا تمہارا کوئی پروردگار نہیں پاتا۔اور نمرود بد بخت کی طرح جو موت و حیات کا مالک خود کو سمجھتا تھا اور کہتا تھا۔

( اَنَا اُحْیِیْ وَاُمِیْتُ ) (سورہ بقرہ آیت ۲۵۸)

میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔دلیل کے طور پر اس کے حکم سے دو مجرموں کو زندان سے لایا گیا ایک کو قتل کر دیا گیا اور دوسرے کو زندہ چھوڑ دیا گیا۔

اور کبھی انسان جہالت و غرور کی بناء پر خداوند عالم کی بندگی و اطاعت اور اومرونواھی کی نسبت تکبر کرتا ہے۔اگرچہ وہ خدائے عزوجل کا منکر نہیں ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ نساء میں فرماتا ہے۔

( َلَنْ یَسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْداً لَلّٰهِ وَلٰا الْمَلآئِکَتِهِ الْمُقَربُونَ وَمَنْ یَّسْتَنْکِفْ عَنْ عِبٰادَتِهِ وَ یَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُ هُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعاًفَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمٰنُوْا وَ عَمِلُوالصّالِحٰاتِ فَیُوَفِیِّهِمْ اُجُوْرِهُمْ وَ یِزِیْدُهُمْ مِنْ فَضْلَهِوَاَمِّا الِّذِیْنَ اسْتَنْکَفُوا فَیُعذِبِهُمْ عَذٰاباً اِلَیْماً ) (سورہ النساء آیت ۱۸۲ ۔ ۱۸۳)

مسیح ہر گز خداوند عالم کا بندہ ہونے کے منکر و سر کش نہیں اور نہ (اللہ تعالیٰ کے)مقرب فرشتے اور (یاد رہے)جو کوئی اس کی بندگی سے انکار اور تکبر اور سر کشی کرے گا تو عنقریب ہی خدائے علیم ان سب کو اپنی طرف اٹھائے گا(اور ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا دے گا) پس جن لوگوں نے ایمان قبول کیا ہے اور اچھے (اچھے)کام کئے ہیں تو انہیں ان کا ثواب پورا(پورا) دے گا بلکہ فضل وکرم سے (کچھ اور )زیادہ ہی دے گااور جو لوگ(اس کا بندہ ہونے میں)عار محسوس کرتے ہیں اور سر کشی کرتے ہیں تو انہیں درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔

در حقیقت عبادت وا طاعت کا تکبر اور سرکشی کی بناء پر ترک کرنا کفر اور خداوند عالم کی الوہیت اور ربوبیت سے انکار ہے کہ اس (خدا)کو ستائش و پرستش کے لائق نہیں سمجھتا کیونکہ جو کوئی اپنے آپ کو بندگی اور خدائے عزوجل کو خدائی کے لائق سمجھتا ہو اور اپنے آپ کو اور اپنی تمام حیثیت کو اس کی مخلوق اور اس کا پروردہ سمجھتا ہو تو محال ہے کہ وہ اس(خدائے بزرگ و برتر)کا انکار کرے اور اگر کسی ایسے (شخص)سے کوئی گناہ سر زد ہوا اور وہ حکم خداوندی کی مخالفت کرے تو یہ (گناہ )خداوند عالم کی ربوبیت کے انکار اور اس کے سامنے تکبر کی بناء پر نہیں ہے بلکہ غفلت،شہوت کے غالب آنے اور خواہش نفسانی کی وجہ سے ہے۔چنانچہ امام زین العابدین (علیہ السلام) ابو حمزہ میں عرج کرتے ہیں

اِلٰهِیْ لَمْ اَعْصِکَ جِیْنَ عَصَیْتُکَ و اَنَا بِرُبُوْ بِیَّتِکَ جٰاحِدٌ وَلٰا بِاَمِرْکَ مُسْتخِفُّ ولا لِوَعِیْدِکَ مُتِهٰاوِنٌ ولا لِعُقُوتْبِکَ مُتَعرِّضٌ ولکن خطیئتهً عُرِضَتْ وَسوَّلَتْ لِی نَفْسِیْ وَغَلَبْنِیْ هَوٰایَ وَ اَعٰانفی عَلٰی ذُلِلَ شُقُوفِیْ ۔

(دعای ابو حمزہ ثمالی)

بار الہٰا!جب میں نے تیر گناہ کیا تو(اس وقت) میں تیری خدائی کا منکر نہیں تھا اور نہ تیرے حکم کو پست اور حقیر سمجھتا تھا۔اور تیرے عذاب کے وعدے کو حقیر نہیں جانتا تھا اور نہ تیرے سزا کی متعلق مجھے کسی قسم کا اعتراض تھا۔در حقیقت وہ گناہ جو مجھ سے ہواہے اسے میرے نفس نے ابھارا اور مجھے فریب دیا اور میری خواہش مجھ پرغالب آئی۔

ہر وہ گناہ جو تکبر و سر کشی کی بناء پر ہو وہ قابل بخشش نہیں ہے۔ کیونکہ وہ کرنے والے کے کفر پر دلالت کرتا ہے اور یہاں سے ہی ابلیس کا کفر ظاہر ہوا جسیا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنا حکم خداوندی تھا لیکن اس نے سرکشی کی بناء پر اسے ترک کیااور کہا۔

( قَالَ لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مَنْ صَلْصٰالٍ مِنْ حَمَئاٍ مَّسْنُوْن ) (سورہ حجرات آیت ۳۳)

(ابلیس نے )کہا میں ایساتو نہیں ہوں کہ ایک ایسے آدمی کو سجدہ کروں جسے تونے سڑی ہوئی کھنکھن بولنے والی مٹی سے پیدا کیا ہے۔

خداوند عالم نے اس کے جواب میں فرمایا۔

( فَمٰا یَکُوْنُ لَکَ اَنْ تَتَکَبَّرَ فِیْهٰا فَاخْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصّٰاغِرِیْنَ ) (سورہ اعراف آیت ۱۳)

تو(بہشت سے)نیچے اتر جا کیونکہ تیری یہ مجال نہیں کہ تو یہاں رہ کر غرور کرے تویہان سے نکل جابیشک تو ذلیل افراد میں سے ہے۔خدائے بزرگ وبر ترنے یہ بھی فرمایا:اَبیٰ وَاسْتَکَبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰافِرِیْنَ(سورہ بقرہ آیت ۳۴) ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں میں سے ہو گیا۔

تکبر عزاریل راخوار کرد

بزندان لعنت گرفتار کرد

تکبر کی بناء پر دعا کو ترک کرنا بھی کفر ہے

دعا نہ کرنا اور عبادت خدا کو ترک کرنا اگر تکبر کی بنا پر ہو یعنی اپنے آپ کو اس(اللہ تعالیٰ)کا محتاج نہ سمجھتا ہو تو یہ بھی کفر اور ہمیشہ جہنم میں رہنے کا موجب ہے۔قرآن مجید میں خدائے بزرگ و برتر فرماتا ہے۔

( وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکبِرُوْنِ عَنْ عِبٰادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰاخِرِیْنَ ) (سورہ مومن آیت ۶۰)

اور تمھارا پروردگار فرماتا ہے کہ تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری(دعا)قبول کروں گا جو لوگ ہماری عبادت سے سر کشی کرتے ہیں وہ عنقریب ہی ذلیل و خوار ہو کر یقینا جہنم واصل ہوں گے۔

تفیسر کا شفی میں لکھا ہے کہ دعا سے مراد سوال ہے یعنی طلب کرو۔ کیونکہ میرا خزانہ مالامال ہے اور میرا کرم آرزوں کو پورا کرتا ہے کون سا ایسا فقیر ہے جو اپنی حاجت لے کر میرے پاس آیا اور میں نے فوری طور پر اس کی حاجت پوری نہ کی ہو اورکون سا ایسا محتاج ہے جس نے سوال کے لئے اپنی زبان کھولی ہو اور میں نے اس کی توقع کے مطابق اس کی دعا قبول نہ کی ہو۔

چنانچہ دعا کی حقیقت یعنی ضرورت کی حالت میں عجز وانکساری سے پروردگار کے حضور سوال کرنا ۔یہی عبدیت اور خدائے واحد ی پرستش ہے پس جو کوئی تکبر کی بنا پر دعا کو ترک کرے یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا محتاج نہیں سمجھے اور اسے پرستش کے لائق نہ جانے تو یہ محض کفر اور جہنم میں ہمیشہ رہنے کا موجب ہے۔

امام زین العابدین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

فَسَمَّیْتَ دُعٰاکَ عِبٰادَةً وَ تَرْکُهُ اِسْتِکْبٰاراً وَتَوَعَّدْتَ عَلٰی تَرْکِه دُخُوْلَ جَهَنَّم دٰا خِرِیْنَ ۔(صحیفہ سجادیہ دعاء ۴۵)

اے بار الہٰا! تیرے حضور سوال کرنے کو تونے عبادت نام رکھا(کیونکہ عبادت خداوند عالم کے حضور انتہائی ذلت ظاہر کرنا ہے اور اس کی سب سے اعلیٰ قسم اس سے سوال کرنا ہے یعنی محتاجی کی حالت میں خضوع و خشوع اور دکھے دل کے ساتھ) اور عبادت نہ کرنے کو تو نے تکبر کہا ہے کیونکہ خدائے عزوجل سے سوال نہ کرنا اپنے آپ کو خالق سے بے نیاز ظاہر کرنا ہے اور اس چیز کا انکار کرنا ہے کہ ہر شئے اس کی طرف سے ہے اور ہر مشکل کا حل اس کے توانا ہاتھ میں ہے۔

دوسرے مقام پر آپ فرماتے ہیں:

وَاِنَّ اَحَبَّ الْعِبٰادِ اِلَیْکَ مَنْ تَرَکَ الْاِسْتِکْبٰارَ وَجٰانَبَ الْاِصِرٰارَ وَلَزِمَ الْاِسْتِغْفٰارَ وَ اَنَااَبَرَْءُ اِلَیْکَ اَنْ اَسْتَکْبِرَ ۔ (صحیفہ سجادیہ دعاء ۱۲)

تیرے بندگان میں سے پسندیدہ ترین بندہ وہ ہے جو تکبر نہیں کرتے اور گناہ پر اصرار سے اجتناب کرے ہیں اور استغفار کر اپنا شیوہ بناتے ہیں اور میں تیرے سامنے اس بات سے بیزاری ظاہر کرتا ہوں کہ میں تکبر کروں اور تجھے نہ پکاروں۔

حرمات الہٰی کے مقابل تکبر کرنا

اللہ تعالیٰ کے ساتھ تکبر کی اقسام میں اسے ایسی چیزوں کے مقابل تکبر کرنا ہے کہ جس کا تعلق خداوند عالم کے ساتھ ہے اور حرمات الہیٰ سے ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی اور حرام مہینے خصوصاً ماہ مبارک رمضان اور بیت الحرام اور مشاہد بلکہ عام مساجد بھی کیونکہ قرآن مجید میں (اللہ تعالیٰ نے)بطور کلی مساجد کو اپنے آپ سے منسوب کیا ہے اور فرمایا ہے وَاَنَّ الْمَسٰاجِدَ لَلّٰہ۔سورہ جن آیت ۱۸) اور مساجد اللہ ہی کے لئے ہیں پس ان میں سے کسی بھی شئے کے مقابل تکبر کرنا اور اگر بے حرمتی کہلاتا ہو تو قطعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور درحقیقت خداوند عالم کے ساتھ تکبر ہے۔

سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( یٰا ایُّهٰا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لٰا تَحِلُّوا شَعٰائِٓرَ اللّٰهِ ) (سورہ مائدہ آیت ۲)

اے وہ وہ لوگو! جو ایمان لے کر آئے ہو(دیکھو)اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو۔یعنی خدائے عزوجل سے منسوب قابل احترام امور کی بے حرمتی کو حلال قرار نہ دے۔

تکبر دنیا اور آخرت کی ذلت کا سبب بنتا ہے

حُرمات الہیہ کے مقابل تکبر کرنا بلکہ تکبر کی تمام اقسام کے نتیجے میں دنیا اور آخرت کی ذلت و رسوائی مقدر بنتی ہے اس کے برعکس عاجزی وفروتنی کے نتیجے میں دنیا و آخرت میں عزت و شرف میں اضافہ ہوتا ہے۔رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں۔

مَنْ تَوٰاضَعَ لِلّٰهِ رَفَعهُ اللّٰهُ وَمَنْ تَکَبَّرَ خَفَضَهُ اللّٰهُ (بحار الانوار جلد ۱۶ ۔باب التواضع صفحہ ۱۵۰)

جو کوئی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے عاجزی و فروتنی کرے گا تو خدواند عالم اسے بلند کرے گا اور جو کوئی تکبر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے پست کرے گا۔

شرح صحیفہ میں عمر بن شیبہ سے نقل کیا گیا ہے کہ اس نے کہا میں مکہ معظمہ میں صفا ومروہ کے درمیان تھا کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو اونٹ پر سوار تھا اور اس کے غلام اس کے ارد گرد سے لوگوں کو دور کررہے تھے اور کسی کو قریب نہیں آنے دیتے تھے اس واقعے کے کچھ عرصے بعد میں بغداد گیا میں نے ایک نیم جان آدمی کو پابرہنہ اور بکھرے بالوں کے ساتھ دیکھا میں اسے دیکھ رہا تھا کہ اس نے مجھ سے کہا مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو۔میں نے کہا میں تم میں اس متکبر شخص کی شباہت پاتا ہوں جو صفا ومروہ کے درمیان متکبرانہ انداز میں سعی کر رہا تھا اور اس نے ایسی ایسی حرکتیں کیں۔ اس نے کہا میں وہی مرد ہوں ،میں نے کہا کس وجہ سے تم ان برے حالات کا شکار ہو گئے۔اس نے کہا اس جگہ جہاں سب لوگ فروتنی کرتے ہیں میں نے تکبر کیا پس خداوند عالم نے مجھے اس جگہ(بغداد میں) پست کر دیا جہاں ہر تمام لوگ بلندی کی طرف پرواز کرتے ہیں اور میرے ساتھ تکبر سے پیش آتے ہیں۔

پیغمبر اور امام کے مقابل تکبر کرنا

پیغمبر اور امام کے مقابل تکبر یہ ہے کہ اپنے آپ کو ان کے برابر یا ان سے بر تر جانے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کیلئے تیار نہ ہو۔یعنی فرعون کے ماننے والوں کی طرح جو حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کے سامنے تکبر کرتے تھے اور کہتے تھے۔

( قٰالُوالَنْ نُومِنَ لَبَشَرَینِ مِثْلُنٰا ) ۔ (سورہ مومنون آیت ۴۷)

لوگ آپس میں کہنے لگے کیا ہم اپنے ہی ایسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں(حالانکہ وہ ہم پر کوئی فضیلت نہیں رکھتے) اور وہ اسی طرح دوسرے لوگ جو پیغمبروں سے کہتے تھے( اَنْ اَنْتُمْ اِلّٰابَشَرٌ مِثْلُنٰا ) (سورہ ابراہیم آیت ۱۰) تم بھی بس ہماری ہی طرح کے آدمی ہو(اور ہم پر کوئی برتری نہیں رکھتے)۔

یا یہ کہتے تھے( لَوْلٰا اُنْزِلَ عَلَیْنٰاا لْمَلٰآئِکَتَهَ اَوْ نَرٰی رَبَّنٰا لَقَداسْتَکْبَرُوا فِی اَنْفُسِهِمْ وَعَتَوا عُتُواًکَبِیراً ) (سورہ فرقان آیت ۲۱)

آخر فرشتے ہمارے پاس کیوں نہیں نازل ہوئے؟ (یعنی کیونکہ ہم پیغمبر سے افضل ہیں اس لئے فرشتے ہم پر نازل ہونے چاہئیں) یا ہم اپنے پروردگار کو کیوں دیکھتے؟ان لوگوں نے اپنے جی میں اپنے کو (بہت) بڑا سمجھ لیا ہے اور بہت بڑی سر کشی کی ہے۔

اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے کلام کے بارے میں خداوند عالم فرماتا ہے۔

( وَاِنِّی کُلَّمٰا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَلَهُمْ جَعَلُوا اَصٰابِعَهُمْ فِی اٰذٰانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیٰا بَهُمْ وَاَصِرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبٰاراً ) ۔(سورہ نوح آیت ۶)

اور (اے پروردگار)میں نے جب ان کو بلایا کہ (یہ توبہ کریں)تو انہیں معاف کردے تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے ڈالیں (تا کہ میری آواز نہ سنے) اور (مجھ سے چھپنے کو)کپڑے اوڑھ لئے اور اڑ گئے اور بہت شدت سے اکڑبیٹھے۔

یا مثلاً قریش کا رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مقابلے میں تکبر کرنا کہ وہ کہتے تھے:

( لَوْلٰا نُزِلَ هٰذَا الْقُراٰنَ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْم ) ۔ (سورہ زخرف آیت ۳۱)

یہ قرآن ان دو ہستیوں (مکہ و طائف)میں کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا۔یعنی وہ یتیم نوجوان جو مال وجاہ نہیں رکھتا پیغمبری کے لائق نہیں اور قرآن کی ایسے شخص پرجو ظاہری رعب ودبدبہ رکھتا ہے (مثلاً ولید بن مغیرہ اور ابو مسعو ثقفی(اس پرکیوں نازل نہیں ہوا تاکہ ہم اس کی پیروی کریں۔

در حقیقت پیغمبر وامام کے ساتھ تکبر کرنا خدا تعالیٰ کے ساتھ تکبر کرنا ہے۔چنانچہ پیغمبر و امام کے نمائندوں کے ساتھ تکبر اور ان کے نمائندے ہونے کی بناء پر ان کی اطاعت نہ کرنا در حقیقت پیغمبر و امام بلکہ خداوند عالم سے تکبر کرنا ہے۔چنانچہ وہ باعمل علماء اور ہدایت یافتہ فقہاء جو کہ اس زمانے میں عمومی نائبین ہیں اور حضرت حجت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے نمائندے ہیں(احکام کی اطاعت میں )ان کے ساتھ تکبر کرے یا ان کی توہین کرے اور جو احکام خداوندی انہوں نے بیان کئے ہیں اس میں(ان کی)اطاعت نہ کرے اوراپنے گفتاوکردار سے یہ ظاہر کرے کہ تم کون ہوتے ہو جو میں تمہاری پیروی کروں تو یقینا اس نے پیغمبر اور امام کے سامنے تکبر کیا ہے اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے مترادف ہے۔

عالم کے ساتھ تکبر پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ تکبر ہے :

( اَلٰا لٰا تُکَذِّبُوْا عٰالِماً وَلٰا تَرُدُّوْا وَعَلَیْهِ وَلٰا تَبْغِضُوْهُ وَاَحَبُّوهُ فَاِنَّ حُبَّهُمْ اِخْلٰاصٌ وَبُغْضُهُمْ نِفٰاقٌاَلٰا وَمَنْ اَهٰانَ عٰالَماً وَقَدْ اَهٰانَنِیْ وَمَنْ اَهٰانَنِی فَقَدْ اَهٰانَ اللّٰه وَمَنْ اَهٰانَ اللّٰهَ فَمَصِیْرَهُ اِلَی النّٰاراَلٰا وَمَنْ اَکْرَمَ عٰالِماً فَقَدْ اَکْرَمَنِی وَمَنْ اَکْرَمَنَی فَقَدْ اَکْرَمَ اللّٰهِ وَمَنْ اَکْرَمَ اللّٰهَ فَمَصِیْرَه اِلٰی الْجَنَّه ) ۔(لئالی الاخبار ج ۲ ص ۲۶۸)

خبردار عالم کی تکذیب نہ کرو اور اس کی بات رد نہ کرو اور اس سے دشمنی نہ رکھو اس کو دوست رکھو کیونکہ علماء سے دوستی اخلاص کی علامت ہے۔اور ان سے دشمنی نفاق ہے۔آگاہ ہو جاو کہ جو کوئی عالم کی توہین کرے اس نے میری توہین کی اور جس نے میری توہین کی اس نے اللہ کی توہین کی اور جس نے اللہ کی توہین کی اسکی جگہ دوزخ میں ہے۔اور یاد رکھو جس نے عالم کو عزت دی اس نے مجھے عزت دی اور جس نے مجھے عزت دی اس نے اللہ کو عزت دی اور جس نے اللہ کو عزت دی تو اس کا ٹھکانہ بہشت ہے۔

تکبر کرنے والے جہنمی ہیں

یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ وہ آیات جو تکبر کرنے والوں کے ہمیشہ جہنم میں رہنے پر دلالت کر تی ہیں ان سے مراد دو قسم کا تکبر ہے یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر و امام کے ساتھ تکبر کرنا۔کیونکہ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ یہ دونوں تکبر خالق کائنات کے انکار اور اس پر ایمان نہ لانے کا سبب ہیں۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کوئی ایمان کے بغیرمرے گا وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔

شہید کتاب قواعد میں فرماتے ہیں کہ تکبر گناہ ہے اور اس بارے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں وہ بہت زیادہ ہیں جیسا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں۔

لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّةَ مَنْ فِیْ قَلْبِهِ مِثْقٰالَ ذَرَّةٍ مِنَ الْکِبْرِ

(قواعد شہید۔بحار جدید ج ۳ س ۷۳)

وہ شخص ہر گز بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو۔

اس کے بعد فرماتے ہیں کہ (تکبر)سے مرد ایسا تکبر ہے جو کفر کی حد تک پہنچا دے (یعنی اللہ تعالیٰ اور پیغمبر اکرم کے ساتھ تکبر کرنا)اور اگر مراد اس تکبر کے علاوہ ہو۔یعنی دیگر لولگوں کے ساتھ تکبر کرنا تو پھر اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ غرور کرنے والا انکساری سے پیش آنے والے مومن کے ساتھ ہر گز بہشت میں نہیں جائے گا۔بلکہ اس سے قبل ایک مدت تک آگ میں رہے گا۔(شہید کا قول یہاں اختتام پذیر ہوا)پہلی تفسیر بہتر ہے اور اس حدیث پر دلالت کرتی ہے کہ محمد بن مسلم نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ امام (علیہ السلام) نے فرمایا۔

لٰا یَدْخُلُ الْجَنََّة مَنْ کٰانَ فِیْ قَلْبِهِ مِثْقٰالٰ حَبَّةٍ مِّنَ خَرْدَلٍ مِنَ الْکِبْرِقٰالَ فَاسْتَرْ جَعْتُ! فَقٰالٰ عَلَیهِ السَّلاٰمُ مٰالَکَ تَسْتَرْجَع؟قُلْتُ لَمَّا سَمِعْتُ مِنْکَ فَقٰالٰ لَیْسَ حَیْثُ تَذْهَبُ اِنَّمٰا اَعْنِیْ الْجُحُوْد وَاِنَّمٰا هُوَالْجُحُودَ (کافی ص ۳۱۰)

جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو تو وہ بہشت میں نہیں جائے گا۔محمد بن مسلم کہتا ہے میں نے کہا" اِنّٰا لِلّٰہِ وَاِنّٰااِلَیْہِ رٰاجِعُوْنَ "امام (علیہ السلام) نے فرمایا تم نے آیت استرجاع کیوں پڑھی؟ میں نے کہا جو آپ سے سنا ہے اس کے لئے۔امام (علیہ السلام) نے فرمایا۔جو تم نے سمجھا وہ نہیں ہے جان لو،اس سے میری مراد جحود و انکار ہے۔ایک اور موقع پر فرمایا اس عبارت سے مراد حجوداور انکار ہے (یعنی وہ تکبر جو جنت میں داخل ہونے میں رکاوٹ بنے ایسا تکبر ہے جو حق سے انکار اور خدا و رسول وامام سے انکار پر مشتمل ہو ۔لیکن ایمان کے ہوتے ہوئے لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش آنے والے کے لئے ایسا نہیں ہے کہ اسے کسی بھی وقت عذاب سے نجات نہ ہو۔)

لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش آنا

تیسری قسم لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش آنا ہے۔یعنی اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو چھوٹا سمجھے ۔اور ان پر بڑائی ظاہر کرے اور اپنے آپ کو ان سے بر تر قرار دے اور ان کے برابر ہونے کو برا سمجھے،راستہ چلنے میں ان سے آگے چلے۔مجالس میں سب سے آگے بیٹھنا چاہے،سب سے سلام و انکساری کی امید رکھے۔اگر کوئی اسے نصیحت کرے تو اس سے نفرت کرے اور قبول نہ کرے۔اور جب کوئی غلط بات کہے اور اسے ٹوک دیا جائے تو غضبناک ہو جائے۔اگر کسی کو کوئی بات سکھا دے تو اس کے ساتھ نرمی ومہربانی کے ساتھ پیش نہ آئے اور اس پر بڑا احسان جتائے۔اس سے خدمت گزاری کی توقع رکھے۔

المختصر اپنے آپ کودوسروں سے بر تر سمجھے اور قرار دے جیسا کہ اپنے آپ کو حیوانات سے اعلٰی و برتر سمجھتا ہے۔اور اگرمال ومنصب رکھتا ہو تو اس بات کے لئے آمادہ نہیں کہ غریبوں،محتاجوں اور بوڑھوں کے ساتھ نمازجماعت اور دینی اجتماعات میں شرکت کرے، درحقیقت ایسے شخص نے خدائے بزرگ وبرتر کی مخصوص صفت یعنی عظمت و کبریائی میں اپنے آپ کو اس کا شریک قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا۔یعنی بادشاہ کے غلام کی طرح ہے جو بادشاہ کے تاج کو اپنے سر پر رکھے اور بادشاہ کے تخت پر بیٹھے۔ایسا بے حیا بندہ قہر وغضب کا مستحق ہے اورتمام عقلاء اسے سرزنش کرتے ہیں۔ کیونکہ تمام افراد بشر خداوند عالم کے بندے ہیں۔اس بنا پر سب مساوی اور برابر ہیں پس اگر ان میں سے کوئی دوسروں کو اپنے سے پست سمجھے اور ان کے سامنے تکبر کرے تو اس نے خداوند تعالیٰ کے ساتھ اس چیز میں جنگ کی ہے جو صرف خداوند تعالیٰ کے لائق ہے۔

بعض وہ روایات کے جو لوگوں کے ساتھ تکبر کرنے اور اس کے عذاب کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔بحث کی ابتداء میں ان کا ذکر ہو چکا ہے امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔

اَلکِبْرُ اَنْ تَغْمَْصَ النّٰاسَ وَتَسْفَهَ الْحَقَّ (کافی ج ۲ ص ۳۱۰)

تکبر یہ ہے کہ لوگوں کو چھوٹا سمجھو اورذلیل گردانو اور حق کو نادانی جانو۔

علامہ مجلسی فرماتے ہیں یعنی حق کے سامنے نادانی اور سفاھت کرے۔اوراسے قبول نہ کرے یا یہ کہ حق کو حقیر جانے اور اس کی اہمیت کو نہ سمجھے۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں۔

اِنَّ اَعْظَمَ الْکِبرِ غَمْصَ الْخْلْقِ وَسْفِه الْحَقِّ ۔

سب سے بڑے درجے کاتکبر مخلوق کو ذلیل سمجھنا اور حق کو حقیر جاننا ہے۔یعنی حق کو نظر انداز کرے اور حق پر ستوں کو طعنہ دے۔(کافی ج ۲ ص ۳۱۰)

عمر بن یزید نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے عرض کیا میں اچھی خوارک کھاتا ہوں،اچھی خوشبو لگاتا ہوں،اور عمدہ گھوڑے پر سواری کرتا ہوں اور غلام میرے ساتھ ہوتے ہیں۔تو کیا میرا یہ طرز تکبر ہے ،تاکہ میں اسے چھوڑ دون۔امام (علیہ السلام) نے سر جھکا لیا اور اس کے بعد فرمایا یاد رکھو متکبر ملعون وہ ہے جو لوگوں کو حقیر سمجھے اور حق کو نظر انداز کرے عمر نے کہا حق کو تو سمجھتا ہوں لیکن نظر انداز کرنے کے معنی نہیں سمجھتا۔امام (علیہ السلام) نے فرمایا۔

مَنْ حَقَرَ النّٰاسَ وَ تَجَبَّرَ عَلَیْهِمْ فَذٰالِکَ الْجَبّٰارِ ۔(کافی ج ۲ ص ۳۲۱)

جو کوئی لوگوں کو حقیر جانے اور ان پر اپنے بڑائی ظاہر کرے وہ متکبر ہے

اور چونکہ لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش آنے بعض قسموں کا قرآن مجید اور روایات میں خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔یاد دہانی کے لئے ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

لوگوں کے ساتھ تکبر ازروی قرآنا

سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرمایا ہے:

( وَ اِذٰا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اَللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثِمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمَ وَلَبِئْسَ الْمِهٰادُ ) ۔

اور جب (کافروں اور منافقوں سے )کہا جاتا ہے خدا سے ڈرو(اور گناہ اور فساد کو ترک کروتو جاہلیت اور شان و شوکت اسے ابھارتی ہے اور جب خدا کا نام اور اس سے ڈرنے کا سنتا ہے توبیہودہ باتیں کرنے لگتا ہے)غرور اسے ابھارتا ہے پس(ایسے کم بخت کے لئے )جہنم(ہی)کافی ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔

(سورہ بقرہ آیت ۲۰۶)

عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا گیا ہے کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کسی کو کہا جائے کہ خدا سے ڈرو۔اِتَّقِ اللّٰہ،تو وہ جواب میں کہے عَلَیْکَ نَفْسَکَ جاو تم اپنی جان کی فکر کرو اس بنا پر اگر کوئی کسی سے بھلائی کے لئے یہ کہے کہ خدا سے ڈرو اور فلاں گناہ کو چھوڑ دو اور وہ خدا کا نام سن کر انکساری کرنے کے بجائے تکبر کرے اور برے الفاظ استعمال کرے۔مثلاً کہے تم بیوقوف ہو تمہیں ان باتوں سے کیا سروکار تم جاو پہلے اپنے آپ کو صحیح کرو۔تمہارا حساب مجھ سے الگ ہے یایہ کہ گناہ کو ترک کرنے کے بجائے اس پر اصرار کرے اور زیادہ گناہ کرنے لگے تو ایسا انسان اس آیت شریفہ کا مصداق ہے۔

اس کی مثال ایسی ہے کہ ہر حق کے قبول کرنے میں اس کا تکبر رکاوٹ بن جائے اور اس کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے۔

مثلاً کوئی شخص مناظرہ کے وقت مد مقابل سے کوئی حق بات سنتا ہے لیکن اس کا تکبر اس کی بات قبول کرنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور وہ باطل ہے ہٹتا نہیں تو یہ بات منافقوں کی صفات و اخلاق میں سے ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

( وَقٰالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لا تَسْمَعُوْا لِهٰذَاالْقُرْاٰنَ وَالْغَوْافِیهِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ ) ۔ (سورہ حٓم سجدہ آیت ۲۶)

اور جو لوگ کافر ہو گئے آپس میں کہنے لگے اس قرآن کو سنو ہی نہیں اور جب پڑھیں(تو)اس (کے بیچ )میں غل مچا دیا کروتا کہ (اس ترکیب سے)تم غالب آجاو۔

سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( وَلٰا تُصَعِّر خَدَّکَ للِنّٰاسِ وَلٰا تَمْضِ فِی الْاَرْضِ مَرَحاً اِنَّ اللّٰهَ لٰا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتٰالٍ فَخُوْرٍ ) ۔ (سورہ لقمان آیت ۱۸)

اورلوگوں کے سامنے(غرور سے )اپنا منہ نہ پھلانا(یعنی ملاقات کے وقت لوگوں سے انکساری کے ساتھ گفتگو و سلام کرو اور ان کی طرف سے منہ نہ پھیرو جیسا کہ متکبرین لوگوں کے ساتھ خصوصاًفقرآء کو حقیر و پست سمجھتے ہوئے کرتے ہیں۔یاد رکھو امیر و غریب سے ملتے ہو ئے یکساں رویہ ہونا چاہئے)اورزمین پر اکڑ کر نہ چلنا(جاہلوں اور دنیا پرستوں کی طرح جو شدید خوشی اور غرور کی حالت میں زمین پر اکڑ کر چلتے ہیں)بلاشبہ خدا کسی اکڑنے والے(متکبرانہ انداز میں چلنے والے) اور اترانے والے (جو اپنے مال ونعمت کی بنا پر لوگوں کے سامنے تکبر کرتے ہیں)کو دوست نہیں رکھتا ہے۔

اور سورہ حجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( یَا اَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لٰا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسیٰ اَنْ یَّکُوْنُوا خَیْراً مِنْهُمْ وَلٰا نِسٰآءً مِّنْ نِسٰآءً عَسیٰ اَنْ یَّکُنَّ خَیْراً مِّنْهُنَّ وَلٰا تَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُمْ وَلٰا تَنٰا بَزُوا بِالْاِلْقٰابِ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیمٰانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فٰاولٰئِکَ هُمُ الظّٰالَمُوْنِ ) (سورہ حجرات آیت ۱۱)

اے ایماندارو(تم میں سے کسی قوم کا)کوئی مرد(دوسری قوم کے )مردوں کی ہنسی نہ اڑائے(یعنی دوسرے کو چھوٹا اور حقیر نہ سمجھے)ممکن ہے وہ لوگ(جن کا مذاق اڑایا جائے وہ خدا کے نزدیک)بہتر ہوں اور نہ عورتیں،عورتوں کا مذاق اڑائیں۔ممکن ہے وہ عورتیں(جن کا مذاق اڑایا گیا )ان سے مذاق اڑانے والیوں سے اچھی ہوں اور تم آپس میں ایک دوسرے کو طعنے نہ دہ(یعنی اپنے ہم مذہبوں کو کیونکہ مومنین ایک نفس کی مانند ہیں جو بھی کوئی دوسرے پر عیب لگائے تو گویا اس نے اپنے آپ پر عیب لگایا)ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو ایمان لانے کے بعد بد کاری(کا)نام ہی برا ہے جو لوگ بازنہ آئیں تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں (کہ اپنے آپ کو خداوندعالم کے غضب اور عذاب کا مستحق قرار دیا۔

در حقیقت جو بھی کسی مسلمان کو پستی و حقارت کی نگاہ سے دیکھے اور اپنے آپ کو اس سے برتر سمجھے تو وہ ابلیس کی مانند ہو گا کہ جس نے حضرت آدم کو حقارت سے دیکھا اور اپنے آپ کو ان سے بر ترجانا اور کہنے لگا :

( اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِی مِنْ نٰارٍ وَّخَلَقْتَهُ مِنْ طِیْنٍ ) (سورہ صٓ۔آیت ۷۶)

میں اس (آدم )سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا(کہاںآ گ اور کہاں مٹی)۔

خداوند عالم نے کہا:

( لَاَمْلَئنَّ جَهَنَّم مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْهُمْ اَجْمَعِیْنَ ) ۔ (سورہ صٓ۔آیت ۸۵)

میں تجھ سے اور جو لوگ تیری تابعداری کریں گے ان سب سے جہنم کو ضرور بھر دوں گا۔(اس طرح اس نے اپنے آپ کو ابدی ہلاکت تک پہنچا دیا۔

مال ودولت کی نمائش کرنا بھی تکبر

اپنے مال وجاہ،ثروت ومکنت کی نمائش اور اسے لوگوں پر ظاہر کرنا ۔فخرومباہات کرنا یہ بھی لوگوں کے ساتھ تکبر ہے ۔جیسا کہ خداوند عالم سورہ قصص میں فرماتا ہے:

( اِنَّ قٰارُوْنَ کٰانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسیٰ فَبَغَنٰی عَلَیْهِمْ فَخَرَجَ عَلیٰ قَوْمِه فِیْ زینته ) ۔ (آیت ۷۶ اور ۸۰ سورہ قصص)

بے شک قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا۔تو اس نے ان پر سر کشی شروع کی (ایک روز ہفتہ کے دن قارون)اپنی قوم کے سامنے انتہائی زیب و زینت اور ٹھاٹھ کے ساتھ نکلا(وہ سفید گھوڑے پر جس کی زین سنہری تھی۔ارغوانی لباس پہن کر بیٹھا اور اسی عالم میں اپنے ساتھ چار ہزار افراد کو ہمراہ لے کر آیا اور اپنی ثروت وجلال کی اپنی قوم کے سامنے نمائش کی)حکایت کے آخر تک کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔

بحار الانوار میں مروی ہے :

وَنَهٰی رَسُوْلُ اللّهِ (صلی الله علیه و آله) اَنْ یَّخْتٰالَ الرَّجُلَ فِیْ مَشِیْه وَقٰالَ مَنْ لَبِسَ ثَوْباً فَاخْتٰالَ فِیْه خَسَفَ اللّٰهُ بِه فِیْ شَفِیْرِ جَهَنَّمَ وَ کَانَ قَرِیْنَ قٰارُوْنَ لِاَنَّهُ اَوَّلَ مَنِ اخْتٰالَ فَخَسَفَ اللّٰهُ بِه وَبِدٰارِهِ الْاَرْضَ وَمَنْ اخْتٰالَ فَقَدْ نٰازَعَ اللّٰهُ فِیْ جَبَرُوْتِه وَقٰالَ (صلی الله علیه و آله) فِیْ اٰخِرِ خُطْبَتَهِ (صلی الله علیه و آله) وَمَنْ یَغیٰ عَلٰی فَقِیْرٍ اَوْ تطَاوَلَ عَلَیْه اَوْ اِسْتَحَقَرهُ حَشَرَهُ اللّٰهُ یَوْمَ الْقِیٰامتَهِ مِثْلَ الذَّرّهِ فِیْ صُورَةِ رَجُلٍ حَتّٰی یَدْخُلَ النّٰارَ ۔

(بحار الانوار جلد ۱۶ ۔بحار الانوار جدید ج ۷۶ ص ۷۶)

جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے غرور و تکبر کے انداز میں چلنے سے منع فرمایا۔ جو کوئی عمدہ لباس پہن کر اس پر ناز کرے تو خداوند عالم اسے جہنم کی آگ کے اس حصے سے نیچے لے جائے گا جہاں اس کو دوزخ میں قارون کا ساتھی بنائے گا کیونکہ وہ پہلا شخص تھا کہ جس نے غرور وتکبر کیا۔اسی وجہ سے خداوندعالم نے اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تھا۔ پس جو کوئی عظمت الہیٰ کے مقابل غرور کرے اس نے خدا سے جنگ کی۔اور فرمایا جو بھی محتاج کے سامنے ماتھے پر بل ڈالے یا اس پر ظلم کرے یا اسے حقیر سمجھے تو حق تعالیٰ اسے باریک چیونٹوں کی طرح انسانی صورت میں محشور فرمائے گا۔اور اسے جہنم میں داخل کرے گا۔

تکبر کرنے والے حقیقی معنوں میں دیوانے ہیں

اس کے علاوہ بحار الانوار میں نقل کیا گیا ہے۔

مرَّ رَسُوْلُ اللّٰهِ (صلی الله علیه و آله) عَلٰی جَمٰاعَته فَقَالَ مٰااجْتَمَعْتُمْ؟فَقٰالُوْا یٰا رَسُوْلَ اللّهِ هٰذَا مَجْنُونٌ یَصْرَعُ فَاجْتَمَعْنٰا عَلَیْهفَقٰالَ لَیْسَ هٰذا مَجْنُونٌ وَلٰکِنَّهُ الْمُبْتَلیٰثُمَّ قٰالَ الَاٰ اُخْبِرکُمْ بَالْمَجْنُونِ حَقَّ الْمَجْنُوْنِ؟ قٰالُوا بَلیٰ یٰا رَسُوْلَ اللّٰهِ!قٰالَ الْمُتَبَخْتَرُ فِیْ مَشْیَه اَلنّٰاظِرُفِی عِطْفَیهالمَحُرَّکُ جَنْبَیهِ بِمَنْکَبَیْهِ یَتَمَنّیٰ عَلَی اللّٰهِ جَنَّتَهُ وَ هُوَ یَعْصِیهَ اَلَّذِیْ لٰایُومِنُ شَرَّهُوَلٰا یُرْجٰی خَیْرَهُ فَذٰالِک الْمَجْنُوْنَوَهٰذاالْمُتْبَلٰی

(بحارالانوار جلد ۱۵ ۔باب الکبر ص ۲۵ جلد ۷۳ جدیدص ۲۳۳)

ایک روز رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ایک گروہ کے سامنے سے گزر ہوا جو ایک جگہ پر جمع تھے۔رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے پوچھا تم یہاں کیوں جمع ہوئے ہو؟ انہوں نے کہا یہاں ایک دیوانہ ہے جو طرح طرح کی حرکتیں کر رہا ہے ۔آپ نے فرمایا یہ مجنوں نہیں بلکہ مرض میں مبتلا ہے۔اس کے بعد فرمایا کیا میں تمہیں حقیقی مجنوں بتادوں؟اصحاب نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ ۔اس کے بعد فرمایا دیوانہ تو وہ ہے جو راستہ چلتے ہوئے اترائے اور تکبر کی بنا پر (چلتے ہوئے) دائیں بائیں دیکھے (اپنے آپ پر ناز کرے) اور اپنے کاندھوں اور پہلووں کو متکبرانہ انداز میں ہلائے۔اور خدائے عزوجل سے بہشت کی تمنا کرے۔حالانکہ وہ معصیت خداوندی میں مشغول ہے اور لوگ اس کے شر سے محفوظ نہ ہوں اور نہ ہی اس سے کوئی بھلائی کی امید رکھتے ہوں تو یہ ہے دیوانہ۔

اپنے آپ کی پاکیزہ کو ظاہر کرنا بھی تکبر ہے

اپنے آپ کو پاک و پاکیزہ،صاحب مقام اور عالی مرتبت سمجھتا اور پاکیزہ ظاہر کرنا بھی تکبر کے موارد میں سے ہے۔اور سورہ نجم کی آیت ۳۲ میں صراحتاً اپنے آپ کو پاکیزہ ظاہر کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔فَلٰا تُزَکُّوا انِفْسُکَمُ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقیٰ

اپنے نفس کی پاکیزگی نہ جتایا کروجو پرہیز گار ہے اسے وہ (خدا)خوب جانتا ہے۔

سورہ نساء َ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

( اَلَمْ تَرَالِیَ الَّذِیْنَ یُزَکُّونَ اَنْفُسَهُمْ بَلِ اللّٰهُ یُزَکِّی مَنْ یّٰشٰآء وَلٰا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً اُنْظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰهِ الْکَذِبَ وَکَفٰی بِهِ اِثْماً مُّبِیْناً ) ۔ (سورہ نسآء آیت ۵)

(اے رسول)کیا تم نے ان لوگوں (کے حال)پر نظر نہیں کی جو آپ بڑے مقدس بنتے ہیں(گروہ یہود کی مانند جو قسم کھاتے ہیں کہ ہم ہر گناہ سے پاک ہیں)بلکہ خدا جسے چاہتا ہے مقدس بناتا ہے۔اور ظلم تو کسی پر بال برابر ہو گاہی نہیں۔اے رسول دیکھو تو یہ لوگ خدا پر کس طرح جھوٹ باندھتے ہیں(جیسا کہ یہودی کہتے تھے کہ ہم پاک ہیں اوراہل بہشت میں سے ہیں۔اور انصارا کہتے تھے ہم خدا کے دوست ہیں اور اہل بہشت ہم ہیں)اور کھلم کھلا گناہ کے لئے تو بس یہی کافی ہے۔

اور کبھی علم کے لحاظ سے اپنی بڑائی ظاہر کرنا مثلاً یہ کہے کہ میں بہت سے علوم کا مالک ہوں فلاں استاد وفلاں بزرگ کو میں نے دیکھا ہے۔فلاں علم کی خا طر میں نے بڑی زحمت اٹھائی ہے۔اور کبھی عبادت کے لحاظ سے اپنی بڑائی ظاہر کرتا ہے ۔مثلاًیہ کہے کہ میں نے کئی سال راتوں کو جاگ کر عبادت کی اور دن میں روزے رکھے۔فلاں کے پاس میرے برابر مال ہے لیکن اس نے ابھی تک حج نہیں کیا جبکہ میں کئی دفعہ حج اور زیارات کے لئے جا چکا ہوں اور اسی طرح دوسرے کلمات وغیرہ ادا کرے۔

اور کبھی صراحتاً نہیں بلکہ ضمناً اپنی بڑائی ظاہر کرنا مثلاً یہ کہے کہ فلاں آدمی نے مجھ پرظلم کیا اور(نتیجتاً)مرگیا یا (مجھ پر ظلم کرنے کی وجہ سے )فلاں مرض میں مبتلا ہو گیا۔یا محتاج ہو گیا۔یعنی اس کا مقصد اپنے آپ میں کرامت ظاہر کرنا ہو یا یہ کہے کہ میں نے خداوند عالم سے فلاں حاجت طلب کی تو فوراً میری حاجت پوری ہوگئی۔یعنی اس کے کہنے کا مقصد یہ ہو کہ میں مستجاب الدعوت ہوں۔

المختصر اقوال و افعال کے لحاظ سے تکبر کی بہت سی قسمیں ہیں بعض علمائے ربانی نے فرمایا ہے کہ اپنی عزت کی حفاظت کرنے کیلئے حسد ، عقد،غصے ،عجب دکھاوا،جھوٹ،غیبت اور تہمت وغیرہ میں سے ایسی کوئی بد بختی نہیں کہ جسمیں تکبر کرنے والا مبتلا نہ ہو اور اپنی عزت وشان کے کم ہونے کے خوف سے اخلاق حسنہ میں سے کوئی اچھی بات نہیں کہ جس سے متکبر محروم نہ ہو۔ مثلاً تواضع،غصے کو پینا،عفو و درگذر،سچائی ،مومنین سے دوستی وغیرہ۔جو کہ ایسی صفات سے متصف ہونا تکبر کرنے والا اپنی کمزوری اور عیب سمجھتا ہے۔بہت کم افراد اس مہلک مرض سے محفوظ ہیں اور اکثر افراد اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ کہ وہ اس بیماری سے بچے ہوئے ہیں حالانکہ وہ اس میں مبتلاء علمائے اخلاق نے اس کی علامات بیان کی ہیں کہ جو کوئی بھی ان علامات کو اپنے اندر پائے تو وہ جان لے کہ اس شجرہ خبیثہ کی جڑیں اس کے قلب میں موجود ہیں اور اسے چاہئے کہ اپنی اصلاح کی کوئی تدبیر کرے۔

تکبر کی علامات

( ۱) جب ہم مرتبہ لوگوں سے گفتگوکریں اور حق بات ان کی زبان پر جاری ہو جائے جس کا قبول کرنا اس کے لئے گراں ہو اور اس کے چہرے سے خوشی و بشاشت ظاہر نہ ہو توظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ متکبر ہے۔

( ۲) اگر تقاریب و محافل میں اس مقام پرجو اس کے لائق ہے اسے نیچے بیٹھنا اس کے لئے گراں ہو یا راستہ چلتے ہوئے سب سے پیچھے چلنا اسے برا لگے تو وہ متکبر ہے۔

( ۳) اگر کسی شخص کو اپنے سے چھوٹے یا ماتحت کو سلام میں پہل کرنا گراں گزرے تو وہ متکبر ہے۔

( ۴) اگر فقیر و محتاج کی حاجت پوری کرنے کے لئے اس کی دعوت قبول کرنا یا اس کے نزدیک بیٹھنا گراں گزرے تو یہ تکبر کی علامت ہے۔

( ۵) اگر کسی شخص کو ضروریات زندگی کی گھریلواشیاء بازار سے خریدنا اور ہاتھ میں اٹھا کر گھر لانا برا لگے تو وہ متکبر ہے۔مگر یہ کہ مقتضای زمان ومکان اور اس کی حالت اور شان کے مطابق اس کا یہ عمل واقعاً براہو اور لوگوں کے غیبت کرنے کا سبب بنے۔

( ۶) اگر کسی شخص کو سستایا پھٹا پرانا لباس پہننا گراں گزرے اور قیمتی و فاخر لباس پہننے کا خواہش مند ہو اور اسے شرف و بزرگی سمجھتا ہو تو وہ متکبر ہے سوائے اس کے کہ وہ پرانالباس اس کی بے حرمتی کا سبب بنے جیسا کہ ذکر ہوا ہے۔

( ۷) اگر نوکر یا شاگرد کے ساتھ ایک دستر خواں پر بیٹھنا ناپسند کرے اور یہ اس کے لئے گراں ہو تو یہ تکبر کی علامت ہے۔

تکبر کے گناہ کبیرہ ہونے ،اس کے معنی اور اقسام جاننے کے بعد ضروری ہے کہ اس کا حل بھی جانیں اور اس کا علاج علمی اور عملی طریقے سے معلوم ہونا ضروری ہے۔

تکبر کے مرض کا عملی علاج

تکبر (کے مرض )کا عملی علاج یہ ہے کہ انسان اپنی ابتدائے خلقت کے بارے میں فکر کرے اور اس بات کو ذہن میں رکھے کہ وہ ایک بد بو ددار ناچیز نطفے سے پیدا ہو اہے کہ جو تمام افراد کے نزدیک نجس ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا ہے ۔"( فَلْیَنْظِرُ الْاِنْسٰانَ مِمَّا خُلِقَ مَنْ مّآءٍ دٰافِق ) "یعنی انسان کو چاہئے کہ وہ غور فکر کرے اور دیکھے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے یعنی جہندہ اور بد بودار پانی سے(کہ جس میں نہ آنکھ نہ کان،نہ ہاتھ نہ پیر ، نہ زبان نہ دماغ کچھ بھی تو نہ تھا اور یہ تمام چیزیں بھی خدائے بزرگ وبرتر نے عاریتاً دی ہیں۔)

دوسرے پست ترین مقام سے پیدا ہوا ۔بلاشبہ انسان ہر لحاظ سے کمزور تھا۔ اور(خداوند عالم نے) اسے تدریجاً قوت عطا کی لیکن (یاد رکھنا چاہئے کہ)اسکی قدرت وقوت اس قدر محدود ہے کہ جس میں ہزار ہا قسم کی کمزوری و ناتوانائی ہے۔چنانچہ اس (انسان)کو بھوک ،پیاس اور نیند میں مبتلا فرمایا۔یعنی کھائے،پئے اور سوئے بغیر اس کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہے اور اسی طرح اسے لباس ومسکن کا محتاج بنایا اور اس کے لئے کئی قسم کے امراض اور آفات وبلیات ہیں کہ جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا اور طب قدیم میں انسانی امراض کی چار ہزار اقسام کا ذکر ہے۔

اور ہر وقت انسان کے پیٹ میں(نجس )پیشاب و پاخانہ موجود رہتا ہے کہ اگر خداوند عالم اسے پوشیدہ نہ رکھتا تو اس کی تیز بد بو سے انسان کے لئے زندگی گزارنا ممکن نہ ہوتا ۔

کتاب عدد السنہ میں تحریر ہے کہ جب ایاز محمود بادشاہ کا سب سے زیادہ مقرب بن گیا تو اس کے حاسد اسے اس مقام سے گرانے کی کوشش کرنے لگے اور ایک دن وزراء میں سے دہ آدمی سلطان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ایاز نے بے شمار روپے پیسے اور جواہرات چوری کئے ہیں اورا نہیں ایک حجرے میں چھپا کر تالا لگا دیا ہے اور ہر روز صبح سب سے پہلے وہاں جاتا ہے اور کسی کو وہاں جانے نہیں دیتا۔یہ سن کر سلطان شک میں مبتلا ہو گیا اور کہاکل جب ایاز میرے پاس آئے تو تم لوگ وہاں جاو دروازہ کھولو اور جو بھی روپے پیسے وجواہرات جمع کئے ہیں انہیں لے آو۔دوسرے دن کچھ لوگ بیلچہ،کدال ،تھیلے اور قلیوں کو لے کر گئے اور تالا توڑ کر حجرے میں داخل ہوئے ۔لیکن انہوں نے وہاں کچھ نہ پایا سوائے ایک سوتی چادر کے اور ایک چمڑے کی چپل کے۔تو انہوں نے کہاکہ خزانہ یہاں ضرور دفن ہوگا ورنہ اس پھٹی پرانی چادر اور چپل کے لئے اس تالے اور ہر روز یہاں تنہاآنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔

انہوں نے زمین کھودی لیکن کوئی چیز نہ ملی انہوں نے بادشاہ کو خبر دی تو بادشاہ نے ایاز سے پوچھا کہ اس حجرے میں سوائے ایک چادر اور ایک چپل کے کچھ بھی نہیں ہے پس اسے تالا ڈالنے اور ہر روز وہاں تنہا جانے کا کیا سبب ہے۔ایاز نے کہا آپ کاغلام بننے سے پہلے میرا یہی لباس تھا۔لیکن آپ کا غلام بننے کے بعد مجھے ہر چیز میسر آگئی۔کیونکہ انسان کے نفس میں سرکشی اورعجب پیدا ہو جاتا ہے اس لئے میں اس حجرے میں اپنا بوسیدہ اور پرانا لباس اور چپل دیکھنے جاتا ہوں تا کہ میں غرور و تکبر میں مبتلا نہ ہو جاوں اور یہ یاد رکھوں کہ جو کچھ بھی میرے پاس ہے سب بادشاہ کے لطف وکرم کی وجہ سے ہے اور عاریتاً ہے۔اس کے بعد حضور کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔

یقینا انسان اور اس کی کمزوریاں جو اسے اس کی خواہشات تک پہنچنے نہیں دیتیں بے شمار ہیں جیسا کہ انسان چاہتا ہے وہ بہت سی چیزوں کو جان لے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتا ۔وہ چاہتا ہے کہ اسے فلاں بات یاد رہے لیکن وہ فراموش کر دیتا ہے،چاہتا ہے کہ کسی چیز کو مثلاً کسی گناہ کو بھول جاتے ہیں ایسا نہیں کر سکتا اور چاہتا ہے کہ اس کے حواس یکجا ہوں اور فکروں اور وسوسوں کوا پنے سے دور کر دے لیکن ایسا نہیں کر سکتا اورایسی چیز کی طرف رغبت رکھتا ہے کہ جس کی ہلاکت ہے۔لیکن اپنی عادت اور غیر معمولی دلچسپی کی بناء پر وہ اسے ترک نہیں کر سکتا حالانکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ چیز اس کے لئے نقصان دہ ہے اور بعض اوقات وہ اس چیز کو برا سمجھتا ہے کہ جس میں اس کی زندگی ہے۔

اس کے علاوہ اسے دن رات میں ہر لمحہ اپنی جسمانی طاقت میں سے کسی قوت کے ختم ہونے اور جن چیزوں کو بہت عزیز رکھتا ہے،ان کے چلے جانے کا دھڑکالگا رہتا ہے۔مثلاً مال و اولاد وغیرہ۔ خلاصہ انسان ایسا خاکی بندہ ہے کہ جو کسی بھی چیز پر قدرت نہیں رکھتا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

( وَلٰا یَمْلِکُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرّاً وَّلٰا نَفْعاًوَّلٰا یَمْلِکُونَ مَوْتاً وَّلٰا حَیٰوةً وَّلٰا نُشُوْراً ) ۔ (سورہ فرقان آیت ۳)

اور وہ خود اپنے لئے بھی نہ نقصان پر قابو رکھتے ہیں نہ نفع پر نہ موت ہی پر اختیار رکھتے ہیں اور نہ زندگی پر اور نہ مرنے کے بعد جی اٹھنے پر۔

یہ ہیں انسان کے مختصر حالات جو اسے دنیاوی زندگی میں پیش آتے ہیں اور مسلمات میں سے ہے کہ ہر لمحہ موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے اور وہ بھی اس طرح کے کوئی طاقت بھی اسے موت سے نہیں بچا سکتی۔

مرنے کے بعد کیا ہو گا؟

مرنے،قبر میں جانے اور خاک ہونے کے بارے میں جو کچھ دیکھا اور سنا گیا ہے اور گزشتہ لوگوں کے حالات اگر یہیں پر بات تمام ہو جاتی تو پھر انسان کے لئے کوئی فکر وغم نہ تھا۔ بد بختی تو یہ ہے کہ (مرنے کے بعد)اسے محکمہ عدل الہٰی میں لے جایا جائے گا اور اس کے تمام چھوٹے بڑے اعمال کے بارے میں بازپرس ہو گی اس تفصیل کے ساتھ کہ جسے قرآن مجید اور روایات میں بیان کیا گیا ہے۔

اکثر دنیاوی لحاظ سے بڑے لوگ وہاں ذلیل و خوار ہوں گے اور اکثر بڑے بڑے لوگ وہاں پر چیونٹی سے بھی چھوٹے ہوں گے کتنی ہی خوبصورت صورتیں وہاں بد صورت ترین شکلوں میں وارد ہوں گی۔اس طرح کہ کتے اور خنزیر وہاں بد صورت ترین شکلوں میں وارد ہوں گی۔اس طرح کہ کتے اور خنزیر کی صورت ان سے (زیادہ)اچھی ہو گی۔کوئی بھی عاقبت کے بارے میں نہیں جانتا اور اپنے انجام کو نہیں پہچانتا کہ وہ اشقیاء میں سے ہو گایا سعادت مندوں میں سے ،معززوں میں سے ہوگا یا ذلیلوں میں سے اس کا چہرہ سیاہ ہوگایا سفید،وہ باتیں جو انسان کے حالات کے بارے میں بیان کی گئیں وہ تمام افراد کے لئے برابر ہیں۔خواہ وہ کسی بھی علاقے میں ہوں اور ہر عقل رکھنے والا جب حال اور مستقبل کے واقعات کے بارے میں غور کرتا ہے تو اسے یقین ہو جاتا ہے کہ انسان غرور وتکبر اور بزرگی و کبریائی اور سرکشی کے لائق نہیں جس انسان کی تمام حیثیت کو عجز و بیچارگی نے گھیر لیا ہو وہ کسی طرح بزرگی و برتری اور انا کا دعویٰ کر سکتا ہے۔اپنی کبریائی کے دعوے سے بڑھ کر کوئی بڑا جھوٹ ہو سکتا ہے؟

نسبت بالا تر کو پیش نظر رکھنا چاہئیے

بعض بزرگوں نے تکبر کے علمی علاج کے بارے میں بہت دقیق تحقیق بیان فرمائی ہے جسے مزید فائدے کے لئے نقل کیا جاتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ تکبر ایک ایسی کیفیت ہے جو ہمیشہ اپنے سے پست کو پیش نظر رکھنے اورا پنے سے بلند تر کو غفلت کی بنا پر نظر انداز کر دینے سے نفس میں جہنم لیتی ہے اور اس سے بات کی تشریح یہ ہے کہ مثلاً کسی شخص کا کوئی غلام ہے اور اس شخص کو اس غلام سے نسبت ہے اوروہ یہ ہے کہ وہ شخص اپنے غلام پر برتری رکھتا ہے اور اس کا حاکم ہے اور اس غلام کو اس کے حکم سے سر تابی کی مجال نہیں اور وہ اس کی تابع ہے اور اس شخص کو خداوندعالم سے ایک نسبت ہے کہ یہ مغلوب،مقہور،اس کا تابع اور محکموم ہے تو اگر اس شخص پر پہلی نسبت(یعنی اپنے سے پست کو پیش نظر رکھنا) غالب آجائے اور وہی اس کی نظروں میں رہے تو اس کے اندر ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو تکبر ہے لیکن اگر خداوندعالم سے اپنی نسبت یعنی اپنی کمزوری اور ناتوانائی کو پیش نظر رکھے تو اس میں خضوع و خشوع اور نیازمندی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو تواضع(یعنی تکبر کے برعکس )ہے۔

اگر چہ ابتداء میں ایک شخص میں یہ کیفیت خداوند عالم کی نسبت پیدا ہوتی ہے۔لیکن جیسے جیسے راسخ ہوتی ہے دوسری موجودات تک پھیل جاتی ہے یعنی جو کوئی خدا کے حضور منکسر ہو وہ اس کی مخلوقات سے بھی انکساری اور تواضع سے پیش آتا ہے۔جس طرح کہ انسان غصے کی حالت میں نہ صرف مجرم سے بلکہ دوسروں سے بھی غیض وغضب سے بات کرتا ہے۔

اس بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ خدائے عزوجل کا تکبر کرنا بالکل صحیح ہے کیونکہ وہ کسی کے سامنے بھی مغلوب ومقہور نہیں اور اس کے علاوہ کوئی بھی اس کے برابر میں غالب وقہار نہیں ہے اور اس کے علاوہ کوئی بھی تکبر کے لائق نہیں چاہیے کوئی بھی ہوخواہ حامل عرش اسرافیل و جبرئیل ہی کیوں نہ ہو۔بلاشبہ اس کا اللہ تعالیٰ کے مقابل مغلوب و کمزور وناتوان ہونا دوسرے کے مقابل اس کے غالب ہونے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔پس کیا اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنی اس مغلوبیت سے غافل ہو کر دوسروں پر اپنے غالب وبرتر ہونے کی طرف متوجہ رہے اور تکبر جیسے گناہ کبیرہ میں مبتلا ہو جائے۔

اور اس کے علاوہ فرمایا کہ جو کوئی موجود حقیقی کے مقابل اپنی کوئی حیثیت نہ سمجھے درحقیقت وہ اپنے آپ کو اس سے بر تر وفائق سمجھتا ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَ اَنْ لٰا تَعْلُوا عَلَی اللّٰهِ ۔خدا کے سامنے بر تری اور سرکشی کی کوشش نہ کرو۔

اور ہونا تو یہ چاہئے کہ خدا کی عظمت آنکھوں کے سامنے اس طرح جلوہ گر ہو کہ انسان اپنی تمام حیثیتوں کو فراموش کر دے۔

پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حالات توضع کا نمونہ ہے

یہ کچھ وہ ضروری باتیں ہیں کہ جو سید الکونین محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خصوصی صفات میں سے ہیں ۔پہلی یہکَانَ لٰا یَغْضِبُ بِنَفْسِه کبھی اپنی ذات کی خاطر کسی پر غصہ نہ کیا۔دوسری کَانَ یَجلِسُ دَلَی الْاَرْضِ وَیَأْکُلُ عَلَی الْاَرْضِ ہمیشہ زمین پر بیٹھتے اور زمین پر بیٹھ کر غذا کھاتے تھے۔ تیسری کٰانَتِ الْاَمته مِنْ اِمَآءِ الْمَدِیْنَةِ تَأْخُذُ بِیَدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ (صلی الله علیه و آله) فَتَذْهُبُ بِه حَیْثُ شٰآتَ اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی کنیز آپ کا دست مبارل تھامتی اور لوگوں کی شفاعت کے لئے جدھر لے جانا چاہتی لے جاتی۔

اور آپ کی صفت میں یہ بھی کہا گیا ہے:کٰانَ (صلی الله علیه و آله) اَذَا دَخَلَ بَیْتَهُ مَهْنَتِهاَهْلَه جب بھی گھر میں داخل ہوتے اپنے اہل خانہ کی مدد کرتے تھے۔بحار الانوار ج ۶ ص ۲۰۴)

تکبر کے بنیادی عوامل کا خاتمہ ہونا چاہئیے

تکبر کے علمی علاج کے موارد میں سے انسان کا ایسی غلطیوں کے بارے میں فکر وتدبر کرنا ہے جو انسان کے غرور تکبر کا سبب بنتی ہے۔مثلاً علم وہ عمل،نسب،مال وجاہ،منصب ،اتباع،قوت،حسن وغیرہ۔غوروفکر کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان میں سے کسی بھی چیز پر غرور وتکبر کرنا خلاف عقل ہے ،انسان دنیوی علم رکھتا ہو تو موت کے وقت وہ ختم ہو جائے گا بلکہ موت سے پہلے بھی مشق نہ کرنے یا بھول جانے کی بناء پر ضائع ہو سکتا ہے اور چونکہ دنیوی علم کا فائدہ صرف دنیا کی چند روزہ زندگی میں ہے تو اس پرغرور کرنا مناسب نہیں ہے اور خاص طور پر جو جانتا ہے اور جو کچھ نہیں جانتا اس نسبت کو جو محدود اورلامحدود کے درمیان ہے۔پیش نظر رکھنا چاہئے۔

اور اگر اخروی و دینی علوم میں سے ہو تو جس چیز کا تعلق معرفت الہیٰ سے ہے۔اس کا نتیجہ فروتنی و خشوع ہونا چاہیے نہ کہ غرور تکبر،جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

( اِنَّمٰا یَخْشَی اللّٰهِ مِنْ عِبٰادِه الْعُلَمآء ) (سورہ فاطر آیت ۶۸)

اس کے بندوں میں خوف کرنے والے تو بس علماء ہیں۔

اور اگر اس کی حالت اس کے برعکس ہو تو وہ نور کی حقیقت اور علم سے بے بہرہ ہے اور اس نے فقط قوانین یاد کر لئے ہیں اور وہ بھی ایسی چیز نہیں ہے کہ جو فخر کا موجب ہو۔

احکام دینی کا علم یعنی فقہ بھی اسی وقت فائدہ مند ہے جب اس کے قوانین پر عمل کیا جائے اور جو کوئی فقہ جان لے لیکن اس پر عمل نہ کرے تو وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جس نے علم طب سیکھا ہو لیکن اس پر عمل نہیں کرتا اور فرمان خدا کے مطابق۔کَمَثَلِ الْحِمٰارِ یَحْمِلُ اَسْفٰاراً۔اس کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں۔(سورہ جمعہ آیت ۵)

اور بلعم باعور کوجو کہ بے عمل عالم تھا کتے سے تشبییہ دی ہے اگر عالم غورفکر کرے تویقینا اس پر خدا کی حجت تمام ہو چکی ہے اور اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے یعنی جاہل کے ستر گناہوں کی بخشش ہو چکی ہو گی جب کہ ا س وقت تک عالم کے ایک گناہ کا مواخذہ ہو رہا ہوگا۔الغرض علم حاصل کرنے کے بعد انکساری وفروتنی میں اضافہ ہونا چاہیے نہ یہ کہ انسان غرور تکبرکا شکار ہوجائے۔

مقبول عمل کی اہمیت ہوتی ہے

عمل: یہ جان لیجئے کہ نیک کام اگر خشوع وخضوع اور عجز وانکسار کے ساتھ انجام دیا جائے تووہ بندگی کی جان ہے۔عبادت ہے اور قابل قدر ہے اور اگر غرور تکبر کے ساتھ انجام دیا جائے تو وہ بے جان صورت کی مانند ہے کہ جس کی اہمیت نہیں ہوتی اور یہ بھی جان لیں کہ نیک عمل صرف اسی وقت فائدہ مندہوتا ہے جب وہ خداوندعالم کی بارگاہ میں مقبول ہوا ور یہ ایک پوشیدہ بات ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کا نیک عمل قبول ہو چکا ہے یا صدق ،اخلاص اور تقویٰ کے نہ ہونے کی بناء پر رد ہو گیا ہے ۔اس بناء پر نیک عمل بھی علم ہی کی مانند ہے کہ جو عجز وانکسار کا موجب ہونا چاہئے نہ یہ کہ غرور و تکبر کا ،چنانچہ اللہ تعالیٰ مومنین کی صفات کے بارے میں فرماتاہے۔

وَالَّذِیْنَ یُوتُوْنَ مٰااَتَوْا وَقُلُوْبُهُمْ وَجِلَته ٌاِنَّهُمْ اِلیٰ رَبِّهِمْ رٰاجِعُوْنَ (سورہ مومنون۔آیت ۶۰)

وہ لوگ جو (خدا کی راہ میں)جو کچھ بن پڑتا ہے(اطاعات وعبادات اور خیرات کی انواع میں سے) جو کام بھی انجام دیتے ہیں اور پھر ان کے دل کو اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ انہیں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

یعنی وہ اپنے پروردگار کے حضور اپنے اعمال کے قبول نہ ہونے کی وجہ سے ڈرتے ہیں کیونکہ خداوندعالم وہ کچھ جانتا ہے جو ان پر پوشیدہ ہے۔

نسبی شرافت تکبر کا سبب نہیں بننی چاہئیے

اور اگر (انسان)ظاہری و دنیوی عزت وشرافت کا مالک ہو مثلاً اس کا باپ حکام اور اشراف میں سے تھا تو جب دنیا ہی فانی ہے تو ان مادی امور کا کیا اعتبار سوائے چند روزہ چمک دمک کے جو نیست و نابود ہو جانے والی ہے تو یقینا ان چیزوں پر غرور تکبر کرنا انتہائی کی حماقت اور لاابالی ہونے کی دلیل ہے۔

دوسرے یہ کہ کیا بعید کہ جو شخص (ان گزشتہ لوگوں پر )فخر کر رہا ہے وہ لوگ اس وقت عالم برزخ میں مصیبتوں میں گرفتار ہوں اور پست ترین جگہوں پر ان کا نالہ وفریاد بلند ہو اور یہ احمق ان سے تعلق رکھنے پر تکبر کر رہا ہو۔

اور اگر حقیقی ومعنوی شرافت ہو مثلاً سادات عظام سے نسبت تو یہ جان لے کہ اس کے اجدادطاہرین کی شرافت ان کے قرب خداوندی اور تمام نفسانی فضائل کی بناء پر تھی کہ جس میں خدا اور اس کی مخلوق کے ساتھ انتہائی انکساری و تواضع سے پیش آنا ہے۔اب جوکوئی بھی اپنے آپ کو ان سے منسوب سمجھتا ہے تو دوسروں کے مقابلے میں اس کے لئے یہ بات زیادہ مناسب ہے کہ وہ اس نسبت کی وجہ سے خدا اور لوگوں سے فروتنی کرے اورتکبر اور اس جیسے دوسرے تمام برے اوصاف سے جو کہ ان کے دشمنوں کی صفات ہیں،سے پاک ومنزہ رہے۔

اور اسی طرح علماء سے تعلق رکھنے والے بھی یہ جان لیں کہ خود اگر عالم بھی متکبر ہو تو علم کی فضیلت سے محروم ہوتا ہے جیسا کہ ذکر ہوا۔

تو پس اس انسان کی کیا حالت ہو گی جو کسی عالم سے نسبت کی بناء پر اپنے آپ کوصاحب فضیلت سمجھتا ہو اور دوسروں کے سامنے غرور وتکبر کرے۔

مال پر تکبر کرنا حماقت ہے

اگر انسان کے ہاتھ میں مال آجائے اور وہ فقرآء اور ضرورت مندوں پر اپنی بزرگی ظاہر کرے اور اپنے آپ کو ان سے بر تر سمجھے تو یہ حماقت ہے مثلاً فقیر بیمار ہو تو اس کی عیادت نہ کرے(کیونکہ وہ غریب ہے) خواہ اس کا رشتہ دار ار پڑوسی ہی ہو یا اگر کوئی فقیر و غریب اس سے بات کرنا چاہئے تو اس کی بات کی طرف توجہ نہ دے یا اس کے سلام کا صحیح جواب نہ دے یا اس سے سختی سے بات کرے وغیرہ وغیرہ۔

جان لیجئے کہ مال انسان کی ذات سے ایک الگ شے ہے اور اس کی کمی وزیادتی کا کمال انسانی سے کوئی ربطہ نہیں ہے۔چنانچہ ممکن ہے کے پست ترین افراد (معنوی کمالات کی بناء پر ) ان سے مال دار ترین ہوں۔ دوسرے یہ کہ انسان کے مرنے کے بعد مال دوسروں کو منتقل ہو جاتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ کسی بھی لمحے معمولی سے حادثے کی وجہ سے ضائع ہو جائے اور کتنے ہی مالدار متکبر و مغرور افراد کچھ ہی عرصے میں فقیر و محتاج ہو گئے۔ اور اگر دولت مند ایمان و عقل و فہم رکھتا ہو تو وہ اپنے مال کو فتنہ وبالا اور آزمائش کا سبب سمجھے گا اور اپنے آپ سے سخت ذمہ داری محسوس کرے گا کہ جس سے باہر نکلنا بہت مشکل ہے اور اس فہم و دانش کا لازمہ یہ ہونا چاہئے کہ انسان فقراء کے ساتھ انکسار وتواضع سے پیش آئے نہ کہ غرور تکبر کرے۔

اور اگر دولت مند لا پرواہ ہو اور اپنے مال کو خدا کی دی ہوئی رحمت سمجھے اور اپنے آپ کو اس کے لا ئق سمجھے تو اسے یہ آیت اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے۔

( ءَ اَیَحْسَبُوْنِ اِنَّمٰا تُمِدُّهُمْ لَهُ بِه مِنْ مّٰالٍ وَ بَنَیْنَ نُسٰارِعُ لَهُمْ فِیْ الْخَرٰاتِ بَلْ یَشْعُرُوْنَ ) (سورہ مومنون آیت ۵۵ ۔ ۵۶)

کیا یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال اولاد میں ترقی دے رہے ہیں توہم ان کے ساتھ بھلائیاں کرنے میں جلدی کر رہے ۔(ایسا نہیں)بلکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں۔

کیونکہ ہو سکتا ہے کہ مال ودولت خوش نصیبی کی علامت نہ ہوبلکہ دولت کی مستی اور غفلت میں ڈال کی غضب الہیٰ میں مبتلا ہو اور بے خبری میں رحمت ونعمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔رحمت زحمت بنے اور نعمت نقمت میں تبدیل ہو جائے۔

اور یہ جاننے کے لئے کہ یہ مال رحمت وخیر ہے یا آزمائش و غضب الہیٰ ہے۔ روایات میں اس کے لئے دہ نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے ایک انکسار اور دوسرے انفاق کی توفیق ہونا۔پس کسی بھی دولت مند کا مال زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ اگر اس کا فقراء کے ساتھ انکسار و فروتنی اورانفاق زیادہ ہو جائے تو وہ مال خیر و رحمت الہیٰ سے اور اگر اس کا بخل اورتکبر زیادہ ہوجائے تو وہ مال آزمائش اور شقاوت و بد بختی کا سبب ہے،چنانچہ ارشاد خداوندی ہے۔

( اِعْلَم؟و اِنَّمٰا اَمْوٰالُکُمْ وَاِوْلٰادُکُمْ فِتْنَةٌ ) (سورہ انفال آیت ۶۸)

جان لو بیشک تمہارے اموال اور اولاد آزمائش ہے۔

جا ہ ومنصب ومقام امور اعتباری ہیں

جوکچھ مال کے زوال پذیر اور بے اعتبار ہونے کے بارے میں کہا گیا یعنی یہ کہ مال کبھی خیر ونعمت اور کبھی شرو آزمائش ہے تو وہی بات جاہ ومنصب و مقام کے بارے میں بھی ہے بلکہ یہ زیادہ سخت اور اس کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے اور اس کا نقصان بہت بڑا ہے۔خصوصاً اگر جاہ و منصب کسی دولت مند اور توانا کو حاصل ہو تو اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آیا جو وظیفہ الہیٰ اس کے ذمہ ہے وہ اس کو انجام دے رہا ہے یا نہیں؟ اور کبھی اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی مظلوم کی فریاد رسی نہ کرنے ،تکبر کرنے اور کسی مومن کی توہین(خاص طور پر اگر سید،عالم یا بوڑھا ہو)کی بناء پر عقوبت اور عذاب الہیٰ کا مستحق ہو جاتا ہے۔

الغرض جاہ ومنصب اورمقام بھی مال ہی کی طرح زوال پذیر اور اس کے علاوہ انسانی ذات سے الگ امور اعتباری میں سے ہیں (یعنی فطری اورذاتی نہیں)اور عقل رکھنے والا کبھی بھی ان کے دھوکے میں نہیں آتا اور نہ ہی ان پر غرور کرتا ہے گزشتہ لوگوں کی تاریخ میں مال وجاہ،مقام کے زوال پذیر اور ناقابل بھروسہ ہونے کے بہت سے واقعات ہیں اور ایک واقعہ کتاب حبیب السیر میں نقل کیا گیا ہے کہ جب عمرو بن لیث اپنے ستر ہزار باصلاحیت جوانوں کے ساتھ امیر اسماعیل ساسانی کے دس ہزار سواروں کے مقابلے میں آیا اور جب جنگ کا شور اور ڈھول و بگل کی آواز بلند ہوئی تو عمروبن لیث کے گھوڑے نے سرکشی کی اور اسے بے اختیار دشمن کی صفون میں پہنچا دیا اور اس طرح امیر اسماعیل بغیر جنگ کے غالب آگیا اوراس نے عمرہ کو ایک خیمے میں قید کر دیا۔

منقول ہے کہ اس عمرو کی نظر ایک سابقہ شاگرد پر پڑی عمرو نے اسے بلایا اور بھوک کی شکایت کی،شاگرد اسی وقت اس کے لئے ایک گوشت کا ٹکرا لے کر آیا۔کیونکہ کوئی بڑا برتن نہ تھا اس لئے اس نے اسے گھوڑے کے سطل میں ڈال دیا ور آگ جلادی اوراپنے کسی کام کے لئے چلا گیا۔اتفاقاً وہاں ایک کتا آگیا اس نے اپنا سر اس سطل میں ڈالا تو شوربے کی بھاپ کی وجہ سے اس کا منہ جلنے لگا اور جب اس نے تیزی سے منہ باہر نکالنا چاہا تو سطل کا دستہ اس کی گردن میں پھنس گیا اور وہ اسی طرح بھاگ گیا عمرو یہ دیکھ کر ہنسنے لگا تو ایک محافظ نے پوچھا کہ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے،عمر ونے کہا ایک دن میرے سپہ سالار نے مجھ سے شکایت کی تھی کہ آپ کے باورچی خانے کا سامان تین سو گھوڑے بھی مشکل سے اٹھا کر جاتے ہیں اور آج میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک کتا اسے آسانی سے لے کر جارہا ہے۔ اور بالکل اسی طرح کا قصہ مروان حمار کا بھی ہے۔جو کہ بنی امیہ کے آخری بادشاہوں میں سے تھا۔سن ۱۳۲ میں جب وہ آب زاب کے مقام پر سفاح کے لشکر کے مقابل آیا جب کہ لشکر کی صف بندی ہو چکی تھی وہ اپنے گھوڑے سے پیشاب کرنے کے لئے اترا تو اس کا گھوڑا بھاگ کر اپنے لشکر کے درمیان پہنچ گیا اور اس کے لشکریوں نے گمان کیا کہ مروان قتل ہو چکا ہے اور اس کا گھوڑا فرار ہو کے آیا ہے اس لئے تمام لشکر والے ڈرکر منتشر وہ گئے(آخر واقعہ تک)یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا گیا اور کہا گیا کہ ذَھَبَتِ الدّوْلَتَہُ بِبَوْلِہ اس کی سلطنت پیشاب کرنے کی بناء پر چلی گئی۔

اس کے علاوہ عباسی خلیفہ کا بغداد کی جامع مسجد میں نماز جماعت کی صفوں میں بھیک مانگنا تاریخ میں مشہور ہے ۔جو اندھا ہو کر بھیک مانگتا پھرتا تھا اور کہتا جاتا تھا۔اے لوگو اس شخص پر رحم کرو جو کل تک تمہارے اوپر حاکم تھا اور آج وہ تمہارے سامنے دست سوال دراز کر رہا ہے۔

جسمانی قوت بھی وقتی ہے

جسمانی قوت پر تکبر کرنا ۔جان لیں کہ ہر لحظہ ممکن ہے کہ انسان کسی بھی مرض یا مصیبت میں مبتلا ہو کر کمزور سے کمزور تر ہو جائے اور اسے جان کنی ،موت اور قبر کا سامنا کرنا پڑے اور ظاہری حسن وجمال پر تکبر کر نا،یاد رکھیں کہ انسان کا حقیقی حسن صفات کمالیہ سے متصف ہونے میں ہے کہ جس میں سے ایک تواضع ہے اور فقط ظاہری حسن اہمیت نہیں رکھتا،کیونکہ یہ عاریتاً ہے۔ممکن ہے کسی چھوٹے سے حادثے سے مکمل طور پر ختم ہو جائے۔اسی لئے انسان کو ہمیشہ اپنی قبر کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ یہ حسن وجمال کسی حد تک کا م آئے گا اور اس کے علاوہ اس بدن کے اندر کس قدر کثافتیں موجود ہیں اور کھال کے نیچے پیپ،خون اور گندگی ہوتی ہے تو بس غرور وتکبر اور دوسروں پر برتری ظاہر کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی قوت پر بھی تکبر کرنا حماقت ہے۔

تکبر کے مرض کا عملہ علاج

ہر وہ خواہش جو انسان کے نفس میں ہے اگر عملاً اس کی پیروی نہ کرے بلکہ اس کے برعکس عمل کرے تو آہستہ آہستہ وہ خواہش ختم ہو جاتی ہے اور چونکہ تکبر کی ضد تواضع و فروتنی ہے تو پس تکبر کے مرض کا واحد علاج گفتار و کردار میں تواضع وفروتنی پیدا کرنا ہے۔اس بناء پر ضروری ہے کہ تواضع کی اہمیت اور حقیقت اور اس کی اقسام کا مختصراًذکر کیا جائے۔

تواضع کی فضیلت

تواضع سے متعلق آیات و روایات بہت زیادہ ہیں جن کا یہاں پر ذکر کرنا اس کتاب کی وضع کے منافی ہے ۔اس کی اہمیت کیلئے یہی کافی ہے کہ پروردگار عالم اپنے حبیب،اشرف مخلوقات،باعث تخلیق کائنات کو تواضع کا حکم دے رہا ہے۔

( َوَاَخْفضْ جَنٰاحَکَ لِلْمُومِنِیْنَ ) (سورہ حجر آیت ۸۸)

اورایماندارو ان سے (اگر چہ غریب ہوں)جھک کر ملا کرو۔اور اپنے مقرب بندوں کی اس صفت کمالیہ کی وجہ سے تعریف کی اور فرمایا۔

( وَعِبٰادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنِ یَمْشُوْنَ عَلَی الْارْضِ هَوناً ) ۔

اور رحمان کے خاص بندے تو وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں۔

اور شیعوں کی روایات میں امامت کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ امام کو خدا کے لئے ہر ایک سے زیادہ عجزو انکسار والا ہونا چاہئے۔امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔

فَلَوْرَ خَصَ اللّٰهُ فَیْ الْکِبْرِه لِاَحَدٍ مِّنْ عِبٰادِه لَرَخَصَ فِیْه لِخَاصَّتَه اَنْبِیٰاهِ وَلٰکِنَّهُ سُبْحٰانَهُ کَرِهَ اَلَیْهِم التَّکٰا بِرُ وَرَضِیَ لَهُمْ التَّوَاضَعَ فَاَلصِقُوا بِالْاَرْضِ حُدُوْدِهُمْ وَعَفِّرُوا فِی الُّترابِ وُجُوْهَهُمْ وَخَفِّضُوْا اَجْنِحَتَهُمْ لِلْمُومِنِیْنَ ۔

اگر خدا کے شایان شان یہ ہوتا کہ وہ اپنے کسی ایک بندے کو تکبر کی اجازت دے دے تو وہ اپنے مخصوص بندوں انبیاء اور اولیاء کو اس کی اجازت دیتا ۔لیکن ذات خداوند عالم تمام بری صفات سے پاک ہے اس نے ان کے لئے بھی تکبر کو مکروہ قرار دیا اور فروتنی کو پسند فرمایا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے سینے زمین سے ملے اور چہرے خاک آلودہ رکھے اور مومنین کے آگے انکسار سے جھکتے رہے اور دنیا میں کمزور حالت میں رہے۔رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں۔

اِنَّ اَحَبَّکُم وَ وَاَقْرَبَکُمْ مِنِّی یَوْمَ الْقِیٰامَتِه مَجْلِساً اَحْسَنَکُمْ خُلْقاً وَاَشَدَّ کُمْ تَوٰضُعاً وِاِنِّ اَبْعَدُکُمْ یَوْمَ الْقِیٰامَتِه مِنِّیْ الثَّرْثٰارُوْنَ وَهُمُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ ۔(بحار الانوار)

روز قیامت تم میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور میرے قریب ترین وہی ہو گا کہ جس کے اخلاق بہترین اور جس کا تواضع سب سے زیادہ ہو اور روز قیامت غرور و تکبر کرنے والے مجھ سے سب سے زیادہ دور ہوں گے۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

اِنَّ فِی السِّمٰآءِ مَلَکَیْنِ مُوَکَّلَیْنِ بِالْعِبٰادِ فَمَنْ تَوٰاضَعَ رَفَعٰاهُ وَمَنْ تَکَبَّرَ وَضَعٰاهُ

(کافی جلد ۲ با ب کبر)

آسمان میں دو فرشتے ہیں کہ جو لوگوں پر موکل ہیں تاکہ جو کوئی تواضع کرے اسے معزز اور اس کے مرتبے کو بلند کریں اور جو کوئی غرور و تکبر کرے اسے ذلیل و خوار کریں۔ امیر المومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔

وَعَنْ ذٰالِکَ مٰاحَرَسَ اللّٰهُ عِبٰادٰهُ الْمُومِنِینَ بِالصّلٰوة، وَالزَّکٰاةِ وَ مُجَاهَدَةِ الصِیّٰام فِی الْاَیّامِ الْمَفْرُوْضٰاتِ تَسْکِیْناً لِاَطْرٰافِهِمْ وَ تَخْشِیعاً لِّاَبْصٰارِهِمْ وَتَذْلِیْلاً لِّنُفُوسِهِمْ وَتَخْفِیْفاً لِّقُلُوبِهِمْ وَاِذْهٰاباً لَلْخُیلاءِ عَنْهُمْ لَمٰا فِی ذٰالِکَ مِنْ تَعْفِیْرِ عَتٰائِقِٓ الْوُجُوهِ بِالتُّرٰابِ تَوٰاضُعاًوَالَصٰاقِ کَرٰآئِمِ الْجَوٰارِحِ بِاالْارْضِ تَضٰاغُراً وَلُحُوْقِ الْبُطُوْنِ بِالْمُتُونِ مِنَ الصِّٰامِ تَذَلُّلاً

(نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ ۹۲)

تکبر وہ چیز ہے جس سے خداوند عالم نے اپنے ان بندوں کو جو ایمان سے سرشار ہیں،نماز، زکوٰة اور مقررہ دنوں میں روزوں کی کوشش کے ذریعے محفوظ رکھا تا کہ ان کے اعضاء جوارح سکون حاصل کریں آنکھوں کو احساس عاجزی سے جھکا دیتا ہے ،نفس کو رام کر دیتا ہے،دلوں کو متواضع بنا کر خود پسندی کو ان سے نکال دیتا ہے کیونکہ نماز میں نازک چیزوں کو تواضع و نیاز مندی سے سجدے میں خاک آلود کیا جاتا ہے اور محترم (سات)اعضاء خاک پر گر کر اپنی پستی ظاہر کرتے ہیں اور روزہ رکھنے سے اس کی فرمانبرداری میں پیٹ پیٹھ سے مل جاتے ہیں۔

عباد ت تکبر کو ختم کر د یتی ہے

پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان عبادات کے واجب ہونے کا اہم سبب تکبر کے مرض کو ختم کرنا اور تواضع کی فضیلت سے متصف ہونا ہے اس بناء پر تکبر کو ختم کرنے کے اہم ترین عملی مستالجات مین سے عبادات کو صحیح شرائط ومسائل کے ساتھ بجالانے کی کوشش کرنا تا کہ وہ قبول ہوں نیز یہ کہ عبادت تکبر کے ساتھ ہر گز قبول نہیں ہوتی چونکہ عبادت کے معنی اطاعت وفرمانبرداری اور بندگی کے ہیں نہ کہ اپنے آپ کو بڑا اور آقاظاہر کرنے کے۔

تواضع کے معنی اور اسکی قسمیں

تواضع نفس میں ایسی کیفیت کا نام ہے جسے فروتنی نفس کی شکستگی اور اپنے آپ کو پست و حقیر سمجھنے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔چنانچہ بلحاظ خلقت و فطرت اور حقیقت امر بھی یہی ہے کہ انسان کی کوئی چیز بھی اس کی اپنی طرف سے نہیں ہے۔

ماچہ ایم اندر جہان پیچ پیچ

جوں الف اوخود ندارد ہیچ ہیچ

اس پیچیدہ اور پر اسرار کائنات میں ہماری کیا حیثیت ہے۔ہماری مثال تو الف کی مانند ہے کہ جس کا خود اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔

تواضع اپنے مواقع کے لحاظ سے تین قسم کا ہوتا ہے:۔پہلا خداوند عالم کے ساتھ تواضع و انکسار،دوسرا پیغمبر وامام کے ساتھ تواضع،تیسرا لوگوں کے ساتھ تواضع۔

خداوند عالم کے ساتھ تواضع

جب بھی انسان یہ یقین کر لے اور سمجھ جائے کہ اس کا اپنا وجود اور اس سے متعلقہ تمام چیزیں خدا کی طرف سے ہیں اور بغیر کسی حق اور طلب کے خداوندعالم نے اسے بے حد و بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں اور جو کچھ بھی ہے اور جو بھی وہ رکھتا ہے سب خدا کی طرف سے ہے تو نفس میں ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ جسے حق کے مقابل پستی وانکساری سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور اس حالت کے چند لوازمات ہیں کہ جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے سامنے اطاعت اورخلوص کے ساتھ س کی فرمانبرداری کی کوشش کرنا یعنی ہمیشہ اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتارہے اور عبدیت کے وظائف کی انجام دہی میں اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو ہمیشہ قصوروار سمجھے چونکہ جس طرح وہ عبادت وپرستش کا سزاوار ہے اس طرح اس کی عبادت و پرستش نہیں کی اوراپنے آپ کو کسی چیز کا حقدار نہیں سمجھے اور ان میں سے کئی نعمتوں پر تجدید شکر ہے جو اسے حاصل ہوتی ہیں۔اور مستحب ہے کہ نئی نعمت حاصل ہونے پر جب بھی گزشتہ نعمتوں کو یاد کرے تو سجدہ شکر بجالائے۔

خدا کی نعمتوں کے سامنے عاجزی

نعمت کو بڑا سمجھے اور محترم جانے،کیونکہ وہ اس کے حقیقی محبوب ومنعم کی طرف سے ہے۔خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ، مروی ہے کہ اگرتمہیں کسی غذا کے کھانے سے نقصان پہنچے تو یہ نہ کہو کہ فلاں غذا خراب ہے جس نے مجھے بیمار کر دیا۔بلکہ یہ کہو کہ فلاں غذا کے لئے میرا مزاج مناسب نہ تھا اور میں نے اسے بے موقع استعمال کیا۔

کھانا کھاتے ہوئے انکساری کے ساتھ غلام کی طرح بیٹھے اورانکساری کے ساتھ غلام کے مانند کھائے،رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا دستر خوان پر بیٹھنا نماز میں تشہد میں بیٹھنے کی طرح تھا۔

انکسار کے ساتھ غذا کھانے کے آداب یہ ہیں کہ میز پربیٹھ کر کھانا نہ کھائے بلکہ اپنے جوتوں کو اتار کر تہذیب سے زمین پر بیٹھے۔خصوصاً روٹی کو محترم سمجھے کہ اس بارے میں بہت زیادہ روایات وارد ہوئی ہیں اور گھر میں جتنے بھی افراد ہیں مثلاً ماں،بیٹا،نوکرنوکرانی وغیرہ تمام کو ایک ہی دستر خوان پر بیٹھنا چاہئے نہ یہ کہ بعض کو روک کر ان کو علیحدہ کھانا دیا جائے،کھانا کھانے کے آداب بہت زیادہ ہیں جن میں سے اہم حضور قلب اور منعم حقیقی کی طرف پوری توجہ ہے اور اس کا نام سے ابتداء کرنا یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنا اور اس کے نام الحمد اللہ رب العالمین پر ختم کرنا۔

خداوند عالم سے تواضع اور انکساری اس کی نشانیوں و حرمات الہیٰ کو بزرگ و محترم سمجھنا ہے،جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے اور اسی طرح خداوند عالم کے اسماء شریفہ کو محترم سمجھنا ہے۔طہارت کے بغیر انہیں مس نہیں کرنا چاہئے خصوصاً یہ راہ میں نہ پڑے رہیں اور ان کی طرف پیر دراز کرے بطور کلی ہر اس چیز کو بزرگ و محترم سمجھنا ہے کہ جس کا تعلق خداوند عالم سے ہے مثلاً مسجدیں جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

اِنَّ الْمَسٰاجِدَ لِلّٰہِ بے شک مسجدیں خدا کے لئے ہیں اس بنا پر مسجد میں تھوکنا اور بد بو کے ساتھ داخل ہونا یا بلند آواز میں بولنا یا دنیوی باتیں کرنایہ تمام باتیں تواضع کے خلاف ہیں۔

پیغمبر اور امام کے سامنے تواضع

خداوندِ عالم کے سامنے فروتنی وعاجزی کی سب سے بڑی علامت پیغمبر اور امام کے سامنے عجز و انکساری ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانیاں اور اس کے نمائندے اور خلفآء ہیں اور ان کے سامنے عجز وانکساری خداوند عالم کے سامنے تواضع و عاجزی ہے۔اس لئے حتی المقدور عجز وانکساری میں کمی نہ آنے پائے اور ان کے سامنے تواضع و عاجزی یہ ہے کہ ان کے اسمآء مبارکہ کو بغیر طہارت کے نہ چھوئے اور ان کی قبروں کے آگے کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھے اور ان کا نام انتہائی احترام کے ساتھ لے اور ان پر درودوسلام بھیجے۔

بعض علماء دین بغیر وضو کے چودہ معصومین (علیہم السلام)کا نام زبان سے نہیں لیتے تھے۔

مروی ہے کہ جب امام جعفر صادق (علیہ السلام) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا اسم مبارک لیتے تو اس قدر جھکتے تھے کہ آپ کا چہرہ مبارک زانووں کے قریب ہو جاتا تھا۔

اورا سی طرح باعمل علماء اور سادات جلیلہ کے ساتھ وعجز وانکساری پیغمبر وامام کے ساتھ تواضع وعاجزی ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے۔

لوگوں کے ساتھ تواضع

تمام انسان بلحاظ خلقت ایک دوسرے کے برابر ہیں اور سب ہی رب العالمین کی مخلوق اور تربیت یافتہ ہیں اور سب ہی اس کے زیر نظر ہیں اوروہ سب کی پرورش کرنے والا ہے تو بلا شبہ عقلاً و شرعاً کوئی بھی انسان چاہئے وہ کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتا ہو وہ غرور وتکبر کرنے اور بڑائی ظاہر کرنے کے لائق نہیں اور اسی طرح وہ اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ کوئی دوسرا ا سکے سامنے تواضع و انکساری کرے۔مثلاً بادشاہ کے غلاموں کی مانند کہ ان میں سے کوئی بھی دوسرے پر تکبر کو حق نہیں رکھتا اور نہ ہی س بات کا مستحق ہے کہ کوئی دوسرا اس کے ساتھ تواضع سے پیش آئے کیونکہ سب برابر ہیں،چنانچہ اگر ایک غلام دوسرے (غلام )سے غرور وتکبر سے پیش آتا ہے تو وہ عقلاً قابل مذمت ہے اور بالکل اسی طرح اگر کسی دوسرے سے عاجزی و انکساری کی توقع رکھے تو وہ عقلآء کی نظر میں مذمت وملامت کے لائق ہے چونکہ عام طور سے سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں،امیتاز صرف تقویٰ ہے۔

لیکن دوسرے لحاظ سے کچھ افراد بشر خاص فضیلت کے حامل ہو جاتے ہیں اور عقلی و شرعی لحاظ سے وہ قابل تعظیم ہوتے ہیں اور ان کے لئے عزت واحترام کا حکم دیا گیا ہے اورا یسی صورت میں وہ تواضع کے مستحق ہو جاتے ہیں اور لوگوں کو چاہئیے کہ ان کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئیں مثلاً ماں باپ جو کہ عقلاً وشرعاً اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی اولاد ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئے اور درحقیقت والدین کے ساتھ تواضع خدا کے ساتھ تواضع ہے،چونکہ والدین ربوبیت پروردگار کا ذریعہ ہیں یعنی ان کے ذریعے نشوونما اور پرورش پاتا ہے اور اسی کے حکم میں ہیں اور مثلاًایمان و تقویٰ کے لحاظ سے ۔ہر ایماندار اور متقی کے ساتھ تواضع وانکساری سے پیش آنا چاہئے ۔کیونکہ مومن خداوند عالم سے وابستہ ہے اور خدا کی رحمت و کرم کی نظر اس پر ہے۔

حضرت محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں مومن کی حرمت خداوند عالم کے نزدیک کعبہ کی حرمت سے زیادہ ہے۔

درحقیقت مومن کے ایمان کی بناء پر اس کے ساتھ انکساری سے پیش آنا خدائے عزوجل کے سامنے عاجزی و انکساری ہے۔مثلاً ایسا غلام کہ جو بادشاہ کی نظر میں دوسرے غلاموں کی نسبت زیادہ مقرب ہو اور اس سے گہری وابستگی ہو تو اب ایسی صورت میں اس (غلام)کی عزت کرنا بادشاہ کی عزت ہے اور س کی توہین بادشاہ کی توہین ہے اور اسی طرح عالم اور معلم کہ سب لوگوں پر لازم ہے کہ عالم کی برتری و فضیلت کی بناء پر اس کا احترم کریں اور اسی طرح سن رسیدہ،قوم کے بزرگ اور مہمان وغیرہ کی عزت اور ان کے ساتھ فروتنی سے پیش آنے کا خاص طور سے حکم دیا گیا ہے۔

کافر اور فاسق کے ساتھ تواضع غلط ہے

وہ افراد کے جن کے سامنے تواضع و انکساری کسی بھی وقت صحیح نہیں،بلکہ ان کے ساتھ برابری اور برتری کا اظہار کرنا چاہیے وہ کافر ہیں،یعنی کافر کے ساتھ کسی قسم کا تواضع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہ خداوندعالم سے بغض رکھتا ہے اور اس نے اپنے آپ کو درجہ انسانیت سے گرا کر ہر پست شے سے زیادہ پست تر کر لیا ہے اورکافرکل روز قیامت یہ آروز کرے گا یَقُوْلُ الْکَافِرُ یٰلَیتَنِی کُنْتُ تُرٰاباًکافر کہتا ہے اے کاش میں خاک ہوتا۔

پس مومن کے سامنے انکساری اور اپنے آپ کو کمتر سمجھے اور کافر کے سامنے اپنے آپ کو بڑا اورر بلند مرتبہ سمجھے اگر کوئی مومن ،کافر کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئے تو درحقیقت اس نے اپنے اللہ پر ایمان کو رسوا اور کافر کے کفر کو پسند کیا۔حقیقت کے برعکس کیا کیونکہاَلْعِزَّةُ لَلّٰہِ وَلِرِسُولَہ وَلَلْمُومِنِینَیعنی عزت تو خداوند عالم ،پیغمبر اور مومنین ہی کے لئے ہے۔

اور اس کے علاوہ ایسے شخص کے سامنے کہ جس نے ستم کو اپنے پیشہ بنا رکھا ہو یا کھلم کھلا فسق وفجور کرتا ہو۔یعنی بے خوف اور لا پرواہ ہو کر آشکار ا خدا کی محترم چیزوں کی توہین کرتا ہے تو اس کے ساتھ انکساری،تواضع سے پیش نہیں آنا چاہئے۔بلکہ خداوندعالم کے لئے اس پر غضبناک ہونا چاہئے اور اس سے ترش روی سے پیش آنا چاہیے چنانچہ امیر المومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔

اَمَرْنَا رَسُوْلَ اللّٰهِ (صلی الله علیه و آله) اَنْ نَلَّقٰی هل الْمَعٰاصِی بَوُجُوهٍ مُّکْفَهَرة ۔

(وسائل الشیعہ کتاب الامربالمعروف)

پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ہمیں حکم دیا ہے کہ گناہگاروں سے ترش روی سے پیش آئیں۔

متکبر کے ساتھ بھی تواضع غلط ہے

بلاشبہ ایسے احمق کے ساتھ تواضع سے پیش نہیں آنا چاہیے جو تکبر کرتا ہو اور دوسروں کو پست و ذلیل سمجھتا ہو۔کیونکہ اول تومتکبر کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آناخود ایک طرح کی ذلت ہے اور عقلی و شرعی لحاظ سے ایک ناپسند دیدہ عمل ہے اور دوسرے یہ کہ متکبر کے ساتھ تواضع و انکساری اس کی نا پسندیدہ عمل ہے اور دوسرے یہ کہ متکبر کے ساتھ تواضع وہ انکساری اس کی ناپسندیدہ حرکتوں کو بڑھانے کا سبب بنے گا اور ممکن ہے کہ اگر اس سے قطع تعلق کر لیں یعنی اس کے ساتھ خرید وفروخت نہ کریں اور تواضع سے پیش نہ آئیں تو وہ متنبہ ہو جائے اور غرور تکبر کرنا چھوڑ دے۔تو بس نہی عن المنکر کی رو سے اس کے ساتھ تواضع سے پیش نہیں آنا چاہئے۔پیغمبر اکرم فرماتے ہیں۔

اِذَا رَأَیْتُم الْمُتَوٰاضِعِیْنَ مِنْ اُمَّتِی فَتَوٰاضَعُوا لَهُموَاِذٰا رَأَیْتُمُ الْمُتَکَبِرِیْنَ فَتَکَبَّرُوا عَلَیْهِمْ ،فَاِنَّ ذٰالِکَ لَهُمْ مَذَّلّته وَصِغٰارٌ (جامع السعادت)

جب میری امت کے منکسر المزاج لوگوں سے ملاقات ہو تو ان سے تواضع سے ملو اور تکبر کرنے والوں کے ساتھ تکبر سے پیش آو۔کیونکہ تمہارا ان پر تکبر کرنا ان کی ذلت کا سبب ہوگا۔

تواضع نہ کرنے اور تکبر کرنے میں فرق ہے

کافر ،فاسق اور متکبر کے ساتھ تواضع وانکساری صحیح نہیں ہے بلکہ ان کے سامنے بڑائی کا اظہار کرنا چاہیے اور غضبنا ک ہونا چاہئے کیونکہ وہ خداوند عالم کے غضب کا نشانہ ہیں اس سے مراد یہ نہیں کہ بالذات اپنے آپ کو ان سے بڑا سمجھے ۔یعنی انہیں اپنے سے پست تر سمجھے اور یہ توقع رکھے کہ وہ اپنے آپ کواس سے پست سمجھیں اور اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں عزت و شان اور مقام والا سمجھے ۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس سے پست سمجھیں اور اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں عزت و شان اورمقام والا سمجھے۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور ان کو عاجز انسان سمجھے اور اہل نجات میں سے ہونا توفیق خدا کی بناء پر ہے اور ہلاکت اپنے ہی عمل کی وجہ سے ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کا فر یا فاسق کو توبہ کی توفیق ہو جائے اور اسکی عاقبت بخیر ہو۔جی ہاں ہمیں چونکہ یہ حکم دیا گیا ہے اس لئے ان سے سختی سے پیش آتے ہیں نہ یہ کہ خدا نخواستہ ہم تکبر سے کام لیتے ہیں۔

المختصر شخصیت کو بالکل نظر نہیں رکھنا چاہئے۔بلکہ اطاعت وفرمانبرداری اور وظائف ایمانی پر عمل کو اپنا شعار بنانا چاہئے اور جسے خداوند عالم دشمن رکھتا ہے وہ بھی اسے دشمن رکھے اور اس کے ساتھ انکساری سے پیش نہ آئے۔

اس مطلب کی وضاحت کے لئے خداوندعالم کے لئے غضب کرنے اور تکبر نہ کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ ایک مثال بیان کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی بادشاہ اپنے نوکر کو یہ حکم دے کہ جب بھی میرا بیٹا بے ادبی کرے تو اس سے ناراضگی کا اظہار کرے اور اسے مارے۔تو پس اگر نوکر بادشاہ کے بیٹے کی کوئی غلطی دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے مارے اور اس سے ناراضگی کا اظہار کرے۔اگر وہ ایسا نہ کرے تو گویا اس نے بادشاہ کے حکم کی اطاعت نہیں کی۔حالانکہ وہ نو کر اس عالم سے تکبر نہیں کرتا اور اپنے آپ کو اس(کے بیٹے) سے برتر نہیں سمجھتا۔(بلکہ اسے بادشاہ کے نزدیک زیادہ عزیز اور بر تر جانتا ہے)اور اگر غصہ اور تکبر جمع ہو جائے تو جان لیجئے کہ وہ غصب خداوند عالم کے لئے نہیں بلکہ ہوائے نفسانی کی بناء پر ہے۔

تکبر اور بند گی ایک سا تھ سازگار نہیں

چونکہ تکبر سے مراد نفس کی سر کشی اور خدائے بزرگ وبرتر کی عظمت سے غافل ہو نا اور اپنی ذلت و پستی کو بھول جانا ہے ،مثلاً اپنے آپ کو عزت و مقام کے لائق اور دوسروں کو اپنے سے پست و حقیر سمجھنا ہے،خود پرستی کی یہ حالت خدا پر ستی کی ضد ہے لہذا ہر حال میں قابل مذمت اور کسی طرح بھی خداوند عالم کی مدح کے حکم میں نہیںآ تی پس جان لیجئے کہ کافر،فاسق اور دولتمند کے سامنے تکبر سے مراد اس (خدا) کی خدائی کو عزیز رکھنا اور اس کی بزرگی ظاہر کرنا ہے کا فرکے سامنے بالکل انکساری نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ ترایمان کی اہمیت کو جوکہ اسکی بہت بڑی نعمت ہے،اس پر ظاہر کرے اور گناہ گاروں کے سامنے بھی تقویٰ کی اہمیت کا اظہار کرے جو کہ خدائے عزوجل کے نزدیک محترم ہونے کا معیار ہے اورامیر کے سامنے اللہ تعالیٰ کے خزانوں کی بزرگی واہمیت کوظاہر کے کہ معمولی سامقام ومنزلت جس کے فخر ومباہات کا سبب ہے اور کسی بھی لمحے اسکے مال کی وجہ سے اس کے سامنے فروتنی نہیں کرنی چاہئے اور متکبر کو احمق وجاہل ظاہر کرنا چاہئے اور اسے سمجھنا چاہئے کہ کبریائی صرف خداوند عالم ساتھ مختص ہے اس کے علاوہ جو کوئی بھی تکبر کرے وہ احمق ہے۔

چنانچہ آپ ملاحظہ کریں گے کہ اگر اس طرح عمل ہو یعنی اپنی خودی اور ہوائے نفسانی کا دخل نہ ہو اور عزت وبزرگی کا اظہار صرف خدا کے لئے ہونہ یہ کہ نفس کے غرور وتکبر وہٹ دھرمی کے لئے لیکن عمل کے وقت سخت احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ کوئی غلطی نہ ہو۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے سامنے کوئی برائی ہو اور جب وہ اسے روکنا چاہئے توخواہش نفس کی بناء پر گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے اور برائی کرنے والے کو برائی سے روکنے کی بجائے خود بھی اس سے بڑے گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

کس قدر فرق ہے اس کام کے درمیان جو خدا کے لئے ہو اور اس کام میں جو خواہش نفس کی بناء پر ہو،بے شک عمل کی صورت ایک ہی ہے۔لیکن اگرخدا کے لئے ہو تو عبادت اور قرب الہیٰ کاموجب اور شیطان پر غلبہ ہے اور اگر خواہش نفس کی بناء پر ہو توگناہ اور شیطان کا بندہ بننا اور اس کے سامنے مغلوب ہونا ہے۔

دولت کی وجہ سے دولت مند کی تواضع کرنا ہلاکت کا سبب ہے

غنی وسرمایہ دار لوگوں کے سامنے تواضع اگر ان کی ثروت اور مال دنیا کے لالچ کی وجہ سے ہو تو اس چیز کے لئے قرآن مجید اور روایات میں بہت زیادہ سختی سے منع کیا گیا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( وَلٰا تَمُدَّنَ عَیْنَْکَ اِلَی مٰامَتَّعْنٰا بِهِ اَزْوٰاجاً مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیٰا ةِ الدُّنْیٰا لِنَعتِنَهُم فِیْهِ ) ۔(سورہ طہٓ آیت ۱۳۱)

(اسے رسول )جو ان میں سے کچھ لوگوں کو دنیا کی اس ذرا اسی زندگی کی رونق نے نہال کر دیا ہے تا کہ ان کو اس سے آزمائیں تم اپنی نظر ادھر نہ بڑھاو۔

اور در حقیقت سرمایہ دار لوگوں کے سامنے ان کی دولت کی وجہ سے تواضع کرنا مال دنیا سے لگاو ہے۔یعنی وہ اسے موثر سمجھتا ہے اور خداسے غافل ہو گیا ہے اور یہ خدا کے ساتھ شرک ہے۔

حضر ت امیر المومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

مَنْ اَتٰی غَنِیّاً فَتَوٰاضَعَ لِغِنٰآئِه ذَهَبَ بِثُلُثَیْ دِیْنِه (جلد ۱۵ بحار الانوار)

جو کوئی دولت مند کے پاس جائے پھر اس کے سامنے اس کے مال کی وجہ سے فروتنی کرے تو خدا وند عالم اس کے دو تہائی دین کو ختم کر دیتا ہے۔اور اسی قسم کی روایت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے بھی نقل کی گئی ہے اور شاید وہ تہائی ایمان کے چلے جانے کی علت یہ ہے کہ کیونکہ ایمان کے تین درجے ہیں اعتقاد بالقلب و اقرار بالسان وعمل بالارکان۔

( ۱) قلب کا اعتقاد ( ۲) زبان سے اقرار(شہادتیں)اور ارکان(اعضاء بدن) سے عمل(واجبات کو ادا کرنا اور حرام سے اجتناب کرنا) اور اسی طرح مال کی لالچ میں امیروں کے سامنے انکساری کرنا بھی کبھی صرف دل سے ہوتا ہے اور کبھی دل علاوہ زبان سے اور کبھی اس قدر شدید ہوتی ہے کہ تمام اعضاء میں بھی سرایت کر جاتی ہے ،چونکہ غالباًلالچی لوگ امیروں کے سامنے دل سے جھکتے ہیں اور زبان سے بھی ان کے سامنے چاپلوسی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو چھوٹا ظاہر کرتے ہیں تو ان کا دوحصے ایمان ضائع ہو جاتا ہے اور دوسرے اعضاء بدن کے ذریعے بھی خضوع کا اظہار کرے۔مثلاً ان کے ہاتھ اور پیر چومے یا اسی طرح کی دوسری حرکتیں کرے تو ایسے میں اس کا تمام دین اس کے ہاتھ سے چلا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس جو کچھ تھا اور جو وہ کر سکتا تھا، اس نے مخلوق کے سامنے کر ڈالا دوسری کوئی چیز خالق کے لئے باقی نہیں چھوڑی۔

دولت مند کی تواضع اور فقیر کا تکبر رضائے خدا کیلئے

حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) فرمائے ہیں:مٰا اَحْسَنَ تَوٰاضِعُ الْاَغْنِیآءِ لِلْفُقَرٰآءِ طَلَباً لِّمٰاا عِنْدَاللّٰهِ وَاَحْسَنَ مِنْهُ تِیْهُ الْفُقَرٰآءِ عَلَی الْاَغْنِیٰآءِ اِنّکٰالاً عَلَی اللّٰهِ (نہج البلاغہ ج ۳) یعنی امیروں کا رضائے خدا کے لئے فقراء سے تواضع کرنا کس قدر نیک عمل ہے۔

تواضع زگردن فرازان نکو است

گداگر تواضع کند خوی اوست

(سعدی)

یعنی تواضع امراء سے ہو تو زیادہ بہتر اور قابل تعریف ہے چونکہ غرباء کا تواضع ان کا فطری تقاضا ہے۔اس سے بہترین عمل غریبوں کا امیروں کے سامنے تکبر کرنا ہے۔یعنی محتاج کو چاہئے کہ خدائے عزوجل پر توکل کرتے ہوئے فقیرانہ خوشامد اور گری ہوئی حرکتوں سے اجتناب کرے اور ان کے سامنے انکساری نہ کرے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے آپ کو ان سے بر تر سمجھتے ہوئے تکبر کرے۔جیسا کہ ابھی گزر چکا ہے۔

اگر ثروت مند اپنے مال پر نازوفخر کرے تو فقیر کو بھی چاہیے کہ وہ اس خدائے عزوجل پر توکل کر کے کہ جس کے قبضہ قدرت میں زمین و آسمان کے خزانے ہیں اور اپنے آپ کو بے نیاز سمجھے۔

کتاب لئالی الاخبار میں نقل کیا گیا ہے کہ ایک روز ایک امیر آدمی فاخر لباس پہنے ہوئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہو ااور بیٹھ گیا۔اس کے بعد ایک فقیر آیا کہ جس نے پھٹا پرانا لباس پہنا ہو اتھا وہ اس امیر آدمی کے قریب بیٹھ گیا تو امیروں نے اپنا لباس سمیٹ لیا اور اس سے کچھ دور ہو گیا۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کیا تم اس بات سے خوفزدہ ہو کہ اس کی فقیری تم تک پہنچ جائے گی ؟اس(امیر) نے کہا نہیں،آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف لاحق ہو گیا کہ تمہاری دولت کم ہو جائے گی اور اس فقیر تک پہنچ جائے گی اس امیر نے کہا نہیں آپ نے فرمایا: تم اپنا لباس گندہ ہو نے کے خوف سے دورہو گئے؟ اس نے کہا نہیں۔آپ نے فرمایا پس تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا میرا نفس ہر نیک کام کو برااور ہر برے کام کو میرے سامنے اچھا پیش کرتا ہے اور اب میں اپنے برے کردار کی تلافی کرتے ہوئے اپنی تمام دولت میں سے نصف اس فقیر کو بخشتا ہوں۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس فقیر سے پوچھا کہ آیا تم اس کی دولت کو قبول کروگے؟ اس نے کہا نہیں ۔آپ نے فرمایا کیوں؟ اس نے عرض کی میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی اس کی طرح تکبر میں مبتلا نہ ہو جاوں۔

ضمناًیہ بات بھی یاد رہے کہ امیر کے سامنے تواضع نہ کرنا صرف اس کے مال کی وجہ سے ہے ورنہ اگر ایمان و تقویٰ کے مقابلے میں تواضع و فروتنی سے پیش آنا چاہئے بلکہ اس بارے میں حکم دیا گیا ہے یعنی اس کے مال کی طرف مائل نہ ہو اور اس کی علامت یہ ہے کہ اس کا تواضع کرنا متقی فقیر اور متقی امیر کے سامنے یکساں ہو اور دولت پیش نظر نہ ہو۔

تواضع میں افراد کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے

تواضع کی ایک حد ہے،اگر انسان اس سے گزرنے کی کوشش کرے توکبھی انسان کی ذلت و اہانت اور بے عزتی کا موجب ہوتی ہے اور مومن کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جو اس کی ذلت کا سبب بنے۔اس بناء پر تواضع کے وقت مکمل طور پر میانہ روی کا خیال رکھنا چاہئے مثلاً والدین اور رشتہ داروں کے سامنے تواضع اجنبی لوگوں سے زیادہ ہونی چاہئے اور باعمل علماء اور سادات کے سامنے دوسروں سے زیادہ تواضع سے پیش آنا چاہئے اور قوم کے بزرگ کے سامنے قوم سے بڑھ کر تواضع سے پیش آنا چاہئے کیونکہ وہ تواضع جو والدین ،علماء اور سادات کے لئے مناسب ہے مثلاً ان کے ہاتھ وغیرہ چومنا،کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دوسروں کے سامنے یہی چیز انسان کی ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہے۔اس بناء پر افراد کے سامنے تواضع سے پیش آنے میں ان کے حالات ومقامات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

سفینة البحار میں امام حسن عسکری (علیہ السلام) سے روایت کی گئی ہے کہ جناب امیر المومنین (علیہ السلام) کی خدمت میں ایک روز آپ کے اصحاب سے ایک دیندار شخص اور اس کا بیٹا حاضر ہوا۔آپ کھڑے ہو گئے اور بڑی خاطر تواضع سے پیش آئے اور قنبر سے فرمایا کہ ان کے لئے طعام حاضر کرے قنبر کھانا لائے دونوں نے مل کر کھانا کھایا تو قنبر ہاتھ دھونے کے لئے لوٹا،طشت اور ایک رومال(تولیہ)ہاتھ صاف کرنے کے لئے لے آئے۔جناب امیر المومنین (علیہ السلام) نے قنبر سے لوٹا لیا اور مہمان باپ کے ہاتھ دھلانا چاہتے تھے کہ مہمان نے دست ادب جوڑ کر عرض کی مولا! یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ خدمت غلام اپنے آقا سے لے لے۔آپ نے قسم کھاتے ہوئے فرمایا تمہارے ہاتھ دھلانے سے اگر میرامولا و آقا مجھ سے راضی و خوشنود ہو جائے تو کیسا ہے؟تم اسطرح اپنا ہاتھ دھو لو گویا کہ قنبر پانی ڈال رہا ہے۔

یہ کلمات سن کر وہ اپنے ہاتھ دھلانے پر مجبور ہو گیا امیرا لمومنین (علیہ السلام) نے اس کے ہاتھ دھلائے اور اپنے بیٹے محمد بن حنیفہ کو لوٹا دے دیا اور اسے فرمایا کہ تم اس لڑکے کے ہاتھ دھلاو تا کہ باپ اور بیٹے کا درجہ مساوی نہ رہے۔اگر اس لڑکے کے والد اس کے ساتھ نہ ہوتے تو پھر میں خود ہی اس کے ہاتھ دھلاتا لیکن باپ کی موجودگی میں ایسا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ باپ بالاخر باپ ہے۔اس لئے باپ کے ہاتھ باپ دھلائے اور بیٹا بیٹے ک

تواضع کی علامات

عَنِ الصّٰادِقِ(ع) عَنْ اٰبٰآئهِ(ع) قٰالَ اِنَّ مِنَ التّواٰضُعِ اَنْ یَّر ضَی الرَُّجُلَ بِالْمَجْلِسِ دُوْنَ الْمَجْلِسِوَاِنْ کٰانَ یُسْلِمُ عَلٰی مَنْ یَّلقیٰاَنْ یُّترَکَ الْمِرٰآءَ وَاِن کٰانِ مُحِقاًوَلٰا یُحِبُّ اَنْ یُحمَدَ عَلَی التَّقْویٰ ۔(سفینةُ البحار)

تواضع یہ ہے کہ انسان مجلس میں سب سے پیچھے بیٹھنے پر راضی ہو اور جس سے ملاقات کرے اس سے سلام میں ابتداء کرے اور لڑائی جھگڑے کو ترک کرے اگرچہ حق پر ہو اس بات کو پسند نہ کرے کہ اس کی تقویٰ سے تعریف کی جائے۔یعنی جو کوئی ان چار باتوں کا لحاظ رکھے گا وہ تواضع کی فضیلت سے بہرہ مند ہو جائے گا یا یہ کہ تواضع کی علامات یہ چار باتیں امیر المومنین(علیہ السلام) اپنی وصیت کے ضمن میں فرماتے ہیں۔

عَلَیْکَ بِالتَّوٰاضُعِ فَاِنَّهُ مِنْ اَعْظَمِ الْعِباٰدَةِ (سیفنة البحار)

تمہارے لئے ضروری ہے کہ تواضع کو اپنا شیوہ بناو کیونکہ یہ بہت بڑی عبادت میں سے ہے۔

سفینة البحار میں مروی ہے کہ موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) ہر نماز کے بعد خداوند عالم کے سامنے انتہائی عاجزی سے اپنے چہرے کے دائیں بائیں حصے کو زمین پر ملتے تھے اور اسی وجہ سے خداوندعالم نے انہیں اپنا کلیم قرار دیا۔

امام علی رضا (علیہ السلام)فرماتے ہیں :اَلتَّوٰاضُعُ اَنْ تُطْعٰی النّٰاسَ مٰا تُحَبُّ اَنْ تُعْطٰاهُ (کافی)

تواضع یہ ہے کہ لوگون کو وہ (چیز)دو جو تم پسند کرتے ہو کہ وہ تمہیں دیں۔

مروی ہے کہ

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ جَهَمْ قٰالَ قُلْتُ لِلَّرضٰا مٰاحَدُّ التَّوٰاضُع الَّذِی اِذا فَعَلَهُ الْعَبْدُ کَانَ مُتَوَاضِعاً؟فَقَالَ اَلتَّوٰاضُعُ دَرَجٰاتٌ مِنْهٰا اَنْ یُّعْرِفَ الْمَرْءُ قَدْرَ نَفْسَه فَیَنْزِلُها مَنْزِلَتَهٰا بِقَلْبٍ سَلِیْمٍلٰا یُحِبُّ اَنْ یّاتِیَ اِلٰی اَحَدٍ الّاَمِثْلَ یُوتٰی اِلَیْهاِنْ رٰای سِیئَةً دَرَهٰا بِالحَسَنَتَهِ کٰاظِمُ الْغَیظِ عٰافٍ عَنِ النّاسِ وَاللّهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (کافی)

حسن بن جہم نے امام علی رضا (علیہ السلام) سے پوچھا کہ تواضع کی معیار اور اس کی تعریف کیا ہے؟ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا،تواضع کے کچھ درجات ہیں ان میں سے ایک درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے مقام وحیثیت کو سمجھے اور ہر کام اپنی حیثیت کے مطابق کرے بلکہ اس مقام سے قلب سلیم کے ساتھ تھوڑا نیچے اتر آئے اور جو کچھ چیز اپنے لئے پسند کرے وہی دوسرے کے لئے پسند کرے۔اگر کسی سے کوئی برائی دیکھے تو اس کے سامنے نیکی کرے(یعنی بدی کے مقابلے میں نیکی کرے) اور اپنے غصے کو پی جائے اور لوگوں سے درگزر کرے۔بلاشبہ خداوند عالم نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

ہمارے آئمہ اطہار (علیہم السلام)سب سے زیاد ہ تواضع کرنے والے تھے

سفینہ البحار میں مروی ہے کہ امام موسیٰ بن جعفر (علیہ السلام) کالے اور بد صورت سوڈانی مرد کے پاس سے گزرے تو آپ نے اسے سلام کیا اس کے قریب گئے اور کافی دیر تک اس سے باتیں کیں۔اس کے بعد فرمایا اگر کوئی کام ہو تو مجھے بتاو میں اسے انجام دوں۔لوگوں نے آپ سے کہا اے فررزند رسول آپ اسے شخص کے پاس جاتے ہیں اور اس کی حاجت پوچھتے ہیں حالانکہ وہ آپ سے زیادہ محتاج تر ہے۔امام (علیہ السلام) نے فرمایا وہ بھی خدا کا ایک بندہ ہے اور ہمارا دینی بھائی ہے اور ہمیں اور اسے بہترین باپ آدم ابو البشر جناب آدم (علیہ السلام) اور بہترین دین جو کہ اسلام ہے،ملاتا ہے، شاید وقت ہمیں اس کا محتاج کردے تو پس ہم کس لئے اس پر تکبر کریں۔

تکبر کی جڑ کا ٹنا چا ہئیے

محمد بن مسلم اشراف کوفہ میں سے ایک دولت مند آدمی تھے اور حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) اور حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے اصحاب میں سے تھے۔ایک دن امام محمد باقر (علیہ السلام) نے ان سے کہا اے محمد فروتنی کرو،جب محمد بن مسلم مدینہ سے کوفہ واپس آئے تو کھجور کا برتن اور ترازو اٹھایا اور جامع مسجد کوفہ کے دروازے پر بیٹھ کر صدا لگانے لگے کہ جس کو کھجور چاہئیں آئے اور مجھ سے خرید لے (اس کام کو وہ اپنے نفس کے تکبر کو ختم کرنے کے لئے کررہے تھے)تو ان کے رشتہ دار آئے اور ان سے کہا کہ تم نے اپنے اس کام سے ہمیں رسوا کر دیا۔ انہوں نے جواب دیا میرے مولا نے مجھے اس کا م کا حکم دیا ہے اور میں ان کی مخالفت نہیں کر سکتا اور اس جگہ سے اس وقت تک حرکت نہیں کروں گا جب تک کہ اس برتن کی ساری کھجوریں بک نہیں جاتیں۔تو ان کے رشتہ داروں نے کہا،اگر تم ہر صورت میں خرید فروخت ہی کرنا ہے تو اس جگہ جاو جہاں گندم کو آٹا کرتے ہیں اور حضرت نے قبول کر لیا اور اونٹ اور چکی کا پتھر خریدا اور گندم کا آٹا بنانے میں مشغول ہو گئے تا کہ اس کام سے نفس کے تکبر کا خاتمہ کریں اور اپنے آپ کو ایک عام انسان کی طرح دیکھیں۔

(سفینہ البحار از کتاب اختصاص)