گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 105634
ڈاؤنلوڈ: 5726

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105634 / ڈاؤنلوڈ: 5726
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

حج کی توہینا

اڑتیسواں گناہِ کبیرہ حج کو حقیر سمجھنا اور اسے اہمیت نہ دینا ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفرصادق سے اعمش نے اور حضرت امام رضا سے فضل بن شاذان نے جو روایت کی ہے اس میں ان دونوں اماموں نے اسے گناہِ کبیرہ بتایا ہے اور چونکہ حج بھی نماز کی طرح اسلام کے ضروری احکام میں شامل ہے اس لیے جو شخص حج سے منکر ہو کر اسے ترک کرتا ہے وہ کافر (ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے) اور جو اس پر عقیدہ رکھتے ہوئے اس کے بجا لانے میں غفلت کرتا ہے اسے اہمیت نہیں دیتا اور دنیوی مشغلوں کی وجہ سے اسے چھوڑ دیتا ہے تو ایسے بڑے واجب حکم کی عملی توہین جس کے بارے میں اس قدر تاکید کی گئی ہے گناہِ کبیرہ ہے۔

استطاعت اور مقدرات کے وقت سال آگے ٹالنا حرام ہے

حج کا بالکل ترک کرنا ہی گناہِ کبیرہ نہیں ہے بلکہ مقدرت کے سال سے آگے ٹالنا بھی گناہِ کبیرہ ہے چاہے وہ اس کے ایک سال کے بعد ہی کیوں نہ بجا لائے کیونکہ واجب حج فوراً بجا لانا چاہیئے یعنی جو شخص حج کے زمانے میں مقدرت رکھتا ہو اسے اسی سال حج کرنا چاہیئے اس کے لیے دوسرے سال تک رُکنا حرام ہے۔

محقق شرائع میں فرماتے ہیں "استطاعت کے سال سے آگے حج کو ٹالنا ہلاک کرنے والا گناہِ کبیرہ ہے" اور شہید ثانی نے مسالک میں فرمایا ہے "اس مسئلے میں امامیہ علماء کے درمیان اختلاف نہیں ہے اور کتاب اور سنت میں بہت سی دلیلیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ استطاعت کے سال سے آگے حج کو ٹالنا گناہِ کبیرہ ہے" ۔ظاہر ہے کہ حج میں دیر کرنا ایک طرح سے اس کی عملی توہین ہی ہے۔

اس کے کبیرہ ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ خدا نے قرآن مجید میں حج ترک کرنے کو کفر سے تعبیر فرمایا ہے یعنی حج کا ترک کرنا خدا سے انکار اور اس کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہوتا ہے۔ جس طرح شرک اور کفر بخشے نہیں جا سکتے اسی طرح حج کا ترک کرنا بھی ناقابل معافی ہے۔ خداوندعالم سورہ آل عمران میں فرماتا ہے "جو شخص مکّہ معظمہ پہنچنے کی مقدرت رکھتا ہے اس پر حج اور خانہ خدا کی زیارت واجب ہے اور جو اسے ترک کرے گا وہ کافر ہو جائے گا اور گھاٹے میں رہے گا کیونکہ خدا تو دُنیا والوں کا محتاج نہیں ہے۔" (آیات ۹۶ ۔ ۹۷)

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "اس آیت میں لفظ "کفر" کے معنی چھوڑ دینے کے ہیں۔ یعنی وہ شخص جو حج ادا نہ کرے۔ حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ "بلا شبہ خدا نے مقدرت رکھنے والے لوگوں پر ہر سال حج واجب فرمایا ہے۔" (یعنی بدلے کے طور پر کہ اگر مقدرت کے سال میں حج ادا نہ کرے تو آخر عمر تک ہر سال ان پر وہ حج واجب ہوتا رہے گا۔ اس جملے کے معنی میں دوسرے اسباب بھی بیان کیے گئے ہیں جو رسالہ عروة الوثقی میں دیکھے جا سکتے ہیں) اور یہ خدا کا حکم ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے خدا کی طرف سے ان لوگوں پر جو استطاعت رکھتے ہیں خانہ کعبہ کا حج واجب ہے اور جو کوئی کافر ہو جائے اور حج چھوڑ ہی بیٹھے تو خدا دُنیا والوں سے بے نیاز ہے۔" علی بن جعفر کہتے ہیں میں نے آپ سے عرض کیا "تو کیا ہم میں سے جو شخص حج نہیں کرے گا وہ کافر ہو جائے گا ؟" تو آپ نے فرمایا "نہیں بلکہ جو شخص یہ کہے گا کہ حج ایسا نہیں ہے وہ گویا کافر ہو گیا،" (یعنی اس کے واجب ہونے سے انکار کرنے کی بنا پر)

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) بھی فرماتے ہیں "جو شخص مر جاتا ہے اور حج واجب بجا نہیں لاتا جبکہ حج کی ادائیگی میں اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی یعنی اسے کوئی ضرورت یا پریشانی لاحق نہیں تھی نہ اسے کوئی ایسی بیماری لگی تھی جس کی وجہ سے وہ حج نہ کر سکتا ہو نہ کوئی طاقتور شخص اسے روک رہا تھا تو خدا اسے قیامت میں یہودی یا نصرانی اُٹھائے گا۔"

( ۱) آپ نے ایک اور حدیث میں فرمایا ہے "جو شخص حج واجب ادا کیے بغیر مر جاتا ہے (جبکہ اس کے لیے کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی) تو وہ یہودی یا نصرانی شمار ہو گا۔" آپ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں کہ وہ قیامت میں یہودیوں اور نصرانیوں میں اُٹھایا جائے گا۔

محدث فیض وانی میں فرماتے ہیں "حدیث مذکور کے جملے "حاجة تجحف" کے معنی ایسی حاجت کے ہیں جس نے اس شخص کو مفلس بنا دیا ہے یا اسے عنقریب مفلس بنانے والی ہے اور یہ جو امام نے فرمایا ہے کہ بلاوجہ حج ترک کرنے والا یہودی یا نصرانی مرے گا اس لیے فرمایا ہے کہ حقیقت میں اس پر اس کا ایمان اور اعتقاد نہیں ہے کیونکہ اگر وہ حج پر اعتقاد رکھتا اور بیچ میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہوتی تو حج ضرور کرتا کہ ممکن ہے اگلے سال تک زندہ نہ رہے۔

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "جو شخص سالم اور مالدار ہونے کی حالت میں مر جاتا ہے (یعنی حج کر سکتا تھا) اور نہیں کرتا تو وہ ایسا شخص ہو گا جس کے لیے خدا فرماتا ہے کہ اسے قیامت میں اندھا اُٹھاؤں گا" ابوبصیر نے تعجب سے پوچھا "کیا ایسا شخص قیامت میں اندھا اُٹھے گا؟" تو آپ نے فرمایا "ہاں! خدا نے اسے حق کا راستہ دیکھنے کے قابل نہیں رکھا ہے" آپ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں "بہشت کے راستے کے لیے اسے اندھا کر دیا ہے۔" (کافی)

( ۱) کتاب داستانہائے شگف میں اس حدیث کی تائید میں وہ قصے تنبیی حکایتوں کے سلسلے میں بیان کیے گئے ہیں۔

محمد بن فضیل کہتے ہیں "میں نے حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے پوچھا کہ اس آیت کے کیا معنی ہیں جو خدا فرماتا ہے کہ "جو شخص اس دُنیا میں اندھا ہو گا وہ آخرت میں بھی اندھا اور اور زیادہ گمراہ ہو گا؟"

امام نے فرمایا "یہ وہ شخص ہے جو حج کو ایسی صورت میں بھی ٹال دیتا ہے جبکہ اس کے پاس حج کرنے کے لیے خرچ بھی موجود ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگلے سال کر لوں گا یہاں تک کہ حج کرنے سے پہلے مر جاتا ہے۔" (من لایحضرہ الفقیہ)

وہ آیتیں جن سے حج ترک کرنے والا مراد ہے

سورہ منافقون میں کہا گیا ہے "ہم نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اسے خدا کی راہ میں خرچ کر ڈالو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور وہ کہنے لگے کہ اے پروردگار! تو نے میری موت میں دیر کیوں نہیں کی اور مجھے کچھ مہلت کیوں نہیں دی جو میں اس وقت میں صدقہ دیتا (زکوٰة اور دوسرے واجب حقوق ادا کر دیتا) اور نیکوں (حج کرنے والوں) میں سے ہو جاتا لیکن خدا جب کسی شخص کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو اس کی موت میں دیر نہیں کرتا۔" (آیات ۱۰ ۔ ۱۱)

حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے روایت ہے "فاصدق" سے مراد واجب صدقہ اور "اکن من الصالحین" سے مراد حج کرتا ہے۔" (فقیہ) اور اس آیت میں بھی کہ "کہہ دو کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ سب سے زیادہ گھاٹے میں وہ لوگ ہیں جو دُنیا میں گمراہی میں دوڑتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نیکو کار ہیں۔" (سورہ کہف آیات ۱۰۳ ۔ ۱۰۴) حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ ان لوگوں سے وہ مرا دہیں جو حج کا فریضہ ادا کرنے میں غفلت کرتے ہیں، اسے ٹالتے رہتے ہیں اور ہر سال کہتے ہیں کہ اگلے سال کریں گے۔

حج کو ٹالنے اور ترک کرنے کو گناہِ کبیرہ بتانے والی روایتیں تو بہت ہیں لیکن صرف اتنی ہی مقدار پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

حج میں ڈھیل ڈالنے کے دُنیاوی نتائج

واضح رہے کہ حج ترک کرنے کے کچھ دنیاوی نتائج ہوتے ہیں جن کا حدیثوں میں ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک اس چیز کے حصول میں ناکامی ہے جس کی خاطر حج ٹالا جاتا ہے۔

حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں "جو شخص کوئی چیز حاصل کرنے یا دُنیا کا کوئی کام کرنے کے لیے حج کو ترک کرے گا، اسے معلوم ہو گا کہ لوگ حج کر کے لوٹ بھی آئے اور اس کا کام پورا نہیں ہو پایا اور اس کا مقصد حاصل نہیں ہو پایا ہے۔"

(من لا یحضرہ الفقیہ)

حج ترک کرنے سے افلاس بھی آتا ہے جیسا کہ جناب رسول خدا نے غدیر خم کے خطبے میں فرمایا تھا "اے لوگو! خانہ خدا کا حج کرو، جو گھرانے حج کرتے ہیں وہ دولت مند ہو جاتے ہیں اور جو خاندان حج کو ترک کریں گے وہ مفلس ہو جائیں گے۔" (احتجاج طبرسی) چنانچہ حج سے انسان غنی ہو جاتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔ " اے لوگو! خدا حج کرنے والوں کی مدد کرتا ہے اور جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں اس کا عوض (اسی دنیا میں) انہیں مل جاتا ہے اور خدا( آخرت میں) نیک بندوں کا ثواب ضائع نہیں کرتا۔" (احجاج طبرسی)

حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں "تین باتوں کا ثواب آخرت کے علاوہ اس دنیا میں بھی ملتا ہے ۔ حج جس سے تنگدستی دُور ہوتی ہے، صدقہ جو بلائیں رد کرتا ہے، نیکی اور احسان عمر میں اضافہ کرتا ہے۔" (مستدرک)

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "اگر لوگ حج ترک کر دیں گے تو ان پر عذاب نازل ہونے میں دیر نہیں لگے گی یا ان پر عذاب نازل ہو گا۔" (کافی)

سماعہ کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) نے مجھ سے پوچھا "کیا بات ہوئی کہ تم نے امسال حج نہیں کیا؟" میں نے کہا "میں نے کچھ لوگوں کے ساتھ ایک معاملہ کیا ہے اور کچھ دوسرے کام تھے اور امید ہے کہ یہ کام جو میرے حج میں رکاوٹ بنے ہیں نیک ہوں گے۔" آپ نے فرمایا "خدا کی قسم خدا نے ان کاموں میں کوئی نیکی نہیں رکھی ہے جو تیرے حج کی راہ میں رکاوٹ بنے ہیں۔ ہر شخص اپنے کیے ہوئے گناہ کے باعث حج سے محروم ہوتا ہے۔" (کافی)

اسحٰق بن عمار نے حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے عرض کیا "ایک شخص نے حج کو جانے کے لیے مجھ سے مشورہ کیا اور چونکہ میں نے اسے کمزور پایا (یعنی اس کی جسمانی اور مالی طاقت وتوانائی کم دیکھی) میں اسے نے اسے حج پر جانے سے روک دیا۔" امام نے فرمایا "تُو نے جو یہ کام کیا ہے اس کے باعث تو اس بات کا سزاوار ہے کہ تجھے ایک سال تک کے لیے کوئی مرض لاحق ہو جائے۔" اسحق کہتے ہیں کہ جیسا کہ امام نے فرمایا تھا میں ایک سال تک کے لیے مریض ہو گیا۔ (کافی)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو یہ نہیں چاہیئے کہ کسی کو نیک کام خصوصاً حج سے روکے اور اگر اس نے ایسا کیا تو گویا اس نے خدائی راستہ بند کر دیا۔ اس کے بجائے اسے چاہیئے کہ نیکی میں جلدی کرنے کا شوق پیدا کرے کہ ایسا نہ ہو اس سے یہ کام رہ جائے۔ اسی طرح ایک شخص کو یہ بھی نہیں چاہیئے کہ کسی کو پیشِ نظر نیک کام سے دوسری نیکی کی طرف پھیرے جو اس کی سمجھ میں بہتر ہے کیونکہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک نیکی کو ترک کر دے اور بہتر نیکی بھی حاصل نہ کر سکے۔ اگر وہ نیکی کی نیت رکھنے والے کی حوصلہ افزائی کرے اور اسے نیکی میں جلدی کرنے پر مجبور کرے تو اس کا امر بالمعروف کرنے والوں میں شمار ہو گا۔

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "اپنے دینی بھائی کو حج سے روکنے سے ڈرو اور پرہیز کرو۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو اس عذابِ آخرت کے علاوہ جو اسے دیا جائے گا وہ اس دُنیا میں بھی بلاؤں میں مبتلا ہو گا۔" (وافی)

حج کی فضیلت

جس طرح حج ترک کرنے کی سخت سزائیں مقرر ہیں اسی طرح اس کے بجا لانے پر بھی بڑے بڑے انعامات، کثیر تعداد فوائد اور دُنیا وآخرت کی نیکیاں رکھی گئی ہیں جن کا اکثر روایتوں میں ذکر ملتا ہے۔ ان میں سے کچھ کا یہاں تذکرہ کیا جاتا ہے۔

جناب رسولِ خدا فرماتے ہیں "حج کرنے والوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں پہلی قسم وہ ہے جس میں شامل لوگوں کا حصہ دوسروں سے زیادہ ہے اور وہ یہ کہ ان کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے اور خدا انہیں عذابِ قبر سے محفوظ رکھے گا۔ ان کے بعد وہ لوگ ہیں جن کے صرف پچھلے گناہ بخشے جائیں گے اور تیسری قسم میں وہ لوگ ہیں جن کا مال اور اولاد اس وقت تک خدا کی محافظت میں رہیں گے جب تک وہ حج سے نہیں لوٹ آتے۔" (کافی)

ایک اور حدیث میں ہے کہ اس قسم میں ایسا شخص شامل ہو گا جو حج کے قبول ہونے کی شرائط نہ رکھنے کے باعث آخرت کا ثواب نہیں پائے گا اور صرف حج سے واپسی تک اس کے اہل وعیال اور مال کی حفاظت ہو گی۔

مسجد الحرام میں ایک شخص نے حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے پوچھا "گناہ اور بدقسمتی میں سے سے بڑھا ہوا کونسا شخص ہے؟" آپ نے فرمایا "وہ شخص جو موقف (یعنی عرفات اور مشعرالحرام) کے درمیان کھڑا رہتا ہے، صفا اور مروہ کے درمیان دوڑتا ہے، خانہ خدا کے گرد طواف کرتا ہے ، مقامِ ابراہیم میں نماز پڑھتا ہے اور اس کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ خدا نے اسے نہیں بخشا ہے۔ ایسے شخص کا گناہ سب سے بڑھا ہوا ہے۔" (کیونکہ وہ خدا کی رحمت سے ناامید ہے اور جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ مایوسی گناہِ کبیرہ ہے)۔

(وافی۔ من لا یحضرہ الفقیہ)

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) اپنے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی حضرت رسولِ خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا "میں حج کے لیے روانہ ہوا اور نہیں پہنچ پایا حالانکہ میں مالدا ہوں۔ حکم دیجئے میں کتنا مال خرچ کروں جو حج کا ثواب حاصل کر سکوں؟" آنحضرت نے فرمایا "کوہ ابوقبیس کی طرف دیکھ اگر یہ سب سونا ہو جائے اور تیری ملکیت میں آ جائے اور تو سب کو خدا کی راہ میں خرچ کر دے، پھر بھی تو حج کرنے والے کے درجے کو نہیں پہنچ سکے گا۔" اس کے بعد آپ نے فرمایا جس وقت حج کرنے والا سفر حج کے انتظام میں مشغول ہوتا ہے جو چیز اُٹھا اُٹھا کر رکھتا جاتا ہے اس کے عوض اس کے نام دس دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے دس درجے بلند ہو جاتے ہیں، جب اونٹ پر سوار ہو جاتا ہے تو وہ جو قدم اُٹھاتا ہے ہر قدم پر اس کے لیے ایسا ہی ہوتا ہے اور جب اس نے خانہ خدا کا طواف کر لیا تو وہ گناہوں سے پاک ہو گیا، جب وہ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ چکا تو پھر گناہوں سے دُور ہو گیا، جب عرفات میں ٹھہرا تو پھر گناہوں سے پاک ہو گیا، جب مشعر میں ٹھہرا تو پھر گناہوں سے پاک ہو گیا اور جب اس نے رمی کی تو پھر گناہوں سے پاک ہو گیا۔ اس طرح آنحضرت ہر موقف کا بیان فرماتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ک ہوہ گناہوں سے پاک ہو گیا ،وہ گناہوں سے پاک ہو گیا۔ پھر آپ نے اعرابی سے فرمایا تو حج کرنے والے درجات تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟" (تہذیب باب فضل الحج)

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "حج کرنے والے کے چار ماہ تک گناہ نہیں لکھے جاتے بلکہ اگر گناہ کبیرہ نہ کرے تو اس کا نام اس مدت میں نیکیاں ہی نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔"

محدث فیض نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا ہے کہ گناہوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ نتیجہ خیزی، دل کے سیاہ کرنے اور چھوٹائی بڑائی کے لحاظ سے ان کے درجے ہوتے ہیں۔ شاید اس حدیث سے ان کی مراد یہ ہے کہ حج کرنے والا ہر موقف میں ایک خاص قسم کے گناہ سے پاک ہو جاتا ہے یا ایک درجے کے گناہ سے پاک ہو جاتا ہے یہاں تک کہ ہر قسم کے گناہ سے پاک ہو جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ بعض گناہوں کو صرف مرنے کے دن عرفات کا قیام ہی پاک کرتا ہے۔

یہ بھی فرماتے ہیں کہ حج اور عمرہ کرنے والے خدا کے مہمان ہوتے ہیں۔ اگر وہ خدا سے کچھ مانگے ہیں تو وہ انہیں عطا کر دیتا ہے، اگر اسے پکارتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے، اگر کسی کی سفارش کرتے ہیں تو قبول کر لیتا ہے، اگر خاموش رہیں گے تو مانگے بغیر انہیں عطا کر دے گا اور ایک ایک درہم کے عوض کو اس کی راہ میں کرچ کریں گے ہزار ہزار بخش دے گا۔ (وافی)

آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب حاجی مکے میں پہنچتا ہے خدا اس پر دو فرشتے متعین کر دیتا ہے جو طواف، نماز اور سعی میں اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب مرنے کے دن وہ قیام کرتا ہے تو اس کا دایاں کندھا تھپتھپاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا نے تیرے پچھلے گناہ بخش دئیے اب اپنے مستقبل کی فکر کر۔ (وافی)

حج کی فضیلت کے متعلق بہت سی حدیثیں ہیں لیکن اتنی ہی کافی ہیں۔

حج کے واجب ہونے کی شرطیں

اوّل بالغ ہونا

چنانچہ اگر کوئی بچہ بلوغ سے پہلے حج کرتا ہے تو اگرچہ یہ اور دوسری عبادتوں کی طرح صحیح اور مستحب ہو گا لیکن حج واجب کا عوض نہیں ہو سکے گا۔ اگر بالغ ہونے کے بعد حج کی تمام شرطیں اس میں جمع ہو گئیں تو حج اس پر واجب ہو گا۔

دوسری شرط عقل

تیسری شرط اس کا آزاد ہونا (غلام نہ ہونا)

چوتھی شرط یہ ہے کہ حج کرنے کی وجہ سے وہ ایسا مجبور نہ ہو جائے جو کوئی حرام کام انجام دے یا واجب عمل ترک کر دے (بعض کہتے ہیں کہ اس معاملے میں اہم اور مہم کا لحاظ کرنا چاہیئے)۔

پانچویں شرط یہ ہے کہ حج پر جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔

استطاعت کی شرطیں

استطاعت چند باتوں پر منحصر ہے:

اوّل

حج پر جانے اور واپس آنے کے لیے توشہ اور سواری رکھنا یا اتنا مال اس کے پاس ہو جس سے وہ اس سفر کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق توشہ اور سواری کا انتظام کر سکے۔

دوسری

اتنی صحت اور طاقت جو حج کر سکے اور واپس آ سکے۔

تیسری

راستے میں کوئی ایسی رکاوٹ نہ ہو جو حج کے سفر میں خلل ڈالے۔چنانچہ اگر اسے اس بات کا اندیشہ ہو کہ راستے میں اس کی جان، مال یا آبرولٹ جائے گی تو اس پر حج واجب نہیں ہے۔

چوتھی

حج کی تکمیل تک کے لیے اس کے پاس وقت ہو۔

پانچویں

حج پر جانے اور واپس آنے تک کی مدت کے لیے اپنے کنبے کا خرچ رکھتا ہو اور اس کے کنبے میں وہ لوگ شمار ہوں گے جو اس کی سرپرستی اور کفالت میں ہوں گے چاہے اس پر ان کا نفقہ واجب ہو جیسے بیوی اور اولاد یا واجب نہ ہو جیسے چھوٹا یا بڑا بھائی جو تنگدست ہوں اور بھائی کے ذمے روٹی کھاتے ہوں یا جسے اس نے اپنے پاس رکھ لیا ہو اور جس کا وہ کفیل ہو یا جیسے نوکر اور ماما۔

چھٹی

حج سے واپسی پر روزی کی خاطر تکلیف اور پریشانی میں نہ پڑ جائے یعنی اس کی کمائی کا سلسلہ یا جائیداد کی آمدنی یا اپنی اور اپنے کنبے کی روزی کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ ایسا نہ ہو جو جھگڑے میں پڑ جائے۔

جان لینا چاہیئے کہ عمر بھر میں ایک سے زیادہ حج واجب نہیں ہیں۔ ایک حج ادا کرنے کے بعد استطاعت کی صورت میں باقی تمام برسوں کے حج مستحب ہیں۔ مذکورہ شرطوں کے جمع ہو جانے پر واجب ہے کہ اسی سال حج کرے۔ دوسرے یعنی اگلے سال کے لیے اسے ملتوی کرنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے۔ اگر بھول گیا اور اس سال حج نہیں کیا تو واجب ہو جاتا ہے کہ اگلے سال ادا کرے چاہے استطاعت نہ بھی رکھتا ہو اور مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہو جائے جس سے حج نہ کر سکے اور اس بیماری سے شفا پانے کی بھی کوئی امید نہ ہو تو واجب کہ اپنی طرف سے حج کروائے یعنی ایک شخص کو مقرر کرے کہ وہ اس کی طرف سے حج ادا کر دے اور وہ اس شخص اجیر کے اخراجات بھی دے۔ اگر اس نے نائب بھی مقرر نہیں کیا اور مر گیا تو واجب ہے کہ لوگ اس کے اصل مال سے حج کے اخراجات علیحدہ کر دیں اور اس کا واجب حج ادا کرنے کے لیے نائب مقرر کر دیں چاہے اس نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو اور چاہے اتنی رقم کے علاوہ اس کے ترکے یا وراثت میں کچھ مال باقی رہے یا نہ رہے چاہے اس کا وارث نابالغ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ مردے کے واجب حج کی نیابت اس کے دوسرے مالی قرضوں کی طرح ہے جو وراثت پر مقدم ہے یعنی پہلے اس کا قرض ادا کرنا چاہیئے پھر اگر کچھ مال بچ جائے تو وارثوں میں بانٹ دیا جائے۔

اس صورت میں جبکہ مرنے والے نے حج کی وصیت کی ہو اس کے حج کے اخراجات اس کے ایک تہائی مال سے محسوب کرنا چاہئیں۔

زندہ یا مردہ کے لیے نائب مقرر کرنا مستحب ہے

مستحب حج کے لیے زندہ یا مردہ شخص کی طرف سے نائب مقرر کرنا مستحب ہے جیسا کہ وسائل میں روایت ہے کہ محمد بن عیسیٰ یقطینی کہتا ہے کہ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے میرے پاس کچھ رقم بھیجی کہ حضرت کی طرف سے میں خود اور میرے بھائی موسیٰ اور یونس بن عبدالرحمن حج کریں۔

عبداللہ بن سنان کہتا ہے کہ میں حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) کے پاس تھا کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام نے اسے تیس دینار دئیے کہ آپ کے فوت شدہ بیٹے اسماعیل کی طرف سے حج بجا لائے اور اس پر یہ شرط عائد کر دی کہ اسماعیل کی طرف سے حج اور عمرہ کے تمام افعال بجالائے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا "اگر تُو ایسا کرے گا تو اسماعیل کو ایک مستحب حج کا ثواب ملے گا کیونکہ یہ حج اس کا مال خرچ کرنے سے ہو گا اور تجھے نو حج کا ثواب ملے گا اس لیے کہ تو اپنے جسم کو تکلیف دے گا۔" (وسائل الشیعہ)

امام کا نائب پرہیز گار ہونا چاہیئے

وسائل الشیعہ میں لکھا ہے کہ ابو محمد علجی کے دو بیٹے تھے ایک پرہیز گار اور دوسرا بدکار۔ کچھ شیعوں نے اسے رقم دی کہ حضرت حجةبن الحسن کی طرف سے حج کے لیے نائب مقرر کر لے اور یہ شیعوں کی اچھی عبادت تھی۔ چنانچہ ابو محمد نے وہ رقم اپنے بدکار بیٹے کو دے دی اور اس کے ساتھ حج کیا۔ ابو محمد کہتا ہے کہ میں نے عرفے کے دن ایک گیہوں رنگ کے خوبصورت اور خوش لباس جوان کو دیکھا جو دعا مانگنے اور گڑگڑانے میں سب سے بڑھا ہوا تھا۔ جب لوگوں کے عرفات سے مشعر کے لیے روانہ ہونے کا وقت آیا تو اس نے مجھ سے کہا "اے شیخ کیا تجھے خدا سے شرم نہیں آتی؟" میں نے پوچھا "کیوں؟" وہ بولا "تجھ سے حج کرنے کے لیے کسی ایسے نائب کے لیے کہا گیا تھا جسے تو جانتا ہو اور تو اسے ایسے شخص کے سپرد کر دیتا ہے جو شراب پیتا ہے اور گناہ پر پیسہ خرچ کرتا ہے، کیا تو اندھا ہو جانے سے نہیں ڈرتا؟" پھر اس نے میری آنکھوں کی طرف اشارہ کیا، میں شرمندہ ہوا، جب میرے حواس درست ہوئے تو میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن اسے نہیں پایا۔ چالیس دن گذرنے سے پہلے پہلے میری آنکھوں میں زخم ہو گئے اور میں اندھا ہو گیا۔

کتاب کافی میں موسیٰ بن قاسم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیا "میں آپ اور آپ کے بزرگوں کی طرف سے طواف کرنا چاہتا تھا لیکن بعض لوگوں نے کہا کہ امام کی طرف سے طواف کرنا جائز نہیں ہے"۔ حضرت نے فرمایا "جس قدر کر سکتا ہے طواف کر بے شک یہ کام جائز ہے۔" راوی کہتا ہے "پھر تین سال کے بعد میں آپ کی خدمت میں پہنچا ور میں نے عرض کیا کہ چند سال پہلے میں نے آپ سے اجازت لی تھی کہ آپ اور آپ کے بزرگوں کی طرف سے طواف کروں، آپ نے اجازت دے دی تھی۔ چنانچہ جتنا خدا نے چاہا تھا میں نے طواف کیا، ایک دن جناب رسولِ خدا کے لیے طواف کیا، ایک دن امیرالمومنین کے طواف کیا، اسی طرح آخری دن میں نے آپ کے لیے طواف کیا۔ اے میرے آقا! میں نے جن لوگوں (محمد وآلِ محمد) کا ذکر کیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کی محبت کو میں نے اپنا دین وایمان جانا ہے"۔ حضرت نے فرمایا" ایسی صورت میں تو نے ایسا دین اختیار کیا ہے جس کے علاوہ خدا کوئی دوسرا دین قبول نہیں کرتا۔ پھر میں نے کہا "اکثر ایسا ہوا ہے کہ میں نے آپ کی والدہ حضرت فاطمہ کے لیے طواف کیا اور کبھی نہیں کیا۔ " حضرت نے فرمایا "اکثر ایسا کیا کر بے شک یہ کام جو تو کرتا ہے تمام کاموں سے افضل ہے۔"

حج واجب ہونے کے اسباب

اہل بیت سے ملنے والی چند روایتوں میں حج کے واجب ہونے کے اسباب اور اس کے مناسک کی مصلحتیں بیان کی گئیں ہیں۔ چنانچہ وسائل الشیعہ میں حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے ایک روایت بیان کی گئی ہے جس کا خلاصہ نیچے پیش کیا جاتا ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو حج کرنے کا حکم صرف اسی لیے دیا گیا ہے کہ انہیں مادی اور روحانی فائدے پہنچیں یعنی:

( ۱) خدا سے قریب ہونا

( ۲) بہت زیادہ انعامات حاصل کرنا

( ۳) کیے ہوئے گناہوں سے پاک ہونا جبکہ اپنے ماضی پر شرمندہ ہو اور مستقبل میں خدا کی اطاعت اور بندگی کرنا چاہتا ہو

( ۴) خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا اور خدا کی خاطر اپنے جسم کو تکلیف دینا

( ۵) اپنے کنبے سے الگ ہونا اور ان کی محبت ترک کر دینا

( ۶) خوشیوں سے اپنے نفس کو روکے رکھنا اور سردی او گرمی میں عاجزی اور انکسار سے خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونا غرض تمام تعلقات ختم کر کے خدا سے پوری پوری لَو لگانا۔

( ۷) دُنیا بھر کے مسلمانوں کو بہت سارے فائدے پہنچانا چاہے وہ مکے میں ہوں چاہے دوسرے شہروں میں چاہے وہ لوگ ہوں جو تجارت، مال برداری، خرید وفروخت، مزدوری اور کرائے پر چیزیں دینے سے کافی فائدہ اُٹھاتے ہیں، چاہے وہ بہت سے غریب ہوں جنہیں کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے اور چاہے بہت سے ایسے مسلمان ہوں جن کی حاجتیں ایک مقام پر بہت سے لوگوں کے جمع ہونے سے پوری ہو جاتی ہیں

( ۸) حج میں اکٹھے ہونے سے بہت سے ناواقف لوگوں کو صحیح اعتقادات اور دین کے سچے احکام اور اہل بیت کی روایتیں اور ان کے بارے میں چیزیں معلوم ہو جاتی ہیں۔

خدا کی بند گی، فرشتوں سے مشابہت

حضرت امیرالمومنین نہج البلاغہ کے ایک خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ خدا نے تم پر خانہ کعبہ کا حج واجب کر دیا ہے اور اسے لوگوں کا قبلہ قرار دیا ہے۔ وہاں حج کرنے والے اسی طرح اکٹھے ہوتے ہیں جس طرح چوپائے (اس گھر میں ان لوگوں کا ثواب حاصل کرنے کے لیے جمع ہونا ایسا ہی ہے جیسا کسی پانی کے چشمے پر پیاسے چوپایوں کا ہجوم کرنا) اور وہاں پہنچنے کا ایسا ہی شوق رکھتے ہیں جیسا کبوتر اپنے گھونسلے میں پہنچنے کا شوق رکھتے ہیں۔ خدائے بزرگ نے اس گھر کو اپنی بزرگی اور عظمت مقابلے میں لوگوں کی عاجزی اور اپنی عزت اور سلطنت کی تصدیق کی علامت اور نشانی قرار دیا ہے اور اپنے ان سننے والے بندوں کے لیے منتخب کیا ہے جنہوں نے (وہاں جانے کے لیے) اس کی دعوت قبول کی اور اس کے حکم کو صحیح مان کر اس پر عمل کیا۔ پیغمبروں کی جگہ کھڑے ہو کر اپنے آپ کو ان فرشتوں سے مشابہ قرار دیا جو عرش الہٰی کا طواف کرتے ہیں۔ اپنے ایمان کے سرمائے سے خدا کی عبادت کے کاروبار میں بہت زیادہ فائدہ اُٹھتے ہیں اور جلدی کرتے ہیں اور خدا کی بخشش کی وعدہ گاہ کے قریب پہنچنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خدا نے اس گھر کو اسلام کی نشانی اور پناہ چاہنے والوں کی پناہ گاہ بنایا ہے اور اس کا حج واجب کر دیا ہے، اس کا احترام لازم قرار دیا ہے اور وہاں جانے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ سورہ آلِ عمران آیت ۹۷ میں فرمایا ہے "بیت الحرام کا حج خدا کا ان لوگوں پر حق ہے (اور اس کا حق ادا کرنا واجب ہے) جو وہاں جانے کی استطاعت اور طاقت رکھتے ہیں اور جو کوئی کافر ہو جائے (استطاعت رکھتے ہوئے بھی خدا کا حکم نہ بجا لائے) تو وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اس لیے کہ خدا تمام دُنیاوالوں سے بے نیاز ہے یعنی ان سے کوئی حاجت نہیں رکھتا (اسے لوگوں کے ایمان اور عبادت کی ضرورت نہیں ہے اس لیے گھاٹا اسی کا ہوتا ہے جو نافرمانی کرتا ہے۔)" نہج البلاغہ جلد اوّل فیض الاسلام خطبہ ۲ صفحہ ۳۲)

نراقی نے معراج السعادة میں حج کے ظاہری اور باطنی اسباب نہایت شیریں عبارتوں میں اور اچھے اسالیب سے بیان کیے ہیں جس کے کچھ جملے یہاں دہرائے جاتے ہیں۔ حج دین کا سب سے بڑا ستون ہے اور اتنی اچھی بات ہے کہ انسان کو خدا کے قریب پہنچا دیتی ہے اور وہ اللہ کی طرف سے سب سے اہم فریضہ اور سب سے سخت جسمانی عبادت ہے۔ اس کا ترک کرنے والا یہودیوں اور عیسائیوں میں شمار ہوتا ہے اور بہشت سے محروم رہتا ہے۔ اس کی فضیلت اور اسے ترک کرنے کی برائی سے متعلق حدیثیں مشہور ہیں اور حدیث کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔

انسان کی پیدائش کی اصلی غرض یہ ہے کہ وہ خدا کو پہچانے اور اس سے محبت اور انس رکھے اور یہ اس کے نفس کی پاکیزگی پر منحصر ہے اور یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ فطری خواہشات سے دُور رہے، اپنے نفس کو شہوانی لذتوں سے بچائے، دُنیا کا مال ومتاع ترک کر دے۔ خدا کی خاطر سخت اعمال بجا لانے میں اپنے جسم اور اعضائے جسم کو استعمال کرے، خدا کو برابر یاد رکھے اور دل کو اس کی طرف متوجہ رکھے۔

اسی لیے خدا نے ایسی عبادتیں مقرر فرمائی ہیں جن سے یہ اغراض حاصل ہوتی ہیں۔ چنانچہ بعض عبادتیں خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے سے متعلق ہیں جو مالِ دُنیا سے دل ہٹا دیتی ہیں جیسے زکوٰة، خمس اور صدقات۔بعض عبادتوں میں خواہشات اور لذات کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ جیسے روزہ۔ بعض خدا کو یاد کرنے، اس سے لَو لگانے اور جسمانی اعضاء کے استعمال سے متعلق ہیں جیسے نماز اور حج کی عبادت ان سب اغراض پر مشتمل ہے۔ کیونکہ اس میں وطن چھوڑنا، جسم کو استعمال کرنا، مال کی خیرات کرنا، امیدیں توڑ لینا، محنت ومشقت برداشت کرنا، خدا سے کیے ہوئے عہد کو دُہرانا، طواف، دعا، نماز اور ایسے کاموں میں مشغول ہونا بھی شامل ہے جن سے آدمی مانوس نہیں ہو پایا اور جنہیں عقلیں نہیں سمجھ پاتی ہیں۔ مثلاً کنکریاں مارنا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا۔ ان جیسے اعمال سے انتہائی بندگی اور ذلت اور بے مائگی ظاہری ہوتی ہے کیونکہ تمام عبادتیں ایسے اعمال ہیں جنہیں بہت سی عقلیں سمجھ لیتی ہیں اور اسی لیے طبیعتیں ان سے مانوس ہو جاتی ہیں اور نفس کو ان سے لگاؤپیدا ہو جاتا ہے ۔

لیکن حج کے بعض اعمال ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ہم جیسوں کی عقلیں ان کی تہ تک نہیں پہنچ پاتیں۔ چنانچہ انہیں مالک کی بندگی اور اس کے حکم کی بجا آوری ہی کے لیے ادا کرتے ہیں اور ایسے ہی عمل میں بندگی کا اظہار زیادہ ہوتا ہے کیونکہ حقیقی بندگی اسی عمل میں ہوتی ہے جس کا سبب اپنے مالک کی اطاعت کے سوا اور کچھ نہ ہو یہی وجہ تھی کہ رسول خدا نے حج کے سلسلے میں فرمایا ہے کہ "لبیک بحجة حقاً تعبداً ورقاً" یعنی اے خدا میں نے تجھے بندگی اور اطاعت سے حج کر کے جواب دیا ہے اور دوسری عبادتوں میں ایسا نہیں فرمایا۔ اس لیے ایسی عبادت جس کی تہ تک کسی کی عقل نہ پہنچ پائے، بندگی ظاہر کرنے میں زیادہ کامل ہے۔ اب جو لوگ ان عجیب کاموں پر تعجب کرتے ہیں وہ عبودیت اور بندگی کے اسرار نہیں جانتے اور یہی وجہ حج کے مقرر کرنے کی ہے۔

حج کے ہر عمل میں آخرت کی کسی نہ کسی حالت کا نمونہ ہوتا ہے یا اس کا کوئی اور سبب ہوتا ہے جیسا کہ اس کا ذکر کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ حج کی عبادت کے لیے لازمی ہے کہ دُنیا والے ایک ایسی جگہ اکٹھے ہوں جہاں وحی لانے والے فرشتے آتے جاتے رہے ہیں اور رسولِ اکرم کی خدمت میں پہنچے ہیں اور آپ سے بھی پہلے خدا کے خلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس مقام پر پہنچے تھے اور وہاں ان پر فرشتے نازل ہوتے رہے بلکہ وہ مقام ایسی پاک زمین ہے جہاں آدم (علیہ السلام) سے خاتم تک بڑے بڑے نبی برابر ٹھیرے رہے ہیں، ہمیشہ وحی نازل ہوتی رہی ہے اور فرشتے اُترتے رہے ہیں۔ اسی جگہ سیّد الانبیاء پیدا ہوئے اور آپ کے اور تمام نبیوں کے مبارک قدم اکثر اس زمین پر پڑے، خدا نے اسے اپنا گھر کہا، اپنے بندوں کی عبادت کی غرض سے بنایا، اپنے گھر کے اطراف کو حرم گاہ مقرر کیا۔ عرفات کو اپنے گھر کے ابتدائی میدان سے مثل قرار دیا، اپنے گھر کے احترام اور عزت کی غرض سے اس جگہ جانداروں کا ستانا اور درختوں اور گھاس وغیرہ کا اکھاڑنا حرام کر دیا۔ اسے بادشاہوں کی رجدھانی کی خاطر خاص اور اہم مقام قرار دیا جس کو دیکھنے کے لیے لوگ لمبے لمبے سفر کر کے دُور دراز کے مقامات سے الجھے بالوں اور دھول سے اَٹے ہوئے چہروں اور جسموں کے ساتھ وہاں آئیں تاکہ اس گھر کے مالک کے آگے جھکیں اور زبان سے اقرار کریں کہ وہ زمان اور مکان سے ماورا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے محترم مقام پر جمع ہونے سے محبت پیدا ہوتی ہے اور دُنیا بھر سے حج کے لیے آنے والے اچھے اچھے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور صحبت رہتی ہے۔ دعائیں بہت جلد قبول ہوتی ہیں۔ پیغمبراکرم ، ان کی عظمت وبزرگی، دینِ الہٰی کے رائج کرنے اور خدائی احکام کے پھیلانے میں ان کی کوشش اور محنتیں یاد آ جاتی ہیں اور یہ سب باتیں مل کر نفس کو پاک وپاکیزہ بنا دیتی ہیں۔ (حج کے متعلق جملہ معلومات کے لیے کتاب مذکورہ کا مطالعہ کیجئے)۔

واجب کا ترک کرنا

انتالیسواں گناہِ کبیرہ خدا کے واجبات میں سے کسی ایک واجب کا بھی ترک کر دینا ہے۔ جیسا کہ صحیحہ عبدالعظیم میں حضرت امام محمد تقی ، حضرت امام رضا، حضرت امام کاظم اور حضرت امام جعفرصادق (علیھم السلام)کے اقوال موجود ہیں کہ کسی ایسی بات کا ترک کر دینا جو خدا نے واجب فرما دی ہے گناہِ کبیرہ ہے کیونکہ رسول خدا نے فرمایا ہے "جو شخص نماز کو جان بوجھ کو ترک کرے گا وہ خدا ورسول کی ذمہ داری اور حفاظت وپناہ سے دُور ہو جائے گا۔"

"اوشیئًا مما فرض اللّٰه لان رسول اللّٰه قال من ترک الصلٰوة متعمداً فقد بری من ذمة اللّٰه وذمة رسوله"

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) نے فرمایا "خداوندعالم نے جس بات کا حکم دیا ہے اسے ترک کر دینا کفر ہے۔" جیسا کہ خداوندعالم نے فرمایا ہے "کیا تم آسمانی کتاب کے بعض احکامات اور خدائی حکم کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں مانتے؟ تم میں سے جو شخص ایسا کرتا ہے اس کی سزا دنیاوی زندگی میں خواری اور قیامت میں سخت ترین عذاب میں گرفتاری کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے؟ اور تم جو کچھ کرتے ہو خدا اس سے غافل نہیں ہے"۔ (سورہ البقرہ آیت ۸۵)

امام جعفرصادق (علیہ السلام) نے فرمایا ہے "خدا نے ان لوگوں کو اس بات کے ترک کرنے پر کافر مانا ہے جس کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے۔ انہیں مومن توکہا ہے لیکن ان کے ایمان کو قبول نہیں کیا ہے اور اسے اپنے نزدیک ان کے لیے مفید نہیں سمجھا بلکہ فرمایا ہے کہ ان کی جزاء دُنیا میں رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب ہے۔" (کافی ۔باب وجوہ الکفر)

اس حدیث شریف کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کے کسی واجب حکم کو ترک کر دینا کفر کا ایک درجہ ہے جیسا کہ مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے "اور تم کفر کے کچھ طریقوں پر عمل کرتے ہو۔" اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ترکِ واجب ایسا گناہ ہے جس کے لیے قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ آیت کے آخر میں بتایا گیا ہے "ایسے شخص کی سزا دنیا میں رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب ہے۔"

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) یہ بھی فرماتے ہیں "جو بندہ ترک واجب کرتا ہے یا گناہ کبیرہ بجا لاتا ہے، خدا اسے رحمت کی نظر سے نہیں دیکھتا اور اسے پاک نہیں کرتا۔" راوی نے تعجب سے پوچھا "کیا خدا ایسے شخص پر رحمت کی نظر نہیں ڈالے گا؟" امام نے فرمایا "ہاں! کیونکہ ایسا شخص مشرک ہو گیا ہے اور اس نے خدا کا شریک مان لیا ہے۔" وہ پھر حیرت سے پوچھتا ہے "کیا مشرک ہو گیا ہے؟" امام نے فرمایا "ہاں! کیونکہ خدا نے ایک بات کا حکم دیا اور شیطان نے بھی ایک بات کا حکم دیا (یعنی خدا نے جس بات کا حکم دیا تو شیطان نے اسے ترک کرنے کا حکم دیا) تو اس نے اس بات کو تو ترک کر دیا جس کا خدا نے حکم دیا تھا اور شیطان کا حکم مان لیا۔ (واجب ترک کر کے اور حرام کام انجام دے کر)۔ پس ایسا شخص شیطان کی اطاعت کے باعث دوزخ کے ساتویں درجے میں جو منافقوں کی جگہ ہے، شیطان کے ساتھ رہے گا۔" (وسائل الشیعہ)

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں شرک سے اطاعت میں شرک مراد ہے جیسا کہ شرک کی گفتگو میں گذر چکا ہے۔

فتنہ اور دردناک عذاب

جن آیتوں میں خدا کے واجب حکم کی مخالفت کرنے پر اور سخت ڈر اوا دکھایا اور عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے ان میں سے ایک سورہ نور بھی ہے جس میں کہا گیا ہے "جو خدائی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیئے کہ ان پر بلا یا دردناک عذاب نازل ہو گا۔" (آیت ۶۳)

بعض مفسروں نے کہا ہے کہ ممکن ہے کہ فتنے سے دُنیاوی بلا اور آخرت کا دردناک عذاب مراد ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ فتنہ اور عذاب دونوں آخرت کے ہوں۔

واجب ا حکامات بجا لانے کی اہمیت کے بارے میں بہت سی روایتیں ملتی ہیں مثلاً پیغمبر اکرم فرماتے ہیں "خدا نے مجھ سے معراج کی رات میں یہ فرمایا تھا کہ میرا بند میرے حکم پر عمل کرنے کے علاوہ اور کسی چیز سے میرے قریب نہیں آتا۔" (کافی)آپ نے یہ بھی بھی فرمایا "واجبات پر عمل کر جس سے تو سب سے زیادہ پرہیز گار انسان بن جائے۔" (کافی) اور دوسری روایتوں کے مطابق فرمایا "جس سے تو بہترین انسان بن جائے گا۔"

واجبات کیا ہیں ؟

جس بات کا خدا نے حکم دیا ہے اس کے کرنے سے ثواب اور نہ کرنے سے عذاب ملے گا اسے فریضہ اور واجب کہتے ہیں اور خدا کے فریضے اور واجبات بہت سے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ اہم جن پر دینِ اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے پانچ چیزیں ہیں: نماز، روزہ، حج، زکوٰة، ولایت۔ کچھ روایتوں میں ان پانچ چیزوں کو ارکانِ دین اور اسلام کے اصول کہا گیا ہے۔ وسائل کے مصنف نے اس مضمون کی کچھ روایتیں بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ امر معروف اور نہی منکر جہاد ہی کی ایک قسم ہے اور جہاد بھی ولایت کے تابع ہے جیسا کہ روایت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ چونکہ خمس جس کی تفصیل گذر چکی ہے ایسا ہے جیسے سادات کو زکوٰة دینا، نماز، روزہ، حج، زکوٰة، خمس، جہاد، امر بہ معروف، نہی عن از منکر، تولا اور تبرّا۔ نماز، حج، زکوٰة اور خمس کا ترک کرنا گناہِ کبیرہ ہے جو پہلے ہی بیان کیا جا چکا ہے۔ باقی کا مختصر طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔

ماہِ رمضان کا روزہ

ماہِ رمضان کے روزے کا واجب ہونا دینِ اسلام کی ضرورت ہے۔ اس کا نہ ماننے والا مرتد اور واجب القتل ہے۔ اگر کوئی شخص جانتے بوجھتے کسی عذر کے بغیر اسے ترک کرتا ہے لیکن اس کے واجب ہونے سے انکار نہیں کرتا تو اسے سزا دینا چاہیئے یعنی پچیس کوڑے مارنا چاہئیں یا پھر حاکم شرع جتنی تعداد مناسب سمجھے اتنے کوڑے مارے اور اگر پھر روزہ ترک کرے تو دوبارہ بھی سزا دے اور تیسری بار اسے قتل کر دے۔

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "جو شخص ماہِ رمضان میں کسی عذر کے بغیر ایک دن بھی کھانا کھائے تو اس سے ایمان کی حقیقت جاتی رہتی ہے۔" (ثواب الاعمال صدوق) آپ نے یہ بھی فرمایا "جو شخص کسی عذر کے بغیر ماہِ رمضان کے تین روزے کھا جائے اسے تینوں دن امام کے سامنے حاضر کیا جائے۔ تیسری بار اسے قتل کر دینا چاہیئے۔"

خدا کی راہ میں جہاد

جہاد بھی نماز روزے کی طرح دینِ اسلام کا ایک رکن ہے جیسا کہ روایت میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔ اس کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں اور اس کے ترک کرنے کی سزا کے متعلق بہت سی آیتیں اور حدیثیں اور روایتیں ملتی ہیں۔

جہاد کی کئی قسمیں ہیں : پہلی قسم کافروں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے ابتداء میں ان سے لڑائی کرنا۔ اس قسم کے جہاد کی کچھ شرطیں ہوتی ہیں مثلاً امام کا حکم یا امام کے نائب کا حکم اور چونکہ ہمارے زمانے میں امام غائب ہیں اور ان کے کوئی خاص نائب بھی نہیں ہیں اس لیے ابتدائی جہاد ساقط ہے یعنی واجب نہیں ہے۔

دوسری قسم ان کافروں سے لڑنا ہے جنہوں نے مسلمانوں پر اس لیے حملہ کر دیا ہو کہ وہ اسلام اور اس کے آثار ہی ختم کر ڈالیں۔ اس قسم کے جہاد کے لیے امام یا ان کے نائب کی اجازت یا حکم کی شرط نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں یہاں تک کہ عورتوں پر بھی طاقت اور استطاعت کی صورت میں واجب ہے (بطور واجب کفایہ) کہ وہ لڑیں، اسلامی علاقے کو بچائیں اور غیروں اور کافروں کا فساد دُور کریں۔

تیسری قسم کافروں کی اس جماعت سے جنگ کرنا ہے جنہوں نے مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان کا مال لوٹنے کے لیے حملہ کر دیا ہو چاہے ان کی نیت مذہب تبدیل کرانا اور اسلام کو مٹانا نہ ہو۔ اس قسم میں بھی امام یا ان کے نائب کی اجازت یا حکم کی ضرورت نہیں ہے۔

چوتھی قسم جان، مال اور عزت بچانے کے لیے لڑنا اور یہ ہر مسلمان پر ہر اس شخص کے خلاف واجب ہے جو چاہتا ہے کہ اسے یا دوسرے مسلمان کو قتل کرڈالے یا اس کی عزت یا دوسرے مسلمان کی عزت پر ڈالے یا یا اس کا دوسرے مسلمان کا وہ مال واسباب لوٹ لے جس کی حفاظت کرنا واجب ہے بشرطیکہ قوت رکھتا ہو خطرے سے محفوظ ہو۔ اسے چاہیئے کہ اپنا اور دوسروں کا بچاؤ، بچاؤ کی شرطوں کے مطابق کرے۔ ان چاروں قسموں میں سے ہر قسم کے متعلق بہت سے احکام اور تفصیلات ہیں جن کا ذکر فقہ کی کتابوں میں ملتا ہے۔

مرحوم کاشف الغطاء کتاب اصل الشیعہ میں یوں لکھتے ہیں:۔

"جہاد اسلامی عمارت کا سنگِ بنیاد اور اس کے خیمے کی میخ اور ستون ہے کیونکہ جہاد سے اسلام کا خیمہ برپا، دینداری کے علاقے پھیلے ہوئے اور شریعت کے راستے کھلے ہوئے ہیں۔ اگر جہاد نہ ہوتا تو اسلام دنیا والوں کے لیے رحمت اور انسانوں کے لیے برکت کا باعث نہ ہوتا۔"

جہاد جان ومال کی خیرات اور خدا کی راہ میں قربانی دینا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے دشمن پر غلبہ حاصل ہو اور زمین پر ظلم اور تباہی کا خاتمہ ہو جائے۔

ہمارے عقیدے کے مطابق جہاد دو قسم کا ہوتا ہے ایک جہاد اکبر جو اندرونی دشمن یعنی نفس کا مقابلہ ہے تاکہ اس لڑائی سے نفس کی ناپسندیدہ خصوصیات جیسے علمی، ظلم وست، غرور اور گھمنڈ، جلن، کنجوسی اور دوسری بری باتیں دُور ہو جائیں جیسا کہ فرمایا "اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک" یعنی تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے دونوں پہلوؤں کے بیچ میں رہتا ہے۔

دوسرا جہاد اصغر (چھوٹا جہاد) اور وہ خارجی دشمن کا مقابلہ ہے جو سچائی کا دشمن ہے، بھلائی کا دشمن ہے، خوبی کا دشمن ہے اور دین کا دشمن ہے۔

نفس کا علاج، گھٹیا خصوصیات اور خراب جبلتوں اور عادتوں کو دُور کرنا ہے جس کی بنیادیں پختہ اور راسخ ہو گئی ہوں اور طبعیت ثانی بن گئی ہوں۔ یہ اس قدر مشکل ہے کہ نبی اکرم نے اس قسم کے جہاد کو اپنے کچھ مقولات میں جہاد اکبر کہا ہے اور خود آپ اور آپ کے بزرگ اصحاب بھی زندگی بھر ان دونوں جہادوں میں مشغول رہے۔ اس اعتبار سے ان لوگوں نے اسلام کو اتنے عزواحترام اور کمال کے درجے تک پہنچا دیا کہ جب ہم قلم رکھ کر کل (صدر اسلام) کے مسلمانوں کے جہاد کا تصور اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ خون اور آہ وفریاد کی جگہ دل کے ٹکڑے سینے سے باہر آ جائیں اور عبادت پر عبادت اور کلمے پر کلمہ سبقت لے جانے لگے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی ۔تم خود اپنی عقل سے معلوم کر لو کہ میرے قلم کو کس چیز نے باندھ دیا اور میرے بیان کو روک دیا۔ کس چیز نے میرا دل پگھلا دیا اور میرے غم میں جوش پیدا کر دیا اور بات کرنے اور خفیہ راز کے ظاہر کنے کی آزادی بھی مجھ سے چھین لی۔

امر بہ معروف اور نہی از منکر

امر بہ معروف یعنی دوسرے کو اطاعت پر مجبور کرنا اور نہی ازمنکر یعنی دوسرے کو گناہوں سے روکنا یہ دونوں پچھلے چھ واجبات کی طرح اسلام کے ارکان اور اہم فرائض ہیں اور جہاد کا ایک شعبہ ہیں۔ چنانچہ بہت سی میں صراحت کی گئی ہے۔ ان کے بارے میں زوردار حکم اور ان کے ترک کرنے کی سخت ممانعت بہت سی آیتوں اور روایتوں میں ملتی ہے جن میں یہاں کچھ کابیان کیا جاتا ہے۔

سورہ آل عمران میں کہا گیا ہے "تم میں سے جو لوگ مسلمانوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہیں اور انہیں نیک کاموں کا حکم دیتے اور برئی سے منع کرتے ہیں وہ حقیقت میں نجات پانے والے ہیں۔ ((آیت ۱۰۴)

خدا نے اس آیت میں تبلیغ کی تاکید کے ساتھ ساتھ امر بہ معروف اور نہی از منکر کو واجب قرار دیا ہے۔ اسی سورت میں ایک اور مقام پر فرمایا ہے "تم مسلمان بہترین امت ہو (یا تھے) جسے خدا نے دُنیا کے لوگوں کے سامنے ظاہر کیا کیونکہ تم امر بہ معروف اور نہی از منکر کرتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو۔" (آیت ۱۱۰)

سورہ مائدہ میں ان لوگوں کو ملامت کرتے ہوئے جو نہی از منکر کو ترک کر چکے ہیں خدا فرماتا ہے "یہودیوں اور عیسائیوں کے علماء اپنی اپنی امت کو گناہ کی باتوں (مثلاً کتاب میں تبدیلی اور سچ کے خلاف گفتگو) ، رشوت ستانی اور حرام کھانے سے کیوں نہیں روکتے۔ واقعی یہ کتنا بُرا رویہ ہے جویہ لوگ اختیار کیے ہوئے ہیں "۔(آیت ۶۳)

اصحابِ سبت کے قصے میں خدا یوں فرماتا ہے "یہ ایسی قوم تھے کہ خدا نے اتوار کے دن مچھلی کا شکار ان کے لیے حرام کر دیا تھا تو انہوں نے اس کی مخالفت کی۔ ان میں سے ایک جماعت نصیحت کر کے انہیں شکار سے منع کرتی تھی، کچھ دوسرے خاموش تھے اور برائی سے نہیں روکتے تھے بلکہ منع کرنے والوں کو چپ ہونے کو کہتے تھے کہ ان سے تعلق ہی نہ رکھو اور انہیں ہلاک ہو جانے دو، جب وہ قوم گناہ میں ڈوب گئی تو ان پر خدا کا عذاب نازل ہوا، صرف بُرائی سے روکنے والے ہی نجات پا سکے، باقی یعنی گناہگار اور وہ لوگ جو بُرائی سے نہیں روکتے تھے سب بندر بن گئے اور ہلاک ہو گئے۔" (سورہ اعراف آیات ۱۶۳ ۔ ۱۶۶)

ان آیتوں سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ امر بہ معروف اور نہی از منکر کو ترک کرنا ایسا گناہ ہے جس کے لیے قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ منکر کا بجا لانے والا اور نہی از منکر کا ترک کرنے والا دونوں عذاب کے یکساں مستحق ہیں کیونکہ اگر بُرائی کرنے والے نے حرام کام کیا ہے تو نہی از منکر کو ترک کرنے والے نے بھی واجب الہٰی کو جو نہی از منکر ہے چھوڑ دیا ہے اور یوں گناہگار ہو گیا ہے۔ (تفسیر المیزان میں ان آیتوں کی تفسیر میں اہل بیت کی روایتیں دیکھئے)

یہ بھی فرمایا گیا ہے "بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر ہو گئے ان پر داؤد سے اپنی زبان سے لعنت کی (کیونکہ اصحاب مائدہ نے لعن ونفرین کی تھی) یہ لعنت جس کے نتیجے میں وہ مسخ ہو گئے ان پر اس کے پڑی کہ ایک تو وہ نافرمانی میں حد سے بڑھ جاتے تھے اور دوسرے ان میں سے کچھ لوگ دوسروں کو اس برے کام سے جو وہ کرتے تھے نہیں روکتے تھے۔ کیسا بُرا تھا وہ کام جو یہ لوگ کرتے تھے ۔"(سورہ مائدہ آیات ۷۸ ۔ ۷۹)

آیت میں نہی از منکر کو ترک کرنے والوں کے لیے سخت تنبیہ ہے۔

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "یہ لوگ جو نہی از منکر نہ کرنے کے نتیجے میں پیغمبروں کی لعنت کے مستحق ہوئے اور ان کی صورتیں مسخ ہو گئیں کبھی گناہگاروں کے ساتھ نہیں رہتے تھے اور ان کی مجلسوں اور محفلوں میں شرکت نہیں کرتے تھے لیکن جب انہیں دیکھتے تھے تو ان کے سامنے خوش ہوتے اور ان سے محبت کا اظہار کرتے تھے"۔

(وسائل الشیعہ کتاب امر بہ معروف)

روایتوں میں امر بہ معروف اور نہی از منکر

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "تم کو امر بہ معروف اور نہی از منکر کرنا چاہیئے۔ اگر نہیں کرو گے تو تم پر بُرے لوگ مسلط ہو جائیں گے پھر تمہارے نیک لوگ چاہے کتنی دعائیں کریں قبول نہیں ہوں گی۔" (وسائل الشیعہ)

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں "جب میری امت امر بہ معروف اور نہی از منکر کو چھوڑ دے تو پھر خدا کے قہر وعذاب کے پہنچنے کا انتظار کرے۔"

آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ "خدا اس کمزور مومن کو دشمن سمجھتا ہے جو دین نہیں رکھتا۔"

آپ سے پوچھا گیا "اے رسول خدا ! ایسا شخص کون ہے؟"

آپ نے فرمایا "وہ شخص ہے جو نہی از منکر نہیں کرتا یعنی دوسروں کو بُرائی سے نہیں روکتا۔" (وسائل الشیعہ)

حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔ "خدا نے حضرت شعیب پر وحی بھیجی کہ میں تمہاری قوم کے ایک لاکھ آدمی ہلاک کر دوں گا۔ چالیس ہزار بدکار اور ساٹھ ہزار نیک" شعیب نے پوچھا "اے پروردگار! بُرے تو خیر عذاب کے مستحق ہیں لیکن نیک کیوں؟" خدا نے فرمایا "کیونکہ یہ گناہگاروں سے مل گئے اور میرے غضب کے باوجود ان سے ناراض نہیں ہوئے اور انہیں بُرائی سے نہیں روکا۔" (وسائل الشیعہ)

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "ان لوگوں پر سخت عذاب نازل ہو گا جو امر بہ معروف اور نہی از منکر چھوڑ دیں گے۔" (وسائل الشیعہ)

امیرالمومنین فرماتے ہیں "بے شک خدا نے تم سے پہلے والے لوگوں پر امر بہ معروف اور نہی از منکر ترک کرنے کے باعث لعنت فرمائی ہے ، چنانچہ نادانوں کو گناہ کرنے اور داناؤں کو نہی از منکر چھوڑ دینے پر لعنت فرمائی ہے۔"

امر بہ معروف اور نہی از منکر واجب ہو جاتا ہے

چار شرطیں جمع ہونے پر امر بہ معروف اور نہی از منکر واجب ہو جاتا ہے:

( ۱) معروف اور منکر کا علم: جس بات کا دوسرے کو حکم دینا چاہے اور اسے انجام دینے کے لیے مجبور کرے تو یہ لازم ہے کہ اس بات کے واجب ہونے کا یقین رکھتا ہو۔ مثلاً وہ دین کی ضرورت ہو یا ایسا معاملہ ہو جس پر تمام معاملہ ہو جس پر تمام علماء اور مجتہدوں کا اتفاق ہو اور اگر مسئلہ اختلافی ہو تو اس کے لیے حکم دینا واجب نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ شخص جو اسے چھوڑ رہا ہے وہ ایسے شخص کی تقلید کرتا ہو جو اسے واجب نہیں جانتا۔

ایسی صورت میں بھی جب یہ شبہ ہو کہ واجب کا ترک کرنے والا شرعی یا عقلی عذر رکھتا ہے اس کا حکم دینا واجب نہیں ہے اسی طرح نہی از منکر میں بھی چاہیئے کہ اس بات سے منع کرنا چاہتا ہے اس کا حرام ہونا مسلم ہو۔ مثلاً اگر یہ دیکھے کہ کوئی کسی مسلمان کی غیبت کرتا ہے اور یہ شبہ ہو کہ یہ غیبت اس کے نزدیک ایسا معاملہ ہے جس کی اسے شرع کی رو سے اجازت دے دی گئی ہو تو اس سے روکنا واجب نہیں ہے بلکہ اس کی بے عزتی کا سبب بھی ہو تب بھی جائز نہیں ہے غرض جس بات کے کرنے کا حکم دینا چاہتا ہے اس کے معروف ہونے کا حکم (حکم کی رو سے اور موضوع کے اعتبار سے) علم ہونا چاہیئے اور جس بات سے روکنا چاہتا ہے اس کا منکر یعنی بُرا ہونا بھی (حکم کی رو سے اور موضوع کی رو سے) مسلّم ہونا چاہیئے۔

( ۲) امر اور نہی کے فائدے اور نتیجے کا گمان غالب ہو۔ اگر یہ یقین ہو کہ اس کے امر ونہی سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا تو امر ونہی واجب نہیں ہے۔

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے پوچھا گیا "پیغمبر اکرم کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ جہاد کی سب سے اعلیٰ قسم ظالم حاکم کے سامنے سچی بات کہنا ہے؟"

امام نے فرمایا "یہ ایسے موقعے اور معاملے کے لیے ہے جب واقفیت کے بعد اسے حکم دے اور وہ بھی قبول کر لے یعنی مان لے اور اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ نہیں مانے گا تو پھر نہ کہے۔" (وسائل الشیعہ کتاب امر بہ معروف)

( ۳) جس نے معروف کو ترک کر دیا ہو یا جو منکر کا مرتکب ہو گیا ہو اور وہ واجب کے ترک کرنے اور فعل حرام کے ارتکاب پر اصرار کرتا ہو اب اگر وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہے اور اس گناہ کو چھوڑ بیٹھا ہے تو اس پر امر ونہی ساقط ہے یعنی اسے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ فقیہوں نے کہا کہ جب اس سے شرمندگی کے آثار ظاہر ہوں اور اس گناہ کے چھوڑ دینے کا ارادہ واضح ہو تب بھی امر ونہی اس پر ساقط ہے چاہے اس شخص کا ترک حرام یا فعل واجب معلوم بھی نہ ہو۔

( ۴) امر اور نہی سے کوئی بگاڑ یا نقصان نہ ہو۔ چنانچہ اگر امر بہ معروف یا نہی از منکر میں اپنے یا کسی مسلمان کی جان ومال اور آبرو کے نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ واجب نہیں رہتا۔

یہ حدیث جو بیان کی گئی ہے "سب سے بڑا شہید وہ ہے جو کسی ظالم کے سامنے حق بات کہے اور وہ ظالم اسے قتل کروا ڈالے۔ "وہ ایسے موقعے کے لیے ہے جبکہ ابتداء میں نقصان اور فساد کا اندیشہ نہ ہو بلکہ یہ گمان ہو کہ اس میں کوئی نقصان نہیں ہو گا پھر سچ بات کہے اور قتل ہو جائے۔

مشکوک یا ذرا سا نقصان قابلِ توجہ نہیں ہے

نقصان کے خیال سے امر بہ معروف اور نہی از منکر کو ترک کرنے والوں کی بُرائی میں حدیثیں ملتی ہیں۔ مثلاً جابر ، حضرت امام باقر (علیہ السلام) سے ایک طویل حدیث نقل کرتے ہیں کہ آخری زمانے میں کچھ ایسے منافق اور جاہل لوگ پیدا ہوں گے جو امر بہ معروف اور نہی از منکر کو واجب نہیں سمجھیں گے بجز اس وقت کے جبکہ وہ نقصان سے محفوظ ہوں اور وہ اپنے لیے عذر ومعذرت پیش کریں گے۔ یعنی نہی از منکر سے بھاگنے یا بچنے کے لیے بہانے گھڑیں گے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ وہ نماز، روزہ اور ایسے کام جن سے ان کے نفسوں اور مال کو نقصان نہیں ہو گا بجا لائیں گے اور اگر ان اعمال سے ان کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو وہ ان کو بھی ترک کر دیں گے جس طرح انہوں نے امر بہ معروف اور نہی از منکر کے سب سے بڑے خدائی فریضے کو صرف نقصان پہنچنے کے احتمال سے ترک کر دیا (کافی) اس قسم کی حدیث کی دو وجہیں ممکن ہیں:

( ۱) ان روایتوں میں نقصان سے مشکوک نقصان مراد ہے یعنی نقصان کا باطنی یا حقیقی علم رکھے بغیر بلکہ وہ صرف اس شک اور شبہے کے باعث امر بہ معروف اور نہی از منکر کو ترک کر دیں گے کہ شاید اس سے انہیں کوئی نقصان پہنچ جائے اور ظاہر ہے کہ یہ حالت ان کے دین وایمان کی کمزوری کی دلیل ہے اس لیے قابل ملامت ہے۔

( ۲) اس کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جزوی اور تھوڑا سا نقصان مراد ہو جو ایک عقلمند دیندار شخص کے نزدیک قابل توجہ نہیں ہے۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ حرام کام کرنے والے کو اس خیال سے نہیں روکتا ہے کہ وہ کہیں اس فائدے سے محروم نہ ہو جائے جس کی وہ اس سے آس لگائے ہوئے ہے حالانکہ اسے خدا کے سامنے نہی از منکر کے ترک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔

خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی نقصان جو عقلمندوں کے نزدیک قابل توجہ ہو سکتا ہے معلوم ہو یا اس کا شبہ ہو کہ اگر امر بہ معروف یا نہی از منکر کیا تو وہ نقصان پہنچ جائے گا صرف اسی وقت امر ونہی کا وجوب (واجب ہونا) باقی نہیں رہتا۔

کم اہم اور زیادہ اہم خیال رکھنا چاہیئے

جاننا چاہیئے کہ امر اور نہی صرف اس وقت واجب نہیں رہتے جبکہ ان کے ترک کرنے میں بھی کوئی نقصان نہ ہو ورنہ پھر نقصان کے درجے کا لحاظ رکھنا چاہیئے یعنی اگر امر بہ معروف اور نہ از منکر کے ترک کرنے میں ان کے بجا لانے سے زیادہ نقصان ہو تو ترک نہیں کرنا چاہیئے اور اگر امر بہ معروف اور نہی از منکر بجا لانے میں ان کے ترک کرنے سے زیادہ نقصان ہو تو ترک کر دینا چاہیئے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ دیکھے کہ ایک مسلمان کو بلا وجہ قتل کرنا چاہتے ہیں یا اس کا مال یا عزت لوٹنا چاہتے ہیں اور وہ انہیں روک سکتا ہے اور اس کا اثر بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے اسے کچھ بُرا بھلا سُننا پڑے گا اور تکلیف اٹھانا پڑے گی تو اس موقعے پر اسے نہی از منکر کرنا چاہیئے کیونکہ نہی از منکر سے اسے جو نقصان پہنچے گا وہ اس نقصان کے مقابلے میں ہیچ ہے جو اس مسلمان کو پہنچنے والا ہے۔

اختصار کے خیال سے بات زیادہ بڑھانا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔

نہی از منکر کی قسمیں

نہی از منکر کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ دِل، زبان اور ہاتھ سے منع کرنا اور ان تینوں قسموں کے کئی کئی درجہ ہوتے ہیں جن کا لحاظ رکھنا واجب ہے یعنی جب تک زیادہ آسان اور سہل درجہ اثر کر سکتا ہو زیادہ سخت درجے کا انکار جائز نہیں ہے۔ اس کی تفصیل اور تشریح بیان کی جاتی ہے:

( ۱) د ل سے انکار: ایمان کی ضروری شرط یہ ہے کہ ایک شخص کو ہر بُری اور حرام چیز بُری لگے اور وہ اس سے نفرت کرے اور ہر معروف اور نیکی کو پسند کرے۔ جس وقت کوئی حرام کام سامنے آئے تو اپنی دلی نفرت ظاہر کرے، اس حرام سے منہ پھیر لے، اس کا ارتکاب کرنے والے سے ناخوش ہو اور بات نہ کرے اور اگر مجبور ہو تو بات کرتے وقت منہ پھیر لے۔

حضرت امیرالمومنین فرماتے ہیں "رسول خدا نے ہم کو حکم دیا کہ گناہگاروں سے رکھائی اور بے مروتی سے ملیں۔" (وسائل الشیعہ)

حضرت امام صاد ق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "خدا نے کسی شہر کے لوگوں کو ہلاک کرنے کے دو فرشتے بھیجے۔ جب وہ اس شہر میں پہنچے تو انہوں نے ایک عبادت گذار کو عبادت کرتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے خدا سے عرض کیا اے پروردگار! تیرا فلاں بندہ تو عبادت میں مشغول ہے ہم اس شہر پر کیسے عذاب نازل کریں؟ تو آواز آئی اس شخص کی پرواہ نہ کرو کیونکہ اس نے کبھی ہماری خاطر غصہ نہیں کیا اور گناہگاروں سے کبھی رکھائی اور ترش روی سے پیش نہیں آیا۔" (وسائل الشیعہ)

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) اپنے کچھ اصحاب کو نہی از منکر ترک کرنے پر ملامت کر رہے تھے روای بولا "ہم تو منع کرتے ہیں لیکن لوگ نہیں مانتے اور بُرائی سے باز نہیں آتے"۔ آپ نے فرمایا "ان کی صحبت سے بچو اور ان کی مجلسوں میں نہ جاؤ۔" (وسائل الشیعہ)

آپ نے ایک اور حدیث میں فرمایا ہے "بُرائی یا حرام کام کرنے والے سے کہہ دو ہم سے دُور رہو یا بُرائی چھوڑ دو۔ اگر وہ نہ مانے تو اس سے بچو اور الگ ہو جاؤ۔" جہاں تک ہو سکے پہلی ہی بار نہی از منکر کرو تاکہ بعد میں بار بار منع نہ کرنا پڑے اور پہلی بار بھی جب تک آسان درجہ حاصل ہے اور واقعی اثر کرتا ہے زیادہ سخت درجے پر عمل نہیں کرنا چاہیئے۔ مثلاً رکھائی کو غصے پر اور غصے کو ترک صحبت یعنی آسان طریقے سے کام چل سکتا ہو مشکل اور سخت طریقہ استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اشخاص کے لیے نہی کا پہلا درجہ جو صرف انکار قلبی ہے دوسرے درجے یعنی انکار زبانی سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ مثلاً نرم گفتگو اور میٹھی باتیں غصے اور ترک صحبت سے آسان ہوتی ہیں اس صورت میں دوسرے درجے کو پہلے رکھنا چاہیئے۔

( ۲) زبان سے انکار: اس میں بھی پہلے آسان کا لحاظ رکھنا چاہیئے۔ شروع میں نرم اور ملائم باتوں اور وعظ ونصیحت پر اکتفا کرنا چاہیئے جیسا کہ خدا نے حضرت موسیٰ اور ہارون سے فرمایا تھا کہ فرعون سے نرمی سے باتیں کرو شاید خبردار ہو جائے یا ڈر جائے۔(سورہ طہٰ آیت ۴۴)

اگر نرم باتیں اثر نہ کریں تو کڑوی باتیں سُناؤ اور باتوں کی نرمی اور سختی میں بھی ان کے درجوں کا خیال رکھو۔

( ۳) جب زبان سے منع کرنے پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا تو ہاتھ سے انکار کرنا ہوتا ہے چاہے مار پیٹ سے، چاہے سزا وغیرہ سے لیکن جب تک آسان طریقے سے اثر ممکن ہو سخت مار نہیں دینا چاہیئے اور اگر معمولی مار سے فائدہ نہ ہو تو سخت مار میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا اثر ہو۔

جب یہ یقین ہو کہ جس بُرا کام کرنے کو منع کرنا چاہتا ہے اس نے صاحبِ شریعت کو سخت ناراض کیا ہے۔ مثلاً شوہردار عورت سے زنا کر کے اور اغلام سے اور یہ خیال ہو کہ ایسی مار سے جس سے زخم آ سکتا ہے اثر ہو گا، یہ بُرا کام چھوٹ جائے گا اور غیر معمولی نقصان بھی اسے نہیں پہنچے گا (معمولی نقصان قابل تلافی ہوتا ہے) تو اس صورت میں نہی از منکر کے لیے اس کی سخت مار پیٹ بھی واجب ہے۔ جب کسی طرح بھی کوئی اثر نہ ہو تو پھر نہی از منکر کا فرض ختم ہو جاتا ہے۔

زند وں کے بیچ میں مردہ

حضرت امیرالمومنین فرماتے ہیں "بعض مومن دل، زبان اور ہاتھ سے نہی ازمنکر کرتے ہیں۔ یہ لوگ تمام اچھے پہلو رکھتے ہیں۔ بعض دل اور زبان سے نہی کرتے ہیں تو ان میں دو اچھی خصلتیں ہوتی ہیں اور تیسری خصلت کی کمی ہوتی ہے۔ کچھ صرف دل سے انکار کرتے ہیں تو ان میں ایک اچھی خصلت ہوتی ہے اور دوسری دو خصلتوں کی جو اس سے افضل ہیں ان میں کمی ہوتی ہے لیکن جس میں تینوں خصلتیں نہیں ہوتیں وہ زندہ انسانوں میں مردے کی طرح ہوتا ہے۔ امر بہ معروف اور نہی از منکر کے سامنے تمام نیک اعمال اور خدا کی راہ میں کیا جانے والا جہاد ایسے ہے جیسے سمندر کے مقابلے میں ایک بوند۔ امر بہ معروف اور نہی از منکر سے کسی کی موت قریب نہیں آ جاتی اور نہ کسی کا رزق کم ہو جاتا ہے ۔(وسائل الشیعہ)

تولّااور تبرّ

واجب کاموں میں خدا کی دوستی اور ان لوگوں کی دوستی جن کی دوستی کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سرِ فہرست چودہ معصوم ہیں ان سے اتر کر ان کے شیعہ اور محب دار، ان کی پاک اولاد اور ان سے منسوب ہونے کے باعث سادات کی بزرگ نسل۔ چنانچہ قرآن مجید میں ان کی محبت اور دوستی کو پیغمبر کی رسالت کا معاوضہ بتایا گیا ہے۔

تبرّا اور برأت کا مطلب خدا کے تمام دشمنوں اور خدا کے دوستوں کے دشمنوں کو دشمن سمجھنا ہے جن میں سب سے بڑھ کر آلِ محمد کا حق مارنے والے اور ان پر ظلم کرنے والے ہیں۔ غرض اس کا مطلب ہر اس شخص کو دشمن سمجھنا ہے جس سے خدا اور رسول بیزار ہیں۔

اس سے گناہ اور گناہگاروں کو دشمن سمجھنا بھی مراد ہے۔ چنانچہ عبادت اور عبادت گذاروں کو دوست رکھنا تولاّ میں داخل ہے۔ ان دونوں فرائض الہٰی کی عظمت اور اہمیت کے بارے میں جن کا شمار ارکانِ دین میں ہوتا ہے۔ بہت سی قرآنی آیتیں (سورہ برأت آیت ۲۴) اور متواتر روایتیں ملتی ہیں اور چونکہ یہ مذہب کی ضرورتیں ہیں اس لیے ان کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے صرف برکت کی خاطر چند حدیثوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰة، حج اور ولایت اور ان میں سے کسی کو ولایت کی طرح لازم نہیں کیا گیاور نہ ان کی طرح کسی کا حکم دیا گیا۔(کافی)

ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں "دین کی بنیاد اہل بیت کے دوستوں کی دوستی اور ان کے دشمنوں کی دشمنی اور اہل بیت کی پیروی اور اطاعت وتقلید بھی شامل ہے۔"(کافی)

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "پیغبر اکرم نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ ایمان کے سب سے مضبوط رشتے (جو اس کے مالک کو نجات دلاتے اور ابدی نیکی وسعادت مہیا کرتے ہیں) کون سے ہیں؟" انہوں نے جواب دیا "خدا اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔" بعضوں نے کہا "نماز"۔ کچھ نے کہا "روزہ"۔ بعض نے کہا "زکوٰة" چند اصحاب نے کہا "حج اور عمرہ"۔ اور کچھ نے بتایا "جہاد"۔ آنحضرت نے فرمایا "تم نے جو کچھ بتایا ان میں فضیلت تو ہے لیکن یہ سب سے مضبوط وسیلہ نہیں ہیں بلکہ مضبوط ترین رشتہ ایمانی خدا کی خاطر دوستی اور اور دشمنی کرنا، خدا کے دوستوں سے دوستی کرنا اور خدا کے دشمنوں سے دُوری اختیار کرنا ہے۔" (کافی)

حضرت امام رضا (علیہ السلام) اپنے خط میں اسلامی قوانین کے سلسلے میں لکھتے ہیں "ان لوگوں سے دُوری اور علیحدگی جنہوں نے آلِ محمد پر ظلم کیے ہیں، ناکثین، قاسطین اور مارقین (جنگ جمل میں علی سے لڑنے والے لوگوں، صفین میں معاویہ ملعون کی طرف سے لڑنے والوں اور نہروان کے خارجیوں) سے بیزاری اور ان لوگوں سے بیزاری واجب ہے جنہوں نے امیرالمومنین کی ولایت سے انکار کیا اور ان کے اوّل اور آخر میں آنے والوں سے بھی۔

علی اور ان کے پیروی کرنے والوں مثلاً سلمان  ، ابوذر  ، مقداد  ، عمار  ، ابوالہیثم، سہل بن حنیف، عبادہ بن الصامت  ، ابوایوب انصاری  ، خزیمہ بن ثابت  ، ابوسعید خدری  وغیرہ کی دوستی اور ان لوگوں کی دوستی واجب ہے جو ان کی طرح کے تھے۔" (عیون اخبار الرضا ص ۲۶۸)

حضرت باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں "خدا کی قسم اگر پتھر بھی ہمیں دوست رکھے گا تو خدا اُسے بھی ہمارے ساتھ محشور کرے گا اور کیا دین کی حقیقت دوستی اور دشمنی کے علاوہ بھی کچھ اور ہو سکتی ہے؟" (بحار)

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "جو کوئی اپنے ایمان کے ساتھ خدا کی زیارت کرنا چاہتا ہے اسے چاہیئے کہ خدا، رسول اور مومنوں سے (جن کے سردار امام معصومین (علیھم السلام) ہیں) محبت کرے اور ان کے دشمنوں سے دُوری چاہے۔" (روضہ کافی)

اہل بیت کے حق سے انکار

کتاب وسائل کے باب تعین کبائر میں ایک حدیث کے سلسلے میں جس میں حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) نے گناہانِ کبیرہ ہیں لکھا ہے وانکار حقناً یعنی اہل بیت کے حق سے انکار کرنا بھی گناہِ کبیرہ ہے۔ ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں "وانکار ما انزل اللّٰہ" یعنی خدا نے جو بات قرآن مجید میں نازل فرمائی ہے اس سے انکار کرنا گناہِ کبیر ہے۔

ظاہر ہے کہ اہل بیت کے حق سے انکار کا مطلب وہی ولایت ہے جس کا ذکر ہو چکا ہے۔ اسی طرح "ما انزل اللہ " کے انکار سے آلِ محمد کے حقوق اور ان کی ولایت مراد ہے۔

غرض ان تینوں عبارتوں سے جو تین حدیثوں میں آئی ہیں وہی ولایت مراد ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حق اہل بیت سے مراد وِلایت اور وَلایت (واؤکے زیر اور زبر کے ساتھ ہے) ہے۔ یعنی ان کی ولایت اور حکومت کا حق اور انہیں اولوالامر سمجھنا۔ چنانچہ مذہب امامیہ کے نزدیک ان کا اقرار مذہب کا اصول ہے اور اس سے انکار کرنے والا ایمان سے بالکل خارج ہے۔

ان کی وَلایت (واؤ کے زبر سے) کا حق یعنی ان کی محبت اور تائید وحمایت جس کا تفصیل سے ذکر ہو چکا ہے دین اسلام کی ضرورت ہے اس لیے فرض ہے اور اس سے انکار کرنے والا ناصبی، دینِ اسلام سے بالکل خارج اور ہر نجس شے سے زیادہ نجس ہے۔

رہا "مَااَنْزَ لَ اللّٰہُ "کا انکار تو ظاہر ہے کہ اس سے وہ تمام باتیں جو خدا نے نازل فرمائی ہیں مختلف موضوعات کی ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ جو کچھ خدا نے (یقینی طور پر) نازل فرمایا ہے ان میں سے ایک چیز سے بھی انکار کرنا گناہِ کبیرہ ہے اور کچھ موقعوں پر کفر کا سبب ہے اور چونکہ سب سے اہم چیز جو خدا نے سخت تاکید کے ساتھ نازل فرمائی ہے وہ ولایات کا موضوع ہے اس لیے اس سے انکار شدید قسم کا گناہِ کبیرہ ہے بلکہ اس گناہِ کبیرہ کی بعض قسم (مثلاً اہل بیت کی دشمنی) بالکل کفر کا سبب ہے جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے۔

رہی اولیائے خدا سے لڑائی جو قطعی ظاہر ہے کہ خدا کے دوست ہیں یعنی جو شخص خدا کے کسی دوست سے دشمنی کرے گا وہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو گا اور چونکہ آلِ محمد خدا کے تمام دوستوں کے سردار ہیں، اس لیے ان سے دشمنی اور لڑائی کفر کی سب سے شدید قسم ہے۔

حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں "قیامت کے دن منادی آواز دے گا وہ لوگ کہاں ہیں جنہوں نے ہمارے دوستوں کی مخالفت اور مزاحمت کی تھی۔" اس پر کچھ ایسے لوگ کھڑے ہو جائیں گے جن کے چہروں پر گوشت نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مومنوں کو ستایا ان کی مخالفت کی۔ ان سے دشمنی برتی اور ان کے دین کو نقصان پہنچایا۔ اس پر حکم ہو گا کہ انہیں دوزخ میں ڈال دیا جائے۔ (کافی)

پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ معراج کی رات خدا نے مجھ پر ایک یہ وحی بھی نازل فرمائی تھی کہ جو کوئی میرے کسی دوست کو ذلیل وپریشان کرتا ہے اس نے بلا شبہ مجھ پر لڑائی میں گھات لگائی ہے اور جو کوئی مجھ سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا۔ " میں نے کہا "اے پروردگار! یہ تیرا دوست کون ہے؟ یہ تو میں نے سمجھ لیا کہ جو کوئی تجھ سے لڑے گا۔" خدا نے فرمایا "یہ وہ شخص ہے جس سے میں نے تیری، تیرے وصی (علی (علیہ السلام)) کی دوستی اور پیری اور تیرے وصی کی اولاد اور نسل ( یعنی آئمہ اثناء عشر (علیھم السلام)) کی دوستی اور پیروی کا عہد لیا ہے۔ (کاف