گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 105633
ڈاؤنلوڈ: 5726

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105633 / ڈاؤنلوڈ: 5726
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

مکروفریب

وہ گناہِ کبیرہ جس کے لیے جہنم کا وعدہ کیا گیا ہے مگر اور غدر یعنی وعدہ خلافی اور دھوکا دینا ہے۔ چنانچہ روایات میں ان تینوں کی سزا آتشِ دوزخ بتائی گئی ہے۔ اصول کافی کی کتاب ایمان وکفر کے باب مکرو غدروخدیعہ میں اس مضمون سے متعلق چھ حدیثیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے دو بطور نمونہ یہاں پیش کی جاتی ہیں:

حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اگر مکروفریب کی سزا آتش جہنم نہ ہوتی تو میں سب لوگوں سے زیادہ مکار ہوتا۔" آپ یہ بھی فرماتے ہیں: "بلاشبہ دھوکے بازی، عیاشی اور خیانت کی سزا آتشِ جہنم ہے۔" (کافی)

وسائل میں لکھا ہے کہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "مسلمان کو مکر اور دھوکا نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ میں نے جبرئیل سے سُنا ہے کہ مکر اور دھوکے کا نتیجہ جہنم ہے۔" پھر فرمایا: "جو کوئی کسی مسلمان کو دھوکا دے یا اس سے خیانت کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ (وسائل الشیعہ کتاب حج باب ۱۳۷) اور قریب قریب اسی مضمون کی کچھ اور حدیثیں نقل کی ہیں اور ویسے ہی مستدرک میں اس مضمون کی کچھ روایتیں نقل کی گئی ہیں۔ مثلاً

لوگوں نے امیرالمومنین سے کہا کہ جو آپ کا مخالف (معاویہ) ہے وہ جس حکومت پر قابض ہے اسے اس وقت تک معزول نہ کیجئے جب تک آپ کی حکومت مستحکم نہ ہو جائے۔ آپ نے فرمایا کہ مکر، فریب اور وعدہ خلافی کا انجام جہنم ہے۔ (مستدرک)

مکر، غد ر اور خد عہ کے معنی

غدر کا جس کے معنی بے وفائی اور وعدہ خلافی کے ہیں۔ مکروفریب اور خدعہ دونوں کے معنی دوسرے کے ساتھ اس طرح بُرائی کرنے کے ہیں کہ وہ سمجھ نہ پائے۔ مثلاً ظاہر میں اس کے ساتھ بھلائی لیکن باطن میں بدی ہو یا ظاہر میں تو یہ جتایا جائے کہ اس سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے اور در پردہ آزار رسانی کی گھات میں رہے۔ غرض مکر اور خدعہ دوغلا پن یعنی منافقت اور دورنگی یعنی ظاہر میں اچھا اور باطن میں بُرا ہونا ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں، ایک خدا، پیغمبر اور امام کے ساتھ مکر اور خدعہ اور دوسری قسم لوگوں کے ساتھ مکرو فریب۔

خدا سے دھوکا

خدا سے دھوکے کی بدترین قسم منافقوں کا دھوکا ہے یعنی وہ لوگ جو اپنا کفر چھپائے رکھتے ہیں اور ظاہر میں اسلام اور ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔ چنانچہ خدا سورة البقرہ میں فرماتا ہے: "وہ خدا اور اہلِ ایمان کا دھوکا دیتے ہیں حالانکہ وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں لیکن یہ بات نہیں سمجھتے۔" (آیت ۹)

اگر یہ کہا جائے کہ خدعہ اس وقت کہتے ہیں جب وہ شخص جسے دھوکا دیا جائے بے خبر ہو اور خدعہ کو نہ سمجھے تو پھر یہ خدعہ خدا کے ساتھ کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ یہ لوگ پیغمبر اور مومنوں سے فریب کرتے تھے تو وہی خدا کے ساتھ فریب کہلاتا ہے یا یہ کہ منافقین خدا سے اس طرح دھوکا اور فریب کرتے ہیں کہ اپنا کفر چھپاتے اور ایمان ظاہر کرتے تھے۔

اس بات کے معنی کہ یہ اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں یہ ہیں کہ ان کے فریب سے پیغمبر اور مومنوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ یہ خود ہی چوٹ کھا جاتے ہیں کیونکہ یہ ہر نیکی اور بھلائی سے محروم رہ جاتے ہیں اور دُنیا میں بدنام اور آخرت میں عذابِ الہٰی میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔

خدا سے دھوکا کرنے میں دکھاوے کی عبادت شامل ہے جس کا ذکر شرک کی بحث کے آخر میں تفصیل سے کیا جا چکا ہے۔

روحا نی مقاما ت کا دعویٰ

خدا کو دھوکا دینے میں بعض بلند دینی مناصب ومقامات کا دعویٰ کرنا شامل ہے جبکہ وہ حقیقت میں ان سے محروم ہو مثلاً صبر، شکر، توکل، محبت، رضا، تسلیم، اخلاص وغیرہ مقامات کا دعویٰ۔ مثلاً وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا معبود خدائے واحد ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں ہے اور کہتا ہے: "ایاک نعبد"حالانکہ وہ شیطان کو پوجتا ہے یا کہتا ہے "اللّٰہ اکبر" یعنی خدا میرے نزدیک ہر چیز سے بڑا اور اونچا ہے جبکہ مال ومرتبہ اور دنیاوی حیثیتوں نے اس کے دل میں ریشہ دوانی کر کے بڑی اہمیت حاصل کر رکھی ہے۔ چنانچہ اگر اس سے کہیں کہ خدا کی خاطر فلاں گناہ چھوڑ دے تو آمادہ نہیں ہوتا البتہ اگر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس سے اس کے مال، آبرو یا اس کی دوسری دُنیاوی حیثیتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو اسے ترک کر دیتا ہے۔

حضرت امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جس وقت تم تکبیر کہو تو تمہیں چاہیئے کہ دُنیا کی تمام چیزوں کو خدا کی بزرگی کے سامنے چھوٹا سمجھو کیونکہ جس وقت بندہ تکبیر کہتا ہے اور خدا یہ جان لیتا ہے کہ اس کے دل میں اس کی تکبیر کے خلاف کوئی بات موجود ہے۔ یعنی وہ خدا کے سوا کسی اور کو زیادہ سمجھتا ہے تو خدا اس سے فرماتا ہے اے جھوٹے! تُو مجھے فریب دیتا ہے۔ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ میں تجھے اپنی یاد کی مٹھاس، اپنی مناجات کے مزے اور اپنے قریب پہنچنے سے محروم کر دوں گا۔" (صلوٰة مستدرک باب ۲)

بزرگا نِ دین سے دھوکے بازی

بزرگانِ دین سے دھوکے بازی مثلاً ایک شخص ان سے کہتا ہے: "موال لکم ولا لیائکم"یعنی میں تم سے اور تمہارے دوستوں سے محبت کرتا ہوں حالانکہ دوستوں سے اسے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور اہل بیت سے ان کی نسبت کا لحاظ ہی نہیں کرتا یا کہتا ہے: "التارک للخلاف علیکم"جو بات تمہارے خلاف جاتی ہے وہ میں نے ترک کر دی ہے حالانکہ اس نے ہزاروں باہر ان کی مخالفت کی ہے اور کرتا ہے جیسا کہ جھوٹ کی گفتگو میں بیان کیا گیا ہے۔

خدا کے بندوں سے دھوکا

ان آخرت سے بے خبر لوگوں میں جو طرح طرح کی دھوکے بازی ، بہانے بازی اور فریب کاری عام ہے وہ اسی قسم سے متعلق ہے اور سب کی سب حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور جتنا اس کا فساد زیادہ ہوتا اس کی حرمت اور سزا بھی اتنی شدید ہو گی۔

خدا سورة فاطر آیت ۴۲ میں فرماتا ہے: "دھوکا خود اپنے ہی کرنے والے کی طرف پلٹتا ہے۔" یعنی ہر دھوکہ باز کا دھوکا اسی کی طرف واپس آتا ہے اور جو کچھ اس نے دوسرے کے بارے میں سوچا ہے وہ خود اپنے ہی بارے میں مشاہدہ کرتا ہے کیونکہ ہر مکر، مکر کرنے والی ذات اور گراوٹ کا اور جس سے مکر کیا جاتا ہے اس کی عزت بڑھانے اور درجہ بلند کرنے کا سبب ہو گا یا مکر کرنے والا آخرت میں اپنے بُرے کام کی وجہ سے جہنم کے سب سے نچلے درجے میں جائے گا اور جس کے ساتھ مکر کیا گیا ہے اس ظلم کی وجہ سے جو اس پر ہوا ہے بہشت میں بلند مقام پائے گا یا دُنیاوآخرت دونوں میں۔ چنانچہ اس بات کا مطلب کہ دُنیا میں مکر کرنے والا رسوا ہوتا ہے اور اس کے مکر سے اسی کو نقصان پہنچتا ہے اس قدر واضح ہے کہ "منہج الصادقین "میں لکھا ہے کہ یہ جملہ عرب میں کہاوت بن گیا ہے کہ : جو اپنے بھائی کے لیے کنواں کھودے گا کہ وہ خود اس میں سر کے بل جا گرے گا۔ اسی طرح ایرانی کہاوت ہے: بُرائی نہ کر جو بُرائی آگے آئے۔ کنواں نہ کھود جو خود اس میں گرے۔ یہ بھی کہتے ہیں : جو کوئی کسی کے لیے کنواں کھودے گا اس میں پہلے خود، پھر دوسرا گرے گا۔" ( ۱)

____________________

(۱) تفسیر منہج الصادقین میں تاریخی کتابوں کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے کہ دو آدمیوں نے پیسہ جمع کیا اور اسے چوری کے خوف سے ایک معینہ درخت کے اندر چھپا دیا۔ ان دونوں میں سے ایک رات کو چھپ کر آیا اور وہ پیسے اٹھا لیے۔ دوسرے دن جب دونوں پیسے لینے کے لیے آئے تو اس پیسے کو وہاں نہیں پایا۔ وہ آدمی جو رات کو پیسے چوری کر کے لے گیا تھا اس نے دوسرے آدمی کا گریبان پکڑ لیا کہ مال چھپاتے وقت تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں تھا یقینا پیسے تم نے اٹھائے ہیں۔ اس بے چارے نے کافی قسمیں کھائیں لیکن چور اپنی بات پر بضد تھا۔ یہاں تک کہ معاملہ حاکم کے سامنے پیش ہوا۔ حاکم نے چوری کرنے والے سے گواہ طلب کیے تو اس نے کہا :"درخت خود گواہی دے گا کہ پیسے دوسرا آدمی لے کر گیا ہے۔" اس چور نے پوشید طور پر اپنے بھائی سے کہا کہ رات کے وقت درخت کے کھوکھلنے تنے میں بیٹھ جائے تاکہ جب صبح حاکم گواہی طلب کرے تو وہ اندر سے گواہی دے کہ پیسے دوسرا آدمی لے گیا ہے۔ جب صبح حاکم لوگوں کے ساتھ درخت کے قریب پہنچا تو اس نے درخت سے کہا: "اے درخت اس خدا کے لیے جس نے تجھے خلق کیا ہے یہ بتا کہ وہ پیسے جو تجھ میں چھپائے گئے تھے کس نے چوری کیے ہیں؟" تو چور کے بھائی نے درخت کے بیچ میں سے چلا کر کہا: "پیسے فلاں آدمی یعنی چور کے ساتھی نے لیے ہیں:" حاکم اپنی فراست کی بناء پر سمجھ گیا کہ اصل بات کیا پء؟ کیونکہ درخت کا کلام کرنا خلافِ عادت ہے۔ اس نے درخت کو آگ لگانے کا حکم دیا تاکہ فساد کا سبب نہ بنے۔ چنانچہ درخت کو آگ لگا دی گئی۔ چور کا بھائی خوف کے مارے کچھ نہ بولا لیکن جب آگ اس تک پہنچی تو مجبور ہو گیا اور اس نے نالہ وفریاد کرنا شروع کیا۔ بالآخر لوگوں نے اسے نیم مردہ حالت میں درخت سے نکالا۔ جب اس سے حقیقت دریافت کی تو اس نے حاکم کے سامنے اپنے بھائی کے تمام مکروفریب کو آشکار کر دیا۔ حاکم نے مال لیا اور دوسرے آدمی کو دے دیا اور دھوکے باز کو سخت ترین سزا دی۔

محدث الجزائری نے زہرا الربیع میں نقل کیا ہے کہ اصفہان میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کی پٹائی کرنی چاہی اور اسے چند ڈنڈے مارے لیکن اتفاقاً عورت مر گئی حالانکہ وہ آدمی اس کے قتل کا ارادہ نہ رکھتا تھا بلکہ اس کا مقصد عورت کی سزنش کرنا تھا۔ اسے عورت کے رشتہ داروں سے خوف ہوا اور وہ ان کے شر سے بچاؤ کے لیے سوچنے ہوئے گھر سے باہر آیا اور اپنے ایک جاننے والے سے اپنی روداد سنائی تو اس شخص نے عورت کے رشتہ داروں سے چھٹکارے کے لیے یہ مشورہ دیا کہ کوئی خوبصورت جوان تلاش کرو، اسے مہمان بنا کر اپنے گھر لے جاؤ اور اس کا سر کاٹ کر عورت کے پہلو میں رکھ دو اور عورت کے رشتہ داروں کے استفسار پر کہنا کہ میں نے اس جوان کو عورت کے ساتھ زنا کرتے ہوئے دیکھا تو میں ضبط نہ کر سکا اور میں نے دونوں کو قتل کر دیا۔ اس آدمی کو یہ ترکیب پسند آ گئی اور وہ اپنے گھر کے دروازے پر آ کر بیٹھ گیا۔ ایک خوبصورت جوان کا اس کے گرھ کے پاس سے گذر ہوا تو وہ آدمی اسرار کر کے اسے اپنے گھر لے گیا اور اس کے بعد اسے قتل کر دیا۔ جب اس عورت کے رشتہ دار آئے اور دو جنازے دیکھے تو اس آدمی نے اپنی گڑھی ہوئی کہانی سنائی۔ جس پر وہ لوگ مطمئن ہو کر چلے گئے۔ بدقسمیت سے وہ آدمی جس نے اس عورت کے شوہر کو یہ مشورہ دیا تھا اس کا بیٹا اس روز گھر نہیں پہنچا تو وہ بہت پریشان ہوا اور اس عورت کے شوہر کے گھر آیا اور کہا: "وہ مشورہ جو میں نے تمہیں دیا تھا کیا تم نے اس پر عمل کیا؟" اس آدمی نے کہا: "ہاں۔" تو اس نے کہا "اس مقتول آدمی کو دکھاؤ۔" جب وہ جنازے کے سرہانے آیا تو اس نے اپنے بیٹے کو پایا جو اسی کے مشورے سے قتل کیا گیا تھا۔ پس وہ اس بات کا مصداق ٹھہرا کہ جو اپنے بھائی کے لیے کنواں کھودے گا خدا خود اسے اس کنویں میں گرا دے گا۔ ان دونوں واقعات کی مانند بہت سے واقعات تاریخی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب محجة البیضاء میں ایک حکایت نقل کی گئی ہے جو دھوکا اور حد دونوں کی مناسبت سے ہے اور جس کا حد کی بحث میں ذکر ہو گا۔