گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 105616
ڈاؤنلوڈ: 5724

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105616 / ڈاؤنلوڈ: 5724
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

چپٹی لڑنا

وہ گناہِ کبیرہ جس کے لیے معتبر بیانات میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ حد بھی مقرر کی گئی ہے چپٹی لڑنا ہے۔

ایک عورت نے حضرت امام صادق (علیہ السلام) سے کہا: "جو عورتیں آپس میں چپٹی لڑتی ہیں (اپنی شرمگاہ دوسری کی شرمگاہ سے رگڑتی ہیں) ان کی حد کیا ہے؟" امام نے فرمایا :"زنا کی حد ہے (سو کوڑے) دراصل جب قیامت ہو گی تو انہیں لائیں گے اور جو کپڑے آگ سے بونتے گئے ہیں انہیں پہنائیں گے، آگ کے گُرز ان کے سوراخوں میں گھسیڑین گے اور انہیں جہنم میں جھونک دیں گے۔ اے عورت! وہ قدیم ترین قوم جس میں چپٹی کا رواج ہوا حضرت لوط کی قوم تھی جس کے مرد لونڈے بازی کرنے میں لگے تو بیویاں بے شوہروں کی رہ گئیں۔ آخر وہ بھی ایک دوسرے سے اسی طرح مشغول ہو گئیں جس طرح مرد آپس میں مشغول ہو گئے تھے۔" (اور عذاب نازل ہونے پر سب کے سب ہلاک ہو گئے۔) (وسائل الشیعہ کتاب نکاح باب ۲۴)

ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا: "خدا کی قسم چپٹی بہت بڑا زنا ہے۔" (وسائل الشیعہ کتاب نکاح باب ۲۴)

آپ نے اس عورت کے جواب میں جس نے عورتوں کے چپٹی لڑنے کے بارے میں پوچھا تھا یہ بھی فرمایا: "وہ جہنم میں ہیں جب قیامت ہو گی انہیں آگ کی چادر اڑحا دی جائے گی، ان کی شرمگاہوں میں آگ کے گرز گھسیڑے جائیں گے اور انہیں جہنم میں ڈال دیں گے۔" عورت نے کہا: "کیا اس عمل کا ذکر قرآن مجید میں نہیں آیا ہے؟" آپ نے فرمایا: "ہاں۔" اس نے عرض کیا: "کہاں؟" آپ نے فرمایا: "واصحاب الرس۔" (سورہ فرقان آیت ۳۸) ۔

(وسائل الشیعہ کتاب نکاح باب ۲۴)

تفسیر صافی میں اصحاب رس کے بارے میں حضرت امیرالمومنین سے ایک طویل روایت نقل کی گئی ہے اور مرحوم مجلسی  نے بھی حیات القلوب کی تیسری جلد میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ان لوگوں کا اور ان کے گناہوں کا حال جاننے کے لیے جن میں عورتوں کا چپٹی لڑنا بھی شامل ہے مذکورہ کتابیں دیکھئے۔

آپ ان لوگوں کی ہلاکت کا حال یوں بیان فرماتے ہیں کہ خدا نے ان پر لال تیز ہوا بھیجی۔ ان کی زمین نے بھی آگ اگلی، کالی گھٹا ان پر چھا گئی اور پھر ان پر ایسی بجلی گری کہ سب کو ہلاک کر گئی۔

چپٹی کی حد

جب عورت اس حرام کام کا چار بار اقرار کر لے یا چار عادل مرد اس کی گواہی دے دیں تو ان دونوں عورتوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارے جائیں۔ البتہ اگر جرم کے اقرار یا عادل گواہوں کی گواہیوں سے پہلے پہلے وہ توبہ کر لیں تو حد نہیں لگے گی۔

جس طرح کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ دو برہنہ مردوں یا دو برہنہ عورتوں کا ساتھ ساتھ ایک ہی لحاف میں اس طرح سونا کہ ان کے بیچ میں کوئی روک نہ ہو حرام ہے اور اگر حاکم شرع کے سامنے ثابت ہو جائے تو وہ انہیں سو کوڑوں سے کم کی (جتنی بھی مناسب سمجھے) سزا دے۔ کچھ روایتوں میں ان کی حد سو کوڑے بتائی گئی ہے۔

دلالی اور بھاڑو پنا

د لالی

مرد اور عورت کو زنا کے لیے اور دو مردوں کو اغلام کے لیے بلانا دلالی (کٹناپا) کہلاتا ہے اور اس کے حرام ہونے بلکہ گناہِ کبیرہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ایسا گناہ ہے جس کے لیے معتبر بیانات میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور اسلام کی مقدس شریعت میں اس کے لیے حد مقرر کی گئی ہے۔

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "جو شخص کسی مرد اور عورت کے زنا کا ذریعہ بنے گا خدا اس پر بہشت حرام کر دے گا اور وہ دوزخ میں رہے گا اور دوزخ بُرا ٹھکانا ہے اور وہ شخص مرتے وقت تک برابر خدا کے عتاب میں رہے گا۔" (وسائل الشیعہ کتاب نکاح باب ۲۷)

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ رسول خدا نے فلاں کرانے عورت اور وہ عورت جو اس کام کا واسطہ بنتی ہے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔ (وسائل الشیعہ کتاب نکاح باب ۲۷)

اس کے علاوہ دلالی کرنے والا شخص نہ صرف نہی از منکر کو ترک کرتا ہے بلکہ منکر کے لیے کوشش کرتا ہے اور جب پہلے باب کے آخر میں نہی از منکر کا ترک کرنا ہی گناہِ کبیرہ ثابت ہو چکا ہے تو پھر منکر کے حکم دینے یا منکر کے لیے کوشش کرنے کا گناہ تو اس سے بھی بڑا ہو گا۔

ہر دیندار کے نزدیک گناہوں کی دلالی بھی گناہِ کبیرہ ہے اور تیسری فصل میں ذکر ہو چکا ہے کہ اہل شریعت کے نزدیک گناہ کا بڑا ہونا خود اس کے گناہِ کبیرہ ہونے کی دلیل ہے۔

شیخ انصاری  مکاسب محرقہ میں فرماتے ہیں: "دلالی حرام ہے اور اس سے مراد دو مردوں کو حرام اغلام کے لیے ملانے کی کوشش ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے اور ملانے کے کام کو جس پر لعنت کی گئی ہے دلالی کہا گیا ہے۔"

حضرت امام صادق (علیہ السلام) سے منقول ہے: "رسول خدا نے چار گروہوں پر لعنت کی ہے: اوّل عورتوں کے بال کاٹنے والی اور وہ جو بال کٹوانے پر آمادہ ہوتی ہے۔ دوسرے جو عورتوں کے دانت اکھاڑتی ہے اور وہ جو اس پر آمادہ ہوتی ہے۔ تیسرے ملانے والی اور ملنے (زنا کرانے والی اور کٹنی)۔ چوتھے جسم گود کر نقش ونگار بنانے والی عورت وہ جو اپنے جسم کو گدوا کر نقش بنواتی ہے۔" (معانی الاخبار)

دلالی کی حد

خود اس شخص کے دو مرتبہ اقرار کرنے یا دو عادل گواہوں کی گواہی سے دلالی ثابت ہو جاتی ہے۔ دلالی ثابت ہو جانے پر پچھتر ( ۷۵) کوڑے مارنا چاہئیں چاہے وہ مرد ہو چاہے عورت اور بعض فقہاء نے فرمایا ہے کہ اگر مرد ہو تو اس سزا کے علاوہ اس کا سر مونڈ کر اسے رسوا کریں اور شہر سے باہر گھمائیں اور بعض نے فرمایا ہے کہ دوسری بار ایسا کرنے پر اسے جلا وطن کر دیں۔ اس کی تشریح حدود کی کتاب میں کی گئی ہے۔

بھا ڑو پنا

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)فرماتے ہیں: "تین گرہ ایسے ہیں جن سے خدا قیامت میں بات نہیں کرے گا۔ ان پر رحمت کی نظر نہیں ڈالے گا۔ ان کو پاکیزہ نہیں کرے گا اور ان پر دردناک عذاب ہو گا۔ زنا کرنے والا بڈھا، قرم ساق (بھاڑو) اور وہ بیاہی عورت جو زنا کراتی ہے۔" (وسائل الشیعہ کتاب نکاح باب ۱۶)

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "بہشت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت پر بھی پہنچ جاتی ہے لیکن جس کو والدین نے عاق کر دیارو قرم ساق دونوں اس سے محروم رہیں گے۔" جب پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! قرم ساق کون ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا وہ شخص جس کی بیوی زنا کراتی ہو اور یہ بات اس کے علم میں ہو۔" (وسائل الشیعہ)

آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ خدا نے اپنے عزت وجلال کی قسم کھا کر فرمایا ہے: "بہشت میں شرابی، چغل خور اور قرم ساق داخل نہیں ہوں گے۔" (وسائل الشیعہ)

حضرت امام صادق (علیہ السلام) بھی یہی فرماتے ہیں: "بہشت قرم ساق پر حرام ہے۔"

(وسائل الشیعہ کتاب نکاح باب ۱۳۲ ص ۳۰)

جلق

گناہِ کبیرہ جس کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے منی نکالنا ہے جس سے مراد ہے منی کو غیر فطری طریقے مثلاً اپنے ہاتھ سے عضو مخصوص کو مل کر یا بیوی کے علاوہ کسی اور کے اعضاء سے اپنے اعضاء کو رگڑ کر خارج کرنا۔

کتاب حدود جواہر کے آخر میں لکھا ہے کہ جو کوئی اپنے ہاتھ یا کسی اور عضو سے منی نکالے اسے سزا دی جائے اس لیے کہ وہ حرام کام بلکہ گناہِ کبیرہ ہے۔ چنانچہ جب لوگ اس کے حکم کے متعلق پوچھتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں: "یہ انتا بڑا گناہ ہے جس سے خدا نے قرآن مجید مں منع کیا ہے اور منی نکالنے والے کی مثال یہ ہے جیسے اس نے اپنے آپ سے نکاح کیا ہو۔ اگر میں کسی ایسے شخص کو جان لوں جو یہ کام کرتا ہے تو اس کے ساتھ کھانا نہ کھاؤں۔"

اس حدیث کا راوی آپ سے پوچھتا ہے: "یہ مطلب قرآن کے کس مقام سے نکلتا ہے؟"

تو آپ فرماتے ہیں اس آیت سے :"جوکوئی اپنی بیوی یا لونڈی کے علاوہ کسی اور سے اپنی شہوت کی تسکین کرتا ہے وہ بدعنوان ہے۔" راوی نے پھر پوچھا: "زنا کا گنا بڑا ہے یا منی نکالنے کا؟" آپ نے فرمایا: "منی نکالنا بڑا گناہ ہے۔" (جواہر الاحکام کتاب الحدود)

لوگ امام سے منی نکالنے کے حکم کے بارے میں پوچھتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں: "یہ بڑا اور نہایت بڑا گناہ ہے اور یہ کسی حیوان سے جماع کرنے یا رگڑ کر شہوت مٹانے کے حکم میں آتا ہے۔" لوگوں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا: "جو کوئی اپنی شہوت اس سے یا اس جیسے کسی اور ذریعے سے مٹاتا ہے وہ زنا کرنے کے حکم میں داخل ہے یعنی یہ زنا کے گناہ کے برابر ہے۔"

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لوگوں کے تین گروہ ایسے ہیں جن سے خدا بات نہیں کرے گا، انہیں رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا اور انہیں پاک نہیں کرے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ پہلا وہ جو اپنے سفید بال اکھاڑتا ہے(تاکہ وہ یہ دکھائے کہ وہ جوان ہے) دوسرا وہ جو اپنے عضو کے وسیلے سے اپنی شہوت مٹاتا ہے اور تیسرے وہ جس شخص سے اغلام کیا گیا ہو۔"

رسول خدا فرماتے ہیں: "جو اپنے ہاتھ سے اپنی شہوت مٹاتا ہے وہ ملعون ہے"۔ (نکاح مستدرک ص ۸۷۰)

صاحب جواہر فرماتے ہیں: "بیوی اور کنیس کے ساتھ منی خارج کرنا دلیلوں سے جائز معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا ترک بہتر ہے اور مسائل میں بھی قریب قریب یہی کہا گیا ہے لیکن احتیاط کا طریقہ اس کا ترک کر دینا ہی ہے۔"

جلق کا رواج

بدقسمتی سے نکاح کرنے کی بے حد وحساب مشکلات اور جوانوں کے کنوارے رہنے نے اس گھر پھونک بیماری اور گناہ کو غیر معمولی رواج دے دیا ہے اور اس سے بہت سے پیارے جوان آخرت کی سزاؤں سے قطع نظر جان بوجھ کر یا انجانے میں طرح طرح کی بیماریوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو آگاہ کریں اور اپنے جوانوں کو خیال رکھیں اسی طرح دین اور حفظانِ صحت کی تعلیم دینے والے منشیوں اور مدرسوں کو فرض ہے کہ وہ جوانوں کو مصیبت کے خطرناک روحانی اور جسمانی نتائج سے باخبر کریں۔

اس مقام پر ہم منی خارج کرنے کے کچھ نقصانات کتاب "ناتوانی ہائے جنسی" سے نقل کرتے ہیں جو اس فن کے ماہرین کی تحریروں کا مجموعہ ہے۔

جلق کے جسمانی وروحانی نقصانات

یہ عمل لوگوں کو شہوانی قویٰ کی کمزوری میں مبتلا کرتا ہے، سستی اور بزدلی پیدا ہوتی ہے، ان سے دلیری اور ایمانداری رخصت ہو جاتی ہے، ایسے کتنے ہی لوگ ہیں جو جوانی کے شروع میں ہی ہتھلس (جلق) کی وجہ سے ایسی روحنی اور جسمانی کمزوریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ منشیات کے عادی لوگ بھی ان کے مقابلے میں شیر نر نظر آتے ہیں۔ یہ غیر فطری جنسی عمل یعنی منی خارج کرنا یا ہتھ لس کرنا پانچوں حواس سے اس قدر قریبی تعلق رکھتا ہے کہ سب سے پہلے آنکھ اور کان پر اس طرح اثر کرتا ہے کہ نظر کو کمزور کر دیتا ہے اور سماعت کو بھی خاص ھد تک ناکارہ بنا دیتا ہے۔ ہتھ لس کرنے والے خصوصاً وہ لوگ جو جسمانی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگتے ہیں جن سے انہیں سخت پریشانی ہوتی ہے۔ وہ آنکھوں کو بند کر لین تب بھی ان نر ترمروں سے انہیں نجات نہیں ملتی اور جب یہ عمل ہر بار کئی کئی منٹ تک جاری رہتا ہے تو انہیں چکر آ جاتا ہے اور وہ زمین پر گِر پڑتے ہیں۔ اسی طرح ان کے کانوں میں گھنٹیوں کی سی آوازیں آنے لگتی ہیں جن سے انہیں بہت بے چینی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جسمانی اور روحانی قوتیں کم ہو جاتی ہیں، خون گھٹ جاتا ہے، رنگ اُڑ جاتا ہے، یاداشت کمزور پڑ جاتی ہے، جسم دُبلا ہو جاتا ہے، سستی اور کاہلی بے حد بڑھ جاتی ہے، بھوک جاتی رہتی ہے، کج خلقی پیدا ہوتی ہے، طبعیت میں چڑچڑاہٹ آ جاتی ہے، سر میں درد رہنے لگتا ہے اور دوسری بیماریوں کی ہزاروں مصیبتیں ہیں جو ہتھ لس کرنے والوں کو آ گھیرتی ہیں۔

البتہ جو لوگ جسمانی لحاظ سے قوی ہیں ممکن ہے ان کا ان بیماریوں سے دیر میں سابقہ پڑے لیکن ان سے بچنا یا بچے رہنا ناممکن ہے اور سب کو خواہ مخواہ ان مصیبتوں میں گرفتار ہونا ہی پڑتا ہے۔

ہتھ لس کرنے والوں کی ایک بدبختی یہ ہے کہ ان کی قوت ارادی ختم ہو جاتی ہے، اس لیے جب انہیں اپنے عمل کے نتیجے کا پتا لگتا ہے تو ان میں اتنی قوتِ ارادی نہیں ہوتی کہ اسے چھوڑ سکیں۔ سو ہم جو یہ کہتے ہیں کہ منی خارج کرنے کا عمل روحانی لحاظ سے بھی انسانی قویٰ کو خراب کر دیتا ہے بے سبب نہیں ہے۔ یہ عمل جسمانی نقصانات کے علاوہ جنسی لحاظ سے بھی انسان کو خراب کر دیتا ہے۔ یعنی رس دینے والے اندرونی غدودوں کو بیکار کر دیتا ہے۔ یہ غدود منی بناتے ہیں جو ہتھ لس کے باعث دھیرے دھیرے چھوٹے ہو کر چنے کے برابر رہ جاتے ہیں اور چونکہ اس صورت میں منی یعنی ماء الحیات یا آبِ زندگی نہیں بنا سکتے، انسان ہمیشہ کے لیے جنسی لذت سے محروم ہو جاتا ہے اور اگر اس صورت میں مکمل طور پر نامرد نہ بھی ہو تو قطعی طور پر دوسری جنسی کمزوریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اکثر دیکھا اور سنا گیا ہے کہ ان کی پیشاب کی جگہ خون آنے لگتا ہے۔

جاننا چاہیئے کہ جن لوگوں کی ایسی حالت ہو جاتی ہے وہ چاہے جس قدر جوان ہوں موت کا خطرہ ان کی گھات میں رہتا ہے کیونکہ شہوت کے بغیر اور شہوت کا مزہ لیے بغیر ان کی منی برابر بہتی یا نکلتی رہتی ہے اور اس کی وجہ سے چلتے چلتے یکا یک گِر پڑتے ہیں اور بے ہوش ہو جاتے ہیں۔

تہران کے پاگل خانے میں جا کر دیکھئے وہاں رہنے والے دس پاگلوں میں سے نو ہتھ لس کے عادی ہیں۔ یعنی منی خارج کرتے کرتے پاگل ہو گئے اور پاگل خانے میں ایک طرف آ پڑے کیونکہ ہتھ لس کا نامعقول اثر دماغی قوتوں پر زیادہ ہوتا ہے اور جب دماغی قویٰ بگڑ جاتے ہیں تو یہ مانی ہوئی بات ہے کہ پاگل پن پر نوبت پہنچے گی۔ بلامبالغہ سل کے دس مریضوں میں سے جو دارالصحت (سینے ٹوریم) میں سو رہے ہیں چار مریض ہتھ لس کی لت پڑنے کے باعث اس خطرناک بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔ یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ حقیقت ہے جس تک علماء اور اسکالر دسیوں سال کے تجربے کے بعد پہنچ پائے ہیں۔ (نوتوانبہائے جنسی ص ۴۸ تا ۵۲)

آج کی دُنیا کہتی ہے خوب کھاؤ لیکن کسی کام میں حد سے نہ بڑھو۔ طاقتور رہو تاکہ بیمار نہ پڑو۔ لیکن ہتھ لس کے عادی لوگوں کو بھوک نہیں لگتی جو خوب کھالیں اور وہ جنسی معاملات میں بھی غیر فطری طریقے سے حد سے تجاوز کرتے ہیں اس لیے مجبوراً کمزور ہوتے ہیں اور چونکہ کمزور ہوتے ہیں اس لیے ہر قسم کی بیماری میں مبتلا ہونے کا امکان رکھتے ہیں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض ہتھ لس کے عادی اس عمل میں افراط کی وجہ سے ( Sadism )سے ملتی جلتی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس وقت ان کے جذبات کتے بلی کو دیکھ کر بھی بارنگیختہ ہو جاتے ہیں اور وہ فوراً جلق کرنے لگ جاتے ہیں۔ چونکہ کوئی آدمی پانچ چھ مہینے سے زیادہ جنسی قوت سے اس طرح لطف اندوز نہیں ہو سکتا اس لیے اس کے جنسی قویٰ بیکار ہو جاتے ہیں یا وہ نہایت دلخراش حالت میں اپنی موت سے جا ملتا ہے۔ (ناتوانی ہائے جنسی صفحات ۴۸ تا ۵۴)

ممکن ہے کہ بعض ہتھ لس میں مبتلا لوگ قوی جسم رکھنے یا اس کام میں نئے نئے مشغول ہونے کے باعث ابھی تک بیمار نہ پڑے ہوں اور انہیں اپنے ناپسندیدہ عمل کے نقصانات کا پتا نہ چلا ہو ہماری ان باتوں کو ہم نے ہتھ لس کے نقصانات کے تحت لکھی ہیں مبالغہ سمجھ کر دل میں سوچیں کہ اگر یہ حقیقت ہے تو ہم ابھی تک کیوں نہیں بیمار پڑے؟

ان لوگوں کے جواب میں یہ کہنا ہے کہ اگر آج ہتھ لس کے نقصانات تم تک نہیں پہنچے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ تم طاقتور جسم کے مالک ہو یا یہ عمل تم نے نیا نیا شروع کیا ہے۔ ورنہ چند دن بعد یہ نقصانات تمہیں ضرور بالضرور لاحق ہوں گے۔ پھر ہم نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا کہ جس نے ایک ہفتے تک بھی یہ عمل کیا اس پر یہ تمام بیماریاں ایک دم حملہ آور ہو جائیں گی کیونکہ لوگوں کی اندرونی حالتوں میں بھی فرق ہوتا ہے۔ مثلاً ممکن ہے کہ جس کسی نے ایک مدت تک ہتھ لس کی ہو وہ پہلے مرحلے میں صرف اعصاب کی سستی کے خلل سے یا نظر کی کمزوری یا سر کے چکروں میں مبتلا ہو اور پھر ایک ایک کر کے باقری تمام بیماریاں اس تک پہنچیں۔ تو خلاصہ یہ ہے کہ ہتھ لس شرع کے لحاظ سے بھی عمومی لحاظ سے بھی ہر طرح حرام اور ناپسندیدہ فعل ہے۔

بدعت

بدعتگناہِ کبیرہ ہے جس کا حرام ہونا مذہب کی ضرورت ہے اور جو اس لیے کبیرہ ہے کہ مسلسل روایتوں میں اس کے لیے عذاب کا وعدہ ملتا ہے اور چونکہ اصل بات مانی ہوئی اور ظاہر ہے اس لیے صرف چند روایتوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے:

پیغمبر خدا نے فرمایا ہے کہ "ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی جہنم میں لے جاتی ہے"۔

(وسائل الشیعہ کتاب امر بالمعروف باب ۴۰)

امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں "جو بدعت کرنے والے کے نزدیک گیا اور جس نے اس کا احترام کیا اس نے بلاشبہ دین اسلام کو بگاڑنے کی کوشش کی۔" (وسائل الشیعہ)

حضرت امام صادق (علیہ السلام) بدعت کو گناہِ کبیرہ شمار کرتے ہیں کیونکہ رسول خدا نے فرمایا: "جو بدعت کرنے والے سے خوش ہو کر اور ہنس کر ملا اس نے بلاشبہ اپنا دین بگاڑا۔" (سفینة البحار جلد ۱ ص ۶۳)

حضرت پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "میرے بعد جب تم کسی شکی اور بدعتی کو دیکھو تو اس سے دُور رہو۔ اسے بہت زیادہ بُرا بھلا کہو، اسے گالیاں سناؤ، طعنہ دو، اسے تھکا دو، عاجز کر دو تاکہ تمہیں جواب نہ دے پائے، لوگ اس سے اسلام میں بگاڑ کے سوا اور کوئی امید نہ رکھیں، اس سے چوکنا رہیں، اس کی بدعتیں نہ سیکھیں تاکہ خدا تمہارے لیے اس کام کے عوض نیکیاں لکھے اور آخرت میں تمہارے درجے بلند کرے۔" (وسائل الشیعہ باب ۳۹)

علّامہ مجلسی  اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: "شکیوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے دین میں شک کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی اس غلطی کی بدولت شک میں ڈالتے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ شکیوں سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا دین فاسد گمان اور وہم پر قائم ہے جیسے اہل خلاف کے علماء اور ممکن ہے کہ ان سے مراد بدکار، کھلم کھلا گناہ کرنے والے اور دین کے بارے میں منہ پھٹ لوگ ہوں کیونکہ یہی بات اس کا سبب ہے کہ لوگ ان کے دیندار ہونے میں شک کرتے ہیں اور ان کے عقیدے کی کمزوری کی علامت ہے۔

بدعت کیا ہے؟

علّامہ مجلسی  فرماتے ہیں: "امت میں جو باتیں حضرت رسولِ خدا کے بعد شروع کی گئی ہوں وہ بدعت (ایجاد) ہیں۔ اس کے بارے میں کوئی خاص یا عام نص موجود نہیں ہے۔ اور نہ خصوصیت یا عمومیت کے ساتھ اس سے منع کیا گیا ہے جو کچھ عام طور پر ہوتا ہے وہ بدعت نہیں ہے جیسے مدرسہ بنانا وغیرہ کیونکہ مومن کو سکونت اور مدد دینا عام باتوں میں شامل ہے اور جیسے علمی کتابیں تصنیف اور تالیف کرنا جو شرعی علوم کی مدد ہے یا جیسے وہ لباس جو پیغمبر خدا کے زمانے میں رائج نہیں تھے یا نئی غذائیں جو عام لوگوں میں پسندیدہ اور مرغوب ہیں اور ان سے منع نہیں کیا گیا ہے۔

ہاں جو عام لباس یا غذا کے طور پر ہوا اگر اسے خصوصیت دیں اور کہیں کہ اس خاص طریقے سے خدا نے اس کا حکم دیا ہے تو یہ بدعت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ نماز جو سب سے اچھا عمل ہے اور جس کا ادا کرنا ہر حال میں مستحب ہے اگر چند رکعتوں کو کسی خاص وجہ سے مخصوص کر دیا جائے یا کسی مخصوص وقت سے وابستہ کر دیا جائے تو بدعت ہو گی۔ (جیسے خلیفہ ثانی حضرت عمر  نے حکم دے دیا تھا کہ رمضان میں ہر رات کو بیس رکعت نماز با جماعت پڑھا کرو۔) اور جیسے کوئی کہے کہ فلاں وقت خصوصیت سے ستر بار لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کہنا مستحب یا واجب ہے جبکہ اس کے لیے کوئی معتبر دلیل نہ ہو تو یہ بدعت ہے۔ بہرحال دین میں اپنی طرف سے کوئی ایسی بات نکالنا یا بڑھانا جس کی اصل یا خصوصیات کے حق میں کوئی دلیل نہ ہو بدعت ہے۔ ( ۱)

شہید کے نقطہ نظر سے بدعت کی قسمیں

شہید اوّل فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم کے بعد جو باتیں نکلی ہیں ان کی پانچ قسمیں ہیں۔ واجب، حرام، مستحب، مکروہ، مباح اور بدعت جو نئی باتیں ہیں اور حرام ہیں۔ ان باتوں کی تشریح یہ ہے:

( ۱) واجب: جیسے قرآن اور احادیث کا جمع کرنا جس وقت (لوگوں کے حافظے سے) ان کے تلف ہو جانے کا ڈر ہو کیونکہ آنے والوں کے لیے دین کی تبلیغ اجماع اور قرآنی آیات کے مطابق واجب ہے اور یہ فریضہ امام کی غیبت میں قرآن اور سنت کی حفاظت کے بغیر انجام نہیں پا سکتا اور جب امام موجود اور حاضر ہوں گے تو وہ خود ان کے حافظ اور محافظ ہوں گے اور پھر کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔

( ۲) حرام وہ بدعت ہے جس پر حرام ہونے کی دلیل لگتی ہے جیسے معصوم امام پر غیر معصوم امام کو مقدم کرنا، ان کے مخصوص مناصب ہتھیا لینا، ظالم حکمرانوں کا مسلمانوں کا مال مارنا، مستحق لوگوں کو ان کے حق کا نہ دینا، اہل حق سے لڑنا اور انہیں جلا وطن کرنا، محض بدگمانی پر قتل کرنا، فاسق کی بیعت کرنے پر مسلمانوں کو مجبور کرنا اور اس پر

( ۱) دیکھئے مرآت العقول جلد ۲ ص ۳۶۶ اور بحار الانوار جلد ۴ ص ۳۰۰

قائم رہنا، اس کی مخالفت کو حرام قرار دینا، مسح کے بجائے دھونا، جسم کی کھال کے علاوہ اور چیزوں پر بھی مسح کرنا، نشہ آور مشروبات کا بہت زیادہ پینا، نافلہ نمازیں جماعت سے پڑھنا، جمعہ کو دوسری اذان دینا، متعہ الحج اور متعہ النساء کو حرام کرنا، امام (علیہ السلام) کے خلاف جھگڑا کرنا، دُور کے رشتے داروں کو وراثت کا مال دینا اور قریبی رشتے داروں کو نہ دینا، حقداروں کا خمس روک لینا اور بے وقت روزہ افطار کرنا اور ایسی ہی اور بھی مشہور بدعتیں ہیں جن پر شیعہ اور سُنی دونوں کا اجماع ہے اور اسی قسم میں کسٹم کا محصول وصول کرنا، غیر صالح شخص کو عہدہ اور منصب بخشش میں دینا یا وراثت میں دینا یا کسی اور طریقے سے دینا شامل ہیں۔

( ۳) مستحب ہر ایسا عمل ہے جس کے مستحب ہونے کی دلیل موجود ہو جیسے مدرسے اور گھر بنانا لیکن اس میں وہ انتظامات شامل نہیں ہیں جو بادشاہ اپنے دہلانے والے جلوس کے لیے کرتے ہیں جب تک کہ یہ اسلام کے دشمنوں کو دہلانے کے لیے نہ ہوں۔

( ۴) مکروہ وہ چیز ہے جس پر کراہت کی دلیل لگتی ہے جیسے تسبیح زہرا میں زیادتی اور کمی کرنا اور اسی طرح دوسرے فرائض اور کاموں میں بھی گھٹانا بڑھانا، کھانے پہننے میں اتنی افراط جو فضول کرچی تک نہ پہنچے اور جب نقصاندہ ہو جائے تو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے حرام ہو جائے گی۔

( ۵) مباح وہ چیز ہے جس پر اباحت کی دلیلیں لگتی ہیں جیسے آٹا چھانا جس کے لیے کہا گیا ہے کہ رسول خدا کے بعد جو نئی چیز درآمد ہوئی وہ آٹا چھاننے کی چھلنی تھی چونکہ مباح باتوں سے خوشی اور آرام ملتا ہے اس لیے مباح کا وسیلہ اور ذریعہ بھی مباح ہوتا ہے۔ (کتاب قواعد ص ۲۵۶)

علّامہ مجلسی  کا قول

مقدمہ بیان کرنے کے بعد علّامہ مجلسی  فرماتے ہیں: "بدعت کا مطلب یہ ہے کہ جس بات کو خدا نے حرام کر دیا ہو اسے حلال کر دیں یا اسے مکروہ قرار دے دیں جسے خدا نے مکروہ نہ کیا ہو اس بات کو واجب کر دیں جسے خدا نے واجب نہ فرمایا ہو یا اس کام کو مستحب کر دیں جسے خدا نے مستحب قرار نہ دیا ہو چاہے کسی خصوصیت کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً خدا نے فرمایا کہ نماز ہر وقت مستحب ہے۔ اگر کوئی اس لحاظ سے نماز پڑھتا ہے کہ چونکہ ہر وقت سنت ہے اور یہ بھی انہیں وقتوں میں سے ہے اس لیے میں اس وقت نماز پڑوھوں گا تو ثواب ملے گا اور اگر سورج ڈوبتے وقت دو رکعت نماز اس لیے پڑھے کہ خدا نے خصوصیت کے ساتھ اس وقت مجھ سے اس نماز کا مطالبہ کیا ہے تو یہ بدعت ہو جاتی ہے اور حرام ہے جس طرح حضرت عمر  نے خصوصیت سے چاشت کے وقت کے لیے چھ رکعتیں مقرر کر دی تھیں کہ اس وقت سنت کے طور پر پڑھنا چاہئیں۔ اس وجہ سے بدعت حرام ہو گئی اور ہمارے اماموں ٪ نے اس سے منع کر دیا۔

اسی طرح اگر کوئی شخص نافلہ نماز کی تین رکعتیں ایک اسلام سے پڑھتا ہے توچونکہ سنتی نماز کی یہ شکل پیغمبر اکرم سے ہم تک نہیں پہنچی ہے اس لیے بدعت اور حرام ہے یا اگر کوئی ہر رکعت میں دو رکوع بجا لائے تو حرام ہے۔

اسی طرح کلمہ طیبہ لا الہ الا اللّٰہ کو ہر وقت پڑھتے رہنا سنت اور بہترین عبادت ہے۔ اگر کوئی یہ مقرر کرے کہ نماز صبح کے بعد مثلاً اس کا ڈیڑھ ہزار بار پڑھنا سنت ہے اور اس گنتی کو خصوصیت سے اس وقت کے لیے شرع کی طرف سے مقرر کیا ہوا جانے یا خود مقرر کر لے اور اس خصوصیت کو عبادت جانے تو یہ دین میں بدعت اور بدترین گناہ ہو گا۔ (عین الحیاة ص ۲۳۳)

بدعت یعنی خدا کا حکم تبدیل کر د ینا

اس لحاظ سے بدعت کے معنی خدا کے دین کو بدلنا اور اپنا ناقص رائے اور عقل سے اس میں کچھ بڑھانا یا اس سے کچھ گھٹانا ہے چاہے اصول میں ہو چاہے فروع میں۔ (اصول کافی فضل العلم باب ۲۰)

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) یہ بھی فرماتے ہیں: "محمد کا حلال قیامت تک ہمیشہ حلال رہے گا اور ان کا حرام روزِ قیامت تک برابر حرام رہے گا۔ ان کے سوا کوئی اور پیغمبر نہیں ہے اور ان کے علاوہ (قیامت تک) اور کوئی نہیں آئے گا اور حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جو بدعت کرتا ہے وہ اس کی بدولت سنت کو ختم کر دیتا ہے۔" (اصول کافی کتاب فضل العلم باب ۲۰)

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) یہ بھی فرماتے ہیں: "جو شخص لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے حالانکہ ان کے درمیان اس سے زیادہ عقلمند شخص موجود ہوتا ہے وہ شخص بدعتی اور بہکانے والا ہے۔"

(سفینة البحار جلد ۲ ص ۲۲۰) ۔

غیر واجب حکم

خدا نے جو کچھ فرمایا ہے اس کے خلاف حکم دینا گناہ ہے اور اس گناہ کے بڑے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ خدا نے ایسا حکم دینے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق کہا ہے اور سورة مائدہ کی آیات ۴۴ ، ۴۵ اور ۴۷ کے آخر میں فرماتا ہے: "اور خدا نے جو نازل فرمایا ہے جو لوگ اس کا حکم نہیں دیتے وہ کافر ہیں، ظالم ہیں اور فاسق ہیں۔" اور ان جملوں سے وہ ان کے کفر، ظلم اور گناہ کی تصدیق کرتا ہے۔

تفسیر المیزان میں لکھا ہے کہ یہ تینوں آیتیں ان لوگوں کے لیے ہیں جو خدا کے نازل کیے ہوئے کے مطابق حکم نہیں دیتے اور جن کے بارے میں خدا نے فرمایا ہے : "یہ لوگ کافر، ظالم اور فاسق ہیں۔" یہ ایسی عمومی آیات ہیں جو کسی قبیلے یا گروہ سے مخصوص نہیں ہیں اگرچہ اس مقام پر یہ اہلِ کتاب (یہودیوں اور عیسائیوں) پر صادق آتی ہیں۔

مفسرین نے "اس شخص کا کفر جو خدا کے نازل کیے ہوئے کے مطابق حکم نہیں دیتا" کے معنی میں اختلاف کیا ہے۔ اس قاضی کے متعلق جو اس کے مطابق فیصلہ نہیں دیتا جو خدا نے نازل کیا ہے، اس حاکم کے متعلق جو اس کے خلاف حکم دیتا ہے جو خدا نے نازل فرمایا ہے اور اس بدعتی کے متعلق جو غیر الہٰی قوانین کو ماننا ہے کیا حکم ہے؟

بے شک یہ فقہ کا ایک مسئلہ ہے اور تحقیق یہ ہے کہ کسی حاکم شرعی کی مخالفت یا ہر اس حکم کی مخالفت جو دین میں ثابت ہے اگر دین میں اس کے ثابت ہونے کا علم ہونے کے باوجود کی جاتی ہے اور اس حکم کو رد کیا جاتا ہے تو اس سے کفر لازم آتا ہے اور اگر اسے رد نہ کیا جائے اور صرف عمل میں اس کی مخالفت کی جائے یعنی ا کے خلاف عمل کیا جائے تو یہ فسق کا سبب ہے اور جب یہ نہ معلم ہو کہ یہ حکم شرع میں ثابت ہے یا نہیں تو پھر اسے رد کرنے کے باوجود نہ وہ کفر کا بعث ہے نہ فسق کا کیونکہ وہ ایسا قصور ہے جس میں انسان معذور ہے بجز اس صورت کے جبکہ اس کا علم حاصل کرنے میں کمی اور زیادتی کی گئی ہو (فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے)۔

اس بارے میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو شخص صرف دو درہم کی سی حقیر رقم کے بارے میں بھی خدا کے حکم کے خلاف حکم کرتا ہے خدا کی قسم وہ کافر ہے۔" (وسائل الشیعہ کتاب قضا باب ۵)

حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو شخص لوگوں کو اس چیز کے بارے میں فتویٰ دے جس کا اسے خدا کی طرف سے عِلم نہیں ہے اور جس کا اسے سراغ بھی نہ ملا ہو تو رحمت اور عذاب کے تمام فرشتے اس پر لعنت کریں گے اور جس شخص نے اس کے فتویٰ پر عمل کیا اس کی ذمہ داری اسی پر ہو گی۔" (وسائل الشیعہ کتاب قضا باب ۴)

اس بارے میں بہت سی روایتیں ملتی ہیں کہ ایسے شخص کی طرف رجوع کرنا جو حکم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا گویا طاغوت کی طرف رجوع کرنا ہے اور اگر اس کے حکم سے کچھ مال اس کے ہاتھ لگ جائے تو چاہے وہ حق پر ہی ہو سحت ہے۔