گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 105613
ڈاؤنلوڈ: 5723

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105613 / ڈاؤنلوڈ: 5723
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

کافروں کو ہتھیار بیچنا

وہ گناہ جو عام منشائے کلام اور تقدم کی رو سے کبیرہ ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً معروف کی ممانعت اور منکر کا حکم یعنی دوسرے کو اس بات سے روکنا جس کے کرنے کا خدا نے حکم دیا ہے یا کسی کو اس کام کے کرنے پر مجبور کرنا جس سے خدا نے منع فرمایا ہے اور جن کا کبیرہ ہونا امر بہ معروف اور نہی از منکر کے ترک کے گناہ کبیرہ ہونے سے ثابت ہوتا ہے ۔

اسی طرح کافروں کے لیے ان باتوں کی معلومات حاصل کرنا اور جاسوسی کرنا بھی جن کی وجہ سے انہیں فتح یا غلبہ حاصل ہو جائے اور کافروں اور مسلمانوں کی لڑائی کے زمانے میں کافروں کو لڑائی کے ہتھیار بیچنا بھی گناہِ کبیرہ ہے اور ان دونوں گناہوں کا کبیرہ ہونا اس سے واضح ہوتا ہے کہ کافروں کے خلاف لڑائی سے فرار کرنا بھی گناہِ کبیرہ ہے ۔تو جہاں میدانِ جنگ سے بھاگ جانا گناہِ کبیرہ ہے کیونکہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے تو پھر کافروں کو لڑائی کے ہتھیار بیچنے اور ان کے لیے جاسوسی کرنے کا کہنا ہی کیا کیونکہ ان دونوں اقدامات سے تو مسلمانوں کو نقصان پہنچنا یقینی ہے۔ اسی لیے یہ دونوں گناہ لڑائی سے فرار کرنے سے بھی بڑے ہیں۔

حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو کوئی مسلمانوں کے دشمنوں کو لڑائی کے ہتھیار فراہم کرتا ہے جس سے وہ جیت جائیں وہ مشرک ہے۔" (مکاسب)

پیغمبر اکرم نے اس امت کے دس گروہوں کو کافر کہا ہے جن میں سے ایک گروہ ان کافروں کو ہتھیار بیچنے والا ہے جو مسلمانوں سے لڑائی لڑ رہے ہوں۔ (وسائل الشیعہ کتاب جہاد باب ۴۸ حدیث ۱۴)

واضح رہے کہ رہزنوں اور ان لوگوں کو اسلحہ بیچنا بھی جو مسلمانوں کے امن عامہ میں خلل ڈالتے ہیں کافروں کو ہتھیار بیچنے ہی کے برابر ہے جیسا کہ بیان ہو چکا ہے۔

بہتانا

جن کبیرہ گناہوں کا کبیرہ ہونا ترجیحی بنیاد پر قطعی ثابت ہے ان میں بہتان بھی شامل ہے۔ یعنی دوسرے کو ایسی بات یا عیب سے منسوب کیا جائے جو اس میں نہیں ہے کیونکہ جب غیبت کرنا یعنی دوسرے کے ایسے عیب کا ذکر کرنا جو اس میں موجود ہے گناہِ کبیرہ ہے تو بہتان یعنی ایسے عیب کا ذکر کرنا جو اس شخص میں نہیں ہے ضرور اس سے بھی پہلے اور عقل کے قطعی حکم سے گناہِ کبیرہ ہو گا بلکہ بہتان میں دو گناہ کبیرہ شامل ہوتے ہیں غیبت اور جھوٹ۔ چونکہ بہتان کی مصیبت عام ہے، اس کی خرابیاں ہیں، قرآن مجید اور روایتوں میں اس سے نہایت سختی سے منع کیا گیا ہے اور اس کے لیے سخت سزاؤں کا وعدہ کیا گیا اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر بعض آیتوں اور کچھ حدیثوں کا تذکرہ کر دیا جائے۔

سورة نور میں افک کی آیتیں

سورة نور میں افک کے موضوع پر اٹھارہ آیتیں یعنی آیت ۴ سے ۲۱ تک ملتی ہیں۔ اگرچہ ان آیتوں کی شانِ نزول خصوصیت کے ساتھ زنا کا بہتان ہے لیکن ان کے بیچ میں مطلق بہتان پر سخت تنبیہ کی گئی ہے جیسا کہ ذکر کیا جاتا ہے۔

مفسرین نے افک کی آیات کی شانِ نزول کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیتیں کچھ منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جنہوں نے پیغمبر اکرم کی بیوی عائشہ  پر تہمت لگائی تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول خدا نے بنی المصطلق کے غزوے عائشہ  کو خود روانہ کیا تھا اور انہیں ایک ہودج میں پردے میں سوار کر دیا تھا۔

حضرت عائشہ  کہتی ہیں: "جب ہم واپسی میں مدینے کے قریب پہنچے تورات کے وقت ایک منزل پر اُتر پڑے۔ آدھی رات کو میں اور ایک عورت دونوں مل کر قضائے حاجت کے لیے لشکر کے پڑاؤ سے دُور چلے گئے۔ جب ہم پلٹے تو مجھے معلوم ہوا کہ میں جو یمنی موتیوں کا گلوبند پہنے ہوئے تھی وہ غائب ہے۔ میں نے سوچا کہ جہاں میں قضائے حاجت کے لیے گئی تھی وہیں کہیں گر پڑ ا ہے اس لیے اندھیری رات میں اکیلی اٹھ کر وہاں پہنچی۔ بہت کچھ تلاش کیا نہیں ملا۔ پیغمبر خدا کو میرے جانے کی کوئی خبر نہیں تھی۔ آپ نے کوچ کا حکم دے دیا۔ لشکر روانہ ہو گیا۔ جو لوگ میرے ہودج پر تعینات تھے وہ آئے اور ہودج اونٹ پر رکھ کر اس خیال سے کہ میں ہودج میں بیٹھی ہوں روانہ ہو گئے۔

جب پڑاؤ میں واپس آئی تو میں نے کسی کو نہ پایا۔ جہاں میرا اونٹ تھا وہاں میں نے ٹٹولا تو گلوبند مل گیا اور میں وہیں بیٹھ گئی۔ مجھے نیند آنے لگی تو میں لیٹ گئی۔ میرا خیال یہ تھا کہ اطلاع ملنے پر میرا کوئی عزیز مجھے لینے ضرور آئے گا۔ اچانک صفوان بن المعطل جو پچھلی منزل میں سوتا رہ گیا تھا اور لشکر سے بچھڑ گیا تھا ایک اونٹ پر سوار آ پہنچا۔ اس نے مجھے دیکھا تو پہچان لیا اور کچھ کہے بغیر اونٹ بٹھا دیا میں اس پر سوار ہو گئی۔ اس نے اونٹ کی نکیل ہاتھ میں پکڑی اور چل دیا۔ ہم ٹھیک دوپہر کے وقت اس پڑاؤ پر پہنچے جہاں پیغمبر اکرم ٹھہرے ہوئے تھے اور پیغمبر کو میرے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔

جیسے ہی میرا اونٹ دُور سے نظر آیا عبداللہ بن ابی سلول اور کچھ اور منافقوں نے طنزاً کہا "پیغمبر کی بیوی ایک غیر مرد کے ساتھ بیابان سے آ رہی ہے۔" اس کے بعد اس منافق شخص نے کہا: "خدا کی قسم ان دونوں کے درمیان نامناسب حرکت واقع ہوئی ہے۔" اور یہ بہتان دوسرے منافقوں نے بھی دہرایا اور پھر مسلمانوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں جن میں سے بعض اس کی تردید اور نفی کرتے تھے اور کچھ خاموش ہو گئے۔"

جب یہ قصہ پیغبر اکرم کے کان تک پہنچا تو آپ سخت پریشان اور رنجیدہ ہوئے اور عائشہ  بھی بیمار ہو کر بستر سے لگ گئیں۔

جب اس واقعے کو ایک مہینہ اور سات دن گذر گئے تو رسول خدا عائشہ  کے حجرے میں پہنچے۔ انصار کی ایک عورت بھی حجرے میں تھی اور ایک روایت کے مطابق عائشہ  کے ماں باپ بھی تھے۔ پھر رسول خدا نے عائشہ  سے فرمایا: "اگر تم اس الزام سے بری ہو تو خدا تمہیں اس کا بدلہ دے (یعنی اس بہتان کے جواب میں جو تم پر باندھا گیا ہے) اور اگر تم نے خطا کی ہے تو توبہ کرو۔ خدا تمہاری توبہ قبول کرے گا۔"

عائشہ  نے کہا: "خدا جانتا ہے کہ میں اس الزام سے بری ہوں اور مجھ سے کوئی ایسی بات سرزد نہیں ہوئی جس سے میں خدا سے شرماؤں لیکن دشمنوں نے ایک بات بیچ میں ایسی کھڑی کر دی ہے کہ میں کچھ بھی کہوں وہ یقین نہیں کریں گے اس لیے اب میں اس کے سوا کچھ نہیں کہوں گی جو یعقوب نے کہا تھا یعنی "فصبر جمیل" یہ کہا اور دیوار کی طرف منہ پھیر کر رونا شروع کر دیا۔

رسول خدا وہیں بیٹھے ہوئے تھے کہ وحی آئی اور مذکورہ آیتیں نازل ہوئیں۔ جب آنحضرت وحی سے فارغ ہوئے تو آپ نے عائشہ  سے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو۔ خدا تمہیں بری کرتے ہوئے فرماتا ہے: "لوگوں نے تم پر جو بہتان باندھا ہے اسے تم اپنے حق میں بُرا (بدتر) نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے حق میں اچھا (بہتر) ہے (کیونکہ ان پر تمہارا بدلے کا حق پیدا ہو گیا ہے اور جو تم اس پر صبر کرو گے تو تمہیں ثواب ملے گا) ان میں سے جس جس نے جو گناہ کمایا ہے وہ اس کے لیے ہے (یعنی اس گناہ کا وبال اور سزا صرف اسی کو ملے گی) اور جس نے یہ اتنا بڑا بہتان باندھا ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔" (سورة نور آیت ۱۱) اور وہ شخص عبداللہ بن ابی سلول تھا اور بعضوں نے کہا کہ حسان بن ثابت تھا۔

پھر خدا فرماتا ہے: "جب مومن مردوں اور عورتوں نے یہ بات سُنی تھی تو انہوں نے ازخود اچھا خیال کیوں نہیں قائم کیا اور یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ کھلم کھلا جھوٹ ہے"۔ (سورة نو آیت ۱۲) یعنی مومنوں کو چاہیئے کہ جب کسی مومن کے متعلق کوئی بہتان سنیں تو خاموش نہ رہیں بلکہ ان پر واجب ہے کہ اس کی تردید کریں اور جھٹلائیں، مسلمانوں کے کام کو صحیح سمجھیں اور بدگمانی اور بُرے خیال سے بچیں۔

پھر خدا فرماتا ہے: "انہوں نے اس بات پر چار عادل گواہ کیوں نہیں پیش کیے (جیسا کہ شرع مقدس میں ہے کہ جو کوئی الزام لگائے اسے چاہیئے کہ اپنی بات کی سچائی ثابت کرنے کے لیے چار عادل گواہ لائیں۔ چونکہ انہوں نے چار گواہ پیش نہیں کیے اس لیے خدا کے نزدیک یہ جھوٹ ہیں"۔ بے شک اگر دنیا میں (توبہ کی بدولت ) اور آخرت میں (معافی اور بخشش کی بدولت )تم پر خدا کا فضل وکرم اور مہربانی نہ ہوتی تو جس بات کا تم نے چرچا کیا تھا اس کی وجہ سے تم پر کوئی بڑا سخت عذاب آ پہنچتا جبکہ تم اپنی زبانوں سے وہ بات ایک دوسرے سے بیان کرنے لگے اور اپنے منہ سے ایسی بات کہتے تھے جس کا تمہیں علم اور یقین نہیں تھا اور تم نے اسے چھوٹا اور حقیر سمجھا اور جبکہ وہ خدا کے نزدیک بہت بڑی با ت تھی۔" (سورة نور آیت ۱۳ تا ۱۵)

ان آیتوں کا ماحصل یہ ہے کہ تم نے تین گناہ کیے ایک یہ کہ تم نے ایسا جھوٹ بولا اور ایک دوسرے سے کہہ کہہ کر اسے فاش کیا۔ دوسرے یہ کہ تم نے وہ بات کہی جس کا تمہیں علم نہیں تھا یعنی تم نے وہ کہا جس کی تحقیق نہیں کی تھی اور تمہیں جس کی اصلیت کا علم بھی نہیں تھا۔ تیسرے یہ کہ تم اسے آسان اور حقیر اور چھوٹا سمجھتے تھے ۔

پھر خدا فرماتا ہے : "اور جب تم نے ایسی بات سُنی تھی تو تم نے لوگوں سے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ ہم کو ایسی بات منہ سے نکالنا مناسب نہیں۔ تم نے اس بڑی اور بُری بات پر تعجب کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا کہ اے خدا ! تو پاک ہے۔ یہ بات جو لوگ کہہ رہے ہیں بڑا بھاری بہتان ہے (اور اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ جس کے خلاف کہا گیا ہے کہ وہ جب سنے گا تو دنگ رہ جا ئے گا)۔ خدا تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو پھر کبھی ایسا گناہ نہ کرنا۔" (سورہ توبہ آیت ۱۶ ۔ ۱۷)

ان آیتوں سے اور دوسرے آیتوں سے جن کا طول ہو جانے کے خیال سے ذکر نہیں کیا گیا بہتان کا نہ صرف کبیرہ ہونا بلکہ کچھ کبیرہ گناہوں سے بھی بڑا ہونا اچھی طرح ظاہر ہو جاتا ہے۔

بہتان اور اہل بیت علیھم السلام کی روایات

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "جو کوئی کسی مومن مرد یا عورت کو تہمت لگائے گا یا اسے اس بات سے منسوب کرے گا جو اس میں نہیں ہے تو خدا اسے قیامت کے دن آگ کے مقام پر اس وقت تک رکھے گا جب تک وہ کہے ہوئے کی سزا نہیں پا لے گا۔" (بحار جلد ۱۶ ص ۱۷۰)

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو کوئی مومن مرد یا عورت پر بہتان باندھے گا اور ایسی بات اس سے منسوب کرے گا جو اس میں نہیں ہے خدا اسے قیامت کے دن طینہ خبال میں اس وقت تک بند رکھے گا جب تک وہ اپنے کہے ہوئے کی ذمہ داری پوری نہیں کر لیتا۔" راوی (ابن ابی یعفور) نے پوچھا: "طینہ خبال کیا چیز ہے؟" آپ نے فرمایا: "وہ پیپ ہے جو زنا کرنے والوں کی شرمگاہ سے جہنم میں بہے گی۔" (بحار جلد ۱۶)

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) یہ بھی فرماتے ہیں: "جو کوئی اپنے مومن بھائی پر تہمت لگائے گا اس کے دل سے ایمان اس طرح رخصت ہو جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔" (کافی) خلاصہ یہ ہے کہ تہمت دل کے بگاڑ اور ایمان کے زوال کا سبب ہوتی ہے۔

بہتان کی قسمیں

خدا پر بہتانا

خدا پر بہتان سب سے سخت بہتان ہے جیسا کہ خدا سورة صف میں فرماتا ہے "اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو خدا پر بہتان لگاتا ہے۔" (آیت ۷)

مثلاً وہ لوگ جو خدا کی عدالت یا حکمت سے انکار کرتے ہیں۔ جس طرح پیغمبروں کی نبوت سے انکار کرنے والے درحقیقت خدا کی حکمت کے منکر ہیں اسی طرح قیامت کے منکر بھی ہیں اور وہ لوگ بھی جنہوں نے خدا کا شریک ٹھہرایا ہے اور اس طرح خدا کے لیے طرح طرح کے بہت سے شرک کے قائل ہو چکے ہیں کیونکہ علم کے بغیر تمام باتیں محض افترا اور الزام ہیں جن کے لیے قرآن مجید کی آیتوں میں سخت تنبیہ کی گئی ہے اور جہنم کا وعدہ کیا گیا ہے بلکہ خدا پر بہتان کو کفر کے لوازم میں داخل کیا گیا ہے۔ سورة نحل میں کہا گیا ہے : "حقیقت میں وہ لوگ بہتان لگاتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہںٰ لائے ہیں اور یہی لوگ جھوٹ ہیں۔" (آیت ۱۰۵)

پیغمبر اکرم اور امام پر بہتانا

پیغمبر اکرم اور آئمہ علیھم السلام پر بہتان بھی خدا پر بہتان کے برابر ہے۔ مثلاً یہ کہ ان کو جادوگر، پاگل، شاعر، جھوٹا، خودپسند اور خود غرض کہیں۔ انبیاء اور آئمہ ہدیٰ صلوٰة اللہ علیہم کی بلند مرتبت نسل اور خاندان پر لگائے جانے والے بُرے انتہامات کی تفصیل کے لیے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے۔ یہاں اس تفصیل کی بیان کی گنجائش نہیں ہے۔

لوگوں پر بہتانا

باقی تمام لوگوں پر لگائے جانے والے اتہام کی دو قسمیں ہیں۔ کبھی بے تحقیق بات کہنا یعنی جو عیب ثابت نہ ہوا ہو اور جو یقینی نہ ہو بلکہ صرف بدگمانی کی بنیاد پر اسے دوسرے سے منسوب کر دیا جائے۔

کبھی افتراء ہے یعنی جس عیب کے بارے میں یہ جانتا ہے کہ وہ اس شخص میں نہیں ہے یا جس کام کے بارے میں یقین رکھتا ہے کہ وہ اس شخص سے ظہور میں نہیں آیا ہے اس غریب کی دشمنی میں وہ اس سے منسوب کر دیتا ہے اور اس سے بھی بُرا یہ ہے کہ جو عیب خود تہمت لگانے والے میں موجود ہو اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے اسے دوسرے سے منسوب کر دیتا ہے اور اپنی گندگی اس پر چپکا دیتا ہے جو پاکدامن ہے۔

خوب ظاہر ہے کہ یہ خدا کے بندوں پر لگایا جانے والا بدترین قسم کا بہتان ہے جیسا کہ خدا سورة نساء میں فرمایا ہے: "جو شخص غلطی سے چھوٹا سا گناہ کر بیٹھتا ہے یا جان بوجھ کر کوئی گناہ صغیرہ یا کبیرہ کرتا ہے اس کے بعد اسے کسی بے گناہ کے سرمنڈھ دیتا ہے تو اس نے گویا ایک بُرے افتراء کو (یعنی ایسے جھوٹ کو جس سے بے گناہ شخص دنگ رہ جاتا ہے) اور صریحی گناہ کو اپنے اوپر لاد لیا۔" (سورة نساء آیت ۱۱۲)

کافر پر بھی بہتان لگانا حرام ہے

تفسیر منہج میں لکھا ہے کہ طعمہ بن ابیرق کے تین بیٹے تھے جن کے نام بشر، مبشر اور بشیر تھے۔ ان تینوں میں سے بشر منافق شخص تھا۔ وہ ایک رات کو قتادہ بن نعمان کے گھر میں نقب لگا کر داخل ہو گیا اور آٹے کا ایک چرمی تھیلا جس میں ایک زرہ چھپا کر رکھ دی گئی تھی چرا لایا۔ اتفاق کی بات ہے کہ تھیلے میں ایک سوراخ تھا جس سے آٹا گرتا جاتا تھا یہاں تک کہ بشر اپنے گھر پہنچا۔ پھر وہ تھیلا زید بن السیمن کے گھر لے گیا جو یہودی تھا اور اسے اس کے پاس بطور امانت رکھ دیا۔ صبح کو قتادہ آٹے کے نشان سے بشر کے گھر پہنچا اور اس سے اپنی زرہ مانگی تو اس نے انکار کر دیا اور جھوٹی قسم کھائی کہ اس نے ایسا نہیں کیا اور اسے اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔ قتادہ اس طرف کھوج لگاتا ہوا چلا جدھر سے بشر زید یہودی کے گھر گیا تھا اور اس نے زید کو بے ایمانی میں پکڑ لیا۔ زید نے کہا کہ کل رات کو بشر تھیلے میں چھپی ہوئی زرہ میرے سپرد کر گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس بات کی گواہی بھی دی۔ قتادہ نے یہ صورت حال رسول خدا کی خدمت میں جا کر عرض کی۔ بشر کا قبیلہ بنی ظفر بدنامی کے ڈر سے یہ نہیں چاہتا تھا کہ بشر پر تہمت لگے اور یہودی صاف چھوٹ جائے۔ لہٰذا بشر کے قبیلے والوں نے جھگرا شروع کر دیا اور بشر کی بے گناہی کی گواہی دے دی۔ اس پر خدا نے اس بارے میں سورة نساء کی آیت ۱۰۵ سے ۱۱۳ تک یعنی ۹ آیتیں نازل فرمائیں۔(ان آیتوں کا مطلب جاننے کے لیے تفسیر ملاحظہ فرمائیے۔)

ان آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ان میں بہتان اور افتراء کو حرام بتایا گیا ہے چاہے وہ کافر کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ ان میں بہتان باندھنے والے کو کئی بار غدار اور بے وفا کہا گیا اور پیغمبر کو اس کی حمایت سے منع کیا گیا ہے چاہے وہ ظاہر میں مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔

دغابازی کا انجام

تفسیر المیزان میں لکھا ہے کہ بشر کا انجام یہ ہوا کہ خدا نے اس کی توبہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور وہ مکے کے مشرکوں کی طرف چلا گیا۔ وہاں اس نے چوری کی خاطر ایک گھر میں نقب لگائی تو خدا نے وہ گھر ہی اس کے سر پر ڈھا کر اسے مار ڈالا۔

اس کا علاج ایمان کا حاصل کرنا ہے

واقعی اس قسم کے بہتان کا سبب بے ایمانی، سنگدلی، کمینگی، بے خوفی، فحاشی اور بے غیرتی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا اور اس کا علاج ایمان حاصل کرنے، اسے پختہ کرنے اور دنیا کی سختیوں کے نتائج اور آخرت کی سزاؤں پر غور کرنے سے ہو سکتا ہے۔

بد گمانی

دوسرے قسم کے بہتان کا سبب جس میں علم وتحقیق کے بغیر کوئی بات کسی سے منسوب کر دی جاتی ہے غالباً بدگمانی ہے یعنی کسی کی دیکھی یا سنی ہوئی بات کو خراب سمجھے اور اپنی بدگمانی پر چلے اور اس کام کے متعلق صحیح خیال اور صحیح سبب کی طرف توجہ نہ دے۔

لہٰذا قرآن مجید اور بہت سی روایتوں میں مسلمانوں کو دوسروں سے بدگمانی رکھنے کے خلاف منع کیا گیا اور حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے عمل کے متعلق اچھا خیال قائم کیا کرو۔ یہاں مزید معلومات کے لیے اس کے متعلق ملنے والی کچھ آیتیں اور روایتیں بیان کی جاتی ہیں۔

بعض خیالات گناہ ہوتے ہیں

سورة حجرات میں بتایا گیا ہے: "اے وہ لوگو! جو خدا پر ایمان لائے ہو اپنے بہت سے خیالات دُور کر دو( کیونکہ وہ مومن بھائی کے بارے میں بدگمانیوں ہیں)۔ بلاشبہ بعض خیالات گناہ ہیں اور لوگوں کے ان عیبوں کی جستجو نہ کرو جو تم سے چھپے ہوتے ہیں۔" (آیت ۱۲)

غرض یہ آیت اپنے مومن بھائی کے متعلق بدگمانی کرنے سے منع کرتی ہے۔

سورة بنی اسرائیل میں خدا فرماتا ہے: "اس پر نہ چلو جس کا تمہیں علم نہیں ہے۔ بلاشبہ کان، آنکھ اور دل سب سے پوچھ گیچھ ہو گی۔" (آیت ۳۶)

اچھا گمان کرنا چاہیئے

حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اپنے دینی بھائی کے کام کو اس وقت تک اچھا ہی سمجھو جب تک کہ کوئی ایسی دلیل تمہارے ہاتھ نہ آ جائے جو تمہیں مجبور کر دے اور تمہارے لیے اس کے درست ہونے (اور اسے صحیح سمجھنے) کا راستہ بند نہ کر دے اور اپنے بھائی کی کہی ہوئی کسی بات پر بدگمان نہ ہو جانا جب تک کہ تمہیں اس کی کوئی اچھی بنیاد یا درست وجہ مل سکتی ہو۔" (کشف الریبہ شہید ثانی)

علّامہ مجلسی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: "یعنی اپنے دینی بھائی کے ہر فعل وعمل کو اچھائی پر محمول کرو چاہے وہ ظاہر میں اچھا نہ ہو اور اس کی اس وقت تک پڑتال نہ کرو جب تک کوئی ایسی دلیل جو اس کی تاویل کرنے سے روکتی ہو تمہارے ہاتھ نہ آ جائے کیونکہ بہت سے خیالات خطا پر مبنی ہوتے ہیں اور پوچھ گچھ کی بھی ممانعت ہے جیسا کہ خدا نے فرما دیا ہے: "ولاتجسسوا"جستجو نہ کرو۔

حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام)نے نہج البلاغہ میں حدیث کا یہ جملہ نقل کیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی مومن کے منہ سے ایسا لفظ نکلے جس کے دو معنی ہوں تو تجھے لازم ہے کہ اس کے اچھے ہی معنی نکال چاہے وہ معنی مجازی ہوں یا کنائے سے نکلتے ہوں اور کوئی قرینہ بھی نہ ہو خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ کہنے والا یہ دعویٰ کرے کہ میں نے صحیح اور اچھے معنی ہی کا قصد کیا ہے۔

ایک بار حجاج لعین نے قبعثری کو دھمکی دی اور کہا: لاحملنک علی الادھم یعنی میں تجھے ادھم (بیڑی اور زنجیر) پر سوار کرا دوں گا (کھینچوں گا) قبعثری نے کہا:مثل الامیر یحمل علی الادهم والاشهب یعنی ایسا امیر ہونا چاہیئے جو اودہم (سیاہ رنگ کا گھوڑا جو بہترین قسم کا سمجھا جاتا ہے) پر سوار کرائے۔ حجاج نے کہا: اردت الحدید ادھم سے میرا مطلب لوہا تھا گھوڑا نہیں تھا۔ قبعثری بولا: لان یکون حدیداً خیر من ان یکون بلیدا ،تیز نگاہ اور چوکنا گھوڑا سست سے بہتر ہوتا ہے۔ ( ۱)

اس حکایت میں جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ قبعثری نے حجاج کی ڈانٹ ڈپٹ کو اس کی عنایت اور مہربانی پر محمول کر کے کلمہ حدید کے جس کے بظاہر معنی بیڑی اور لوہے کے ہیں مجازی معنی نکالے جو گھوڑے وار چست وچالاک کے ہیں۔ مسلمانوں کے تمام اقوال اور افعال کے معاملے میں یہی رویہ اختیار کرنا چاہیئے اور جہاں تک ہو سکے انہیں خرابی اور بُرائی کے بجائے درستی اور اچھائی پر محمول کرنا چاہیئے۔

(۱) چلیی مطول کے حاشیے میں لکھا ہے : قبعثری ایک شاعر اور ادیب تھا۔ ایک دن وہ اپنے ہم خیال ادیبوں کی جماعت کے ساتھ ایک باغ میں تھا اور وہ زمانہ کھجوریں توڑنے کا تھا۔ کسی نے حجاج خونخوار کا نام لیا تو قبعثری بولا: اللّٰھم سود وجہہ واقطع عنقہ واسقنی من دمہ "یعنی اے خدا! اس کا منہ کالا کر، اس کی گردن کاٹ ڈال اور مجھے اس کا خون پلا۔ قبعثری کی یہ ہجو حجاج کے کان تک بھی پہنچ گئی تو اس نے اسے بلوایا اور اس سے سخت بازپرس کی۔ قبعثری نے کہا :اردت بذلک الحصرم ،ان الفاظ سے میری مراد کھجوریں تھیں، میں نے کہا تھا کہ اے خدا ان کا رنگ کالا کر دے اور انہیں درخت سے الگ کر کے مجھے کھلا دے۔ حجاج نے یہ تشریح نہیں مانی اور اسے ڈراتے ہوئے کہنے لگا: لاحملنک علی الادھم میں تجھے بیڑیوں پر سوار کراؤں گا اور چونکہ لفظ ادھم عربی میں بیڑی کے علاوہ بھی معنی رکھتا ہے اور وہ ہیں مثلی گھوڑے کے، جس کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ قبعثری نے حجاج کے لفظ ادہم کو ان معنوں میں لیا اور بولا مثل الامیر یحمل علی الادھم والاشھب یعنی ایسا قوی اور سخی امیر ہونا چاہیئے جو خالص کالے یا خالص سفید گھوڑے پر سوار کرائے۔ حجاج نے کہا: اردت الحدید یعنی یعنی ادہم سے میری مراد لوہے کی بیڑی تھی گھوڑا مراد نہیں تھا۔ حدید کا لفظ لوہے کے علاوہ چونکہ دوسرے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور وہ ہیں تیز نگاہ اور چست وچالا۔ قبعثری نے حجاج کے لفظ حدید سے دوسرے معنی نکالے اور کہا: لان یکون حدیداً خیر من ان یکون بلیداً یعنی بے شک چست وچالاک گھوڑا سست سے بہتر ہوتا ہے۔جب حجاج نے قبعثری کی معنی آفرینی کی قابلیت دیکھی تو اس نے غصہ تھوک دیا اور اسے معاف کر کے انعام واکرم دیا۔یہ قصہ بیان کرنے سے علامہ مجلسی  کی غرض اچھے معنی مطلب نکالنے سے ہے کہ سننے میں جو بات بظاہر بے جا اور تکلیف دہ بھی ہو اس کے خوشگوار اور اچھے ہی معنی نکالنے چاہئیں۔ جس طرح قبعثری اچھی توجیہ وتشریح کر کے حجاج کے شر سے بچ گیا بلکہ اس کی عنایت کا مستحق بھی بن گیا۔ اسی طرح جو انسان دوسروں کے قول یا فعل کے اچھے معنی ومطلب نکالے گا وہ خرابیاں پیدا کرنے والی دنیا اور آخرت کی برائیوں سے بچ جائے گا اور اپنی اچھی توجیہ کی بدولت خیر وخوبی حاصل کر لے گا۔

مومن سے بدگمانی حرام ہے

شہید ثانی علیہ الرحمہ کشف الریبہ میں فرماتے ہیں: "جس طرح مومن کی برائی کرنا اور مومن کی برائیاں بیان کرنے میں زبان چلانا حرام ہے اسی طرح اس کی طرف سے بدگمانی بھی حرام ہے۔"

حرام بدگمانی کا مطلب یہ ہے کہ اسے کسی پختہ دلیل کے بغیر محض اپنے دل سے بُرا سمجھو البتہ دل میں صرف خیال کا پیدا ہونا چونکہ اختیاری بات نہیں ہے اس لیے وہ حرام نہیں ہے اور قابلِ معافی ہے۔ (حدیث نبوی کے مطابق جسے حدیث رفع کہتے ہیں) خدا نے فرمایا: "بہت سے خیالات سے بچو درحقیقت کچھ خیالات گناہ بھی ہوتے ہیں۔"

جب تک دوسرے کی بُرائی تمہارے سامنے ظاہر نہ ہو جائے اور اس کے اچھے معنی بھی نہ نکالے جا سکیں اس وقت تک دوسرے کے متعلق بُرا خیال قائم نہ کرو۔

جو بات تم پر کھلی نہ ہو اور تمہارے دل میں ٹھہر جائے تو سمجھو کہ وہ بدگمانی شیطان نے تمہارے دل میں ڈال دی ہے تمہیں چاہیئے کہ تم اسے جھٹلاؤ کیونکہ وہ سب سے سخت اور خراب قسم کا گناہ ہے۔

اسی لیے شرع میں ہے کہ جب تمہیں کسی کے منہ سے شراب کی بُو آئے تو یہ نہ کہو کہ فلاں شخص نے شراب پی ہے اور نہ اس پر حد جاری کرنا چاہیئے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس نے کلی کر کے ہی منہ سے نکال دی ہو یا دوسرے نے اس کے منہ میں زبردستی انڈیل دی ہو یا وہ اسے پانی کے دھوکے میں پی گیا ہو اس طرح کے اور بھی احکامات ہو سکتے ہیں اس لیے مسلمان سے بدگمانی جائز نہیں ہے۔

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "مسلمان کا خون بہانا، اس کا مال لوٹنا اور اس سے بدگمانی کرنا حرام ہے۔" (کشف الریبہ شہیدثانی  )

یہاں تک کہ آپ فرماتے ہیں: مسلمان کے خلاف جو بدگمانی دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اگر تم یہ نہیں جانتے کہ دل میں صرف خیال کا بے اختیار گذرنا قابلِ معافی ہوتا ہے یا یہ کہ بُرے خیال کا دل میں بیٹھ جانا اختیار اور قابلِ سزا ہوتا ہے تو سمجھ لو کہ جیسے ہی اس مسلمان کی نسبت تمہاری حالت بدلی، تم اس سے بد دل ہوئے، تمہیں وہ کھلنے لگا اور تم

نے اس کے احترام میں کمی اور سستی کی اور اس خیال سے پہلے کی طرح تم اس کی پریشانی سے غمگین نہیں ہوتے تو یہ حرام بدگمانی اور اس کی طرف سے دل میں کانٹے پڑ جانے کی نشانی ہوتی ہے۔"

پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے: "جب کسی مومن کو کسی مسلمان سے بدگمانی پیدا ہو جائے تو اس کے لیے اس سے بچاؤ کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ اس بدگمانی کو دل میں نہ بیٹھنے دے اور اس پر عمل نہ کرے۔" (کشف الریبہ شہیدثانی )

یعنی اپنے کردار اور گفتار میں اس کے خلاف پیدا ہو جانے والی بدگمانی کے مطابق عمل نہ کرے بلکہ شیطان پر غالب آنے کے لیے یہ مناسب ہے کہ اس شیطانی خیال کے بعد اس مسلمان سے اچھا اور بہتر سلوک کرنے لگے اور اس کا زیادہ احترام اور اس کے حقوق کا زیادہ لحاظ کر کے شیطان کو اندھا بنا دے۔ (کشف الریبہ شہید ثانی  )

قرآن مجید کی بے احترامی کرنا

فیما کان عظیما فی انفس اهل الشرع

یعنی گناہ کبیرہ معین کرنے کا (چوتھا)طریقہ یہ ہے کہ جو گناہ اہل شرع کی نظر میں بڑا ہو اور جناب رسولِ خدا اور آئمہ اطہار (علیہم السلام) کے زمانے سے لے کر اب تک ہر دین دار کے نزدیک اس کا بڑا ہوناثابت ہو وہ گناہ کبیرہ کہلائے گا،دین میں ان محترم اور مقدس چیزوں کی بے حرمتی اور توہین جن کا احترام دین مقدس اسلام میں لازم اور ضروری ہو مثلاً قرآن مجید کی بے احترامی کعبہ معظمہ مکہ مکرمہ مساجد اور چھاردہ معصومین (علیہم السلام) کے مزارات منجملہ تربت شریفہ حضرت سید الشہداء (علیہ السلام) کا احترام واجب اور ان کی توہین و بے حرمتی حرام ہیں۔یہاں ان مقدسات کے متعلق مختصر احکام بیان کئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔

قرآن کا احترام مذ ہب کی ضروریات میں سے ایک ہے

ہر مسلمان بدیہی طور پر اچھی طرح جانتا ہے کہ قرآن مجید خلاق کائنات کا کلام پاک ہے۔عالم اسلام کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز و شریف اور لازم الاحترام کتاب ہے اور کوئی شئے اس سے زیادہ محترم وعزیزنہیں۔حضرت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ)نے قرآن کو ثقل اکبر(گرانبا)کے نام سے یاد کیا ہے چنانچہ فرمایاانی تارک فیکم ا لثقلین ان القران هو الثقل الاکبر و ان وصی هذ وابنای و من خلفهم من اصلال بهم هم الثقل الاصغر (سفینہ البحار جلد اول ص ۱۳۲)

میں تم مسلمانوں کے درمیان دوگرانبہا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ان میں قرآن ثقل اکبر ہے۔اور میرا یہ وصی (علی بن ابی طالب (علیہ السلام))اور میرے دو بیٹے(حضرت حسن اور حضرت حسین + اور سادات عظام) اور ان کی اولاد(نو امام (علیہم السلام) ) ثقل اصغر ہیں۔

بہترین ثواب

حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) ایک طویل حدیث میں قرآن کی عظمت و شرافت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں قیامت کے دن قرآن کہے گاپرودگار تیرے کچھ بندوں نے میری حرمت کا مکمل خیال رکھا میری حفاظت کی اور میری کسی چیز کو ضائع ہونے نہ دیا لیکن کچھ دوسرے بندوں نے مجھے ضائع کیا ۔میرا حق ادا نہیں کیا اور جھٹلایا۔

فیقول تعالیٰ و عزتی وجلالی و ارتفاع مکانی لاثیبین علیک الیوم احسن الثواب ولا عاقبن علیک الیوم الیم العقاب (اصول کافی جلد ۲ ص ۵۹۷)

اس وقت خداوندعالم فرمائے گا مجھے میری عزت و بزرگی اور بلند مقام کی قسم آج میں بہترین ثواب تمہارے لئے اور بد ترین اور دردناک عذاب کو تمہارے خاطر مقرر کروں گا۔

جناب امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی هےفیقول الجبار و عزتی وجلالی و ارتفاع مکانی لاکرمن الیوم من اکرمک ولا هینن من اهانک (اصوک کافی فضل قرآن حدیث ۱۴ ج ۲ ص ۶۰۲) خداوند جبار فرماتا ہے مجھے میری عزت وجلال اوربلندی مقام کی قسم آج میں اس کا احترام کروں گا جس نے تیرا احترام کیا اور اسے ضرور ذلیل کروں گا جس نے تجھے ذلیل کیا۔

ہر مسلمان اس حقیقت سے واقف ہے کہ قرآن کی توہین کرنا گناہ کبیرہ ہے۔قرآن کی توہین گویا خداوند اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توہین ہے۔

قال رسول (صلی الله علیه و آله) انا اول وافد علی العزیز الجبار یوم القیامته وکتابه واهل بیتی ثم امتی ثم اسئلهم مافعلتم بکتاب اللّٰه و باهل بیتی (اصول کافی فضل القرآن حدیث ۴ ص ۶۰۰)

جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا میں وہ پہلا شخص ہوں گا جو قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوں گا میرے ساتھ میرا خاندان اور اس کی کتاب ہو گی اس کے بعد میری امت حاضر ہوگی پھر میں ا پنی امت سے پوچھوں گا کہ تم نے کتاب خدا اور میرے اہل بیت سے کیا سلوک روارکھا ۔

قرآن اور اس کے احکام کی توہین کے معنی

اہانت کی تشخیص کے لئے عرف کی طرف رجوع کرنا چاہئے بنا بر ایں ہر وہ کردار و گفتار جو عرف عام میں قرآن کی تذلیل یا ھتک حرمت سمجھی جائے وہ کردار و گفتار حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔حرام اور گناہ کبیرہ اس صورت میں سمجھا جائے گا اگر ہتک حرمت قرآن اور اس کی تذلیل میں مرتکب شخص کا قصد دین اسلام اور شریعت حضرت سید المرسلین (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توہین ہو بصورت دیگر اس کا یہ عمل کفر و ارتداد کا موجب ہو گا۔کیوں کہ توہین قرآن حرام ہے اور یہ ضروریات دین میں سے ایک ہے لہٰذا اگر کوئی جان بوجھ کر قرآن مجید کو پاوں تلے کچلے یا اسے نجس چیز میں پھینک دے تو بظاہر اس عمل سے دین کی اہانت اور حرمت قرآن سے انکار لازم آتا ہے۔اس صورت میں ایسا شخص کافر ہے اور اس کا خون بہانا مباح ہو گا۔مگر وہ تسلیم کرے کہ یہ عمل غصہ کی حالت میں اس سے سرزد ہوا اور یہ اقرار کرے کہ اس وقت میرے ہوش و حواس بر قرار نہ تھے۔اس موقع پر مناسب ہے کہ قرآن مجید کے احترام واجب اور اس کی اہانت حرام ہونے کے متعلق اہم نکات کی طرف توجہ مبذول کرائی جائے۔

( ۱) قرآن مجید کی جلد،غلاف،اس کے اوراق(یعنی وہ مقامات جہاں قرآنی حروف وکلمات نہ ہوں جیسے حواشی)اور حروف وخطوط کی توہین حرام ہے۔اسی طرح ان کا نجس کرنا بھی حرام ہے اگر ہتک حرمت قرآن ہو رہی ہو اس صورت میں اس کا پاک کرنا واجب ہے۔

( ۲) نجس سیاہی سے قرآن کا لکھنا حرام ہے اگر نجس سیاہی سے لکھا جائے یا لکھنے کے بعد نجس ہو جائے تو اس کا پاک کرنا واجب ہے اور اگر پاک نہ ہو سکے تو اسے محو کر دینا چاہیے۔

( ۳) کسی کافر کے ہاتھ میں قرآن کا دینا حرام ہے بشرطیکہ اس عمل سے قرآن کی بے حرمتی یا حروف کے چھونے کا موجب بنے ۔لیکن بعض علماء فرماتے ہیں کسی حالت میں بھی جائز نہیں ہے ایسی صورت میں کافر کے ہاتھ سے قرآن کا واپس لینا واجب ہے۔

( ۴) اگر قرآن مجید یا اس کا کوئی ورق یا معصوم کی روایت یا کوئی انگشتری جس پر خدا کا نام نقش ہو یا تربت سید الشہداء (علیہ السلام) یا اسی قسم کے دوسری اشیاء جو دین و مذہب کی نگاہ میں محترم ہوں ان کی توہین حرام اور احترام واجب ہے۔اگر خدانخواستہ پاخانے میں گر جائے تو فوراً نکالنا اور پاک کرناواجب ہے۔اگرچہ اس پر کتنا ہی خرچ آئے جب تک اسے باہر نہ نکالا جائے وہاں رفع حاجت کرنا حرام ہے اگر باہرنکالنا ممکن نہ ہو تو اسے بند کر دینا چاہئے تا کہ اس میں مزید رفع حاجت کا امکان باقی نہ رہے۔دینی قابل احترام چیزوں کا نجاست سے باہر نکالنا پاک کرنا وغیرہ کے واجب ہونے کا تعلق صرف مالک یا نجس کرنے والے ہی سے نہیں بلکہ ہر اس مسلمان پر واجب ہوتا ہے جسے اس کے متعلق علم ہو۔لیکن یہ واجب کفائی ہے۔یعنی اگر کوئی ایک فرد اس کا انجام دے دے تو دوسروں پر وجوب ساقط ہو جائے گااور اگر سب کو معلوم ہو نے کے باوجود کوئی بھی اسے انجام نہ دے تو سب کے سب قابل مواخذہ اور جوابدہ ہوں گے۔

( ۵) محدث(یعنی وہ شخص جسے نماز پڑھنے کے لئے وضو یا غسل کرنا ہے کا قرآ ن کے حروف کو چھونا حرام ہے اس میں فرق نہیں کہ ہاتھ سے مس کرے یا لبوں سے بوسہ دے یا دوسرے اعضائے بدن سے بہر حالت حرام ہے۔اس حکم کے فروعات بہت زیادہ ہیں ان کو جاننے کیلئے کتاب عروة الوثقی فصل وضو مسئلہ ایک سے انیس تک کا مطالعہ فرمائیں۔

( ۶) جناب شیخ انصاری مکاسب محرمہ کے اختتام پر فرماتے ہیں کہ فقہاء کی ایک جماعت نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ قرآن مجید کی خرید وفروخت حرام ہے انہوں نے اس کی دلیل میں ایک روایت نقل کی ہے جس کے بیان کرنے کی گنجائش ان صفحات میں موجود نہیں۔بنا بر ایں صرف قرآن کی جلد اور اس کے صفحات و اوراق کی قیمت کی نیت سے خریدنا یا فروخت کرنا چاہیے یعنی قرآن کی قیمت قرار دنہ دے اور فروخت کرنے والا ہدیہ کے طور پر خریدنے والے کو پیش کرے۔

ایک ضروری یاد دہانی

جو شخص معرفت الہٰی سے زیادہ فیضیاب ہو اور پروردگار کی عظمت جلال کا ادراک کسی قدر نصیب ہو اہو ایسے سعادت مند کی نگاہ میں کلام الہی قرآن مجید بے حد عظیم ہے اس لئے جس قدر ممکن ہو اس کے ادب و احترام اور تعظیم بجالانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑے گا۔پھر بھی وہ اپنے آپ کو قصور وار ٹھرائے گا کہ کماحقہ کلام الہٰی کا حق اد انہ کرسکا۔

ایسا انسان کبھی وضو کے بغیر قرآن کو ہاتھ لگانے کی جرات نہیں کرے گا یعنی حدث کی حالت میں قرآن کے جلد اور حواشی تک کو مس نہ کرے نجس شدہ ہاتھ سے چاہے خشک ہی کیوں نہ ہو قرآن کو نہ چھوئے اور حالت حدث میں اس کو اپنے ساتھ نہ رکھے۔اگر قرآن ہمیشہ ساتھ وہ تو ہمیشہ باوضو رہے۔بیٹھتے وقت قرآن کی طرف پشت نہ کرے۔اس کی طرف پاوں لمبے کر کے نہ بیٹھے کوئی اور چیز قرآن کے اوپر نہ رکھے ۔قرآن کی تلاوت کے وقت با ادب روبہ قبلہ بیٹھے حضور قلب ،نہایت آرام سے حکمت و موعظہ سے تاثر لیتے ہوئے غورفکر کے ساتھ تلاوت کرے چونکہ فرمان پروردگار ہے افلایتدبرون القران ام علی قلوب اقفالھا (سورہ محمد آیت ۲۴) " کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی)غور نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے ) ہیں۔"

اگر کوئی دوسرا تلاوت میں مشغول ہو تو اسے سنے اور احتراماً خاموشی اختیار کرے جیسا کہ حکم خدا ہے( واذا قرات القران فاستمعوا له و انصتوا لعلکم ترحمون ) (سورہ اعراف آیت ۲۰۴)" جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کے سنو اور چپ چاپ رہو تاکہ (خدا)تم پر رحم کیا جائے۔"

اگر کسی ایسی مجلس میں حاضر ہو جہاں اہل مجلس آداب و احترام کو ملحوظ خاطر نہ رکھتے ہوں اور کان لگا کر نہیں سنتے ہوں تو وہاں قرآن کی تلاوت نہ کرے۔ کتاب گلزار اکبری گلشن اکیاون میں ابو الوفاء ہروی سے نقل کیا گیا ہے ۔وہ فرماتے ہیں میں بادشاہ وقت کے دربار میں قرآن کی تلاوت کر رہا تھا حاضرین نہیں سن رہے تھے اور باتوں میں مصروف تھے ،رات میں نے حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو خواب میں دیکھا کہ آپ کے چہرے کا رنگ بدلا ہو اتھا مجھے خطاب کرتے ہوئے فرمایا "اتقراء القران بین یدی قوم وهم یتحدثون ولا یستمعون انک لا تقرابعد هذالا ماشاء اللّٰه "کیا تم قرآن کی تلاوت ایسے گروہ کی مجلس میں کرتے ہوجو آپس میں مصروف گفتگو رہتے ہیں اور نہیں سنتے ہیں۔اور بے شک تم آج کے بعد(آداب قرآن کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے )قرآن کی تلاوت نہ کر سکو گے مگرخدا کی مرضی شامل حال ہو۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنے آپ کو گونگا پایا۔لیکن آپ نے فرمایا تھا الا ماشاء اللہ (مگر مرضی خدا کی شامل حال ہو)اس لئے امید تھی کہ میری گوئی بحال ہو جائے گی ،چارمہینے گزرنے کے بعد اسی جگہ جہاں میں نے پہلے خواب دیکھا تھا پھر جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو خواب میں دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔فرمانے لگے قدتبت یقینا تم نے توبہ کی ہے۔میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) من تاب تاب علیہ جو شخص تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے خدا بھی اس کی مغفرت کی طرف رجوع کرتا ہے۔بعد میں فرمایا اپنی زبان باہر نکالو میں نے باہر نکالا تو آپ نے اپنی اشارہ کی انگلی سے میری زبان کو مس کیا اور متنبہ کرتے ہوئے فرمایا "اذا کنت بین یدی قوم تقرء کلام فقطع قرائتک حتی یسمعوا کلام رب العزة "جب تم کسی جماعت کے درمیان قرآن پڑھو(اور وہ نہ سنے)تواپنی تلاوت کو روک دوجب تک اہل مجلس کلام ربّ العزت کو سننے کے لئے تیار نہ ہوں۔جب میں نیند سے بیدار ہواتو میری گویائی لکنت بحال ہوچکی تھی۔کتاب مذکور کے گلشن ۸۰ میں دینی مقدسات کے احترام اور توہین کے بارے میں کچھ حکایتیں نقل کی ہے شائقین رجوع فرمائیں۔یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ جس طرح قرآن عظیم کی اہانت و استخفاف گناہ کبیرہ اور حرام ہے اسی طرح چہاردہ معصومین (علیہم السلام)سے منقول روایات اور احادیث کا مجموعہ جیسے صحیفہ سجادہ وغیرہ کی ہتک حرمت بھی حرام ہے۔مثلاً ان کو لا پراوہی سے زمین پھینک دینا یا ان پر پاوں رکھنا وغیرہ جو عرف عام میں توہین سمجھا جائے تو حرام ہے۔