گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 105631
ڈاؤنلوڈ: 5726

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105631 / ڈاؤنلوڈ: 5726
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

گناہ صغیرہ کا اصرار (تکرار) بھی کبیرہ ہے

اس سلسلے میں عرض ہے کہ گناہ صغیرہ کی تکرار کبیرہ بننے کا سبب ہوتی ہے۔چونکہ یہ بات مسلّم ہے کہ بار بار گناہ صغیرہ کا مرتکب ہونے پر گناہ کبیرہ کا حکم لاگو ہوتا ہے ۔انشاء اللہ ہم اس بحث کو "گناہ صغیرہ پر اصرار" کے باب میں تفصیل سے بیان کریں گے۔

پس گناہان ِکبیرہ کو مبہم کرنے میں ہی اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت مضمر ہے۔ تا کہ اس کے بندے دوسرے گناہوں سے اجتناب کریں اور گناہان ِ کبیرہ میں ملوّث نہ ہو جائیں اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ چھوٹے گناہوں کو کمتر سمجھنا کبیرہ بننے کا موجب ہوتا ہے چناچہ آگے اس پر روشنی ڈالی جائے گی۔

خرابی میں پڑنا ثواب سے محرومی کا سبب ہے

(یہ بھی اعتراض کا جواب ہو سکتا ہے )گناہان ِصغیرہ کی خرابیوں میں پڑنے سے بندہ ان نیکیوں کے اجروثواب سے محروم رہتا ہے جو کہ گناہانِ صغیرہ کے ترک کرنے پر دیا جاتا ہے ۔چوں کہ ہر وہ عمل جس سے باز رہنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اس میں دینوی یا اخروی کوئی نہ کوئی فساد ضرور ہوتا ہے ۔اس لئے جب کوئی بندہ گناہ ِصغیرہ کا مرتکب ہو جائے تو گناہِ کبیرہ سے دوری کی برکت سے وہ گناہِ صغیرہ بخش دیا جاتا ہے ۔البتہ گناہ کی مقدار جس قدر ہو اسی قدر اس کا دل سیاہ ہو جا تا ہے ۔ البتہ جب باوجودِقدرت کے بڑے گناہ سے اجتناب کرے تو اس کی تلافی ہو سکتی ہے ۔علاوہ برایں جب اللہ کی خوشنودی کے لئے اسے چھوڑ دیتا ہے تو وہ ثواب کا مستحق بھی بنتا ہے ۔

اس بیان سے معلو م ہوا کہ گناہِ صغیرہ کا مرتکب اس گناہ کی خرابیوں سے دنیا یا آخرت میں دوچار ضرور ہو گا۔ اور گناہ ترک کرنے کے ثواب سے بھی محروم رہے گا ۔ شائد اسی مطلب کو ملحوظ رکھ کر معصوم علیہ السلام نے فرمایا ہے :

هَبْ غَفَرَ اللّٰهُ ذُنُوْبَ الْمُسِیْئِیْنَ فَقَدْ فَاتَهُمْ ثوابَ الْمُحْسِنِیْن

خدا گناہ گاروں کے گناہوں کی مغفرت فرمائے یہ لوگ یقینا اچھے کاموں کے ثواب سے محروم ہو گئے (یعنی ترکِ گناہ کا ثواب حاصل نہ کر سکے۔)

( ۲) اھلِ بیت کی طرف رجوع کرنا چاہیے

یہ عنوان بھی دوسرے بہت سے مطالب کی طرح قرآنِ مجید میں مختصر طور پر ذکر ہوا ہے لیکن ان کی تشریح و توضیح حضرت پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نیز ائمہ اطہار کے پاکیزہ دلوں میں جو کہ علم و حکمت اور وحی الہٰی کا خزینہ ہیں۔ الہام کے ذریعہ ودیعت فرمائی گئی ہے ۔ اور بندوں کو ان کی طرف مراجعہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ اس بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکَر لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَاُنزِّلَ اِلَیْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَّفَکَّرُوْنَ

(سورہ ۱۶ ۔آیت ۴۴)

اور تمہارے پاس قرآن نازل کیا ہے جو کہ ذکر ہے تاکہ جو احکام لوگوں کے لئے نازل کئے گئے تم ان سے صاف صاف بیان کر دو تا کہ وہ لوگ خود سے کچھ غور و فکر کریں ۔ اور اسی طرح اہلِ بیت رسولِ خدا کی طرف لازمی طور پر رجوع کرنے کے لئے قرآنِ شریف میں فرماتا ہے:

فَاسْئَلُوْا اَهْلَ الذِّکرِ اِنْ کُنْتُم لَا تَعْلَمُوْنْ (سورہ ۱۶ ۔آیت ۴۳)

اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ِذکر سے پوچھو۔

اہل بیت اطہاراہل ذکر کیوں ہیں؟

اس بارے میں بہت سی روایتیں ہمارے پاس موجود ہیں کہ اہل الذکر سے مراد اہل بیت رسول مختار ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مجلس مامون میں جب امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا:"ہم اہل الذکر ہیں"۔ علمائے عامّہ اس مجلس میں حاضر تھے ، کہنے لگے، اہل الذکر سے مراد یہودونصاریٰ ہیں اور ذکر کا مطلب توریت و انجیل ہے۔ تو حضرت نے ان کو جواب دیا:

سُبْحانَ اللّٰهِ هَلْ یَجُوْزُ ذٰلِکَ اِذایَدعُوْنَا اِلٰی دِیْنهِمْ وَیَقُوْلونَ اِنَّها اَفْضَلُ مِنْ دِیْنِ الْاِسْلَامِ (عیون اخبار الرضا(ع))

"سبحان اللہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اور کیسے جائز ہے کہ خدائے تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دے کہ وہ یہود اور نصاریٰ کے علماء سے رجوع کریں ۔ حالانکہ اگر کوئی رجوع کرے تو ان کے علماء کہیں گے کہ ہمارا دین برحق ہے اور دین اسلام سے بہتر ہے۔ وہ ہمیں اپنے نظریئے کی طرف دعوت دیں گے (کیا آپ اس دعوت کو قبول کریں گے)۔

پس مامون نے عرض کیا، "کیا آپ اپنے دعوے کے اثبات میں قرآن مجید سے کوئی دلیل پیش کر سکتے ہیں؟"

فَقَالَ نَعَمْ اَلذِّکْرُ رَسُوْلُ اللّٰهِ (ص) وَنَحْنُ اَهْلُه وَذٰلِکَ بَیْنٌ فِیْ کِتابِ اللّٰهِ تَعَالٰی حَیْثُ یَقُوْلُ فِیْ سُوْرَةٍ الطَّلَاقِ ( الَّذِیْنَ آمَنُوْا قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْکُمْ ذِکْراً رَّسُوْلاً یَّتْلُوا عَلَیْکُمْ آیاتِ اللّٰهِ مُبَبِّنَات ) (سورہ طلاق آیہ ۱۰،۱۱)

"فرمایا ، جی ہاں! ذکر سے مراد حضرت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں اور ان کے اہل ہیں۔ اس موضوع ِ بحث کے بارے میں قرآن کی یہ آیت میری دلیل ہے: جو لوگ ایمان لائے ہیں خدا نے ان کی طرف ذکر بھیج دیا ہے کہ وہ رسول ہے جو تمہارے سامنے ہماری واضح آیتیں پڑھتا ہے۔"

علمائے عامہ (اہل سنت) میں سے ایک شہر ستانی ہیں۔ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) اور امیر المومنین (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم اہل ذکر ہیں۔ اور بعض دوسری روایتوں میں ہے کہ خدا وند ِ عالم نے کچھ اہم مطالب قرآن مجید میں مختصراً بیان فرمائے ہیں۔ ان کی شرح و تفسیر سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اہل بیت (علیہم السلام) کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے کہ ہر گز اپنے آپ کو ان سے بے نیاز نہ سمجھیں بلکہ ہر وقت علوم ِآل ِ محمد (علیہم السلام) کا نیاز مند سمجھنا چاہیئے اور ہمیشہ ان ذوات ِ مقدسہ کا دامن گیر رہنا چاہیئے۔ یہاں تک کہ ان کی محبت اور ولایت جو کہ حقیقی اور ابدی سعادت ہیں، ہمیں حاصل ہو جائے۔

دوسرے اعتراض کا جواب

مذکورہ روایات اور احادیث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہمارے آئمہ طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین مصلحت کی بنأ پر گناہان ِ کبیرہ کے شمار اور تعین کے حق میں نہیں تھے۔ یعنی پوچھنے والوں کے جواب میں گناہان کبیرہ مفصل بیان کرنا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ اجمالاً بیان کرنے کی حکمت اور راز پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کبھی کبھار مختصر مگر جامع جملوں میں گناہ کبیرہ کی تعریف فرمائی ہے۔ جیسا کہ صحیحہ حلّی میں روایت ہے کہ حضرت صادق آل محمد (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا:

الکَبَائِرُ کُلُّ مَااَوْعَدَاللّٰهُ عَلَیْهِ النّار (کافی)

"گناہان کبیرہ وہ گناہ ہیں (جن کے مرتکب ہو نے والوں کے لیے) اللہ تعالیٰ نے آتش جہنم کا وعدہ کیا ہے۔"

گناہ کبیرہ دوسرے عنوان میں

آئمہ طاہرین (علیہم السلام) کبھی بعض گناہ ِ کبیرہ شمار نہیں کرتے تھے چونکہ ایک گناہ کبیرہ کے ضمن میں دوسرا گناہ کبیرہ بھی آسکتا تھا۔ تو دوسرے گناہ کو ذکر نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ عبید بن زرارہ کی روایت جو کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے نقل کی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا : گناہانِ کبیرہ کتاب ِ علی (علیہ السلام) میں سات ہیں۔

الکُفْرُ بِاللّٰهِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَاَکْلُ الرِّبوا بَعْدَ البَیّنَةِ وَاَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ ظُلْماً وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّحُفِ وَالتَّعَرُّبُ بَعْدَ الْهِجْرَةِ قَالَ قُلْتُ فهٰذا اَکْبَرُ الْکَبَائِرِ قَالَ نَعْمْ قُلْتُ فَاَکْلُ دِرْهَمٍ مِّنْ مَالِ الْیَتِیْم اَکْبَرُ اَمْ تَرْکُ الصَّلوٰةِ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ تَرِکُ الصَّلوٰة، قُلْتُ فَمَا عَدَوْتَ تَرْکَ الصَّلوٰةِ فِی الْکَبَائِرِ فَقَالَ (ع) اَیُّ شَیءٍ اَوَّلَ مَا قُلْتُ لَکَ قُلْتُ الْکُفْرَ قَال (ع) فَاِنَّ تَارِکَ الصَّلوٰةِ کَافِرٌ یَعنِی مِنْ غَیْرِ عِلَّةٍ (کتاب کافی۔ وسائل الشیعہ۔ کتاب جہاد)

( ۱) اللہ کے وجود سے انکار کرنا ( ۲) کسی نفس محترم کو قتل کرنا ( ۳) ماں باپ کا عاق کرنا ( ۴) سود کھانا واضح ہونے کے بعد( ۵) ظلم و ستم سے مال یتیم کھانا( ۶) جنگ (جہاد) سے بھاگ جانا ( ۷) ہجرت کے بعد جہالت کی طرف پلٹنا۔

میں نے عرض کیا ، کیا یہ سب بڑے گناہوں میں شمار ہیں؟

امام (علیہ السلام) نے فرمایا صحیح ہے۔ پھر میں نے عرض کیا ، ظلم و زیادتی سے مال یتیم کا ایک درہم کھانا بڑا گناہ ہے یا نماز ترک کرنا؟ فرمایا : نماز چھوڑنا نسبتاً بڑا گناہ ہے۔ میں نے پھر پوچھا پھر آپ نے نماز ترک کرنا گناہ کبیرہ میں شمار کیوں نہیں کیا؟ امام (علیہ السلام) نے پوچھا میں نے پہلے کونسا گناہ ِ کبیرہ شمار کیا تھا؟ میں نے عرض کیا ، خدا سے انکار کرنا۔ فرمایا نماز ترک کرنے والا کافر ہے بغیر کسی دلیل کے(کیونکہ تارک الصلوٰة کفر باللہ کے ضمن میں آتا ہے)۔ اس لیے آپ (علیہ السلام) نے ترک نماز کا ذکر نہیں فرمایا۔"

اس بیان سے معلوم ہو کہ معصو م سے ہم تک پہنچی ہوئی احادیث میں مکمل طور پر اور شرح کے ساتھ گناہان کبیرہ کا ذکر نہیں۔ غرض کوئی روایت ایسی نہیں (جو کہ جامع و مانع ہو) جس میں گناہان کبیرہ مکمل طور پر اور شرح کے ساتھ مع تعداد ذکر ہوں اور ہم اعتماد کے ساتھ یہ کہ سکیں کہ ان کے سوا اور کوئی گناہ کبیرہ ہو نہیں سکتا۔

چنانچہ صحیفہ حضرت شہزادہ عبدالعظیم الحسنی کا ذکر پہلے ہو چکا۔ اس پر غوروفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے ۲۱ گناہان کبیرہ عمروبن عبید کو قرآن مجید سے شمار کر کے بتائے۔ وہ اس سے زیادہ سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور روتے ہوئے باہر نکل گئے۔ اگر سننے کی سکت ہوتی اور صبر سے کام لیتے تو امام (علیہ السلام) مزید ارشاد فرمارہے تھے۔ میں قارئین ِ محترم سے یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہو کہ ہمارا مطلب اس کتاب میں ان گناہوں کی شرح بیان کرنا نہیں جن کا کبائر میں شامل ہونا ثابت اور مسلم ہے۔ اور نہ ہم جو کچھ ذکر کرتے ہیں انہیں پر گناہانِ کبیرہ کا انحصار ہے۔ بلکہ باقی گناہ جن کے بارے میں کبیرہ ہونا ثابت نہیں مبہم اور مختصر اس کتاب میں ہم لکھ رہے ہیں۔ ان گناہوں کا صغیرہ ہونا بھی مسلّم نہیں۔ اس لیے صاحبان ِ تقویٰ پر لازم ہے کہ ان تمام مبہم اور مختصر الذکر گناہوں سے بھی پرہیز کریں کیونکہ امکان ہے کہ واقعی یہی گناہ کبیرہ ہوں اور ہم انہیں ثابت نہ کر سکتے ہوں۔ یہاں تک گناہان ِ کبیرہ کی بحث و بیان شروع کرتے ہیں جن کو صراحتاً بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔

الشِّرکُ بِاللّٰہِ

سب سے پہلا گناہ کبیرہ اللہ تعالیٰ پر شرک باندھنا ہے اور اس کے بارے میں حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) و حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) و حضرت امام جعفر صادق ، حضرت امام موسیٰ کاظم ، حضرت امام علیرضا ، حضرت امام تقی (علیہم السلام) نے واضح ارشادات فرمائے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

اَکْبَرُ الْکَبَائِر الشِرّکُ بِاللّٰهِ (وسائل الشیعہ۔ کتاب جہاد)

"تمام گناہوں سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ پر شرک باندھنا ہے۔ "جس کی دلیل خود خداوند تعالیٰ کا قول ہے کہ فرماتا ہے:

( اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرِکَ بِهِ وَ یَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ) (سورہ ۴ ۔آیت ۵۲)

"یقینا خدا نہیں بخشتا اس کو جس نے اس کا شریک قرار دیا اور شرک کے علاوہ دوسرے گناہوں کی جسے وہ چاہے مغفرت کر دیتا ہے۔"

یعنی اگر کوئی مشرک دنیا سے کوچ کر گیا تو وہ بخشے جانے کے قابل نہیں اور شرک کے علاوہ جسے وہ چاہے مغفرت کا مستحق ہو سکتا ہے۔ اور فرماتا ہے:

( اِنَّه مَنْ یُشْرِکْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰئه النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ) (سورہ ۵ ۔آیہ ۷۶)

"بے شک جو کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دے یقینا خدا اس پر بہشت حرام کرتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم قرار دیتا ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیں۔"

مزید ارشاد خدا وندی ہے:

( لَا تُشْرِکْ بِاللّٰهِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ) (سورہ ۳۱ آیت ۱۳)

ٍ "اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک قرار مت دو بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔"

( وَمَنْ یُشْرِک بِاللّٰهِ فَقَدْ اِفْتَریٰ اِثْماً عَظِیْماً ) (سورہ ۴ ۔آیت ۵۲)

"جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک باندھایقینا اس نے جھوٹ باندھااور بڑے گناہ کا مرتکب ہوا۔

جبکہ ہر مسلمان شرک کو مثل روز ِ روشن کے گناہ کبیرہ مانتا ہے تو قرآنی آیات اور معصومین(علیہم السلام) کی روایات کو شرک کا کبیرہ گناہ ہونے کے بارے میں نقل کرنا ضروری نہیں سمجھا مگر جو چیز زیادہ اہم ہے وہ شرک کے معنی اور اس کے مراتب جاننا ہے تا کہ ان تمام گناہوں سے پرہیز کریں۔ چنانچہ پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

( وَاعْبُدُواللّٰهَ وَلَاتُشْرِکُوْا بِه شَیْئًا ) (سورہ ۴ ۔آیت ۴۱)

"اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ کرو۔"

واضح ہو کہ مشرک مقابل موحّد اور اس کی ضد ہے۔ چنانچہ توحید دین کا پہلا اصل رکن ہے۔ یہ کئی مراتب پر مشتمل ہے اور اسی طرح شرک کے کئی درجات ہیں:

( ۱) توحید اور شرک ذات ِ خدا کے مقام میں۔

( ۲) توحید اور شرک صفات ِ خدا کے مقام میں۔

( ۳) توحید اور شرک افعال کے مقام میں۔

( ۴) توحید اور شرک اطاعتکے مقام میں۔

( ۵) توحید اور شرک عبادت کے مقام میں۔

اب اگر توفیق الٰہی شامل حال رہی تو ہر ایک موضوع پر تفصیل سے بیان کریں گے۔

پہلامقام

توحید ذاتِ خد

یعنی ربّ الارباب کی ذات اقدس کو یکتا تسلیم کرنا کہ وہ قدیم اور ازلی ہے۔ وہ سارے عوالم ِ امکان ، خواہ محسوس ہوں یا غیر محسوس ، سب کی ایجاد کی علّت ہے۔ اور اس مقام میں متعدد علل کو ماننا شرک ہے۔ چنانچہ ثنویہ فرقے قائل ہیں کہ کائنات کے دو برابر کو موجد ہیں۔ اور دونوں قدیم بھی ہیں اور ازلی بھی۔ ایک نیکیوں کا مبدأ ہے جس کا نام یزداں ہے اور جو برائی کا خالق ہے اس کا نام اہرمن ہے۔ اس فرقے کے فاسد عقائد کی تردید کے لیے قرآنی آیات کے واضح دلائل موجود ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِاللّٰهِ ) (سورہ ۶ ۔آیت ۸۰)

"کہدو (اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ)) سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔"

ان کے جواب میں ایک جملہ کافی ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی خالص شر اس عالم میں سرے سے موجود نہیں اور جو کچھ پہلے تھا اور حال میں موجود ہے اور آئندہ وجود میں آنیوالا ہے، سب کا سب خیر ہی خیر ہے ۔یا کم از کم خیر کا پلہ بھاری اور غالب ہے اور شر کی سمت، ہلکی اور مغلوب ہے۔ بہرحال اس مطلب کو تفصیل سے بیان کر یں تو ہم اپنے موضوع ِ کلام سے نکل جائیں گے۔

نصاریٰ بھی مشرک ہیں

عیسائی مذہب تین قدیم اصل یعنی اَبً (باپ یعنی خدا) ، اِبْن(بیٹا یعنی عیسیٰ ) اور رُوحُ الْقُدُس (جبرائیل) کے قائل ہیں اور ہر ایک کے لیے ایک خاصیت اور اثر کے معتقد ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی تردید میں سورہ مائدہ آیة ۷۳ میں فرماتا ہے:

( لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ ثالِثُ ثَلاَ ثَةٍ وَّمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلاَّ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ) ۔

"جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ ’اللہ‘ تین میں سے ایک ہے (یعنی الوہیت خدا ، عیسیٰ اور روح القدس کے درمیان مشترک ہیں) وہ یقینا کافر ہوگئے ۔ حالانکہ خدائے یکتا کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں۔ (جو کہ تمام موجودات کا مبدأ ہے)

اسی طرح برہمن مذہب اور بدھ مذہب بھی تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

بت پرستی خدا کو شریک قرار دینا ہے

یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے جو کچھ بت پرست فرقے ساری مخلوقات کی ہر نوع کے لیے ایک پروردگار قرار دیتے ہیں جسے ’ رَبُّ الْنَّوْع‘ کہتے ہیں۔ اس فرقے کا کہنا ہے کہ پانی کے لیے الگ خدا ہے اور ہوا کا خالق الگ ہے۔ ان کے عقائد کی تردید میں اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

( ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَم اِللّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ) (سورہ ۱۲ ۔آیت ۶)

"(ذرا غور کرو کہ) بھلا جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یکتا و زبردست۔"

دوسرا مقام

صفات خدا میں توحید

صفات الٰہی میں توحید سے مراد یہ ہے کہ خدا کی ذاتی صفات جیسے حیات ، علم ، قدرت ، ارادہ، اور ان کی مانند دوسری صفات کو خدائے واحد کا عین جاننا اور جدا نہیں سمجھنا ۔ اس کے سوا یہ صفات مخلوقات کی ذات پر زائد و عارض صفات جاننا اور خدائے یکتا کا فیضان ِ رحمت اور بخشی ہوئی نعمت سمجھنا چاہیئے۔ (مثلاً زید کے لیے حیات و علم و قدرت ذاتی نہیں بلکہ بعد میں عارض ہوا ہے)۔یہاں توحید خداوندی میں شرک کی دو قسمیں ہیں: پہلی یہ کہ صفات الٰہیہ (علم، قدرت و حیات وغیرہ) کو ذات ِ حق سے زائد جانیں۔ اسی صورت میں (جبکہ ذات ِ خداخود قدیم ہے ، اس کی تمام صفات کو بھی قدیم ماننا پڑے گا) پھر تعدد قدماء لازم آتے ہیں۔ چنانچہ یہ عقیدہ (اشاعرہ سے منسوب ہے۔ ان کے اس دعوے کا بطلان اپنی جگہ ثابت ہے۔ یہاں اس کا تذکرہ کرنا ہمارے موضوع سے خارج ہے۔

مخلوقات کی اچھی صفات سب کی سب خدا کی جانب سے ہیں:

اچھی صفات کے تمام مراتب کو جو کہ مخلوق کی طرف نسبت دئیے جاتے ہیں اگر ان سب کو اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم سمجھا جائے تو یہی عین توحید اور حقیقت کے مطابق ہے۔ چنانچہ انبیاء اور آئمہ اطہار (علیہم السلام) کے متعلق ہمارا عقیدہ ہی یہی ہے کہ ان حضرات کا علم و قدرت و عصمت اور دوسرے کمال کے اوصاف مرحمت پروردگار ہیں۔ کوئی ایک صفت بھی وہ ذاتی طور پر نہیں رکھتے تھے بلکہ انہیں جو کچھ ملا ہے وہ سر چشمہ فیض سے ملا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ دراصل عالم امکان کے سارے موجودات کا وجود اپنے ذات پر قائم نہیں بلکہ دوسرے کا محتاج ہے۔ اس لیے مخلوقات ممکن اور حادث ہیں۔ سب ایسے اللہ کے محتاج ہیں جو اس کو پیدا کریں۔ اسی طرح کسی فرد کا کسی اچھی صفت سے متصف ہونا ہے۔ اس کے ثانوی کمان ہے اور ذاتی صفات نہیں کہ جنہیں وہ از خود پیدا نہیں کر سکتا۔ بلکہ یقینا وہ رب الأرباب کا محتاج ہوتا ہے۔ اور وہی اسے اپنے ارادہ اور مصلحت کے مطابق اچھی صفات سے مزیّن کرتا اور روزی دیتا ہے۔

کبھی غفلت سے اپنے نفس کا تزکیہ کرتے ہیں:

یہ مطلب ہر ایک عقلمند ، یکتا پرست، اور منصف مزاج کے سامنے بالکل واضح ہے کہ تمام صفات کمالیہ رکھنے والی صرف اور صرف پوردگار عالم کی ذات اقدس ہے۔ لیکن کبھی کبھار بعض یکتا پرست (موحدین) غفلت کی بناء پر مشرکانہ باتیں منہ سے نکالتے ہیں مثلاً اپنی تعریف کے موقع پر کہتے ہیں: "میرا علم، میری قدرت، میرا ارادہ، میری دولت ، میری سوجھ بوجھ، میری طاقت وغیرہ وغیرہ"۔ اس کی بجائے اگر وہ کہتا کہ میرا علم جو اللہ تعالیٰ نے مجھے مرحمت فرمایا ہے۔ میری قدرت جو اللہ نے دی ہے۔ میری دولت جو اللہ کا فضل و امانت ہے، تو درست و مناسب تھا۔ اور یہی حقیقت کے مطابق عین توحید ہوتا۔

لیکن سچا موحد اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ اس کا زبانی اقرار دلی اعتقاد سے متضاد نہ ہو بلکہ ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہو۔ ایسے شخص کی علامت یہ ہے کہ وہ انتہائی شدت سے اپنے خالق کے سامنے تواضع و انکساری سے پیش آتا ہے۔ اور کفران نعمت کی صورت میں نعمت خداوندی کے زوال سے اُسے ہمیشہ ڈر رہتا ہے۔ اور دوسری علامت یہ ہے کہ وہ کسی کی تعریف اور خوشامد سے خوشی محسوس نہیں کرتا۔

پرہیز گار لوگ تعریف سے ڈرتے ہیں:

چنانچہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) "خطبہ ہمام" میں متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَاِذَازکیٰ اَحَدٌ مِنْهُمْ خَافَ مِمَّا یُقَالُ لَه فَیَقُوْلُ اَنَا اَعْلَمُ بِنَفْسِی مِنْ غَیْریْ وَرَبِیْ اَعْلَمُ بِیْ مِنْ نَفْسِیْ اللّٰهُمَّ لَاتواخِذْنِیْ بِمَا یَقُوْلُوْنَ وَاجْعَلْنِیْ اَفْضَلَ مِمَّا یَظُنُّونَ وَاغْفِرْ لِیْ مَالَا یَعْلَمُوْنَ (خطبہ ھمام۔ نہج البلاغہ)

"جب ان میں سے کوئی کسی کی تعریف کرنے لگے تو جو کچھ اس کے بارے میں کہتے ہیں وہ (پرہیزگار) اس سے ڈرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنے نفس کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہوں۔ (من آنم خود دانم) اور میرا پروردگار میرے نفس اور ضمیر کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اس کے بعد درگاہ رب العزّت کی طرف متوجہ ہو کر کہتا ہے: اے میرے معبود یہ لوگ جو کچھ میری تعریف میں کہتے ہیں اس کا مجھ سے مواخذہ نہ کر۔ تعریف کرنے والا جس نظر سے مجھے دیکھ رہاہے میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ مجھے اس بالاتر قرار دے اور میرے اُن گناہوں کو بخش دے جو میرا مدّاح نہیں جانتا۔

خدا کی صفات میں کوئی بھی شریک نہیں:

ایک شخص موّحد اپنے آپ کو یا کسی اور کو خدائے بے مثل و یکتا کے حمد و ثناء کے استحقاق میں کسی کو کسی طرح شریک قرار دے سکتا ہے جبکہ وہ دن و رات میں کئی مرتبہ کہتا ہو "سُبْحَانَ اللہ" یعنی میں اپنے خدا کو ہر قسم کے شریک و شرکت سے پاک و پاکیزہ سمجھتا ہوں۔ اور وہ بار بار کہتا ہو "اَلْحَمْدُللہ" یعنی حمدو ستائش کے تمام مصادیق اور اقسام صرف پروردگارکے لیے مخصوص ہیں۔ اس کے سوا اور کوئی حقیقی تعریف کا استحقاق نہیں رکھتا۔

خلاصہ

جبکہ موّحدین یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ خدا کے بغیر کچھ بھی از خود حیثیت نہیں رکھتا اور جو کچھ ملا ہے وہ مالک ِ حقیقی سے ملاہے۔ اور سب کے سب اس ذاتی اور صفاتی لحاظ سے اس کے محتاج ہیں چنانچہ ارشادی باری تعالیٰ ہے:

( "یٰاَ یُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلٰی اللّٰهِ وَاللّٰه ُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْد ) "

(سورہ ۳۵ ۔آیت ۱۵)

"لوگو تم سب کے سب (ہر وقت ) خُدا کے محتاج ہو اور (صرف) خُدا ہی (سب سے ) بے نیاز اور سزاوار حمد وثنا ہے۔"

یہی وجہ ہے کہ یکتا پر ست لوگ اپنی تعریف خود کرنے سے اور دوسروں کی مدح سرائی سے مکمل طور پر پر ہیز کرتے ہیں ۔جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے موحد کی صفات اور خوشامدی کی تعریف سے ڈرنے کے بارے میں جو کچھ فر مایا وہ ابھی ذکر ہوا ۔بلکہ ایسے الفاظ وکلمات سے بھی اجتناب کرنا چاہئے جن سے انسان کی استقلال وبے نیازی اور خود نمائی کا اظہار ہوتا ہو مثلاً " میں فلاں صفت یا کمالیت رکھتا ہوں"۔

حضرت پیغمبر کا ارشاد گرامی

ایک آدمی نے حضرت رسول اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بارگاہ عرشِ افتخار میں پہنچ کر دروازہ کٹھکٹھایا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے گھر کے اندر سے دریافت فرمایا"آپ کون ہیں؟"

فَقَالَ اَنا! فَغَضِبَ (ص) مِنْ قَوْلِهِ اَنَا فَخَرَجَ (ص) وَهُوَ یَقُوْلُ مَنِ الْقَائِل اَنَا؟ وَهِیَ لَایُطْلِقُ اِلاَّ بِاللّٰهِ الَّذِی یَقُوْلُ اَنَا الْجَبَّارُ وَاَنَا الْقَهَّارُ (انوارالنعمانیة)

اس نے کہا "میں" پس آنحضرت لفظ "انا" کے استعمال سے غضبناک ہوئے اور گھر سے باہر تشریف لائے اور پوچھا "میں کہنے والا کون تھا؟(جاننا چاہیئے) خداوند عالم کے سوا اور کوئی اس لفظ کا سزا وار نہیں۔وہ اپنے آپ کو کہتا ہے " میں جبا ر ہوں اور میں قہاّ ر ہوں"۔

قارون مشرک ہو گیا

قارون مشرک اس وجہ سے ہوا کہ اس نے کہا:

اِنَّمَا اُوْتِیْتُه عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ

(یہ مال ودولت ) تو مجھے اپنے علم (کیمیا) کی وجہ سے حاصل ہواہے۔ جب قارون نے اپنے آپ کو رزاقیت میں جو کہ صفت خداوندی ہے شریک گردانا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا۔

اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَکَ مِنْ قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ قُوَّةً وَّاکْثَرُ جَمْعًا

(سورہ ۲۸ ۔آیت ۷۸)

کیا قارون نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ اللہ نے اس سے پہلے کے لوگوں کو ہلاک کر ڈالا جو اس سے قوت اور جمعیت میں کہیں بڑھ چڑھ کے تھے۔

اس لئے اگر قارون از خود کسی قسم کی قدرت و طاقت رکھتا تو اپنے آپ کو ہلاکت سے کیوں نہ بچا سکا؟

یہ بدیہی امر ہے کہ علم و قدرت و حیا ت اور دوسرے تمام کمالات جو مخلوق رکھتی ہے وہ کسی کے ذاتی نہیں بلکہ ان کا مبداء قادر مطلق ہے

افعال میں توحید اور شرک

افعال میں توحید کی حقیقت سے مراد یہ ہے کہ ہمیں یقین حاصل کرنا چاہیئے کہ سارے عوالم خواہ وہ ملک (مادی ) یا ملکوت (روحانی ) سے تعلق رکھتے ہوں ان کا مالک و مدبر اور کنٹرول کرنے والا سوائے خدا کے اور کوئی نہیں اوریقینی طور پر جاننا چاہیے کہ اس کی ربوبیت اور الوہیت میں کسی حالت میں کو ئی شریک نہیں اور اس کی ربوبیت کو آسمان و زمین اور تمام عوالم میں بسنے والوں کے لئے بلا تفریق یکساں جاننا چاہیئے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:

( اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰواتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ یَتَنزَّلُ الْاَمْرُ بیْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ وَاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْماً ) ۔ (سورہ ۶۵ ۔آیت ۱۲)

"خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور انہیں کے برابر زمین کو بھی ۔ان میں خدا کا حکم نازل ہوتا رہتا ہے ۔ تا کہ تم لوگ جان لو کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ اور بے شک خدا اپنے علم میں ہر چیز پر حاوی ہے ۔"

اور خداوند عالم کو آسمانوں کا پیدا کرنے والا جاننا چاہیے۔ اور یقین کامل ہونا چاہیئے کہ اس نے بے شمار ستارے پیدا کئے ہیں کہ ابھی تک ان کا انکشاف نہیں ہوا ۔جدید سائنسی آلات سے صرف ایک کڑور ستارے دریافت کئے گئے ہیں ۔ جو کہ ہر ایک علیحدہ عالم کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر ایک کی روشنی مختلف ہے اور ہر ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر اپنے مخصوص مدار میں گردش کرتا ہے ۔

( وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرَاتٌ بِاَمْرِه ) (سورہ ۱۶ ۔آیت ۱۲)

"اور ستارے اسی کے حکم سے ( تمہارے ) فرمانبردار ہیں۔"

ان ستاروں میں ایک سورج ہے جس کا حجم ہماری زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے۔اس قدر تیز روشنی اسے دی گئی ہے کہ ۳۷ لاکھ فرسخ کا فاصلہ صرف آٹھ سیکنڈ میں طے کر کے ہماری زمین تک پہنچتی ہے۔ جس سے ساری زمین کے لئے روشنی ملتی ہے اور اسی سے تمام موجودات کی پرورش ہوتی ہے ۔ کیا شان ہے اس خالق بزرگ و بر تر کی ۔

سُبْحَانَ اللّٰهِ خَالِقِ الْاَعْظَمِ ۔

بے رنگ پانی سے لاکھوں رنگ

وہ ایسا خدا ہے کہ زمین کو پھاڑ کر اس سے پھولوں کے اقسام اور گوناگوں خوشبودار پودے نکالتا ہے اور ان کے پتیوں اور پھوکوں میں ہر قسم کے رنگ بھرتا ہے۔ وہی ہستی ہے جس نے انسان کے لئے قوت شامہ (سونگھنے کی حس ) عطا کی جس سے خوشبو اور بد بو کی پہچان ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ قوت باصرہ (دیکھنے کی حس ) پیدا کی تا کہ مناظر قدرت کا مشاہدہ کر سکیں اور اس کے نیز اپنے پیدا کرنے والے کو جان لیں۔

( فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّویٰ ) (بیج اور گٹھلی کو پھاڑنے والا)

وہ ایسا خالق ہے کہ گٹھلی میں شگاف پیدا کرتاہے۔ اس کا آدھا حصہ جڑپکڑنے اور خوراک لینے کے لیے مختلف سمت میں پھیلاتا ہے اور دوسرا حصہ فضا میں بلند کر کے آہستہ آہستہ اس کی نشو و نما کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس سے ہر قسم اور ہر رنگ کے مختلف ذائقے والے پھل پھول پیدا کرتا ہے۔ جبکہ زمین ، پانی اور ہوا مختلف نہیں بلکہ ایک ہیں پھر بھی ذائقہ اور رنگ الگ الگ پیدا کرتی ہیں۔ مختلف ذائقوں کو چکھنے کے لیے انسان کو قوت ذائقہ مرحمت فرمائی تا کہ اُنہیں بے شمار نعمتوں کو چکھ کر اپنے خدا کی عظمت اور رحم و کرم کا اندازہ ہو جائے اور اُسے پہچان سکیں۔

( فِیْ ظُلُمَاتٍ ثلاثٍ ) (تین تاریکیوں میں)

خدا وہ بے مانند ذات ہے کہ جس نے گندے نطفے سے ہر قسم کے حیوانات پیدا کیے۔ انسان کو ( ۱) پیٹ ( ۲) رحم ( ۳) اور جھلّی یا مشیمہ کی تاریکیوں میں پیدا کیا۔ اس کے بعد اپنی قدرت کاملہ سے کس قدر عجیب و غریب ترکیب کے ذریعہ عقل جیسی آنکھ عطا کی تا کہ انسان غور و فکر سے اللہ تعالیٰ کے صنعت و آثار دیکھ سکیں۔ اور اپنے نفس اور دوسرے موجودات کا چشم ِباطن سے مشاہدہ کریں۔

گندے خون سے خوشگوار دودھ

خدا وہ ہستی ہے جس نے گندے میلے اور ناپاک خون سے پاک و صاف دودھ نکالا اور وہ پستان کی نالیوں کے ذریعے حیوان و انسان کے شیرخواروں کے گلے میں آسانی سے پہنچا دیتا ہے۔

( نُسْقِیْکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُوْنِه مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَناً خَالِصاً سَائغاً للشَّارِبِیْنَ ) (سورہ ۱۶ ۔آیت ۶۶)

"(حیوانات ) کے پیٹ میں (گوبر اور خون) جو کچھ بھرا ہو اہے اس میں سے ہم تم کو خالص دودھ (نکال کر) پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔"

یہ اس حالت میں جبکہ بچہ کسی قسم کی غذا کھانے سے عاجز ہو تا ہے تو خالص دودھ پلانے والا خدا ہے۔ وہی جانداروں کو زندگی اور موت دیتا ہے۔ ہر کسی کو ملنے والا نفع اور خیر اُسی کی جانب سے ہیں اور تمام شر اور ضرر جس سے صادر ہوتا ہے اور دوسرے تک پہنچتا ہے ، اس کی مشیت و حکمت اور اجازت سے ہے۔

قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ

"کہہ دو اے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) ! سب کچھ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔"

روزی دیتا ہے، قبول کرتا ہے

وہ ایسی ذات ہے کہ تمام مخلوقات کو روزی دیتا ہے ۔ رزق کی تقسیم کرنا، کم یا زیادہ دینا مکمل طور پر خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ایسا کریم و رحیم ہے کہ ہر کسی کی دعا قبول کر لیتا ہے۔ اور اس کی حاجت پوری کر دیتا ہے۔ جس سے وہ چاہے بُرائی کو دور کرتا ہے۔ خلاصہ توحید درافعال کے کے حقیقی معنی یہ ہیں کہلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّابِاللّٰهِ کے معنی سمجھنا پھر دل میں یقین پیدا کرنا۔ بعبارت دیگر کلمہ شریفہلَااِلٰهَ اِلَّااللّٰه کا مفہوم یہی ہے۔

ہر چیز کا موثر خدا ہے

جس طرح کہ ہر چیز کی زندگی خدا سے ہے اسی طرح اس کے آثار حیات بھی خدا سے تعلّق رکھتے ہیں اور ان آثار کا ظہور بھی خدا کی جانب سے ہوتاہے۔ خواہ وہ مقدار کے لحاظ سے ظاہر ہو جائے یا کیفیت میں ۔ چنانچہ تجربہ اور وجدان سے ثابت ہوا ہے کہ موثر اشیاء کا اثر کبھی کبھار اُس کے برعکس ہوتا ہے۔ (جیسا کہ آتش ِ نمرود کا اثر یعنی حرارت ختم کر کے اس کو ٹھنڈک میں تبدیل کردیا، کیونکہ خدا ہر چیز کا موثر ہے۔)اس اختصار کی تفصیل آگے بیان ہو گی۔

شان ربوبیت کی انتہا نہیں

خداوند عزوجل ہر بیچارے کا فریاد رس اور ہر پریشان حال کو نجات دینے والا ہے اس کے علاوہ دوسری اچھی صفات کا بھی وہی مالک ہے بلکہ وہ ہر نیکی اور خوبی کا سرچشمہ ہے

هُوَ اللّٰهُ الخَالِقُ الْبَارِی الْمُصَوِّرُ الرَّزَاقُ الْمُحْیِیْ، الْمُمِیْتُ النَّافِعُ الضَّارُّ الْمُجِیْبُ الْمُعطِیُ الْمُنْعِمُ وغیرہ دوسرے اسماء اور افعال خداوند تعالیٰ کی ربوبیت کے مظہر ہیں اور کلمہ مبارکہ رب العالمین تمام اسمائے الہٰیہ کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے خلاصہ اگر تمام دریا سیاہی بن جائیں اور ربوبیت کے شوؤن وحالات لکھنا چاہیں تو تمام دُنیا کا پانی ختم ہو جائے گا اور تمام عالم کی تربیت اور پرورش کی لامتناہی داستان ابتدائی مراحل میں ادھوری رہ جائے گی جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے :

( قُلْ لَوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لنَفِدَا لبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنَفْذَکَلِمَاتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِه مَدَداً ) ۔(سورہ ۱۸ ۔آیت ۱۰۹)

"کہو (اے رسول) اگر میرے پروردگار کی باتوں کے (لکھنے کے ) واسطے سمندر (کا پانی)ہی سیاہی بن جائے تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار باتیں ختم ہوں سمندر ہی ختم ہو جائے گا اگرچہ ہم ویسا ہی (ایک اور سمندر) اس کی مدد کو لے آئیں۔

انسان کی توانائی

دراصل انسان کا وجود خدا سے ہے اپنے افعال میں جو کچھ قدرت رکھتا ہے وہ بھی خدا ہی سے ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے توانائی عِلم اور ارادہ دیا ہے تاکہ وہ خیروشر کے افعال انجام دے سکے۔

ای ہمہ نقشِ عجب بردرو دیوارِ وجود

ہر کہ فکرت نکند نقش بود بر دیوار

یہ سارے عجیب نقش ونگار جو عالمِ وجود کے درودیوار پر نظر آتے ہیں اگر کسی نے ان پر غوروفکر نہیں کیا تو وہ نقشِ دیوار کی مانند ہے۔

آفرینش ہمہ تنبیہ خداوند دل است

دل ندارد کہ ندارد باخداوند اقرار

موجودات عقل مند انسان کو خوابِ غفلت سے بیدار کرتی ہیں جس کے پاس عقل نہیں وہ وجودِ خدا کا اقرار نہیں کرتا۔

کہ تواند کہ دوہد میوہ شیریں از چوب

یا کہ دانند کہ برآرد گل صد رنگ از خوار

دیکھئے لکڑی سے میٹھا پھل کیا کوئی نکال سکتا ہے؟ یا سینکڑوں رنگوں کے پھولوں کو کانٹوں سے نکالنے کا کرشمہ کیا کوئی جانتا ہے؟

پاک و بے عیب خدائی کے بتقدیر وجود

ماہ وخورشید منور کند بہ لیل و نہار

وہ پاک وبے عیب خدا جس نے تقدیر وتدبیر سے چاند اور سورج کو روشنی دے کر دن اور رات کو وجود میں لایا۔

پادشاہی نہ بدستور کند یاگنجور

نقشبندی نہ بشنگرف کند یا زنگار

وہ ایسا بے نیا ز بادشاہ ہے جس کو نہ دستور کی ضرورت ہے نہ خزانے کی احتیاج اور ایسا نقاش ہے جسے رنگ وروغن سامانِ نقاشی فراہم کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

چشمہ از سنگِ بروں آرد و باران از میغ

عنگبین از مگس نہلِ دراز دیبہ باد

وہ پتھر سے پانی کا چشمہ نکالتا ہے اور بادل سے بارش برساتا ہے مکھی سے شہد فراہم کرتا ہے اور کیڑے سے ابریشم تیار کرتا ہے۔

تاقیامت سخن اندر کرم ورحمت او

ہمہ گوئند و یکی گفتہ نیا ید زہزار

(شیخ سعدی)

اگر تمام مخلوقات مل کر قیامت تک اللہ کے بے پایاں رحم وکرم کے بارے میں بات چیت کریں تو اس کے ہزارویں حصّے کا بیان بھی نہ کر سکیں گی۔

( اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لاتُحْصُوْهَا ) ۔

’‘’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ان کو شمار نہیں کر سکو گے ۔"

انسان کی قوّت خدا کی مشیّت میں مقیّد ہوتی ہے

انسان کی توانائی مشیّتِ ایزدی سے گھیری ہوئی اور محدود ہوتی ہے جیسا کہ انسان بہت سے امور کی انجام دہی کے لیے ارادہ تو کرتا ہے لیکن اچانک اُس کا ارادہ منسوخ ہو جاتا ہے یا اپنی توانائی سرے سے ختم ہو جانے کی بنا پر وہ کام کو انجام تک نہیں پہنچا پاتا۔ درحقیقت موثر کی مرضی کے خلاف کام ہوتا ہے اس لیے فاعل کو روک لیتا ہے ۔

چنانچہ کسی نے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے دریافت کیا اے میرے مولا!

کَیْفَ عَرَفْتَ رَبَّکَ؟ فَقَال (ع) عَرَفْتُ اللّٰهِ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ وَنَقْضِ الْهِمَمِ

(خطبہ نہج البلاغہ)

"آپ نے اللہ تعالیٰ کو کیسے پہچانا؟" پس فرمایا میں نے اُس کو ارادوں کے منسوخ ہونے اور ہمتوں کے ٹوٹنے سے پہچان لیا ہے ۔

سچ مچ خدا ہی کو تمام اشیائے کائنات کا موثر اور جن اشیاء میں مختلف آثار پائے جاتے ہیں ان کا مصدر بھی خدا ہی کو جاننا اور اُسی پر کامل اعتماد رکھنا توحید کا بلند ترین مقام ہے۔ توحید کے اس اعلیٰ مرتبے پر پہنچنے میں بہت کم لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔ جب بندے کو اس بات کا یقین پیدا ہو جائے کہ عالمِ امکان خواہ محسوس (مادی) ہوں یا غیر محسوس (روحانی) ہوں ان سب کا موثر سوائے خدا کے اورکوئی نہیں تو لازمی طور پر کچھ علامتیں اُس سے ظاہر ہوتی ہیں اُن میں سے ایک علامت خوفِ خدا ہے۔

خوفِ خُد

یقین کے مقام پر فائز مومن اپنے پروردگار کی عظمت اور جن گناہوں کا وہ مرتکب ہوا ہے ان کے بغیر اور کسی چیز سے کبھی نہیں ڈرتا چونکہ وہ یقین سے جان چکا ہے کہ سارے چرند، پرند ،رینگنے والے، جن ،بنی آدم، فرشتے اور دوسری مخلوقات سب کے سب اللہ تعالیٰ کی فوج ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ان کی جانب سے کسی کو کسی قسم کا نفع پہنچ سکتا ہے اور نہ نقصان۔ جب اس اعتقاد پر یقین حاصل ہے تو پھر ڈر کس چیز کا؟

اگر تیغِ عالم وجنبد بجنبدز جائے

نبردگی تاخواہد خدائے

اگر کسی کے خلاف ساری دُنیا کی تلواریں حرکت میں آ جائیں تو اس کی جب تک خدا نہ چاہے ایک رَگ بھی نہیں کاٹ سکتا۔

از خدا دان خلاف دشمن و دوست

کہ دل ہر دو در تصرف اوست

دوست اور دشمن کی مخالفت خدا کی طرف سے سمجھ کیونکہ دونوں کے دل خدا کے اختیار میں ہیں۔

مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

روایت ہے کہوَحَدُّ الْیَقِیْنِ اِن لاَّ تَخَافَ مَعَ اللّٰهِ شَیْئًا

یقین کی آخری حد یہ ہے کہ خدا کے ساتھ اور کسی چیز سے نہ ڈرے حضرت رسولِ اکرم سجدے میں فرماتے ہیں:

اِلٓهِٰی اِنْ لَّمْ یَکُنْ غَضَبَکَ عَلیَّ فَلاَ اُبَالِی (جلد ۱۵ ۔بحارالانوار)

"خداوندا! اگر تیرا غضب میرے اوپر نہیں تو پھر مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں۔"

اُمید بخد

اگر یہ یقین حاصل ہے کہ عالمِ امکان میں اللہ کے سوا دوسرے کسی موثر کا اثر کارگر نہیں تو ایسا مومن یکتا پرست خدا کے علاوہ اور کسی سے کسی قسم کی امیدنہیں رکھتا چنانچہ حضرت امیرالمومنین کا ارشادِ گرامی:

لَایَرْجُوَنَّ اَحَدٌ مِّنکُمْ اِلاَّ رَبَّه (خطبہ نہج البلاغہ)

تم میں سے کسی کو اپنے پروردگار کے سوا کسی سے امید نہیں رکھنا چاہیئے جیسا کہ اشارہ ہوا ہر فرد کی اصل خدا سے ہے اور ہر خیر کا وجود اور پیدائش کا مرکز بھی وہی ہے اسی طرح ہر وہ نیکی جو ایک شخص سے دوسرے فرد تک پہنچتی ہے وہ بھی خدا کی طرف سے ہے چنانچہ قرآن مجید میں فرماتا ہے: "بیدک الخیر‘ نیکی فقط پروردگار ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ (قواعدِ نحو کے لحاظ سے یہاں جار و مجرور مقدم ہیں اس لیے مفید حصر ہوتا ہے ۔) سورہ یونس کے آخر میں فرماتا ہے :

( وَاِنْ یَمْسَسْکَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلاَ کاشِفَ لَه وَاِنْ یُرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَ رَادَّ لِفَضْلِه ) (سورہ ۶ ۔آیت ۱۷)

اگر خدا تم کو کسی قسم کی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نہیں ۔ اور اگر تمہیں کچھ فائدہ پہنچائے تو بھی (کوئی روک نہیں سکتاکیونکہ ) وہ ہر چیز پر قادر ہے اور دوسری جگہ فرماتا ہے :

( وَمَابِکُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ) ۔

"اور جتنی نعمتیں تمہیں ملتی سب خدا ہی کی طرف سے ہیں ۔"اب واضح ہوا کہ جو کچھ عالمِ ملک (مادی ) اور ملکوت (روحانی) میں موجود ہے سب کے سب خدا کے بندے ہیں اور اس کے سامنے عاجز ہیں ۔

اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰواتِ وَالْاَرضِ اِلاَّ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْداً

(سورہ ۱۹ ۔ آیت ۹۳)

آسمان و زمین میں جتنی چیزیں سب کے سب بندہ ہی بندہ ہیں۔

اگر کوئی اپنے کام میں اپنے پروردگار کے علاوہ کسی دوسرے سے امیدوار ہے تو خداوند کریم اسے لطف وکرم سے اس کی امید کو نامیدی سے بدل دیتا ہے۔ تاکہ وہ اپنے مالکِ حقیقی کی طرف پلٹ کر آئے۔

لَاْقَطِّعَنَ اَمَلَ کُلِّ مُومِّلٍ غَیْرِیْ (عدّة الدّاعی)

میں ان تمام امیدواروں کی امید کے رشتوں کو کاٹ دوں گا جو دوسروں کے باندھے ہوئے ہیں۔

منعم کا شکر ادا کرنا

جن کو یقین ہو کہ عالمِ امکان کا موثر خدا ہے تو نعمت دینے والے کا شکر ادا کرنا چاہیئے چونکہ تمام خیرات اُسی کے ہاتھ میں ہے وہ ہر چیز کو جتنا چاہے خیر وبرکت ورحمت دیتا ہے اسی لیے عِلم ویقین کے ساتھ کہتے ہیں "الحمد للہ" یعنی تمام تعریفیں اللہ کے ہی کے لیے مخصوص ہیں۔

شکرو ثنائی وسائط (ذرائع) بھی لازم ہے

اگر کسی کے ذریعے خیر ورزق مل رہا ہے تو اس کی مدح اور شکر ادا کرنا لازم ہے لیکن اس نظر سے اس کا شکر وتعریف کرنا جائز نہیں کہ وہ مستقلاً مصدر خیرورحمت ہے بلکہ اس لحاظ سے سزاوار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے خیرورحمت پہنچانے کا وسیلہ قرار دیا ہے اور پروردگارِعالم کے حکم سے وہ فراہم کرتا ہے اس لیے اگر کسی کے توسط سے خیر ملے تو اس کا شکریہ ادا کرے جیسا کہ معصوم کی طرف سے تاکید ہے

مَنْ لَمْ یَشْکْرِ الْمَخْلُوْقَ لَمْ یَشْکُرِالخالِقَ (بحارالانوار جلد ۱۵)

جس نے (منعمِ مجازی یعنی) مخلوق کا شکریہ ادا نہیں کیا گویا وہ اپنے خالق (منعمِ حقیقی) کا شکر بجا نہیں لایا۔

اَشْکَرُ کُمْ لِلّٰهِ اَشْکَرُ کُمْ لِلنَّاسِ (سفینة البحار جلد ۱ صفحہ ۷۰۹)

تمہارے درمیان سب سے زیادہ اللہ کا شکر گذار وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ لوگوں کا ممنون ہو۔

اس میں شک نہیں کہ اگر کسی نے مخلوقِ خدا کو مستقل طور پر خیر پہنچانے والا سمجھا تو شرک میں مبتلا ہوا۔

مخلوق کی مدح میں پوشید ہ شرک

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے تفسیر آیہ مبارکہ

( وَمَایُواَکْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلاَّ هُمْ مُشْرِکُوْنَ ) ۔(سورہ ۱۲ ۔ آیت ۱۰۶)

اور اکثر لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ خدا پر ایمان نہیں لاتے مگر شرک کیے جاتے ہیں۔

شرک کے بارے میں فرمایاکہ شرک کی اقسام میں سے ایک یہ ہے

مِنْ ذٰلِکَ قَوْلُ الرَّجْلِ لَولَافْلاَنٌ لَهَلَکْتُ وَلَوْلَافُلَانٌ لَاَصَبْتُ کذاوَکَذاوَلَوفُلَانٌ لَضَاعَ عَیَالِی وَلَا بَاْسَ بِاَنٌ یَقُوْلَ لَوْلَا اَمَّنَ اللّٰهُ عَلَیَّ بِفُلاَنٍ لَهَلکْتُ ۔(بحارالانوار)

کہ کوئی شخص کہے جائے اگر فلاں آدمی نہ ہوتا تو میں ہلاکت میں پڑتا۔ اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو فلاں چیز مجھے مل جاتی اور اس طرح کہا جائے اگر فلاں نہ ہوتے تو میرے بال بچّے تلف ہو جاتے اس قسم کی عبارتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ بولنے والے کے عقائد بھی ایسے ہیں۔ اگر حقیقت میں ایسا اعتقاد رکھتا ہے تو وہ مشرک ہے اس کے بعد آنحضرت نے فرمایا اگر کوئی یوں کہے : خداوندعالم نے فلاں آدمی کے ذریعے مجھ پر احسان نہ کیا ہوتا تو میں ہلاکت میں پڑتا تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ عین توحید ہے۔

حضرت امام صادق (علیہ السلام) اور سائل شکور

مسمع بن عبدالملک سے روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) منٰی میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک سائل خدمت میں حاضر ہو ۔ آپ نے کسی کو حکم دیا کہ اسے انگور کا ایک خوشہ دیا جائے۔ سائل نے عرض کیا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ اگر پیسہ ہے تو دیا جائے۔ پس آنحضرت نے فرمایا: "اللہ تجھے وسعت دے"۔ مگر کچھ دیا نہیں۔ اس کے دوسرا سائل خدمت میں حاضر ہوا۔ آنجناب نے تین دانہ انگور دست مبارک سے اٹھا کر اسے مرحمت فرمایا۔سائل نے اٹھا لیا اور کہا:

الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ العَالَمِیْنَ الَّذِیْ رَزَقَنِیْ

"ساری حمد و ثنا تمام عالم کے پوردگار کے لیے ہے جس نے مجھے روزی عطا کی۔

فرمایا: ٹھہر جاؤ! دونوں دست مبارک ہتھیلیوں تک انگور کے دانوں سے پُر کر کے دو مرتبہ اور دیا۔ سائل دوبارہ شکر خدا بجا لایا۔ آنحضرت (علیہ السلام) نے پھر فرمایا : ذرا اور ٹھہر جا۔ جب وہ کھڑا رہا تو آپ نے اپنے غلام سے دریافت فرمایا تیرے پاس کتنے پیسے موجود ہیں؟ عرض کیا تقریباً بیس درہم۔ آپ نے سائل کو دے دیئے۔ اس نے اُٹھا کر کہا:

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ هٰذا مَنُّکَ وَحْدَکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ

"ساری تعریفیں تمام عالم کے پوردگار کے لیے مخصوص ہیں۔ خدایا ، یہ روزی تیری طرف سے ہے۔ تو یکتا ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔"

چوتھی مرتبہ فرمایا: ابھی ٹھہر جاؤ۔ اپنی قمیض اتار کو اُسے دی اور فرمایا: اسے پہن لو۔ سائل نے اُسے پہن لیا اور اس خدا کا شکر ادا کیا جس نے اُسے لباس دیا اور خوش و خرم کیا۔ اس وقت سائل نے حضرت کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اے بندہ خدا اللہ تعالیٰ تجھے اچھا صلہ عطا کرے اور روانہ ہو گیا۔

مسمع راوی کہتا ہے اگر سائل امام (علیہ السلام) کی طرف متوجہ نہ ہوتا اور صرف خدا کی حمد بجا لاتا تو آپ مزید عطیہ کا سلسلہ جاری رکھتے۔

توحید اور توکل

یادرکھیئے! تما م اسبا ب سبب پیداکرنے والے (مسبب)کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔ اس لئے موحد(یکتا پرست) کو چاہیئے کہ اپنے سارے امور میں خواہ وہ منفعت حاصل کرنے سے تعلّق رکھتے ہوں یا ان کا ضررو نقصان دور کرنے کا واسطہ ہو۔ ہر حالت میں اس کی امیدیں فقط اپنے پروردگار سے وابستہ ہونی چاہئیں۔ اسے جاننا چاہیئے کہ تمام اسباب ارادہ خدا کے ماتحت ہیں۔ اگر خیر کے تمام اسباب اس کے لیے فراہم ہو جائیں مگر خدا نہ چاہتا ہو تو محال ہے کہ اسے کوئی خیر پہنچ جائے۔ اس طرح تمام ظاہری اسباب کے سلسلے اس سے کٹ جائیں اور خدا فراہم کرنا چاہتا ہو تو کسی صورت فراہمی کا سبب پیدا کر دے گا۔

اگر ضرر پہنچانے کے تمام اسباب اکھٹے ہو جائیں لیکن خدا اسے محفوظ رکھنا چاہتا ہو تو کوئی شر اُسے چھو نہیں سکتا۔

توحید اور تسلیم

موحّد کو چاہیئے کہ تمام مقدرات الٰہیہ کے سامنے بلاچوں و چرا سرِتسلیم خم کر دے اور امور تکوینی مثلاً عزت و ذلت، صحت و مرض، غنا و فقر، موت و حیات اور مور تکلیفیہ جیسے واجبات و محرمات کے امور میں دل و زبان سے کسی قسم کا اعتراض اور انکار ہر گز نہ کرے۔ اور ان امور میں اپنی فکر و نظر کا اظہار بھی نہ کرے۔ مثلاً ایسا کیوں ہوا؟ اس طرح ہونا چاہیئے تھا۔ یا ہوں کہیے "بارش کیوں نہیں ہوئی، ہوا اس قدر گرم کیوں ہوئی۔" یا یہ کہنا کہ اللہ نے مجھے مال یا اولاد کیوں نہیں دی۔ فلاں جوان کیوں عنفوان جوانی میں مر گیا اور فلاں بوڑھا رہا؟ اللہ نے اس چیز کو واجب اور اس کو حرام کیوں قرار دیا۔ اس طرح کی باتیں بنانے والا درحقیقت خدا کی الوہیت اور اس کی ربوبیت میں اپنے کو شریک قرار دیتا ہے۔

لَوْ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللّٰهَ وَحْدَه لَا شَرِیْکَ لَه وَاَقَامُوْا الصَّلوٰةَ وَاٰتُوا الزَّکوٰةَ وَجَجُّوْا الْبَیْتَ وَصَامُوْا شَهْرَ رَمَضَانَ ثُمَّ قَالُوْا لِشیءٍ صَنَعَهُ اللّٰهُ وْصَنَعَه النَّبِیُّ اِلاَّ صَنَعَ خِلاَفَ الَّذِیْ صَنَعَ اَوْوَجَدُ وْاذٰلِکَ فِیْ قُلُوبِهِمْ لَکَانُوا بذٰلِکَ مُشْرِکِیْنَ، ثُمَّ تَلاَ هٰذِهِ الْاَیَة ((( فَلاَوَرَبِّکَ لَایومِنُوْنَ حتّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْما شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِی اَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَیْتَ ویُسَلِّمُوْا تَسْلِیماً ) ))

ثُمَّ قَالَ اَبو عَبداللّٰهِ (ع): فَعلَیْکُمْ بِالتَّسْلِیْم

(اصول کافی کتاب الایمان والکفر۔ باب الشرک باللہ حدیث ۶)

"اگر کچھ لوگ یکتا خدا کی ، جس کا کوئی شریک نہیں، عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة بھی دیں اور خانہ خدا کا حج بھی بجا لائیں اور ماہ رمضان کا روزہ بھی رکھیں ۔ اس کے بعد ان احکام کے متعلق جو اللہ تعالیٰ نے یا پیغمبرِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمائے ہیں اعتراض کریں اور کہیں : ایسا کیوں نہیں کیا؟ یا دل میں تصور کریں اگرچہ زبان سے اقرار نہ بھی کریں پھر بھی وہ مشرک ہو ں گے۔ اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: پس اے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ہوں گے تا وقتیکہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تم کو اپنے حاکم (نہ بنائیں) پھر (یہی نہیں بلکہ) جو کچھ تم فیصلہ کرو اس سے کسی طرح دل تنگ بھی نہ ہوں بلکہ خوش خوش اس کو تسلیم کرلیں(اور اعتراض نہ کریں)۔ (سورہ نسأ ، آیت ۶۵) اس کے امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا تم پر لازم ہے کہ تسلیم کرو"۔

مجلسی شرح کافی میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جو کچھ خدا کرتا ہے اس سے ناراضگی کا اظہار کرنا اور جو کچھ آئمہ اطہار (علیہم السلام) سے صادر ہو اس کو تسلیم نہ کرنا شرک ہے۔

بنا بر ایں جب اہل توحید مصیبت و بلا میں گرفتار ہو جائیں تو اپنی زبان اور دل کو قضائے الٰہی کے بارے میں اعتراض کرنے سے روکنا واجب ہے۔ البتہ عزیزوں اور دوستوں کی موت پر گریہ و فریا د کرنا جائز ہے بلکہ پسندیدہ ہے۔ لیکن اعتراض کے طور پر کہنا : یہ کیوں ہوا؟ ایسا نہیں ہو نا چاہیئے تھا، سراسر حرام ہے۔

توحید اور محبت

خدائے واحد کے پرستار کو یقین کے ساتھ جاننا چاہیئے کہ پروردگار عالم خود اس کا اور سارے موجودات کا حقیقی منعم ہے۔ اور جو جو چیزیں جہاں سے اور جس سے اس کو ملتی ہیں خدا ہی کا فضل و کرم ہیں۔ اور ظاہری اسباب و علل بھی اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہیں۔ پس دلی محبت اور دوستی کی سزاوار بھی اس کی ذات ہے۔ سوائے ذات خدا کے اور کسی سے بلا واسطہ دوستی نہیں رکھنی چاہیئے۔ ہاں اگر کسی سے دوستی کا رشتہ باندھنا منظور ہو تو اس لحاظ سے کہ وہ شخص "محبوب ِخدا" ہے۔ اور بس حب محبوب خدا حبِ خدا است۔ چونکہ اس کی دوستی عین محبت خدا اور حکم خدا ہے جیسا کہ انبیأ و آئمہ (علیہم السلام) اور مومنین سے محبت کرنا۔

یا اس لیے کسی نعمت الٰہی سے قلبی ملاپ پیدا کرنا کہ یہ عطیہ پروردگار ہے تا کہ اس کے حصول سے وہ شکرِ خدا بجا لائے جس سے قرب الٰہی اور اس کی خوشنودی بھی حاصل کرسکتا ہے۔ مثلاً اہل و عیال اور مال و حیات دنیوی سے محبت کرنا عبادت پروردگار ہے۔ اس کے برعکس خوشنودی خدا کو نظر انداز کر کے براہ راست ان سے یا کسی چیز سے محبت کرے تو فرد شرک میں مبتلا ہوتا ہے۔ اگر غیر خدا کی دوستی زیادہ شدّت سے ہو اور خدا کی محبت نسبتاً کم ہو ، یہاں تک کہ دونوں محبتوں کے تصادم کی صورت میں غیر خدا کی دوستی کو ترجیح دیتا ہو تو شرک کے علاوہ حرام بھی ہے۔ اس لیے وہ عذاب کا مستحق ہے۔ مثلاً کسی کے دل میں خدا سے زیادہ مال ِدنیا کی محبت ، لہٰذا اس کے لیے ممکن نہیں کہ حکمِ خدا کے مطابق واجبات مالی ادا کرے۔ اس بارے میں بہت سی قرآنی آیتیں اور احادیث وارد ہیں۔ بطور مختصر تین روایتیں نقل کی جاتی ہیں:

( ۱)سُئِلَ اَبُو عَبدِاللّٰهِ عَنْ قَولِه تَعَالٰی اِلاَّ مَنْ اَتَی اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْم فَقَال (ع) اَلقَلْبُ السَّلِیْمُ اَلَّذِیْ یَلقٰی رَبَّه وَلَیْسَ فِیْهِ اَحَدٌ سِوَاه، قَال (ع) وَکُلُّ قَلْبٍ فِیْهِ شِرْکٌ اَوْشَکٌ فَهُوَ سَاقِطٌ (اصول کافی۔ باب الاخلاص)

"کسی نے حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اس آیہ مبارکہ کے معنی دریافت کیے":

یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَابَنُوْنَ اِلاَّ مَنْ اَتٰی اللّٰهِ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ۔

"قیامت کے دن مال و اولاد فائدہ نہیں دیں گے مگر یہ کہ خدا کے حضور قلب سلیم لے کر حاضر ہو۔ آپ (علیہ السلام)نے فرمایا: سالم دل وہ ہے کہ جب اللہ سے ملاقات کرے تو اس کے سوا اور دوسرے کی محبت اس میں نہ پائے۔ ہر وہ دل جس میں شرک اور شک ہو وہ ساقط یعنی ہلاکت کے قابل ہے۔"

( ۲)قَالَ اَبُو عَبْدِاللّٰهِ عَلَیْهِ السَّلاَمُ لَایُمحِّضُ رَجُلٌ اَلاِیْمَانَ بِاللّٰهِ حَتّیٰ یَکُوْنَ اللّٰهُ اَحَبَّ اَلَیْهِ من نَّفْسِه وَاَبِیْه وَاُمِّه وَوُلْدِه وَاَهْلِه وَمَالِه وَمِنَ النَّاسِ کُلِّهِمْ

(سفینة البحار جلد ۱ ۔ ص ۲۰۱)

"حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: کسی شخص کا ایمان بخدا خالص نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے نفس ، عزیز، ماں باپ، اولاد، بیوی اور تمام لوگوں یا مال سے زیادہ محبت کرے"۔

( ۳) " حضرت سلیمان علیٰ نبینا (علیہ السلام) کے دور ِحکومت میں ایک چڑے نے اپنی مادہ سے کہا: اری تو مجھے جفت ہو نے سے کیوں روکتی ہے؟ میں اس قدر طاقت رکھتا ہو کہ اگر چاہوں تو حضرت سلیمان کے گنبد کو اپنی چونچ سے اُٹھا کر دریا میں پھینک دوں۔

جب ہو نے چڑے کی بات کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے کانوں تک پہنچایا تو وہ مسکرائے اور دونوں کو دربار میں بلوایا اور پوچھا کہ زبانی دعویٰ جو تم کررہے ہو ، وہ عملی طور پر کر کے دکھا سکتے ہو؟ عرض کیا: ہر گز نہیں، لیکن باتوں سے میں اپنی شخصیت کو بیوی کے سامنے سنوار کر پیش کر کے اپنی بزرگی کا اظہار کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ مرعوب ہو جائے۔ اور عاشق و معشوق کے درمیان ہونے والی باتوں پر ملامت نہیں ہو نی چاہیئے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مادہ چڑیا سے فرمایا تم کیوں اس سے روگردانی اور بے اعتنائی کررہی ہو۔ جبکہ و ہ تم سے محبت کا دعویٰ کررہا ہے۔ مادّہ نے عرض کی : یا رسول اللہ وہ جھوٹا دعویٰ کر رہا ہے۔ وہ میرا دوست نہیں چونکہ اس کی محبت دوسرے کے ساتھ ہے۔ پس حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا دل ان باتوں سے متاثر ہوا اور وہ بہت رونے لگے۔ اور چالیس دن تک اپنے عبادت خانے سے باہر نہیں نکلے۔ اور دعا کی کہ خداوند عالم چڑے کے دل کو اپنے جوڑے کے علاوہ دوسرے کی محبت سے پاک کردے۔

(سفینة البحار، جلد ۲ ، صفحہ ۲۰۰)

اطاعت میں توحید اور شرک

مومن جبکہ یقین کے ساتھ جانتاہو کہ پیدا کرنے والا اور رزق دینے والا اور مدبّر و مربی اپنا اور ساری مخلوقات کا صرف ایک ہے۔ اس کی الوہیّت اور ربوبیّت میں کوئی شریک نہیں۔ تو عقل اور ایمان کی رو سے خدائے واحد کے علاوہ اور کسی کی فرمانبرداری نہیں کرتا اور نہ حاکم تسلیم کرتا ہے اور فقط اسی کولازم الاطاعت جانتا ہے اور اپنے علاوہ دوسرے موجودات بھی اس کی قدرت و قوّت کے مقابل عاجز و ضعیف ہیں اور کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ تمام مخلوقات اپنی ذات کے لیے نفع حاصل کرنے پرقادرہیں۔نہ ضررکادفاع کرسکتی ہیں اورنہ موت وحیات اورحشرونشرکااختیار۔

( لَایَمْلِکُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ نَفْعاً وَّلَا ضَرّاً وَّلاَ مَوْتاً وَّلَاحَیَاتاً وَّلَا نُشُوراً ) ۔

کیونکہ ولایت یعنی مطلق سرپرستی واختیارکل اللہ ہی کیلئے مخصوص ہے ۔البتہ اگرخداخودکسی کو ولایت پرمتعین کرے اورمخلوق خداکے امورکامرجع ومرکزقرار دے تواس صورت میں وہ بھی لازماًواجب الاطاعت ہوگاکیونکہ وہ منصوب من اللہ ہے۔

اللہ کے پسندیدہ احکام

ولایت الٰہیہ کاسلسہ انبیاءِ کرام،ائمہ ہدیٰ (علیہم السلام) کے علاوہ زمانہ غیبتِ صغریٰ میں نواب خاصہ اورغیبتِ کبریٰ کے زمانے میں نواب عامّہ پرمنحصرہوتاہے۔جن کے بارے میں قرآنِ میں ہے:

( مَنْ یُّطِع الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ) (سورہ ۴ ۔آیت ۲۸)

"جس نے رسول کی فرمانبرداری کی حقیقت میں اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی۔"

اورارشادہے:

( مَا اٰتاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَا کُمْ عَنْهُ فَاںْ نُتَهُوْا ) ۔

(سورہ ۵۹ ۔آیت ۷)

"جو تم کو رسول امر کریں اُسے لے لیا کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔ "

مزید ارشاد ہو تا ہے:

( یٰاَ یُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیعُوْاللّٰهِ وَاَطِیْعُوالرَّسولَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ) (سورہ ۴ ۔ آیت ۶۲)

"اے صاحبانِ ایمان ! خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ، ان کی اطاعت کرو۔"

اولی الامر کون ہیں ؟

صاحبان امر کے بارے میں اہل سنّت والجماعت کے کئی اقوال ہیں۔ کہتے ہیں اس سے مراد حکام ہیں۔ یہ قول علم و حجّت اور دلیل سے خالی ہے۔ اگر حاکم ہو اورعدالت نہ ہو۔ اورحکم ِخداکوجاننے میں سب سے زیادہ ماہرنہ ہو،خواہشات نفسانی کامخالف نہ ہو،اپنے آقاکامطیع نہ ہووغیرہوغیرہ تواجتماعِ ضدین یانقیض لازم آتے ہیں۔دیگرباتیں ہمارے موضوع بحث سے خارج ہیں۔جیساکہ عمربن خطاب کاقول ہے:

مُتْعَتَانِ مُحلَّلتَانِ فِیْ عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَاَنَا اُحَرِّمُهُمَا ۔

"دومتعہ(متعہ حج اور متعہ نساء) رسول خدا کے زمانے میں حلال تھے اور میں نے دونوں کو حرام قرار دیا۔"

پس جو کوئی ان کو اولی الامر جانتا ہے اسے چاہیئے کہ پیغمبر خدا کے حکم کے مطابق متعہ کو حلال جانے جیسا کہ خود اس نے اعتراف کیا۔ اور حرام بھی جان لیں جیسا کہ اس نے حکم دے دیا۔ جب موضوع ایک ہی اور اس کے متعلق دو مختلف حکم صادر ہوتے ہیں تو اجتماعِ ضدین یا نقیض لازم آتا ہے۔

حب علی حکم ِپیغمبر سے ہونی چاہیئے یا معاویہ کی نسبت سے؟

مثلاً معاویہ علی (علیہ السلام) کے ساتھ جنگ کرنا واجب جانتا تھا جبکہ حضرت رسول ِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حرام قراردیا تھا ۔ جیسا کہ فرمایا: علی (علیہ السلام)سے لڑنا میرے ساتھ لڑنا ہے۔ اور معاویہ علی (علیہ السلام) سے بغض رکھنے کا حکم دیتا تھا جب کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اُن کی دوستی واجب اور اللہ تعالیٰ نے حضرت علی (علیہ السلام) اور آلِ علی (علیہ السلام) کی مودت کو اجرِرسالت قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں قرآن شاہد ہے:

قُلْ لَا اَسْئلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی (سورہ ۴۲ ۔آیت ۲۲)

"(اے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ)) تم کہہ دو کہ میں اس (تبلیغ ِ رسالت) کا اپنے قرابت داروں (اہل بیت) کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔"

اس صورت میں خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اطاعت کا لازمی نتیجہ محبت حضرت علی اور ان سے صلح و صفائی ہے اور معاویہ کو اولی الامر تسلیم کرنا حضرت علی (علیہ السلام) سے بغض رکھنے اور جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ (اس صورت میں بھی اجتماع نقیض یا ضدین لازم آتا ہے۔)

اولی الامر ایک گروہ کے لیے مخصوص نہیں

اولی الامر کا منصب صرف امراء و حکام ہی کے لیے مخصوص سمجھنا آیہ مذکورہ کے خلاف ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اولی الامر کی اطاعت کو اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کے بعد ذکر فرمایا یعنی اولی الامر کی اطاعت عین اطاعت ِ رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہے۔ اسی لیے( اَطیعوااُولی الامر منکم ) نہیں فرمایا، بلکہ تیسری مرتبہ اطیعوا کی تکرار کرنے کی بجائے واو عطف استعمال کیا گیا ہے۔ بایں معنی کہ اطاعت اولی الامر عین اطاعت ِ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہے۔ دونوں ایک ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ حضرت رسول ِاعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اوامر کی اطاعت سارے مکّلفین کے لیے عام ہے، کسی کے لیے مخصوص نہیں۔ اسی طرح تمام اوامر میں اولی الامر کی اطاعت بھی واجب ہے۔ عقلا ء کی نظر میں یہ درست نہیں بلکہ اولی الامر خود رسول کی طرح ہے اور ہر قسم کے سہو و خطا سے پاک و معصوم ہے تاکہ مکمل اطمینان سے ان کی پیروی اور اطاعت کر سکیں۔

کیا اولی الامر سے مراد علماء ہیں

مذکورہ مطالب سے بعض علمائے عامّہ کے قول کا بطلان واضح ہوتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اولی الامر سے مراد علماء ہیں ۔ حالانکہ علماء معصوم نہیں ہوتے۔ سب جائز الخطا ہیں۔ یہی وجہ ہے علماء کے اقوال اور ان کی آرا ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ عصمت باطنی امر ہے اور لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہے۔ اس لیے اولی الامر کا تعین و انتخاب خدائے عالم الغیب اور اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) (ہی) کی جانب سے ہونا چاہیئے۔

بارہ امام اولی الامر ہیں

بہت سی شیعہ اور سنی کتب کی معتبر روایات موجود ہیں۔ جن میں اولی الامر تعین کر کے "آئمہ اثنا عشر" میں منحصر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک مشہور روایت حوالے کے طور پر یہاں ذکر ہوتی ہے جو کہ خاص و عام دونوں کے نزدیک "متواتر" ہے۔

پیغمبر اولی الامر کا بیان فرماتے ہیں

جناب جابر ابن عبداللہ انصاری سے یہ روایت منقول ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے پوچھا کہ میں خدائے تعالیٰ اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو جانتا ہوں مگر اولی الامر کو نہیں جانتا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: اے جابر! اولی الامر میرے بعد میرے خلفاء اور مسلمانوں کے آئمہ ہیں۔ ان میں سے پہلے علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ہیں۔ ان کے بعد حسن (علیہ السلام) ، ان کے بعد حسین (علیہ السلام) ، ان کے بعد ان کے فرزند علی بن الحسین (علیہ السلام) ، ان کے بعد محمد بن علی (علیہ السلام)،جن کا لقب توریت میں باقر ہے۔تمہاری ان سے ملاقات ہوگی تو ان کو میرا سلام کہنا، ان کے بعدجعفر (علیہ السلام)، ان کے بعد موسیٰ (علیہ السلام)، ان کے بعد علی (علیہ السلام)، ان کے بعد محمد (علیہ السلام)، ان کے بعد علی (علیہ السلام)، ان کے بعد حسن (علیہ السلام)، جب حجت ابن الحسن (علیہ السلام) کا نام لیا تو فرمایا، وہ میرا ہم نام ہوگا اور اس کی کنیت میری کنیت ہوگی۔ وہ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر حجت اور بقیةاللہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اُسے مشرق اور مغرب کا فاتح قرار دے گا۔ وہ اپنے پیرووں کے درمیان سے اس طرح غائب ہوں گے کہ غیبت کا زمانہ طولانی ہو نے کی بنأ پر لوگ ان کے وجود کی تصدیق نہیں کریں گے، مگر ایسے مومن کہ جن کا دل اللہ تعالیٰ نے آزمایا ہو۔

جابر کہتے ہیں ، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! کیا شیعوں کو ان کی غیبت سے فائدہ ہوگا۔

فرمایا: جی ہاں۔ لوگ اس طرح فیض یاب ہوں گے جس طرح بادل کے پردے میں موجود سورج کی روشنی سے موجودات عالم بہرہ مند ہوتے ہیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت اطہار (علیہم السلام) کی اطاعت بھی عین اطاعت خدا ہے(منقول از تفسیر منہج الصادقین)۔ اس کے علاوہ مزید معلومات کے خواہشمند کتاب غایةالمرام کی طرف رجوع کریں۔ اس کتاب کے باب ۵۹ میں اہل سنت کی چار حدیث اور چودہ شیعہ احادیث نقل کی ہیں۔ اسی کتاب کے ایک سو چالیسویں باب امامت میں چار اہل سنت کی احادیث اور ۲۷ شیعہ احادیث منقول ہیں۔

عاد ل مجتہد کی اطاعت

اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ غیبت امام (علیہ السلام) کے زمانے میں جامع الشرائط فقیہہ کی اطاعت بھی واجب ہے۔ اسکی اطاعت عین اطاعت ِامام ہے۔کیونکہ وہ امام کی جانب سے منصوب ہے۔چنانچہ توقیع حضرت حجت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف میں لکھاہواہے۔

اُنْظُرُوْا اِلٰی مَنْ کَانَ مِنْکُمْ قَدْ رَوَیْ حَدِیْثَنَا وَنَظَرَ فِیْ حَلَالِنَا وَحَرَامِنَا وَعَرَفَ اَحکَامَنَا فَارْضُوْابِهِ حَکَماًفَاِنّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَیْکُمْ حَاکِماً فَاِذا حَکَمَ بِحُکْمِنَا فَلَمْ یَقْبِلْ مِنْهُ فَاِنَّمَا بِحُکْمِ اللّٰهِ اسْتَخَفَّ وَعَلَیْنَا رَدَّ وَالرَّادُّ عَلَیْنَا کَالرَّادِّ عَلَی اللّٰهِ وَهُوَ عَلٰی حَدِّالشِّرکِ بِاللّٰهِ (کتاب کافی)

فکرونظرسے اس شخص کی طرف دیکھوجوتم میں سے (اثناعشری شیعہ اوراہل بیت (علیہم السلام)کی پیروی کرنے والاہو)جوہماری احادیث کوروایت ہے اورہمارے حلال وحرام دیکھتاہے۔اورہمارے احکام کووہ جانتاہے۔پس تم اسکے حکم پرراضی ہوجاو۔بے شک اس شخص کومیں تمہاراحاکم قراردیتاہوں ۔جب وہ ہمارے احکام کے بارے میں حکم صادرکرے تواسے قبول نہ کرنیوالایقینا حکم خدا کا استخفاف کرتاہے۔اورہلکاشمارکرکے اسکی تردید وانکار کرتا ہے۔ ہمارے احکام سے روگردانی شرک بااللہ کی حدہے۔

آزادفقیہ پیروی کے قابل ہے

فقیہ کے لیے شرط ہے کہ وہ دنیاکالالچی نہ ہو۔دنیوی شہرت وجاہ وجلال کاطالب نہ ہو۔اس کے دل میں باطل تعصب نہ ہو۔اس قسم کی صفات سے متصف فقیہ کی پیروی کرنی چاہیے اگرچہ کوئی دوسرااس سے زیادہ پرہیز گاربھی موجودہو۔چنانچہ اسی مضمون کی ایک حدیث عالم ربانی شیخ انصاری علیہ الرحمتہ نے کتاب احتجاج میں خبرواحدحجت ہونے کے بارے میں حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) سے نقل کی ہے جس کی عبارت یہ ہے:

مَنْ کانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِّنَفْسِهِ حَافِظاً لِّدِیْنِهِ مُخَالِفاً لِّهَوَاهُ مُطِیْعاً لِاّ مْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوامِ اَنْ یُّقَلِّدُوْهُ

فقہا ء میں سے کوئی فقیہ ہونے کے علاوہ اپنے نفس کا نگران دین کا محافظ، خواہشات نفسانی کا مخالف اور ہر لحاظ سے اپنے مولا کا مطیع ہو تو ایسی صورت میں عوام کو اس کی پیروی کرنی چاہیئے ۔ اس کی اطاعت امام (علیہ السلام) کی فرمانبرداری کے مانند واجب ہے۔

والد ین کی اطاعت بھی اطاعت خدا ہے

والدین کی اطاعت ان لوگوں کے مانند ہے جن کی فرما ں برداری عین اطاعتِ خدا ہے ۔ اس لئے قرآن مجید میں ان کو تکلیف پہنچانا حرام قرار دیا ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کا ذکر کرنے کے بعد بلافاصلہ والدین سے احسان کرنے کا حکم فرمایا ہے :

( وَقَضیٰ رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ ایَّاه وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرُ اَحَدُهُما اَوْکِلَاهُمَا فَلا تَقُلْ لَّهُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْ هُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلاً کَرِیْماً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیْراً ) (سورہ ۱۷ ۔ آیت ۲۳ ۔ ۲۴)

اور تمہارے پروردگار نے حکم دیا کہ سوائے اس کے کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا ا و رماں باپ سے نیکی کرنا ۔اگر ان میں سے ایک یا دونوں تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچیں(اور تیری خدمت کے محتاج ہو جائیں ) تو خبردار ان کے جواب میں اف تک نہ کہنا (یعنی نفرت اور ناراضگی کا اظہار نہ کرنا ) اور نہ جھڑکنا اور (جو کچھ کہنا سننا ہو ) تو بہت ادب سے کہا کرو ۔اور ان کے سامنے نیازوادب اور خاکساری کا پہلو جھکائے رکھنا اور (ان کے حق میں )دعا کرو کہ اے میرے پالنے والے جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش کی ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما ۔

والد ین واجب سے منع اورحرام کاامرنہیں کرسکتے

ضمنًایہ بھی جانناضروری ہے کہ تمام اوامرونواہی میں مطلق طورپروالدین واجب الاطاعت نہیں ہیں بلکہ ان کی اطاعت مشروط ہے ،کہ وہ کسی حرام کاامرنہ کریں اورنہ واجب قطعی کی انجام دہی سے منع کریں۔اس صورت میں خدااوررسول کی اطاعت مقدم ہے۔چونکہ قرآن میں اس کے متعلق واضح بیان موجودہے:

( وَوَصَیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْناً ط وَاِنْ جَاهَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَالیس لَکَ بِه عِلْمٌ فَلاَتُطِعْهُمَا ) (سورہ ۲۹ آیت ۷)

ہم نے انسان کواپنے ماں باپ سے اچھابرتاوکرنے کاحکم دیاہے اور(یہ بھی کہاہے)کہ اگرتجھے تیرے ماں باپ اس بات پرمجبورکریں کہ ایسی چیزکومیراشریک بناکہ جن (کے شریک ہونے کا)تجھے علم تک نہیں تووالدین کی اطاعت نہ کرنا۔

ماں باپ کی اطاعت کاوجوب اس قدرمسلم ہے کہ اولادکی نافرمانی اورمخالفت سے والدین کی ناراضگی اورتکلیف کاسبب نہ بن جائے۔کیونکہ ان کوتکلیف دیناازروئے قرآن حرام ہے ۔اس لیے اگرماں باپ کسی کام کی انجام دہی کاحکم دیں یامنع کریں مگربچے ان کی مرضی کے خلاف کام کریں تولازمی طورپرناراض ہوں گے اورانھیں تکلیف پہنچے گی ۔اس صورت میں ان کی اطاعت واجب ہے اورمخالفت حرام۔

والدین کی مخالفت میں اذیت کی تفصیل

لیکن اس صورت میں جبکہ ماں باپ کسی چیز کاحکم دیتے ہیں یاممانعت کرتے ہیں مگراولادکی عدم تعمیل سے ان کوتکلیف نہیں ہوتی نہ ناراض ہوتے ہیں۔کیونکہ ان کی نظر میں وہ چیز اتنی اہم نہیں۔اس صورت میں مخالفت حرام نہیں۔مثلاًوالدین اپنے فرزندکوسفرپرجانے سے روکتے ہیں لیکن وہ پھربھی وہ سفرپرجائے توناراض نہیں ہوتے اس لیے سفرمباح ہے۔اس کے برخلاف اس کی مسافرت ماں باپ کیلئے اذیت کاسبب بنتی ہوتویہ سفرمعصیت ہے۔نمازپوری پڑھی جائے اورروزہ بھی رکھناچاہئے۔

شوہرسے بیوی کی اطاعت

جن افرادکی اطاعت بجالاناخدااوررسول کی اطاعت کے برابرسمجھاجاتاہے ان میں سے ایک شوہر کے حق میں بیوی کی اطاعت ہے ۔چنانچہ قرآن مجیدمیں ارشاد ہے:

الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَبِمَا اَنْفَقُوْا من اَمْوَالِهِمْط فالصّٰلِحٰتُ قانِتاٰتٌ حَافِطَاتٌ لِلْغیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُط

مردوں کوعورتوں کے امورمیں قیام اورسرپرستی (کاحق)ہے۔ کیونکہ خدا نے بعض آدمیوں (مرد ) کو بعض آدمیوں (عورت ) پر فضیلت دی ہے ۔ (اس کے علاوہ ) مرد (عورتوں ) پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ پس خوش نصیب بیبیاں تو (شوہروں کی) تابعداری کرتی ہیں ۔اور ان کے پس پشت جس طرح خدا نے حفاظت کا حکم دیا ہے(ہر چیز کی) حفاظت کرتی ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی اور ان کا قیم (نگران و سرپرست) اس لئے بنایا کہ عورتوں کی نسبت مردوں کو اپنے فضل و کرم سے بہت کچھ عطا فرمایا ہے۔ جیسے عقل کی زیادتی ،حسن تدبیر ، جسمانی قوت اور سوچ سمجھ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ ان چیزوں کی وجہ سے جو عورتوں کو خوراک و پوشاک و قیام اور مہر وغیرہ بھی دیتے ہیں۔ پس صالحہ عورتیں شوہروں کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والی ہوتی ہیں اور شوہر کی غیر حاضری میں اپنی عفتّ وعصمت اور شوہرکے اموال اور غیر مرد سے) اپنے آپ کو محفوظ رکھتی ہیں ۔

اس کے علاوہ حضرت رسول ِاکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

لَوْاَمَرْتُ اَحَداً اَنْ یَسْجُدَ لِاَحَدٍ لَاَمَرْتُ الْمَرْأةَ اَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا (وسائل الشیعہ کتاب نکاح باب ۱۸۱)

"یہ جائز نہیں کہ بشر ایک دوسرے کو سجدہ کریں ۔ اگر جائز ہوتا تو میں سب سے پہلے بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔"

میاں بیوی کے امور میں تمکین واجب ہے

شوہر کی اطاعت بیوی پر لازم ہونے کے بارے میں بہت سی روایتیں ملتی ہیں لیکن خواتین کے لیے قابل توجّہ بات یہ ہے کہ تمام امور میں شوہر کی خوشنودی حاصل کرنا مستحب اور ان کے لیے بہترین عبادت ہے۔ لیکن تمکین یعنی ہم بستری کے بارے میں شوہر کی اطاعت کرنا فقہا کے نزدیک مسلّم واجب ہے اور گھر سے باہر جانے کے لیے بھی شوہر سے اجازت لینا واجب ہے۔ اگر چہ ماں باپ سے ملاقات یا ان کی عیادت کے لیے جانا ہو۔ اگر خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جائے تو واپسی تک آسمان و زمین میں رہنے والے فرشتے اور رحمت و غضب کے ملائکہ اس پر لعن کرتے ہیں۔

مستحب اخراجات خاوند کی اجازت سے ہونے چاہیئیں

مستحب اخراجات میں بیوی کا شوہر سے اذن حاصل کرنا ضروری ہے اگر چہ وہ اپنے ذاتی مال ہی سے خرچ کیوں نہ کرے۔ اور بیوی کی نذر اسی شرط پر صحیح ہے کہ شوہر اُسے اجازت دے دے۔ البتہ واجبات مثلاً واجب حج و زکوٰة و خمس بلکہ قریبی رشتہ داروں اور ماں باپ سے نیکی کرنے کے بارے میں شوہر سے اذن لینا لازم نہیں بلکہ وہ منع بھی کرے پھر بھی شرعاً کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ اگر کوئی عورت اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے شوہر کی اطاعت بجا لائے اگرچہ وہ اعمال مستحب ہوں یا واجب ، یقینا اس نے خداوند عالم اور رسول اکرم کی پیروی کی ہے ۔ وہ بہترین عبادت بجا لائی ہے۔

ظالم حاکم کی طرف رجوع نہیں کرنا چاہیئے

جبکہ یہ معلوم ہوا کہ فقط خدا کی عبادت و اطاعت اور جس کو خدا معین کرے اس کی اطاعت واجب ہے چنانچہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور بارہ اماموں کی اطاعت ، نوابین امام اور بعض دوسرے افراد جن کی اطاعت شرع مقدّس کی اور احکام خدا کی تعلیم کے لیے ان کی طرف رجوع کرنا واجب ہے۔

مگر دعوے اور فیصلوں کے لیے حکام جور کی طرف رجوع کرنا اور عدالتوں میں حاضر ہونا یا ان کی درباری حمایت کرنا اسی طرح ناجائز ہے جیسا طاغوتی حکومت سے رجوع کرنا۔ ایسی عدالتوں کے ذریعہ جو کچھ لیتا ہے وہ (سُحت )اور حرام ہے اگرچہ وہ مال اس کا حق کے ساتھ ہو۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)نے ارشاد فرمایا ہے۔

مَنْ تَحَاکَمَ اِلَیْهِمْ فِیْ حَقٍ اَوْبَاطِلٍ فَانَّمَا تَحَاکَمَ اِلٰی الطَّاغُوْتِ وَمَا یَحْکُمُ لَه فَاِنَّمَا یَاخُذُ مُحتاً وَاِنْ کَانَ حقّاً ثَابِتاً لَه (وسائل الشیعہ کتاب قضاء باب ۱۱)

"اگر کوئی حاکم جور کی عدالت میں دعویٰ دائر کرے اگرچہ اس کا دعویٰ حق پر مبنی ہو یا ناحق۔ بے شک اس قسم کے دعوے دار نے طاغوت (سرکش و معبود غیر خدا) کو اپنا قاضی و حاکم قرار دیا ہے۔ اور جو کچھ اس کے حکم سے لیتا ہے خالص سُحت (دین خدا کے خلاف اور حرام) ہے اگرچہ لی ہوئی چیز پر اس کا حق ہونا شرعاً ثابت ہو۔"

بالا ضافہ قرآن مجید حاکم جور کی طرف رجوع کرنے سے ممانعت کرتا ہے:

( فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیءٍ فَرُدُّوْهُ اِلٰی اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ) (سورہ ۴ ۔آیت ۵۹)

"پس اگر تم کسی بات میں اختلاف کرو تو اس امر میں خدا و رسول کی طرف رجوع کرو(نہ کہ سرکشوں اور حاکم ظالم کی طرف)۔"

بے عمل عالم پیروی کے قابل نہیں

جس طرح حق بجانب ہوتے ہوئے حاکم جور کی طرف رجوع کرنے کی ممانعت ہے اسی طرح دینی احکام اور شرعی مسئلہ مسائل دریافت کرنے کے لیے مال دنیا اور جاہ و جلال کے طلبگار عالم بے عمل کی طرف رجوع کرنا ممنوع ہے۔ عالم دین کی شرائط کو "آزاد فقیہہ کی پیروی" کے عنوان میں پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ اگر کوئی عالم دین یا فقیہہ ان شرائط پر پورا نہیں اترتا تو اس کی پیروی کرنا جائز نہیں۔ ان کی طرف رجوع کرنا ممنوع قرار دیا ہے۔ اس بارے میں صرف دو روایات پیش کی جاتی ہیں۔

د نیا پرست علماء راہ خدا کے لٹیرے ہیں

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ:

اِذَارَاَیْتُمُ الْعَالِمَ مُحِباًّ لِّدُنْیَاهُ فَاتَّهِمُوْهُ عَلٰی دِیْنِکُمْ فَاِنَّ مُحِبَّ کُلِّ شیءٍ یَحُوْطُ بِما اَحَبَّ وَاَوْحیٰ اللّٰهُ اِلٰی دَاودَ لَاتَجْعَلَْ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ عَالِماً مَفْتُوْناً بِالدُّنْیَا فَیَصُدُّکَ عَنْ طَرِیْقِ مَحَبتِیْ فَاِنَّ اُوْلٰئِکَ قُطَّاعُ طَرِیقِ عِبادِیَ الْمُرِیْدِیْنَ اِنَّ اَدْنیٰ مَا اَصْنَعُ بِهِمْ اَنْ اَنْزَعَ حَلاَوَةَ مُنَا جَاتِیْ مِنْ قلُوْبِهِمْ (اصول کافی)

"جب تم کسی دنیا دوست عالم کو دیکھو تو اس کو دین دار نہ سمجھو۔ بے شک جو شخص جس چیز سے محبت رکھتا ہے اس کی حالت اور طبیعت اپنے محبوب جیسی ہوتی ہے(یعنی جس کسی کو حب دنیا ہے ، اسے آخرت سے سروکار نہیں)۔ چنانچہ اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت داؤد علیٰ نبیّنا (علیہ السلام) پر وحی نازل فرمائی : اے داؤد ! میرے اور اپنے درمیان ایسے عالم کو واسطہ قرار نہ دو جو دنیا کی محبت میں مبتلا ہو۔ یہ تم کو میری محبت کے راستے سے روک دے گا(یعنی ایسا عالم تم کو بھی اپنے جیسا دنیا دوست بنائے گا)۔یقینا ایسے علماء میری بارگاہ تک آنے والے بندوں کا راستہ کاٹنے والے لُٹیرے ہیں۔ کم سے کم معاملہ جو ان کے ساتھ کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں اپنے ساتھ راز و نیاز کا شوق و شیرینی ان کے دلوں سے چھین لوں گا۔"

صرف اللّٰہ کے لیے فقیہ ہونا چاہیئے

عَن ابی جعفر (ع) مَنْ طَلَب الْعِلْمَ لِیُبَاهِیْ بِهِ الْعُلَمَاءَ اَوْیُمَارِسَ بِهِ السُّفَهَآءَ اَوْیَصْرِفَ بِه وُجُوْه النَّاسِ اِلَیْهِ فَلْیَتَبَوَّا مَقْعَدَه مِنَ النَّارِ اِنَّ الرِّیَاسَةَ لَاتُصْلِحُ اِلاَّ لِاَهْلِهِ (کافی)

"حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ اگر کوئی علماء کے ساتھ فخر کرنے یا بے وقوفوں کے ساتھ جھگڑنے یا ریاست ملحوظ رکھ کر لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کے لیے علم حاصل کرتا ہے تو اس نے اپنے ٹھہرنے کی جگہ کو آگ سے بھر دیا ہے۔ بلاشبہ ریاست (سرداری) الگ چیز ہے۔ وہ اس کے اہل کے لیے سزاوار ہے مگر اہل علم کے لیے نہیں۔"

عوام مقصّر ہیں

درحقیقت وہ تمام افراد جو کہ اہل بیت اطہار (علیہم السلام) اور ان کی جانب سے معین علمائے ربّانی سے جان بوجھ کر کنارہ کشی اختیار کرنے ہوئے خواہشات نفسانی پورا کرنے کی خاطر دوسروں کی طرف رجوع کرنے ہیں ایسے لوگ "مقصّر" (یعنی باوجود قدرت احکام اللہ ترک کرنے والے) ہیں،اور اس آیہ شریفہ کے مصداق ہیں:

( اَفَرَاَیْتَ مَنْ اِتَّخَذَ اِلٰهَه هوٰهُ ) (سورہ جاثیہ آیہ ۲۳)

"تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا۔"