گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 105623
ڈاؤنلوڈ: 5724

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105623 / ڈاؤنلوڈ: 5724
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

سوال وجواب

زیر نظر کتاب گناہان کبیرہ کی پہلی اشاعت کے بعد کچھ لوگوں نے سوال کیا کہ جن گناہوں کا بیان ہو چکا ہے(تریسٹھ گناہ ہیں) ان کے علاوہ کوئی قطعی یا احتمالی صغیرہ یا کبیرہ گناہ کیا اب بھی باقی ہے؟

کچھ اور لوگوں نے پوچھا جن گناہوں کا اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے کیا دین اسلام میں اور بھی کوئی گناہ ہے یا نہیں؟

ہم ان دو سوالوں کے جوابات تفصیل کے ساتھ لکھتے ہیں،اللہ تعالیٰ ہم سب کو گناہوں سے بچنے اور پشیمان ہو نے کی توفیق عطا کرے۔

اس کے علاوہ بھی گناہ بہت ہیں

جاننا چاہئے کہ فقہائے اسلام رضوان اللہ علیہم نے تمام واجبات محرمات،مستحبات اور مکروہات کے احکام کو عبادات کے ضمن میں جیسے نماز و روزہ ،حج،زکوٰة ،خمس،جہاد،امر بالمعروف نہی عن المنکر ،اس کے علاوہ معاملات کے ضمن میں تمام خرید و فروخت،احکام اجارہ وغیرہ اور عقد و ایقاع کے عنوان میں مثلاً طلاق ونکاح،حد ،دیہ وغیرہ پر تفصیل کے ساتھ بے شمار کتابیں لکھ چکے ہیں،

شیخ حر آملی نے کتاب بدایة النہایة میں طہارت سے لے کر دیت تک کے جملہ واجبات اور محرمات کو بیان کیا ہے۔آپ کتاب کے اختتام پر فرماتے ہیں اس کتاب میں بیان کئے گئے واجبات کی تعداد ایک ہزار پانچ سو پینیتس( ۱۵۳۵) اور محرمات کی تعداد ایک ہزار چار سو اڑتالیس( ۱۴۴۸) ہے کل احکام دو ہزار نو سو تراسی( ۲۹۸۳) احکام الہی بیان کئے گئے ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتاب گناہان کبیرہ کی جلدوں میں بیان کئے گئے گناہوں کی نسبت جو بیان نہیں کئے گئے دسویں حصہ سے بھی کم ہے۔چونکہ محرمات اور واجبات کی خلاف ورزی گناہاں کبیرہ میں شمار ہوتی ہے۔

کچھ دوسرے گناہ بھی کبیرہ ہونے کا احتمال ہیں

جہاں تک کبیرہ گناہوں کا تعلق ہے ہم نے اس کتاب کی جلد اول میں عرض کر دیا تھا کہ ہم نے صرف انہیں گناہوں کا تذکرہ کیا ہے جن کا کبیرہ ہونا قطعی اور مسلم ہے۔اور اس سے مراد یہ نہ لیا جائے کہ گناہاں کبیرہ کی تعداد اتنا ہی ہے جتنا کہ اس کتاب میں ذکر ہوا۔بنا برایں جن گناہوں کا اس کتاب میں ذکر نہیں وہ اپنے مبہم اور تردد کی حالت میں باقی ہیں بہ عبارت دیگر جن کے کبیرہ ہونا یا صغیرہ ہونے کا احتمال باقی ہے ۔جب کہ ہر وہ گناہ جن کا کبیرہ یا صغیرہ ہونے کا اندیشہ اور گماں پیدا ہو جائے تو اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی ابہام شارع اقدس کا مقصد اور حکمت ہے کہ ہر دین دار جہاں گناہ کا احتمال ہے اس سے اجتناب کرے۔

واضح ہو کہ ایسے گناہ جن کا ہونا مسلم او ر قطعی ہے اب تک کئی جلدوں پر مشتمل کتاب گناہان کبیرہ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکے ہیں،دوبارہ ترتیب وار ان کی فہرست ہم یہاں لکھتے ہیں اس کے علاوہ وہ محرمات جن میں عام طور پر مبتلا ہونے کا امکان ہے ان کی فہرست بھی پیش کی جارہی ہے۔

قطعی اور مسلم گناہان کبیرہ کی فہرست

( ۱) شرک بخدا اور ریاکاری ( ۲) رحمت خدا سے مایوسی( ۳) خدا سے قنوط اور بدگمانی ( ۴) خداپوشیدہ اوراچانک قہرسے نہ ڈرنا( ۵) انسان کا قتل کرنا( ۶) والدین کا عاق ( ۷) قطع رحم ( ۸) یتیم کا مال کھانا ( ۹) سودخوری ( ۱۰) زنا کرنا ( ۱۱) لواط کرنا( ۱۲) قذف( ۱۳) شراب خوری ( ۱۴) جوا کھیلنا( ۱۵) موسیقی کے آلات سے سرگرمی ( ۱۶) غنا گانے گانا ( ۱۷) جھوٹ بولنا ( ۱۸) جھوٹی قسم کھانا ( ۱۹) جھوٹی گواہی دینا ( ۲۰) گواہی نہ دینا ( ۲۱) وعدہ خلافی کرنا ( ۲۲) امانت میں خیانت کرنا ( ۲۳) چوری ڈکیتی کرنا ( ۲۴) کم بیچنا ( ۲۵) حرامخوری ( ۲۶) حقوق کا غصب کرنا ( ۲۷) جہاد سے فرار ( ۲۸) ہجرت کے بعد دار الکفر پلٹنا( ۲۹) ظالموں کی مدد کرنا ( ۳۰) مظلوموں کی مدد نہ کرنا ( ۳۱) جادو ٹونہ( ۳۲) اسراف ( ۳۳) تکبر کرنا ( ۳۴) مسلمانوں سے جنگ کرنا ( ۳۵) مردار اور سور کا گوشت کھانا ( ۳۶) عمداًنماز ترک کرنا ( ۳۷) زکوٰة نہ دینا ( ۳۸) حج کو نا چیز سمجھنا ( ۳۹) واجبات الہٰی میں سے کسی ایک کا ترک کرنا جیسا کہ شیخ حرآملی کی کتاب بدایة النہایہ میں کل واجبات ایک ہزار پانچ سو پینتیس شمار کئے گئے ہیں ( ۴۰) گناہ پر اصرار اور اسے معمولی سمجھنا ( ۴۱) وصیت کے ذریعہ کسی وارث کو محروم کرنا ( ۴۲) غیبت کرنا ( ۴۳) چلغوری کرنا ( ۴۴) مومن کا مذاق اڑانا ( ۴۵) دشنام اور طعنہ دینا ( ۴۶) مومن کو ذلیل کرنا ( ۴۷) مومن کی سرزنش اور رسوا کرنا ( ۴۸) شعر یا نثر کی ہجو کرنا ( ۴۹) مومن کو اذیت دینا ( ۵۰) ہمسایہ کو ستانا ( ۵۱) فریب اور دھوکہ دینا ( ۵۲) دوغلاپن ( ۵۳) اشیاء خوردنی کی ذخیرہ اندورزی کرنا ( ۵۴) حسدکرنا ( ۵۵) مومن سے دشمنی کرنا ( ۵۶) مساحقہ (عورتوں کا ایک دوسرے سے بد فعلی کرنا) ( ۵۷) قیادت دلالی اور دیاثت اپنی بیوی کو زنا پر آمادہ کرنا ( ۵۸) نطفہ خارج کرنا استمناء ( ۵۹) بدعت ( ۶۰) حکم ناحق نافذ کرنا ( ۶۱) محترم مہینوں میں جنگ کرنا ( ۶۲) راہ خدا سے روکنا ( ۶۳) کفران ناشکری نعمت ( ۶۴) فتنہ پردزی ( ۶۵) کفار کو اسلحہ فروخت کرنا( ۶۶) بہتان اور بد گمانی( ۶۷) ہتک حرمت قرآن ( ۶۸) ہتک حرمت کعبہ( ۶۹) ہتک حرمت مساجد( ۷۰) مزار معصومین (علیہم السلام) اور تربت حسنینی کی ہتک حرمت کرنا۔

درج ذ یل گناہان کبیرہ ہونے کا احتمال ہیں

( ۱) نجس اشیاء کا کھانا پینا( ۲) جہاں نیک وبد و تمیز کرنے والا ناظر محترم موجود ہو وہاں شرمگاہوں سے پردہ ہٹانا( ۳) کسی ہم جنس یا غیر ہم جنس(عورت دوسری عورت یا ایک مرد دوسرے مرد یا شوہر اور بیوی کے علاوہ کسی مرد عورت یا عورت مرد کے)شرمگاہوں پر نگاہ ڈالنا( ۴) قبلہ کی جانب رخ یا پشت کر کے پیشاب یا پاخانہ کرنا( ۵) حیض،نفاس یا جنابت کی حالت میں مسجد کے اندر توقت کرنا( ۶) مردوں کے لئے خالص ریشمی لباس اور سونا استعمال کرنا اگرچہ انگوٹھی بھی ہو( ۷) مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے کی شکل و شباہت میں ظاہر کرنا( ۸) بیوی اور شوہر کے علاوہ کسی دوسرے پر شک و شبہ شہوت سے دیکھنا خواہ یہ نگاہ عورت پر ہو یا مرد پر( ۹) کسی دوسرے کے خط اس کی مرضی کے بغیر دیکھنا( ۱۰) گھر والوں کی مرضی کے خلاف کسی کے گھر میں نظر کرنا( ۱۱) گمراہ کن کتب اور مجلے محفوظ رکھنا ایسی کتب اور مجلے تلف کرنا واجب ہے ( ۱۲) مجسمہ سازی ( ۱۳) اجنبی کے بدن کو مس کرنا( ۱۴) تقیہ کے سوا کسی ظالم کی تعریف کرنا اور کلی طور کسی ایسے کی مدح کرنا جو مدح کا سزاوار نہ ہو اور کسی ایسے کی مذمت کرنا جو قابل مذمت نہ ہو( ۱۵) کسی معصیت کی مجلس میں ٹھہرنا( ۱۶) سونے اور چاندی کے برتنوں کا استعمال( ۱۷) نماز جماعت کو اہمیت نہ دیتے ہوئے شرکت نہ کرنا۔( ۱۸) نما زجماعت میں (انکار کے طور پر )شرکت سے روگردانی۔بلکہ بعض فقہاء عظام واضح طور پر فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں جماعت میں حاضرنہ ہونا گنا کبیرہ ہے کبیرہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جماعت سے روگردانی اور اہمیت نہ دینے والے شخص کی گواہی شرعاً قابل قبول نہیں۔( ۱۹) مراجع عظام کے رسائل عملیہ میں ظہارت،نماز روزہ وغیرہ کے ابواب میں جن محرمات کا ذکر کیا گیا ہے ان کا ترک کرنا واجب ہے۔اسی طرح وضو،غسل ،تیمم ،نماز،روزہ حج ،خمس اور زکوٰة کے واجبات کی ادائیگی میں بھی غفلت برتنا حرام ہے۔

نزی معاملات کے ابواب میں خرید و فروخت،کرایہ ،ہبہ،اجارہ،غصب وغیرہ کے احکام جاننا اور ان کے محرمات ترک کرنا واجب ہے۔یہاں تک اگر کسی سے کوئی چیز لینا چاہو اور اس کا مالک شرمندگی یا مجبوری میں اس کی اجازت بھی دے تو اس پر تصرت حرام ہے کیونکہ اس پر غصب کا حکم لاگو ہوتا ہے۔اس نکتے کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ غصب گناہان مستمرہ(مسلسل)میں سے ایک ہے جب تک غصب کردہ مال اس کے مالک کو واپش نہیں کرے گا تب تک ہر آن ایک نئے گناہ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

اسی طرح نکاح وطلاق،کھانے اور پینے والی چیزوں کے محرمات مکمل طور پر جاننا اور ان کو ترک کرنا واجب ہے اور خلاف ورزی گناہ ہے جبکہ مجتہدین کے عملی رسائل میں ان امور کا تفصیلی بیان موجود ہے اس لئے ہم مختصریاد دہانی پر اکتفا کرتے ہیں۔

توبہ

یہ بات اہل بصیرت سے پوشیدہ نہیں کہ توبہ خداوند کریم کے فضل عظیم کا ایک بڑا شعبہ اور رحمت واسعہ کا سب سے بڑ ادروازہ ہے۔جو اپنے بندوں کے لئے ہمیشہ کھلا رکھتا ہے اور کبھی بند نہیں ہوا۔اگر در توبہ اور باب رحمت بند ہوتا تو کوئی بندہ نجات نہیں پا سکتا تھا۔کیوں کہ گناہوں سے آلودگی اور خطاکاری بندوں کی سرشت میں داخل ہے چونکہ انسان سہو و خطا کا پتلا ہے خواہشات نفسانی اس کے دامن گیر ہے اس کے تمام اعضائے بد ن خواہ و باطنی ہوں یا خارجی گفتار و کردار سے متعلق ہوں یا افکار و تصورات سے بلکہ سارے حرکات سکنات گناہوں اور خطاوں سے خالی نہیں مگر یہ کہ ارحم الراحمین کی رحمت اس کا تحفظ اور راہنمائی شامل حال ہو۔

اس دنیا میں کوئی ایسا بندہ بشر مل نہیں سکتا جو کہ اپنے آپ کو کسی بھی گناہ اور خطا کی آلودگی سے پاک وپاکیزہ رکھنے میں کامیاب ہو گیا ہو۔اپنی فطرت اولیہ کو آخر عمر تک تازہ مولود کی طرح صاف ستھرا محفوظ رکھ سکا ہو۔انسان تو انسان حتی انبیاء کرام (علیہم السلام) بھی لغزشوں سے اپنے آپ کو بچا نہ سکے لیکن پیغمبروں کی خطا اور ہماری خطا میں بہت فرق ہے جس کا عنقریب ذکر ہوگا۔

خداوند حکیم ور حیم نے توبہ کو تمام روحانی درد اور قلبی بیماریوں کی دوا اور ہر قسم کے گناہوں کی آلودگی سے پاک کرنے والا بہترین اور آسان تیرن نسخہ تجویز فرمایا ہے۔تا کہ انسان گناہوں میں مبتلا ہونے کے بعد توبہ کی برکت سے مغفرت کا اہل اور نجات کا مستحق بن جائے۔خوش نصیب ہے وہ بندہ جو اس باب رحمت کی قدر کرے اس کی سہولت سے فائدہ اٹھائے اور اس عنایت پروردگار کا شکر ادا کرے اس کے برعکس بد نصیب وہ ہے جو اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھاسکے۔روز قیامت جب بندے موقع حساب میں لائے جائیں گے اور اس سے ان کے اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا تو یہ بدنصیب بندے کہیں گے پروردگار میں ناداں و بے خبر تھا اپنی شہوت وغضب خواہشات نفسانی کا اسیر تھا اور میں شیطان کے وسوسوں کے سامنے بے بس تھا تو خدواند عالم جواب میں فرمائے گاکیا تم پر کوئی ایسی ذمہ داری ڈال دی گئی تھی جو تمہاری قوت و استطاعت سے باہرتھی؟کیا میں نے توبہ کے بارے میں سخت شرائط عائد کئے تھے؟ تو بندہ گنہگار جواب میں عرض کرے گا۔

الهی ارحمنی اذ انقطعت حجتی وکل عن جوابک لسانی و طاش عند سئوالک (ابوحمزہ ثمالی) خدایا میری حالت پر رحم فرما تو نے میرے حیلہ وحجت کا خاتمہ کر دیا۔تجھے جواب دینے میں میری زبان کام نہیں کرتی تیرے سوالات سے میرے دل پر دہشت طاری ہوئی ہے اس لئے جواب سے قاصر ہے۔

حقیقت توبہ

حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)(توبہ کی تعریف میں)فرماتے ہیں الندامتہ توبتہ گناہ سے پشیمانی(کانام)توبہ ہے ،جناب امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا مامن عبد اذ نب ذنبا فندم علیہ الا غفر اللہ لہ قبل ان یستغفر(کافی جلد ۲ ص ۲۲۷) کوئی بندہ کسی قسم کا گناہ کرے اس کے بعد(دل سے ) پشیمان ہوتا ہے و خداوند رحیم اس سے پہلے کہ وہ (زبان سے)اپنے گناہ کی مغفرت طلب کرے اسے معاف کر دیتا ہے ۔پس معلوم ہوا گناہ سے پشیمانی ہی توبہ کی حقیقت ہے۔اور یہ کہ وہ محسوس کرے خدائے عزوجل کے نزدیک بہت بری چیز اس کی نافرمانی ہے جس سے وہ ناراض ہو تا ہے ۔اس طرح کے احساس رکھنے والا حساس انسان اس غلام کی مانند ہے جو اپنے مولا کی مرضی کے خلاف کوئی عمل اس غفلت میں انجام دیتا ہے کہ اس کامولا اس کا جرم نہیں دیکھ رہا لیکن وہ پوشیدہ طور سے تاک میں اچھی طرح دیکھ رہا تھا بعد میں یہ حالت غلام کو معلوم ہوتی ہے تو وہ دل سے سخت پچھتانے لگتا ہے اور زبان سے معذرت چاہتا ہے۔یا پھر اس تاجر کی مانند ہے جو اپنے کسی دانا دوست کے منع کرنے کے باوجود (کوئی)لین دین کرے اور اس میں اپنے تمام سرمائے سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔اور کافی مقدار میں قرضے بھی چڑھائے۔اس صورت میں وہ اس لین دین سے کس قدر پریشان اور حد درجہ پشیمان ہوگا۔

مزید وضاحت کے لئے ایسے شخص کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے جسے طبیب نے کوئی خاص غذا کھانے سے منع کیا ہو لیکن وہ جان بوجھ کر کھائے اور بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد اس پر پچھتائے لیکن خداوند کریم کے حضور میں دل سے پشیمانی کافی ہے چنانچہ امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کفی باالندم توبة توبہ کے لئے یہ کافی ہے کہ بندہ اپنے کئے پر نادم ہو۔

پشیمانی گناہ ترک کرنے کا سبب ہے

اس میں شک نہیں کہ پروردگار عالم، روزجزا اور جو کچھ انبیاء کرام و آئمہ طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین نے احکام خدا ہم تک پہنچائے ہیں ان پر جس قدر ایمان اور یقین کا درجہ بلند ہو گا اسی حساب سے پشیمانی کا احساس بھی سخت ہو گا۔چنانچہ گناہ پر ندامت اور تاسف کا لازمہ یہ ہے کہ اس گناہ کو آئندہ ترک کرنے کا پختہ عزم کرے ۔اگر ایسا ارادنہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ در حقیقت وہ اس گناہ سے پشیمان نہیں ہوا۔

حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں ان الندم علی الشر یدعو الی ترکہ(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۴۹) اس میں شک نہیں کہ کسی گناہ پر شرمندگی اس کے ترک کا سبب بن جاتا ہے۔

نیز گناہ سے پشیمانی اور اظہار افسوس کا لازمہ یہ ہے کہ وہ آئندہ اس گناہ کے تدارک کے لئے اس طرح کوشش کرے کہ اگر گناہ حق اللہ میں سے ہو مثلاً نماز ،روزہ حج یا زکوٰة کو تر کر دیا ہو تو اس کا قضا بجالائے اگر حق الناس میں سے اگر مالی حق اس کے ذمہ واجب الادا ہو تو صاحب مال کو واپس کر دے اگر مالک مرچکا ہو تو اس کے وارثوں کو واپش کرے۔اگر وارثوں کو نہیں پہچانتا تو ان کی طرف سے صدقہ دے۔

اگر حق الناس عرضی( عزت و ناموس) سے متعلق ہو تو اسے بخشوانے اور اپنے آپ سے راضی کرے۔اگر حق قصاص یا دیت لی جاسکے یا معاف کر دی جائے۔اگر حق حد جیسا ہو مثلاًقذف تو لازم ہے کہ خود کو صاحب حق کے حوالے کرے تا کہ اس پر حد جاری ہو۔یا معافی حاصل کرلی جائے۔

لیکن اگر ایسے گناہ کا مرتکب ہوا ہو جس کے لئے خداوند عالم نے حد مقرر کر دی ہو جیسے زنا تو اس کے لئے یہ واجب نہیں کہ حاکم شرع کے پاس حد جاری کروانے کے لئے اقدار کیا جائے بلکہ اس کے توبہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ اپنے گناہ کا مرتکب ہواہو جس کیلئے خداوند عالم نے حد مقرر کر دی ہو جیسے زنا تو اس کے لئے یہ واجب نہیں کہ حاکم شرع کے پاس حد جاری کروانے کے لئے اقدار کیا جائے بلکہ اس کے توبہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ اپنے گناہ پر ندامت آئندہ نہ کرنے کا عزم اور باربار استغفار کرتے رہنا ہی کافی ہے ۔اسی طرح وہ گناہان کبیرہ جن کے لئے حد مقرر نہیں کی گئی جیسے غنا اور موسیقی سننا اور غیبت کرنا وغیرہ گناہوں کے لئے بھی ندامت و استغفار ضروری ہے۔اس بات کی توضیح ضروری ہے کہ اگر دنیا میں کسی گنہگار پرحد جاری کر دی جائے تو آخرت میں اس کے لئے قطعا سزا نہیں۔لیکن اگر صرف توبہ کر لی جائے اس صورت میں توبہ کرنے والے کیلئے ضروری ہے کہ قبولی توبہ او عذاب معاف کے متعلق خوف و رجاء کے درمیان غیر یقینی عالم میں طلب عفو کرتا رہے۔

آیات کریمہ اور احادیث کی رو سے پشیمانی کے بعد استغفار کرنا واجب ہے بایں معنی کہ بارگاہ خداوندی میں گناہوں کی مغفرت کے لئے استغفار اور دعا کرتے رہیں۔چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا:( و استغفروا الله ان الله غفور رحیم ) (سورہ بقرہ آیت ۹۹۱) اور خدا سے مغفرت کی دعا مانگو بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:لاکبیرة مع الاستغفار استغفار کے بعد کوئی گناہ کبیرہ باقی نہیں رہتا۔

وقال (صلی الله علیه و آله) الذنوب الاستغفارحضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا گناہوں کی بیماری کی دوا ستغفار ہے۔

وعن علی (علیه السلام) العجب ممن یقنط ومعه الممحاة قیل وماالممحاة؟قال علیه السلام الاستغفار (وسائل باب ۸۳ ج ۱۱ ص ۳۵۶) جناب علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں مجھے تعجب ہے اس شخص سے جو (گناہوں میں زیادہ ملوث ہونے کے بعد ناامیدی کی حالت میں حیران ہے جبکہ) اس کے ساتھ گناہوں کو مٹانے والا آلہ موجود ہے کسی نے عرض کیا مولا مٹانے والا آلہ سے کیا مراد ہے ؟فرمایا گناہوں کو مٹانے والا آلہ توبہ استغفار اور دعا ہے۔

توبہ کاملہ

کسی نے حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے سامنے کہا۔استغفر اللہ آپ نے فرمایا تیری ماں تیرے ماتم میں روئے۔تمہیں معلوم ہے کہ استغفار کیا ہے؟(اس کا استغفار زبان تک محدود تھا اور دل حقیقت توبہ سے نا آشنا تھا) فرمایا استغفار بلند مقام افراد اور صدر نشین اشخاص کا مرتبہ ہے۔استغفار کے معنی اور اس کی حقیقت سمجھنے کے لئے کچھ چیزیں لازم ہیں۔

۱) گزشتہ بد کرداری سے پشیمانی اور تئاسف۔

۲) ہمیشہ کے لئے گناہ ترک کرنے کا مصمم ارادہ۔

۳) لوگوں کے حقوق اس طرح اداکریں کہ مرتے وقت کسی قسم کا حق اس کے ذمہ نہ ہو اور پاکیزہ حالت میں رحمت خدا سے پیوستہ ہو جائے۔

۴) ہر وہ واجب جسے انجام نہ دیا ہو اسکا تدارک کرے۔

۵) مال حرام سے بدن پر چڑھنے والے گوشت کو غم آخرت سے اس طرح پگھلائے کہ بدن کی کھال ہڈیوں سے متصل ہو جائے اور پھر حلا ل گوشت بدن میں پیدا ہو جائے۔

۶) اپنے جسم کو عبادت کی ورزش و عادت سے اس طرح مزہ چکھائے جس طرح عیاشی اور دن رات گناہ کی لذت سے آشنا کیا تھا۔

جب تم میں یہ چھ صفتیں پیدا ہوں اس وقت تم استغفر اللہ کا ورد پڑھنے کے اہل ہو(وسائل کتاب جہاد باب ۸۵ ج ۱۱ ص ۳۶۱)

توبہ واجب ہونے کی دلیل اور اسکی فضیلت

علماء کرام کا یہ متفقہ فتویٰ ہے کہ گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ ان میں مرتکب ہونے کے بعد توبہ کرنا واجب ہے اور عقل انسان بھی اس حکم کو تسلیم کرتی ہے ۔چنانچہ محقق طوسی تجرید الکالم میں اور علامہ حلی اعلی اللہ مقامہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ توبہ دنیوی اوراخروی ضرر کو دور کرتی ہے اور ہر ضرر اور نقصان کا دفاع کرنا عقلاً واجب ہے اس لئے توبہ عقل کی رو سے واجب ہے۔اس بارے میں خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے( وتوبوا الی الله جمیعا ایها المومنون لعلکم تفلحون ) (سورہ نور آیت ۳۱) اور (اے ایماندارو)تم سب کے سب خدا کی بار گاہ میں توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاجاو۔

مزید فرماتا ہے( یا ایها الذین امنوا توبوا الی الله توبتة نصوحا عسیٰ ربکم ان یکفر عنکم سیئاتکم ) (سورہ تحریم آیت ۸) اے ایمانداروخدا کی بارگاہ میں توبہ نصوح (خالص توبہ صرف خدا کی خوشنودی کے لئے )کرو۔امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہارے گناہ دور کردے۔

توبہ نصوح کیا ہے؟

علامہ مجلسی اعلی اللہ مقامہ شرح کافی میں مفسرین کے حوالے سے توبہ نصوح کے چند معانی بیان فرماتے ہیں،

( ۱) صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بے لوث اور خالص توبہ کرے۔یعنی فقط حکم خدا کی مخالفت اور نافرمانی سے پشیمان ہو کر دل میں شرمندگی کا مکمل احساس کرتے ہوئے توبہ کرے۔جہنم کے ڈر سے توبہ کرے نہ جنت کے لالچ میں ۔اور محقق طوسی تجرید الکالم میں فرماتے ہیں دوزخ کے خوف کی بنا پر گناہوں سے پشیمان ہونا توبہ نہیں۔(کیوں کہ دوزخ اور بہشت دو مخلوق خدا ہیں اس کے حکم کے بغیر فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ ضرر)۔

( ۲) تو بہ اس طرح کی جائے جس کی حالت دیکھ کر دوسرں کے لئے درس عبرت حاصل ہو لوگوں کے دلوں میں توبہ کرنے کا شوق و ذوق پیدا ہو وہ اپنے اچھے گفتار وکردار سے گزشتہ گناہوں کی تلافی کرے اور خطاوں کا تدارک کرے یہاں تک کہ ہر مجرم اسکی توبہ کے آثار دیکھ کر رشک کرے اور وہ بھی توبہ کی طرف راغب ہو جائے۔اس صورت میں اس نے توبہ کرنے کا حق ادا کیا مخلوق خد اکو نصیحت کی اور ان کی رہنمائی کی ہے۔

اگر توبہ کرنے والا اپنے کردار کی نمایاں تبدیلی سے دوسروں کو متاثر نہ کر سکے تو کم از کم اپنے نفس کی اصلاح میں اس طرح کامیاب ہو نا چاہئے کہ توبہ کے بعد گناہوں سے مکمل طور پر دور رہے اور آخر تک کسی کبیرہ یاصغیرہ گناہ میں ملوث نہ ہوجائے۔

( ۳) توبہ نصوح کے معنی ہیں خالص توبہ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر ہوا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ نصوح لفظ نصاحت کا مشق ہے اور نصاحت عربی زبان میں کپڑا سینے اور رفو کرنے کو کہتے ہیں۔بنا برایں ایسی توبہ کرے کہ گناہگار نے اپنے شرم وحیاء اور دیانت کے جس لباس کے بے حیائی اور لا پرواہی سے پارہ پارہ کیا ہے اسے توبہ کے ٹانکوں اور پشیمان ی کے رشتوں سے رفو کرے تاکہ وہ خدا اور اس کے دوستوں سے نزدیک ہو جائے۔

( ۴) ممکن ہے کہ نصوح توبہ کرنے والے کی صفت ہو اس صورت میں نصیحت اس کا مصدر ہوتا ہے اس لحاظ سے توبہ نصوح کے معنی ہوں گے کہ گناہگار کے لئے نصیحت کرنے والا توبہ یعنی گناہ کے ہر تصور کو اپنے دل سے مٹا دے۔اور گنا ہوں کی تاریکیوں کوتوبہ کے وسیلے سے مٹا کر نور ایمان سے دل کو روشن کریں۔

علامہ مزید فرماتے ہیں کہ کسی بزرگ کا قول ہے کہ آئینہ(دلی )چمکانے کے لئے صرف ظاہر کو صاف کرنا کافی نہیں بلکہ اس کا صقیل کرنا بھی لازم ہے تا کہ جمی ہوئی گندگی اور مساسات میں بیٹھی ہوئی سیاہی اچھی طرح صاف ہوجائے۔توبہ کرنے والے پر لازم ہے کہ ہمیشہ اپنے گناہوں کو تفصیل کے ساتھ پیش نظر رکھے اور ہر ایک گناہ کے برابر ایک نیکی بجا لائے تاکہ اس کی تلافی ہو۔مثلاً غنا اور موسیقی اور ان کے آلات کی آواز کو جتنا سنا ہو اسی کے برابر قرآن ،حدیث،وعظ و نصیحت ،دینی مسائل و دروس سننے کی کوششش کریں۔قرآن مجید کے حروف کو وضو اور غسل کے بغیر مس کیا ہو تو اس کا تدارک قرآن کی تلاوت اور مقدور بھی احترام سے کرنا چاہیے۔اگر حالت جنابت میں مسجد کے اندر توقف کیا ہو تو استغفار کے لئے اسی مسجد میں مثلاً اعتکاف کرے۔

اگر حرام چیزوں کی طرف نظر کی ہو تو اس کے بدلے ان چیزوں کو دیکھنا چاہئے جن کا صرف دیکھنا ہی عبادت ہو مثلاً قرآن مجید کے حروف و خطوط پر نظر کرنا۔والدین کو شفقت کی نگاہ ،مومنین باکردار سادات کرام اور عترت آل اطہار صلوات اللہ علیہم اجمعین و غیرہ کو دیکھنا۔

ٍ اگر لوگوں کے حقوق سے بری الذمہ ہونا مقصود ہو تو بہ و پشیمانی کے بعد اپنی ضرورت سے زائد مال کو صدقہ دے۔کسی مومن کی غیبت کی تلافی مطلوب ہو تو توبہ کے بعد اس مومن کی مدح و ثناء اور اس کی نیک صفات کو اجاگر کرے۔مختصر یہ کہ ہر گناہ میں ملوث ہونے کے بعد پہلے توبہ کرے پھر وہ عبادات بجالائیں جو کئے گئے گناہوں کی ضد ہیں۔ بایں معنی کہ ہر شر کا ضد خیر ہی ہو سکتا ہے۔اسلئے جیسا کہ جسمانی امراض کا علاج ان کی ضد سے کیا جاتا ہے اسی طرح روحانی بیماریوں کا معالجہ بھی اس کی ضد سے کرتے ہیں۔(توبہ نصوح کے متعلق علامہ مجلسی کا بیان اختتام پذیر ہوا)

توبہ کی فضیلت

( ۱) توبہ کرنے والے محبوب خدا ہوتے ہیں چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا۔

( ان اللّٰه یحب التوابین و یحب المتطهرین ) (سورہ بقرہ آیت ۲۲۲)

بے شک خداوند کرم بہت زیادہ توبہ کرنے والوں اور (اپنے آپ کو )پاک وصاف رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :ان اللہ یفرح بتوبتہ عبدہ المومن اذاتاب کما یفرح احدکم بضالتہ اذا وجد ھا(اصول کافی)

بے شک خداوند عالم اپنے بندہ مومن کی توبہ سے اس طرح خوش ہوتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گم شدہ مال کے واپس ملنے پر خوشی محسوس کرتا ہے۔

( ۲) توبہ کرنے والے کا گناہ نیکی میں بدل دیتا ہے

توبہ کی برکت سے نہ صرف گناہ کی آلودگی اور تاریکی دور ہو جاتی ہے بلکہ اطاعت کے نور سے اس کا دل روشن اور روح تازہ ہوتی ہے چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے

( والذین لایدعون مع الله الها اخر ولا یقتلون النفس التی حرم الله الا بالحق ولایزنون ومن یفعل ذالک یلق اثاما یضاعف له العذاب یوم القیامته ویخلد فیه مهانا الامن تاب و امن و عمل عملا صالحا فاولئک یبدل الله سیئاتهم حسنات وکان الله غفور رحیما ) (سورہ فرقان آیت ۶۸،۶۹،۷۰)

وہ لوگ جو خدا کے ساتھ دوسرے معبود کی پرستش نہیں کرتے ۔اور جس جان کے مارنے کو خدا نے حرام قرار دیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسا کرے گا وہ اپنے جان کی سزا بھگتے گا کہ قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا۔اور اس میں ہمیشہ ذلیل و خوار رہے گا۔مگر جس شخص نے توبہ کی اور ایمان قبول کیا اور اچھے کام کئے تو ان لوگولں کی برائیوں کو خدا نیکیوں سے بدل دے گا اور خدا توبڑابخشنے والا اور مہربان ہے۔

( ۳) توبہ کرنے والا فرشتوں کی د عا و ثناء کا مستحق ہے

رب جلیل ارشاد فرماتا ہے :

( اَلذِّیْنَ یَعْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ یُسَبِحُّوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَیُومِنُوْنَ بِه وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّناٰ وَسِعَتْ کُلَّ شَئٍیء رَّحْمَةً وَّ عِلْماً فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تٰابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِهِمْ عَذٰابَ الْجَحِیْمِ ) (سورہ مومن آیت ۷)

ترجمہ: جو فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے ارد گرد(تعنیات)ہیں (سب)اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین کے لئے دعا نگتے ہیں کہ پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے تو جن لوگوں نے(سچے)دل سے توبہ کر لی اور تیرے راستہ پر چلے ان کو بخش دے اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچالے۔(سورہ مومن آیت ۷)

( رَبَّنٰا وَادْخِلْهُمْ جَنّٰاتِ عَدْنِ نِ الَّتی وَعَدتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبٰآئِهِمْ وَاَزْوٰاجِهِمْ وَذُرِّیّاتِهِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمِ وَقِهِمُ السَّیِئّاٰتِ وَمَنْ تَقِ السَّیئّاٰتِ بَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذٰالِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمِ ) (سورہ مومن آیت ۸،۹)

"اے ہمارے پالنے والے ان کو سدا بہار باغوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے داخل کر۔ اور ان کے باپ داداوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جولوگ نیک ہوں ان کو (بھی بخش دے)بے شک توہی زبردست (اور )حکمت والا ہے۔"

اور ان کو ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ رکھ اور جس کو تو نے اس دن کے عذابوں سے بچا لیا(گویاتو نے اس پر بڑا رحم کیا اور یہی توبڑی کامیابی ہے(سورہ مومن آیت ۸،۹)

( ۴) توبہ کرنے والا جنتی ہے

اس بارے میں پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

( وَالَّذِیْنَ اِذاٰ فَعَلُوْا فٰاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسُهَمُ ذَکَرُواللّٰهِ فَاَنْستَغْفَروُا لِذُنُوْبِهِمْ وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبُ اِلاَّ اللّٰه وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مٰافَعَلُوْا وَهُمْ یَعْلَمُوْنَ اُولٰئِکَ جَزٰاوهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رّبَهِّمْ وَجَنّاٰتٍ تَجِرْیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنَهْارُ خٰالِدِیْنَ فِیْهٰا نِعْمَ اَجْرُ الْعٰامِلِیْنَ ) (سورہ آل عمران آیت ۱۳۵،۱۳۶)

لوگ جب کوئی بد کاری کر بیٹھتے ہیں یا اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں تو خدا کا یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو جانتے بوجھتے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے۔

ایسے لوگوں کے لئے خدا کی طرف سے بخشش ہے۔ان کے لئے پروردگار کی طرف سے بہشت کے باغات ہیں۔جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اورہمیشہ ان میں رہیں گے اور اچھے چلن والوں کے لئے کیا خوب مزدوری ہے۔(سورہ آل عمران آیت ۱۳۵،۱۳۶)

( ۵) توبہ طول عمر،رزق کی فراوانی اور خوشحالی کا سبب ہے

( وَاِنَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا مَتٰاعاً اِلٰی اَجَل مُّسَمًّی وَّیُوتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهُ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنّیْ اَخٰافُ عَلَیکُمْ عَذاٰبِ یَوْمٍ کَبِیْرٌ ) (سورہ ھود آیت ۳)

"اور اپنے پرودگار سے مغفرت کی دعا مانگو پھر اس کی بارگاہ میں(گناہوں سے) توبہ کرووہی تمہیں ایک مقررہ مدت(موت)تک اچھے لطف کے فائدے اٹھانے دے گا اور وہی ہر صاحب بزرگی کو اسکی بزرگی(کی داد)عطا فرمائے گا اور اگر تم نے (اس کے حکم سے )منہ موڑا تو مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے (خوفناک) دن کے عذب کاڈر ہے۔"

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے من یموت بالذنوب اکثر ممن یموت بالاجال۔(جلد اول سفینہ البحارص ۴۸۸) جو لوگ گناہوں کے سبب کم عمری کی حالت میں جلد مرجاتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔بہ نسبت ان افراد کے جو مقدار اجل پر مرتے ہیں۔

یعنی گناہ عمر کم کرنے اور توبہ عمر درازی کا سبب بنتی ہے ۔سورہ نوح میں ارشاد فرمایا گیا:

( فَقُلْتُ اسْتَغِفْرُوْا رَبّکُمْ اِنَّهُ کٰانَ غَفّٰاراً یُرْسِلُ السَّمَآءَ عَلَیْکُم مِدْرٰاراً وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوٰالٍ وَّ بَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّاٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْهٰارا )

"میں (نوح) نے ان سے کہا اپنے پروردگار سے مغفرت ی دعا مانگو بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے اور تم پر آسمان سے موسلادھار پانی برسائے گا اور تمہیں مال اور اولاد میں مدد (ترقی)دے گا اور تمہارے لئے باغ بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جادی کرے گا"۔

(سورہ نوح آیت ۱۰،۱۱،۱۲)

فہرست

آیة اللہ دستغیب کی مختصر سوانح حیات ۴

تقویٰ کی حقیقت ۵

روایات میں ترکِ حرام کی اہمیت ۶

پہلی روایت: ۶

دوسری روایت: ۶

تیسری روایت: ۶

بہشت کے درخت کو جلانے والی آگ ۷

چوتھی روایت: ۷

پانچویں روایت: ۷

حرام خوری عبادت کو جلا دیتی ہے ۷

چھٹی روایت: ۷

حق الناس قبولیت اعمال میں رکاوٹ ہے ۷

ساتویں روایت: ۸

آ ٹھویں روایت: ۸

نویں روایت: ۸

گناہ دعا کی قبولیت میں مانع ہے ۸

دسویں روایت: ۸

گناہ ترک کرنا حقیقی عبادت ہے ۹

گیارہویں روایت: ۹

گناہ سے بچنا چاہیئے ۹

نیک اعمال گردوغبار کی طرح پراگندہ ہو سکتے ہیں ۱۰

بے شمار پرھیز گار لوگ جنت میں جائیں گے ۱۰

گناہانِ ِ کبیرہ و صغیرہ کی تقسیم ۱۱

کبیرہ سے اجتناب صغیرہ سے درگزر کا سبب بنتا ھے ۱۱

بہشت کے دروازے پرہیزگاروں کے سامنے کھلے ہیں ۱۱

شفاعت ۱۱

شفاعت معصیّت کرنے پر دلیری کا سبب نہیں ہونی چاہیئے ۱۲

نجات کی امید میں خودکشی کرنا ۱۲

موت کی تین قسموں میں سے ایک قسم واقع ہوتی ہے ۱۳

میں تمہارے بارے میں برزخ سے ڈرتا ہوں ۱۳

کل خون کے آنسو بہائے گا ۱۴

نماز کو حقیر شمار کرنے والوں کے لیے شفاعت نہیں ۱۵

زیادہ گناہ ایمان کو ختم کر دیتا ہے ۱۵

گناہ دل کو سیاہ کر د یتا ہے ۱۶

قلب ِسیاہ پر وعظ و نصیحت کا اثر نہیں ہوت ۱۷

گذ شتہ گناہوں سے ڈرنا ۱۷

شفاعت امید کا موجب ہے نہ مغرور ہونے کا سبب ۱۸

پھر بھی خوف و ہراس ہونا چا ہیئے ۱۸

شیعیان ِ اہل ِ بیت علیہم السّلام ۱۸