گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ0%

گناہان کبیرہ مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

گناہان کبیرہ

مؤلف: آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 105652
ڈاؤنلوڈ: 5727

تبصرے:

گناہان کبیرہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 105652 / ڈاؤنلوڈ: 5727
سائز سائز سائز
گناہان کبیرہ

گناہان کبیرہ

مؤلف:
اردو

عبادت میں توحید اور شرک

پروردگار عالم نے اپنے عظیم فضل و کرم کے اظہار کے لیے تمام بندوں کو دعوت عام دی ہے کہ اس کی بارگاہ میں حاضری دیں۔ اس کی رحمت و برکت اور گوناگوں نعمتوں سے بے شمار فیض حاصل کریں اور ایسے بلند درجات پر فائز ہو جائیں جو اس سے پہلے کسی آنکھ نے دیکھے ہوں نہ کسی کے کان کو سننے کی توفیق ہوئی ہو، نہ کسی کے دل کو سوچنے اور تصوّر کرنے کی سعادت ہو ئی ہو۔

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسُ مَّا اُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ

(سورہ ۳۲ آیت ۱۷)

"کوئی نفس یہ جانتا ہی نہیں کہ ان کے اعمال کی جزا میں کیسی کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک (اللہ کے نزدیک) ڈھکی چھپی رکھی ہے۔"

بشر خاکی کجا، ربّ العالمین کجا

اس قول کے مطابقمَالِلتُّرابِ وَرَبُّ الاَرْبَابِ (چہ نسبت خاک را با عالم پاک) اللہ پاک کے بندے وسیلے اور آمادگی کے سوا، ذاتی استعداد و قابلیت کے بغیر قرب الٰہی کے وسیع و عریض بساط پر ہر گز قدم نہیں رکھ سکتے (چونکہ بندہ ناچیز بلاواسطہ اور بلا عمل "مجّرد محض" کی قربت کی خواہش کرنا ناممکن ہے) اس لیے خدائے علیم و حکیم نے اپنی حکمت بالغہ سے حضرت خاتم الانبیاء و آئمہ ہدیٰ (علیہم السلام)کو بندگان خدا کے لیے وسائل اور ان کے توسط سے عبادات کو ذریعہ قربت قرار دیا تا کہ ان مضبوط رشتوں کو تھام کر عبد خاکی کے لیے اپنے معبود عالی تک رسائی ممکن ہوجائے۔

وسیلے سے نفس انسانی اس طرح متاثر ہوتا ہے اور جبلّت تبدیل ہو جاتی ہے جس طرح کیمیا چھونے سے تانبے کی طبیعت و صورت بدل کر کھرا سونا بن جاتی ہے اسی طرح خدا کی عبادت کے نورانی اثرات سے تاریک نفوس کا تزکیہ ہوتا ہے اور دلوں کی تاریکی دور ہو جاتی ہے۔ پھر تمام مراتب پاکیزگی طے کرنے کے بعد عبادت کی برکت سے قربِ الٰہی کی بساط پر قدم رکھ کر دو جہان کی خیرو خوبی سے شرف حاصل کرسکتے ہیں۔

نیت میں خلوص

قبولِ عبادات کیلئے کچھ شرائط ہیں سب سے اہم شرط نیّت میں خلوص پیدا کرنا ہے۔ بلکہ عمل میں خلوص ایسا ہی ہے جیساکہ جسم میں جان کاہونا۔اگرعبادات خالص نہیں تومقرب درگاہ الہی ہوناتودرکناربندے کواپنے خالق سے اورزیادہ دورکردیتاہے قرآن میں اس موضوع سے متعلق بہت سی آیتیں موجود ہیں۔ ان میں سے چند ایک تبرکاً کا ذکر ہوتی ہیں :

( وَمَا اُمِرُوْا اِلاَّ لَیَعْبُدُوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الَّذِیْنَ ) (سورہ ۹۸ ۔آیت ۴)

ان کو (اس کے سوا اور کوئی ) حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اِخلاص کے ساتھ اللہ کی پرستش کریں ۔

( قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَاللّٰهَ مُخْلِصاً لَّه الدِّیْنَ حُنَفٓاءَ ) (سورہ ۲۹ ۔آیت ۱۴)

کہہ دو (اے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ)) مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ عبادت کو اسی کے لئے خالص کر کے خدا ہی کی بندگی کروں۔

( وَادْعُوْهُ مُخلِصِیْنَ لَهُ الدِّین ) (سورہ ۷ ۔ آیت ۲۹)

اس کے لیے نرمی کھری عبادت کر کے اس سے دعا مانگو۔

فَمَنْ کَانَ یَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَّلَا یُشْرِکُ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ اَحَداً

(سورہ ۱۸ ۔آیت ۱۱۰)

جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے حاضرہونے کا آرزو مند ہو تو اسے اچھا (خالص ) عمل بجا لانا چاہیے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ (یعنی ریائے سمعہ سے پرہیز کریں) ۔

ریا کار مشرک ہے

معتبر روایات سے یہ مطلب اخذ ہوتا ہے کہ دکھاوے کا کام کرنے والا شخص مشرک و منافق ہے اور وہ پروردگارِ عالم کے عذاب میں گرفتار ہو کر اس کے غضب کا نشانہ بنتا ہے ۔

خوا ہ اس کی ریا واجبات میں ہو یا مستحبات میں، چاہے وہ مستقل ریا کار ہے یا شرکت کے طور پر ، باالفاطِ دیگر وہ مخلوق سے قریب تر ہونے اور ان کے نزدیک اپنے آپ کو محترم بنانے اور ان کی خوشنودی کے لیئے عبادت کرتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ امرِخدا کی فرمانبرداری کا قصد بھی رکھتا ہے ۔ اور اس کی رضایت و قربت کا آرزو مند بھی ہے (اس قسم کے تعبد کوشرک در مقام عبادت کہتے ہیں)

قارئینِ محترم کو مزید معلومات فراہم کرنے کے لیے اس موضوع سے متعلق کئی آیاتِ شریفہ یہاں ذکر کی جا رہی ہیں ۔ ان میں سے ایک سورہِ نسا ء کی یہ آیت ہے :

( اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخادِعُوْنَ اللّٰهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَاِذَا قَامُوْا اِلٰی الصَّلوٰةِ قَامُوْا کُسَالٰی یُراونَ النّاسَ وَلَایَذْکُرُوْنَ اللّٰهَ اِلاَّ قَلِیْلاً مُذَبُذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَا اِلٰی هٰولَآءِ وَلَا اِلٰی هٰولَآءِ ) (سورہ ۴ ۔آیت ۱۴۲)

بے شک منافقین (اپنے خیال میں) خدا کو فریب دیتے ہیں حالانکہ خدا انہیں ان کے مکر و فریب کا بدلہ دینے والا ہے ۔ یہ لوگ جب نماز پڑھنے کھڑے ہوتے ہیں تو (بے دلی اور ) کراہت سے کھڑے ہوتے ہیں ۔ اور فقط لوگوں کو دکھاتے ہیں اور ریا کرتے ہیں ۔ دل سے خدا کی یاد کم کرتے ہیں ۔ یہ لوگ کفر اور ایمان کے درمیان ترددّ کی حالت میں جھول رہے ہیں ۔ نہ مومنین کے ساتھ ہیں (کیوں کہ ان کے باطن کفر سے بھرے ہوئے ہیں ) نہ کافروں کے ساتھ ہیں (چونکہ بظاہر مسلمان ہیں اور مومنین سے مشابہت رکھتے ہیں ) ۔

سورہ ماعون میں فرمایا ہے :

( فَوَیْلٌ لِلّمُصَلِّیْنْ اَلَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صلاتِهِمْ سَاهُوْنَ وَالِّذِیْنَ هُمْ یُرَآونَ ) (سورہ ۱۰۷ ۔آیت ۴)

سخت عذاب ان (ریا کار ) نماز گزاروں کے لیے تیار ہے جو کہ اپنی نماز سے غافل و بے خبر رہتے ہیں (اس کو اہمیت نہیں دیتے ) یہ لوگ اپنے اعمال کو دکھاوے کے واسطے کرتے ہیں (تا کہ لوگ ان کی تعریف کریں )۔

ریاء شرک ِاصغر ہے

حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا :

اِنَّ اَخْوَفُ مااَخَافُ عَلَیْکُمُ الشِّرْکُ الْاَصغَرُ قِیْلَ وَمَا الشِرکُ الْاَصْغَرُ فَقَالَ (ص)الرِّیَآءُ

یَقُوْلُ اللّٰهُ تَعَالٰی یَوْمَ القیامَةِ اِذَاجَازَالْعِبَادُ بِاَعْمَالِهمْ اِذْهَبُوْا اِلٰی الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تُرَاونَ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا هَلْ تجِدُوْنَ عِنْدهُمْ ثَوَابَ اَعْمَالِکُمْ (بحارالانوار)

بے شک تمہارے بارے میں جس چیز سے مجھے زیادہ تر خوف ہے وہ شرک ِ اصغر سے ہے۔ کسی نے عرض کیا اے پیغمبر چھوٹے شرک سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا وہ ریاء ہے ۔ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال کی جزا ء دینے لگے گا تو ریا کاروں سے فرمائے گا " تم ان لوگوں کی طرف رجوع کرو جن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دنیا میں نیک اعمال انجام دئیے تھے ۔ انہیں سے اپنے اعمال کا صلہ لے لو کیاان سے صلہ ملنا ممکن ہے ؟ ( ہر گز نہیں ) ۔

ریا کار اپنے آپ کو دھو کہ دیتا ہے

سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰهُ (ص) فِیْمَا النَّجاةُ غَداً؟ فقال (ص) انَّمَا النَّجَاةُ فِیْ اَنْ لاَّ تُخَادِعُوا اللّٰهَ فَاِنَّهُ مِنْ یُخَادِعُ اللّٰهِ یَخْدَعُه وَیَخْلَعُ مِنْهُ الْاِیْمانَ وَٰیَخْدَعُ نَفْسَهُ لویَشْعُرُ فَقِیْلَ لهُ وکیف یُخَادعُ اللّٰهَ ؟ قَالَ (ص) فَیَعْمَلْ بِمَا اَمَرَاللّٰهُ بِهِ ثُمَّ یُرِیْدُ بِهِ غَیْرَهُ فَاتَّقُواللّٰهَ وَاجْتَنِبُوْا الرِّیَآءَ فَاِنَّهُ شِرْکٌ بِاللّٰهِ اِنَّ المُرَآئِی یُدْعیٰ یَوْمَ القِیَامَةِ بِاَرْبَعَةِ اَسْمَآءٍ یاکافِر یافاجر یا غَادِرُ یَاخَاسِرُ حَبِطَ عَمَلُکَ وَبَطَلَ اَجْرُکَ وَلَا خَلَاقَ لَکَ الْیَوْمِ فَالتَمِسْ اَجْرَکَ مِمَّنْ کُنْتَ تَعْمَلُ لَهُ(مَحَجَّةُ البَیْضَاءِ بِحَارُ الْاَنْوارِ)

حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے کسی نے پوچھا کہ قیامت کے دن نجات کیسے حاصل ہو؟ فرمایا نجات اسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دھوکے بازی نہ کرے ۔ بے شک کوئی اللہ کو دھوکہ سے تو خدا اسے دھوکہ دیتا ہے ۔ (یعنی اسے دھوکے کا بدلہ دیتا ہے ) اور ایمان اس سے چھین لیتا ہے ۔ اگر وہ شعور رکھتا ہے تو دھوکہ اپنے آپ کو دیتا ہے نہ کہ خدا کو ۔کسی نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کیسے دھوکہ و فریب دے سکتا ہے ؟ فرمایا کہ بندہ حکم ِ خدا تو بجا لاتا ہے مگر اس کا قصد غیر خدا کی خوشنودی ہوتا ہے پس تم اللہ سے ڈرو اور ریا سے پرہیز کرو ۔ یقینا ریا اللہ سے شرک باندھنا ہے۔ بے شک قیامت کے دن ریا کار کو چار ناموں سے پکارا جائے گا ؛اے کافر ، اے فاجر (گنہگار) ،اے غادر (مکار ) ،اے خاسر (زیاں کار ) تیرا عمل باطل اور تیرا اجر و ثواب ضائع ہو گیا ۔ آج تیری کوئی وقعت نہیں ۔ جاؤ جس کے لیے تم یہ اعمال بجا لائے ہو اسی سے اجر و ثواب مانگو ۔

جھنم کی آگ ریا کاروں سے روتی ہے

حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے :

اِنَّ عَبْداً عَمِلَ عَمَلاً یَّطلُبُ بِهِ وَجَهَ اللّٰهِ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ ثُمَّ اَدْخَلَ فِیْهِ رِضِیَ اَحَدٍ مِّنَ النَّاسِ کانَ مُشْرِکاً (بحارالانوار)

حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے روایت ہے کہ آپ نے فر مایا :"بے شک اگر کسی بندہ خدا نے کوئی عملِ خیر انجام دیا اور اس کا قصد اللہ کی رضاجوئی اور آخرت کا ثواب حاصل کرنا ہو اگر اس عمل میں مخلوق کی خوشنودی شامل کی گئی تو وہ مشرک قرار پائے گا۔

عَنِ النَّبِیّ انَّ النَّارَ یَعِجُّوْنَ مِنْ اَهْلِ الرّیاء فَقِیْلَ یَارَسُوْل اللّٰه (ص) کیفَ یَعجُ النَّارُ ؟ قَالَ مِنْ حَدِّ النَّارِ الَّتی یُعْذْبُوْنَ بِهَا ۔

حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا "بے شک جہنم کی آگ اور اہلِ جہنم ریا کاروں کے سبب فریاد کرتے ہیں۔" کسی نے دریافت کیا یا رسول اللہ آگ کس طرح روتی ہے؟ فرمایا آگ کی گرمی کی شدت سے کہ جس میں ریاکار لوگ مبتلائے عذاب ہیں جہنم نالہ و فریاد کرتا ہے ۔ حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) نے فرمایا :

اِنَّ اللّٰهَ بَعَثَ مُحمَّداً (ص) لِیُخْرجَ عِبَادَهُ مِنْ عِبَادَةِ عِبَادِهِ اِلٰی عِبَادَتِهِ (جلد اوّل سفینة البحار)

بے شک خداوند عالم نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو اس لئے بھیجا کہ اس کے بندوں کو لوگوں کی پرستش سے روک کر خدا کی عبادت کی جانب رہنمائی کریں ۔

کبھی عباد ت گذ ا ر کو اس کی عبادت ا ٓگ کی طرف کھینچتی ہے

ابو بصیر نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت نقل کی ہے کہ قیامت کے دن ایک بندے کو لائیں گے جو دنیا میں نماز گزار تھا ۔ اس سے کہیں گے کہ دنیا میں تم نے نمازیں پڑھی ہیں مگر تمہارہ مقصد یہ تھا کہ لوگ تمہاری مدح سرائی کریں اور کہیں کہ دیکھو کیسی اچھی نماز پڑھتا ہے ۔پس اس شخص کو آگ میں ڈال دیں گے ۔ اس کے بعد دوسرے کو لائیں گے جو قاری قرآن ہو گا ۔ اس سے کہیں گے کہ تلاوت کے وقت تمہارہ قصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ کہیں گے کہ تمہارہ لحن و قرأت بہت اچھی ہے پس اس کو بھی آگ کی طرف لے جائیں گے ۔ تیسرے کو حاضر کریں گے کہ جو جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا تھا ۔ اس سے کہیں گے کہ جہاد سے تمہارہ قصد تھا کہ لوگ کہیں گے کہ فلاں شخص بڑا پہلوان اور شجاع ہے۔ اس کو بھی جہنم میں لے جائیں گے ۔ چوتھا آدمی راہِ خدا میں خرچ کرنے والا تھا۔ اس سے کہیں گے کہ تمہارا قصد تھا کہ لوگ تم کو سخی کہیں گے پھر اس کو بھی جہنم میں لے جائیں گے۔(لاّلی الاخبار باب ۸)

بہت احادیث بلکہ متواتر روایتیں ملتی ہیں کہ ریا کار مشرک ہوتا ہے۔ صاحبانِ دل اور اہل ایمان کے لیے یہی کافی ہے۔

خلوص کی فضیلت اور ریا کار کی مذمت

بہت سی روایتوں سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ ریا کار کے لیے آخرت میں خسارہ ، اجر و ثواب سے محرومی اور آتش جہنم میں جلنے کے علاوہ دنیا میں بھی وہ اپنی مراد حاصل نہیں کر سکتا۔ بعبارت دیگر اس کا قصد و نظر مخلوق کے نزدیک عزّت و مرتبت پیدا کرنا تھا۔ اس میں کامیاب نہ ہو گا۔ بلکہ اکثر اوقات شرمندگی اور رسوائی سے دوچار ہوگا۔

( خَسِرَ الدُّنْیَاوَالْآخِرَة ذٰلِکَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنِ ) ۔

"دنیا اور آخرت (دونوں) کا گھاٹااٹھایا اور یہی تو صریح گھاٹا ہے۔"

اس کے برعکس مخلص انسان آخرت کے اجر و ثواب کے علاوہ اس دنیا میں بھی لوگوں کی نظروں میں عزیز و محترم ہو گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے آیہ مبارکہ :

( فَمَن کَانَ یَرْجُوْلِقَاءَ رَبِّهِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَلَایُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ اَحَداً ) (سورہ کہف کی آخری آیت)

"جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہونے کی امید رکھتا ہے تو اسے عمل صالح کرنا چاہیئے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔"

اس کی تفسیر میں فرمایا:

الرَّجُلُ یَعْمَلُ شَیْئًا مِّنَ الثَّوَابِ لَا یَطْلُبُ بِهِ وَجْهَ اللّٰهِ اِنَّما یَطْلُبُ تَزْکِیَةَ النَّاسِ وِیَشْتَهِی اَنْ یَّسْمَعَ بِهِ النَّاسُ فهٰذا الَّذِیْ اَشُرکَ بِعِبَادَةِ اللّٰهِ ثُمَّ قَالَ مَامِنْ عَبْدِ سَتَرَ خَیْرَاً فَذَهَبَتِ الْاَیَّامُ اَبَداً حَتٰی یُظْهُرهُ اللّٰهُ تَعَالٰی لَهُ خَیْراً وَمَا مِنْ عَبْدٍ یَسْتُرُ شَرّا قَذَهَبَتِ الْاَیَّامُ حَتّیٰ یُظْهِرُ اللّٰهُ له شَتراً ۔(کتاب کافی)

"کوئی شخص نیک عمل انجام دیتا ہے مگر اس کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر نہیں بجا لاتا بلکہ لوگوں سے تعریف و ثناء خوانی اُسے منظور ہے اور دل چاہتا ہے کہ لوگ اسے دیکھیں اورسنیں تاکہ شہرت حاصل ہو اور مقبول ہو۔ فرمایا :یہ وہ شخص ہے جس نے اپنے پروردگار کی عبادت میں دوسروں کو شریک بنایا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ کوئی بندہ نہیں کہ اپنے نیک عمل کو پوشیدہ رکھے (یعنی اپنے عمل کو صرف اللہ کے لیے بجا لائے) تاکہ آخر کار خدائے مہربان اس کو منظر عام پر آشکارا فرماتا ہے۔ اور کوئی بندہ نہیں کہ اپنے برے عمل کو مخفی نہ رکھے(تاکہ لوگوں کو پتہ نہ چلے اور اس کی تعریف کریں)مگر جوں جوں زمانہ گزرتا جائے گا اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو سرعام کر کے(ذلیل و خوار کرتا جائے گا)۔

کھرا عمل جلوہ گر ہوتا ہے

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

مَنْ اَرَادَ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ بِالْقَلِیلِ مِنْ عَمَلِهِ اَظْهَرَه اللّٰهُ لَه اَکْثَر مِمَّا اَرَادَ وَمَنْ اَرَادَ النَّاسَ بِالْکَثِیْرِ مِنْ عَمَلِهِ فِی تَعَبٍ مِّنْ بَدَنِهِ وَسَهْرٍ مِنْ لَیْلِهِ اَبیْ اللّٰهُ اِلاَّ اَنْ یُقَلِّلَهُ فِیْ عَیْنِ مَنْ سَمِعَهُ (کتاب کافی)

"کوئی ارادہ کرے کہ اپنے قلیل عمل سے صرف اللہ تعالیٰ کو خوش کروں گا تو خداوند کریم اس کے عمل کو بڑھا چڑھا کر لوگوں پر ظاہر کرتا ہے اور وہ نظروں میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ (اس کے برعکس ) اگر کوئی زیادہ سے زیادہ عمل بجا لائے جس میں جسمانی مشقت و تکلیف سے خستہ ہو اہو اور شب بیداری سے تھکاوٹ ہوئی ہو مگر اس کی نیت لوگوں سے مدح و ثنا حاصل کرنا اور داد لینا رہا ہو تو خداوند عالم اس کے کثیر عمل کو چھوٹے سے چھوٹا کر کے منظر عام پر لائے گا اور کانوں تک پہنچا دے گا۔(یہاں تک کہ لوگ اس سے نفرت کریں گے)۔

د کھاوا، فقہی نظر سے

اگر کوئی عبادت میں شرک جیسے گناہ کبیرہ میں پھنسا ہوا ہو اور توبہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو ایسی صورت میں پہلے حقیقی معنوں میں پشیمان ہونا چاہیئے۔ پھر اس گناہ کو ہمیشہ کے لیے ترک کرنے کا پختہ ارادہ کرے اور تیسرے آئندہ خالصتاً اللہ کے لیے بجا لانے کی نیت کرے۔

یعنی اولاً واجب ہے کہ گذشتہ گناہوں سے استغفار کر کے طلب مغفرت کرے۔ دوسرے جن عبادتوں میں ریا واقع ہوئی ہے ان کو دوبارہ بجا لائے خواہ پوری عبادت ریا کے ساتھ ہوئی ہو یا کچھ حصہ ، بایں معنی کہ عمل کی ابتدا سے لے کر انتہا تک غیر خدا اس کی نظر میں رہا ہو، درمیان میں پروردگار کی خوشنودی بھی شامل ہوگئی ہو ۔ مثلاً کسی نے واجب زکوٰة خداوند عالم کی فرمان برداری کے قصد سے مستحق کو دے دی ہو اور اس کے ساتھ ہی لینے والے سے کسی قسم کی منفعت حاصل کرنے یا ضرر دور کرنے کا ارادہ بھی رکھے یا لینے والے کی بزرگی اور احترام کا قصد کرنے ہوئے پیش کرے۔ ا ن تمام حالات میں توبہ کرنے کے بعد صرف رضامندی خدا کے لیے دوبارہ زکوٰة دینا واجب ہے۔

نماز دوبارہ پڑھنے سے یہ فرق نہیں پڑتا کہ تمام عمل دکھاوا ہو یا کوئی ایک جزو یہاں تک کہ مستحب عمل کا کوئی جزو بھی ریا کے ساتھ بجا لائے جیسا کہ قنوت پڑھنا تو احتیاطاً دوبارہ تکرار کرے یا عمل کی کیفیت میں ریا داخل ہو جائے جیسا کہ دکھاوے کے لیے نماز جماعت میں شرکت کرے یا پہلی صف میں بیٹھ جائے یا اول وقت نماز پڑھی جائے تو بہرصورت نماز باطل ہے۔

غیر عبادت میں ریا

خالص دنیوی امور جو کہ عبادت میں شمار نہیں ہیں اس میں ریاکاری حرام ہونے کے بارے میں کوئی واضح دلیل نہیں ہے۔ اس لیے فقہاء ِ عظام بھی اس کی حرمت کے متعلق فتویٰ نہیں دیتے لیکن راہ احتیاط و نجات یہی ہے کہ اہل ِایمان ریاء کے تمام مراتب سے پرہیز کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ دنیوی امور اور مباح کاموں سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔ ریاکاری کا سرچشمہ دنیا اور اس کی دولت و عزت کی محبت ہے۔دنیا اور مال دنیا طلب کرنے کی مذموم عادت جب بھی پڑجاتی ہے اور شدّت اختیار کر لیتی ہے تو آہستہ آہستہ عبادت الٰہی میں بھی ریا کاری سرایت کر جاتی ہے۔

مرحوم فیض کاشانی "محّجةالبیضاء"نامی کتاب میں عبادت اور غیر عبارتی امور میں ریا کے بارے میں ہوں بیان فرماتے ہیں:

ریاکار جن امور میں دکھاوے کے لیے کام کرنے ہیں وہ پانچ ہیں: بدنی ریا، ہی ت (شکل و صورت اور لباس)کی ریا ،عملی ریا، پیروی اور خارجی اشیاء میں ریا۔ ان میں سے ہر ایک امور دنیا سے متعلق ریا ہوتی ہے یا اخروی امور سے متعلق ، اور تفصیل حسب ذیل ہے۔

( ۱) بدنی ریا

اخروی امور کی عبادت میں بدنی ریا سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنے بدن کو کمزور بنا دے اور اظہار کرے کہ خوف و خشیت خدا اور شب بیداری میں کثرت اور خواب و خوراک کی قلّت واقع ہو گئی جس کے نتیجے میں بدن ضعیف ہو اہے۔یا ہونٹوں کو خشک رکھے تاکہ لوگ اسے روزہ دار سمجھیں۔ یا خود کو اخروی امور میں منہمک دکھانے کی کوشش کرے تاکہ لوگ تعجب کریں کہ یہ شخص بڑا پرہیز گار ہے۔ اور دن رات دینی امور میں مشغول رہتا ہے۔ بدنی ریا کی دوسری قسم دنیوی امور میں بدنی ریا ہے۔ جس سے مراد اپنے قوی ہیکل ، طاقت ، موٹاپا، زیب و زینت اور نظافت ہے۔ یعنی لوگوں کی نظروں میں سمانا اور اچھا لگنا ہے۔

( ۲) شکل و صورت اور لباس کی ریا

اخروی امور میں ہیئت و پوشاک کی ریا: مثلاً مونچھوں کو منڈوا کر صاف کرنا تاکہ لوگ گمان کریں کہ یہ شخص آداب و سنت کا سختی سے پابند ہے۔ یا راستہ چلتے وقت سر اور نظر کو نیچا کر کے باوقار ، آہستہ آہستہ چلنا اور سجدہ کے آثار پیشانی سے ظاہر کرنا، گندے پھٹے لباس کو پہن کر ترک دنیا کی نمائش کرنا وغیرہ وغیرہ۔

دنیوی امور میں پوشاک کی ریا اس طرح ہو تی ہے کہ اہل دنیا کو دکھانے کی خاطر قیمتی اور نفیس کپڑے زیب تن کرے تاکہ لوگوں ن کی توجہ اپنی جانب مبذول کرے۔

( ۳) قولی ریا

آخرت کے امور میں اقوال کی ریا: مثلاً لوگوں کے سامنے لبوں کو حرکت دیتے ہوئے ذکر میں مشغول ہو جائے یا اپنی فضیلت و بزرگی اور علمی قابلیت کی نمائش کے لیے وعظ و نصیحت کرے اور مجالس و محافل میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے ہوئے حاضرین کو ڈرائے اور دل میں خلوص نہ ہو۔

اسی طرح دنیوی امور میں قولی ریا سے مراد لوگوں کے سامنے اپنے کمالات کا اظہار کرنا تاکہ لوگ اس کا احترام کریں اور فضیلت کے قائل ہو جائیں۔ جس موضوع پر بحث ہو وہ اپنی اظہار نظر کرے تاکہ لوگ اسے باخبر اور دانش مند سمجھیں۔ ہر ایک کے ساتھ خوش آمد اور زبانی ہمدردی کا اظہار کرے تاکہ لوگ اس کے شیفتہ ہو جائیں۔

( ۴) عمل کی ریا

اخروی عمل میں ریا کاری جیسا کہ لوگوں کے سامنے نماز پڑھتے ہوئے لمبی سورتوں کی تلاوت کرنا، رکوع و سجود کو طول دینا، خضوع و خشوع کی نمائش کرنا، واجب و مستحب روزے رکھنا، حج و زیارت بجا لانا، کھانا کھلانا اور صدقات دینا صرف اس لیے ہو کہ لوگ اس کو متدین اور عبادت گزار تصور کریں۔

دنیوی عمل میں ریا کاری سے کام لینا، مثلاً جہاں لوگوں کی اکثریت ہو وہاں اس کے رجحان کے مطابق رقم خرچ کرنا تاکہ لوگ اسے سخی کہیں اور وہ شہرت پائے یا بڑی رقم خرچ کرکے کثیر تعداد میں لوگوں کو دعوت دے اور ان کی خاطر و مدارت کرے۔

( ۵) بیرونی اور خارجی امور میں ریا

گذشتہ چاروں قسم کی ریا انسان کی ذات سے تعلق رکھتی تھی۔ اب پانچویں قسم کا بیان ہوتا ہے، جس کا تعلق خارجی امور سے ہے۔ ایسی ریا بھی گذشتہ کی طرح دنیوی اور اخروی امور میں واقع ہوتی ہے۔ اخروی امور میں ریا کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص دین داروں اور علماء کی مجلس میں بغیر دلی لگاؤ کے محض دکھاوے کے لیے شرکت کرے۔ یا عبادت گذار اور پرہیز گاروں سے ملنے جائے یا اپنے گھر میں اس کو دعوت دے تاکہ لوگ اسے دین دار ، علم دوست اور بزرگوں کا ہم نشین خیال کریں۔ اسی طرح دنیوی امور میں بھی ریا کاری ممنوع ہے۔ مثلاً حکمرانوں اور بادشاہوں کے دربار میں زیادہ آمدو رفت کرنا تاکہ لوگ اس کے اثر و نفوذ کے قائل ہو ں اور اس طرح وہ سادہ لوح افراد کو فریب دے کر اپنے مطالب حاصل کرے۔

ریا قصد سے مربوط ہوتی ہے

واضح ہو کہ ریا کا دارومدار آدمی کے قصد پر ہے۔ بالفاظ ِ دیگر ہر وہ عمل جو لوگوں کو دکھانے یا ان کے نزدیک مرتبہ بلند کرنے اور ان کو خوش کرنے کے لیے انجام دیتا ہے، وہ ریا ہے۔چاہے وہ عمل دنیوی ہو یا اخروی۔ مذکورہ پانچ قسم کی ریا کے سلسلے میں جو مثالیں پیش کی گئی ہیں ، درحقیقت ان اعمال میں ریا داخل نہیں ہوتی جب تک عامل ریا کا قصد اور نیت نہ کرے۔ مثلاً اگر صفائی اللہ کی خوشنودی یا فرمان برداری کے قصد سے بجا لایا تو یہ عمل عبادت ہے۔ لیکن اگر دکھاوا مطلوب ہے تو ریا۔ اسی طرح اچھے لباس زیب تن کرنا یا بہترین مکان بنانے میں اگر نعمت خداوندی کے کلی اظہار کا قصد رکھتا ہو تو عبادت ہے اور اگر نمائش و نمود کا پہلو لیے ہوئے ہے تو ریا بن جاتی ہے۔ (اگر اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ مقصود ہو تو کتاب قلب سلیم کی جانب رجوع فرمائیں)۔

یاس

دوسرا گناہ کبیرہ رحمت خداوندی سے ناامیدی ہے۔ "اَلْیَاْسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ" روح لغت میں اُس نسیم کو کہا جاتا ہے جس سے انسان کو لذّت اور راحت ملتی ہو۔

جو لوگ پروردگار عالم کی قدرت ، فضل و کرم اور رحمت لامتناہی پر اعتقاد نہیں رکھتے تو اس کی بجائے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں انہیں کافروں کی صفت قرار دیا گیا ۔

( اِنَّهُ لَا یَیْاَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ الَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْن )

"بے شک رحمت خدا سے نا امید نہیں ہوتا ہے مگر گروہِ کفّار۔"(سورہ ۱۲ ۔آیت ۸۷)

حضرت امام جعفر صادق ، حضرت امام موسیٰ کاظم اور حضرت امام محمد تقی (علیہم السلام)نے رحمت خدا سے مایوسی کو گناہ کبیرہ کے حصے میں شمار کیا ہے۔

شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ

شرک کے بعد کوئی گناہ ناامیدی کی نسبت بڑا گناہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ کسی گناہ میں انسان اسی وقت ملّوث ہوتا ہے جب کہ وہ ہر طرف سے مایوس ہو۔ البتہ ممکن ہے کہ ایسا گناہ گار توبہ و استغفار کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے۔ لیکن مایوس شخص مغفرت کے قابل اس لیے نہیں کہ وہ مغفرت اور بخشش پر بھروسہ نہیں رکھتا، چہ جائیکہ وہ توبہ کرے اور قرب خداوندی کا طلب گار ہو جائے۔

مایوس جب اس سے آگے بڑھتا ہے تو سارے گناہوں میں لاپرواہی سے ملّوث ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ میں گناہ گار اور جہنمی ہوں ۔ دنیا میں اپنی خواہشات پوری کروں گا۔

اس سے معلوم ہوا کہ یاس سب سے بڑا گناہ ہے۔ تو مناسب یہ ہے کہ اس گناہ کی تمام اقسام اور مایوسی کا علاج یہاں بیان کیا جائے تاکہ مومنین اس سے محفوظ رہیں۔

اسباب اور مسبب الاسباب

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے دنیا اور آخرت کے صوری و معنوی امور کے لیے علّت و اسباب کو ضروری قرار دیا ہے۔ جیسا کہ صوری امور میں پیٹ بھرنے کے لیے اشیائے خوردنی کا استعمال، پیاس بجھانے کے لیے مشروبات لینا، بیماری کے لیے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا اور دوا کھانا، ناداری و فقیری کے لیے کسب معیشت اور جدو جہد کرنا وغیرہ وغیرہ، امور میں اسباب و علل لازمی قرار دیئے ہیں۔ اسی طرح معنوی امور میں سبب و علت ضروری ہے جیسا کہ گناہ گار شخص کو عذابِ الٰہی سے نجات پانے کے لیے توبہ و ندامت اور ایمان ہیں۔ مقام یقین پر فائز ہونے کے لیے معصوم کی پیروی اور تقوے کے مراتب طے کرنا اور اخروی درجات حاصل کرنے کے لیے عمل میں اخلاص پیدا کرنا وغیرہ لازم ہیں۔

چونکہ مخلوقات کو وجود میں لانے کی اصلی غرض و غایت خالق کو پہچاننا اور اس کی معرفت پیدا کرنا ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یقین کے ساتھ عقیدہ نہ ہو کہ خود اسباب و علل کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ کیونکہ اسباب اپنے آپ مستقل طور پر اثر انداز ہونے کے قابل نہیں جب تک کہا مسبب الاسباب اس میں تاثیر پیدا نہ کرے۔ اس لیے ظاہری اسباب پیدا ہونے سے انسان کو خوش اور نہ ہونے سے غمگین نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر خدا چاہے تو بغیر کسی سبب و علت کے معدوم (غیر موجود) چیز کو موجودہ حالت میں تبدیل کرسکتا ہے اور وہ موجود کو معدوم کرنے پر بھی قادر ہے۔

سبب کام نہیں کرتا

اسباب پیدا ہونے پر انسان کی طبیعت خوش ہوجاتی ہے اور خدا کی قدرت پر مکمل بھروسہ کرتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر اسباب مفقود ہوں تو غمزدہ ہوتا ہے۔ اس خطا سے روکنے کے لیے قدرت کی طرف سے دو حکمت ِ عملی کارفرما ہے۔

اوّل یہ کہ مصلحت کی بنأ پر کبھی موجود اسباب و علل کو بے کار اور بے اثر بنا دیتا ہے تاکہ مومنین اسباب کو مستقل طور پر موثر نہ سمجھ لیں۔ دوسرا یہ کہ کبھی کبھار جہاں کہیں سرے سے اسباب معدوم ہوں اپنی قدرت سے سبب پیدا کرتا ہے تاکہ اہل ایمان کسی حالت میں دل برداشتہ و غمگین نہ ہو جائیں اور اس مطلب کی وضاحت کے لیے چند مثالیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔

پہلی مثال

آگ نہیں جلاتی اور چاقو نہیں کاٹتا

حضرت ابراہیم علیٰ نبیّنا (علیہ السلام) کو جلانے کے لیے بھڑکائی ہوئی "آتش ِ نمرود" کی حرارت کا اثر اس کے خالق نے سرے سے ختم کر دیا ۔ کہتے ہیں کہ تین میل دور کے فاصلے پر اُڑنے والے پرندے فضا میں اُڑ نہیں سکتے تھے ۔ چنانچہ آنحضرت (علیہ السلام) کو منجنیق کے ذریعے دور سے پرتاب کر کے آگ میں پھینک دیا۔ آگ جلانے کی خاصیت رکھتی ہے۔ باوجود اس کے قادر ِ مطلق نے جلنے کا اثر اس سے چھین لیا اور آگ سے خطاب کرنے ہوئے فرمایا:

یَانَارُ کُوْنِیْ بَرْداً وَّسَلاماً

"اے آگ ٹھنڈی ہو جا۔"فوراً اس کی ضد ، سردی، پیدا ہوئی یہاں تک کہ اگر اس کے بعد’ سلاماً ‘کا حکم نہ دیتا تو اندیشہ تھا کہ شدت سردی سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی روح پاک قفس عنصری سے پرواز کر جاتی۔

اسی طرح تیز چھری کا کام کاٹنا ہوتا ہے مگر جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو پروردگار عالم نے کاٹنے کے اثر کو ناکارہ بنا دیا۔ اس وقت آپ (علیہ السلام) نے چھری کو دور پھینک دیا ۔ اس سے ایک آواز بلند ہوئی۔

الْخَلِیْلُ یَاْمُرُنِیْ والْجَلِیْلُ یَنْهَانِیْ

"خلیل اللہ مجھے کاٹنے کا حکم دیتا ہے اور رب جلیل مجھے روک لیتا ہے۔"

دوسری مثال

موسیٰ و فرعون

جابر بادشاہوں اور بااثر حکام نے جن کے پاس اسباب دنیوی فراوانی سے موجود تھے۔ انبیاء و آئمہ ہدیٰ (علیہم السلام) اور مومنین کو قتل کرنے کے لیے اپنے اسباب و علل کو بروئے کار لانے کے متواتر کوشش کی مگر سبب و علت کے خالق نے عین موقع پر ان کو ناکارہ بنا دیا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام)اور فرعون کی داستان ابتدا سے انتہا تک اس دعوے کا ثبوت ہے۔ دیکھئے، ابتدا میں فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کا نطفہ رحمِ مادر میں منعقد ہونے سے روکنا چاہتا تھا مگر خلافِ توقع ٹھہر گیا اور موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ پھر اُنہیں قتل کرنے کی کوشش کی۔ باوجود قدرت و توانائی کے اللہ تعالیٰ نے اس کے شاہانہ منصوبے کو کیسا خاک میں ملایا۔ چونکہ مشیّت ایزدی کے سامنے اسباب مادّی و معنوی معنی نہیں رکھتے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خود فرعو ن کے گھر میں اوراس کی گود میں پرورش پائی۔

وَقَالَتْ قُرَّةَ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَ

"آسیہ نے اپنے شوہر فرعون سے کہا ، یہ بچہ تیری اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو گا۔"

تیسری مثال

ابرہہ کا حملہ اور کعبہ کا خراب نہ ہونا

جس سال حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ) پیدا ہوئے ، بادشاہ نجاشی کی طرف سے ہاتھی سوار فوجیوں اور بھاری جمعیت کا لشکر ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر خانہ خدا کو تباہ کرنے کے قصد سے ابرہہ نامی شخص کی سرکردگی میں مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔ ابرہہ کو بے شمار فوجوں اور اسلحہ پر بڑا گھمنڈ اور اطمینان تھا مگر مسبب الاسباب اور بے چارو ں کے چارہ ساز نے اس کے سامان اور اسباب کو یکسر معطّل کردیا اور جہاں سبب کے خالق نے چاہا ، وہیں انسان و حیوان سب رُک گئے۔ مسجد حرام جانے کے لیے بہت زور لگایا مگر ہاتھیوں نے ایک قدم آگے نہ بڑھایا۔

دوسری طرف اچانک بے شمار ابابیل نامی پرندے فضا میں نمودار ہو گئے۔ ہر ایک تین عدد کنکریاں چونچ اور پنجوں میں پکڑ کر اپنے ساتھ لائے تھے۔ وہ اصحاب ِ فیل کے اوپر فضا میں چھانے کے بعد ایک کنکری ایک فوجی کے سر پر مارنے لگے۔ ہر ایک کنکری قد کی لمبائی سے گزر کر زمین کے اندر داخل ہوگئی۔ آخر الامر، سب ہلاک ہو گئے۔ ایک فوجی زندہ بچا اور اس شاہ نجاشی کے دربار میں پہنچ کر مفصّل سرگزشت بیان کی۔ اس واقعہ کی اہمیت کے پیش نظر اب تک اس سال کو عام الفیل کہتے ہیں۔ چنانچہ تاریخ عرب میں لکھا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ولادت سنہ عام الفیل اور ان کی بعثت ’عام الفیل‘ کے چالیسویں سال میں واقع ہوئی۔

چوتھی مثال

حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا تحفّظ

حضرت خاتم المرسلین (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وجود مبارک کو مکہ معظمہ میں خون کے پیاسے کافروں سے اور تمام جنگوں میں اپنی حفاظت و حمایت رکھنا اللہ تعالیٰ کی آیات عظیمہ میں ایک بڑی نشانی شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ اعلان نبوت کے آغاز سے آخر تک تمام مشرکین متفق ہو کر سارے اسباب صوری و مادّی اکھٹے کر کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو شہید کرنے کے در پے آمادہ رہے لیکن

چراغی را کہ ایزد بر فروزد

کسی کو تف کند ریشش بسوزد

پانچویں مثال

وہ ظاہری سبب کے بغیر پیدا کرتا ہے

اللہ تعالیٰ دنیوی و مادّی امور کو ظاہری اسباب موجود نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی قدرت ِ کاملہ سے پیدا کرتا ہے۔ اس قسم کی مثالیں ہمارے سامنے بے شمار ہیں۔ ان میں سے ایک حضرت ابوالبشر آدم (علیہ السلام) کی ہے کہ وہ ماں اور باپ کے بغیر عدم سے عالم وجود میں آئے اور حضرت مریم = سے کسی ہم جنس کے چھوئے بغیر حضرت عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) کا حمل ہوا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو بڑھاپے اور ضعیفی کی حالت میں اور ان کی زوجہ کے یائسہ ہونے کے باوجود حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو عنایت فرمایا۔ باوجودیکہ خلیل اللہ بہت ضعیف اور ان کی اہلیہ حضرت سارہ بانجھ تھیں۔

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا علم و حکمت کی کسی درسگاہ میں نہ جانا

حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ) کبھی کسی مدرسے تشریف نہیں لے گئے، نہ کوئی معلم دیکھا، نہ کچھ لکھنا سیکھا، لیکن باوجود اس کے آپ معلم بشر تھے اور قرآنی علوم و معارف پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ذات تمام انبیا ء ِ ما سبق کے معجزات و کمالات کا مکمل مجموعہ و مظہر تھی۔ بعبارت دیگر یہ حالات طبیعت انسانی کے معمولات کے بالکل بر خلاف ہیں کہ اتنے بے شمار اوصاف ظاہری علل و اسباب کے بغیر پیدا ہو گئے۔

وہ بغیر سبب کے حاجتیں پوری کرتا ہے

خداوند رحمان اپنے بندوں کی دعائیں قبول اور سختیاں دور کرتا ہے ۔ چنانچہ ہمارے مشاہدے شاہد ہیں کہ بہت سارے مجبور و بے بس افراد جن سے ظاہری اسباب کی کڑیاں اور اس کے رشتے ٹوٹ چکے تھے اور وہ حیران و پریشان تھے لیکن اس کی دعاؤں کے اثر سے خداوند عالم نے ان کی حاجتیں پوری کردیں۔ صدقات کی برکت سے نا امید مریضوں کو شفا عطا کی ، بے نوا فقیروں کو غنی کردیا۔ مختلف بلاؤں میں گھرے ہوئے اشخاص کو ایسے راستوں سے نجات دلائی جس کا وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے۔

اس قسم کی بے شمار داستانیں اور حکایتیں احادیث و تواریخ کی کتب میں بھری پڑی ہیں۔

خداوند سبحان کی رحمانیت اور کریمیت کو مولائے کائنات جناب امیر المومنین نے اشعار کی شکل میں اس طرح بیان فرمایا ہے:

وَکَمْ لِلّٰهِ مِنْ لُطْفٍ خقیٍ

یَدُقَ خَفَّاه عَنْ فَهْمِ الَذکِیِّ

ہم پر اللہ کا کس قدر لامتناہی لطف و کرم ہے۔ یہ نہایت ذہین اور انتہائی سمجھ دار انسان ہی درک کر سکتا ہے۔

وَکَمْ یُسْرٍ اَتیٰ مِنْ بَعْدِعُسْرٍ

وَفَرَّجَ کُرْبَةَ الْقَلْبِ الشَّجِیِّ

سخت دشواریوں میں پھنسنے کے بعد کس قدر آسانی سے چھٹکارہ عطا کرتا ہے ۔ اور شکستہ دلوں سے غم و اندوہ کو دور کردیتا ہے۔

وَکَمْ اَمْرٍ تُسَاءُ به صَبَاحاً

وَتَاْتِیْکَ الْمَسَرَّةُ بِالْعَشِیِّ

کتنے امور میں انسان صبح غمزدہ ہوتا ہے اور شام کو وہ مسرت و شادمانی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

اِذاضَاقَتْ بِکَ الْاَحْوَالُ یَوْماً

فَثِقْ بِالْوَاحِدِ الْفَرْدِ الْعَلِیِّ

جب تیرے امور سختی اور حالات تنگی سے دوچار ہوجائیں تو خدائے فرد و واحد بزرگ و برتر پر مکمل بھروسہ کر۔

حبِّ علی (علیہ السلام)

امام یافعی اپنی کتاب "روض الرّیاحین" میں دیوان مبیدی کی شرح لکھتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ کسی بادشاہ نے موتی کا ایک دانہ اپنے ملازم کے حوالے کیا۔ اتفاقاً وہ موتی اس کے بچے کے ہاتھ لگ گیا اور بچے نے اس موتی کے دو ٹکڑے کر دیئے۔ اب غلام بہت پریشان ہوا کہ بادشاہ کو کیا جواب دے گا۔ چنانچہ کسی مومن نے کہا کہ اس رباعی کو صد ق و خلوص کے ساتھ پڑھو۔ انشاء اللہ مشکل حل ہو جائے گی۔ ابھی غلام نے ان اشعار کو پڑھنا شروع کیا ہی تھا کہ اس اثنا میں بادشاہ کی طرف سے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ بادشاہ کی کنیز بیمار ہو گئی ہے اور معالج نے کہا ہے کہ ایک موتی توڑ کر اور پیس کر کنیز کو کھلا یا جائے تو وہ صحت یاب ہو جائے گی۔ لہٰذا بادشاہ کا حکم ہے کہ اس موتی کو توڑ کر فوراً سفوف بنایا جائے۔

بشر کا انجام

وہ امور معنوی جو آخرت سے تعلق رکھتے ہیں ، انہیں اسباب و علل موجود ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ انہیں یکسر معطّل و بے اثر کر دیتا ہے۔ جیسا کہ وہ لوگ جو اپنے نفس کے ساتھ جہاد کر کے سعادت و خوش نصیبی کے اسباب فراہم کرنے ہیں وہ بلند مرتبوں پر فائز ہو گئے ہیں۔

لیکن اس کے بعد اس قسم کے اشخاص پیغمبروں کی پیروی نہ کرنے اور بڑے گناہوں کے مرتکب ہونے کی بنا پر ان کے اعمال باطل قرار پاتے ہیں۔

بلعم باعور اور اس ابدی بد بختی

بلعم باعور کمالات اور بلند درجات کی انتہاؤں پر فائز تھا۔ لیکن بادشاہ وقت کی خواہش پوری کرنے کی خاطر اپنے زمانہ کے پیغمبر خدا کی مخالفت پر اُتر آیا ۔ وہ نفسانی خواہشات کے جال میں پھنس گیا تھا اور جہنم کے ساتویں طبقے (اسفل السافلین) میں ہمیشہ کے لیے گرفتار ہو گیا۔ قرآن مجید میں اسے کتے سے تشبیہہ دی گئی ہے۔

( فَمَثَلُهُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ اَوْتَتْرُکْهُ یَلْهَثْ )

"تو اس کی مثال اس کتے کی سی ہے جس کو اگر دھتکارو تو بھی زبان نکالے رہے اور اگر چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے۔"

تنبیہ

اہل معرفت اور صاحبان ایمان جو کہ معنوی بلند درجات پر فائز نہیں، اُنہیں کبھی بھی اپنی ذات پر بھروسہ و تکیہ نہیں کرنا چاہیئے اور وہ ہر لحظہ بُری حالت میں عمر کے تمام ہونے سے خائف رہیں۔ چونکہ تمام موجودات کا مرکز ِ اعتماد و تکیہ گاہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ خوشحالی و شاردمانی کے ظاہری اسباب کو ہر گز دائمی اور مستقل طور پر موثر نہیں جاننا چاہیئے۔ کیونکہ خالق ِ حقیقی تمام اسباب کے بے اثر کرنے پر قادر ہے۔

حسنِ عاقبت

آخرت کے معنوی امور و اسباب جب بالکل ہی معدوم تھے تو پروردگار ِ عالم نے اپنے فضل و کرم سے اسباب مہیّا کیے۔ اس بارے میں بہت سی روایتیں اور حکایتیں نقل کی گئی ہیں جس میں بے شمار لوگوں کی شقاوت و بد بختی اور غم و اندوہ کے گہرے کنووں میں پریشانی حال کے اسباب ذکر کئے گئے ہیں۔ باوجود اس کے کہ اشخاص اپنے خالق سے دور تھے پھر بھی رحمت الٰہی کی گھنگور گھٹائیں اچانک پھیلنے لگیں۔ اس کے فضل و کرم کے جھونکے چلنے لگے ۔ اجڑی ہوئی کھیتیاں سر سبز و شاداب ہونے لگیں اور ان الٰہی نعمتوں کے مشاہدے سے ہر عاقل و ہوشمند اپنی جگہ انگشت بدندان رہ گیا ہے۔

فرعونی جاد وگر

جادوگر کے شقی اور دو جہاں کے بد نصیب ہونے کے لیے اتنا کہہ دینا کاری ہے کہ جادوگری نہایت گندہ کاروبار اور موجب گناہ کبیرہ ہے۔ جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبروں کے مقابلے کے لیے کھڑے ہو گئے تو اچانک لطف و مہربانی پروردگار عالم ان کے شامل حال ہوئی اور حقیقت مجسم ہو کر ان کے سامنے آگئی۔ فوراً ان کی حالت و طبیعت پلٹ گئی ۔ یہاں تک کہ فرعون کی سخت دھمکیوں سے بھی ذرہ برابر مرعوب نہیں ہوئے۔ حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب ہونے کی صورت میں فرعون نے جادوگروں کو مال و ریاست دینے کا وعدہ کیا تھا۔

( لَاقُطِّعَنَّ اَیْدِیَکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ مِنْ خِلاَفٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّکُمْ اَجْمَعِیْنَ قالْوُا لَاضَیْرَلَنَا اِنَّا الٰی رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ) (سورہ ۲۶ ۔ آیہ ۵۰)

"تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ ڈالیں گے اور تم سب کو سولی دے دیں گے۔ وہ (جواباً )بولے ، کچھ پرواہ نہیں ۔ ہم کو تو ہر حال میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔"

آسیہ ایک مومنہ خاتون تھی

اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے معنوی و اخروی معراج عطا کردیتا ہے۔ حضرت آسیہ جو کہ فرعون کی بیوی تھیں ، نہایت عیش و عشرت سے زندگی گذار رہی تھیں، دنیاوی نعمت و دولت سے مالا مال تھیں، لیکن اچانک ان کا دل نورِ ایمان سے منوّر ہوا اور اس حد تک آپ کا دل مطمئن و قوی ہو گیا کہ فرعون کی مسلسل اذیتوں اور گوناگوں مصائب کے باوجود آپ کے پائے ثبات میں قطعاً کوئی لغزش نہ آئی اور نہایت پامردی سے آپ اپنے نظریہ پر قائم رہیں۔ اور آپ نے نہایت دلیری کے ساتھ پروردگار عالم اور اس کے رسول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا اعلان کردیا۔ جس وقت آپ کو شہید کیا جا رہا تھا اور آپ آخری سانس لے رہی تھیں تو آپ نے اپنے خالق سے یہ دعا مانگی :

( وَضَرَبَ اللّٰهُ مثلاً لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا امْراَةَ فِرْعَوْنَ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَنَجِنِّیْ مِنْ فِرْعَوْنَ عَمَلِهِ وَنَجَّنِیْ مِن الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ) (سورہ ۲۶ ۔آیہ ۱۱)

"اور خدا نے مومنین (کی تسلی) کے لیے فرعون کی بیوی (آسیہ) کی مثال بیان فرمائی ہے ۔ جب اس نے دعا کی ، پروردگار! میرے لیے اپنے یہاں بہشت میں ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کی کارستانی سے نجا ت دے اور مجھے ظالم گروہ سے نجات دے۔"

اصحابِ کہف

اصحاب ِ کہف ، جن کی تعداد سات بتائی جاتی ہے ، یہ لوگ دقیانوس بادشاہ کے وزیر اور روساءِ مملکت تھے۔ دقیانوس کے دعویٰ خدائی کی تائید و حمایت کرتے تھے۔ دفعةً ان کی آنکھیں کھل گئیں، ان کے قلوب نورِایمان سے روشن ہونے لگے، انہیں دقیانوس کے باطل عقیدہ کا احساس ہو گیا۔ چنانچہ دنیوی اقتدار و عزت اور خواہشات نفسانی سے صرف نظر کر تے ہوئے شہر کو چھوڑ کر پہاڑوں اور جنگلوں کی طرف چلے گئے اور کسی غار میں روپوش ہو گئے۔

ان کے حالات سورہ مبارکہ کہف میں مفصّل ذکر کیے گئے ہیں۔ قیامت تک ان کے نام تاریخ عالم میں ثبت و محفوظ رہیں گے۔

موت سے پہلے بیداریا

بہت سے ایسے گناہ گاردیکھنے میں آئے ہیں کہ گناہان کبیرہ میں ملوّث ہو کر اس قدر شقی و ند بخت ہو گئے تھے کہ ان کی راہ نجات کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن بے خبری میں اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ان کے شامل حال ہوا اور اپنے کیے ہوئے پر یک دفعہ نادم ہوئے اور توبہ و استغفار کرنے لگے۔ آخر کار ان کی عاقبت بخیرو خوبی انجام پائی۔ وہ روز قیامت خوش نصیب افراد کے ساتھ محشور ہوں گے۔

مسلمان ہوتے ہی وفات پا گئے

ان خوش نصیب لوگوں میں ایک’ مخریق‘ یہودی ہے ۔ اُحُد کی جنگ میں اپنے قبیلے والوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کیا تمہیں معلوم نہیں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہی سچا اور موعود پیغمبر ہے؟کہنے لگے: کیوں نہیں۔ تو کہا پھر اس کی نصرت کیوں نہیں کرتے؟ قبیلے والوں نے جواب دیا: آج ہفتہ ہے (یعنی چھٹی کا دن ہے)۔ اس یہودی نے کہا: ہفتہ کی تعطیل دین موسیٰ (علیہ السلام) کی رسم تھی۔ وہ اسے منسوخ سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ قبول نہیں ۔ جب قوم و قبیلہ سے انکاری جواب ملا تو مخریق تنہا آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایمان لے آیا۔ وہ بہت مال دار تھا۔ اس نے اپنی ساری دولت آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حوالے کر دی اور خود میدان جنگ میں کفار سے لڑتے لڑتے شہداء سے ملحق ہو گیا۔ کہا جاتا ہے حضور اکرم کے اکثر صدقات اس شہید سعید کے مال و دولت سے تھے۔

ابدی خوش بختی

حر بن یزید ریاحی جس نے سید الشہداء (علیہ السلام) کا راستہ بند کر کے واپس جانے سے بھی روک دیا اور کربلا میں ٹھہرنے پر مجبور کردیا۔ اس کے لیے اتنے بڑے گناہ اور ظلم میں ملوّث ہونے کے بعد بظاہر نجات کی امید نظر نہ آتی تھی لیکن جب روز عاشور امام مظلوم کا خطبہ اور آخری استغاثہ سنا تو منقلب ہو گیا۔ فضل و رحمت الٰہی شامل حال ہو گئی۔ اس نے توبہ کی اور اپنے کیے پر نادم ہوا۔ نتیجتاً شہدائے کربلا کے گروہ میں شرف شمولیت حاصل کر لی۔ اور اس طرح ابدی خوش بختی سے فیض یاب ہوا۔ چنانچہ جب آخری لمحات میں حضرت امام حسین (علیہ السلام) اس کے پاس پہنچے تو اُسے بشارت دی:

اَنْتَ حُرٌّ کَمَا سَمَّتْکَ اُمُّکَ

"تو آزاد ہے جیسے کہ تیری ماں نے تیرا نام رکھا۔"

کیا عقل مند نا امید ہوتا ہے

انسان کو کبھی بھی نا امید نہیں ہونا چاہیئے اور یہ تصوّر بھی نہیں کرنا چاہیئے کہ انسانیت کے اعلیٰ مراتب کیونکر طے کر سکتا ہے؟ اگر چہ اس قسم کی نا امیدی (رحمت الٰہی سے مایوسی) حرام یا گناہ کبیرہ تو نہیں ہے پھر بھی مومن کے لیے یہ گمان زیب نہیں دیتا کہ روحانی درجات کی پیش رفت کے لیے ظاہری اسباب کو موثر سمجھے ، مثلاً جوانی کی طاقت، سوچ و سمجھ اور کام کرنے کی صلاحیت اور جذبہ محنت درکار ہے۔ ایسا ہر گز نہیں بلکہ بہت سے اشخاص مذکورہ ظاہری اسباب سے محروم تھے مگر جب فضل رحمت خدا موجزن ہوئی تو بلند ترین مقامات پر پہنچ چکے تھے ۔ جیسے فضیل بن عیاض ، عمران صابی، برہم نصرانی اور صاحب ریاض وغیرہ۔ یہ لوگ اس وقت خواب غفلت سے بیدار ہوئے جبکہ بڑھاپے سے ضعیف ہو گئے تھے اور عمل و محنت کی طاقت ان سے ختم ہو چکی تھی۔

نا امید ی گناہِ بزرگ

مایوسی کفر کے ناپاک آثار کا لازمہ اور رب العزت کی عظمت و شان سے انکار کے مترادف ہے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کو اس کی قدرت کاملہ ، فضل و کرم اور علم و رزاقیّت سے پہچان لیا اور جانتا ہے کہ وہ سارے عوالم ِ امکان کا پیدا کرنے والا اور تمام عوالمِ وجود کو تربیت دینے والا ہے۔ اس کی قدرت لا محدود، اس کی حکمت و رحمت لا متناہی ہے۔ تمام ممکنات کے ہر فرد کو جو کچھ ضرورت ہے اسی کریم کا فیضانِ رحمت ہے۔ چنانچہ نا امیدی کے عالم میں متحیّر و غمگین رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ نا امیدی گناہ کبیرہ ہے۔

خلقت انسانی پر ایک نظر

خالق ِ حقیقی ماں کے رحم میں بچے کی نگہداری سے غافل نہیں رہتا وہ غذائی مواد کو حیران کن ترکیب و طریقے سے فراہم کرتا ہے بچہ جب شکم مادر سے باہر آتا ہے تو اس کا معدہ نہایت نازک ہوتا ہے ۔ اس لئے وہ نئے عالم کی مختلف اشیاء سے مرکب غذا ہضم کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ اس بناء پر بچہ کی کیفیّت کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے اس دنیا کی مختلف غذائیں شیرِ مادر کے ذریعے (لَبنَاً خا لِصاً) اسے بہم پہنچاتا ہے ۔ جب غذا ہضم کرنے کی طاقت اس کے بدن میں پیدا ہوتی ہے تو اسے کاٹنے اور چبانے کے لئے دانت مرحمت فرماتا ہے اور اسی طرح دوسری ظاہری وباطنی قوتیں بتدریج پیدا کرتا ہے ۔

قدرت کا کرشمہ اور اس کی مہربانی کو دیکھئے کہ ابتداء پیدائش میں بچہ ضعیف و نا تواں ہوتا ہے اور اس کی نگہداری اور پرورش کرنے کا محتاج ہوتا ہے ۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اللہ میاں کے دل میں شوق محبت بھر دیتا ہے کہ اس طرح ایک آن بھی اس سے جدا ہونا گوارا نہیں ہوتا وہ رات کا آرام دن کا چین اور تمام امکانات اس پر قربان کر دیتی ہے اسی لئے معصوم اپنے دعائیہ جملوں میں ارشاد فرماتے ہیں :

یَامَنْ اَشفَقُ من اَبِیْ واُمِّی

اے پر ور دگار تو میرے ماں باپ سے زیادہ شفیق و مہربان ہے ۔

پس ہمیں پر امید رہنا چاہیئے

مذکورہ گفتگو اور ہزارہا دوسری باتیں جو یہاں ذکر نہیں ہوئیں ان پر غور و فکر کے بعد کیا یہ مناسب ہو گا کہ بندہ پروردگار عالم اور اپنے مہربان خدا سے کسی امر کی اصلاح یا کسی مشکل کام کی آسانی کے لیے مایوسی کا اظہار کرے اور عبد معبود سے امید کے رشتوں کو منقطع کرے۔ یقینا ہر گز ایسا نہیں ہے بلکہ ہمیں خلّاق دوجہاں سے ہر حال میں ہر لحظہ پر امید رہنا چاہیئے۔

نا امیدی کفر یا کم علمی کی علامت ہے

مایوسی باطنی کفر ہے یا پھر اپنے پروردگار کی عظمت و قدرت سے بے خبری اور غفلت کا نتیجہ ہے اس لیے ایسے اشخاص پہلے اپنے نفس کی اصلاح کریں بصورت دیگر دونوں صورتیں گناہ کبیرہ میں شمار ہوں گی۔

موّحد خداوندِعالم پر ایمان لانے کے بعد کسی کام میں اپنے پروردگار سے ناامید ہو جائے تو اس صورت میں وہ کفر کی مذموم صفت سے متّصف ہو جاتاہے۔ اس بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( اِنَّهُ لَایَایْئُسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلاَّالْقَوْمُ الْکَافِرُوْنَ ) ۔ (سورہ ۱۲ ۔آیت ۸۷)

"یقینا خدا کی رحمت سے سوائے کافر لوگوں کے اور کوئی ناامید نہیں ہوتا۔"

ہر ایک کی فطرت امید سے وابستہ ہوتی ہے

جب تک آدمی اپنی فطرت اولیہ گہری نظر سے دیکھتا ہے دل کی آنکھ سے اندھا نہیں ہوتا ، تب تک وہ اپنے رب سے مایوس نہیں ہوتا اور جب تک نور ایمان اس کے دل میں روشن رہتا ہے مکمل طور پر اپنے مبدأ (مرکز وجود) سے امید کا سلسلہ منقطع نہیں کرتا، بلکہ وثوق سے امید رکھتا ہے۔ اگر غفلت کی وجہ سے کبھی مایوسی سے دوچار ہو جائے تو اپنے خالق کی بے پناہ رحمت کی طرف متوجہ ہو کر اُسے یاد کرے اور پشیمان ہو جائے ، اس کی امور کا اصلاح کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کرے گا۔

نا امیدی کا علاج

پہلا: دنیا کے ماّدی امور کا علاج

( ۱) قدرت خد

سوچنا چاہییے کہ اس کی اور تمام مخلوقات کی حاجت پروردگار عالم کی لامتناہی قدرت کے سامنے ناچیز اور ہیچ ہے۔ اُس قادر مطلق جس نے اس وسیع و عریض کرّہ زمین کو اور ساتوں آسمان جن کی عظمت و آثار سوائے خدا کے کسی اور کو معلوم نہیں ، نہایت منظم اور معین نظم و نسق کے ساتھ گردش میں رکھا ہوا ہے ، اُس کے حکم کے بغیر سوئی کے سرے کے برابر بھی ایک لمحہ کے لیے پس و پیش کی مجال نہیں۔ عقول بشری اس کی عظمت و قدرت کے احاطہ سے عاجز و حیران ہیں۔ ایسا عظیم و حکیم پروردگار کے سامنے کیا ایک بندے کی حاجت روائی سے وہ عاجز ہے؟ ہر گز نہیں۔ جب ایسا ہے تو قطع امید کیوں؟

( ۲) ذاتی تجربات

احساس کرنا چاہیئے کہ خداوند عالم نے ماضی میں کن کن ظاہری و باطنی نعمتوں و رحمتوں سے نوازا ہے۔ قادر مطلق نے ظلمات ثلاث(تین تاریکیوں ) یعنی بچہ دانی، رحم اور شکم مادر سے بتدریج سلامتی سے گذار کر عالم وجود میں لایا اور ایک لمحہ بھی اس سے غافل نہیں رہا۔ ہر وقت ، ہر مرحلے میں جو کچھ ضروریات تھیں ، مانگے بغیر انہیں عطا کیا۔ نہایت خطرناک حالتوں سے نجات عطا کی۔ مختلف امراض سے شفا دی، پریشانیوں اور مشکلات کو آسان فرمایا۔ کتنی ہی نعمتوں سے نوازا۔ باوجود ان سب کے نا امیدی کس لیے؟ کیا وہ ہماری حاجت روائی سے عاجز ہے یا بخیل ہے ؟ یا ہماری حالت سے یکسر بے خبر رہ چکا ہے۔ استغفر اللّٰہ العظیم۔حاشا و کلّا۔

( ۳) خارجی مثا لیں

ان لوگوں کے حالات ملاحظہ کیجئے جو نہایت پریشانی و درد میں مبتلا ہیں لیکن اپنے پروردگار سے مایوس نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ سے التجا کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعائیں قبول کیں اور وہ آسودہ حال ہو گئے۔ بلکہ کبھی ان کے سوال کیے بغیر ان کی فریا د سن لی۔ مثلاً بے اولاد ہے اور عمر رسیدہ ہونے کی بنا پر مایوس ہوگیا۔ بیوی بھی بانجھ ہے۔ اس کے باوجود خدا وند کریم نے آخری عمر میں بھی اولاد عطا فرمادی۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور فرزند نرینہ

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک سو بارہ دوسری روایت کے مطابق ایک سو بیس سال اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ نوّے یا ننانوے سال کی ہو گئی تھیں لیکن کوئی اولاد نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ بھیج کر ان کو بشارت دی کہ آپ کو بیٹا عنایت فرمائے گا۔

( وَامْرَاَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنا هَا بِاِسْحٰقَ وَمِنْ وَّرَاءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ ) ۔

"اور ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی (سارہ) کھڑی ہوئی تھی وہ یہ خبر سن کر ہنس پڑی تو ہم نے انہیں اسحٰق کے (پیدا ہونے کی)خوش خبری دی اور اسحٰق کے بعد یعقوب کی۔"

( قَالَتْ یٰوَیْلَتٰی ءَ الِدُوَاَنَا عَجُوْزٌ وَّهٰذا بَعْلِیْ شَیْخاً اِنَّ هٰذا لَشَیُ ٌ عَجِیْبٌ )

"وہ کہنے لگیں، ہائیں، میں اب بچہ جنوں گی۔ میں تو بُڑھیا ہوں اور میرے میاں بھی بوڑھے ۔ یہ تو بڑی تعجب خیز بات ہو گی۔"

( قَالُوْا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُه عَلَیْکُمْ اَهْلَ الْبَیْتِ اِنَّهُ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ )

"فرشتے اس کے جواب میں بولے، کیا تم خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو۔ اے اہل بیت نبوت تم پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں (نازل ہوں) اس میں شک نہیں کہ وہ قابل حمد و ثنا بزرگ ہے۔"

مختصر یہ کہ رحمت خداوندی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و حضرت سارہ کے شامل حال ہوئی اور ان کے یہاں حضرت اسحٰق پیدا ہوئے